امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 162809
ڈاؤنلوڈ: 3592

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162809 / ڈاؤنلوڈ: 3592
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 ''ڈل گاڈو'' نے بُل فائٹنگ کا مخصوص لباس بھی زیبِ تن نہیں کیا ہوا تھا اس نے تلوار کے بجائے ایک چھوٹا  سا ''ترکش'' پکڑا ہوا تھاکہ جس پر کچھ بٹن نصب تھے۔وحشی بیل بہت تیزی سے ''ڈل گاڈو''کی طرف بڑھ رہا تھا ۔صرف ایک لمحہ باقی تھا کہ بیل،ڈل گاڈو کو اٹھاکر ہوا میں پھینک دے۔ہر کسی کی آنکھیں صرف اسی منظر پر جمی ہوئیں تھیں۔کسی کو خبر نہیں تھی کہ کیا ہوگا؟

 ''ڈل گاڈو'' نے ایک بٹن دبایا تو بیل رک گیا،اس نے ڈل گاڈو کی طرف دیکھا اور بے ساختہ آہستہ اور مغموم حالت میں اپنی پہلے والی جگہ کی طرف واپس جانے لگا۔لوگ ابھی تک خوف زدہ تھے کہ اگر وہ چیخیں تو بیل دوبارہ غصے میں نہ آجائے لیکن اب بیل غصے میں نہ تھا۔ ڈل گاڈو نے بیل کے دماغ میں ایک چھوٹی سی سم نصب کی تھی کہ جس سے اس نے بیل کو واپس جانے کا حکم صادر کیا۔نہ صرف اس نے بیل کو واپس لوٹنے کا حکم دیا بلکہ اس کے غصے کو بھی ختم کردیا۔بیل اپنی جگہ سے واپس چلا گیا اور پھر سب لوگوں نے دیکھا کہ ایک بٹن دبانے سے وہ بیل پھر سے ڈل گاڈو کی طرف بھاگا اور دوبارہ بٹن دبا کر ڈل گاڈو نے اسے واپس لوٹنے اور غصہ ختم کرنے کا حکم دیا۔بیل پھر واپس اپنی جگہ چلا گیا۔

تماشائیوں نے شور مچانا شروع کیا ۔لیکن بیل پھر بھی بڑے آرام سے بیٹھا رہا۔یہ تجربہ کئی بار کیا گیا اور ہر بار  تجربہ کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ بیل کے ذہن میں ایک چھوٹی سی الیکٹرک سِم کے ذریعے بیل کو اپنے کنٹرول میں کرسکتے ہیں(1)

 حیوان کو انجکشن لگا کر بیہوش کرتے ہیں اور اس کے سر چاقو کے ذریعے چاک کرکے آپریشن کرتے ہیں۔کھوپڑی کی ہڈیوں میں سوراخ کرتے ہیں اور اس میں ایک چھوٹی سی سِم نصب کردیتے ہیں کہ جس کا کچھ حصہ سر سے باہر ہوتا ہے۔پھر زخم پر پٹی باندھ دی جاتی ہے تاکہ زخم ٹھیک ہوسکے۔

--------------

[1]۔ عجائب حس ششم:54

۴۱

بیٹری کے ذریعہ کام کرنے والے آلہ کی مدد سے لہروں کو سرمیں موجود سم سے جوڑا جاتا ہے۔اس آلے کا کام یہ ہے کہ وہ الیکٹرسٹی کی کچھ مقدار کو حیوان کے دماغ تک پہنچائے تاکہ یہ اس کے ذہن کو متحرک کرے۔(1)

 1960 ء م یں محققین کے ایک گروہ نے ایسا طریقہ دریافت کیا کہ جس کی مدد سے خارج میں ایک بجلی کا آلہ تیار کر کے اس سے دماغ کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔اس میں دماغ میں الیکٹرک سم ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں۔اس بارے میں ہونے والے تجربات میں یہ سب سے آسان اور سادہ طریقہ ہے ۔(2)

  الیکٹرک پاور سے بڑی قوّت

ظہو ر کے درخشاں زمانے میں نہ تو سرجری کے کسی چاقو کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی دماغ میں الیکٹرک سم رکھنے کی ضرورت ہوگی ۔کیونکہ اس وقت الیکٹرک پاور سے بڑی قوّت، دنیا کو اپنے احصار میں لے لے۔ تمام اشیاء حتی کہ حیوانات کے دماغ میں بھی انوارِ ولایت جلوہ گر ہوں گے۔جس سے نظامِ کائنات میں عجیب تحولا ت رونما ہوں  گے۔

اب ان حیرت انگیز اور عجیب تغیّرات کے بارے میں رسول اکرم (ص)کے فرام ین پرغور فرمائیں۔

اس روز حیوانات کے دماغ اورعصبی نظام میں تحوّلات کے بارے میں حضرت رسول اکرم (ص)یوں فرماتے ہیں:

--------------

[1]۔ عجائب حس ششم:5۸

[2]۔ عجائب حس ششم:6۵

۴۲

'' یقول الرجل لغنمه و لدوابه:اذهبوا فارعوا فی مکان کذا و کذا و تعالوا ساعة کذا و کذا،تمر الماشیة بین الزرعین لا تأکل منه سنبلة و لا تکسر بظلفها عوداً،والحیات والعقارب طاهرة لا تؤدی احد و لا یؤذیها احد، والسبع علی ابواب الدور تستطعتم لا تؤذی احداً……'' (1)

