امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 162669
ڈاؤنلوڈ: 3590

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162669 / ڈاؤنلوڈ: 3590
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس روایت میں ستّر عالی و برجستہ صفات کو ''عقل کی فوج'' کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔اس کے مقابل جہل کے لئے ستر رذیلہ صفات بھی بیان  ہوئی ہیں۔(1)

غیبت کے تاریک زمانے میں نفس کا بہت بڑا لشکر ہے۔اکثر افراد سپاہ نفس کے ہاتھوں گرفتار ہیں۔نفس ان سے جو کہے وہ وہی کرتے ہیں۔لیکن ظہور کے پر مسرت اور با برکت زمانے میں عقل کے تکامل کی وجہ سے انسانوں کا نفس بھی پاک و پاکیزہ ہوجائے گا ،پھر وہ عقل و خرد کے حکم کا مطیع ہوگا۔

انسانوں میں عقلی تکامل سے مراد انسان میں سپاہ عقل کی قدرت کا کامل ہونا ہے۔اس بناء پرانسانوں میں علم ،قدرت۔فہم اور ارادہ کامل ہوجائے گا ۔پھر نفس کے لشکر جیسے ضعف، جہل اور عجز کو شکست ہوگی۔

سالم فطرت کی طرف لوٹنا

یہ بات بالکل واضح ہے کہ نفس کے لشکر کی شکست اور عقل کی ستر قوتوں کے تکامل سے انسانوں کو ایک نئی زندگی ملے گی ۔پھر ہر انسان اپنی اصل فطرت کی طرف لوٹ آئے گا ۔ فطرت اوّلیہ کے حصول کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو ایسی قدرت حاصل ہوجائے کہ جیسے وہ پہلے جہل اور نفس و شیطان کی پیروی کی وجہ سے بروئے کار نہیں لاسکا ۔ لیکن اب فطرت اولیہ کی وجہ سے ان سے فائدہ اٹھائے ۔

--------------

[1]۔ اصول کافی : 1  20

۱۴۱

اگر ہم اصول کافی کی عقل و جہل کے سپاہیوں کے بارے میں روایت ذکر کرتے اور پھر اس کا ترجمہ و تشریح بھی کرتے تو بحث بہت طولانی ہوجاتی ۔لہٰذا ہم نے اس روایت کو ذکر کرنے سے گریز کیا اور انہی مطالب کو بیان کرنے پر اکتفا کیا۔

مذکورہ روایت اور عقل و جہل (نفس) کے لشکر کے ستر ستر سپاہیوں پر دقت کرنے سے اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ انسانی معاشرہ  ہوا و ہوس کے گرداب میں غرق  اور نفس کے تابع ہے۔بہت کم لوگوں  کے علاوہ کسی کا عقل  سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں تھا۔اس روایت کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ کامل عقل کا مالک وہ ہے کہ جو مکمل طور پر لشکرِ عقل سے منسلک ہو اور جس نے لشکرِ جہل کو شکست دے کر نابود کر دیا ہو۔

حضرت امام مہدی علیہ السلا م کاقیام بشریت اور عقل  کے سپاہیوں کو حیات بخشنے اور انہیں تکامل عطا کرنے کے لئے ہو گا۔سپاہِ عقل کے تکامل سے سپاہِ جہل کی نابودی لازمی ہے کہ پھر جہل کا کوئی اثر بھی باقی نہیں رہے گا ۔ لشکرِ جہل و نفس کی نابودی اور سپاہِ عقل کے تکامل سے بشریت میں حیرت انگیز تبدیلیاں ایجاد ہوں گی۔ان تبدیلیوںسے کائنات کا نقشہ بدل جائے گا۔برائیو ںکی جگہ نیکیاں لے لیں گی۔انسانیت و بشریت کے تکامل اور برائیوں کی جگہ نیکیوں کے آنے سے حیرت انگیزتبدیلیوں کا وجود میں آنا یقینی ہے۔ روایات کی رو سے اس وقت دوسری اشیاء بھی تکامل کی طرف گامزن ہوں گی۔

  کیا ظہور سے پہلے عقلی تکامل کا حصول ممکن ہے؟

بعض لوگ  معتقد ہیں کہ اہل دنیا عقلی رشد اور فکری تکامل پیدا کریں تا کہ حضرت  بقیة اللہ الاعظم  عجل اللہ فرجہ  کا ظہور متحقق ہو اور جب تک ایسا تکامل حاصل نہ ہو تب تک ظہور بھی متحقق نہیں ہو گا۔

۱۴۲

  کیا یہ عقیدہ صحیح ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ اہل دنیا کے عقلی و فکری رشد  و تکامل سے حضرت امام مہدی  علیہ السلام کے ظہور اور حکومت کے لئے زمینہ فراہم ہو گا۔لیکن یہ  بات یاد رہے کہ حضرت ولی عصر (عج) کا ظہور تمام دنیا والوں کے عقلی رشدو تکامل سے وابستہ نہیں ہے۔ حضرت بقیة اللہ الاعظم علیہ السلام کے ظہور کے متعلق کثیر روایات کی روشنی میں مذکورہ عقیدے کا بطلان واضح ہے۔

اگر حضرت ولی عصر (عج) کا ظہور تمام دنیا والوں کے عقلی رشدو تکامل کے بعد واقع ہو تو پھر ایسی بہت سی روایات کو نکال باہر پھینکنا ہو گا کہ جن میں امام زمانہ علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی جنگوں کا تذکرہ ہے۔ مخالفین کا موجود ہونا اور ان کا حضرت امام مہدی علیہ السلام سے جنگ کرنا فکری رشد اور عقلی تکامل کے نہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔پس کس طرح یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ظہور سے پہلے سب لوگ عقلی تکامل کی منزل تک پہنچ چکے ہوں گے تا کہ ان میں امام زمانہ علیہ السلام  کی حکومت کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔

