اسرار غدیر

اسرار غدیر16%

اسرار غدیر مؤلف:
زمرہ جات: امامت

اسرار غدیر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27623 / ڈاؤنلوڈ: 5889
سائز سائز سائز
اسرار غدیر

اسرار غدیر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

خطبہ غدیر کااردو ترجمہ

غدیر خم میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطبہ کا کامل متن

اردو ترجمہ

خدا کی حمد و ثنا

ساری تعریف اس اللہ کےلئے ہے جو اپنی یکتائی میں بلند اور اپنی انفرادی شان کے باوجود قریب ہے( ۱ ) وہ سلطنت کے اعتبار سے جلیل اور ارکان کے اعتبار سے عظیم ہے وہ اپنی منزل پر رہ کر بھی اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کےے ہوئے ہے اور اپنی قدرت اور اپنے برھان کی بناء پر تمام مخلوقات کو قبضہ میں رکہے ہوئے ہے ۔( ۲ )

وہ ہمیشہ سے قابل حمد تھااور ہمیشہ قابل حمد رہے گا ،وہ ہمیشہ سے بزرگ ہے وہ ابتدا کرنے والا دوسرے :خداوند عالم کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہو ئے ہے درحالیکہ خداوند عالم اپنے مکان میں ہے ۔البتہ خداوند عالم کےلئے مکان کا تصور نہیں کیا جا سکتا ،پس اس سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم تمام مو جودات پر اس طرح احاطہ کئے ہوئے ہے کہ اس کے علم کےلئے رفت و آمد اور کسب کی ضرورت نہیں ہے ۔

ہے وہ پلٹانے والاہے اور ہر کام کی باز گشت اسی کی طرف ہے بلندیوں کا پیدا کرنے والا ،فرش زمین کابچھانے والا،آسمان و زمین پر اختیار رکھنے والا ، پاک ومنزہ ،پاکیزہ( ۳ ) ،ملائکہ اور روح کا پروردگار، تمام مخلوقات پر فضل وکرم کرنے والا اور تمام موجودات پر مھربانی کرنے والا ہے وہ ہر آنکھ کو دیکھتا ہے( ۴ ) اگر چہ کوئی آنکھ اسے نہیں دیکھتی ۔

وہ صاحب حلم وکرم اوربردبار ہے ،اسکی رحمت ہر شے کااحاطہ کئے ہوئے ہے اور اسکی نعمت کا ہر شے پراحسان ہے انتقام میں جلدی نہیں کرتا اور مستحقین عذاب کو عذاب دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا ۔

اسرارکو جانتا ہے اور ضمیروں سے باخبر ہے ،پوشیدہ چیزیں اس پر مخفی نہیں رہتیں ،اور مخفی امور اس پر مشتبہ نہیں ہوتے ،وہ ہر شے پر محیط اور ہر چیز پر غالب ہے ،اسکی قوت ہر شے میں اسکی قدرت ہر چیز پر ہے ،وہ بے مثل ہے اس نے شے کو اس وقت وجود بخشا جب کو ئی چیز نہیں تھی اوروہ زندہ ہے ،( ۵ ) ہمیشہ رہنے والا،انصاف کرنے والا ہے ،اسکے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ،وہ عزیز و حکیم ہے ۔

نگاہوں کی رسائی سے بالاتر ہے اور ہر نگاہ کو اپنی نظر میں رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی کوئی شخص اسکے وصف کو پا نہیں سکتا اور کوئی اسکے ظاہر وباطن کی کیفیت کا ادراک نہیں کرسکتا مگر اتنا ہی جتنا اس نے خود بتادیا ہے ۔

میں گواھی دیتا ہوں کہ وہ ایسا خدا ہے جس کی پاکی و پاکیزگی کا زمانہ پر محیط اور جسکا نور ابدی ہے

اسکا حکم کسی مشیر کے مشورے کے بغیر نافذہے ،اور نہ ہی اس کی تقدیرمیں کوئی اسکا شریک ہے ،اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی فرق ہے ۔( ۶ )

جو کچھ بنایا وہ بغیر کسی نمونہ کے بنایا اور جسے بھی خلق کیا بغیر کسی کی اعانت یا فکر ونظر( ۷ ) کی زحمتکے بنایا ۔جسے بنایا وہ بن گیا( ۸ ) اور جسے خلق کیا وہ خلق ہوگیا ۔وہ خدا ہے لا شریک ہے جس کی صنعت محکم اور جس کا سلوک بہترین ہے ۔وہ ایسا عادل ہے جو ظلم نہیں کرتااور ایسا کرم کرنے والا ہے کہ تمام کام اسی کی طرف پلٹتے ہیں ۔

میں گو اھی دیتا ہوں کہ وہ ایسا بزرگ و برتر ہے کہ ہر شے اسکی قدرت کے سامنے متواضع ، تمام چیزیں اس کی عزت کے سا منے ذلیل ،تمام چیزیں اس کی قدرت کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہو ئے ہیں اور ہر چیز اسکی ھیبت کے سامنے خاضع ہے ۔

وہ تمام بادشاہوں کا بادشاہ( ۹ ) ،تمام آسمانوں کا خالق ،شمس و قمر پر اختیاررکھنے والا ،یہ تمام معین وقت پرحرکت کر رہے ہیں ،دن کو رات اور رات کو دن پر پلٹانے والا( ۱۰ ) ہے کہ دن بڑی تیزی کے ساتھ اس کا پیچھا کرتا ہے ،ھرمعاندظالم کی کمر توڑنے والا اورھرسرکش شیطان کو ھلاک کرنے والا ہے ۔

نہ اس کی کوئی ضد ہے نہ مثل،وہ یکتا ہے بے نیاز ہے ،نہ اسکا کوئی باپ ہے نہ بیٹا ،نہ ھمسر۔ وہ خدائے واحد اور رب مجید ہے ،جو چاہتا ہے کرگزرتا ہے جوارادہ کرتا ہے پور ا کردیتا ہے وہ جانتا ہے پس احصا کر لیتاہے ،موت وحیات کا مالک،فقر وغنا کا صاحب اختیار ،ہنسانے والا، رلانے والا،قریب کرنے والا ،دور ہٹادینے والا( ۱۱ ) عطا کرنے والا( ۱۲ ) ،روک لینے والا ہے ، ملک اسی کے لئے ہے اور حمد اسی کے لئے زیبا ہے اورخیر اسکے قبضہ میں ہے ۔وہ ہر شے پر قادر ہے ۔

رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے ۔( ۱۳ ) اس عزیزو غفار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ،وہ دعاؤں کا قبول کرنے والا، بکثرت عطا کرنے والا،سانسوں کا شمار کرنے والا اور انسان و جنات کا پروردگار ہے ،اسکے لئے کوئی شے مشتبہ نہیں ہے ۔( ۱۴ ) وہ فریادیوں کی فریاد سے پریشان نہیں ہوتا ہے اور اسکو گڑگڑانے والوں کا اصرار خستہ حال نہیں کرتا ،نیک کرداروں کا بچانے والا ، طالبان فلاح کو توفیق دینے والامو منین کا مولا اور عالمین کا پالنے والاہے ۔اسکا ہر مخلوق پر یہ حق ہے کہ وہ ہر حال میں اسکی حمد وثنا کرے ۔

ھم اس کی بے نھایت حمد کرتے ہیں اورھمیشہ خوشی ،غمی،سختی اور آسائش میں اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ،میں اس پر اور اسکے ملائکہ ،اس کے رسولوں اور اسکی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں،اسکے حکم کو سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں ،اسکی مرضی کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اسکے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوں( ۱۵ ) چونکہ اسکی اطاعت میں رغبت ہے اور اس کے عتاب کے خوف کی بناء پر کہ نہ کوئی اسکی تدبیر سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی کو اسکے ظلم کا خطرہ ہے ۔

۲ ایک اہم مطلب کے لئے خداوند عالم کا فرمان

میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا ہوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا ہوں کہیں ایسا نہ ہوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل ہوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ ہواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ہے ۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجہے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاہے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ہے اور خدا ہمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ہے ۔

اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ہے :( بِسم اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ،یٰاایُّهَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰااُنزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَبِّکَ( فی عَلِیٍّ یَعْنی فِی الْخِلاٰفَةِلِعَلِیِّ بْنِ ابی طٰالِبٍ) وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رِسٰالَتَهُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّٰاسِ ) ( ۱۶ )

”اے رسول!جوحکم تمھاری طرف علیعليه‌السلام (یعنی علی بن ابی طالب کی خلافت )کے بارے میں نازل کیاگیا ہے ،اسے پہنچادو،اوراگرتم نے ایسانہ کیا( ۱۷ ) تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اوراللہ تمہیں لوگوںکے شرسے محفوظ رکہے گا “

ایھا الناس! میں نے حکم کی تعمیل میں کوئی کوتا ہی نہیں کی اور میں اس آیت کے نازل ہونے کا سبب واضح کردینا چاہتا ہوں :

جبرئیل تین بار میرے پاس خداوندِسلام( ۱۸ ) پروردگار(کہ وہ سلام ہے )کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پرٹھھر کر سفیدوسیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالبعليه‌السلام میرے بھائی ،وصی،جانشین اور میرے بعد امام ہیں ان کی منزل میرے لئے ویسی ہی ہے جیسے موسیٰ کےلئے ھارون کی تھی ۔فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا،وہ اللہ و رسول کے بعد تمھارے حاکم ہیں اور اس سلسلہ میں خدا نے اپنی کتاب میں مجھ پریہ آیت نازل کی ہے :

( اِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلاٰةَوَیُوتُوْنَ الزَّکٰاةَ وَهُمْ رٰاکِعُونَ ) ( ۱۹ )

”بس تمھارا ولی اللہہے اوراسکارسول اوروہ صاحبان ایمان جونمازقائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میںزکوٰةادا کرتے ہیں “علی بن ابی طالبعليه‌السلام نے نماز قائم کی ہے اور حالت رکوع میں زکوٰةدی ہے وہ ہر حال میں رضا ء الٰہی کے طلب گار ہیں ۔( ۲۰ )

