امام مہدی کی آفاقی حکومت

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت0%

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 300

امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 300
مشاہدے: 162731
ڈاؤنلوڈ: 3591

تبصرے:

امام مہدی کی آفاقی حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 300 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162731 / ڈاؤنلوڈ: 3591
سائز سائز سائز
امام  مہدی  کی  آفاقی  حکومت

امام مہدی کی آفاقی حکومت

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ظہور کے پر نور زمانے میں نہ صرف یہ دو عامل بلکہ جنایت و خیانت اور جرائم کے تمام عوامل نابود ہوجائیں گے اور نجات و سعادت کے عوامل فساد و تباہی کے عوامل کی جگہ لے لیں گے۔

قدرتمندوں اور دولت مندوں کی ایک اہم ذمہ داری فقیر اور ضعیف افراد کی مدد کرنا ہے تاکہ ان کے اقتصادی فقر کا جبران ہوسکے اور خود ان کی سرکشی اور ظلم کے لئے بھی مانع ہو جس کے نتیجہ میں تباہی اور فساد کے دو اہم عوامل برطرف ہوجائیں گے۔لیکن افسوس کہ ہم یہ اہم ترین ذمہ داری بہت سسی دوسری ذمہ داریوں کی طرح بھول چکے ہیں۔لیکن ظہور کے درخشاں زمانے میں اگر کوئی شخص کسی کی دستگیری اور مدد کرنا چاہے تو اسے ڈھونڈنے سے بھی کوئی فقیر نہیں ملے گا۔

ہم نے جو قابل توجہ نکتہ ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا میں جرائم کے عوامل میں سے فقر سے بڑا عامل ثروتمندوں اور قدرتمندوں کی اپنے مال میں اضافہ کی حرص و طمع ہے۔

کیونکہ مال دار افراد مال کو بڑھانے اور قدرت مند اپنی قوّت و طاقت کو بڑھانے کے لئے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔

حقیقت میں دوسرا سبب ،پہلے سے زیادہ وسیع ہے اور یہ پہلے سبب کے ساتھ شریک بھی ہے۔کیونکہ معاشرے میں فقر کے اہم اسباب میں ایک سبب ایسے صاحبِ ثروت افراد ہیں کہ جو اپنے سرمائے کو زیادہ کرنے کے لئے انتہائی پست قسم کے حربے آزماتے ہیں۔ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں بے تہاشا اضافہ فقر و تنگدستی کا باعث بنتے ہیں۔خاندانِ وحی و عصمت و طہارت علیھم السلام کے کلمات میں بھی اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔

اس امر پر بھی توجہ کریں کہ زمین کا کاروبار کرنے والے خود تو بنگلوں اور محلوں میں زندگی گزارتے ہیں  اور ہزاروں ایکڑاراضی پر قبضہ کرکے زمین کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ضرورتمند زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا خریدنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں۔

۸۱

اس بناپر بہت سے دولت مند اموال کو ذخیرہ کرکے نہ صرف فقر ایجاد کرتے ہیں بلکہ فقر میں اضافہ کا باعث بھی بنتے ہیں،جو بعض ضرورت مند افراد کے لئے جرم و فساد کے ارتکاب کا مقدمہ بنتا ہے۔اسی طرح مال میں اضافے کی خواہش ،اور ہوس ان کے ارتکاب جرم اور شرعی و عقلی اخلاقیات کو ترک کرنے کا بھی باعث ہے۔اب اس واقعہ پر توجہ کریں:

''خان مرد''تہران کے امیر ترین افراد میں سے تھا۔جس نے شہر میں مسجد و مدرسہ بھی تعمیر کروایا۔جو اب تک اسی کے نام سے مشہور ہے۔کہتے ہیں کہ خان مرد کے پرانے دوستوں میں  سے ایک ہر روز اس کے گھر کے سامنے لگے ہوئے چنا رکے درخت کے ساتھ کھڑا خان کے گھر سے نکلنے کا انتظار کرتا کہ شاید گھر سے نکلتے وقت وہ اس کی طرف دیکھے اور اس پر کچھ لطف و مہربانی کرے۔لیکن خان نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔جب خان اپنے منصب سے معزول ہوکر خانہ نشین ہوگیا تو اس کا یہ دوست اس سے ملاقات کرنے گیا۔

خان نے اس سے گلہ و شکوہ کیا کہ تم نے مجھے اتنی مدت تک یاد ہی نہیں کیا اور تم مجھ سے ملنے نہیں آئے۔اس شخص نے ہردن اس کے گھر کے سامنے آنے کا واقعہ بیان کیا تو خان نے کہا!میں اس وقت اپنے گھر کے سامنے لگے ہوئے چنار کے درخت کو نہیں دیکھتا تھا تو پھر تمہیں کیسے دیکھتا کہ جو اس درخت کے نیچے کھڑے ہوتے تھے۔(1)

جی ہاں ! امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور سے پہلے ایسے بہت سے ثروتمند ہیں کہ جو دائرہ انسانیت سے ہی نکل چکے ہیں۔جو شرعی و عقلی اخلاقیات  کے ذریعہ بھی اپنے سرکشی و گمراہی کو کنٹرول نہیں کرسکے۔

--------------

[1] ۔ دوازدہ ہزار مثل فارسی : 432

۸۲

اس نکتے کو مد نظر رکھتے ہوئے اب یہ سوال پید اہوتا ہے کہ ظہور کے زمانے میں بے تحاشا دولت کس طرح سے ان کی سرکشی و گمراہی کا باعث نہیں بنے گی ۔ حالانکہ اس وقت دنیا بھر کے تمام افراد بے نیاز اور صاحبِ ثروت ہوں  گے؟

