کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار21%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 126705 / ڈاؤنلوڈ: 5742
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

ایسی عبادت کبھی دوسرے لوگوں کی بددلی کا باعث بنتی ہے حالانکہ عبادت سے انسان کے دل میں نشاط و فرحت کی حالت پیداہونی چاہئے نہ کہ کراہت و نفرت ۔  ایسی عبادات کے منفی اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔

اسی لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ تَکْرَهُوا اِلٰی اَنْفُسِکُمْ اَلْعِبٰادَةَ'' ( ۱ )

اپنے نفسوں کو عبادت کے لئے مجبور نہ کرو۔

بلکہ رغبت اور شوق سے عبادت انجام دوتا کہ عبادت کے انمول آثار آپ کے وجود میںپیدا ہو سکیں۔

شاید بعض لوگ یہ کہیں:اس صورت میںتو بہت سے عبادت کرنے والوں کو اپنی عبادت ترک کردینی چاہئے کیونکہ عبادت کے وقت نہ  تو ان میں خشوع و خضوع اور توجہ کی حالت ہوتی ہے بلکہ وہ مجبوراً عبادت انجام دیتے ہیں کیونکہ ان کا نفس عبادت کو انجام دینے کی طرف مائل نہیں ہوتا۔

ان سے ہم یہ کہتے ہیں:ایسا طرز تفکر مکتب اہلبیت علیھم السلام سے صحیح طور پر آشنا نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔خاندان نبوت علیھم السلام کے ارشادات پر غور و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ خدا نے انسان میں جو منفی حالات اور صفات پیدا کی ہیں جیسے حسد،کینہ،کراہت وغیر ہ۔ان سب کو خدا کے دشمنوں سے استفادہ کرنے کے لئے استعمال کیا جائے ۔لہذا انسان کو یہ نہیں چاہئے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ(جو ایک منفی صفت ہے) دیتا پھرے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو فریب دے  اور پھر تلقین اور نرم زبان سے کراہت کی حالت کو ختم کرے اور خود کو عبادت کی طرف مائل کرے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۲۱۳،اصول کافی:ج۲ص۸۶

۸۱

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''خٰادِعْ نَفْسَکَ فِ الْعِبٰادَةِ وَارْفِقْ بِهٰا وَلاٰ تَقْهَرْهٰا'' ( ۱ )

عبادت میں اپنے نفس کو فریب دو اور اس کے ساتھ دوستی کرو اور اسے (عبادت کے لئے )مجبور نہ کرو۔

اس بناء پر جوکوئی بھی عبادت  کو مجبوری سے انجام دیتا ہو اسے چاہئے کہ وہ عبادت کو ترک کرنے کے بجائے اپنے نفس سے کراہت کی حالت کو برطرف کرے نہ کہ اپنی عبادت کو ہی چھوڑ دے۔کیونکہ عبادت ذوق و شوق اور فرحت و نشاط سے انجام دینی چاہئے نہ کہ مجبوری اور کراہت سے۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ تُبَغِّضْ اِلٰی نَفْسِکَ عِبٰادَةَ رَبِّکَ'' ( ۲ )

اپنے نفس کو خدا کی عبادت کا دشمن قرار نہ دو۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۳۳ص۵۰۹،نہج البلاغہ ،مکتوب:۶۹

[۲] ۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۲۱۴،اصول کافی:ج۲ص۷۸

۸۲

 عبادت کیا ہے؟

عبادت کیاہے اور کن چیزوں کو عبادی امور کا نام دے سکتے ہیں؟

یہ ایک اہم سوال ہے جس کی طرف کبھی کبھار بعض افراد کے اذہان متوجہ ہو جاتے ہیں ۔ممکن ہے کہ بعض لوگ عبادت کو نماز ،روزہ اور ان جیسے دوسرے امور ہی میں منحصر سمجھیں لیکن روایات اہلبیت علیھم السلام کی طرف رجوع کرنے اور ان کی رہنمائی سے یہ معلوم ہوتاہے کہ نماز اورر روزے کو انجام دینا ہی عبادت نہیں ہے۔کیونکہ عبادت کے معنی خدا کی بندگی ہے اور خدا کی بندگی و اطاعت اسی صورت میں وقوع پذیر ہو سکتی ہے کہ انسان وہی انجام دے جو خدا چاہتاہے اور خدا صرف  یہ نہیں چاہتا کہ کثرت سے نماز و روزہ بجا لاؤ۔

اس بارے میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لَیْسَتِ الْعِبٰادَةُ کَثْرَةَ الصَّلاٰةِ وَ الصِّیٰامِ ،وَ اِنَّمَا الْعِبٰادَةُ کَثْرَةُ التَّفَکُّرِ فِ اَمْرِ اللّٰهِ'' (۱)

کثرت سے  نمازیں پڑھنا اور روزہ رکھنا عبادت نہیں ہے ،بیشک خدا کے امر میں زیادہ تفکر اور غور و فکر کرنا عبادت ہے۔

خدا جو کچھ چاہتا ہے ،اسے انجام دینا عبادت ہے  اور اسی طریقے سے انسان مقام عبودیت تک پہنچ سکتاہے ۔مقام عبودیت و بندگی تک پہنچنے کا ملاک ومعیار عبادت کی اہمیت ہے۔اعمال اور کثرت عبادات، معنوی درجات تک پہنچنے کی حتمی و لازمی شرائط میں سے نہیں ہے۔کیونکہ اعمال و عبادات کی   اہمیت ان کی کثرت سے نہیں بلکہ ان کی اہمیت سے ہے ۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۸ص۳۷۳،تحف العقول:۴۸۶

۸۳

عبادات اسی صورت میں کوئی اہمیت رکھتی ہیں کہ جب وہ بہت زیادہ تأثیر رکھتی ہوں اور جب وہ انسان کے باطن میں تبدیلی پیدا کر یں۔اس بناء پر عبادات کی اہمیت کا اندازہ عبادت کرنے والوں میں تبدیلی ایجاد ہونے سے ہی لگایا جا سکتاہے۔

اس بیان سے یہ واضح ہو جاتاہے کہ اپنے نفس میں تبدیلی ایجاد کرنے والے اور معنوی توانائیوں سے بہرہ مند ہونے والے اولیائے خدا کی کامیابی کا معیار ان کی عبادتوں کی تأثیر ہے نہ کہ ان کی کثرت عبادت۔اگرچہ بہت سے مقامات پر عبادات کی تأثیر ،عبادات کی کثرت پر ہی موقوف ہوتی ہے۔لیکن یہ ایک کلّی قانون نہیں ہے۔

اس حقیقت پر ہماری دلیل حضرت امام صادق علیہ السلام کے خاص صحابی جناب مفضل سے منقول روایت ہے ۔آپ نے فرمایا:

''کُنْتُ عِنْدَ اَبِ عَبْدِاللّٰهِ علیه السلام فَذَکَرْنَا الْاَعْمٰالَ ،فَقُلْتُ اَنَا مَا أَضْعَفَ عَمَلِْ؟فَقٰالَ:مَهْ اِسْتَغْفِرِ اللّٰهَ،ثُمَّ قَالَ لِْ:اِنَّ قَلِیْلَ الْعَمَلِ مَعَ التَّقْویٰ خَیْر مِنْ کَثِیْرٍ بِلاٰ تَقْویٰقُلْتُ:کَیْفَ یَکُوْنُ کَثِیْر بِلاٰ تَقْویٰ ؟قَالَ:نَعَمْ ،مِثْلُ الرَّجُلِ یُطْعِمُ طَعٰامَهُ،وَ یُرْفِقُ جِیْرٰانَهُ وَ یَوَطِّیُٔ رَحْلَهُ،فَاِذٰا ارْتَفَعَ لَهُ الْبٰابُ مِنَ الْحَرٰامِ دَخَلَ فِیْهِ ،فَهٰذَا الْعَمَلُ بِلاٰ تَقْویٰ ،وَ یَکُوْنُ الآخَرُ لَیْسَ عِنْدَهُ فَاِذَا ارْتَفَعَ لَهُ الْبَابُ مِنَ الْحَرٰامِ لَمْ یَدْخُلْ فِیْهِ'' ( ۱ )

میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضرتھا کہ اعمال کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی۔ میں نے کہا:میرے اعمال کتنے کم ہیں ؟!

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۸ص۳۷۳،تحف العقول:۴۸۶

۸۴

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:خاموش رہو !اور استغفار کرو۔پھر آپ  نے مجھ سے فرمایا: تقوی ٰ  کے ساتھ انجام دیئے جانے والے کم اعمال تقویٰ کے بغیر انجام دیئے گئے زیادہ اعمال سے بہتر ہے ۔

میں نے عرض کیا:کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص تقویٰ کے بغیر زیادہ اعمال انجام دے؟

آنحضرت  نے فرمایا: ہاں ۔ جیسے کوئی شخص اپنا کھانا دوسروں کو کھلا دے ، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے لئے سامان سفر فراہم کرے ۔لیکن جب بھی اس کے لئے کوئی حرام کا دروازہ کھلے تو وہ اس میں داخل ہو جائے ۔ یہ ایسا عمل ہے کہ جس میں تقویٰ نہیں ہے  اور دوسرا شخص ایسے زیادہ  اعمال انجام نہیں دیتالیکن جب اس کے لئے کوئی حرام کا دروازہ کھلے تو وہ اس میں داخل نہیں ہوتا۔

ایسا عمل تقویٰ کے ساتھ ہے اور ایسا شخص عبادت میں صداقت رکھتا ہے۔

۸۵

 محبت اہلبیت علیھم السلام یا عبادت میں نشاط کا راز

سنگین اور مشکل امور کو انجام دینے کا راز نشاط ہے۔اس کے علاوہ عبادت میں نشاط اہلبیت اطہار علیھم السلام سے محبت کی ایک دلیل بھی ہے۔کیونکہ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام سے محبت کی نشانیوں میں سے ایک عبادت و بندگی میں با نشاط ہوناہے ۔ ان ہستیوں کی محبت انسان میں عبادت و بندگی کے لئے رغبت پیدا کرتی ہے اور ہم بندگی کا درس خاندان نبوت علیھم السلام اور ان کے حقیقی پیروکاروں سے ہی سیکھتے ہیں۔

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''فِیْ حُبِّ أَهْلِ بَیْتِْ.....اَلرَّغْبَةُ اِلَی الْعِبٰادَةِ'' (۱)

میرے اہلبیت علیھم السلام کی محبت  کے ذریعہ عبادت کی طرف رغبت رکھی گئی ہے۔

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام سے آپ کی محبت جتنی زیادہ ہوگی ،عبادات اور بندگی کے لئے اتنا ہی ذوق و شوق اور رغبت زیادہ ہو جائے گی اور عبادت کے لئے آپ کی آمادگی میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار: ج۲۷ ص۱۶۳