میں نے جبرئیل کے ذریعہ خدا سے یہ گذارش کی کہ مجہے اس وقت تمھارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ میں متقین کی قلت اور منافقین کی کثرت ،فساد برپاکرنے والے ،ملامت کرنے والے اور اسلا م کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاریوںسے با خبرہوں ،جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ہے کہ”یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے ،اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ پروردگارکے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے “۔اسی طرح( ۲۱ ) منافقین نے بارھا مجہے اذیت پہنچائی ہے یھاں تک کہ وہ مجہے ”اُذُنْ “”ھر با ت پرکان دھرنے والا“کہنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ہی ہوںچونکہ اس (علی )کے ہمیشہ میرے ساتھ رہنے،اس کی طرف متوجہ رہنے،اور اس کے مجہے قبول کرنے کی وجہ سے یھاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ میں آیت نازل کی ہے :

( وَمِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیَقُوْلُوْنَ هُوَاُذُنٌ،قُلْ اُذُنُ )عَلَی الَّذِیْنَ یَزْعَمُوْنَ اَنَّهُ اُذُنٌ-(خَیْرٍلَکُمْ،یُومِنُ بِاللّٰهِ وَ یُومِنُ لِلْمُومِنِیْنَ ) ( ۲۲ )

اس مقام پر یہ بات بیان کردینا ضروری ہے کہ”یُومِنُ بِاللّٰهِ “ اللہ ”باء “ کے ساتھ اور”یُومِنُ لِلْمُومِنِیْنَ ‘مو منین ”لام کے ساتھ ان دونوں میں یہ فرق ہے کہ پہلے کا مطلب تصدیق کرنا اور دوسرے کا مطلب تواضع اور احترام کا اظھار کرنا ہے ۔

”اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو رسول کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بس کان ہی (کان) ہیں (اے رسول )تم کھدوکہ (کان تو ہیں مگر)تمھاری بھلائی (سننے )کے کان ہیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مو منین( کی باتوں) کا یقین رکھتے ہیں “( ۲۳ )

ورنہ میں چاہوں تو ”اُذُنْ “کہنے والوں م یںسے ایک ایک کا نام بھی بتاسکتا ہوں،اگر میں چاہوں تو ان کی طرف اشارہ کرسکتا ہوں اور اگرچا ہوں توتمام نشانیوں کے ساتھ ان کاتعارف بھی کراسکتا ہوں ،لیکن میں ان معاملات میں کرم اور بزرگی سے کام لیتا ہوں ۔( ۲۴ )

لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرضی خدا یھی ہے کہ میں اس حکم کی تبلیغ کردوں۔

اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس آیت کی تلا وت فرما ئی :

( یٰاایُّهَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰااُنزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَبِّک (فِیْ حَقِّ عَلِیْ )وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رِسٰالَتَهُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّٰاسِ ) ( ۲۵ )

”اے رسول!جوحکم تمھاری طرف علیعليه‌السلام کے سلسلہ میں نازل کیاگیا ہے ،اسے پہنچادو،اوراگرتم نے ایسانہ کیاتورسالت کی تبلیغ نہیں کی اوراللہ تمہیں لوگوںکے شرسے محفوظ رکہے گا “

۳ بارہ اماموں کی امامت اور ولایت کا قانونی اعلان

لوگو! جان لو(اس سلسلہ میںخبر دار رہواس کو سمجھواور مطلع ہوجاؤ) ہوکہ اللہ نے علی کو تمھارا ولی اور امام بنادیا ہے اور ان کی اطاعت کو تمام مھاجرین ،انصار اورنیکی میں ان کے تابعین اور ہر شھری، دیھاتی، عجمی، عربی، آزاد، غلام، صغیر، کبیر، سیاہ، سفید پر واجب کردیا ہے ۔ہر توحید پرست( ۲۶ ) کیلئے ان کا حکم جاری،ان کا امر نافذ اور ان کا قول قابل اطاعت ہے ،ان کا مخالف ملعون اور ان کا پیرو مستحق رحمت ہے ۔( ۲۷ ) جو ان کی تصدیق کرے گا اور ان کی بات سن کر اطاعت کرے گا اللہ اسکے گناہوں کو بخش دے گا

ایھا الناس ! یہ اس مقام پر میرا آخری قیام ہے لہٰذا میری بات سنو ، اور اطاعت کرو اور اپنے پر ور دگار کے حکم کو تسلیم کرو ۔ اللہ تمھارا رب ، ولی اور پرور دگار ہے اور اس کے بعد اس کا رسول محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمھارا حاکم ہے جو آج تم سے خطاب کر رہا ہے ۔( ۲۸ ) اس کے بعد علی تمھارا ولی اور بحکم خدا تمھارا امام ہے اس کے بعد امامت میری ذریت اور اس کی اولاد میں تمھارے خدا و رسول سے ملاقات کے دن تک با قی رہے گی ۔

حلال وھی ہے جس کو اللہ ،رسول اور انھوں(بارہ ائمہ )نے حلال کیا ہے اور حرام وھی ہے جس کو اللہ،رسول اور ان بارہ اماموں نے تم پر حرام کیا ہے ۔ اللہ نے مجہے حرام و حلال کی تعلیم دی ہے اور اس نے اپنی کتاب اور حلال و حرام میں سے جس چیز کا مجہے علم دیا تھا وہ سب میں نے اس( علیعليه‌السلام )کے حوالہ کر دیا ۔

ایھا الناس علیعليه‌السلام کو دوسروں پر فضیلت دو خداوندعالم نے ہر علم کا احصاء ان میں کر دیا ہے اور کو ئی علم ایسا نہیں ہے جو اللہ نے مجہے عطا نہ کیا ہو اور جو کچھ خدا نے مجہے عطا کیا تھا سب میں نے علیعليه‌السلام کے حوالہ کر دیا ہے ۔( ۲۹ ) وہ امام مبین ہیں اور خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :

( وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنَاهُ فِیْ اِمَامٍ مُبِیْنٍ ) ( ۳۰ ) ”ھم نے ہر چیز کا احصاء امام مبین میں کردیا ہے “

ایھا لناس ! علیعليه‌السلام سے بھٹک نہ جانا ، ان سے بیزار نہ ہو جانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دیناکہ وھی حق کی طرف ھدا یت کر نے والے ،حق پر عمل کر نے والے ، باطل کو فنا کر دینے والے اور اس سے روکنے والے ہیں ،انہیں اس راہ میں کسی ملامت کر نے والے کی ملامت کی پروانہیں ہوتی ۔

وہ سب سے پہلے اللہ و رسول پر ایمان لا ئے اور اپنے جی جا ن سے رسول پرقربان تھے وہ اس وقت رسول کے ساتھ تھے جب لوگوں میں سے ان کے علا وہ کوئی عبادت خدا کر نے والا نہ تھا(انھوں نے لوگوں میں سب سے پہلے نماز قائم کی اور میرے ساتھ خدا کی عبادت کی ہے میں نے خداوند عالم کی طرف سے ان کو اپنے بستر پر لیٹنے کا حکم دیاتو وہ بھی اپنی جان فدا کرتے ہو ئے میرے بستر پر سو گئے ۔

ایھا الناس ! انہیں افضل قرار دو کہ انہیں اللہ نے فضیلت دی ہے اور انہیں قبول کرو کہ انہیں اللہ نے امام بنا یا ہے ۔

ایھا الناس ! وہ اللہ کی طرف سے امام ہیں( ۳۱ ) اور جو ان کی ولایت کا انکار کرے گا نہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور نہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ہے بلکہ اللہ یقینااس امر پر مخالفت کر نے والے کے ساتھ ایسا کرے گااور اسے ہمیشہ ھمیشہ کےلئے بدترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ لہٰذا تم ان کی مخالفت( ۳۲ ) سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہنم میں داخل ہو جا و جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جس کو کفار کےلئے مھیا کیا گیا ہے ۔

ایھا الناس ! خدا کی قسم تمام انبیاء علیھم السلام و مرسلین نے مجہے بشارت دی ہے اور میں خاتم الانبیاء والمر سلین اور زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کےلئے حجت پر ور دگار ہوں جو اس بات میں شک کرے گا وہ گذشتہ زمانہ جا ہلیت جیسا کا فر ہو جا ئے گا اور جس نے میری کسی ایک بات میں بھی شک کیا اس نے گویا تمام باتوں کو مشکوک قرار دیدیا اورجس نے ہمارے کسی ایک امام کے سلسلہ میں شک کیااس نے تمام اماموںکے بارے میں شک کیااور ہمارے بارے میں شک کرنے والے کا انجام جہنم ہے ۔( ۳۳ )

اس بات کا بیان کردینا بھی ضروری ہے کہ شاید ”جا ہلیت اول کے کفر“ سے دور جاہلیت کے کفر کے درجہ میں سے شدیدترین درجہ ہے ۔

ایھا الناس ! اللہ نے جو مجہے یہ فضیلت عطا کی ہے یہ اس کا کرم اور احسان ہے ۔ اس کے علا وہ کو ئی خدا نہیں ہے اور وہ میری طرف سے تا ابد اور ہر حال میں اسکی حمدو سپاس ہے ۔

ایھا الناس ! علیعليه‌السلام کی فضیلت( ۳۴ ) کا اقرار کرو کہ وہ میرے بعد ہر مرد و زن سے افضل و بر تر ہے جب تک اللہ رزق نا زل کررھا ہے اور اس کی مخلو ق با قی ہے ۔ جو میر ی اس بات کو رد کرے اور اس کی موافقت نہ کرے وہ ملعون ہے ملعون ہے اور مغضوب ہے مغضوب ہے ۔ جبرئیل نے مجہے یہ خبر دی ہے( ۳۵ ) کہ پر ور دگار کا ارشاد ہے کہ جو علی سے دشمنی کرے گا اور انہیں اپنا حاکم تسلیم نہ کر ے گا اس پر میری لعنت اور میرا غضب ہے ۔لہٰذا ہر شخص کو یہ دیکھنا چا ہئے کہ اس نے کل کےلئے کیا مھیا کیا ہے ۔اس کی مخالفت کرتے وقت اللہ سے ڈرو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ حق سے قدم پھسل جا ئیں اور اللہ تمھا رے اعمال سے با خبر ہے ۔

