کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار0%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

کامیابی کے اسرار

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 273
مشاہدے: 107954
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 107954 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد 2

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چھٹاباب

توسل

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' هُمُ الْوَسِیْلَةُ اِلَی اللّٰهِ وَالْوُصْلَةُ اِلٰی عَفْوِهِ وَ رِضٰاه''

معصومین علیھم السلام خدا کی طرف وسیلہ ہیں اور اس کی بخشش اور رضائیت تک پہنچنے کا راستہ ہیں۔

    خدا ور اہلبیت علیھم السلام کی یاد    توسل ، قرآن کی نظر میں

    دعاؤں اور زیارات میں توسّل    توسّل تقرب الٰہی کا ذریعہ    توسّل دعاؤں کے مستجاب ہونے کا ذریعہ

    توسّل میں اعتقادی مسائل    توسّل کے بارے میں کچھ بنیادی نکات

    1۔ پاکیزگی قلب

    2۔ توسّل میں توجہ اور فکر کا تمرکز

    توسّلات میں یقین کا کردار    معرفت، انسان کے یقین میں اضافہ کا باعث

    توسّلات میں اضطرار کا کردار    حضرت عباس علیہ السلام کے حرم میں ایک پریشان لڑکی

    دوسرا نکتہ

    عالم غیب سے مدد    علمی مشکلات کو حل کرنے کے لئے توسّل

    توسّل سے دوری، گناہ کی علامت

    نتیجہ ٔبحث

۱۴۱

 خدا ور اہلبیت علیھم السلام کی یاد

خدا کی یاد افسردہ  و غمگین اور پریشان دلوں کو آرام بخشتی ہے  اور انہیں مشکلات سے نجات دیتی ہے ۔ لیکن غفلت اور خدا و اہلبیت اطہار علیھم السلام کی یاد کو چھوڑ دینا قلب کی تاریکی کا باعث ہے جو دل کو ہمیشہ کے لئے پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے۔

خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی:

''یٰا مُوْسیٰ لاٰ تَفْرَحْ بِکَثْرَةِ الْمٰالِ وَ لاٰ تَدَعْ ذِکْرِ عَلٰی کُلِّ حٰالٍ فَاِنَّ کَثْرَةَ الْمَالِ تُنْسِی الذُّنُوْبَ وَ اِنَّ تَرْکَ ذِکْرِیْ یُقْسِ الْقُلُوْبَ'' (1)

اے موسی!مال کی کثرت کی وجہ سے خوش نہ ہو  اور کسی بھی حال میں میری یاد کو ترک نہ کرو کیونکہ مال کی کثرت گناہوں کوبھلا دیتی ہے اور بیشک میری یاد کو ترک کردینا قساوت قلب ایجاد کر تی ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۲ ص6۳۔علل الشرائع: ج۱ص۷۷

۱۴۲

کیونکہ خدا کی یاد کو ترک کرنے کی وجہ سے شیطان انسان پر مسلط ہو جاتا ہے اور اس سے آرام و سکون کو سلب کر لیتاہے۔

خداوند کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

(وَمَن یَعْشُ عَن ذِکْرِ الرَّحْمَنِ نُقَیِّضْ لَهُ شَیْْطَاناً فَهُوَ لَهُ قَرِیْن ) (1)

اور جو شخص بھی اللہ کے ذکر کی طرف سے اندھا ہوجائے گا ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیں گے جو اس کا ساتھی اور ہم نشین ہوگا ۔

گناہوں کو فراموش کر دینا،قساوت قلب اور شیطان کامسلط ہو جانا  یاد خدا کو ترک کر دینے کے نتائج میں سے ہے۔خدا کی یاد انسان کو روحانی گرفتاریوں سے نجات دیتی ہے اور اسے اطمینان قلب اور روحانی سکون عطا کرتی ہے۔ہمیں اس نکتہ کی طرف بھی توجہ کرنا چاہئے کہ اہلبیت علیھم السلام کی یاد بھی یاد خدا ہے نیز ذکر خدا سے پیدا ہونے والے اثرات اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ذکر بھی  ایجاد ہو جاتے ہیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ ذِکْرَنٰا مِنْ ذِکْرِ اللّٰهِ'' (2)

