امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 162757
ڈاؤنلوڈ: 3591

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162757 / ڈاؤنلوڈ: 3591
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

  شرمساری

اب تک ہم نے زمانِ ظہور کو مختلف عناوین سے یاد کیا۔عصرِ حیات و زندگی،نجات کا دن،فلاح کا دن،ظہور کا درخشاں زمانہ،ظہور کا پُر نور اور پُر مسرّت زمانہ،منوّر زمانہ ،عقلوں کے تکامل کا زمانہ۔  اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ ہم نے اس حیات بخش اور نجات زمانے کے لئے کیا کام انجام دیئے ہیں۔ہم نے عالمی عادلانہ حکومت کے نزدیک ہونے کے لئے کون سا اقدام کیا ہے،اس راہ میں ہم نے اپنی کتنی ثروت و دولت خرچ کی ہے؟

جس طرح ہم اپنے اور اپنے اہل خانہ اور فرزندوں کی زندگی کو پُر آسائش بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے آئندہ کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔کیا ہم نے کبھی آئندہ آنے والی دنیا اور اس کے متعلق اپنے وظیفہ و ذمہ داری کے بارے میں بھی سوچا ہے؟

یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی ظہور کا منتظر ہو لیکن اس راہ میں کوئی قدم نہ اٹھائے ۔کیا دولت کے حصول اور اموال کے جمع کرنے میں  کے لئے تمام کوششیں اور دنیا کی نجات کے لئے اپنے دینی اور انسانی فریضہ کو بھلا دینا انتظار امام زمان سے مناسبت رکھتا ہے؟

کیا یہ صحیح ہے کوئی ظہور کا معتقد بھی ہو اور منتظر بھی،لیکن اس کے باوجود صبح سے شام تک اپنا سارا دن مادّی ترقی کی جستجو میں صرف کرے اور شرعی وظیفہ بالکل فراموش کردے۔

بعض دولتمندوں کو اس وقت انتہائی شرم کا سامنا پڑے گا کہ جب عصرِ ظہور میں امام عصر علیہ السلام  ان کی مذمت کریں گے اور آنحضرت دنیا پرستی اور دنیا کا مال جمع کرنے کی وجہ سے لوگوں کی تنقید کریں گے۔

۱۰۱

ایک روایت میں حضرت باقر العلوم علیہ السلام  فرماتے ہیں:

'' یجمع الیه اموال الدنیا من بطن الارض و ظهرها،فیقول للناس تعالوا الی ماقطعتم فیه الارحام،و سفکتم فیه الدّماء الحرام و رکبتم فیه ما حرّم اللّه عزّوجلّ، فیعطی شیئاً لم یعطه احد کان قبله و یملأ الارض عدلاً و قسطاً و نوراً کما ملئت ظلماً و جوراً و شرّاً ''  (1)

زیر زمین ثروت اور روئے زمین پر موجودتمام ثروت اوردنیا کا مال و دولت اس کے پاس جمع  ہوگا۔پھر وہ لوگوں سے کہے گا:

آئو اس چیز کی طرف کہ جس کی وجہ سے تم لوگوں نے قطع رحم کیا،ناجائز خون بہایااور خدا کی حرام کردہ چیزوں کے مرتکب ہوگئے۔

پس وہ اس قدر مال و دولت عطا کرے گا کہ جو اس سے پہلے کسی نے دوسرے کو عطا نہیں کی ہوگی۔وہ زمین کو عدل و انصاف اور نور سے بھر دے گا ۔جس طرح وہ ظلم و جور و شر سے پُر ہوچکی تھی۔

جی ہاں!وہ شرمساری اور شرمندگی کا زمانہ بھی ہے۔ایسے لوگوں کے لئے شرمندگی کہ جن کوتمام مادّی وسائل مہیّا تھے،لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی انسانوں کی نجات اور ان کی مشکلات کو رفع کرنے کی کوشش نہیں کی۔اس سے بھی زیادہ شرمسار وہ ہوں گے کہ جنہوں نے نہ صرف انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے اپنا مال خرچ نہیں کیا۔بلکہ امام زمانہ علیہ السلام کے مال پر بھی قبضہ جما کر بیٹھ گئے اور انہوں نے وہ مال ایسے موارد میں بھی صرف نہیں کیا کہ جن میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی رضائیت شامل تھی۔

کیا ایسے افراد کو اپنے گفتار و کردار پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت نہیں ہے؟

--------------

[1] ۔ نوادرالاخبار:275،بحارالانوار:ج 51ص  29،الغیبة مرحوم نعمانی:237 باب 13 ح26

۱۰۲

 چوتھا باب

بیماریوں کا خاتمہ

    بیماریوں کاخاتمہ

    قوّت و طاقت کا دوبارہ ملنا

    انسان بیماریوں کا خاتمہ کرنے سے عاجز

۱۰۳

بیماریوں کاخاتمہ

جس روز دنیا خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گی اور پوری کائنات بہشتِ بریں کی طرح شادمان ہوگی۔لیکن بیمار،نابینا اور دوسرے امراض میں مبتلا کس طرح ان خوشیوں میں شریک ہوسکتے ہیں؟