ایھا الناس ! علیعليه‌السلام وہ جنب اللہ( ۳۶ ) ہیں جن کاخداوند عالم نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے والے کے با رے میں فرمایا ہے :( اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یَاحَسْرَتَاعَلیٰ مَافَرَّطَّتُ فِیْ جَنْبِ اللّٰهِ ) ( ۳۷ ) ھائے افسوس کہ م یں نے جنب خداکے حق میں بڑی کو تا ہی کی ہے “

ایھا الناس ! قر آن میں فکر کرو ، اس کی آیات کو سمجھو ، محکمات میں غوروفکر کرو اور متشابھات کے پیچہے نہ پڑو ۔ خدا کی قسم قر آن مجید کے باطن اور اس کی تفسیر( ۳۸ ) کو اس کے علاوہ اور کو ئی واضح نہ کرسکے گا۔( ۳۹ )

جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا بازو تھام کر میں نے بلند کیا ہے اور جس کے بارے میں یہ بتا رہا ہوں کہ جس کا میں مو لا ہوں اس کا یہ علیعليه‌السلام مو لا ہے ۔ یہ علی بن ابی طالبعليه‌السلام میرا بھائی ہے اور وصی بھی ۔ اس کی ولایت کا حکم اللہ کی طرف سے ہے جو مجھ پر نا زل ہوا ہے ۔

ایھا الناس ! علیعليه‌السلام اوران کی نسل سے میری پاکیزہ اولاد ثقل اصغر ہیں اور قرآن ثقل اکبر ہے( ۴۰ ) ان میں سے ہر ایک دوسرے کی خبر دیتا ہے اور اس سے جدا نہ ہوگا یھاں تک کہ دونوں حوض کو ثر پر وارد ہوں گے جان لو! میرے یہ فرزند مخلوقات میں خدا کے امین اور زمین میں خدا کے حکام ہیں ۔( ۴۱ )

آگاہ ہو جاو میں نے میں نے اداکر دیا میں نے پیغام کو پہنچا دیا ۔میں نے بات سنا دی، میں نے حق کو واضح کر دیا،( ۴۲ ) آگاہ ہو جا و جو اللہ نے کہا وہ میں نے دھرا دیا۔ پھر آگاہ ہو جاو کہ امیر المو منین میرے اس بھا ئی کے علاوہ کو ئی نہیں ہے( ۴۳ ) اور اس کے علاوہ یہ منصب کسی کےلئے سزا وار نہیں ہے ۔

۴ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ھاتھوں پر امیرا لمومنین علیہ السلام کا تعارف

(اس کے بعد علیعليه‌السلام کو اپنے ھا تھوں پرپازوپکڑکر بلند کیا یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت علی علیہ السلام منبر پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک زینہ نیچے کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دائیں طرف ما ئل تھے گویا دونوں ایک ہی مقام پر کھڑے ہو ئے ہیں ۔

اس کے بعد پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک سے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کیا اور ان کے دونوں ھاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایااورعلیعليه‌السلام کو اتنابلند کیا کہ آپعليه‌السلام کے قدم مبارک آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھٹنوں کے برابر آگئے۔( ۴۴ ) اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فر مایا :

ایھا الناس !یہ علیعليه‌السلام میرا بھائی اور وصی اور میرے علم کا مخزن( ۴۵ ) اورمیری امت میں سے مجھ پر ایمان لانے والوںکے لئے میرا خلیفہ ہے اور کتاب خدا کی تفسیر کی رو سے بھی میرا جانشین ہے یہ خدا کی طرف دعوت دینے والا ،اس کی مر ضی کے مطابق عمل کر نے والا ،اس کے دشمنوں سے جھاد کر نے والا، اس کی اطاعت( ۴۶ ) ۔ پر ساتھ دینے والا ، اس کی معصیت سے رو کنے والا ۔

یہ اس کے رسول کا جا نشین اور مو منین کا امیر ،ہدایت کرنے والاامام ہے اورناکثین( بیعت شکن ) قاسطین (ظالم) اور مارقین (خا رجی افرا( ۴۷ ) سے جھاد کر نے والا ہے ۔

خداوند عالم فر ماتا ہے :( مٰایُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ ) ( ۴۸ ) ”میرے پاس بات میں تبدیلی نہیں ہو تی ہے “ خدایا تیرے حکم سے کہہ رہا ہوں( ۴۹ ) ۔خدا یا علیعليه‌السلام کے دوست کو دوست رکھنا اور علیعليه‌السلام کے دشمن کو دشمن قرار دینا ،جو علیعليه‌السلام کی مدد کرے اس کی مدد کرنا اور جو علیعليه‌السلام کو ذلیل و رسوا کرے تو اس کو ذلیل و رسوا کرناان کے منکر پر لعنت کر نا اور ان کے حق کا انکارکر نے والے پر غضب نا زل کرنا ۔

پر ور دگا را ! تو نے اس مطلب کو بیان کرتے وقت اور آج کے دن علیعليه‌السلام کو تاج ولایت پہناتے وقت علیعليه‌السلام کے بارے میں یہ آیت نازل فر ما ئی:

( الْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَاتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضیتُ لَکُمْ الاِسْلاٰمَ دیناً ) ( ۵۰ )

”آج میںنے دین کو کا مل کر دیا ،نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیدیا“

( وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالاِسْلاٰمِ دیناًفَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَفِی الْآخِرَةِمِنَ الْخاسِرینَ ) ( ۵۱ )

”اور جو اسلام کے علاوہ کو ئی دین تلاش کر ے گا وہ دین قبول نہ کیا جا ئے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں ہو گا “

پرور دگارا میں تجہے گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی ۔( ۵۲ )

۵ مسئلہ امامت پر امت کی توجہ پر زور دینا

ایھا الناس !اللہ نے دین کی تکمیل علیعليه‌السلام کی امامت سے کی ہے ۔لہٰذا جو علیعليه‌السلام اور ان کے صلب سے آنے والی میری اولاد کی امامت کا اقرار نہ کرے گا ۔اس کے دنیا و آخرت کے تمام اعمال بر باد ہو جا ئیں گے( ۵۳ ) وہ جہنم میں ہمیشہ ھمیشہ رہے گا ۔ ایسے لوگوں کے عذاب میں کو ئی تخفیف نہ ہو گی اور نہ انہیں مھلت دی جا ئے گی ۔

ایھا الناس ! یہ علیعليه‌السلام ہے تم میں سب سے زیادہ میری مدد کر نے والا ، تم میں سے میرے سب سے زیادہ قریب تر اور میری نگاہ میں عزیز تر ہے ۔اللہ اور میں دونوں اس سے را ضی ہیں ۔قرآن کریم میں جو بھی رضا کی آیت ہے وہ اسی کے با رے میں ہے اور جھاں بھی یا ایھا الذین آ منوا کہا گیا ہے اس کا پہلا مخا طب یھی ہے قرآن میںھر آیت مدح اسی کے با رے میں ہے ۔ سورہ ھل اتیٰ میں جنت کی شھا دت صرف اسی( ۵۴ ) کے حق میں دی گئی ہے اور یہ سورہ اس کے علا وہ کسی غیر کی مدح میں نا زل نہیں ہوا ہے ۔

ایھا الناس ! یہ دین خدا کا مدد گار ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۵۵ ) سے دفاع کر نے والا ، متقی ، پا کیزہ صفت ، ھا دی اور مھدی ہے ۔تمھارا نبی سب سے بہترین نبی اور اس کا وصی بہترین وصی ہے اور اس کی اولاد بہترین او صیاء ہیں ۔

ایھا الناس !ھر نبی کی ذریت اس کے صلب سے ہو تی ہے اور میری ذریت علیعليه‌السلام کے صلب سے ہے

ایھا الناس ! ابلیس نے حسد کر کے آدم کو جنت سے نکلوادیا لہٰذا خبر دار تم علی سے حسد نہ کرنا کہ تمھارے اعمال برباد ہو جا ئیں ،اور تمھا رے قد موں میں لغزش پیدا ہو جا ئے ،آدم صفی اللہ ہو نے کے با وجود ایک ترک او لیٰ پر زمین میں بھیج دئے گئے تو تم کیا ہو اور تمھاری( ۵۶ ) کیا حقیقت ہے ۔تم میں دشمنان خدا بھی پا ئے جا تے ہیں( ۵۷ ) یاد رکھو علی کا دشمن صرف شقی ہو گا اور علی کا دوست صرف تقی ہو گا اس پر ایمان رکھنے والاصرف مو من مخلص ہی ہو سکتا ہے اور خدا کی قسم علیعليه‌السلام کے با رے میںھی سورہ عصر نا زل ہوا ہے ۔

( بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْر ) ( ۵۸ )

”بنام خدائے رحمان و رحیم ۔قسم ہے عصر کی ،بیشک انسان خسارہ میں ہے “مگر علیعليه‌السلام جو ایمان لا ئے اور حق اور صبر پر راضی ہو ئے ۔

ایھا الناس !میں نے خدا کو گواہ بناکر اپنے پیغام کو پہنچا دیا اور رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ایھا الناس !اللہ سے ڈرو ،جو ڈرنے کا حق ہے اور خبر دار !اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک اس کے اطاعت گذار نہ ہو جا ؤ ۔

۶ منافقوں کی کار شکنیوں کی طرف اشارہ

ایھا الناس !”اللہ ، اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس نور پر ایمان لا و جو اس کے ساتھ نا زل کیا گیا ہے ۔قبل اس کے کہ خدا کچھ چھروں کو بگا ڑ کر انہیں پشت کی طرف پھیر دے یا ان پر اصحاب سبت کی طرح لعنت کرے “( ۵۹ )

جملہ ” جو شخص اپنے دل میں علیعليه‌السلام سے محبت اور بغض کے مطابق عمل کرتا ہے “کی آٹھویں حصہ کے دوسرے جزء میں وضاحت کی جا ئے گی ۔