۸۶

 نتیجۂ بحث

عبادت و بندگی مقام عبودیت تک پہنچنے اور سعادت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔آپ کو غور و فکر کرنا چاہئے کہ وہی عبادت انسان کو عبودیت کے مقام تک پہنچا سکتی ہے کہ جس کے اثرات ہوں اور جو انسان کے وجود میں تحول و تبدیلی ایجاد کرے ۔ اس بناء پر اتنی ہی عبادت اہمیت رکھتی ہے کہ جس سے یہ نتیجہ حاصل ہو جائے نہ کہ عبادت کی کثرت اہمیت رکھتی ہے۔

عبادات کی انواع و اقسام سے آشنا ئی حاصل کریں اور ایک ہی طرح کے عبادی امور سے گریز کریں کیونکہ یہ چیز تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔عبادت کی مختلف انواع کو انجام دینے سے ذوق و شوق ایجاد ہوتاہے  پس اس طریقے سے آپ عبادات کے اثرات کو درک کرسکتے ہیں۔

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام سے آپ کی محبت جتنی زیادہ ہوگی ،عبادت و بندگی کو انجام دینے کے لئے آپ کے ذوق و شوق اور نشاط میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہو گا۔

عبادت میں نشاط سے عبادت میں تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا اور اس سے آپ کے اخلاص و صداقت میں اضافہ ہوتاہے کہ جو عبادت کی تأثیر کا لازمہ ہے ۔اس راہ پر قائم رہنے سے آپ مقام عبودیت تک پہنچ سکتے ہیں کہ جو انسان کی خلقت کا راز ہے ۔یوں آپ اپنے نفس اور شیطان رجیم پر غالب آسکتے ہیں۔

طاعت آن نیست کہ بر خاک نہی پیشانی

صدق پیش آر ،کہ اخلاص بہ پیشانی نیست

۸۷

چوتھا باب

تقوی ٰ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' أَشْعِرْ قَلْبَکَ التَّقْویٰ وَ خٰالِفِ الْهَویٰ تَغْلِبُ الشَّیْطٰانَ ''

اپنے دل کو تقویٰ کے ذریعے مطلع و آگاہ کرو اور نفسانی ہوا و ہوس کی مخالفت کرو تا کہ شیطان پر غلبہ حاصل کرسکو۔

    تقوی ٰ و پرہیزگاری

    تقویٰ دل کی حیات کا باعث

    تقویٰ اور قلب کا رابطہ

    تقویٰ الٰہی و شیطانی افکار کی شناخت کا ذریعہ

    اپنی دوستی کا معیار تقویٰ کو قرار دیں

    حرام مال سے پرہیز

    تقویٰ انسان کے بلند مقامات تک پہنچنے کا سبب

    پرہیزگاری ، اولیائے خدا کی ہمت میں اضافہ کا باعث

    تقویٰ کو ترک کرنے کی وجہ سے تبدیلی

    پرہیزگاری میں ثابت قدم رہنا

    نتیجہ ٔبحث

۸۸

 تقوی ٰ و پرہیزگاری

انسان کا دل مادی و معنوی دنیا کے درمیان رابط ہے۔اگر انسان کا دل سالم ہو تو وہ اپنی معنوی توانائیوں  سے استفادہ کرتے ہوئے الہام  دینے اور الہام قبول کرنے والا بن سکتاہے۔

دل اسی صورت میں سالم ہو سکتا ہے کہ جب وہ آلودگی اور برائیوں کے زنگ سے پاک ہو اور روحانی ناپاکیوں سے دور ہو۔ جب انسان گناہ  و فسادمیں مبتلا ہوجائے تو اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور انسان معنوی توانائیوں سے استفادہ کرنے کی قدرت کو کھو بیٹھتا ہے اور الٰہی فیض و برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔

تقویٰ قلبی اور روحانی بیماریوں کی دوا ہے ۔تقویٰ کے ذریعے دل کو پاک کرنا چاہئے اور دل کی سیاہی اور زنگ کو دور کرنا چاہئے۔

حضرت ادریس علیہ السلام کے انتیسویں صحیفہ میں آیا ہے:

''وَاغْسِلْ قَلْبَکَ بِالتَّقْویٰ کَمٰا تَغْسِلُ ثَوْبَکَ بِالْمٰائِ ،وَ اِنْ أَحْبَبْتَ رُوْحَکَ فَاجْتَهِدْ فِی الْعَمَلِ لَهٰا (۱)

جس طرح تم اپنے کپڑوں کو پانی سے دھوتے ہو ،اسی طرح اپنے دل کو تقویٰ کے ذریعے پاک کرو اور اگر تم اپنی روح سے محبت کرتے ہو تو عمل میں اس کے لئے جدوجہد کرو۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار: ج۹۵ ص۴۷۱

۸۹

 تقویٰ دل کی حیات کا باعث

قلب کی حیات اور دل کی نورانیت انسان کے تقویٰ سے وابستہ ہے ۔باتقویٰ انسان دل کی حیات،بصیرت اور دل کی نورانیت سے بہرہ مند ہوتاہے اور جو گناہوں سے آلودہ ہو اوربا تقویٰ  نہ ہو اس کا دل زنگ آلود اور معنویت  سے خالی ہوتاہے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ قَلَّ وَرَعَهُ مٰاتَ قَلْبُهُ'' (۱) جس کی پرہیزگاری کم ہو،اس کا دل مردہ ہوتا ہے۔

جو بصیرت اور معنوی حیات کے خواہاں ہوں انہیں چاہئے کہ وہ با تقویٰ ہوں تا کہ نہ صرف دنیا میں معنوی زندگی سے مستفید ہوں بلکہ آخرت میں بھی فلاح و نجات پائیں اور خدا کی بے شمار نعمتوں سے مستفید ہوں۔امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''مَنْ أَحَبَّ فَوْزَ الْآخِرَةِ فَعَلَیْهِ بِالتَّقْویٰ'' (۲) جو کوئی آخرت میں کامیاب ہونا چاہے اس کے لئے باتقویٰ اور پرہیز گار ہونا ضروری ہے۔

تقویٰ ہربا تقویٰ کا بہترین محافظ ہے ۔تقویٰ فتنوں ،بدعتوں اور گمراہیوں  میں متقی شخص کی مضبوط ڈھال ہے جو اسے گمراہ ہونے سے محفوظ رکھتی ہے اور تقویٰ متقی شخص کو فتنوں کا اصل چہرہ دکھاتا ہے اگرچہ اس کے ظاہر کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں۔تقویٰ متقی انسان کی محکم  پناہ گاہ ہے۔حضرت امام علی علیہ السلام اپنے ایک دوسرے فرمان میں ارشاد فرماتے ہیں:

''اَلتَّقْویٰ حِصْنُ حَصِیْنٍ لِمَنْ لَجَأَ اِلَیْهِ'' (۳) تقویٰ ہر اس شخص کے لئے ایک مضبوط حصار ہے ،جو اس میں پناہ لے۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم: ج۵ ص۲۶۹

[۲]۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ص۳۹۴

[۳]۔ شرح غرر الحکم: ج۵ ص۲۶۹

۹۰

 تقویٰ اور قلب کا رابطہ

دل چیزوں کو اخذ کرنے والی بھیجنے والی بہت قوی مشین ہے جسے خداوند متعال نے انسان کے وجود میں قرار دیا ہے تا کہ اس کے صحیح و سالم ہونے کی صورت میں انسان اس سے استفادہ کرکے اپنی  توانائی کے مطابق گذشتہ و آئندہ سے ارتباط برقرار کرے اور کبھی اپنی باطنی و قلبی توجہ(جو نفسانی خواہشات اور خیالات سے خالی ہو) اولیائے خدا سے مرتبط کر سکے۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف (جو کائنات کے دل کی حیثیت رکھتے ہیں)کے غیبت کے زمانے میں ہمارے دل صحت و سلامتی سے خالی اور روحانی بیماریوں میں  مبتلا ہیں ۔

حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنے نورانی کلمات میں دلوں کی صحت و سلامتی اور اسی طرح قلبی امراض کی تصریح فرمائی ہے اور مختلف بیماریوں (ہمارادل جن بیماریوںمیں مبتلا ہو چکا ہے)سے نجات کا راستہ بھی بیان کیا ہے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے تقویٰ اور انسان کے وجود میں اس کے اثرات کوبیان کرتے ہوئے فرمایا:

''فَاِنَّ تَقْوَی اللّٰهِ دَوٰائُ دٰائِ قُلُوْبِکُمْ'' (۱)

تقویٰ الٰہی آپکے دلوں کی بیماری کا علاج ہے۔

--------------

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص۲۶۹

۹۱

اگر خداوند انسان کو تقویٰ و پرہیزگاری عطا کرے تو یہ دوسری مختلف دوائیوں  کی طرح مختلف قسم   کی بیماریوں میں مبتلا بیمار دلوں کو شفا دیتاہے۔ جس طرح طوفان اور مصیبت میں گرفتار مسافروں کو کشتی نجات دیتی ہے اسی طرح تقویٰ انسان کو مختلف قسم کے فتنوں،بلاؤں اور گرفتاریوں سے ہلاک ہونے سے بچاتا ہے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ،حضرت لقمان کے اقوال کے ضمن میں فرماتے ہیں:

''.....فَلْتَکُنْ سَفِیْنَتُکَ فِیْهٰا تَقْوَی اللّٰهِ'' ( ۱ )

ان موارد میں تمہاری کشتی (نجات) تقویٰ الٰہی ہونی چاہئے۔

تقویٰ بھی ایک طاقتور کشتی کی طرح بلاؤں کی امواج کو چیرکر انسان کو فتنوں سے نجات دلاتا ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''وَاعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ یَتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا مِنَ الْفِتَنْ'' ( ۲ )

آگاہ ہو جاؤ !جو کوئی خدا کے لئے تقویٰ اختیار کرے ، خداوند اس کے لئے فتنوں سے فرار کے راستے کھول دیتا ہے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۱ص۱۳۶

[۲]۔ نہج البلاغہ،خطبہ: ۱۸۳

۹۲

 تقویٰ الٰہی و شیطانی افکار کی شناخت کا ذریعہ

الٰہی و شیطانی افکار کو کس طرح ایک دوسرے سے تشخیص دے سکتے ہیں؟

ہم بہت سے موارد میں شیطانی و رحمانی افکار میں فرق نہیں کرتے  اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے افکار میں سے کون سے افکار رحمانی ہیں  کہ  جو معنوی منشاء رکھتے ہیں اور ان میں سے کون سے شیطانی یا نفسانی ہیں کہ جو شیطان یا نفس کے ذریعے ہمارے ذہن میں  پیداہوتے ہیں؟

افکار میں تشخیص نہ دے پانا حیرت و سرگردانی کا باعث بنتا ہے  اور  ہمیں  ان افکار کے بارے  میں ہماری ذمہ داری  کا علم بھی نہیں ہوتا ہے کہ جن کا الٰہی یا شیطانی  ہونا معلوم نہ ہو؟

اس سے بھی مشکل افکار کے تجسم اور مکاشفہ کا مسئلہ ہے کہ جن کی حقیقت کو اکثر لوگ حتی کہ اہل علم  حضرات بھی نہیں جانتے ۔