اس ددن لوگ اپنی بھیڑ بکریوں اور چارپایوں کو کہیں گے کہ جائو اور فلاںجگہ جاکر چرو اور فلاں وقت واپس لوٹ آؤ۔اس دن حیوانات دو زراعت کی فصلوں سے گزریں گے لیکن فصل کا ایک خوشہ بھی نہیں کھائیں گے۔کوئی اپنی لاٹھی سے درخت کو شاخوں کو نہیں توڑے گا۔سانپ اور بچھو آزاد پھریں گے لیکن وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے اور کوئی انہیں اذیت نہیں پہنچائے گا۔

درندے حیوانات خوراک طلب کرنے لوگوں کے دروازوں پر آئیں گے اور کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

حیوانات کے شعور میں تکامل و پیشرفت کے بارے میں وارد ہونے والی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ چارپائے لوگوں کے دستورات کو درک کرنے کی قدرت رکھتے ہوں گے۔اور وہ اپنے مالکان کے فرمان کو سمجھ سکیں گے اور ان کی اطاعت کریں گے۔

اسی وجہ سے کسی کو چارپایوں کے ساتھ چراگاہ جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔انہیں چرنے کے لئے زمان و مکان بتا دیا جائے گاتو وہ اپنے مالکوں کی طرف سے صادر کئے گئے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے معین شدہ چراگاہ جائیں گے اور معین وقت پر واپس لوٹ آئیں گے۔

نہ صرف انسانوں کا حیوانات سے باتیں کرنا ممکن ہے۔ بلکہ تاریخ میں ہمیں ایسے بہت سے موارد ملتے ہیں کہ جن میں حیوانات نے پیغمبروں،آئمہ اور اولیائِ خدا سے گفتگو کی۔

--------------

[1] ۔ التشریف بالمتن:203

۴۳

بھیڑئے کا حضرت ابوذرسے بات کرکے انہیں رسول معظم اسلام(ص)ک ی بعثت کی خبر دینا،اس کا ایک نمونہ ہے۔

ہم نے جو روایات ذکر کی۔اس میں رسول  اکرم(ص)نے انسانوں ک ی چارپایوں سے بات کرنے کے مورد کو بیان فرمایا۔یہ ظہور  کے زمانے کی خصوصیات میں سے ہے۔جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی تصریح بھی ہوئی ہے۔

حالانکہ حیوانات،قوة عقل سے عاری ہوتے ہیں۔لیکن ظہور کے درخشاں زمانے میں ان کے اعصابی نظام میں تصرّف اور ان میں تغیر و تحول سے حیوانات میں مہم تغیرات ایجاد ہوں گے۔

خلقت کی دنیا میں حیوانات اس طرح سے خلق ہوئے ہیں کہ ان کے اعصابی نظام میں تغیر وتبدل ان میں تازہ افعال کو انجام دینے کا سبب بنے گا۔میں اس تغیرو تحول لا منشاء ان کے وجود میں خدا نے نظامِ خلقت سے ہی قرار دیا ہے۔

  ایک اہم سوال اور اس کا جواب

ظہور کے درخشاں و منوّر زمانے میں حضرت مہدی  علیہ السلام کے شفا بخش اور مبارک ہاتھوں سے انسان کی عقلی قدرت میں افزائش ایسے مسائل میں سے ہے کہ جن کے بارے میں خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام کی روایات میں بھی وارد ہوا ہے۔اس کتاب میں یہ وضاحت سے ذکر ہوئے ہیں۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حیوانات میں وجود میں آنے ولاے تحولات اور ان کے اعصابی نظام میں تصرّف اور حیوانی شعور میں ہونے والی پیشرف کی کیا صورت ہوگی؟

یہ درست ہے کہ انسان کو حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے شفا بخش ہاتھوں سے عقلی تکامل اور روحانی قدرت میں افزائش حاصل ہوگی۔لیکن حیوانات میں ایجاد ہونے والے تحولات کس طرح انجام پائیں گے؟

۴۴

ہم اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ شیطانی وائرس سے متأثر انسانی دماغ امامِ عصرکے دستِ مبارک سے شفا پائے گا اور ان کے عقلی خزانے پر لگے قفل کھل جائیں گے۔ان میں مخفی قدرت ظاہر ہوگی اور اسے بروئے کار لایا جائے گا۔

لیکن اس اہم ترین نکتہ کو مد نظر رکھیں کہ ظہور کے زمانے میں انسانوں کا تکامل،اور اس عظیم اور حیرت انگیز قدرت تک رسائی کے مختلف عوامل ہیں کہ جن تک لوگ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج)  کے وسیلہ سے پہنچ پائیں گے۔ان عوامل میں سے ایک آنحضرت  کے شفا بخش دستِ مبارک ہیں۔

  حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کا تابناک نور

اس زمانے کے مہم تحوّلات  و تغیّرات میں سے ایک حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کا تابناک نور ہے کہ جو  پوری کائنات پر پھیلا ہوگا اور جو دنیا کو سورج کے نور سے بھی بے نیاز کردے گا۔

