امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 161651
ڈاؤنلوڈ: 3532

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 161651 / ڈاؤنلوڈ: 3532
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

تالیف

آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی

 

ترجمہ

عرفان حیدر

 

۱

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

مؤلف : آیت اللہ سید مرتضیٰ مجتہدی سیستانی

 ترجمہ : عرفان حیدر 

نظر ثانی : زین  العابدین  علوی

کمپوزنگ : ..................  .موسی علی عارفی،ذیشان مہدی سومرو

طبع: .............................  اول

تاریخ طبع :........................2010 مئ ی

تعداد:. ............................2000

قیمت: .............................۱۵۰

ناشر................................الماس  پرنٹرز  قم  ایران

ملنے  کاپتہ:           جامعہ امام صادق بک سینٹر علمدار روڈ کوئٹہ بلوچستان

فون نمبر:2664735 ۔ 081

امامیہ سیلز پوائنٹ قدمگاہ  مولاعلی،حیدرآباد   سندھ

  فون نمبر :2672110 ۔ 0333

ایمیل:        irfanhaidr014@gmail.com

ویب سائٹ:        www.almonji.com

ایمیل مولف:        info@almonji.com

۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انتساب

عطیہ ٔ الٰہی ، سیدہ ٔ کائنات، دل پیغمبر کاقرار ام ابیھاکا مصداق  مظلومۂ

تاریخ ر اضیۂ مرضیہ ،صدیقۂ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

مقدمہ مترجم

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ذمہ دار ہدایت،پاک پروردگار عالم  نے،ابتدائے خلقت سے عالم بشریت کے لئے ہادی و رہنما کا انتظام کیا ہے ۔اگر اس خدائے ازلی و ابدی نے قرآن مجید میں ان لفظوں کے ذریعہ اعلان کیا:''ا ِنَّ عَلَیْنَا لَلْهُدَی ، وَِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالُْولَی'' (1) تو اس کو بطور احسن اس طرح سے انجام دیا کہ ہادی و راہنما کا انتظام پہلے کیا،ہدایت پانے والوں کو بعد میں خلق کیا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے ہدایت کرنے والوں کو پہلے خلق کیا اور ہدایت پانے والوں کو بعدمیں۔اس لئے جناب آدم علیہ السلام پہلے ہادی و رہنما بھی ہیں اور پہلے انسان بھی۔لیکن یہ سلسلہ یہیں پر ہی ختم نہیں ہوا بلکہ خدائے بے نیاز نے اس سلسلہ کی ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی کڑیوں کو سلسلہ ٔنبوت و ہدایت کے دھاگے میں اس طرح پرویا کہ کائنات کے چپے چپے پر ہدایت کا عکس ابھرنے لگا۔انبیاء کا سلسلہ ابھی ٹوٹنے بھی نہ پایا تھاکہ ہدایت کی ذمہ داری امامت کے مضبوط و مستحکم کندھوں پر آگئی کیونکہ امامت تکمیل نبوت کا نام ہے۔

آخری نبی کا دور نبوت ابھی ختم بھی نہیں ہونے پایاتھاکہ آپ نے ہدایت کے لئے امامت کی وہ سلسبیل   جاری کر دی کہ رہتی دنیا تک تشنہ روح انسانیت سیراب ہوتی رہے گی کہ آج بھی زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہے۔

--------------

[1]۔ سورہ لیل،آیت:  11،12

۴

کیونکہ رسول اکرم  (ص)نے فرما یا تھا:

''ابشروا با المهدی ،ابشر وا باالمهدی،ابشروا باالمهدی یخرج علی حین  اختلاف من الناس و زلزال شدید،یملأ الارض قسطا و عدلا،کما ملئت ظلما وجوراً،یملأ قلوب عباده عبادة و یسعهم عدله '' (1)

تمہیں مہدی علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتا ہوں ،مہدی علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتا ہوں، مہدی علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتا ہوں،  جب لوگوں میں شدید اختلافات ہوں گے تو اس وقت امام زمانہ (عج)ظہور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پر کریں گے جس طرح سے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔وہ خدا کے بندوں کے قلوب کو حالت عبادت و بندگی سے سرشار کریں گے اور سب پر ان کی عدالت کا سایہ ہوگا۔

آج پوری کائنات اور کائنات کے ذرّہ ذرّہ کو اس ہادی برحق کا انتظار ہے کہ جب انسانیت سسک رہی ہے ،ظلم و جور کابول بالا ہے،مظلومیت دم توڑ رہی ہے،  شریعت  آہ و فریاد کر رہی ہے، بشریت گمراہی کے دلدل میں پور پور دھنستی جا رہی ہے۔  ہواو ہوس کی حکمرانی ہے،مظلوم کے مکان میں ظالم مکین ہے،مسجد و منبر اپنے وارث حقیقی کو آواز دے رہے ہیں،بیت المقدس کو اپنے حقیقی حق دار کا انتظار ہے،بقیع حیران ہے تو کعبہ فریاد کنان......

