اسرار غدیر

اسرار غدیر16%

اسرار غدیر مؤلف:
زمرہ جات: امامت

اسرار غدیر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27308 / ڈاؤنلوڈ: 5778
سائز سائز سائز
اسرار غدیر

اسرار غدیر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

واقعہ غدیر کاپیش خیمہ

غدیر کاعمیق مطالعہ کر نے کےلئے اس عظیم واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے وقت معا شرہ کے سماجی،اعتقادی اور اخلاقی حالات سے آگاہ ہو نا ضروری ہے ،تا کہ معلوم ہو کہ غدیر خم میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سا تھ کون لو گ تھے ؟ اور وہ کیسے مسلمان تھے ؟ان کا عقیدہ کیسا تھا ؟اور وہ کتنے گروہوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں ؟

یہ فکری آمادگی واقعہ غدیر کے جزئیات اور اس کی خاص کیفیت کاتجزیہ و تحلیل کر نے میں مدد گار اور نتیجہ خیز ثابت ہو گی ۔

۱.ہجرت کے پہلے عشرہ میں اسلامی معا شرے کی تشکیل

دین اسلام کی تبلیغ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت( ۱ )

دین اسلام آخری دین ہے جو گزشتہ تمام ادیان کو منسوخ کر دینے والا اور معارف الٰہی کے سب سے بلند وبالا مطالب کا حا مل ہے جو کسی زمان و مکان میں محدود نہیں ہیں ۔لہٰذا ان معارف کو پوری دنیا میں ہمیشہ کےلئے لوگوں کی فکر و روح کی تعمیر کرنے والی اور انسانیت ساز قانونی دستاویز کے طور پر ہونی چا ہئے

اس عظیم رسالت کی ذمہ داری خا تم الانبیاء حضرت محمد بن عبد اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کاندھوں پرڈالی گئی ہے ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلامی احکام و معارف لوگوں کےلئے آہستہ آہستہ بیان فر ما تے تھے اور ہر اقدام سے پہلے اس کےلئے ماحول کوسازگار بناتے تھے ۔جیسے جیسے اسلام کی قدرت و طاقت اورترقی میں اضافہ ہو تا جاتا تھا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی سنگین تر اسلامی مطالب کو لو گو ں کے سامنے بیان فر ما تے تھے ،اور یہ طریقہ آپ کی حیات طیبہ کے آخری وقت تک جاری و ساری رہا ۔

ہجرت سے پہلے مسلمان( ۲ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تیرہ سال کی تبلیغ کے دوران مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی تعدادبہت کم تھی اور اس کی وجہ ظا ہر ی طور پر اسلام کاکمزور ہوناتھا ،لہٰذا دنیوی خواہشات کے خواھاں اسلام کی طرف بہت کم ما ئل ہو تے تھے ۔

اگر چہ اس دور میں بھی کچھ منا فقین اپنا مستقبل بنا نے کی غرض سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے تھے ، اپنے جاہلیت والے مقاصدکوحاصل کرنے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقدامات کو نابود کر نے کےلئے دل ہی دل میں منصوبہ بنایا کر تے تھے ،لیکن دوسرے افراد کی نیک نیتی ان کے تمام ارادوں پر پانی پھیر دیتی تھی ۔

ہجرت کے بعد مسلمان( ۳ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ تشریف آوری ،آپ کے استقبال اور مسلمانوں کےلئے امن و امان کی جگہ فراہم ہو جا نے کے بعدروز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو تا گیا۔اسلام اس قدر ترقی کی راہ پر گا مزن تھا کہ گروہ گروہ اور کبھی توساراقبیلہ مسلمان ہو جا تا تھا ۔مدینہ کے گرد و نواح سے بھی افراد آنحضرتعليه‌السلام کی خدمت با برکت میں حا ضر ہو تے تھے اور اسلام قبول کر تے تھے ۔اس بنا پر مسلمانوں کی آبادی میں ایک بنیادی تبدیلی ہو رہی تھی ،مشرکین ،یہودی اور عیسائی ایمان لا کرمسلمان معاشرہ میں داخل ہو چکے تھے اور یہ معاشرہ مختلف قبائل اورمختلف گرو ہوں کو اپنے اندر جگہ دے رہا تھا۔ان لوگوں میں سے بعض لوگ اپنے قبیلہ کے سرداروں کی اتباع میں ، کچھ جنگو ں میں شرکت کر کے مال غنیمت حا صل کر نے کے قصد و ارادہ سے مسلمان ہوئے اور بعض دوسرے افرادعھدہ ومنصب وغیرہ حاصل کرنے کی غرض سے اسلام لا ئے ۔

جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگیں اوج پر پہنچیں اورمسلمانوں کی معاشرتی اور فوجی طاقت بڑھی اور مسلمان جنگوں کو فتح کر نے لگے ،تو کثرت سے لوگ اپنی جان و مال کی حفا ظت کے لئے اسلام قبول کر نے لگے اور کچھ لوگو ں نے رسوا و ذلیل نہ ہونے کی خاطرخود کو اکثریت کے ساتھ ملحق کر لیا ۔

اگرچہ مخلص اور فدا کار مسلمانوں کی تعدادبھی کم نہیں تھی اور یھی وہ افراد تھے جو منافقین کے منصوبوں اور دنیا پرستوں کی خوا ھشات میں رکاوٹ ڈالتے تھے ۔

فتح مکہ کے بعد مسلمان( ۴ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ مکہ فتح ہو نے کے بعدیہ صورت حال نے مزیدپیچیدہ ہوگئی۔یہ بڑی فتح جس میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی علیہ السلام نے بت پرستی اور شرک کی کمر توڑ دی تھی ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے عام طور پر در گزرکر نے کے اعلان کے بعد بہت سے وہ افراد جو کل تک جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف تلوار چلاتے تھے ،مسلمانوں کے گروہ میں داخل ہو گئے اس طرح مسلمان معاشرہ نے نئی شکل اختیارکرلی ۔

حجةالوداع کے سال اسلامی معاشرہ( ۵ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخری سال میں جھاں آپ کے ساتھ ایک طرف سلمان ابوذر اور مقداد جیسے مخلص مسلمان تھے تو دو سری طرف وہ نئے مسلمان بھی تھے جو کل تک اسلام کے خلا ف تلواراٹھایا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ خواہشات نفسانی کے پابند ہویٰ و ہوس کے غلام اور دنیا کے خواھاں افراد بھی تھے جن کامقصددنیاحا صل کر نا تھا۔

کچھ افراد کی افکار پر دور جا ہلیت کے تعصبات کا غلبہ ،بدر و احد وحنین اور خیبر کے کچھ باقیماندہ عُقدے اور دنیاوی لالچ نے کچھ لوگوں کے دلوں سے ایمان راسخ کو ختم کر دیا تھااس کے علاوہ مخفی حسد جو روز بروز آشکار ہو تا جا رہا تھا حجة الوداع کے وقت سب چیزیں مسلمانوں کے معا شرہ پرحکم فرما تھیں اور اس وقت کی فضا انہیں اسباب کی دین تھی۔

مسلم معا شرے میں منا فقین( ۶ )

مسلم معاشرے کی سب سے بڑی مشکل، نفاق تھاجوان افراد کی مختل کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر ان کے اندر سے روح ایمان کو سلب کرکے انہیں اپنی طرف مائل کر لیتاتھا ۔ منافقین وہ لوگ تھے جو ظاہری طور پر تو مسلمان تھے لیکن قانونی طور پر ان سے پیش آنامشکل تھا ۔

یہ گروہ بعثت کی ابتدا ہی سے مسلمانوں کے درمیان مو جودتھا اور بعض تو ابتدا ہی سے منا فقانہ نیت سے مسلمان ہو ئے تھے ،لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی ۔جیسے جیسے اسلام کی قوت بڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے منا فقین بھی اپنے کو منظم کر تے جا رہے تھے اور اسلام کی ظاہر ی عبا زیب تن کئے ہو ئے اسلام کے نئے پودے پر کفار و مشرکین سے بھی زیادہ مہلک وار کر تے تھے ۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخر ی سالوں میں منا فقین عملی طور پر میدان میں آگئے تھے ،وہ مٹینگیں کیا کر تے تھے ،اسلام اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف سا زش کر تے اور ماحول خراب کیا کر تے تھے جس کی بہترین گواہ قرآن کریم کی آیات ہیں ۔ اگر ہم قرآن کر یم کی آیات کے نا زل ہو نے کی تر تیب کا جا ئزہ لیں تو منا فقین سے متعلق اکثرآیات پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ کے آخری سالو ں میں نا زل ہو ئی ہیں ۔( ۷ )

منافقین ظا ہر ی طور پرتو مسلمان تھے لیکن با طنی طور پر کفر والحاد اور شرک کی طرف ما ئل تھے ان کے دل میں یہ آرزو تھی کہ دین اسلام کو ہر اعتبار سے نقصان پہنچا یا جا ئے اورکسی طرح اپنی پرانی حا لت پرپلٹ جا ئےں لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جا نتے تھے کہ ہم اس ہدف کو آسانی سے نہیں حا صل کر سکتے اور کم سے کم پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں تو ایسا ہو نا نا ممکن ہے ۔لہٰذا انھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ بنایا ۔

انھوں نے حجةالوداع کے سال میں اپنے درمیان کئی عہد نا موں پر دستخط کئے تھے اور ان میں اسلام کے خلاف کئی دقیق اور پیچیدہ سازشیں تیارکی تھیں ۔( ۸ )

غدیر ،سازشوں کی ناکامی کی بنیاد

جو چیزاس ماحول میں منا فقو ں کی سازشوں کو بالکل نیست و نا بود ،اسلام کواس کی اصلیت اور حقیقت کے ساتھ محفوظ رکھ سکتی تھی وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کے جا نشین کااعلان تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بعثت کے آغاز سے ہی ہر منا سب مو قع پراس کا اعلان فر ما یا تھا یھاں تک کہ متعدد مر تبہ سند کے طور پرمعاشرہ کی پشت پناھی کے ساتھ بیان فرمایا ،یھاں تک کہ ایک روز امیر المو منینعليه‌السلام کو بلایا اسکے بعد اپنے خادم کو حکم فرما یا کہ قریش کے سو افراد ،دیگرعربوں سے اسّی افراد عجم سے ساٹھ افراد اور حبشہ کے چالیس افراد جمع کریں جب یہ افراد جمع ہو گئے تو آپ نے ایک کاغذ لا نے کا حکم دیا ۔