جس طرح سورج کا نور دنیا کے ذرات پر مہم ،حیاتی اور لازمی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اسی طرح   اس زمانے میں ظاہر ہونے والاحضرت بقیة اللہ الاعظم (عج)  (جو نور اللہ ہیں) کا تابناک و درخشاں نور پورے عالم میں عظیم تحوّلات کو جنم دے گا ۔جو عالم ِ خاکی کو عالم ِ پاکی میں تبدیل کردے گا۔

  حیوانات کی زندگی پر تحقیق

اب یہ واضح ہوگیا کہ اس دن کا نور بہت سے حیوانات کی زندگی میں واضح آشکار اثرات مرتب کرے گا ۔ہم حیوانات کی زندگی کے بارے میں بحث کرنے کے بعد اب اس کے کچھ نمونے نقل کرتے ہیں ۔

۴۵

 کروڑوں حیوانات کی زندگی ،ان کی پیدائش اور ان کی خلقت کے راز سے آشنا ہونے اور ان پر تدبر و تفکر کرنے سے ان کے عظیم اور با قدرت خالق پر انسان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جس طرح خدازمین و آسمان اور انسانوں کی خلقت کو اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر بیان فرماتا ہے۔ اسی طرح وہ حیوانات کی خلقت کو بھی اپنی توانائی و قدرت کی نشانی کے طور پر بیان فرماتا ہے۔''وَ مِن آیاتِهِ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرْضِ وَ مَا بَتَّ فِیهِمَا مِنْ دَابَّةِِ '' (1)

اور اس کی نشانیوں میں سے زمین و آسمان کی خلقت اور ان کے اندر چلنے والے تمام جاندار ہیں۔

اسی طرح قرآن میں ارشاد خدا وند ہے:'' وَفِیْ خَلْقِکُمْ وَمَا یَبُثُّ مِن دَابَّةٍ آیَات لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَ '' (2)

اور تمھاری خلقت میں بھی اور جن جانوروں کو وہ پھیلاتا رہتا ہے،ان میں بھی صاحبان یقین کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔

خداوند کریم سورہ انعام میں ان کے اجتماع کے بارے میں فرماتا ہے :

'' وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْْهِ ِلاَّ أُمَم أَمْثَالُکُم مَّا فَرَّطْنَا فِی الکِتَابِ مِن شَیْْء ٍ ثُمَّ ِلَی رَبِّهِمْ یُحْشَرُونَ'' (3)

اور زمین میں کوئی رینگنے والا یا دونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نہیں ہے جو اپنی جگہ پر تمہاری طرح کی جماعت نہ رکھتا ہو۔ہم نے کتاب میں کسی شیء کے بیان میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔اس کے بعد سب اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔

--------------

[1]۔ سورہ شوریٰ آیت:29

[2]۔ سورہ جاثیہ آیت:4

[3]۔ سورہ انعام آیت:38 

۴۶

اس آیہ شریفہ میں خدا وند تعالی حیوانات کے گروہ گروہ ہونے کو بیان فرمایا ہے۔

حیوانات کی زندگی میں دقت سے انسان قادر و مختار خالق کے وجود پر اپنے ایمان و اعتقاد کو مزیدمحکم کرتا ہے۔ہم یہاں حیوانات کی زندگی کا ایک چھوٹا سا نمونہ نقل کرتے ہیں کہ جو حیوانات کے گروہ گروہ ہونے پر شاہد ہے۔ نیز یہ دلالت کرتا ہے کہ سورج کی تپش میں اضافہ اور دن کا طولانی ہونا،کس طرح سے سے ان کے اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے اور کس طرح سے ان کی زندگی میں تحوّل ایجاد کرتا ہے۔

مختلف انواع و اقسام کے لاکھوں پرندے گرمیوں کے آخر میں ایسے مقامات کی طرف ہجرت کرتے ہیں کہ جہاں سردیوں میں آب و ہوا نسبتاًگرم ہو اور پھر سردیوں کے آخر میں اپنے اصلی وطن کی طرف واپس چلے جاتے ہیں۔

بعض پرندے ہرسال ہجرت کے سفر میں32 ہزار کلو م یٹر سے زیادہ پرواز کرتے ہیں ۔وہ اپنے آبائی مقام کو دقت سے یاد رکھتے ہیں۔ان پرندوں میں سے بعض تنہا اور بعض ایک ساتھ مل کر ہجرت کرتے ہیں۔

دن لمبے ہونے  کے ساتھ ہی پرندوں کی ہجرت کا آغاز ہوجاتا ہے۔دنوں کا طولانی ہونا،ان کے اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے۔جب دن چھوٹے ہوجاتے ہیں تو پرندوں کا عصبی نظام خاص پیغام دریافت کرتا ہے کہ گرم علاقوں کی طرف ان کی پرواز کا موجب بنتا ہے۔جب دنوں میں معین  حد تک اضافہ ہوجائے تو ان کے ذہن کو ایک دوسرا پیغام موصول ہوتا ہے کہ جو ان کے اپنے آبائی وطن میں واپس آنے کا باعث بنتا ہے۔(1)