وہ آئے گا، وہ ضرور آئے گااور پوری کائنات کو اس صبح نو کا انتظار ہے،جب

 آفتاب ہدایت طلوع ہو کر پورے عالم انسانیت کو اپنے حصار میں لے لے  گا  ۔مگر  یہ

یہ انتظار کب ختم ہو گا؟!

--------------

[1]۔ الغیبة نعمانی: 111

۵

کیونکہ''الانتطار اشدّ مِن الموت'' مگر یہی انتظارمؤمنوں کے لئے حیات نو ہے ۔ یہی ہادی و راہنماانہیں گمراہی و تاریکی سے نکال کر ساحل نجات سے ہمکنار کرے گا۔ہر شخص اور کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے اعتبار سے اس ہادی برحق کا انتطار کر رہی ہے،جو ظالم سے مظلوم کا حق طلب کرے گا،امن و امان ،صلح و آشتی کا قیام ہو گا،عدل و انصاف کا بول بالا ہو گا،تمام فرقے تمام مذاہب اور سب رنجشیں ختم ہوجائیں گی اور صرف ایک دین ہو گا ،دین مرتضیٰ۔

کیونکہ قرآن مجید میں خداوند کریم کا ارشاد ہے:

'' وَعَدَ اﷲُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُم فِی الَْرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَهُمْ دِینَهُمْ الَّذِی ارْتَضَی لَهُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ َمْنًا یَعْبُدُونَنِی لاَیُشْرِکُونَ بِی شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَاُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُون'' (1)

وہی سلسلہ ہدایت جو آدم سے شروع ہو کر قائم  پرختم ہو جاتا ہے ،جو اس سلسلہ کی آخری کڑی ہے جن کے ظہور کے بعد ان کے پرنور دور حکومت کی خصوصیات کو اس کتاب میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔آٹھ ابواب پر مشتمل یہ کتاب اسی ہادی برحق کی بے مثال حکومت کی عکاسی کرتی ہے ۔

حقیر نے اپنی بھرپور کوشش کو بروئے کار لاتے ہوئے کتاب کے اعلیٰ اہداف اور مصنف کے مقاصد کی ترجمانی کی ہے۔لیکن یہ معرکہ مجھ ناچیز سے تنہا سر ہونے والا نہیں تھا۔لہذا میں شکر گزار ہوں ان تمام دوست و احباب کا جنہوں نے اس کار خیر میں میری مدد فرمائی

--------------

[1]۔ سورہ نور،آیت :55

۶

خصوصاََاس عظیم ماں کا جس نے ولایت اہلبیت علیہم السلام اپنے دودھ میں پلایا،اس محترم باپ کا جس کا محب اہلبیت علیھم السلام  سے سرشار لہو میری رگ رگ میں دوڑتا ہے،اپنے اساتیدجناب  محمد جمعہ اسدی اور اکبر حسین زاہدی صاحب کا کہ جن کی  زحمتوں کے نتیجے میں ناچیزاس مقام تک پہنچا  اوراپنے بھائیوں عمران حیدر شاہد اور علی اسدی کا کہ جن کی شفقت اور تشویق  نے مجھ میں حوصلہ پیداکیا کہ میں اس عظیم کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔

میں  اپنے  ان  تمام  دوست  احباب  کا  بھی شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کرنے کے سلسلہ میں تعاون فرمایا۔ خدا ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔اورمیں تہہ دل سے ممنون و مشکور ہوں جناب زین العابدین علوی جونپوری  اورسید تاجدار حسین زیدی  میراپوری صاحب کا کہ جنہوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر کتاب پر نظر ثانی فرمائی ۔

آخر میں خداوند متعال سے دعا گو ہوں کہ پرودگارا !ہماری اس ناچیز کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرما اور اپنی آخری حجت،امامت کی آخری شمع  امام زمانہ حجت بن الحسن  علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہمیں ان کے انصار میں قرار دے۔

 عرفان حیدر   

17 .رب یع الاوّل1431 ھ

     قم المقدس (ایران) 

