امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 162689
ڈاؤنلوڈ: 3590

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162689 / ڈاؤنلوڈ: 3590
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اگر انسان کو معلوم ہو کہ خدا اور اس کے جانشین انسان کے ظاہر وباطن سے آگاہ ہیں اور وہ ہر لمحہ ان کے حضور میں ہے اور اس حقیقت سے غفلت نہ برتے تو وہ ہر اس چیز سے آنکھیں بند کر لے گا کہ جو بھی دنیا سے دل لگانے کا باعث بنے۔اسی وجہ سے بعض اولیاء خدا اغیار سے منہ موڑنے اور معنوی مقام و منزلت تک پہنچنے کے لئے حالت حضور کی رعایت کرتے اور خود کو امام زمانہ علیہ السلام کے محضر میں دیکھتے۔ حالتِ حضور جتنی زیادہ ہو جائے وہ خود کو امام عصر   علیہ السلام کے محضر میں محسوس کرے گا۔پھر وہ ایسے کام انجام دینے سے باز آ جائے گا، جو امام  علیہ السلام  کی مرضی کے خلاف ہو۔پھر ان میں دھیرے دھیرے حالت حضور پیدا ہو جائے گی۔کیونکہ نیک اعمال کی طرف مائل ہونے کے لئے حالت حضور بہترین ذریعہ ہے۔

  عصر ظہور،عصر حضور

حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام  سے مذکورہ حدیث پرغور کرنے سے معلوم ہو گا کہ انسان خود کو اپنے باطن اور اپنے اسرار سے آگاہ شخص کے محضر میں قرار دے کر حرام کاموں سے بچ سکتا ہے۔ وہ بھی غیبت کے زمانے میں کہ جو شیاطین اور نفسانی خواہشات کا زمانہ ہے۔اس دور میں انسان اپنی آنکھوں کا مالک بن کر انہیں کنٹرول کرے ۔ اس بناء پر انسان ظہور کے زمانے میں بھی کامل اطمینان حاصل کر سکتاہے۔ کیونکہ وہ زمانہ شیطانِ رجیم کے شرّ اور نفس امّارہ سے نجات کازمانہ ہو گا۔ جیسا کہ ہم نے کہا تھا کہ دل پاک اور مطمئن ہونے سے انسان عالم ملکوت کا نظارہ کر سکتا ہے، پھر یوں وہ حالت حضور کو محسوس کرے گا۔ابھی تک حالتِ حضور اور زمانۂ ظہور میں انسان کی معنوی قوّت اور اسی طرح حضور کے معنی بھی واضح نہیں ہو سکے۔لہذا ہم اس اہم ترین حیاتی پہلو کی مزید وضاحت کرنا لازم سمجھتے ہیں۔اس بارے میں روایات نقل کرنے سے پہلے ہم کہتے ہیں:

۱۸۱

ظہورکے باعظمت اور بابرکت زمانے میں انسان کی توانائی اپنے اوج پر ہو گی۔گویا وہ نئی شخصیت کے مالک بن جائیں گے۔ انسان ظہور کے پیشرفتہ زمانے میں نہ صرف مہم روحانی و معنوی مسائل اور عقلی قوّت میں حیرت انگیز ترقی کرے گا بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی حدّ کمال تک پہنچ جائے گا۔جس سے کائنات کے صفحات پر ایک نئی تاریخ رقم کی جائے گی۔کیونکہ ہمیں تاریخ میں کہیں بھی ظہور کے زمانے جیسا تکامل نظر نہیں آتا۔

ظہور کے زمانے میں انسان حضرت حجت ابن الحسن علیہ السلام کی امامت و رہبری میں اپنے وجود کی تمام قوّتوں کو ظاہر کرے گا اور وہ زمانہ نعمتوں سے سرشار ہو گا۔جس طرح اس زمانے میں زمین اپنے تمام خزانوں کو آشکار کرے گی اور زمین کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہر چیز ظاہر ہو جائے گی ۔ اسی طرح اس زمانے میں انسان کے وجود میں قدرت و توانائی بھی ظاہر ہو گی اور وہ آسانی سے اپنے وجود کی غیر معمولی صلاحیتوں سے استفادہ کر سکے گا۔

اگرچہ انسان مادی و جسمانی لحاظ سے چھوٹا ہے لیکن اس میں اسرارو رموز اور مخفی طاقتوں کی ایک دنیا ہے کہ جو ظہور کے زمانے میںا شکار ہو گی۔یوں کائنات کاایک نیا چہرا نمودار ہو گا۔

ظہور کے پُر نور،  باعظمت اور بابرکت زمانے میں کائنات میں مختلف تبدیلیاں رونما ہو ں گی کہ ان میں سے کچھ کو ہم خاندان عصمت و طہارت   علیھم السلام کے ارشادات سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔

۱۸۲

 ساتواں باب

تکامل علم و فرہنگ

    عصر ظہور یا عصر تکامل علم و فرہنگ

    خاندان نبوت علیہم السلام کی نظر میں مستقبل میں علمی ترقی

    روایت کے اہم نکات

    روایت کی تحلیل

    پیغمبروں کے زمانے سے اب تک مشترکہ پہلو

    حصول علم کے دیگر ذرائع   1 ۔ حس شامہ    2 ۔ حس لامسہ    3 ۔ حس ذائقہ

    4۔ حواس کے علاوہ دیگر ذرائع سے علوم سیکھنا

    زمانہ ظہور میں حیرت انگیز تحوّلات

    خاندانِ اہلبیت علیہم السلام کا علم

    علوم کے حصول میں امام مہدی علیہ السلام کی راہنمائی

    حصولِ علم میں حضورِ امام مہدی علیہ السلام کے اثرات

    زمانۂ ظہور کی ایجادات

    اس بارے میں زیارت آل یٰس کے بعد دعا سے درس

    واحد عالمی حکومت

    ظہور یا نقطہ آغاز

۱۸۳

    دین یعنی حیات اور صحیح ترقی یافتہ تمدّن

    صحیح اور جدید ٹیکنالوجی فقط دین کے زیر سایہ ممکن ہے

    موجود ایجادات میں نقص

    عصر ِ ظہور میں قدرت کے حصول کی تحلیل

    روایت میں تفکر

    موجودہ صنعت پر ایک نظر

    زمانۂ ظہور اور موجودہ ایجادات کا انجام

    مضر ایجادات کی نابودی

    علم دنیا کی رہبری نہیں کر سکتا

    دنیا کا مستقبل اور عالمی جنگ

    ایٹم کے علاوہ دوسری منفی اور مضر ایجادات

    پہلی قسم کی ایجادات

    آئن اسٹائن کا ایک اور واقعہ

    آئن اسٹائن کا دوسرااشتباہ

    آئن اسٹائن کی خطا

    ادینگتون کی غلطی

    ارسطو، کپرنیک اور بطلمیوس کی خطائیں

    ارشمیدس کا اشتباہ

۱۸۴

    تیسری قسم کی ایجادات

    جنگی آلات سے بے نیازی

    دوسری قسم کی ایجادات

    علم دنیا مشکلات حل نہیں کر سکتا

    علم ودانش سوداگروں کا آلہ کار

    علم کی محدویت

    مغرب کی تبلیغات

    پوزیدونیوس کا اشتباہ

    کس کی پیروی کریں؟

۱۸۵

 عصر ظہور یا عصر تکامل علم و فرہنگ

دنیا  تیزی سے ترقی و پیشرفت اور علم و دانش کے عظیم اسرار و رموز کے حصول کی آرزو کر رہی ہے اور وہ اس روز کا انتظار کر رہی ہے کہ جن میں عظیم تحوّلات و تغییرات سے دنیا کا چہرہ چمک اٹھے اور کائنات بہشت بریں کا روپ دھارلے۔

یہ خواہش اس وقت پوری ہوگی کہ جب کائنات میں ہر طرف دنیا کے مصلح کی حیات بخش صدا گونجے گی۔اور تمام لوگ حضرت مہدی   علیہ السلام کی آواز سنیں گی۔

اس وقت دنیا میں عظیم تحوّلات کا آغاز ہوجائے گا ۔ حضرت ولی عصر  علیہ السلام  قیام فرمائیں گے وہ غیر معمولی اور حیرت انگیز قوّت سے سرشار پاک انسانوں اور نامرئی اور غیبی طاقتوں کی مدد سے دنیا کی تقدیر بدلنے کے لئے قیام کریں گے۔کچھ ہی مدت میں وہ پوری کائنات کو ظالموں اور ستمگروں کے وجود سے پاک کردیں گے۔پھر انسانی معاشرہ تکامل کی طرف گامزن ہوگا کہ جو ہماری سوچ سے بھی بالاتر ہے۔

ظہور کے زمانے میں عقلی تکامل سے عظیم تمدن وجود میں آئے گا کہ جوہماری قوّت درک سے بڑھ کرہے ۔ ہم حضرت ولی عصر  کی جاودانی حکومت کی عظمت کو کس طرح اپنے ذہن میں تصور کریں؟

کمپیوٹر سسٹم میں ترقی اور کمپیوٹر کے ذریعے اس حقیقت کو ذہن سے نزدیک کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ  کمپیوٹر ہمیں جو سہولیات اور حیرت انگیز چیزیں مہیا کررہا ہے۔آج سے کچھ سال پہلے تک ہم ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

یہ ترقی و پیشرفت ، اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ انسان تکامل کی وجہ سے ایسے عظیم رموز سے پردہ اٹھا سکتا ہے کہ جو ہمارے تصور سے بھی کہیں زیادہ  ہیں۔

۱۸۶

اس بناء پر ہم ایسے دن کے منتظر ہیں کہ جب امام عصر علیہ السلام کی راہنمائی سے انسان اپنے ذہن کی تمام صلاحیتوں کو اجاگر کرکے،ان سے استفادہ کرسکے گااور ظہور کی بہشت بریں میں آخرت کی بہشت کی طرح فقط نیکیوں اور اچھائیوں کو ہی طلب کرے گا اور انہیں ہی انجام دے گا۔

  خاندان نبوت علیہم السلام کی نظر میں مستقبل میں علمی ترقی

اب ہم ایسی روایت بیان کرتے ہیں کہ جو متعدد طرق سے نقل ہوئی ہے ۔ جو اس زمانے میں پوری کائنات کے لوگوں اور تمام شیعوں میں علم و دانش کی وسعت کی گواہ ہے ۔ اما م صادق علیہ السلام  فرماتے ہیں:

'' العلم سبعة و عشرون حرفاً، فجمیع ما جاء ت به الرسل حرفان، فلم یعرف الناس حتی الیوم غیر الحرفین، فاذا قام قائمنا اخرج الخمسة والعشرون حرفاً،فبثها فی الناس، و ضمّ الیها الحرفین،حتی یبثها سبعة و عشرین حرفا '' (1)

علم کے ستائیس(27) حروف ہیں، جو تمام پیغمبر لائے وہ دو حروف ہیں۔آج تک لوگ ان دو حروف کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ،جب قائم علیہ السلام  قیام کریں گے تو وہ بقیہ پچیس (25) حروف خارج کرکے لوگوں میں پھیلائیں گے اور وہ دیگر دو حرف کا بھی اضافہ کریں گے تاکہ پورے ستائیس (27) حروف لوگوں کے درمیان پھیل جائیں۔

--------------

 [1] ۔ بحارالانوار: ج۵۲ ص۳۳6، مختصر البصائر: 325، نوادرالاخبار:278، الخرائج:842

۱۸۷

  روایت کے اہم نکات

اس روایت میں دقت طلب اورقابل توجہ نکات موجود ہیں کہ جو آئندہ کی درخشاں اور علم و دانش سے سرشار دنیا کی حکایت کرتے ہیں۔اب ان میں سے اہم نکات پر غور کریں:

1 ۔امام صادق عل یہ السلام کا اس حدیث میں یہ فرمانا کہ''فبثها فی الناس''   یہ ایک انتہائی اہم مطلب کی دلیل ہے اور وہ معاشرے کے تمام افراد میں علم کے عام ہونے اور علم کی وسعت سے عبارت ہے۔اس کی دلیل کلمہ ''الناس'' میں موجود الف و لام ہے۔

اس بناء پر اس زمانے میں تمام لوگ علم کے بلند مقام تک پہنچ جائیں گے ۔علم و دانش معاشرے کے بعض مخصوص افراد سے مختص نہیں ہوگا۔اس زمانےمیں دنیا کے تمام لوگ علم کی نعمت سے مستفیض ہوں گے ۔

2 ۔ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے قیام سے پہلے معاشرے  کے تمام افراد میں علم و دانش عام نہیں ہوگا ۔ بلکہ یہ چند مخصوص افراد سے مختص ہوگا، اور وہ بھی تمام علوم  سے آشنا نہیں ہوں گے۔ بلکہ بعض علوم سے آشنائی رکھتے ہوں گے۔

3 ۔ تکامل  کے زمانے م یں علم، آج کے زمانے میں علم و دانش کی طرح نہیں ہے ۔ کیونکہ اس زمانے میں علم و دانش کا دامن بہت وسیع ہوگا اور اس زمانے میں معاشرے کے افراد علم ودانش کی تمام انواع واقسام سے آگاہ ہوں گے۔

کلمہ ''العلم'' میں'' الف و لام ''سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے علم کی تمام انواع  و اقسام مراد ہیں۔یعنی جو بھی علم شمار ہو،ان سب کا مجموعہ( ماضی،حال اور قیام سے پہلے اور ظہور کے بعد تک) ستائیس حروف ہیں ۔

۱۸۸

پیغمبروں کے زمانے سے زمانۂ غیبت کے اختتام تک علم و دانش جتنی بھی ترقی کرلے وہ دو حروف سے زیادہ تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ لیکن عصرِ ظہور میں ان کے ساتھ علم کے دوسرے پچیس حروف بھی ضمیمہ ہوں گے۔ پھر لوگ تکامل کی منزل پرپہنچ جائیں  گے ۔(1)

پیغمبروں کے زمانے سے امام صاددق  علیہ السلام کے زمانے تک اور پھر امام عصر علیہ السلام کے قیام کے زمانے سے پہلے تک جو کچھ بھی ہوگا، وہ علم کے دو حروف ہیں۔

پیغمبروں کے زمانے سے امام صادق  علیہ السلام کے زمانے تک ہونے والی تمام علمی پیشرفت اور امام صادق  علیہ السلام کے وجود سے نکلنے والے علوم کے چشمے اور اس کے علاوہ دیگر علوم کہ جو انہوں نے جابر ا ور اپنے دوسرے خاص اصحاب کو تعلیم فرمائے اور اس کے علاوہ امام زمانہ  کے قیام سے پہلے تک ہونے والی تمام علمی ترقی کے باوجود سب دوحروف سے زیادہ نہیں جانتے۔یہ نکتہ اس وقت حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ جب امام صادق  علیہ السلام  کے وجود سے ظاہر ہونے والے علوم کے  سمندر سے دانشور ابھی تک تعجب میں مبتلا ہیں۔لیکن اس کے باوجود وہ فقط دو حرف ہیں۔

4۔ اس وقت لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ علم کیا ہے؟اور دانشور کون ہے؟کیونکہ اس زمانے میں علم و دانش کا سرچشمہ وحی ہوگی کہ جو حضرت بقیة اللہ الاعظم(عج) کی عنایات سے لوگوں کو تعلیم دی جائے گی۔