یعنی اگر یہ تمام منحوس اور برے آثار زیادہ دولت کی وجہ سے ہیں تو پھر ظہور کے زمانے میں لوگ کیوں اتنے سرمائے اور دولت کے مالک ہوں گے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ حلال طریقے سے حاصل ہونے والی ثروت میں کبھی بھی نحوست اور منفی اثرات نہیں ہوتے۔بلکہ ممکن ہے کہ وہ خیرات کا وسیلہ ہو۔لیکن یہ دولتمند اپنی دولت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ اگردولت خود بری ہوتی تو پھر سب دولتمند وں کو ایسا ہونا چاہیئے تھا ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔بلکہ بعض ثروتمند افراد نے معاشرے کی قابل قدر خدمت کی ہے۔ جنہوں نے بہت سے مستضعف اور غریب افراد کی مدد کی ہے۔خاندانِ عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرامین میں ایسے افراد کی مدح کی گئی ہے(اگرچہ دورِ حاضر میں ایسے افراد بہت کم ہیں)اور یہ ایسے ثروتمندوں کی کم عقلی کی دلیل ہے کہ جو ہمیشہ اپنی دولت میں اضافہ اور اپنے ورثاء کے لئے مال و دولت چھوڑ جانے کی فکر میں رہتے  ہیں۔ورنہ خود مال و دولت ایسا  ذریعہ ہے کہ جس سے انسان دشمن کو بھی اپنے قریب لاسکتا ہے اور بے گناہ افراد کا خون بھی بہا سکتا ہے۔

علاوہ ازاین !ظہور کے پر نور زمانے میں انسان معنوی تکامل اور فکری و عقلی رشد اور سعادت کی وجہ سے ہلاکت و گمراہی سے محفوظ رہیں گے۔

اس مبارک اور پر نور زمانے میں مال و دولت کی کثرت ہوگی۔لیکن اسے ذخیرہ کرنے اور اس میں اضافے کی خواہش نہیں ہوگی ۔اس وقت مال و دولت،سرمایہ اور کثیر نعمتیں ہوں گی۔لیکن ہلاکت اور گمراہی اور دین کی حدود کی پامالی نہیں ہوگی۔

۸۳

اس زمانے میں دنیا میں موجود تمام دولت (چاہے وہ زمین کے اندر چھپی ہوئی ہویا روئے زمین  پر) آنحضرت کے پاس جمع ہوگی۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ زمین کے سینے میں قیمتی پتھر،سونے چاندی اور دوسری بہت سی قیمتی اشیاء کے خزانے پوشیدہ ہیں؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ زمین نے اپنے اندر سونے کے پہاڑ چھپا رکھے ہیں؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ قدیم بادشاہ اور دولت مند حضرات اپنا بیش بہا سرمایہ زمین میں چھپاتے تھے؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ زلزلوں کی وجہ سے بہت بڑا سرمایہ زمین کیسینہ میں پنہاں ہے؟

ظہور کا زمانہ ، مخفی و پنہاں امور کے آشکار ہونے اور آگاہی کا زمانہ ہے۔ اس وقت زمین میں مخفی ثروت و سرمایہ آشکار ہوجائے گا ،جس سے ظہور  کے زمانے کے افراد استفادہ کریں گے۔

  کنٹرول کی قدرت

ہم نے جو کچھ ذکر کیا ،خاندانِ عصمت و طہارت علیھم السلام   میں اس کی تصریح ہوئی ہے۔ ہماری اس بات کی شاہد حضرت باقرالعلوم  علیہ السلام  کی یہ روایت ہے:

'' یقاتلون واللّه حتی یوحّد اللّه ولا یشرک به شء و حتی یخرج العجوز الضعیفة من المشرق تریدالمغرب ولا ینهاها احد و یخرج اللّه من الارض بذرها،  وینزل من السّماء قطرها،و یخرج الناس خراجهم علی رقابهم الی المهدی ویوسع اللّه  علی شیعتنا و لو لا ما یدرکهم من السعادة لبغوا ''  (1)

--------------

[1]۔ بحارالانوار :ج 25ص345

۸۴

خد اکی قسم وہ جنگ کریں گے حتی کہ سب خدا کو یک و یکتا سمجھیں، اورکسی چیز کو اس کا شریک نہ جانیں ۔ حتی کہ ایک کمزور بوڑھی عورت مشرق سے مغرب کے قصد سے نکلے اور کوئی اسے اس کام سے نہ روکے۔

خدا وند زمین سے بیج کو خارج کرے گا اور آسمان سے بارش برسائے گا۔لوگ اپنے مال سے خراج نکال کر حضرت مہدی  علیہ السلام طرف لے کر جائیں گے ۔خدا ہمارے شیعوں میں اضافہ کرے گا ۔ اگر انہیں یہ سعادت حاصل نہ ہوتی تو وہ یقیناگمراہی و ہلاکت میں مبتلا ہوجاتے۔

جس طرح ثروت و فقر انسان کی سعادت کا سبب واقع ہوسکتے ہیں اسی طرح یہ ظلم و خیانت کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔یعنی فقر اور مال دونوں جرائم کی زیادتی میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔جیسا کہ یہ دونوں انسان کی سعادت کا وسیلہ بھی بن سکتے ہیں۔