بیشک ہمارا ذکر ،خدا کا ہی ذکرہے۔

--------------

[1]۔ سورۂ زخرف،آیت:36

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۵ص۴6۸

۱۴۳

ہمیں صرف ان معصوم ہستیوں کا ذکر ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ مشکلات اور پریشانیوں میں ان سے متوسل بھی ہونا چاہئے ۔ کیونکہ خاندان نبوت و رسالت علیھم  السلام نجات کی کشتی ہیں اور بے سہارا لوگوں کے لئے پناہگاہ ہیں۔خاندان رسالت   علیھم  السلام پریشانیوں کے دریا میں گرفتار   بے چاروں کی فریاد سننے والے ہیں ۔وہ گمراہی کے وحشتناک گرداب میں پھنسے ہوئے افراد کے لئے نجات کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم  ان بزرگ اور معصوم ہستیوں کو پریشانیوں اور مشکلوں میں گرفتار امت کے منجی(نجات دینے والا)کے طور پر پہچانیں۔

امیر المؤمنین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''أَیُّهَا النّٰاسُ شُقُّوْا أَمْوٰاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجٰاةِ'' (1) اے لوگو!فتنے کی لہروں کو کشتی نجات  کی مدد سے چیر دو۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:

''مَنْ رَکِبَ غَیْرَسَفِیْنَتِنٰا غَرِقَ'' (2) جو کوئی ہماری کشتی کے سوا کسی اور میں سوار ہو گیا وہ غرق ہو جائے گا۔

اس بناء پر انسان اپنی تمام مشکلات حتی کے اعتقادی مسائل و مشکلات میں بھی حقیقی ہادی و ورہنما  سے ہی ہدایت لینا چاہئے ورنہ وہ گمراہ ہو جائے گا۔ حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ یَطْلُبِ الهِدٰایَةَ مِنْ غَیْرِ أَهْلِهٰا یَضِلُّ'' (3) جو کوئی ہدایت کے اہل افراد کے علاوہ کسی اور سے ہدایت لے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔

--------------

[1]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:5

[2]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ص۱۸۴

[3]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ص۳۰۸

۱۴۴

اب ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جنہوں نے معاشرے کے پست اور نا اہل افراد کی پیروی کو قبول کر لیا؟!

مشکلات، فتنہ،فساد اور تباہ و برباد کر دینے والے طوفان (جب طوفان کی خطرناک لہریں ہوشیار بھی کر رہی ہوں)میں خدا اور اولیائے خدا کے علاوہ کسی اور کا دامن تھامنے والے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔لیکن اہلبیت اطہار علیھم السلام سے متمسک ہونا اور ان معصوم  ہستوں سے مدد مانگنا آپ کو  گمراہی و ہلاکت سے نجات دلا کر ساحل تک پہنچا دے گا۔

اگرچہ سمندر میں   مدّوجذرتمام چھوٹی بڑی کشتیوں کو ایک ساتھ اوپرنیچے کر دیتاہے لیکن دریا کا طلاطم تمام کشتیوں کو غرق نہیں کر سکتا ۔مصیبتیں اور فتنہ و فساد بھی ایسے ہی ہیں یہ جتنے بھی خطرناک کیوں نہ ہوں لیکن پھر بھی یہ تمام انسانوں کو نابودنہیں کر سکتے بلکہ کچھ کو کشتی نجات ساحل تک پہنچا ہی دیتی ہے۔

رہ ملک سعادت را تواند بی  خطر  رفتن

بہ دست خود زآئین ادب ھرکس عصا دارد

انسانوں میں سے کچھ ایسے بھی افراد موجود ہیں جو نہ صرف آخری زمانے کے فتنوں کے سامنے سینہ سپر رہتےہیں بلکہ اپنی قدر و منزلت میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔

اگر آپ ایسے افراد میں سے ہونا پسند کرتے ہیں تو مشکلات اور مصائبکے طوفان کی خطرناک لہروں میں اہلبیت اطہار علیھم السلام کی کشتی سے متمسک ہوجائیں اور ولایت الٰہیہ کا عظیم مقام رکھنے والی ہستیوں سے توسل کے ذریعے خود کو گمراہی اور حیرانگی سے نجات دیں۔

۱۴۵

 توسل ، قرآن کی نظر میں

اس بناء پر اپنی مشکلات اور پریشانیوں میں اہلبیت علیھم السلام سے متوسل ہوں اور اس خاندان کی کریمانہ عنایات سے استفادہ کریں ۔حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اذٰا نَزَلَتْ بِکُمْ شِدَّةً فَاسْتَعِیْنُوا بَنٰا عَلَی اللّٰهِ،وَهُوَ قَوْلُ اللّٰهِ: (وَلِلّهِ الأَسْمَاء  الْحُسْنَی فَادْعُوهُ بِها (1) قٰالَ:قٰالَ اَبُو عَبْدِ اللّٰهِ عَلَیْهِ السلام:نَحْنُ وَاللّٰهِ اْلاَسْمٰائُ الْحُسْنَی الَّذِ لاٰ یُقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ اِلاّٰ بِمَعْرِفَتِنٰا قٰالَ:فَادْعُوْهُ بِهٰا'' (2)