۷

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیش گفتار

    پیش گفتار :

    بہترین فکر ''انتظار'' میں پوشیدہ ہے

    ظہورکے بارے میں سوچنا

    امام مہدی علیہ السلام کے مقام سے آشنائی

    ظہور کے درخشاں زمانے سے آشنائی

    اس کتاب کی تألیف کا مقصد

    لازم تذکرہ

۸

پیش گفتار :

انسان کے تکامل میں مثبت افکار اہم کردار ادا کرتے ہیں۔انسان اچھے افکار کے ذریعہ ٹھہراؤکو توڑ کر اعلٰی اہداف کی طرف قدم بڑھا کر انہیں حاصل کر سکتا ہے۔جس طرح برے اور منفی افکار انسان کی بربادی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جس طرح بہت سے افرادکی خطرناک اور منفی سوچ نے دوسروں کو تباہ و برباد کر دیا۔

یہ ایک ایسا قانون ہے کہ جو ہماری دنیا میں حاکم ہے کہ اگر مثبت،نیک اور اچھے افکار ہوں تو وہ انسان کو ترقی اور بلندی کی طرف لے جاتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں گناہ اور فاسد خیالات سے آلودہ کردیا جائے تو پھر انسان اپنی  تباہی کا سامان خود ہی فراہم کر دیتا ہے۔

جس طرح خشک زمین کو سیراب کرنے اور اس پر محنت کرنے سے وہ باغ میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے اور اس کا خیال نہ کیا جائے تو وہ خار دار جنگل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح انسان اپنے ضمیر کو بھی اچھے اور اہم افکار سے سرشار کر کے اس سے ثمر بھی لے سکتا ہے  اور اس کو منفی،برے اور گندے افکار سے آلودہ کر کے تباہ و برباد بھی ہو سکتا ہے۔

پس ہم نفسانی خواہشات اور شیطانی افکار کو کنٹرول کرنے سے نہ صرف شخصی اور چھوٹے افکار سے نجات پا سکتے ہیں۔بلکہ اپنے نفس کو بزرگ،مفید اور عالمی افکار کے حصول کے لئے  تیار کر سکتے ہیں۔

۹

  بہترین فکر ''انتظار'' میں پوشیدہ ہے

جی ہاں !اب سب دانشور تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں غور و فکر بہت اہم کردار کے حامل ہیں۔منفی سوچ انسان کو معاشرے کا منفی فرد بنادیتی ہے اور مثبت سوچ شخصیت ساز ثابت ہوتی ہے ،جو انسانی معاشرے کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے۔چھوٹی سوچ انسان کو زمان و مکان کے لحاظ سے محدود کر دیتی ہے لیکن بلند سوچ سے انسان کی شخصیت پروان چڑھتی ہے ۔

 انسان اور دنیاکے تکامل لحاظ سے کیسی فکر تمام انسانوں کی نجات کے لئے مکمل اور مثبت ہے؟ ظہور کے زمانے کے بارے میں سوچنے سے زیادہ کون سی سوچ، انسان اور دنیاکے تکامل کے بارے میں سوچنے سے  بہتر ہو سکتی ہے؟

دنیا میں زندگی بسر کرنے والے اربوں انسانوں میں سے اکثر اپنے شخصی مقاصد اور اپنی زندگی سے وابستہ افراد کے بارے میں ہی سوچتے ہیں(اگرچہ ان کے اہداف نیک ہیں) ایسے افراد کی سوچ بھی بہت چھوٹی ہے۔کیونکہ ہر انسان دنیا کے تمام افراد اور کائنات کی تمام مخلوقات کے مقابلہ میں بہت چھوٹا ہے۔

اگر انسان فقط اپنی ترقی اور اپنے خاندان  کی فلاح اور ترقی کے بارے میںہی سوچے تو کیا یہ افکار بہت چھوٹے شمار نہیں ہوں گے؟

 کیا یہ صحیح ہے کہ جو انسان خاندان وحی علیھم السلام کے حیات بخش فرمودات سے راہنمائی لے کر کائنات کی مخلوقات کی نجات،پوری دنیا کے لوگوں کی فلاح و بہبود،تکامل اور ترقی کے  بارے میں  سوچ سکتا ہو، لیکن اس کے باوجود بھی اس کی سوچ فقط اس کی اپنی انفرادی زندگی اور اپنے خاندان والوں تک محدود ہو؟

