کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار21%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 126713 / ڈاؤنلوڈ: 5750
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

 خودشناسی میں ارادہ کا کردار

اگر آپ اپنی ہوا و ہوس کو قوی سمجھتے ہیں تو اس کی یہ وجہ ہے کہ خودسازی کے بارے میں آپ کا ارادہ ضعیف ہے ۔اگر آپ اپنے ارادہ کو مضبوط بنا لیں اور پختہ ارادہ کے ساتھ صراط مستقیم پر چلنے کے لئے قدم بڑھائیں تو اس صورت میں آپ کویقین ہو جائے گا کہ آپ کا نفس اور ہوا و ہوس آپ کے زیر تسلط اور مغلوب ہے۔

آپ یقین رکھیں کہ ارادہ کی حقیقت سے آپ کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ آپ کے محکم ارادے کے سامنے آپ کے نفس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ولایت و امامت کی چھٹی کڑی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:

''صٰاحِبُ النِّیَّةِ الْخٰالِصَةِ نَفْسُهُ وَ هَوٰاهُ مَقْهُوْرَتٰانِ تَحْتَ سُلْطٰانِ تَعْظِیْمِ اللّٰهِ  وَالْحَیٰائِ مِنْهُ'' (۱)

جو کوئی پختہ ارادہ اور خالص نیت کا مالک ہو ،اس کا نفس اور ہوا و ہوس سلطنت الٰہی کی تعظیم  اور خدا سے حیاء کی وجہ سے مقہور و مغلوب ہوتی ہیں۔

یعنی خالص اور پختہ ارادہ رکھنے والا شخص خود کو خدا کی عظمت کے سامنے حاضر سمجھتا ہے اور برے کاموں کو انجام دینے کی راہ میں شرم و حیاء مانع آتی ہے ۔اسی وجہ سے اس کا نفس، نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس مغلوب ہو جاتی ہیں اور یہ ان پر مسلط ہو جاتاہے۔

اس بناء پر اپنے نفس کے قوی ہونے کا گلہ و شکوہ نہ کریں بلکہ اپنے ارادے کے ضعف اور ناپختگی کا رونا روئیں اور اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔

--------------

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۲۱۰ ، مصباح الشریعہ:۴

نفس کو کمزور کرنے کا طریقہ

آپ ارادہ کر لیں کہ جب بھی کوئی گناہ یا برا کام انجام دیں تو اس کے برابر اچھا اور نیک کام انجام دیں اگر آپ نے اس پر عمل کیا تو کچھ دنوں کے بعد آپ مشاہدہ کریں گے کہ آپ میںنفسانی خواہشات کمزورہو چکی ہیں۔حضرت پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''اِذٰا عَلِمْتَ سَیِّئَةً فَاعْمَلْ حَسَنَةً تَمْحُوْهٰا'' (۱)

جب بھی تم نے کوئی برا کام انجام دیا تو پھر نیک کام بھی انجام دو تا کہ برے کام کو نابود کر سکو۔

غلط اور برے کاموں کے جبران کے لئے اچھے اور نیک کام انجام دینے سے ناپسندیدہ اور برے کاموں کے اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔اس کے آثار میں سے ایک نفسانی خواہشات کی قدرت ہے۔اس بناء پر ہمیں  خاندان وحی علیھم السلام کے انسان ساز فرامین سے ابھی یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم سے جب بھی کوئی خطا سرزد ہو جائے  تو اس کے جبران کے طور پر نیک اور اچھا عمل انجام دیں تا کہ برے عمل کا اثر ختم ہو جائے۔یہ کامیابی کی ایک اہم کنجی ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔آپ کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرمودات کی پیروی کرنے سے آپ کے لئے تاریک راہیں بھی روشن ہو جائیں گی،آپ کے لئے پیچیدگیا ں حل ہو جائیں گی  اور آپ پر غالب نفس مغلوب ہو جائے گا ۔تب آپ کو یہ یقین ہو جائے گا کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

اب ہم آپ کے لئے اسلام کے درخشاں ستارے مرحوم مرزا قمی کا واقعہ بیان کرتے ہیں تا کہ آپ کو یہ یقین ہو جائے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۱ ص۳۸۹، امالی  طوسی:ج۱  ص۱۸۹

۲۱

مرحوم مرزا قمی کی وفات کے بعد ''شیروان ''کا رہنے والا ایک شخص ہمیشہ آپ کے مرقد پر حاضر ہوتا اور وہ کسی سے کوئی اجرت لئے بغیروہاں ایک خادم کی طرح خدمت کرتا ۔نیز کسی نے اسے اس کام پر معین بھی نہیں کیا تھا۔کیونکہ یہ کام رائج اور مرسوم نہیں تھا اس لئے اس کی خدمت گزاری کی وجہ دریافت کرنے لگے۔

اس نے کہا:میں شیروان کا رہنے والا ہوں اور اس شہر کے امیر ترین افراد میں سے ہوں ۔میں سمجھا کہ میں حج کے لئے مستطیع ہوں  لہذامیں حج بیت اللہ کی ادائیگی کے ارادہ سے سفر کا لباس پہن کر شہر سے نکلا۔

مکہ معظمہ پہنچنے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد میں دریائی راستہ کے ذریعے واپس روانہ ہوا۔ایک دن میں رفع حاجت کے لئے کشتی کے کنارے پر بیٹھا کہ میرے پیسوں کی تھیلی پھٹ گئی اور سارے پیسے دریا میں گر گئے ۔ میرے د ل سے ایک سرد آہ نکلی  اور اس بارے میں میری امید ٹوٹ گئی ۔ میں پریشانی و حیرانگی کے عالم میںاپنی منزل کی طر ف لوٹا اور اپنا تھوڑا بہت سامان اٹھا کر نجف اشرف  میں داخل ہوا اور کائنات کے مشکل کشاء حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام سے متوسل ہوا۔

ایک رات میں نے آنحضرت علیہ السلام کو عالم خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا:

پریشان نہ ہو،تم قم جاؤ اور اپنے پیسوں کی تھیلی مرزا ابوالقاسم عالم قمی سے مانگو  وہ تمہیں دے دیں گے۔میں خواب سے بیدار ہوا ور میں نے اس خواب کو اس دن کے عجائب میں سے جانااور میں خود سے کہا کہ میرے پیسوں کی تھیلی عمان کے دریا میں گری ہے اور حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے میری قم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے!

میں نے خود سے کہا:عراق کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد حضرت معصومہ علیھا السلام کی زیارت کی غرض سے قم جاؤں گا اور میں یہ واقعہ میرزا قمی سے بیان کروں گاشاید انہیں اس کا کوئی حل معلوم ہو۔

اسی لئے میں قم آیا اور حضرت فاطمۂ معصومہ علیھا السلام کی زیارت کے بعد مرحوم مرزا قمی کے گھر گیا اتفاقاً وہ قیلولہ کا وقت تھا اور آپ اپنی بیرونی رہائشگاہ پر تشریف فرما نہیں تھے

۲۲

میں نے ان کے ایک خادم سے کہا:میں ایک مسافر ہوں اور دور دراز کے علاقہ سے آیا ہوں :مجھے جناب مرزا قمی سے بہت ضروری کام ہے

خادم نے جواب میں فرمایا:وہ ابھی آرام فرما رہے ہیں۔آپ جائیں اور عصر کے وقت تشریف لائیں ۔

میں نے کہا:میری ایک چھوٹی سی عرض ہے ۔

خادم نے تند لہجہ میں کہاجاؤ! اندر والا دروازہ کھٹکھٹاؤ۔

میںجسارت کرتے ہوئے اٹھا اور دروازے پر دستک دی ،اندر سے آواز آئی فلاں شخص صبر کرو میں آتا ہوں اور انہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا ۔پھر وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے اپنے کپڑوں سے مجھے پیسوں کی وہی تھیلی نکال کر دی جو عمان کے دریا میں گر  گئی تھی اور مجھ سے فرمایا:میں اس بات پر راضی نہیں ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں کسی کو اس واقعہ کی خبر ہو ۔یہ تھیلی لو اور اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔

میں نے مرزا قمی کی دست بوسی کی اور ان سے الوداع کہہ کر اس دن کے اگلے روز اپنے وطن روانہ ہو گیا۔کام کاج اور روزگار کی مصروفیت کے باعث کافی عرصہ میں اس واقعہ کو بھول گیا ۔کچھ عرصہ کے بعد جب میں تھک گیا تو ایک روز میں اپنی زوجہ کے ساتھ بیٹھ کر اپنے گذشتہ سفر کی روداد سنانے لگا ۔مجھے یہ واقعہ بھی یاد آیا اور میں نے اسے اپنی زوجہ سے بیان کر دیا۔

جب میری زوجہ اس واقعہ سے آگاہ ہوئی تو اسے بہت تعجب ہوا  اور اس نے کہا:جب تم ایسے شخص سے آشنا ہو گئے ہو توتم نے اسی پر اکتفاء کیوں کی  اور تم نے ان کی ملازمت کیوں نہیں کی اور  ان کی ہمنشینی و صحبت کیوں اختیار نہیں کی؟

میں نے کہا:پس مجھے کیا کرنا چاہئے؟

۲۳

اس نے کہا:انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کرنی چاہئے اور مرنے کے بعد انہی کے مرقد کے ساتھ دفن ہونا چاہئے ۔

میں نے کہا:کیونکہ مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا اس لئے میں یہ کام انجام نہ دے سکا ۔اب تو وقت گزر گیا اور میں اس عظیم نعمت سے محروم ہو گیا ہوں۔

اس نے کہا:نہیں !واللہ!اب بھی وقت نہیں گزرا اور تم آسانی سے اس کا جبران کر سکتے ہو۔ کیونکہ قم ایک آباد اور معنوی شہر ہے  اور اگر انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کا شرف حاصل ہو جائے تو اس سے نیک  کام اور کیا ہو سکتاہے ۔اٹھو !ہمارے پاس جو کچھ ہے اسے اپنے ساتھ قم لے چلتے ہیں  اور اسے اپنی زندگی کا سرمایہ قرار دیتے ہیں اور اپنی پوری زندگی حضرت معصومہ علیھا السلام کے روضۂ مطہر کی مجاوری اور اس بزرگ ہستی کی خدمت میں بسر کرتے ہیں۔

میں نے اس کی بات مان لی اور اپنی تمام جائیداد ،گھر اور زمین وغیرہ فروخت کرکے اپنی زوجہ  کے ساتھ قم چلا گیا۔جب میں قم میں داخل ہوا تو مجھے خبر ملی کہ مرزا قمی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں  اس وقت سے میں نے ان کیقبر کی ملازمت اختیار کر لی ہے اور جب تک میرے جسم میں جان ہے میں اس کام سے دستبردار نہیں ہوں گابلکہ یہ میرے لئے باعث فخرہے۔(۱)

اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں لیکن ہم نے انہیں انجام دینے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے ۔اسی لئے ہم اسے ناممکن کہتے ہیںحالانکہ حقیقت میں وہ ممکن ہوتے ہیں  اور وہ واقع پذیر ہو چکے ہوتے ہیں اور آئندہ بھی واقع ہو سکتے ہیں۔جیسے پیسوں کی وہ تھیلی جو عمان کے دریا میں گر گئی تھی اور جو مرحوم مرزا قمی  نے اپنے کپڑوں سے نکال کر اس کے مالک کو دی۔

۔

--------------

[۱] ۔ عبقریّ الحسان: ج۲ص۱۰۰

۲۴

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اسے جس شخص کیطرف رہنمائی کی تو فرمایا:وہ پیسوں کی تھیلی مرزا ابو القاسم عالم قمی سے مانگو۔یعنی حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام ایسے افراد کو عالم سمجھتے ہیں؛ حالانکہ آپ دوسر ی طرح سے بھی تعبیر فرما سکتے تھے اور ان کی شہرت کی وجہ سے صرف مرزا قمی کہہ کرہی معرفی کروا سکتے تھے

پس ہمیشہ جستجو اور طلب جاری رکھو تا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ خودشناسی تک رسائی حاصل کر سکیں اور کچھ غیر ممکن امور آپ کے لئے ممکن بن سکیں۔جیسا کہ نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کوانسان کی لاشعوری طور پر طلب کرتاہے یا پھر انسان ان سے آگاہ ہوتاہے۔نفس کو کنٹرول کرنا بھی ایسے ہی ہے ۔یعنی اگر انسان چاہے تو اپنے نفس پر قابو پا سکتاہے ،جس طرح انسان اسے بالکل آزاد چھوڑ کر حیوانات سے بھی پست  و بدترہو سکتا ہے۔

آدمی زادہ طرفی معجون است     از ملایک سرشتہ و زحیوان

گر کند  میل این، پس از آن     ور کند میل، شود بہ  از  آن

۲۵

۲۔ خودشناسی میں خوف خدا کا کردار

خداوند عالم کی معصیت و مخالفت کا خوف انسان کو ہوا و ہوس  ترک کرنے کی طرف مائل کرتا ہے  جس کے نتیجہ میں انسان کو خود شناسی کا راستہ مل جاتاہے  اور ہدایت کا راستہ فراہم ہو جاتاہے ۔

