امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات0%

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 109

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: فداحسین حلیمی
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: صفحے: 109
مشاہدے: 80837
ڈاؤنلوڈ: 4006

تبصرے:

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80837 / ڈاؤنلوڈ: 4006
سائز سائز سائز
امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

امام زمانہ (عج)کے متعلق اہم شبہات کے جوابات

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 یہاں تک بھیڑ ؛ بھیڑیا  ؛شیر ؛ انسان ۔۔۔سب امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کریں گے  اور یہ ہے   اس آیہ شریفہ کی تفسیر اور یہ اس وقت  کی بات ہے  جب قائم آل محمد(ص) قیام کریں گے۔(1) یہ آیہ مبارکہ قرآن مجید میں تین جگوں پر  آئی ہے اور سورہ فتح کی آیت نمبر 28 کی ذیل میں حافظ ابو عبد اللہ گنجی اور علامہ شبلنجی دونوں نے سعید بن جبیر سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا اس آیت سے مھدی موعود ؑ ؛ فرزند فاطمہؑ  مراد ہیں(2)

 4: وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ  إِنَّ الْبَاطِلَ كاَنَ زَهُوقًا*     اور کہہ دیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔  امام محمد باقر         فرماتے ہیں جب امام زمان ؑ ظہور کریں گے تو تمام باطل حکومتیں مٹ جائے گی(3) اس آیہ مبارکہ میں دو نکتے کی طرف توجہ بہت ہی  ضروری ہے : ایک یہ کہ اس آیت پروردگار عالم نے تمام باطل کے مٹ جانے کا وعدہ دیا ہے جبکہ تاریخ گواہ ہے یہ وعدہ ابھی تک  تحقق نہیں پایا  ۔ دوسری یہ کہ امام مہدی  کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے جب آپ ظہور کریں گے تو تمام باطل حکومتیں مٹ جائے گی   اور یہ خود امام غائب کے وجودپر بہتریں دلیل ہے  ۔

5: الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِیمُونَ الصَّلَوةَ وَ ممَِّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُون * (4) جو لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں نیز جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ  کرتے ہیں۔آٹھویں ہجری کے مشہہور سنی عالم اس آیہ مبارکہ کی تفسیر میں فرماتا ہے : المراد بالغیب المهدی المنتظر الذی وعد اللّه فی القرآن. وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ [النور: 55]

---------------

(1):- مجلسی: بحار الانوار : ج51 ص 61 ۔

(2):- گنجیشافع ی: الب یان : باب نمبر 25 اور  شبلنج ی: نور الابصار ص 186۔

(3):- کلین ی: کاف ی: ج 8 ص 287 اذا قام القائم ۔

(4):- بقرۃ :3 ۔

۲۱

و ورد فی الخبر«لو لم یبق من الدنیا إلا یوم واحد لطول اللّه ذلك الیوم حتی یخرج رجل من أمتی یواطی‏ء اسمه اسمی و كنیته كنیتی یملأ الأرض قسطا و عدلا كما ملئت جورا و ظلما» (1) غیب سے مراد امام مہدی منتظر ہیں جس کے بارے میں پروردگار عالم نے سورہ نور کی 55 آیت میں قطعی وعدہ  دیا ہے  اور پیغمبر اکرم(ص) سے بھی روایت ہے اگر دنیا کی عمر سے ایک دن بھی باقی رہ جاے تو پروردگار عالم اس دن کو اتنا طول دے گا یہاں تک میری امت سے ایک شخص ظہور کرے گا جسکا نام میرے نام جسکی  کنیت میری کنیت پر ہو گی  اور وہ زمیں کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم وجور سے بھر چکا ہو گا ۔(2)

اسی طرح پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں : الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ سے مراد وہ افراد ہیں جو امام زمانہؑ کے طول غیبت کے دوران  مختلف قسم کےسختیوں ا ورمصیبتوں پر صبر کرتے ہیں :قَالَ(ص) طُوبَی لِلصَّابِرِینَ فِی غَيْبَتِهِ طُوبَی لِلْمُقِیمِینَ عَلَی مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ. (3)  خوش ہیں وہ لوگ جو اس کی غیبت کے زمانہ میں صبر سے کام لیں خوش ہیں وہ لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رہیں،ان ہی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ،اور وہ لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں....- یہ بعض قرآنی آیات اور احادیث اہل بیت اطہارؑ جس میں نظریہ مہدویت  اور امام مہدی کے متعلق اصولی اور کلی گفتگو ہوئی ہے ۔

--------------

(1):- اس حدیث کو ؛ ابو داود  نے اپنی  کتاب المہدی باب 1 میں ابن ماجہ :نے اپنی کتاب الفتن باب 34 میں ؛اور امام احمد نے  مسندہ؛ 1 / 99؛ 3/ 28 میں۔نقل کیا ہے ۔

(2):- نیشابوری نظام الدین حسن بن محمد: غرائب القرآن و رغائب الفرقان: ج 1، ص: 144 ؛ ناشر؛ دار الکتب العلمیہ ؛ چھاپ: 1416 ق: بیروت

(3):- مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳

۲۲

سوال نمبر 7 : امام مہدی ؑ کا پیغمبر اکرم(ص) کے وصی اور خلیفہ ہونے پر کیا دلیل ہے ؟

جواب : امام مہدی          کے اس وصی پیغمبر اعظم(ص) اور اس روئے زمین پر خلیفۃ اللہ ہونا تقریباَ  مسلمات اسلام میں سے شمار ہوتا ہے اور جو شخص  مہدویت اور امام مہدی         پر عقیدہ رکھتے ہیں انکے  امام  اور پیغمبر اکرم(ص) کی عترت طاہرہ ہے وصی ہونے پر عقیدہ رکھتا ہے  اور اس بارے میں پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومیںؑ سے سینکڑوں احادیث  فریقین کی  قابل اعتماد  حدیثی اور دیگر کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ؛ ہم یہاں اختصار کی بنا پر دو تین حدیث نقل کرتے ہیں ۔

حدیث نمبر 1 :

امیر المؤمنین علی           اور عبد اللہ ابن مسعوددونوں سے مشہور روایت ہے جس میں آنحضرت (ص) فرماتے ہیں:لو لم یبق من الدنیا إلا یوم واحد لطول اللّه ذلك الیوم حتی یخرج رجل من أمتی یواطی‏ء اسمه اسمی و كنیته كنیتی یملأ الأرض قسطا و عدلا كما ملئت جورا و ظلما (1)   اگر دنیا کی عمر سے ایک دن بھی باقی رہ جائے تو پروردگار عالم اس دن کو اتنا طول دے گا یہاں تک میری امت سے ایک شخص ظہور کرے گا جسکا نام میرے نام ؛ جسکی کنیت میری کنیت پر ہو گی  اور وہ زمیں کو  اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم وجور سے بھر چکا ہو گا ۔

حدیث نمبر 2 :