اس زمانے میں لوگوں کے درمیان حقیقی و واقعی علم رائج ہوگا نہ کہ وہ علوم کہ جن کی بنیاد فرض اور تھیوری پر قائم ہوتی ہے۔

--------------

[1] ۔ اگر ہم ظاہر روایت پر عمل کریں تو علمی ترقی کی حد یہاںتک ہوگی ۔ لیکن اگر روایت کی توجیہ کریں تو عصرِ غیبت کے اختتام تک علم کا مجموعہ ظہور  کے زمانے میں علمی ترقی کے ساتھ قابلِ مقائسہ نہیں ہے ۔

۱۸۹

5 ۔اس زمانے م یں جھوٹے علم کی کوئی خبر نہیں ہوگی اور دانشوروں کی فریب کاریوں سے معاشرے گمراہ نہیں ہوں گے۔اس زمانے میں علم و دانش لوگوں کی راہنمائی کا ذریعہ ہوگا اور پھر کوئی ''ارشمیدس'' کی طرح ایک ہزار چھ سو سال تک لوگوں کو گمراہ نہیں کرسکے گا۔

اس زمانے میں استعمار کی طرف ضعیف ممالک کے لئے بنائی گئی گمراہ کن اور وقت برباد کرنے والی کتابوں کا وجود نہیں ہوگا اور نہ ہی ڈالر کی طاقت سے لئے گئے نمبر اور سفارش کے زور سے حاصل کی گئی اسناد  اور جعلی ڈگریوں کی کوئی اہمیت ہو گی۔

اس زمانے کے سب لوگ دانشور ہوں گے ۔ تمام دانشورحقیقی علم اور ترقی یافتہ کلچر کے مالک ہوں گے۔جعلی ڈگریوں کے ذریعہ ان کاشمار دانشوروں میں نہیں ہوگا۔

6 ۔ تمام علوم مکمل ہو کر لوگوں م یں منتشر ہوجائیں گے ۔یعنی لوگوں کے درمیان علم کا ہر شعبہ اپنی اوج میں رائج ہوگا اور لوگ اس سے مستفید ہورہے ہوں گے۔

جس طرح ظہور کے درخشاں ،پُر نور اور بابرکت زمانے میں لوگ اقتصادی ، زراعتی اور امن و امان کے لحاظ سے ترقی یافتہ ہوں گے اسی طرح لوگ علم و دانش سے بھی مکمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔ ان میںکسی طرح کا علمی فقد ان نہیں ہوگا۔

  روایت کی تحلیل

روایت میں  قابل غور نکتہ یہ ہے کہ پیغمبروںکے زمانے سے معصومین  علیہم السلام کے زمانے تک اور زمانہ ظہور سے پہلے تک علم و دانش یکساں تھا اور ان تمام زمانوں میں علم دو جزء سے  نہ بڑھ سکا اور نہ بڑھ سکے گا۔

کیونکہ امام صادق  علیہ السلام کے فرمان کے مطابق:

1 ۔ تمام پیغمبر جو علوم لائے وہ فقط دو حروف ہیں۔

2۔ امام صادق  علیہ السلام کے زمانے تک لوگ علوم کے دو حرف کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے۔

۱۹۰

3 ۔ جب حضرت قائم  عل یہ السلام قیام کریں گے تو پچیس دیگر حروف خارج کریں گے اور انہیں ان دو حرف کے ساتھ لوگوں میں پھیلائیں گے۔

امام صادق  علیہ السلام کے زمانے میںاور حضرت قائمعلیہ السلام کے ظہور سے پہلے تک علم و دانش، پیغمبروں کے زمانے کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہوگا۔

اب روایت کے ظاہر سے قطع نظرکرتے ہوئے یہ کہنا پڑے گا کہ امام  کی مراد و مقصود کچھ اور تھی کہ جسے راوی نے واضح طور پر بیان نہیں کیا ہے۔

کیونکہ یہ واضح ہے کہ رسول اکرم (ص) اور آئمہ اطہار عل یھم السلام نے  ایسے علوم و معارف تعلیم  فرمائے ہیں کہ جو اس سے پہلے پیغمبروں میں سے کسی نے بیان نہیں کئے تھے۔

رسول اکرم (ص) اور ان کے اوص یاء جو علوم معارف لے کر آئے،کیا یہ وہی علوم تھے کہ جنہیں گزشتہ انبیاء بھی لائے اور خاندانِ نبوت  علیھم السلام نے ان میں کسی قسم کا تحوّل ایجاد نہ کیا اور ان علوم میں کسی چیز کا اضافہ نہ کیا۔

اگر ایسا ہو تو پھر اسلام ،دیگر ادیان پر کیا برتری رکھتاہے؟

کوئی اس بات کا معتقد نہیں ہوسکتا کہ رسول اکرم(ص) کا علم و دانش گزشتہ نب یوں کا ہی علم ہے۔ اس بناء پریہ کہنا پڑے گا کہ اس روایت میں ایک ایسا نکتہ موجود ہے کہ جسے جاننے کے لئے تفکر وتدبر کی ضرورت ہے۔