علاوہ ازیں اس مطلب پر بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں کہ ظہور سے پہلے لوگوں کو عقلی و فکری تکامل حاصل نہیں ہو گا۔روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح علم و دانش کے مراحل کی تکمیل امام عصر علیہ السلام کی ظہور سے وابستہ ہے اسی طرح معاشرے کا فکری رشد  اور عقلی تکامل بھی  حضرت ولی عصر (عج) کے ظہورسے وابستہ ہے۔

۱۴۳

  دماغ کی قوّت و طاقت

اب ہم دماغ کی عظیم قوّ ت و طاقت کے بارے میں بحث کرتے ہیں ۔ لہذا ہم کہتے ہیں کہ ابھی تک انسان اپنے دماغ سے مکمل طور پر فائدہ حاصل نہیں کر سکا۔

 بہت سے مصنفین نے دماغ کی قدرت سے فائدہ نہ اٹھانے  اور اپنے عجزوناتوانی کا اعتراف کیا ہے یہاں ہم ایسے ہی اقوال کے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں۔عام طور پرہمارے دماغ کی قدرت کے بہت کم حصے سے کام لیا جاتا ہے۔حلانکہ اس کی قدرت ہر شخص کے اختیار میں قرار دی گئی ہے۔لیکن افسوس کہ ہم کبھی کبھار ہی اس قدرت سے کسی حدتک استفادہ کرتے ہیں۔(1)

یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ انسان اپنی تمام تر استعداد اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے باوجود بھی اپنے دماغ کے کروڑویں حصہ سے بھی  کم کوکام میں نہیں لاتا۔(2)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ابھی تک نہیں جان سکے کہ خلاقیت  و تفکر کے وقت ہمارا دماغ کیا کام کرتا ہے۔حالانکہ تحقیق میں تجرباتی روش  سے استفادہ کرتے ہوئے بہت سے تجربات  کے ذریعہ دماغ کی ساخت اور تفکّر کے عمل کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کی گئی ہیں۔(3)

یہ مطلب انسان کے وجود میں فکر کی قدرت اور اس سے مکمل طور پر استفادہ نہ کئے جانے کو بیان کر رہا ہے ۔ لیکن جس روز دستِ الٰہی کا لوگوں کے سروں پر سایہ ہو گا اس روز انسان کے دماغ میں پوشیدہ قوّتیں  ظاہر ہو جائیں گی اور انسان کی عقل کامل ہو جائے گی۔

--------------

[1]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:14

[2]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:32

[3]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:17

۱۴۴

انسان کے تمام افکار کی فعالیت اور تمام مرام و قیود کی پناہ گاہ دماغ کے پردے ہیں۔جو چھوٹے چھوٹے خلیوںسے تشکیل پاتے ہیں۔جس کی تعداد دس سے تیرہ ارب سے بھی زیادہ ہے۔ان میں  سے ہر ایک درخت کے پتوں کی رگوں کی مانند ہوتی ہیںاور ایک دوسرے تک الیکٹرک پیغام منتقل کرتی ہیں ۔

 عملی تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسانوں میں سے ذہین ترین فرد بھی ان ذخائر کے تھوڑے سے حصہ کو مصرف میں لاتا ہے۔(1)

انسان کا دماغ چودہ ارب عصبی خلیوں سے تشکیل پاتا ہے اور ہر خلیہ کے دوسرے خلیوں سے پانچ ہزار ارتباط ہیں۔اسی طرح ان میں دیگر مختلف قسم کے ارتباط بھی پائے جاتے ہیں ۔ دماغ میں خلیوں اور مختلف حالتوں کی بالقوة تعداد انسان کے تصور سے بھی زیادہ ہے۔

ایک عام اور اسی طرح ذہین انسان بھی اپنی تمام زندگی میں ایک ارب میں سے ایک حصے کو بھی استعمال میں نہیں لاتا۔اگر دماغ کی ظرفیت ،توانائی اور ارب میں سے ایک حصہ ہی استعمال میں لایا جائے تو ان کے درمیان دکھائی دینے والا  تفاوت کیفی ہو گا نہ کہ کمّی۔(2)

اب جب کہ آپ نے یہ جان لیا کہ تمام افراد اپنے دماغ کی تھوڑی سی مقدار کو استعمال میں لاتے ہیں تو ا ب اس بیان پر غور کریں۔

--------------

[1]۔ نسخہ عطار:134

[2]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:347

۱۴۵

آج کی دنیا میں ایک کمپیوٹر کا حافظہ ایک لاکھ اطلاعاتی ذرائع سے کام کرتا ہے کہ جسے کمپیوٹر کی زبان میں بائٹ کا نام دیا  جاتا ہے۔انسان کا دماغ بھی اسی طرح کام کرتا ہے مالیکیول حافظہ اور عصبی اطلاعات کے بٹن کو ذخیرہ سازی کے لئے آمادہ کرتے  ہیں۔گہوارے میں پڑا بچہ بھی یہی عمل انجام دیتا ہے۔ اگرچہ یہ انجان طور پر یہ کام انجام دیتا ہے ۔ ہم پوری زندگی اطلاعات و معلومات کوجمع کرتے ہیں تاکہ جس دن ہمیں ان کی ضرورت ہو ،ہم ان سے استفادہ کر سکیں ۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمارا دماغ علم ودانش کو ذخیرہ کرنے کے لئے قابلِ اطمینان نہیں ہے۔کیونکہ انسانی دماغ پندرہ ارب بٹنوں سے کام کرتا ہے اور  جدید ترین کمپیوٹر میں اس کی تعداد صرف ایک کروڑ ہے۔پس ایک کمپیوٹر پر  انسان سے زیادہ اعتماد کیوں کیا جاتا ہے؟حالانکہ دماغ کے نو حصوں سے کام نہیں لیا جاتا ۔ لیکن کمپیوٹر کے تمام سسٹم فعّال ہوتے ہیں۔(1)