خدا کی قسم اس آیت سے میرے اصحاب کی ایک قوم کا قصد کیا گیا ہے کہ جن کے نام و نسب سے میں آشنا ہوں لیکن مجہے ان سے پردہ پوشی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔پس ہر انسان اپنے دل میں حضرت علی علیہ السلام کی محبت یا بغض کے مطابق عمل کرتاہے ۔

ایھا الناس !نور کی پہلی منزل میں ہوں( ۶۰ ) میرے بعد علیعليه‌السلام اور ان کے بعد ان کی نسل ہے اور یہ سلسلہ ا س مھدی قائم تک بر قرار رہے گاجو اللہ کاحق اورھما راحق حا صل کر ے گا( ۶۱ ) چو نکہ اللہ نے ہم کو تمام مقصرین ،معا ندین ،مخا لفین ،خا ئنین ،آثمین اور ظالمین کے مقابلہ میں اپنی حجت قرار دیا ہے ۔( ۶۲ )

ایھا الناس !میں تمہیں با خبر کرنا چا ہتا ہوں کہ میں تمھا رے لئے اللہ کا نما ئندہ ہوں جس سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں ۔ تو کیا میں مر جا وں یا قتل ہو جا ؤں تو تم اپنے پرا نے دین پر پلٹ جا و گے ؟ تو یاد رکھو جو پلٹ جا ئے گا وہ اللہ کا کو ئی نقصان نہیں کرے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دینے والا ہے ۔آگاہ ہو جا و کہ علیعليه‌السلام کے صبر و شکر کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بعد میری اولا د کو صابر و شاکر قرار دیا گیا ہے ۔جو ان کے صلب سے ہے ۔

ایھا الناس !مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھوبلکہ خدا پر بھی احسان نہ سمجھوکہ وہ تمھارے اعمال کو نیست و نابود کردے اور تم سے ناراض ہو جا ئے ،اور تمہیں آگ اور”پگھلے ہوئے “تانبے کے عذاب میں مبتلا کردے تمھارا پروردگار مسلسل تم کو نگاہ میں رکہے ہو ئے ہے ۔( ۶۳ )

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ”پھلے صحیفہ ملعونہ “کی طرف اشارہ فر مایا ہے جس پرمنافقین کے پانچ بڑے افراد نے حجة الوداع کے موقع پر کعبہ میں دستخط کئے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خلافت ان کے اہل بیت علیھم السلام تک نہیں پہنچنی چا ہئے اس سلسلہ میں اس کتاب کے تیسرے حصہ کے دوسرے جزء کی طرف رجوع کیجئے “

ایھا الناس !عنقریب میرے بعد ایسے امام آئیں گے جو جہنم کی دعوت دیں گے اور قیامت کے دن ان کا کو ئی مدد گار نہ ہو گا ۔اللہ اور میں دونوں ان لوگوں سے بیزار ہیں ۔

ایھا الناس !یہ لوگ اور ان کے اتباع و انصار سب جہنم کے پست ترین درجے میں ہو ں گے اور یہ متکبر لوگو ں کا بد ترین ٹھکانا ہے ۔آگاہ ہو جا و کہ یہ لوگ اصحاب صحیفہ( ۶۴ ) ہیں لہٰذاتم میں سے ہر ایک اپنے صحیفہ پر نظر رکہے ۔

راوی کہتا ہے :جس وقت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زبان مبارک سے ”صحیفہ ملعونہ “کا نام ادا کیا اکثر لوگ آپ کے اس کلام کا مقصد نہ سمجھ سکے اور اذھان میں سوال ابھر نے لگے صرف لوگوں کی قلیل جما عت آپ کے اس کلام کا مقصد سمجھ پائی ۔

ایھا الناس !آگاہ ہو جا و کہ میں خلافت کو امامت اوروراثت کے طورپر قیامت تک کےلئے اپنی اولاد میں امانت قرار دے کر جا رہا ہوں اور مجہے جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا میں نے اس کی تبلیغ کر دی ہے تا کہ ہر حا ضر و غائب ،مو جود و غیر مو جود ، مو لود و غیر مو لود سب پر حجت تمام ہو جا ئے ۔ اب حا ضر کا فریضہ ہے کہ قیامت تک اس پیغام کوغائب تک اورماں باپ اپنی اولاد کے حوالہ کر تے رہیں ۔

میرے بعد عنقریب لوگ اس امامت(خلافت) کو باشاہت سمجھ کرغصبی( ۶۵ ) غصب کرلیں گے ،خدا غا صبین اور تجاوز کرنے والوں پر لعنت کرے ۔یہ وہ وقت ہوگا جب (اے جن و انس( ۶۶ ) تم پر عذاب آئے گا آگ اور(پگھلے ہوئے) تانبے کے شعلے بر سا ئے جا ئیں گے جب کو ئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہو گا ۔( ۶۷ )

ایھا الناس !اللہ تم کو انہیں حالات میں نہ چھو ڑے گا جب تک خبیث اور طیب کو الگ الگ نہ کر ایھا الناس !کوئی قریہ( ۶۸ ) ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ (اس میں رہنے والوںکو آیات الٰہی کی تکذیب کی بنا پر) ھلا ک کر دےگااور اسے حضرت مھدی کی حکومت کے زیر سلطہ لے آئے گا یہ اللہ کا وعدہ ہے اوراللہ صا دق الوعد ہے ۔( ۶۹ )

ایھا الناس !تم سے پہلے اکثر لوگ ھلاک ہو چکے ہیں اور اللہ ہی نے ان لوگوں کو ھلاک کیا ہے( ۷۰ ) اور وھی بعد والوںکو ھلا ک کر نے والا ہے ۔خداوند عالم کا فرمان ہے :

( الَمْ نُهْلِکِ الْاوَّلینَ،ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْآخِرینَ،کَذٰلِکَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمینَ،وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبینَ ) ( ۷۱ )

”کیا ہم نے ان کے پہلے والوں کو ھلاک نہیں کردیا ہے پھر دوسرے لوگوں کو بھی انہیں کے پیچہے لگا دیں گے ہم مجرموں کے ساتھ اسی طرح کا بر تاو کرتے ہیں اور آج کے دن جھٹلانے والوں کے لئے بربادی ہی بربادی ہے “

ایھا الناس !اللہ نے مجہے امر و نھی کی ہدایت کی ہے اور میں نے اللہ کے حکم سے علیعليه‌السلام کوامر ونھی کیا ہے ۔ وہ امر و نھی الٰہی سے با خبر ہیں ۔( ۷۲ ) ان کے امر کی اطاعت کرو تاکہ سلا متی پا و ، ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پا و ان کے روکنے پر رک جا و تاکہ راہ راست پر آجا و ۔ان کی مر ضی پر چلو اور مختلف راستے تمہیں اس کی راہ سے منحرف کردیں گے ۔

۷ اہل بیت علیھم السلام کے پیرو کار اور ان کے دشمن

میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کی اتباع کا خدا نے حکم دیا ہے ۔( ۷۳ ) پھر میرے بعد علیعليه‌السلام ہیں اور ان کے بعد میری اولاد جو ان کے صلب سے ہے یہ سب وہ امام ہیں جو حق کے ساتھ ہدایت کر تے ہیں اور حق کے ساتھ انصاف کر تے ہیں ۔

اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس طرح فرمایا :( بسم الله الرحمٰن الرحیم، الحمد لله رب العا لمین ) سورہ الحمد کی تلاوت کے بعد آپ نے اس طرح فرمایا :

خدا کی قسم یہ سورہ میرے اور میری اولاد کے با رے میں نا زل ہوا ہے ، اس میں اولاد کےلئے عمو میت بھی ہے اور اولاد کے ساتھ خصوصیت بھی ہے ۔( ۷۴ ) یھی خدا کے دوست ہیں جن کےلئے نہ کوئی خو ف ہے اور نہ کو ئی حزن ! یہ حزب اللہ ہیں جو ہمیشہ غالب رہنے والے ہیں ۔

آگاہ ہو جا و کہ دشمنان علی ہی اہل تفرقہ ، اہل تعدی اور برادران شیطان ہیں جواباطیل کوخواھشات نفسانی کی وجہ سے ایک دوسرے تک پہونچا تے ہیں ۔( ۷۵ )

آگاہ ہو جا و کہ ان کے دوست ہی مو منین بر حق ہیں جن کا ذکر پر ور دگار نے اپنی کتاب میں کیا ہے :

( لَاتَجِدُ قَوْماًیُومِنُوْنَ بِاللهِ والْیَوْمِ الْآخِرِیُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّاللهَ وَرَسُوْلَه وَلَوْ کَانُوْااٰبَائَهُمْ اَوْاَبْنَائَهُمْ اَوْاِخْوَانَهُمْ اَوْعَشِیْرَتَهُمْ ،اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِم الاِیْمَانَ ) ( ۷۶ )

”آپ کبھی نہ دیکہیں گے کہ جوقوم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رہی ہے جو اللہ اور رسول سے دشمنی کر نے والے ہیں چا ہے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرة اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے “

آگاہ ہو جا و کہ ان (اہل بیت )کے دوست ہی وہ افراد ہیں جن کی توصیف پر ور دگار نے اس انداز سے کی ہے :( الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَلَمْ یَلْبَسُوْااِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُوْن ) ( ۷۷ )

” جو لوگ ایمان لا ئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا انہیں کےلئے امن ہے اور وھی ہدایت یا فتہ ہیں “

آگاہ ہو جا ؤ کہ ان کے دوست وھی ہیں جو ایمان لائے ہیں اور شک میں نہیں پڑے ہیں ۔

آگاہ ہوجاو کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جوجنت میں امن و سکون کے ساتھ داخل ہو ں گے اور ملا ئکہ سلام کے ساتھ یہ کہہ کے ان کا استقبال کریں گے کہ تم طیب و طاھر ہو ، لہٰذا جنت میں ہمیشہ ھمیشہ کےلئے داخل ہو جا و “

