کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار21%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 126711 / ڈاؤنلوڈ: 5747
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ہم نے جو وقت طے کیا تھا ،اسی کے مطابق ہم اس کمرے میں داخل ہو گئے اور ہم نے بڑے آرام  سے کھال پر لکھی گئی قدیم توریت کی زیارت کی اور اس کا مطالعہ کیا۔اس میں ایک صفحہ مخصوص طور پر لکھا گیا تھا جو کہ بہت جاذب نظر تھا ۔جب ہم نے اس پر غور کیا تو ہم نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا تھا''آخر ی زمانے میں عربوں میں ایک پیغمبر مبعوث ہو گا ''اس میں ان کی تمام خصوصیات اور اوصاف حسب و نسب کے لحاظ سے بیان کی گئیں تھیں نیز اس پیغمبر کے بارہ اوصیاء کے نام بھی لکھے گئے تھے ۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا:بہتر یہ ہے کہ ہم یہ ایک صفحہ لکھ لیں اور اس پیغمبر کی جستجو کریں ۔ہم نے وہ صفحہ لکھ لیا اور ہم اس پیغمبر کے فریفتہ ہو گئے۔

اب ہماراذہن صرف خدا کے اسی پیغمبر کو تلاش کرنے کے بارے میں سوچتا تھا ۔لیکن  چونکہ ہمارے علاقے سے لوگوں کی کوئی آمد و رفت نہیں تھی اور رابطہ کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے ہمیں کوئی چیز بھی حاصل نہ ہوئی یہاں تک کہ کچھ مسلمان تاجر خرید و فروخت کے لئے ہمارے شہر آئے ۔

میں نے چھپ کر ان میں سے ایک شخص سے کچھ سوال پوچھے ،اس نے رسول اکرم(ص) کے جو حالات اورنشانیاں بیان کیں وہ بالکل ویسی ہی تھیں جیسی ہم نے توریت میں دیکھیں تھیں۔آہستہ آہستہ ہمیں دین اسلام کی حقانیت کا یقین ہونے لگا ۔لیکن ہم میں اس کے اظہار کرنے کی جرأت نہیں تھی ۔امید کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ ہم اس دیار سے فرار کر جائیں۔

میں نے اور میرے بھائی نے وہاں سے بھاگ جانے کے بارے میں بات چیت کی ۔ہم نے ایک دوسرے سے کہا:مدینہ یہاں سے نزدیک ہے ہو سکتا ہے کہ یہودی ہمیں گرفتار کر لیں بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر کی طرف بھاگ جائیں۔

۱۲۱

ہم نے موصل و بغداد کا نام سن رکھا تھا ۔میرا باپ کچھ عرصہ پہلے ہی فوت ہوا تھا  اور انہوں نے اپنی اولاد کے لئے وصی اور وکیل معین کیا تھا ۔ہم ان کے وکیل کے پاس گئے اور ہم نے اس سے دو سواریاں اور کچھ نقدی پیسے لے لئے۔ہم سوار ہوئے اور جلدی سے عراق کا سفر طے کرنے لگے ۔ہم نے موصل کا پتہ پوچھا ۔لوگوں نے ہمیں اس کا پتہ بتایا ۔ہم شہر میں داخل ہوئے اور رات مسافروں کی قیامگاہ میں گزاری۔

جب صبح ہوئی تو اس شہر کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا:کیا تم لوگ اپنی سواریاں فروخت کرو گے ؟ہم نے کہا :نہیں کیونکہ ابھی تک اس شہر  میں ہماری کیفیت معلوم نہیں ہے ۔ ہم نے ان کا تقاضا ردّ کر دیا۔آخر کار انہوں  نے کہا:اگر تم یہ فروخت نہیں کرو گے تو  ہم تم سے زبردستی لے لیں گے۔ہم مجبور ہو گئے اور ہم نے وہ سواریاں فروخت کر دیں۔ہم نے کہا یہ شہر رہنے کے قابل نہیں ،چلو بغداد چلتے ہیں۔

لیکن بغداد جانے کے لئے ہمارے دل میں ایک خوف سا تھا ۔کیونکہ ہمارا ماموں جو کہ یہودی اور ایک نامور تاجر تھا ،وہ بغداد ہی میں تھا ۔ہمیں یہ خوف تھاکہ کہیں اسے ہمارے بھاگ جانے کی اطلاع نہ مل چکی ہو  اور وہ ہمیں ڈھونڈ نہ لے۔

بہ ہر حال ہم بغداد میں داخل ہوئے اور ہم نے رات کو کاروان سرا میں قیام کیا ۔اگلی صبح ہوئی تو کاروان سرا کا مالک کمرے میں داخل ہوا ۔وہ ایک ضعیف شخص تھااس نے ہمارے بارے میں پوچھا ۔ ہم نے مختصر طور پر اپنا واقعہ بیان کیا اور ہم  نے اسے بتایا کہ ہم خیبر کے یہودیوں میں سے ہیں  اور ہم اسلام کی طرف مائل ہیں ہمیں کسی مسلمان عالم دین کے پاس لے جائیں جو آئین اسلام کے بارے میں ہماری رہنمائی کرے۔

۱۲۲

اس ضعیف العمر شخص کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا:اطاعت،چلو بغداد کے قاضی کے گھر چلتے ہیں۔ہم اس کے ساتھ بغداد کے قاضی سے ملنے کے لئے چلے گئے ۔مختصر تعارف کے بعد ہم نے اپنا واقعہ ا ن سے بیان کیا اور ہم نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ ہمیں اسلام کے احکامات سے روشناس کرئیں۔

انہوں نے کہا:بہت خوب؛پھر انہوں نے توحید اور اثبات توحید کے کچھ دلائل بیان کئے ۔پھر انہوں ے پیغمر اکرم(ص) کی رسالت اور آپ(ص) کے خلیفہ اور اصحاب کا تذکرہ کیا۔

انہوں نے کہا:آپ(ص)کے بعدعبداللہ بن ابی قحافہ آنحضرت(ص) کے خلیفہ ہیں۔

میں نے کہا:عبداللہ کون  ہیں؟میں نے توریت میں جو کچھ پڑھا یہ نام اس کے مطابق نہیں ہے!!

بغداد کے قاضی نے کہا:یہ وہ ہیں کہ جن کی بیٹی رسول اکرم(ص) کی زوجہ ہیں۔

ہم نے کہا:ایسے نہیں ہے؛کیونکہ ہم نے توریت میں پڑھا ہے کہ پیغمبر(ص) کا جانشین وہ ہے کہ رسول(ص) کی بیٹی جن کی زوجہ ہے۔

جب ہم نے اس سے یہ بات کہی توقاضی کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ قہر و غضب کے ساتھ کھڑا ہوا  اور اس نے کہا:اس رافضی کو یہاں سے نکالو۔انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو مارا اور وہاں سے نکال دیا ۔ہم کاروان سرا واپس آگئے ۔وہاں کا مالک بھی اس بات پر خفا تھا اور اس نے بھی ہم سے بے رخی اختیار کر لی۔

اس ملاقات اور قاضی سے ہونے والی گفتگو اور اس کے رویّہ کے بعد ہم بہت حیران ہوئے ۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کلمہ''رافضی''کیاہے؟رافضی کسے کہتے ہیں اور قاضی نے ہمیں کیوں رافضی کہا اور وہاں سے نکال دیا؟

۱۲۳

میرے اور میرے بھائی کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو آدھی رات تک جاری رہی  اور کچھ دیر کے لئے غمگین حالت میں سو گئے ۔ہم نے کاروانسرا کے مالک کو  آواز دی کہ وہ ہمیں اس ابہام سے نجات دے ۔شاید ہم قاضی کی بات نہیں سمجھے اور قاضی ہماری  بات نہیں سمجھ پائے۔

اس نے کہا:اگر تم لوگ حقیقت میں  آئین اسلام کے طلبگار ہو تو جو کچھ قاضی کہے اسے قبول کر لو۔

ہم نے کہا:یہ کیسی  بات ہے؟ہم اسلام کے لئے اپنا مال  ،گھر ،رشتہ دار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آئے ہیں۔ہماری اس کے علاوہ ہمارا اورکوئی غرض نہیں ہے ۔

اس نے کہا:چلو میں  ایک بار پھرتمہیںقاضی کے پاس  لے جاتا ہوں۔لیکن کہیں اس کی رائے کے برخلاف کوئی بات نہ کہہ دینا۔ہم پھر قاضی کے گھر چلے گئے۔

ہمارے اس دوست نے کہا:آپ جو کہیں گے یہ قبول کریں گے۔

قاضی نے بات کرنا شروع کی  اور موعظہ و نصیحت کی ۔میںنے کہا:ہم دو بھائی اپنے وطن میں ہی مسلمان ہو گئے تھے  اور ہم اتنی دور دیار غیر میں اس لئے آئے ہیں تا کہ ہم اسلام کے احکامات سے آشنا ہو سکیں۔اس  کے علاوہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں  ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو ہمارے کچھ سوال ہیں؟قاضی نے کہا:جو پوچھنا چاہو پوچھو۔

میں نے کہا:ہم نے صحیح اور قدیم توریت پڑھی ہے  اور اب میں جو باتیں کہنے لگا ہوں ہم نے یہ اسی کتاب سے ہی لکھی ہیں۔ہم نے پیغمبر آخر الزمان (ص)  اور آنحضرت(ص) کے خلفاء اور جانشینوں کے تمام نام،صفات  اور نشانیاںوہیں سے ہی لکھی ہیں۔جو ہمارے پاس ہے۔لیکن اس میں عبداللہ بن ابی قحافہ کے نام جیسا کوئی نام نہیں ہے۔