آپ شاید اس بات کا یقین نہ کریں کہ دماغ کے پندرہ ارب بٹن ہیں اور شاید اس بات کا بھی یقین نہ کریں کہ انسانی دماغ زندگی کے آغاز سے موت تک ہونے والے تمام تر واقعات و سانحات  اور حادثات کو اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔انسان کا دماغ ہر اس چیز کو ذخیرہ کر لیتا ہے کہ جو اس نے دیکھی،سنی یاانجام دی ہو۔(2)

انسان اپنی زندگی میں جو کچھ انجام دیتا ہے وہ اس کی زندگی کے آخری لمحات میں اس کے سامنے جلوہ گر ہوتا ہے۔یہ حقیقت ہمیں خاندانِ وحی علیہم السلام نے سکھائی ہے کہ جو ہماری خلقت کے شاہد ہیں۔

اسی لئے ہمیں ظہور کے پر نور اور بابرکت زمانے میں دماغ کی ناشناختہ قوّتوں اور طاقتوں کے ظاہر ہونے میں ذرّہ برابر بھی شک نہیں ہے اور ہم معصومین علیہم السلام کے ہر فرمان کو کمی و بیشی کے بغیر قبول کرتے ہیں۔

--------------

[1]۔ بازگشت بہ ستارگان:76

[2]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:121

۱۴۶

  غیر معمولی حافظہ دماغ کی عظیم قدرت کی دلیل

ہمارے پاس اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے فرامین ور اعتقادی مسائل کا ایسا ذخیرہ موجود ہے کہ ہمیں دوسروں کے واقعات اور ان کی باتوں کو نقل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔لیکن اپنی بات سب پرثابت کرنے کے لئے ایسے افراد کے واقعات کو ذکر کرنا بھی لازمی ہے کہ جو غیر معمولی حافظہ کے مالک تھے کہ جس سے یہ معلوم ہو جاتاہے کہ انسانی دماغ میں بہت سی مخفی طاقتیں  موجود ہیں اگائون نامی شخص نے اپنی زندگی میں2500 کتب کا مطالعہ ک یا اور اسے یہ تمام کتابیں حفظ تھیں۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ ایک لمحہ سوچے بغیر ان کتابو ں  کے کسی بھی حصے کو پڑھ سکتا تھا۔(1)

حال ہی میں دنیا بھر کے خبر رساں ادارے حسین قدری کے استثنائی حافظہ کے بارے میں خبریں نشر کر رہے تھے کہ جو تاریخ،واقعات،تاریخی شخصیات اور ان کی زندگی کے واقعات کے بارے میں بغیر سوچے ہر سوال کا جواب دے سکتا تھا۔حسین قدری کے حافظہ میں بہت سے بزرگوں کے یومِ تولّداور یوم وفات کی تاریخیںمحفوظ تھیں۔اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ اس نے ہجری برسوںکی ایک جنتری بنائی تھی کہ جو دو حصوں پر مشتمل تھی۔ایک حصے کو سو سالہ دور کی صورت میں مرتّب کیا گیا تھا۔جس میں ہفتے کے ایّام اور1901 ءسے 2000 ء تک تمام دنوں کو بیان کیا گیا تھا اور جس میں ہر ماہ کے اہم واقعات کو بھی جمع کیا گیا تھا ۔ دوسرے حصے میں 1501 ء سے 2070ء سال تک کے ایّام کو بیان کیا گیا تھا۔اس حصے میں ہر دن ،ایّام ہفتہ و ماہ اور بزرگ شخصیات کے یومِ تولّداور یوم وفات کی تاریخوں کو بھی مرتب کیا گیا تھا۔اس میں مذکورہ دو حصوں کے علاوہ ایک اضافی حصہ بھی تھا  کہ جس میں دورِ مسیحیت کے آغاز  سے 3000ء  تک کے ایّام کو بیان کیا گیا تھا۔ (2)

--------------

[1]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:45

[2]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:46

۱۴۷

موجودہ رائج مسائل میں سے ایک تقویمی محاسبات کی بناء پر مطرح ہونے والا مسئلہ ہے۔ریاضی کے بعض عجوبے اپنے ذہن میں ایک ہی لمحہ میں صدیوں اور ہزاروں سال طے کرلیتے ہیں۔مثلاََ وہ ریاضی کی بنیاد پر حساب کرتے ہیں کہ ایک ہفتہ میںسات دن،ایک دن میں چوبیس گھنٹے،ہر گھنٹے میں ساٹھ منٹ اور ہر منٹ میں ساٹھ سیکنڈ ہوتے ہیں۔اسی ترتیب سے وہ چند سیکنڈ میں کئی صدیوں کے عملیات اپنے ذہن میں انجام دیتے ہیں اور آخر میں یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ  مثلاًیکم جنوری1880 ء کو جمعہ کا دن تھا۔اس طرح وہ بہت س ی ذہنی پیچیدگیاں حل کرتے ہیں ۔مثلاَ وہ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ روم کے شہنشاہ نرون کی موت سے سقوط قسطنطنیہ تک کتنے سیکنڈ گزر چکے ہیں؟ایک بار ایسے ہی دو حساب کرنے والے'' ایناودی  اور داگیر ''سے ایک پروگرام میں ایسے ہی کچھ سوالات کئے جا رہے تھے کہ13 ،اکتوبر 284444 ء کو ک یا دن ہو گا؟(3)