خداوند متعال کا ارشاد ہے:

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی ، فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَأْوٰی (۱)

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے اور جنت انہی کا مقام ہے۔

خدا کے حکم کی مخالفت کا خوف عقل کی قوت سے ایجاد ہوتاہے انسان جتنا زیادہ عقلمند ہو گا اور اپنی تجربی عقل میں جتنا زیادہ اضافہ کرے گا ،اتنا ہی اس میں خدا کے قوانین کی مخالفت کا خوف زیادہ ہو جائے گا اور وہ اتنا ہی زیادہ ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی کی مخالفت کرے گا۔

--------------

[۱]۔ سورۂ نازعات، آیہ:۴۰،۴۱

۲۶

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''قٰاتِلْ هَوٰاکَ بِعَقْلِکَ'' (۱)

اپنی ہوا و ہوس کو عقل کے ذریعہ نابود کرو۔

اس بناء پر انسان کی عقل جتنی کامل اور زیادہ ہو گی ،اس میں نفس کی مخالفت اور نفسانی خواہشات کو مارنے کی قدرت  بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اسے بہتر طریقے سے خودشناسی حاصل ہو گی۔

آپ عقل کی قوت سے استفادہ اور تجربی عقل میں اضافہ کے ذریعے اپنے امور اور پروگرام میں اچھی طرح غور وفکر کر سکتے ہیں اور اسے مکتب اہلبیت علیھم السلام کے ساتھ تطبیق دے سکتے ہیں۔غور و فکر    سے آپ کی عقلی قدرت کو تقویت ملے گی اور آپ میں خودشناسی اور خودسازی کے لئے آمادگی پیدا ہو گی اور خدا کے حکم کی مخالفت کا خوف بھی زیادہ ہو گا اور آپ زیادہ قوت و طاقت سے نفس کی مخالفت کر پائیں گے۔

--------------

[۱] ۔بحار  الانوار:ج۱ص۱۹۵  اور  ج۷۱ص۴۲۸

۲۷

۳۔ اپنے باطن اور ضمیر کو پاک کرنا

ہمیں خودسازی کے لئے نہ صرف اپنے ضمیر کو معارف اہلبیت علیھم السلام سے منور کرنا چاہے  بلکہ اپنے وجود کی گہرائیوں کو دشمنان دین کی چاہت سے بھی پاک کرناچاہئے اور اپنے ضمیر کو اہلبیت ولایت و عصمت علیھم السلام  کے تابناک انوار سے روشن کرنا چاہئے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام خدا کو مخلوق سے تشبیہ دینے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

''لَمْ یَعْقَدْ غَیْبَ ضَمِیْرِهِ عَلٰی مَعْرِفَتِکَ'' (۱)

اپنے پوشیدہ ضمیر کو اپنی معرفت کا پیوند نہیں لگایاہے۔

اس بناء پر انسان کو نہ صرف ظاہری شعور و ضمیر سے آگاہ ہونا چاہئے بلکہغائب اور پوشیدہ ضمیر سے بھی آگاہ ہونا چاہئے ۔خود سازی اور خود شناسی کے لئے انسان کو ضمیر اور شعور کے دونوں مرحلوں کو پاک کرنا چاہئے ۔

--------------

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۷۷ ص۳۲۰

۲۸

 خودشناسی کے موانع

۱۔ ناپسندیدہ کاموں کی عادت خودشناسی کی راہوں کو مسدود کر دیتی ہے:

کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ ہم اپنے وجود میں روحانی طاقت سے غافل ہونے کی وجہ سے اس سے استفادہ نہ کریں اور اسے برے اور بیکار کاموں کا عادی بنا لیں؟!

مکتب اہلبیت علیھم السلام کی نظر میں سب سے بہترین عبادت ناپسندیدہ اور بری عادتوں پر غلبہ پانا ہے؛کیونکہ کسی بھی کام کا عادی ہو جانا انسان پر فطرت ثانوی کے حاکم ہونے کی مانند ہے ۔

اسی لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام عادت کو فطرت ثانویہ کا نام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اَلْعٰادَةُ طَبْعُ ثٰانٍ'' (۱)

عادت فطرت ثانوی ہے۔

اسی لئے جب انسان کسی چیز کا عادی ہو جائے تو وہی چیز انسان پر حاکمہوجاتی ہے ۔اسی وجہ سے کسی برے اور ناپسندیدہ کام کا عادی شخص اگر خود کو برے کاموں سے نجات دے تو گویا اس نے افضل ترین عبادت انجام دی ہے ۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم: ج۱ص۱۸۵          

۲۹

حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام اپنے ایک مختصر کلام میں فرماتے ہیں:

''اَفْضَلُ الْعِبٰادَةِ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (۱)

سب سے افضل عبادت عادت پر غالب آنا ہے۔

کیونکہ برے اور ناپسندیدہ کاموں پر غالب آنے سے روحانی کمالات تک پہنچنے کے راستے کھل جاتے ہیں اور عالی ترین معنوی مقامات تک پہنچنے کا وسیلہ فراہم ہو جاتا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''بِغَلَبَةِ الْعٰادٰاتِ أَلْوُصُوْلُ اِلٰی أَشْرَفِ الْمَقٰامٰاتِ'' (۲)

عادتوں پر غلبہ پانے سے عظیم مقامات حاصل ہوتے ہیں۔

صرف گناہوں کا عادی ہونا ہی نہیں بلکہ ہر قسم کا بیہودہ اور ناپسندیدہ کام ترقی  اور زندگی کے دوسرے اہم امور تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔انسان کو چاہئے کہ وہ روحانی قوتوں کے  حصول کے لئے ناپسندیدہ عادتوں کی پیروی سے اجتناب کرے تا کہ کمالات کے عالی مراحل تک پہنچ سکے۔مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''غَیْرُ مُدْرِکِ الدَّرَجٰاتِ مَنْ أَطٰاعَ الْعٰادٰاتِ'' (۳)

جو کوئی اپنی عادتوں کی اطاعت کرے ، وہ بلند درجات تک نہیں پہنچ سکتا۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم: ج۲ص۳۷۵           

[۲] ۔ شرح غرر الحکم: ج۳ص۳۸۲

[۳] ۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص۳۸۲

۳۰

کیونکہ کوئی بھی عادت انسان کو زنجیر کی طرح قید کر لیتی ہے اور پھر ترقی کے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہتااور  بلند معنوی درجات تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس بناء پر کمال کے مراحل تک پہنچنے کے لئے ہر قسم کی بری عادتوں اور ناپسندیدہ امور کو ترک کرنا لازم اور ضروری ہے تا کہ انسان آسانی سے روحانی تکامل تک پہنچ سکے۔

حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''غَیِّرُوا الْعٰادٰاتِ تَسْهُلَ عَلَیْکُمُ الطّٰاعٰاتِ'' (۱)

عادتوں کو تبدیل کرو (یعنی بری عادتوں کو ترک کر دو)تا کہ اطاعت(خداوندی) تمہارے لئے آسان ہو سکے۔

اس فرمان سے یہ استفادہ کیا جا سکتا ہے خدا کے احکامات کی پیروی کو مشکل بنانے کے لئے شیطان اور نفس کا ایک حربہ انسان کو برے کاموں کا عادی بنا دینا ہے۔اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ احکامات الٰہی کی آسانی سے پیروی کے لئے شیطان اور نفس کے اس حربہ سے ہوشیار  اور باز رہے تا کہ آسانی سے خدا کے احکامات کی پیروی کر سکے اور مکتب اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی رہنمائی سے انسانیت کے بلند درجوں تک پہنچ سکے۔

گلی کہ تربیت  ز  دست  باغبان  نگرفت

اگر بہ چشمۂ خورشید سرکشد خود روست

ہر انسان کے پاس بے شمار سرمایہ ہوتاہے کہ جس سے استفادہ کرناچاہئے لیکن بیہودہ اور ناپسندیدہ عادتیں اس سرمایہ کو قید  کر دیتی ہیں جو انسان کی قدرت و توانائی کو مزید قوت و طاقت بخشنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص۳۸۱

۳۱

بری عادت کا عادی ہو جانے والا انسان ایسے سرمایہ دار شخص کی طرح ہوتاہے کہ جس نے اپنے اموال کو ضائع کر دیا ہو ۔ایسا انسانجب تک اپنے سرمایہ کو آزاد نہ کر الے اسے حسرت و ناامیدی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔جس طرح انسان اپنے سرمایہ اور اموال کو مقید حالت سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح سے اسے خود کو بری عادتوں سے نجات دلانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے ۔

لیکن افسوس کہ اب انسانی معاشرے نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی عظیم روحانی توانائیوں کو قید کر رکھا ہے ۔ایک گروہمعاشرے کو صرف مادّی امور میں ہی ترقی دلانے کے لئے کوشاں ہے تو دوسرا گروہ کمزور ممالک کے اموال و وسائل پر قبضہ جمانے کے لئے ۔حالانکہ یہ سب خود کو انسان دوست اورحقوق بشر کے حامی سمجھتے ہیں!!

۳۲

۲۔ خود فراموشی

اگر انسان کے علم کا منبع وحی الٰہی ہوتو اس  کے علم میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا اتنی ہی اس کی توجہ پاکسازی اور تہذیب نفس کی طرف بڑھتی جائے گی۔ کیونکہ اگر علم کا منبع و سرچشمہ صحیح ہو اور خدا کے لئے علم حاصل کیا جائے تو یہ نفس کی آلودگی کے ساتھ ساز گار نہیں ہے ۔اسی لئے ہر عالم رباّنی نفس کی مخالفت اور تہذیب  و اصلاح نفس کی کوشش کرتا ہے۔

امیر المؤمنین  حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

کُلَّمٰا اَزْدٰادَ عِلْمُ الرِّجٰالِ زٰادَتْ عِنٰایَتُهُ بِنَفْسِهِ وَ بَذَلَ فِْ رِیٰاضَتِهٰا (۱)

انسان کا علم جتنا زیادہ ہو  جائے ، اس کی نفس کی طرف توجہ بھی زیادہ ہو جاتی ہے  اور وہ اس کی ریاضت میں زیادہ توجہ کرتا ہے۔

اس بناء پر علم و آگاہی انسان کو خودسازی اور خودشناسی کی دعوت دیتی ہے اور نفس سے مربوط مسائل میں غفلت و فراموشی سے باز رکھتی ہے۔

--------------

[۱] ۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص۶۲۱

۳۳

 خودفراموشی کے دو عوامل، جہل اور یاد خدا کو ترک کرنا

خود کو پہچاننے والے افراد کے مقابل میں ایسے بھی افراد ہیں کہ جو نفس کی شگفتگی اور اس کے آثار سے بے خبر ہیں اور انہیں زندگی کے مسائل کی کوئی خبر نہیں ہے۔اسی لئے وہ اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور تہذیب نفس کی کوشش نہیں کرتے۔اسی وجہ سے وہ خود شناسی کی عظیم نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔

سنگی و گیاہی کہ در اوخاصیتی ھست

زان آدمی بہ ، کہ در او منفعتی نیست

مولائے کائنات حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''مَنْ جَهَلَ نَفْسَهُ أَهْمَلَهٰا'' (۱)

جو کوئی اپنے نفس سے جاہل ہو ،وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

اس بناء پر خود فراموشی کے عوامل میں سے ایک نفس کے حیاتی مسائل سے جہالت اور علم و آگاہی کا نہ ہونا ہے ۔انسان کا علم اہلبیت علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کی روشنی میں جتنا زیادہ ہو گا ،اتنا ہی وہ ان مسائل کی طرف زیادہ متوجہ ہو گا۔

خود فراموشی اور نفس کو بے لگام چھوڑ دینے کی دوسری وجہ گناہ انجام دینا اور خدا  و اولیائے خدا کی یاد کو ترک کرنا ہے۔

--------------

[۱] ۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ ص۱۷۸

۳۴

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اہلبیت  اطہار علیھم السلام کی یاد خدا کی یاد ہے اور ان کو بھلا دینا خدا کو بھلا دینا ہے ۔کیونکہ جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''اِذٰا ذُکِرْنٰا ذُکِرَ اللّٰهِ '' (۱)

جب ہمیں(خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام ) یاد کیا جائے تو خدا گو یاد کیا گیاہے۔

خدا ور اہلبیت علیھم السلام کی یاد کو چھوڑ دینا ،انسان کو زندگی کے اہم مسائل سے غافلکر دیتا ہے اور عظیم معنوی حقائق سے بھی دور کر دیتا ہے  اورا نسان کو خودفراموشی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

 اس بارے میں خداوند متعال کا ارشاد ہے:

(وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ) (۲)

اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو بھلادیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی بھلا دیا اور وہ سب واقعی فاسق اور بدکار ہیں ۔