یہ جاننے کے لئے کہ کون اپنے الٰہی افکار کو تشخیص دے سکتا ہے ،ہم  یہ کہتے ہیں:قرآن مجید نے اس سوال کا جواب بیان فرمایاہے اور واضح طور پر فرمایاہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ ِذَا مَسَّهُمْ طَائِف مِّنَ الشَّیْْطَانِ تَذَکَّرُواْ (۱)

جو لوگ صاحبان تقوی ہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھونا بھی چاہتا ہے تو خدا کو یاد کرتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ سورۂ اعراف،آیت:۲۰۱

۹۳

یعنی تقویٰ اس طرح سے انسان کو آگاہی دیتاہے کہ جب بھی شیطان انسان کے ذہن میں کوئی سوچ و فکر القاء کرے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ افکار شیطان نے ذہن میں ڈالے ہیں۔

اس بناء پرالٰہی و شیطانی افکار کو ایک دوسرے سے تشخیص دینے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان میں سے کس کو اہمیت دیں اور کس سے بے اعتنائی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیں ۔تقویٰ اختیار کریں تا کہ اس کے ذریعے ہم میں الٰہی و شیطانی افکار میں تمیز دینے کی قدرت پیداہو سکے۔

پس تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے سے نہ صرف یہ کہہم شیطان کے فریب میں مبتلا نہیںہوں گے بلکہ ہم میں دشمن کو پہچاننے اور اس کے نفوذ کرنے کے طریقوں کو پہچانے کی بصیرت و آگاہی آ جاتی ہے اور عالی مراحل تک پہنچنے کی زیادہ قدرت پیدا ہو جاتی ہے۔

کیونکہ تکامل و پیشرفت ا ور کسی بھی  ہدف تک پہنچنے کے لئے اس کے موانع کی شناخت و معرفت ضروری ہے ورنہ انسان پرخطر اور مشکل راستوں کوبا آسانی اور موانع سے آمنا سامنا کئے بغیر طے نہیں کر سکتا ۔

روحانی سیرو سلوک اور معنوی راستوں پر چلنے کے لئے بھی انسان کانفس اور شیطان کی مکاریوں سے آشنا ہونا نہایت ضروری ہے تا کہ انسان اس کے دھوکے اور فریب میں گرفتار نہ ہو جائے ۔ انسان کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ شیطان اسے کس طریقے سے گمراہ کرتاہے  اور کس طرح سے اسے راہ راست سے منحرف کرتا ہے۔

تقویٰ شیطان کے فکری وسوسوں کی شناخت اور شیطانی افکار کی راہوں کو پہچاننے کا ذریعہ ہے۔باتقویٰ افراد الٰہی و شیطانی افکار کو ایک دوسرے سے تشخیص دے سکتے ہیں۔

۹۴

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض افراد تقویٰ نہ ہونے کی وجہ سے فکری بیماریوں،نفسی آلودگیوں،بصیرت کے فقدان اور دل کی تاریکی کے باعث تکلیف اٹھاتے ہیں اور انہیں ان بیماریوں کے علاج کا کوئی راستہ بھی معلوم نہیں ہوتا نیز وہ اپنے نفس کی ان بیماریوں کا علاج کرنا بھی نہیں جانتے  کہ وہ کس دوا سے اپنی معنوی بیماری کا علاج کریں۔وہ مکتب اہلبیت علیھم السلام کے شفا بخش مکتب سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے کھوکھلے ماہرین نفسیات،امریکی جادوگروں اور مختلف شیطانی ریاضتیں انجام دینے والے افراد کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں جس سے ان کی گمراہی اور سرگردانی میں  مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

اب تک کون سا ایسا شخص ہے جو مکتب وحی سے آشنا ہونے کے باوجود ایسے ناشائستہ افراد کا محتاج ہو؟

اگرچہ ہم یہ مانتے ہیں کہ بعض افراد عقل اور شریعت کے برخلاف کچھ ریاضتیں انجام دینے کی وجہ سے بعض مہارتوں پر قادر ہو جاتے ہیں  اور وہ کچھ روحانی مشق اور ریاضت سے نفسانی اور شیطانی (نہ کہ رحمانی)قدرت توحاصل کر لیتے ہیں  لیکن چونکہ وہ با تقویٰ نہیں ہوتے لہذا وہ اپنی توانائیاں غلط اور فاسد کاموں میں خرچ کرتے ہیں  اور اپنی قدرت دنیا پر قابض ہونے والے افراد کے لئے صرف کرتے ہیں۔

اسی طرح کچھ ہندو اور گائے پرست مقدس گائے کا فضلہ اپنے سر اور چہرے پر لگاتے ہیں  جب کہ امریکا ان سے مشورہ کرنے کے لئے ان کے ساتھ بیٹھتا ہے۔یقینا یہ آلودہ افراد انہیں معنویت،خدا شناسی اور انسان دوستی کا درس دیتے ہوں گے !!اور انہیں  لوگوں کو برباد کرنے والے کام انجام دینے سے روکتے ہوں گے!!

کیا وہ دکھائی نہ دینے والی شیطانی طاقتوں کے ذریعے خدا کی غیبی قدرت سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔( ۱ )

--------------

[۱] ۔ امریکہ اب تک اپنی طاقت کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے اور اس کے لئے اسن نے اپنے بہت سے لوگوں کو بھی قربان کیا ہے۔!رک:بہ سوی بی نہایت۔

۹۵

لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ فرعون کے وارث ہیں جو اسی کی طرح سوچتے ہیں اسی لئے وہ جادوگروں اور ساحروں کا دامن تھامتے ہیں!

چونکہ  انہوں نے حقیقت نہیں دیکھی اسی لئے وہ افسانے کو ہی حقیقت مان بیٹھے!

روحانی تکالیف اور دروسے نجات کے لئے ان ہستیوں کی رہنمائی پر عمل کرنا چاہئے جو سب کی جان اور روح سے آشناہیں اور جو انسانوں اور تمام مخلوقات کی خلقت کی کیفیت کے شاہد ہیں۔

اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم مکتب اہلبیت علیھم السلام کی طرف رخ کریں اور خود کو مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے انمول کلمات سے اطمینان دیں ۔آنحضرت  فرماتے ہیں:

اَمّٰا بَعْدُ:فَاِنِّی اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰهِ اِبْتَدَئَ خَلْقَکُمْ وَ اِلَیْهِ یَکُوْنُ مَعٰادُکُمْ ،وَ بِهِ نَجٰاحُ طَلِبَتِکُمْ وَ اِلَیْهِ مُنْتَهٰی رَغْبَتِکُمْ،وَ نَحْوُهُ قَصْدُ سَبِیْلِکُمْ وَ اِلَیْهِ مَرٰامِْ مَفْزَعِکُمْ فَاِنَّ تَقْوَی اللّٰهِ دَوٰائُ دٰائِ قُلُوْبِکُمْ وَ بَصَرَ عَمیٰ أَفْئِدَتِکُمْ ،وَ شَفٰائُ مَرَضِ اَجْسٰادِکُمْ وَ صَلاٰحُ

 فَسٰادِ صُدُوْرِکُمْ وَ طَهُوْرُ دَنَسِ أَنْفُسِکُمْ ،وَ جَلاٰئُ غِشٰائِ أَبْصٰارِکُمْ،وَ اَمْنُ فَزَعِ جَأْشِکُمْ وَ ضِیٰائُ سَوٰادِ ظُلْمَتِکُمْ.....''( ۱ )

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج ص۲۸۴۷۰،نہج البلاغہ ،خطبہ :۸۱

۹۶

اما بعد : میں  تم لوگوں کو تقویٰ الٰہی اختیار کرنے کی سفارش کرتاہوں۔جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہیں اس کی بارگاہ میں لوٹ کر جانا ہے ۔اسی کی عنایت سے تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہو اور تمہاری بازگشت کی انتہا وہی ہے  اور خوف کے وقت وہی تمہاری بہترین پناہگاہ ہے۔

بیشک تقویٰ الٰہی تمہارے دلوں کے درد کی دوا ہے ،تمہارے اندھے دلوں کے لئے بصیرت ہے ، تمہارے جسموں کے مرض کے لئے شفاء ہے ۔یہ تمہارے سینوں کے فساد کی اصلاح کرنے والا،تمہارے نفس کی کثافت و گندگی پاک کرنے اور تمہارے آنکھ کے پردوں کو جلا و صفا عطا کرنے والاہے ۔تمہارے دل کے خوف کے لئے امان اور تمہاری ظلمتوں کے اندھیروں کے لئے روشنی ہے۔( ۱ )

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ حضرت امام علی علیہ السلام تقویٰ کو دل کی تاریکی،فکر ی آلودگی ، بصیرت کے فقدان اور دوسری روحانی بیماریوں کا علاج قرار دیتے ہیں  اور آپ انسانیت اور معنویت کی راہ کے متلاشی تمام افراد کو تقویٰ الٰہی اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ شرح نہج البلاغہ(مرحوم مرزا حبیب اللہ خوئی )،خطبہ:۱۹۷،ج۱۲ص۲۶۹

۹۷

  اپنی دوستی کا معیار تقویٰ کو قرار دیں

تقویٰ کی اہمیت و عظمت کی وجہ سے دینی بھائیوں اور دوستوں سے ہمارا ارتباط اور دوستی کا معیار ان کے تقویٰ اور پرہیز گاری کی بنیاد پر ہو نہ کہ ان کی دولت، شہرت اور مقام کی بنیاد پر۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیںکہ حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

''اَحْبِبِ الْاَخْوٰانَ عَلٰی قَدْرِ التَّقْویٰ'' (۱)

اپنے (دینی) بھائیوں کو ان کے تقویٰ و پرہیز گاری کے مطابق دوست رکھو۔

لوگوںسے دوستی ظاہری اور مادی امور کی وجہ سے نہیں ہونی چاہئے ۔اگر انسان کی دوستی اور برتاؤ کا معیار تقویٰ اور پرہیزگاری ہو تو معاشرے کے شریر  اور مکار افراد کے فریب اور شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔لیکن بعض افراد تقویٰ اور پرہیزگاری کو دوستی کی بنیاد قرار دینے کے بجائے فاسد کو افسد کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور افسد کے بھی مرتکب ہو جاتے ہیں اور معاشرے  کے بازیگروں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۴ص۱۸۷، امالی مرحوم صدوق :۱۸۲

۹۸

 حرام مال سے پرہیز

شریک بن عبداللہ ایسے افراد میں سے ایک ہے ۔وہ مہدی عباسی کے زمانے میں کوفہ کاقاضی تھا ۔   قضاوت کے منصب کو قبول کرنے سے پہلے وہ ایک دن مہدی عباسی کے پاس گیا۔

مہدی عباسی نے اس سے کہا:میں تمہیں تین طرح کا حکم دیتا ہوں ،تم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے اس پر عمل کرو۔تم یاکوفہ کی قضاوت کا منصب قبول کرویا میرے بیٹوں کو تعلیم دویا پھر میرے ساتھ ایک مرتبہ کھانا کھاؤ۔

