ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں0%

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: گوشہ خواتین
صفحے: 77

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سید حیدر علی زیدی ،مظفر نگری
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 77
مشاہدے: 62417
ڈاؤنلوڈ: 3511

تبصرے:

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 77 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62417 / ڈاؤنلوڈ: 3511
سائز سائز سائز
ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

ماں کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

        (11) احسان کے ساتھ نرم اور شر یفانہ گفتگو بھی لازم و ضروری ہے۔﴿فَلاٰ تَقُلْ لَّهُمَا اُفٍّ﴾

والد ین کے ساتھ احسان اور نرم و شریفانہ گفتگو کرنے میں ضروری نہیں ہے کہ والدین بھی اسی انداز سے پیش آئیں ۔بلکہ اگر وہ کریمانہ رویہ نہ بھی اختیار کریں تب بھی ضروری ہے کہ ان کے ساتھ شریفانہ گفتگوکی جائے﴿قُلْ لَّهُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا﴾ (1)

آیت نمبر 24

        (1) ب یٹا جس حالت میں بھی ہو متواضع ہو اور اپنے مقام ومنصب کو والدین پر ظاہر نہ کرے۔''وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ''

        (2) والد ین کے حضور میں تواضع، مہرو محبت کی بنیاد پر ہونا چاہئے نہ کہ دکھاوے یا مالدولت حاصل کرنے کے لئے﴿وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾

        (3) ب یٹا والدین کی بہ نسبت متواضع ہواور ان کے لئے رحمت کی دعا بھی کرے﴿وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا﴾

        (4 یٹے کی دعا ماں باپ کے حق میں مستجاب ہوتی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو خدا وند عالم دعا کرنے کا حکم نہ دیتا﴿ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا﴾

        (5) ماں باپ کے حق م یں دعا حکم خداکی تعمیل اور ان کی شکرگذاری کی علامت ہے﴿ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا﴾

        (6)والد ین پر نزول رحمت کی دعا سے ان کی تربیت کی زحمتوں کا جبران کیا جاسکتا ہے ۔﴿ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَاکَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا﴾

--------------

(1):- تفسیر نور۔ مصنف :محسن قراتی

۲۱

        (7) ماں باپ کو محبت ک ی بنیاد پر او لاد کی تربیت کرنا چاہئے ۔﴿رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ﴾

(8)انسان کو اپنے مرب یوں کا شکر گذار ہونا چاہئے اور ان کی قدر دانی کرنا چاہئے۔﴿اِرْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ﴾ (1)

والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی وصیت

﴿وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ إِحْساناً حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهاً وَ وَضَعَتْهُ كُرْهاً وَ حَمْلُهُ وَ فِصالُهُ ثَلاثُونَ شَهْراً حَتَّى إِذا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ بَلَغَ أَرْبَعينَ سَنَةً قالَ رَبِّ أَوْزِعْني‏ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتي‏ أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَ عَلى‏ والِدَيَّ وَ أَنْ أَعْمَلَ صالِحاً تَرْضاهُ وَ أَصْلِحْ لي‏ في‏ ذُرِّيَّتي‏ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَ إِنِّي مِنَ الْمُسْلِمينَ﴾(2)

        اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرنے کی نصیحت کی کہ اس کی ماں نے بڑے رنج کے ساتھ اسے شکم میں رکھا ہے اور پھر بڑی تکلیف کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کے حمل اور دودھ بڑھائی کا کل زمانہ تیس مہینے کا ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ توانائی کو پہنچ گیا اور چالیس برس کا ہوگیا تو اس نے دعا کی کہ پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے ۔ اور ایسا نیک عمل کروں کہ تو راضی ہوجائے اور میری ذریت میں بھی صلاح وتقویٰ قرار دے کہ میں تیری ہی طرف متوجہ ہوں اور تیرے فرمانبردار بندوں میں ہوں ۔

        روایت میں وارد ہوا ہے کہ ایام حمل میں ماں کے بستر خواب پر پوری ا حتیاط سے کروٹ بدلنے کا عوض کچھ نہیں ہوسکتا ۔اگر اولاد ساری زندگی اس کی خدمت و اطاعت میں گزار دے تب بھی نہیں۔ اور کافی میں ہے کہ پیغمبر (ص)نے ایک نوجوان سے فرمایا : کہ تیری ضعیفہ ماں کا محبت بھری نگاہوں سے تیری طرف دیکھنا اور خوش ہونا تیرے لئے میرے ہمرکاب کئے ہوئے کئی جہادوں سے افضل ہے۔

--------------

(1):- تفسیر نور۔ مصنف :محسن قراتی

(2):- سورۂ احقاف/15

۲۲

آیت کے نکات وپیغامات

        1۔ والد ین کے ساتھ احسان ، خدا وند عالم کے نزدیک ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن مجید میںکلمۂ﴿وَصَّیْنَا﴾ پانچ مرتبہ استعمال ہوا ہے جن م یں سے تین مرتبہ والدین سے متعلق ہے۔(1)

        2۔ والد ین کے ساتھ نیکی کا حکم تاریخ انسانیت اور تمام ادیان میں رہا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ لفظ﴿وَصَّیْنَا﴾ ماض ی کی صورت میں آیا ہے ۔

 3۔ والد ین کے ساتھ نیکی کرناحقوق انسانی میں سے ہے کہ جو ہر ماں باپ اپنے بیٹوں پر رکھتے ہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں﴿وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ﴾ آ یا ہے نہ کہ﴿وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا﴾

        4۔ والد ین کے ساتھ احسان کرنے میں ان کے مسلمان ہونے کی شرط نہیں ہے۔ چونکہ آیت مطلقاً آئی ہے بغیر کسی قید کے﴿وَوَصَّیْنَا الانْسَانَ بِوَالِدَیْهِ﴾