انسان کے دماغ کی قدرت کو ثابت کرنے کے لئے  دیگر ممالک میں بھی ایسے افراد کا وجود اس کی واضح دلیل ہے۔اسی طرح یہ غیبت کے تاریک زمانے میںانسان کے عقلی تکامل کو بھی بیان کر رہا ہے ۔ ریاضی کے یہ ماہر ترین افرد چند سیکنڈ میں بعض ایسے مسائل حل کر دیتے ہیں کہ جنہیں ماہر ریاضی دان چند ماہ کی کوششوں کے بعد انجام دے سکتے ہیں اور پھر اس کے نتائج کی تائید کے لئے بھی طولانی مدّت درکار ہوتی ہے کہ جس کے لئے کمپیوٹر سے بھی مدد لی جاتی ہے۔

--------------

[3]۔ تونائی ھای خود را بشناسید53

۱۴۸

  دماغ کا ما فوق فطرت، قدرت سے رابطہ

ریاضی کے یہ عجوبہ کس چیز سے مدد لیتے ہیں ؟

کیا ان کو بچپن سے یہ خاص استعداد حاصل ہوتی ہے یا نوجوانی کے عالم میں  انہیں ایک عرصہ تک مشق کرنے اور تکامل کے  ذریعہ یہ استعداد وصلاحیت حاصل ہوتی ہے؟

محصول حافظہ کے عنوان سے اس توانائی کو بیان کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ماہرینِ نفسیات اسے ''حدّت حافظہ'' کا نام دیتے ہیں۔اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ اس خاص مقام میں یقیناََ ہمارے سامنے ایک قوی حافظہ ہے لیکن ہم اس کی ماہیت کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔(1)

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ریاضی کے ایسے عجوبہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کس طرح سے اپنے ذہن  میں یہ محاسبات انجام دیتے ہیں ۔  ان کا کہنا ہے کہ ہم صرف گنتے اور شمار کرتے ہیں اور پھر یہ سب کس طرح ہو جاتا ہے ،یہ خدا ہی جانتا ہے۔

اس جواب پر بالکل حیران نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ ان افراد میں سے بعض افراد کاملاََ ان پڑھ تھے۔ ایسے بااستعداد افراد ہمیشہ سے ماہرین نفسیات اور ریاضی دانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں تاکہ وہ ان میں پائی جانے والی پوشیدہ طاقت و قوت اور صلاحیت کو کشف کر سکیں۔ اس سے بھی بڑھ کر بعض ایسے افراد میں موجود قدرت کے اسرار معلوم کرنے کی کوشش کر نے کے علاوہ عقلی تکامل تک رسائی کے لئے بھی کوشاں ہیں۔

--------------

[1]۔ تونائی ھای خود را بشناسید:54

۱۴۹

  جدید علم کی نظر میں عقلی تکامل

عقل کے تکامل اور اس کے لزوم و کیفیت کی بحث نے بہت سے مغربی دانشوروں کو اپنی جانب مائل کیا ہے۔ وہ اپنی علمی ترقی کا ادعا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ معتقد ہیں کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب آج کی بنسبت انسان کی عقل کھربوں گنا زیادہ ہو گی۔

مغربی دانشوروں میں سے ایک'' کرزویل'' ہے۔جس کا کہنا ہے کہ آپ دماغ میں فقط سو  کھرب اتصالات برقرار کر سکتے ہیں۔ممکن ہے کہ آپ کی نظر میں یہ بہت بڑا  عددہو۔ لیکن دماغ میں اطلاعات ذخیرہ کرنے کی روش اب بھی غیر فعّال ہے۔ کیونکہ آئندہ زمانے میں انسان کا دماغ موجودہ دور سے کھربو ں گنا زیادہ ہو گا۔

اس میں اہم اور مورد توجہ نکتہ یہ ہے کہ وہ حقائق عالم سے ناآشنا ہونے اور مکتب اہلبیت علیہم السلام سے دور ہونے کے باوجود اگرچہ عقلی تکامل کو تسلیم کرتے ہیں لیکن انہیں اس کی کیفیت اور اس کے حصول کی آگاہی نہیں ہے۔ اسی لئے وہ اپنی توجیہات میں غلطیاں کرتے  ہیں۔

خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے جاودانی اور حیات بخش مکتب سے دوری کے باعث یہ   لوگ ہر چیز حتی کہ عقلی تکامل جیسے اہم ترین مسئلہ کو بھی مادّی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ الیکٹرک سسٹم کے ذریعہ اپنے خیالات و افکار کو تکامل دیا جا سکتا ہے۔

۱۵۰

  عقلی تکامل اور ارادہ

یہاں تک ہم دماغ کی قدرت و توانائی سے آگاہ ہوئے اور ہم نے یہ درک کیا کہ انسان اب تک اپنے وجود کی عظیم قدرت  سے بے خبر تھا ۔ اب ہم قوّت ارادہ اور تکاملِ عقل کے بارے میں بحث کا آغاز کرتے ہیں ۔ انسان کی عقل کے تکامل کالازمہ اس کے ارادہ کا قوی ہونا ہے ۔ کیونکہ جس طرح حدیث جنودِ عقل میں نقل ہوا ہے کہ عقل کی سپاہ میں سے ایک ارادہ بھی ہے۔ عقل کے تکامل سے ارادے کی قدرت میں اضافہ ہوتا ہے، ارادے کے حرکت میں آنے اور فعّال ہونے سے انسان میں اساسی و حیاتی تحوّل کا ایجاد ہونا بالکل واضح ہے۔