شریک نے جب یہ تین حکم سنے تو وہ کسی پر بھی راضی نہ ہوا لیکن چونکہ اس کے پاس ان میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا،اس نے سوچا اور کہا:کھانا،کھانا دوسرے دونوں احکامات سے آسان ہے۔

مہدی عباسی نے حکم دیا کہ اس کے لئے بہت لذیذ کھانا تیار کیا جائے ۔جب کھانالایا گیا  اور شریک کھانا کھانے سے فارغ ہو گیا تو کھانا پکانے والے نے مہدی عباسی سے کہا:

''لیس یفلح الشیخ بعد هذه الأَکلة ابداً"

شریک یہ غذا کھانے کے بعد کبھی بھی فلاح نہیں پا سکتا۔

شریک نے وہ غذا کھانے کے بعد بنی عباس کے ساتھ ہمنشینی کو قبول کر لیا اور نہ صرف اس کے  بچوں کو تعلیم دینے پر آمادہ ہو گیا بلکہ منصب قضاوت کو بھی قبول کر لیا۔(۱)

جی  ہاں!جب رنگین دسترخوان بچھا دیا جائے یا کسی منصب کی کرسی رکھ دی جائے تو پرہیزگار آزمائش میں مبتلا  ہو جاتے ہیں  اور ان کی معنوی حقیقت و واقعیت واضح ہو جاتی ہے۔

--------------

[۱]۔ وقایع الایام مرحوم محدث قمی:۸۶

۹۹

 تقویٰ انسان کے بلند مقامات تک پہنچنے کا سبب

اب ہم  آپ  کے سامنے رسول اکرم (ص) کی بہت اہم روایت پیش کرتے ہیں تا کہ تقویٰ و پرہیزگاری کے عظیم آثار کے بارے میں آپ کے علم و آگاہی میں مزید اضافہ ہو۔

''قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰه:.....قَدْ أَجْمَعَ اللّٰهُ تَعٰالٰی مٰا یَتَوٰاصی بِهِ الْمُتَوٰاصُوْنَ مِنَ الْأَوَّلِیْنَ وَ الْآخِرِیْنَ فِ خَصْلَةٍٍوٰاحِدَةٍ وَ هَِ التَّقْویٰ،قٰالَ اللّٰهُ جَلَّ وَ عَزَّ: ( وَلَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَِیَّاکُمْ أَنِ اتَّقُواْ اللّٰهَ ) (۱) وَ فِیْهِ جِمٰاعُ کُلِّ عِبٰادَةٍ صٰالِحَةٍ،بِهِ وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَی الدَّرَجٰاتِ الْعُلیٰ ،وَالرُّتْبَةِ الْقُصْویٰ،وَ بِهِ عٰاشَ مَنْ عٰاشَ مَعَ اللّٰهِ بِالْحَیٰاةِ الطَّیِّبَةِ وَالْاِنْسِ الدّٰائِمِ، قٰالَ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ: (ِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ ،،فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ) (۳)( ۲)

اولین وآخرین میں سے وصیت کرنے والوں نے جس چیز کی وصیت کی خدا نے اسے ایک ہی خصلت میں جمع کر دیا اور وہ تقویٰ ہے۔

خداوند کا ارشاد ہے: اور ہم نے تم سے پہلے اہلِ کتاب کو اور اب تم کو یہ وصیت کی ہے کہ اللہ سے ڈرو (یعنی تقوی اختیار کرو)تقویٰ تمام عبادت صالح کے لئے سرچشمہ ہے اور جس نے بھی بلند درجات تک رسائی حاصل   وہ تقویٰ کے ذریعے سے ہی ہے اور جو بھی خدا کے ساتھ پاک حیات اور دائمی انس رکھتا ہو  اسے اسی کے ساتھ زندگی گزارنی چاہئے۔

--------------

[۱]۔ سورۂ نساء ،آیت:۱۳۱

[۲]۔ سورۂ قمر ،آیت:۵۴،۵۵

[۳]۔ کشف الغمہ:ج۲ص۳۶۸، بحار الانوار:ج۷۸ص۲۰۰

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

دوسری فصل

جزیرة العرب سے باہراسلام کی توسیع

۱۔جنگ موتہ( ۱ )

رسول(ص) نے یہ عزم کر لیا تھا کہ جزیرة العرب کے شمال میں امن و امان کی فضا قائم کریں گے، اور اس علاقہ کے باشندوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور اس طرح شام تک جائیں گے ۔ آپ(ص) نے حارث بن عمیر ازدی کو حارث بن ابی شمر غسانی کے پاس بھیجا، شرحبیل بن عمرو غسانی نے ان کا راستہ روکا اور قتل کر دیا۔

اسی اثنا میں رسول(ص) نے مسلمانوں کا ایک اور دستہ اسلام کی تبلیغ کے لئے روانہ کیا، ملکِ شام کے علاقہ ذات الصلاح کے لوگوں نے ان پر ظلم کیا اور انہیں قتل کر ڈالا، ان کے قتل کی خبر رسول(ص) کو ملی،اس سانحہ کو سن کر رسول(ص) کو بہت افسوس ہوا، پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے انتقام کے لئے نکلیں آپ (ص) کے فرمان پرتین ہزار سپاہیوں کا لشکر تیار ہو گیا تو آپ(ص) نے فرمایا: اس کے سپہ سالار علی الترتیب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور بعد میں عبد اللہ بن رواحہ ہونگے پھر آپ(ص) نے ان کے درمیان خطبہ دیا:

''اغزوا بسم اللّه...ادعوهم الیٰ الدّخول فی الاسلام...فان فعلوا فاقبلوا منهم و اکقفوا عنهم...و الا فقاتلوا عدو الله و عدوکم بالشام و ستجدون فیها رجالا فی الصوامع معتزلین الناس، فلا تعرضوا لهم، و ستجدون آخرین للشیطان فی رؤوسهم مفاحص

____________________

۱۔ جنگ موتہ ماہ جمادی الاول ۸ھ میں ہوئی۔

۱۸۱

فاقلعوها بالسیوف ولا تقتلن امراة ولا صغیراً ولامر ضعاً ولا کبیراً فانیا لا تغرفن نخلا ولا تقطعن شجراً ولا تهدموا بیتاً'' ( ۱ )

پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا...اگر انہوں نے قبول کر لیا تو ان پر حملہ نہ کرنا انہیں مسلمان سمجھنا اور اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو تم اپنے اور خدا کے دشمن سے شام میں جنگ کرنا اور دیکھو تمہیں کلیسائوں میں کچھ لوگ گوشہ نشین ملیں گے ان سے کچھ نہ کہنا۔

اور کچھ لوگ ایسے ملیں گے جو شیطان کے چیلے ہونگے ان کے سرمنڈھے ہونگے انہیں تلواروں سے صحیح کرنا اور دیکھو عورتوں، دودھ پیتے بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، کھجور کو برباد نہ کرنا اور کسی درخت کو نہ کاٹنا اور کسی گھر کو منہدم نہ کرنا۔

اس لشکر کو وداع کرنے کے لئے رسول(ص) بھی ان کے ساتھ چلے اور ثنیة الوداع تک ان کے ساتھ گئے مسلمانوں کا یہ لشکر جب ''مشارق'' کے مقام پر پہنچا تو وہاں کثیر تعدادمیں روم کی فوج دیکھی، جس میں دو لاکھ جنگجو شامل تھے۔ مسلمان موتہ کی طرف پیچھے ہٹے اور وہاں دشمن سے مقابلہ کیلئے، تیار ہوئے مختلف اسباب کی بنا پر مسلمانوں کا لشکر پسپا ہو گیا اور نتیجہ میں تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ اس دور افتادہ علاقہ میں جنگ کر رہے تھے جہاں امداد کا پہنچنا مشکل تھا۔ پھر یہ روم والوںپر حملہ آور ہوئے تھے اوروہ اپنی کثیر تعداد کے ساتھ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے ،دونوں لشکروں کی جنگی معلومات میں بہت زیادہ فرق تھا، روم کی فوج ایک منظم و مستحکم فوج تھی جو جنگی مشق کرتی رہتی تھی، دوسری طرف مسلمانوں کی تعداداوران کے جنگی معلومات بہت کم تھی،یہ جمعیت نئی نئی وجود میں آئی تھی۔( ۲ )

جعفر بن ابی طالب کی شہادت کی خبر سن کر رسول(ص) بہت غم زدہ ہوئے اور آپ(ص) پرشدید رقت طاری ہوئی

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۷۵۸ ، سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۴۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۸۱۔

۱۸۲

تعزیت اور اظہار ہمدردی کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے اسی طرح زید بن حارثہ کے مارے جانے کا بھی بہت صدمہ ہوا۔( ۱ )

۲۔ فتح مکہ

جنگ موتہ کے بعد علاقہ کی طاقتوں کے مختلف قسم کے رد عمل ظاہر ہوئے، مسلمانوں کے پسپا ہونے اور شام میں داخل نہ ہونے سے روم کو بہت خوشی تھی۔

قریش بھی بہت خوش تھے، مسلمانوں کے خلاف ان کی جرأت بڑھ گئی تھی چنانچہ وہ معاہدہ ٔامان کو ختم کرکے صلح حدیبیہ کو توڑ نے کی کوشش کرنے لگے انہوںنے قبیلۂ بنی بکر کو قبیلۂ بنی خزاعہ کے خلاف اکسایا جبکہ صلح حدیبیہ کے بعد قبیلۂ بنی بکر قریش کا حلیف بن گیا تھا اور خزاعہ رسول(ص) کا حلیف بن گیا تھااور اسلحہ وغیرہ سے اس کی مدد کی جس کے نتیجہ میں قبیلۂ بکر نے قبیلۂ خزاعہ پر ظلم کیا اور اس کے بہت سے لوگوںکو قتل کر دیا حالانکہ وہ اپنے شہروں میں امن کی زندگی گزار رہے تھے اور بعض تو ان میں سے اس وقت عبادت میں مشغول تھے انہوںنے رسول(ص) سے فریاد کی اور مدد طلب کی۔ عمرو بن سالم نے رسول(ص) کے سامنے کھڑے ہو کر جب آپ(ص) مسجد میں تشریف فرما تھے نقض عہد کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، جس سے رسول(ص) بہت متاثر ہوئے اور فرمایا:''نُصِرتَ یا عمرو بن سالم'' اے سالم کے بیٹے عمرو تمہاری مدد کی جائیگی۔

قریش کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں اپنی غلط حرکت کا احساس ہو گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے انہیں خوف لاحق ہوا اس صورت حال کے بارے میں انہوں نے آپس میں مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ ابو سفیان کو مدینہ بھیجا جائے تاکہ وہ صلح کی تجدید کرے اور رسول(ص) سے مدتِ صلح بڑھانے کی درخواست کرے۔

لیکن رسول(ص) نے ابو سفیان کی باتوں پر توجہ نہ کی بلکہ اس سے یہ فرمایا: اے ابو سفیان کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں رسول(ص) نے فرمایا: ہم اپنی صلح اور اس کی مدت پر قائم ہیں۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱ ص ۵۴، مغازی ج۲ ص ۷۶۶، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۶۸۔