آگاہ ہو جا و کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جن کے لئے جنت ہے اور انہیں جنت میں بغیر حساب رزق دیاجائیگا ۔( ۷۸ )

آگاہ ہو جا و کہ ان (اہل بیت ) کے دشمن ہی وہ ہیں جوآتش جہنم کے شعلوں میںداخل ہوں گے۔

آگاہ ہو جا و کہ ان کے دشمن وہ ہیں جوجہنم کی آواز اُس عالم میں سنیں گے کہ اس کے شعلے بھڑک

رہے ہوں گے اور وہ ان کو دیکہیں گے ۔

آگاہ ہو جا و کہ ان کے دشمن وہ ہیں جن کے با رے میں خدا وند عالم فر ماتا ہے :

( کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَعَنَتْ اُخْتَهَا ) ( ۷۹ )

” (جہنم میں) داخل ہو نے والاھر گروہ دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا ۔۔۔ ‘ ‘

آگاہ ہو جا و کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں جن کے با رے میں پر ور دگار کا فرمان ہے :

( کُلَّمَا اُلْقِیَ فِیْهَا فَوْجٌ سَالَهُمْ خَزْنَتُهَااَلَمْ یَاتِکُمْ نَذِیْرٌ. قَالُوْابَلَیٰ قَدْجَاءَ نَانَذِیْرٌفَکَذَّبْنَاوَقُلْنَامَانَزَّلَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّافِیْ ضَلَالٍ کَبِیْرٍ. اَلَا فَسُحْقاًلِاَصْحَا بِ السَّعِیْرِ ) ( ۸۰ )

” جب کوئی گروہ داخل جہنم ہو گا تو جہنم کے خازن سوال کریں گے کیا تمھا رے پاس کو ئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا ؟تو وہ کہیں گے آیا تو تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلا دیا اور یہ کہہ دیا کہ اللہ نے کچھ بھی نا زل نہیں کیا ہے تم لوگ خود بہت بڑی گمرا ہی میں مبتلا ہو۔۔۔آگاہ ہوجا ؤ تو اب جہنم والوں کےلئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے “( ۸۱ )

آگاہ ہو جا و کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جو اللہ سے از غیب ڈرتے ہیں( ۸۲ ) اور انہیں کےلئے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔

ایھا الناس!دیکھو آگ کے شعلوں اوراجر عظیم کے ما بین کتنا فا صلہ ہے ۔( ۸۳ )

ایھا الناس!ہمارا دشمن وہ ہے جس کی اللہ نے مذمت کی اور اس پر لعنت کی ہے اور ہمارا دوست وہ ہے جس کی اللہ نے تعریف کی ہے اور اس کو دوست رکھتا ہے ۔

ایھا الناس!آگاہ ہو جا و کہ میں ڈرانے والا ہو ں اور علیعليه‌السلام بشارت دینے والے ہیں ۔( ۸۴ )

ایھا الناس!میں انذار کرنے والا اور علیعليه‌السلام ہدایت کرنے والے ہیں ۔

ایھا الناس!میں پیغمبر ہوں اور علیعليه‌السلام میرے جا نشین ہیں ۔

ایھا الناس!آگاہ ہو جا و میں پیغمبر ہوں اور علیعليه‌السلام میرے بعد امام اور میرے وصی ہیں اوران کے بعد کے امام ان کے فرزند ہیں آگاہ ہو جاو کہ میں ان کا باپ ہوں اور وہ اس کے صلب سے پیدا ہو نگے۔

۸ حضرت مھدی عج۔۔

یاد رکھو کہ آخری امام ہمارا ہی قائم مھدی ہے ، وہ ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ہے ،وھی قلعوں کو فتح کر نے والا اور ان کو منھدم کر نے والا ہے ،وھی مشرکین کے ہر گروہ پر غالب اور ان کی ہدایت کر نے والا ہے ۔( ۸۵ )

آگاہ ہوجا ؤ وھی اولیاء خداکے خون کا انتقام لینے والااور دین خدا کا مدد گار ہے جان لو!کہ وہ عمیق سمندر سے استفادہ کر نے والا ہے ۔( ۸۶ )

عمیق دریا سے مراد میں چند احتمال پائے جا تے ہیں ،منجملہ دریائے علم الٰہی ،یا دریائے قدرت الٰہی ،یا اس سے مراد قدرتوں کا وہ مجمو عہ ہے جو خداوند عالم نے امام علیہ السلام کو مختلف جہتوں سے عطا فر مایا ہے “

وھی ہر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ہر جا ھل پر اس کی جھالت کا نشانہ لگا نے والا ہے ۔( ۸۷ )

آگاہ ہو جا و کہ وھی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ہے ، وھی ہر علم کا وارث اور اس پر احا طہ رکھنے والا ہے ۔

آگاہ ہو جا ؤوھی پرور دگار کی طرف سے خبر دینے والا اورآیات الٰہی کو بلند کر نے والا ہے( ۸۸ ) وھی رشید اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ہے ۔

اسی کی بشارت دور سابق میں دی گئی ہے ۔( ۸۹ ) وھی حجت با قی ہے اور اس کے بعد کو ئی حجت نہیں ہے ، ہر حق اس کے ساتھ ہے اور ہر نور اس کے پاس ہے ، اس پر کو ئی غالب آنے والا نہیں ہے وہ زمین پر خدا کا حاکم ، مخلوقات میں اس کی طرف سے حَکَم اور خفیہ اور علانیہ ہر مسئلہ میں اس کا امین ہے ۔

۹ بیعت کی وضاحت

ایھا الناس!میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا ،اب میرے بعد یہ علی تمہیں سمجھا ئیں گے

آگاو ہو جا و ! کہ میں تمہیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پہلے میرے ہاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو ،( ۹۰ ) اس کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرو ، میں نے اللہ کے ساتھ بیعت کی ہے اور علیعليه‌السلام نے میری بیعت کی ہے اور میں خدا وند عالم کی جا نب سے تم سے علی(ع)کی بیعت لے رہا ہوں (خدا فرماتا ہے )( ۹۱ ) :( اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَایُبَایِعُوْنَ اللهَ یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ فَمَنْ نَکَثَ فَاِنَّمَایَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِه وَمَنْ اَوْفَیٰ بِمَاعَاهَدَ عَلَیْهُ اللهَ فَسَیُوْتِیْهِ اَجْراًعَظِیْماً )

” بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کر تے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کر تے ہیں اور ان کے ھا تھوں کے اوپر اللہ ہی کا ھا تھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کر تا ہے اور جو عہد الٰہی کو پورا کر تا ہے خدا اسی کو اجر عظیم عطا کر ے گا “

۱۰ حلال و حرام ،واجبات اور محرمات

ایھا الناس!یہ حج اور عمرہ اور یہ صفا و مروہ سب شعا ئر اللہ ہیں (خدا وند عالم فر ماتا ہے :( ۹۲ )

( فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِعتَمَرَفَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا ) ( ۹۳ ) ”لہٰذا جوشخص بھی حج یا عمرہ کر ے اس کےلئے کو ئی حرج نہیں ہے کہ وہ ان دونوں پھا ڑیوں کا چکر لگا ئے “

ایھا الناس!خا نہ خدا کا حج کرو جو لوگ یھاں آجاتے ہیں وہ بے نیاز ہو جا تے ہیں خوش ہوتے ہیں اور جو ا س سے الگ ہو جا تے ہیں وہ محتاج ہو جا تے ہیں ۔( ۹۴ )

ایھا الناس!کو ئی مو من کسی مو قف(عرفات ،مشعر ،منی ) میں وقوف( ۹۵ ) ہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اس وقت تک کے گناہ معاف کر دیتا ہے ،لہٰذا حج کے بعد اسے از سر نو نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے

ایھا الناس!حجا ج کی مدد کی جاتی ہے اور ان کے اخراجات کا اس کی طرف سے معا وضہ دیا جاتا ہے اور اللہ محسنین کے اجر کو ضا ئع نہیں کرتا ہے ۔

ایھا الناس!پورے دین اور معرفت احکام کے ساتھ حج بیت اللہ کرو ،اور جب وہ مقدس مقامات سے واپس ہو تو مکمل توبہ اور ترک گنا ہ کے ساتھ ۔

ایھا الناس!نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے( ۹۶ ) اگر وقت زیادہ گذر گیا ہے اور تم نے کو تا ہی و نسیان سے کام لیا ہے تو علیعليه‌السلام تمھا رے ولی اور تمھارے لئے بیان کر نے والے ہیں جن کو اللہ نے میرے بعداپنی مخلوق پرامین بنایا ہے اور میرا جا نشین بنایا ہے وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔( ۹۷ )

وہ اور جو میری نسل سے ہیں وہ تمھارے ہر سوال کا جواب دیں گے اور جو کچھ تم نہیں جا نتے ہو سب بیان کر دیں گے ۔

آگاہ ہو جاو کہ حلا ل و حرام اتنے زیادہ ہیں کہ سب کا احصاء اور بیان ممکن نہیں ہے ۔مجہے اس مقام پر تمام حلال و حرام کی امر و نھی کرنے اور تم سے بیعت لینے کا حکم دیا گیاہے اور تم سے یہ عہد لے لوں کہ جو پیغام علیعليه‌السلام اور ان کے بعد کے ائمہ کے با رے میں خدا کی طرف سے لا یا ہوں ،تم ان سب کا اقرار کرلوکہ یہ سب میری نسل اور اس (علیعليه‌السلام )سے ہیں اور امامت صرف انہیں کے ذریعہ قائم ہوگی ان کا آخری مھدی ہے جو قیا مت تک حق کے ساتھ فیصلہ کر تا رہے گا “

ایھا الناس!میں نے جس جس حلال کی تمھارے لئے رہنما ئی کی ہے اور جس جس حرام سے روکا ہے کسی سے نہ رجوع کیا ہے اور نہ ان میں کو ئی تبدیلی کی ہے لہٰذا تم اسے یاد رکھو( ۹۸ ) اور محفوظ کرلو، ایک میں پھر اپنے لفظوں کی تکرار کر تا ہوں :نماز قا ئم کرو ، زکوٰة ادا کرو ، نیکیوں کا حکم دو ، برا ئیوں سے روکو ۔