یہ کس طرح ممکن ہے کہ ولایت کے نور کی شعائیں ہر جگہ اور ہر شخص کو اپنے احصار میں لے لیںلیکن مشکلات اور بیماری میں گرفتار اس سے محروم اور اسی طرح غمگین اوراداس رہیں؟

پوری دنیا کے تمام افرادان عالمی خوشیوں میں شریک ہوں گے۔ولایت اہلبیت علیھم السلام کی قدرت سے سب مشکلات اور مصائب کا خاتمہ ہوجائے گا اور امراض کسی بھی انسان کونقصان نہیں پہنچائیں گے،کیونکہ ایسی حکومت کہ جس میں فقط خداوندعالم حکومت کرے،اس کا لازمہ یہ ہے تمام اہل دنیا قدرتِ ولایت کی پناہ میں ہوں۔اس وقت شیطان اور ستمگرشیطان پرستوں کا کوئی نشان نہیںرہ جائے گا۔ سب کو پُر آسائش زندگی میسر ہوگی۔

اب ہم ضروری سمجھتے ہیں  کہ یأس و ناامیدی کی زندگی بسر کرنے والوں کے لئے خاندانِ اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام سے یہ عظیم بشارت نقل کریںتاکہ ناامیدی کے سائے تلے زندگی گزارنے والوں کے لئے امید کی شمع روشن ہوجائے اور ان کے وجود میں ناامیدی ختم ہوجائے اور اس کی جگہ امید اور انتظار لے لے جو  ان کے افکار سے شیطانی وسوسوں کو نکال باہر کرے۔اب اس آسمانی بشارت پر توجہ کریں۔حضرت امام باقر علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''من ادرک قائم اهل بیتی من ذی عاهة برأ،و من ذی ضعف قوی ''  (1)

جو بھی  میرے قائمِ اہلبیت  علیہم السلام کو درک کرے،اگر مریض ہو تو شفا پائے گا اور اگر ضعیف ہو تو قوی ہوجائے گا۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار :ج۵۲ ص۳۳۵

۱۰۴

اس روایت کی وضاحت ملاحظہ کریں:

ظہور کے پُر نور اور بابرکت زمانے میںنہ صرف جسمانی مرض میں مبتلا افراد شفایاب ہوجائیں گے بلکہ تمام افراد کی روحانی و نفسانی بیماریاں بھی برطرف ہوجائیں گی ۔کیونکہ حضرت باقرالعلوم علیہ السلام نے تمام ضعیف افراد کے توانا ہونے کا وعدہ کیا ہے اور یہ فقط جسمانی بیماریوں سے مخصوص نہیںہے۔

بلکہ ہرقسم کی کمزوری و ناتوانی ختم ہوجائے گی ، جیسے عزم و ارادے میں ضعف ،پست ہمت،تمرکز فکر میں ناتوانی، اسی طرح صرف بیماریاں اور ضعف ہی برطرف نہیں ہوگا بلکہ اس کی جگہ انسان کو قدرت اور سلامتی حاصل ہوگی۔

پس امام باقر علیہ السلام  کے فرمان (و من ذی ضعف قوی  یعنی صاحبِ ضعف قوی ہوجائے گا) سے دو بنیادی و اساسی نکات استفادہ کئے جاتے ہیں۔

1 ۔ یہ فرمان مطلق ہے جو فقط جسمانی ضعف و ناتوانی سے مخصوص نہیں ہے۔بلکہ اگر کسی میں نفسیاتی لحاظ سے بھی کوئی کمی ہو تو وہ بھی برطرف ہوجائے گی۔

قابل توجہ یہ ہے کہ بہت سے جسمانی امراض،نفسانی مسائل کی وجہ سے جنم لیتے ہیں ۔ لیکن ظہور کے بابرکت زمانے میں ہر قسم کی روحانی و نفسانی کمزوری زائل ہوجائے گی جس کی وجہ سے جسمانی امراض کا خود بخود ہی خاتمہ ہوجائے گا۔

۱۰۵

  قوّت و طاقت کا دوبارہ ملنا

2 ۔ روا یت سے حاصل ہونے والا دوسرا نکتہ پہلے سے بھی زیادہ اہم اور پسندیدہ ہے۔وجہ یہ ہے کہ اس روایت میں نہ فقط بیماریوں اور کمزوریوں کے برطرف ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔بلکہ ان کی جگہ پر قدرت و صحت کی بھی تصریح ہوئی ہے۔

کیونکہ حضرت  امام باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے:

'' و من ذی ضعف قوی ''

جو بھی ضعف و کمزوری میں مبتلا ہو،وہ قوی ہوجائے گا۔

اس بناء پر روئے زمین پر نہ صرف ضعیف و ناتوان افراد کا وجود نہیں ہوگا بلکہ سب کو صحت، قوّت اور توانائی حاصل ہوگی۔