۱۸۳

اس سے ابوسفیان کا دل مطمئن نہ ہوا اور اس کو سکون حاصل نہیں ہوا بلکہ اس نے رسول(ص) سے عہد لینے اور امان طلب کرنے کی کوشش کی لہذا وہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنے لگا کہ جو نبی (ص) سے یہ کام کرا دے مگرہر ایک نے واسطہ بننے سے انکار کر دیااور اس کی باتوں کی طرف اعتنا نہ کی۔ جب اسے کوئی چارہ کا ر نظر نہ آیا تو وہ ناکام مکہ واپس لوٹ گیا مشرک طاقتوں کے معاملات پیچیدہ ہو گئے تھے۔ حالات بدل گئے تھے اب رسول(ص) بڑھتی ہوئی طاقت اور راسخ ایمان کے سبب مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہونا چاہتے تھے مشرکین مکہ کی پیمان شکنی نے اس کا جواز پیدا کر دیااور قریش اپنی جان و مال کے لئے امان طلب کرنا چاہتے تھے۔ مکہ پر اقتدار و تسلط کا مطلب یہ تھا کہ پورا جزیرةالعرب اسلام کے زیر تسلط آ جائے۔

رسول(ص) نے یہ اعلان کر دیا کہ سب لوگ دشمن سے جنگ کے لئے تیار ہوجا ئیں چنانچہ مسلمانوں کے گروہ آپ(ص) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حاضر خدمت ہو نے لگے دس ہزار کا لشکر فراہم ہو گیا رسول(ص) نے چند مخصوص افراد ہی سے اپنا مقصد بیان کیا تھا آپ(ص) خدا سے یہ دعا کر رہے تھے۔

''اللهم خذ العیون و الاخبار من قریش حتی نباغتها فی بلادها'' ( ۱ )

اے اللہ قریش کی آنکھوں اور ان کے سراغ رساں لوگوں کو ناکام کر دے یہاں تک کہ ہم ان کے شہر میں ان کے سروں پر پہنچ جائیں۔

ظاہر ہے کہ رسول(ص) کم مدت میں بغیر کسی خونریزی کے پائیدار کا میابی چاہتے تھے اسی لئے آپ(ص) نے خفیہ طریقہ اختیار کیا تھا لیکن اس کی خبر ایسے شخص کو مل گئی جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتا تھا چنانچہ اس نے اس سلسلہ میں قریش کو ایک خط لکھ دیا اور ایک عورت کے بدست روانہ کر دیا وحی کے ذریعہ رسول(ص) کو اس کی خبر ہو گئی آپ(ص) نے حضرت علی اور زبیر کو حکم دیا کہ اس عورت تک پہنچو اور اس سے خط واپس لو حضرت علی بن ابی طالب نے رسول(ص) پرراسخ ایمان کے سبب اس عورت سے خط واپس لے لیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۳۹۷، مغازی ج۲ ص ۷۹۶۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۹۸۔

۱۸۴

رسول(ص) نے وہ خط لیتے ہی مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا تاکہ ایک طرف ان کی ہمت بڑھا ئیں اور دوسری طرف انہیں خیانت سے ڈرائیں اور ان پر یہ بات ظاہر کر دیں کہ خدا کی رضا کے لئے اپنے جذبات کو کچلنے کی کتنی اہمیت ہے ۔ مسلمان اس خط کے بھیجنے والے حاطب بن ابی بلتعہ کا دفاع کرنے لگے کیونکہ اس نے خدا کی قسم کھا کے یہ کہا تھا کہ خط بھیجنے سے اس کا مقصد خیانت نہیں تھا ، لیکن اس کی اس حرکت پر عمر بن خطاب کو بہت زیادہ غصہ آیا اور رسول(ص) سے عرض کی : اگر اجازت ہو تو میں اسے ابھی قتل کردوں رسول(ص) نے فرمایا:

''وما یدریک یا عمر لعل الله اطلع علیٰ اهل بدر و قال لهم اعملوا ما شئتم خلفه غفرت لکم'' ( ۱ )

اے عمر تمہیں کیا خبر؟ ہو سکتا ہے خدا نے بدر والوں پر نظر کی ہو اور ان سے یہ فرمایا ہو کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے ۔

فوج اسلام کی مکہ کی طرف روانگی

دس رمضان المبارک کو فوج اسلام مکہ کی طرف روانہ ہوئی جب''کدید'' کے مقام پر پہنچی تو رسول(ص) نے پانی طلب کیا اور مسلمانوں کے سامنے آپ(ص) نے پانی پیا، مسلمانوں کو بھی آپ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا لیکن ان میں سے بعض لوگوں نے رسول(ص) کی نافرمانی کرتے ہوئے روزہ نہ توڑا، ان کی اس نافرمانی پر رسول(ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا:''اولٰئک العصاة'' یہ نافرمان ہیں پھرانہیں روزہ توڑنے کا حکم دیا۔( ۲ ) جب رسول(ص) ظہران کے نزدیک پہنچے تو آپ(ص) نے مسلمانوں کو صحراء میں منتشر ہونے اور ہر ایک کو آگ روشن کرنے کا حکم دیا، اس طرح ڈرائونی رات روشن ہو گئی اور قریش کی ہر طاقت کو مسلمانوں کا عظیم لشکر نظر آیا جس کے سامنے قریش کی ساری طاقتیں سر نگوں ہو گئیں، اس کو دیکھ کر عباس بن عبد المطلب پریشان ہوئے

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۳۶۳، مغازی ج۲ ص ۷۹۸، لیکن محدثین نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے ملاحظہ ہو سیرة المصطفیٰ ، ص ۵۹۲۔

۲۔ وسائل الشیعة ج۷ ص ۱۲۴، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۹۰، مغازی ج۲ ص ۸۰۲، صحیح مسلم ج۳ ص ۱۴۱ و ۱۴۲، کتاب الصیام باب جواز الصوم و الفطر فی شہر رمضان للمسافر فی غیر معصیة، دار الفکر، بیروت۔

۱۸۵

یہ آخری مہاجر تھے جو رسول(ص) سے جحفہ میں ملحق ہوئے -لہذا وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرنے لگے جس سے وہ قریش تک یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ مکہ میں لشکر اسلام کے داخل ہونے سے پہلے فرمانبردار ہو کر آجائیں۔

اچانک عباس نے ابو سفیان کی آواز سنی جو مکہ کی بلندیوں سے اس عظیم لشکر کو دیکھ کر تعجب سے بدیل بن ورقاء سے بات کر رہا تھا اور جب عباس نے ابو سفیان سے یہ بتایا کہ رسول(ص) اپنے لشکر سے مکہ فتح کرنے کے لئے آئے ہیں تو وہ خوف سے کانپنے لگا ۔ اسے اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ عباس کے ساتھ رسول(ص) کی خدمت حاضر ہو کران سے امان حاصل کر لے ۔

یہ صاحب خلق عظیم اور عفو و بخشش کے بحر بیکراںسے نہیں ہو سکتا تھا کہ اپنے چچا کے ساتھ آنے والے ابو سفیان کے لئے باریابی کی اجازت دینے میں بخل کریں چنانچہ فرمایا: آپ جائیے ہم نے اسے امان دی، کل صبح اسے ہمارے پاس لائیے گا۔

ابو سفیان کا سپر انداختہ ہونا

جب ابو سفیان رسول(ص) کے سامنے آیا تو اس سے آپ(ص) نے یہ فرمایا:''ویحک یا ابا سفیان الم یان لک ان تعلم ان لاالٰه الا اللّه'' اے ابوسفیان وائے ہو تیرے اوپر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا بیشک تو یہ جان لے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا:میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان ہوں آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم میرا یہ گمان تھا کہ اگر خدا کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا تو وہ مجھے بے نیاز کر دیتا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو سفیان! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم یہ اقرار کرو کہ میں اللہ کا رسول(ص) ہوں؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم اس سلسلہ میں ابھی تک میرے دل میں کچھ شک ہے ۔( ۱ )

عباس نے اس موقعہ پر ابو سفیان پر اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں زور دیتے ہوئے کہا : وائے ہو تیرے

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۰، مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۵۴۔

۱۸۶

اوپر، قبل اس کے کہ تجھے قتل کر دیا جائے یہ گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد(ص) اس کے رسول (ص) ہیں۔ پس ابو سفیان نے قتل کے خوف سے خدا کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی اور مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔

ابو سفیان کے اسلام لانے کے بعد مشرکین کے دوسرے سردار بھی اسی طرح اسلام لے آئے لیکن رسول(ص) نے اس غرض سے کہ قریش خونریزی کے بغیر اسلام قبول کر لیں، ان پر نفسیاتی دبائو ڈالا۔ عباس سے فرمایا: اے عباس ا سے کسی تنگ وادی میں لے جائو، جہاں سے یہ فوجوں کو دیکھے۔

رسول(ص) نے اطمینان کی فضا پیدا کرنے اور اسلام و رسول اعظم کی مہربانی و رحم دلی پر اعتماد قائم کرنے نیز ابو سفیان کی عزت نفس کو باقی رکھنے کی غرض سے فرمایا:

جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اس کے لئے امان ہے جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرے گا وہ امان میں ہے ، جو مسجد میں داخل ہو جائیگا وہ امان میں ہے، جو ہتھیار ڈال دے گا وہ امان میں ہے ۔

اس تنگ وادی کے سامنے سے خدائی فوجیں گذرنے لگیں جو دستہ گذرتا تھا عباس اس کا تعارف کراتے تھے کہ یہ فلاں کا دستہ ہے وہ فلاںکا دستہ ہے اس سے ابو سفیان پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ اس نے عباس سے کہا: اے ابو الفضل خدا کی قسم تمہارا بھتیجہ بہت بڑا بادشاہ بن گیا، عباس نے جواب دیا: یہ بادشاہت نہیں ہے یہ نبوت ہے ۔ ان کے جواب میںابوسفیان نے تردد کیا ۔ اس کے بعد اہل مکہ کو ڈرانے اور رسول(ص) کی طرف سے ملنے والی امان کا اعلان کرنے کے لئے ابو سفیان مکہ چلا گیا۔( ۱ )

مکہ میں داخلہ

رسول(ص) نے اپنی فوج کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے متعلق کچھ احکام صادر فرمائے اورہر دستہ کے لئے راستہ معین کر دیا نیزیہ تاکید فرمائی کہ جنگ سے پرہیز کریں ہاں اگر کوئی بر سر پیکار ہو جائے تو اس کاجواب

____________________

۱۔ مغازی از واقدی ج۲ ص ۸۱۶، سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۷۔

۱۸۷

دیا جائے، چند مشرکین کا خون ہر حال میں مباح قرار دیا، خواہ وہ کعبہ کے پردہ ہی سے لٹکے ہوئے ہوں کیونکہ وہ اسلام اور رسول(ص) کے سخت ترین دشمن تھے۔