کیا کسی ایک فرد یا ایک سر زمین کے لوگوں کے بارے میں سوچنا بہتر ہے یا دنیا کے تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے سوچنا؟

۱۰

حضرت امیر المؤ منین  علی  علیہ السلام  فرماتے ہیں:

'' أبلغ ما تستدرّ به الرّحمة أن تضمر لجمیع الناس الرحمة  '' (1)

جو چیزیں رحمت (الٰہی) پہنچانے کا وسیلہ بنتی ہیں ان میں سے بہترین یہ ہے کہ تمام لوگوں کے لئے  رحمت کے بارے میں سوچیں۔

اس بناء پر پوری انسانیت و بشریت کو مشکلات و مصائب سے نجات دلانے کے بارے میں سوچیں نہ کہ کسی ایک فرد،ایک گروہ ،ایک قوم یا ایک ملک کی فلاح کے بارے میں سوچیں۔بلکہ دنیا کے تمام لوگوں کی فلاح کے بارے میں سوچیں ۔

کائنات کی نجات صرف حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور اور ان کی آفاقی حکومت کے وسیلہ سے ہی ممکن ہے۔

 

  ظہورکے بارے میں سوچنا

اس دن  کے بارے میں سوچنا کتنا پر مسرت اور خوشی کا باعث ہے کہ جب دنیا اور دنیا والوں پر خاندان وحی  علیہم السلام کی حکومت ہو گی۔جب کائنات میں فقر و تنگدستی ، فساد ، لڑائی جھگڑے اور  نفرتوں کا نام و نشان نہیں ہو گا اور پوری کائنات میں عدالت و انسانیت کا پرچم لہرائے گا۔

جب تمام دنیا والوں کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں ہوں گے۔کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہو گا کہ جو اس وقت کی حکومت سے راضی نہ ہو۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج۲ص۴۷6

۱۱

اس زمانے میں انسانیت و بشریت کا ہر گروہ ہر قبیلہ اور ہر قوم و ملت امام مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت سے خوش ہو گی۔حضرت حجت (عج)کی عالمی حکومت  کے دوران میسر آنے والی  خوشیوں کے   بارے میں سوچنے ہی سے انسان کو راحت اورسکون محسوس ہوتا ہے۔ اس دن کی خصوصیات  سے آگاہ ہو جانے کے بعد انسان اس دن کے آنے کا شدت سے انتظار کرتا ہے اور اس دن کی آمد کے لئے ہر لحظہ شمار کرتا ہے اور اس دن کے جلد آنے کے لئے  خدا کے حضور عاجزی و انکساری سے دعا  دعا کرتا ہے۔

کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صرف امام مہدی علیہ السلام کی  الٰہی حکومت کے تشکیل پانے اور حکومت فاطمی  کے آنے  ہی سے گھروں میں کوئی غم نہیں ہو گا،کسی یتیم  بچے کی پرورش  سے پریشان ہو کر ا س کی ماں آنسو نہیں بہائے گی،اس زمانے میں پانی کی طرح انسان کا خون نہیں بہایا جائے گا،معصوم بچوں کو ان کے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے قتل نہیں کیا جائے گا......

لیکن اس موجودہ زمانے میں انسان نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بربادی اور بد بختی کا سامان مہیا کیا ہو ا ہے۔ہر کوئی ان مسائل سے پریشان ہے۔

اس حال میں کون سکون کی سانس لے سکتا ہے؟ اس زمانے میں کون آرام اور راحت سے زندگی گزار سکتا ہے؟

کون ہے کہ جو اشکوں کے کارواں،غموں کے پہاڑوں اور حسرت کے صحراؤں میں شریک نہ ہو؟

 جی ہاں!طاغوتی حکومتوں کے فرسودہ اور منحوس قوانین و مقررات لوگوں پر حاکم ہیںاور کہیں بھی عدل و انصاف کی کوئی خبر نہیں۔ہر طرف نفرت اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ کوئی ان کی اصلاح کرنے والا نہیں۔لیکن ہر سیاہ رات کے بعد روشن دن ضرور آتا ہے ۔آخر کار ایک ایسے دن کا سورج بھی طلوع کرے گا کہ جب تاریخ کے سب سے قدیمی معبد سے دنیا والوں کے کانوں سے ایک دلنواز آوازٹکرائے گی اور دنیا والوں کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ جائے گی۔اس دن دنیا کے لوگوں کو آپس میں لڑانے والوں ،ایک دوسرے کا خون بہانے والوں اور  فساد برپا کرنے والوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔

۱۲

اگرچہ اب تک  پریشانیوں سے انسانیت و بشریت کو نجات دلانے کے لئے بہت سے لوگوں نے  بہت سرمایہ خرچ کیا ہے اور بعض تنظیموں نے انسانی حقوق کے دفاع کے لئے آوازیں اٹھائیں  اور بہت سے افراد نے کمزور لوگوں اور انسانی حقوق کے لئے قیام بھی کیا ۔تاریخ میں اب تک ظلم کو ختم کرنے کے لئے کر وڑوں لوگوں نے خون کا نظرانہ پیش کیا ہے۔لیکن نہ ہی تو لوگوں کی زندگی پر کوئی اثرپڑا اور نہ ہی کمزور افراد ظالموں کے ظلم سے نجات پا سکے ہیں۔

افسوس کہ ماضی کی طرح اب بھی دنیا میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔یہ تب تک جاری رہے گا کہ جب تک دنیا میں انسانوں کی زندگی کے لئے کوئی صحیح قانون وضع نہ ہوجائے۔اب تک دنیا پر  ایسے افراد ہی حکومت کرتے چلے آئیں ہیں کہ جنہیں اپنے وجود اور خلقت کائنات کے اسرار و رموز کا تھوڑا سا بھی علم نہیں ۔جو انسان کی بنیادی ضروریات کو بھی صحیح طرح سے نہیں جانتے۔وہ کیا انسان کی فلاح کے لئے کوئی کام کریں گے۔ انہیں تو صرف اپنی ظالم حکومت کو قائم رکھنے کی فکر ہے۔

مکتب نبوت  علیہم السلام کی نظر میں دنیا والوں کی نجات کا سامان وہی فراہم کر سکتے ہیں کہ جو اولیاء خدا ہوں اور قدرت ولایت کے مالک ہوں۔جب دنیا کی لگام ان کے ہاتھوں میں ہو اور وہ علم لدنی سے دنیا والوں کی ہدایت فرمائیں  تو تب ہی انسان سکھ کا سانس لے پائے گا۔

۱۳

امام صادق  علیہ السلام ( ایک زیارت عاشورہ میں) نے عبداللہ بن سنان سے فرمایا:کہو!

'' اللّهم انی سنّتک ضائعة، و احکامک معطّلة، و عترة نبیک فی الارض هائمة،اللّهم فأعن الحق وأهله، و اقمع الباطل واهله ومُنّ علینا بالنجاة واهدنا الی الایمان ،وعجل فرجنا، وانظمه بفرج اولیائک واجعلهم لنا وُدّا واجعلنا وَفداََ '' (1)

اے پروردگار!تیری سنت ضائع ہو گئی اور تیرے احکام جاری نہیں ہوتے اور پیغمبر (ص) ک ی عترت زمین پر سرگرداں ہے۔ خداوندا!حق اور اہل حق کی مدد فرما،باطل اور اہل باطل کا قلع و قمع فرما اور نجات کے ذریعہ ہم پررحم فرما اور ایمان کی طرف ہماری ہدایت فرما اور ہمارے فرج کے ظہور میں تعجیل فرما اوراپنے اولیاء   کے ظہور کے ذریعہ سے ہمیں  نجات عطا فرما اور ہمیں  ان کے ساتھ سرخروفرما۔

   اس بناء پر انسان کی نجات کا سامان اولیاء خدا کے ظہور ہی سے فراہم ہو سکتا ہے۔پس ظہور اور خاندان نبوت   کی حکومت کے بعد ہی ہم ان مشکلات و مصائب  سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔

لیکن موجودہ دور کے کیمیا دان سائنس میں جس قدر ترقی کر لیں ، پھر بھی وہ ان مشکلات کا حل تلاش نہیں کر سکتے بلکہ ان کے نت نئے تجربات سے انسان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوتا  جا رہاہے۔ پس اس زیارت کی رو سے ہمیں خدا سے دعا کرنی چاہیئے کہ خدا اپنی آخری حجت امام زمانہ (عج) کے ظہور  میں تعجیل فرما  اور ان کے ظہور کے ذریعہ سے ہمیں نجات عطافرما اور ہمیں ان کے انصار میں سے قرار دے۔