پس گناہ اور خدا اور خدا کے احکامات کو بھلا دینا انسان کو خود فراموشی میں گرفتار کر دیتاہے۔اس بناء پر خودشناسی کے لئے خودسازی کی کوشش کریں اور خود سازی کے لئے خود فراموشی کو چھوڑیں  اور خودفراموشی کو ترک کرنے کے لئے جہل و نادانی ،خدا اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کی یاد کو  ترک نہ کریں ۔

--------------

[۱] ۔ بحارالانوار: ج۷۲ ص۲۵۸، اصول  کافی: ج۲ص۱۸۶

[۲]۔ سورہ  حشر، آیت:۱۹

۳۵

پس علم و دانش اور خدا و اولیائے خدا کی یاد انسان کوخودفراموشی سے  دور رکھتی ہے ۔خود فراموشی کو چھوڑ کر خودسازی تک پہنچ سکتے ہیںاور خودسازی سے خودشناسی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔لیکن اگر ہم اپنے نفس کو ہی نہ پہچان سکیں تو ہم راہ نجات سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ لَمْ یَعْرِفْ نَفْسَهُ بَعُدَ عَنْ سَبِیْلِ النَّجٰاةِ وَ خَبَطَ فِ الضَّلاٰلِ وَ الْجَهٰالاٰتِ '' (۱)

جو کوئی اپنے نفس کو نہ پہچان سکے ،وہ راہ نجات سے دور ہو جائے گا اور گمراہی و جہالت میں مبتلا ہو جائے گا۔

اس وجہ سے خود شناسی اور معرفت نفس کی عظمت کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ مَعْرِفَةَ کَمَعْرِفَتِکَ بِنَفْسِک'' (۲)

کوئی بھی معرفت تمہارے نفس کی معرفت کی طرح نہیں ہے۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم: ج۵ ص۴۲۶

[۲]۔ بحار الانوار: ج۷۹ص۱۶۵، تحف العقول:۲۸۴

۳۶

 نتیجۂ بحث

روحانی مسائل میں تکامل کے لئے ہمیں خودشناسی کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔جیسا کہ ہم خاندان وحی علیھم السلام  کی تعلیمات سے سیکھتے ہیں کہ جسے اپنے نفس کی معرفت اور خودشناسی حاصل ہو جائے گویا وہ بلند مقام تک پہنچ کر مفید ترین معارف سے آگاہ ہوا ہے۔

اپنے نفس کو پہچانیں اور اس کی قدرت و طاقت اور توانائیوں سے آگاہی حاصل کریں ۔ کوشش کیجئے کہ اپنی قوت کو شیاطین کے تسلط سے رہا کریں اور اپنے روحانی سرمایہ کو بیگانوں کے ہاتھوں قید سے نجات دلائیں۔

اپنی روحانی قوت کے حقیقی دشمنوں کو پہچانیں اور ان کے ساتھ برسر پیکار آنے سے کمالات کے بلند درجوں تک پہنچیں۔ہوا و ہوس اور بے فائدہ زندگی اور بیہودہ کاموں کی عادت روح کے خطرناک ترین دشمن ہیں جو آپ  کی روحانی قوتوں کو اپنا اسیر بنا لیتے ہیں۔

غور وفکر ، پختہ ارادے ،ہمت،ایمان و یقین اور ایسی ہی دوسری قوتوں کے ذریعے اپنی روح کو ایسے دشمنوں کی قید سے نجات دلائیں اور ان قوتوں کو تقویت دینے سے خودشناسی تک پہنچیں اور روح اور کمال کے بلند درجوں کی طرف پرواز کریں۔

ای نقد اصل و فرع ندانم چہ گوہری؟

کز آسمان بر تر و از خاک کمتری!

۳۷

دوسراباب

معارف  سے  آشنائی

حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں :

'' اَلْمَعْرِفَةُ بُرْهٰانُ الْفَضْلِ ''

معرفت ،فضیلت کی دلیل ہے۔

    اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

    معارف کا ایک گوشہ

    معارف کہاں سے سیکھیں

    عارف نما لوگو ں کی شناخت

    عرفاء کی شناخت

    عرفاء کی صفات

    صاحبان معرفت کی صحبت

    عرفانی حالت میں تعادل و ہماہنگی کا خیال رکھنا

    نتیجۂ بحث

۳۸

اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

اعتقادات اور معارف کی بحثوں میں سے ایک اہم بحث امام علیہ السلام کے مقام و منزلت کی معرفت ہے  جوہم سب پر لازم و واجب ہے ۔جہاںتک ہو سکے ہمیں اپنی توانائی کے مطابق آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام اور امام کی معرفت حاصل کرنی چاہئے۔یہ سب کی ایک عمومی ذمہ داری ہے ۔اس کا لزوم مسلّم و ثابت ہے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے زید نامی شخص سے فرمایا:

''اَتَدْرِ بِمٰا اُمِرُوا؟اُمِرُوا بِمَعْرِفَتِنٰا  وَ الرَّدَّ اِلَیْنٰا وَ التَّسْلِیْمِ لَنٰا'' (۱)

کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کس چیز کا حکم دیاگیا ہے ؟انہیں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیں پہچانیں اور اپنے عقائد کوہماری طرف منسوب کریں اور ہمارے سامنے تسلیم ہو جائیں۔

اس بناء پر معارف کے باب میں ایک اہم مسئلہ ا نسان کاآئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت حاصل کرنا اور ان کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے ۔معصومین علیھم السلام کے فرامین اور ارشادات میں غور و فکر کریں تا کہ ان ہستیوں کی عظمت کو سمجھ سکیں ۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج ۲ص۲۰۴

۳۹

آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت میں اضافہ کے لئے ابو بصیر کی ایک بہترین روایت بیان کرتے ہیں جو انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

قٰالَ :دَخَلْتُ فِ الْمَسْجِدَ مَعَ اِبِ جَعْفَرٍ علیه السلام وَ النّٰاسُ یَدْخُلُوْنَ  وَ یَخْرُجُوْنَ فَقٰالَ لِی:سَلِ النّٰاسَ هَلْ یَرَوْنَنِ؟فَکُلُّ مَنْ لَقَیْتُهُ قُلْتُ لَهُ :أَرَأَیْتَ أَبٰا جَعْفَرٍ علیه السلام؟فَیَقُوْلُ :لاٰ وَ هُوَ وٰاقِف حَتّٰی دَخَلَ اَبُوْ هٰارُوْنِ الْمَکْفُوْفُ ،قٰالَ:سَلْ هٰذٰا فَقُلْتُ:هَلْ رَأَیْت اَبَا جَعْفَرٍ؟فَقٰالَ أَلَیْسَ هُوَ قٰائِماً ،قٰالَ:وَمٰا عِلْمُکَ؟قٰالَ :وَ کَیْفَ لاٰ أَعْلَمُ وَهُوَ نُوْر سٰاطِع

قٰالَ:وَ سَمِعْتُهُ یَقُوْلُ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْاَفْرِیْقِیَّةِ:مٰا حٰالُ رٰاشِدٍ؟

قٰالَ:خَلَّفْتُهُ حَیًّا صٰالِحًا یُقْرِؤُکَ السَّلاٰمُ قٰالَ:رَحِمَهُ اللّٰهُ  

قٰالَ:مٰاتَ؟قٰالَ:نَعَمْ،قٰالَ:وَ مَتٰی؟قَالَ بَعْدَ خُرُوْجِکَ بِیَوْمَیْنِ :

قٰالَ وَاللّٰهِ مٰا مَرَضٍ وَ لاٰ کٰانَ بِهِ عِلَّة قٰالَ:اِنَّمٰا یَمُوْتُ مَنْ یَمُوْتُ مِنْ مَرَضٍ اَوْ عِلَّةٍقُلْتُ مَنِ الرَّجُلُ؟قٰالَ:رَجُل کٰانَ لَنٰا مُوٰالِیًا وَ لَنٰا مُحِبًّا

ثُمَّ قٰالَ:لَئِنْ تَرَوْنَ اَنَّهُ لَیْسَ لَنٰا مَعَکُمْ اَعْیُن نٰاظِرَة اَوْاَسْمٰاع سٰامِعَة، لَبِئْسَ مٰا رَأَیْتُمْ ،وَاللّٰهِ لاٰ یَخْفٰی عَلَیْنٰا شَیْئ مِنْ أَعْمٰالِکُمْ ،فَاحْضِرُوْنٰا جَمِیْعًا وَ عَوِّدُوا اَنْفُسَکُمْ الْخَیْرَ ، وَ کُوْنُوْا مِنْ اَهْلِهِ تُعْرَفُوْا فَاِنِّ بِهٰذٰا اٰمُرُ وُلْدِ وَ شِیْعَتِ''(۱)

ابو بصیر کہتے ہیں :میں امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا جب کہ وہاں پر لوگوں کی رفت و آمد تھی۔

امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:لوگوں سے پوچھو کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟

میں ہر ایک سے ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے امام باقر علیہ السلام کو دیکھا ہے؟انہوں نے کہا نہیں۔یہاںتک کہ وہاں ابو ہارون نامی ایک نابینا شخص آیا ۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:۴۶،خرائج:ج۲ص۵۹۵ح ۷

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

مسئلہ ٧٣١ اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تيمم کرے ليکن بعدميں کسی ایسی صورت سے دوچارہو جو وضو کو باطل کردیتی ہو اور بعدکی نمازوں کے لئے غسل بھی نہ کرسکتاہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے تيمم کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔ جنابت کے علاوہ حيض، نفاس اور مسِ ميت جيسے حدثِ اکبرکے بدلے تيمم کا بھی یهی حکم ہے ، مگریہ ضروری ہے کہ وضو بھی کرے۔

مسئلہ ٧٣٢ جس شخص پر کوئی کا م انجام دینے، مثلا نماز پڑھنے کے لئے، وضو اور غسل کے بدلے تيمم کرنا ضروری ہو، اس کے لئے ضروری نہيں ہے کہ ایک تيسرا تيمم اس نيت سے بھی انجام دے کہ اس کام کو انجام دے سکوں۔ ہاں، اگر وہ پهلے تيمم ميں وضو یا غسل کے بدلے تيمم کی نيت کرے اور دوسرے تيمم کومافی الذمّہ کی نيت سے انجام دے تو یہ احتياط کے مطابق ہے ۔

مسئلہ ٧٣٣ جس شخص کا فریضہ تيمم ہو اگر وہ کسی کا م کے لئے تيمم کرے تو جب تک اس کا تيمم اور عذرباقی ہے وہ ان کا موں کوانجام دے سکتاہے جنہيں وضو یا غسل کرکے انجام دیناضروری ہے ، ليکن اگر اس کا عذروقت کی تنگی ہو یا پانی ہو تے ہو ئے نمازِ ميّت یا سونے کے لئے تيمم کيا ہو تو اس تيمم سے فقط ان کا موں کوانجام دے سکتاہے جن کے لئے اس نے تيمم کيا ہے ۔

مسئلہ ٧٣ ۴ چندصورتو ں ميں بہترہے کہ انسان نے جونماز یں تيمم کے ساته پڑھی ہو ں ان کی قضاکرے:

١) یہ کہ پانی کے استعمال سے ڈرتاہو اور عمداً خود کو جنب کر ليا ہو اور تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

٢) یہ جانتے ہو ئے یا اس بات کا گمان ہو تے ہو ئے کہ پانی حاصل نہ کرسکے گا عمدا خود کو جنب کيا ہو اور تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

٣) آخروقت تک عمداً پانی کی تلاش ميں نہ جائے اور تيمم کرکے نماز پڑھے اور بعدميں معلوم ہو کہ اگر جستجوکرتاتو اسے پانی مل جاتا۔

۴) عمداً نماز پڑھنے ميں تاخيرکی ہو اور آخروقت ميں تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

۵) یہ جانتے ہو ئے یا اس بات کا گمان ہو تے ہو ئے کہ پانی نہيں ملے گا، جو پانی اس کے پاس تھا اسے گرادیا ہو اور تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

۱۲۱

نماز کے احکام

نماز کے احکام بيا ن کرنے سے پهلے دو نکا ت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے :

اوّل)اہميتِ نماز : قرآن مجيد ميں تقریباً ایک سو مقامات پر نماز کے بارے ميں گفتگو ہو ئی ہے ، جن ميں سے صرف دو مقامات کی طرف اشارہ کافی ہے :

١) خداوندمتعال نے حضرت ابراہيم عليہ السلام کو مقام نبوت و رسالت اور خلت عطا کرنے کے بعد جب چند کلمات ميں آزمایا اور حضرت ابراہيم عليہ السلام نے ان کلمات کو پورا کر دیا تو مقام امامت عنایت ہو ا اور ان تمام مقامات کے ہوتے ہوئے آپ عليہ السلام کی نظر ميں مقام امامت کی عظمت اتنا زیا دہ اہم تھی کہ( قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ) (عرض کی اور ميری اولاد ميں سے؟) جواب ملا( لاَ یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِيْنَ ) (ميرے اس عهد پر ظالموں ميں سے کوئی شخص فائز نہيں ہو سکتا) اور نماز کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ شخص جس کے لئے خداوند متعال مقام امامت کو پيش کر رہا ہے اور وہ اپنی ذریت کے لئے بھی اسے مانگ رہا ہے ، تمام مقامات طے کرنے کے بعد جوارِ خانہ خدا ميں درخواست کر رہا ہے( رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِيْمَ الصَّلوٰةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ) (پروردگارا! مجھے نماز قائم کرنے والا قرار دے، اور ميری ذریت ميں سے بهی)

