اسرار غدیر

اسرار غدیر0%

اسرار غدیر مؤلف:
زمرہ جات: امامت

اسرار غدیر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد علی انصاری
زمرہ جات: مشاہدے: 24412
ڈاؤنلوڈ: 4186

تبصرے:

اسرار غدیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24412 / ڈاؤنلوڈ: 4186
سائز سائز سائز
اسرار غدیر

اسرار غدیر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

غدیر میں شیاطین و منافقین

ابلیسی شیاطین اور انسانی شیاطین کے رد عمل کا افشا اوران کے اقدامات پر روشنی ڈالناغدیر کی اہم ابحاث میں سے ہے ،چو نکہ اس کے پس منظر میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جو کچھ واقع ہوا اس کا آسانی سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک پوری زندگی کی زحمات اور غدیر کے عظیم خطبہ کوکوئی اہمیت نہ دیتے ہو ئے بھُلادیا ، یہ سب کچھ قطعاً ان کی پہلے سے بنائی ہوئی سازشوںکے تحت تھا شیطانوںاور منافقوں نے اپنی تمام تر کو ششوں کو اس سلسلہ میں صرف کر دیا تھا ۔

غدیر میں ابلیس اور اس کے گروہ پر مصائب کے پھا ڑ ٹوٹ گئے ،اور منافقین بھی نا امید ی و افسوس میں بسر کر رہے تھے ،ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا تھا ۔

شیطان اور اس کے تابعین امت اور مسلمانوں کو گمراہ کر نے اور جہنم رسید کر نے کی نئی فکر کر نے میں لگے تھے ،اور بظاہر مسلمان نما کفار دوران جا ہلیت اور کفر وشرک و الحاد کو دوبارہ زندہ کر نے کی فکر میں لگے ہو ئے تھے ۔

تاریخ کے اس حصہ میں یہ بات ھلا دینے والی ہے کہ غدیر میں شیاطین اپنے دل منافقین سے لگا ئے ہو ئے تھے اور وہ اپنی انکھوں سے ٹکٹکی باندہے ہو ئے ان کے ھاتھوں اور ان کے پروگراموںکو دیکھ رہے تھے ،اور خود کو ہر طرح سے بے سروپا سمجھ رہے تھے یہ مشرک و کافر منافقین تھے جنھوں نے شیطان اور اس کے تابعین کو سرخرو کر دیا تھا ،اور انھوں نے اپنے فرزندان خَلَف کو جواُن سے کسی طرح کم نہیں تھے وحی نبوت سے مقابلہ کا درس دیااور ایسا نقشہ کھینچا کہ نہ صرف وہ اپنے برے مقاصد میں کامیاب ہو ئے بلکہ قیامت تک اکثر مسلمانوں کو صراط مستقیم اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برحق بارہ جا نشینوں سے منحرف کردیا اور اسلامی خلافت کودنیا کے سامنے مخدوش بھی کردیا ۔

اس حصہ میں پہلے ہم غدیر کے دن ابلیس اور شیطانوں کے درمیان رو نما ہو نے والے واقعات بیان کریں گے اس کے بعد منافقین کے اقدامات اور ردعمل کو بیان کریں گے۔

۱ غدیر میں ابلیس اورشیاطین

ابلیس اور اس کے شاگرد” انسان کے سخت ترین دشمن “غدیر کواپنے لئے سب سے خطرناک موقع سمجھ رہے تھے ۔ان کو یہ خیال تھا کہ غدیر کے بعد مسلمانوں کے گمراہ ہو نے کا راستہ بند ہو جا ئے گا اسی وجہ سے وہ سب اس دن بڑے غمگین و رنجیدہ تھے اور وہ بلندآواز سے فریاد کر رہے تھی ۔

لیکن انسانی شیطانوں نے ابلیس کی آواز پر لبیک کھی اور وہیں غدیر میںھی اس سے وعد ے کئے، منصوبے بنائے ،جس سے اس کے تمام رنج و غم دور ہو گئے اور وہ خوش و خرم و مسرور ہو گیا ۔

جب اس نے سقیفہ میں ان تمام پر وگراموں کو عملی جامہ پہنتے دیکھا تو وہ پھولا نہیں سما رہا تھا ،اس دن ابلیس(سب سے بڑا شیطان ) نے ان کی تاج پوشی کی اور ا پنے گروہ کو رسمی طور پر خوش وخرم ہو نے کا حکم دیا ۔

ھم ذیل میںاس مدعا سے متعلق چند احا دیث نقل کر رہے ہیں :