ہم منتظرہیں اور ہمیں امید ہے کہ جلد از جلد حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کے تابناک نور کے طلوع ہونے سے پوری دنیا میں عظیم تحوّلات وجود میں آئیں گے اور حیوانات،جمادات،نباتات اور انسانوں کے وجود میں  ترقی و پیشرفت کے نئے دور کا  آغازہو گا ۔یعنی اس دن جب زمین اور زمین میں موجود دوسری اشیاء بہتر صورت میں تبدیل ہوجائیں گی۔

--------------

[1]۔ پرسشہائے عجیب،پاسخہائے عجیب تر:2 98

۴۷

دوسراباب

قضاوت

    قضاوت کے بارے میں بحث

    آغاز ظہور میں قضاوت اپنی اوج پر

    ظن و گمان کی بنیاد پر قضاوت

    قضاوت میں فہم و فراست

    قضات، امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے قضاوت سیکھیں

    حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام

    بحث روائی

    قضاوتِ اہلبیت علیہم السلام اور حضرت دائود علیہ السلام

    امام مہدی علیہ السلام کے فیصلے

    زمانِ ظہور میں امام عصر علیہ السلام کے قاضیوں کے فیصلے

    بحث کے اہم نکات

۴۸

 قضاوت کے بارے میں بحث

کفار و منافقین کے لشکر کی شکست اور دنیا کے ستمگروں کی نابودی سے پوری کائنات میں حکومت عدل ِ الٰہی مستحکم ہوگی۔ظالموں اور ستمگروں کے نامہ اعمال کی چھان بین کی جائے گی اور اگر کوئی روئے زمین پر کسی پہ ظلم کرے تو اسے برطرف کرکے اس کا جبران کیا جائے گا۔

کیونکہ پوری دنیا میں ظلم و ستم کو ختم کرنے کا مقصد صرف اپنی رعایا پر ظلم و ستم کرنے والے بادشاہوں اور حکمرانوں کو نابود کرنا نہیں ہے۔بلکہ سب ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔چاہے انہوں نے کسی ایک ہی فرد پر ظلم کیوں نہ کیا ہو۔اس وقت تمام مظلومین،ظالموں کے شرسے نجات پائیں گے۔یہ صحیح ہے کہ دوسروں پر ظلم کرنے والے بہت سے ظالم ،خود کو ظالم نہیں سمجھتے اور وہ انجام دیئے  گئے ظلم و ستم کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔یہ ظالموں اور مظلوموں کے درمیان اختلاف کا باعث ہوگا۔کیونکہ ظالم اپنے تمام افعال کو عدل کا  لبادہ پہنائیں گے اور مظلوم انہیں ظلم قرار دیں گے۔ہر کوئی خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم شمار کرے گا۔

ایسے موارد میں دونوں میں سے کسی کو بھی انجام دیئے گئے امور میںاختلاف  و اعتراض نہیں ہوگا۔ان کے اختلاف کی وجہ  یہ ہوگی کہ کیا وہ کام ظالمانہ تھا یا نہیں تھا!بعض موارد میں ظالم اپنے ظلم کا انکار کریں گے ۔وہ یہ قبول نہیں کریں گے کہ انہوں نے ایسا کام انجام  دیا ہے ۔یہ دو افرا د  یا دو گروہوں کے  درمیان اختلاف کے  دو نمونے ہیں۔

ایسے موارد میں قضاوت کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ علم و یقین سے ظالم و مظلوم کو ایک دوسرے سے تشخیص دے سکیں اور ظالم سے مظلوم کا حق لیا جائے۔یہ بھی واضح ہے کہ بہت سے موارد میں طرفین میں سے کوئی بھی ایسا شاہد و گواہ نہیں لاسکے گا کہ جس کی شہادت قابل قبول ہو۔

۴۹

اس صورت میں فقہی مسائل کی رو سے یمین و قسم کا دامن تھاما جائے گا۔لیکن ممکن ہے کہ منکر جھوٹی قسم کھاکر دوسرے کے حق کو پامال کرے اور ظالمانہ طریقے سے اس کا حق غصب کرے۔اسی طرح ممکن ہے کہ جھوٹی گواہی کے ذریعہ بھی صاحبِ حق کے حق کو  پامال کیا جائے۔

  آغاز ظہور میں قضاوت اپنی اوج پر(1)

جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ امام عصر (عج) کی حکومت کے آغاز سے ہی پاکسازی  اور ظلم و ستم کو رفع کرنے کا آغاز ہوجائے گا ۔اسی وجہ سے ظہور کے آغاز میں ہی قضاوت کا مسئلہ اپنی اوج پر ہوگا تاکہ صحیح اور عادلانہ قضاوت کے ذریعے ظالموں اور ستمگروں سے مظلومین کا حق لے کر حقدار کو دیا جائے ۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس با شکوہ  زمانے میں حقائق و واقعات کی روشنی میں فیصلے کئے جائیں گے  اور اس وقت قضاوت کے مسئلہ میں کسی قسم کا شک و شبھہ باقی نہیں رہ جائے گا۔

اس زمانے میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) جن افراد کو لوگوں کے درمیان قاضی کے عنوان سے معین فرمائیں گے ،وہ غیبی امداد سے سرشار ہوں گے اور تکامل عقل اور تہذیبِ نفس کی وجہ سے کبھی بھی ان کے دل میں ظالم کے حق اور منافع میں فیصلہ کرنے کا خیال بھی پیدا نہیں ہوگا ۔وہ خود کو خدا کے حضور اور حضرت ولی عصر (عج)  کے محضر مبارک میں پائیں گے ۔اسی وجہ سے وہ حق کا حکم صادر کریں گے۔

