اسرار غدیر

اسرار غدیر0%

اسرار غدیر مؤلف:
زمرہ جات: امامت

اسرار غدیر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد علی انصاری
زمرہ جات: مشاہدے: 24333
ڈاؤنلوڈ: 4140

تبصرے:

اسرار غدیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24333 / ڈاؤنلوڈ: 4140
سائز سائز سائز
اسرار غدیر

اسرار غدیر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کتاب :اسرار غدیر

مولف

محمد باقر انصاری

مقدمہ ناشر

غدیر حضر ت امیر المو منینعليه‌السلام کی سب سے بڑی فضیلت

فقال الرجل لا میرالمومنینعليه‌السلام : فاخبرنی بافضل منقبةلکَ من رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقال:

<نَصْبُهُ اِیَّایَ بِغَدِیْرِخُمٍّ، فَقَامَ لِیْ بِالْوِلَایَةِمِنَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ بِاَمْرِاللّٰهِ تَبَارَکَ وَتَعٰالیٰ>

”ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: آپعليه‌السلام کےلئے پیغمبر اکرم کی طرف سے عطا کی گئی سب سے بڑی فضیلت کیا ہے ؟

آ پ نے فرمایا:خداوند عالم کے حکم سے مجھ کو غدیر خم کے میدان میں ولایت کا تاج پہنانا۔ (کتاب سلیم صفحہ ۹۰۳ حدیث ۶۰)

اہداء

کیا یہ ناچیز مکتوب باعظمت خاتون کی بارگاہ میں قبول ہو جا ئیگا جس کو میں نے ان کے پر برکت جوار ،ان کی عنایت کے زیر سایہ اور ان کی شفاعت کی امید میں تالیف کیا ہے ؟

کیا کر یمہ آل محمد حضرت فاطمہ معصومہ سلا م اللہ علیھا اس مو لف کے سر کو اپنے آستانہ پر جھکانے کو قبول کریں گی ؟

اس امید کی کرامت میں کتاب حاضر کوان کی بارگاہ میں تقدیم کر تا ہوں ۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا نے حدیث غدیر کی سند

مندرجہ ذیل طریقہ سے نقل کی ہے

۔۔۔حضرت فاطمہ دختر امام مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام نے فاطمہ دختر حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے انھوں نے فاطمہ دختر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے انھوں نے فاطمہ دختر حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام سے انھوں نے فا طمہ اور سکینہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی بیٹیوں سے انھوں نے حضرت فاطمہ زھرا علیھا السلام کی بیٹی ام کلثوم سے نقل کیا ہے کہ ان کی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھراء دختر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ :اَنَسِیْتُمْ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰهِ یَوْمَ غَدِیْرِخُمٍّ : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ“؟!

”کیا تم نے غدیر خم میں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کو بھلا دیا ہے : جس کا میں مولا اور صاحب اختیار ہوں یہ علی علیہ السلام اس کے مو لا اور صاحب اختیار ہیں “؟!( ۱ )

مقد مہ

غدیر ہمارا پاک و پا کیزہ عقیدہ

”غدیر “یہ مقدس اورپاک و پا کیزہ نام ہما رے عقیدہ کا عنوان اورہما رے دین کی بنیاد ہے

غدیر خلقت کا ما حصل ،تمام ادیان الٰہی کا نچوڑ اور مکتب وحی کا خلا صہ ہے ۔

غدیر ہمارا عقیدہ ہے صرف ایک تا ریخی واقعہ نہیں ہے ۔

غدیر،نبوت کا ثمر اور رسالت کا میوہ ہے ۔

غدیر،قیامت تک مسلمانوں کے گامزن رہنے کے لئے راستے کو معین کر نے کا نام ہے ۔

غدیر ،کوئی بھلادینے والی یا پرا نی ہو نے والی چیز نہیں ہے ۔

غدیر ،وہ پانی ہے جس سے گلستان توحید کے تمام درختوں اورغنچوں کواپنے رشد و نمو کےلئے سیراب ہونے کی ضرورت ہے ۔

غدیرپل صراط ہے اورغدیر پر ایمان رکھ کر ہی اس صراط سے گذرا جا سکتا ہے ورنہ اس شمشیر کی ایسی تیز دھار ہے جس سے ہر منافق اور ملحد دو ٹکڑے ہو جا ئے گا ۔