اس کے بعد سب کو ایک دو سرے کے پہلو میں نماز کی طرح صف میں کھڑے ہو نے کا حکم دیا اور فر مایا: ”ایھا الناس ، کیا تم اس بات کو تسلیم کر تے ہو کہ خداوند عالم میرا ما لک ہے اور مجھ کو امر اور نھی کر تا ہے اور میںخدا وند عالم کے قو ل کے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں رکھتا“؟

انھو ں نے کہا :ھاں ، یا رسول اللہ ۔آپ نے فر مایا :کیا میں تمھارے نفوس پر تم سے زیا دہ حا کم نہیں ہوں ، تم کو امر و نھی کرتاہوں اور تم کو میرے مقابلہ میں امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ؟انھوں نے کہا : ھاں ،یا رسول اللہ ۔

فرمایا :جس شخص کا خداوند عالم اور میں صاحب اختیار ہوں یہ علی بھی اس کے صاحب اختیار ہیں یہ تم کو امر و نھی کر نے کا حق رکھتے ہیں اور تمہیں ان کو امر و نھی کر نے کا حق نہیں ہے ۔خدایا علیعليه‌السلام کے دوست کو دوست رکھ اور علیعليه‌السلام کے دشمن کو دشمن قرار دے ،جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر،جو اس کو ذلیل و رسوا کر ے تو اُس کو ذلیل و رسوا کر۔ خدایا تو اس بات کا شاہد ہے کہ میں نے تبلیغ کی اور ان تک پیغام پہونچا دیا اور ان کے سلسلہ میں پریشان رہا۔

اس کے بعد اس کاغذ(جس میں یہ مطالب تحریر تھے )کو ان افراد کے سا منے تین مر تبہ پڑھنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد تین مر تبہ فر مایا :تم میں کون شخص اس عہد سے پھرجائے گا؟انھوں نے تین مرتبہ کہا : ہم خدا اور اس کے رسول کی پناہ چا ہتے ہیں اگر ہم اپنے عہد سے پھریں۔

اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کاغذکو لپیٹا اور اس پر مجمع میں موجودسب افراد کے دستخط کرائے اور فرمایا: اے علیعليه‌السلام اس نوشتہ (تحریر ) کو اپنے پاس رکھو،اور اگر ان میں سے کسی نے عہد شکنی کی تو یہ تحریر اس کو پڑھ کر سنا ناتا کہ میں قیامت میں اس کے خلاف مبغوض رہوں ۔( ۹ )

ان تمام اقدامات کے با وجود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علیعليه‌السلام کو قا نونی طور پر اپناجانشین و خلیفہ معین فر ما نے کےلئے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایا م میں زمان ،مکان اور تا ریخ کے اس عظیم جم غفیر کے منتظر تھے منافقین کو بھی اس چیز کا خطرہ تھا اور متعدد طریقو ں سے اس اعلان میں رو ڑے اٹکا رہے تھے ۔

قانونی طور پر زمان و مکان کے اعتبار سے اعلان کر نے کا سب سے بہترین مو قع ’غدیر خم“تھا جس نے منافقین کو مبہوت کر کے رکھ دیا تھا، ان کی کئی سالو ں سے چلی آرھی سازشوں کوچکنا چور کر دیااور ان کے شیطانی منصوبوں پرپانی پھیر دیا ۔( ۱۰ )

حضرت فا طمہ زھراءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سلسلہ میں فر ما تی ہیں :

”وَ اللهِ لَقَدْ عَقَدَ لَهُ یَوْ مَئِذٍ الْوِلَا ءَ لِیَقْطَعَ مِنْکُمْ بِذلِکَ الرَّجَا ءَ “ ( ۱۱ )

”پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر کے دن عقد ولایت کو حضرت علیعليه‌السلام کےلئے محکم و استوار فرما یا تا کہ اس طرح تمھا ری آرزوئیں اس سے منقطع ہو جا ئیں “

غدیر عرصہ دراز کےلئے اتمام حجت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دین اسلام کے قیامت تک باقی رہنے اور پوری دنیا میںمسلمانوں کے پھیل جا نے کے بعدقیا مت تک باقی رہنے والے اپنے جانشینوں (یعنی بارہ ائمہ معصومین علیھم السلام)کا اپنے ایک خطبہ میں تعارف کرا یا ۔

اس لئے اگر اس دن اکثر مسلمانوں نے اپنے ھمدرد پیغمبرکے کلام کوتسلیم نہ کیاا ور امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت کو قبول نہیں کیا لیکن مسلمانوں کی بعد میں آنے والی نسلوںکے اکثر افرادنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی وصی کی معرفت حا صل کرلی ۔یھی غدیر کا سب سے اہم اور بنیادی ہدف تھا ۔

اگر چہ منا فقین نے اپنے ارادوں کو عملی جا مہ پہنایا لیکن یہ غدیر کا ہی نور ہے کہ جس نے چودہ صدیا ں گذر جانے کے با وجود دنیا کی اس وسیع و عریض زمین پر تاریخ کے ہر دورمیں کروڑوں شیعوں اور اہل بیت علیھم السلام سے محبت رکھنے والوں کوباقی رکھا اور اسی طرح نور ولایت کودنیا کے مختلف مقامات پر روشن اورتابناک محفوظ رکھا ہے ۔

اسی طرح اگر عر صہ دراز تک مسلمانو ں کے گروہ نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جا نشینوں کے سا منے سر تسلیم خم نہ کیا اور نہیں کر تے ہیں لیکن شیعوں کی یہ بہت بڑی تعداد فقط علی بن ابی طالبعليه‌السلام اور ان کی نسل سے گیارہ فرزندوں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جا نشین سمجھتی ہے ۔

اس مقدمہ سے یہ بات ظاہر ہو تی ہے کہ خطبہ غدیر کچھ محدود گروہ اور خاص زمانہ کےلئے نہیں بیان کیا گیا تھا ،بلکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود یہ ارشاد فر مایا کہ حا ضرین غائبین کو ،شھر میں رہنے والے گاوں میں رہنے والوں کو اورباپ اپنی اولاد کوقیامت تک یہ خبر پہنچا تے رہیں اور سب اس پیغام کو پہنچا نے میں اپنی ذمہ داری پر عمل کریں ۔( ۱۲ )

جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں پر اپنی حجت تمام کر دی ،تو اب یہ صرف لو گو ں کے اوپر ہے کہ وہ چا ہے جنت کو اختیار کر یں یا جہنم کو ،اور ان کا ولایت علیعليه‌السلام کو قبول کر نا یا قبول نہ کرنا ایک الٰہی امتحان ہے ۔

اس سلسلہ میں امام علی رضا علیہ السلام فر ما تے ہیں :

(مَثَلُ الْمُومِنِیْنَ فِیْ قَبُوْلِهِمْ وِلَاءَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ عَلَیْهِ السَّلّا مُ فِیْ یَوْمِ غَدِیْرِخُمٍّ کَمَثَلِ الْمَلَا ئِکَةِ فِیْ سُجُوْدِهِمْ لِآدَمَ،وَمَثَلُ مَنْ اَبیٰ وِلَایَةَ اَمِیْرِالْمُو مِنِیْنَ یَوْمَ الْغَدِیْرِ مَثَلُ اِبْلِیْسَ )

”غدیر خم کے دن حضرت علیعليه‌السلام کی ولایت کو قبول کر نیوالے مو منین کی مثال حضرت آدم کو سجدہ کر نےوالے ملا ئکہ جیسی ہے ،اور ولایت امیر المو منینعليه‌السلام کا انکار کرنے والوں کی مثال ابلیس جیسی ہے ‘( ۱۳ )

اس مختصر سی بحث سے اسلامی معا شرے پر حکم فرما فضااور وہ حالات جن میں واقعہ غدیررونما ہوا اور وہ اھداف و مقاصدجوغدیرکے مد نظر تھے واضح ہو جا تے ہیں ۔

۲. خطبہ غدیر کی اہمیت کے پھلو

پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری تا ریخ بعثت میں صرف ایک حکم ایسا ہے جو اتنے تفصیلی مقد مات، ایک خاص مقام اور مسلمانوں کے جم غفیر میں ایک طولانی خطبہ کے ذیل میں بیان ہو ا ہے دیگر تمام احکام الٰہی مسجد النبی یا آپ کے بیت الشرف میں بیان ہو تے تھے اور اس کے بعد ان کی اطلاع سب کو دیدی جا تی تھی ، اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلا م کا یہ الٰہی حکم دوسرے تمام الٰہی احکام سے ممتاز اور اہم ہے ۔حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام فر ما تے ہیں :

لَمْ یُنَادِبِشَيء مِثْلَ مَانُوْدِیَ بِالْوِلَایَةِ یَوْمَ الْغَدِیْر

”غدیر کے دن ولایت کے مانند کسی حکم کا اعلان نہیں ہوا “

ہم ذیل میں فھر ست وار خطبہ غدیر کی اہمیت کے اسباب بیان کر رہے ہیں :

جغرافیائی اعتبار سے غدیرکی جگہ جحفہ میں اس مقام سے پہلے ہے جھاں سے تمام راستے الگ الگ ہوتے تھے اورتمام قبائل اپنے اپنے راستہ کی طرف جانے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے ۔اسی طرح اس گرم و ریگستانی علاقہ میں تین دن قیام کرنااور وقت کے لحاظ سے حجة الوداع کے بعد کا زمانہ اوریہ اس دن تک مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔

خطیب کی جگہ،مخاطبین یعنی حا جیوں کی خاص کیفیت وہ بھی اتمام حج کے بعداور واپسی کے وقت نیزمخاطبین کے سامنے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے نزدیک ہو نے کااعلان اس لئے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس خطبہ کے ستّر دن بعد اس دنیا سے رحلت فر ما گئے ۔

خدا وند عالم کا یہ فرمان ”اے پیغمبر اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ پر خدا وند عالم کی طرف سے نا زل ہوا ہے اگر آپ نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا رسالت کا کو ئی کام ہی انجام نہیں دیا “یعنی فرامین الٰہی میں سے کسی ایک فرمان کے لئے بھی ایسا حکم نہیں ہوا ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خوف اورمسلمانوں کے مستقبل کی خاطر ولایت اور امامت کے حکم کو جاری کر نے کےلئے خدا کاقطعی فیصلہ ، اس حکم الٰہی کو پہنچا نے کی خصوصیات میں سے ہے کہ پیغمبر کسی بھی حکم کو پہنچا نے کےلئے اس طرح فکرمند نہ ہو ئے ۔

خدا وند عالم کا دشمنوں کے شر سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری لینا اس پیغام اور اس اعلان کی خصوصیت ہے اور احکام الٰہی میں سے کسی کے لئے بھی ایسی ضما نت نہیں دی گئی ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غدیر خم میں لوگوں سے اقرار لینا ۔

