کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار0%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

کامیابی کے اسرار

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 273
مشاہدے: 107833
ڈاؤنلوڈ: 3760


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 107833 / ڈاؤنلوڈ: 3760
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد 2

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ابو بصیر نے کہا:تم اس حقیقت سے کیسے آگاہ ہوئے ؟

ابو ہارون:مجھے اس حقیقت کا کیسے پتہ نہ چلے،حالانکہ امام علیہ السلام ایک واضح و آشکار نور ہیں۔

یار پیشت حاضر و تو  از خودی ، غایب از او

با خودا ، آخر کہ گم کردی چہ می جوئی بگو؟!

پھر ابو بصیر نے کہا:میں نے سنا ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے اہل افریقہ کے ایک شخص سے فرمایا:

راشد کا کیا حال ہے؟اس نے کہا:جب میں افریقہ سے آیا تھا تو وہ صحیح و سالم تھااور اس نے آپ کو سلام کہا تھا۔

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:خداوند اس پر رحمت کرے ۔

افریقی شخص نے کہا:کیاوہ مر گیا ہے؟!

امام علیہ السلام نے فرمایا:ہاں

اس نے پوچھا:اس کا انتقال کب ہوا؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:جب تم افریقہ سے نکلے تو اس کے دو دن کے بعد۔

افریقی شخص نے کہا:خدا کی قسم راشد نہ بیمار تھا اور نہ ہی اسے کوئی درد تھا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:کیا جو کوئی بھی مرتا ہے ،وہ کسی بیماری یا درد کی وجہ سے مرتا ہے؟!

ابو بصیر کہتے ہیں:میں نے امام علیہ السلام سے پوچھا:یہ افریقی شخص کون تھا؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:وہ شخص ہمارے خاندان کے محبوں میں سے ہے۔

۴۱

پھر امام علیہ السلام نے فرمایا:کیا تم یہ یقین رکھتے ہو کہ ہم تمہارے لئے بینا آنکھیں اور سننے والے  کان نہیں رکھتے۔کتنے برے جو اس پر عقیدہ رکھتے ہیں!خدا کی قسم ہم پر تمہارے اعمال میں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔

پس تم سب ہمیں اپنے نزدیک حاضر سمجھو اور اپنے نفس کو اچھے کاموں کی عادت ڈالو اور نیک کام انجام دینے والے بنو تا کہ اس حقیقت کو پہچان سکو(پھر امام علیہ السلام نے فرمایا)میں نے جو کچھ کہا، میں اپنے بیٹوں اور اپنے شیعوں کو اس کا حکم دیتاہوں۔

یہ روایت بہترین روایات میں سے ہے ۔جس سے علوم و معارف کے انوار ساطع ہورہے ہیں۔

جو خود کو خدا اور اپنے امام  کے حضور میں حاضر سمجھتا ہو اور جو نیک اعمال کا عادی ہو وہ کس طرح ناشائستہ کاموں کی طرف ہاتھ بڑھا سکتا ہے؟

اس روایت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:ہمیں حاضر سمجھواور اپنے نفس کو اچھے کام انجام دینے کی عادت ڈالوکیونکہ یہ خدا اور امام علیہ السلام کے محضر میں حاضر ہونے کا لازمہ ہے۔

امام محمد باقر علیہ السلام جس چیز کو حضور امام کے اعتقاد کے لئے ضروری سمجھتے ہیں ،وہ نفس کا نیک اعمال اور آداب کا عادی ہونا ہے۔اس صورت میں انسان معرفت اور غیبی امور کو درک کرنے  کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔اگرچہ انسان ابو ہارون کی طرححواس خمسہ میں سے بعض سے محروم ہی کیوں نہ ہو ۔

اس بناء پر نفس کے نیک اور صالح اعمال امور کے عادی ہو جانے سے انسان حضور کی حالت کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے اور ابو ہارون کی طرح اس کی باطنی آنکھیں حضور امام علیہ السلام کی معرفت کے لئے کھل جاتی ہیں۔یہ وہ مقام ہوتا ہے کہ جہاں کبھی نابینا افراد بینا ہو جاتے ہیں جیسے ابو ہارون نابینا ، بینا تھے۔

۴۲

معارف کا ایک گوشہ

معارف الٰہی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اور معانی و بیان کا بیکراں سمندر صرف خاندان وحی علیھم السلام کے کلمات کے کوزہ ہی میں مل سکتا ہے۔اس طرح کے بے نظیر کلمات و ارشادات سے ہی معارف کے سمندر میں غوطہ زن ہو سکتے ہیں اور وحی سے نکلنے والے انوار کی نورانیت سے اپنے دل کو روشن و منور کیا جا سکتا ہے۔معارف  اہلبیت علیھم السلام کے گلستان سے قرآن،علوم اورخاندان وحی  علیھم السلام کے حِکَم کی مختلف اور رنگارنگ کلیوں سے اپنے لئے توشہ راہ اخذ کریں۔