جب بھی تم کسی سخت مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو ہمارے وسیلہ سے خدا سے مدد مانگو۔یہی خدا کے فرمان کا معنی ہے کہ خدا نے فرمایا''اور اللہ ہی کے لئے بہترین نام ہیں لہذا اسے ان ہی کے ذریعہ پکارو''

پھر حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایاکہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے:

خدا کی قسم ہم خدا کے وہ بہترین نام ہیں ،کوئی عمل بھی قبول نہیں ہو سکتا مگر ہماری معرفت کے ذریعے سے۔پھر حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

خدا کو ان کے وسیلے سے پکارو۔

--------------

[1]۔ سورۂ اعراف،آیت:180

[2]۔ بحار الانوار:ج۹۴ص6،تفسیر عیاشی: ج۲ص۴۲

۱۴۶

اس بناء پر اہلبیت علیھم السلام خدا کے بہترین نام ہیں اور اس دور میں حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف اس کا مجسم نمونہ اور ہم پر خدا کی عنایات کا مظہر ہیں۔

ہمیں تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنا چاہئے اور اس ہستی کی عنایات سے توسل کرکے خدا کا تقرب حاصل کرنا چاہئے۔

قرآن مجید میں پروردگار عالم کا ارشاد ہے:

(یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ ِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَجَاهِدُواْ فِیْ سَبِیْلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ) (1)

ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجا ؤ۔

ہم اہلبیت اطہار علیھم السلام سے توسّل کے ذریعے عالم غیب سیمددطلب کرتے ہیں اور ان بزرگ ہستیوں کی عنایات حاصل کرتے ہیں۔

--------------

[1]۔ سورۂ امائدہ،آیت:35

۱۴۷

 دعاؤں اور زیارات میں توسّل

لوگوں نے اہلبیت  عصمت و طہارت علیھم السلام سے توسّل کے اس قدر نتائج دیکھے ہیں جو کہ ناقابل انکار ہیں ۔خاندان وحی علیھم السلام کے تمام محب  اپنی مشکلات  انہیں ہستیوں کے توسّل سے حل کرتے ہیں  نیز وہ دوسروں کی حاجات کے مستجاب ہونے کے  شاہد بھی ہیں ان کے توسّل سے ایسی مشکلیں حل ہو جاتی ہیں جن کا ہماری عقل کی محدویت کے اعتبار سے حل ہونا ممکن  نہیں ہوتا۔

اہلبیت اطہار  علیھم السلام سے توسّل کی اہمیت کی وجہ سے نہ صرف قرآن مجید اور خاندان وحی علیھم السلام کی روایات میں اس کا حکم کیاگیا ہے بلکہ عاؤں اور زیارتوں کے ضمن میں بھی ہمیں توسّل کی طرف دعوت دی گئی ہے۔اب اس کے دو نمونے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

1۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں عرض کرتے ہیں:

''اَتَوَسَّلُ اِلَی اللّٰهِ بِکَ فِْحَوٰائِجِیْ مِنْ أَمْرِ آخِرَتِْ وَ دُْنْیٰاَ وَ بِکَ یَتَوَسَّلُ الْمُتَوَسِّلُوْنَ اِلَی اللّٰهِ فِ حَوٰائِجِهِمْ'' (1)

میں اپنی تمام حاجتوں میںچاہے وہ دنیاوی ہوں یااخروی آپ کے وسیلہ سے خدا کی بارگاہ میں متوسل ہوتا ہوں اور خدا کی بارگاہ  میں متوسل ہونے والے سب کے سب اپنی حاجات میں آپ  کے وسیلہ سے ہی توسل کرتے ہیں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج101ص168

۱۴۸

حضرت امام حسین علیہ السلام سے متوسّل ہونا اور آپ کے لئے گریہ و عزاداری کرنا سب لوگوں کے لئے ایک کھلا باب ہے حتی گناہوں سے آلودہ اور اپنے رفتار و کردار میں پشیمان افراد بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف رخ کرسکتے ہیں کیونکہ آنحضرت تمام گناہگاروں کو بخشنے والے ہیں ۔یقین جانیں  کہ یہ مظلوم امام  سارے بے سہارا لوگوں کی دلجوئی و دلنوازی فرماتے ہیں۔

2۔ روز عرفہ کے دن کی دعا میں پڑھتے ہیں:

''.....أَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ نَبِیِّکَ وَ آلِهِ الطّٰاهِرِیْنَ وَ اَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِاْلآئِمَّةِ الَّذِیْنَ اِخْتَرْتَهُمْ لِسِرِّکَ وَ اطَّلَعْتَهُمْ عَلٰی وَحْیِکَ'' (1) خدایا! میں تجھ سے تیرے پیغمبر حضرت محمد(ص) اور ان کی پاک آل کے حق سے سوال کرتا ہوں اور تجھ سے اس امام کے وسیلہ سے متوسّل ہوتا ہوں جسے تونے اپنے سرّ کے لئے منتخب کیا اور اسے اپنی وحی سے آگاہ کیا۔

مکتب اہلبیت علیھم السلام کے پیروکار نہ صرف ان بزرگ ہستیوں کوخدا کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ اور شفیع قرار دیتے ہیں اور توسّلات کے ذریعے اہلبیت علیھم السلام کی توجہات اور عنایات حاصل کرتے ہیںبلکہ ان بزرگوں کے اسم سے متوسّل ہو کر ان کے نام کو خداکے تقرب کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ ہم حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں:

''اَلسَّلاٰمُ عَلٰی مَنْ أَسْمٰائُهُمْ وَسِیْلَةُ السّٰائِلِیْنَ وَ هَیٰاکِلُهُمْ أَمٰانُ الْمَخْلُوْقِیْنَ وَ حُجَجُهُمْ اِبْطٰالُ شُبَهِ الْمُلْحِدِیْنَ.....'' (2) ان پر سلام ہو جن کے اسماء سوال کرنے والوں کے لئے وسیلہ ہیں اور جن کا پیکر مخلوقین کے لئے امان ہے اور جن کا استدلال ملحدین کے شبہہ کو باطل کرنے والا ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج98ص231

[2]۔ بحار الانوار:ج101ص168

۱۴۹

اس بناء پر ان ہستیوں کے اسماء خدا کی بارگاہ میں تقرب کا ذریعہ ہیں اسی لئے محبان اہلبیت علیھم السلام خاندان نبوت علیھم السلام کی یاد میں برپا کی جانے والی مجالس میں انہیں کے اسماء کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے ورد کے ذریعے اپنے قلوب کو منور کرتے ہیں۔ہمارے بزرگ نہ صرف ان معصوم ہستیوں کے اسماء سے مستفید ہوتے ہیں بلکہ ان کی درگاہ کی تربت سے بھی تبرّک کے طور پر استفادہ کرتے ہیں اور اپنے درد کا مداوا کرتے ہیں۔

مرحوم محدث قمی  لکھتے ہیں:مرحوم سید نعمت اللہ جزائری  اپنے زمانۂ تحصیل کے اوائل میں فقر کی وجہ سے مطالعہ کے لئے چراغ جلانے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تھے اسی لئے وہ چاند کی روشنی سے استفادہ کرتے تھے ۔چاند کی روشنی میں کثرت مطالعہ کی وجہ سے آپ کی آنکھیں کمزور ہو گئیں تھیں۔ وہ اپنی آنکھوں کے نور کے لئے حضرت امام حسین علیہ السلام اور عراق میں دوسرے آئمہ علیھم السلام کے روضوں کی خاک اپنی آنکھوں پر ملتے تھے جس کی برکت سے آپ کی انکھوں کا نور ٹھیک ہو گیا۔

اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:جب بھی میری آنکھیں زیادہ لکھنے کی وجہ سے کمزور ہو جاتیں تو میں بھی آئمہ اطہار علیھم السلام کے حرم سے استفادہ کرتا ہوںاور کبھی اہلبیت عصمت طہارت علیھم السلام کی احادیث و روایات کو اپنی انکھوں سے لگاتا ہوں ۔الحمد اللہ میری آنکھوں کا نور بالکل ٹھیک ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ دنیا و آخرت میں میری آنکھیں انہیںکی برکتوں سے ہمیشہ روشن رہیں۔(1)

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ محدث قمی:695

۱۵۰

 توسّل تقرب الٰہی کا ذریعہ

اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام سے توسّل خدا کی بارگاہ میں انسان کی آبرو میں اضافہ کرتاہے اور یہ خدا کے نزدیک تقرب کا ذریعہ ہے۔اسی لئے ہم بعض دعاؤں اور مناجات میں خدا وند کریم سے درخواست کرتے ہیں کہ اہلبیت علیھم السلام کے توسّل کی وجہ سے ہمیں اپنی بارگاہ میں آبرومند قرار دے اور اپنا مقام قرب عطا فرما۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی مناجات انجیلیہ میں آیا ہے:

''أَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بِیْتِهِ الطّٰاهِرِیْنَ وَ اجْعَلْنِْ بِحُبِّهِمْ یَوْمَ الْعَرْضِ عَلَیْکَ نَبِیْهاً وَ مِنَ الْاَنْجٰاسِ وَ الْاَرْجٰاسِ نَزِیْهاً وَ بِالتَّوَسُّلِ بِهِمْ اِلَیْکَ مُقَرَّباً وَجِیْهاً'' (1)

خداوندا!اپنا درود اور رحمت محمد(ص) اور ان کے پاک اہلبیت علیھم السلام پر نازل فرما اور مجھے ان سے محبت کی وجہ سے قیامت کے دن گرامی قرار دے اور نجاسات و پلیدیوں سے پاک رکھ اور ان سے توسّل کی وجہ سے اپنے نزدیک مقرّب اور آبرومند قرار دے۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج94ص168

۱۵۱

 توسّل دعاؤں کے مستجاب ہونے کا ذریعہ

پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت امام علی علیہ السلام  سے فرمایا:

''یٰا عَلِیُّ مَنْ تَوَسَّلَ اِلَی اللّٰهِ بِحُبِّکُمْ فَحَقّ عَلَی اللّٰهِ أَنْ لاٰ یَرُدَّهُ،یٰا عَلِیُّ مَنْ أَحَبَّکُمْ وَ تَمَسَّکَ بِکُمْ ،فَقَدْ تَمَسَّکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی'' (1)

یا علی!جو کوئی بھی  آپ کے خاندان کی محبت کے وسیلے سے خدا سے توسّل کرے تو پس یہ خدا پر حق ہے کہ وہ اسے ردّ نہ کرے ۔یا علی!جو کوئی بھی آپ سے محبت کرتاہو اور آپ کے خاندان سے متمسک ہو گویا اس نے مضبوط رسّی کو تھام لیا۔

توسّل میں اعتقادی مسائل

جو کوئی بھی خاندان نبوت علیھم السلام سے متوسل ہو گویا اس نے اہم اعتقادی مسائل میں اپنے ایمان کا اظہار کیا ہے اور اسے تقویت دی ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج36ص302

۱۵۲

1۔اس فانی دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اہلبیت علیھم السلام کی حیات کا عقیدہ:

خداوند کریم کا ارشاد ہے:

( وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْیَائ عِندَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ) (1)

اور خبردار! راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ گمان تک نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں ۔

2۔ معصومین علیھم السلام کے علم و آگاہی کا عقیدہ اور اس نکتہ پر اعتقاد کہ انسان دنیا کے جس کونے میں بھی ہو ، ان ہستیوں سے متوسل ہو سکتاہے اور وہ سب کی حاجتوں سے آگاہ ہیں ۔کیونکہ اہلبیت علیھم السلام سے توسّل اسی صورت میں متین ہو سکتا ہے جب ہم معتقد ہوں کہ ہم انہیں جہاں سے بھی پکاریں وہ ہماری حاجات سے پوری طرح علم و آگاہی رکھتے ہیں۔

3۔ خداکی طرف سے معصومین  علیھم السلام کی ولایت و قدرت کا عقیدہ:

یہ ایک دوسری حقیقت ہے ۔توسّل کے ضمن میں ہم اس کے بارے میں اپنے باطنی ایمان و عقیدہ کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ عقلی لحاظ سے اس سے مدد مانگی جائے جو مدد کرنے اور دلجوئی کرنے کی قدرت رکھتاہو۔ان ہستیوں سے ہمارے توسّل کا یہ معنی ہے کہ ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں ،اس کے معتقد ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں  جس طرح آسمانی مخلوقات اس پر فخر کرتی ہیں۔

--------------

[1]۔ سورۂ آل عمران،آیت:169

۱۵۳

پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

''یٰا عَلِیُّ یَتَفٰاخَرُوْنَ أَهْلَ السَّمٰاء بِمَعْرِفَتِکَ وَ یَتَوَسَّلُوْنَ اِلَی اللّٰهِ بِمَعْرِفَتِکَ وَ اِنْتِظٰارِ أَمْرِکَ'' (2)

یا علی!آسمانی موجودات و مخلوقات تمہاری معرفت پر فخر کرتی ہیں اور  تمہاری معرفت اور تمہارے امر کے انتظار سے خدا وند کریم سے متوسّل ہوتے ہیں۔