غدیر ،اسلام کی تاریخ کا سب سے حساس موڑہے جس نے ابتداء ہی میں دین خدا کو دشمنوں کی طرف تمام اندرونی اور بیرونی یقینی خطرات سے فکری اور معنوی اعتبار سے نجات دی ۔

غدیر، اسلام کے ماضی کا محا فظ اور مستقبل کا ضامن ہے ،جس کا منصوبہ بنانے والا خداوند عالم، اعلان کر نے والے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورجامہ عمل بنانے والے بارہ امام علیھم السلام ہیں ۔

غدیر پوری انسانیت کی عید ہے ۔اس د ن انسانی تخلیق کا آخری مقصد بیان ہو ااور انسانیت کا مقصد معین ہوا ۔جنھوں نے اس دن کو برباد کیا انھوں نے حق انسانیت کو پا ئمال کر دیا اور ار بوں انسانوں کے حق کو نظرانداز کیا ہے ۔

غدیر ہماری روح اور ہماری سرشت ہے ۔ھم غدیر کے ذریعہ ہی اس دنیا میں آئے ہیں ،اور ہم اسی کے ساتھ اپنے پر وردگار سے ملاقات کریں گے ۔

غدیرفکر کا مقام ہے اس لئے کہ اس کا تعلق انسان کی حقیقت سے ہے ،اور انسان کے وجود میں مختلف جہتوں سے مو ثر ہے اور دنیا و آخرت میں اس کی ذمہ داریوں کو معین کر تا ہے ۔

چودہ سو سال سے شیعہ غدیر کے بابرکت نتھرے پانی کو ولایت کے درختوں کی جڑوں پر چھڑ کتے ہیں ،اور اس خشک بیابان سے ، عقائد سے ھرے بھرے پودوں اور محبت کے خوبصورت پھولوں کو پروان چڑھا تے ہیں حضرت علی علیہ السلام سے کینہ و بغض و حسد رکھنے والوں سے برائت اور ان پر لعنت کرکے ان کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکتے ہیں اور رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عطا کی ہو ئی محکم و مضبوط حجت کے ذریعہ غدیر کی سرحدوں کو مخالفین غدیر کےلئے بند کرکے ان سے ھمت دکھانے کی طاقت و قوت چھین لی ہے ۔غدیر کے شھیدوں نے چودہ سو سال کے عرصہ میں غدیر کے نام پر شھید ہونے والے ،غدیرکے سب سے پہلے شھداء حضرت فا طمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور حضرت محسن علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے والے اور کربلا میںاس کے با عظمت شھدا کے پیروکار ہیں ۔عاشورا مولود غدیر اور اس کا محا فظ ہے اور ٹھیک سقیفہ کے مد مقابل مو رچہ بنائے ہوئے ہے ۔

غدیر میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی چشم مبارک بہت دور کا نظارہ کر رہی تھیں جو کشتی اسلام کا بیڑا پار لگا ئے اور اس کے آخری ہدف کو آشکار کرے ،مستقبل کا نظارہ بھی کر رہی تھیں بھیڑیا دھسان عقیدہ رکھنے والے اسلام کو اندر سے کھوکھلا کرنے کی کوشش میں لگے ہیں ۔

اسی سبب کے مد نظر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو اپنے دست مبارک میں لیکر بلند کیا اور تاریخ کی تمام نسلوں کو دکھلایا اور ان کا اپنے جا نشین کے عنوان سے تعا رف کرایا ۔

ھمارے پاس غدیر کی میراث کے وارث ہیں اور ہمارا وجود اسی کی عظمت کامرہون منت ہے آج غدیر دشمنوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والا وہ آفتاب ہے جو پوری دنیا کو ضوفشاں کررھا ہے اور اس کی طاقتور کشتی کو وسیع و عریض گیتی میں کہے رہا ہے اور چودہ سو سال سے سقیفہ کے فتنہ میں غرق ہو نے والوں کو گرمی پہنچا رہا ہے اور اس کوکفر و گمراھی کے گردابوں سے بچاکر اس کی روح کو نئی زندگی عطا کررھا ہے ۔

اے صاحب غدیر

غدیر والے آپ کو اوج غدیریت سے سلام عرض کرتے ہیں ،تعظیم کرتے ہیں ،آپ کے دست مبارک، پیر اورآپ کی خاک پا کو چو متے ہیں آپعليه‌السلام کے بلند و بالا مقام کے با لمقابل خود کو بہت چھو ٹا سمجھتے ہیں !۔۔۔اگر آپعليه‌السلام ان کی اس خا کساری کو قبول فر ما ئیں ۔!؟

انتظار سے لبریز آنسو کے قطرہ کا ۔۔۔سلام !