اب ان کلمات کا ایک چھوٹا سا نمونہ پیش کرتے ہیں تا کہ اس میں تدبر و تفکر سے اپنے دل کو جلا و صفا بخشیں اور اپنی جان کی گہرائیوں میں معنوی نشاط  پیدا کریں۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''کُلُّ مَعْرُوْفٍ بِنَفْسِهِ مَصْنُوْع '' (1)

جو کچھ پہچان لیا جائے  وہ بنفسہ بنایا گیا ہے۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے یہ کلمات خدا شناسی کے بارے میں فرمایا ہے ۔یہ ایک کلی کلام ہے جس سے بہت سے نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔اس کی وضاحت کے لئے ہم یہ کہتے ہیں:

انسان جو کچھ بھی پہچانتاہے ،وہ اس کی سطح فکری اور سوچ کے مطابق ہوتاہے کہ جو وہ اپنی تشخیص اور درک کے میزان سے حاصل کرتاہے  اور یہ انسان،قدرتی مناظر یا فطرت کی لی گئی تصویر کی طرح ہے۔

--------------

[1] ۔ نہج البلاغہ خطبہ :228

۴۳

انسان کا کیمرہ جتنا اچھا ہو گا ،وہ اتنی ہی اچھی تصویر لے گا اور وہ تصویر کی خصوصیات کو اچھے طریقے سے دکھائے گا۔لیکن تصویر جتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو وہ پھر بھی تصویر ہی ہے نہ کہ خود وہی شے۔ہم کسی چیز کی تصویر کو اس چیز کی ذات اور حقیقت قرار نہیں دے سکتے ۔کیونکہ تصویر جتنی بھی   معارف الٰہی اور شناخت خدا و اہلبیت اطہار علیھم السلام کے باب میں بھی یہی مسئلہ جاری ہوتاہے  کیونکہ ہم جتنا بھی خدا کی عظمت و قدرت کو جان لیں اور جس قدر بھی بہتر انداز سے اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کو پہچانیں ،پھر بھی ہم نے ان ہستیوں کی عظمت کوغور و فکر اور اپنی محدود عقل کے ذریعہ پہچانا ۔پس ہمارے تمام تر اعتقادات ہماری عقل کی حد کے مطابق ہیں اور حقیقت میں ہم ان کی عظمت کو اپنی محدودفہم  و عقل سے درک کرتے ہیں۔(1)

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری معرفت کامل اور بہتر ہو  اورہم اپنے ذہن میں جن چیزوں کو تصور کرتے ہیں اور جن کے بارے میں سوچتے اور انہیں پروان چڑھاتے ہیں ،وہ حقیقت سے زیادہ نزدیک ہوں تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے معارف مکتب وحی سے سیکھیں  اور  مکتب اہلبیت علیھم السلام کے حیات بخش فرامین کی روشنی میں حقایق کی جستجو کریں اور ان کے احکامات کو تسلیم کریں۔اگرچہ وہ ہماری فہم اور فکری سطح کے مطابق نہ ہوں ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے قلب کی تاریکی کو ان کے نورانی کلمات سے منور کریں ورنہ دل کی یہ تاریکی اپنا کام کر دیتی ہے اور انسان کو تباہی و بربادی کی طرف لے جاتی ہے۔

عقاید و معارف اہلبیت علیھم السلام سے آشنائی اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے نفس کو جلا و صفا ملتی ہے اور ضمیر ان کے تابناک انوار سے روشن و منور ہوتاہے ۔پھراگرتکامل حاصل ہو جائے تواس سے انسان کے ذہن میں بچپن سے موجود غلط اعتقادات بلکہ نسل در نسل اور وراثت میں ملنے والے  غلط عقائد بھی پاک ہو جاتے ہیں۔

--------------

[1] ۔ اس کی مزید وضاحت کے لئے بہت اہم روایت کی طرف رجوع فرمائیں جسے مرحوم شیخ بہائی نے اپنی کتاب''اربعون حدیثاً:81'' میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔

۴۴

معارف کہاں سے سیکھیں

معارف سے آشنائی سعادت و نیک بختی کا راستہ ہے ۔ہمیں معارف منبع وحی سے سیکھنے چاہئیں تا کہ ہم اپنے دل کو ان کے تابناک انوار سے منور کر سکیں۔ہمیں ان لوگوں سے گریز کرنا چاہئے جنہوں نے اپنے عقائد مکتب وحی علیھم السلام سے نہیں سیکھے ۔اگر ہم ان کی باتیں سنیں اور ان کے عقائد کی جستجو کریں تو ہم صراط مستقیم سے دور ہو جائیں گے اور ان کی پیروی کرنے کی وجہ سے ہم جہالت کے خشک اور بیابان سراب میں گم ہو جائیں گے اور ان کے کھوکھلے الفاظ کے گرداب میں پھنس کر تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