        5۔ تنہا انفاق و احترام اور امداد ہ ی نہیں بلکہ ہر قسم کی نیکی والدین کی بہ نسبت لازم و ضروری ہے ۔

        6۔ والد ین کے ساتھ نیکی کرنے کا کمال یہ ہے کہ بغیر واسطہ کے ہو۔

        7۔ ماں کا حق باپ سے ز یادہ ہے شاید یہی وجہ ہے کہ لفظ والدین کے بعد ماں کی سختیوں اور مشکلوں کا الگ سے تذکرہ کیا گیاہے ۔﴿وَحَمَلَتْهُ...﴾

        8۔ ب یٹے کا شکریہ ادا کرنا ان نعمتوں پر کہ جو اس کے والدین کو عطا کی گئی ہیں ، والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی ایک قسم ہے ۔﴿اَنْ اَشْکُرَ نعِمَتَکَ الَّتِی اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ﴾

        9۔ خدا وند عالم ک ی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کا بہترین طریقہ نیک کاموں کو انجام دینا ہے ۔''وَاَعْمَلْ صَالِحًا''

--------------

(1):- عنکبوت، 8، لقمان، 14، احقاف، 15

۲۳

        10۔ ن یک عمل کی اہمیت اس میں ہے کہ اس کو ہمیشہ انجام دیا جائے ۔

        11۔ وہ عمل صالح اہم یت کا حامل ہے جو خلوص نیت کے ساتھ ہواور جس سے خدا راضی ہوجائے ۔

        12۔ صالح ب یٹا اور صالح نسل، والدین کے لئے ایک طرح کا افتخار ہے﴿وَأَصْلِحْ لي‏ في‏ ذُرِّيَّتي﴾

        13۔ بہتر ین دعا وہ ہے کہ جس میں انسان اپنے والدین اور بچوں کو بھی شامل کرے﴿عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ﴾

        14۔ وہ نافرمان یاں جو ہم نے خدا اور والدین کی نسبت انجا م دی ہیں ان سے توبہ کریںاور ان کا جبران کریں﴿اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ﴾

        15۔ خدا وند عالم کے حکم کے سامنے سر تسل یم خم رکھنا مسلمان مرنا اور پاک اورپاکو صالح لوگوں میں سے ہونے کی دعا کرنا ۔﴿اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (1)

ایمان کے مقابلہ میں ماں باپ سے دوری

﴿وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْناً عَلى‏ وَهْنٍ وَ فِصالُهُ في‏ عامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لي‏ وَ لِوالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصيرُ (14) وَ إِنْ جاهَداكَ عَلى‏ أَنْ تُشْرِكَ بي‏ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُما وَ صاحِبْهُما فِي الدُّنْيا مَعْرُوفاً وَ اتَّبِعْ سَبيلَ مَنْ أَنابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾(2)

        اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے بارے میں نصیحت کی ہے کہ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر اسے پیٹ میں رکھا ہے اور اس کی دودھ بڑھائی بھی دو سال میں ہوئی ہے کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کرو کہ تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے۔''

--------------

(1):- تفسیر نور۔ مصنف :محسن قراتی

(2):- سورۂ لقمان/14و15

۲۴

اور اگر تمہارے ماں باپ اس بات پر زور د یں کہ کسی ایسی چیز کو میرا شریک بنائو جس کا تمہیں علم نہیں ہے تو خبردار ان کی اطاعت نہ کرنا لیکن دنیا میں ان کے ساتھ نیکی کا برتائو کرنا اور اس کا راستہ اختیار کرنا کہ جو میری طرف متوجہ ہو پھر اس کے بعد تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے اور اس وقت میں بتائوں گا کہ تم لوگ کیا کررہے تھے۔ (15)         اس آیت میں والدین پر احسان کرنے کا حکم اور ان کی اطاعت کو مطلقاً واجب نہیں کیا ہے بلکہ ایک حد معین کردی ہے کہ اگر وہ شرک کے خواہش مند ہوں اور اس راہ میں مجبور کریں تو ا س بارے میں ان کی اطاعت ساقط ہے بلکہ ان کی اس معاملہ میں اطاعت کرنا حرام ہے ۔ یعنی جہاں بھی والدین خلاف شرع بات کا حکم دیں اور دین کی مخالفت پر اصرار کریں تو ایسے مقامات پر ان کی اطاعت نہیں کرنا چاہئے ۔ البتہ ایسی صورت میں بھی دنیوی معاملات میں ان کے احکام و اوامر کی فرمانبرداری واجب و لازم ہے اور ان کے ساتھ اس کے باوجود بھی نیکی اور خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہئے۔(1)

        مناقب میں آیا ہے کہ ایک دن امام حسینؑ، عبدالرحمٰن ابن عمرو ابن عاص کے پاس سے گذرے تو عبدالرحمٰن نے کہا کہ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس شخص کو دیکھے جو زمین پر اہل آسمان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے تو ا س کی طرف نگاہ کرے کہ جو جا رہا ہے ۔ اگرچہ میں نے صفین کی جنگ کے بعد سے آج تک ان سے کلام نہیں کیا ہے ۔

        پس جناب ابوسعید خدری اس کو حضرت کے پاس لائے ۔ امام حسین ؑنے اس سے فرمایا :تم یہ جانتے تھے کہ میں زمین پر اہل آسمان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں ۔اس کے باوجود تم نے صفین میں میرے اور میرے باپ کے خلاف تلوار کھینچی؟ خدا کی قسم ! میرے والد مجھ سے بہتر تھے ۔ پس عبدالرحمٰن نے معذرت کی اور کہا :میں کیا کرتا۔ رسول خدا(ص)نے خود مجھ سے فرمایا تھا کہ اپنے باپ کی اطاعت کرو۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے کلام خدا کو نہیں سنا کہ جس میں ارشاد ہوتاہے