--------------

[1]۔ یہ واقعہ ظہور کے آغاز میں واقع ہو گا اور حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی ربّانی و آفاقی اور اجتماعی حکومت   کے قائم ہونے کے بعد عدل و انصاف اپنی اوج پر ہو گا  پھر کسی طرح کے اختلافات نہیں ہوں گے کہ جس کے لئے قضاوت کی ضرورت پیش آئے۔

۵۰

قابل توجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں عقلوں کے تکامل کی وجہ سے لوگ بھی عادلانہ حکم کے اجراء  اور اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔یہ حضرت ولی عصر (عج) کی عادلانہ حکومت کا لازمہ ہے۔

اس زمانے میں قاضی تذکیہ نفس اور غیبی امداد جیسی صفات کی بناء پر صحیح حکم صادر کرکے فتنہ کی آگ کو خاموش کریں گے اور عدل کے حکم سے ظلم کو نابودکریں گے ۔اس طرح سے وہ ظلم و ستم کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں گے اور عدل و انصاف کی بنیادوں کو مضبوط کریں گے۔

ظہور  کے زمانہ میں ظلم و ستم کے نابود ہونے والے موارد میں سے ایک ظالمانہ قضاوت ہے۔یعنی ایسی قضاوت کہ جسے قاضی شخصی اغراض کی وجہ سے انجام دیتے ہیں۔

کیونکہ یہ واضح ہے کہ اگر قاضی خود ساختہ نہ ہواور وہ خود کو محضرِ خدا میں نہ دیکھے تووہ جو حکم صادر کرے گا ،اس سے نہ صرف ظلم و ستم کے درخت کی جڑیں کھوکھلی نہ ہوں گی ،بلکہ وہ اپنے فیصلے سے ظلم وستم کے اس درخت کی آبیاری بھی کرے گا ۔اب ہم جو داستان ذکر کر رہے ہیں،وہ اس کا ایک نمونہ ہے۔

ایک شخص نے اپنے کتے کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردیا۔لوگ غصے میں آگ بگولہ ہوگئے،انہوں نے اسے بہت زد و کوب کیااور اسے نیم مردہ حالت میں قاضی کے سامنے پیش کیا گیا۔قاضی نے اس سے سابقہ عداوت کی وجہ سے اور فتنے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اسے آگ میں جلانے کا حکم صادر کیا۔

اس شخص نے فریاد کی کہ میری التجا بھی سنیں۔قاضی نے اسے بولنے کی  اجازت دی۔

اس گناہگا ر نے کہا!جب کتے کی موت قریب آئی تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔بے زبان جانور کی زبان پر لگی مہر ٹوٹ گئی اور وہ ہم انسانوں کی طرح بولنے لگا۔

۵۱

اس نے میرا نام لے کر مجھے وصیت کی کہ میری میراث فلاں درّے میں فلاں پتھر کے نیچے پوشیدہ ہے۔وہاں سے وہ مال و زر لے لینا اور مجھے صالحین کے قبرستان میں دفن کردینا اور اس مال کا آدھا نزدیکی قاضی کو دے دینا تاکہ وہ اسے نیک امور میں صرف کرے اور مجھے دعائے خیر میں یاد رکھے۔

جب میں نے کتے کو بولتاہوا دیکھا تو مجھے اس کی بات پر یقین ہوگیا۔میں نے درّے میں جاکر  وہ مال بھی دیکھا کہ جو وہاں موجود تھا۔

قاضی نے آدھے مال کی لالچ میں کہا! سبحان اللہ، یہ حیوان اصحابِ کہف کے کتے کی نسل سے تھا لہٰذا تم نے اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرکے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔(1)

ہم نے جو داستان نقل کی ہے ۔وہ ایسے قاضی کی قضاوت کو بخوبی بیان کرتی ہے کہ جس نے اپنے مقام و منصب کی عظمت کو نہیں سمجھاجس نے خود کو محضرِ خدا میں نہیں دیکھا اور جو رشوت  لے کرفیصلہ کرتا تھا ۔ لہذا قضاوت کے لئے وسیع علم و آگاہی کا ہونا ضروری ہے تا کہ دنیا میں ظلم و ستم جھوٹی قسموں کے پردے میں باقی نہ رہ جائے ۔

یہی وہ مقام ہے جہاں غیبی امداد اور معنوی قوت و طاقت کی ضرورت  کو محسوس کیا جا سکتا ہے کہ جو ظلم و ستم کو ادامہ دینے والی ہر چیز کو ختم کرے اور ظلم و ستم کا سدّ باب کرے ۔ چاہے یہ جھوٹی قسمیں ہوں یا خریدے ہوئے جھوٹے گواہ ۔اگر ظالموں اور ستمگروں کو بے لگام چھوڑ دیا گیا اور انہیں ان کے ظلم سے نہ روکا گیا ۔ تو پھر زمان غیبت اور ظہور کے درخشاں زمانے میں کیا فرق ہوگا؟پھر اس دن کو کس طرح سے عدل و انصاف، حکومت عدل اور ظالموں کی نابودی کا دن قرار دے سکتے ہیں؟