غدیر میں شیطان کی فریاد

امام محمد با قر علیہ السلام نے فرما یا ہے :ابلیس کی چار مر تبہ فریادبلند ہوئی :جس دن وہ خدا وند عالم کی لعنت کا مستحق قرار پایا ،جس دن آسمان سے زمین پر بھیجا گیا ،جس دن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث ہو ئے اور غدیر خم کے دن (جب امیر المو منین علیہ السلام جانشین رسول بنے )۔( ۱ )

منافقین کے شیطان کے ساتھ وعدے

امام محمد باقر علیہ السلام کافرمان ہے :جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑکر فرمایا <مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌ مَوْلَاهُ >ابل یس اور اس کے گروہ کے بڑے بڑے شیاطین مو جود تھے ۔

ان شیاطین نے اس سے کہا :تو نے ہم سے یہ نہیں کہا تھا !بلکہ تم نے تو یہ خبر دی تھی کہ جب پیغمبر دنیا سے رحلت کریں گے تو ان کے اصحاب متفرق ہو جا ئیں گے !لیکن آنحضرت کے بیان سے تو یہ واضح ہو رہا ہے کہ انھوں نے ایک محکم پروگرام کی پیش گوئی کی ہے کہ جب ان کے جانشینوں میں سے ایک کا انتقال ہو جا ئیگا تو دوسرا اس کا قائم مقام ہو گا !

ابلیس نے جواب دیا :جاو ، ان کے اصحاب نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ان کی کسی بات کا اقرار نہ کریں ،اور وہ اپنے اس وعدے سے ہر گز سر پیچی نہیں کر یں گے !( ۲ )

مسلمانوں کے مرتد اور کافر ہو جانے سے شیطان خوش

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاہے :جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو ابلیس نے ایک چیخ ماری جس سے خشکی اور تری کے تمام شیطانوں نے اس کو اپنے گھیرے میں لے کر کہا :اے ہمارے آقا ،اور اے ہمارے مولا آپ کو کس مشکل نے گھیر لیا؟ ہم نے آج تک تمھاری اس سے زیادہ بھیانک آواز نہیں سنی !

ابلیس نے کہا :

اس پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ کام انجام دیا ہے کہ اگر نتیجہ بخش ثابت ہو گیا تو ہر گزکوئی خدا وند عالم کی معصیت نہیں کرے گا ۔

شیطانو ں نے کہا :اے ہمارے آقا ،اے ہمارے مولا تم نے تو آدم علیہ السلام تک کو گمراہ کردیا!

جب منافقین نے آپس میں باتیں کیںکہ:”پیغمبر اپنی خواہشات نفسانی سے بات کررہے ہیں “ اوران دو آدمیوں (ابو بکر اور عمر )میںسے ایک نے دوسرے سے کہا :نہیں دیکھ رہے ہو کہ ان کی آنکہیں ان کے سر میں دیوانوں کی طرح گردش کر رہی ہیں “،جب ان دونوں نے یہ باتیں کیں تو ابلیس نے خوشی سے نعرہ لگایا اور اس نے اپنے تمام دوست و احباب کو جمع کر کے کہا :کیا تم جا نتے ہو کہ میں نے آدم علیہ السلام کو گمراہ کیا ؟انھوں نے کہا :ھاں ،تو ابلیس نے کھا:آدمعليه‌السلام نے اپنا عہد و پیمان توڑالیکن وہ منکر خدا نہیں ہو ئے لیکن ان لوگوں نے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا اور پیغمبر کا انکار کر بیٹہے “!!

جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انتقال فر مایا اور لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کوچھوڑکر غیر کو اپنا خلیفہ بنا لیاتو ابلیس نے بادشاہت کا تاج سر پر رکھا اور ایک منبر رکھ کر اس پر بیٹھا اپنے تمام شیطانوں کو جمع کر کے کھا:

”خوشی مناو اس لئے کہ جب تک امام قیام نہیں کرےگا اس وقت تک خدا وند عالم کی اطاعت نہیں ہو سکتی “( ۳ )

شیعو ں کو گنا ہ میں ملوث کر نے کی شیطان کی کو شش

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا :جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر خم میں خطبہ دیا اور امیر المو منین علیہ السلام کولو گوں کے لئے اپنا خلیفہ و جانشین معین فرمایا تو شیطان نے ایک چیخ ماری جس سے اس کے تمام دوست و احباب اس کے پاس جمع ہو کر کہنے لگے اے ہمارے سردار تم نے یہ چیخ کیوں ماری ؟!ابلیس نے کہا :وائے ہو تم پر آج کا دن عیسیٰ کے دن کے مانند ہے !