اور یہ یاد رکھو کہ امر با لمعروف کی اصل یہ ہے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جا و اور جو لوگ حاضر نہیں ہیں ان تک پہنچا و اور اس کے قبول کر نے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو( ۹۹ ) اس لئے کہ یھی اللہ کا حکم ہے اور یھی میرا حکم بھی ہے( ۱۰۰ ) اور امام معصوم کو چھو ڑ کر نہ کو ئی امر با لمعروف ہو سکتا ہے اور نہ نھی عن المنکر ۔( ۱۰۱ )

ایھا الناس!قرآن نے بھی تمہیں سمجھا یا ہے کہ علیعليه‌السلام کے بعد امام ان کے فرزند ہیں اور میں نے تم کو یہ بھی سمجھاد یا ہے کہ یہ سب میری اور علی کی نسل سے ہیں جیساکہ پر ور دگار نے فر مایا ہے :

( وَجَعَلَهَاکَلِمَةً بَاقِیَةً فِیْ عَقَبِهِ ) ( ۱۰۲ )

” اللہ نے (امامت )انہیں کی اولاد میں کلمہ با قیہ قرار دیا ہے “اور میں نے بھی تمہیں بتا دیا ہے کہ جب تک تم قرآن اور عترت سے متمسک رہو گے ہر گزگمراہ نہ ہو گے( ۱۰۳ )

ایھا الناس!تقویٰ اختیار کرو تقویٰ۔قیا مت سے ڈروجیسا کہ خدا وندعالم نے فر مایا ہے :

( اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ ) ( ۱۰۴ )

” زلزلہ قیامت بڑی عظیم شی ہے “

موت ، قیامت ،حساب، میزان ،اللہ کی با رگاہ کا محا سبہ ،ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ وہاں نیکیوں پر ثواب ملتا ہے( ۱۰۵ ) اور برا ئی کر نے والے کا جنت میں کو ئی حصہ نہیں ہے ۔

۱۱ قانونی طور پر بیعت لینا

ایھا الناس!تمھاری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک ایک میرے ہاتھ پر ہاتھ ما ر کر بیعت نہیں کر سکتے ہو ۔لہٰذا اللہ نے مجہے حکم دیا ہے کہ میں تمھاری زبا ن سے علیعليه‌السلام کے امیر المو منین( ۱۰۶ ) ہو نے اور ان کے بعد کے ائمہ جو ان کے صلب سے میری ذریت ہیں سب کی امامت کا اقرار لے لوں اور میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میرے فرزند ان کے صلب سے ہیں ۔

لہٰذا تم سب مل کر کہو :ھم سب آپ کی بات سننے والے ، اطاعت کر نے والے ، راضی رہنے والے اور علیعليه‌السلام اور اولاد علیعليه‌السلام کی امامت کے با رے میں جو پروردگار کا پیغام پہنچایا ہے اس کے سا منے سر تسلیم خم کر نے والے ہیں ۔ھم اس بات پر اپنے دل ، اپنی روح ، اپنی زبان اور اپنے ھا تھوں سے آپ کی بیعت کر رہے ہیں اسی پر زندہ رہیں گے ، اسی پر مریں گے اور اسی پر دو بارہ اٹہیں گے ۔نہ کو ئی تغیر و تبدیلی کریں گے اور نہ کسی شک و ریب میں مبتلا ہو ں گے ، نہ عہد سے پلٹیں گے نہ میثاق کو تو ڑیں گے ۔

اورجن کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ وہ علی امیر المومنین اور ان کی اولاد ائمہ آپ کی ذرّیت میںسے ہیں ان کی اطاعت کریں گے ۔جن میںسے حسن وحسین ہیں اور ان کے بعد جن کو اللہ نے یہ منصب دیا ہے اور جن کے بارے میں ہم سے ہمارے دلوں،ہماری جانوںہماری زبانوں ہمارے ضمیروں اور ہمارے ھاتھوںسے عھدوپیمان لے لیاگیا ہے ہم اسکا کوئی بدل پسند نہیں کریں گے ،اور اس میں خدا ہمارے نفسوں میں کوئی تغیر و تبدل نہیں دیکہے گا۔

ھم ان مطالب کو آپ کے قول مبارک کے ذریعہ اپنے قریب اور دور سبھی اولاد اور رشتہ داروں تک پہنچا دیں گے اورھم اس پر خدا کو گواہ بناتے ہیں اور ہماری گواھی کے لئے اللہ کافی ہے اور آپ بھی ہمارے گواہ ہیں ۔( ۱۰۷ )

ایھاالناس!اللہ سے بیعت کرو ،علیعليه‌السلام امیر المومنین ہونے اور حسن وحسین اور ان کی نسل سے باقی ائمہ کی امامت کے عنوان سے بیعت کرو۔جو غداری کرے گا اسے اللہ ھلاک کردے گا اور جو وفا کرے گا اس پر رحمت نازل کرے گا اور جو عہد کو توڑدے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور جو شخص خداوند عالم سے باندہے ہوئے عہد کو وفا کرے گا خدوند عالم اس کو اجر عظیم عطا کرے گا ۔

ایھاالناس !جومیں نے کہا ہے وہ کہو اور علی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کرو،( ۱۰۸ ) اور یہ کہو کہ پرودگار ہم نے سنا اور اطاعت کی ،پروردگاراھمیں تیری ہی مغفرت چاہئے اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے اور کہو :حمدو شکرہے اس خداکاجس نے ہمیں اس امر کی ہدایت دی ہے ورنہ اسکی ہدایت کے بغیر ہم راہ ہدایت نہیں پاسکتے تھے ۔

ایھاالناس!علی ابن ابی طالب کے فضائل اللہ کی بارگاہ میں اور جواس نے قرآن میں بیان کئے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ میں ایک منزل پر شمار کر اسکوں۔لہٰذا جو بھی تمہیں خبر دے اور ان فضائلسے آگاہ کرے اسکی تصدیق کرو۔( ۱۰۹ )

یاد رکھو جو اللہ ،رسول،علی اور ائمہ مذکورین کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کا مالک ہوگا ۔

ایھا الناس!جو علی کی بیعت ،ان کی محبت اور انہیں امیر المومنین کہہ کر سلام کرنے میں سبقت کریں گے وھی جنت نعیم میں کامیاب ہوں گے ۔ایھالناس!وہ بات کہو جس سے تمھارا خدا راضی ہوجائے ورنہ تم اور تمام اہل زمین بھی منکر ہوجائیں تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتے۔

پرودگارا !جو کچھ میں نے ادا کیا ہے اور جس کا تونے مجہے حکم دیا ہے اس کے لئے مومنین کی مغفرت فرما اور منکرین (کافرین )پر اپنا غضب نازل فرمااور ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے ۔

ب : ”عَرَّفَھَا “ تشدید کے ساتھ ،یعنی جو شخص امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل بیان کرے اور ان کا لوگوں کو تعارف کرائے تو اس کی تصدیق کرو ۔

”ب “ میں عبارت اس طرح ہے :ایھا الناس ،فضائل علیعليه‌السلام اور جو کچھ خداوند عالم نے ان سے مخصوص طور پر قرآن میں بیان کیا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ میں ایک جلسہ میں بیٹھ کر سب کو بیان کروں ،لہٰذا جو کو ئی اس بارے میں تم کو خبر دے اس کی تصدیق کرو ۔

____________________

[۱] توحید کے متعلق خطبہ کی ابتدا کے الفاظ بہت دقیق مطالب کے حامل ہیں جن کی تفسیر کی ضرورت ہے ۔مذکورہ جملہ کی اس طرح وضاحت کی جا سکتی ہے :ساری تعریف اس خد اکےلئے ہے جو یکتا ئی میں بلند مرتبہ رکھتا ہے ،وہ یکتا ہو نے اور بلند مرتبہ ہونے کے باوجوداپنے بندوں سے نزدیک ہے ۔ ” ب “اور ” د “ کی عبارت اس طرح ہے :اس خد ا کی حمد ہے جو اپنی یکتا ئی کے ساتھ بلند مرتبہ اور اپنی تنھائی کے با وجود نزدیک ہے ۔

[۲] اس جملہ سے مندرجہ ذیل دو جہتوں میں سے ایک جہت مراد ہو سکتی ہے :

پھلے :خداوند عالم کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے درحالیکہ وہ چیزیں اپنی جگہ پر ہیں اور خداوند عالم کو ان کے معائنہ اور ملا حظہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

[۳] کلمہ ”قُدُّوْسٌ “کا مطلب ہر عیب و نقص سے پاک اور منزّہ ،اور کلمہ ”سُبُّوْحٌ “ کا مطلب جس کی مخلوقات تسبیح کرتی ہے اور تسبیح کا مطلب خداوند عالم کی تنزیہ اور تمجید ہے “

[۴] ”ج “، ” د “اور ” ھ “ھر نفس اس کے زیر نظر ہے ۔

[۵] ” ج “اور ” د “وھی عدم سے وجود عطا کرنے والا ہے “

[۶] ” الف “ ، ” ب “ اور ” د “اس کی تدبیر میں کو ئی اختلاف نہیں ہے “

[۷] ” ج “بغیر فساد کے “

[۸] ” ج “ :اس نے چاھا پس وہ وجود میںآگئے ۔

[۹] ” ب “ اور ” ج “:بادشاہوں کا مالک ۔

[۱۰] اس چیز سے کنایہ ہے کہ رات اور دن دو کشتی لڑنے والوں کی طرح ایک دو سرے پر غالب آجاتے ہیں اور اس کو زمین پر پٹک دیتا ہے اور خود اوپر آجاتا ہے ۔دن کے بارے میں فرمایا ہے ”رات کا بہت تیزی کے ساتھ پیچھا کرتا ہے “ لیکن رات کے بارے میں نہیں فر مایا ۔شاید یہ اس بات سے کنایہ ہو کہ چونکہ دن نور سے ایجاد ہو تا ہے اور جیسے ہی نور کم ہوا رات آجاتی ہے ۔