--------------

[1] ۔ دوازدہ ہزار مثل فارسی:60

۵۲

  ظن و گمان کی بنیاد پر قضاوت

اس زمانے میں نفاذِ عدالت کے لئے لوگوں میں علم و آگاہی اس قدرزیادہ ہوگی کہ کبھی بھی ظن وگمان اور شخصی فہم وادراک کی بناء پر کوئی حکم صادر نہیں کیا جائے گا۔کیونکہ ظن و گمان پر اطمینان،عادلانہ  حکومت کے منافی ہے۔ ایک حکومت فقط اس صورت میں عادلانہ حکومت بن سکتی ہے کہ جب اس میں حقیقت  کے مطابق اور علم کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔لیکن اگر ظن کی بناء پر فیصلہ کیا جائے ( جس میں خلافِ واقع ہونے کا احتمال ہو) تو پھر اس ظنی فیصلہ کو کس طرح سے عادلانہ اور واقعی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے؟

اس بناء پر چونکہ اس زمانے میں حکومت مکمل طور عادلانہ ہوگی ۔لہٰذا اس زمانے میں ہر قضاوت اور فیصلہ کا محور عدالت  ہو گی اور عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ فیصلہ حقیقت  کے مطابق اور علم و یقین کی بنیاد پر ہو نہ کہ ظن و گمان کی بناء پر ۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

'' لیس من العدل ،القضاء علی الثقة بالظن '' (1)

ظن و گمان پر اطمینان کرتے ہوئے حکم و قضاوت کرنا عدل میں سے نہیں ہے۔

ظہور کے پر نور زمانے میں علمی و فکری رشد اتنا وسیع ہوگا کہ کبھی بھی کوئی حکم علم و آگاہی کے بغیر صادر نہیں ہوگا۔کیونکہ یہ عادلانہ حکومت کا لازمہ ہے۔روایات سے یہ بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ بعض موارد میں بینہ اور یمین کی بنیاد پر کئے گئے فیصلے اور قضاوت سے نہ صرف عدالت کا شجرثمربار نہیں ہوگا،بلکہ اس سے حقدار کا حق بھی پامال ہوگا۔اس مطلب کی وضاحت کے لئے اس روایت پر توجہ کریں۔

--------------

[1]۔ نہج البلاغہ، کلمات  قصار : 211

۵۳

رسول اکرم (ص) فرماتے ہ یں:

''انما اقضی بینکم بالبینات والایمان و بعضکم الحن بحجته من بعض، فایما رجل قطعت له من مال اخیه شیئا یعلم انه لیس له فانما اقطع له قطعة من النار '' (1)

میں تمہارے درمیان گواہ اور قسم کے ذریعے حکم و قضاوت کرتا ہوں۔تم میں سے بعض،دوسروں کی بہ نسبت بہتر طریقے سے اپنی دلیل بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہو(اچھے بیان و خطاب کی وجہ سے اپنی بات کو بخوبی ثابت کرسکتے ہو)پس اگر میں نے گواہی و قسم  کی بنیاد پر کسی کو اس کے بھائی کے مال سے کچھ دے دیا ہو اور اسے بھی معلوم ہو کہ یہ اس کا مال نہیں ہے تو میں نے حقیقت میں اسے  آگ کا ایک ٹکڑا دیا ہے۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ گواہی و قسم  ہمیشہ حقیقت اور واقعیت کے مطابق نہیں ہوتی۔پس جن موارد میں ایسا ہوا ہو،وہاں حقیقی عدالت کا نفاذ نہیں ہوا، بلکہ حکمِ ظاہری کی بنیاد پر فیصلہ ہو ا ہے۔

قضاوت میں فہم و فراست

امامِ عصر(عج) کے زمانۂ غیبت میں قاضی کو قضاوت کے مسائل جاننے کے علاوہ قضاوت میںعقل اور تیز بینی سے بھی سرشار ہونا چاہیئے تاکہ وہ جھوٹے گواہ اور جھوٹی قسم کو سمجھ پائے۔

--------------

[1] ۔ مستدرک الوسائل  :ج۱۷ص۳66

۵۴

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ قدیم زمانے سے اس کی رعایت نہیں ہوئی ہے۔

قاضی کو حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی قضاوت سے درس لینا

چاہیئے اور اسے یہ جاننا چاہیئے کہ کبھی گواہوں اور قسموں کے بغیر ہی فہم و فراست اور بصیرت سے حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں۔

اس صورت میں قاضی بینہ و قسم سے مدد لے سکتا ہے کہ جب حقیقت تک پہنچنے کے راستے مفقود ہوجائیں اور واقعیت کو حاصل کرنے کاکوئی راستہ دکھائی نہ دے۔

 قضات، امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے قضاوت سیکھیں

اسی وجہ سے حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام  نے شریح قاضی کی سرزنش اور مذمت کی تھی کہ اس نے تحقیق کئے بغیر منکرین کے قسم کھانے کے بعد ان کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔

'' یا شریح، هیهات! هکذا تحکم فی مثل هذا؟ '' (1) اے شریح افسوس کہ تم ایسے مورد میں اس طرح حکم کرتے ہو؟

مرحوم علامہ مجلسی نے بحارالانوار کی چودہویں جلد میں اور تھوڑے سے فرق کے ساتھ چالیسویں جلد میں نقل کیا ہے۔

ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام مسجد میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان گریہ وزاری کر رہا ہے اور کچھ افراداس کے ارد گرد جمع ہیں۔

--------------

[1]۔بحار  الانوار:ج۱۴ص۱۱

۵۵

امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس کے بارے میں سوال پوچھا۔

اس نے کہا!شریح نے ایک مورد میں ایسے قضاوت کی ہے کہ جس میں میرے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام  نے پوچھا کہ واقعہ کیا ہے؟

نوجوان نے اپنے پاس کھڑے افراد کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے کہا!یہ لوگ میرے باپ کے ساتھ مسافرت کی غرض سے گئے تھے۔یہ تو سفر سے واپس آگئے ،لیکن میرا باپ واپس نہیں آیا۔میں نے ان سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ مر گیا ہے۔پھر جب میں اپنے باپ کے  پاس موجود مال کے بارے میں پوچھا تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں ہے؟

شریح نے ان سے کہا کہ تم لوگ قسم کھاؤ کہ تم اس کے مال سے بے خبر ہو۔انہوں نے قسم کھالی تو شریح نے مجھ سے کہا کہ اب تم اپنے موقف سے ہاتھ اٹھالو حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام  نے قنبر سے فرمایا!لوگوں کو جمع کرو اور شرطة الجمیس کو حاضر کرو۔(1) حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام بیٹھ گئے۔ان  لوگوں کو بلایا اور نوجوان بھی ان کے ہمراہ تھااس نے جو کچھ کہا حضرت امیرالمؤمنین  علی  علیہ السلام   نے اس کے بارے میں سوال پوچھے۔نوجوان نے اپنا ادّعا دوبارہ  بیان کیا اور رونا شروع کردیا اس نے کہا:

--------------

[1]۔ جمیس بمعنی جنگ، اور شرطة الجمیس خاص افراد کو کہا جاتا تھا کہ جن میں سے ایک اصبغ ابن نباتہ تھے۔ اس سے پوچھا گیا کہ آپ کو شرطة الجمیس کیوں کہا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے امیرالمؤمنین علی کے ساتھ شرط کی ہے کہ ہم ان کے لشکر میں سب سے آگے جنگ کریں گے ، یہاں تک کہ ہم قتل ہوجائیں اور امیرالمؤمنین نے ہمیں فتح و نصرت کا وعدہ دیا ہے۔ (بحار  الانوار:ج۱۴ص۱۱)

۵۶

اے امیرالمؤمنین  !خدا کی قسم میں انہیں اپنے باپ کی موت کے بارے میں متہم سمجھتا  ہوں۔کیونکہ یقینا یہ حیلہ و مکاری سے میرے باپ کو شہر سے باہر لے گئے،جب کہ ان کی نظریں میرے باپ کے مال پر تھیں۔

حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام  نے ان سے سوال کیا تو ان لوگوں نے وہی کچھ کہا،جو انہوں نے شریح سے کہا تھا کہ اس کا باپ فوت ہوگیا ہے اور ہمیں اس کے مال کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے ان کے چہرے پر نگاہ کی اور فرمایا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ کیا میں نہیں جانتا کہ تم لوگوں نے اس جوان کے باپ کے ساتھ کیا کیا؟ اگر ایسا ہو تو گویا میں بہت کم علم رکھتا ہوں۔

پھر حکم دیا کہ انہیں مسجد کی مختلف جگہوں پر جدا جدا بٹھادیا جائے اور اپنے کاتب عبیداللہ ابن ابی رافع کو بلایا اور فرمایا۔بیٹھ جائو۔پھر ان چند افراد میں سے ایک شخص کو بلایا اور کہا کہ اب مجھے یہ بتائوکہ تم لوگ کب گھر سے نکلے اور کیا اس جوان کا باپ تمہارے ساتھ تھا؟

اس نے کہا کہ میں فلاں روز سفر کے لئے نکلا۔

حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام   نے ابن ابی رافع سے فرمایا کہ یہ لکھ لو   پھر فرمایا کہ کس مہینے میں سفر پر گئے تھے ۔اس شخص نے مہینے کو تعین کیا۔

حضرت  نے فرمایا: اسے بھی لکھ لو۔

پھر فرمایاکہ کس سال سفر پر گئے تھے؟

اس نے فوت ہونے کا سال بتایا اور عبیداللہ ابن ابی رافع نے اسے لکھ کر محفوظ کرلیا۔

۵۷

پھر فرمایا کہ وہ کس بیماری کے سبب فوت ہوا؟

اس نے مرض کا نام بتایا۔

فرمایا کس جگہ فوت ہوا؟

اس نے جگہ کا بتایا۔حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام نے فرمایا کہ اسے غسل و کفن کس نے دیا؟اس نے کہا، فلاں نے اسے غسل و کفن دیا۔

فرمایا!کس چیز کا کفن دیا گیا ؟اس نے کفن کو تعین کیا۔

فرمایا!اس پر نماز جنازہ کس نے پڑھی؟

کہا!فلاں نے نماز جنازہ پڑھی۔

فرمایا!کس نے اسے قبر میں اتارا؟اس نے اسے قبر میں اتارنے والے شخص کا نام بتایا۔

عبیداللہ ابن ابی رافع نے ان سب کو قلمبند کر لیا۔

جب اس شخص نے دفن کا اقرار کیا توحضرت امیرالمؤمنینعلیہ السلام  نے بلند آواز سے تکبیر کہی کہ جسے تمام اہل مسجد نے سنا۔