خدا کی قسم ،اس سلسلہ میں لوگوں کو گمراہ کروں گا ۔۔۔

ابلیس نے دوسری مرتبہ چیخ ماری تو اس کے گروہ کے بڑے بڑے لیڈر اس کے پاس جمع ہو کرکہنے لگے : اے ہمارے سردار یہ دوسری چیخ کیوں ماری ؟!ابلیس نے کہا :

خدا وند عالم نے میرے قول کے سلسلہ میں آیت نازل فر مائی ہے( وَلَقَدْصَدَّقَ عَلَیْهِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّهُ ) ( ۴ )

”اور ان پر ابلیس نے اپنے گمان کو سچ کر دکھایا“

اس کے بعد ابلیس نے آسمان کی طرف متوجہ ہو کر کہا :

خداوندا تیری عزت و جلال کی قسم ہدایت یافتہ گروہوں کو بھی دوسرے گروہوں سے ملا دوں گا !

اس مقام پر پیغمبر ”جو ابلیس کے کردار ورفتار سے واقف تھے “نے خداوند عالم کی جانب سے اس آیت کی تلاوت فرمائی:( اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانِّ ) ( ۵ )

”میرے بندوں پر تیرا کو ئی اختیار نہیں ہے “

پھر ابلیس نے چیخ ماری اور اس گروہ کے بڑے سردار نے اس کے پاس واپس آکر اس سے سوال کیا یہ تیسری چیخ کیوں ماری؟ابلیس نے کہا :

خدا کی قسم ،میں علی علیہ السلام کے اصحاب پر (تسلط نہیں رکھتا ہوں)!لیکن خدوند عالم تیری عزت و جلال کی قسم ،گنا ہوں کو ان کے لئے (یعنی علی علیہ السلام کے شیعہ )اچھا بناکر پیش کروں گا ،تاکہ ان کوان کے ارتکاب کرا کے تیری بارگاہ میں مبغوض کروں ۔( ۶ )

غدیر میں شیطان کی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو

غدیر میں شیطان نے ایک بوڑہے خوبصورت مرد شکل میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا :اے محمد ،کتنے کم افراد ہیں جو آپ کی گفتگو کے مطابق آپ کی واقعی بیعت کر نے والے ہیں !!( ۷ )

غدیر میں شیطان کا حزن اور سقیفہ میں خو شی

امیر المومنین علی علیہ السلام نے فر مایا :پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجہے خبر دی ہے :

ابلیس اور اس کے گروہ کے بڑے بڑے لیڈر میرے جانشین بننے کے وقت غدیر میں مو جود تھے اس دن ابلیس کے اصحاب نے اس کی طرف منھ کر کے کہا : یہ امت رحمت کے لائق قرار پائی اور گمراھی سے محفوظ ہو گئی ،اب ہمارے اور تمھارے لئے ان کو بھکا نے کا کوئی موقع نہیں ہے ،چونکہ انھوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اپنے امام اورپناہ گاہ کی معرفت حا صل کر لی ہے ۔

ابلیس غمگین و رنجیدہ ہو کر ان سے جدا ہو گیا ۔

امیر المو منین علی علیہ السلام نے مزید فرمایا :پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ کو خبر دی ہے :

میری رحلت کے بعد جب لوگ تمھاری بیعت توڑ لیں گے ابلیس اپنے اصحاب کو جمع کر ے گا اور وہ اس کو سجدہ کر تے ہو ئے سوال کریں گے :

اے ہما رے سرپرست ،اے ہمارے بڑے سردار ،تونے ہی نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے باھر کیا تھا !

ابلیس کہتا ہے :

کو نسی امت اپنے پیغمبر کے بعد گمراہ نہیں ہو ئی ؟!تم یہ گمان کر تے ہو کہ میں ان پر کو ئی تسلط نہیں رکھتا ہوں ؟!تم نے مجھ کو کیسا پایا کہ میں نے ایسا کام کیا جس سے انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کے سلسلہ میں خدا اور پیغمبر کے امر کو ترک کر دیا ؟( ۸ )

۲ غدیر میں منافقین

غدیر میں منافقین کے رفتار و کردار کا تین طرح سے جا ئزہ لیا جا سکتا ہے :