 کسی اور حدیث میں آپ فرماتے ہیں ۔مہدی موعود میری عترت اور فاطمہ کے  اولاد سے ہونگے(2)

--------------

(1):- ابوداوود: سنن :ج 2 ص 207 اور ترمذی: سنن :ج 4 ص 505 باب نمبر 52 اور حمو یجو ین ی: فوائد السمطین :ج 2 ص 325 اور اس یطرح   ابو داود  نے اپن ی  کتاب الم ہد ی  باب 1  م یں ابن ماج ہ:نے الفتن باب 34 م یں ؛اور امام احمد نے  مسند ہ؛ 1 / 99؛ 3/ 28 م یں۔ اورن یشابور ینے    غرائب القرآن ج 1، ص: 144 میں  اور جناب ش یخ صدوق نے کمال الد ین ص 287 م یں نقل کیا ہے ۔

(2):- ابن صبّاغ مالکی:فصول المھم ہص 294 ۔

۲۳

عصر غیبت

 سوال نمبر8: غیبت امام عصر کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہاں سے شروع ہوئی ؟

جواب :  غیبت مادہ  غاب سے ہے حس کا معنی (نگاہوں سے مخفی ہونا ہے ) نہ کہ حاضر نہ ہونا جیساکہ عام طور پر لفظ غیبت کے سننے سے اسی غلط معنی کا تصور ذہن میں أتا ہے لہذا امام غائب کے متعلق گفتگو اس امام حاضر کے متعلق ہوگی جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں  لوگوں کی نظر وں سے مخفی ہیں  یعنی لوگ عام حالت میں انہیں  نہیں دیکھ پاتے جبکہ أپ لوگوں کے درمیاں رہتے ہیں اور ان ہی کے درمیاں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ چنانچہ امیر المؤمنین علی _ امام زمانہ  کی حالت غیبت کی طرف اشارةکرتے ہوے فرماتے ہیں :صَاحِبَ هَذَا الْأَمْرِ يَتَرَدَّدُ بَيْنَهُمْ وَ يَمْشِی فِی أَسْوَاقِهِمْ وَ يَطَأُ فُرُشَهُم ….  وَ لَا يَعْرِفُونَهُ حَتَّی يَأْذَنَ اللَّهُ لَهُ أَنْ يُعَرِّفَهُمْ نَفْسَهُ (1) قسم ہے خداوند عالم کی حجت خدا لوگوں کے درمیاں ہوتی ہے راستوں میں گلیوں میں چلتی پھر تی ہیں لوگوں کے گھروں میں آتی جاتی ہے ؛زمین پر مشرق سے مغرب کو آمد ورفت کرتی ہے لوگوں کی باتوں کوسنتی ہے اور ان پر سلام بھجتی ہے وہ دیکھتی ہے لیکن انکو دیکھا نہیں جاسکتا ایک معیّن وقت تک کہ جب خدا کا وعدہ پورا نہیں ہو جاتا  ـ

اسی لیے معصومیں نے انکی وجود مقدس کو اس سورج سے تشبیہ دی ہے جو بادل کے پیچھے چپھے ہو ے ہے یہ غیبت کا ایک معنی ہے جوبعض رواریات میں آئی ہے لیکن بعض دیگر  روایات میں امام زمانہ کی  غیبت کا ایک اور معنی بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ أپ لوگوں کے درمیاں زندگی بسر کرتے ہیں اور لوگوں کو دیکھائی دیتے ہیں لیکن أپ کو پہچانتے نہیں ہیں یعنی أپ غائب نہیں ہیں بلکہ نقص لوگوں میں ہے ان میں یہ قابلیت نہیں کہ وہ انھیں دیدار کریں

--------------

(1):- الغیبہ ج3 /ص 164 : کمال الدین /ج2/ باب 33 /ح 46/ ص 28

۲۴

امام صادق   فرماتے ہیں: وَ أَمَّا سُنَّةُ يُوسُفَ فَإِنَّ إِخْوَتَهُ كَانُوا يُبَايِعُونَهُ وَ يُخَاطِبُونَهُ وَ لَا يَعْرِفُونَه‏: اس صاحب امر میں انبیاء  کی سنن پائی جاتی ہیں ۔۔۔حضرت یوسف کی سنت ان میں مخفی ہونا ہے اللہ تعالی انکے اور لوگوں کے درمیان ایک حجاب قرار دے گا کہ لوگ ان کو دیکھیں گے لیکن پہچانیں گے نہیں ـ اسی طرح امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشرف کا حالت غیبت میں زندگی گزارنا ایک ایسا واقعہ نہیں ہے جو پہلی بار صرف امام مہدی کے لیے واقع ہوا ہو بلکہ قرأن کریم اور روایات میں ایسے موارد بیاں ہوے ہیں جہاں معجزانہ انداز میں لوگ ایک قابل دید مخلوق کو مشاہدة نہ کر سکتے چنانچہ سورہ یس میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :*وَ جَعَلْنَا مِن بَینْ‏ِ أَيْدِیهِمْ سَدًّا وَ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُون‏ (1) * اورہم نے ان کے آگے دیوار کھڑی کی ہے اور ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کی ہے اور ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے لہٰذا وہ کچھ دیکھ نہیں پاتے : اسی أیت کے ذیل میں عبداللہ بن مسعود  نقل کرتا ہے قریش والے أنحضرت  (ص) کے گھر کے دروازے پر جمع ہوےآپ گھر سے باہر تشریف لے أئیں اور انکے سروں پر خاک پھر دیے لیکن وہ لوگ أپکو نہیں دیکھ پاے(2) بلکہ بہت سی روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ ایک سنت الہی ہے جو متعدد انبیاء  کی زندگی میں واقع ہوئی ہے اور بہت سے انبیا کی زندگی کا حصہ مخفی اور غیبت میں بسر ہوا ہے  جیسے حضرت ادریس ؛ نوح ؛ صالح ؛ ابراہیم ؛ یوسف ؛ موسی؛ شعیب ؛ الیاس ؛ سلیمان؛ دنیال ؛ عیسی ؛ وغیرہ(3) اور یہ چیز خداوند عالم کی مصلحت اور حکمت کی بنا پر ہوتی ہے ـ

--------------

(1):- یس79

(2):- مجمع البیان ج8 ص 16 4

(3):- رجوع کریں علی اصغر رضوانی : امامت اورغیبت  مترجم فروز حیدر ص /186  طبع 2008 بحار ال انوار (ط - ب یروت) ؛ ج 52 ؛