اس دستور الٰہی کو بیان کر نے کےلئے خاص اسباب کا اہتمام، اتنا بڑا مجمع ،بیان کر نے کا خاص انداز اور منبر صرف اسی حکم الٰہی کےلئے تھا ۔خاص طور سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لوگوں کو الوداع کہنا جبکہ بیرونی دشمنوں کی طرف سے اب اسلام کونقصان پہنچانانا ممکن ہو گیا تھا۔

مسئلہ امامت صرف ایک پیغام اور ایک ہی خطبہ کی صورت میں نہیں پہنچایا گیا بلکہ خدا وند عالم کے حکم وفر مان اور عام مسلمانوں کی بیعت اور ان سے عہد کے ذریعہ سے عمل میںآیا ۔

وہ عظیم ا ور حساس مطالب جو ولایت کوبیان کر تے وقت خطبہ میںذکرکئے گئے ہیں ۔

خطبہ سے پہلے اور بعد واقع ہو نے والے خاص رسم و رسومات مانند بیعت ،عمامہ سحاب اور مبارکباد جو اس واقعہ کی خاص اہمیت پر دلالت کر تے ہیں ۔

خداوند عالم کا یہ خطاب ”آج میں نے تمھارا دین کا مل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں“جو اس دن تک کسی بھی مو قع پر نہیں فر مایا گیا ۔

ائمہ علیھم السلام کا پیغمبر کے خطبہ غدیر کو اپنی توجہ کا مر کز قرار دینا ،خاص طور پر حضرت امیرالمو منین اور حضرت زھرا علیھما السلام کا یہ فر مان ”پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر میں کسی کےلئے کو ئی عذر باقی نہیں چھو ڑا “(۱۴) نیز علماء کا ائمہ ہدیٰ علیھم السلام کی اتباع میں غدیر سے متعلق موضوعات کا تفصیل سے بیان کر نا کہ یھی ولایت و امامت کی بنیاد ہے ۔

تاریخی ،حدیثی ،کلا می اور ادبی اعتبار سے اس حدیث کی سند اور نقل کر نے کا اندازاسی طرح اس کلام کا لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جا ناجو روایات ولایت میں ممتاز اوربے مثال ہے محققین اس روایت کے تواتر کو ثابت کرچکے ہیں اور تمام مسلمان چا ہے وہ کسی بھی فرقہ اور مسلک کے ہوں اس حدیث کے صحیح ہو نے کااعتراف کرتے ہیں

خطبہ غدیر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بلند و بالا مقاصد

۱ ۔ اپنی تیئس سال کی زحمتوں کانتیجہ اخذکرنے کےلئے اپنا جا نشین معین کر نا جس کے ذریعہ اس راہ کوبرقرار رکہے گا۔

۲ ۔اسلام کو کفار و منافقین سے ہمیشہ کےلئے محفوظ کرنے کی خاطر ایسے جا نشینوں کا معین فر مانا جو اس ذمہ داری کو نبھا سکیں ۔

۳ ۔ خلیفہ معین کرنے کےلئے قانونی طور پر اقدام کرنا جوھرقوم کے قوانین کے اعتبار سے ہمیشہ رائج رھاہے اور تاریخ میںبطورسندثابت ہے ۔

۴ ۔اپنے تیئس سالہ پروگرام میں گذشتہ اور مسلمانوں کے ماضی اورحال کا بیان کرنا۔

۵ ۔دنیا کے اختتام تک مسلمانوں کے مستقبل کا راستہ ھموار کر نا ۔

۶ ۔لوگوں پر حجت تمام کرناجو انبیاء علیھم السلام کی بعثت کاایک اصلی مقصد ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عملی اقدام کا نتیجہ جو اہل بیت علیھم السلام کے حق کو پہچاننے والوںاور اس کا اعتراف کر نے والوں کی کثرت، اور تاریخ میں اربوں شیعوں کا وجود خاص طور سے اس دور میں اس کی اہمیت کا بہترین گواہ ہے ۔

____________________

[۱] بحا ر الانوار جلد :۱۸،۱۹،۲۰۔

[۲] بحا ر الانوار جلد :۱۸ صفحہ ۱۴۸۔ ۲۴۳ ، جلد ۱۹ صفحہ ۱۔۲۷۔

[۳] بحا ر الانوار جلد ۱۹ صفحہ ۱۰۴ ۔۱۳۳ ، جلد ۲۰ ،جلد ۲۱ صفحہ ۱ ۔۹۰۔

[۴] بحا ر الانوار :جلد۲۱ صفحہ ۹۱۔۱۸۵۔

[۵] بحا ر الانوار :جلد ۲۱ صفحہ ۱۸۵۔۳۷۸۔

[۶] بحا رالانوار :جلد ۲۲۔اسی طرح منا فقین سے متعلق آیات ،قرآن کریم میں ملا حظہ فر ما ئیں ۔

[۷] اس سلسلہ میں سورہ آل عمران ،نساء ،ما ئدہ، انفال ، تو بہ، عنکبوت ، احزاب ،محمد ، فتح ، مجا دلہ، حدید ، منافقین و حشر میں رجوع کریں۔

[۸] منافقوں کی سازشوں کی تفصیل اس کتاب کے تیسرے حصہ میں بیان کی جا ئے گی ۔

[۹] فیض الغدیر :صفحہ ۳۹۴۔

[۱۰] اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے حصہ میں رجوع فر ما ئیں ۔

[۱۱] عوالم : جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۸۔

[۱۲] اس سلسلہ میں خطبہ غدیر کے گیا رہویں حصہ میں رجوع کیجئے ۔

[۱۳] عوالم : جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۴ ۔

[۱۴] بحا ر الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۱۸۶۔عوالم جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۹۔

عبادات (وضو)

وضو

242 ۔وضو میں واجب ہے کہ چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے جائیں اور سر کے اگلے حصے اور دونوں پاوں کے سامنے والے حصے کا مسح کیا جائے۔

243 ۔ چہرے کو لمبائی میں پیشانی کے اوپر اس جگہ سے لے کر جہاں سر کے بال اگتے ہیں ٹھوڑی کے آخری کنارے تک دھونا ضروری ہے اور چوڑائی میں بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے پھیلاو میں جتنی جگہ آجائے اسے دھونا ضروری ہے اگر اس مقدار کا ذرا سا حصہ بھی چھوٹ جائے تو وضو باطل ہے۔اور اگر انسان کو یہ یقین نہ ہو کہ ضروری حصہ پورا ڈھل گیا ہے تو یقین کرنے کے لئے تھوڑا تھوڑا ادھر ادھر سے دھونا بھی ضروری ہے۔

244 ۔ اگر کسی شخص کے ہاتھ یا چہرہ عام لوگوں کی بہ نسبت بڑے یا چھوٹے ہوں تو اسے دیکھنا چاہئے کہ عام لوگ کہاں تک اپنا چہرہ دھوتے ہیں اور پھر وہ بھی اتنا ہی دھو ڈالے۔ علاوہ ازیں اگر اس کی پیشانی پر بال اگے ہوئے ہوں یا سر کے اگلے حصے پر بال نہ ہوں تو اسے چاہئے کہ عام اندازے کے مطابق پیشانی دھو ڈالے۔

245 ۔ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ کسی شخص کی بھوں، آنکھ کے گوشوں اور ہونٹوں پر میل یا کوئی دوسری چیز ہے۔ جو پانی کے ان تک پہنچنے میں مانع ہے اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظروں میں درست ہو تو اسے وضو سے پہلے تحقیق کر لینی چاہئے اور اگر کوئی چیز ہو تو اسے دور کرنا چاہئے۔

246 ۔ اگر چہرے کی جلد بالوں کے نیچے سے نظر آتی ہو تو پانی جلد تک پہنچانا ضروری ہے اور اگر نظر نہ آتی ہو تو بالوں کا دھونا کافی ہے اور ان کے نیچے تک پانی پہنچانا ضروری نہیں۔

247 ۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ آیا اس کے چہرے کی جلد بالوں کے نیچے سے نظر آتی ہے یا نہیں تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ بالوں کو دھوئے اور پانی جلد تک بھی پہنچائے۔

248 ۔ ناک کے اندرونی حصے اور ہونٹوں اور آنکھوں کے ان حصوں کا جو بند کرنے پر نظر نہیں آتے دھونا واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی انسان کو یہ یقین نہ ہو کہ جن جگہوں کا دھونا ضروری ہے ان میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی تو واجب ہے کہ ان اعضاء کا کچھ اضافی حصہ بھی دھو لے تاکہ اسے یقین ہو جائے اور جس شخص کو اس (مذکورہ) بات کا علم نہ ہو اگر اس نے جو وضو کیا ہے اس میں ضروری حصے دھونے یا نہ دھونے کے بارے میں نہ جانتا ہو تو اس وضو سے اس نے جو نماز پڑھی ہے وہ صحیح ہے اور بعد کی نمازوں کے لئے وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔

249 ۔ احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ ہاتھوں اور اسی طرح چہرے کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے۔ اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھوئے جائیں تو وضو باطل ہوگا۔

250 ۔ اگر ہتھیلی پانی سے تر کر کے چہرے اور ہاتھوں پر پھیری جائے اور ہاتھ میں اتنی تری ہو کہ اسے پھیرنے سے پورے چہرے اور ہاتھوں پر پانی پہنچ جائے تو کافی ہے۔ ان پر پانی کا بہنا ضروری نہیں۔

251 ۔ چہرہ دھونے کے بعد پہلے دایاں ہاتھ اور پھر بایاں ہاتھ کہنی سے انگلیوں کے سروں تک دھونا چاہئے۔

252 ۔ اگر انسان کو یقین نہ ہو کہ کہنی کو پوری طرح دھولیا ہے تو یقین کرنے کے لئے کہنی سے اوپر کا کچھ حصہ دھونا بھی ضروری ہے۔

253 ۔ جس شخص نے چہرہ دھونے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو کلائی کے جوڑ تک دھویا ہو اسے چاہئے کہ وضو کرتے وقت انگلیوں کے سروں تک دھوئے۔ اگر وہ صرف کلائی کے جوڑ تک دھوئے گا تو اس کا وضو باطل ہوگا۔