اور اسی طرح اپنی ذریت کو کعبہ کے ساته بسانے کے بعد کها( رَبَّنَّا اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ )

(اے ہمارے پروردگار! ميں اپنی کچھ ذریت کو ایک بے آب و گياہ وادی ميں تيرے حرمت والے گہر کے کنارے آباد کر رہا ہوں، اے ہمارے پروردگار! تاکہ یہ نماز قائم کریں)

٢) قرآن مجيد ميں ”مومنون“ کے نام سے سورہ ہے جس ميں مومنين کا تعارف کچھ خصوصيا ت کے ذریعے کروایا گيا ہے ۔ سب سے پهلی خصوصيت جس سے ابتدا ہو ئی ہے وہ یہ ہے کہ( اَلَّذِیْنَ هم فِیْ صَلاَ تهم خَاشِعُوْنَ ) (یہ وہ لوگ ہيں جو اپنی نمازوں ميں خاشعين ہيں )، جب کہ آخری خصوصيت جس پر اختتام ہوا ہے یہ ہے( وَالَّذِیْنَ هم عَلیٰ صَلَوَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ ) (اور یہ وہ لوگ ہيں جو اپنی نمازوں کے محافظ ہيں )

پس ایمان کا آغاز و اختتام نماز پر ہے اور اس کا نتيجہ بھی یہ آیت ہے( اُوْلٰئِکَ هم الْوَارِثُوْنَ الَّذِیْن یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هم فِيْهَا خَالِدُوْنَ )

۱۲۲

اور سنت سے اسی قدر بيا ن کرنابس ہے کہ حضرت امام صادق عليہ السلام سے روایت ہو ئی ہے کہ آپ عليہ السلام فرماتے ہيں : ”ميں معرفت خدا کے بعد، کسی دوسری چيز کو نہيں پہچانتا جو نماز پنجگانہ سے افضل ہو۔“ حضرت عليہ السلام کا عدمِ علم در حقيقت عدم کے بارے ميں علم ہے اور یہ روایت کلام خدا کو ہی بيا ن کر رہی ہے کہ خداوندمتعال قرآن مجيد ميں فرماتا ہے ذ( ٰلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْب فِيْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ الَّذِیْنَ یُو مِْٔنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَیُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ ) کہ غيب پر ایمان کے بعد، قيا مِ نماز کا تذکرہ ہے ۔

نماز کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ساری عبادات ميں نماز سے زیا دہ جامع عبادت کوئی نہيں ہے کيونکہ یہ وہ عبادت ہے جو فعلی عبادت اور قولی عبادت پر مشتمل ہے ۔ فعلی عبادت ميں رکوع، سجود، قيا م اور قعود جيسے افعال عبادی شامل ہيں ، جب کہ قولی عبادت ميں قرائت و ذکر شامل ہيں ۔ اس عبادت ميں تسبيح، تکبير، تحميد اور تهليل جيسے تمام معارف الهيہ موجود ہيں جو معرفت حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کے ارکا ن اربعہ ہيں ۔یہ عبادت ملائکہ مقربين کی تمام عبادات پر مشتمل ہے کہ ان ميں سے بعض کی عبادت قيا م ہے اور بعض قعود ميں ہيں ، کچھ رکوع ميں اور کچھ سجود ميں ہيں ۔

روایا ت ميں نماز کے لئے جو عناوین ذکر ہو ئے ہيں وہ بہت زیا دہ ہيں ان ميں سے بعض عناوین یہ ہيں :

رَا سُْٔ الدِّیْنِ، و آخِرُ وَصَایَا الْا نَْٔبِيَاءِ، وَ ا حََٔبُّ الْاَعْمَالِ، وَ خَيْرُ الْا عَْٔمَالِ، وَ قِوَامُ الْاِسِلاَمِ، وَ اسْتِقْبَال الرَّحْمٰنِ، مِنْهَاجُ الْاَنْبِيَاءِ وَ بِه یَبْلُغُ الْعَبْدُ اِلیَ الدَّرَجَةِ الْعُلْيا

دوم)انسان کو اس بات کا خيا ل رکھنا چاہئے کہ نماز جلدبازی اور تيز رفتاری سے نہ پڑھے، بلکہ یاد خدا کے ساته خضوع و خشوع اور وقار سے نماز پڑھے اور متو جہ رہے کہ کس هستی کے ساته ہم کلام ہے اور اپنے آپ کو خداوندعالم کی عظمت و بندگی کے مقابلے ميں حقير و ناچيز سمجھے۔

علاوہ از ایں، نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ تو بہ و استغفار کرے اور نماز کی قبوليت ميں رکاوٹ بننے والے گناہوں مثلاً حسد، تکبّر، غيبت، حرام کھانا، نشہ آور اشياء کا استعمال اور خمس و زکوٰة کا ادانہ کرنا، بلکہ تمام گناہوں کو ترک کردے۔

اسی طرح ضروری ہے کہ نماز کا ثواب گھٹانے والے کاموں کو انجام نہ دے مثلاً اونگھنے کی حالت ميں اور پيشاب روک کر نماز نہ پڑھے، نماز کے وقت آسمان کی جانب نہ دیکھے اور ایسے کا م انجام دے جو نماز کا ثواب بڑھاتے ہيں ، مثلاً عقيق کی انگوٹھی اور پاکيزہ لباس پهنے، کنگهی اور مسواک کرے، نيز خوشبو لگائے۔

۱۲۳

واجب نماز يں

چھ نماز یں واجب ہيں :

١) روزانہ کی نماز یں اورنماز جمعہ بھی ان ميں سے ہے ۔

٢) نمازِ آیا ت۔

٣) نمازِ ميّت، اس بنا پر کہ اس پر حقيقت ميں نماز کا اطلاق ہو، اگر چہ یہ نماز بھر صورت واجب ہے ۔

۴) خانہ کعبہ کے واجب طواف کی نماز ۔

۵) باپ کی قضا نماز یں جو بڑے بيٹے پر واجب ہيں ۔

۶) جو نمازیں اجارہ، نذر، قسم، عهد اور عقد کے ضمن ميں شرط سے واجب ہو تی ہيں ۔

روزانہ کی واجب نماز يں

جمعہ کے علاوہ روزانہ کی نمازیں پانچ ہيں : ظہر و عصر ہر ایک چار رکعت، مغرب تين رکعت، عشا چار رکعت اور فجر دو رکعت۔

مسئلہ ٧٣ ۵ سفر اور خوف ميں ضروری ہے کہ انسان چار رکعتی نماز یں ان شرائط کے ساته جو بعد ميں بيا ن ہو ں گی، دو رکعت پڑھے۔

ظهر اور عصر کی نماز کا وقت

مسئلہ ٧٣ ۶ اگر لکڑی یا اس جيسی کسی سيدهی چيز کو، جسے شاخص کہتے ہيں ، ہموار زمين ميں سيدها گاڑا جائے تو صبح سورج طلوع ہوتے وقت اس کا سایہ مغرب کی طرف پڑتا ہے اور جوں جوں سورج اُونچا ہو تا جاتا ہے اس کا سایہ گھٹتا جاتا ہے اور ہمارے شهروں ميں ظہر شرعی کے وقت کمی کے آخری درجے پر پهنچ جاتا ہے ۔ ظہر گزرنے کے بعد اس کا سایہ مشرق کی جانب ہو جاتا ہے اور جوں جوں سورج مغرب کی طرف ڈهلتا ہے سایہ بڑھتا جاتا ہے ۔

لہذا، جب سایہ کمی کے آخری درجے تک پهنچ کر دوبارہ بڑھنے لگے تو پتہ چلتا ہے کہ ظہر شرعی کا وقت ہو چکا ہے ، ليکن بعض شهروں ميں جهاں بعض اوقات ظہر کے وقت سایہ بالکل ختم ہو جاتا ہے ، جب سایہ دوبارہ ظاہر ہو تا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کا وقت ہو چکا ہے ۔

مسئلہ ٧٣٧ نماز ظہر و عصر کا وقت زوال سے غروبِ آفتاب تک کا درميانی وقت ہے ، ليکن اگر کوئی شخص جان بوجه کر نماز عصر کو ظہر کی نماز سے پهلے پڑھے تو وہ نماز باطل ہے ۔ ہاں، اگر آخری وقت ميں ایک نماز سے زیا دہ پڑھنے کا وقت باقی نہ ہو، تو اس صورت ميں جس شخص نے اس وقت تک نماز ظہر نہ پڑھی ہو، ضروری ہے کہ پهلے نماز عصر پڑھے اور اس کے بعد نماز ظہر کی قضا

۱۲۴

کرے۔ البتہ، اگر کوئی شخص اس وقت سے پهلے غلطی سے عصر کی پوری نماز ظہر سے پهلے پڑھ لے تو اس کی نماز صحيح ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ اس نماز کو نماز ظہر قرار دے اور دوسری چار رکعت مافی الذمہ کی نيت سے پڑھے۔

مسئلہ ٧٣٨ اگر کوئی شخص ظہر کی نماز پڑھنے سے پهلے غلطی سے عصر کی نماز پڑھنا شروع کردے اور نماز کے دوران اسے معلوم ہو کہ اس سے غلطی ہو ئی ہے تو ضروری ہے کہ نيت کو نماز ظہر کی طرف پهير دے یعنی نيت کرے جو کچھ پڑھ چکا ہو ں اور پڑھ رہا ہو ں اور پڑہوں گا وہ تمام کی تمام نماز ظہر ہے اور نماز مکمل کرنے کے بعد عصر کی نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧٣٩ نماز جمعہ امام معصوم عليہ السلام یا آپ عليہ السلام کی جانب سے منصوب آپ عليہ السلام کے نائب کے ہو تے ہو ئے واجب تعينی ہے اور غيبت کے زمانے ميں مکلّف کو اختيار ہے کہ نماز ظہر پڑھے یا شرائط کے ہو تے ہو ئے، نماز جمعہ پڑھے۔ احوط نماز ظہر کا پڑھنا ہے اور افضل نماز جمعہ ہے ۔

مسئلہ ٧ ۴ ٠ نماز جمعہ کا وقت محدود ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ یقين، اطمينان یا وقت ہوجانے کی دوسری نشانيوں کے ذریعے، ظہر شرعی ثابت ہونے کے بعد، تاخير نہ کریں۔

مغرب و عشا کی نماز کا وقت

مسئلہ ٧ ۴ ١ احتياطِ واجب یہ ہے کہ نماز مغرب کی ادائيگی ميں سورج کے غروب ہو نے کے بعد اتنی تاخير کریں کہ مشرق سے ظاہر ہو نے والی سرخی انسان کے سر پر سے گزر جائے۔

مسئلہ ٧ ۴ ٢ مغرب اور عشا کی نماز کا وقت صاحبِ اختيار شخص کے لئے آدهی رات تک رہتا ہے ، ليکن جو شخص نيند، بھول جانے، حيض یا اس کے علاوہ کسی اوروجہ سے آدهی رات تک نماز نہ پڑھ سکے تو اس کے لئے صبح صادق تک ہے ۔

نماز عشا کو نماز مغرب کے بعد پڑھنا ضروری ہے ، لہٰذا اگر جان بوجه کر مغرب کی نماز سے پهلے پڑھی جائے تو باطل ہے ، ليکن اگر عشا کی نماز ادا کرنے کی مقدار سے زیا دہ وقت باقی نہ رہا ہو تو اس صورت ميں ضروری ہے کہ عشا کی نماز کو نماز مغرب سے پهلے پڑھا جائے۔

مسئلہ ٧ ۴ ٣ اگر کوئی شخص غلطی سے عشا کی نماز کو مغرب سے پهلے پڑھ لے اور نماز کے بعد متو جہ ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور ضروری ہے کہ نماز مغرب کو اس کے بعد بجالائے۔

مسئلہ ٧ ۴۴ اگر کوئی شخص نماز مغرب پڑھنے سے پهلے عشا کی نماز پڑھنے ميں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران اسے پتہ چلے کہ اس نے غلطی کی ہے اور ابهی وہ چوتھی رکعت کے رکوع تک نہ پهنچا ہو تو ضروری ہے کہ نماز مغرب کی طرف نيت پهيرلے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد عشا کی نماز پڑھے اور اگر چوتھی رکعت کے رکوع ميں جاچکا ہو تو ضروری ہے کہ اسے تو ڑ دے اور نماز مغرب پڑھنے کے بعد نماز عشا بجالائے۔