کیونکہ ظاہر روایت سے علمی ترقی میں ٹھہراؤکا استفادہ ہوتا ہے۔ یعنی پیغمبروں کے زمانے سے آئمہ اطہار علیھم السلام کے زمانے تک اور اس زمانے سے امام عصر علیہ السلام کے قیام سے پہلے تک ایک ہی حالت اور فضا قائم تھی اور امام زمانہ (عج) کے قیام سے یہ انجماد ٹوٹے گا۔

۱۹۱

اگراب  پیغمبروں اور آئمہ اطہار علیھم السلام کے زمانے ( امام عصر کے قیام سے پہلے کے زمانے) میں علم کو ایک ہی طرح کا تصور کریں تو یقینا یہ بہت بڑا اور واضح اشتباہ ہے۔کیونکہ امام صادق  علیہ السلام  اور اسی طرح تمام آئمہ اطہار  علیھم السلام نے بہت سے ایسے علوم بیان فرمائے ہیں کہ جو گزشتہ پیغمبروں کی زبان سے نقل نہیںہوئے تھے۔

اس بناء پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یکساں ہونے کا مطلب علمی مقدار کے لحاظ یکساں ہونا ہے۔لیکن ہم یہ کہہ  سکتے ہیں کہ حصول علم کے لئے جن حواس کی ضرورت ہوتی ہے (یعنی دیکھنے اور سننے کی قوت) ان سے استفادہ کرنے میں اب بھی یکسانیت باقی ہے۔

  پیغمبروں کے زمانے سے اب تک مشترکہ پہلو

انبیاء الہٰی کے ذریعہ ابتدائے خلقت سے اخذ کئے گئے علوم و معارف ان کی تعلیم کا طریقہ اور اسی طرح اب تک خاندانِ عصمت علیھم السلام کے علوم و معارف کی تمام ترقی  پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ سب ایک نقطہ میں مشترک ہیں کہ ان میں کسی قسم کی افزائش اور تغییر وجود میں نہیں آئی۔

کیونکہ تمام انبیاء الہٰی نے لوگوں کو جو علوم و معارف تعلیم دیئے اور اسی طرح رسول اکرم(ص) اور ان کے بعد خاندانِ وح ی  علیھم السلام اور اس کے بعد دانشوروں نے عام لوگوں کی تعلیم دیئے وہ دو حالتوںمیں سے ایک سے خالی نہیں ہے۔

وہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو ان کے مکتب سے بہرہ مند ہوتے ہیں،وہ  یا سمعی طور پر مستفید ہوتے ہیںیا بصری طور پر ۔ یعنی پیغمبروں کے زمانے سے اب تک علم سیکھنے والوں نے یا کتابوں پر لکھنے یا پیغمبروں یا دوسروں سے سن کر علم حاصل کیا۔

البتہ علم حاصل کرنے کی دوسرے راستے بھی ہے کہ جس سے عام لوگ استفادہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔لیکن  بعض افراد  اس طریقہ سے بھی استفادہ کرتے تھے اور کرتے ہیں۔

۱۹۲

پس پیغمبروں کے زمانے سے اب تک ہونے والی علمی ترقی آنکھوں یا کانوں سے استفادہ کرنے سے حاصل ہوئی۔

اس بناء پر ممکن ہے کہ ان دو جزء سے یہ مراد ہو کہ اب تک حصول علم کے یہ ہی دو طریقے تھے اور  حضرت قائم  علیہ السلام  کے قیام سے پہلے تک بھی ایسا ہی ہوگا کہ علم سننے یادیکھنے کے ذریعے حاصل ہوگا ۔ یعنی حصول علم یا سمعی طریقے سے ہو گا یا بصریطریقہ سے ہو گا ۔

تمام لوگ عموماً انہی دو طریقوں سے علم حاصل کرتے ہیں۔لیکن عقلوں کے تکامل سے تحصیل علم کے دیگر ذرائع بھی وجود میں آئیںگے۔جو مذکورہ دو طریقوں کے علاوہ ہوں گے۔

جیسے ملائکہ کے توسط سے دلوں میں القاء ہونے کے ذریعہ،یہ نہ تو سمعی ہے نہ بصری۔بعض  روایات میں اس کی وضاحت بھی ہوئی ہے۔

اگر اس توجیہ کو قبول کریں تو اس زمانے میں ہونے والی علم و دانش کی عجیب پیشرفت سے آگاہ ہوجائیں گے۔کیونکہ روایت کے معنی کی رو سے تحصیل علم کے ذرائع تیرہ گنا زیادہ ہو جائیں گے، نہ کہ مجموعاً علوم تیرہ گنا ہوں گے۔

اب تک علم نے جو ترقی کی ہے۔اگر یہ ظہور کے زمانے میں تیرہ برابر ہوتو انسانوں کے عقلی تکامل کے لحاظ سے یہ بہت کم ترقی ہوگی۔

روایت میں دلائل،یا کم از کم ایسے قرائن موجود ہیں کہ جن سے معلوم ہوگا کہ اما م صادق  علیہ السلام  کی علم کے ستائیس  حرف سے علم کی ستائیس قسمیں مراد نہیں ہیں ۔ کیونکہ وہ فرماتے ہیں پیغمبروں کے زمانے سے حضرت قائم علیہ السلام کے قیام تک علم کے دو حرف ہیں۔