254 ۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کا ایک دفعہ دھونا واجب، دوسری دفعہ دھونا مستحب اور تیسری دفعہ یا اس سے زیادہ بار دھونا حرام ہے۔ ایک دفعہ دھونا اس وقت مکمل ہوگا جب وضو کی نیت سے اتنا پانی چہرے یا ہاتھ پر ڈالے کہ وہ پانی پورے چہرے یا ہاتھ پر پہنچ جائے اور احتیاطاً کوئی جگہ باقی نہ رہے لہذا اگر پہلی دفعہ دھونے کی نیت سے دس بار بھی چہرے پر پانی ڈالے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یعنی جب تک مثلاً وضو کرنے یا چہرہ دھونے کی نیت نہ کرنے پہلی بار دھونا شمار نہیں ہوگا۔ لہذا اگر چاہے تو چند بار چہرہ کو دھولے اور آخری بار چہرہ دھوتے وقت وضو کی نیت کر سکتا ہے لیکن دوسری دفعہ دھونے میں نیت کا معتبر ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اگرچہ وضو کی نیت سے نہ بھی ہو ایک دفعہ دھونے کے بعد ایک بار سے زائد چہرے یا ہاتھوں کو نہ دھوئے۔

255 ۔ دونوں ہاتھ دھونے کے بعد سر کے اگلے حصے کا مسح وضو کے پانی کی اس تری سے کرنا چاہئے جو ہاتھوں کو لگی رہ گئی ہو۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مسح دائیں ہاتھ سے کیا جائے جو اوپر سے نیچے کی طرف ہو۔

256 ۔ سر کے چار حصوں میں سے پیشانی سے ملا ہوا ایک حصہ وہ مقام ہے جہاں مسح کرنا چاہئے۔ اس حصے میں جہاں بھی اور جس اندازے سے بھی مسح کریں کافی ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ طول میں ایک انگلی کی لمبائی کے لگ بھگ اور عرض میں تین ملی ہوئی انگلیوں کے لگ بھگ جگہ پر مسح کیا جائے۔

257 ۔ یہ ضروری نہیں کہ سر کا مسح جلد پر کیا جائے بلکہ سر کے اگلے حصے کے بالوں پر کرنا بھی درست ہے لیکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے لمبے ہوں کہ مثلاً اگر کنگھا کرے تو چہرے پر آگریں یا سر کے کسی دوسرے حصے تک جا پہنچیں تو ضروری ہے کہ وہ بالوں کی جڑوں پر یا مانگ نکال کر سر کی جلد پر مسح کرے۔ اور اگر وہ چہرے پر آگرنے والے یا سر کے دوسرے حصوں تک پہنچنے والے بالوں کو آگے کی طرف جمع کر کے ان پر مسح کرے گا یا سر کے دوسرے حصوں کے بالوں پر جو آگے کو بڑھ آئے ہوں مسح کرے گا تو ایسا مسح باطل ہے۔

258 ۔ سر کے مسح کے بعد وضو کے پانی کی اس تری سے جو ہاتھوں میں باقی ہو پاوں کی کسی ایک انگلی سے لے کر پاوں کے جوڑ تک مسح کرنا ضروری ہے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ دائیں پیر کا دائیں ہاتھ سے اور بائیں پیر کا بائیں ہاتھ سے مسح کیا جائے۔

259 ۔ پاوں پر مسح کا عرض جتنا بھی ہو کافی ہے لیکن بہتر ہے کہ تین جڑی ہوئی انگلیوں کی چوڑائی کے برابر ہو اور اس سے بھی بہتریہ ہے کہ پاوں کے پورے اوپری حصے کا مسح پوری ہتھیلی سے کیا جائے۔

260 ۔ احتیاط یہ ہے کہ پاوں کا مسح کرتے وقت ہاتھ انگلیوں کے سروں پر رکھے اور پھر پاوں کے ابھار کی جانب کھینچے یا ہاتھ پاوں کے جوڑ پر رکھ کر انگلیوں کے سروں کی طرف کھینچے۔ یہ درست نہیں کہ پورا ہاتھ پاوں پر رکھے اور تھوڑا سا کھینچے۔

261 ۔ سر اور پاوں کا مسح کرنے وقت ہاتھ پر کھینچنا ضروری ہے۔اور اگر ہاتھ کو ساکن رکھے اور سر یا پاوں کو اس پر چلائے تو باطل ہے لیکن ہاتھ کھینچنے کے وقت سر اور پاوں معمولی حرکت کریں تو کوئی حرن نہیں۔

262 ۔ جس جگہ کا مسح کرنا ہو وہ خشک ہونی چاہئے۔ اگر وہ اس قدر تر ہو کہ ہتھیلی کی تری اس پر اثر نہ کرے تو مسح باطل ہے لیکن اگر اس پر نمی ہو یا تری اتنی کم ہو کہ وہ ہتھیلی کی تری سے ختم ہو جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔

263 ۔ اگر مسح کرنے کے لئے ہتھیلی پر تری باقی نہ رہی ہو تو اسے دوسرے پانی سے تر نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسی صورت میں اپنی ڈاڑھی کی تری لے کر اس سے مسح کرنا چاہئے۔ اور ڈاڑھی کے علاوہ اور کسی جگہ سے تری لے کر مسح کرنا محل اشکال ہے۔

264 ۔ اگر ہتھیلی کی تری صرف سر کے مسح کے لئے کافی ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ سر کا مسح اس تری سے کیا جائے اور پاوں کے مسح کے لئے اپنی ڈاڑھی سے تری حاصل کرے۔

265 ۔ موزے اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے۔ ہاں اگر سخت سردی کی وجہ سے یا چور یا درندے وغیرہ کے خوف سے جوتے یا موزے نہ اتارے جاسکیں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ موزے اور جوتے پر مسح کرے اور تیمم بھی کرے۔ اور تقیہ کی صورت میں موزے اور جوتے پر مسح کرنا کافی ہے۔

266 ۔ اگر پاوں کا اوپر والا حصہ نجس ہو اور مسح کرنے کے لئے اسے دھویا بھی نہ جاسکتا ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔

ارتماسی وضو

267 ۔ ارتماسی وضو یہ ہے کہ انسان چہرے اور ہاتھوں کو وضو کی نیت سے پانی میں ڈبو دے۔ بظاہر ارتماسی طریقے سے دھلے ہوئے ہاتھ کی تری سے مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایسا کرنا خلاف احتیاط ہے۔

268 ۔ ارتماسی وضو میں بھی چہرہ اور ہاتھ اوپر سے نیچے کی طرف دھونے چاہئیں۔ لہذا جب کوئی شخص وضو کی نیت سے چہرہ اور ہاتھ پانی میں ڈبوئے تو ضروری ہے کہ چہرہ پیشانی کی طرف سے اور ہاتھ کہنیوں کی طرف سے ڈبوئے۔

229 ۔ اگر کوئی شخص بعض اعضاء کا وضو ارتماسی طریقے سے اور بعض کا غیر ارتماسی (یعنی ترتیبی) طریقے سے کرے تو کوئی حرج نہیں۔

دعائیں جن کا وضو کرتے وقت پڑھنا مستحب ہے

270 ۔ جو شخص وضو کرنے لگے اس کے لئے مستحب ہے کہ جب اس کی نظر پانی پر پڑے تو یہ دعا پڑھے:۔

بِسِم اللہ وَ بِاللہ وَالحَمدُ للہ الّذی حَعَلَ المَآءَ طَھُوراوّلم یَجعَلہ نجسنا۔

جب وضو سے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے تو یہ دعا پڑھے۔ اَللّھُمَّ اجعَلنی مِنَ التَّوَّابِینَ وَاجعَلنِی مِنَ المُتَھِرینَ۔

کُلّی کرنے وقت یہ دعا پڑھے۔ اَللّھُمَّ لَقِّنِّی حُجَّتِی یَومَ اَلقاکَ وَاَطلِق لِسَانیِ بِذِکرِکَ نام میں پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے:اَللّھُمَّ لاَ تُحَرِّم عَلَیَّ رِیحَ الجَنَّۃِ واجعَلنِی مِمَّن یَّشُمُّ رِیحَھَا وَرَوحَھَا وَ طِیبَھَا۔

چہرہ دھوتے یا دُعا پڑھے: اَللّٰھُمَّ بَیِض وَجھِی یَومَ تَسوَدّ الوُجُوہ وَلَا تُسَوِدوَلاَ تُسَوِد وَجھِی یَومَ تَبیَضُّ الوُجُوہ۔

دایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے۔ اَللّٰھُمَّ اَعطِنِی کِتَابیِ بِیَمِیِنی وَالخُلدَفِی الجِنَانِ بِیَسَارِی وَ حَاسِبنِی حِسَاباً یَّسِیراً۔

بایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے۔ اَللّٰھُمَّ لاَ تُعطِنِی کِتَابِی بِشِمَالِی وَلاَ مِن وَّرَآ و ظَھِری وَلاَ تَجعَلھَا مَغلُولَۃً اِلٰی عُنُقِی وَاَعُوذُ بَکَ مِن مُّقَطَّعَاتِ النِیّراَنِ۔

سر کا مسح کرتے وقت یہ دُعا پڑھے۔ اَللّھُمَّ غَشِنِی عَلَی الصِراطِ یَومَ تَزِل فِیہ الاَقدَامُ وَاجعَل سَعیِی فِی مَا یُرضِیکَ عَنِّی یَاذَالجَلَالِ وَالِاکرَامِ۔

وضو صحیح ہونے کی شرائط

وضو کا صحیح ہونے کی چند شرائط ہیں۔

(پہلی شرط) وضو کا پانی پاک ہو۔ ایک قول کی بنا پر وضو کا پانی ایسی چیزوں مثلاً حلال گوشت حیوان کے پیشاب، پاک مُردار اور زخم کی ریم سے آلودہ نہ ہو جن سے انسان کو گھن آتی ہو اگرچہ شرعی لحاظ سے (ایسا پانی) پاک ہے اور یہ قول احتیاط کی بنا پر ہے۔

(دوسری شرط) پانی مطلق ہو۔

271 ۔ نجس یا مضاف پانی سے وضو کرنا باطل سے خواہ وضو کرنے والا شخص اس کے نجس یا مضاف ہونے کے بارے میں علم نہ رکھتا ہو یا بھول گیا ہو کہ یہ نجس یا مضاف پانی ہے۔ لہذا اگر وہ ایسے پانی سے وضو کرکے نماز پڑھ چکا ہو تو صحیح وضو کرکے دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔

272 ۔ اگر ایک شخص کے پاس مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ اور کوئی پانی وضو کے لئے نہ ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کر لے لیکن اگر وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کا انتظار کرے یا کسی طریقے سے اس پانی کو صاف کرے اور وضو کرے۔

(تیسری شرط) وضو کا پانی مباح ہو۔

273 ۔ ایسے پانی سے وضو کرنا جو غصب کیا گیا ہو یا جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ اس کا مالک اس کے استعمال راضی ہے یا نہیں حرام اور باطل ہے۔ علاوہ ازیں اگر چہرے اور ہاتھوں سے وضو کا پانی غصب کی ہوئی جگہ پر گرتا ہو یا وہ جگہ جس میں وضو کر رہا ہے غصبی ہے اور وضو کرنے کے لئے کوئی اور جگہ بھی نہ ہو تو متعلقہ شخص کا فریضہ تیمم ہے اور اگر کسی دوسری جگہ وضو کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دوسری جگہ وضو کرے۔ لیکن اگر دونوں صورتوں میں گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے اسی جگہ وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