۱۲۴

قاضی نے کہا: پھر اس توریت میں کن اشخاص کے نام لکھیں ہیں؟

میں نے کہا:پہلے خلیفہ پیغمبر(ص) کے داماد اور آپ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ابھی تک میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ہماری بدبختی کا طبل بجایا۔یہ بات سنتے ہی قاضی اپنی جگہ سے اٹھا   اور جہاں تک ہو سکا اس نے  اپنے جوتے سے میرے سر اور چہرے پر مارا اور میں مشکل سے جان چھڑا کر  وہاں سے بھاگا۔میرا بھائی مجھ سے بھی پہلے وہاں سے بھاگ نکلا۔

میں بغداد کی گلیوں میں راستہ بھول گیا ۔میں نہیں جانتا تھا کہ میں اپنے خون آلود سر اور چہرے کے ساتھ کہاں جاتا۔کچھ دیر میں چلتا گیا  یہاں تک کہ میں دریائے دجلہ کے کنارے پہنچاکچھ دیر کھڑا رہا لیکن میں  نے دیکھاکہ میرے پاؤں میں کھڑے رہنے کی ہمت نہیں ہے ۔میں بیٹھ گیااور اپنی مصیبت ، غربت،بھوک،خوف اور دوسری طرف سے اپنی تنہائی پررو رہا تھا اور افسوس کر رہا تھا۔

اچانک ایک جوان ہاتھ میں دو کوزے پکڑے ہوئے دریا سے پانی لینے کے لئے آیااس کے سر پر سفید عمامہ تھاوہ میرے پاس دریا کے کنارے بیٹھ گیا جب اس جوان نے میری حالت دیکھی تو انہوں  نے مجھ سے پوچھا:تمہیں کیا ہواہے؟میں نے کہا:میں مسافر ہوں اور یہاں مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔

انہوں  نے فرمایا:تم اپنا پورا واقعہ بتاؤ؟

میں نے کہا:میں خیبر کے یہودیوں میں سے تھا۔میں نے اسلام قبول کیا اور اپنے بھائی کے ساتھ ہزار مصیبتیں اٹھا کر یہاں آیا۔ہم اسلام کے احکام سیکھنا چاہتے تھے ۔لیکن انہوں نے مجھے یہ صلہ دیا اور پھر میں  نے اپنے زخمی سر اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔

۱۲۵

انہوں نے فرمایا:میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ یہودیوں کے کتنے فرقے ہیں؟

میںنے کہا:بہت سے فرقے ہیں۔

انہوں نے فرمایا:اکہتر فرقے ہو چکے ہیں ۔کیا ان میں سے سب حق پر ہیں؟

میں نے کہا:نہیں

انہوںنے فرمایا:نصاریٰ کے کتنے فرقے ہیں؟

میں نے کہا:ان کے بھی مختلف فرقے ہیں۔

انہوںے فرمایا:بہتر فرقے ہیں ۔کیا ان میں سے بھی سب حق پر ہیں؟

میں نے کہا:نہیں

پھر انہوں نے فرمایا:اسی طرح اسلام کے بھی متعدد فرقے ہیں۔ان کے تہتر فرقے ہو چکے ہیں لیکں ان میں سے سے صرف ایک فرقہ حق پر ہے ۔

میں نے کہا:میں اسی فرقہ کی جستجو کر رہا ہوں اس کے لئے مجھے کیا کرنا  چاہئے؟

انہوں نے فرمایا: انہوں نے اپنے مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرف سے کاظمین جاؤ  اور پھر فرمایا:تم شیخ محمد حسن آل یاسین کے پاس جاؤ وہ تمہاری حاجت پوری کر دیں گے۔میں وہاں سے روانہ ہوا اور اسی لمحہ وہ جوان بھی وہاں سے غائب ہو گیا ۔ میں نے انہیں ادھر ادھردیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہ دیئے ۔ مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے خود سے کہا:یہ جوان کون تھا اور کیا تھا؟کیونکہ گفتگو کے دوران  میں  نے توریت میں لکھی ہوئی پیغمبر اور ان کے اولیاء کے اوصاف کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فرمایا:کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے لئے وہ اوصاف بیان کروں؟

۱۲۶

میں نے عرض کیا: آپ ضرور بیان فرمائیں۔انہوں نے وہ اوصاف بیان کرنا شروع کیں  اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جیسے خیبر  میں موجود وہ قدیم توریت انہوں نے ہی  لکھی ہو۔جب وہ میری نظروں سے اوجھل ہوئے تو میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی الٰہی شخص ہیں  وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں ۔لہذا مجھے ہدایت کا یقین ہو گیا۔

مجھے اس سے بہت تقویت ملی اور میں اپنے بھائی کو تلاش کرنے نکل پڑا ۔  بالآخر وہ مجھے مل گیا ۔ میں بار بار کاظمین اور شیخ محمد حسن آل یاسین کا نام دہرا رہا تھا تا کہ میں ان کا نام بھول نہ جاؤں ۔  میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون سی دعا ہے جو تم پڑھ رہے ہو؟میں نے کہا:یہ کوئی دعا نہیںہے  اور پھر میں نے اسے سارا واقعہ بتایا ۔وہ بھی بہت خوش ہوا۔

 آخر کار ہم لوگوں سے پوچھ پاچھ کے کاظمین پہنچ  گئے اور شیخ محمد حسن کے گھر چلے گے ۔ہم نے شروع سے آخر تک سارا وقعہ ان سے بیان کیا ۔وہ  شیخ کھڑے ہوئے اور بہت گریہ و زاری کی میری آنکھوں کو چوما اور کہا:ان آنکھوں سے تم نے حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے جمال کی زیارت کی؟....( ۱ )

وہ کچھ مدت تک شیخ محمد حسن کے مہمان رہے اور شیعیت کے حیات بخش عقائد سے آشنا ہوئے۔

جی ہاں!وہ اپنے پورے ذوق و شوق اور رغبت سے حق کی جستجو کے لئے نکلے جس کے لئے انہوں نے بہت تکلیفیں برداشت کیں ،اپنا گھر  اور وطن چھوڑا لیکن انہوں نے اپنی کوشش و جستجو کو جاری رکھا اور آخر کارانہیں حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی عنایات سے منزل مل گئی۔اب بھی بہت سے افراد حقیقت تشیع اور اس کی حقانیت سے آگاہ ہیں لیکن کچھ دوسرے خیالی امور کی وجہ سے وہ لوگ صادقانہ طور پر پرچم تشیع کے زیر سایہ نہیں آ تے اور اپنے مذہب سے دور رہتے ہیں ۔ہم نے یہ جو واقعہ ذکر کیا ہے یہ ایسے ہی افراد کے لئے ایک نمونہ ہے ۔انہیں یہ بات بھی جان لینی چاہئے:

--------------

[۳]۔ معجزات و کرامات آئمہ اطہار علیھم السلام:۱۷۵ (مرحوم آیت اللہ سید ہادی خراسانی)

۱۲۷

نابردہ  رنج گنج  میّسر  نمی  شود

مزد آن گرفت جان برادر کہ کار کرد

اگر وہ حقیقت کے متلاشی ہوں  تو انہیں ہر قسم کی زحمتیں اٹھانا ہوں گی اور مشکلات کو برداشت کرنا پڑے گا اور کل کے انتظار اور مستقبل کی  آرزو میں ہی نہ بیٹھے رہیں۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِیّٰاکُمْ وَالْاِیْکٰالُ بِالْمُنٰی فَاِنَّهٰا مِنْ بَضٰائِعِ الْعَجْزَةِ'' ( ۱ )

اس کام سے  پرہیز کرو کہ اپنا کام آرزؤں کے سپرد کر دو ۔کیونکہ آرزؤں کی وجہ سے کام کو چھوڑ دینے کا سرمایہ عجز و ناتوانی ہے۔

ھر کہ دانہ نقشاند بہ زمستان درخاک

نا امیدی بود از دخل بہ تابستانش

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کے عاشق اپنی امیدوں اور آرزؤں کو چھوڑکر حقیقت تک پہنچنے کے لئے جستجو اور کوشش کریں ۔  کیونکہ سعی وکوشش عظیم لوگوں کا عملی نعرہ اور حقیقی اسلام کی نشانی ہے۔

کام اور کوشش کے ذریعے اپنے ارادہ کو پختہ اور مضبوط کریں ۔ آپ کی کوشش آپ کی شخصیت اور ارادے کو بیان کرتی ہے ۔ کام اورکوشش کریں تا کہ بیکاری کے نتیجہ میں توہمات اور شیاطین کے نفوذ سے بچ سکیں۔

--------------

[۱]۔ امالی شیخ طوسی:ج۲ص۱۹۳،بحار الانوار: ج۷۱ ص۱۸۸

۱۲۸

 آگاہانہ طور پر کام شروع کریں

امامت و ولایت کی پہلی کڑی حضرت امام علی علیہ السلام کام اور فعالیت کو علم و آگاہی کی بنیادی شرط قرار دیتے ہیں اور امت کی ہدایت کے لئے اپنے فرامین میں ارشاد فرماتے ہیں:انسان بصیر اور آگاہ دل کے ذریعہ ابتداء ہی سے یہ جان لیتاہے کہ اس کام کا نتیجہ اس کے نفع میں ہے یا یہ اس کے لئے نقصان کا باعث ہے ۔آنحضرت نے حقیقت یوں بیان فرمائی ہے:

''فَالنّٰاظِرُ بِالْقَلْبِ اَلْعٰامِلُ بِالْبَصَرِ ،یَکُوْنُ مُبْتَدَئُ عَمَلِهِ أَنْ یَعْلَمَ أَعْمُلُهُ عَلَیْهِ أَمْ لَهُ'' (۱)

جو دل کے ذریعے دیکھیں اور بصیرت سے عمل کریں !وہ کام کے آغاز ہی سے جانتے ہیں کہ یہ کام ان نے لئے مضر ہے یا مفید ہے۔

چہ نیکو متاعی است کار آگہی     کزین نقد عالم مبادا تھی

ز عالم کسی سر بر آرد  بلند      کہ در کار عالم بود ھوشمند

--------------

[۱]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:۱۵۴

۱۲۹

  کام کے شرائط اور اس کے موانع کو مدنظر رکھیں

اپنی فعالیت کےنتیجہ تک  پہنچنے کے لئے کام کے شرائط و اسباب کو آمادہ کریں اور اس کے لازمی امور کو انجام دیں ۔ پھر اپنی فعالیت کے نتیجہ اور ہدف تک پہنچنے کے لئے ثابت قدم رہیں ۔کیونکہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''وَمَنْ لاٰ بَدَ الْاُمُوْرَ عَطِبَ'' (۱)

جو کوئی بھی کام کے اسباب فراہم کئے بغیر سختیوں کو برداشت کرے ، وہ ہلاک  ہو جائے گا۔

ہر مفید پروگرام کو انجام دینے کے لئے اس کے شرائط و اسباب کو فراہم کرنے کے علاوہ  اس کے موانع سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے تاکہ موانع ہدف تک پہنچنے کی راہ میں حائل نہ ہوسکیں۔

اس بناء پر کام اور کوشش سے نتیجہ اخذ کرنے  کے لئے ایسے امور کو اپنی راہ سے نکال دیں جو آپ کے کام ،کوشش اور آپ کی فعالیت کے نتیجہ کو نیست و نابود کر دیں ۔ ورنہ ممکن ہے کہ کوئی ایک غلطی آپ کی ساری محنت پر پانی پھیر دے ۔ بہت سے افراد اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے طاقت طلب کام اور اہم ریاضتیں انجام دیتے ہیں

--------------

[۱]۔ تحف العقول:۸۸، بحار الانوار:ج۷۷ص۲۳۸

۱۳۰

لیکن اس کے باوجود انہیں اپنے کام میں رنج و مصیبت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''رُبَّ سٰاعٍ فِیْمٰا یَضُرُّهُ'' (۲)

بعض اوقات کوئی کسی کام میں کوشش کرتاہے لیکن اسے نقصان پہنچتا ہے۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم نے جو کام انجام دیا ہے وہ نتیجہ مند ہو اور اس کام کو انجام دینے کے لئے ہم نے جو تکالیف برداشت کی ہیں ، وہ بے نتیجہ نہ ہوں تو ہمیں اس کام کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور موانع سے آگاہ ہونا چاہئے ۔ اب ہم بطور نمونہ اہم امور کی راہ میں حائل موانع میں سے دو اہم موانع بیان کرتے ہیں۔

--------------

[۲]۔ نہج البلاغہ، مکتوب:۳۱

۱۳۱

 کام اور کوشش کے موانع

۱۔ بے ارزش کاموں کی عادت

کام اور کوشش کے موانع  میں سے ایک مورد  گذشتہ کاموں  کی عادت کا غلبہ ہے ۔یہ مؤثر کاموں کے نتیجہ بخش ہونے کی راہ میں بہت بڑی آفت کے طور پر شمار کیا جاتاہے  اور اس کے  بہت زیادہ تخریبی اثرات ہیں۔

اس لئے حضرت علی علیہ ا لسلام اسے ریاضتوں کی آفت اورفعالیت کو نابود کرنے والاسمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں:

''آفَةُ الرِّیٰاضَةِ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (۱)

عادت کا غلبہ پا جانا ریاضت کی آفت ہے۔

برے کاموں کی عادت مختلف امور کے لئے کام ا ور کوشش کے اثرات کو نیست ونابود کر دیتی ہے۔ جس طرح مختلف قسم کے بیکٹیریا اور جراثیم انسان کے بدن اور صحت کے لئے بہت نقصان دہ ہوتے ہیں اسی طرح ناپسندیدہ اور برے کاموں کی عادت اہم امور کے اثرات و نتائج کو نابود کردیتی ہے۔

ہمیں مختلف کاموں کے نتائج تک پہنچنے  اور اپنے کام اور کوشش کے نتیجہ بخش ہونے کے لئے نہ صرف فعالیت کرنی چاہئے بلکہ اپنی کوششوں کوبے ثمر کرنے والی بری عادتوں پر بھی غلبہ پانا چاہئے۔ اسی لئے حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:''اَلْفَضِیْلَةُ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (۲) عادت پر غلبہ پانا ،فضیلت ہے۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم: ج۳ ص۱۰۴

[۲]۔ شرح غرر الحکم:ج۱ص۹۷

۱۳۲

اس بناء پر انسانی فضیلتوں کے حصول کے لئے نہ صرف کام اور کوشش کرنی چاہئے بلکہ بری اور فضول عادتوں پر بھی غلبہ پانا چاہئے۔اگر کسی گندے پانی کے حوض میں کوئی صاف پانی ڈالا جائے تو صاف پانی ڈالنے سے گندے پانی کا حوض صاف  پانی میںتبدیل نہیں ہو گامگر یہ کہ اس میں اس قدر پانی ڈالا جائے کہ جو گندے پانی پر غلبہ پاجائے اور گندے پانی کو حوض سے نکال دیاجائے۔اس صورت میں حوض کا پانی صاف ہو جائے گا۔

بری عادتیں بھی اسی گندے پانی کی طرح ہیں جو انسان کے وجود کو گندہ کر دیتی ہیں  اور جب انسان صاحب فضیلت بن جائے تو وہ  اپنے وجود سےبری عادتوں کو پاک کرے اور ان پر غالب آئے ۔لیکن اگر اس پر  ناپسندیدہ عادتیں غالب آجائیں تو پھر نیک کام گندے پانی کے حوض میں  اسی صاف پانی کی طرح ہوں گے  جو اس پانی کی گندگی کو ختم نہیں کر سکتے۔بلکہ اس سے صاف پانی بھی گندہ ہو جائے گا۔پانی کی گندی کو ختم کرنے کے لئے اس میں اتنا صاف پانی ڈالا جائے تا کہ وہ گندے  پانی پر غلبہ پا جائے۔

ناپسندیدہ عادتوں کو برطرف کرنے کے لئے اس قدر اچھے کام انجام دیئے جائیں تا کہ خودسے بری عادتوں کا خاتمہ ہو جائے ورنہ اچھے اور پسندیدہ کاموں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔

اس بناء پر اپنے کام اور فعالیت سے مثبت نتیجہ حاصل کرنے کے لئے اس کے موانع کو برطرف کریں  اور ان کے موانع میں سے ایک بے ارزش اور غلط کاموں کی عادت ہے۔

مذکورہ قصہ میں خیبر کے دو جوان اپنی گذشتہ حالت کی عادت سے دستبردار ہوئے  جس کی وجہ سے انہوں نے فضیلت کی راہ پر قدم رکھا اور وہ سعادت مند ہوئے۔

۱۳۳

۲۔ تھکاوٹ اور بے حالی

کاموں کو انجام دینے کی راہ میں دوسرا مانع تھکاوٹ ہے۔ ہمیں تھکاوٹ کی وجہ  سے کام کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے کیونکہ بہت سے موارد میں تھکاوٹ جھوٹی ہوتی ہے نہ کہ واقعی۔ایسے موارد میں ہوشیاری سے تھکاوٹ کو ختم کرنا چاہئے اور جب حقیقت میں تھک جائیں تو کام میں تبدیلی کر سکتے ہیں لیکن بیکار نہیں بیٹھنا چاہئے۔

مولائے کائنات حضرت علی بن ابیطالب  علیہ السلام اپنی وصیت میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے فرماتے ہیں:

''بُنََّاُوْصِیْکَ.....بِالْعَمَلِ فِی النَّشٰاطِ وَالْکَسْلِ'' (۱)

 اے میرے بیٹے! میں تمہیں  نشاط اور کسالت میں کام کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔

اس وصیت سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ اگر انسان کسی کام سے تھک جائے تو اسے تھکاوٹ کی وجہ سے بیکار نہیں بیٹھناچاہئے بلکہ اسے اس وقت کوئی دوسراکام کرنا چاہئے کیونکہ کام میں تبدیلی کے   باعث انسان کی تھکن دور ہو جاتی ہے ۔

اس بناء پر تھکاوٹ کی وجہ سے بیکار بیٹھ جانے کے بجائے کام میں تحوّل ، تبدیلی اور تنوع سے اپنے کام اور فعالیت کو جاری رکھیں اور خود سے تھکاوٹ کو دور کریں۔

--------------

[۱]۔ تحف العقول:۸۸، بحار الانوار: ج۷۷ ص۲۳۸

۱۳۴

پس مولا امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کے فرمان سے استفادہ کرتے ہوئے تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر کام کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے۔