پس یہی بہتر ہے کہ ہم شروع سے ہی صحیح عقائد و معارف کی پہچان کے لئے سفیران الٰہی کا رخ کریں کہ جن کی گفتار وحی الٰہی ہوتی ہے اور ان سے رہنمائی حاصل کریں ۔ان کے فرمودات کو آنکھوں سے لگائیں اور انہیں اپنے دل میں جگہ دیں کیونکہ یہ معارف الٰہی کی طرف ہدایت کا راستہ ہیں۔

حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

''بِنٰا اِهْتَدُوا السَّبِیْلَ اِلٰی مَعْرِفَةِ اللّٰهِ'' (1)

(مقرب ملائکہ کی)ہمارے وسیلہ سے خدا کو پہچاننے کے راستہ کی طرف ہدایت ہوئی۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۲6ص۳۵۰اور  ج۳6ص۳۳۷، کفایة الأثر:21

۴۵

گذشتہ زمانے سے ابھی غیبت کے زمانے تک انسان نے اپنے ذہن کے صرف کروڑویں حصے کو ہی بروئے کار لایا ہے اور بقیہ حصے سے استفادہ نہیں کیا۔

یہاںذہن میں  یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جو انسان اب تک اپنے ذہن کی تمام توانائیوں کو بروئے کار نہیں لا سکااور جس میں اپنے ذہن کی توانائیوں کو پہچاننے کی قدرت نہیں ہے تو وہ انسان خاندان وحی علیھم السلام کی ہدایت و رہنمائی کے بغیر صرف اپنے ذہن کی توانائیوں کے کروڑویں حصے پر ہی بھروسہ کرتے ہوئے کس طرح معارف الٰہی حاصل کر سکتا ہے اور کس طرح خالق کائنات کو پہچان سکتاہے۔

پس یہی بہتر ہے کہ انسان خود کو شاہدان خلقت کے ارشادات کے سپرد کر دے اور دوسروں کے دھوکے ومکاری کے جال میں پھنس کر فریب نہ کھائیں اور

دوسروں کو بھی فریب نہ دیں۔

مگر کیا خداوند متعال نے قرآن مجید میں یہ نہیں فرمایاہے:

(یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِیْنَ) (1)

اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔

مگریہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان ایمان اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس آیت شریفہ کی رو سے معصومین علیھم السلام کے ساتھ بھی ہو لیکن وہ اپنے اعتقادات و عقائد دوسرے مکاتب سے اخذ کرتاہو؟!

--------------

[1]۔ سورۂ توبہ ،آیت:119

۴۶

کیا ساتھ ہونے اور معیّت کے یہی معنی ہیں؟!کیا مقام ولایت اور مکتب اہلبیت علیھم السلام کی پیروی کے یہ معنی ہیں؟!

خدا اوند کریم کا ارشاد ہے:(مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَال صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَیْْهِ ) (1)

مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے۔

جی ہاں جس طرح قرآن مجید نے فرمایاہے :کچھ ایمان والے افراد ہی روز ازل سے کئے گئے وعدے پر ہی باقی رہیں گے  لیکن دوسرے دانستہ یا نادانستہ طور پر صراط مستقیم سے دور ہو جائیں گے اور شیطان کے جال میں پھنس جائیں گے اور پھر آہستہ آہستہ ان میں خاندان وحی علیھم السلام اور ان کے فرمودات کا احترام کم ہوتا چلا جائے گا۔

کیا قرآن اور اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی پیروی کے یہ معنی  ہیں؟!کیا انہوں نے بھی دوسروں کی طرح مشہورحدیث ثقلین کو اَن دیکھا کردیا اور بھلا دیا ہے؟!

اس بناء پر ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے عقائد قرآن مجید اور اہلبیت اطہار علیھم السلام سے سیکھیں اور اسی راستے سے حقائق تک پہنچیں جس کی طرف انہوں نے رہنمائی فرمائی ہے۔کیونکہ ذاتی و شخصی آرا ء اور قیاس سے ہم نہ صرف حقائق و معارف تک نہیںپہنچ  سکتے ہیں بلکہ ہم سے بالکل راہ ہی گم ہو جائے گی۔ جس سے ہم گمراہی میں مبتلا ہو جائیں گے۔

اس بارے میں  امیر المؤمنین  حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''مَنِ اعْتَمَدَ عَلَی الرَّأْیِ وَالْقِیٰاسِ فِمَعْرِفَةِ اللّٰهِ ضَلَّ وَ تَشَعَّبَتْ عَلَیْهِ الْاُمُوْرُ'' (2) جو کوئی خدا کی معرفت میں رائے اور قیاس پر اعتماد کرے وہ گمراہ ہو جائے گا اور اس پر امور غیر واضح ہو جائیں گے۔

--------------

[1]۔ سورۂ احزاب ،آیت:23

[2]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ص۴6۳

۴۷

اس بناء پر رائے،قیاس اور احتمال سے خدا کی معرفت حاصل نہیں کی جاسکتی کیونکہ قیاس کے ذریعے حاصل ہونے والی معرفت کا نتیجہ گمراہی ہوتا ہے ۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''رُبَّ مَعْرِفَةٍ اَدَّتْ اِلَی التَّضْلِیْلِ'' (1)