امام صادق علیہ السلام نے امام باقر علیہ السلام اور انہوں نے امام سجّاد علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے۔ جس میں اس مطلب کی تصریح فرمائی ہے ۔  اورآنحضرت  نے فرمایا:'' اذا قام القائم اذهب اللّه عن کل مؤمن العاهة،وردّ الیه قوّته ''  (1)

جب قائم قیام کریں گے تو خدا وند متعال ہر مؤمن  کے مرض کا خاتمہ کردے گا اور اسے قوّت و طاقت عطا کرے گا۔

ظہور کے درخشاں زمانے میں دنیا کے تمام افرادصاحب ایمان اور مؤمن ہوں گے، اس حقیقت پر توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس زمانے میں کوئی مریض بھی موجود نہیں ہوگا۔ بلکہ اسے قوّت و طاقت اور توانائی دے دی جائے گی۔

اب جبکہ پوری دنیا مریض،ضعیف اور ناتواں افراد سے بھری ہوئی ہے،کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ ان تمام بیماریوں کے برطرف ہونے کے لئے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں اور اس دن کے آنے کی دعا کریں۔جب انسان کو تمام مصائب اور مشکلات سے نجات حاصل ہوجائے گی؟

--------------

[1]۔ الغیبة نعمانی: 317

۱۰۶

کیالوگوں کے لئے یہ جاننا ضروری نہیں کہ ایک ایسا پُر مسرّت دن بھی آئے گا کہ جب پوری کائنات میں ایک مریض اور مشکلات میں گرفتار شخص نہیں ملے گا؟

کیا یہ جاننا بھی ضروری نہیں ہے کہ خلقت کائنات کے کروڑوں برسوںاور خلقتِ انسان کے ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ابھی تک خدا کا انسان کوپیدا کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوا؟کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ خدا نے دنیا کو اسی موجودہ قابلِ افسوس حالت کے لئے خلق کیا تھا؟کیا خدا کی عظیم قدرت اور علم کو مد نظر رکھتے ہوئے ان تمام ضعیف،ناتوان،معلول،  ناقص الخلقة اور مریض افراد کا ہونا،اس چیز کی دلیل نہیں ہے کہ ابھی تک دنیا کے نظم کو عدل الہٰی کی حکومت کا سایہ نصیب نہیں ہوا؟

کیا آپ نہیں جانتے کہ خدا وند کریم خاندانِ عصمت و طہارت علیھم السلام کی برکت سے مشکلات میں گرفتار تمام  افراد کو غم و اندوہ اور مشکلات و مصائب سے نجات دے دے گا۔

جی ہاں!جس دن پوری کائنات ولایت کے تابناک انوار سے منوّر ہوگی،اس روز خداوند بزرگ و برتر،خاندانِ وحی علیھم السلام کے درخشاں انوار کی برکت سے انسانوں کو ہر قسم کی مصیبت و مشکل سے نجات عطا فرمائے گا۔پھر پوری کائنات میں کہیں بھی کوئی پریشان حال اور بیمار شخص نہیں ملے گا۔اب امام حسین علیہ السلام  کے فرمانِ مبارک پر توجہ کریں:

''.... ولا یبقیٰ علی وجه الارض اعمیٰ ولا مقعد ولا مبتلیٰ الّا کشف اللّه عنه بلاوّه بنا اهل بیت علیهم السلام ''  (1)

زمانِ ظہور میں روئے زمین پر کوئی نابینا(2) زمین گیراور مشکلات میں مبتلا شخص باقی نہیں رہے گا ، مگر یہ کہ خدا وند کریم ہم اہلبیت  علیہ السلام کے طفیل  اس کی مصیبت کو برطرف کردے۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار :ج 53ص۲

[2]۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دور حاضر میں دنیا میں 45 میلیون نابینا افراد زندگی گزاررہے ہیں۔

۱۰۷

اس کلام سے استفادہ کرتے ہیں کہ اس پُر مسرّت اور بابرکت دن اس زمانے کے لوگوں کے لئے کسی قسم کی کوئی مصیبت و مشکل نہیں ہوگی۔ہر کسی سے ہر طرح کی بیماری ، ناراحتی اور بلا برطرف ہوجائے گی ۔ پوری دنیا خوش و خرم ہوگی ۔ یہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی قدرت ِ ولایت کی وجہ سے ہے کہ اس دن وہ پورے عالم میں خدا وند مہربان کی مرضی و خوشنودی کے مطابق حکومت کریں گے۔

قابل توجہ امر یہ ہے کہ بقراط کے زمانے کے معروف یونانی ماہرین طب سے آج تک کے ماہرین طب کی بیماریوں کے بارے میں تحقیق کے مطابق انسان کو چالیس ہزار بیماریاں نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔ انہوں نے ان بیماریوں کی علامات بھی مشخص کی ہیں اور اگر ان کی کوئی دواہے تو اسے بھی مشخص و معین کیا ہے۔(1)

البتہ یاد رکھیں کہ زیادہ گناہوں کی وجہ سے جدید بیماریاں رونما ہوتی ہیں ۔ کیونکہ روایات میںوارد ہوا ہے کہ کثرت ِ گناہ نئی بیماریوں کو جنم دینے کا سبب ہیں۔