۲۵

اسی وجہ سے امام مہدی  کی غیبت کی روایتوں میں غیبت کو انبیاء کی سنت کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور امام مہدی کی زندگی میں انبیاء کی سنت کا جاری ہونا غیبت کی دلیلوں میں شمار کیا گیا ہے ۔ چنانچہ امام صادق  فرماتے ہیں :قَالَ‏ إِنَّ لِلْقَائِمِ ع مِنَّا غَيْبَةً يَطُولُ أَمَدُهَا فَقُلْتُ لَهُ وَ لِمَ ذَاكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَبَی إِلَّا أَنْ يُجْرِيَ فِیهِ سُنَنَ الْأَنْبِيَاءِ ع فِی غَيْبَاتِهِمْ (1) بے شک ہمارے قائم امام مہدی غیبت اختیار کریں گے جس کی مدت طولانی ہوگی راوی کہتا ہے اے فرزندے رسول (ص) اس غیبت کی وجہ کیا ہے ؟ امام نے فرمایا خداوند  عالم کا ارادہ یہ ہے کہ انبیاء کی غیبت کی سنت أپ میں ظاہر ہو ۔

سوال نمبر 9 : فلسفہ غیبت کیا ہے ؟

جواب : اس سوال کے جواب دینے سے پہلے اس حقیقت کی طرف متوجہ رہنا انتہائی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح امیر المؤمنین  فرماتے ہیں:مَا أَعْظَمَ‏ اللَّهُمَّ مَا نَرَی مِنْ خَلْقِكَ وَ مَا أَصْغَرَ عَظِیمَهُ فِی جَنْبِ مَا غَابَ عَنَّا مِنْ قُدْرَتِكَ (2) پاک وپاکیزہ ہے تو ؛تیری وہ مخلوق کتنی عظیم ہے جو ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور اس کی عظمت کتنی چھوٹی ہے تیری اس قدرت کے مقابلے میں جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے ۔ لہذا کسی کی مجال کی بات نہیں کہ وہ اس عظیم کائنات کی کسی بھی مخلوق کی خلقت کا رازمعلوم نہ ہونے پر اسکے وجو د کے بارے میں اعتراض شروع کردے یا اس کے وجود سے انکار کردے مثال کے طور پر آج کے ترقی یافتہ دور میں کڑوڑں کی تعداد میں کہکشانیں کشف ہوئے ہیں تو کیا حق بنتا ہے کہ مزید اور کہکشانوں کا اس فضامیں موجود ہونے سے انکار کرے ؟

ہرگز نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے سے قریب تریں چیزوں کی حقیقت کو جانے سے قاصر ہے کیونکہ اسکی روح سے زیادہ کوئی اور چیزاسکے نفسانی غرائض اسکی فطری امور جیسے عشق ؛ذوق ؛ لذت ؛ محبت ۔۔۔۔ان تمام فطری امور کی حقیقت ہمارے سامنے مجھول ہیں لیکن ہم کبھی بھی ان چیزوں کو انکار نہیں کرسکتے ہیں ۔

-------------

(1):- بحار /ج52 /ص 90

(2):- عیون الح کم و المواعظ (لل یث ی) / 483 / الفصل الثالث ص : 475

۲۶

اس تمہیدی گفتگو کے بعد یہ عرض کرتا ہوں کہ ایک طرف غیبت امام عصر  اسلامی نقطہ نگاہ سے مسلمات اسلام میں سے شمار ہوتا ہے اور اہل بیت اطہار  نےوقتاَ فوقتاَ ہر دور میں اس خدائی حتمی فیصلے کی خبر دے چکے ہیں ،تو دوسری طرف جب ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کائنات کے چھوٹے سے چھوٹا ذرات سے لے کر بڑے سے بڑا کام حکمت اور مصلحت کے بغیر انجام نہیں پاتا چاہیے ہم ان مصلحتوں کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں  نیز کائنات کا ہر چہوٹے سے چھوٹا واقعہ خداوند عالم کی تدبیر اور اسی کی ارادہ سے انجام پاتا ہے جن میں سے اہم تریں واقعہ امام مھدی کی غیبت کا واقعہ ہے لھذا آپکی غیبت کا مئلہ بھی حکمت اور مصلحت کے مطابق واقع ہوئی ہے اگر چہ ہم اسکے فلسفہ اور راز سے أشنا نہ بھی ہو اور اگر ہم اس حادثے کی حکمت اور راز سے أشنا نہ ہونے پایے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس حتمی واقعے کے جو کہ قطعا َ واقع ہوا ہے متعلق شک وتردید کا شکار ہو جائیں یا اسے سرے سے ہی انکار کرنے لگے جبکہ اھل  بیت ا طہار  نےمتعدد روایات میں أپکی غیبت کے متعلق شک کرنے والوں کی تردید کرتے ہوے سخت مذمت کر چکے ہیں ۔چنانچہ امام صادق فرماتے ہیں : شک صاحت العصر کے لیے ایک ایسی غیبت ہے جس میں ہر اھل باطل شک وتردید کا شکار ہو جائے گا غیبت کی وجہ ایک ایسا امر ہے جس کو تمھارے سامنے بیاں کرنے کی اجازت نہیں ،غیبت اسرار الھی میں سے ایک راز ہے لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ خداوند عالم صاحب حکمت ہے اور ہ یہ قبول کرتے ہیں کہ اسکے کاموں میں حکمت ہوتی ہے اگر چہ ہمیں ان کاموں کی وجوہات کا علم نہ بھی ہو(1) تاہم اھل بیت اطہار ہماری اطمینان قلبی کے خاطر امام مھدی  کی غیبت کے کچھ اسرار  اور حکمت بیاں  کیے ہیں  ان  میں سے بعض ہم یہاں مختصرا ً  ذکر کرتے ہیں :

--------------

(1):- کمال الدین /ج1/ص204/باب44 مذید معلومات کے لیے مراحعہ کریں منتخب الاثر /صافی گلپائی گانی باب/28 /فصل 2

۲۷

الف :عوام کی تادیب وتنبیہ

          جب ایک امت اپنے نبی اور امام  کہ جسکا وجود اقدس  بقاء اور ہدایت کے لیے ضروری ہے اسکی قدر نہ کرے اور اسکے حقوق اور فرائض انجام نہ دے بلکہ اسکے احکام کی نافرمانی کرے اور انھیں ختم کرنے کی درپے ہو  جاے اور ھدایت تکوینی اور فطری کا راستہ اپنے اپر بند کردے تو پھر سنت  الھی یہ ہے کہ پروردگار عالم انکے اوپر ہدایت تشریعی کا راستہ بھ بند کردیتا ہے اور انکے درمیان سے ھادی برحق  ولی عصر کو اٹھا لیتا ہے تاکہ امت اس حقیقی رہبر کی قدرو قیمت کو درک کر سکھیں اور اسکی برکت کوسمجھ سکہیں ۔جسکی مثال ہم قرأن مجید اور روایات معصومیں  میں امم سابقہ کے متعلق دیکھ سکتے ہیں : چنانچہ اما محمد باقر اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں :جب پروردگار عالم کسی قوم میں ہمارے وجود اور ہماری ہم نشینی سے خوش نہ ہو تو پھر ہیں ان سے اٹھا لیتا ہے إِنَّ اللَّهَ إِذَا كَرِهَ لَنَا جِوَارَ قَوْمٍ نَزَعَنَا مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِهِم (1)