مال میں اضافہ کی طمع و حرص سے بھی جرائم وجود میں آتے ہیںاور اس کی اہم وجہ غیبت  کے زمانے میں طمع و حرص کو کنٹرول کرنے کی قدرت کا نہ ہونا ہے۔

معاشرے کا مقام ِ ولایت سے آشنانہ ہونا اور انسان کا خاندانِ وحی علیہم السلام کے عظیم مرتبہ کی طرف توجہ نہ کرنا،اس سے سعادت کے چھن جانے کا باعث بنتا ہے۔ جو اسے مقامِ ولایت سے دور کردیتا ہے جو کہ قدرت و طاقت کو کنٹرول کرنے والا ہے۔

لیکن ظہور کے پر نور اورمبارک زمانے میں بشریت ولایت کی پناہ میں ہوگی اور پوری دنیا کے لوگوں کے سروں پر رحمت الہٰی کا سایہ ہوگا ۔جو انہیں حضرت مہدی  علیہ السلام کی الوہی ولایت کی قدرت سے محفوظ وکنٹرول کرے گا ۔اسی عظیم سعادت کی وجہ سے ظہور کے پر مسرّت زمانہ میں لوگوں کے مال میں چاہے کتنا بھی اضافہ ہوجائے، مگر وہ ان کی گمراہی و سرکشی کا باعث نہیں بنے گا۔

۸۵

جی ہاں!دنیا کے تمام لوگوں پر قدرت ِ ولایت کا سایہ ہونے کی وجہ سے وہ تمام قوّت وطاقت،قدرت و توان اور تمام امکانات و وسائل کواس کے زیر سایہ قرار دے کر خود کو کنٹرول کریں گے اور ظلم و زیادتی اورگمراہی و ضلالت سے دوررہیں گے۔

یہ وہی سعادت و خوش بختی ہے جس کی امام  باقر علیہ السلام نے روایت کے آخر میں  تصریح فرمائی ہے:

''و لو لا ما یدرکهم من السعادة لبغوا ''

زمانۂ ظہورکی خصوصیات میں سے ایک سب کے لئے کنٹرول کا ہونا ہے ۔ عصرِ ظہور میں مال و ثروت، قدرت  وطاقت جتنی بھی زیادہ ہوجائے پھر بھی سب کو ظہورِ ولایت کی وجہ سے سعادت و نیک بختی حاصل ہوگی ۔ سب میں حرص وطمع کو کنٹرول کرنے کی قدرت ہوگی ۔کیونکہ نعمتوں سے سرشار زندگی کے ساتھساتھ عقلی تکامل بھی ہوگا۔

اب امام صادق علیہ السلام  کی اس بہترین روایت پر توجہ کرتے ہیں۔

''  تواصلوا تبارّوا و تراحموا، فوالذی فلق الحبّة و برأ النسمة لیاتینّ علیکم وقت لا یجد احدکم لدیناره و درهمه موضعاً، یعنی لا یجد عند ظهورالقائم موضعاً یصرفه فیه لاستغناء الناس جمیعاً بفضل اللّه و فضل ولیه ''

فقلت:و انّی یکون ذالک؟

'' فقال:عند فقدکم امامکم فلا تزالون کذالک حتی یطلع علیکم کما تطلع الشمس،آیس ما تکونون،فایّاکم والشک والارتیاب،وانفوا عن انفسکم الشکوک و قد حذّرتکم فاحذروا، اسأل اللّه و ارشادکم ''(2)

--------------

[2]۔ الغیبةمرحوم نعمانی : 150

۸۶

ایک دوسرے کے ساتھ مرتبط رہو اور آپس میں نیکی اور مہربانی کرو، اس کی قسم کہ جو دانے کو اگاتا ہے اور اس میں روح ڈالتا ہے۔یقینا تم لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ تم میں سے کسی کو دینار یا درہم کے  مصرف کرنے کی جگہ نہیں ملے گی یعنی حضرت قائم علیہ السلام کے ظہور کے زمانے میں کوئی ایسی جگہ نہیں ملے گی کہ جہاں اپنا پیسہ خرچ کیا جائے۔کیونکہ خداوند اور اس کے ولی کے فضل سے سب لوگ بے نیاز ہوجائیں گے۔

میں نے عرض کیا یہ کون سا زمانہ ہے؟

امام  نے فرمایا!جب تمہیں تمہارے امام نہیں ملیں گے تو ایسا ہوگا کہ تم پر ایسا زمانہ ظاہر ہوگا کہ جس طرح سورج طلوع کرتا ہے،یہ اس زمانے میں ہوگا کہ جس میں آنحضرت  کے ظہور کے زمانے سے زیادہ نا امیدی ہوگی۔

پس شک کرنے یا خود کو شک میں مبتلا کرنے سے پرہیز کرو،خود سے شک کو دور کرو ۔یقینا میں  نے تمہیں ڈرایا،پس تم اس سے ڈرو اور آگاہ ہوجائو۔ میں خدا سے تمہارے لئے توفیق وہدایت کی دعا کرتا ہوں۔

اس روایت میں دلوں کو یأس و نا امیدی اور شک سے دور رہنے کے بارے میں بہترین نکتہ بیان ہوا ہے کہ جس کی تشریح کیلئے مفصل بحث کی ضرورت ہے۔

اس روایت کا موردِ استدلال حصہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے  ظہور کا وہ نورانی اور مبارک زمانہ ہے کہ جس کے بارے میں امام صادقعلیہ السلام   نے فرمایا:

اس زمانے میں سب لوگوں کے بے نیاز ہونے کی وجہ سے کوئی ایسا نیاز مند نہیں ملے گا کہ ثروت مند اپنے مال سے جس کی مدد کرسکیں۔

۸۷

  دنیا میں ، 800  ملین سے زائد بھوکے

اگر ہم اپنے زمانے کو ظہور کے درخشاں و منوّر زمانے سے مقائسہ کریں (کہ جب چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کوئی نیازمند اور ضرورتمند نہیں ملے گا)تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارے موجودہ دور میں  پوری دنیا میں کروڑوں بھوکے افراد موجود ہیں جن کی فلاح و نجات کے لئے کوئی بھی مؤثر اقدام نہیں کیا گیااس بارے میں آپ اس رپورٹ پر توجہ کریں۔

عالمی بینک کے سربراہ کا کہنا ہے کہ دنیا کے ایک ارب افراد دنیا کے اقتصاد کو چلا رہے ہیں ۔ دنیا کی %80 آمدن ی ان سے مختص ہے۔حالانکہ دنیا کی بقیہ آبادی پانچ ارب ہے۔جو دنیا کی %20    آمدن ی پر زندگی گزار رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں بھوکے افراد کی تعداد18   مل ین سے بڑھ کر ،842   مل ین تک پہنچ چکی ہے۔

اب پیرس کے ایک اخبار ''ونت مینوت''16 اکتوبر  2002 ء بروز بدھ ک ی رپورٹ ملاحظہ کریں:

دنیا میں  ہر چار سیکنڈ میں بھوک کی وجہ سے ایک انسان  ہلاک ہوتا ہے۔دنیا میں840   مل ین افراد غذا کی وجہ سے پریشان حال ہیںاور ان میں سے799 مل ین افراد ترقی پذیرممالک میں زندگی گزار رہے ہیں۔

دنیا کے30 ممالک م یں  اضطراری حالت کا اعلان ہو چکاہے اور صرف افریقا میں67 مل ین افراد کو فوری اور اضطراری مدد کی ضرورت ہے۔ایشیا میں %20 ( 496 مل ین)آبادی بھوک کی وجہ سے پریشان ہے۔

اقوام متحدہ کے  ذیلی ادارہ  برائے خوراک و زراعت کے مطابق روزانہ24 ہزار افراد بھوک ک ی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔بھوک کی وجہ سے ہرسال پانچ سال سے کم عمرکے ساٹھ لاکھ بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

یہ تمام پریشانیاں ،بھوک،تنگدستی،بے روزگاری دنیا کے ممالک کی ناقص مدیریّت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

۸۸

اگر دنیا کی سیاسی شخصیات ان نقائص کے اسباب کو جان کر مخلصانہ طریقے سے انہیں ختم کرنے کی کوشش کریں تو دنیا میں اتنی زیادہ تعداد میں بھوکے افراد نہ ہوں۔

بھوک کی ایک بنیادی وجہ کمر توڑ مہنگائی اور قیمتوں میں بے تحاشااضافہ ہے۔بھوک کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے نرخوں میں اضافے کی روک تھام کے لئے مناسب اور فوری اقدام کرنا انتہائی ضروری ہے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک اس بارے میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی۔

اب ذرا ایران میں مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی یہ رپورٹ ملاحظہ کریں۔

سال

۵۷

۸۲

ملکی  آبادی

۳۵۰۰۰۰۰۰

۴۰۰۰۰۰۰۰

۴6 ۰۰۰۰۰۰

۸6 ۰۰۰۰۰۰

۸۹

نرخوں  میں  اضافہ

سال

یونجہ

جو

جوکھر

کھلی/کھل

دودھ

بچھڑازندہ

گائےزندہ

۵۷

۸۲

شرح  اضافہ

۸۳

۸

۱۲۰۰

۱۵۰گنا

۱6 ۰۰

۷

۱۲۰۰

۱۷۲گنا

۱۵۰۰

۳

6 ۲۰

۲۰6 گنا

۹

۲۰6

۱۸۰گنا

۲۷

۲۰۰۰

۷۲گنا

۲۱۰

۱۴۰۰۰

6 ۷گنا

۱۵۰

۱۰۰۰۰

6 ۷گنا

یہ دنیا کے ایک حصے میں اجناس کی قیمتوں کا چھوٹا سا نمونہ ہے۔ جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیاکہ25 سال م یں ایران کی آبادی میں تقریباً دو گنا اضافہ ہوا ہے اور بعض اجناس کی قیمتوں میں تقریباً دو سو گنا اضافہ ہوا ہے۔اب اس تفاوت سے کم از کم یہ تو معلوم ہوگیا کہ آبادی نرخوں میں اضافے کا باعث نہیں ہے۔

قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ صرف ایران یا کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ مالک جیسے امریکہ،جاپان،کوریا بھی اس مسئلہ سے پریشان ہیں۔دنیا کے ہر ملک میں مہنگائی نے  غریب عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔

اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اس چیز کی دلیل ہے کہ ان کی اقتصادی سیاست نرخوں کو کنٹرول کرنے اور انہیں معتدل  رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔دنیا کے اقتصاد پر قابض ثروت مند افراد کو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے نہ تو کسی قسم کا دکھ ہوتا ہے اور نہ ہی غریب عوام پر رحم آتا ہے۔بلکہ وہ جان بوجھ کر اشیاء کے نرخوں میں اضافہ کرکے اپنے سرمائے میں کئی گنا اضافہ کرتے ہیں۔اب اس رپورٹ پر غور کریں۔