کبھی معرفت (انسان کو )گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔

ممکن ہے کہ کسی مکتب میں معارف و حقائق بھی ہوں لیکن اگر ان کا انجام گمراہی ہو تو اس کا کیا فائدہ ہے ؟

اس بناء پرخودبینی میں گرفتار افراد،خود کو ہی اصل ذات سمجھنے والے  اور خود کو راز و نیاز اور دعا و مناجات سے بے نیاز سمجھنے والوں نے معرفت سے بالکل استفادہ نہیں کیا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ یَقْبَلُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ عَمَلاً اِلاّٰ بِمَعْرِفَةِ وَ لاٰ مَعْرِفَةَ اِلاّٰ بِعَمَلٍ ، فَمَنْ عَرَفَ دَلَّتْهُ  مَعْرِفَتُهُ عَلَی الْعَمَلِ وَ مَنْ لَمْ یَعْمَلْ فَلاٰ مَعْرِفَةَ لَهُ ، اِنَّ الْاِیْمٰانَ بَعْضُهُ مِنْ بَعْضٍ'' (2)

خداوند کسی عمل کو قبول نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ معرفت کے ساتھ انجام دیا گیا ہو،اور عمل کے بغیر کوئی معرفت نہیں ہوتی ۔پس جو پہچان و شناخت رکھتا ہو ،اس کی معرفت اسے عمل کی طرف رہنمائی کرے گی اور جو کوئی عمل نہ کرے اسے کوئی معرفت نہیں ہے ۔کیونکہ بعض اپنا ایمان دوسرے بعض سے لیتے ہیں۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج۴ص۷۵

[2]۔ بحار الانوار:ج۱ص۲۰۷

۴۸

اس بناء پر عبادت اور مناجات سے ہاتھ اٹھا لینا معرفت کی دلیل نہیں ہے بلکہ معرفت کی علامت صحیح معارف (جو انسان نے سیکھے ہیں)کے مطابق عمل کرنا ہے۔

معارف کے اعلی درجوں تک پہنچنے والے افراد اپنے دل کو کسب معارف سے نورانی کرتے ہیں  وہ معارف کی جتنی بھی منزلوں کو طے کریں ،انہیں خدا کی اتنی ہی زیادہ معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ خود کو خدا اور اولیائے خدا کے سامنے بہت چھوٹا سمجھتے ہیں اور ان کی نظروں میں ان کی تقصیر و کوتاہی جلوہ گر ہوتی ہے۔سید الساجدین حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:

''جَعَلَ مَعْرِفَتَهُمْ بِالتَّقْصِیْرِ شُکْراً'' (1) (خدا نے عرفاء کی ) معرفت کو ان کی تقصیر سے شکر قرار دیا ہے۔

وہ عرفان کے جتنے بھی  بلند درجات تک پہنچ جائیں ،انہیں اتنی ہی زیادہ خداکی عظمت اور اپنی تقصیر دکھائی دے گی۔خود بینی میں گرفتار افراد کے لئے بہتر ہے کہ وہ معرفت ِنفس کے ذریعہ خود بینی سے چھٹکارا حاصل کریں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:''سُدَّ سَبِیْلَ الْعُجْبِ بِمَعْرِفَةِ النَّفْسِ'' (2)

نفس کی معرفت کے ذریعے خودبینی کے راستوں کو مسدود کرو۔یہ تعجب کی بات ہے کہ کوئی اپنی روح اور نفس کو نہ پہچانے حتی کہ اسے اپنے جسم کی بھی کوئی اطلاع نہ ہواور نہ ہی وہ اپنے دماغ،خون اور بدن کے دوسرے اعضاء و جوارح سے صحیح طور پر آگاہ ہو تو وہ کس طرح معارف الٰہی تک پہنچ سکتا ہے اور کس طرح خلاق کائنات کو پہچان سکتاہے ۔ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''عَجِبْتُ لِمَنْ یَجْهَلْ نَفْسَهُ کَیْفَ یَعْرِفُ رَبَّهُ؟! (3) مجھے تعجب ہے !جو اپنے نفس سے جاہل ہو ،وہ کس طرح خدا کو پہچان سکتاہے؟!

--------------

[1]۔ بحار الانوار:78،تحف العقول:278

[2]۔ بحار الانوار: ج۷۸ص164،تحف العقول:284

[3]۔ شرح غرر الحکم:ج 4ص۳۴۱

۴۹

ایسے افراد تکبر،خود بینی اور خود فروشی کو خود سازی اور خودشناسی سمجھتے ہیں !لیکن اس کے باوجود وہ دوسرے لوگوں کی مدد اور ہدایت کرتے ہیں!!!امیر المؤمنین  حضرت  علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''عَجِبْتُ لِمَنْ یَتَصَّدی لِاِصْلاٰحِ النّٰاسِ وَ نَفْسُهُ أَشَدُّ شَْئٍ فِسٰاداً'' (1)

مجھے تعجب ہے !جو لوگوں کی اصلاح کا ذمہ دار ہو ،لیکن اس کا نفس فساد کے لحاظ سے ہر چیز سے شدید تر ہے!

