امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 162792
ڈاؤنلوڈ: 3591

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162792 / ڈاؤنلوڈ: 3591
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہم کہتے ہیں: حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کا علم دنیاکے تمام لوگوں کے علم سے برترہے۔ آنحضرت  تمام علوم کے مالک گے۔ آنحضرت کی زیارت میں وارد ہوا ہے:

'' انک حائز کلّ علم '' (1)

آپ ہر علم کے مالک ہیں۔

زیارت ندبہ میں پڑھتے ہیں:

'' قد أتاکم اللّه یا آل یاسین خلافته، وعلم مجاری أمره فیما قضاه،و دبّره ورتّبه و اراده فی ملکوته '' (2)

اے آل یٰسین!خدا وند نے اپنی جانشینی کا مقام آپ کو دیا ہے۔عالم ملکوت میں اپنے حکم اور اس کے جاری ہونے کی جگہ اور تدبیر و تنظیم کا علم آپ کو دے دیا ہے۔اس زیارت شریف میں آنے والے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اہلبیت علیھم السلام کے علممیںنہ صرف عالم ملک بلکہ عالم ملکوت بھی شامل ہیں۔عصرِ ظہور کی برکتوں کے بارے میںوارد ہونے والی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) عالم ملکوت کی بھی تکمیل فرمائیں گے۔اس بناء پر آنحضرت  کے قیام کا صرف ملکی و مادی پہلو نہیں ہے۔بلکہ وہ عالم ظاہر کے علاوہ باطن و نامرئی عالم کی تکمیل فرمائیںگے۔جس میں غیر مرئی عالم کی موجودات بھی آپ  کے پرچم تلے آجائیں گے۔علمِ امام کا مسئلہ معارفِ اہلبیت علیہم السلام کے باب میں بہت اہم مسئلہ ہے۔اس کی حدود و کیفیت کے بارے میں بہت سے ابحاث مطرح ہوئے ہیں کہ جن کا تجزیہ و تحلیل اس کتاب کے موضوع سے خارج ہے ۔ اس بناء پر ہر دور کا اما م  اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے اعلم ہوتا ہے۔

--------------

[1]۔ مصباح الزائر:437، صحیفہ مہدیہ:630

[2]۔ بحارالانوار: ج۹۴ص۳۷، صحیفہ مہدیہ: 571

۲۰۱

اس زمانے کے تمام دانشوروں کو چاہیئے کہ وہ علوم وصنایع کے ہر شعبے میں اپنی مشکلات ائمہ اطہار علیھم السلام کے توسط سے برطرف کریں۔کیونکہ مقامِ امامت اور رہبری الہٰی کا لازمہ یہ ہے کہ وہ ہر علم میں سب لوگوں سے زیادہ اعلم ہوں۔یہ خود امام  علیہ السلام کے فضائل میں سے ایک ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس مفضول کو فاضل پر مقدم کرنا لازم آتا ہے۔

اس بیان سے واضح  ہوجاتا ہے کہ ظہور سے پہلے تک جتنی بھی علمی ترقی و پیشرفت ہوجائے،پھر بھی امام  کا علم اس سے زیادہ ہوگا۔اب ہم جو روایت ذکر کررہے  ہیں۔اس میں یہ مطلب صراحت سے بیان ہوا ہے۔حضرت امام رضا  علیہ السلام فرماتے ہیں:'' انّ الانبیاء والائمّة علیھم السلام یوفّقھم اللّٰہ و یؤتیھم من مخزون علمہ و حکمتہ مالایؤتیہ غیرھم، فیکون علمھم فوق علم اھل زمانھم فی قولہ عزّوجلّ:

''أَفَمَن یَهْدِیْ ِلَی الْحَقِّ أَحَقُّ أَن یُتَّبَعَ أَمَّنْ لاَّ یَهِدِّیْ ِلاّٰ أَنْ یُهْدٰی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ'' (1)

یقینا خدا وند انبیاء و آئمہ کوتوفیق عنایت کرتا ہے اور اپنے علم و حکمت کے خزانے سے انہیں علم عطا کرتا ہے کہ جو اس نے ان کے علاو ہ کسی کو عنایت نہیں کیا۔اسی وجہ سے ان کا علم ہر دور کے لوگوں کے علم سے زیادہ ہوگا۔

یہ آیت اس حقیقت پردلالت کرتی ہے:

کیا جو شخص لوگوں کو راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ ہدایت کازیادہ حقدار ہے یا وہ جو سیدھے راستے پر نہیں آتا ہے ،مگر یہ کہ کوئی اس کی راہنمائی کرے؟اس بناء پرکسی بھی شعبے میں علوم جتنی بھی ترقی کرلیں،وہ سب امام کے وسیع علم کے دامن میں شامل ہوں گے۔جس طرح دریابارش کے قطروں کو اپنے اندر جگہ سمو لیتا ہے اور خود قطرے کا وجود مٹ جاتا ہے۔اسی طرح تمام علوم و فنون بھی امام کے بحر علم میں فناہوجائیں  گے۔

--------------

[1]۔ سورہ یونس آیت:35، کمال الدین 689، اصول کافی:ج۱ص۲۰۲

۲۰۲

جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ ظہور کے پُر نور زمانے میں پوری دنیا میں برہان و استدلال عام ہوگا۔پوری کائنات میں سب انسان منطق و استدلال سے صحیح علم و دانش سے سرشار ہوں گے ۔ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے یاور اپنے بیان و گفتار سے اپنے مخالفین کو راہ راست پر لائیں گے اور حقیقت کی طرف ان کی راہنمائی کریں گے۔

آنحضرت  بھی اپنی گفتار سے لوگوں کی مکتب اہلبیت  علیہم السلام کی طرف ہدایت فرماکردنیا کو جدید علم ودانش سے سرشار فرمائیں گے۔یوں وہ حق کو ظاہر اور باطل کونابود کریں گے اور انسانوں کے دلوں کو ہر قسم کے شک  و شبہ سے پاک کریں گے۔یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کی امام نے تصریح فرمائی  ہے اور اسے اپنی توقیعات میں بیان فرمایا ہے:

حضرت بقیة اللہ الاعظم  (عج) نے اپنی ولادت کے پہلے گھنٹے میں فرمایا:

''زعمت الظلمة انّ حجّة اللّه داحضة ولو اُذن لنا فی الکلام لزال الشکّ '' (1)

ظالم گمان کرتے ہیں کہ حجت خدا باطل ہوگئی ہے۔اگر ہمیں بولنے کی اجازت دی جائے تو شکوک  برطرف ہوجائیں گے۔

یہ واضح ہے کہ شک کے برطرف ہونے سے دل ایمان و یقین سے سرشار ہوجائے گا۔قلب کے یقین سے سرشار ہونے سے اہم حیاتی اکسیر تمام لوگوں کے اختیار میں ہوگی، جو انسان کی شخصیت کو تکامل بخشے گی۔

  علوم کے حصول میں امام مہدی علیہ السلام کی راہنمائی

ظہور کے پُر نور ، درخشاں، بابرکت، عقلوں کے تکامل،دلوں کی پاکیزگی تلاش وکوشش،علم و دانش اور تمام خوبیوںسے سرشار زمانے کی آشنائی اور اس زمانے میں رونما ہونے والے عظیم تحوّلات و تغیّرات کی آگاہی کے لئے ان سوالوں پر توجہ کریں۔

--------------

[1]۔ الغیبة شیخ طوسی:147

۲۰۳

دنیا کے سر بہ فلک چوٹیوں اور بلند وبالا پہاڑوں ،وسیع و عریض صحرائوں ،دریائوں کی طغیانیوں اور سمندر کی گہرائیوں میں کون کون سی اور کیسی کیسی عجیب مخلوقات زندگی گزاررہی ہیں؟

ان میں کیسے حیرت انگیز اور عجیب حیوانات موجود ہیں؟

کیا عالم خلقت کے رموز کی شناخت ممکن ہے؟

ان تمام موجودات کے اسرار خلقت سے کس طرح آگاہ ہوسکتے ہیں؟

کیا جن کے سامنے خلقت ہوئی ہے ان کے علاوہ کوئی ان سب سے آگاہ ہوسکتا ہے؟

کیا اس زمانے میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے علاوہ کو ئی ان تمام سوالوں کے جواب دینے کی قدرت رکھتا ہے؟

جی ہاں!ظہور کے بابرکت زمانے میں امام زمانہ  علیہ السلام دنیا کو برہان و استدلال کے ذریعہ علم و آگاہی سے سرشار کردیں گے۔پوری کائنات میں دنیا کے لوگوں کو دلیل و برہان کے ساتھ علم وآگاہی اور دانش و فہم سے آرستہ فرمائیں گے۔

حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ، حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے اس اہم مطلب کے بارے میں فرماتے ہیں:

'' یملأ الارض عدلاً وقسطاً و برهاناً '' (1)

آنحضرت  دنیا کو عدل و انصاف اور برہان سے بھردیں گے۔

اس زمانے میں دنیا کے لوگ ایک رات میں سو سال کا سفر طے کریں گے اور جو نکات پوری زندگی میں نہیں سیکھ سکتے، چند کلمات کے ذریعہ ان نکات سے باخبر ہوجائیں گے۔

علم و آگاہی کے زمانے میں علم و فہم کی ترقی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہم ایک سوال مطرح کرتے ہیں:

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج۴۴ص۲۱، ج۵۲ ص۲۸۰

۲۰۴

اگر کوئی شخص کسی وسیع موضوع کے بارے میں تحقیق اور اس کے تمام اہم نکات سے آگاہ ہونا چاہے لیکن اگر وہ ا س موضوع  کے ماہر، شفیق استاد جیسی نعمت سے محروم ہو اور مددگار کتب بھی دستیاب نہ ہوں تو اسے کتنی طولانی تحقیق و جستجو کرنا ہو گی اور کس قدر ناکام تجربات سے گزرنا ہو گا۔تب شاید کہیں وہ کسی حد تک اپنے مقصد کے نزدیک  پہنچ سکے؟

لیکن اگر یہی شخص کسی دانا اور ماہر استاد سے استفادہ کرتا تو وہ بہت کم مدت میں اس موضوع کے بارے میں سیر حاصل مطالب سے آگاہ ہوسکتا تھا۔

بالفاظ دیگر انسان دو طرح سے علم و دانش سیکھ سکتا ہے۔

1 ۔ اس علم کے ماہر اور متخصص استاد سے علم حاصل کرسکتا ہے۔

2 ۔اگر اسے اس علم کے بارے م یں استاد یا کتب مہیا نہ ہوں تو پھر جستجو اور تجزیہ و تحلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔پھر تلاش و کوشش کے ذریعہ تحقیق کرنی چاہیئے تاکہ اگر ممکن ہو تو انسان اپنے ہدف  اور نتیجہ تک پہنچ سکے۔

حصول علم کی راہ میں تجزیہ و تحلیل اور تعلیم (استاد کے ذریعہ علم حاصل کرنا) کا فرق واضح ہے۔ہم یہاں ان کے دو اہم ترین فرق بیان کرتے ہیں:

1 ۔آگاہ اور ماہر استاد سے استفادہ کرنے کی صورت میں طولانی اور زیادہ وقت صرف کرنے والی تحقیق کے بغیر سرعت سے علوم کو حاصل کریا جا سکتا ہے۔

2۔ وقت تلف کرنے والی بے نتیجہ تحقیق کے بغیر ماہر استاد سے علم و دانش کا قطعی نتیجہ حاصل کرنا۔