ب: لوگوں کا امتحان

اس کائنات پر محیط سنن الھی میں سے ایک ناقابل تغیر سنت پروردگار عالم کا لوگوں سے امتحان لینا ہے یہ ایک ایسا راستہ ہے جس حتمی طور پر سب کو گزرنا ہے ۔خداوندمتعال اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے أزماتا ہے تاکہ راہ حق میں ان کی پابت قدم رہنا معلوم ہو جاے اور انکی شخصیت ؛صبر ؛ایمان استقامت اور فرمان الھی کے سامنے درجہ تسلیم کو پہچان سکھے ۔اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مھدی  کی غیبت سب سے اہم امتحان الھی ہے جیسا کہ جناب جابر انصاری پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں أپ (ص) نے فرمایا  :

--------------

(1):- ابن بابویہ، ، علل الشرائع ؛ ج 1 ؛ ص244 - قم ، چاپ: اول، 1385ش / 1966م

۲۸

 ذلک الذی یغیب عن شیعته واولیاء ه  وہ اپنے پیروکاورں اور چاہنے والوں کی نظروں سے غائب ہو جاے گا اور اس شخص کے علاوہ اسکی امامت کا کوئی قائل نہ رہ جاے جسکے دل کا خدا وند عالم نے ایمان کے لیے امتحان لے رکھا ہے ۔کسی اور رایت میں ابن عباس أنحضرت(ص) سے یوں نقل کرتا ہے أپنے فرمایا:....... وَ الَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ بَشِیراً إِنَّ الثَّابِتِینَ عَلَی الْقَوْلِ بِهِ فِی زَمَانِ غَيْبَتِهِ لَأَعَزُّ مِنَ الْكِبْرِیتِ الْأَحْمَرِ فَقَامَ إِلَيْهِ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لِلْقَائِمِ مِنْ وُلْدِكَ غَيْبَةٌ قَالَ إِی وَ رَبِّی‏ وَ لِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَ يَمْحَقَ الْكافِرِینَ‏ يَا جَابِرُ إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ وَ سِرٌّ مِنْ سِرِّ اللَّهِ مَطْوِيٌّ عَنْ عِبَادِ اللَّهِ فَإِيَّاكَ وَ الشَّكَ‏ فِیهِ فَإِنَّ الشَّكَ‏ فِی أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ كُفْرٌ. (1) ان کی غیبت کے زمانے میں ان کی امامت کے عقیدے پر ثابت قدم رہنے والے سرخ سونے سے بھی زیادہ نایاب ہونگے یہ سن کر جناب جابر کھڑے ہو گے اور عرض کیا یا رسول ﷲ (ص) أپ کی اولاد میں سے قائم کے لیے غیبت ہے؟ فرمایا (ص) ہاں میرے پروردگار کی قسم ایسی غیبت جو ایماں کو خالص کردے اور کفار کو محو کر دے اے جابر ! یہ خدا کے امور میں سے ایک امر اور خدا کے رازوں میں سے ایک ایسا راز ہے جو بندوں کے اوپر پوشیدہ ہے لہذا اسمیں شک کرنے سے آرے رہنا کیونکہ خداوند عالم کے کاموں میں شک کرنا یقیناً کفرہے ـاسی طرح امام موسی کاظم  سے بھی روایت ہے أپنے فرمایا : جب میرا پانچواں فرزند غائب ہو گا تو تم لوگ اپنے دین کی حفاظت کرنا تاکہ کو ئی تمہیں دین سے خارج نہ ک پاے کیونکہ اس امر کے صاحب یعنی امام مھدی کے لیے غیبت ہو گی جس میں اسکے بعض ماننے والے اپنے غقیدے سے بھر جائیں گے اور یہ غیبت ایک امتحان ہے جس کے ذریعے خدا اپنے بندوں کا امتحان لے گا (2) اس حقیقت کوبیان کرتے ہوے متعدد روایات معصومیں  سے وارد ہوے ہیں واضح رہے امتحان کی شدت کے بارے میں بہت ساری حدیثیں  اھل بیت اطہار سے بہت سی احدیث نقل ہوئے ہیں(3)

--------------

(1):-. کمال الد ین و تمام النعمة / ج 1 / 288 / 25 باب ص : 286

(2):- غبتل طوسی /فصل5 /ح 284 : ص 234

(3):- ملاحظہ کریں  صافی کی کتاب /ںوید امن وامان  /ص140

۲۹

ج : امام   کی جان کی حفاظت :

      قرآن مجید میں مختلف مقامات پر انبیاء کرام کے انکی جان کی حفاظت اور قتل کے خوف سے انکو انکی قوم سے مخفی رکہنے کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے تاکہ ایک مناسب موقع پر اپنی رسالت اور ذمہ داری کو ادا کر سکیں جیسا کہ حضرت موسی  کے بارے میں انکی والدہ گرامی کووحی ہوئی  :وَ أَوْحَيْنا إِلی‏ أُمِّ مُوسی‏ أَنْ أَرْضِعیهِ فَإِذا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقیهِ فِی الْيَمِّ وَ لا تَخافی‏ وَ لا تَحْزَنی‏ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَ جاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلینَ* (1) اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں دودھ پلائیں اور جب ان کے بارے میں خوف محسوس کریں تو انہیں دریا میں ڈال دیں اور بالکل خوف اور رنج نہ کریں، ہم انہیں آپ کی طرف پلٹانے والے اور انہیں پیغمبروں میں سے بنانے والے ہیں اسیطرح پیغمبر اکرم  (ص)مکہ معظمہ سے نکل کر ایک غار میں مخفی ہو گئے البتہ یہ سب خداوند عالم کے حکم اور ارادہ سے ہوتا تھا ۔حضرت مھدی  کی غیبت کے بارے میں بھی متعدد روایات یہی وجہ بتاتی ہے جیسا کہ امام صادق سے روایت ہے روای کہتا ہے امام نے فرمایا : امام منتظر  قیام کرنے سے پہلے ایک مدت غیبت میں رہیں گئے میں نے عرض کیا کس لیے ؟ فرمایا اسلیے کہ انہیں جان کا خطرہ ہے(2) اس حقیقت کو ہم تاریخ  کی أ ئینے میں بھی دیکھ سکتے ہیں چونکہ بنی عباس کے حکمرا ن بخوبی جانتے تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے خاندان میں امیر المؤمنین  اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکی نسل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جسکے ہاتھوں ظالموں اور جابروں کی حکومت کا خاتمہ ہو جاے گا ۔ اور وہ بچہ امام حسن العسکری  کا فرزند ہو گا لھذا انھوں نے أپ کو شھید کرنے کی قصد سے امام حسن العسکری  کو عرصہ دراز تک فوجی چھاو نی میں نظر بند رکھا تھا اور باقاعدہ طور سے پھرا لگا کر رکھا تھا لیکن پروردگار عالم نے جس طرح جنا ب موسی کو فرعون کے ہاتھوں سے بچا لیا اسی طرح حجت خدا    امام حجت  کو بنی عباس کے ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں سے بچا لیا ۔