--------------

(1):- تفسیر المیزان ترجمہ فارسی

۲۵

وَاِنْ جَاهَدَاکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْم فَلَا تُطِعْهُمَا اور اگر تمہارے ماں باپ اس بات پر زور د یں کہ کسی ایسی چیز کو میرا شریک بنائو جس کا تمہیں علم نہیں ہے تو خبر دار ان کی اطاعت نہ کرنا۔ اور کیا تم نے رسول سے نہیں سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : اطاعت (چاہے والدین کی ہو یا کسی اور کی) معروف میں  ہونا چاہئے اور وہ اطاعت جو خدا کی نافرمانی میں ہو وہ معروف اور پسندیدہ نہیں ہے ۔ اور کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ کسی بھی مخلوق کی خدا کی نافرمانی میں اطاعت نہیں کرنا چاہئے۔(1)

والدین کے ساتھ نیکی تمام ادیان میں

وَ إِذْ أَخَذْنا ميثاقَ بَني‏ إِسْرائيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللَّهَ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً وَ ذِي الْقُرْبى‏ وَالْيَتامى‏ وَ الْمَساكينِ وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً وَ أَقيمُوا الصَّلاةَ وَ آتُوا الزَّكاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلاَّ قَليلاًمِنْكُمْ وَ أَنْتُمْ مُعْرِضُونَ (2) اس وقت کو یاد کرو کہ جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ ،قرابتداروں ،یتیموں اورمسکینوں کے ساتھ اچھا برتائو کرنا لوگوں سے اچھی باتیں کرنا ،نماز قائم کرنا ، زکات ادا کرنا لیکن اس کے بعد تم میں سے چند کے علاوہ سب منحرف ہو گئے اور تم لوگ تو بس اعراض کرنے والے ہو۔

والدین کے لئے استغفار

رَبِّ اغْفِرْ لي‏ وَ لِوالِدَيَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِناً وَ لِلْمُؤْمِنينَ وَ الْمُؤْمِناتِ وَ لا تَزِدِ الظَّالِمينَ إِلاَّ تَباراً (3) پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں داخل ہوجائیں اور تمام مومنین و مومنات کو بخش دے اور ظالمین کی ہلاکت کے علاوہ کسی شئی میں اضافہ نہ کرنا ۔''

--------------

(1):- تفسیر المیزان

(2):- سورہ بقرہ آیت/83

(3):- نوح، آیت /28

۲۶

مغرور بیٹا اور والدین کی حسرت

والْذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْهِ اُفٍّ لَکُمَا اَتَعِدَانَنِیْ اَنْ اَخْرُجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِیْ وَهُمَایَسْتَغِیْثٰنِ اللّٰهَ وَیْلَکَ آمِنُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ ...... (1) '' اور جس نے ماں باپ سے یہ کہا کہ تمہارے لئے حیف ہے کہ تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہوکہ میں دوبارہ قبر سے نکالا جائوں گا حالانکہ مجھ  سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں اور وہ دونوں فریاد کررہے تھے کہ یہ بڑی افسوسناک بات ہے بیٹا ایمان لے آ، خدا کا وعدہ بالکل سچا ہے تو کہنے لگا کہ یہ سب پرانے لوگوں کے افسانے ہیں

توحید کے ہمراہ والدین کے ساتھ نیکی

وَ الَّذي قالَ لِوالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُما أَ تَعِدانِني‏ أَنْ أُخْرَجَ وَ قَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلي‏ وَ هُما يَسْتَغيثانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ ما هذا إِلاَّ أَساطيرُ الْأَوَّلينَ (2)     اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شئی کو اس کا شریک نہ بنائو اور والدین کے ساتھ نیک نرتائو کرو اور قرابتداروں کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینو ں ،قریب اوردور کے ہمسائے ،پہلو نشین ،مسافر ،غربت زدہ ،غلام وکنیز سب کے ساتھ نیک برتائو کرو کہ اللہ مغرور اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا

ایمان کے مقابلہ ماں باپ سے دوری

يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا آباءَكُمْ وَ إِخْوانَكُمْ أَوْلِياءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإيمانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (3) ایمان والوں خبردار اپنے باپ دادا اور بھائیوں کو اپنا دوست نہ بنائو اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کو دوست رکھتے ہوں اور جو شخص بھی ایسے لوگوں کو اپنا دوست بنائے گا وہ ظالموں میں شمار ہوگا۔

--------------

(1):- سورۂ احقاف ،آیت /17

(2):- سورۂ احقاف ،آیت /17

(3):- سورۂ توبہ،آیت /23

۲۷

ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو

وَ بَرًّا بِوالِدَيْهِ وَ لَمْ يَكُنْ جَبَّاراً عَصِيًّا (1) اوریحیٰ اپنے ماں باپ کے حق میں نیک برتائو کرنے والے تھے اور سرکش و  نافرمان نہیں تھے۔

عدل اور والدین

يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ وَ لَوْ عَلى‏ أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقيراً فَاللَّهُ أَوْلى‏ بِهِما فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوى‏ أَنْ تَعْدِلُوا وَ إِنْ تَلْوُوا أَوْ أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبيراً (2) اے ایمان والو!عدل اور انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقرباء ہی کے خلاف کیوں نہ ہو جس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر، اللہ دونوں کے لئے تم سے اولیٰ ہے لہٰذا خبردار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تاکہ انصاف کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کرلی تو یاد رکھو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

والدین اور کار خیر

يَسْئَلُونَكَ ما ذا يُنْفِقُونَ قُلْ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبينَ وَ الْيَتامى‏ وَ الْمَساكينِ وَ ابْنِ السَّبيلِ وَ ما تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَليمٌ (3) پیغمبر! یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ راہ خدا میں کیا خرچ کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ جو بھی خرچ کروگے وہ تمہارے والدین،قرابتدار،ایتام،مساکین اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہوگا اور جو بھی کار خیر کرو گے خدا اسے خوب جانتا ہے