اگر قوّت ارادی کامل ہو تو انسان غیر معمولی اور حیرت انگیز کام انجام دے سکتا ہے ۔ کیونکہ جب قوّت اردی اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو انسان کسی فرد یا کسی چیز میں کوئی حالت یا خصوصیت ایجاد کر سکتا ہے۔اسی طرح یہ اسے نابود یا اس میں اضافہ بھی کر سکتا ہے۔اعمالِ ارادہ سے انسان کسی ایسی چیز سے بھی آگاہ ہو سکتا ہے کہ جس کے بارے میں اسے کوئی اطلاع نہیں ہوتی۔جیسا کہ ہم نے عرض کیاہے کہ ارادہ عقل کی قدرت کا ایک حصہ  ہے۔عقلی تکامل سے قوّت ارادی اور عقلی قدرت بھی تکامل تک پہنچ کر فعّال ہو جاتی ہیں۔اس بناء پر ظہور کے زمانے میں انسانوں کی عقل کے تکامل کے نتیجہ میں ان کی قوّت ارادہ میں بھی اضافہ ہو گا او وہ مزید قدرت مند ہو جائے گا۔ ظہور  کے زمانے میں انسان کی عقل شیطان کی قید اور نفس کی غلامی سے آزادہو جائے گی ۔ سپاہ عقل بھی ضعف و ناتوانی سے نجات پائے گی اور ان میں پوشیدہ اور مخفی طاقتیں ظاہر ہو کر فعّال ہو جائیں گی۔

غیبت کے تاریک اور سیاہ زمانے میں بہت سے انسان اپنی خواہشات اور آرزؤں کوحاصل  نہیں کر سکے ۔ لیکن ظہور کے بابرکت زمانے میں ایسا نہیں ہو گا۔اس وقت اگر کوئی کسی نامعلوم چیز سے آگاہ ہونا چاہے تو اس  سے پردے اٹھا لئے جائیں گے اوراس وقت  وہ جس چیز کے بارے میں چاہے آگاہ ہوسکتا ہے۔ ہم نے یہ حقائق خاندان نبوت علیہم  السلام سے سیکھیں ہیں ۔

۱۵۱

ہم دل و جان سے ان معصوم ہستیوں کے ارشادات و فرمودات قبول کرتے ہیں تا کہ ظہور کے پُر نور زمانے میں ہم پورے وجود سے اس حقیقت کو محسوس کر سکیں ۔اس بناء پر عصرِ تکامل میں پہلے ارادہ انجام پائے گا اور اس کے بعد آگاہی متحقق ہو گی۔اس کی دلیل کے طور پر ہم خاندانِ وحی علیہم السلام کے فرامین میں سے سید الشہداء حضرت امام حسین  علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں۔'' اِن اللّه لیهب لشیعتنا ترامة لا یخفی علیهم شیء فی الارض وما کان فیها حتّی اَنّ الرجل منهم یرید ان یعلم علم اهل بیتیه فیخبرهم بعلم ما یعلمون '' (1) خدا وند متعال یقیناََ ہمارے شیعوں (زمانہ ظہور میںد نیا کے تمام لوگ خاندان نبوت علیہم السلام کے پیرو ہوں گے)کو ایسی کرامات بخشے گا کہ ان سے زمین اور اس میں موجود کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں رہے گی۔ حتی کہ اگر کوئی مرد اپنے اہل خانہ کے حال سے آگاہ ہونا چاہے تو پس وہ آگاہ ہو جائے گا کہ وہ جو کام بھی انجام دے رہے ہوں یہ ان سے باخبر ہو گا۔اگر  انشاء اللہ ہم اس بابرکت زمانے کو درک کریں تو ان تمام حقائق کو دیکھ سکیں گے۔کیونکہ ہم نے یہ مطالب مکتب اہلبیت  علیہم السلام  کی تعلیمات سیکھے ہیں اور ہم انہیں شک و تردید کے بغیر قبول کرتے  ہیں۔ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان معصوم ہستیوں کے لئے ماضی حا ل اور مستقبل میں کوئی فرق نہیں ہوتا وہ تمام واقعات سے ایسے ہی آگاہ ہوتے ہیں کہ جیسے کسی نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ہم نے یہ چیزیں خاندان عصمت  علیہم السلام   سے قبول کی ہیں اور عالم ذر سے ان کے ساتھ یہ عہد وپیمان کیاہے کہ جس طرح ہم اب ان پر پابند ہیں آئندہ بھی ایسے ہی ان کے پابند رہیں گے۔البتہ یہ بات ضرور جان لیں کہ زمانہ غیبت میں  کچھ ایسے استثنائی افراد بھی تھے کہ اگر وہ کسی چیز سے آگاہ ہونا چاہتے تو وہ اپنی قوّت ارادی سے اس سے آگاہ ہو جاتے۔ایسے افراد وہ تھے کہ جو غیبت کی تاریکی میں بھی نور تک پہنچ گئے۔ہم نے اس بحث میں نمونہ کے طور پر مرحوم سید بحر العلوم  کی زندگی کے واقعات نقل کئے تا کہ بعض افراد ظہور کے زمانے کے بعض واقعات کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار :ج۵۳ص6۳