۹۰

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق تینارب سے زائد افراد دن بھر میںایک ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزار رہے ہیںاور ایک ارب افراد کی روزانہ کی آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔دنیا کی نصف آبادی غربت سے بھی نچلی سطح پرزندگی گزار رہی ہے۔اور تین ارب انسانوں کی روزانہ کی آمدنی تین ڈالر سے بھی کم ہے۔

اقوام ِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دھائی میں دنیا کے 45 ممالک اور ز یادہ غریب ہوگئے۔6 / 4 ارب انسان یعنی تقریباً800 مل ین افراد کو زندگی گزارنے کے لئے مکمل خوراک میسر نہیں ہے۔

یہ دنیا کے پریشان حال افراد کی وضع زندگی کا چھوٹا سا نمونہ تھا۔جسے ہم نے زمانِ غیبت کے مسائل سے آشنائی کے لئے ذکر کیااب ہم اس ذکر کو یہیں ترک کرکے اور ان پریشانیو ں اور غموں کو بھلا کر اس درخشاں زمانے کی توصیف کرتے ہیں کہ جس میں نہ تو کوئی ضرورت ہو گی اور نہ ضرورتمند ۔

۹۱

ایسا دن کہ جوبے تحاشا نعمتوں اور بے انتہا دولت سے سرشار ہو۔جس سے دنیا کے تمام نیازمند،بے نیاز ہوجائیں گے۔اس وقت دنیا میں800 مل ین بھوکے افراد نہیں ہوں گے۔اس وقت کو اقتصادی بُحران نہیں ہوگا۔

عصرِ ظہور میں غربت اور تنگدستی کا نام و نشاں نہیں ہوگا۔حضرت بقیة اللہ الاعظم علیہ السلام  کی حکومت دنیا کوجنت بنادے گی ۔پوری روئے زمین پر مسرت و شادمانی اور خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔

  نعمتوں سے سرشار دنیا

اب جب کہ نعمتوں سے بھرپور اور سرشار اس بے مثال زمانے کا تذکرہ ہوا ہے تو بہتر ہے کہ ہم اس بارے میں رسول اکرم(ص)   ک ی روایت کو نقل کریں:

'' تنعّم امتی فی زمن المهدی نعمة لم ینعموا مثلها قطّ،ترسل السماء علیهم مدراراً، و لا تدع الارض شیئا من النّبات الّا اخرجته،والمال کدوس،یقوم الرجل یقول:یامهدی اعطنی فیقول: خُذ ''  (1)

میری امت کو مہدی  علیہ السلام  کے زمانے میں اتنی نعمتیں میسر آئیں گی کہ جو اسے پہلے کبھی نہیں ملی ہوں گی۔آسمان سے ان کے لئے مفید بارش برسے گی،زمین اپنے اندر چھپی ہر نباتات کو خارج کرے گی اس زمانے میں مال و دولت فروان ہوگی۔ایک شخص کھڑا ہوگا اور مہدی  علیہ السلام  سے کہے گا : مجھے عطا کرو۔تو کہیں گے :لے لو۔

یہ واضح ہے کہ روزِ نجات ،دنیا کے تمام مکاتب گمراہی سے نجات پا لیں گے۔پوری دنیا میں اسلام کا پرچم لہرائے گا۔جس کی وجہ سے اس زمانے کے تمام افراد رسول اکرم(ص)کی امت شمار ہوںگی۔اسی لئے رسول اکرم (ص)نے اس زمانے کے لوگوں کو ''امتی''یعنی میری امت سے تعبیر کیا ہے۔

--------------

[1]۔ التشریف باالمنن:149

۹۲

رسول اکرم(ص)ک ی امت یعنی ہماری دنیا کے لوگ اس روز خوشحال ہوں گے اور ان میں دوعمومی خصوصیات ہوں گی ۔تقوی و ایمان کہ جو اس زمانے سے پہلے کبھی موجود نہیں تھی۔سب ان دوخصوصیات کے مالک ہوں گے۔جس سے آسمان کے دروازے کھل جائیں گے اور لوگوں پر رحمتِ الہٰی کی بارش برسے گی۔

اس زمانے میں یہ دوعظیم معنوی خصلتیں کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہوں گی بلکہ سب ان سے بہرہ مند ہوںگے۔ان دو خصلتوں کے عام ہونے کی وجہ سے دنیا سے غضبِ الہٰی اٹھا لیا جائے گا اور لوگوں پر نعمتوں اور برکات کا نزول ہوگا۔

اس مطلب کے اثبات کے لئے ہم قرآن و سنت کا رخ کرتے ہیں۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

'' و لینزلنّ البرکة من السماء الی الارض حتی ان الشجرة لتقصف بما یرید اللّٰه فیها مناالثمرة،ولتأکلن ثمرة الشتاء فی الصیف و ثمرة الصیف فی الشتاء ، وذلک قوله تعالی ''وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَی آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَیْهِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالأَرْضِ وَلَکِن کَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاهُم بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُون ''  (1)

یقیناًآسمان سے زمین کی طرف برکت نازل ہوگی ۔حتی کہ خدا درخت سے جو پھل چاہے،پیدا کرے گا۔گرمیوں کا پھل سردیوں اور سردیوں کا پھل گرمیوں میں کھائیں گے۔اسی لئے ارشاد پروردگار ہے:

اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین و آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ،لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔

اس آیت ا و رروایت میں بہترین نکات موجود ہیں کہ جن میں سے ہم بعض کو بیان کرتے ہیں:

--------------

[1]۔ سورہ اعراف،آیت:96۔بحاراانوار :ج 53ص 63

۹۳

1 ۔آ یت کے اس جملے'' فَأَخَذْنَاه ُم بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُون'' میں فاء تفریعہ دلالت کرتا ہے کہ حقائق الہٰی کی تکذیب ،رسول ِ اکرم(ص)کے احکام پرعمل نہ کرنا اور انہ یں ردّ کرنا ،لوگوں کے لئے مؤاخذہ کا سبب بنا۔ان کے عمل کی وجہ سے لوگوں پر آسمانی برکات کا نزول بند ہوجاتا ہے اور بد بختی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

اس بناء پر ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ تمام جنایت و جرائم ،قتل وغارت،فساد اور بد امنی رسول ِ خدا کے فرامین سے روگردانی ان پر ایمان نہ لانے اور تقویٰ نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔

اگر لوگ ابتدا ء ہی سے خدا کے پیغمبروں کی تکذیب نہ کرتے،ان پر ایمان لے آتے اور ایمان کی بنیاد پر تقویٰ اختیار کرلیتے تو وہ کبھی بھی مصیبتوں،غموں اور بلائوں کے گرداب میں مبتلا نہ ہوتے۔

  زمانۂ ظہور میں برکت

2 ۔ ظہور  کے زم انے میں ایمان و تقویٰ کی وجہ سے ان پر زمین و آسمان سے خدا کی برکات برسیں گی۔خدا کسی بھی درخت سے جس پھل کا بھی ارادہ کرے وہ اسی درخت سے پیدا ہوگا۔اسی طرح کوئی بھی پھل کسی خاص موسم سے مختص نہیں ہوگا۔گرمیوں میں درخت سردیوں کے پھلوں اور سردیوں میں گرمیوں کے پھلوں سے لدے ہوں گے۔

برکت کا مسئلہ ایک ایسی بڑی حقیقت ہے کہ جس کی وجہ سے ظہور کے بابرکت زمانے میں دنیا کا چہرہ ہی بدل جائے گا اور زمانِ ظہور میں برکتوں کے نزول کی وجہ سے لوگ غیبت کے زمانے کے سخت مصائب بھول جائیں گے۔

جیساکہ ہم نے کہا کہ اس وقت دنیا کا نیا روپ سامنے آئے گا۔پوری روئے زمین قدرت،طاقت،ثروت اور نعمتوں سے بھری ہوگی۔فقر و تنگدستی کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔اس منوّر زمانے میں ضعف،ناتوانی اور شکستگی کو شکست ہوجائے گی ان کی جگہ قدرت،توانائی اور خوشیاں آجائیں گی۔

۹۴

اس پُر مسرّت زمانے میں لبوں پر مسکراہٹیں اور دل شادی اور شادمانی سے  لبریز ہوں گے۔

ملائکہ کے توسط سے برکت وجود میں آئے گی ۔مادّی لحاط سے گندم کی پیداوار کے لئے اسے زمین میں بونے اور پھر اسے ہوا و پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن جو غیر محسوس امور سے آشنائی رکھتے  ہوں،ان کے لئے اشیاء کو ایجاد کرنا فقط عادی و طبیعی وسائل میں منحصر نہیں ہے۔بلکہ وہ غیر طبیعی طریقوں سے بھی طبیعی محصول کو ایجاد کر سکتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ خدا وند متعال نے مختلف کاموں کو وسائل و اسباب کی بنا پر قرار دیا ہے ۔لیکن اس وجہ سے ہمیں وسائل و اسباب میں اتنا مشغول نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم مسبب الاسباب کو ہی فراموش کردیںاور یہ گمان کریں کہ خدا وند کریم نے ایجاد  امورکے لئے جو اسباب قرار دیئے ہیں،وہ صرف مادّی یا ایسے امور میں منحصر ہیں کہ جن سے ہم آگاہ ہیں۔

3 ۔ ظہور کے زمانہ م یں لوگ گمراہی و ضلالت سے نکل کر ہدایت پالیں گے۔یہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج)کی عالمی حکومت اور اسلام کے عالمی دین ہونے کی دلیل ہے۔

دورِ حاضر کے برخلاف عصرِ ظہور میں دنیا کے سب لوگ رسولِ اکرم(ص) کے دستورات اور اسلام کے آئ ین پر ایمان لائیں گے اور تقویٰ اختیار کریں گے۔

یہ بدیہی و واضح ہے کہ رسول اکرم(ص) کے دستورات،مکتبِ اہلب یت علیہم السلام اور قرآن کی پیروی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے اور آنحضرت(ص) کا اجرِ رسالت فقط مودّت ذو ی القربیٰ ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے۔

۹۵

'' قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ'' (1)

آپ کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا ،علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو۔

دنیا کے تمام لوگوں کے عقلی تکامل کی وجہ سے زمانِ نجات میں سب لوگ رسولِ اکرم(ص)کے فرام ین کو قبول کریں گے اور خاندانِ وحی علیھم السلام     کی مودّت کو ادا کریں گے۔ مودّت اہلبیت علیہم السلام  سے ایسی محبت مراد ہے کہ جو ان کے نزدیک انسان کے تقرّب کا باعث بنے۔

''المودة ، قرابة مستفادة '' (2)