۱ ۔غدیر کے خلاف ان کے عملی اقدامات اور سازشیں ۔

۲ ۔غدیر کے سلسلہ میں ان کا حسد،کینہ اور منافقانہ اقوال۔

۳ ۔غدیر میں ان کے عکس العمل کے واضح نمونے ۔

غدیر میں منا فقوں کی سازشیں

غدیر سے مدتوں پہلے منافق پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اپنی صفوف مستحکم کر رہے تھے اور بعض حساس مو قعوں پرتھوڑا بہت اپنی منافقت کا اظھار بھی کرتے رہتے تھے ۔

حجة الوداع میںجب منافقین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے نزدیک اوراپنے بعد رسمی طور اپنا جانشین معین فرمانے سے واقف ہوئے تو منافقین بنیادی اقدامات کاآغاز کیا اور خود کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعدکے دنوں کےلئے آمادہ و تیار کرلیا ،اس مقام پر کفر و نفاق متحد ہوگئے ،ان کے جاسوس پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارادوں کے جزئیات کو ان تک پہنچا نے لگے ۔

پھلی سازش( ۹ )

منافقوں کی سازشوں کا نطفہ اس وقت منعقد ہوا جب دو آدمیوں نے اس بنیادی کام کے سلسلہ میںآپس میں عہد و پیمان کیاکہ :

”اگر محمد اس دنیا سے کوچ کر گئے یا قتل ہو گئے تو ہر گز ان کی خلافت اور جا نشینی ان کے اہل بیت علیھم السلام تک نہیں پہنچنا چا ہئے “

ان کے اس عہد میں تین آدمی اور شریک ہو گئے اور سب سے پہلا معاہدہ کعبہ کے پاس لکھاگیا، دستخط کر نے کے بعد اس کو کعبہ کے اندر زیر خاک چھپا دیا گیا تاکہ اس پیمان کو ہر حال میں عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک سند رہے ۔

ان تین آدمیوں میں سے ایک شخص معاذ بن جبل کا کہنا ہے :

”آپ اس مسئلہ کو قریش کے ذریعہ حل کریں انصار کا ذمہ وار میں ہوں “

انصار کے رئیس کل” سعد بن عبادہ“ تھے ،وہ ابو بکر و عمر کے ساتھ ہم عہد بھی نہیں تھے لہٰذامعاذ بن جبل، بشیر بن سعید اور اسید بن حضیرجو آدہے انصار یعنی ان کے دو قبیلے” اوس“ اور” خزرج“میں سے ایک کا حاکم تھا، کی تلاش میں نکلے اور ان کو خلافت غصب کر نے کےلئے اپنا ہم عہد بنالیا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کر نے کی سازش( ۱۰ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کر نے کی سازش ایک مرتبہ جنگ تبوک میں اور کئی مرتبہ زھر اور دوسرے حربوں سے کی گئی مگر ہر بار ناکامی ہو ئی ۔

لیکن حجة الوداع کے موقع پر انہیں پانچ ہم پیمان منافقوں نے دوسرے نو افراد کے ساتھ مل کرآخری مرتبہ مکہ سے مدینہ واپس آنے کے راستہ میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے پر وگرام بنایا اور اس پروگرام کی ایک وجہ حضرت علی بن ابی طالب کے اعلان خلافت سے پہلے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرکے آسانی سے اپنے مقاصد تک پہنچنا تھی لیکن محل سازش تک پہنچنے سے پہلے ہی حکم خدا نازل ہوگیااور غدیر کے مراسم انجام پاگئے۔اگر چہ وہ اپنے منصوبے سے پیچہے نہیں ہٹے۔

ان کا پروگرام یہ تھاکہ کوہ ھرشیٰ کی چوٹی پر کمین میں بیٹھاجائے چونکہ اکثرلوگ ،پھاڑ کے دامن سے گذرجاتے ہیں اور چوٹی پر نہیں آتے لہٰذاجیسے ہی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اونٹ پھاڑکی چوٹی سے گذر کر اترنے لگے گا تو بڑے بڑے پتھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اونٹ کی طرف پھینک دئے جائےںجو آپعليه‌السلام کے اونٹ کو جاکر لگیںجس سے آپعليه‌السلام کااونٹ یا گر جائے یا اچھل کر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گرادے اور وہ رات کی تاریکی میں آ پعليه‌السلام پر حملہ کردیںاور یقینی طورپر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خون ہوجائے۔

اور اسکے بعد فرار ہوکر دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جائیں تاکہ قاتل کا پتہ نہ چل سکے ۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کی سازش ناکام

خداوندعالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس پرو گرام سے آگاہ کیا اور ان کی حفاظت کاوعدہ دیا۔چودہ افراد پر مشتمل منافقین کا گروہ ”رات کی تاریکی میں اپنی وعدہ گاہ کو ہ ھرشی کی چوٹی کا اختتام اور اس کے نشیب کی ابتدا “پر پہنچا اور اپنے اونٹوں کو ایک کنارے پر بٹھادیااور سات سات آدمی پھاڑکے دائیں بائیں چھپ کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے اپنے پاس کے بڑے بڑے برتن ریت اور کنکریوں سے بھر کر رکہے ہوئے تھے تاکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اونٹ کی طرف ان کو پھینک کر اسکو دوڑادیں۔

جیسے ہی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سواری پھاڑکی چوٹی پر پہنچی اور پھاڑسے نیچے اترنا چاہتی تھی منافقوںنے بڑے بڑے پتھر اور ریت اور کنکریوں سے بھرے برتنوں کو ان کی طرف چھوڑ دیا۔قریب تھاکہ اونٹ کو جاکے لگتے یا اونٹ دوڑنے بھاگنے لگتا۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اونٹ کو رک جانے کا حکم دیا۔یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب حذیفہ اورعمار میں سے ایک آنحضرت کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے اور دوسرا اسکو پیچہے سے ھانک رہا تھا۔

اونٹ کے رک جانے سے پتھرگذرکر پھاڑسے نیچے کی طرف چلے گئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحیح وسالم بچ گئے۔منافقین کو جو اپنے اس دقیق پروگرام سے مطمئن تھے فوراً تلواریں لے کر کمینگاہوں سے باھر نکل آئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف حملہ کرنے کےلئے بڑہے ۔

لیکن عمار اور حذیفہ نے بھی تلوار یں کھینچ لیں اور جوابی کاروائی شروع ہوگئی۔آخر کار وہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔

منافقوں نے پھاڑوں کے پیچہے پناہ لی تاکہ پیغمبر کے تھوڑا آگے بڑھنے کے بعد رات کی تاریکی سے استفادہ کر تے ہو ئے قافلہ کے ساتھ ملحق ہو جا ئیں ۔

اس لئے کہ آنے والی نسلوں کو یہ معلوم ہو جا ئے کہ اس زمانہ میں منافقین کے سردار کون لوگ تھے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ہو نے والی سازشوں کی تحلیل آسانی سے ہو سکے ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسی رات ان کے چھروں سے نقاب الٹ دی اور اچانک چند لمحوں کےلئے فضا میں نور چمکا جس سے عمار اور حذیفہ نے بھی ان چودہ افراد کے چھروں کو بخوبی پہچان لیاحتی ان کی سواریوں کو بھی دیکھ لیا جن کو انھوں نے ایک طرف بٹھا رکھا تھا اور وہ چودہ آدمی یہ تھے :

ابو بکر ،عمر ،عثمان ،معاویہ ،عمرو عاص ،طلحہ،سعد بن ابی وقاص ،عبد الرحمن بن عوف ،ابو عبیدہ بن جراح ،ابو موسیٰ اشعری ،ابو ھریرہ ،مغیرہ بن شعبہ ،معاذ بن جبل اور سالم مو لیٰ ابی حذیفہ۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ حکم تھا کہ اس وقت آپ ان سے کو ئی بات نہ کریں اس لئے کہ ان حساس حالات میں فتنہ و فساد پھیلنے اور گزشتہ تمام زحمتوں کے بر باد ہو نے کا خطرہ تھا ۔

دوسرے روز جب صبح کی نماز با جماعت قائم ہو ئی تو یہ چودہ لوگ سب سے پہلی صف میں تھے !! اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی طرف اشارہ کر تے ہو ئے چند باتیں بیان کیں اور فرمایا :

”کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انھوں نے کعبہ میں یہ قسم کہا ئی ہے کہ اگر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیا سے چلے گئے یا قتل ہو گئے تو ہر گز خلافت ان کے اہل بیت علیھم السلام تک نہیں جانے دیں گے ۔

مدینہ میں دوسری سازش( ۱۱ )

وہ منافق جو پہلے شکست کہا چکے تھے انھوں نے ہی مدینہ پہنچتے ہی ایک میٹنگ کی جس میں وہ چو نتیس افراد شریک ہو ئے جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اس طرح کے کا موں میں پیش پیش رہتے تھے ۔