اس بناء پر اہل آسمان کی معرفت افتخار و شناخت اور آسمان کے ساکنین کا انتظار ان کے توسّل کے سبب ہی ہے۔

جی ہاں!حتی کہ آسمانی موجودات و مخلوقات بھی اس دن کا انتظار کر رہی ہیں جب پوری کائنات پر امیر المؤمنین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کی مطلق ولایت کابول بالاہو گا اور حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے دست قدرت سے کوئی طاغوت اور شیطانی طاقت بچ نہیں پائے گی۔اس   دن کسی گھر میں کوئی غم نہیں ہو گا اور پوری دنیا پر معارف اہلبیت علیھم السلام کا نور پھیل جائے گا۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج40ص64

۱۵۴

 توسّل کے بارے میں کچھ بنیادی نکات

جو اہلبیت علیھم السلام سے توسّل کے ذریعے غیبی قدرت حاصل کرنا چاہتے ہوں اور جو یہ چاہتے ہوں کہ ان کے توسّل ہمیشہ سود مند ہوں  تو انہیں پہلے توسّل کے  بہت اہم نکات اور اس کی شرائط کی طرف مکمل توجہ کرنا چاہئے کیونکہ ان کے بہت زیادہ اثرات ہیں ۔توسّل کرتے وقت ان کی رعایت کریں تاکہ آخرت میں ثواب اور معنویت کے علاوہ دنیا میں بھی اس کے نتائج حاصل کر سکیں  اور جس حاجت کی وجہ سے متوسّل ہوئے ہوں ،وہ حاصل ہو جائے۔لیکن اگر ان شرائط اور نکات کا خیال نہ رکھا جاے تو اگرچہ ثواب اور معنوی اجر تو مل جائے گا لیکن ممکن ہے کچھ موارد کے علاوہ مورد نظر حاجت پوری نہ سکے  اور آپ جس طرح چاہتے ہوں اس طرح اپنے مقصد تک نہ پہنچ پائیں۔

اب توسّل کے اثرات مرتب کرنے والی شرطوں  پر غور کریں:

 1۔ پاکیزگی قلب

باطنی پاکیزگی اور  قلب کیطہارت معنوی امور کی طرف توجہ کرنے کے بہت اہم شرائط میں سے ہے ۔ صرف توسّل میں ہی نہیں بلکہ دعاؤں اور مناجات میں بھی دل کا روحانی بیماریوںں سے پاک ہونا بہت  اہمیت کا حامل ہے ۔ اسی لئے اولیائے خدا اور بارگاہ خدا میں تقرب رکھنے والے اشخاص سے توسّل اور دعا حیرت انگز اثرات رکھتاہے اور اس سے بہت عالی نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔لیکن نیک کردار نہ رکھنے والے افراد سے توسّل کرنے میں ایسا نہیں ہے ،اسی لئے ہم بہت سے مواردمیں دیکھتے ہیں کہ ان سے توسّل کرنے  کے ویسے نتائج نہیں ہوتے جیسے ہونے چاہئیں۔

۱۵۵

مستجاب الدعوة افراد کی دعا کے مستجاب ہونے کے اہم رازمیں سے ایک راز ان کے باطن کا آلودگیوں سے پاک ہونا ہے۔ان کے نفس کا پاک ہونااس چیز کا باعث بنتاہے کہ ان کی دعائیں اور توسّلات، شخصی اغراض و مقاصد سے پاک ہوں۔

ناپسند اخلاق،روحانی بیماریاں انسان کی روح کوجکڑ لیتی ہیں جس کی وجہ سے انسان کی روح ترقی کے مدارج طے نہیںکر سکتی ۔ لیکن خدا کے حقیقی بندے روح کی اس وزنی زنجیر کو توڑ کر خود کو آزاد کر لیتے ہیں اسی لئے کبھی بھی ان کی دعائیں اور توسّل تظاہر اور خودنمائی کی بنیاد پر نہیں ہوتیں اور وہ گناہوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں جو انسان کی روح کر قید کرنے لکاسبب بنتے ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ اپنے توسّلات میں کامیاب ہوتے ہیں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اہلبیت علیھم السلام سے توسل کے ذریعے غیبی طاقتوں سے مستفید ہوں  اور آپ کے توسّل مستفید ہوں تو آپ کو ''پاکیزگی قلب ''جیسے لازمی نکتہ پر توجہ کرنا چاہئے۔ اپنے باطن کو آلودگیوں سے پاک کر کے اپنی راہ سے تمام رکاوٹوں کو ختم کر دیں اور پھر خدا کی رسّی کوتھامنے کے بعد معنوی صراط مستقیم پر گامزن  ہو جائیں۔اس بناء پر اس حیاتی اور حسّاس نکتے سے غافل نہ رہیں اور اپنی قیمتی زندگی کو باطن کی آلودگیوں کے ساتھ ضائع نہ کریں!