اس کتاب کو تحریر کرنے کی وجہ

غدیر سر نوشت ساز واقعات کا مجموعہ ہے کہ ’خطبہ غدیر “ان کی سب سے آشکار اور سب سے زندہ سند ہے ۔یہ خطبہ اسلام کا بنیادی دستور اور اسلام کی ابدی عزت ہے جس کا خلاصہ جملہ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ“” جس کا م یں مو لا ہوں اس کے علی مو لا ہیں “اور اس کا نتیجہ ”امیر المو منین علیہ السلام کی ولا یت “ہے ۔

غدیر کا ایک چھوٹے جملہ یا ایک تفصیلی تقریر میں خلا صہ نہیں کیا جا سکتا ہے اس خطبہ کے ذیل میںبہت سے مطالب اور واقعات ہیں جن کو واقعہ غدیر کے مجمو عہ کے عنوان سے یاد کیا جا سکتا ہے اور اس کی مکمل نقشہ کشی کی جا سکتی ہے ۔

غدیر خم کے خطبہ کے ذیل میں جو کچھ رونما ہوااس سے اس عظیم واقعہ میں پوشیدہ حقائق کو درک کرنے یھاں تک کہ خطبہ غدیر کے بعض جملوں اور عبارتوں کو سمجھنے کے اسباب فر ا ہم کرتا ہے ۔

اگر ہم کو غدیر کے واقعات کا الگ الگ علم ہوجائے لیکن ہم پر ان کا ایک دو سرے سے رابطہ واضح نہ ہو تو ہم پر ایسی حقیقتیں مخفی رہ جا ئیں گی جن کا ایک مسلمان کے عقیدے سے براہ راست تعلق ہے اور ان کے مد نظر اکثر مسلمانوں کے حضرت امیرالمو منین علیہ السلام کی ولایت و امامت سے منحرف ہو نے کے علل واسباب سے پردہ اٹھ جا ئےگا ۔

تا ریخ کے ان فقروں کی جمع آوری ،ان کی تنظیم اور ان کے رابطہ کو درک کرنا ایک مسلمان کو یہ سمجھا تا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان مخصوص حالات میں (مسلمانوں کوائمہ معصومین علیھم السلام کے راستہ پر متحد رہنے کے لئے یہ مفصل خطبہ ایک بڑے شان و شوکت والے پروگرام میں ارشاد فر مایا اور قیا مت تک کےلئے اپنے جا نشینوں کاباقاعدہ تعارف کرایا ۔ان تمام باتوں کے با وجود مسلمان ایک دوسرے کیوںمتفرق ہیں اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معین و مشخص فر ما ئے ہو ئے جانشینوں کے ایک دل و زبان سے پیرو کار کیوں نہیں ہیں ؟

اس مقام پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں سے سوال فر ما سکتے ہیں ۔ہر مسلمان کاضمیراپنے آپ کواس خطبہ کے بالمقابل دیکھتا ہے تو وہ واقعہ غدیر کا دقت سے مطالعہ کرنے پرمجبور ہوجاتاہے ۔

اسی سبب کے مد نظر ہم نے یہ کتاب تا لیف کی ہے اور اسی سبب نے ہمیں موضوع ”غدیر “کے تمام جزئیات کو جمع کرنے اور موجودہ کتاب کی صورت میں قا رئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کا شوق دلایا ہے ۔

کتاب کے اغراض و مقاصد

اب جبکہ حدیث غدیر کی سند اور متن کے سلسلہ میں علامہ مجلسی ،علا مہ میر حا مد حسین ہندی، علا مہ امینی اور دو سرے علماء اعلام کے ذریعہ علمی بحثیں با لکل مکمل اور صاف طور پر بیان ہو چکی ہیں تو ان حضرات کی کا وشوں اور زحمتوں کو مد نظررکھتے ہوئے خطبہ غدیر پر مفصل نظر ڈالنا ضروری ہے ،او ر یہ خطبہ جس کو خا تم الانبیاء نے سب سے اہم اور آخری پیغام کی شکل میں ایک دائمی منشور کے عنوان سے مسلمانوں کےلئے بیان فرمایا ہے لہٰذا اس کامخصوص حالات کے ساتھ جائزہ لینا ضروری ہے ۔