274 ۔ کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ آیا وہ تمام لوگوں کے لئے وقت کیا گیا ہے یا صرف مدرسے سے طلباء کے لئے وقف ہے اور صورت یہ ہو کہ لوگ عموماً اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔

275 ۔ اگر کوئی شخص ایک مسجد میں نماز پڑھنا نہ چاہتا ہو اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیا اس مسجد کا حوض تمام لوگوں کے لئے وقف ہے یا صرف ان لوگوں کے لئے جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو اس کے لئے اس حوض سے وضو کرنا درست نہیں لیکن اگر عموماً وہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جو اس مسجد میں نماز نہ پڑھنا چاہتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو تو وہ شخص بھی اس حوض سے وضو کر سکتا ہے۔

276 ۔ سرائے، مسافرخانوں اور ایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کا جو ان میں مقیم نہ ہوں، وضو کرنا اسی صورت میں درست ہے جب عموماً ایسے لوگ بھی جو وہاں مقیم نہ ہوں اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔

277 ۔ بڑی نہروں سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ انسان نہ جانتا ہو کہ ان کا مالک راضی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر ان نہروں کا مالک وضو کرنے سے منع کرے یا معلوم ہو کہ وہ ان سے وضو کرنے پر راضی نہیں یا ان کا مالک نابالغ یا پاگل ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان نہروں کے پانی سے وضو نہ کرے۔

278 ۔ اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہے۔ لیکن اگر کسی شخص نے خود پانی غصب کیا ہو اور بعد میں بھول جائے کہ یہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہونے میں اشکال ہے۔

(چوتھی شرط) وضو کا برتن مباح ہو۔

(پانچویں شرط) وضو کا برتن احتیاط واجب کی بنا پر سونے یا چاندی کا بنا ہوا نہ ہو۔ ان دو شرطوں کی تفصیل بعد والے مسئلے میں آرہی ہے۔

279 ۔ اگر وضو کا پانی غصبی یا سونے یا چاندی کے برتن میں ہو اور اس شخص کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی پانی نہ ہو تو اگر وہ اس پانی کو شرعی طریقے سے دوسرے برتن میں انڈیل سکتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے کسی دوسرے برتن میں انڈیل لے اور پھر اس سے وضو کرے اور اگر ایسا کرنا آسان نہ ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔ اور اگر اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو تو ضروری ہے کہ اس سے وضو کرے۔ اور اگر ان دونوں صورتوں میں وہ صحیح طریقے پر عمل نہ کرتے ہوئے اس پانی سے جو غصبی یا سونے یا چاندی کے برتن میں ہے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

280 ۔ اگر کسی حوض میں مثال کے طور پر غصب کی ہوئی ایک اینٹ یا ایک پتھر لگا ہو اور عرف عام میں اس حوض میں سے پانی نکالنا اس اینٹ یا پتھر پر تصرف نہ سمجھا جائے تو (پانی لینے میں) کوئی حرج نہیں لیکن اگر تصرف سمجھا جائے تو پانی کا نکالنا حرام لیکن اس سے وضو کرنا صحیح ہے۔

281 ۔ اگر ائمۃ طاہرین علیہم السلام یا ان کی اولاد کے مقبرے کے صحن میں جو پہلے قبرستان تھا کوئی حوض یا نہر کھودی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ صحن کی زمین قبرستان کے لئے وقف ہو چکی ہے تو اس حوض یا نہر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(چھٹی شرط) وضو کے اعضاء دھوتے وقت اور مسح کرتے وقت پاک ہوں۔

282 ۔ اگر وضو مکمل ہونے سے پہلے وہ مقام نجس ہو جائے جسے دھویا جا چکا ہے یا جس کا مسح کیا جاچکا ہے تو وضو صحیح ہے۔

283 ۔ اگر اعضائے وضو کے سوا بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو وضو صحیح ہے لیکن اگر پاخانے یا پیشاب کے مقام کو پاک نہ کیا ہو تو پھر احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے انہیں پاک کرے اور پھر وضو کرے۔

284 ۔ اگر وضو کے اعضاء میں سے کوئی عضو نجس ہو اور وضو کرنے کے بعد متعلقہ شخص کو شک گزرے کہ آیا وضو کرنے سے پہلے اس عضو کو دھویا تھا یا نہیں تو وضو صحیح ہے لیکن اس نجس مقام کو دھو لینا ضروری ہے۔

285 ۔ اگر کسی کے چہرے یا ہاتھوں پر کوئی ایسی خراش یا زخم ہو جس سے خون نہ رکتا ہو اور پانی اس کے لئے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کے صحیح سالم اجزاء کو ترتیب وار دھونے کے بعد زخم یا خراش والے حصے کو کُر برابر پانی یا جاری پانی میں ڈبو دے اور اسے اس قدر دبائے کہ خون بند ہو جائے اور پانی کے اندر ہی اپنی انگلی زخم یا خراش پر رکھ کر اوپر سے نیچے کی طرف کھینچے تاکہ اس (خراش یا زخم) پر پانی جاری ہو جائے۔ اس طرح اس کا وضو صحیح ہو جائے گا۔

(ساتویں شرط) وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے وقت کافی ہو۔

286 ۔ اگر وقت اتنا تنگ ہو کہ متعلقہ شخص وضو کرے تو ساری کی ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ تیمم کرلے لیکن اگر تیمم اور وضو کے لئے تقریباً یکساں وقت درکار ہو تو پھر وضو کرے۔

287 ۔ جس شخص کے لئے نماز کا وقت تنگ ہونے کے باعث تیمم کرنا ضروری ہو اگر وہ قصد قربت کی نیت سے یا کسی مستحب کام مثلاً قرآن مجید پڑھنے کے لئے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے۔ اور اگر اسی نماز کو پڑھنے کے لئے وضو کرے تو بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اسے قصد قُربت حاصل نہیں ہوگا۔

(آٹھویں شرط) وضو بقصد قربت یعنی اللہ تعالی کی رضا کے لئے کیاجائے۔ اگر اپنے آپ کو ٹھنڈک پہنچانے یا کسی اور نیت سے کیا جائے تو وضو باطل ہے۔

288 ۔ وضو کی نیت زبان سے یا دل میں کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر ایک شخص وضو کے تمام افعال اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے بجا لائے تو کافی ہے۔

(نویں شرط) وضو اس ترتیب سے کیا جائے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے یعنی پہلے چہرہ اور اس کے بعد دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دھویا جائے اس کے بعد سر کا اور پھر پاوں کا مسح کیا جائے اور احتیاط مستحب یہ ہےکہ دونوں پاوں کا ایک ساتھ مسح نہ کیا جائے بلکہ بائیں پاوں کا مسح دائیں پاوں کے بعد کیا جائے۔

(دسویں شرط) وضو کے افعال سر انجام دینے میں فاصلہ نہ ہو۔

289 ۔ اگر وضو کے افعال کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عرف عام میں متواتر دھونا نہ کہلائے تو وضو باطل ہے لیکن اگر کسی شخص کو کوئی عذر پیش آجائے مثلاً یہ کہ بھول جائے یا پانی ختم ہو جائے تو اس صورت میں بلافاصلہ دھونے کی شرط معتبر نہیں ہے۔ بلکہ وضو کرنے والا شخص جس وقت چاہے کسی عضو کو دھولے یا اس کا مسح کرلے تو اس اثنا میں اگر ان مقامات کی تری خشک ہو جائے۔ جنہیں وہ پہلے دھوچکا ہو یا جن کا مسح کر چکا ہو تو وضو باطل ہوگا لیکن اگر جس عضو کو دھونا ہے یا مسح کرنا ہے صرف اس سے پہلے دھوئے ہوئے یا مسح کئے ہوئے عضو کی تری خشک ہو گئی ہو مثلاً جب بایاں ہاتھ دھوتے وقت دائیں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو لیکن چہرہ تر ہو تو وضو صحیح ہے۔

290 ۔ اگر کوئی شخص وضو کے افعال بلا فاصلہ انجام دے لیکن گرم ہوا یا بدن کی تپ یا کسی اور ایسی ہی وجہ سے پہلی جگہوں کی تری (یعنی ان جگہوں کی تری جنہیں وہ پہلے دھو چکا ہو یا جن کا مسح کر چکا ہو) خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

291 ۔ وضو کے دوران چلنے پھرنے میں کوئی حرن نہیں لہذا اگر کوئی شخص چہرہ اور ہاتھ دھونے کے بعد چند قدم چلے اور پھر سر اور پاوں کا مسح کرے تو اس کا وضو و صحیح ہے۔

(گیارہویں شرط) انسان خود اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے اور پھر سر اور پاوں کا مسح کرے۔ اگر کوئی دوسرا اسے وضو کرائے یا اس کے چہرے یا ہاتھوں پر پانی ڈالنے یا سر اور پاوں کا مسح کرنے میں اس کی مدد کرے تو اس کا وضو باطل ہے۔

292 ۔ اگر کوئی کوئی شخص خود وضو نہ کر سکتا ہو تو کسی دوسرے شخص سے مدد لے لے اگرچہ دھونے اور مسح کرنے میں حتی الامکان دونوں کی شرکت ضروری ہے اور اگر وہ شخص اجرت مانگے تو اگر اس کی ادائیگی کر سکتا ہو اور ایسا کرنا اسکے لئے مالی طور پر نقصان دہ نہ ہو تو اجرت ادا کرنا ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ وضو کی نیت خود کرے اور اپنے ہاتھ سے مسح کرے اور اگر خود دوسرے کے ساتھ شرکت نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے جو اسے وضو کروائے یا اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں وضو کی نیت کریں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا نائب اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی مسح کی جگہوں پر پھیرے ار اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نائب اس کے ہاتھ سے تری حاصل کرے اور اس تری سے اس کے سر اور پاوں پر مسح کرے۔

293 ۔ وضو کے جا افعال بھی انسان بذات خود انجام دے سکتا ہو ضروری ہے کہ انھیں انجام دینے کے لئے دوسروں کی مدد نہ لے۔

(بارہویں شرط) وضو کرنے والے کے لئے پانی کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

294 ۔ جس شخص کو خوف ہو کہ وضو کرنے سے بیمار ہو جائے گا یا اس پانی سے وضو کرے گا تو پیاسارہ جائے گا اس کا فریضہ وضو نہیں ہے۔ اور اگر اسے علم نہ ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے اور وہ وضو کر لے اور اسےوضو کرنے سے نقصان پہنچے تو اس کا وضو باطل ہے۔