اگر آپ اپنے باطن کو پاک کرلیں تو آپ کی کامیابی کی چابی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے اور آپ اپنی دعاؤں اور توسّلات میںاس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

۱۵۶

2۔ توسّل میں  توجہ اور فکر کا تمرکز

کسی بھی عبادت کی انجام دہی میں فکر کا تمرکز،توجہ اور مکمل  دقّت اس کے اثرات میں اضافے کا باعث ہے۔ اب ہم جو واقعہ ذکر کررہے ہیں یہ دعا اور توسّل کے دوران توجہ کی اہمیت کی دلیل ہے۔

ایک شخص اولیائے خدا میں سے کسی کے ساتھ واسطہ تھا اور کبھی کبھار ماضی اور مستقبل کے مطالب ان سے پوچھتا ۔ان کی سچائی  اور امور کی صحت اس کے لئے ثابت تھی۔میں نے ان سے پوچھا:وہ کس طرح اس مقام تک پہنچے اور وہ جو اسرار بیان کرتے ہیں وہ خود کس طرح انہیں جانتے ہیں؟

انہوں نے فرمایا:یہ شخص پہلے میرے شاگردوں میں سے تھا اور کبھی مجھ سے کچھ اذکار سیکھتا اور انہیں انجام دیتا ۔اگرچہ وہ بہت زیادہ دیر تک ان اذکار کو انجام نہیں دیتا تھا کیونکہ وہ کوئی طولانی اذکار اور دعائیں نہیں تھے ۔لیکن اس شخص کی ایک خصوصیت تھی جس کی وجہ سے اس نے یہ  ساری ترقی کی  اور اب وہ میرا استاد ہے۔اب میں ان سے اپنے مجہولات کے بارے میں پوچھتا ہوں اور وہ ان کا صحیح جواب دیتے ہیں اگرچہ ہر بار میرے پوچھنے سے پہلے ہی انہوں نے ان سوالوں کے جواب بتائے جنہیںمیں  ان سے پوچھنا چاہتا تھا۔

پھر انہوں نے فرمایا:ان کی یہ خصوصیت ہے کہ انہیں جو بھی دعا اور ذکر بتایا جائے وہ اسے مکمل توجہ سے انجام دیتے ہیں ۔وہ اپنی توجہ اور حضور قلب کی حالت کی وجہ سے ہی اس مقام تک پہنچے ہیں۔

۱۵۷

  اب آپ حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کے اس مختصر مگر عظیم کلام کی  طرف توجہ کریں ۔ آپ نے فرمایا:

''اَلدِّقَّةُ اِسْتِکٰانَة'' (1)

مکمل توجہ تواضع و انکساری ہے۔

جو خدا اور اہلبیت علیھم السلام کے سامنے تواضع کرے ،خدا اسے سر بلند کر دیتاہے اور جو امور ظاہراً ناممکن  ہیں اس کے لئے ممکن بنا دیتا ہے ۔

جی ہاں!مکمل توجہ ناممکن کو آپ کے لئے ممکن بنا دیتی ہے اور آپ کو ایسے بلند مقامات تک پہنچا دیتی ہے جسے آپ ناممکن اور محال سمجھتے ہیں  ۔جس طرح ایک عام شخص (جن کا واقعے کی طرف ہم نے اشارہ کیا) دعا اور توسّل کے دوران توجہ کی وجہ سے عالم غیب سے ارتباط جیسے مقام تک پہنچ گیا۔

اسی وجہ سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''فَاِذٰا دَعَوْتَ فَأَقْبِلْ بِقَلْبِکَ ثُمَّ اسْتَیْقِنْ بِالْاِجٰابَةِ'' (2)

جب بھی دعا کرو تو توجہ اور اقبال قلب کی حالت میں دعا کرو،پھر تمہیں اس کی اجابت کا یقین ہونا چاہئے۔

دعا اور توسّل میں توجہ اور اقبال قلب اس طرح مؤثر اور مفید ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیںکہ توجہ کی حالت کے بعد تم اس دعا کی اجابت کا یقین کر لو!