  انسان بیماریوں کا خاتمہ کرنے سے عاجز

تمام ترقی یافتہ ممالک علمی ترقی و پیشرفت کے بڑے بڑے دعوے تو کرتے ہیں۔لیکن ابھی تک وہ بیماریوں کا خاتمہ کرنے سے عاجز ہیں۔بلکہ وہ ان میں کمی کرنے سے بھی عاجز ہیں۔ گناہوں کے علاوہ ، علمی ناتوانی،ضعیف انتظام، اقتصادی بحران، حفظانِ صحت کے وسائل کا نہ ہونا،ہواکی آلودگی، ناقص علاج ا ور ناقص ادویات نے پوری دنیا کے انسانوں کو ہزاروں بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے۔(2)

--------------

[1]۔ مغز متفکر جہانِ شیعہ:387

[2] ۔ صرف ایران میں دورانِ علاج ڈاکٹروں سے سالانہ 000،55 غلطیاں سرزد ہوتی ہیں،جن میں سے 500،10 موت اور 23000 اعضائِ بدن میں نقص کا باعث بنتی ہیں

۱۰۸

اب بھی لاکھوں افراد بیماری کے بستر پر پڑے رنج و الم کی زندگی گزار رہے ہیں اور علمی ترقی اور تمدن کا نعرہ لگانے والے ممالک ان بیماریوں کے جراثیم اور اصلی عوامل کو بھی ختم نہیں کرسکے۔بیمار کو تیمار کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن حفظانِ صحت اور میڈیکل سائنس میں ترقی وکامیابی کے دعوے کرنے والے ابھی تک کیوں ان بیماریوں کا علاج تلاش نہیں کرسکے؟مگر کیا ایسا نہیں ہے کہ ہر درد کا مداوا بھی ہے،بلکہ ہزاروں درمان ہیں،بقول سنایی:

درد در عالم از فراوان است

ہر یکی را ہزار درمان است

دنیا کی رہبری و قیادت کا ادعا کرنے والے ہر مرض کا ایک علاج (نہ ہزار) تو لے آئیں ورنہ صائب کے بقول:

( دکّان بی متاع چرا و اکند کسی )

یہ تمام زمانہ غیبت کی تلخیاں ہیں اور دنیا والوں کا حضرت بقیة اللہ الاعظم  علیہ السلام کی عالمی عادلانہ حکومت سے دوری کا نتیجہ ہے۔

اگر وہ مقتدر اور آگاہ رہبر لوگوں پر حکومت کرتا تو دنیا والوں پر ایسی نادانی و ناتوانی کا سایہ نہ پڑتا۔کیونکہ ظہور کا زمانہ تمام قیمتی،بیش بہا اور مثبت عوامل ظاہر کرنے اور زندگی کے تمام شعبوں کے منفیاور مضر عوامل کو نابود کرنے کا زمانہ ہے۔

جی ہاں!جب خدا کیاحکامات سب پر حاکم ہوںاور دنیا والوں پر حکومت الہٰی قائم ہو تو پھر جہل و ناتوانی و نادانی کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔کیونکہ تمام فاسد اور منفی عوامل و اسباب کو آشکار کرکے نابود کردیا جائے گا۔

لیکن عصرِ غیبت میں حق اور ناحق آپس میں مل چکے ہیں۔مثبت اور منفی عوامل میں تشخیص امکان پذیر نہیں ہے۔اسی وجہ سے بہت سے امراض کے اصلی عوامل ابھی تک معلوم نہیں ہوسکے۔

۱۰۹

ہم یہاں ان میں سے ایک نمونہ بیان کرتے ہیں:مردوں میں موبائل فون کی وجہ سے اسپرم کی مقدار میں کمی کی بیماری کو ابھی تک ٹھیک طرح سے تشخیص نہیں دیا جاسکا۔مجارستانی دانشوروں کا کہنا ہے کہ موبائل فون کا استعمال مردوں کی جنسی قوت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے''زگد''یونیورسٹی کے محققین مجارستان میں کہتے ہیں''موبائل فون سے نکلنے والی لہریں مردوں میں3 / 1 حد تک اسپرم کو کم کرسکت ی ہیں۔اس مطالعہ سے معلوم ہوا کہ جو مرد سارا دن موبائل کو روشن رکھ کے اپنے پاس رکھیں ،ان میں اسپرم کی مقدار3 / 1 حد تک کم ہوجات ی ہے۔حتی کہ بقیہ اسپرم کی حرکت بھی غیر عادی ہوجاتی ہے۔اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ موبائل فون مردوں کی جنسی قوّت اور اسپرم پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

یورپ میں انجمن تولید انسانی کے سابقہ سربراہ پروفیسر''ہانس ایورس'' نے بیان کیا کہ اس تحقیق میں مردوں کی جنسی قوّت پر اثر انداز ہونے والے دیگر عوامل پر تحقیق نہیں کی گئی ۔اسی وجہ سے موبائل فون کے اسپرم پر مرتب ہونے والے آثار پر دقیق تحقیقات کی جائیں۔(1)