 قرآن مجید میں خداوند کریم کا ارشاد ہے:(أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَکُمْ) (2)

کیا تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے کو بھول جاتے ہو ۔

پس یہی بہتر ہے کہ ایسے افراد دوسروںکے لئے دلسوزی چھوڑ کر پہلے اپنی خودسازی کی کوشش کریں ۔خداوند متعال کا ارشاد ہے :(عَلَیْْکُمْ أَنفُسَکُمْ لاَ یَضُرُّکُم مَّنْ ضَلَّ ِذَا اهْتَدَیْْتُمْ ) (3)

 اپنے نفس کی فکر کرو ۔اگر تم ہدایت یافتہ رہے تو گمراہوں کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔

 امیر المؤمنین  حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اَیُّهَا النّٰاسُ عَلَیْکُمْ بِالطّٰاعَةِ وَالْمَعْرِفَةِ بِمَنْ لاٰ تَعْذِرُوْنَ بِجِهٰالَتِهِ'' (4)

اے لوگو!تم پر خدا کی اطاعت اور ایسے لوگوں کی شناخت لازم ہے کہ اگر تم نے انہیں نہ پہچانا تو تمہارا کوئی عذر قبول نہیں  کیا جائے گا۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج۴ص۳۴۰

[2]۔ سورۂ بقرہ ،آیت:44

[3]۔ سورۂ مائدہ،آیت :105

[4]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۰۰

۵۰

عارف نما لوگو ں کی شناخت

معارف کے حصول کی اہم اور ضروری شرائط میں سے ایک مقام معرفت تک پہنچنا اور ایسے افراد کو پہچانناکہ جن سے معرفت و حقائق کی بو نہیں آتی لیکن وہ لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کرتے ہیں۔

یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان عالی معارف تک پہنچ جائے لیکن وہ دین کے دشمنوں کی ضلالت و گمراہی میں شک کرے ؟!

معارف تک پہنچنے کے لئے جھوٹے دعویداروں کی گمراہی روشن ہونی چاہئے تاکہ انسان ان کے دعوؤں پر فریفتہ نہ ہو۔

امیرالمؤمنین  حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

''وَاعْلَمُوا أَنَّکُمْ لَنْ تَعْرِفُوا الرُّشْدَ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِی تَرَکَهُ ، وَ لَنْ تَأْخُذُوا بِمِیْثٰاقِ الْکِتٰابِ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِ نَقَضَهُ وَ لَنْ تَمَسَّکُوا بِهِ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِی نَبَذَهُ'' (1)

جان لو کہ تم لوگ ہدایت کی راہ کو نہیں پہچانتے جب تک اسے ترک کرنے والوں کو نہ پہچان لو اور تم لوگ تب تک آئینِ قرآن پر عمل نہیں کر سکتے جب تک پیماآئین شکنوں کو نہ پہچان لو ، اور تم اس سے تب تک تمسک اختیار نہیں کر سکتے جب تک اسے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو۔

--------------

[1]۔ نہج البلاغہ خطبہ: 147

۵۱

شمس درخشندہ چو پنھان شود            شب پرہ بازیگر میدان شود

عرفان اور معرفت کی جستجوکرنے والے بہت سے لوگ صرف عرفانی افکار پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ روحانی مسائل سے ذہن بھر لینے کی صورت میںوہ  خیالات میںہی عالم ملکوت کی سیر کرتے ہیں! حلانکہ معرفت کی جگہ ذہن اور افکار نہیںہیں اور جب تک عرفانی افکار دل اور باطن سے نہ نکلیں تب تک غرور و تکبرکے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

ایسے افراد کا باطن رات کی تاریکی سے زیادہ سیاہ ہوتاہے ،کیونکہ ان کے دل میں معرفت نہیں ہوتی اور معرفت نے ان کے دل کو روشن نہیں کیا ہوتا اور نور معرفت نے ان کے باطن میں تجلی پیدا نہیں ہوتی۔

دمی با حق نبودی چون  زنی لاف شناسایی

تمام  عمر با خود بودی  و  نشناختی خود  را

۵۲

 عرفاء کی شناخت

جو عرفان اور معارف الٰہی سے بہرہ مند ہو ، وہ عرفانی مسائل سے آشنائی کے بعد اپنے باطن میں مثبت اور واضح تبدیلیاں دیکھتاہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

''اِذَا تَجَلّٰی ضِیٰائُ الُمَعْرِفَةِ فِ الْفُؤٰادِ هٰاجَ رِیحُ الْمَحَبَّةِ ، وَ اِذَا هٰاجَ رِیْحُ الْمَحَبَّةِ اِسْتَأْنَسَ ظِلاٰلَ الْمَحْبُوْبِ وَ آثَرَ الْمَحْبُوْبَ عَلیٰ مٰا سَوٰاهُ'' (1)