اس میٹنگ میں آئندہ کے پروگرام کا منصوبہ بنایا گیااور سب نے اس پر دستخط کئے۔دستخط کرنے والوں میں گذشتہ چودہ افراد کے علاوہ بعض قبیلوں کے سردار تھے کہ جن میں سے ہر ایک کے ساتھ لوگوں کا ایک گروہ تھا۔منجملہ ان میں سے :ابوسفیان، ابوجھل کابیٹا عکرمہ،سعید بن عاص،خالد بن ولید، بشیر بن سعید، سھیل بن عمرو ،ابوا لاعور اسلمی،صھیب بن سنان اور حکیم بن حزام تھے ۔

پیمان نامہ کا لکھنے والا سعید بن عاص اورمیٹنگ کی جگہ ابوبکر کا گھر تھا۔دستخط کے بعد پیمان نامہ کو بند کرکے ابو عبیدہ جراح کو بعنوان امانت دےدیا تاکہ اسکو مکہ لے جائے اور کعبہ کے اندر پہلے صحیفہ کے ساتھ دفن کردے تاکہ سند کے طور پر محفوظ رہے ۔

اسکے دوسرے دن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز صبح کے بعد منافقوں کے اس اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

میری امت کے بعض لوگوں نے ایک معاہدہ لکھا ہے جو زمان جاہلیت کے اس معاہدہ سے مشابہ ہے جو کعبہ میں لٹکایا ہواتھا لیکن میںاس راز کو فاش نہ کرنے پر مامور ہوں“

اسکے بعد ابو عبیدہ جراح کی طرف رخ کرکے فرمایا”اب تم اس امت کے امین بن گئے ہو؟“

اسامہ کا لشکر( ۱۲ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منافقین کے اقدامات کے ساتھ آخری مقابلہ کرنے اور اپنی وفات کے بعد مدینے کو ان کے وجود سے خالی کرنے کی غرض سے اسامہ بن زید کی حکمرانی میں ایک لشکرتشکیل دیااور منافقین میں سے چار ہزار افراد کو ان کے نام کے ساتھ معین کرکے حکم دیا کہ یہ گروہ حتماًاس لشکر میں حاضر ہواور جلدازجلدسرزمین شام میں رومیوں کی طرف حرکت کریں۔اس گروہ میں سے ابوبکراور عمر کے لشکر میں حاضرہونے پر زیادہ زور دے رہے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس میں شامل نہ ہونے والوںپرلعنت کرنا اور لشکرکے جلدی حرکت کرنے والوں پر لعنت کرنے پر زیادہ زور دینا قابل دید تھا۔

لیکن آنحضرت کے اس اقدام کی منافقوں نے سخت مخالفت کی اور کسی نہ کسی بھانے سے مدینہ واپس لوٹ آنے اور لشکر کے حرکت کرنے میں اتنی تاخیر کی کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیا سے رحلت فرماگئے اور انھوں نے اپنے پروگراموںکو آسانی سے عمل میں لاناشروع کردیا۔

غدیر کا نور ولایت کا محافظ

یہ واقعہ غدیر کے زمانے میں منافقین کے اقدامات اور نیز ان کے مقابلے میں ان کی سازشوں کو ناکام کرنے ،تیئیس سالہ زحمات کی حفاظت کرنے، اور مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کی ہدایت کے لئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقدامات کا خلاصہ تھا۔

لیکن منافقین نے اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنادیااور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعدمسلمانوں کو پچھلے پاؤں پلٹنے پر مجبورکردیا اور مسلمان بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زحمات اور واقعہ غدیر کو نظر انداز کرکے جاہلیت کی طرف پلٹ گئے۔اور اس کام میں انھوں نے اتنی جلدی کی کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غسل ودفن ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا !!

امام صادقعليه‌السلام سے اس آیةشریفہ کے بارے میں سوال ہوا( یعرفون نعمةاللهثم ینکرونها ) تو آپ نے فرمایا:

”غدیر کے دن اسکو پہچانتے ہیں اور سقیفہ کے دن اسکا انکار کرتے ہیں “( ۱۳ )

طول تاریخ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے مقابلے میں منافقوں کے اقدامات کو مد نظر رکھ کر خداوند متعال کے اس کلام کی گھرائی کو معلوم کیا جاسکتاہے :

( لَوْاِجْتَمَعَ النَّاسُ کُلُّهُمْ عَلیٰ وِلَایَةِ عَلِیٍّ مَاخَلَقْتُ النَّارَ )

”اگر تمام لوگ ولایت علی پر متفق ہو جا تے تو میں آتش جہنم کو پیدا نہ کر تا “( ۱۴ )