پھر حکم دیا کہ اس شخص کو اس کی جگہ پر لے جائیں اور ان میں سے دوسرے شخص کو بلایا۔ پھرحضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام   نے اس سے بھی وہی سوال کئے کہ جو حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام نے پہلے شخص سے پوچھے تھے۔لیکن اس کے جواب مکمل طور پر پہلے کے جوابات سے مختلف تھے۔عبیداللہ ابن ابی رافع نے اس کے بھی تمام جوابات کو لکھ لیا۔

اس سے بھی تمام سوالات پوچھنے کے بعد حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام   نے پھر بلند آواز میں تکبیر کہی کہ جسے تمام اہل مسجد نے سنا۔

پھر فرمایا کہ ان دونوں کو مسجد سے زندان میں لے جائو اور زندان کے دروازے پر رکھو۔

۵۸

پھر تیسرے شخص کو بلایا اور پہلے والے دو افراد سے پوچھے گئے سوالات اس سے بھی پوچھے۔اس نے ان دونوں کے برخلاف جواب دیے۔اس کے جوابات کو بھی تحریر کرلیاگیا۔حضرت امیرالمؤمنین  نے تکبیر کی صدا بلند کی اور فرمایا کہ اسے بھی اس کے دونوں دوستوں کے پاس لے جائو۔پھر چوتھے فرد کو بلایا گیا۔

وہ بات کرتے وقت بہت مضطرب تھا اور اس کی زبان پر لکنت طاری ہورہی تھی۔

حضرت علی  علیہ السلام   نے اسے نصیحت فرمائی اور ڈرایا تو اس شخص نے اعتراف کرلیا کہ اس نے اور  اس کے دوستوں نے مل کر اس جوان کے باپ کو مال کی خاطر قتل کیا ہے اور اسے کوفہ کے نزدیک فلاں مقام پر دفن کیا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام   نے حکم دیا کہ اسے زندان کی طرف لے جائواور پھر پانچویں فرد کو بلایا اور اس سے فرمایا!کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ شخص خود ہی مر گیا،حالانکہ یقینا تم نے اسے قتل کیا ہے؟تم نے اس کے ساتھ جو کچھ کیا،وہ صحیح صحیح بتائو ورنہ تمہیں سخت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی ہو ں گی۔

اس نے بھی اس شخص کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ۔جس طرح اس کے دوست نے اعتراف کیا تھا پھر بقیہ افراد کو بلایا گیاتو انہوں نے بھی قتل کا اعتراف کیا اور انہوں نے جو کچھ کیا،اس پر انہوں نے ندامت و پشیمانی کا اظہار کیا ۔پھر سب نے اس شخص کو قتل کرنے اور اس کا مال لینے کا اعتراف کیا۔

حضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام نے حکم دیا کہ کوئی ان کے ساتھ اس جگہ جائے،جہاں انہوں نے وہ مال دفن کیا ہوا ہے۔انہوں نے وہ مال لاکر مقتول کے فرزند کو دے دیا۔

پھرحضرت امیرالمؤمنین  علیہ السلام   نے اس جوان سے فرمایا!تمہارا ان کے بارے میں کیا ارادہ ہے؟ اب تمہیں معلوم ہے کہ انہوں نے تمہارے باپ کے ساتھ کیا کیا ؟

۵۹

نوجوان نے کہا!میں چاہتا ہوں کہ میرے اور ان کے درمیان قضاوت خداوند متعال کے نزدیک ہو۔میں اس دنیا میںان کے خون سے ہاتھ اٹھا تا ہوں۔

حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام   نے ان پر قتل کی حد جاری نہ کی ۔لیکن انہیں سخت سزا دی۔

شریح نے حضرت امیرالمؤمنینعلیہ السلام سے کہا کہ آپ نے کس طرح یہ حکم صادر فرمایا؟

حضرت امیرالمؤمنین علی  علیہ السلام نے اس سے فرمایا:

حضرت دائود کچھ بچوں کے پاس  سے گزرے تھے کہ جو کھیل کود میں مصروف تھے۔ان بچوں نے ایک بچے کو '' مات الدین''کے نام سے آواز دی اور اس نے بھی دوسرے بچوں کو جواب دیا۔

دائود علیہ السلام اس بچے کے پاس گئے اور کہا کہ تمہارا نام کیا ہے؟

بچے نے کہا! میرا نام'' مات الدین''ہے۔

دائود علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ کس نے تمہارا یہ نام رکھا ہے؟

اس نے کہا کہ میری ماں نے۔

دائود علیہ السلام نے کہا تمہاری ماں کہاں ہے؟

اس نے کہا گھر میں۔

پھر دائود علیہ السلام نے کہا میرے ساتھ اپنی ماں کے پاس چلو۔جب دائود علیہ السلام بچے کے ساتھ گھر پہنچے تو بچے نے ماں کوبلایا۔

دائود علیہ السلام نے بچے کی ماں سے پوچھا ،اے کنیز ِ خدا تمہارے اس بچے کا کیا نام ہے؟

۶۰