۲۰۵

  حصولِ علم میں حضورِ امام مہدی علیہ السلام کے اثرات

ظہور کے زمانے کے انسانوں کو بے نتیجہ اور وقت ضائع کرنے والی تحقیق کی ضرورت نہیں ہوگی۔کیونکہ امام حسن مجتبیٰ  علیہ السلام  کے فرمان کے مطابق ،اس روز دنیا دلیل کے ساتھ علم و دانش اور معارف سے سرشار ہوگی۔

جی ہاں! اگر لوگ معاشرے میں ظہور و حضور امام  کی نعمت سے بہرہ مند ہوں تو وہ بہت جلد عظیم علمی منابع تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔وہ علم لدنّی کے ذریعہ علم برہانی حاصل کریں گے اور یوں وہ قطعی نتائج تک پہنچ جائیں گے۔

اب اس مطلب کو کاملاً واضح کرنے کے لئے حیوانات کی مختلف انواع کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔پھر ایک روایت نقل کرنے کے بعد بحث سے نتیجہ اخذ کریں گے۔

جیساکہ ہم نے کہا کہ دریائوں کی گہرائی پہاڑوں کی بلندی اور صحرائوں کی وسعت میں  بہت سی  عجیب مخلوقات موجود ہیں ۔ یہ مخلوقات اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں کہ ہمارے لئے ان کی زندگی گزارنے کی راہ و روش ، خصوصیات اور ان کی تولید نسل کی شناخت کرنا ممکن نہیں ہے۔اب تک کی تحقیق کے مطابق ہماری دنیا میں86000 پرندے زندگ ی گزار رہے ہیں۔(1)

حشرات الارض میں سے اب تک چار لاکھ کی شناخت ہوچکی ہے کہ جن میں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ اقسام ایران میں بھی موجود ہیں۔حیوانات کی اتنی کثیر انواع و اقسام ہیں کہ اگرکوئی حیوان شناسی کے علم میں دنیا میں موجود لاکھوں اقسام کے حیوانات میں افزائشِ نسل کے عمل کو جاننا چاہے کہ ان میں افزائشِ نسل کا عمل کیسے ہوتا ہے؟

--------------

[1] ۔ ان پرندوں میں سب سے بڑا پرندہ افریقی شتر مرغ ہے۔ لیکن یہ پرواز نہیں کرسکتا۔کیونکہ متوسط لحاظ سے اس کا وزن 135 کلو اس کا قد 40/2ہے دقیق اطلاعات کے مطابق زمین پر سب سے زیادہ عمر گزارنے والا پرندہ کوّا ہے اور اس کے بعد دریائی کوّا ہے۔ دائرة المعارف 1001 جذاب نکات:263

۲۰۶

ان میں سے کون سے حیوانات انڈے دیتے ہیں اور کون سے بچے۔

تو اس کے لئے  لاکھوںبرس کی تحقیق و جستجو کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ دریائوں، صحرائوں، سمندروں اور پہاڑوں میں زندگی گزارنے والے لاکھوں حیوانات کی کس طرح آشنائی حاصل کرسکتے ہیں؟

لیکن اگر یہ ہی شخص یہ مطالب تحقیق و جستجو اور تجربہ سے نہیں بلکہ کسی ایسے سے سیکھے کہ جو اسرارِ خلقت سے آگاہ اور مخلوقات کی خلقت کاشاہد ہو تو یہ چند لاکھ سالوں کی نا ممکن تحقیق سے حاصل ہونے والے مطالب دو منٹ میں جان سکتا ہے؟اس حقیقت کی مزیدوضاحت کے لئے اس روایت کو نقل کرتے ہیں:

مرحوم حاجی معتمد الدولہ فرہاد میرزا اپنے مجموعہ میں امیر کمال الدین حسین فنائی کی مجالس سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے ام جابر سے پوچھا کس چیز کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟

اس نے عرض کی میں چرندوں اور پرندوں کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے کون انڈے دیتے ہیں اور کون بچے؟امام  نے فرمایا: اس کے بارے میں اتنا سوچنے کی ضرورت نہیں۔

لکھو! جن حیوانات کے کان باہر کی طرف ہوں، وہ بچے دیتے ہیں اور جن کے کان اندر کی طرف ہوں اورسر سے چپکے ہوں ،وہ انڈے دیتے ہیں۔''ذلک تقدیر العزیز العلیم ''

باز اگرچہ پرندہ ہے اور اس کے کان اندر کی طرف ہیں ۔ لہٰذا وہ انڈے دیتا ہے۔ کچھواچرندہ ہے ۔ چونکہ وہ بھی اسی طرح ہے لہٰذا وہ بھی انڈے دیتا  ہے۔ چمگادڑکے کان باہر کی طرف ہیں اور سر سے بھی چپکے ہوئے نہیں ہیں ۔ لہٰذا وہ بچہ دیتی ہے۔(2)

--------------

[2]۔ گلزار اکبری:626

۲۰۷

اس عمومی قانون کی رو سے حیوان کا پرندہ ہونا، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ،چونکہ وہ پرندہ ہے ۔ لہٰذا وہ انڈے دے گا۔اسی طرح حیوان کا چرندہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ بچے دے گا۔کیونکہ ممکن ہے کہ اگرچہ اس کے پستان ہوں۔

لیکن اس کی افزائش نسل انڈے دینے کے ذریعے ہوتی ہو نہ کہ بچے دینے سے۔

حیوانات میں سے ایک بہت عجیب قسم کا حیوان ہے۔ اس کی مرغابی کی طرح چونچ ہے ۔  لہٰذا وہ ''اردکی'' کے نام سے معروف ہے۔اگرچہ اس حیوان کے پستان ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پرندوں کی مانند انڈے دیتا ہے۔ اب اس بیان پر توجہ کریں۔