۱۲۵

مسئلہ ٧ ۴۵ نماز عشا کا وقت صاحب اختيار شخص کے لئے آدهی رات تک ہے اور احتياط واجب کی بنا پر رات کا حساب غروب کے وقت سے صبح کی اذان تک ہوگا نہ کہ سورج نکلنے تک۔

مسئلہ ٧ ۴۶ اگر کوئی شخص جان بوجه کر مغرب اور عشا کی نماز آدهی رات تک نہ پڑھے تو احوط یہ ہے کہ اذان صبح سے پهلے تک ادا اور قضاکی نيت کے بغير ان نماز وں کو ادا کرے۔

صبح کی نماز کا وقت

مسئلہ ٧ ۴ ٧ صبح کی اذان کے قریب مشرق کی جانب سے ایک سفيدی اُوپر اُٹھ تی ہے جسے فجرِ اوّل کها جاتا ہے اور جب یہ سفيدی پهيل جائے تو فجرِ دوم اور نماز صبح کا اوّل وقت ہے اور صبح کی نماز کا آخری وقت سورج نکلنے تک ہے ۔

اوقاتِ نماز کے احکام

مسئلہ ٧ ۴ ٨ انسان نماز ميں اس وقت مشغول ہو سکتا ہے جب اسے یقين یا اطمينان ہو کہ وقت داخل ہو گيا ہے یا دو عادل مرد یا ایک قابل اعتماد شخص جس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، خبر دے کہ وقت داخل ہو گيا ہے یا وقت شناس شخص جو قابل اطمينان ہو، وقت داخل ہو نے کا اعلان کرنے کے لئے اذان دے۔

مسئلہ ٧ ۴ ٩ اگر کوئی شخص عمومی عذر مثلاً بادل یا گرد و غبار، یا کسی ذاتی عذر مثلاً نا بينائی یا قيد خانے ميں ہونے کی وجہ سے، نماز کا اوّل وقت داخل ہو نے کے بارے ميں یقين یا شرعی گواہی حاصل نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھنے ميں اتنی تاخير کرے کہ اسے وقت داخل ہونے کے بارے ميں یقين یا شرعی گواہی حاصل ہو جائے۔

مسئلہ ٧ ۵ ٠ اگر مذکورہ بالا طریقوں سے کسی شخص کے لئے ثابت ہو جائے کہ نماز کا وقت ہو گيا ہے اور وہ نماز ميں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران اسے معلوم ہو کہ ابهی وقت داخل نہيں ہو ا تو اس کی نماز باطل ہے ۔ اسی طرح اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ اس نے ساری نماز وقت سے پهلے پڑھی ہے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

هاں، اگر نماز کے دوران معلوم ہو کہ وقت داخل ہو گيا یا نماز کے بعد اسے یہ پتہ چلے کہ نماز کے دوران وقت داخل ہو گيا تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٧ ۵ ١ اگر کوئی شخص اس بات کی جانب متو جہ نہ ہو کہ ضروری ہے کہ وقت داخل ہو نے کے ثابت ہو نے کے بعد انسان نماز ميں مشغول ہو اگر نماز کے بعد اسے معلوم ہو کہ اس نے ساری نماز وقت ميں پڑھی ہے تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر اسے یہ پتہ چل جائے کہ اس نے وقت سے پهلے نماز پڑھی ہے یا اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وقت ميں پڑھی ہے یا وقت سے پهلے پڑھی ہے یا نماز کے بعد پتہ چلے کہ نماز کے دوران وقت داخل ہو ا تھا تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۲۶

مسئلہ ٧ ۵ ٢ اگر کوئی شخص اس یقين یا اطمينان کے ساته نماز پڑھنے لگے کہ وقت داخل ہوگيا ہے اور نماز کے دوران شک کرے کہ وقت داخل ہو ا ہے یا نہيں تو اس کی نماز باطل ہے ۔ ليکن اگر نماز کے دوران اسے یقين یا اطمينان ہو کہ وقت داخل ہو گيا ہے اور شک کرے کہ نماز کی جتنی مقدار پڑھی ہے وہ وقت ميں پڑھی ہے یا نہيں تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٧ ۵ ٣ اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہو کہ نماز کے بعض مستحب اعمال ادا کرنے سے نماز کی کچھ مقدار وقت کے بعد پڑھی جائے گی تو ضروری ہے کہ ان مستحبات کو چھوڑ دے، مثلاً اگر قنوت پڑھنے کی وجہ سے نماز کا کچھ حصّہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے ہو تو ضروری ہے کہ قنوت نہ پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵۴ جس شخص کے پاس نماز کی فقط ایک رکعت ادا کرنے کا وقت ہو اس کی نماز ادا کی نيت سے ہو گی، البتہ ضروری ہے کہ نماز ميں اتنی تاخير نہ کرے۔

مسئلہ ٧ ۵۵ جو شخص سفر ميں نہ ہو اگر اس کے پاس غروب آفتاب تک پانچ رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ ظہر اور عصر کی دونوں نماز یں پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو ضروری ہے کہ عصر کی نماز پڑھے اور بعد ميں ظہر کی نماز قضا کرے۔ اسی طرح جس کے پاس کوئی عذر نہ ہو اگر آدهی رات تک اس کے پاس پانچ رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ مغرب اور عشا کی نماز پڑھے اور اگر وقت اس سے کم ہو تو ضروری ہے کہ صرف عشا کی نماز پڑھے اور بعد ميں مغرب پڑھے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ مغرب مافی الذمہ کی نيت سے ادا و قضا کی نيت کئے بغير پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵۶ جو شخص سفر ميں ہو اگر غروب آفتاب تک اس کے پاس تين رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو ضروری ہے کہ صرف عصر پڑھے اور بعد ميں نماز ظہر کی قضا کرے۔ اسی طرح جس مسافر کے پاس کوئی عذر نہ ہو اگر آدهی رات تک اس کے پاس چار رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ مغرب اور عشا کی نماز پڑھے۔ اگر اس اندازے کے مطابق بھی وقت نہ ہو ليکن نماز عشا پڑھنے کے ساته مغرب کی ایک رکعت کو آدهی رات ہونے سے پهلے درک کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ پهلے عشا کی نماز پڑھے اور اس کے بعد فوراً نماز مغرب بجالائے اور اگر اس سے بھی کم وقت ہو تو ضروری ہے کہ پهلے عشا اور پھر مغرب کی نماز پڑھے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ اسے ادا اور قضاء کی نيت کے بغير مافی الذمہ کی نيت سے پڑھے اور اگر عشا کی نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو جائے کہ آدهی رات ہو نے ميں ایک رکعت یا اس سے زیا دہ رکعات پڑھنے کا وقت باقی ہے تو اس کی نماز مغرب ادا ہے اور ضروری ہے کہ فوراً نماز مغرب ادا کرے۔

۱۲۷

مسئلہ ٧ ۵ ٧ مستحب ہے کہ انسان نماز کو اس کے اوّل وقت ميں پڑھے اور اس سے متعلق بہت زیا دہ تاکيد کی گئی ہے اور جتنا اوّل وقت کے قریب ہو بہتر ہے مگر یہ کہ تاخير کسی وجہ سے بہتر ہو مثلاً اس لئے انتظار کرے کہ نماز جماعت کے ساته پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵ ٨ جب انسان کے پاس کوئی ایسا عذر ہو کہ اگر اوّل وقت ميں نماز پڑھنا چاہے تو تيمم کر کے نماز پڑھنے پر مجبور ہو، اگر اسے علم ہو کہ اس کا عذر آخر وقت تک باقی رہے گا تو اول وقت ميں نماز پڑھ سکتا ہے ، ليکن اگر احتمال دے کہ اس کا عذر دور ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ عذر کے برطرف ہو نے تک انتظار کرے اور اگر اس کا عذر برطرف نہ ہو تو آخر وقت ميں نماز پڑھے۔

هاں، یہ ضروری نہيں کہ اس قدر انتظار کرے کہ صرف نماز کے واجب افعال انجام دے سکے بلکہ اگر اس کے پاس مستحباتِ نماز مثلاً اذان و اقامت اور قنوت کے لئے بھی وقت ہو تو وہ تيمم کر کے ان مستحبات کے ساته نماز ادا کرسکتا ہے ۔

تيمم کے علاوہ دوسری مجبوریوں کی صورت ميں اگر وہ عذر تقيّہ ہو تو اوّل وقت ميں نماز پڑھنا جائز ہے اور اسے دوبارہ پڑھنا بھی ضروری نہيں ہے ، خواہ وقت کے دوران اس کا عذر برطرف ہی کيوں نہ ہو جائے۔ جب کہ تقيّہ کے علاوہ اگر احتمال دے کہ اس کا عذر باقی رہے گا تو جائز ہے کہ اوّل وقت ميں نماز پڑھے، ليکن اگر وقت کے دوران اس کا عذر برطرف ہو جائے تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵ ٩ جو شخص نماز اور اس کی شکيات و سهویات کے مسائل کا علم نہ رکھتا ہو اور اس بات کا احتمال ہو کہ نماز کے دوران ان ميں سے کوئی مسئلہ پيش آئے گا اور کسی لازمی ذمہ داری یا ضروری احتياط کی خلاف ورزی ہوجائے گی،احتياط کی بنا پر انہيں سيکهنے کے لئے نماز تاخير سے پڑھے، ليکن اگر اسے اطمينان ہو کہ صحيح طریقے سے نماز پڑھ لے گا تو اوّل وقت ميں نماز پڑھ سکتا ہے ۔ پس اگر نماز ميں کوئی ایسا مسئلہ پيش نہ آئے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر کوئی ایسا مسئلہ پيش آجائے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ جن دوباتو ں کا احتمال ہو ان ميں سے کسی ایک پر عمل کرتے ہوئے نماز کو پورا کرے۔ ہاں، نماز کے بعد مسئلہ معلوم کرنا ضروری ہے تاکہ اگر اس کی نماز باطل ثابت ہو تو دوبارہ پڑھے اور اگر صحيح ہو تو دوبارہ پڑھنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٠ اگر نماز کا وقت وسيع ہو اور قرض خواہ بھی اپنے قرض کا مطالبہ کرے تو ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ پهلے قرضہ ادا کرے اور بعد ميں نماز پڑھے۔ اسی طرح اگر کوئی ایسا دوسرا واجب کا م پيش آجائے جسے فوراً بجالانا ضروری ہو مثلاً دیکھے کہ مسجد نجس ہو گئی ہے تو ضروری ہے کہ پهلے مسجد کو پاک کرے اور بعد ميں نماز پڑھے اور دونوں صورتو ں ميں اگر پهلے نماز پڑھے تو گنهگار ہے ، ليکن اس کی نماز صحيح ہے ۔

۱۲۸

وہ نماز يں جنهيں ترتيب سے پڑھنا ضروریہے

مسئلہ ٧ ۶ ١ ضروری ہے کہ انسان نماز عصر، نماز ظہر کے بعد اور نماز عشا کو نماز مغرب کے بعد پڑھے اور اگر جان بوجه کر نماز عصر، نماز ظہر سے پهلے یا نماز عشا کو نماز مغرب سے پهلے پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٢ اگر کوئی شخص نماز ظہر کی نيت سے نماز پڑھنا شروع کرے اور نماز کے دوران اسے یا د آئے کہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے تو وہ نيت کو نماز عصر ميں تبدیل نہيں کرسکتا بلکہ ضروری ہے کہ نماز تو ڑ کر عصر کی نماز پڑھے۔ مغرب و عشا ميں بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٣ اگر نماز عصر کے دوران کوئی شک کرے کہ اس نے نماز ظہر پڑھی ہے یا نہيں ، تو ضروری ہے کہ نيت کو نماز ظہر ميں تبدیل کر دے ليکن اگر وقت اتنا کم ہو کہ نماز ختم ہو نے کے بعد سورج غروب کر جائے گا اور ایک رکعت کے لئے بھی وقت باقی نہ ہو گا تو ضروری ہے کے نماز عصر کی نيت سے نماز کو پورا کرے اور اس بات پر بنا رکھے کہ نماز ظہر ادا کرچکا ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶۴ اگر کوئی شخص نماز عصر کے دوران اس یقين یا اطمينان پر کہ اس نے نماز ظہر نہيں پڑھی نيت کو ظہر ميں تبدیل کر دے، اگر کوئی عمل انجام دینے سے پهلے اسے یا د آجائے کہ ظہر کی نماز پڑھ چکا ہے تو ضروری ہے کہ باقی نماز کو عصر کی نيت سے پڑھے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔ اسی طرح جو کچھ انجام دے چکا ہو اگر وہ رکن نہ ہو تب بھی یهی حکم ہے ، ليکن اس صورت ميں قرائت اور ذکر وغيرہ جو ظہر کی نيت سے انجام دے چکا ہو ضروری ہے کہ انہيں دوبارہ عصر کی نيت سے بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان دونوں صورتو ں ميں نماز کو عصر کی نيت سے پورا کرے اور دوبارہ بھی پڑھے۔ ہاں، جو کچھ انجام دے چکا ہو وہ اگر ایک رکعت، رکوع یا دو سجدے ہو ں تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۶۵ اگر کوئی شخص نماز عشا ميں چوتھی رکعت کے رکوع سے پهلے شک کرے کہ اس نے نماز مغرب پڑھی ہے یا نہيں اور وقت اتنا کم ہو کہ نماز ختم کرنے کے بعد عشا کے لئے ایک رکعت نماز پڑھنے کا وقت بھی باقی نہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ عشا کی نيت سے نماز مکمل کرے اور اس بات پر بنا رکھے کہ مغرب کی نماز پڑھ چکا ہے ۔