--------------

(1):- القصص .7

(2):- کمال الدین .ج 2.  ح 7

۳۰

د :  فاسق اور فاجر حکمرانوں سے آزادی

  روایا ت کے مطابق آپکی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہو گی جو مظہر تام اسماء الھی(الغالب؛العادل ؛الحاکم ) ہونگے نہ ہی أپکے گردن پر کسی ظالم اور ستمگر حاکم کی بیعت ہے اور نہ ہی جب أپ ظھور کریں گے تو سواے ذات پروردگار کے اور کسی کے سامنے جکیں گے ۔أپ وہ عظیم مصلح ہونگے جو عالمی نظام عدل کی قیام  کے لیے زمینہ  فراہم نہیں ہوتی اس وقت تک أپ غیبت میں رہیں گے تاکہ آپکے گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو اور خداکے علاوہ کسی کی حکومت کو قبول نہ کیا ہو ۔ چنانچہ امام صادق  فرماتے ہیں : صاحب ہذا الامر تغیب ولادتہ عن ھذا ۔۔۔۔۔۔ حضرت صاحب الامر کی ولادت کو لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھیں گے تاکہ جب ظھور کریں تو انکی گردن میں کسی بیعت نہ ہو اور پروردگار عالم انکی امر کو ایک رات میں اصلاح کرے گا(1)  اسی طرح خود امام زمانہ  اپنے نائب دوئم محمد بن عثمان کے سوالات کے جواب میں جس میں انھوں نے غیبت کی حکمت کے بارے میں سوال کیا تھا تو أپ نے فرمایا :إنّه لم یكن أحد من آبائی إلّا و قد وقعت فی عنقه بیعة لطاغیة زمانه، و إنّی أخرج حین أخرج و لا بیعة لأحد من الطواغیت فی عنقی ،(2) میر ے تمام أباو اجداد  مجبور تھے کہ اپنے زمانے کی طاغوتیوں کی بیعت میں رہے  لیکن میں ایک اسی حالت میں قیام کروں گا جبکہ میرے گردن پر کسی ظالم اور ستمگر کی بیعت نہ ہو گی۔

روایات معصومیں مین غیبت کے دیگر اساب اور حکمت بیاں ہوئی ہیں لیکن ہم یہاں اختصار کی بنا پر انھی چند امور کے ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے لیکن دوبارہ تاکیداً عرض کروں گا کہ غیبت امام زمانہ  ایک خدائی راز ہے جس کی اصلی فلسفہ اور راز امام زمانہ  کے ظھور کے بعد ہی واضح ہوگا ۔  

--------------

(1):- بحار /ج/ص96

(2):- الزام الناصب / ج 1 / 391 / الص : 387

۳۱

سوال نمبر10: اگر حضرت مھدی امام عصر اور حجت خدا ہیں تو امام اور ہادی کو چاہیے لوگوں کے درمیاں رہیں تاکہ لوگ انکی امامت کی سایے میں ہدایت حاصل کرسکے لیکن جو امام مخفیانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو ایسیے امام اور ہادی کے ہونے سے نہ ہونا بہتر نہیں ہے ؟

جوا ب : یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی معاشرہ سنکڑوں سال سے حجت خدا کی ظھور کے فیض اور انکی ہدایت سے محروم ہے اور بشر اس آسمانی رہبر کے حضور میں مشرف ہونے سے قاصر ہے تو یہاں پر بسا اوقات مجھ جیسے ضعیف الایمان لوگوں کے اذھان میں اسیے سوالات پیدا ہوتے ہیں  بلکہ ایسے سوالات اور شبہات دین ومذہب کے دشمن عناصر سوچھے سمجھے سازش کے تحت لوگوں کے ایمان کو سست کرنے کے خاطر ایجاد کرتا ہے ۔لیکن حقیقت میں ایسے سوالات اور شبہات ان کے اذھان میں حجت خدا کے مقام کی صحیح پہچان اور شناخت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ،جبکہ امام معصوم کے مقدس وجود کے اثرات اور فوائد انکے ظہوراور ہدایت ظاہری تک محدود نہیں  بلکہ ھدیت ظاہری انکے بابرکت وجود کے اثرات میں سے ایک چھوتا سا اثر ہے انکے وجود مقد س کے ایک اور فائدہ مخلوقات کو تباہی ہے بچانا ہے ، خدا کی اپنے بندوں کی اوپر حجت تمام ہونا ہے ،تمام موجودات پر خدا کے فیض کا واسطہ بھی ہے ۔ ہم یہاں انکے وجود اقدس کے چند  فوائد بطور اختصار فھرست وار بیان کرتے ہیں ۔

1 : امام واسطہ فیض ہوتا ہے

دینی تعلیمات کی روشنی میں عقلی اور نقلی دلائل سے استفادہ ہوتا ہے کہ حجت خدا کائنات کے تمام مخلوقات اور خدا کے درمیان واسطہ فیض ہوتا ہے( جسکے بارے مین تفصیلی گفتگو بعد مین ہوگئی) نظام کائنات میں محور اور مرکز کی حیثیت رکھتا ہے لھذا ھر دور میں حجت خدا کا رؤے زمیں پر تا صبح قیامت باقی رہنا ضروری ہے ورنہ انسان ،جنّات ،ملائکہ ، حیوانات اور جمادات کا نام نشان تک مٹ کر رہ جاے گا ۔ اور یہ مطلب مختلف احادیث جنہین شیعہ سنی دونوں علماء نے  اہل بیت اطہار سے نقل کیا ہے

۳۲

 انسےاستفادہ ہوتا ہےجیسا کہ پیغمبر اکرم فرمات ہین:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ النُّجُومُ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمَاءِ وَ أَهْلُ بَيْتِی أَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ فَإِذَا ذَهَبَ أَهْلُ بَيْتِی ذَهَبَ أَهْلُ الْأَرْضِ. (1) ستارے اہل آسمان کے لیے باعث نجات ہین چنانچہ اگر ستارے چلے جائے تو آسمان والے بہی ختم ہو جائین گے اسی طرح میرےاہل بیت زمین والون کے لیے ذریعہ نجات ہین چنانچہ اگر میرے اہل بیت زمین چہور دے تو اہل زمین بہی ختم ہو جائین گئے

نیز  متقی ھندی اپنی سند مالک بن انس سے نقل کرتا ہے کہ رسول خدا  (ص) نے فرمایا :لن یزال هذا الدین قائماً الی اثنی عشر من قریش ،فاذا هلکو ماجت  الرض (2) یہ دین قائم دائم رہے گا  یہاں تک قریش میں بارہ افراد لوگوں کے درمیان امامت اور خلافت کریں گے اور جب یہ سب ختم ہو جائیں گے تو زمین بھی اپنے اھل کے ساتھ ختم ہو جاے گی ـ اسی طرح امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (3) ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین  """""

ان روایات سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ زمیں اور اھل زمیں کے وجود کی بقا حجت خدا کے وجود کے ساتھ مربوط ہے  اور انھی کی وجہ سے باقی ہے ۔ اسی طرح زیارت جامعہ میں ہم پڑھتے : اے خداے قادر کی حجتیں ، خدانے آپسے آغاز وانجام کیا ہے وہ آپ کے ذریعے بارش برساتا ہے آپ کے ذریعے آسماں کو روکے ہوے ہے تاکہ زمین پر نہ آگرے مگر اسکے حکم سے ، وہ آپ کے ذریعے غم دور کرتا ہے اور سختی ہٹاتا ہے ۔

--------------

(1):- ابن بابویہ، محمد بن عل ی، کمال الد ین و تمام النعمة، 2جلد، اسلامیہ- ت ہران، چاپ: دوم، 1395ق.