جب کسی کے دل میں  نور معرفت چمکے تو اس میں نسیم محبت پیدا ہوتی ہے اور جب نسیم محبت پیدا ہو تووہ محبوب کے سائے سے بھی محبت کرتا ہے اور اسے دوسروں  پر ترجیح دیتا ہے۔

اس بناء پر فقط عرفانی افکار پر ہی اکتفا کرنے اور اپنے ذہن کو روحانی مسائل سے بھر لینے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔کیونکہ مکتب اہلبیت علیھم السلام کے نزدیک جو کوئی معارف اور عرفانی مسائل کو(جن کا مبنٰی قرآن و سنت ہو)جانتا ہو اور اس نے معارف کو اپنے دل میں جگہ دی ہو نہ کہ صرف ذہن و افکار ہی میں، تو یہ واضح ہے کہ جب انسان کے دل میں معارف جاگزیں ہو جائیں (نہ کہ ذہن اور زبان میں)تو اس کے رفتار و کردار میں اہم تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔

صحیح معرفت کی اہم نشانیوں میں سے اصلاح نفس اور ہوا و ہوس سے نجات ہے۔صحیح معارف تک پہنچنے والا انسان حکمت و معارف اہلبیت علیھم السلام سے آشنائی حاصل کرنے کے بعد اس فانی دنیا اور نفسانی خواہشات سے دور ہو جاتاہے ۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۲۳، مصباح الشریعة: ص2

۵۳

اس بارے میں امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ صَحَّتْ مَعْرِفَتُهُ اِنْصَرَفَتْ عَنِ الْعٰالَمِ الْفٰانِی نَفْسُهُ وَ هِمَّتُهُ'' (1)

جس کی معرفت صحیح ہو ،اس کا نفس اور ہمت فانی دنیا سے منہ موڑ لیتی ہے۔

اس بناء پر جن کی تمام  تر ہمت اور فکر مال و دولت کو جمع کرنے کی طرف ہی ہو وہ کس طرح سے صحیح معرفت حاصل کر سکتے ہیں؟!

لیکن کیا ایسا نہیںہے کہ معرفت قلبی امور میں سے ہے نہ کہ ذہنی ؟!

اس صورت میں اگر کسی کے دل کو انوار معارف  نے اپنے احاطہ میں لے لیا ہوتو وہ کس طرح دنیاوی اموال اور نفسانی شہوت میں غرق رہ سکتا ہے اور کس طرح اس کی ہمت و ارادہ نفسانی خواہشات کا پابند ہو سکتاہے؟!

لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ جیسے حضرت امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:

''.....اِنَّمٰا اَهْلُ الدُّنْیٰا یَعْشِقُوْنَ الْاَمْوٰالَ'' (2)

بیشک دنیا والے مال و دولت سے عشق کریںگے۔

جس کادل مادی دنیاکے عشق سے لبریز ہو چکاہو جیسے شہرت و حکومت تو وہ کس طرح اپنے دل کوخاندان وحی علیھم السلام کے انوار سے سرشار اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کے معارف سے منور کر سکتاہے ؟!

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ ص۴۵۳

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۲۳، مصباح الشریعة: ص۲

۵۴

عرفاء کی صفات

معرفت اور معارف کے انوار کی چمک سے عرفاء  کے دل اور افکار خدا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور وہ فقط خدائے مہربان کی طرف توجہ کرتے ہیں  اسی وجہ سے اگرچہ وہ لوگوں کے ساتھ اور لوگوں میں زندگی بسر کرتے ہیں لیکن وہ خود کو ہمیشہ خدا کے محضر میں ہی تصور کرتے ہیں:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

''اَلْعٰارِفُ شَخْصُهُ مَعَ الْخَلْقِ وَ قَلْبُهُ مَعَ اللّٰهِ'' (1)

عارف ظاہراً لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہوتاہے۔

ذرا غور کیجئے !اہلبیت اطہار علیھم السلام نے جس عرفان کا تعارف کروایا ہے اور لوگوں کے بنائے گئے عرفان(جو تمام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتاہے) میں کتنا فرق ہے۔

مکتب اہلبیت علیھم السلام کی نظر میں صاحبان معرفت نہ صرف اپنے پورے وجود سے خدا کی طرف متوجہ ہیں بلکہ خدا نے ان کی روح اور نفس کو اپنی معرفت سے مأنوس کر دیاہے۔

سید الساجدین حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی مناجات انجیلیہ میں آیاہے:

''وَ اٰنَسْتَ نُفُوْسَهُمْ بِمَعْرِفَتِکَ'' (2)

ان کے نفوس (سالکین الی اللہ)کو اپنی معرفت سے مانوس کر دیا۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۹۲ص۲۴۴،اور ج۷۱ص۲۳۰