بعض بیانات و تحقیقات کے مطابق موجودہ صنعتی وسائل بہت سی بیماریوں کے عوامل ہیں:

1۔ایک بیان میں ذکر ہوا ہے : موبائل فون سے نکلنے والی الیکٹرو مقناطیسی شعاعوں کا انسان کی سلامتی پر اثر انداز ہونے کا خوف موجود ہے۔بالخصوص یہ بدن کے سیلز،مغز اور قوّت مدافعہ پر منفی اثرات چھوڑسکتی ہیں۔جس سے مختلف بیماریوں مثلاً کینسر یا آلزایمر وغیرہ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

--------------

[1]۔ مجلہ دانشمند مہر ماہ 1383 ،شمارہ492،صفحہ25

۱۱۰

یورپ کی لیبارٹریز کی تازہ ترین تحقیقات کے مطابق موبائل فون کی ریڈیو لہریں دائمی طورپر انسان اور حیوان کے DNAمیںداخل ہوکر ان کے سیلز میں تغییر پیدا کرتی ہیں۔یہ تغییرات کینسر کا باعث بن سکتی ہیں۔اس بارے میں اس سے آگے تحقیق نہیں ہوسکی اور یہ کہ کیا سیلز کی تغییر کسی خاص  بیماری تک پہنچتی ہے یا نہیں۔اس بارے میں انہوں نے اپنے نظریے بیان نہیں کئے۔

دیگر تحقیقات میں بھی بیالوجیکلتبدیلیوں  کو بیان کیا گیا ہے۔جس میں چوہوں پر تجربات سے معلوم ہوا کہ موبائل فون سے نکلنے والی لہریں ان چوہوں کی سلامتی کے  لئے نقصان دہ ہیں۔لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کیا یہ تحقیقات مستقیم طور پر انسانوں سے بھی مربوط ہیں یا نہیں۔

فن لینڈ کے دانشوروں کی تحقیقات سے2002 ء م یں معلوم ہوا کہ یہ لہریں انسان کے ذہن و دماغ کی طاقت پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔لیکن انہوں نے کہا کہ اس بارے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کیا یہ لہریں زندہ انسانوں پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتی ہیں یا نہیں؟

بعض سوئیس دانشوروں نے بھی2002 ء م یں دعوی کیا کہ موبائل فونز کے درمیان رابطہ پیدا کرنے والی لہریں دماغ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔تحقیقات کے مطابق سب سے پہلے بننے والے موبائل فون استعمال کرنے والوں اور نہ کرنے والوں کے درمیان مقائسہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موبائل فون استعمال کرنے والوں میں سے تیس فیصد ذہنی امراض کے شکار ہیں۔

اسی طرح بعض تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض افراد موبائل فون استعمال کرنے کے بعد سردرد یا تھکاوٹ کا احساس کرتے ہیں یا وہ کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتے۔

۱۱۱

2 ۔موبائل فون سے خارج ہونے وال ی لہریں بدن کے سیل اور انسان کے DNA کو نقصان پہنچاتی ہیں لمبے عرصے تک الیکٹرک مقناطیسی لہروں کا خارج ہونا DNA سیلز کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے کہ جو پھر قابلِ ترمیم نہیں ہے۔

موبائل کو دریافت ہوئے برسوں گزرگئے لیکن ابھی تک انسانوں کے ذہن اور اعصاب پر اس کے منفی اثرات سے بہت سے محققین نا آشنا ہیں۔

لیکن جس دن سب لوگ مکتبِ اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات کے آب شیریں سے سیراب ہوں گے تو اس وقت کوئی مبہم اور نا شناختہ نکتہ باقی نہیں رہے گا۔اس زمانے میں نہ صرف مختلف بیماریوں  کے اسباب و علل سے آگاہی حاصل ہوجائے گی بلکہ بیماریوں کے تمام عوامل بھی برطرف ہوجائیں گے۔

کیا ہم سب کو ایسے بابرکت  اور پر مسرت دن کی آمد کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا  کے لئے ہاتھ نہیں اٹھانے چاہئیں کہ جب سب لوگ سلامتی ، تندرستی اور قدرت و طاقت سے سرشار ہوں گے؟

۱۱۲

پانچواں  باب

عقلی  تکامل

    عقلی تکامل               وجود انسان میں بدلاؤ ضروری ہے

    امام مہدی علیہ السلام اور عقلی تکامل            اتحاد و یگانگت سے سرشار دنیا

    عصر ظہور میں تکامل عقل کی وجہ سے ناپسندیدہ صفات پر غلبہ        عالم غیب سے ارتباط        غیب کا مظہر کامل

    مرحوم سید بحر العلوم کی زندگی کے کچھ اہم واقعات      علامات و نشانیاں       ایک عام انسان اور حیرت انگیز دماغ

    اسے یہ قدرت کیسے حاصل ہوئی؟         کسی انجان چیز کا اس کے دماغ میں بدلاؤ ایجاد کرنا