295 ۔ اگر چہرے اور ہاتھوں کو اتنے کم پانی سے دھونا جس سے وضو صحیح ہو جاتا ہو ضرر رساں نہ ہو اور اس سے زیادہ ضرر رساں ہو تو ضروری ہے کہ کم مقدار سے ہی وضو کرے۔

(تیرہویں شرط) وضو کے اعضاء تک پانی پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

296 ۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء پر کوئی چیز لگی ہوئی ہے لیکن اس بارے میں اسے شک ہو کہ آیا وہ چیز پانی کے ان اعضاء تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو اس چیز کو ہٹا دے یا پانی اس کے نیچے تک پہنچائے۔

297 ۔ اگر نانخن کے نیچے میل ہو تو وضو درست ہے لیکن اگر ناخن کا ہونا جائے اور اس میل کی وجہ سے پانی کھال تک نہ پہنچے تو وضو کے لئے اس میل کا دور کرنا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اگر ناخن معمول سے زیادہ بڑھ جائیں تو جتنا حصہ معمول سے زیادہ بڑھا ہوا ہو اس کے نیچے سے میل نکالنا ضروری ہے۔

298 ۔ اگر کسی شخص کے چہرے، ہاتھوں، سر کے اگلے حصے یا پاوں کے اوپر والے حصے پر جل جانے سے یا کسی اور وجہ سے ورم ہو جائے تو اسے دھو لینا اور اس پر مسح کر لینا کافی ہے اور اگر اس میں سوراخ ہو جائے تو پانی جلد کے نیچے پہنچانا ضروری نہیں بلکہ اگر جلد کا ایک حصہ اکھڑ جائے تب بھی یہ ضروری نہیں کہ جو حصہ نہیں اکھڑا اس کے نیچے تک پانی پہنچایا جائے۔ لیکن جب اکھڑی ہوئی جلد کبھی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبھی اوپر اٹھ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ یا تو اسے کاٹ دے یا اس کے نیچے پانی پہنچائے۔

299 ۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء سے کوئی چیز چپکی ہوئی ہے یا نہیں اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظر میں بھی درست ہو مثلاً گارے سے کوئی کام کرنے کے بعد شک ہو کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا رہ گیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ تحقیق کر لے یا ہاتھ کو اتنا ملے کہ اطمینان ہو جائے کہ اگر اس پر گارا لگا رہ گیا تھا تو دور ہو گیا ہے یا پانی اس کے نیچے پہنچ گیا ہے۔

300 ۔ جس جگہ کو دھونا ہو یا جس کا مسح کرنا ہو اگر اس پر میل ہو لیکن وہ میل پانی کے جلد تک پہنچے میں رکاوٹ نہ ڈالے تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر پلستر وغیرہ کا کام کرنے کے بعد سفیدی ہاتھ پر لگی رہ جائے جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے نہ روکے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر شک ہو کہ ان چیزوں کی موجودگی پانی کے جلد تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو انہیں دور کرنا ضروری ہے۔

301 ۔اگر کوئی شخص وضو کرنے سے پہلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی چیز موجود ہے جو ان تک پانی پہنچنے میں مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرے کہ وضو کرتے وقت پانی ان اعضاء تک پہنچایا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔

302 ۔ اگر وضو کے بعض اعضاء میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو جس کے نیچے پانی کبھی تو خود بخود چلا جاتا ہو اور کبھی نہ پہنچتا ہو اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نیچے پہنچا ہے یا نہیں جب کہ وہ جانتا ہو کہ وضو کے وقت وہ اس رکاوٹ کے نیچے پانی پہنچنے کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

303 ۔ اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد وضو کے اعضاء پر کوئی ایسی چیز دیکھے جو پانی کے بدن تک پہنچنے میں مانع ہو اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وضو کے وقت یہ چیز موجود تھی یا بعد میں پیدا ہوئی تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت وہ اس رکاوٹ کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

304 ۔ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد شک ہو کہ جو چیز پانی کے پہنچنے میں مانع ہے وضو کے اعضاء پر تھی یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔

وضو کے احکام

305 ۔ اگر کوئی شخص وضو کے افعال اور شرائط مثلاً پانی کے پاک ہونے یا غصبی نہ ہونے کے بارے میں بہت زیادہ شک کرے تو اسے چاہئے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

306 ۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے یا نہیں تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا وضو باقی ہے لیکن اگر اس نے پیشاب کرنے کے بعد استبراء کئے بغیر وضو کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ یہ جانتا ہو کہ پیشاب ہے یا کوئی اور چیز تو اس کا وضو باطل ہے۔

307 ۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس نے وضو کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ وضو کرے۔

308 ۔ جس شخص کو معلوم ہو کہ اس نے وضو کیا ہے اور اس سے حدث بھی واقع ہو گیا ہے مثلاً اس نے پیشاب کیا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کونسی بات پہلے واقع ہوئی ہے اگر یہ صورت نماز سے پہلے پیش آئے تو اسے چاہئے کہ وضو کرے اور اگر نماز کے دوران پیش آئے تو نماز توڑ کر وضو کرنا ضروری ہے اور اگر نماز کے بعد پیش آئے تو جو نماز وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے البتہ دوسری نمازوں کے لئے نیا وضو کرنا ضروری ہے۔

309 ۔ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد یا وضو کے دوران یقین ہو جائے کہ اس نے بعض جگہیں نہیں دھوئیں یا ان کا مسح نہیں کیا اور جن اعضاء کو پہلے دھویا ہو یا ان کا مسح کیا ہو ان کی تری زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے خشک ہو چکی ہو تو اسے چاہئے کہ دوبارہ وضو کرے لیکن اگر وہ تری خشک نہ ہوئی ہو یا ہوا کی گرمی یا کیس اور ایسی وجہ سے خشک ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ جن جگہ وں ک ے بار ے م یں بھ ول گ یا ہ و ان ہیں اور ان کے بعد آن ے وال ی جگہ وں کو د ھ وئ ے یا ان کا مسح کرے اور اگر وضو ک ے دوران کس ی عضو کے د ھ ون ے یا مسح کرنے ک ے بار ے م یں شک کرے تو اسی حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔

310 ۔ اگر کس ی شخص کو نماز پڑھ ن ے ک ے بعد شک ہ و ک ہ اس ن ے وضو ک یا تھ ا یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے ل یکن آئندہ نمازوں ک ے لئ ے وضو کرنا ضرور ی ہے۔

311 ۔ اگر کس ی شخص کو نماز کے دوران شک ہ و ک ہ آ یا اس نے وضو ک یا تھ ا یا نہیں تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور ضرور ی ہے ک ہ و ہ وضو کر ے اور نماز دوبارہ پ ڑھے۔

312 ۔ اگر کوئ ی شخص نماز کے بعد یہ سمجھے ک ہ اس کا وضو باطل ہ وگ یا تھ ا ل یکن شک ہ و ک ہ اس کا وضو نماز س ے پ ہ ل ے باطل ہ وا ت ھ ا یا بعد میں تو جو نماز پڑھ چکا ہے و ہ صح یح ہے۔

313 ۔ اگر کوئ ی شخص ایسے مرض میں مبتلا ہ و ک ہ اس ے پ یشاب کے قطر ے گرت ے ر ہ ت ے ہ وں یا پاخانہ روکن ے پر قادر ن ہ ہ و تو اگر اس ے یقین ہ و ک ہ نماز ک ے اول وقت س ے ل ے کر آخر وقت تک اس ے اتنا وقف ہ مل جائ ے گا ک ہ وضو کر ک ے نماز پ ڑھ سک ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس وقف ے ک ے دوران نماز پ ڑھ لے اور اگر اسے صرف اتن ی مہ لت مل ے جو نماز ک ے واجبات ادا کرن ے ک ے لئ ے کاف ی ہ و ت و اس دوران صرف نماز کے واجبات بجا لانا اور مستحب افعال مثلاً اذان، اقامت اور قنوت کو ترک کر د ینا ضروری ہے۔

314 ۔ اگر کس ی شخص کو (بیماری کی وجہ س ے ) وضو کرک ے نماز کا کچ ھ حص ہ پ ڑھ ن ے ک ی مہ لت ملت ی ہ و اور نماز ک ے دوران ا یک دفعہ یا چند دفعہ اس کا پ یشاب یا پاخانہ خارج ہ وتا ہ و تو احت یاط لازم یہ ہے ک ہ اس م ہ لت ک ے دوران وضو کر ک ے وضو کر ک ے نماز پر ھے ل یکن نماز کے دوران لازم ن ہیں ہے ک ہ پ یشاب یا پاخانہ خارج ہ ون ے ک ی وجہ س ے دوبار ہ وضو کر ے اگرچ ہ احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ پان ی کا برتن اپنے سات ھ رک ھے اور جب ب ھی پیشاب یا پاخانہ خارج ہ و وضو کر ے اور باق ی ماندہ نماز پ ڑھے اور یہ احتیاط اس صورت میں ہے ک ہ جب پ یشاب یا پاخانہ خارج ہ ون ے کا وقف ہ طو یل نہ ہ و یا دوبارہ وضو کرن ے ک ی وجہ س ے ارکان نماز ک ے درم یان فاصلہ ز یادہ نہ ہ و ۔ بصورت د یگر احتیاط کا کوئی فائدہ ن ہیں۔

315 ۔ اگر کس ی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار یوں آتا کہ اس ے وضو کر ک ے نماز کا کچ ھ حص ہ پ ڑھ ن ے ک ی بھی مہ لت ن ہ ملت ی ہ و تو اس ک ی ہ ر نماز ک ے لئ ے بلا اشکال ا یک وضو کافی ہے بلک ہ اظ ہ ر یہ ہے ک ہ ا یک وضو چند نمازوں کے لئ ے ب ھی کافی ہے۔ ماسوا اس ک ے ک ہ کس ی دوسرے حدث م یں مبتلا ہ وجائ ے۔ اور ب ہ تر یہ ہے ک ہ ہ ر نماز ک ے لئ ے ا یک بار وضو کرے ل یکن قضا سجدے ، قضا تش ہ د اور نماز احت یاط کے لئ ے دوسرا وضو ضرور ی نہیں ہے۔

316 ۔ اگر کس ی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہ و تو اس ک ے لئ ے ضرور ی نہیں کہ وضو ک ے بعد فوراً نماز پ ڑھے اگرچ ہ ب ہ تر ہے ک ہ نماز پ ڑھ ن ے م یں جلدی کرے۔