[۱۱] ”د “تدبیر کرتا ہے اور مقدر بناتا ہے ۔

[۱۲] ” ب “ منع کرتا ہے اور ثروتمند بنا دیتا ہے ۔

[۱۳] ” ج “ اور ” ھ “ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے والا اس کے علاوہ اور کو ئی نہیں ہے ۔

[۱۴] ” ج “ اور ”د “اور ”ھ “ سے کسی زبان کی مشکل پیش نہیں آتی ہے ۔

[۱۵] ” د “ ” ھ “اس کے حکم کو سنو اور اطاعت کرو ،اور جس چیز میں اس کی رضایت ہے اس کی طرف سبقت کرو اور اس کے مقدرات کے مقابلے میں تسلیم ہو جاؤ۔

[۱۶] سورہ ما ئدہ آیت/۶۷۔

[۱۷] ” ج “ اور ” ھ “ جو کچھ میں نے پہنچایاہے اس میں کسی قسم کی کو ئی کو تا ہی نہیں کی ہے اور جو کچھ مجھ پر ابلاغ ہوا اس کے پہنچانے میں کسی قسم کی کاھلی نہیں کی ہے ۔

[۱۸] ان دو مقامات پر سلام پروردگار عالم کے نام کے عنوان سے ذکر ہوا ہے ۔

[۱۹] سورہ ما ئدہ آیت/۵۵۔

[۲۰] ” ب “ حالت رکوع میں خداوند عالم کی خاطر زکات دی ہے خداوند عالم بھی ہر حال میں ان کا ارادہ کرتا ہے ۔

[۲۱] یعنی اس مھم کے ابلاغ میں معافی چاہنے کی ایک علت یہ بھی ہے

[۲۲] سورہ توبہ آیت/ ۶۱۔

[۲۳] یھاں پر اس کا مطلب یہ ہو گاکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداوند عالم کے کلام کی تصدیق فرماتے ہیں اورمو منین کے مقابل میں تواضع اور احترام کا اظھار کرتے ہیں اور ان کی باتوں کو رد نہیں کرتے ۔

[۲۴] ” ج “ اور ” ھ “ لیکن خدا کی قسم ان کی باتوں کو در گزر کرتے ہوئے ان پر کرامت کرتا ہوں ۔

[۲۵] سورہ مائدہ آیت/۶۷۔

[۲۶] ” ج “ اور ” ھ “ ہر موجود پر ۔۔۔

[۲۷] ” ب “جو شخص ان کا تابع ہوگا ان کی تصدیق کرے گا اس کو اجر ملے گا ۔

[۲۸] آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس کلام سے مراد خود آپ ہی ہیں ۔

[۲۹] ”اَحْصَاهُ “ کا مطلب ”عَدَّ هُ وَضَبَطَهُ “ہے ۔یعنی ذہن سے قریب کرنے کےلئے کلمہ”جمع اور جمع آوری “سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

[۳۰] سورہ یس آیت/۱۲۔

[۳۱] وہ خداوند عالم کے امر سے امام ہیں ۔

[۳۲] میری مخالفت کرنے سے پرھیز کرو ۔

[۳۳] ”الف‘ ‘، ”ج “اور ” د “اگر کو ئی میری اس گفتگو میں کسی ایک چیز میں شک کرے گو یا اس نے تمام چیزوں میں شک کیا ہے اور اس میں شک کرنے والے کا ٹھکانا جہنم ہے ۔” ھ “:جو شخص میری گفتار کی ایک چیز میں شک کرے گویا اس نے پوری گفتار میں شک کیا ہے

[۳۴] ” ب “ ایھا الناس ،خداوند عالم نے علی بن ابی طالب کو سب پر افضل قرار دیا ہے ۔

[۳۵] ” ج “ اور ” ھ “میرا کلام جبرئیل سے اور جبرئیل پروردگار عالم کی طرف سے یہ پیغام لا ئے ہیں ۔

[۳۶] ” جنب “ یعنی طرف ،جہت ،پھلو ۔شاید یھاں پراس سے مراد امیر المو منین علیہ السلام کا خداوند عالم سے بہت زیادہ مرتبط ہو نا ہے

[۳۷] سورہ زمر آیت/۵۶۔

[۳۸] ” زواجر “یعنی باطن ،ضمیر اورنھی کے معنی میں بھی آیا ہے ،اور پہلے معنی عبارت سے بہت زیادہ منا سبت رکھتے ہیں

[۳۹] خدا کی قسم وہ نور واحد کے عنوان سے تمھارے لئے بیان کرنے والے ہیں ۔

[۴۰] یہ حدیث :<انی تارک فیکم الثقلین > کی طرف اشارہ ہے ۔

[۴۱] ” ج “یہ خداوند عالم کی جانب سے اس کی خلق میںامراور زمین میں اس کا حکم ہے ۔

[۴۲] ” ج “ جان لو !میںنے نصیحت فرما دی ہے ۔

[۴۳] ” الف “ اور ” ب “اور ” د “:جان لو کہ امیرالمومنین میرے اس بھا ئی کے علاوہ کوئی نہیں ہے ۔

[۴۴] ” ب “ امیر المو منین علیہ السلام نے اپنے دونوں ھاتھوں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چھرہ اقدس کی طرف اس طرح بلند کیا کہ آپ کے دونوں ہاتھ مکمل طورپر آسمان کی طرف کھل گئے تو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کیا یھاں تک کہ ان کے قدم مبارک آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھٹنوں کے برابر آگئے ۔

یہ فقرہ کتاب اقبال سید بن طا ؤس میں اس طرح آیا ہے :۔۔۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کرتے ہو ئے فر مایا :ایھا الناس ،تمھارا صاحب اختیار کون ہے ؟ انھوں نے کہا :خدا اور اس کا رسول ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : آگاہ ہو جاؤ جس کا صاحب اختیار میں ہوں یہ علی اس کے صاحب اختیار ہیں ۔خداوندا جو علی کو دوست رکہے تو اس کو دوست رکھ اور جو علی سے دشمنی کرے تو اس کو دشمن رکھ ،جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر اور جو اس کو ذلیل کرے تو اس کو ذلیل و رسوا کر ۔

[۴۵] ” د “ اور میرے بعد امور کے مدبر ہیں ۔

[۴۶] ” ب “ :۔۔۔اور میری امت کے جو لوگ مجھ پر ایمان لائے ہیں ان پرمیرے جا نشین ہیں ۔آگاہ ہو جا ؤ کہ قرآن کا نازل کرنا میری ذمہ داری ہے لیکن میرے بعد اس کی تاویل ،تفسیر کرنا اور وہ عمل کرنا جس سے خدا راضی ہوتا ہے اور دشمنوں سے جنگ کرنا اس کے ذمہ ہے اور وہ خداوند عالم کی اطاعت کی طرف راہنما ئی کرنے والے ہیں ۔

[۴۷] ناکثین :طلحہ ،زبیر ،عائشہ اور اہل جمل ؛قاسطین :معاویہ اور اہل صفین ؛اور مارقین :اھل نھروان ہیں ۔

[۴۸] سورہ ق آیت/۲۹۔

[۴۹] ” الف “ میں کہتا ہوں :میری بات (خداوند عالم کے امر سے )نہیں بدلتی ہے ۔” ھ “ میں خداوند عالم کے امر سے کہتا ہوں :میری بات میں کو ئی تغیر و تبدل نہیں ہوتاہے ۔

[۵۰] سورہ ما ئدہ آیت /۳۔

[۵۱] سورہ آل عمران آیت/ ۸۵۔

[۵۲] ” الف “ ،” ب “ ، ” د “ اور ” ھ “ : خدایا! تو نے مجھ پر نازل کیا ہے کہ میرے بعد امامت علیعليه‌السلام کے لئے ہے میں نے اس مطلب کو بیان کیا علیعليه‌السلام کو امام معین فرمایا ،جس کے ذریعہ تو نے اپنے بندوں کے لئے دین کو کامل کیا ، ان پر اپنی نعمت تمام کی اور فرمایا :جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو انتخاب کرے گا وہ دین قبول نہ کیا جا ئیگا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھا نے والوں میں سے ہوگا “خدایا میں تجھ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے پہنچادیا اور گواھی کے لئے تجھ کو کا فی سمجھتا ہو ں ۔

[۵۳] ” حبط “ یعنی سقوط ،فساد ،نابودہونا ،ضائع ہونا اور ختم ہوجانا ہے ۔

[۵۴] ہ سورہ انسان کی آیت ۱۲ کی طرف اشارہ ہے جس میں خدافرماتا ہے :<وَ جَزَاهُمْ بِمَاصَبَرُوْاجَنَّةً وَ حَرِیْراً > اور انہیں ان کے صبر کے عوض جنت اور حریر جنت عطا کرے گا “ سورہ انسان آیت/ ۱۲۔

[۵۵] ” ب “ وہ میرا قرض ادا کرنےوالا اور میرا دفاع کرنے والا ہے ۔’ ھ “ وہ خداوند عالم کا دَین (قرض) ادا کرنے والا ہے ۔

[۵۶] یعنی تمھارے ایمان کے درجہ کا حضرت آدم علیہ السلام کے درجہ سے بہت زیادہ فاصلہ ہے ۔

[۵۷] ” ب “ درحالیکہ خداوند عالم کے بہت زیادہ دشمن ہو گئے ہیں ۔” ج “اور ” ھ “ اگر تم انکار کروگے تو تم خدا کے دشمن ہو ۔

[۵۸] سورہ عصر آیت/۱۔

کتاب اقبال سید بن طاؤس میں عبارت اس طرح آئی ہے : سورہ ” والعصر “ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوا ہے اور اس کی تفسیر یوں ہے :قیامت کے زمانہ کی قسم، انسان گھا ٹے میں ہے اس سے مراد دشمنان آل محمد ہیں ،مگر جو لوگ ان کی ولایت پر ایمان لائے اور اپنے دینی برادران کے ساتھ مواسات کے ذریعہ عمل صالح انجام دیتے ہیں اور ان کی غیبت کے زمانہ میںایک دوسرے کو صبر کی سفارش کرتے ہیں ۔