بہ رنج اندرست ای خرد مند گنج          نیابد کسی گنج نابردہ رنج

چو کاھل بود مردِ  بُرنا  بہ  کار             از او سیر گردد دل روز گار

حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام کے کلام سے ایک اوربہترین نکتہ بھی استفادہ ہوتاہے  اور وہ یہ ہے کہ تھکاوٹ جیسی بھی ہو(چاہے وہ مسلسل ایک ہی کام کی وجہ سے ہو یا کام کی سختی کی وجہ سے ہو یا پھر لوگوں کی عدم توجہ کی وجہ سے ہو) اسے کام کو ترک کرنے کا بہانہ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ہم نے جو کام منتخب کیا ہے اگر وہ دین کے لحاظ سے صحیح اور پسندیدہ ہو تو اسے لوگوں کی باتوں کی وجہ سے چھوڑ کر ناامید نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اس کے رنگ کو بدل دیں اور اسے ایک نئی  شکل دیں۔

دیکھئے کہ مرحوم محدث نوری نے کس طرح لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرے اور کتابوں کے دو قلمی نسخوں کے لئے اپنی تلاش کو جاری رکھا۔

۱۳۵

 دو قلمی نسخوں کے لئے تلاش اور توسل

مرحوم سید اسد اللہ اصفہانی کہتے ہیں:ایک دن میں محدث نوری کے ساتھ کربلا کی زیارت سے مشرّف ہوا ۔ راستہ میں محدث نوری نے دو کتابوں کے نام  لئے اور فرمایا:مجھے یہ دونوں کتابیں بہت پسند ہیں لیکن اب تک اپنی تمام تر کوشش کے باوجود مجھے یہ دونوں کتابیں نہیں ملیں  لیکن اس سفر میںمجھے وہ کتابیں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے مل جائیں گی۔

انہوں نے یہ بات چند مرتبہ تکرار کی یہاں تک کہ ہم کربلا میں داخل ہو گئے ۔ہم حضرت امام حسین علیہ  السلام کے حرم کی زیارت سے مشرّف ہوئے ۔زیارت کے بعد ہم باہر آئے تو عورتوں والی جگہ کے پاس ہم نے ایک عورت کو دیکھا ۔اس کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں ۔

محدث نوری نے کہا :یہ دونوں کتابیں کون سی ہیں؟اس عورت نے کہا:یہ دونوں برائے فروخت ہیں۔ہم نے ان کتابوں کو دیکھا تو وہ وہی دو کتابیں تھیں جن کی ہمیں تلاش تھی۔

محدث نوری نے پوچھا:ان کتابوں کا ہدیہ کتنا ہے؟

اس عورت نے کہا:بائیس قران۔

محدث نوری نے مجھ سے کہا:تمہارے پاس جتنے پیسے ہیں دے دو۔ہمارے پاس ملا کے چھ قران سے زیادہ نہ ہوئے ۔ہم نے وہ پیسے اس عورت کو دے دئیے ۔

۱۳۶

میں نے خود سے کہا:ہم ابھی آئے اور اب تک کھانا بھی نہیں کھایا اورسارے پیسے ان کتابوں کے لئے دے دیئے ہیںلیکن اب ہم کتابوں کے بقیہ پیسے کہاں سے دیں گے؟

پھر انہوں نے اس عورت سے کہا:ہمارے ساتھ آؤ ۔ہم بازار گئے انہوں نے اپنا عمامہ ،عبا اور قبا بیچ ڈالی !لیکن اسکے باوجود بھی پیسے کم تھے ۔پھر انہوں نے اپنا جوتا بھی بیچ دیا ۔بالآخر بائیس قران پورے ہو گئے اور ہم نے وہ پیسے اس عورت کو دیئے

اب اس بزرگوار کیپاس قمیض شلوار اور زیر جامہ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا !میں  نے کہا:مولانا آپ نے اپنا یہ کیا حال کر لیا؟ انہوں  نے فرمایا:یہ بہت آسان ہے ہم تو درویش ہیں !ہم اسی حالت میں صحن میں داخل ہوئے اورہماری کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی ۔وہ گئے اور لباس لے کر آئے اور انہوں نے وہ لباس پہنا۔

مرحوم محدث نوری بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں جو بہت صاحب جلال تھے ۔تلاش اور توسل کے ذریعے حاصل ہونے والی ان  دو نایاب کتابوں کے حصول کے لئے  وہ گلیوں اور بازاروں میں عبا  اور عمامہ کے بغیر چلنے کو بھی تیار تھے اور انہوں نے اسے اپنے جاہ و جلال کے منافی نہیں سمجھا۔(۱)

--------------

[۱]۔ معجزات و کرامات آئمہ اطہار علیھم السلام:۷۲

۱۳۷

 غور و فکرسے کام کرنا

سعی و کوشش،جستجو اور زیادہ کام کرنا مومنوں کی خصوصیات میں سے ہے۔وہ ایمان اور یقین کامل کی وجہ سے کبھی فارغ نہیں بیٹھتے  بلکہ ہمیشہ کام اور فعالیت کے ذریعے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس حقیقت کو بیان کرنے والے ایک مقام پر فرماتے ہیں:

''اَلْمُؤْمِنُ قَلِیْلُ الزَّلَلِ کَثِیْرُ الْعَمَلِ'' (۱)

مومن کم غلطی کرتا ہے لیکن وہ بہت زیادہ کام انجام دیتاہے۔

باایمان شخص زیادہ کام کرنے کے باوجودبھی بہت کم خطاؤں کا مرتکب ہوتاہے اور اس سے بہت کم لغزش سرزد ہوتی ہیں ۔یہ چیز خود اس حقیقت کی گواہ ہے کہ مومن شخص میںتدبّر کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔

حضرت امام علی مرتضٰی علیہ السلام اپنے ایک کلام میں فرماتے ہیں:

''اَلتَّدْبِیْرُ قَبْلَ الْفِعْلِ یُؤْمِنُ الْعِثٰارَ'' (۲)

کام کو انجام دینے سے پہلیاس کے بارے میں تدبّر انسان کو خطاؤں سے محفوظ رکھتاہے۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم: ج۱ص۳۸۳

[۲]۔ شرح غرر الحکم: ج۱ص۳۸۴

۱۳۸

ایک دوسری روایت میں آنحضرت انسانوں کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اِیّٰاکَ وَ أَنْ تَعْمَلْ عَمَلاًبِغَیْرِ تَدْبِیْرٍ وَ عِلْمٍ'' (۱)

کسی کام کو تدبیر اور آگاہی کے بغیر انجام دینے سے پرہیز کرو۔

آپ اجتماعی کاموں کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

''اِجْعَلْ لِکُلِّ اِنْسٰانٍ مِنْ خَدَمِکَ عَمَلاً تَأْخُذُهُ بِهِ،فَاِنَّهُ اَحْریٰ اَلاّٰ یَتَوٰاکَلُوا فِیْ خِدْمَتِکَ'' (۲)

اپنے خدمت کرنے والوں میں  سے ہر ایک کے لئے کام معین کرو  اور اس سے وہی کام لو، کیونکہ ایسا کرنا اس لئے مناسب ہے کہ وہ تمہاری خدمت کرنے میں ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کریں۔

اس حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اجتماعی کاموں میں تدبّر اور غور و فکرکے لئے ہر ایک فرد کے لئے اس کے کام کو معین کر دیا جائے اور اس سے وہی کام لیاجائے تاکہ ان کے پاس اپنا کام دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے کا کوئی بہانہ باقی نہ رہے۔

لیکن انسان کو غور کرنا چاہئے کہ اگر انسان کو توفیق ملے تو اس میں خودبینی ایجاد نہیں ہونی چاہئے  اور وہ یہ نہ سوچے کہ وہ جو بھی کام انجام دے رہا ہے وہ اس کی اپنی توانائی ،قدرت اور شخص ارادے کی وجہ سے ہے ۔کیونکہ انسان میں ارادہ ،خدا کی توفیق سے ہی پیدا  ہوتاہے۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم: ج۲ص۲۲۰

[۲]۔ بحار الانوار: ج۷۴ص۱۴۳، نہج البلاغہ ،مکتوب:۳۱

۱۳۹

اس بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''فَاجْتَهِدُوا فِی طٰاعَةِ اللّٰهِ اِنْ سَرَّکُمْ اَنْ تَکُوْنُوا مُؤْمِنِیْنَ حَقًّا حَقًّا وَ لاٰ قُوَّّةَ اِلاّٰ بِاللّٰهِ'' (۱)

اگر تم واقعاً چاہتے ہوکہ تمہارا شمار حقیقی مومنوں میں ہو تو خدا کی اطاعت کی کوشش کرو اور اس کام کی  قوت فقط خدا کے وسیلے سے ہی ملتی ہے۔

اگر انسان کو بہت زیادہ توفیق میسر ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ نیک اور مشکل کام انجام دینے چاہئیں اور کبھی غرور و تکبر نہیں کرنا چاہئے  اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس نے جو عبادات انجام دی ہیں وہ اس کی اپنی توانائی ہی تھی۔کیونکہ جس طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ قُوَّةَ اِلاّٰ بِاللّٰهِ''

یعنی کاموں کو انجام دینے کی قدرت وتوانائی نہیں ہے مگر خدا کے وسیلہ سے۔

پس یہ خدا کا لطف ہے جو کہ حقیقی مومنوں اور اولیاء خدا کے شامل حال ہے  اور وہ توفیق کی وجہ ہی سے سخت عبادی کاموں کو آسانی سے انجام دیتے ہیں  نہ کہ ان کی شخصی توانائی عبادت کو انجام دینے کی قدرت کا سبب بنی۔

قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:"مَّا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَمَا أَصَابَکَ مِن سَیِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِکَ" (۲)

تم تک جو بھی اچھائی اور کامیابی پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی برائی پہنچی ہے وہ خود تمہاری طرف سے ہے ۔کیونکہ جس طرح تمام خوبیوں کا اصلی منشاء خداوند عالم ہے  اور تمام برائیوں کا سرچشمہ انسان کا نفس ہے جو خواہشات نفس اور شیطانی وسوسوں کے ذریعہ انسان کو گمراہ کرتاہے۔