--------------

[1]۔ صحیفہ مہدیہ :166

۱۴

  امام مہدی علیہ السلام کے مقام سے آشنائی

 معرفت میں اضافے کی ایک اہم راہ حضرت امام مہدی  علیہ السلام  کے رفیع مقام کو پہچانناہے۔ اگر ہم یہ جان لیں  امام زمانہ (عج) محور عالَم ہیں اور خلیفة اللہ کے مقام کی بناء پر وہ نہ صرف دنیا میں خدا کے جانشین ہیں بلکہ وہ تمام کائنات،کہکشاؤں ،ستاروں،سیاروں حتی ملائکہ اور حاملین عرش پر بھی حاکم ہیں۔یوں ان کے بلند مقام کے بارے میں ہم اپنی معرفت میں اضافہ کر سکتے ہیںاور اس سے ان کے لئے ہماری محبت و مودت میں بھی اضافہ ہو گا۔پھر ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم اب تک امام عصر (عج) کے مقام سے  ناآشنا  اور وجود امام زمانہ (عج) سے غافل تھے۔

آئمہ اطہارعلیہم السلام نے اپنے فرمودات میں لوگوں کو حضرت صاحب الامر(عج) کے مقام  سے آگاہ فرمایا ہے۔ان ارشادات کو آپ مفصل کتابوں اور صحیفہ مہدیہ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام  فرماتے ہیں:

'' یکون هذا الامر فی اصغرنا سنّاََ،واجعلنا ذکراََ، ویورثه اللّه علماَ ولا یکله الی نفسه '' (1)

ہم میں سے یہ امر(دنیا کی اصلاح) اس کے توسط سے انجام پائے گا کہ جو ہم آئمہ میں سے سنّ کے لحاظ سے سب کم سن ہے اور اس کا ذکر ہم سب میں سے بہتر ہے خداوند اسے ارث میں علم عطا فرمائے گا......۔

آئمہ طاہرین علیہم السلام میں سے ہر ایک کا ذکر کرنا بہتر اور اچھا ہے ۔لیکن کیوں آخری امام حضرت مہدی  علیہ السلام کا ذکر کرنا سب سے بہتر ہے؟

--------------

[1]۔عقد  الدرر:6۹،۱۸۸،۲۱۲

۱۵

کیونکہ رسول اکرم (ص) اور آئمہ طاہر ین علیہم السلام  کی تمام جانفشانی اور کوششوںکو امام زمانہ (عج)  نتیجہ  تک پہنچائیں گے۔رسول اکرم(ص)   ک ی رسالت اور آئمہ طاہرین  علیہم السلام  کی امامت کا نتیجہ آنحضرت  کے توسط سے ظاہر ہو گا۔پس امام زمانہ (عج) اور ان کے ظہور کو یاد کرنا ، رسول اکرم (ص) اور آئمہ طاہر ین علیہم السلام کو یا دکرنا ہی ہے۔

  ظہور کے درخشاں زمانے سے آشنائی

جس طرح اب تک ہم امام زمانہ(عج) کی یاد سے غافل تھے ،اسی طرح ہم ظہور کے بابرکت  اور درخشاںزمانے کی عظمتوں اور برکتوںسے بھی غافل ہیں ۔ حلانکہ ظہور کے منور زمانے اور اس کی خصوصیات کی پہچان سے ایمان و اعتقادمیں اضافہ ہوتاہے۔

اس نکتہ کومدنظر رکھیں کہ ظہور کا زمانہ اس قدر باعظمت،بابرکت  اور درخشاں ہے کہ جس طرح اسے بیان کرنے کا حق ہے ،ہم اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ہم نے اس کتاب میں جو کچھ لکھا،وہ ظہور کے پر نور زمانے کے فضائل کی نامکمل'' الف با ''ہے۔

غیبت کے زمانے کی تاریکی میں آنکھ کھولنے والے ا وراس زمانے کی لطافت،حلاوت سے ناواقف کس طرح اس زمانے کی خصوصیات کو کماحقہ بیان کر سکتے ہیں؟

جی ہاں!جب تک ہم خود اس درخشاں زمانے کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں،تب تک ہم اسزمانے کی خصوصیات کی مکمل طور پر توصیف بیان نہیں کر سکتے۔  لیکن اس کے باوجود خاندان نبوت  علیہم السلام کے فرمودات  سے استفادہ کرکے ،ہم اس دن کی یاد سے اپنے دل کو جلا بخش سکتے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ زمانہ ظہور کی معرفت و شناخت ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔کیونکہ غیبت کے زندان میں زندگی بسر کرنے والا کہ جس نے ظہور کے زمانے کی حلاوت کو نہ چکھا ہو ،وہ کس طرح  بند آنکھوں سے زمانۂ ظہور کی نورانیت کو دیکھ سکتا ہے؟