ممکن ہے کہ ''اردکی ''حیوانات میں  سب سے زیادہ عجیب نہ ہو لیکن عجیب ضرور ہے یہ ایک پستان دار جانور ہے اور تمام پستان والے حیوانات کی طرح اس کی کھال  ہے اور اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔لیکن اس کی مرغابی کی طرح چونچ  اور اس کاپرہ دار پنجہ بھی ہے۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ ہے کہ یہ حیوان تمام پرندوں کی مانند انڈے دیتا ہے۔یہ حیوان آسٹریلیا میں پایا جاتا ہے۔جس کی لمبائیتقریباً50 سینٹی میٹر ہے۔ اس کی چونچ بہت نوکیلی اور تیز ہے ۔ نہاتے وقت یہ اپنی چونچ پانی سے باہر رکھتا ہے اور اسی کے ذریعہ سانس لیتا ہے۔یہ نہروں میں رہتا ہے۔اس کی مادہ وہاں انڈے دیتی ہے اور اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔ (1) ہم نے گزشتہ ابحاث میں ظہور کے زمانے کی ایک اہم خصوصیات بیان کی ۔ جو اس زمانے کے تمام معاشروں میں علم کا عام ہونا ہے اور ہم نے جو مطالب یہاںذکر کئے ہیں، ان سے عصر ظہور کی دو دیگر خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے ۔

1 ۔ زیادہ وقت لینے والی تحقیق و جستجوکے بغیر سرعت سے علوم کا حصول۔

2 ۔ بے حاصل اور بے نت یجہ تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے بغیرتعلیم کا قطعی نتیجہ حاصل کرنا۔

یہ واضح سی بات  ہے کہ زمانۂ ظہور کی ان دو خصوصیات سے انسان کو کس قدر علمی ترقی اور معاشرہ کو بلندی حاصل ہو گی۔

--------------

[1]۔ شگفتی ہای آفرینش:20

۲۰۸

  زمانۂ ظہور کی ایجادات

ہم نے عرض کیا کہ ظہور کے زمانے کی خصوصیات میں سے ایک سرعت سے علم و دانش کا حصول ہے ۔ اس بابرکت زمانے میں لوگ آسانی سے دقیق علمی مطالب تک رسائی حاصل کرسکیں گے۔

اس زمانے میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی ہدایت و راہنمائی حصولِ علم کی سرعت کا اصلی عامل ہوگا ۔ اس کے علاوہ رشد اور علمی ترقی ایک اور اہم سبب بھی ہوگا اور وہ بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام  کے بابرکت وجود مبارک کے طفیل سے ہوگا جو کہ تکامل عقل اور فکری رشد ہے۔

حضرت ولی عصر کی کریمانہ وعادلانہ حکومت میں لوگ عقلی اور فکری رشد کے مالک ہوں گے۔

عقلی تکامل کی بحث میں ہم نے اس نکتہ کی تصریح کی ہے کہ زمانہ ظہور و تکامل میں انسان کو حاصل ہونے والی مہم آزادی میں سے ایک عقلی آزادی ہے کہ اس زمانہ میں عقل اسارت کی زنجیر سے نجات حاصل کرلے گی۔

اس منور زمانے میں سپاہِ نفس،قوہ عقل کی زنجیروں میں قید ہوجائے گی ۔ اس وقت عقل،نفس پر حاکم ہوگی۔ عقلی آزادی سے انسان بزرگ افکار تک رسائی اور بچگانہ افکار سے رہائی حاصل کرلے گا۔

اسی وجہ سے ہم معتقد ہیں کہ اور تفکر معاشرے کے افراد کے لئے زمانہ ظہور کی اہم خصوصیات اور   خصلتوں میں سے گہری نظر اور بزرگ افکار ہیں۔

یہ بھی  واضحات میں سے ہے کہ جب معاشرے کے افراد میں بزرگ افکار اور دقیق سوچ و فکر کی صلاحیت پیدا ہوجائے تو پھر نہ صرف دینی معارف بلکہ ٹیکنالوجی ، صنعت اور دیگر علوم و فنون میں کیسے حیرت انگیزبدلاؤ ایجاد ہوں گے۔

غیبت کے زمانے کے دوران لاکھوں افرادنئے نکات اور نئی ایجادات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر کچھ محدود افراد ہی اپنے ارادے اور کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں۔

۲۰۹

لیکن عقلی  تکامل کے زمانے میں انسان کمال کے اعلی ٰ ترین درجات پر فائز ہوگا۔ زمانۂ ظہور کے لوگوں کی فکر مؤثر ثابت ہوگی اور وہ جس چیز کے لئے کوشش کریں، جلد ہی اس تک رسائی حاصل کرلیں گے ۔

  اس بارے میں زیارت آل یٰس کے بعد دعا سے درس

حضرت امام  مہدی علیہ السلام کی بہت اہم زیارات میں سے ایک زیارت آل یٰس اور اسی طرح اس کے بعد پڑھی جانے والی دعا ہے جس میں معارف اور اعتقادی مسائل کا بہت بڑا خزانہ مخفی ہے۔اس کے علاوہ اس میں تکامل یافتہ انسانوں کی قدرت کے بارے میں بہت اہم نکات موجود ہیں۔

جو بھی اس زیارت اور اس کے بعد والی دعا پڑھے،وہ خدا وند متعال سے چاہتا ہے کہ اسے بلند مراحل و مقام پرپہنچا دے ۔ اگرچہ ممکن ہے کہ دعا پڑھنے والا کچھ پڑھ رہا ہو وہ اس کی اہمیت و عظمت کی طرف متوجہ نہ ہو۔

یہاں ہم اپنی بحث سے مربوط اس کا ایک نمونہ بیان کرتے ہیں؛

زیارت آل یٰس کے بعد پڑھی جانے والی دعا میں ہم خدا کے حضور عرض کرتے ہیں:

'' و فکری نور النیّات، وعزمی نور العلم '' (1)

میری فکر کو تصمیم و ارادوں کا نور اور میرے عزم و ارادے کو علم کا نور عنایت فرما۔

ممکن ہے کہ اب تک سیکڑوں یا ہزاروں بار یہ دعا پڑھی ہو۔لیکن ابھی تک ہم نے اپنی درخواست اور اس کی عظمت پر غور نہیں کیا ہے ۔