--------------

 [۱]۔ بحار الانوار: ج۷۸ص۲۰۰

[۲]۔ سورۂ نساء، آیت:۷۹

 نتیجۂ بحث

سعی و کوشش بلند اہداف و مقاصد تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے ۔کامیابی کے حصول کے لئے اپنے نفس کو اپنی عقل کا تابع قرار دے کر  ایسے امور انجام دینے کی جستجو اور کوشش کریں کہ جو آپ کو سعادت و کامیابی تک پہنچانے کا باعث بنیں۔اپنے کام آگاہانہ طور پر شروع کریں اور تدبّر کے ذریعے ان کے مستقبل کی جانچ پڑتال کریں۔

کام کے ضروری مقدمات مہیا کریں اور اس کے موانع کو برطرف کریں۔

اگر آپ نے یہ ارادہ کیاہے کہ آپ کا مستقبل بھی بزرگ شخصیات کی طرح روشن ہو تو یقین کیجئے گذشتہ زندگی کی عادت آپ کے اہداف کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔آپ کو اپنی گذشتہ تمام بری عادتیں ختم کرنی چاہئیں تا کہ آپ اپنے ارادے کے ذریعے بہتر طریقے سے کام انجام دے سکیں۔دوجہد اور کوشش کریں اور اگر خدا نے چاہا تو آپ ضرور اپنی منزل اور اپنے مقصد تک  پہنچ جائیں گے۔

چہ کوشش نباشد  تن  زور مند           نیارد  سر  از  آرزوھا  بلند

کہ اندر جھان سود بی رنج نیست          کسی را کہ کاھل بود گنج نیست

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

کرتی ہیں۔ اگر اس قسم کی آفات و بلیات ختم ہوجائیں تو لوگ سرکشی، معصیت، اور غلو میں غرق ہوکر رہ جائیں گے، جیسا کہ پہلے زمانہ میں ہو اکہ انہیں طوفان کے ذریعہ ہلاک کرکے زمین کو ان کے وجود سے پاک کیا گیا، ایک چیز اور کہ جس کا لوگ انکار کرتے ہیں ، وہ موت و فنا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بشر ہمیشہ دنیا میں رہتا اور کسی بھی قسم کی آفت و بلاء میں گرفتار نہ ہوتا، اور آخر تک اسی حالت پر باقی رہتا۔

تو اس بات کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر کوئی دنیامیں آتا اور ہمیشہ باقی رہتا اور نہ مرتا تو کیا زمین خدا کی مخلوق پر تنگ نہ ہوجاتی؟ اور انکے رہنے کے لئے کوئی جگہ میسر نہ ہوتی، اور کاروبار اور زراعت وغیرہ ختم ہوکر رہ جاتی کیا تم لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ اس بات کو جانتے ہیں ، اوریقین رکھتے ہیں کہ انہیں تدریجاً فنا اور موت سے ہم کنار ہونا ہے اس کے باوجود وہ مسکن اور زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اسی کش مکش میں آپس میں جنگ چھڑ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ہے ، تو پھر اس وقت انسانوں کی کیا حالت و کیفیت ہوتی جبکہ وہ موت و فنا سے بری ہوتے، حرص ، آرزو و طمع اور مختلف فسادات ان پر غلبہ کرلیتے کہ جب یہ اس بات کا یقین کرلیتے کہ ان کے لئے موت و فنا نہیں ، ایسی صورت میں کوئی بھی حاصل شدہ اشیاء پر قانع نہ ہوتا اور کوئی بھی اپنی مصیبت اور رنج و الم سے نجات نہ پاتا ، اس لئے کہ موت و فناء نہیں، اس کے علاوہ ایسا شخص زندگی کا مارا ہوجاتا اور دنیا کی ہرچیز سے تنگ آجاتا، جیسا کہ وہ شخص زندگی سے تنگ آجاتا ہے۔کہ جس کی عمر حیات طولانی ہو، تو وہ موت کی آرزو کرتا ہے تاکہ دنیا کی مصیبتوں سے راحت و آرام پائے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ خدا کو چاہیے کہ وہ اپنے بندوں سے ہر قسم کے مرض و مصیبت کو برطرف کردے، تاکہ وہ موت کی آرزو نہ کرے اوراس کا مشتاق نہ ہو، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ایسا ہوجائے تو لوگ سرکشی اور شرارت کی طرف کھینچے چلے جائیں گے جس سے

۱۶۱

انکی دنیا اور دین دونوں برباد ہوجائیں گے اور اب اگر کوئی یہ کہے کہ انسانوں کے درمیان تناسل و تولد کا سلسلہ نہ ہوتا ،تاکہ لوگ اپنی کثرت و زیادتی کی وجہ سے مسکن ومعیشت کیلئے پریشان نہ ہوتے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں دوسری صدی کے لوگ نعمت حیات، نعمت دنیاوی و أخروی اور اُن چیزوں سے جو خداوند متعال نے اپنے بندوں کو دیں ہیں ، محروم رہ جاتے ایسی صورت میں ایک صدی سے زیادہ صدی وجود میں نہ آتی ، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا ہی اچھا تھا کہ سب لوگ ایک دفعہ خلق ہوجاتے اور پھر بعد میں کوئی خلق نہ ہوتا؟ تو اس کے جواب کے لئے ہم پھر دوبارہ اپنے پہلے والے سوال کے جواب کو دہرائینگے، کہ اگر ایسا ہوتا تو اس سے معیشت و مسکن کی تنگی واقع ہوجاتی اور اسکے علاوہ اگر سب ایک ہی ساتھ خلق ہوجاتے اور ان میں تناسل و تولد کا سلسلہ نہ ہوتا تو وہ محبت و اُنسیت جو لوگوں میں اس وقت دیکھائی دیتی ہے باقی نہ رہتی اور نہ ہی وہ ایک دوسرے سے پریشانی ومجبوری میں مدد مانگ سکتے تھے اور وہ لذت و خوشی جو تربیت اولاد سے حاصل ہوتی ہے سب ختم ہوجاتی لہٰذا یہ جواب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو بھی فکروں میں آتا ہے ، وہ اس کے علاوہ ہے کہ جس میں تدبیر ہے اور وہ سب خطا ہے۔

( خالق و مبدأ جہاں پر طعنہ زنی کرنے والے لوگ کیا کہتے ہیں )

شاید اب کوئی دوسری جہت سے خالق دوجہان کی تدبیر پر طعنہ زنی کرے اور کہے کہ یہ کس قسم کی تدبیر ہے کہ جو عالم کے اندر دیکھنے میں آتی ہے اور وہ یہ کہ جو بھی قدرت مند و قوی ہے وہ بہت زیادہ ظلم کرتاہے اور وہ لوگ جو ضعیف و کمزورہیں وہی ذلیل و خوار ہوتے ہیں ، نیک اور اچھے لوگ مصیبتوں میں مبتلاء ہوتے ہیں ، جبکہ فاجر و فاسق چین و سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں، اور اگر کوئی برا کام کرتا ہے تو اُس پر جلد ہی عذاب نازل بھی نہیں ہوتا ،لہٰذا یہ بات تدبیر کے نہ ہونے پر دلیل ہے اس لئے اگر

۱۶۲

تدبیر شامل حال ہوتی تو مسلماً تمام کام ایک اندازہ کے تحت انجام پاتے کہ جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو صالح اور نیک ہیں اپنی روزی وسعت کے ساتھ پاتے اور ظالم افراد اس سے محروم رہ جاتے اور کوئی قوی و طاقتور کسی کمزور اور ضعیف پر ہرگز ظلم نہ کرتا اور وہ شخص جو برے کام انجام دیتا، جلد ہی اپنے برے انجام کو پہنچ جاتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ نظریہ درست ہو اور اسے عملی جامہ پہنا دیا جائے، تو وہ فضیلت جو خداوند عالم نے انسان کو تمام حیوانات پر عطا کی ختم ہوجاتی، اس کے علاوہ یہ کہ وہ امید بھی محو ہوجاتی کہ انسان اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ نیک اور اچھے اعمال انجام دے گا تاکہ آخرت میں اس کے اجر وثواب سے بہرہ مند ہو کہ جس کا خداوند متعال نے اس سے وعدہ کیا ہے۔ تو گویا انسان بھی چوپاؤں کی طرح ہوکر رہ جاتا کہ جو عصاء کے خوف اور گھاس کی طلب میں کام کو صحیح طور پر انجام دیتے ہیں پس انسان کسی بھی کام کو آخرت کے عقاب یا ثواب کی خاطر انجام نہ دیتا پس یہی معنی بشر کو انسانیت سے نکال کر حیوانیت کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کے بارے میں فکر مند نہ ہوتا اور کسی بھی کام کو بغیر کسی حاضر یا نقدی چیز کے علاوہ بجا نہ لاتا پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ صالح اور نیک افراد کسی کام کو اس لئے انجام دیتے تاکہ ان کی روزی میں وسعت ہو، اور اگر کوئی برائیوں اور گناہوں سے بچتا تو فقط اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس پر عذاب الٰہی نازل ہوجائے ، نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگوں کے تمام کام حاضر اور نقدی چیزوں کے لئے ہوتے، ایسی صورت میں قیامت پر یقین ثابت نہ ہوتا اور لوگ ہرگز آخرت کے ثواب اور اسکی نعمتوں کے مستحق نہ ہوتے اب وہ شخص جو طعنہ زنی کرتے ہوئے جن امور کا ذکر کرتا ہے (جیسے ۔توانگری وفقیری ، موت وحیات، سلامتی وگرفتاری) یہ سب اس کے خیال وقیاس اور اندازے کے خلاف ہیں تو اسکی یہ فکر خطا ہے جبکہ بعض اوقات تم مشاہدہ کروگے، کہ اس کے قیاس و قاعدہ کے مطابق ، نیکو کار و صالح افراد خوشحال و خوشگوار زندگی بسر کرتے ہیں ایسا اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے درمیان یہ خیال پیدا