مودّت سے قرب و نزدیکی حاصل ہوتی ہے۔

اس روایت کی بناء پر معاشرے میں ایمان و تقویٰ آسمانی دروازوں کے کھلنے اور برکاتِ الہٰی کے نزول کا سبب ہے۔پس اگر آغاز بعثت سے لوگ پیغمبراکرم(ص)کے احکامات کو قبول کرے اور خاندانِ عصمت و طہارت  عل یھم السلام کی ولایت سے ہاتھ نہ اٹھاتے تو آج دنیا گرانی و ضلالت اور تباہی و بربادی کا منظر پیش نہ کررہی ہوتی اور خداوند کریم آسمانی برکات اور عطائے نعمت سے دریغ نہ کرتا۔

لیکن افسوس کہ جہالت و گمراہی کی آستین سے ستمگروں کے ہاتھ باہر نکلے اور سقیفہ میں خلافت کا ایسا بیج بویا کہ جو بعد میں تن آور درخت کی صورت اختیار کرگیا۔جس کے نتیجہ میں ظلم و ستم اور اختلافات کی آگ بھڑک اٹھی کہ جس کے شعلے آج بھی بلند ہورہے ہیںاور جب تک آستینِ عدالت سے امام عصر کا ظہور نہ ہوجائے،تب تک یہ آگ روشن رہے گی۔اماممہدی علیہ السلام اپنے عدل اور رحمت سے اس آگ کو بجھائیں گے۔

--------------

[1]۔ سورہ شوریٰ،آیت: 23

[2] ۔ بحارالانوار :ج74ص165

  دنیا کے روشن مستقبل کے بارے میں رسول اکرم (ص)ک ی بشارت

پیغمبر اکرم (ص)اس زمانے م یں آئندہ کے واقعات سے آگاہ تھے اور انہوں نے لوگوں کو فتنہ و فساد اور تباہی و بربادی سے آگاہ کیا تھا اورحضرت مہدی  علیہ السلام  کے ظہور تک اس کے تداوم کی خبر دی تھی۔جیسا کہ انہوں نے اس زمانے میں نعمتوں کی فراوانی اور دنیا کے بہتر اقتصاد کو بھی بیان کیا تھا۔ہم یہاں ظہور قائم آل محمد علیہ السلام  اور اس زمانے کے مستحکم اقتصاد کے بارے میں رسول اکرم(ص) ک ی بشارتوں کے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں۔

پیغمبر مقبول اسلا م(ص)نے فرما یا:

'' ابشّرکم بالمهدی یبعث فی امّتی علٰی اختلاف من الناس وزلازل فیملأ الارض قسطاََ و عدلاََ کما ملئت ظلماََ و جوراََ یرضٰٰی به ساکن السماء یقسّم المال صحاحاََ ''

قلنا:وما الصحاح؟

'' قال بالسویّة بین الناس ،فیملأ اللّه قلوب اُمّة محمد غنیٰ و یسعهم عدله حتّیٰ یأمر منادیاً فینادی:من له فی مال حاجة؟ ''

'' قال:فلا یقوم من الناس الا رجل،فیقول :انا ،فیقول له،انت السادنیعنی الخازنفقل له ،ان المهدی یأمرک ان یعطینی مالاً ''

'' فیقول له:احثیعنی خذ.حتّی اذا جعله فی حجره و ابرزه (ندم) فیقول:کنت اجشع امّة محمد نفساً او عجز عنّی ما وسعهم ؟ ''

'' قال فیردّه فلا یقبل منه،فیقال له،انا لا نأخذ شیئاً اعطیناه ''

میں تمہیں مہدی علیہ السلام   کے بارے میں بشارت دیتا ہوں ،جو میری امت میں بھیجا جائے گا کہ جب لوگوں میں اختلاف ہوگا اور زلزلے رونما ہورہے ہوں۔

پس وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھردے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے پُر ہوچکی ہوگی اس کام سے آسمان میں رہنے والے راضی ہوں گے۔

۹۶

مال کو صحیح طور پر تقسیم کرے گا۔

ہم نے کہا صحاح سے کیا مراد ہے؟

فرمایا:لوگوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کرے گا ۔پس خدا وند متعال رسول اکرم (ص) ک ی امت کے دلوں کو بے نیازی سے سرشار فرمائے گا۔اس کی عدالت سب کو احاطہ کرے گی۔یہاں تک کہ وہ منادی کو ندا کا حکم دے گا اور منادی ندا دے گا کہ ہے کوئی جسے مال کی احتیاج و ضرورت ہو؟

پس لوگوں میں  سے کوئی کھڑا نہیں ہوگا مگر ایک شخص اور وہ کہے گا !مجھے ضرورت ہے۔وہ اسے کہے گا کہ خزانہ دار کے پاس جائو اور اسے کہو کہ مہدی علیہ السلام نے حکم دیاہے کہ مجھے مال دو،خزانہ دا ر اسے کہے گا کہ لے لو۔ جب وہ اپنے لباس میں مال ڈالے گا تو وہ پشیمان ہوکر کہے گا۔میرا نفس امت رسول میں حریص ترین ہے اورکیا جس نے ان کو عطا کیا وہ مجھ کو عطا کرنے سے عاجز تھا۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ شخص خزانہ دار کو مال واپس دے دے گا ۔لیکن وہ اس سے مال واپس نہیں لے گا اور کہے گا !ہم جو چیز دے دیں وہ واپس نہیں لیتے۔

اس روایت میں اختلاف ، زلزلے ،پوری دنیا میں ظلم و ستم ،فقر،  تنگدستی اور ضرورت مندی کو امام عصر علیہ السلام  کے ظہور کی نشانیوں کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔ حضرت ولی عصر علیہ السلام  کے ظہور کے  بعد ان سب کا خاتمہ ہوجائے گا اور روئے زمین پر عدل کا بول بالا ہوگا۔سب لوگ بے نیاز ہوںگے۔