اس اہم مسئلہ کےلئے ہمیں سب سے پہلے اُس وقت کے اسلامی معا شرہ پر حاکم فضا کا مطالعہ اور واقعہ غدیر کی اہمیت کی مختلف جہات کا جا ئزہ لیناہوگا ہم نے کتاب کا پہلا حصہ اسی مطلب سے مخصوص کیا ہے ۔

اس کے بعد واقعہ غدیر کے رونما ہو نے کے تمام جزئیات کو مد نظر رکہیں گے جن کا آغاز پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ سے سفر کرنے سے ہو تا ہے یھاں تک کہ جو کچھ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ مکرمہ اور مراسم حج انجام دیتے وقت غدیر کے سلسلہ میں بیان فر مایا ہے ۔لوگوں کے غدیر میں حاضر ہو نے کی دعوت ، حاجیوں کا ایک ساتھ نکلنا اور ان کا غدیر کے بیابان میں حاضر ہونا ،غدیر خم کے ظاہری اور رو حی اسباب کا فرا ہم کرنا ،خطابت کا طریقہ ،خطیب ،مخا طبین اور جو کچھ اس مقدس مقام پر تین دن کے عرصہ میں وقوع پذیر ہوا جس میں بیعت ،مبارک بادی ،جبرئیل کا ظاہر ہونا اور معجزہ الٰہی شامل ہے یہ سب کتاب کے دوسرے حصہ میں بیان کیا گیا ہے ۔

یہ بات بھی جان لینا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عظیم اقدام کے وقت منافقین اور دشمنان اسلام منصوبے بنانے اور خیانت کر نے میں مشغول تھے اور اسلام کے خلاف اپنے پروگرام تشکیل دے رہے تھے ، اور آنحضرت کو قتل کرنے کا منصوبہ بنارہے تھے ۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ان تمام منصوبوں سے آگاہ تھے اور معاشرہ کے اجتماعی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیتے تھے تیسرے حصہ میں اسی موضوع کو بیان کیا گیا ہے ۔

اس کے بعد چوتہے حصہ میں اس بات کی نوبت آگئی ہے کہ خطبہ غدیر کے مطالب کا مو ضوعی اعتبار سے مطالعہ کیا جا ئے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ اسلام کا یہ دائمی منشور کن پیغامات کا حامل ہے اس طرح خطبہ کے عربی متن اور اردو ترجمہ کا دقت سے مطالعہ کیا جائے گا ۔

حدیث غدیر کی سند اور متن کے علمی اور استدلالی ابحاث کے سلسلہ میں کتاب کے پانچویں حصہ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

چھٹے حصہ میں خطبہ غدیر کے عربی متن کا نو نسخوں سے مقابلہ کرکے منظم و مرتب صورت اور اعراب گذاری کے ساتھ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے اور حاشیہ میں نسخوں کے اختلاف اور ضروری توضیحات درج کی گئی ہیں ۔

ساتویں حصہ میں خطبہ کا مکمل اردو ترجمہ اس کے عربی متن سے مطابقت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے

خطبہ غدیر سے نتائج اخذ کرنا اور اس کی تفسیر آٹھویں حصہ میں تحریر کی گئی ہے ۔

نویں حصہ میں ”عید اور جشن غدیر “،اھمیت غدیر ،اورعید غدیر کس طرح منائی جا ئے کے متعلق مطالب تحریر کئے گئے ہیں تا کہ ہم اسلام کے اس بزرگ شعار کو زندہ کرکے اپنے ائمہ سے تجدید بیعت کرسکیں۔

دسویں حصہ میں تاریخچہ غدیر اور چودہ صدیوں میں اس کے تاریخ اسلام پر ہو نے والے اثرات سے متعلق بحث کی گئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس حساس موڑ پر اقدامات کتنے دقیق تھے جو اتنے طولانی زمانہ تک مسلمانوں کےلئے موثر اور کارساز واقع ہوئے ہیں ۔