    دوسری زبان میں کلام        کسی انجان قوّت کا اس کے دماغ کو مطلع کرنا

    بے زبانوں سے گفتگو        ریڈار کے نام سے پروگرام          عقل کی آزادی

    سالم فطرت کی طرف لوٹنا

    کیا ظہور سے پہلے عقلی تکامل کا حصول ممکن ہے؟

    کیا یہ عقیدہ صحیح ہے ؟

    دماغ کی قوّت و طاقت

    غیر معمولی حافظہ دماغ کی عظیم قدرت کی دلیل

    دماغ کا ما فوق فطرت، قدرت سے رابطہ

    جدید علم کی نظر میں عقلی تکامل

    عقلی تکامل اور ارادہ

۱۱۳

عقلی تکامل

انسان کے وجود کی تخلیق بہت حیرت انگیز اور مہم ہے۔ یعنی اگر انسان خود پہچان لے تو وہ بہت سے غیر معمولی اور اہم کام انجام دے سکتا ہے۔لیکن اگر وہ اپنے اندر پوشیدہ قوّتوں سے آگاہ نہ ہو تو وہ صرف اپنی زندگی بسر کرکے بہت بڑے عظیم سرمائے کو ضائع کردیتا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام  نے اپنے  ارشادات میں بارہا انسانوں کو اس حقیقت سے آگاہ فرمایا ہے اور انہیںہوشیارکیا ہے کہ وہ کہیں یہ گمان نہ کریں کہ وہ ایک چھوٹی سی مخلوق اور کم قیمت جزء ہے۔ بلکہ جان لو کہ انسان کے وجود میں اسرار کی ایک دنیا موجود ہے۔

افسوس کہ اس وقت کے معاشرے میں ایسے عظیم رہبر کی قیادت کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں تھی۔انہوں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام  سے اس بارے میں کوئی سوال نہ کیا۔جب مولائے کائنات امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے سب کو بتایا کہ میں زمین سے زیادہ آسمان کے اسرار و رموز سے آگاہ ہوں، مجھ سے سوال کرو تاکہ تمہیں اس کا جواب دوں، تو اتنے بڑے مجمع میں سے صرف ایک شخص اٹھا اور اس نے سوال پوچھا کہ مولا میرے سر پر بالوں کی تعداد کتنی ہے؟تاریخ میں یہ ثبت نہیں ہوا کہ وہاں موجود لوگوں کی اتنی بڑی  تعدادمیں سے کسی نے اس احمقانہ سوال پر اس کی سرزنش کی ہو۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے انسانوں کو دماغ کی حیرت انگیز قدرت سے آگاہ فرمایا اور انہیں ایسی پوشیدہ قوّتوں کے بارے میں خبر دی کہ جنہیں انسان بیدار کرکے بروئے کار لائے۔ لیکن آنحضرت کے چند خاص اصحاب کے علاوہ کسی نے دماغ کی ناشناختہ قدرت کے بارے میں کچھ نہ سیکھا۔

اس دن سے آج تک صدیاں گزرگئیں۔لیکن ابھی تک بہت سے لوگوں کو دماغ کی عجیب اور حیرت انگیز قدرت سے آگاہی حاصل نہیں ہے اور جنہوں نے اسے درک کرلیا،ان کے لئے بھی ابھی دماغ کی بہت سی مخفی قدرتوں کو پہچاننا باقی ہے۔

۱۱۴

وجود انسان میں بدلاؤ ضروری ہے

حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) حکومت کے دوران دنیا اور دنیا والوں کو نظم اور پُر آسائش زندگی دینے کے لئے غیر معمولی معنوی قدرت یعنی اپنی ولایت کے عظیم مقام سے استفادہ کرتے ہوئے دنیا میں تغییر اور دنیا والوں میں عقلی تکامل ایجاد کریں گے۔

انسان کس طرح سے خلقت کے عظیم اسرار اور ولایت کے اعلی مقام سے واقفیت حاصل کرسکتا ہے،حالانکہ انسان کے دماغ کے وسیع پہلو ابھی تک فعّال نہیں ہوئے اور اب بھی سوچ و فکر اور آلودہ دلوںپر دھند لکا چھایا ہوا ہے؟

اسی وجہ سے حضرت ولی عصر (عج) لوگوں کو حقائق معارف ِ الہٰی کی تعلیم دینے سے پہلے ،انسان کے وجود میںبدلاؤ اور ذہنِ بشر میں تبدیلی ایجاد کریں گے۔

علم و دانش اور دین کے مسائل میں عجیب پیشرفت اور انسان کانیک و بزرگ افکار کوقبول کرنے کی آمادگی کے لئے انسان کے وجودمیں یہ تبدیلی ایک لازمی ضرورت ہے۔

اہلبیت اطہار علیہ السلام   کے عالی علوم و معارف کو درک کرنے اور انسان کی استعداد و صلاحیت میں اضافہ کے لئے یہ بدلاؤ ایک واقعی ضرورت ہے۔لہٰذا دنیا والوں میں یہ بدلاؤ ایجاد ہونا چاہیئے۔اہل دنیا میں تبدیلی پیدا ہونے سے خود دنیا میں بھی بہت سی مثبتتبدیلیاں جنم لیں گی۔