اور اگر ایک رکعت یا اس سے زیا دہ پڑھنے کا وقت موجود ہو تو ضروری ہے کہ نيت کو نماز مغرب ميں تبدیل کر کے اس کی تين رکعت مکمل کرے اور بعد ميں عشا کی نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۶۶ اگر کوئی شخص نماز عشا کی چوتھی رکعت کے رکوع ميں پهنچنے کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز مغرب پڑھی ہے یا نہيں اور وقت وسيع ہو تو اس کی نماز باطل ہے اور ضروری ہے کہ نماز مغرب و عشا دونوں پڑھے۔ اسی طرح اگر پانچ رکعات پڑھنے کا وقت ہو تو بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر وقت اس سے کمتر ہو تو اس کی نماز عشا صحيح ہے اور ضروری ہے کہ اسے پورا کرے اور بنا اس پر رکھے کہ نماز مغرب پڑھ چکا ہے ۔

۱۲۹

مسئلہ ٧ ۶ ٧ اگر کوئی شخص ایسی نماز جسے وہ پڑھ چکا ہو احتياطاً دوبارہ پڑھے اور نماز کے دوران اسے یا د آئے کہ اس نماز سے پهلے والی نماز نہيں پڑھی تو وہ نيت کو اس نماز کی طرف نہيں پهيرسکتا مثلاً جب وہ نماز عصر احتياطاً پڑھ رہا ہو اگر اسے یا د آئے کہ اس نے نماز ظہر نہيں پڑھی تو وہ نيت کو نماز ظہر کی طرف نہيں پهير سکتا۔

مسئلہ ٧ ۶ ٨ نمازِ قضا کی نيت کو نماز ادا اور نماز مستحب کی نيت کو نماز واجب کی طرف پهيرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٩ اگر ادا نماز کا وقت وسيع ہو تو انسان نماز کے دوران نيت کو قضا نماز ميں تبدیل کرسکتا ہے بشرطيکہ نماز قضاء کی طرف نيت تبدیل کرنا ممکن ہو، مثلاً اگر وہ نماز ظہر ميں مشغول ہو تو نيت کو قضائے صبح ميں اسی صورت ميں تبدیل کرسکتا ہے کہ تيسری رکعت کے رکوع ميں داخل نہ ہو ا ہو ۔

مستحب نماز يں

مسئلہ ٧٧٠ مستحب نماز یں بہت سی ہيں اور انہيں نوافل کہتے ہيں ۔ مستحب نماز وں ميں سے روزانہ کے نوافل کی بہت زیا دہ تاکيد کی گئی ہے ۔ اور یہ روز جمعہ کے علاوہ چونتيس رکعات ہيں ۔ جن ميں سے آٹھ رکعت ظهرکی، آٹھ رکعت عصر کی، چار رکعت مغرب کی، دو رکعت عشا کی، گيا رہ رکعت نماز شب کی اور دو رکعت صبح کی ہيں ۔ چونکہ احتياطِ واجب کی بنا پر عشا کی دورکعت نافلہ بيٹھ کر انجام دینا ضروری ہے ، اس لئے وہ ایک رکعت شمار ہو تی ہے ۔

جمعہ کے دن ظہر اور عصر کی سولہ رکعت نوافل پر چار رکعت کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اور قول مشهو ر کے مطابق بہتر یہ ہے کہ ان ميں سے چھ رکعت سورج کے مکمل طور پر نکل آنے پر، چھ

رکعت دن چڑھنے پر، چھ رکعت زوال سے پهلے اور دو رکعت زوال کے وقت پڑھے۔

مسئلہ ٧٧١ نماز شب کی گيا رہ رکعتو ں ميں سے آٹھ رکعتيں نافلہ شب کی نيت سے، دو رکعت نماز شفع کی نيت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نيت سے پڑھی جائے گی۔ نافلہ شب کا مکمل طریقہ دعا کی کتابوں ميں مذکور ہے ۔

مسئلہ ٧٧٢ نوافل بيٹھ کر بھی پڑھی جاسکتی ہيں ، ليکن بہتر یہ ہے کہ بيٹھ کر پڑھی جانے والی دو رکعت کو ایک رکعت شمار کيا جائے مثلاً جو شخص ظہر کی نوافل جو آٹھ رکعتيں ہيں بيٹھ کر پڑھنا چاہے تو بہتر ہے کہ سولہ رکعتيں پڑھے اور اگر نماز وتر کو بيٹھ کر پڑھنا چاہے تو ایک ایک رکعت کی دو نماز یں پڑھے۔

مسئلہ ٧٧٣ ظہر اور عصر کی نوافل کو سفر ميں نہيں پڑھا جاسکتا اور اگر عشا کی نفليں رجاء

کی نيت سے پڑھی جائيں تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

۱۳۰

روزانہ کی نوافل کا وقت

مسئلہ ٧٧ ۴ ظہر کی نوافل نماز ظہر سے پهلے پڑھی جاتی ہيں اور ان کا وقت ظہر کی ابتدا سے ہے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اس کی انتها اس وقت تک ہے کہ شاحض کے ظہر کے بعد پيدا ہونے والے سائے کی مقدار، سات ميں سے دو حصّوں کے برابر ہو جائے مثلاً اگر شاحض کی لمبائی سات بالشت ہو تو جب سائے کی مقدار دو بالشت ہوجائے تو احتياط کی بنا پر یہ نافلہ ظہر کا آخری وقت ہے ۔

مسئلہ ٧٧ ۵ عصر کی نوافل نماز عصر سے پهلے پڑھی جاتی ہيں ۔ احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا وقت شاحض کے سائے کی اس مقدار تک ہے جو ظہر کے بعد ظاہر ہو اور سات ميں سے چار حصّوں تک پهنچ جائے۔ اگر کوئی شخص ظہر یا عصر کی نفليں اس کے مقررہ وقت کے بعد پڑھنا چاہے تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ ظہر کی نفليں نماز ظہر کے بعد اور عصر کی نفليں نماز عصر کے بعد پڑھے اور ادا و قضاء کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ٧٧ ۶ مغرب کی نفلوں کا وقت نماز مغرب ختم ہو نے کے بعد ہو تا ہے اور مغرب کے آخری وقت تک باقی رہتا ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ سورج کے غروب ہو نے کے بعد مغرب کی جانب دکهائی دینے والی سرخی کے ختم ہو نے سے پهلے پڑھ لے اور اگر سرخی ختم ہو نے کے بعد پڑھے تو ادا و قضاء کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ٧٧٧ عشا کی نفلوں کا وقت نماز عشا ختم ہو نے کے بعد سے آدهی رات تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ نماز عشا ختم ہو نے کے فوراً بعد پڑھی جائيں۔

مسئلہ ٧٧٨ نماز صبح کی نوافل کا وقت احتياطِ واجب کی بنا پر فجر اوّل کے بعد سے لے کر مشرق کی سرخی ظاہر ہونے تک ہے اور جوشخص مشرق کی سرخی ظاہر ہو نے کے بعد پڑھنا چاہے تو نماز صبح کے بعد پڑھے اور ادا و قضاء کی نيت نہ کرے اور نماز شب پڑھنے والا، نافلہ شب کے فوراً بعد نافلہ صبح پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٧٧٩ نماز شب کا وقت مشهو ر قول کی بنا پر آدهی رات سے اذانِ صبح تک ہے ، ليکن بعيد نہيں ہے کہ اس کا وقت رات کی ابتدا سے اذان صبح تک ہو اور آدهی رات سے اذان صبح تک اس کی فضيلت کا وقت ہو اور افضل یہ ہے کہ رات کے آخری تيسرے حصے ميں پڑھی جائے۔

مسئلہ ٧٨٠ مشهو ر قول کی بنا پر نماز شب کا اوّل وقت آدهی رات سے ہے ۔ مسافر اور وہ شخص جس کے لئے آدهی رات کے بعد نماز شب ادا کرنا مشکل ہو وہ اسے اوّل شب ميں پڑھ سکتا ہے ، اگر چہ بعيد نہيں ہے کہ ان دو کے علاوہ دوسروں کے لئے بھی اوّلِ شب ميں پڑھنا جائز ہو جيسا کہ سابقہ مسئلہ ميں ذکر ہو چکا ہے ۔

۱۳۱

نمازِ غفيلہ

مسئلہ ٧٨١ نمازِ غفيلہ مشهو ر مستحب نماز وں ميں سے ہے اور مغرب و عشا کی نماز کے درميا ن پڑھی جاتی ہے ۔

اس کی پهلی رکعت ميں الحمد کے بعد کسی سورہ کی بجائے اس آیت کا پڑھنا ضروری ہے :

( وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَهَبَ مُغَاضِباً فَظَنَّ اَنْ لَّنَ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادیٰ فِی الظُّلُمَاتِ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ ا نَْٔتَ سُبْحَانَکَ انی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَه وَ نَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَ کَذٰلِکَ ننُجْیِ الْمُؤْمِنِيْنَ )

اور دوسری رکعت ميں الحمد کے بعد کسی سورہ کی بجائے اس آیت کو پڑھے:

( وَ عِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ یَعْلَمُهَا اِلاَّ هو وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلاَّ یَعْلَمُهَا وَلا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الْاَرْضِ وَ لاَ رَطْبٍ وَّ لاَ یَابِسٍ اِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِيْنٍ )

اور اس کے قنوت ميں پڑھے:

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْا لَُٔکَ بِمَفَاتِحِ الْغَيْبِ الَّتِيْ لاَ یَعْلَمُهَا اِلاَّ اَنْتَ ا نَْٔ تُصَلِّيَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تَفْعَل بِیْ کذا و کذا

اور کذا و کذا کی بجائے اپنی حاجات بيا ن کرے اور اس کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اَنْتَ وَلِيُّ نِعْمَتِيْ وَالْقَادِرُ عَلیٰ طَلِبَتِيْ تَعْلَمُ حَاجَتِيْ فَا سَْٔا لَُٔکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِم السَّلاَمُ لَمَّا قَضَيْتَهَا لِيْ

قبلے کے احکام

مسئلہ ٧٨٢ قبلہ وہ مقام ہے جهاں خانہ کعبہ بنا ہواہے۔ ضروری ہے کہ اس کے سامنے رخ کرکے نماز پڑھی جائے ليکن جو شخص اس سے دور ہے اگر اس طرح کهڑا ہو کہ لوگ کہيں قبلہ رخ نماز پڑھ رہا ہے تو کافی ہے ۔ یهی حکم قبلہ رخ ہوکر انجام دئے جانے والے دوسرے کاموں، مثلا حيوانات کو ذبح کرنے کا ہے ۔

مسئلہ ٧٨٣ جو شخص کهڑا ہو کر واجب نماز پڑھ رہا ہو ضروری ہے کہ اس کا چہرہ ، سينہ اور پيٹ قبلے کی طرف ہوں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس کے پاؤں کی انگليا ں بھی قبلہ کی طرف ہو ں۔

مسئلہ ٧٨ ۴ جس شخص کی ذمہ داری بيٹھ کر نماز پڑھنا ہو، ضروری ہے کہ نماز پڑھتے وقت اس کا چہرہ ، سينہ اور پيٹ قبلہ کی طرف ہو ں۔

۱۳۲

مسئلہ ٧٨ ۵ جو شخص بيٹھ کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو ضروری ہے کہ نماز کے وقت دائيں پهلو کے بل اس طرح ليٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصّہ قبلے کی طرف ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ بائيں پهلو کے بل یوں ليٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصّہ قبلے کی طرف ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پشت کے بل اس طرح ليٹے کہ اس کے پيروں کے تلوے قبلے کی طرف ہو ں۔

مسئلہ ٧٨ ۶ نماز احتياط، بھولا ہو ا سجدہ و تشهد اور اس سجدہ سهو کی بجا آوری کے لئے جو بھولے ہو ئے تشهد کے لئے انجام دیا جاتا ہے ، ضروری ہے کہ انسان قبلہ رخ ہو۔ اس کے علاوہ باقی سجدہ هائے سهو ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ انہيں قبلے کی طرف رخ کر کے ادا کيا جائے۔

مسئلہ ٧٨٧ مستحب نماز کو زمين پر استقرار کی حالت ميں قبلہ رخ ہو کر پڑھنا ضروری ہے ، ليکن چلتے ہو ئے اور سواری کی حالت ميں قبلے کی طرف منہ کرکے پڑھنا ضروری نہيں ہے ، خواہ نذر کی وجہ سے واجب ہو گئی ہو۔