اس بناء پر باطنی طہارت اور پاکیزگی کے بعد دعاؤں،مناجات اور توسّلات میں تمرکز فکر اور حواس کی توجہ کا مسئلہ بہت اہم اثرات کا حامل ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۲ص۱۹۳

[2]۔ بحار الانوار:ج۹۳ص۳۲۳،مکارم الاخلاق:314

۱۵۸

جس طرح توجہ  کے بغیر عبادتوں کا کوئی اہم اثر نہیں ہوتا اسی طرح ان توسلات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتاجن میں توجہ نہ ہواور یہ انسان کو اسکے مقصد و حاجت تک نہیں پہنچاتے۔

وہی توسّل مکمل اثرات رکھتاہے جس میں توجہ موجود ہو کیونکہ توسّل اسی صورت میں خدا اور خاندان وحی علیھم السلام سے ارتباط برقرار کر سکتا ہے جب وہ توجہ  سے ہو اور پاک دل سے نکلے۔ایسے توسّلات کے نتیجہ میں بند راہیں بھی کھل جاتی ہیں اور بند دروازے بھی کھل جاتے ہیں ۔جب انسان کا خدا اور اہلبیت علیھم السلام سے ارتباط برقرا رہو جائے تو کوئی دعا اور توسّل  پورا ہوئے بغیر نہیں  رہ سکتا۔

اس بنا پر اگر اپ چاہتے ہیں کہ آپ کے توسّل کا فوری اثر ہو اور اس کابہترین نتیجہ بھی ہو تو خودسازی کے علاوہ توسّل کے وقت آپ کی توجہ منتشر نہیں ہونی چاہئے بلکہ مکمل توجہ اور تمرکز سے خاندان وحی علیھم السلام کا دامن تھامیں اور انہیں اپنی حاجتوں کے پورا ہونے کے لئے وسیلہ قرار دیں۔

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''نَحْنُ الْوَسِیْلَةُ اِلَی اللّٰهِ'' (1)

ہم خدا کی طرف وسیلہ ہیں۔

جی ہاں !ہر آگاہ اور روشن دل انسان کایہی عقیدہ ہے کہ خاندان نبوت علیھم السلام اس کے پشت پناہ اور خدا کی طرف اس کا وسیلہ ہیں ۔

--------------

 [1]۔ بحار الانوار:ج25ص23

۱۵۹

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ایک زیارت میں بیان ہوا ہے:

''بِکُمْ یٰا آلَ مُحَمَّدٍ أَتَوَسَّلُ،اَلْاٰخِرُ مِنْکُمْ وَالْاَوَّلُ'' (1)

اے آل محمد!آپ کے وسیلے سے ہم متوسل ہوتے ہیں ،آپ میں سے اوّل سے آخر تک۔

ہمیں ان معصوم ہستیوں سے کبھی کبھار نہیں  بلکہ ہمیشہ اپنی حاجتوں اور مشکلات میں ان بزرگ ہستیوں سے متوسل ہونا چاہئے۔

ہم زیارت جامعہ کبیرہ (جسے حضرت امام ہادی علیہ السام نے نور کے دریا کو مختصر بیان میں سمو دیا ہے )میں پڑھتے ہیں:

''وَمَنْ قَصَدَهُ تَوَجَّهَ بِکُمْ'' (2) جو خدا کا قصد کرے ، وہ آپ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔

گذشتہ بیانات کی رو سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اپنی حاجتوں کے روا ہونے اور آرزؤں  کے پورا ہونے کے لئے دل کی پاکیزگی کے علاوہ توجہ اور سوچ و فکر کا متمرکز ہونا ضروری ہے۔اس بناء پر ''باطنی تطہیر اور فکر کی توجہ ''توسّل کے اثرات کے لئے دو اہم راہ ہیں۔اس بیان سے یہ ملاحظہ کریں کہ توسّل کی کتنی زیادہ عظمت ہے اور توسّل کرنے والے کی روحانی حالت کیاہونی چاہئے؟

اگر وہابیوں کی طرح کے مغرض افراد توسّل کو کوئی اہمیت نہ دیں تو یہ ان کی باطل سوچ ،تنگ نظری اور ان کی لاعلمی کی  وجہ سے ہے ورنہ جو کوئی یہ جانتا ہو کہ توسّل کیا ہے  اورتوسّل کن بنیادوں پر   استوار ہے تووہ کس طرح انسان کے بہترین روحانی حالات کا انکار کر سکتے ہیں اور کس طرح عظیم روحانی خزانے کاانکار کر سکتے ہیں؟

متفکّر انسان کس طرح پر کشش ترین روحانی حالات کو صرف اسبناء پر ردّ کر سکتا ہیکہ وہ خود انہیں حاصل  نہیں کر سکا؟!!

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج101ص227

[2]۔ مفاتیح الجنان ،زیارت جامعہ کبیرہ

۱۶۰