۱۶۳

ہوجائے کہ فقط کفار ہی دولت مند ہیں اور صالح و نیک افراد ہمیشہ فقیری اورغربت کی زندگی گذارتے ہیں اور یہ خیال انہیں اس بات پر مجبور کرتا کہ وہ غلط راستے کو صحیح پر ترجیح دیں، اور اسی طرح تم بہت سے فاسقوں کو دیکھو گے کہ جب ان کا ظلم اور سرکشی حد سے بڑھ جائے اور لوگ کسی بھی صورت ان کے شر سے محفوظ نہ ہوں تو ان پر جلدی ہی عذاب الٰہی نازل ہوجاتا ہے چنانچہ ''فرعون'' دریا میں غرق ہوگیا ''بخت نصر'' کو حیرانی و سرگردانی میں ہلاک کردیا ''بلبیس'' کو قتل کردیا گیا۔

اگر بہت سے ظالموں کے عذاب ہونے میں تاخیر ہو، یا اسی طرح نیک اور اچھے لوگوں کے اجروثواب میں دیر ہو تو یہ بعض ایسی وجوہات کی بناء پر ہے کہ جسے بندے نہیں جانتے اور یہ موارد کسی بھی صورت تدبیر کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتے جیسا کہ بادشاہ وغیرہ بھی اس قسم کے کام کرتے ہیںاور کوئی بھی ان کے کاموں کو تدبیر سے خالی نہیں کہتا بلکہ اس کی تاخیر اور عجلت کو حسن تدبیر سے تعبیر کیا جاتا ہے تمام چیزوں کا قواعد و ضوابط کے تحت انجام پانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا بنانے والا حکیم ہے۔ اور کوئی بھی چیز اس کی تدبیر کے سامنے رُکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لیے کہ کسی بھی خالق کو اپنی مخلوق کے مہمل چھوڑنے کی تین وجوہات میں سے کوئی ایک ہوسکتی ہے۔(1)عاجز (2)جاہل (3)شریر۔ اور یہ سب باتیں خداوند متعال کی ذات میں محال ہیں ، اس لئے کہ کوئی بھی عاجز اس قسم کی عجیب و غریب مخلوق خلق نہیں کرسکتا، اور جاہل کے پاس تدبیر نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، جبکہ کائنات میں کوئی بھی چیز تدبیر و حکمت سے خالی دکھائی نہیں دیتی ۔ اور شریر کبھی بھی اپنی مخلوق پر احسان نہیں کرتا ، اور نہ اس کے لئے بھلائی چاہتا ہے ، خالق پر واجب ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو تدبیر کے ساتھ پیدا کرے اگرچہ وہ تدبیر اسکی مخلوق سے پوشیدہ ہو جیسا کہ بادشاہ کے بہت سے کاموں کے علل و اسباب اسکی رعایا نہیں جانتی کیونکہ وہ بادشاہ کے امور میں کسی قسم کا کوئی دخل نہیں رکھتی، کہ وہ جانے کہ اس کے اس کام میں کیا راز پوشیدہ ہے لیکن جب وہ کسی کام کی علت جان لیتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر

۱۶۴

کام بہتر انداز سے انجام پایاہے۔ ملوک کے بعض اعمال کی مدد سے ملک الملوک کے اعمال پر استدلال کیا جاتا ہے۔

اگر تم کچھ دواؤں یا غذاؤں کے بارے میں یہ خیال کرو کہ ان میں سے ہر ایک اپنے لئے کچھ نا کچھ خاصیتیں رکھتی ہے اور پھر تمہیں دو تین راہوں سے یہ بات پتہ چل جائے کہ انکا مزاج گرم یا سرد ہے تو کیا تم فقط اس مقدار کو جاننے کے بعد یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ یہ گرم یا سرد مزاج رکھتی ہے (یقینا تم ایسا کروگے) اور س کے بعد تم اپنے خیال کو اس یقین میں بدل دو گے یہ دوائیں اور غذائیں سرد اور گرم مزاج رکھتی ہیں تو جب دو، تین گواہوں اور شواہد کے بعد انسان کسی چیز پر یقین کر لیتا ہے تو پھرکس طرح اُس ذات کو جھٹلاتاہے جس کے وجو د پر اس قدر شواہد و گواہ موجود ہیں کہ جن کوشمار نہیں کیا جاسکتا، کیا وہ ان شواہد کا مشاہدہ نہیں کرتے؟! اگر ان لوگوں کو فقط نصف عالم کی وجوہات کے بارے میں معلومات نہ ہوتی، تو تب بھی یہ فیصلہ کرنا کہ عالم اتفاق کا نتیجہ ہے ، عدل و انصاف سے خالی ہوتا اس لئے کہ دوسری نصف مخلوق میں تو حسن تدبیر کے وہ عظیم اور ظاہری دلائل موجو دہیں کہ جو انہیں اس قسم کے فکر سے روکتے ہیں کہ محض عجلت میں عالم کو اتفاق کا نتیجہ کہا جائے، جب کہ وہ کائنات کی جس چیز کے بارے میں بھی تحقیق و تجربہ کرتے ہیں تو وہ اس میں حسن تدبیر و حسن کمال پاتے ہیں۔

( عالم کا نام یونانی زبان میں )

اے مفضل جان لو کہ اہل یونان کے درمیان عالم کا نام ''قوسموس'' مشہور ہے کہ جس کا مطلب زینت و خوبصورتی ہے اور حکماء اور فلاسفہ نے بھی اس عالم کو اس قسم کے ناموں سے یاد کیا ہے ، کیا یہ بات اس چیز پر دلالت نہیں کرتی کہ انہوں نے اس عالم میں تدبیر و نظام کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں دیکھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عالم کوا س قسم کے ناموں سے یاد کیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات پر بھی

۱۶۵

راضی نہ تھے کہ وہ عالم کا نام نظام اور اندازہ رکھیں، بلکہ انہوں نے اس کا نام زینت رکھا تاکہ وہ یہ بتاسکیں کہ عالم کی ہرچیز کے اندر حسن تدبیر و استحکام اور زیبائی موجود ہے۔

( تعجب اس قوم پر جو حکمت پر یقین رکھ کر حکیم کو جھٹلاتی ہے )

اے مفضل۔ ذرا تعجب کرواُس قوم پر کہ جو حکمت کو خطا نہیں کہتی مگر حکیم کو جھٹلاتی ہے، اور اس کائنات کو محض اتفاقات کا نتیجہ کہتی ہے ، جب کہ وہ اس میں کوئی مہمل چیز نہیں دیکھتی اور تعجب کرو کہ جو حکمت کا دعویدار ہے اوروہ اُس حکمت کو جھٹلاتا ہے جو اس عالم میں جاری ہے اور اپنی تند وتیز زبان کو خالق دوجہاں کے بارے میں دراز کرتا ہے، اور تعجب تو بدبخت فرقہ مانویہ پر ہے کہ جو علم اسرار کے جاننے کا دعویدار ہے مگر وہ اُن دلائل حکمت کو مخلوق میں دیکھنے سے اندھا ہے کہ جو مخلوق میں مشاہدہ کئے جاتے ہیں اوراپنے جہل و نادانی کی وجہ سے مخلوق اور خالق کی طرف خطا کی نسبت دیتا ہے جس کی ذات حکیم و کریم اور بلند و بالا ہے۔

( عقل اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتی )

( اے مفضل) ان سب میں سب سے زیادہ تعجب فرقہ معطلہ پر ہے ، جو اس چیز کا دعویدار ہے کہ جس چیز کو عقل درک نہیں کرسکتی اُسے حس سے درک ہونا چاہیے اورکیونکہ یہ چیز خداوندعالم کے بارے میں امکان پذیر نہیں لہٰذا وہ اسی چیز کو دلیل بناکر اپنے خالق کا انکار کر بیٹھتا ہے اور اُس کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر خالق وجود رکھتا ہے تو وہ عقل سے درک کیوں نہیں ہوتا؟ تو اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ خالق دوجہاں عقل سے بھی بلند وبرتر ہے لہٰذا عقل اُسے درک کرنے سے قاصر