مسئلہ ٧٨٨ جو شخص نماز پڑھنا چاہے ضروری ہے کہ قبلے کی سمت کا تعين کرنے کے لئے کوشش کرے یهاں تک کہ قبلے کی سمت کے بارے ميں اسے یقين یا اطمينان ہو جائے یا دو عادل مرد یا ایک قابل اعتماد شخص جس کی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو، قبلے کے متعلق اطلاع دیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے شهروں ميں قبلے کو ان کی نمازوں اور قبروں سے معلوم کرسکتا ہے ۔ اگر یہ موجود نہ ہو ں تو ضروری ہے کہ اسے معلوم کرنے کی کوشش کرے اور دوسرے طریقوں سے حاصل ہو نے والے گمان کے مطابق عمل کرے، خواہ وہ گمان کسی کا فر یا ایسے فاسق کے کهنے سے حاصل ہو جو علمی قواعد کے ذریعے قبلے کا رخ جانتا ہو ۔

مسئلہ ٧٨٩ جس شخص کو قبلے کے بارے ميں گمان ہو اور اس سے زیادہ مضبوط گمان پيدا کرسکتا ہو تو وہ اپنے گمان پر عمل نہيں کرسکتا، مثلاً اگر مهمان، صاحب خانہ کے کهنے پر قبلے کی سمت کے بارے ميں گمان پيدا کرلے ليکن کسی دوسرے طریقے سے زیا دہ قوی گمان پيدا کرسکتا ہو تو وہ صاحب خانہ کے کهنے پر عمل نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٧٩٠ اگر کسی کے پاس قبلے کا رخ متعين کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو یا کوشش کے باوجود اس کا گمان کسی ایک طرف نہ جائے تو اس کا کسی بھی سمت منہ کر کے نماز پڑھنا کافی ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر نماز کا وقت وسيع ہو تو چار نماز یں چاروں سمت منہ کر کے پڑھے۔

مسئلہ ٧٩١ اگر اس بارے ميں یقين یا وہ چيز جو یقين کے حکم ميں ہو یا گمان حاصل ہو جائے کہ قبلہ دو ميں سے کسی ایک طرف ہے تو ضروری ہے کہ ان دونوں طرف منہ کر کے نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧٩٢ جو شخص کئی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا چاہتا ہو اگر وہ ایسی دو نماز یں پڑھنا چاہے جو ظہر اور عصر کی طرح یکے بعد دیگرے پڑھنی ضروری ہيں تو احتياط مستحب یہ ہے کہ پهلی نماز کو مختلف سمتو ں کی طرف منہ کر کے پڑھے اور بعد ميں دوسری نماز شروع کرے۔

۱۳۳

مسئلہ ٧٩٣ جس شخص کو قبلے کے بارے ميں یقين یا کوئی ایسی چيز جو یقين کے حکم ميں ہے ، حاصل نہ ہو سکے اگر وہ نماز کے علاوہ کوئی ایسا کا م کرنا چاہے جو قبلے کی طرف منہ کر کے کرنا ضروری ہے مثلاً وہ کوئی حيوان ذبح کرنا چاہتا ہو، تو اگر اس کے لئے تاخير کرنا ممکن ہو تاکہ قبلہ معلوم کيا جا سکے، تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ تاخير کرے۔ ہاں، اگر تاخير ممکن نہ ہو یا حرج کا باعث ہو تو گمان کے مطابق عمل کرسکتا ہے اور اگر گمان ممکن نہ ہو اور حيوان کا ذبح کرنا ضروری ہو مثلاً تاخير کی صورت ميں حيوان مرجائے گا، تو جس طرف منہ کر کے ذبح کرے صحيح ہے ۔

نماز ميں بدن کا ڈهانپنا

مسئلہ ٧٩ ۴ ضروری ہے کہ مرد نماز کی حالت ميں اپنی دونوں شرمگاہو ں کو ڈهانپے، خواہ اسے کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ناف سے گھٹنوں تک بدن بھی ڈهانپے۔

مسئلہ ٧٩ ۵ ضروری ہے کہ عورت نماز کے وقت اپنا پورا بدن حتی سر اور بال بھی ڈهانپے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ پاؤں کے تلوے بھی ڈهانپے، ليکن وضو ميں دهویا جانے والا چھرے کا حصہ، کلائيوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں کا ظاہری حصّہ ڈهانپنا ضروری نہيں ہے ۔ ہاں، یہ اطمينان حاصل کرنے کے لئے کہ اس نے واجب مقدار ڈهانپ لی ہے ضروری ہے کہ چھرے کی اطراف اور کلائيوں سے نيچے کا کچھ حصہ بھی ڈهانپے۔

مسئلہ ٧٩ ۶ بھولے ہو ئے سجدے، بھولے ہوئے تشهد یا بھولے ہوئے تشهد کی وجہ سے واجب ہونے والے سجدہ سهو کو انجام دیتے وقت ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس طرح ڈهانپے جس طرح نماز کے وقت ڈهانپا جاتا ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ باقی سجدہ هائے سهو بجالاتے وقت بھی اپنے آپ کو ڈهانپے۔

مسئلہ ٧٩٧ اگر کوئی انسان جان بوجه کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے، جب کہ مسئلہ سيکهنے ميں کوتاہی کی ہو، نماز ميں اپنی شرمگاہ نہ چھپا ئے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٧٩٨ اگر کسی شخص کو نماز کے دوران پتہ چلے کہ اس کی شرمگاہ برہنہ ہے تو ضروری ہے کہ فوراً اپنی شرمگاہ چھپا ئے اور احتياطِ واجب کی بنا پر نماز مکمل کرکے دوبارہ پڑھے، ليکن اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ نماز کے دوران اس کی شرمگاہ برہنہ تھی تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

یهی حکم اس وقت ہے جب اسے نماز کے دوران معلوم ہو کہ پهلے اس کی شرمگاہ برہنہ تھی ليکن فی الحال چھپی ہو ئی ہے ۔

مسئلہ ٧٩٩ اگر کسی شخص کا لباس کھڑے ہو نے کی حالت ميں اس کی شرمگاہ کو ڈهانپ لے ليکن ممکن ہے کہ دوسری حالت ميں مثلاً رکوع یا سجود کی حالت ميں نہ ڈهانپے تو اگر شرمگاہ کے برہنہ ہو نے کے وقت اسے کسی ذریعے سے ڈهانپ لے تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اس لباس کے ساته نماز نہ پڑھے۔

۱۳۴

مسئلہ ٨٠٠ انسان نماز ميں اپنے آپ کو گهاس اور درختو ں کے پتو ں سے ڈهانپ سکتا ہے ، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ ان چيزوں سے اس وقت ڈهانپے جب اس کے پاس کوئی اور چيز نہ ہو ۔

مسئلہ ٨٠١ اگر گارے کے علاوہ شرمگاہ کو چھپا نے کے لئے کوئی دوسری چيز نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اختياری حالت ميں گارے کے ساته خود کو ڈهانپ کر پڑھی جانے والی اور اضطرار کے وقت برہنہ حالت ميں پڑھی جانے والی ،دونوں نمازوں کو انجام دے۔

مسئلہ ٨٠٢ جس شخص کے پاس کوئی ایسی چيز نہ ہو جس سے وہ نماز ميں اپنے آپ کو ڈهانپے، اگر احتمال دے کہ آخر وقت تک کوئی چيز مل جائے گی تو احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز ميں تاخير کرے اور اگر کوئی چيز نہ ملے تو آخر وقت ميں اپنے وظيفے کے مطابق نماز پڑھے۔ ایسا شخص اپنی نماز اول وقت ميں بھی پڑھ سکتا ہے اور اگر آخر وقت تک کوئی چيز نہ ملے تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر مل جائے تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨٠٣ جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہو، اگر اپنی شرمگاہ ڈهانپنے کے لئے حتی اس کے پاس گارا اور کيچڑ بھی نہ ہو تو اگر کيفيت یہ ہو کہ کسی ناظرِ محترم کی نگاہ اس کی شرمگاہ پر نہ پڑ رہی ہو تو کهڑا ہو کر نماز پڑھے اور احتياط واجب کی بنا پر ہاتھ کو اپنی شرمگاہ پر رکھے اور ضروری ہے کہ رکوع و سجود اشارے کے ساته بجالائے اور احتياط واجب کی بنا پر سجود کے لئے زیادہ اشارہ کرے۔اور اگر کيفيت یہ ہو کہ کسی ناظرِ محترم کی نگاہ اس پر پڑ رہی ہو تو ضروری ہے کہ بيٹھ

کر نماز پڑھے اور رکوع و سجود کے لئے اشارہ کرے اور احتياط واجب کی بنا پر سجود کے لئے زیادہ اشارہ کرے۔

نمازی کے لباس کی شرائط

مسئلہ ٨٠ ۴ نمازی کے لباس کی چھ شرائط ہيں :

١) پاک ہو

٢) مباح ہو

٣) مردار کے اجزاء سے نہ بنا ہو

۴) حرام گوشت حيوان کے اجزاء سے نہ بنا ہو

۵،۶ ) اگر نمازی مرد ہو تو اس کا لباس خالص ریشم اور زردوزی (سونے کی کڑھائی )کا بنا ہوا نہ ہو۔

۱۳۵

اور ان شرائط کی تفصيل آئندہ مسائل ميں بيان کی جائے گی۔

پهلی شرط

مسئلہ ٨٠ ۵ نمازی کا لباس پاک ہونا ضروری ہے ۔ اگر کوئی شخص اختياری حالت ميں نجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٠ ۶ جو شخص اپنی کوتاہی کی وجہ سے یہ نہ جانتا ہو کہ نجس بدن یا لباس کے ساته نماز باطل ہے اور نجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھے، تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٠٧ جو شخص مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے، نجس چيز کی نجاست کو نہ جانتا ہو، مثلاً یہ نہ جانتا ہو کہ غير کتابی کافر کا پسينہ نجس ہے اور اس کے ساته نماز پڑھے، تو جاہل مقصر ہونے کی صورت ميں اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٠٨ جو شخص نہ جانتا ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور نماز پڑھنے کے بعدنجاست کا علم ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ ہاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر وقت باقی ہو تو نماز دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ٨٠٩ جو شخص بھول جائے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور نماز کے دوران یا اس کے بعد یاد آئے تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گيا ہو تو اس کی قضا کرے۔

مسئلہ ٨١٠ جو شخص وسيع وقت ميں نماز ميں مشغول ہو، اگر نماز کے دوران اس کا بدن یا لباس نجس ہو جائے اور اس سے پهلے کہ نماز کا کچھ حصّہ نجاست کے ساته پڑھے معلوم ہو جائے کہ نجس ہوا ہے یا سمجھ جائے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور شک کرے کہ اسی وقت نجس ہوا ہے یا پهلے سے نجس تھا، تو اس صورت ميں کہ بدن یا لباس پاک کرنے یا لباس تبدیل کرنے یا لباس اتارنے سے نماز کی شکل نہ بگڑے تو ضروری ہے کہ نماز کے دوران بدن یا لباس پاک کرے یا لباس تبدیل کرے یا اگر کسی اور چيز نے اس کی شرمگاہ کو ڈهانپ رکھا ہو تو لباس اتار دے، ليکن اگر بدن یا لباس پاک کرنے یا لباس بدلنے یا اتار نے سے نماز کی شکل بگڑ جاتی ہو یا لباس اتارنے سے برہنہ ہوتا ہو تو اس کی نماز باطل ہوگی اور ضروری ہے کہ دوبارہ پاک بدن اور پاک لباس کے ساته نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨١١ جو شخص تنگ وقت ميں نماز ميں مشغول ہو، اگر نماز کے دوران اس کا لباس نجس ہو جائے اور اس سے پهلے کہ نماز کا کچھ حصّہ نجاست کے ساته پڑھے اسے معلوم ہو جائے کہ اس کا لباس نجس ہوا ہے یا سمجھ جائے کہ اس کا لباس نجس ہے اور شک کرے کہ اسی وقت نجس ہوا ہے یا پهلے سے نجس تھا، تو اس صورت ميں کہ اسے پاک کرنا، تبدیل کرنا یا اتارنا ممکن ہو اور نماز بھی نہ ٹوٹتی ہو تو ضروری ہے کہ لباس کو پاک کرے، تبدیل کرے یا اگر کسی اور چيز نے اس کی شرمگاہ کو ڈهانپ رکھا ہو تو

۱۳۶

لباس اتار دے اور نماز کو مکمل کرے، ليکن اگر کسی چيز نے اس کی شرمگاہ کو نہ ڈهانپ رکھا ہو اور لباس کو بھی پاک یا تبدیل نہ کرسکتا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ اسی نجس لباس کے ساته نماز مکمل کرے۔