(2):- محمد تقی ہندی کنز العمال  /اس حدیث کو بخاری نے بھی نقل کال ہے

(3):-  کمال الدین و تمام النعمة / ج 1 / 207 / 21 ص : 201

۳۳

 معصومیں علیھم السلام کے ان جمالت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام عصر  زمان غیبت میں بھی تمام  مخلوقات کے لیے سر چسمہ حیات ہیں اور تمام برکات الھی انہی کے واسطے مخلوقات تک پہنچتی ہے اسی لیے خود پیغمبر اکرم نے انکے وجود مقدس کو غیبت کی حالت میں اس سورج سے تشبیہ دی ہے جو بادل کے پیچھے چھوپا ہوا ہے لیکن اسکے وجود سے مخلوقا ت زمیں مسلسل استفادہ لے رہا ہوتا ہے ۔ جیسا کہ جابر الانصاری پیغمبر گرامی اسلام  (ص)سے نقل کرتے ہیں :فقلت: یا رسول اللّه هل لشیعته انتفاع‏ به فی غیبته؟ فقال صلّی اللّه علیه و آله: إی و الذی بعثنی بالحقّ إنّهم یستضیئون بنوره و ینتفعون بولایته فی غیبته كانتفاع‏ الناس بالشمس و إن علاها السحاب (1) اس ذات کی قسم جس نے مجہے نبوت پر مبعوث کیا ہے وہ لوگ انکے نورانی وجود سے منور اور انکی ولایت سے زمان غیبت مین ایسے ہی استفادہ کریں گے جس طرح لوگ بادل کے پیچہے  چہوپے ہوےسورج سے استفادہ کرتے ہین ـ 

2 : زمین کبھی حجت خداسے خالی نہیں ہوتی

متعدد روایات کے مطابق جسے شیعہ سنی دونوں طرفیں کے علماء نے نقل کیا ہے زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی خواہ وہ لوگوں کے درمیاں ظاہر ہو یا خوف کی وجہ سے پوشیدہ ہو :امیر المؤمنین فرماتے ہیں: بَلَی لَا تَخْلُو الْأَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلَّهِ بِحُجَّةٍ إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً وَ إِمَّا خَائِفاً مَغْمُوراً لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللَّهِ وَ بَيِّنَاتُهُ   خدا کی قسم زمین کبھ حجت خدا جو خدا کے لیے قیام کرے سے خالی نہیں ہو سکتی چاہیے وہ ظاہراً اور أشکار ہو یا خائف ومخفی تاکہ خدا کی حجتیں اور براہیں تمام نہ ہو نے پائیں(2) اسی طرح متعدد روایات مین ائمہ اطہار فرماتے ہیں:

--------------

(1):- الزام الناصب / ج 1 / 385 / ص : 380" قندوز ی حنفی ینابیع المودة /ج3/ص 17

(2):- نہج البلاغہ خ147

۳۴

سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا ع فَقُلْتُ أَ تَخْلُو الْأَرْضُ مِنْ حُجَّةٍ فَقَالَ لَوْ خَلَتْ مِنْ حُجَّةٍ طَرْفَةَ عَيْنٍ لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا (1) قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع يَمْضِی الْإِمَامُ وَ لَيْسَ لَهُ عَقِبٌ قَالَ لَا يَكُونُ ذَلِكَ قُلْتُ فَيَكُونُ مَا ذَا قَالَ لَا يَكُونُ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَی خَلْقِهِ فَيُعَاجِلَهُم‏ (2) أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ الْأَرْضَ لَا تَخْلُو مِنْ أَنْ يَكُونَ فِیهَا حُجَّةٌ عَالِمٌ إِنَّ الْأَرْضَ لَا يُصْلِحُهَا إِلَّا ذَلِكَ وَ لَا يُصْلِحُ النَّاسَ إِلَّا ذَلِكَ. (3) اگر زمین ایک لحظے کے لیے  امام زمان  سے (جو کہ حجت خدا ہے  )خالی رہ جاے تو برباد ہو جاے گی ۔

3 : امام زمانہ  کی غیبت ظاہری کی ذمہ دار ہم خود ہیں

اگر آج امت محمدی اس الھی رہبر کے حضور کے فیض سے محروم ہیں تو اسکے ذمہ دار امام  نہیں بلکہ خود عوام ہیں جو أپ کی رہبری قبول کرنے پر أمادہ نہیں ہیں اور مخالفت پر کمر بستہ ہیں جیسا کہ أ پ کے أباء  واجداد طاہرین  کی اطاعت کے بجائے مخالفت کی گئی اگر لوگ اطاعت پر أمادہ ہوتے تو امام ظاہر ہی رہتے چنانچہ اس بارے میں خود امام زمانہ فرماتے ہیں  وَ لَوْ أَنَّ أَشْيَاعَنَا وَفَّقَهُمْ اللَّهُ لِطَاعَتِهِ‏ عَلَی اجْتِمَاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِی الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ عَلَيْهِمْ لَمَا تَأَخَّرَ عَنْهُمُ الْيُمْنُ بِلِقَائِنَا وَ لَتَعَجَّلَتْ لَهُمُ السَّعَادَةُ بِمُشَاهَدَتِنَا عَلَی حَقِّ الْمَعْرِفَةِ وَ صِدْقِهَا مِنْهُمْ بِنَا فَمَا يَحْبِسُنَا عَنْهُمْ إِلَّا مَا يَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نَكْرَهُهُ وَ لَا نُؤْثِرُهُ مِنْهُمْ‏ (4)

--------------

(1):- ابن بابویہ، محمد بن عل ی، کمال الد ین و تمام النعمة، 2جلد، اسلامیہ- ت ہران، چاپ: دوم، 1395ق.

(2):- ابن بابویہ، محمد بن عل ی، کمال ا لدین و تمام النعمة، 2جلد، اسلامیہ- ت ہران، چاپ: دوم، 1395ق.

(3):- ابن بابویہ، محمد بن عل ی، کمال الد ین و تمام النعمة، 2جلد، اسلامیہ- ت ہران، چاپ: دوم، 1395ق.