317 ۔ اگر کس ی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہ و تو وضو کرن ے ک ے بعد اگر و ہ نماز ک ی حالت میں نہ ہ و تب ب ھی اس کے لئ ے قرآن مج ید کے الفاظ کو چ ھ ونا جائز ہے۔

318 ۔ اگر کس ی شخص کو قطرہ قطر ہ پ یشاپ آتا رہ تا ہ و تو اس ے چا ہ ئ ے ک ہ نماز ک ے لئ ے ا یک ایسی تھیلی استمعال کرے جس م یں روئی یا کوئی اور چیز رکھی ہ و جو پ یشاب کو دوسری جگہ وں تک پ ہ نچن ے س ے روک ے اور احت یاط واجب یہ ہے ک ہ نماز س ے پ ہ ل ے نجس شد ہ ذکر کو د ھ ول ے۔ علاو ہ از یں جو شخص پاخانہ روکن ے پر قادر ن ہ ہ و اس ے چا ہ ئ ے ک ہ ج ہ اں تک ممکن ہ و نماز پ ڑھ ن ے تک پاخان ے کو دوسر ی جگہ وں تک پ ھیلنے سے روک ے اور احت یاط واجب یہ ہے ک ہ اگر باعث زحمت ن ہ ہ و تو ہ ر نماز ک ے لئ ے مقعد کو د ھ وئ ے۔

319 ۔ جو شخص پ یشاب پاخانے کو روکن ے پر قدرت ن ہ رک ھ تا ہ و تو ج ہ اں تک ممکن ہ و نماز م یں پیشاب یا پاخانے کو روک ے چا ہے اس پر کچ ھ خرچ کرنا پ ڑے بلک ہ اس کا مرض اگر آ سانی سے دور ہ و سکتا ہ و تو اپنا علاج کرائ ے۔

320 ۔ جو شخص اپنا پ یشاب یا پاخانہ روکن ے پر قادر ن ہ ہ و اس ک ے لئ ے صحت یاب ہ ون ے ک ے بعد یہ ضروری نہیں کہ جو نماز یں اس نے مرض ک ی حالت میں اپنے وظ یفہ کے مطابق پ ڑھی ہ وں ان ک ی قضا کرے ل یکن اگر اس کا مرض نماز پڑھ ت ے ہ وئ ے دور ہ و جائ ے تو احت یاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ جو نماز اس وقت پڑھی ہ و اس ے دوبار ہ پ ڑھے۔

321 ۔ اگر کس ی شخص کو یہ عارضہ لا حق ہ و ک ہ ر یاح روکنے پر قادر ن ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ان لوگوں ک ے وظ یفہ کے مطابق عمل کر ے جو پ یشاب اور پاخانہ روکنے پر قدرت رک ھ ت ے ہ وں ۔

وہ چیزیں جن کے لئ ے وضو کرنا چا ہ ئ ے

322 ۔ چ ھ چ یزوں کے لئ ے وضو کرنا واجب ہے۔

(اول) واجب نمازوں کے لئ ے سوائ ے نماز م یت کے ۔ اور مستحب نمازوں م یں وضو شرط صحت ہے۔

(دوم) اس سجدے اور تش ہ د ک ے لئ ے جو ا یک شخص بھ ول گ یا ہ و جب ک ہ ان ک ے اور نماز ک ے درم یان کوئی حدث اس سے سر زد ہ وا ہ و مثلاً اس ن ے پ یشاب کیا ہ و ل یکن سجدہ س ہ و ک ے لئ ے وضو کرنا واجب ن ہیں۔

(سوم) خانہ کعب ہ ک ے واجب طواف ک ے لئ ے جو ک ہ حج اور عمر ہ کا جز ہ و ۔

(چہ ارم) وضو کرن ے ک ی منت مانی ہ و یا عہ د ک یا ہ و یا قسم کھ ائ ی ہ و ۔

(پنجم) جب کسی نے منت مان ی ہ و ک ہ مثلاً قرآن مج ید کا بوسہ ل ے گا ۔

(ششم) نجس شدہ قرآن مج ید کو دھ ون ے ک ے لئ ے یا بیت الخلاء وغیرہ سے نکالن ے ک ے لئ ے جب ک ہ متعلق ہ شخص مجبور ہ و کر اس مقصد ک ے لئ ے اپنا ہ ات ھ یا بدن کا کوئی اور حصہ قرآن مج ید کے الفاظ س ے مس کر ے ل یکن وضو میں صرف ہ ون ے والا وقت اگر قرآن مج ید کو دھ ون ے یا اسے ب یت الخلاء سے نکالن ے م یں اتنی تاخیر کا باعث ہ و جس س ے کلام الل ہ ک ی بے حرمت ی ہ وت ی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ وضو کئ ے بغ یر قرآن مجید کو بیت الخلاء وغیرہ سے با ہ ر نکال ل ے یا اگر نجس ہ و گ یا ہ و تو اس ے د ھ و ڈ ال ے۔

323 ۔ جو شخص باوضو ن ہ ہ و اس ک ے لئ ے قرآن مج ید کے الفاظ کو چ ھ ونا یعنی اپنے بدن کا کوئ ی حصہ قرآن مج ید کے الفاظ س ے لگانا حرام ہے ل یکن اگر قرآن مجید کا فارسی زبان یا کسی اور زبان میں ترجمہ ک یا گیا ہ و تو اس ے چ ھ ون ے م یں کوئی اشکال نہیں۔

324 ۔ بچ ے اور د یوانے کو قرآن مجید کے الفاظ کو چ ھ ون ے س ے روکنا واجب ن ہیں لیکن اگر ان کے ا یسا کرنے س ے قرآن مج ید کی توہین ہ وت ی ہ و تو ان ہیں روکنا ضروری ہے۔

325 ۔ جو شخص باوضو ن ہ ہ و اس ک ے لئ ے الل ہ تعال ی کے ناموں اور ان صفتوں کو چ ھ ونا جو صرف اس ی کے لئ ے مخصوص ہیں خواہ کس ی زبان میں لکھی ہ وں احت یاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور ب ہ تر یہ ہے ک ہ آنحضرت (صل ی اللہ عل یہ وآلہ ) اور ائم ہ طا ہ ر ین علیہ م الصلوۃ والسلام اور حضرت فاطمہ زہ را عل یہ االسلام کے آسمائ ے مبارک ہ کو ب ھی نہ چ ھ وئ ے۔

326 ۔ اگر کوئ ی شخص کو یقین ہ و ک ہ (نماز کا) وقت داخل ہ و چکا ہے اور واجب وضو ک ی نیت کرے ل یکن وضو کرنے ک ے بعد اس ے پت ہ چل ے ک ہ اب ھی وقت داخل نہیں ہ وا ت ھ ا تو اس کا وضو صح یح ہے۔

328 ۔ م یت کی نماز کے لئ ے قبرستان جان ے ک ے لئ ے ، مسجد یا ائمۃ علیہ م السلام کے حرم م یں جائے ک ے لئ ے ، قرآن مج ید ساتھ رکھ ن ے ، اس ے پ ڑھ ن ے ، لک ھ ن ے اور اس کا حاش یہ چھ ون ے ک ے لئ ے اور سون ے ک ے لئ ے وضو کرنا مستحب ہے۔ اور اگر کس ی شخص کا وضو ہ و تو ہ ر نماز ک ے لئ ے دوبار ہ وضو کر نا مستحب ہے۔ اور مذکور ہ بالا کاموں م یں سے کس ی ایک کے لئ ے وضو کر ے تو ہ ر و ہ کام کر سکتا ہے جو باوضو کرنا ضرور ی ہے مثلاً اس وضو کے سات ھ نماز پ ڑھ سکتا ہے۔

مبطلات وضو

329 ۔ سات چ یزیں وضو کو باطل کر دیتی ہیں:۔

(اول) پیشاب (دوم) پاخانہ (سوم) معد ے اور آنتوں ک ی ہ وا جو مقعد س ے خارج ہ وت ی ہے (چ ہ ارم) ن یند جس کی وجہ س ے ن ہ آنک ھیں دیکھ سکیں اور نہ کان سن سک یں لیکن اگر آنکھیں نہ د یکھ رہی ہ وں ل یکن کان سن رہے ہ وں تو وضو باطل ن ہیں ہ وتا (پنجم) ا یسی حالت جن میں عقل زائل ہ و ج اتی ہ و مثلا د یوانگی، مستی یا بے ہ وش ی (ششم) عورتوں کا استحاضہ جس کا ذکر بعد م یں آئے گا ( ہ فتم) جنابت بلک ہ احت یاط مستحب کی بنا پر ہ ر و ہ کام جس ک ے لئ ے غسل کرنا ضرو ری ہے۔

جبیرہ وضو کے احکام

وہ چیز جس سے زخم یا ٹ و ٹی ہ وئ ی ہڈی باندھی جاتی ہے اور و ہ دو جو زخم یا ایسی ہی کسی چیز پر لگائی جاتی ہے جب یرہ کہ لات ی ہے۔

330 ۔ اگر وضو ک ے اعضا م یں سے کس ی پر زخم یا پھ و ڑ ا ہ و ہڈی ٹ و ٹی ہ وئ ی ہ و اور اس کا من ہ ک ھ لا ہ و اور پان ی اس کے لئ ے مضر ن ہ ہ و تو اس ی طرح وضو کرنا ضروری ہے جس ے عام طور پر ک یا جاتا ہے۔

331 ۔ اگر کس ی شخص کے چ ہ ر ے اور ہ ات ھ وں پر زخم یا پھ و ڑ ا ہ و یا اس (چہ ر ے یا ہ ات ھ وں) ک ی ہڈی ٹ و ٹی ہ وئ ی ہ و اور اس کا من ہ ک ھ لا ہ و اور اس پر پان ی ڈ النا نقصان و ہ ہ و تو اس ے زخم یا پھ و ڑے ک ے آ س پاس کا حصہ اس طرح اوپر س ے ن یچے کو دھ ونا چا ہ ئ ے ج یسا وضو کے بار ے م یں بتایا گیا ہے اور ب ہ تر یہ ہے ک ہ اگر اس پر تر ہ ات ھ ک ھینچنا نقصان دہ ن ہ ہ و تو تر ہ ات ھ اس پر ک ھینچے اور اس کے بعد پاک کپ ڑ ا اس پر ڈ ال د ے اور گ یلا ہ ات ھ اس کپ ڑے پر ب ھی کھینچے۔ البت ہ اگر ہڈی ٹ و ٹی ہ وئ ی ہ و تو ت یمم کرنا لازم ہے۔