۱۶

یہ واضح ہے کہ جب تک غیبت کے زندان سے رہائی نہ پا لیں اور زمانۂ ظہور کو درک نہ کر لیں ، تب تک اس بابرکت دن کی عظمت سے آگاہ نہیںہوا جا سکتا۔یقیناََجب تک اس پر نور اور باعظمت زمانے کو نہ دیکھ لیں ،تب تک اس کی خصوصیات اور جذابیت کو مکمل طور پر نہیں جان سکتے۔

اگر اس کتاب میں موجود مطالب آپ کے لئے نئے ہوں تو  اس بابرکت زمانے کا انکار نہ کر یں کہ ایسا زمانہ کبھی نہیں آئے گا۔اگر کتاب میں بیان کئے گئے مطالب آپ کے لئے حیران کن ہوں توجان لیں کہ یہ مطالب اس زمانے کی خصوصیات کی چھوٹی سی جھلک ہیں۔کیونکہ اس زمانے کی تمام خصوصیات و برکات کو مکمل طور پر بیان کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔اس زمانے کی برکات ہمارے تصور سے کہیں زیادہ ہیں۔

گفتم ھمہ ملکِ حسن سرمایۂ تست                              خورشید فلک چوذرّہ درسایۂ تست

گفتا غلطی زمان شان نتوان یافت                              از ما تو ھرآنچہ دیدہ ای  پایۂ تست

اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے کتاب بحار الانوار سے اپنی بات کو امام محمد باقرعلیہ السلام سے زینت بخشتے ہیں:

'' قلت لابی جعفر:انّما نصف (صاحب)هذا  الأمر بالصفة الّتی لیس بها احد من الناس

فقال :لا واللّه لا یکون ذلک ابداََ حتی یکون هو الّذی یحتجّ علیکم بذلک و یدعوکم الیه بیان:قوله'' بالصفة الّتی لیس بها أحد '' أی نصف دولة القائم و خروجه علی وجه لایشبه شیئاََ من الدول، فقال :لا یمکنکم معرفته کما هی حتی تروه...''(1) امام باقر  علیه السلام س عرض کیا:هم(صاحب) حکومت الٰهی کی ایس توصیف کرت هی که لوگو می س کوئی ایک بهی وه صفت نهی رکهتا

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج52ص366ح149

۱۷

آنحضرت  نے فرمایا:نہیں خدا کی قسم !جیسا تم کہہ رہے ہو ایسا بالکل نہیں ہے ،حتی کہ وہ خود اس سے حجت قائم کریں اور تمہیںاس کی طرف بلائیں۔

مرحوم علامہ حلی اس روایت کی توضیح میں فرماتے ہیں:ہم امام مہدی علیہ السلام  کی حکومت کی ایسے توصیف کرتے ہیں کہ کوئی حکومت بھی ان کی حکومت کی طرح نہیں ہے۔امام علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جیسے اس دن کو پہچاننا چاہیئے ،تمہارے لئے اسے ویسے پہچاننا ممکن نہیں ہے۔مگر یہ کہ اس دن کو خود دیکھ لو۔

جی ہاں !دنیا کا مستقبل اس قدر نورانی اور درخشاں ہے کہ ابھی ہم اسے دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتے۔لیکن اس کے باوجود ہم سب کو اپنے تمام وجود کے ساتھ اس دن کے آنے کی فکر کرنی چاہیئے اور اس مبارک دن کی آمد کا دل سے انتظار کرنا چاہیئے۔کیونکہ انتظار کی حالت نہ صرف سب سے بہترین حالت ہے بلکہ بہترین جہاد،کوشش اور بافضیلت ترین عمل اور افضل ترین عبادت بھی ہے۔رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے:

''افضل جهاد امّتی انتظار الفرج '' (1) میری امت کا بہترین جہاد انتظار فرج ہے۔

امام جواد علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''افضل اعمال شیعتنا انتظارُ الفرج '' (2)

ہمارے شیعوں کا افضل ترین عمل انتظار فرج ہے۔ خاندان نبوت علیہم السلام  کی نگاہ میں  وہ  بابرکت دن اس قدر اہمیت کا حامل ہے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج77ص143

[2]۔  بحار الانوار:ج51ص156

۱۸

  اس کتاب کی تألیف کا مقصد

اس کتاب کو لکھنے میں میرا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ مکتب اہلبیت علیہم السلام کے پیروکار دنیا کے اس اہم ترین مسئلہ سے آگاہ ہو جائیں۔بلکہ اس کا مقصد اس پرنور،مبارک ،باعظمت اور بابرکت دن کے آنے اور اس دن خاندان رسالت کی آفاقی و کریمانہ حکومت کے نافذ ہونے کے لئے کوشش کرنا ہے۔