۱۹۳

اگر آنحضرت کی علم کے دو حرف سے مراد علم کے دو جزء ہوں تو پھر پیغمبروں کے زمانے سے لے کر امام زمانہ  علیہ السلام کے قیام سے پہلے تک کسی بھی طرح کی علمی پیشرفت نہیں ہونی چاہیئے اور اس زمانے سے قیام امام عصر علیہ السلام تک لوگوں کو علم کے دو جزء سے بہرہ مند ہونا چاہیئے۔علمی ترقی میںتوقف اور اس میںٹھراؤہونا چاہیئے۔ حالانکہ یہ واضح ہے کہ پیغمبروں کے زمانے سے اب تک اور پھر ظہور کے زمانے تک علم میںہزار گنازیادہ ترقی ہوئی ہے اور دینی اور غیر دینی مسائل میں انسانوں کے علم میں ہزار برابر اضافہ ہوا ہے۔اس بناء پر معلوم ہوا کہ اس سے مراد تحصیل علم کے ذرائع ہیں۔

اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ پیغمبروں کے زمانے سے ظہور  کے زمانے تک انسانوں کے لئے سمعی اور بصری طریقے کے علاوہ کوئی اور ذریعہ موجود نہیں ہے۔البتہ یہ انسانوں کے لئے ہے نہ کہ اولیاء خدا کے لئے۔

کیونکہ انسان پڑھنے،لکھنے یا دروس وتقاریر سننے یا کمپیوٹر ،ٹی وی،ریڈیو اور دیگر وسائل سے استفادہ کرکے علم حاصل کرتا ہے اور یہ سب سمعی یا بصری طریقوں سے خارج نہیں ہیں۔

اگر امام صادق علیہ السلام  اس زمانے میں فرماتے کہ تحصیل علم کے ستائیس طریقے ہیں اسے کتنے لوگ قبول کرتے حتی کہ اس موجودہ زمانے میں بھی کتنے لوگ اس مطلب کو پوری طرح قبول کرتے ہیں؟

ایک دوسرا بہترین نکتہ جس پر دقت کرنا ضروری ہے،وہ یہ ہے کہ اکثر کتابیں کہ جس میں اس روایت کو نقل کیا گیا ہے، وہاں حرفاً یا حرفین کی تعبیرذکر کی گئی ہے اور حرف و حروف خود علم سیکھنے کا وسیلہ ہیں۔

ممکن ہے کہ حرف سے تعبیر کرنے سے امام کی مراد علم سیکھنے کا وسیلہ ہو نہ کہ حروف اور حرفین سے ایسا معنی مراد ہو کہ جو ابتداء ًہمارے ذہن میں آتاہے۔

۱۹۴

جس طرح کبھی آیات و روایات میں کلمہ وکلمات کے دو لفظ ہمارے ذہن میں  پہلے سے موجود معنی کے علاوہ دوسرے معنی میں استعمال ہوتے ہیں  اور اس سے مراد وہ الفاظ و حروف ہیں کہ زبان کے ذریعہ جن سے تکلم کیا جاتا ہے۔ پس اگر رسول اکرم(ص)اور اہلب یت اطہار علیہم السلام اور اسی طرح حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کے بارے میں ''کلمة اللہ''سے تعبیر ہو تو اس کلمہ سے مراد الفاظ و حروف نہیں ہیں۔

اگر ہم کلمہ و کلمات کے ذریعے اپنا ارادہ ظاہر کرتے ہیں اور کلمہ و کلام ہمارے ارادے کا مظہر ہے تو کلمة اللہ بھی ایسی چیز ہے کہ جن کے ذریعہ خدا وند تعالیٰ کا ارادہ خارج میں ظاہر ہوتا ہے۔اسی وجہ سے اہل بیت اطہار علیہم السلام کے بارے میں ''کلمات اللہ'' سے تعبیر ہوئی ہے۔(1)

اگرچہ حروف کا بھی اوّلی معنی کچھ اور ہے کہ جو الفاظ کو تشکیل دیتے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں یہ دوسروں کو علم و دانش سکھانے کا ذریعہ ہیں۔حضرت امام ہادی علیہ السلام اس آیت'' وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَام وَالْبَحْرُ یَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّهِ ِنَّ اللَّهَ عَزِیْز حَکِیْم '' (2) کے بارے میں  فرماتے ہیں:

'' نحن الکلمات التی لا تدرک فضائلنا ولا تستقصی '' (3) ہم کلمات خداوند ہیں کہ ہماری فضیلتیںدرک نہیں ہوسکتیں اور ان کی کوئی انتہانہیں ہے۔

اس توضیح کی بناء پر علم کے ستائیس حرف،یعنی علم و دانش کے حصول کے ستائیس ذرائع ہیں ۔ اگرچہ انسان ظہور سے پہلے دو طریقوں سے علم حاصل کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔لیکن عصرِ ظہورمیں حصول علم کے ستائیس ذرائع مہیّا ہوں گے۔