--------------

[1] ۔ صحیفہ مہدیہ:567

۲۱۰

اس دعا سے لیا جانے والا درس یہ ہے :

روشن فکر وہ ہے کہ جو تاریک سوچ و فکر سے نجات پاکرقوّتِ ارادہ کامالک ہواور اس کانفس ارادے کی شکست کا باعث نہ ہو۔اور صاحبانِ عزم و ارادہ وہ  ہیں کہ جن میں علم و دانش کانور روشن ہو اور اس کا وجود علم و آگاہی کے نور سے منوّر ہوا ہو۔

زمانہ ظہور انسان کی بزرگ و درینہ خواہشات کی تکمیل اور بشر کے اعلٰی مقام تک رسائی کا زمانہ ہے۔انسانوں میں روشن افکار اور نورانی ارادوں کی پرورش تکامل کا سبب ہے۔

اس بابرکت زمانے میں افکار میں ارادے کی قدرت و نورانیت ایجاد ہوگی اور لوگوں کے عزم وارادے میں نور اور علم و دانش کے حصول کی توانائی ایجاد ہوگی۔

اس زمانے میں انسانی تفکر کی طاقت کے نہ ہونے اور عزم و ارادے میں سستی سے نجات پاکر علم و آگاہی کی طرف گامزن ہوگا۔

اب یہ واضح سی بات ہے کہ فکری حیات اور ارادوں کی آزادی سے معاشرے میں کیسی علمی ترقی  وجود میں آئے گی۔

  واحد عالمی حکومت

یہاںہم ایک ایسا مطلب بیان کرتے ہیں کہ جو ظہور کے زمانے کے منتظرین کے لئے بہت دلچسپ ہے ۔ وہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے عالمی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس وقت پوری کائنات میں حضرت حجت بن الحسن العسکری علیہ السلام کی حکومت کے علاوہ کوئی حکومت نہیں ہوگی ۔ ساری دنیا کی واحد حکومت آنحضرت کی حکومت ہوگی۔

یہ کہنا ضروری ہے کہ حضرت ولی عصر (عج) کی حکومت کے مقابل میںکوئی اور قدرت نہیں ہوگی پوری دنیا پر امام عصرعلیہ السلام کی واحد حکومت حاکم ہوگی۔

۲۱۱

اس کے علاوہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی حکومت دنیا والوں کے لئے ایسی نعمتیں فراہم کرے گی ۔ مادّی و معنوی لحاظ سے حیرت انگیز ترقی اور اس کے علاوہ پوری دنیا میں علم و دانش کی نعمت فراوان ہوگی۔دنیا کے بڑے بڑے شہروں سے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں تک ہر کوئی ان نعمتوں سے مستفیض ہوگا۔پوری دنیا میں علم و دانش عام ہوگا۔زمین کے ہر خطے میں علمی فقدان ختم ہوجائے گا۔

سب کو آرام ، سکون، راحت اورتمام سہولتیں فراہم ہوں گی ۔ سب لوگوں میں ثروت مساوی طور پر تقسیم ہوگی۔

ان سہولتوں کا عام ہونا اور معاشرے کے تمام افراد کا ان نعمتوں اور سہولیات سے استفادہ کرنا ظہور کے زمانے کی خصوصیات میں سے ہے۔اس مہم مسئلہ کے روشن ہونے کے لئے ہم اس کی مزید وضاحت کئے دیتے ہیں۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ غیبت کے زمانے میں دنیا کے تمام ممالک کے تمام لوگوں کو مال ودولت ، علم و دانش ،قدرت اور ظاہری سہولیات میسر نہیں ہیں ۔ بلکہ دنیا کے ہر ملک کے بعض لوگوں  کے پاس مال و دولت تھا اور اب بھی ہے۔اکثر لوگ مال کے نہ ہونے یا اس کی کمی کی وجہ سے پریشان حال ہیں۔

پوری دنیا میں طبقاتی نظام موجود ہے ۔ خاص طبقہ سہولیات سے استفادہ کر رہا ہے۔ لیکن معاشرے کے اکثر افراد بنیادی حقوق اور سہولیات سے بھی محروم ہیں ۔ لیکن ظہور کے پُر نور زمانے میں ایسا نہیں ہوگا۔

اس زمانے میں طبقاتی نظام اور قومی تبعیضات ختم ہوجائیںگی ۔ علم وحکمت عام ہوگی ۔ طبیعی  دولت معاشرے کے تمام افراد کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوگی ۔ دنیا کے تمام خطوں میں عدالت اور تقویٰ کا بول بالا ہوگا۔دنیا کے سب لوگ عادل اور تقوی ٰ دار ہوں گے۔

ہم نے جو کچھ عرض کیا ۔ اب اس کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت میں پوری دنیا کے لوگ علم و دانش و حکمت، اچھائیوں اور نیکیوں کے مالک ہوں گے۔ہر کوئی ان سے مستفیض ہوگا۔

۲۱۲

اس دن غیبت کے زمانے کی طرح نہیں ہوگا کہ ایک طبقہ زندگی کی ہر سہولت اور ہر جدید صنعتی وسائل سے مستفید ہورہاہولیکن دوسرے افراد زندگی کی بنیادی سہولیات کو بھی ترستے ہوں۔

اس بناء پر ظہور کے زمانے کی علمی ترقی لوگوں کو ہرجدید اور اہم وسیلہ فراہم کرے گی ۔ جوظہور سے پہلے والے وسائل کی جگہ لے لیں گے۔پوری دنیا میں سابقہ وسائل ناکارہ ہوجائیں گے اور لوگ ظہور  کے زمانے کی جدید ایجادات سے استفادہ کریں گے۔