(4):- الاحتجاج عل ی اہل اللجاج (للطبرس ی) / ج 2 / 499 / ص : 479

۳۵

لھذا اگر لوگ اس عظیم نعمت سے بہرہ مند نہ ہوں اور أفتاب بدایت کی شعاعوں کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں تو اسے امام  کے وجود پر اعتراض نہیں ہو سکتا جیسا کہ اگر لوگ دوسری نعمتوں سے استفادہ نہ کریں اور ان نعمتوں کے فوائد ہی ظاہر نہ ہونے دیں یا اسے غلط استعمال کریں تو اس رویہ کے باعث ان نعمتوں کی خلقت پر اعتراض نہیں ہو سکتا کہ انھیں کیوں خلق کیا گیا؟

کسی کو یہ حق نہیں ملتا کہ یہ کہے کہ جب لوگ ان نعمتوں سے درست استفادہ نہیں کررہے تو ان نعمتوں کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے بلکہ لوگوں کی توبیخ کرنا چاہے کہ کیوں ان نعمتوں سے صحیح استفادہ نہیں کررہے اور ان مین یہ صلاحیت پیدا کرنی چاہے تاکہ ان نعمتوں سے بر پور استفادہ کرسکے ۔ 

سوال نمبر11:  بعض روایات میں امام زمانہ عجل ﷲ فرجہ کو عصر غیبت میں خورشید پنہان سے تشبیہ دی ہے اس تشبیہ کے کیا راز ہو سکتی ہے ؟

جواب : یہ حدیث شریف کوخود پیغمبر اکرم (ص) اور امام زمانہ   دونوں سے نقل  ہوا ہے  آپ  فرمات.ہین: ، و إنّی أخرج حین أخرج و لا بیعة لأحد من الطواغیت فی عنقی، و أمّا وجه الانتفاع‏ بی فی غیبتی فكالانتفاع بالشمس إذا غيّبها عن الأبصار السحاب،   یقینا ً اس  حدیث  شریف میں بہت سے نکات پاے جاتے ہیں ۔لیکن ہم یہاں ان نکات میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

ا :  جس طرح سورج نظام شمسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرے تمام سیارے اسی کے گرد حرکت کرتے ہیں ، سورج اگر چہ دیکھنے میں بادلوں کیے پیچھے چھپا ہو تا ہے لیکن کائنات کا ہر  جنبندہ اسکے وجود سے مستفید ہوتا رہتا ہے اگر فرضا ً سورج ایک لحظے کے لیے صفحہ ہستی سے ناپدید ہو جاے تو تمام جاندار  مخلوق منجمد ہو کر بے جان ہو جاے۔ اسی طرح امام عصر  کا وجود گرامی بھی کائنات کے نظام میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ چنانچہ دعا عدلیہ میں ہم پڑتے ہیں

۳۶

:  ببقائه بقیت الدینا و بیمنه رزق الوری و بوجوده ثببت الارض و السماء  (1) اسی ہستی کے وجود سے دنیا باقی ہے اور اسی کی برکت سے کائنات کے ہر موجود کو روزی ملتی ہے اور اسی کے وجود کی خاطر زمین اور أسمان مستحکم باقی ہیں ۔

2 سورج ایک لمحہ کے لیے بھی نور افشانی سے دریغ نہیں کرتا اور ہر چیز سورج سے جتنا رابطہ رکھتی ہے سورج کے نور سے اسی قدر فیضیاب ہوتی ہے ۔چنانچہ حضرت ولی عصر کا وجود بھی تمام مادّی اور معنوی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے واسطہ ہے ۔ کمالات کے اس سرچسمہ سے جس شخص کا جتنا رابطہ استوار ہے وہ اتنا ہی اس سے فیضیاب ہوتا ہے ۔چنانچہ آپ شیخ مفید کے ایک خط میں اس طرح خطاب فرماتے ہیں :إنّا غیر مهملین‏ لمراعاتكم، و لا ناسین لذكركم، و لو لا ذلك لنزل بكم اللأواء و اصطلمكم‏ الأعداء (2) ۔ہم نے ہر گز تم کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا ہے اور ہرگز تمھیں نہیں بھولے۔اگر ہماری توجہ نہ ہوتی تو تم پر بہت سی سختیاں اور بلائیں نازل ہوتیں اور دشمن تم کو نیست ونابود کر دیتے ۔

 سوال نمبر 12 : یہ کسے ممکن ہے کہ ایک انسان  ہزار سال سے زیادہ زندہ رہے ؟

جواب : حضرت حجت  کی زندگی سے مربوط بحثوں میں سے ایک بحث آپ  کی طولانی عمر کے بارے میں ہے بعض لوگوں کے ذھوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے ایک انساں ہزار سال سے ذیادہ زندگی کرے جبکہ عام طور انساں کی عمر 80 سے 150 سال کی ہوتی ہے؟ اور اس شبہ کی وجہ بھی انسان کی متوسط عمر 70 سے100 سا ل کے درمیاں ہونا ہے ۔ ورنہ عقلی اور سائنسی اعتبار سے انسان کس عمر کے طولا نی ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ سائنسی  اعتبار سے طول عمر کے لیے کی جانے والی انسانی کوشیشں نتیجہ خیز ہین اور اس میں کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔

---------------

(1):- مفاتیح الجنان ،دعای عدلیہ

(2):- مفید، محمد بن محمد ،، 1جلد، ص8- قم، چاپ: اول، 1413 ق

۳۷

اوردنیا  کے سائنسداں حضرات أج تک انسان کی طبیعی عمر کے لئے کوئی حتمی سرحد معین نہیں کرسکے ہیں(1) خاص طور پر ایک مسلمان فرد جو قرأنی حقائق پر عقیدہ رکھتا ہے اسے کے لیے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ قرأن مجید نے طولانی عمر کے مالک  افراد کے ایسیے نمونے بیان کیے ہیں جو سیکڑون سال سے اب بھی زندہ ہے ۔ چنانچہ حضرت عیسی  کے بارے میں ارشاد باری ہوتا ہےوَ مَا قَتَلُوهُ يَقِینَا*بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ  وَ كاَنَ اللَّهُ عَزِیزًا حَكِیمًا * (2) اور انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا اور بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔لہذا تمام مسلمانون کاعقیدہ ہے کہ نہ صرف حضرت عیسی  بلکہ جناب خصر ؛ جناب الیاس؛ جناب ادریس   سب اب بھی زندہ ہیں اور حضرت عیسی  أخری زمانہ میں امام عصر  کے ظھور کے بعد زمین پر تشریف لائیں گئے اور حضرت ولی عصر کی اقتداء میں ںماز ادا کریں گے انکی نصرت کریں گے ۔ لہذا ابو خاتم سجستانی اپنی کتاب ( المعمرون ) میں مستند تاریخی حوالے سے سینکڑوں افراد کو ان کے عمر کے ساتھ بیاں کیے ہیں ان میں سے حضرت أدم  کی 912 سال ؛ حضرت نوح کی 2500 سال ؛ بیاں کیے ہیں ۔لیکن حضرت حجت  کی طولانی عمرکے متعلق ہم سینکڑوں احادیث رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمارا عقیدہ ہے جسے ہم فلسفہ غیبت کے موضوع میں بیان کر چکے ہیں کہ انکی غیبت  عمر میں طولانی قدرت خدا اور ارادہ خاص پروردگار سے انجام پایا ہے اور قدرت خدا لامحدود ہے اس میں کسی شک وشبہ کی گنجأش نہیں ہے ۔ پروردگار عالم جب ارادہ کرے تو کسی کو قیامت تک زندہ رکھ سکتا ہے جیسا کہ شیطان ھزاروں سال سے اب بھی زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا خود پروردگار عالم قرآن مجید میں حضرت یونس  کے متعلق بیان فرماتا ہے : فَلَوْ لَا أَنَّهُ كاَنَ مِنَ الْمُسَبِّحِینَ * لَلَبِثَ فىِ بَطْنِهِ إِلىَ‏ يَوْمِ يُبْعَثُون * (3) اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے، 144۔ تو قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہ جاتے