زمین کے طبیعی نظام میں تبدیلی دنیا اور اہل دنیا میں اساسی تغیر آئندہ دنیا میں تکامل کی شرط ہے۔

جس طرح کام،روزگار اور اجتماعی امور کے لئے بچوں کا سنِ جوانی تک پہچنا ضروری ہے،جیسا کہ انسان میں جب تک بعض غرائز پیدا نہ ہوں ،وہ بعض امور کو درک نہیں کرتا۔

۱۱۵

اسی طرح جب تک انسان کے دل و دماغ میں پوشیدہ عظیم قدرت فعال نہ ہوجائے ،تب تک اس کے لئے ترقی یافتہ امور اور عالی معارف کی معرفت ممکن نہیں اس دلیل کے رو سے انہیں درک کرنے کے لئے دنیا اور اہل دنیا میں تحوّل و تغیّر اوربدلاؤ ایجاد ہونا ضروری ہے۔

کیا بچپن میں (جب ابھی تک چلنا نہیں سیکھا تھا اسے چاہ چالہ (فارسی محاورہ) کے خطرے کی خبر نہ تھی ) انسان سیاہ چالہ (BLACK HOLE) کی عظمت و سختی کے بارے میں بات کرسکتا تھا ۔(1)

کیا انسان بچپن میں دنیا کی وسعت کو بیان کرسکتا تھا کہ جب وہ چاہ و راہ کے درمیان فرق پیدا نہیں کرسکتا تھا؟

بچپن کے عالم میں انسان کو اپنی انگلیوں کی تعداد کا علم نہیں تھا تو وہ  فضا کی وسعت اور بادلوں  کی تعداد کو کس طرح سے بیان کرسکتا تھا؟

یہ بالکل واضح ہے کہ ان مطالب کو درک کرنے کے لئے بچے کو رشدو تکامل کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان علمی مطالب کو درک کرنے کی آمادگی کے بعد اسے ان کی تعلیم دی جائے۔

اسی لئے انسانوں میں انتہائی مہم اور عظیم مسائل کو قبول کرنے کے لئے حیاتِ قلبی اور دماغی سیلز کے فعّال ہونے کی ضرورت ہے تاکہ انسان میں عقلی تکامل اور حیاتِ قلب سے مہم امور کو درک کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے اور انہیں دل و جان سے قبول کرے۔

--------------

[1]۔ سیا ہ چالہ Black hole فضا میں ایک ایساجسم ہے کہ جس میں شدید جاذبہ ہے ،جس سے کوئی چیز حتی کہ نور بھی گزر کر فضا میں داخل نہیں ہوسکتا۔

۱۱۶

  امام مہدی علیہ السلام اور عقلی تکامل

کون انسان کے وجود میں بدلاؤ پیدا کرسکتا ہے؟

کس قدرت میں یہ توانائی ہے کہ وہ انسان کے دماغ میں مخفی عظیم قوّتوں کو فعّال کرکے بروئے کار لائے تاکہ سب آسانی سے اخلاقی فضیلتوں کے مالک اوراحکامات الہٰی پر عمل کرنے والے بن جائیں؟

کیا اس دنیا کی اصلاح کرنے والے مصلح عالم کے سوا کوئی اور تمام انسانوں میں ایسیقوت و انرجی پیدا کرسکتا ہے کہ جو سب کو جود انسان میں مخفی قدرت  و قوّت و اسرار سے آشنا کرے؟

اس سلسلہ میں حضرت باقر العلوم علیہ السلام کی روایت میں دنیا کے تکامل کے راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ تکامل حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے دستِ مبارک سے انجام پائے گا۔ آنحضرت  فرماتے ہیں:

''اذا قام قائمنا وضع یده علی رؤوس العباد ،فجمع به عقولهم و اکمل به اخلاقهم ''  (1)

جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو وہ بندگانِ خدا کے سروں پر اپنا دستِ مبارک رکھے گا اس طرح  سے ان کی عقلوں کو متمرکز اور ان کے اخلاق کی تکمیل کرے گا۔

اس روایت میں کچھ شفاف، پاک اور مہم نکات موجود ہیں،کیونکہ یہ واضح ہے کہ کوئی بھی خاندانِ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرامین و کلمات میں موجود اسرار و رموز سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوسکتا۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار : ج52ص  336

۱۱۷

حضرت امام صادق علیہ السلام سے زید ذرّاد ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جس میں معارف اہلبیت علیہ السلام کے مہم نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

''قلت لابی عبداللّٰه  :نخشی ان لا یکون مؤمنین ''

''قال:و لم ذلک؟فقلت وذلک أنّالا نجد فینا من یکون أخوه عنده آثر من درهمه و دیناره،و نجد الدینار والدرهم آثر عندنامن أخ قد جمع بیننا و بینه موالاة امیرالمؤمنین''

'' قال کلاّ! أنّکم مؤمنون ، ولکن لاتکلمون ایمانکم حتی یخرج قائمنا،فعندنا یجمع اللّه احلامکم،فتکونون مؤمنین کاملین ولو لم یکن فی الارض مؤمنون کاملون،اذا لرفعنا اللّه الیه و انکرتم الارض و انکرتم السّمائ'' (1)