۹۷

دوسری روایت میں رسول اکرم  (ص)فرماتے ہ یں:

''یحثی المال حثیاً لایعده عداً یملأ الارض عدلا کما ملئت جوراً و ظلماً ''  (1)

وہ لوگوں کے سامنے مال ڈال دے گا اور اسے شمار نہیںکرے گا۔زمین کو عدالت سے بھر دے گا ۔ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔

  دنیا میں خوشیاں ہی خوشیاں

اسی طرح رسول اکرم (ص)ا س ح یات بخش زمانے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب دنیا میں ہر طرف خوشیاں ہوں گی۔

''یرضی عنه ساکن السماء و ساکن الارض ،ولا ندع السّماء من قطرها شیئاً الّا صبّته،ولا الارض من نباتها شیئاً الّا اخرجته حتیٰ یتمنّی الاحیاء الاموات''  (2)

زمین وآسمان کے رہنے والے اس راضی ہوں گے۔آسمان بارش کے آخری قطرے تک کو برسا دے گااور زمین آخری دانہ تک کو باہرکر دے گی یہاں تک کہ اس وقت زندہ افراد آرزو کریں گے کہ کاش ان کے مردے بھی زندہ ہوتے۔

--------------

[1] ۔ التشریف بالمنن:147

[2]۔ التشریف بالمنن: 164

۹۸

اس بناء پر مسرت و خوشحالی صرف کرہ زمین پر بسنے ولاوں سے مخصوص نہیں ہے۔بلکہ ساکنینِ آسمان بھی آنحضرتسے راضی و خوشنود ہوں گے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حضرت ولی عصر  علیہ السلام کی حکومت ایک عالمی حکومت ہوگی کہ جو آسمان و زمین پر بسنے والے تمام افراد کی رضائیت کو جلب کرے گی۔

قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ رسول اکرم(ص)ا یک دوسری روایت میںزمانِ ظہور کے بارے میں شادمانی و خوشحالی فقط انسانوں سے مخصوص نہیں سمجھتے ۔بلکہ فرماتے ہیں :

فرحت و مسرّت میں اس وقت کے حیوانات بھی شامل ہوں گے۔

رسول مقبول اسلام (ص)فرماتے ہ یں:

'' هو رجل من ولد الحسین کانه من رجال شنسوة،علیه عباء تان قطوا نیّتان اسمه اسمی،فعند ذلک تفرح الطیور فی اوکارها،والحیتان فی بحارها،و تمد الانهار،و تفیض العیون و تنبت الارض ضعف اکلها،تم یسیر مقدمته جبرئیل وساقته اسرافیل فیملأ الارض عدلاً و قسطاً کما ملئت جورا و ظلماَ '' (1)

وہ حسین  علیہ السلام کے فرزندوں میں سے ایک مرد ہے۔گویا وہ شنسوة مردان میں سے ہے۔اس پر روئی سے بنی ہوئی دو عبائیں ہوں گی۔اس کا اسم میرا اسم ہے۔اس وقت پرندے اپنے آشیانوں میں اور مچھلیاںدریائوںمیںخوش ہوجائیں گی۔ نہریںبڑھ جائیںگئی اور چشمے جاری ہوجائیں گے۔زمین سے بہت زیادہ پھل اور نباتات پیدا ہوں گی۔پھرجبرئیل ان کے لشکر کی ابتداء اور اسرافیل درمیان میں سیر کرے گا۔وہ زمین کو عدل و انصاف سے پُر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے پُر ہوچکی ہوگی۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج 52ص 304

۹۹

جی ہاں!جس لشکر میں جبرئیل و اسرافیل جیسے حاملین عرش شامل ہوں،وہ اہل زمین کی نجات کا ذریعہ ہوگا۔دوسری مخلوقات و موجودات کے لئے بھی خوشیوں کا باعث ہوگا۔وہ غاصبوں سے لوگوں کے حقوق لے گا اور مقروضین کے قرض ادا کرے گا۔چاہے وہ کوہ کی مانند بہت زیادہ ہو یا پھر کاہ یعنی تنکے کی مانند بہت کم ہے۔

مفضل نے اما م صادق  علیہ السلام  سے عرض کی:

'' یا مولای، من مات من شیعتکم و علیه دین لاخوانه ولاضداده کیف یکون؟

قال الصادق:اوّل ما یبتدی المهدی ان ینادی فیجمیع العالم ؛الا من له عند احد من شیعتنا دین فلیذکره،حتی یردّ التومة والخردلة فضلاً عن القناطیر المقنطرة من الذّهب والفضة والاملاک فیوفّیه ایّاه '' (1)

اے میرے آقاو مولی!اگر آپ کے شیعوں میں سے کوئی مرجائے گا کہ جس پر بردرانِ مؤمن اور مخالفین کا قرض ہو تو کیا ہوگا؟

امام صادق  علیہ السلام نے فرمایا:مہدی علیہ السلام  سب سے پہلے جو کام شروع کریں گے،وہ یہ ہوگا کہ پوری دنیا میں منادی ند ادے گا:

آگاہ ہوجائو کہ جس نے بھی میرے شیعوں میں کسی کو قرض دیا ہو تو بتائے تاکہ سونا چاندی کے قناطیر مقنطرہ سے بھی زیادہ اس کے مالک کو دے دیا جائے۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۵۳ص۳۴

۱۰۰