332 ۔ اگر زخم یا پھ و ڑ ا یا ٹ و ٹی ہڈی کسی شخص کے سر ک ے اگل ے حص ے یا پاوں پر ہ و اور اس کا من ہ ک ھ لا ہ و اور و ہ اس پر مسح ن ہ کر سکتا ہ و ک یونکہ زخم مسح کی پوری جگہ پر پ ھیلا ہ وا ہ و یا مسح کی جگہ کا جو حص ہ صح یح و سالم ہ و اس پر مسح کرنا ب ھی اس کی قدرت سے با ہ ر ہ و تو اس صورت میں ضروری ہے ک ہ ت یمم کرے اور احت یاط مستحب کی بنا پر وضو بھی کرے اور پاک کپ ڑ ا زخم وغ یرہ پر رکھے اور وضو ک ے پان ی کی تری سے جو ہ ات ھ وں پر لگ ی ہ و کپ ڑے پر مسح کر ے۔

333 ۔ اگر پ ھ و ڑے یا زخم یا ٹ و ٹی ہڈی کا منہ کس ی چیز سے بند ہ و اور اس کا کھ ولنا بغ یر تکلیف کے ممکن ہ و اور پان ی بھی اس کے لئ ے مضر ن ہ ہ و تو اس ے ک ھ ول کر وضو کرنا ضرور ی ہے خوا ہ زخم وغ یرہ چہ ر ے اور ہ ات ھ وں پر ہ و یا سر کے اگل ے حص ے اور پاوں ک ے اوپر وال ے حص ے پر ہ و ۔

334 ۔ اگر کس ی شخص کا زخم یا پھ و ڑ ا یا ٹ و ٹی ہ وئ ی ہڈی جو کسی چیز سے بند ھی ہ وئ ی ہ و اس ک ے چ ہ ر ے یا ہ ات ھ وں پر ہ و اور اس کا ک ھ ولنا اور اس پر پان ی ڈ النا مضر ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ آس پاس ک ے جتن ے حص ے کو د ھ ونا ممکن ہ و اس ے د ھ وئ ے اور جب یرہ پر مسح کرے۔

335 ۔ اگر زخم کا من ہ ن ہ ک ھ ل سکتا ہ و اور خود زخم اور جو چ یز اس پر لگائی گئی ہ و پاک ہو اور زخم تک پانی پہ نچانا ممکن ہ و اور مضر ب ھی نہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ پان ی کو زخم کے من ہ پر اوپر س ے ن یچے کی طرف پہ نچائ ے۔ اور اگر زخم یا اس کے اوپر لگائ ی گئی چیز نجس ہ و اور اس کا د ھ ونا اور زخم ک ے من ہ تک پان ی پہ نچانا ممکن ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس ے د ھ وئ ے اور وضو کرت ے وقت پان ی زخم تک پہ نچائ ے۔ اور اگر پان ی زخم کے لئ ے مضر ن ہ ہ و ۔ ل یکن زخم کے من ہ تک پان ی پہ نچانا ممکن ن ہ ہ و یا زخم نجس ہ و اور اس ے د ھ و یا نہ جاسکتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ت یمم کرے۔

336 ۔ اگر جب یرہ اعضائے وضو ک ے کس ی حصے پر پ ھیلا ہ وا ہ و تو بظا ہ ر وضو جب یرہ سے کاف ی ہے ل یکن اگر جبیرہ تمام اعضائے وضو پر پ ھیلا ہ وا ہ و تو احت یاط کی بنا پر تیمم کرنا ضروری ہے اور وضوئ ے جب یرہ بھی کرے۔

337 ۔ یہ ضروری نہیں کہ جب یرہ ان چیزوں میں سے ہ و جن ک ے سات ھ نماز پ ڑھ نا درست ہے بلک ہ اگر و ہ ر یشم یا ان حیوانات کے اجزا س ے بن ی ہ و جن کا گوشت ک ھ انا جائز نہیں تو ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے۔

338 ۔ جس شخص ک ی ہ ت ھیلی اور انگلیوں پر جبیرہ ہ و اور وضو کرن ے وقت اس ن ے تر ہ ات ھ اس پر ک ھینچا ہ و تو سر اور پاوں کا مسح اس ی تری سے کر ے۔

339 ۔ اگر کس ی شخص کے پاوں ک ے اوپر وال ے پور ے حص ے پر جب یرہ ہ و ل یکن کچھ حص ہ انگل یوں کی طرف سے اور کچ ھ حص ہ پاوں ک ے اوپر وال ے حص ہ ک ی طرف سے ک ھ لا ہ و تو جو جگ ہیں کھ ل ی ہیں وہ اں پاوں ک ے اوپر وال ے حص ے پر اور جن جگ ہ وں پر جب یرہ ہے و ہ اں جب یرہ پر مسح کرنا ضروری ہے۔

340 ۔ اگر چ ہ ر ے یا ہ ات ھ وں پر کئ ی جیرے ہ وں تو ان کا درم یانی حصہ د ھ ونا ضرور ی ہے اور اگر سر یا پاوں کے اوپر وال ے حص ے پر جب یرے ہ وں تو ان ک ے درم یانی حصے کا مسح کرنا ضرور ی ہے اور ج ہ اں جب یرے ہ وں و ہ اں جب یرے کے بار ے م یں احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔

341 ۔ اگر جب یرہ زخم کے آس پاس ک ے حصول کو معمول س ے ز یادہ گھیرے ہ وئ ے ہ و اور اس کو ہٹ انا بغ یر تکلیف کے ممکن ن ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ متعلق ہ شخص ت یمم کرے بجز اس ک ے ک ہ جب یرہ و تیمم کی جگہ وں پر ہ و ک یونکہ اس صورت میں ضروری ہے ک ہ وضو اور ت یمم دونوں کرے اور دونوں صورتو ں میں اگر جبیرہ کا ہٹ انا بغ یر تکلیف کے ممکن ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس ے ہٹ ا د ے۔ پس اگر زخم چ ہ ر ے یا ہ ات ھ وں پر ہ و تو اس ک ے آس پاس ک ی جگہ وں ک ی دھ وئ ے اور اگر سر یا پاوں کے اوپر وال ے حص ے پر ہ و تو اس ک ے آس پاس ک ی جگہ وں کا مسح کر ے اور زخم ک ی جگہ ک ے لئ ے جب یرہ کے احکام پر عمل کر ے۔

342 ۔ اگر وضو ک ے اعضا پر زخم ن ہ ہ و یا ان کی ہڈی ہ وئ ی نہ ہ و ل یکن کسی دوسری وجہ س ے پانی ان کے لئ ے مضر ہ و یا تیمم کرنا ضروری ہے۔

343 ۔ اگر وضو ک ے اعضا ک ی کسی رگ سے خون نکل آ یا ہ و اور اس ے د ھ ونا ممکن ن ہ ہ و تو ت یمم کرنا لازم ہے۔ ل یکن اگر پانی اس کے لئ ے مضر ہ و تو جب یرہ کے احکام پر عمل کرنا ضرور ی ہے۔

344 ۔ اگر وضو یا غسل کی جگہ پر کوئ ی ایسی چیز چپک گئی ہ و جس کا اتارنا ممکن ن ہ ہ و یا اسے اتارن ے ک ی تکلیف نا قابل برداشت ہ و تو متعلق ہ شخص کا فر یضہ تیمم ہے۔ ل یکن اگر چپکی ہ وئ ی چیز تیمم کے مقامات پر ہ و تو اس صورت م یں ضروری ہے ک ہ وضو اور ت یمم دونوں کرے اور اگر چپ کی ہ وئ ی چیز دوا ہ و تو و ہ جب یرہ کے حکم م یں آتی ہے۔

345 ۔ غسل مس م یت کے علاو ہ تمام قسم ک ے غسلوں م یں غسل جبیرہ وضوئے جب یرہ کی طرح ہے ل یکن احتیاط لازم کی بنا پر مکلف شخص کے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ غسل ترت یبی کرے (ارتماس ی نہ کر ے ) اور اظ ہ ر یہ ہے ک ہ اگر بدن پر زخم یا پھ و ڑ ا ہ و تو مکلف کو غسل یا تیمم کا اختیار ہے۔ اگر و ہ غ سل کو اختیار کرتا ہے اور زخم یا پھ و ڑے پر جب یرہ نہ ہ و تو احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ زخم یا پھ و ڑے پر پاک کپ ڑ ا رک ھے اور اس کپ ڑے ک ے اوپر مسح کر ے۔ اور اگر بدن کا کوئ ی حصہ ٹ و ٹ ا ہ وا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ غسل کر ے اور احت یاط جبیرہ کے اوپر ب ھی مسح کرے اور اگر جب یرہ پر مسح کرنا ممکن نہ ہ و یا جو جگہ ٹ و ٹی ہ وئ ی ہے و ہ ک ھ ل ی ہ و تو ت یمم کرنا ضروری ہے۔

346 ۔ جس شخص کا وظ یفہ تیمم ہ و اگر اس ک ی تیمم کی بعض جگہ وں پر زخم یا پھ و ڑ ا ہ و یا ہڈی ٹ و ٹی ہ وئ ی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ وضوئ ے جب یرہ کے احکام ک ے مطابق ت یمم جبیرہ کرے۔

347 ۔ جس شخص کو وضوئ ے جب یرہ یا غسل جبیرہ کرکے نماز پ ڑھ نا ضرور ی ہ و اگر اس ے علم ہ و ک ہ نماز ک ے آخر وقت تک اس کا عذر دور ن ہیں ہ و گا تو و ہ اول وقت م یں نماز پڑھ سکتا ہے ل یکن اگر اسے ام ید ہ و ک ہ آخر وقت تک اس کا عُذر دور ہ و جائ ے گا تو اس ک ے لئ ے ب ہ تر یہ ہے ک ہ انتظ ار کرے اور اگر اس کا عذر دور ن ہ ہ و تو آخر وقت م یں وضوئے جب یرہ یا غسل جبیرہ کے سات ھ نماز ادا کر ے ل یکن اگر اول وقت میں نماز پڑھ ل ے اور آخر وقت تک اس کا عذر دور ہ و جائ ے تو احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ وضو یا غسل کرے اور دوبار ہ نماز پ ڑھے۔

348 ۔ اگر کوئ ی شخص آنکھ ک ی بیماری کی وجہ س ے پلک یں موند کر رکھ تا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ ت یمم کرے۔

349 ۔ اگر کس ی شخص کو یہ علم نہ ہ و ک ہ آ یا اس کا وظیفہ تیمم ہے یا وضوئے جب یرہ تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے ت یمم اور وضوئے جب یرہ دونوں بجالانے چا ہ ئ یں۔

350 ۔ جو نماز یں کسی انسان نے وضوئ ے جب یرہ سے پ ڑھی ہ وں و ہ صح یح ہیں اور وہ اس ی وضو کے سات ھ آئند ہ ک ی نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12