اس تالیف میں انہیں اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھا گیا ہے انشاء اللہ ان سب کو اس کتاب میں الگ الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا ۔جو نتائج آپ حضرات کی خدمت میں پیش کئے جا ئیں گے وہ سب اہل تشیع کے بڑے بڑے علماء کی علمی کاوشوں کا نتیجہ ہیں جنھوں نے ہمارے لئے ان اسناد و مدارک کی حفاظت کی ہے اور ان کے حدیثی اور تا ریخی متون کا جائزہ لیا گیاہے ۔

اس بات کا بیان کر دینا بھی لازم و ضروری ہے کہ ہم نے جو کچھ بھی واقعہ غدیر کو بیان کرنے میں محنت و کوشش کی ہے ان میں فقط مدارک کے اسناد اور متون کی عبارتوں کے جزئیات پر بہت زیادہ غوروفکرکی ہے اور اندازہ ،خیالی اور گڑھی ہو ئی داستانوں کو نقل کرنے سے گریز کیا گیا ہے ۔

کتاب کے منابع و مصادر

غدیر کے سلسلہ میں شیعہ اور سنّی منابع و مصادر کی کتابوں کی دقیق اور جا مع فھرست کتاب کے آخر میں ہر مورد کے سلسلہ میں دقیق حوالہ کے ساتھ درج کی گئی ہے ۔

علاّمہ شیخ حر عاملی ،علامہ مجلسی،علامہ بحرانی اور علامہ امینی رضوان اللہ علیھم نے چا ر کتابوں ” اثبات الھدات جلد/ ۲ ،بحارالانوار جلد / ۳۷ ،عوالم العلوم جلد/ ۱۵/۳ اور الغدیر جلد / ۱ میں غدیر سے متعلق بطور کامل اور جامع مطالب بیان کئے ہیں ان بزرگوں کی زحمتوں کے مد نظر آسانی سے متعلقہ اسناد و مطالب تک رسائی کی جا سکتی ہے ۔

اس کتاب کی تالیف کے بعد پچاس سے زیادہ اہم کتابوں ”جو مستقل طور پر غدیر کے سلسلہ میں تالیف کی گئی ہیں “ کا مطالعہ کیا گیا اور ان سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

یہ کتاب پہلی مرتبہ غدیر کے چودہ سو پانچویں ۱۴۱۵ ھ مطابق ۱۳۷۴ ھ ش سالگرہ کے موقع پر اور دوسری ،تیسری اور چوتھی مرتبہ ۱۴۱۷ ھ ، ۱۴۱۸ ھ ،اور ۱۴۲۰ ھ میں طبع ہوئی ہے اب یہ چوتھا ایڈیشن مندرجہ ذیل نکات کے اضافہ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے :

۱ ۔نو حصوں سے اخذ شدہ نتائج ۔

۲ ۔خطبہ کے متن کا دوسرے اور دو نسخوں سے مقابلہ ۔

دسویں حصہ ”غدیر قیامت تک کھلی رہنے والی فائل“کا اضافہ ۔

موجودہ کتاب اس دن کے وعدہ کی وفا کےلئے لکھی گئی ہے جس دن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عہد لیاتھا اور دریائے بیکران غدیر کے سلسلہ میں دقیق تحقیق اور مطالعہ کےلئے پیش کی جا رہی ہے

اس دن کے انتظار میں جس دن ہم صاحب غدیر حضرت بقیة اللہ الاعظم ارواحنا فداہ وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کے ذریعہ”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “ کو عمل ی طور پر محقق ہو نے کا مشاہدہ کریں،ان کے وجود مبارک کے نزدیک”اَللَّهُمَّ وَالِ مَنْ و َالَاهُ “ کے معنی کا تہہ دل سے احساس کریںاور ان کی مدد سے”اَللَّهُمَّ انْصُرْمَنْ نَصَرَهُ“ کے اوج کا اظھار کر یں اور غدیر کو جس طرح غدیر خم میں بیان کیا گیا اسی طرح مانیں اس سے لذت حاصل کریں اور لطف اٹھائیں ۔

محمد باقر انصاری زنجانی خو ئینی

قم ،

عید غدیر ۱۴۲۱ ھ ،زمستان ۱۳۷۹ ۔

____________________

[۱]۔عوالم العلوم جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵،اسنی المطالب جزری صفحہ۵۰ ۔