۱۵۲

چھٹا باب

معنوی تکامل

    معنوی تکامل          انسان کا معنوی و مادّی پہلو

    ہماری ذمہ داریاں

    تکامل کی دعوتِ عام

    امر عظیم

    امر عظیم کیا ہے؟

    معارف الٰہی

    زبان رسول اکرم(ص)سے زمانہ ظہور کے لوگ

    محسوس اور غیر محسوس دنیا میں حکومت

    عالم ملک و عالم ملکوت

    وہ کس طرح عالم ملکوت سے غافل تھے؟

    عالم ملکوت تک رسائی یا زمانہ ملکوت کی خصوصیات

    اہم نکتہ یا احساس ظہور

    غیرت مندوں سے خطاب

    زمانہ ٔ ظہور اطمینان کا زمانہ

    عصر ظہور،عصر حضور

۱۵۳

معنوی تکامل

مادّی مسائل میں غرق اور طبیعی علوم کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے انسان معنوی امور ،غیبی امداد اور عالمِ غیب کے حقائق پر توجہ کرنے سے دور ہو چکا ہے۔

انسان مادّی امور کے جال میں پھنس چکا ہے جسے معنوی امور پر غور کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ بہت سے افراد مادّی دنیا کے پوجا ریوں کی صحبت میں رہ کر انہیں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور ان کے غلط افکار و عقائد سے متأثر ہو جاتے ہیں۔ کائنات کے حقائق سے دوری کی وجہ سے انہیں معنوی امور  اور خاندان عصمت علیھم السلام کی غیبی امداد کا علم نہیں ہے۔

ان حقائق کے روشن ہونے ، معنوی امور پر ایمان و اعتقاد پیدا کرنے اور غیبی امدد کے لئے عالمِ مادہ پر فریفتہ ہونے سے ہاتھ اٹھانا ہو گا۔کیونکہ جس نے اپنی آنکھوں پر مادّیت کی پٹی باندھی ہواور جس پرمادیت کے حصول کا بھوت سوار ہو وہ کس طرح مادّی دنیا سے بھی زیادہ خوبصورت دنیا کو دیکھ سکتا ہے؟

اگر کوئی کسی رنگین عینک کے ذریعہ اطراف کی اشیاء کو دیکھے توکیا وہ اشیاء کا حقیقی و واقعی رنگ  دیکھ سکتا ہے؟ جس نے اپنے ارد گرد مادّیت کی دیوار کھڑی کر رکھی ہو وہ کس طرح اس حصار سے باہر کی د نیا کا مشاہدہ کر سکتا ہے؟

جس نے خود کو کسی بند مکان میں قید کر رکھا ہو کیا وہ ہاہر کی خوشیوں، مسرتوں اور شادابیوں کا نظارہ کر سکتا ہے؟

غیبت  کے زمانہ میں جنم لینے والا انسان زندان میں قید کسی ایسے شخص کی طرح ہے کہ جسے وہاں سے رہائی کاکوئی راستہ بھی میسر نہ ہو۔بلکہ غیبت کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں کا حال تو ایسے قیدی سے بھی زیادہ بدتر ہے۔کیونکہ قیدی کم از کم یہ تو جانتے ہیں کہ وہ قید میں ہیں اور وہ قید سے نجات پانے کی آرزو میں زندگی گزاررہے ہوتیہیں اور ہمیشہ قید خانے سے رہائی پانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔لیکن افسوس کہ غیبت کے زمانے میں جنم لینے والے اور اس میں پرورش پانے والے اس زمانے کے علاوہ کسی اور زمانے سے آگاہ نہیں ہیں۔ان کی مثال کنویں کے مینڈک جیسی ہے جو کنویں کو ہی پوری کائنات سمجھتاہے۔

۱۵۴

 انہوں نے ظہور  کے زمانے کا مزہ ہی نہیں چکھا اور نہ ہی کسی نے انہیں ظہور کے زمانے کی حلاوت  و شیرینی سے آگاہ کیا ہے۔اسی وجہ سے وہ زمانۂ غیبت کے زندان، ظلمتوں اور سختیوں میں ہی گھرے ہوئے ہیں۔وہ نہ تو پہلے اس وحشتناک زمانے سے نجات اور اس طولانی قید سے رہائی پانے کی فکر میں  تھے اور نہ ہی اب اس کی فکر میں ہیں۔

ہم اور زندانِ غیبت کے تمام قیدی ظہور کے درخشاں زمانے سے غافل ہونے کی وجہ سے اپنی قید میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ہم غیبت کے زندان میں گرفتار ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہو رہے ہیں۔ غیبت کے زمانے کی موجودہ اسیری معاشرے کی غفلت اور معنوی قدروں کو فراموش کرنے کا نتیجہ ہے۔

  انسان کا معنوی و مادّی پہلو

انسان روح اور جسم سے مل کر خلق ہوا ہے ۔لہذا اسے فقط مادّی ، دنیوی اور جسمانی پہلو پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیئے۔ بلکہ اسے چاہیئے کہ وہ معنوی پہلو پر بھی غور کرے ورنہ اگر ایک ہی پہلو کو مدنظر رکھیں اور دوسرے پہلو کو نظر انداز کر دیں تو یہ اپنے وجوداور اپنی زندگی کے اہم ترین پہلو کو فراموش  کرنے کے مترادف ہو گا۔زمانہ ٔ غیبت میں اکثر انسان معنوی پہلو سے اس طرح مستفیدنہیں ہو سکے جس طرح اس سے بہرہ مندہونے کا حق تھا۔لیکن ظہور کے زمانے میں کہ جوانسانوں کی شخصیت کے تکامل کا دن ہے، تمام انسانی معاشرہ مادّی اور معنوی دونوں پہلوؤں میں تکامل تک پہنچ جائے گا۔اس روز انسان کے عملی و نظری افکارپلیدگی سے پاک ہو کر مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کے افکار و رفتار کاپیرو ہو گا اور انسان کا وجود علم ودانش اور نورانیّت سے سرشار ہو گا۔اسی لئے اس دن انسان کے احساسات وادراکات ناپاکی اور غلاظت سے پاک ہو جائیں گے اور انسان شیطان کی چال بازیوں سے غلطیوں میں گرفتار نہیں ہو گا۔