[2] بحار الانوار:ج۹۴ص۱۵6

۵۵

معارف کے ساتھ انس کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان کی معرفت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور تب تک اس میں اضافہ ہوتا رہتاہے جب تک اس کی وجہ سے معرفت کے عالی درجات تک نہ پہنچ جائیں۔ایسے عرفاء کو علوی کہا جاتا ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اَلْمُؤْمِنُ عَلَوِّ لِاَنَّهُ عَلاٰ فِ الْمَعْرِفَةِ'' (1)

مومن علوی ہے کیونکہ اس نے معرفت میں عالی مقام حاصل کیا ہے۔

اس صورت میں معارف کے تابناک انوار پورے وجود پر احاطہ کر لیتے ہیں اور معارف الٰہی سے روح بھی منور ہو جاتی ہے اور علوم کے دریا میں قیمتی اور نایاب جواہر میسر آتے ہیں۔یوں ہمیشہ معارف کے خزانوں میں اضافہ ہوتا رہتاہے یہاں تک کہ اسرار الٰہی کے خزانے تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے  اور اسے قیمتی امانت کی طرح اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا جاتاہے۔

 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اَلْعٰارِفُ اَمِیْنُ وَدٰائِعِ اللّٰهِ وَ کَنْزُ اَسْرٰارِهِ'' (2)

عارف ودیعہ الٰہی اور اسرار خدا کے خزانوں کا امانتدار ہوتاہے۔

اس بناء پرجو حقیقی عرفان کے عظیم مقام پر فائز ہوں اور جنہوں نے حقیقی عرفان کی راہ میں سیر و سلوک کی منزل طے کی ہو،وہ کس طرح کسی بھی راز کو آسانی سے بیچ سکتے ہیں اور کس طرح یہ خزانہ  ایسے لوگوں کی دسترس میں دے سکتے ہیں جنہوں نے اس کے لئے زحمت اور تکلیف نہ اٹھائی ہو؟!

--------------

 [1] بحار الانوار:ج6۷ص۱۷۱، علل الشرائع: ج۲ص۱۵۲

[2]۔ بحار الانوار:ج 3ص۱۴

۵۶

 صاحبان معرفت کی صحبت

معارف سے آشنائی اور مکتب اہلبیت علیھم السلام کے عقائد کی شناخت کے لئے دینی معارف کی راہ میں مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کرنے والے افراد کی صحبت اور ان سے گفتگو بہت اثر رکھتی ہے۔ اسی لئے آئمہ اطہار علیھم السلام کے اقوال میں ہمیں ایسے افراد کی صحبت کی تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:

''جٰالِسُوا أَهْلَ الدِّیْنِ وَ الْمَعْرِفَةِ'' (1)

اہل دین اور اہل معرفت کی صحبت اختیار کرو۔

صاحبان معرفت کی صحبت کے نتیجہ میں دینی حقائق کے بارے میں انسان کی شناخت میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کے وجود سے نکلنے والے کلمات انسان کے وجود پر بہت گہرا اثر رکھتے ہیں۔

اس بناء پر معارف کی آشنائی کا ایک بہت اہم اور مؤثر ذریعہ بزرگان معرفت اور صاحبان معرفت کی صحبت ہے۔اس ذریعے ان کی باتوں کو سن کر اپنی روح منورکریں اور خاندان وحی علیھم السلام کے معارف سے آشنائی حاصل کریں۔

کیونکہ یہی خاندان نبوت علیھم السلام کے حقیقی شیعہ اور سچے پیروکار ہیں اور جو اس خاندان پاک علیھم السلام  کا پیروکار ہووہ لوگوں کو اپنی طرف نہیں بلکہ علوم و معارف اور حقوق اہلبیت علیھم السلام کی طرف دعوت دیتا ہے۔

پس اہل دین اور صاحبان معرفت کی صحبت میں اختیار کرو تا کہ خاندان نبوت علیھم السلام کے معارف الٰہی سے آگاہ ہو سکو۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۷۴ص۱۹6

۵۷

 عرفانی حالت میں تعادل و ہماہنگی کا خیال رکھنا

عرفانی مسائل کی طرف متوجہ ہونے والے افراد غیر متعارف اور استثنائی حالات میں گرفتار ہونے سے نجات کے لئے عرفانی حالات میں تعادل اور ہماہنگی کا خیال رکھنے کی کوشش کریں۔

اس لئے بزرگان نفرت اور محبت کو ہماہنگ کرتے ہیں کیونکہ نفرت ایک منفی چیز ہے لہذا یہ منفی چیزوں کے لئے ہونی چاہئے اور محبت ایک مثبت چیزہے لہذا یہ مثبت چیزوں میں ہونی چاہئے ۔کیونکہ  معنوی امور میں ترقی و پیشرفت کا لازمہ تعادل اور ہماہنگی ہے۔