اگر فرض کریں کہ اس بابرکت اور نعمتوں سے بھرپور زمانے  میں کچھ صنائع اپنی خصوصیات برقرار رکھ سکیں تو ان سے استفادہ کرناواضح ہے۔کیونکہ وہ زمانہ دنیا کی تمام اقوام کے لئے خوبیوں کا زمانہ ہوگا۔ اس بناء پر ہم جدید صنعت کو کلی طور پر محکوم نہیں سمجھتے۔لیکن موجودہ صنعت غیبت کے زمانے سے مناسب ہے نہ کہ یہ ظہور کے پیشرفتہ زمانے کے مطابق  ہے۔

اب تک جو کچھ کہا وہ ان کا نظریہ ہے کہ جو  ظہور کے بارے میں خاندانِ اہلبیت علیہم السلام کے فرامین سے آگاہ ہوکر عقلی تکامل اور روشن زمانے کے اسرار و رموز کو جانتے ہیں۔

ممکن ہے کہ ان کے مقابل میں محدودسوچ کے مالک افراد بھی ہوں کہ جو گمان کرتے ہوں کہ وہ دنیا کی تمام ایجادات سے واقف ہیں ۔ ایسے افراد نہ صرف آج بلکہ گزشتہ زمانے میں بھی موجود تھے۔ڈیڑھ صدی پہلے کچھ افراد کا گمان تھا کہ جن چیزوں کو ایجاد کرنا ممکن تھا، انسان نے  وہ سب ایجاد کر لی ہیں ۔ یہاں ہم ایسے ہی کچھ افکار سے آشنا ئی کرواتے ہیں۔

1865ء میں امریکہ میں  نئی ایجادات کرنے والوں کا نام اندراج کرنے والے دفتر کے سربراہ نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ اب یہاں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ اب ایجاد کرنے کے لئے کوئی چیز باقی نہیں رہی۔

۲۱۳

امریکہ کے ماہر فلکیات نے ریاضی کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ جو چیز ہوا سے وزنی ہو وہ پرواز نہیں کرسکتی ۔ لیکن جہاز کی پہلی پرواز کے باوجود بھی وہ اپنی غلطی ماننے کو  تیار نہیں تھا۔بلکہ اپنی غلطی کی غلط توجیہات کرنے لگا کہ جہاز سے کوئی مفید کام نہیں لیا جا سکتا۔

1887 ء م یں ''مارسلن برتولو'' نے اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا:

''اب کے بعد دنیا کا کوئی راز باقی نہیں رہا''

جو زمانۂ ظہور کو غیر معمولی ترقی کا زمانہ نہیں سمجھتے ہیں ۔ وہ ایسے افراد کی طرح ہی سوچتے ہیں۔

ہم نے یہ جو ذکر کیا ہے وہ ایسے لوگوں کا ایک نمونہ تھا۔جو یہ سمجھتے ہیں کہ علم و صنعت کے لحاظ سے دنیا اپنے عروج پر ہے۔یعنی دنیا ترقی کی آخری سیڑھی پر قدم رکھے ہوئے ہے۔

جی ہاں! یہ توہمات گزشتہ صدیوں میں موجود تھے اور اب بھی بعض گروہ انہی میں مبتلا ہیں ۔ ان باطل نظریات میں مزید اضافہ ہو نا بھی ممکن ہے۔

  ظہور یا نقطہ آغاز

اگر ہم کہیں کہ ابتداء ظہور تکامل کا آغاز ہے تو ایسے افراد کے لئے اس کا یقین کرنا مشکل ہو گا ۔ کیونکہ وہ یہ قبول نہیں کرسکتے کہ ظہور کا آغاز ترقی کی ابتداء ہے؟

اس سوال کا جواب بیان کرنے کے لئے اس مطلب کی تشریح کرنا ضروری ہے۔لہٰذا ہم ایسے غلط نظریات کی پیدائش کے علل و اسباب بیان کرتے ہیںتاکہ قارئین محترم جان لیں کہ بعض لوگ یہ نہیں جانتے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے ظہور کے ہمراہ ترقی و پیشرفت اور تکامل کی ابتدا ہوجائے گی؟

۲۱۴

کیونکہ وہ موجودہ دور کو اس قدر ترقی یافتہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس سے بھی ترقی یافتہ دنیا کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں؟

ہم یہاں دو مختصر نکات بیان کرنے کے بعد اس بارے میں تفصیلاً گفتگو کریں گے۔

1 ۔ ایسے افرادموجودہ دنیاکو قدیم دنیا اور گزشتہ زمانے سے مقائسہ کرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ موجودہ دور کو ہی پیشرفتہ ترین  دورسمجھتے ہیں۔

2 ۔ ا یسے افراد آئندہ کی دنیا کے بارے میں کسی قسم کی اطلاع و آگاہی نہیں رکھتے ۔ اسی لئے ان کا کہنا ہے کہ اب ایجاد کرنے کے لئے کوئی اور چیز موجود نہیں ہے۔

 دین یعنی حیات اور صحیح ترقی یافتہ تمدّن

دنیا کے  بہت سے لوگ دین کے حیات بخش اور زندگی ساز منشور سے آگاہ نہیں ہیں۔وہ نہیں جانتے کہ مکتب اہلبیت علیہم السلام نے معاشرے کے تمام پہلوئوں کو مد نظر رکھا ہے اور وہ لوگوں کی تمام ضروریات سے آگاہ ہے ۔ لہٰذا وہ دین کو صرف چند احکامات کا مجموعہ سمجھتے ہیں کہ جس کا تمدّن  اور صنعت کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے۔

ایسے بعض افراد خود ساختہ اور استعماری مکتب کے پیروکار ہوتے ہیں اور وہ تحریف شدہ ادیان کے تابع ہوتے ہیں۔لہذاوہ جس چیز کو قبول کریں ،اسے ہی دین سمجھتے ہیں۔

اگر مکتب اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں میں سے کسی گروہ کے ایسے اعتقادات ہوں تو یہ دین کے آئین اور اصولوں  کے بارے میںمکمل آگاہی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔

۲۱۵

کیونکہ دین کا یہ معنی نہیں ہے کہ انسان ترقی اور صحیح تمدن اور صنعت سے دور ہو۔بلکہ تمدّن اور صنعتی ترقی دین کے زیرِ سایہ وجود میں آتی ہے ۔ پس دین اور دینداری صنعت و تمدّن کی نفی کا نام نہیں ہے۔بلکہ دین کا آئین ہی صنعتی ترقی اور تمدنی ترقی کا ذریعہ ہے۔

تاریخ میں نہ صرف آئندہ بلکہ ماضی میں بھی ایسے دور گزرے ہیں کہ جب بزرگ دینی تمدن نے لوگوں کو اپنے دامن میں جگہ دی۔اس وقت کے لوگ علم و صنعتی ترقی کے مالک تھے کہ ہمارا آج کا متمدّن دور جسے لانے سے عاجز ہے۔

یہ نہ صرف تاریخ کے صفحات میں بلکہ بعض امکانات میں ایسے ترقی یافتہ تمدن کے آثار موجود ہیں کہ اب بھی انسان جن کی عظمت کو درک کرنے سے قاصر ہے۔

ہم آپ کے لئے اس کا ایک نمونہ ذکر کرتے ہیں تاکہ یہ بخوبی واضح ہوسکے کہ دین کبھی بھی ترقی اور تمدن کا مخالف نہیں تھا۔بلکہ مذہبی حکومت خود صحیح تمدّن لانے کا عامل ہے۔

آپ حضرت سلیمان علیہ السلام  کی دینی حکومت کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

کیا حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو معبد بنایا تھا اور اب بھی اس کے ایسے آثار موجود ہیں کہ جنہیں اب تک پہچانا گیا۔کیا آپ اس سے آگاہ ہیں؟

اب اس بارے میں مزید جاننے کے لئے یہ واقعہ ملاحظہ کریں۔

تقریباً دو صدیاں پہلے ''بنیامین فرینکلن ''نے برق گیر ایجاد کیا۔یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔

یہ امر بھی مسلم ہے کہ تقریباًتین ہزار سال پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کا معبد چوبیس بر ق گیر سے تیار کیا گیا تھا۔معبد کوہرگز شارٹ سرکٹ کاخطرہ نہیں تھا۔ ''فرانسوا آراگو ''نے اٹھارویں صدی میں اس بارے میں یوں وضاحت کی۔

۲۱۶

معبد کی چھت کو انتہائی ظرافت سے تعمیر کیا گیا تھا،جسے ضخیم ورق سے ڈھانپا گیا تھا اور پوری چھت کو فولاد سے تیار کیا گیا تھا۔لوگ کہتے ہیںکہ چھت کی تیاری میں ان سب چیزوں کا استعمال صرف اس وجہ سے تھا کہ اس پر پرندے نہ بیٹھیں۔

معبد کے سامنے ایک حوض تھا کہ جو ہمیشہ پانی سے لبریز ہوتا۔اب ہمارے پاس ایسے شواہد و قرائن موجود ہیں کہ جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ برق گیر کسی ہدایت کرنے والی کی ہدایت کا نتیجہ ہیں ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہم اب تک ایسے مسائل سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔

اسی طرح معبد بیت المقدس کو بھی گزشتہ صدیوں کا کامل نمونہ قرار دے سکتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے تھا اور اب بھی اسی طرح باقی ہے۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام  اور ان کی آرٹیٹکٹ برق گیر کے راز سے آگاہ تھے۔ لیکن انہوں نے یہ راز دوسروں کو کیوں نہیں بتایا؟کسی سے اس بارے میں بات کیوں نہیں کی؟

اب تحقیق و جستجو کرنے والے دانشور کہ جنہوں نے وادی علم میں قدم رکھے ہیں ۔ جو بہت سے مجہولات کو معلومات میں تبدیل کرتے ہیں، اب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کو سلجھائیں اور اس کا صحیح جواب معلوم کریں۔(1)

جیسا کہ آپ نے غور کیا کہ انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ہم اب تک ایسے امکانات اور وسائل میں سے کسی ایک سے مستفیض نہیں  ہو سکے۔

یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں علمی اور صنعتی ترقی کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا۔یہ اس بات کی  دلیل ہے کہ دین اورالہٰی حکومت صنعت اور ٹیکنالوجی کی نفی نہیں کرتے۔بلکہ وہ خود انہیں وجود میں لاتے ہیں۔

--------------

[1]۔ تاریخ نا شناختہ بشر:11

۲۱۷

اس کی اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت میں ایسی سہولتوں سے استفادہ ہوتا تھا ۔ لیکن آج کا متمدن معاشرہ اور ترقی یافتہ انسان ان سے مستفید ہونے سے عاجز ہے۔ قرآن کریم کی آیات اور اہلبیت علیھم السلام کی روایات میں ان کی تصریح ہوئی ہے۔

آج کی دنیا ترقی و پیشرفت اور علم و تمدن کے دعوں کے با وجود فزیکل وسائل کے بغیر ایک قلم کو دنیا کے ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک منتقل کرنے سے عاجز ہے۔لیکن حضرت سلیمان  علیہ السلام    کا شاگر ایک بار آنکھ جھپکنے کے ذریعہ بلقیس کے تخت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی قدرت رکھتا تھا ۔ اس نے یہ کام عملی طور پربھی انجام دیا۔

یہ واضح دلیل ہے کہ انسان کو عظیم قوت و طاقت کے حصول کے لئے مابعد مادّہ قدرت کی ضرورت ہے۔ جب تک اسے یہ قدرت حاصل نہ ہو تب تک وہ مادہ کی قید ہی میں رہے گا یعنی زمان ومکان کے تابع رہے گا ۔ مابعد مادہ قدرت کا حصول دین کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔

اس بناء پردین نہ صرف علم و دانش کی ترقی کے لئے  مانع نہیں ہے بلکہ دین خود ترقی و پیشرفت اور جدید ٹیکنالوجی اور صحیح صنعت وجود میں لانے کا اصلی سبب ہے۔