۱۵۵

پس اس زمانے کودرک کرنے والے خوش نصیب ہوں گے اور جس طرح وہ ظہور کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام  کے فرمانبردار ہوں گے اسی طرح وہ غیبت کے زمانے میں بھی آنحضرت  کی پیروی کرتے ہوں گے۔ اہلبیت  علیہم السلام نے اس حقیقت کی  وضاحت فرمائی ہے۔اس حقیقت کو بیان کرنے والی روایات میں ظہور کے نورانی زمانے کے اہم نکات بیان ہوئے ہیں ۔ جن میں  غیت کے زمانے میں انسانوں کے وظائف اور عملی برنامہ بیان ہوا ہے۔اسی طرح ان روایات میں مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کی شادمانی و سرور کی حالت کا بھی بیان ہے۔

امام صادق علیہ السلام ،رسولِ اکرم (ص)سے نقل فرما تے ہیں۔

'' طوبٰی لمن ادرک قائم اهل بیتوهو مقتدبه قبل قیامه یتولّٰی ولیّه و یتبرّأ من عدوّه و یتولّٰی الآئمة الهادیة من قبله اؤلئک رفقاء و ذوو ودّ ومودّتواکرم امٰتی علیّ ''  (1)

خوش نصیب ہے وہ شخص جو میرے اہلبیت  علیہم السلام کے قائم  کو درک کرے وہ ان کے قیام سے پہلے ان کی پیروی کرتا ہو ان کے دوست کو دوست رکھتا ہو اور ان کے دشمن سے بیزار ہو اور ان سے پہلے آئمہ ھدیٰ   علیہم السلام کی ولایت پر یقین رکھتا ہو۔وہ میرے رفقاء اور میری محبت و مودّت کے ہمراہ ہوگاور وہ میرے لئے میری امت کے معزز ترین افرادمیں سے ہوگا۔اس بناء پر انسان کے فہم و ادراک کی شناحت کا معیار و میزان اس حد تک ہو کہ وہ آنحضرت کی دوستی کا ادّعا کرنے والوں میں سے ان کے دوستوں کو پہچان سکے اور قاطعانِ طریق کو امام زمانہ (عج) کے دوستوں اور غلاموں کے عنوان سے نہ پہچانے۔

اگرچہ مذکورہ روایت ظہور کے مبارک زمانے سے متعلق ہے لیکن اس میں غیبت کے زمانے کے دوران ہماری ذمہ داریوں اور بہت سے وظائف کو بھی بیان کیا گیا ہے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ تو ہم انہیں زمانۂ غیبت کی ذمہ داریاں شمار کرتے ہیں اور نہ ہی صحیح طرح سے ان پر توجہ کرتے ہیں۔

--------------

[1] ۔ الغیبة شیخ طوسی:275

۱۵۶

  ہماری ذمہ داریاں

ظہور کے زمانے میں وہی سرفراز ہو گا کہ جس نے غیبت  کے زمانے میں اپنے وظائف پر عمل کیا ہواور اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہوں ۔ ہم یہاں چند ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہیں۔

۱۔زمانۂ غیبت میں ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے دستورات و احکامات سے آگاہ ہو کر انہیں انجام دیناچاہیئے۔ امام عصر سے محبت و دوستی ،ان کے ظہور کا انتظار اور ان کے ظہور کو درک کرنا اسی صورت میں مکمل ہو گا کہ جب انسان زمانۂ غیبت میں امام زمانہ  علیہ السلام کاتابع و مطیع ہو۔

2 ۔غیبت کے زمانے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حضرت امام مہدی علیہ السلام سے محبت کرنے والوں کو دوست رکھیں اور ان سے محبت کریں۔

3 ۔انہ یں دوست رکھنا ان کی شناخت پرمنحصرہے ۔ کیونکہ جب تک انسان کو یہی معلوم نہ ہو کہ آنحضرت کے چاہنے والے کون ہیں، تو کس طرح انہیں دوست رکھا جا سکتا ہے۔

4۔ ہمیں امام زمانہ (عج) کے دشمنوں سے متنفر ہونا چاہئے اور ان سے بیزاری کا اظہار کرنا چاہیئے۔

5 ۔ حضرت امام مہد ی علیہ السلام کے دشمنوں سے اظہار نفرت بھی ان کی شناخت پر موقوف ہے۔

لہذا امام زمانہ علیہ السلام کے دشمنوں سے متنفر ہونے کے لئے بھی امام کے دشمنوں کو پہچاننا ضروری ہے۔

ان ذمہ  داریوں کے علاوہ اور بھی ذمہ داریاں ہیں۔امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کو درک کرنے کی صورت میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مکمل طور پر آنحضرت کے اطاعت گزار اور ان کے دستورات کے مطیع ہوں ۔

۱۵۷

امام صادق علیہ السلام یہ حقیقت ابو بصیر کو یوں بیان فرماتے ہیں:

'' یا ابا بصیر: طوبی لمحّب قائمنا المنتظرین لظهوره ف غیبة والمطیعین له ف ظهوره اولیاء اللّه لاخوف علیهم ولاهم یحزنون '' (1)