جیسا کہ ایک بلب کے روشن ہونے کے لئے مثبت اور منفی برقی شعاعوں کا ہونا ضروری ہے اسی طرح معنوی روشنی کے لئے بھی مثبت اور منفی حالات ہماہنگ اور متعادل ہونے چاہئیں اور دونوں سے ان کے اپنے مورد میں استفادہ کیا جائے۔

پس جس طرح ہمارے دل میں ولایت اہلبیت علیھم السلام کا ہونا ضروری ہے اسی طرح ہمارے دل میں  ولایت اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے بیزاری اور ان کے لئے نفرت بھی ہونی چاہئے۔

جس طرح ہمارے دل میں ظالموں اور جابروں کے لئے نفرت ہونی چاہئے اسی طرح نیک اور صالح افرادکے لئے محبت بھی ہونی چاہئے ۔اسی لئے حقیقی عرفاء دنیا اور معاشرے کی صورت حال سے    تنفر کو معنوی امور سے ہماہنگ اور متعادل کرتے ہیں ۔

اسی وجہ سے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام شوق کو عرفا ء کے شخصی حالات سے قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

۵۸

''اَلشَّوْقُ خُلْصٰانُ الْعٰارِفِیْنَ'' (1)

شوق عرفا ء کی صفات میں سے  ہے ۔

اگران کا  متنفر مسائل سے واسطہ پڑھ جائے کہ جو ان کی لطیف روح کواذیت پہنچائیں تو وہ روحانی کسالت میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن وہ اسے خود سے شوق و نشاط کے ذریعے اسے خود سے دور کرتے ہیں اور اسی وسیلہ سے وہ خود میں تعادل و ہماہنگی ایجاد کرتے ہیں۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام ہمّام سے مومن کی اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تَرٰاهُ بَعِیْداً کَسِلُهُ ، دٰائِمًا نَشٰاطُهُ'' (2)

تم اس(مومن) سے کسالت کودور دیکھو گے اور ہمیشہ اسے با نشاط دیکھو گے۔

 اسی وجہ سے مکتب اہلبیت علیھم السلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم گناہوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی ناامیدی کا نشاط کے ذریعے یعنی خداوند کریم کیرحم و بخشش کی طرف توجہ کرکے جبران کریں۔جمعہ کے دن منقول دو رکعت نماز کے بعد کی دعا میں ہے:

''اِنْ اَقْنَطَتْنِ ذُنُوْبِ نَشَّطَنِ عَفْوُکَ'' (3)

اگر میرے گناہ مجھے ناامید کر دیں تو تیری بخشش مجھے امید و نشاطکی طرف ابھارتی ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غررالحکم: ج۱ص۲۱۴

[2]۔ بحار الانوار:ج6۷ص۳6۷

[3]۔ بحار الانوار:ج ۸۹ص۳۷۰ مصباح المتہجد:223

۵۹

روحانی و عرفانی حالات میں  بسط و قبض نفس (دو عرفانی اصطلاحاتیعنی نفس پر قابو رکھنا) جیسے مسائل  بہت  اہم ہیں اور ان کی طرف توجہ کرناضروری ہے۔

گناہ کی وجہ سے انسان اپنے نفس پر قابو نہیں رکھھ سکتا  لیکن خدا کی رحمت و بخشش سے باپنے نفس پر ابو پا لیتاہے ہے کیونکہ خداوند کی بخشش  نشاط کا باعث ہے۔

اس بناء پر گناہ کے وقت توبہ اور خدا کی بخشش کی طرف متوجہ رہیں تا کہ بسط و قبض نفس کی حالت میں تعادل و ہماہنگی ایجاد ہو سکے ۔خدا کیبخشش کی طرف توجہ سے قبض نفس کی حالت زائل ہو جاتی ہے  اور نفس کے لئے بسط کی حالت ایجاد ہوتی ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اَلسُّرُوْرَ یَبْسِطُ النَّفْسَ وَ یَثِیْرُ النَّشٰاطَ '' (1)

سرور و مسرت نفس کو بسط کی حالت دیتا ہے اور نشاط میں اضافہ کرتا ہے۔

پس اگر کوئی گناہ کا مرتکب ہو تو گرفتگی و قبض کی حالت کو سرور (خدا کی بخشش سے حاصل ہونے والا سرور) سے متعادل کرے تا کہ ناامیدی اور گناہ کی تکرار نہ ہو۔

 اب جب کہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ روحانی حالات میں تعادل کا خیال رکھنا ضروری ہے  تو اس بناء پر جو افراد روح کی پرواز کی طرف مائل ہیں انہیں یہ خیال رکھنا چاہئے کہ پرواز ہمیشہ دو پروں کے ذریعے ہی کی جاتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر گرنا اور سقوط حتمی ہوتاہے۔پس دو پروں سے استفادہ کرنے کے لئے دو متقابل حالتوں میں تعادل و ہماہنگی ایجاد کریں۔

--------------

[1]۔ شرح غررالحکم:ج۲ص۱۱۳

۶۰