دنیا حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی الہٰی حکومت میں ایسی اہم ترقی کی شاہد ہوگی۔اس وقت انسان نہ صرف معنوی مسائل کی اوج پر ہوگا بلکہ جدیدترین ٹیکنالوجی و صنعت کا بھی مالک ہوگا۔

ہمیں  چاہیئے کہ ہم اپنے پورے وجود اور خلوص سے خداوند متعال سے اس بابرکت دن کی جلد آمد کی دعا کریں اور خود کو اس با عظمت زمانے  کے لئے تیار کریں۔ یہ بھی جان لیں  کہ انسان کی خلقت کا مقصد قتل غارت،ظلم و ستم، فساد اور ظالم و جابر حکومت  تشکیل دینا نہیں تھا ۔ بلکہ الہٰی حکومت کی تشکیل اور اسے استقرار و دوام دینے کے لئے کوشش کرنا  ہے۔لیکن اب تک ظالم اس راہ میں مانع  ہیں۔

۲۱۸

ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ظہور کے تمام موانع برطرف کرکے جلد از جلد حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی حکومت قائم فرمائے اور ہمیں حضرت ولی عصرعلیہ السلام کے خادموں میں شمار فرمائے۔

 صحیح اور جدید ٹیکنالوجی فقط دین کے زیر سایہ ممکن ہے

اب ایک اہم حیاتی نکتہ کی تشریح کرتے ہیں۔یہ نکتہ پڑھنے کے بعد قارئین محترم کا دین کے پیشرفتہ آئین کے بارے میں نظریہ تبدیل ہوجائے گا۔

اس نکتہ کو بیان کرنے سے پہلے ایک مختصر مقدمہ بیان کرتے ہیں ۔ وہ یہ ہے کہ انسان فقط ایک مادّی موجود و مخلوق نہیں ہے۔ کیونکہ انسان روح بھی رکھتا ہے۔ لیکن کیا انسان صرف جسم اور روح سے مرکب ہوا ہے؟ یا نفس اور جسم سے مرکب ہوا ہے؟ یا انسان روح ،عقل، نفس اور جسم کے مجموعہ کا نام ہے؟

یہ بہت اہم سوال ہیں کہ انسان کا وجود کن چیزوں سے تشکیل پایا ہے؟ گزشتہ زمانے سے ادیان کے پیروکاروں نے اس بارے میں بحث کی اور انہوں نے اپنی فہم کے مطابق جو چیزیں درک کیں، انہیں ہی بیان کیا۔ ان تمام نظریات کے کچھ طرفدار ہیں اور ہر کوئی اپنا نظریہ ثابت کرنے کے لئے کچھ دلائل پیش کرتے  ہیں۔

ہمیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان روح اور جسم سے مرکب ہے اور وہ مستقلاً عقل و نفس کا مالک ہے، یا یہ دونوں روح اور جسم کے تابع ہیںیا یہ ان دونوں سے ایجاد ہوئے ہیں؟

کیونکہ ان عقائد و نظریات میں سے ہر ایک میں روح مستقل وجود رکھتی ہے نہ کہ یہ انسان کے جسم کے تابع ہے۔

ہم نے مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کی پیروی سے یہ مطلب سیکھا کہ روح مستقل وجود رکھتی ہے۔ لیکن بعض مادّی مکاتب اس کے بر خلاف روح کو جسم کے تابع سمجھتے ہیں۔

۲۱۹

  موجود ایجادات میں نقص

روح کے آثار اور روحانی قوّت کے نتیجہ کی بحث میں اس اہم نکتہ کا اضافہ کرتے ہیں کہ دنیا نے اب تک صنعت اور ٹیکنالوجی کے عنوان سے لوگوں کو جوکچھ عطا کیا ہے ۔ وہ ایسی ایجادات تھیں کہ جنہوں نے انسان کی روح کو جسم کا اسیربنا کر رکھ دیاتھا اور اسے جسم کا محتاج بنادیاتھا۔ان میں کوئی ایسی روحانی قوّت موجود نہیں ہے کہ جو انسان کے جسم کو روح کے تابع قرار دے۔

یہ موجودہ ٹیکن الوجی کابہت بڑا نقص ہے ۔ افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ غیبت  کے زمانے کے دانشور اس بارے میں کوئی صحیح پروگرام حاصل نہیںکرسکے۔

البتہ یاد رکھیں کہ ہمارا یہ کہنا کہ زمانۂ غیبت کی ٹیکنالوجی میں نقص و عیب پایا جاتاہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم اس زمانے کے برق رفتار وسائل کا بگھی اور تانگہ وغیرہ سے مقائسہ نہیں کررہے۔ لیکن خدا نے انسان کے وجود میںبے شمار قوّتیں قرار دی ہیں ۔ انہیں کی تخلیق کی وجہ سے وہ خود کو''احسن الخالقین'' قرار دیتے ہوئے فرماتاہے:

'' فَتَبَارَکَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْن '' (1)

اس عظیم مخلوق پر توجہ کریں تومعلوم ہوگا کہ انسان نے اپنے وجود کے ایک پہلو سے ا ستفادہ کیا ہے۔ لیکن دوسرے پہلوؤں کو فراموش کردیا ہے۔

ہمارا یہ کہنا ہے کہ انسان میں روح بھی ہے۔ لہذاہ میشہ روح کو جسم کے تابع قرار نہ دیں۔انسان کو یہ سوچنا چاہیئے کہ انسان اپنے وجود کے دوسرے پہلوؤںسے استفادہ کرکے جسم کو روح کے تابع قرار دے۔ یوں وہ خود کو مادّہ اور زمانہ کی قید سے آزادکرے۔ لیکن زمانۂ غیبت کی تمام ایجادات مادّی  تقیّدات سے مقید ہیں۔

--------------

[1]۔ سورہ مؤمنون، آیت: 14

۲۲۰