اے ابو بصیر:ہمارے قائم  کے چاہنے والے خوش نصیب ہیں کہ جو زمانہ غیبت میں ان کے ظہور کے منتظر ہوں اور ظہور کے زمانے میں ان کے فرمانبردار ہوں، ان کے اولیائ، خدا کے اولیاء ہیں ۔ انہیں نہ تو کوئی رنج و غم  ہے اور نہ ہی مغموم ہوں گے۔

اس روایت کی بناء پر خدا اور امام زمانہ (عج) کے اولیاء وہ ہیں کی جو آنحضرت  کے انتظار اور دوستی کے علاوہ ظہور کو درک کرنے کی صورت میں ان کے مطیع  و فرمانبردار ہوں اور ایسے گروہ میں سے نہ ہوں کہ جوظہور کی ابتداء ہی میں آنحضرت کے لشکر سے جدا ہوکر دشمنوںکی صف میں جا کھڑے ہوں۔

ایسے افراد حقیقت میں آنحضرت کے ظہور کے منتظر نہیں تھے ۔ بلکہ وہ خود کسی مقام و مرتبہ تک پہنچنے کے منتظر تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے مقاصدپانی پر بنائے گئے قدموں کے نشانات کی مانند ہیں اورجب انہیں کسی مقام کے ملنے کی کوئی امیدنہ ہو تو وہ امام زمانہ (عج) کے لشکر سے جدا ہوجائیں گے۔

--------------

[1]، احقاق الحق:ج۱۳ص۳۴۹، ینابیع المودّة:422

۱۵۸

  تکامل کی دعوتِ عام

حضرت امام مہدی  علیہ السلام کے اہم پروگراموں میں سے ایک تمام لوگوں کو آئینِ اسلام کی طرف   عام دعوت دینا ہے۔اس وقت دنیا کے ہر مذہب و مکتب سے تعلق رکھنے والوں کو اسلام کی دعوت دی جائے گی اور سب سے کہا جائے گا کہ وہ باطل سے دست بردار ہو جائیں  اور خدا کے پسندیدہ و حقیقی دین یعنی اسلام  اور حقیقی اسلام یعنی تشیع کو اختیار کریں۔ اس عمومی دعوت کے ساتھ کچھ ایسے  واقعات بھی ہوں گے کہ جس سے پوری دنیا والوں کے دلوں کو سکوں ملے گا۔اس دوران ایسے واقعات رونما ہوں گے کہ جس سے یہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لے گا اور لوگ جوق درجوق اسلام قبول کریں گے۔

اس بارے میں قرآن میں ارشادِ قدرت ہے:

''ا ِذَا جَاء نَصْرُ اﷲِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِی دِینِ اﷲِ افْوَاجًا '' (1)

جب خدا کی مدد اور فتح کی منزل آئے گی اور آپ دیکھیں گے کہ لوگ دین خدا میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔

اس بناء پر اس زمانے میں لوگ گروہ کی صورت میں اسلام پر ایمان لائیں گے اور گروہ در گروہ اسلام قبول کریں گے۔

دنیا کے لوگوں کا اسلام کی طرف مائل ہونا حضرت امام مہدی  علیہ السلام کی لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت کے بعد ہو گا۔یہ کچھ حیرت انگیز واقعات کی وجہ سے ہو گا کہ جسے وہ ابتدائے ظہور میں آنحضرت اور ان کے اصحاب میں دیکھیں گے۔جس سے لوگوں پر ان کی حقّانیت ثابت ہو گی اور یوں گروہ کی صورت میں خدا کے دین کا رخ کریں گے۔

--------------

[1]۔ سورہ نصر،آیت: 1،2

۱۵۹

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اذا قام القائم دعا النّاس الی الاسلام جدیداََ و هداهم الی امر قد دثر و ضل عنه الجمهور اِنّما سمّ القائم مهدیاََ،لانّه یهد الیٰ امر مضلول عنه و سمّ القائم لقیامه بالحقّ'' (1)

جب قائم  علیہ السلام  قیام کریں گے تو وہ لوگوں کو دوبارہ اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور ان کی ایسے امر کی طرف ہدایت و راہنمائی کریں گے کہ جو پرانا ہے اور جسے چھوڑ کر اکثر لوگ گمراہ ہو چکے ہیں۔ اسی لئے قائم  علیہ السلام  کا نام مہدی   علیہ السلام  ہو گا ۔کیونکہ وہ گمشدہ امر کی طرف ہدایت کرے گا اور اسے قائم کا نام دیا گیا کیونکہ وہ حق کے لئے قیام کرے گا۔

اس روایت سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ حضرت ولی العصر(عج) قیام کے بعد لوگوں کو اسلام کی طرف ایک جدید دعوت دیں گے اور انہیں گمشدہ امر کی ہدایت کریں گے کہ جس سے وہ لوگ گمراہ ہوئے ہیں ۔ اس روایت میں قتل و غارت کاتذکرہ نہیں ہے۔ بلکہ قیام کے بعد اسلام کی طرف دعوت دی جائے گی اور ہدایت و راہنمائی کا عمل شروع ہوگا۔ انسانوں کو اسلام کی طرف دعوت اور راہ حق کی طرف راہنمائی کے لئے دلیل و برہان کی ضرورت ہے۔ روایات کے مطابق یہ وہی پروگرام ہے کہ جسے حضرت بقیة اللہ الاعظم  علیہ السلام انجام دیں گے۔

دلیل و برہان اور اعجاز کے ہمراہ اس دعوت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ اسلام پر ایمان لائیں گے اور ہدایت کی طرف گامزن ہوں گے۔اس وقت قرآن کی طراوت و شادابی بحال ہو جائے گی ۔ فرسودگی کے بعد اسلام کو نئی حیات ملے گی۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار :3051،الارشاد: 344، نوادرالاخبار:272

۱۶۰