جب مکہ کے درو دیوار پرآپ (ص) کی نظر پڑی تو آنکھوں میں اشک بھر آئے، اسلامی فوجیں چاروں طرف سے فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئیں فتح و نصرت نے اس کی شان دوبالا کر دی تھی اور رسول(ص) کو خدانے جو نعمت و عزت عطا کی تھی اس کے شکریہ کی خاطر رسول(ص) سر جھکائے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے کیونکہ اعلائے کلمةاللہ کے لئے آپ (ص) کی بے پناہ جانفشانیوں کے بعد ام القریٰ نے آپ(ص) کی رسالت و حکومت کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔

اہلِ مکہ کے شدید اصرار کے باوجود نبی (ص) نے کسی کے گھر میں مہمان ہونا قبول نہیں کیا تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد آپ(ص) نے غسل کیا اور سواری پر سوار ہوئے۔ تکبیر کہی تو سارے مسلمانوں نے تکبیر کہی، دشت و جبل میں نعرۂ تکبیر کی آواز گونجنے لگی-جہاں اسلام اور اس کی فتح سے خوف زدہ ہو کر شرک کے سرغنہ جا چھپے تھے-خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے آپ(ص) نے اس میں موجود ہر بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:( قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) کہو ،حق آیا باطل گیا باطل کو تو جانا ہی تھا اس سے ہر بت منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔

رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا: تم بیٹھ جائو تاکہ میں تمہارے دوش پر سوار ہو کر بتوںکو توڑ دوں لیکن حضرت علی اپنے دوش پر نبی (ص) کا بار نہ اٹھا سکے تو حضرت علی بن ابی طالب دوش رسول(ص) پر سوار ہوئے اور بتوں کو توڑ ڈالا ۔ پھر رسول(ص) نے خانۂ کعبہ کی کلید طلب کی، دروازے کھولے، اندر داخل ہوئے اور اس میں موجود ہر قسم کی تصویر کو مٹا دیا۔ اس کے بعد خانۂ کعبہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر فتحِ عظیم کے بارے میں ایک جمِّ غفیر کے سامنے خطبہ دیا ، فرمایا:

۱۸۸

''لا الٰه الا اللّٰه وحده لا شریک له، صدق وعده، و نصر عبده، و هزم الاحزاب وحده، الا کل ماثره اودم او مال یدعی فهو تحت قدمی هاتین الا سدانة البیت و سقایة الحاج...'' ۔

اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اس نے اپنے بندے کی مدد کی، اسی نے سارے لشکروں کو شکست دی، ہر وہ فضیلت یا خون یا مال کہ جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے میرے قدموں کے نیچے ہے ، سوائے خانۂ کعبہ کی کلید برداروی اور حاجیوں کو سیراب کرنے کی فضیلت...۔

پھر فرمایا:'' یا معاشر قریش ان اللّٰه قد اذهب عنکم نخوة الجاهلیة وتعظمها بالآباء النّاس من آدم و آدم من تراب...'' ( ۱ )

اے گروہ قریش! خدا نے تمہارے درمیان سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کر دیا ہے وہ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرتے تھے یا د رکھو سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔

( یا ایها النّاس انا خلقناکم من ذکرٍ و انثیٰ و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللّٰه اتقاکم ان اللّٰه علیم خبیر )

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد و عورت سے پیدا کیاہے اور پھر تمہارے گروہ اور قبیلے بنا دیئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک خدا کی نظر میں تم میں سے وہی محترم ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔( ۲ )

پھر فرمایا: اے گروہِ قریش تم کیا سوچتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟

انہوں نے کہا: آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے فرزند ہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا:''اذهبوا انتم طلقائ'' ( ۳ ) جائو تم آزاد ہو۔

____________________

۱۔ مسند احمدج۱ ص ۱۵۱، فرائد السمطین ج۱ ص ۴۹، کنز العمال ج۱۳ ص۱۷۱، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۸۶۔

۲۔حجرات:۱۳۔

۳۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۰۶، سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۱۲۔

۱۸۹

اس کے بعد بلال نے خانۂ کعبہ کی چھت پر جاکر اذان ظہر دی سارے مسلمانوں نے اس فتح کے بعد مسجد الحرام میں رسول(ص) کی امامت میں نماز پڑھی ، مشرکین حیرت سے کھڑے منہ تک رہے تھے، سرتاپا خوف و استعجاب میں ڈوبے ہوئے تھے، اہل مکہ کے ساتھ رسول(ص) کا یہ سلوک دیکھ کر انصار کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں رسول(ص) دوبارہ مکہ آباد نہ کریں ، ان کے ذہنوںمیں اور بہت سے خیالات گردش کر رہے تھے، رسول(ص) بارگاہ معبود میں دست بدعا تھے، انصار کے دل کی کیفیت سے بھی آگاہ تھے، انہیں مخاطب کر تے ہوئے فرمایا:''معاذ اللّٰه المحیا محیاکم و الممات مماتکم'' ایسا نہیں ہوگا میری موت و حیات تمہاری موت و حیات کے ساتھ ہے ، اسلام کا مرکز مدینہ ہی رہے گا۔

اس کے بعد مکہ والے رسول(ص) سے بیعت کے لئے بڑھے، پہلے مردوںنے بیعت کی ۔ بعض مسلمانوں نے ان لوگوں کی بھی رسول(ص) سے سفارش کی جن کا خون مباح کر دیا گیا تھا، رسول(ص) نے انہیںمعاف کر دیا۔

پھر عورتیں بیعت کے لئے آئیں -ان کی بیعت کے لئے آپ(ص) نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ ایک پانی سے لبریز ظرف میں پہلے آپ(ص) ہاتھ ڈال کر نکالتے تھے پھر عورت اس میں ہاتھ ڈالتی تھی- ان سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ کسی بھی چیز کو خدا کا شریک نہیں قراردیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور اپنے ہاتھوں پیروں کے ذریعہ گناہ نہیں کریںگی اور بہتان نہیں باندھیں گی اور امر بالمعروف میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔( ۱ )

رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کے حلیف خزاعہ نے مشرکین کے ایک آدمی پر زیادتی کی اور اسے قتل کر دیا، آپ(ص) کھڑے ہوئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

''یا ایّها النّاس ان الله حرم مکة یوم خلق السمٰوات و الارض فهی حرام الیٰ یوم القیامة لا یحل لامریٔ یؤمن باللّٰه و الیوم الآخر ان یسفک دماً او یعضد فیها شجراً'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۱۳ ، سورۂ ممتحنہ :۱۲۔

۲۔ سنن ابن ماجہ حدیث ۳۱۰۹، کنز العمال ح ۳۴۶۸۲، در منثور ج۱ ص ۱۲۲۔

۱۹۰

اے لوگو! بیشک خدا نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا اسی روز مکہ کو حرم قراردیدیا تھا اور وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اور جو شخص خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس میں خونریزی کرے یا اس میں کوئی درخت کاٹے۔

پھر فرمایا:''من قال لکم ان رسول اللّه قد قاتل فیها فقولوا ان اللّه قد احلها لرسوله و لم یحللها لکم یا معاشرخزاعه''

اور اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ(ص) نے اس شہر میں جنگ کی ہے تو اس سے کہو کہ خدا نے اپنے رسول کے لئے جنگ حلال کی تھی اور تمہارے لئے جنگ حلال نہیں کی ہے اے بنی خزاعہ!

رسول(ص) نے اہل مکہ اور اس کے باشندوںکے بارے میں جس محبت و مہربانی ،عفو و در گذر اور مکہ کی سر زمین کی تقدیس اور اس کی حرمت کے متعلق جو اقدام کئے تھے وہ قریش کو بہت پسند آئے، لہذا ان کے دل آپ(ص) کی طرف جھکے اورانہوں نے بطیب الخاطر اسلام قبول کرلیا۔

جب پورا علاقہ مسلمان ہو گیا تو رسول(ص) نے مکہ اور اس کے مضافات میں بعض دستے روانہ کئے تاکہ وہ باقی ماندہ بتوں کو توڑ ڈالیں اور مشرکین کے معبدوں کو منہدم کر دیں لیکن خالد بن ولید نے اپنے چچا کے قصاص میں بنی جذیمہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا حالانکہ وہ اسلام قبول کر چکے تھے۔( ۱ ) جب رسول (ص) کو اس سانحہ کی خبر ملی تو آپ(ص) بہت غضبناک ہوئے اور حضرت علی کو حکم دیا کہ ان مقتولوں کی دیت ادا کریں پھرآپ(ص) قبلہ رو کھڑے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور عرض کی:''اللّهم انّی ابرء الیک مما صنع خالد بن الولید'' اے اللہ جو کچھ خالد بن ولید نے کیا ہے میں اس سے بری ہوں، اس سے بنی جذیمہ کے دلوںکو اطمینان ہو گیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۲۰، خصال ص ۵۶۲، امالی طوسی ص ۳۱۸۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۴۸۔

۱۹۱

۳۔ جنگ حنین او ر طائف کا محاصرہ( ۱ )

فاتح کی حیثیت سے رسول(ص) کو مکہ میں پندرہ روز گزر گئے شرک کی مدتِ دراز کے بعد توحید کا یہ عہدِ جدید تھا مسلمان مسرت میں جھوم رہے تھے، ام القریٰ میں امن و امان کی حکمرانی تھی اچانک رسول(ص) کو یہ خبر ملی کہ ہوازن و ثقیف دونوں قبیلوںنے اسلام سے جنگ کرنے کی تیاری کر لی ہے ان کا خیال ہے اس کام کو انجام دیدیں گے جسے شرک و نفاق کی ساری طاقتیں متحد ہو کر انجام نہ دے سکیں یعنی یہ دونوں قبیلے-معاذ اللہ- اسلام کو نابود کر دیں گے؟! رسول(ص) نے ان سے نمٹنے کا عزم کیا لیکن آپ(ص) نے اپنی عادت کے مطابق پہلے مکہ میں امور کی دیکھ بھال کا انتظام کیا نماز پڑھانے اور امور کا نظم و نسق عتاب بن اسید کے سپرد کیا لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے اور انہیں احکام اسلام سکھانے کے لئے معاذ بن جبل کو معین کیا اس کے بعد بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ ہوئے، اتنی بڑی فوج مسلمانوں نے نہیں دیکھی تھی اس سے انہیں غرور ہو گیا یہاں تک ابو بکر کی زبان پر یہ جملہ آگیا : اگر بنی شیبان بھی ہم سے مقابلہ کریں گے تو آج ہم اپنی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہونگے۔( ۲ )

ہوازن و ثقیف میں اتحاد تھاوہ جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اہل و عیال کو بھی اپنے ہمراہ لائے تھے اور لشکر اسلام کو کچلنے کے لئے گھات میں بیٹھ گئے تھے۔لشکر اسلام کے مہراول دستے جب کمین گاہ کے اطراف میں پہنچے توانہوں نے انہیں فرار کرنے پر مجبور کر دیا یہاں تک کہ دشمن کے اسلحہ سے ڈر کر باقی مسلمان بھی ثابت قدم نہ رہ سکے، بنی ہاشم میں سے صرف نو افراد رسول(ص) کے ساتھ باقی بچے تھے دسویں ایمن-ام ایمن کے بیٹے- تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر منافقین مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ ابو سفیان طعن و تشنیع کرتا ہوا نکلا اور کہنے لگا۔ یہ لوگ جب تک سمندر کے کنارے تک نہیں پہنچیں گے اس وقت تک دم نہیں لیں گے ۔ کسی نے کہا: کیا آج سحر باطل نہیں ہو گیا؟ کسی نے اس پریشان حالی میں رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔( ۳ )

____________________

۱۔ جنگ حنین ماہ شوال ۸ھ میں ہوئی ۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۵۰، مغازی ج۲ ص ۸۸۹۔

۳۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۴۳، مغازی ج۳ ص ۹۹۔

۱۹۲

رسول(ص) نے اپنے چچا عباس سے فرمایا کہ بلندی پر جاکر شکست خوردہ اور بھاگے ہوئے انصار و مہاجرین کو اس طرح آواز دیں:'' یا اصحاب سورة البقره، یا اهل بیعة الشجرة الی این تفرون؟ هذا رسول اللّه!''