۱۶۶

وعاجز ہے ، جیسا کہ وہ چیز جو آنکھوں سے زیادہ بلند مرتبہ رکھتی ہے ، آنکھوں سے درک نہیں ہوسکتی جیسا کہ جب تم کسی پتھر کو ہوا میں بلند دیکھتے ہو تو فوراً جان لیتے ہو کہ اُسے کوئی اُچھال رہا ہے ، اور تمہارا یہ جان لینا آنکھوں کے ذریعہ نہیں بلکہ عقل کے ذریعہ ہے ، اس لئے کہ اس قسم کے فیصلے عقل کرتی ہے اور وہ اس بات کو جانتی ہے کہ پتھر خودبخود ہوا میں بلند نہیں ہوسکتا ۔ توتم نے دیکھا کہ آنکھ کس طرح اپنی حد سے تجاوز نہ کرسکی، بالکل اسی طرح عقل بھی اپنی حد پر ٹھہر جاتی ہے اور ہرگز اس سے تجاوز نہیں کرتی ، اس کے باوجود وہ جانتی ہے کہ ایک صانع ہے کہ جس نے اُسے بنایا ہے لیکن وہ اس کی ذات وصفات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ تو پھر یہ ضعیف انسان اپنی عقل لطیف کے ذریعہ کس طرح مکلف ہے کہ وہ خداوندمتعال کو جانے ، جب کہ اسکی عقل اسکا احاطہ کرنے سے قاصروعاجز ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ بندگان کو اس قدر مکلف بنایا ہے کہ جتنی وہ طاقت رکھتے ہیں اور ان کی طاقت یہ ہے کہ وہ اس کے وجود پر یقین رکھیں، اور اس کے أمرونہی کے پابندرہیں کبھی بھی خداوند عالم نے بندوں کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا کہ وہ جانیں کہ اسکی ذات و صفات کی حقیقت کیا ہے ، جس طرح سے کوئی بھی بادشاہ اپنی رعایا کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا کہ وہ جانے کہ انکا بادشاہ بلند قامت کا ہے یا کوتاہ، سفید ہے یا گندمی ، بلکہ وہ انہیں اس بات کا مکلف بناتا ہے کہ وہ اسکی سلطنت کا اقرار کریں اور اسکے فرمان کے آگے اپنی گردنوں کو جھکائے رکھیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی بادشاہ کے دربار میں جاکر یہ کہے کہ جب تک تم اپنے آپ کو میرے حوالے نہ کروگے، کہ میں اچھی طرح تمہیں جان لو، تو میں اس وقت تک تمہاری اطاعت نہ کرونگا تو اس شخص نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو عقوبت اور خطرہ میں ڈال دیا، پس اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ میں اس وقت تک اپنے خالق کی اطاعت نہ کروں گا جب تک کہ اچھی طرح اس کی حقیقت اور اس کا کامل احاطہ نہ کرلوں ، تویقینا اُس نے اپنے آپ کو معرض غضب الٰہی قراردیا، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا بعض دفعہ

۱۶۷

اسکی تعریف و توصیف بیان نہیں کی جاتی ،اور نہیں کہا جاتا کہ وہ عزیز ہے ، حکیم و جوادوکریم ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ تمام صفتیں اسکا اقرار ہیں نہ یہ کہ اس کا احاطہ اور درک حقیقت ، اس لئے کہ ہم کہتے ہیں کہ وہ حکیم ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کے حکیم ہونے کی حقیقت کیا ہے اور اسی طرح دوسری تمام صفتیں ، اسکی مثال ایسی ہے کہ ہم آسمان کو تو دیکھتے ہیں ، لیکن اس بات سے ابھی تک آگاہ نہیں ہوئے کہ وہ کس مادہ کا بنا ہے، دریا، دیکھتے ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ اس کی انتہاء کہاں ہے، تو پس اس خداوندعالم کا امر تو ان تمام چیزوں سے بھی بلند و بالا ہے کہ جس کے لئے کوئی انتہاء نہیں ، اس لئے کہ مثال کیسی بھی ہو، اس کے امر کے مقابلے میں کوتاہ ہے ،لیکن عقل اس کی معرفت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

( خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں؟ )

( اے مفضل) اب اگر کوئی یہ کہے کہ خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کے بارے میں اختلاف لوگوں کے کم عقل ہونے پر دلیل ہے کہ ان میں سے بعض نے یہ چاہا کہ وہ اسکی معرفت حاصل کرنے کے لئے اور اسکی ذات و صفات کے احاطہ کے لئے اپنی حد سے تجاوز کریں ، جب کہ اوہام ا س کام سے عاجز ہیں بلکہ وہ اس سے بھی چھوٹی چیز کو سمجھنے سے قاصر ہیں جیسے سورج کہ جو تمام عالم پر تابانی کرتا ہے، مگر کوئی بھی اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، اس بات کی دلیل اسکے بارے میں مختلف اقوال ہیں ، فلسفیوںنے اسکے بارے میں مختلف نظریے پیش کئے ہیں ، بعض نے کہا کہ وہ ایک ستارہ ہے ، اور آگ سے بھرا ہوا ہے، اور یہ اپنے لئے منھ رکھتا ہے کہ جس کے ذریعہ حرارت و شعاعیں ہم تک پہنچتی ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ ایک أبر ہے، بعض نے کہا کہ وہ ایک شفاف جسم ہے ، شیشہ کی مانند جو عالم سے حرارت کو جذب کرنے کے بعد اپنی

۱۶۸

شعاعوں کو عالم کی طرف ارسال کرتا ہے ، بعض نے کہا کہ وہ ایک لطیف و صاف چیز ہے کہ جو دریا کے پانی سے بنا ہے ، بعض نے کہا کہ وہ آگ کے ذرات ہیں جو ایک جگہ جمع ہوگئے ہیں ،ا ور بعض نے کہا کہ وہ چار عنصروں کے علاوہ پانچواں عنصر ہے، اس کے علاوہ اس کی شکل میں بھی اختلاف ہے، بعض نے کہا کہ وہ ایک صفحہ کی مانند پھیلا ہوا ہے، اور بعض نے کہا کہ وہ گیند کی مانند ہے کہ جو حالت گردش میں ہے، اور اسی طرح اسکی مقدار اور اسکے وزن میں بھی اختلاف ہے ، بعض نے کہا کہ وہ زمین کے برابر ہے، بعض نے کہا کہ وہ زمین سے چھوٹا ہے، بعض نے کہا کہ وہ بزرگ ترین جزیروں میں سے ایک جزیرہ ہے، ریاضی دان لوگوں نے کہا کہ وہ ایک سو ستر برابر زمین کے ہے ۔ پس یہی اختلاف اس بات پر دلیل ہے کہ وہ سورج کی حقیقت سے واقف نہیں ہوئے، وہ سورج جو آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے، اور حس جسے درک کرتی ہے لیکن عقول اسکی حقیقت کو پانے سے قاصر وعاجز دکھائی دیتی ہیں تو اب ذرا بتاؤ کہ پھر کس طرح عقول اُس ذات مقدس کو در ک کرلیں کہ جو احساسات کے ادراک سے بھی باہر ہے اور لطیف و پوشیدہ ہے، اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ وہ پوشیدہ کیوں ہے؟ تو اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ خداوندمتعال نے اپنی حکمت و تدبیر سے خود کو پوشیدہ کر رکھا ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو پردہ یا دروازہ کے پیچھے پوشیدہ کرلے، یہ جو کہا جاتا ہے کہ خداوندعالم پوشیدہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند عالم اس قدر لطیف ہے کہ عقل و فہم میں نہیں آتا، اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ لطیف و برتر کیوں ہے؟ تو یہ کہنا تو خودبخود غلط ہے ، اس لئے کہ وہ ذات جو سب کی خالق ہے ، اس کے لئے ضروری و لازم ہے کہ وہ ہر چیز سے جدا اور ہرچیز سے برترہو، وہ منزہ وپاک وپاکیزہ ہے، اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کیسے معقول ہے کہ وہ ہر چیز سے جدا اور ہرچیز سے برتر ہو، تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ کسی بھی چیز کی اطلاع ومعرفت کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں ۔ (1)یہ جانا جائے کہ اس چیز کا وجود ہے یا نہیں ۔ (2)یہ جانا جائے کہ اس کا جوہر ومادہ کیا ہے۔ (3)یہ جانا جائے کہ اسکی کیفیت و صفت کیا

۱۶۹

ہے۔ (4)وہ کس علت کے تحت وجود میں آیا، اور اس کا سبب کیا ہے ۔ لیکن ان چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ذریعہ بھی مخلوق اپنے خالق کی حقیقت کو نہیں پہچان سکتی فقط یہ کہ وہ جانے کے وہ موجود ہے، لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ وہ کیسا ہے اور کیا ہے؟ تو یہ وہ منزل ہے کہ جہاں پہنچنا ناممکن ومحال ہے ، کہ اسکی ذات کی حقیقت کو پالیا جائے ، یا یہ کہ اسکی معرفت میں کمال پیدا کرلیا جائے، اور اگر کہا جائے کہ وہ کیوں موجود ہے؟ اور اسکی علت کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دونوں چیز خداوندمتعال کی ذات سے ساقط ہیں اس لئے کہ خداوندعالم ہرچیز کی علت ہے، مگر کائنات کی کوئی چیز اس کی علت نہیں ،اور پھر یہ کہ انسان کا یہ جاننا کہ وہ موجود ہے، اس بات کا موجب نہیں بنتا وہ جانے کہ وہ کیسا ہے ، جیسا کہ اس کے خود اپنے نفس کو جاننا کہ وہ موجود ہے اس بات کا موجب نہیں بنتا ، کہ وہ جانے کہ وہ کیسا ہے، اور اسی طرح دوسرے لطیف اور معنوی امور، اب اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے اپنے کوتاہ علم کی روشنی میں جس لحاظ سے خداوند متعال کی وصف و تعریف بیان کی ہے اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے پہچانا نہیں جاسکتا، تو جواب میں کہا جائے گا کہ یقینا فقط وہاں تک جہاں تک کہ عقل کی رسائی ممکن ہو، اور اسکا احاطہ کرنے کی کوشش کرے، لیکن دوسری جہت سے وہ ہم سب سے بہت نزدیک اور اس کے آثار تمام چیزوں سے زیادہ روشن ہیں وہ اس قدر واضح ہے کہ کسی بھی چیز سے پوشیدہ نہیں اور دوسری جہت سے وہ اس قدر لطیف ہے کہ کوئی بھی اُسے درک نہیں کرسکتا، جس طرح سے عقل کہ اس کے دلائل تو ظاہر ہیں ، مگر اس کی ذات پوشیدہ ہے۔