---------------

(1):- اس بارے میں مزید معلومات کے لئے مراجعہ کریں نوید امن وامان ص261

(2):- نساء :175

(3):- صافات :144 (اور خوشی کی بات یہ ہے أج  مڈگاسکرکے ساحلی علاقے میں400 مل ین سال کی ایک مچھلی ملی ہے ۔  ( روزنامہ کیہان ش4413؛ 22؛1343ہ ق  نقل از محور کا ئنات ص 112)

۳۸

سوال نمبر 13 : غیبت کبری  کی دور میں جب حجت خدا غیب کی پردے میں ہیں تو ہماری کیا کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

جواب : اس موضوع کےمتعلق  قرآنی آیات اور روایات سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ عضر غیبت میں لوگون  کے گردن پر بہت ہی سنگین اور بڑی زمہ داری ہے اور جب تک ان زمہ داریوں اور وظائف پر عمل نہ کریں حقیقی اور سچے مسلمان شمار نہیں ہوتا

لہذا واقعی اور سچے مسلمان بنے کے لیۓ ان زمہ داریوں  کو اچھی طرح جاننا اور اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہےـ

ہم یہاں چند اہم زمہ دّاریوں کو اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں تاکہ  تشنئہ معرفت حضرات کے لیےان وظائف اور زمداریوں کو جاننے میں آسانی ہو جائے

1:  امام حجہ            کی معرفت اور شناخت :

ایک مؤمن مسلمان  جو امام کے وجود کو ضروری سمجتا ہےاسکی سب اہم ذمہ داری اور پہلا وظیفہ ہر دور کے امام کی معرفت اور انکی شناخت ہے ،چونکہ  فریقیں کے نزدیک یہ ثابت ہے کہ  پیغمبر اکرم(ص)  نے امام زمانہ       کی معرفت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے  لہذا ہر مسلم فرد کی شرعی اور عقلی ذمہ داری  بنتی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کرلے  چنانچہ اس بارے پیغمبر اکرم سے مشہور اور متواتر حدیث ہے جسے شیعہ سنی سب نے نقل کیا ہے آپؐ  نےفرمایا: من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة(1) جو شخص اپنے  امام زمانہ کی معرفت کے بغیر مر جاۓ وہ جاہلیت کی موت مراہے ” یعنی جب تک امام زمانہ کو نہ پہچانے کہ وہ کون ہیں وہ شخص حقیقی مسلمان نہیں ہے اور وہ ایمان کی دائرے میں نہیں مرتا ۔

--------------

(1):- تفتازانی: شرح مقاصد: ج 2 ص 275-

۳۹

 جبکہ اسلامی تعلیمات کے روشنی میں تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جس ہستی کے آمد کے ہم  سب منتظر ہیں وہ ایسی شخصیت ہیں جن کو پروردگار عالم نے اسی دن کے لیے ذخیرہ کیا ہے ، اس روۓ زمین پر امام زمانہ اور حجت خدا ہونگے اور انکی بابرکت وجود کے ذریعےسے   مقصد  بعثت انبیا ء  کامل اورخلقت کا  نتیجہ حاصل ہو گا لیکن خصوصیت کے ساتھ مکتب تشیّیع کے نزدیک وہ  ذات  ابھی بھی ہمارے درمیان زندگی کر رہی ہے  اگر چہ الہی مصلحت کی بنا پر انکی شخصیت  کی زیارت سے ہم سب محروم ہیں ، آپ پردہ غیب سے ہماری مسلسل سرپرستی کررہے ہیں  ،انھیں کے وسیلہ سے اﷲ تعالی لوگوں کو رزق فراہم کرتا ہے اور زمین وآسمان اپنی جگہ ثابت وبرقرار ہیں   آپ خدا اور مخلوق کے درمیا ن واسطہ فیض ہیں تمام  انبیاء  واوصیاءؑ کے علوم  اور اوصاف حمیدہ کے وارث ہیں اورآپ ہی کی ذات کو  اﷲ تعالی کی  ارادہ  و اجازت سے نفوس پر تصرف کرنے کا حق حاصل ہے اور حق وحقیقت کی طرف ہدایت کرتی ہے ۔

اگر آج مسلم سوسائٹی معیشتی ؛ اجتماعی اور ثقافتی لحاظ سے اضطراب ؛تنزّل اور خفقان کا شکار ہے ،تو یہ سب آنحضرتؑ سے غفلت ؛ بے توجہی اور انکی معرفت حاصل کرنے میں کوتاہی کے وجہ سے ہے ،اور فطری طور پر جب انسان کسی موضوع کو کما حقہ نہ پہچانتا ہو اسکے بارے میں وہ اپنے وظیفے کو دلی  لگاو سے انجام  نہیں دے سکتا لھذا ایک حقیقی منتظر  کی ظہور سے پہلے  سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری حضرت حجت اما م منتظر      کی معرفت  اور شناخت ہے اوریہی سعادت و نجات کا باعث اور  اسے دوری دنیوی نقصان اور خسران ابدی کا باعث ہے  لہذا صادق آل محمد  فرماتے ہیں :يَقُولُ اعْرِفِ الْعَلَامَةَ فَإِذَا عَرَفْتَهُ لَمْ يَضُرَّكَ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ فَمَنْ عَرَفَ إِمَامَهُ كَانَ كَمَنْ كَانَ فِی فُسْطَاطِ الْمُنْتَظَرِ ع (1) تم اپنے امام کو پہچانیں جسکے تم منتظر ہے کیونکہ جب تم انکو پہچانیں گے تو پھر وہ ظھور کرۓ یا نہ کرۓ تمھیں کچھ نقصان نہیں ہو گا یعنی تم نے اپنے ذمہ داری انجام دیا اور حقیقی منتظرین میں سے ہو گۓ

-------------

(1):- مجلسی: مرآ ۃ العقول :ج۴ ص ۱۸۶ اور اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ -  

۴۰