اس بناء پر اب جب کہ ہم نے اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا ہے ، اب ہمیں مصمم ارادہ کرنا چاہیئے کہ ہم اس کتاب میں موجود اہم نکات کے بارے میں غور و فکر کریں گے اور دوسروں کو ان نکات سے آگاہ کرنے کے لئے کوشش کریں۔کیونکہ علم اگر عمل اورفعالیت کے ہمراہ نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔لہذا اس کتاب کا مقصد دصرف کتاب میں موجود مطالب کو پڑھنا ہی نہیں ہے، بلکہ دنیا کے اس اہم ترین حیاتی مسئلہ کی طرف سعی وکوشش کرنا بھی ہے۔

  لازم تذکرہ

ظہور کے زمانے کے بارے میں بحث اس قدر خوشی،مسرت ،راحت اور سکون کا باعث ہے کہ قلم حرکت سے رکتا ہی نہیں ۔اسی وجہ سے مصنف نے ظہور کے درخشاںزمانے کے بارے میں  خاندان وحی علیھم السلام  کے فرمودات کی روشنی میں قلم فرسائی کرتے ہوئے  زمانۂ ظہور کی بحث کو چند عنوان میں تقسیم کیا۔

1 ۔دن یا کے مستقبل کے بارے میں حضرت امام علی علیہ السلام کے ارشادات۔

اگرچہ  حضرت امیر المؤمنین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام   کے ارشادات و فرمودات اتنے زیادہ ہیں کہ جن کے بیان کے لئے کئی مستقل کتابوں کی ضرورت ہے۔

۱۹

2 ۔امام مہد ی  علیہ السلام کی آفاقی حکومت کے آغاز  میں دنیاکے متعلق خاندان وحی علیہم السلام   کے فرمودات،دنیا کے تسخیر ہونے کی کیفیت ،زمانۂ ظہور کے اصحاب کے بارے میں مہم نکات۔اس بارے میں بھی الگ سے تالیف کی ضرورت ہے۔

3 ۔حضرت امام مہد ی  علیہ السلام   کی کریمانہ و آفاقی اور عالمی حکومت  کے بارے میں اہلبیت عصمت و طہارت    علیھم السلام  کے ارشادات۔

 یہ کتاب حضرت بقیة اللہ الاعظم(عج)  کی والدہ ماجدہ حضرت نرجس خاتونعلیھا السلام کے حضور ہدیہ پیش کرتاہوں تاکہ یہ کتاب ثواب کی حامل بن جائے اور حضرت بقیة اللہ الاعظم(عج) کی عنایات ہمارے شامل حال  ہوں اوراس کے ذریعہ ہمارے دلوں پہ جما زنگ دور ہو جائے ۔ اس باعظمت زمانے اور طاوس جنت امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت  کے آنے سے ریحانۂ رسول، بنت پیغمبر،مظلومہ کائنات ،صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ زہرا  علیھا السلام کو شادمانی ملے گی اور دنیا میں عدل  کا نظام قائم ہو گا۔

جی ہاں!اس وقت زمین وزمان کے ولی،صاحب امر حضرت بقیہ اللہ الاعظم (عج)   اپنی ولایت کو ظاہر کریں گے،جس سے دنیا والوں کو علم ہو جائے گا کہ زمین،ساتوں آسمان بلکہ فرش سے عرش تک ہرچیز پرخاندان عصمت و طہارتعلیھم السلام کی قدرت ہے۔اگر کسی زمانے میںانہوں نے  خلافت چھوڑ دی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ  اس کی قدرت نہیں رکھتے تھے،بلکہ وہ یہ بتانے کے لئے تھا کہ  فرعون و ہامان میں ولایت کی قدرت نہیں ہے اور جبت و طاغوت خدائی قدرت نہیں رکھتے اور اگرچہ قارون خزانوں کا مالک ہے ،لیکن آخر میں یہ خزانے اس سے جدا ہو گئے  ،اگرچہ شدّاد نے زمین پر جنت بنا لی ،لیکن اس میں قدم تک نہ رکھ سکا۔امام زمانہ  علیہ السلام  کی آفاقی حکومت ،صالحین کی حکومت ہے ،جس میں ظالموں اور جابروں کا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔

سید مرتضیٰ مجتہدی سیستا نی 

۲۰