۱۷۰

( طبیعت حکم خدا کے تحت )

اور اب دہریوں کے اس سوال کا جواب جو یہ کہتے ہیں کہ طبیعت وہ کام جو بے معنی ہوں انجام نہیں دیتی، اور نہ ہی وہ کسی بھی چیز کے مقابلے میں اپنی حد سے تجاوز کرتی ہے اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے اس عقیدہ کی دلیل حکمت ہے تو ان سے کہا جائے گا کہ وہ کون ہے جس نے طبیعت کو یہ حکمت عطا کی کہ کوئی بھی چیز اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے۔ اور یہ وہ چیز ہے کہ جس تک عقل انسان طویل تجربوں کے بعد بھی نہیں پہنچ سکتی اگر وہ کہیں کہ طبیعت ان کاموںکو خود اپنی حکمت اور قدرت سے انجام دیتی ہے تو درحقیقت وہ اس صورت میں اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ جس چیز کا وہ انکار کرچکے ہیں، اس لئے کہ بالکل یہی صفات خالق ہیں، اور اگر وہ اس بات کا انکار کریں تو ایسی صورت میں کائنات کا ہر ذرہ ایک آواز ہو کر یہ صدا بلند کریگا، کہ یہ تمام امور خالق حکیم کی طرف سے ہیں۔

( انسان کا ناقص الخلقت ہونا اس کے اتفاقاً پیدا ہونے پر دلیل نہیں )

گذشتہ زمانے میں بعض افراد اشیاء میں کار فرما قصد و ارادہ اور تدبیر کے منکرتھے، اور وہ خیال کرتے تھے کہ تمام چیزیں محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں اور انکی دلیل وہ آفتیں تھیں کہ جو زمانے میں رونما ہوتی ہیں ، مثلاً انسان کا ناقص الخلقت پیدا ہونا، انگلیوں کا زیادہ ہونا، بدشکل و بدقیافہ ہوناوغیرہ وہ لوگ ان تمام باتوں کو دلیل بنا کراس بات پر متفق تھے کہ یہ تمام چیزیں بغیر قصد و ارادہ اور تدبیر سے وجود میں آتی ہیں ۔ حکیم ارسطو ، انکے کلام کو اس طرح رد کرتا ہے کہ جو چیز اتفاق سے وجود میں آتی ہے وہ ہر لحاظ سے نقصان میں ہے ،کائنات میں حادثات رونما ہونے کا سبب ایک ایسی چیز ہے جو طبیعت کو اپنی اصلی

۱۷۱

راہ سے منحرف کردیتی ہے ، اور اُن حادثات کا واقعہ ہونا امور طبیعی کی طرح نہیں ہے کہ جو ہمیشہ پیش آتے ہیں (بلکہ کبھی کبھی رونما ہوتے ہیں)۔

اے مفضل۔ تم اکثر حیوانات کو دیکھتے ہو کہ وہ ایک ہی حالت پر اور ایک ہی جیسے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ انسان، کہ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دوہاتھ، دوپاؤں، اور ہر ہاتھ اور پیر میں پانچ پانچ انگلیاں ہوتی ہیں، اور ایسے ہی پیدا ہوتا ہے جیسا کہ اس کے علاوہ دوسرے انسان ، لیکن وہ شخص جو اس حالت کے برخلاف پیدا ہو تو اس کا سبب وہ علت ہے کہ جو رحم مادر میں موجود بچہ کو پہنچی ، جیسا کہ بالکل اسی چیز کا مشاہدہ تم صنعت میں بھی کرتے ہو کہ صنعت کار ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ چیز صحیح وسالم وجود میں آئے ، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی دوسری چیز کے مانع ہونے کی وجہ سے صنعت کار کی بنائی ہوئی چیز ناقص وجود میں آتی ہے ، اب چاہے وہ چیز جو مانع ہوئی وہ صنعت کار کے قصد و ارادہ سے تھی یا پھر ان آلات کی وجہ سے کہ جو اس چیز کو بنانے کا کام انجام دے رہے ہیں، اور بالکل اسی چیز کا مشاہدہ کبھی تم حیوانات میں بھی کرتے ہو، مختصر یہ کہ کسی چیز کے عارض ومانع ہونے کہ وجہ سے بچہ ناقص الخلقت پیدا ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات بالکل صحیح وسالم پیدا ہوتے ہیں پس اکثر امور کے ناقص ہونے کی علت وہ مانع ہے کہ جو کبھی کسی وجہ سے عارض ہوجاتا ہے ، اور یہ چیز اس بات کا ہرگز موجب نہیں بنتی کہ اُسے اتفاق کا نتیجہ کہاجائے، پس بالکل یہی امر خلقت میں بھی ہے اور اس شخص کا یہ کہنا کہ ہر چیز اتفاق کا نتیجہ ہے اس چیز کی مانند ہے کہ جو صنعتگر کی چاہت و طلب کے خلاف مانع کے عارض ہونے کی وجہ سے وجود میں آتی ہے ۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ آخر اس قسم کے غیر عادی واقعات رونما ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے، تاکہ جان لیا جائے کہ چیزوں کا طبیعت پر ہونا اضطراری نہیں ، بلکہ خداوندمتعال کے قصد و ارادہ اور اسکی تدبیر کے تحت ہے اور خالق دوجہاں نے اُسے اس طرح قرار دیا کہ وہ ہمیشہ اپنی معین روش اور خاص

۱۷۲

طریقہ کے تحت کام انجام دے اور کسی علت کے مانع ہونے کی بناء پر اپنی روش کے خلاف عمل کرے پس یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کائنات کی ہرچیزاپنے کمال پر پہنچنے کے لئے اپنے پیدا کرنے والے کی قدرت کی نیاز مند ومحتاج ہے، کہ وہ بابرکت اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔

اے مفضل۔ جو کچھ میں نے عطا کیا اسے لے لو،اور جو کچھ میری بخشیشیں تمہارے ساتھ ہیں انکی حفاظت کرو اور خداوندمتعال کااس کے احسانات پر شکر ادا کرو ، اسکی اور اسکے اولیاء کی توصیف بیان کرو، اور اُن کے فرماںبردار ہوجاؤ، یقینا کہ میں نے تمہارے لئے بہت میں سے کچھ اور کل میں سے جزء کے ذریعہ کائنات کی صحیح تدبیر اور قصد و ارادہ پر محکم دلیلیں بیان کیں ، اب تمہیں چاہیے کہ تم اس میں تدبر اور تفکر کرو، اور اس سے عبرت حاصل کرو، مفضل کابیان ہے کہ میں نے عرض کی ، کہ اے میرے آقاو مولا میں آپ کی مدد سے ان مطالب میں مزید بصیرت پیدا کروں گا، اور اپنے مطلوب تک

پہنچ جاؤں گا، پس اس مقام پر میرے آقا ومولا نے اپنے دست مبارک کو میرے سینہ پر رکھا، اور ارشاد فرمایا:حْفِظ بمشیة اللّٰه وَلا تنس انشاء اللّٰه

'' مشیّت خدا کے ذریعہ حفاظت کر اور اسے ہرگز فراموش نہ کر ''

یہ سنتے ہی میں گرگیا اور مجھ پر غشی طاری ہوگئی اور جب غشی سے افاقہ ہوا تو امام نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے مفضل اپنے نفس کو کیسا پاتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں اپنے آقا ومولا کی مدد سے بے نیاز ہوگیا، اور اس کتاب (توحید مفضل) کے مطالب جو میں نے لکھے اس طرح میرے سامنے ہیں جیسا کہ کفِ دست اور میں ان سب کو پڑھ رہا ہوں، اور اپنے آقاومولا کا اس قدر شکر گزار ہوں کہ جس کے وہ مستحق ہیں۔

پھر آپ نے ارشاد فرمایا: کہ اے مفضل، اپنے دل ودماغ، ذہن و عقل کو آمادہ اور اس کے سکون کی حفاظت کرو، میں بہت ہی جلد تمہارے لئے علم ملکوتِ سماوی وأرضی اور ان اشیاء کا علم کہ جنہیں

۱۷۳

خداوندمتعال نے زمین و آسمان کے درمیان خلق کیا ہے ، کہ جن میں عجائبات ، ِ ملائکہ کی خلقت صفتیں ، ان کے مراتب، سدرة المنتہیٰ، اور تمام جن وانس کے اوصاف اور جو کچھ تحت الثریٰ میں ہے، یہ سب اس مقدار میں بیان کروں گا کہ جو مقدار کل میں سے جزء کی میں تمہارے پاس بطور امانت رکھ چکا ہوں، اب اگر تم چاہو، تو جاسکتے ہو، میں اُمید رکھتا ہوں کہ تم ہمارے صحابی، محافظ، اور حامی بنو، تمہاری میرے نزدیک بہت بلند منزلت ہے اور تمہاری قدروقیمت مومنین کے دلوں میں ایسی ہے جیسے پیاس کے مقابلے میںپانی۔

اے مفضل۔ جو کچھ میں نے تم سے وعدہ کیا اس کے بارے میں اس وقت تک مجھ سے سوال نہ کرنا جب تک میں خود اُسے تمہارے لئے بیان نہ کردوں۔

مفضل کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں اپنے آقا ومولا کی خدمت میں سے ایسی کرامت کے ساتھ

پلٹا کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔

تمّت بالخیر

سید نسیم حیدر زیدی

۱۷۴

۱۷۵

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273