مسئلہ ٨١٢ جو شخص تنگ وقت ميں نماز ميں مشغول ہو اگر نماز کے دوران اس کا بدن نجس ہو جائے اور اس سے پهلے کہ نماز کا کچھ حصّہ نجاست کے ساته پڑھے اسے معلوم ہوجائے کہ اس کا بدن نجس ہوا ہے یا سمجھ جائے کہ اس کا بدن نجس ہے اور شک کرے کہ اسی وقت نجس ہوا ہے یا پهلے سے نجس تھا، تو اس صورت ميں کہ بدن پاک کرنے سے نماز کی شکل نہ بگڑتی ہو بدن کو پاک کرے اور اگر نماز کی شکل بگڑتی ہو تو ضروری ہے کہ اسی حالت ميں نماز کو مکمل کرے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١٣ جس شخص کو اپنے بدن یا لباس کے پاک ہونے ميں شک ہو اور سابقہ نجاست کے بارے ميں اسے نہ یقين ہو اور نہ ہی کوئی ایسی چيز جو یقين کے حکم ميں ہے اور نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس کا بدن یا لباس نجس تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١ ۴ اگر کوئی شخص اپنا لباس دهوئے اور اس کے پاک ہوجانے کے بارے ميں اسے یقين یا وہ چيز حاصل ہو جائے جو یقين کے حکم ميں ہے ، پھر اس لباس کے ساته نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ پاک نہيں ہوا تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١ ۵ اگر کوئی شخص اپنے بدن یا لباس پر خون دیکھے اور اسے یقين ہو جائے کہ وہ خون نجس نہيں ہے مثلاً اسے یقين ہو کہ مچہر کا خون ہے ، چنانچہ اگر نماز پڑھنے کے بعد اسے پتہ چلے کہ یہ ایسا خون تھا جس کے ساته نماز نہيں پڑھی جاسکتی تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١ ۶ اگر کسی شخص کو یقين ہو کہ اس کے بدن یا لباس پر جو خون ہے وہ ایسا نجس خون ہے جس کے ساته نماز صحيح ہے مثلاً اسے یقين ہوکہ زخم یا پهوڑے کا خون ہے ليکن نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ یہ ایسا خون ہے جس کے ساته نماز باطل ہے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١٧ اگر کوئی شخص کسی چيز کے نجس ہونے کو بھول جائے اوراس کا بدن یا لباس رطوبت کے ساته اس چيز سے چھو جائے اور اسی بھول کے عالم ميں وہ نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن اگر اس کا بدن رطوبت کے ساته اس چيز کو چھو جائے جس کا نجس ہونا وہ بھول گيا ہے اور وہ اپنے آپ کو پاک کئے بغير غسل کرکے نماز پڑھے تو اس کا غسل اور نماز دونوںباطل ہيں ، مگر یہ کہ کيفيت یہ ہو کہ غسل کرنے سے بدن بھی پاک ہو جائے، مثلا معتصم پانی سے غسل کرے یعنی ایسے پانی سے جو نجس چيز کے ساته صرف ملنے سے نجس نہيں ہوتا، مثلاً کُر اور جاری پانی۔

۱۳۷

اسی طرح اگر وضو کے اعضا کا کوئی حصّہ رطوبت کے ساته اس چيز سے چھو جائے جس کے نجس ہونے کے بارے ميں وہ بھول گيا ہو اور اس حصے کو پاک کرنے سے پهلے ہی وضو کرکے نماز پڑھ لے تو اس کا وضو اور نماز دونوں باطل ہيں ، مگر یہ کہ وضو کرنے سے وضو کے اعضا بھی پاک ہو جائيں مثلاً معتصم پانی سے وضو کرے۔

مسئلہ ٨١٨ جس شخص کے پاس ایک لباس ہو، اگر اس کا بدن اور لباس نجس ہو جائيں اور اس کے پاس ان ميں سے ایک کو پاک کرنے کا پانی ہو تو احتياط کی بنا پر ضروری ہے کہ بدن کو پاک کرے اور نجس لباس کے ساته نماز پڑھے۔ ہاں، اگربدن کی نجاست لباس کی نجاست سے کمتر ہو یا بدن کی نجاست کو ایک مرتبہ دهونا ضروری ہو اور لباس کی نجاست کو دو مرتبہ دهونا ضروری ہو تو ان دو صورتوں ميں لباس کو پهلے پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٨١٩ جس شخص کے پاس نجس لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس نہ ہو، ضروری ہے کہ نجس لباس کے ساته نماز پڑھے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٢٠ جس شخص کے پاس دو لباس ہوں اگر وہ جانتا ہو کہ ان ميں سے ایک نجس ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ کون سا نجس ہے اور اس کے پاس وقت ہو تو ضروری ہے کہ دونوں لباس کے ساته نماز پڑھے، مثلاً اگر نماز ظہر و عصر پڑھنا چاہتا ہو تو ضروری ہے کہ هرلباس کے ساته ایک نماز ظہر کی اور ایک نماز عصر کی پڑھے، ليکن اگر وقت تنگ ہو تو ان ميں سے ایک لباس کے ساته نماز پڑھے اور وقت کے بعد دوسرے لباس یا کسی پاک لباس کے ساته نماز پڑھے۔

دوسری شرط

مسئلہ ٨٢١ نمازی کا وہ لباس جس سے شرمگاہ ڈهانپی جاتی ہے ، ضروری ہے کہ مباح ہو۔

جو شخص جانتا ہو کہ غصبی لباس پهننا حرام ہے یا اپنی کوتاہی کی وجہ سے یہ مسئلہ نہ سيکها ہو کہ غصبی لباس پهننا حرام ہے اور جان بوجه کر اس لباس سے اپنی شرمگاہ ڈهانپ کر نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ، ليکن وہ چيزیں جو خود بہ تنهائی شرمگاہ کو نہ ڈهانپ سکيں اور اسی طرح وہ چيزیں جنہيں نمازی نے حالت نماز ميں نہ پهن رکھا ہو، اگر چہ ان سے شرمگاہ کو ڈهانپا جاسکتا ہو مثلاً بڑا رومال، یا لنگوٹی جو جيب ميں رکھی ہو اور اسی طرح وہ چيزیں جنہيں نمازی نے پهنا ہو ليکن ان کے ذریعے شرمگاہ کو نہ ڈهانپا ہو، ان تمام صورتوں ميں ان کے غصبی ہونے سے نماز باطل نہيں ہوتی، اگرچہ نماز کے صحيح ہونے کے اعتبار سے احتياط یہ ہے کہ ان کو ترک کر دیا جائے۔

مسئلہ ٨٢٢ جو شخص یہ تو جانتا ہو کہ غصبی لباس پهننا حرام ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ اس لباس کے ساته شرمگاہ ڈهانپنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے ، اگر جان بوجه کر اس کے ذریعے حالت نماز ميں شرمگاہ ڈهانپی ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۳۸

مسئلہ ٨٢٣ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ اس کا لباس غصبی ہے اور اس لباس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔یهی حکم اس وقت ہے جب لباس کے غصبی ہونے کو بھول جائے جب کہ غاصب خود نہ ہو، ليکن اگر غاصب بھول جائے کہ اس نے غصب کيا ہے اور اس غصبی لباس کے ساته اپنی شرمگاہ ڈهانپ کر نماز پڑھ لے تو غصب سے توبہ نہ کرنے کی صورت ميں اس کی نماز باطل ہے اور اگر توبہ کرچکا ہو تو نماز کا باطل ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٢ ۴ اگر کسی شخص کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ اس کا لباس غصبی ہے ليکن نماز کے دوران اسے پتہ چل جائے اور اس کی شرمگاہ کسی دوسری چيز سے ڈهکی ہوئی ہو اور وہ فوراً یا نماز کا تسلسل توڑے بغير غصبی لباس اتار سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے اتار دے اور اگر اس کی شرمگاہ کسی دوسری چيز سے ڈهکی ہوئی نہ ہو یا اس غصبی لباس کو فوراً نہ اُتارسکتا ہو یا لباس اُتارنے سے نماز کا تسلسل ٹوٹتا ہو اور صورت یہ ہو کہ اس کے پاس ایک رکعت پڑھنے کا وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور اس لباس کے ساته نماز پڑھے جو غصبی نہ ہو اور اگر اتنا وقت بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کی حالت ميں ہی لباس اُتار دے اور مسئلہ نمبر ” ٨٠٣ “ ميں برہنہ لوگوں کی نماز کے لئے بتائے گئے طریقے کے مطابق نماز مکمل کرے۔

مسئلہ ٨٢ ۵ اگر کوئی شخص اپنی جان کی حفاظت کے لئے غصبی لباس کے ساته نماز پڑھے، تو چاہے اس کے ذریعے شرمگاہ ڈهکی ہو ئی ہو یا مثال کے طور پر غصبی لباس کے ساته اس لئے نماز پڑھے تا کہ چور نہ لے جائے، تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٢ ۶ اگر کوئی شخص عين اس رقم سے لباس خریدے جس کا خمس اس نے ادا نہ کيا ہو تو اس لباس کے ساته نماز پڑھنے کا وهی حکم ہے جو غصبی لباس کے ساته نماز پڑھنے کا ہے ۔

تيسری شرط

مسئلہ ٨٢٧ ضروری ہے کہ نمازی کا لباس، خون جهندہ رکھنے والے مردہ حيوان کے اجزا سے نہ بنا ہو، بلکہ اگر ایسے مردہ حيوان مثلاً مچھلی اور سانپ، جن کا خون جهندہ نہيں ہوتا، کے اجزا سے تيار کيا ہوا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر اس کے ساته نماز نہ پڑھی جائے۔

مسئلہ ٨٢٨ اگر نجس مردار کی ایسی چيز مثلاً گوشت اور کھال جن ميں روح ہوتی ہے ، نمازی کے ہمراہ ہو اگر چہ اس کا لباس نہ ہو، احتياط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٢٩ اگر حلال گوشت مردار کی کوئی ایسی چيز مثلاً بال اور اون، جن ميں روح نہيں ہوتی، نمازی کے ہمراہ ہو یا ان کے ساته تيار کئے گئے لباس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

۱۳۹

چوتھی شرط

مسئلہ ٨٣٠ ضروری ہے کہ نمازی کا لباس حرام گوشت جانور کے اجزا سے بنا ہوا نہ ہو اور اگر حرام گوشت جانور کا ایک بال بھی نمازی کے بدن یا لباس پر لگا ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٣١ حرام گوشت جانور مثلاً بلی کے منہ یا ناک کا پانی یا کوئی دوسری رطوبت نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر لگی ہو اور وہ تر ہو تو نماز باطل ہے ،ليکن اگر خشک ہو اور اس کا عين جزء زائل ہوگيا ہو تو نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٣٢ اگر کسی کا بال، پسينہ، منہ کا لعاب یا ناک کا پانی نمازی کے بدن یا لباس پر لگا ہو تو کوئی حرج نہيں ۔ اسی طرح موتی، موم اور شهد اس کے ہمراہ ہو تب بھی نماز پڑھنا جائز ہے ۔

مسئلہ ٨٣٣ اگر کسی کو شک ہو کہ لباس حلال گوشت جانور سے تيار کيا گيا ہے یا حرام گوشت جانور سے تو خواہ وہ اسلامی مملکت ميں تيار کيا گيا ہو یا غير اسلامی مملکت ميں ، اس کے ساته نماز پڑھنا جائز ہے ۔

مسئلہ ٨٣ ۴ سيپ اور اس سے بنائی گئی چيزوں مثلاً قميص کے بٹن کے ساته نماز پڑھنا جائز ہے ۔

پهن کر نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں اور ( MINK FUR ) مسئلہ ٨٣ ۵ سمور کا خالص لباس احتياط واجب یہ ہے کہ گلهری کی پوستين کے ساته نماز نہ پڑھے۔

مسئلہ ٨٣ ۶ اگر کوئی شخص ایسے لباس کے ساته نماز پڑھے جس کے متعلق نہ جانتا ہو یا بھول گيا ہو کہ حرام گوشت جانور سے تيار ہوا ہے تو دوبارہ نماز پڑھنا ضروری نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور جاہل قاصر کا بھی یهی حکم ہے ۔

پانچويں شرط

مسئلہ ٨٣٧ مردوں کے لئے زر دوزی کيا ہوا لباس پهننا حرام ہے اور اس کے ساته نماز پڑھنا باطل ہے ، ليکن عورتوں کے لئے نماز ميں یا نماز کے علاوہ اس کے پهننے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٣٨ مردوں کے لئے سونا پهننا مثلاً گلے ميں سونے کی زنجير پهننا، سونے کی گهڑی کلائی پر باندهنا، سونے کی عينک لگانا، سونے کی انگوٹھی ہاتھ ميں پهننا اور ان جيسی چيزوں کا استعمال حرام اور ان کے ساته نماز پڑھنا باطل ہے ، ليکن عورت کے لئے نماز ميں اور نماز کے علاوہ بھی ان چيزوں کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٣٩ اگر کوئی مرد نہ جانتا ہو یا بھول گيا ہو کہ مثلاً اس کی انگوٹھی یا لباس سونے کا ہے یا شک رکھتا ہو اور ان کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273