--------------

(1):- سورہ ٔمریم،آیت/ 14

(2):- سورۂ نساء،آیت /135 

(3):- سورۂ بقرہ،آیت/215

۲۸

    وصیت اور والدین

﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْراً الْوَصِيَّةُ لِلْوالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقينَ﴾ (180)(1)       تمہارے اوپر یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت سامنے آجائے تو اگر کوئی مال چھوڑا ہے تو اپنے ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے وصیت کردے یہ صاحبان تقویٰ پر ایک طرح کا حق ہے ۔

والدین کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا

﴿فَتَبَسَّمَ ضاحِكاً مِنْ قَوْلِها وَ قالَ رَبِّ أَوْزِعْني‏ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتي‏ أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَ عَلى‏ والِدَيَّ وَ أَنْ أَعْمَلَ صالِحاً تَرْضاهُ وَ أَدْخِلْني‏ بِرَحْمَتِكَ في‏ عِبادِكَ الصَّالِحينَ﴾ (19)(2) سلیمان اس کی بات پر مسکرا دئیے اور کہا کہ پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ا دا کروں جو تونے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے اور ایسا نیک عمل کروں کہ تو راضی ہوجائے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوںمیں شامل کرلے۔

والدین کے لئے استغفار کی دعا

﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لي‏ وَ لِوالِدَيَّ وَ لِلْمُؤْمِنينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسابُ﴾ (41)(3)     پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنین کو اس دن بخش دینا جس دن حساب قائم ہوگا۔(۴۱)

--------------

(1):- سورہ ٔبقرہ،آیت/ 180

(2):- سورۂ نمل،آیت/ 19

(3):- سورہ ٔابراہیم،آیت/ 41

۲۹

احادیث

 (1) حاملہ عورت کا ثواب

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت رسول خدا(ص) سے نقل کیا ہے"إِذَا حَمَلَتِ الْمَرْأَةُ كَانَتْ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْمُجَاهِدِ بِنَفْسِهِ وَ مَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِذَا وَضَعَتْ كَانَ لَهَا مِنَ الْأَجْرِ مَا لَا تَدْرِي مَا هُوَ لِعِظَمِهِ فَإِذَا أَرْضَعَتْ كَانَ لَهَا بِكُلِّ مَصَّةٍ كَعِدْلِ‏عِتْقِ مُحَرَّرٍ مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعِيلَ فَإِذَا فَرَغَتْ مِنْ رَضَاعِهِ ضَرَبَ مَلَكٌ عَلَى جَنْبِهَا (جَنْبَيْهَا) وَ قَالَ استأنف(اسْتَأْنِفِي)‏الْعَمَلَ فَقَدْ غُفِرَ لَكِ. (1) جس وقت عورت حاملہ ہوتی ہے وہ اپنے حمل کی تمام مدت میں اس شخص کا ثواب رکھتی ہے کہ جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور راتوں کو عبادت کرتا ہے اوراسی طرح اس شخص کی مانند ہے جو اپنے جان و مال سے راہ خدا میں جہاد کرتا ہے۔ اور جس وقت وہ بچہ کو جنم دے دیتی ہے تو خدا وند عالم اس کو اتنا عظیم ثواب عطا کرتا ہے کہ اس کی عظمت مقدار کو کوئی پہنچ نہیں سکتا اور جس وقت ماں بچہ کو دودھ پلاتی ہے تو ہر اس ایک گھونٹ کے بدلے کہ جو بچہ ماں کے پستان سے پیتا ہے، خدا وند عالم اس کو اولاد اسماعیل  یعنی مومنین و موحدین میں سے ایک انسان کے آزاد کرنے کا ثواب دیتا ہے اور جس وقت دودھ پلانے کی مدت ختم ہوجاتی ہے تو ایک عظیم فرشتہ اس کے پہلو پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے : اپنی نئی زندگی کا آغاز کرو، کیونکہ خدا وند عالم نے تمہارے تمام گذشتہ گناہوں کو معاف کردیا ہے ۔

(2) ولادت یا نفاس کی حالت میں دنیا سے رحلت کرنے والی عورت کا درجہ

رسول خدا(ص)نے ارشاد فرمایا:۔الصَّدُوقُ فِي الْهِدَايَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص: أَيُّمَا امْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا لَمْ يُنْشَرْ لَهَا دِيوَانٌ يَوْمَ الْقِيَامَة (2)

--------------

(1):- ۔امالی شیخ صدوق،ص/411،رقم/7

(2):- مستدرکالوسائل ومستنبط المسائل ج :2 ص :50

۳۰

وہ خاتون جو حالت نفاس میں دنیا سے چلی جائے، قیامت کے دن اس کا اعمال نامہ نہیں کھولا  جائے گا۔

امام جعفر صادق ؑنے ارشاد فرمایا:

النفسا تبعث مِن قبرِها بِغیرِ حِساب لِنها ماتت فِی غمِ نِفاسِها(1)

وہ خاتون جو ولادت کے وقت دنیا سے چلی جائے، قیامت میں اس کا کوئی حساب و کتاب نہیں ہوگا کیونکہ وہ اس بچہ کی ولادت کی زحمت برداشت کرتے ہوئے اس دنیا سے گئی ہے۔

{۳}دس لوگوں کا جسم قبر میں خراب نہیں ہوگا

رسول خدا(ص)نے ارشاد فرمایا:-

وَفِيهِ،وَرُوِيَ: لَاتَبْلَى عَشَرَةٌ الْغَازِي وَالْمُؤَذِّنُ وَالْعَالِمُوَحَامِلُالْقُرْآنِ وَالشَّهِيدُوَالنَّبِيُّ وَالْمَرْأَةُإِذَامَاتَتْفِي نِفَاسِهَاوَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماًوَمَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِأَوْلَيْلَتَهَا(2)

 دس لوگوں کا جسم قبر میں خراب نہیں ہوگا

1۔جنگ م یں زخمی ہونے والا، 2۔مؤذن ، 3۔عالم، 4۔حافظ قرآن، 5شہ ید، 6۔نب ی،  7۔وہ خاتون جو نفاس ک ی حالت میں دنیا سے گئی ہے 8۔جو شخص مظلوم قتل ہوا ہو، 9و 10۔ جو شخص روز جمعہ یا شب جمعہ دنیا سے گیا ہو۔

{۴}امام جعفر صادق ؑسے مروی ہے:-

 الْمَوْلَى سَعِيدٌ الْمَزْيَدِيُّ فِي تُحْفَةِ الْإِخْوَانِ، عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنِ الصَّادِقِ ع فِي خَبَرٍ طَوِيلٍ: فِي قِصَّةِ آدَمَ وَ حَوَّاءَ إِلَى أَنْ قَالَ فَقَالَتْ حَوَّاءُ أَسْأَلُكَ يَا رَبِّ أَنْ تُعْطِيَنِي كَمَا أَعْطَيْتَ آدَمَ فَقَالَ الرَّبُّ تَعَالَى إِنِّي وَهَبْتُكِ الْحَيَاءَ وَ الرَّحْمَةَ وَ الْأُنْسَ وَ كَتَبْتُ لَكِ مِنْ ثَوَابِ الِاغْتِسَالِ

--------------

(1):- امالی الطوسی ج 2  ص 285.

(2):- مستدرک الوسائل ج :2 ص : 50

۳۱

وَ الْوِلَادَةِ مَا لَوْ رَأَيْتِيهِ مِنَ الثَّوَابِ الدَّائِمِ وَ النَّعِيمِ الْمُقِيمِ وَ الْمُلْكِ الْكَبِيرِ لَقَرَّتْ عَيْنُكِ يَا حَوَّاءُ أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِي وِلَادَتِهَا حَشَرْتُهَا مَعَ الشُّهَدَاءِ يَا حَوَّاءُ أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَخْذَهَا الطَّلْقُ إِلَّا كَتَبْتُ لَهَا أَجْرَ شَهِيدٍ فَإِنْ سَلِمَتْ وَ وَلَدَتْ غَفَرْتُ لَهَا ذُنُوبَهَا وَ لَوْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ وَ رَمْلِ الْبَرِّ وَ وَرَقِ الشَّجَرِ وَ إِنْ مَاتَتْ صَارَتْ شَهِيدَةً وَ حَضَرَتْهَا الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ قَبْضِ رُوحِهَا وَ بَشَّرُوهَا بِالْجَنَّةِ وَ تُزَفُّ إِلَى بَعْلِهَا فِي الْآخِرَةِ وَ تُفَضَّلُ عَلَى الْحُورِ الْعِينِ بِسَبْعِينَ فَقَالَتْ حَوَّاءُ حَسْبِي مَا أَعْطَيْتَ الْخَبَر(1)

        امام صادق ؑحضرت آدم و حواعلیہما السلام کا قصہ بیان کرتے ہوئے جب اس مقام تک پہونچتے ہیں کہ جہاں حضرت حوا علیہا السلام نے کہا ''پروردگار تجھ سے سوال کرتی ہوں کہ جو مقامات تونے آدم ؑکو دیئے ہیں ۔وہ مجھے بھی عطا فرما تو خداوند متعال نے فرمایا اے حوا! میں نے تجھ کو حیا، رحمت اور محبت عطا کی ہے اور تمہارے لئے غسل نفاس اور ولادت کے ثواب کو رکھا ہے۔ اگر تم اس دائمی اور باقی رہنے والی نعمت اور عظیم مملکت کو دیکھتیں تو تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی۔ اے حوا! اگر کوئی خاتون ولادت کے وقت دنیا سے رخصت ہوجائے تو اس کا شمار شہدا میں ہوتا ہے۔

اے حوا! جب کسی خاتون کو ولادت کا درد ہوتا ہے تو ایک شہید کا اجر و ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے اگر بچہ کی ولادت صحیح و سالم ہوگئی تو اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں چاہے وہ سمندر کے حباب ، ریت کے ذرات اور درختوں کے پتوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اگر ولادت کے وقت دنیا سے رخصت ہو جائے تو شہیدہ دنیا سے جاتی ہے اور اس کی روح قبض ہوتے وقت ملائکہ آتے ہیں اور اس کو جنت کی بشارت دیتے ہیں اور آخرت میں اس کو اس کے شوہر سے ملا دیا جائے گا  اور اس کو حورالعین پر بھی ستر درجہ فضیلت و برتری حاصل ہے۔ تو حوا نے کہا:''پروردگار جو خبر تونے دی ہے وہ کافی ہے۔

--------------

(1):- مستدرک الوسائل ج : 15  ص : 214

۳۲

(5)ماں بچہ کے عقیقہ کا گوشت نہ کھائے

حضرت امام جعفرصادق ؑنے ارشاد فرمایا: -

     عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: لَا تَأْكُلُ الْمَرْأَةُ مِنْ عَقِيقَةِ وَلَدِهَا وَ لَا بَأْسَ بِأَنْ تُعْطِيَهَا الْجَارَ الْمُحْتَاجَ مِنَ اللَّحْم‏(1)

ماں اپنے بچہ کے عقیقہ کا گوشت نہ کھائے بلکہ گوشت میں سے کچھ غریب پڑوسی کو دیدے۔

(6) ماں کے دودھ کی اہمیت

حضرت امیرالمومنین ؑنے ارشاد فرمایا:

1 مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ طَلْحَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع‏ مَا مِنْ‏ لَبَنٍ‏ يُرْضَعُ بِهِ الصَّبِيُّ أَعْظَمَ بَرَكَةً عَلَيْهِ مِنْ لَبَنِ أُمِّهِ.(2)

بچہ کے لئے ماں کے دودھ سے بہتر اور بابرکت کوئی دودھ نہیں ہے ۔

(7) بچہ پر ماں کے دودھ کی تاثیر

حضرت امام محمد باقر ؑنے ارشاد فرمایا:

 أَحْمَدُبْنُ مُحَمَّدٍعَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ مَعْرُوفٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِي َحْيَى عَنْ رِبْعِيّ ٍعَنْ فُضَيْلٍ عَن ْزُرَارَةَعَنْأ َبِي جَعْفَرٍ قَالَ: عَلَيْكُمْ‏بِالْوُضَّاءِمِنَ الظُّؤْرَةِفَإِنَّ اللَّبَنَ يُعْدِي. (3)

تمہاری ذمہ داری ہے کہ پاکیزہ دائیوں کا انتخاب کرو کیونکہ عورت کے دودھ کی خاصیتوں کا بچہ پراثر پڑتا ہے ۔                 

--------------

(1):- ۔کافی،ج/6،ص/۳۲،رقم: 1

(2):- کافی،ج/6،ص/40،رقم: 1

(3):- کافی،ج/6،ص/44،رقم:13

۳۳

(8)دودھ پلانے کی مدت

حضرت امام جعفرصادق ؑنے ارشاد فرمایا:

الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ الصَّبَّاحِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ الْفَرْضُ فِي الرَّضَاعِ أَحَدٌ وَ عِشْرُونَ شَهْراً فَمَا نَقَصَ عَنْ أَحَدٍ وَ عِشْرِينَ شَهْراً فَقَدْ نَقَصَ الْمُرْضَعُ وَ إِنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَ فَ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ(1)

        وہ مدت کہ جس میں واجب ہے کہ ماں بچہ کو دودھ پلائے وہ21مہ ینے ہیں۔اس میں سے جتنی بھی مدت کم ہوگی اتنا ہی دودھ پلانے کا حق کم ہوگا اور اگر ماںکامل دودھ پلانا چاہتی ہے تو مکمل دو سال تک دودھ پلائے۔

(9)دودھ پلانے کا ثواب

حضرت رسول خداﷺنے ارشاد فرمایا:

مَا يَمَصُّ الْوَلَدُ مَصَّةً مِنْ لَبَنِ أُمِّهِ إِلَّا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهَا نُوراً سَاطِعاً يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُعْجِبُ مَنْ رَآهَا مِنَ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ(2)

        ہر اس ایک گھونٹ کے عوض کہ جو بچہ ماں کے دودھ سے پیتا ہے قیامت کے دن ماں کے ہاتھوں سے ایک ایسا نور چمکے گا کہ تما م گذشتگا ن اور آیندگان کو تعجب میں ڈال دے گا۔

--------------

(1):- تہذیب الاحکام،ج/8،ص/106،رقم: 7

(2):- مستدرک الوسا ئل ،ج/15،ص/156،رقم: 17842 {کاایک جز}

۳۴

(10)دودھ پلانے والی ماں کا روزہ

حضرت امام محمد باقر ؑنے ارشاد فرمایا:

 مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع يَقُولُ‏ الْحَامِلُ الْمُقْرِبُ وَ الْمُرْضِعُ الْقَلِيلَةُ اللَّبَنِ لَا حَرَجَ عَلَيْهِمَا أَنْيُفْطِرَا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لِأَنَّهُمَا لَا تُطِيقَانِ الصَّوْمَ وَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَصَدَّقَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فِي كُلِّ يَوْمٍ يُفْطِرُ فِيهِ بِمُدٍّ مِنْ طَعَامٍ وَ عَلَيْهِمَا قَضَاءُ كُلِّ يَوْمٍ أَفْطَرَتَا فِيهِ تَقْضِيَانِهِ بَعْدُ.(1)

        حاملہ عورت کہ جس کے بچہ کی ولادت قریب ہے اور وہ ماں کہ جو بچہ کو دودھ پلارہی ہے اور اس کا دودھ کم ہے، اگر اس کے یا اس کے بچہ کے لئے روزہ نقصان دہ ہو تو جائز ہے کہ وہ ماہ رمضان میں روزہ نہ رکھے کہ وہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر اس روزہ کے بدلے کہ جو اس نے نہیں رکھا ہے ایک مُد طعام (جو تقریباً 750گرام گ یہوں، جَو وغیرہ ہوتاہے) فقیر کو دے اور جب مدت حمل یادودھ پلانے کی مدت تمام ہوجائے تو وہ ایام کہ جن میں روزہ نہیں رکھا ہے قضا کرے۔

(11)سرپرستی کا حق

امام جعفر صادقؑنے ارشاد فرمایا:

إِذَا مَاتَ الْأَبُ فَالْأُمُّ أَحَقُّ بِهِ مِنَ الْعَصَبَة(2)

باپ کی موت کے بعد بچوں کی کفالت کے لئے دوسرے عزیزوں سے زیادہ مناسب اورسزاواربچہ کی ماں ہے ۔

--------------

(1):- کافی،ج/4،ص/117،رقم: 1

(2):- کافی،ج/6،ص/45،رقم: 4 {کاایک جز}

۳۵

(12)خالہ ، ماں کی جانشین

حضرت امام رضا ؑنے اپنے والد سے نقل کیا ہے :

أَنَّ النَّبِيَّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) قَضَى بِابْنَةِ حَمْزَةَ لِخَالَتِهَا وَ قَالَ: الْخَالَةُ وَالِدَةٌ.(1)