میں نے امام صادق علیہ السلام سے کہا:ہم ڈرتے ہیں کہ کہی ایسا تو نہیں ہے کہ ہم مؤمن نہیں ہیں؟

امام  نے فرمایا:کس لئے ڈرتے ہو۔

میں نے عرض کیا: کیونکہ ہم میںایسا کوئی نہیں ہے کہ جس کے نزدیک اس کا بھائی درہم و دینار سے زیادہ عزیز و پیاراہو۔ہم درہم و دینار کو ایسے بھائی سے زیادہ عزیز و پیارا سمجھتے ہیں کہ جو ہمارے اور اس کے درمیان امیرالمؤمنین  علیہ السلام کی دوستی کو جمع کرتا ہے۔

حضرت  نے فرمایا: تم لوگ یقینا مؤمن ہو۔لیکن تم اپنے ایمان کو کامل نہیں کرتے کہ جب تک ہمارا قائم علیہ السلام  قیام کرے گا تواس وقت خدا وند کریم تمہاری عقلوں کو جمع و متمرکزفرمائے گا۔پس مؤمنین کامل ہوجائیں گے اور اگر زمین میں کامل مؤمن افراد نہ ہوئے تو خدا وند کریم ہمیں تم میں سے اٹھالے گا اور تم زمین و آسمان کے منکر ہوجائوگے۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار :ج67ص 350

۱۱۸

اس روایت سے بہت سے نکات حاصل ہوتے ہیں ۔ہم ان میں سے بعض نکات بیان کرتے ہیں:

1 ۔ جب تک حضرت بقیة اللہ الاعظم علیہ السلام قیام نہ فرمائیں تب تک لوگ کامل ایمان نہیں رکھتے ہیں۔

2۔اپنے دینی بھائیوں سے زیادہ مال و دولت کی اہمیت کے قائل ہیں۔

3۔ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے زمانے میں لوگوں کی عقلیں کامل و متمرکز ہو جائیں گی۔

4۔ عقل کامل ہونے کے نتیجے میں لوگوں کا ایمان بھی کامل ہوجائے گا۔

5۔ ظہور سے پہلے کامل ایمان رکھنے والے افراد بہت کم ہوں گے۔

6۔ زمین پر ان کا وجود ، اہلبیت علیھم السلام کے مقدس وجود کا باعث ہوگا۔

7۔ اگر اہلبیت عصمت و طہارت  علیھم السلام زمین پر نہ ہوں تو لوگوں میں اس قدر بھی ایمان نہ ہو۔

8۔ روایت سے ایک دوسرا نکتہ بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ ظہور کے مقدس زمانے میں عقلوں کے تکامل کی وجہ سے لوگوں میں ایسا خلوص اور جذبہ ایجاد ہوگا کہ وہ ایمان کو مال وثروت پر مقدم سمجھیں گے اور ایک دوسرے سے ایسا برتائو کریں گے جیسے وہ مال میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوں ۔

۱۱۹

  اتحاد و یگانگت سے سرشار دنیا

مرحوم علامہ مجلسی ''بحارالانوار '' میں روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر  علیہ السلام سے کہا گیا:

''انّ اصحابنا بالکوفة جماعة کثیرة فلو أمرتهم لأطاعوک واتّبعوک فقال:یجیٔ احدهم الی کیس اخیه فیأخذ منه حاجتة؟''فقال:لا .

قال: فهم بدمائهم أبخل

ثم قال: انّ النّاس فی هدنة نناکحهم و نوراثهم و نقیم علیهم الحدود ونؤدّی اماناتهم حتی اذا قام القائم جائت المزاملة و یأتی الرجل الی کیس اخیه فیاخذ حاجته لا یمنعه "(1)

کوفہ میں ہمارے بہت سے اصحاب ہیں۔اگر انہیں حکم کریں تو وہ آپ کی اطاعت کریں گے  اور آپ کی پیروی کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔

امام باقر  علیہ السلام نے فرمایا:کیا ان میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کی جیب سے ضرورت کے مطابق لیتا ہے؟

میں نے کہا!نہیں۔

امام  نے فرمایا:(جب وہ اپنے مال کے لئے اتنے بخیل ہیں) وہ اپنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ بخیل ہوں گے۔

پھر امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:اب لوگ میل و ملاپ اور امن و امان میں ہیں ان سے نکاح کرتے ہیں ، ارث لیتے ہیں،ان پر حد جاری کرتے ہیں اور ان کی امانتیں انہیں لوٹا دیتے ہیں کہ جب قائم  علیہ السلام قیا م کریں گے تولوگوں کے مابین مخلصانہ و صادقانہ رفاقت پیدا ہوگی اور مرد اپنے بھائی کی جیب کی طرف بڑھے گا اور اس میں سے ضرورت کے مطابق لے لے گا اور صاحبِ مال بھی اسے اس کام سے نہیں روکے گا۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج 52ص 372

۱۲۰