--------------

[1]۔ شرح دعا ء سمات:41 از مرحوم آیت اللہ سید علی قاضی

[2]۔ سورہ لقمان، آیت:27

[3]۔ بحارالانوار:ج50 ص 166

۱۹۵

حصول علم کے دیگر ذرائع

1۔ حس شامہ

حواس میں سے ایک دحس شامہ یا سونگھنے کی حس ہے۔جس کے تکامل کی صورت میں انسان اس کے ذریعے افراد سے بہت زیادہ علم و آگاہی حاصل کرسکتا ہے۔

بعض افراد سامعہ اور باصرہ حس کے علاوہ حس شامّہ کے ذریعہ بھی بہت سے مطالب درک کرکے اپنے علم میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

اگر آپ نے غور کیا ہو تو روایات میں وارد ہوا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

''تعطّروا بالاستغفار ولا تفضحکم روائح الذنوب '' (1)

استغفار کے ذریعہ خود کو معطر کرو تاکہ گناہوں کی بو تمہیں رسوا نہ کرے۔

بعض افراد بعض لوگوں کی سانسوں کی بوسونگھ کر اس کے انجام دیئے گئے اعمال سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔اسی لئے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا کہ استغفار کرو تاکہ تم نے جو گندے اعمال انجام  دیئے ہیں ،ان سے دوسرے آگاہ نہ ہوں۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار: ج6ص۲۲

۱۹۶

2۔ حس لامسہ

ہمیں معلوم ہے کہ انسان کے بدن کے اطراف کو کچھ دائروں نے احاطہ کیا ہوا ہے کہ جن کے رنگ اور کیفیت سے کسی شخص کے اعمال و رفتار سے آگاہ ہوا جاسکتا ہے۔

جو انسان کے گرد ان دائروں اور ان کی انواع و اقسام کی پہچان رکھتا ہو،وہ مدمقابل کی شخصیت سے آگاہ ہوسکتا ہے اور وہ اس کے بارے میں جان سکتا ہے کہ وہ کیسا شخص ہے۔

انسان کے اطراف ِ بدن میںان دائروں کا مرکز زیادہ تر ہاتھ ہوتا ہے۔اسی وجہ سے بعض افراددوسرے سے ہاتھ ملاکر اور اس سے لمس کر کے اس کے افکار بتا سکتے ہیں اور اس کے حالات سے بھی باخبر ہوجاتے ہیں۔اس بناء پر حس شامہ بھی علم و آگاہی کے بہت مؤثر اسباب ہیں۔بعض افراد دوسرے کا لباس اور اس کی زیرِ استعمال کسی چیز کو پکڑ کر اس کی شخصیت اور اس کی نفسیات و حالات کی خبر د سکتے ہیں۔مختلف کتابوں میں ایسے بہت سے واقعات لکھے گئے ہیں۔

3۔ حس ذائقہ

حس ذائقہ بھی حصول علم کے لئے مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔اولیاء خدا سے نقل ہونے والے واقعات میں تصریح ہوئی ہے کہ وہ کھانا کھانے سے، اس کے پکانے والے کے حالات سے آگاہ ہو جاتے اور اس کی خبر دیتے تھے۔

اس بناء پر حواس خمسہ کے قدرت مند ہونے اور( نہ صرف آنکھوں اور کانوں سے)  ان سب کی حقیقی و واقعی حیات حاصل ہونے سے انسان ان سب کو علم کے حصول کا ذریعہ قرار دے سکتا ہے۔ اسی طرح انسان باطنی حواس کے ذریعے سے بھی علم حاصل کرسکتا ہے۔

۱۹۷

4۔ حواس کے علاوہ دیگر ذرائع سے علوم سیکھنا

ایک بہترین اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ سمع و بصر کے ذریعہ علم حاصل کرنا،انسان کی حسی قوّت  سے استفادہ کرناہے اوریہ دونوں انسان کے ظاہری حواس خمسہ میں سے ہیں۔لیکن ظہور کے زمانے میں (جو دلوں کی حیات،عقلوں کے تکامل کا زمانہ ہوگا)انسان حواسِ خمسہ سے بڑھ کر دیگر ذرائع سے بھی علم حاصل کرسکے گا۔

ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس میںغور کرنے سے معلوم ہوگا کہ دل کی حیات اور تکامل عقل علم و دانش کے حصول کی راہوں کو کھول دیتی ہے۔لہذا اس زمانے میں جب (جب اکثر افراد  قلبیحیات اور عقلی تکامل کے مالک ہوں گے) علم فقط دیکھنے اور سننے میں ہی منحصر نہیں ہوگا۔بلکہ انسان حس سے بڑھ کر دیگر ذرائع سے اپنے علم میں اضافہ کرے گا۔قلبی مشاہدات جو کہ حیات قلبی سے حاصل ہوتے ہیں ، ماوراء حس سے علم حاصل کرنے کا بہترین نمونہ ہے۔ ظہور کے درخشاں،منوّراور علم و دانش سے سرشار زمانے میں انسانی حیات قلب کی وجہ سے حس سے بڑھ کر دیگر قدرت تک رسائی حاصل کرے گا ۔ یوں وہ اپنے علم ،دانش اور فرہنگ میں اضافہ کرے گا۔