اے سورۂ بقرہ والو! اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ یہ اللہ کے رسول(ص) ہیں ۔

اس سے وہ لوگ غفلت کے بعد ہوش میں آگئے، پراگندگی کے بعد میدان کار زار پھر گرم کیا، اسلام اور رسول(ص) کا دفاع کرنے کے بارے میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرنے کی طرف لوٹ آئے جب رسول(ص) نے ان کی جنگ دیکھی تو فرمایا:''الآن حمی الوطیس انا النبی لا کذب انا ابن المطلب'' ہاں اب جنگ اپنے شباب پر آئی ہے ، میں خدا کا نبی (ص) ہوں جھوٹ نہیں ہے ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ پس خدا نے مسلمانوں کے دلوں کو سکون بخشااور اپنی مدد سے ان کی تائید کی جس کے نتیجے میں کفر کے گروہ شکست کھا کر بھاگ گئے ، لشکر اسلام نے ان میں سے چھہ ہزار کو اسیر کیااور بہت سا مال غنیمت پایا۔( ۱ )

رسول(ص) نے فرمایا: مال غنیمت کی حفاظت اور اسیروں کی نگہبانی کی جائے۔ دشمن فرار کرکے اوطاس، نخلہ اور طائف تک پہنچ گیا۔

یہ رسول(ص) کے اخلاق کی بلندی ، رحم دلی اور عفو ہی تھا کہ آپ(ص) نے ام سلیم سے فرمایا:''یا ام سلیم قد کفی اللّه، عافیة اللّه اوسع'' خدا کافی ہے اور اس کی عافیت بہت زیادہ وسیع ہے ۔

دوسری جگہ رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کو یہ خبر ملی کہ بعض مسلمان مشرکین کی ذریت کو تہ تیغ کر رہے ہیں فرمایا:''ما بال اقوام ذهب بهم القتل حتی بلغ الذریة الا لا نقتل الذریة'' ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے اب وہ بچوں تک کو قتل کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم بچوںکو قتل نہیں کرتے ہیں۔ اسید بن حضیر نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! کیایہ مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ فرمایا:

____________________

۱۔ اس سلسلہ میں سورۂ توبہ کی کچھ آیتیں نازل ہوئی تھیں جو کہ خدا کی تائید و نصرت کی وضاحت کر رہی ہیں۔

۱۹۳

''اولیس خیارکم اولاد المشرکین ، کل نسمة تولد علیٰ الفطرة حتی یعرب عنها لسانها و ابواها یهودانها او ینصرانها'' ( ۱ ) کیا تمہارے بہترین افراد مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ ہر انسان فطرت-اسلام- پر پیدا ہوتا ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

مسلمانوں کے فوجی دستے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے طائف تک پہنچ گئے اور تقریبا پچیس دین تک ان کا محاصرہ کئے رہے ، وہ بھی دیواروں کے پیچھے سے مسلمانوں پر تیر بارانی کرتے تھے اس کے بعد رسول(ص) بہت سی وجوہ کی بنا پر طائف سے لوٹ آئے۔

جب جعرانہ -جہاں اسیروں اور مال غنیمت کو جمع کیا گیا تھا-پہنچے تو قبیلۂ ہوازن کے بعض لوگوں نے خدمت رسول(ص) میں معافی کے لئے التماس کی، کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص)! ان اسیروں میں بعض آپ(ص) کی پھوپھیاں اور بعض خالائیں ہیں جنہوں نے آپ(ص) کو گود کھلایا ہے -ایک روایت کے مطابق رسول(ص) کو رضاعت کے لئے قبیلہ بنی سعد کے سپرد کیا گیا تھا جو کہ ہوازن کی شاخ تھی-اگر ہم حارث بن ابی شمر یا نعمان بن المنذر سے انتا اصرار کرتے تو ہمیں ان کے عفو و مہربانی کی امید ہوتی۔ آپ(ص) سے توان سے زیادہ امید ہے ۔ اس گفتگو کے بعد رسول(ص) نے ان سے یہ فرمایا: ایک چیز اختیار کریں ۔ یا مال واپس لے لیں یا قیدیوں کو چھڑا لیں۔ انہوں نے قیدیوں کو آزاد کرا لیا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا:''اما ما کان لی ولبن عبد المطلب فهو لکم '' جو میرا اور بنی عبد المطلب کا حصہ ہے وہ تمہارا ہے جب مسلمانوںنے رسول (ص) کا عفو و کرم دیکھا تو انہوںنے بھی اپنا اپنا حصہ رسول(ص) کے سپرد کر دیا۔( ۲ )

رسول(ص) نے اپنی حکمت بالغہ اور درایت سے تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے نیز جنگ کی آگ کو خاموش کرنے کی خاطر سب کو معاف کر دیا یہاں تک کہ اس جنگ کو بھڑکانے والا مالک بن حارث بھی اگر مسلمان ہو کر آپ کے پاس آجائے تو اسے بخش دیا جائیگا۔ چنانچہ ارشاد ہے :

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۰۹۔

۲۔سید المرسلین ج۲ ص ۵۳، مغازی ج۳ ص ۹۴۹-۹۵۳۔

۱۹۴

''اخبروا مالکاً انّه ان اتانی مسلماً رددت علیه اهله و ماله واعطیته مائة من الابل و سرعان ما اسلم مالک'' ( ۱ )

مالک کو خبر کرو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آئیگا تو اس کے اہل و عیال اور مال و دولت اسے واپس مل جائیں گے اور مزیداسے سو اونٹ دئیے جائینگے۔ اس کے نتیجہ میں مالک نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔

مال غنیمت کی تقسیم

مسلمان رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور مال غنیمت تقسیم کرنے کے لئے اصرار کرنے لگے ،انہوں نے اس سلسلہ میں اتنی شدت اختیار کی کہ آپ(ص) کی ردا تک اچک لے گئے آپ(ص) نے فرمایا:

''ردوا علی ردائی فو اللّٰه لو کان لکم بعدد شجر تهامة نعماً لقسمته علیکم، ثم ما الفیتمونی بخیلاً ولا جباناً ولا کذاباً'' ۔

میری ردا واپس کر دو، خدا کی قسم اگر تہامہ کے درختوں کے برابر بھی تمہارا مال ہوتا تو بھی میں اسے تقسیم کر دیتا پھر تم مجھ پر بخل، بزدلی اور جھوٹ کا الزام نہیں لگا سکتے تھے۔

اس کے بعد آپ(ص) اٹھے، اپنے اونٹ کے کوہان کے کچھ بال لئے اور اپنی انگلیوں میں لیکر بلند کیا اورفرمایا:

''ایها النّاس و اللّه مالی فی فیئکم ولا هذه الوبرة الا الخمس ، و الخمس مردود علیکم'' ۔

اے لوگو! اس مال غنیمت میں میرا حصہ اس اونٹ کے بال کے برابر بھی نہیں ہے سوائے خمس کے اور وہ پانچواں حصہ بھی تمہیں دے دیا گیا ہے ۔ پھر آپ نے یہ حکم دیا کہ جو چیز بھی غنیمت میں ہاتھ آئی ہے اسے واپس لوٹایا جائے تاکہ انصاف کے ساتھ تقسیم ہو سکے۔

____________________

۱۔ مغازی ج۳ ص ۹۵۴ و ص ۹۵۵۔

۱۹۵

رسول(ص) نے مولفة القلوب ، ابو سفیان، معاویہ بن ابو سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، سہیل بن عمرو،حویطب بن عبد العزی اور صفوان بن امیہ وغیرہ سے شروع کیا، یہ کفر و شرک کے وہ سرغنہ تھے جو آپ (ص) کے سخت ترین دشمن اور کل تک آپ(ص) سے جنگ کرتے تھے۔ اس کے بعد اپنا حق خمس بھی انہیں میں تقسیم کر دیا رسول(ص) کے اس عمل سے بعض مسلمانوں کے دل میں غصہ وحمیت بھڑک اٹھی کیونکہ وہ رسول(ص) کے مقاصد اور اسلام کی مصلحتوں سے واقف نہیں تھے ، یہ غصہ میں اتنے آپے سے باہر ہوئے کہ ان میں سے ایک نے تو یہ تک کہہ دیا کہ میں آپ(ص) کو عادل نہیں پاتا ہوں۔ اس پر رسول(ص) نے فرمایا: ''ویحک اذا لم یکن العد ل عندی فعند من یکون'' وائے ہو تمہارے اوپر اگر میں عدل نہیں کرونگا تو کون عدل کرے گا؟ عمر بن خطاب چاہتے تھے کہ اسے قتل کر دیں لیکن رسول(ص) نے انہیں اجازت نہیں دی فرمایا:''دعوه فانه سیکون له شیعة یتعمقون فی الدین حتی یخرجوا منه کما یخرج السهم من رمیته'' ۔( ۱ )

جانے دو عنقریب اس کے پیرو ہونگے جو دین کے بارے میں بہت بحث کیا کریں گے او ردین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے ۔

انصار کا اعتراض

سعد بن عبادہ نے یہ مناسب سمجھا کہ رسول(ص) کو انصار کی یہ بات ''کہ رسول(ص) اپنی قوم سے مل گئے اور اپنے اصحاب کو بھول گئے'' بتا دی جائے جو ان کے درمیان گشت کر رہی ہے ۔ سعد نے انصار کو جمع کیا رسول(ص) کریم تشریف لائے تاکہ ان سے گفتگو کریں، پس آپ(ص) نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

''یا معشر الانصار ما مقالة بلغتنی عنکم وجِدَةً وجد تموها ف انفسکم؟ ! الم آتکم ضُلّالاً فهداکم اللّه و عالة فاغناکم اللّه و اعدائً فالّف اللّه بین قلوبکم؟ قالوا: بلیٰ اللّه و