رسول خدا ﷺ نے حکم دیا کہ حمزہ کی بیٹی کو ان کی خالہ کے حوالہ کردو اور فرمایا: ''خالہ ماں ہے۔ ''

 (13)ماں اور بیٹے کے درمیان جدائی ڈالنا

حضرت رسول خداﷺنے ارشاد فرمایا:

وَ قَالَ النَّبِيُّ ص‏ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَ وَلَدِهَا فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ أَحِبَّائِهِ فِي الْجَنَّة(2)

وہ شخص کہ جو ماں اور بیٹے کے درمیان جدائی ڈالے گا خدا وند عالم قیامت کے دن اس کے اوراس کے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا۔

(14)بیٹے کی پرورش میں ماں کا کردار

حضرت رسول خداﷺنے ارشادفرمایا:

اَلشَّقِیُّ مَنْ شَقَیَ فِیْ بَطْنِ اُمِّه وَالسَّعِیْدُ مَنَْ سَعِدَ فِیْ بَطْنِ اُمِّه(3)

بدبخت ہے وہ شخص جو ماں کے شکم میں ہی بدبخت ہو اور خوش قسمت ہے وہ شخص جو شکم مادرمیں ہی خوش قسمت ہو۔

--------------

(1):- امالی طوسی،ص/342،رقم: 700

(2):- عوالی اللآلی،ج/2،ص/249،رقم: 20    

(3):- تفسیرقمی،ج/1،ص/227

۳۶

(15)ماں کی پیشانی بچہ کا مقدر

حضرت امام محمد باقرؑنے ارشادفرمایا:  ثُم َّيوحِي اللَّهُ إِلَى الْمَلَكَيْنِ اكْتُبَاعَلَيْهِ قَضَائِي وَقَدَرِي وَنَافِذَأَمْرِي و َاشْتَرِطَالِيَ الْبَدَاءَفِيمَاتَكْتُبَانِ‏فَيَقُولَانِ يَارَبِّ مَانَكْتُبُ فَيُوحِياللَّهُ إِلَيْهِمَاأَنِ ارْفَعَارَءُوسَكُمَاإِلَى رَأْسِ أُمِّهِ فَيَرْفَعَانِ رُءُوسَهُمَافَإِذَااللَّوْحُ يَقْرَعُ جَبْهَةَأُمِّهِ فَيَنْظُرَانِفِيهِ فَيَجِدَانِ فِي اللَّوْحِ صُورَتَهُ وَزِينَتَهُ وَأَجَلَهُ وَمِيثَاقَهُ شَقِيّاًأَوْسَعِيداًوَجَمِيعَ شَأْنِهِ قَالَ فَيُمْلِي أَحَدُهُمَاعَلَى صَاحِبِهِ فَيَكْتُبَانِ جَمِيعَ مَافِي اللَّوْحِ وَيَشْتَرِطَانِ الْبَدَاءَفِيمَايَكْتُبَانِ‏-  (1)

        رحم مادر میں جیسے ہی جنین مکمل ہوجاتا ہے ، خدا وند عالم دو فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ بشرط بداء اب اس کی سرنوشت لکھ دو (بشرط بداء کا مطلب یہ ہے کہ یہ سرنوشت قطعی نہیں بلکہ خاص شرائط میں قابل تغییر ہے ) وہ دو فرشتے کہتے ہیں: پروردگار! کیا لکھیں؟ ان سے کہا جائے گا: سراٹھائو اور ماں کی پیشانی کو دیکھو۔ وہ دو فرشتے ماں کی پیشانی پر ایک تختی کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جس میں شکل و صوررت ، عمر کی مقدار اور زندگی کے عہد و پیمان ، سعادت و شقاوت اور بچہ کی زندگی کے تمام حالات کو دیکھتے ہیں۔اس کے بعد فرشتے ہر وہ چیز کہ جو ماں کی پیشانی کی تختی میں مقدرہے اسے لکھتے ہیں اور تغییر کی قابلیت کو اس میں قید کردیتے ہیں۔

(16)ماں کی عفت و پاکیزگی

امام جعفرصادق ؑنے فرمایا: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْكُوفِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُمَرَ الْجَلَّابِ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ الْجَنَّةَ طَاهِرَةً مُطَهَّرَةً فَلَا يَدْخُلُهَا إِلَّا مَنْ طَابَتْ وِلَادَتُهُ وَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع طُوبَى لِمَنْ كَانَتْ أُمُّهُ عَفِيفَة (2) نیک اور خوش بخت ہے وہ انسان کہ جس کی ماں نیک و پرہیزگار ہو۔

--------------

(1):- ۔کافی،ج/6،ص/13،رقم: 4 {کاایک جز}

(2):- علل الشرائع،ج/2،ص/564،رقم: 1

۳۷

 (17)ماں سرچشمۂ محبت اہلبیت

حضرت امام جعفرصادقؑنے فرمایا:

قَال َالصَّادِقُ ‏مَن ْوَجَدَبَرْدَحُبِّنَاعَلَى قَلْبِهِ فَلْيُكْثِرِالدُّعَاءَلِأُمِّهِ فَإِنَّهَالَمْتَخُنْ أَبَاهُ‏ (1)

        جو شخص بھی اپنے دل میں ہماری محبت کی نرمی کو پائے پس وہ اپنی ماں کے لئے زیادہ سے زیادہ دعا کرے کہ ا س نے اس کے باپ کے ساتھ خیانت نہیں کی ہے اور پاک دامنی کی زندگی بسر کی ہے۔

(18)جنت ماں کے قدموں میں

حضرت رسول خداﷺنے فرمایا:

الْقُطْبُ الرَّاوَنْدِيُّ فِي لُبِّ اللُّبَابِ،عَنِ النَّبِيِّ أَنَّهُ قَالَ: الْجَنَّةُتَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ:(2)