ظہور کے بابرکت زمانے میں انسان نہ صرف آنکھ اور بصارت کے ذریعہ بلکہ قلب و بصیرت کے ذریعہ بھی علوم و معارف حاصل کرسکے گا۔زمانہ ظہور میں دیگر حواس کے فعّال ہونے اور حس سے بڑھ کر حصولِ علم کے دوسرے دروازے کھلنے سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ حصولِ علم کے ذرائع صرف آنکھ اور کان ہی میں منحصر نہیں ہیں۔

اس زمانے میں دیگر ذرائع جیسے القاء بھی سب کو میسر ہوں گے۔سب اس سے استفادہ کریں گے ۔ جیسا کہ روایت میںوارد ہوا ہے۔آج اپنے شعبہ میں ماہر ،متخصص دانشور دیگر علوم درک کرنے سے ناتواں ہے۔

۱۹۸

کیونکہ حصولِ علم کے فقط دو ذرائع ہیں،سمع و بصر۔ جو تمام لوگوں میں علم کے فروغ اور اسی طرح دانشوروں میںبھی حصول ِ علم کے لئے محدودیت ایجاد کرتا ہے لیکن دلوں کے پاک ہونے، تہذیب واصلاحِ نفس،شیطان کی موت اور عقلوں کے تکامل سے عام لوگوں کے لئے بھی حصولِ علم کی دوسری راہیں بھی فراہم ہوں گی۔ پھر لوگ سمع و بصر کے علاوہ دوسری راہوں سے بھی علم حاصل کرسکیں  گے۔

  زمانہ ظہور میں حیرت انگیز تحوّلات

خدا ہی جانتا ہے کہ علمی ترقی اور عقل و خرد کے تکامل سے دنیا میں کیسی عظیم تبدیلیاں رونما ہوں گی ۔ عالمِ خلقت اور کائنات کے کون کون سے اسرار و رموز آشکار ہوں گے۔

غیبت کے تاریک زمانے میں کبھی ایک چھوٹی سی اختراع  و ایجادسے عصرِ غیبت کے لوگوں کے افکارمیں عجیب تحولات ایجاد ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر دوربین اور خود بین کی ایجاد انسانوں پر کس قدر اثر انداز ہوئی؟اس سے ستاروں اور زمین کی کیفیت کے بارے میں دانشوروں اور فلاسفہ کے افکار و نظریات میں کتنی تبدیلی آئی؟

اس سے انسان کے علم و آگاہی میں کتنا اضافہ ہوا؟

اسی طرح ظہور کے پُر نور زمانے میں علم و تمدن کے تکامل کی وجہ سے رونما ہونے والی ایجادات سے عالم خلقت اور کائنات کے اسرار کے بارے میں انسان کے علم میں کتنا اضافہ ہوگا۔ہم غیبت کے تاریک زمانے میں اسے تصور کرنے کی توانائی نہیں رکھتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس زمانے میں کیسی اختراعات وجود میں آئیں گی اور اس کے آثار کس حد تک ہوں گے؟

سائنس دان اب بھی ''ماوراء طبیعت ، وقت کی سرحدوں سے عبور اور عالم غیب تک رسائی '' جیسے مسئلوں کو حل نہیں کر پائے ہیں؟

۱۹۹

کیا آپ جانتے ہیں یہ راز حل ہونے اور اس اسرار کے فاش ہونے سے عالم خلقت میں کیسی عجیب تبدیلیاں رونما ہوں گی؟ کیا ہم زمانہ غیبت کی ناچیز آگاہی سے اس کی عظمت سے آگاہ ہوسکتے ہیں؟

  خاندانِ اہلبیت علیہم السلام کا علم

مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کے اعتقادکی بناء پر ہر دور کے انبیاء ،اس دور کے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ علم ودانش کے مالک ہوتے ہیں۔کوئی دانشور اور عالم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔بحث و مناظرہ  میں  انبیاء انہیں مغلوب کردیتے ہیں۔

اسی طرح آئمہ اطہار علیہم السلام  کا علم بھی ہر دور کے علماء سے زیادہ ہوتا ہے۔کسی بھی بڑے عالم کا علم ، ان کے علم سے قابل مقائسہ نہیں ہے۔

دوسرے لوگوں پر انبیاء اور آئمہ اطہار علیہم السلام کے علم کی برتری کہ یہ وجہ  ہے کہ ان کاعلم اکتسابی نہیں  ہے۔انہیں علم تحصیل کے ذریعہ حاصل نہیں ہوا۔بلکہ ان کا علم لدنّی ہے ۔ جو انہیں خدا وند مہربان کی طرف سے عطاہو اہے۔

اس بناء پر وہ بزرگ ہستیاں علم مخزوں اور عالم غیب کے عالِم ہیں، اسی وجہ سے ان کا علم ، دوسروں کے علم سے برتر ہے۔

اگر چہ آئمہ اطہا رکے علم اور اس کی حدود کے بارے میں روایات مختلف ہیں ۔ جن کے بارے میں بحث اور تجزیہ و تحلیل بہت طولانی ہے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں: آئمہ علیھم السلام کے مخاطبین ان کی سطح علمی و ظرفیت اور اسے قبول کرنے کی طاقت میں اختلاف کی وجہ سے اس بارے میں روایات بھی مختلف ہیں۔

۲۰۰