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۶، مغازی ج۳ ص ۹۴۸۔

۱۹۶

رسوله أمّنُّ و افضل ، ثم قال: الا تجیبون یا معشر الانصار؟ قالواو ماذا نجیبک یا رسول اللّه؟ قال: اما و اللّه لو شئتم قلتم فصدقتم: اتیتنا مکذباً فصدقناک و مخذولاً فنصرناک و طریداً فآویناک و عائلاً فآسیناک وجدتم ف انفسکم یا معشر الانصار ان یذهب النّاس بالشاة و البعیر و ترجعوا برسول اللّه الیٰ رحالکم؟ و الذی نفس محمد بیده لولا الهجرة لکنت امر ئاً من الانصار ولو سلک النّاس شعباً و سلکت الانصار شعباً لسلکت شعب الانصار''

اے گروہ انصار! مجھ تک تمہاری وہ بات پہنچی ہے جو تم اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہو ۔ کیا تم پہلے گمراہ نہیں تھے ، خدا نے تمہیں-ہمارے ذریعہ-ہدایت دی، تم نادار و مفلس تھے خدا نے تمہیں ہماری بدولت مالا مال کیا۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے خدا نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈالی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟ انصار نے کہا: خدا و رسول(ص) کا احسان سب سے بڑھ کر ہے۔ پھر فرمایا: اے گروہ انصار کیا تم مجھے جواب نہیں دوگے؟ انہوںنے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! ہم آپ(ص) کو کس طرح جواب دیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم اس طرح کہتے تو سچ ہوتا کہ لوگوں نے آپ(ص) کو جھٹلایا اور ہم نے اپ(ص) کی تصدیق کی ، لوگوں نے آپ(ص) کو چھوڑ دیا تو ہم نے آپ(ص) کی مدد کی لوگوںنے آپ(ص) کو وطن سے نکال دیا تو ہم نے آپ(ص) کو پناہ دی، آپ مفلس تھے ہم نے آپ(ص) کی مال سے مدد کی اے گروہِ انصار! تم اپنے دلوں میں دنیا کی جس چیز کی محبت محسوس کرتے ہو اس کے ذریعہ میں نے کچھ لوگوں کی تالیف قلب کی ہے تاکہ وہ مسلمان ہو جائیں اور تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے اے گروہ انصار کیاتمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ اونٹ اور بکریوں کے ساتھ اپنے گھر جائیں اور تم اللہ کے رسول(ص) کے ساتھ اپنے گھر جائو؟ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(ص) کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی میں سے ہوتا اگر لوگ کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے اور انصار بھی کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے تو میں انصار کے قبیلہ کو اختیار کرتا۔

ان جملوںنے ان کے دلوں میں جذبات و شعور کو بیدار کر دیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کے بارے میں ان کا خیال صحیح نہیں تھا یہ سوچ کر وہ رونے لگے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص) ہم اسی تقسیم پر راضی ہیں۔

۱۹۷

ماہِ ذی الحجہ میں رسول(ص) اپنے ساتھیوں کے ساتھ جعرانہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے، عمرہ بجالائے احرام کھولا، عتاب بن اسید اور ان کے ساتھ معاذ بن جبل کو مکہ میں اپنا نمائندہ مقرر کیا جو مہاجرین و انصارآپ کے ساتھ تھے ان کے ہمراہ آپ(ص)مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔( ۱ )

۴۔ جنگ تبوک( ۲ )

اسلامی حکومت ایک مستقل نظام کی صورت میں سامنے آئی اس کے سامنے بہت سے چیلنج تھے اس کی سرحدوں اور زمینوں کی حفاظت کرنا مسلمانوںکا فریضہ تھا تاکہ زمین کے گوشہ گوشہ میں اسلام کا پیغام پہنچ جائے۔

رسول(ص) نے مملکتِ اسلامیہ کے تمام مسلمانوںسے یہ فرمایا کہ روم سے جنگ کے لئے تیاری کرو، کیونکہ روم کے بارے میں مسلسل یہ خبریں مل رہی تھیں کہ وہ جزیرہ نمائے عرب پر حملہ کرکے دین اسلام اور اس کی حکومت کونیست و نابود کرنے کے لئے تیاری کر رہا ہے۔ اتفاق سے اس سال بارش نہیں ہوئی، جس کے نتیجہ میںپیداوار کم ہوئی اور شدید گرمی پڑ ی، اس صورت میں دشمن کی اس فوج سے مقابلہ کے لئے نکلنا بہت دشوار تھا جو تجربہ کار قوی اور کثیر تھی چنانچہ جن لوگوں میں روحانیت کم تھی اور جن کے نفس کمزور تھے وہ پیچھے ہٹ گئے اور ایک بار پھر نفاق کھل کرسامنے آ گیا تاکہ ارادوںمیں ضعف آجائے اور اسلام کو چھوڑ دیا جائے۔

بعض تو اس لئے لشکر اسلام میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ وہ دنیا کو بہت دوست رکھتے تھے، بعض شدید گرمی کو بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ گئے کچھ اپنے ضعف اور رسول(ص) کے کم وسائل کی وجہ سے آپ(ص) کے ساتھ نہیں گئے، حالانکہ راہ خدا میں جہاد کے لئے سچے مومنین نے اپنا مال بھی خرچ کیا تھا۔

رسول (ص) کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ منافقین ایک یہودی کے گھر میں جمع ہوتے ہیں اور لوگوں کو جنگ میں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۸، مغازی ج۳ ص ۹۵۷۔

۲۔ جنگ تبوک ماہ رجب ۹ھ میں ہوئی ۔

۱۹۸

شریک ہونے سے روکتے ہیں، انہیں ڈراتے ہیں، رسول(ص) نے دور اندیشی اورسختی کے ساتھ اس معاملہ کو بھی حل کیا۔ ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجا جس نے انہیں اسی گھر میں جلا دیا تاکہ دوسروں کے لئے عبرت ہو جائے۔

خدا نے کچھ آیتیں نازل کی ہیں جو منافقین کی گھناونی سازشوںکو آشکار کرتی ہیں اور جنگ سے جی چرانے والوں کو جھنجھوڑتی ہیں اور کمزور لوگوں کو معذور قرار دیتی ہیں مسلمانوں کی فوج میں کم سے کم تیس ہزار سپاہی تھے-روانگی سے قبل رسول(ص) نے مدینہ میں حضرت علی بن ابی طالب کو اپنا خلیفہ مقرر کیا کیونکہ آپ(ص) جانتے تھے کہ علی تجربہ کار بہترین تدبیر کرنے والے اور پختہ یقین کے حامل ہیں۔ رسول(ص) کو یہ خوف تھا کہ منافقین مدینہ میں تخریب کاریاں کریں گے اس لئے فرمایا: ''یا علی ان المدینة لا تصلح الا بی او بک''۔( ۱ ) اے علی ! مدینہ کی اصلاح میرے یا تمہارے بغیر نہیں ہو سکتی۔

نبی (ص) کی نظر میں علی کی منزلت

جب منافقین او ردل کے کھوٹے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ علی بن ابی طالب مدینہ میں ہی رہیں گے تو انہوں نے بہت سی افواہیں پھیلائیں کہنے لگے رسول (ص) انہیں اپنے لئے درد سر سمجھتے ہیں اس لئے یہاں چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مدینہ خالی ہو جائے تاکہ پھر وہ حسب منشا جوچاہیںسو کریں ان کی یہ باتیں سن کر حضرت علی نے رسول(ص) سے ملحق ہونے کے لئے جلدی کی چنانچہ مدینہ کے قریب ہی آنحضرت (ص) کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول(ص) منافقین کا یہ گمان ہے کہ آپ(ص) مجھے اپنے لئے وبال جان سمجھتے ہیں اسی لئے مجھے آپ (ص) نے مدینہ میں چھوڑا ہے ۔

فرمایا:''کذبوا ولکننی خلفتک لما ترکت ورائ فاخلفنی فی اهلی و اهلک افلا ترضیٰ یا علی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انّه لا نبی بعدی'' ( ۲ )

____________________

۱۔ ارشاد مفید ج۱ ص ۱۱۵، انساب الاشراف ج۱ ص ۹۴ و ۹۵، کنز العمال ج۱۱ باب فضائل علی۔

۲۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۴۹، صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۵، حدیث۳۵۰۳، صحیح مسلم ج۵ ص ۲۳، حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۴۲، حدیث ۱۱۵، مسند احمد ج۱ ص ۲۸۴، حدیث ۱۵۰۸۔

۱۹۹

وہ جھوٹے ہیں ،میں نے تمہیںاپنا جانشین بنایا ہے تاکہ تم اپنے اور میرے اہل خانہ میں میرے جانشین رہو، اے علی ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے بس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

مسلمانوں کی فوج دشوار و طویل راستہ طے کرتی چلی جا رہی تھی اس جنگ میں رسول(ص) نے گذشتہ جنگوں کے بر خلاف مقصد و ہدف کی وضاحت فرمادی تھی ، جو لوگ مدینہ سے آپ(ص) کے ساتھ چلے تھے ان کی ایک جماعت نے راستہ کے بارے میں آپ(ص) سے اختلاف کیا تو آپ(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:''دعوه فان یکن به خیر سیلحقه اللّه بکم و ان یکن غیر ذالک فقد اراحکم اللّٰه منه''

انہیں جانے دو اگر ان کا ارادہ نیک ہے تو خدا انہیں تم سے ملحق کر دے گا اور اگر کوئی دوسرا ارادہ ہے توخدا نے تمہیں ان سے نجات دیدی۔

رسول(ص) تیزی سے منزل مقصود کی طرف بڑھ رہے تھے جب آپ(ص) حضرت صالح کی قوم کے ٹیلوں کے پاس سے گذرے تو اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:''لا تدخلوا بیوت الذین ظلموا اِلّا و انتم باکون خوفاً ان یصیبکم ما اصابهم' ' ظلم کرنے والوں کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر روتے ہوئے اور اس خوف کے ساتھ(داخل ہونا)کہ جو افتاد ان پر پڑی تھی وہ تم پرنہ پڑے'' اور انہیں اس علاقہ کا پانی استعمال کرنے سے منع کیا اور انہیں سخت موسم سے آگاہ کیا نیزاس جنگ میں کھانے پانی اور دیگر اشیاء کی قلت سے متنبہ کیا، اسی لئے اس لشکر کو ''جیش العسرة'' کہتے ہیں۔

مسلمانوں کو روم کی فوج نہیں ملی کیونکہ وہ پراگندہ ہو چکی تھی۔ اس موقعہ پر رسول(ص) نے اصحاب سے یہ مشورہ کیا کہ دشمن کا تعاقب کیا جائے یا مدینہ واپس چلا جائے اصحاب نے عرض کی: اگر آپ کو چلنے کا حکم دیاگیا ہے تو چلئے رسول(ص) نے فرمایا:''لو امرت به ما استشرتکم فیه'' اگر مجھے حکم دیا گیا ہوتا تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا( ۱ ) پھر آپ(ص) نے مدینہ لوٹنے کا فیصلہ کیا۔

____________________

۱۔المغازی ج۳ ص۱۰۱۹ ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273