جنت ماں کے قدموں تلے ہے ۔

(19)ماں کی پیشانی کا بوسہ، آتش جہنم سے امان کا باعث

حضرت رسول خداﷺنے ارشاد فرمایا:

من قبّل بين عيني أمّه كان له سترا من النّار.(3)

جس نے اپنی ماں کی پیشانی کا بوسہ لیا گویا اس نے خود کو جہنم سے بچا لیا۔

--------------

(1):- من لایحضرہ الفقیہ،ج/3،ص/493،رقم: 4745

(2):- مستدرک الوسائل،ج/15،ص/18۰،رقم: 17933

(3):- نہ ج الفصاحة (مجموعہ ک لمات قصار حضرت رسول ﷺ)، ص: 751

۳۸

(20)ماں کی قدم بوسی

ایک شخص پیغمبرﷺکی خدمت میں پہنچا اور عرض کی:

یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اِنِّیْ خَلَفْتُ اَنْ اُقَبِّلَ عَتَبَةَ بَابَ الْجَنَّةِ وَجَبْهَةَ حُوْرِ الْعَیْنِ، فَاَمَرَهُ اَنْیُقَبِّلَ رِجْلَ الْاُمِّ وَجَبْهَةَ اْلأَبِ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اِنْ لَمْ یَکُنق اَبَوَایَ حَیَّیْنِ؟ قَالَ:یَارَسُوْلَ اللّٰهِ اِنْ لَمْ یَکُنق اَبَوَایَ حَیَّیْنِ؟ قَالَ: خُطَّ خَطّین اِنْوِ اَحَدَهُمَا قَبرَ الْاُمِّ وَالْآخَرِ قَبْرَالْاُمِّ وَالْآخَرِ قَبْرَ الْاَبِ فَقِبِّلهُمَا فَلاٰ تَحنَتْ فِیْ یَمِیْنِکَ''(1)

یا رسول اللہ! میں نے قسم کھائی ہے کہ جنت کے دروازہ اور حور العین کی پیشانی کا بوسہ لو ں۔ رسول خدااﷺنے حکم دیا کہ اپنی ماںکے قدموں اور باپ کی پیشانی کا بوسہ لے لو۔ اس نے کہا: اگر ماں اور باپ زندہ نہ ہوں تو ؟ پیغمبر(ص)نے فرمایا: ان کی قبر کا بوسہ لے لو۔ اس نے کہا اگر ان کی قبر کو بھی نہ جانتا ہوتو؟ آپ (ص)نے فرمایا: زمین کے اوپر ماں اور باپ کی قبر کے نشان کی نیت سے دوخط کھینچو اور ان کا بوسہ لے لو اور اپنی قسم کو پورا کرلو۔

(21)پروردگار کے نزدیک ماں کا مقام و مرتبہ

رسول خداﷺنے ارشاد فرمایا:

وَ قَالَ ص: إِذَا كُنْتَ فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فَإِنْ دَعَاكَ وَالِدُكَ فَلَا تَقْطَعْهَا وَ إِنْ دَعَتْكَ وَالِدَتُكَ فَاقْطَعْهَا(2)

        اگر تم مستحبی نماز پڑھنے میں مشغول ہو اور تمہارا باپ تم کو آواز دے تو نماز

 کو نہ توڑو لیکن اگر تمہاری ماں تم کو آواز دے تو فوراً نماز کو توڑ کر اس کی آواز پر لبیک کہو۔

--------------

(1):- کشف الارتیاب،ص/349

(2):- مستدرک الوسائل،ج/15،ص/181،رقم: 17933

۳۹

 (22)ماں کی خدمت جہاد سے افضل ہے

ایک شخص پیغمبر اکرمﷺکی خدمت میں آیا اور عرض کی:

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ  قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ ص فَقَالَ إِنِّي رَجُلٌ شَابٌّ نَشِيطٌ وَ أُحِبُّ الْجِهَادَ وَ لِي وَالِدَةٌ تَكْرَهُ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ص ارْجِعْ فَكُنْ مَعَ وَالِدَتِكَ فَوَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ نَبِيّاً لَأُنْسُهَا بِكَ لَيْلَةً خَيْرٌ مِنْ جِهَادِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سَنَةً.(1)

        ایک شخص پیغمبر اکرم(ص)کی خدمت میں آیا اور عرض کی: یا رسول اللہ اﷺ! میں ایک بہادر جوان ہوں اور راہ خدا میں جہاد کرنا چاہتا ہوں لیکن میری ماں میرے اس عمل سے راضی نہیں ہے ۔ پس رسول خداﷺنے ارشاد فرمایا: ''واپس جائو اور اپنی ماں کے ساتھ رہو۔ قسم اس خدا کی کہ جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا، ایک رات ماں کی خدمت میں رہنا راہ خدا میں ایک سال جہاد کرنے سے بہتر ہے ۔ ''

(23) ماں کی دعا

پیغمبر اکرم (ص)نے ارشاد فرمایا:

دَعْوَةُ الْوَالِدةِ اَسْرَعُ اِجَابَةً. قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لِمَ ذَاکَ؟ قَال: هِیَ اَرْحَمُ مِنَ الْأَبِ وَدَعْوَةُ الرَّحِمِ لاٰ تَسْقُطُ''(2)

        ماں کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے ۔پوچھا گیا یا رسول اللہ(ص)! آخر ایسا کیوں؟ رسول خدا(ص)نے فرمایا: اس لئے کہ ماں، باپ کی نسبت بیٹے پر زیادہ مہربان ہوتی ہے اور خدا وند عالم مہربان اور رحیم انسان کی دعا کو رد نہیں کرتا ۔

--------------

(1):- المحجة البیضاء،ج/3،ص/435

(2):- المحجۃ البیھاء ج/۳،ص/۴۳۵

۴۰