غدیر میں منافقین کے اقوال

منافقوں نے غدیر کے دن کینہ اور حسد کی وجہ سے جو الفاظ کہے ان میںسے بعض اس وقت سے مر بوط ہیں جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خطبہ ارشاد فر ما رہے تھے ،خاص طور سے جس وقت آ پ امیر المومنینعليه‌السلام کے ھاتھوں کو بلند کرکے ان کا تعارف کرا رہے تھے ،بعض الفاظ اس پروگرام کے ختم ہوجانے کے بعد سے متعلق ہیں جب منافقین آپس میں جمع ہوکر ایک دوسرے کو اپنا درد دل سنا رہے تھے

خطبہ کے دوران ان کی گفتگوکے چندنمونے( ۱۵ )

وہ اپنے چچا زاد بھائی کے گرویدہ ہو گئے ہیں ۔

وہ اس جوان کے سلسلہ میںدھوکہ کھاگئے ہیں ۔

وہ اپنے چچازاد بھائی کے معاملہ کوعجب محکم اور مضبوط کر رہے ہیں ۔

ھم راضی نہیں ہیں ،اور یہ ایک تعصب ہے !

ھم ہر گز ان کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہو ں گے ۔

یہ امر خدا نہیں ہے وہ اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں !

ان کی آنکھوں کودیکھو(معاذاللہ)مثل دیوانوں کے گھوم رہی ہیں ۔

اگر اس میں طاقت و قدرت ہو تی تو قیصر و کسریٰ کی طرح کام کر تا !

خطبے کے بعد کی گفتگو کے چند نمونے( ۱۶ )

ھمارے سب منصوبے خاک میں مل گئے!

ھم ہر گز محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات کی تصدیق نہیں کریں گے اور علیعليه‌السلام کی ولایت کا اقرار نہیں کریں گے۔

ھمیں بھی علی کی ولایت میں شریک کرے تاکہ ہمارا بھی کچھ حصہ رہے ۔

وہ ابھی علیعليه‌السلام کو ہمارے اوپر مسلط کررہے ہیں لیکن خدا کی قسم بعد میں انکو معلوم ہوگا(کہ ہم نے کیا منصوبے بنا رکہے ہیں ۔)

۳ غدیر میںمنافقین کے عکس العمل کے واضح نمونے

منافقین کی مذکورہ گفتگو کے علاوہ ان کی رفتار وگفتار کے بعض دوسرے نمونہ درج ذیل ہیں

اب کہتاہے :میرے خدا نے ایسا کہا ہے !!

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب امیر المومنین کو غدیر کے دن (عھدہ امامت پر)منصوب کیااور ان کا تعارف کرایا تو ان کے سامنے منافقوں کے یہ سات آدمی بیٹہے ہوئے تھے : ابوبکر،عمر، عبدالرحمن بن عوف،سعد بن ابی وقاص، ابو عبیدہ بن جراح ،سالم مولی ابی حذیفہ اور مغیر ہ بن شعبہ۔

ان میں سے عمر نے کھا:

اسکو نہیں دیکھتے کہ اس کی آنکہیں مجنون کی طرح گھوم رہی ہیں ؟!اب وہ کہتا ہے :

میرے خدا نے ایسا کہا ہے !( ۱۷ )

ھم تصدیق نہیں کریںگے ۔۔۔اقرار نہیں کریں گے!

حذیفہ کا بیان ہے :معاویہ غدیر کے دن امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے منصوب ہونے کے بعد غضب و غصّہ کی حالت میں اٹھااور تکبر سے اپنادایاں ہاتھ ابوموسیٰ اشعری اور بایاں ہاتھ مغیرہ بن شعبہ کے کاندہے پر رکھ کر آگے بڑھتے ہوئے کہنے لگا:

”ھم محمد کی اس بات کی تصدیق نہیں کرتے اورعلی کی ولایت کا اقرار نہیں کرتے۔۔۔“

خداوند متعال نے یہ آیت اسکے بارے میں نازل کی:

( فَلَاصَدَّقَ وَلَاصَلیّٰ وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّیٰ ثُمَّ ذَهَبَ اِلیٰ اَهْلِهِ یَتَمَطّیٰ ) ( ۱۸ )

”اس نے نہ کلام خدا کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔بلکہ تکذیب کی اور منھ پھیر لیا۔پھر اپنے اہل کی طرف اکڑتا ہوا گیا۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسکو واپس بلا کر قتل کرنا چاہتے تھے کہ آیت نازل ہوئی:

( لَاتُحَرِّکْ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ ) ( ۱۹ )

”دیکھئے آپ قرآن کی تلا وت میںعجلت کے ساتھ زبان کو حرکت نہ دیں“

اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صبر کرنے پر مامور ہوئے۔( ۲۰ )

کاش اس سوسمارکو۔۔۔؟

جب غدیر کا واقعہ رونماہوا تومنافقین لگے”ہماری ساری تدبیر ےںفیل ہوگئیں“جب سب لوگ متفرق ہوگئے تو منافقین جمع ہوئے اور اس واقعہ پر افسوس کرنے لگے اتنے میں ایک (سوسمار) ان کے پاس سے گزرا تو آپس میں کہنے لگے:

کاش محمد نے اس سوسمار کو ۔۔۔ہماراامام بنادیا ہوتا!!

ابوذر نے اس بات کو سن لیا انھوں نے پیغمبر کو بتایا ۔جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان منافقین کو حاضر کیا تو سب جھوٹی قسمیں کھانے لگے تو آپ نے فرمایا:

”جبرئیل نے مجہے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن ایک ایسی قوم کو لایا جائے گا جس کا امام سوسمار ہوگا:خبردار کہ وہ تم نہ ہو!!( ۲۱ )

____________________

[۱] بحا رالانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۲۱۔

[۲] بحار الانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۲۰ ،۱۶۸۔عوالم :جلد۱۵/۳صفحہ ۱۲۵،۱۳۵۔

[۳] روضہ کافی صفحہ ۳۴۴ حدیث ۵۴۲۔اس آخری حدیث کا عربی متن اس طرح ہے :لَا یُطَاعُ اللّٰهُ حتیّٰ یَقُوْمَ الْاِمَامُ “اس جملہ کے معنی میں دو احتمال پائے جا تے ہیں :

الف:جب تک امام حق امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہ لے خدا کی اطاعت نہیں ہو سکتی ہے ۔

ب:جب تک امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف قیام نہ کریں خدا کی مکمل طور پر اطاعت نہیں ہو سکتی ۔

[۴] سورہ سباآیت/۲۰۔

[۵] سورہ حجر آیت/۴۲۔

[۶] بحارالانوار جلد ۳۷صفحہ۱۶۴،۱۶۵۔

[۷] بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۳۵۔عوالم :جلد ۱۵/۳صفحہ ۳۰۳۔

[۸] کتاب سلیم حدیث۵۷۹۔روضہ کافی صفحہ ۳۴۳حدیث ۵۴۱۔

[۹] بحار الانوار جلد ۱۷صفحہ ۲۹،جلد ۲۸صفحہ ۱۸۶،جلد۳۶ صفحہ ۱۵۳،جلد ۳۷صفحہ ۱۱۴،۱۳۵۔کتاب سلیم: ۸۱۷ حدیث ۳۷۔ عوالم ۱۵/۳صفحہ ۱۶۴۔

[۱۰] بحا رالانوار جلد ۲۸صفحہ ۹۹۔۱۰۰،جلد ۳۷ صفحہ ۱۱۵،۱۳۵۔عوالم:جلد ۱۵/۳صفحہ ۳۰۴۔اقبال الاعمال:صفحہ ۴۵۸ ۔ تبوک میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کی سازش کے سلسلہ میں :بحارالانوار جلد ۲۱صفحہ ۱۸۵تا ۲۵۲۔

[۱۱] بحار الانوارجلد ۲۸صفحہ۱۰۲۔۱۱۱

[۱۲] بحار الانوارجلد ۲۸صفحہ۱۰۷۔ ۱۰۸

[۱۳] اثبات الھدات جلد صفحہ ۱۶۴حدیث۷۳۶۔

[۱۴] بحارالانوارجلد ۳۹صفحہ۲۴۷۔

[۱۵] بحارالانوارجلد۳۷صفحہ ۱۱۱،۱۳۹،۱۵۴،۱۶۰،۱۷۲،۱۷۳۔

[۱۶] بحارالانوارجلد ۳۷صفحہ۱۵۴،۱۶۰،۱۶۱،۱۶۲۔

[۱۷] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۱۳۴۔

[۱۸] سورہ قیامت آیت /۳۱۔۳۴۔

[۱۹] سورہ قیامت آیت/ ۱۶۔

[۲۰] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۹۶،۹۷،۱۲۵۔

[۲۱] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۱۶۳۔بحارالانوارجلد ۳۷صفحہ۱۶۳۔