[۵۹] یہ سورہ نساء آیت/ ۴۷کی طرف اشارہ ہے ۔کلمہ ” طمس “ کا مطلب ایک تصویر کے نقش و نگار کو محو کرنا ہے ۔اس مقام پر (احادیث کے مطابق )دل سے ہدایت کا مٹا دینا اور اس کو گمرا ہی کی طرف پلٹا دینامراد ہے ۔

[۶۰] ” مسلوک “یعنی داخل کیاگیا۔اور ” ب “ میں مسبوک ہے جس کا مطلب قالب میں ڈھالاہوا ہے ۔

[۶۱] د”اور ہر مو من کا حق حاصل کرے گا “

[۶۲] ج”۔۔۔مھدی قائم خداوند عالم اور ہمارے ہر حق کو تمام مقصرین ،معاندین ،مخالفین،خا ئنین ،آثمین،ظالمین اور غاصبین کو قتل کر کے وصول کرے گا “

[۶۳] ”ھ“ ہمارے سلسلہ میں خداوند عالم پر احسان نہ جتاؤخداوند عالم تمھاری باتیں قبول نہیں کرے گا ،تم پر غضب نازل کرے گا اور تم پر عذاب نازل کرے گا اس “

[۶۴] کلمہ ”اغتصاب “کا مطلب ظلم و زبر دستی کے ساتھ اخذ کرنا ‘

[۶۵] کلمہ ”الثقلان“ کا ”جن و انس “ترجمہ کیا گیا ہے ۔

[۶۶] یہ سورہ رحمن کی ۳۱ اور ۳۵ ویں آیت کی طرف اشارہ ہے ۔

[۶۷] یہ سورہ آل عمران کی ۱۷۹ویںآیت کی طرف اشارہ ہے

کردے اور اللہ تم کو غیب پر با خبر کرنے والا نہیں ہے ۔

[۶۸] کلمہ ”قریہ “کے معنی گاؤں اور آبادی کے ہیں اور اس مو قع پر دوسرے معنی منا سب ہیں ۔

[۶۹] ”الف “اور ”د“ایھا الناس ! کو ئی ایسی بستی نہیں ہے جس کے رہنے والوں کو پروردگار عالم نے تکذیب کی وجہ سے ھلا ک نہیں کیا اسی طرح خداوند عالم ظالموں کی بستیوں کو ھلاک کرتا ہے جیسا کہ خداوند عالم نے قرآن کریم میں ارشاد فر مایا ہے اور یہ علیعليه‌السلام تمھارے امام اور صاحب اختیار ہیں وہ وعدہ گاہ الٰہی ہیں اور خداوند عالم اپنے وعدہ کو عملی کرتا ہے ۔

[۷۰] ”ج اور ”ھ “خدا کی قسم تم سے پہلے والے لوگوں کو ان کی اپنے انبیاء کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ھلاک کیا ہے ۔

[۷۱] سورہ مرسلات :آیات /۱۶۔۱۹۔

[۷۲] ”الف “پس وہ امر و نھی کو خداوند عالم کی طرف سے جانتے ہیں ۔”د“امر و نھی خداوند عالم کی طرف سے ان کے ذمہ ہے “

[۷۳] ”الف “اور ” د “جان لو ! کہ علیعليه‌السلام کے دشمن اہل شقاوت ،تجاوز کرنے والے اور شیا طین کے بھا ئی ہیں ۔

[۷۴] سورہ مجا دلہ آیت/ ۲۲۔

[۷۵] سورہ انعام آیت/۸۲۔

[۷۶] سورہ مجادلہ آیت /۲۲۔”ب “اور ”ج “میں وہ سیدھا راستہ ہوں جس سے تمہیں خداوند عالم نے ہدایت پانے کا حکم دیاہے ۔

[۷۷] سورہ انعام آیت/۸۲۔”ج“:کس شخص کے بارے میں نازل ہوا ہے ؟انہیں کے بارے میں نازل ہوا ہے (خدا کی قسم انہیں کے بارے میں نازل ہوا ہے خداکی قسم ان سب کو شامل ہے اور ان کے آباء و اجداد سے مخصوص ہے اور عام طور پر ان سب کو شامل ہے ۔

[۷۸] ”الف “، ”ب “اور ” د“آگاہ ہو جا ؤ کہ ان کے دوست وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں خدا وند عالم فر ماتا ہے :وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو ں گے “

[۷۹] سورہ اعراف آیت /۳۸ ۔

[۸۰] سورہ ملک آیات / ۸۔۱۱۔

[۸۱] کلمہ”سحق “کے معنی ھلاکت ،اور دوری کے ہیں ۔

[۸۲] جملہ ”یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ “کا شاید یہ مطلب ہے کہ وہ خداوند عالم کو دیکہے بغیر غیب پر ایمان رکھنے کی وجہ سے اس سے ڈرتے ہیں ۔

[۸۳] ”الف “اور ”د “آگ کے شعلوں اور بھشت کے ما بین کتنا فا صلہ ہے ۔”ب “ھم نے آگ کے شعلوں اور عظیم اجر کے مابین فرق واضح کر دیا ہے “

[۸۴] شاید اس سے یہ مراد ہو کہ میں نے تم کو برائیوں سے ڈرایا اور تصفیہ کیا اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ تم علیعليه‌السلام کے ساتھ بھشت کی راہ اختیار کرلو ۔

[۸۵] ”الف “، ”ب “اور ”د “وہ ہر اہل شرک قبیلہ کا قاتل ہے “

[۸۶] وہ عمیق سمندر سے عبور کرنے والا ہے ۔

[۸۷] ”ب“وہ وھی ہے جو صاحب فضل کو اس کے فضل کے مانند جزا دیتا ہے ۔

[۸۸] وہ اپنے آبا ؤ اجدادکے حکم کو محکم و مضبوطی عطا کرنے والا ہے ۔

[۸۹] وہ وھی ہے جس کی ہر گزشتہ پیغمبر نے بشارت دی ہے ۔

[۹۰] ” ج “ میں تمھاری طرف بیعت کے لئے ہاتھ بڑھاؤں گا ۔

[۹۱] سورہ فتح آیت/ ۱۰۔

[۹۲] پرانٹز کے اندرجملہ اس لئے لکھا گیا ہے کہ ” بھما “کی ضمیر کا حج و عمرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کامرجع صفا و مروہ ہیں

[۹۳] سورہ بقرہ آیت / ۱۵۸)

[۹۴] شاید منقطع ہو جا نے سے مراد کم نسل ہو جا نا ہو جیساکہ کلمہ ”بتر “سے استفادہ کیا گیا ہے ،اور ”د “اور ”ھ “میں اس طرح ہے :”گھر والے خا نہ خدا میں داخل نہیں ہو تے مگر یہ کہ وہ رشد و نمو کر تے ہیں اوران کا غم ختم ہو جا تا ہے اور کو ئی خاندان اس کو ترک نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ ھلاک اورمتفرق ہو جاتا ہے “

[۹۵] اس سے مراد ان تین جگہوں پر وقوف کرنا ہے جو اعمال حج کا جزشمار ہو تا ہے ۔

[۹۶] ”ج “اور ”ھ “زکات ادا کرو جیسا کہ میں نے تم کو حکم دیا ہے “

[۹۷] ”الف “ اور ”ج “جس شخص کو خداوند عالم نے مجھ سے خلق کیا ہے اور میں اس سے ہوں۔ ”د “جس کو خداوند عالم نے خود اپنا اور میرا خلیفہ قرار دیا ہے [۹۸] اس مطلب کے سلسلہ میں فکر کرنا اور تحقیق کرناـ

[۹۹] یہ جملہ (نسخہ ”ج “)کتاب ” التحصین “کے مطابق خطبہ کا آخری جملہ ہے ۔

[۱۰۰] ” ب “جان لہ کہ تمھارے سب سے بلند و برتر اعمال امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ہیں ۔پس جو لوگ اس مجلس میں حا ضر نہیں ہیں اور انھوں نے میری ان باتوں کو نہیں سنا ہے ان کو سمجھانا چونکہ تم تک یہ حکم میرے اور تمھارے پرور دگار کا ہے ۔

[۱۰۱] شاید اس سے مراد یہ ہو کہ معروف و منکرات کا معین کرنا نیز معروف و منکرات کی شرطوں اور اس کے طریقہ کو امام معصوم معین کرتاہے ۔ نسخہ ” ج “میں اس طرح آیا ہے :”امر بالمعروف اور نھی عن المنکرصرف امام معصوم کے حضور میں ہو تا ہے ۔

[۱۰۲] سورہ زخرف آیت / ۲۸۔

[۱۰۳] ” ب “ایھا الناس میں قرآن کو اپنی جگہ پر قرار دے رہا ہوں اور میرے بعد میرے جا نشین علیعليه‌السلام اورائمہ ان کی نسل سے ہیں ،اور میں نے تم کوسمجھادیا کہ وہ مجھ سے ہیں ۔اگر تم ان سے متمسک رہو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے ۔

[۱۰۴] سورہ حج آیت/۱ ۔

[۱۰۵] ” د “جو شخص اچہے کام کرے گا کامیاب ہوگا ۔

[۱۰۶] ”الف “، ” ب “اور ” ھ “جو کچھ میں نے علیعليه‌السلام کےلئے ”امیر المو منین“ کے عنوان سے بیان کیا ہے ۔

[۱۰۷] اس مقام تک وہ عبارتیں تھیں جن کے سلسلہ میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں سے چاھا کہ وہ اس کومیرے ساتھ دھرائیںیں اور اس کے مضمون کا اقرار کریں۔ یہ عبارتیں نسخہ ”ب“ کے مطابق بیان کی گئی ہیں ۔ اس کے بعد ”الف“، ”د“ اور ” ھ “ میںاس جملہ ”آپ نے ہماری مو عظہ الٰہی کے ذریعہ نصیحت فر ما ئی “یھاں تک اس طرح آیا ہے :

”۔۔۔ھم خدا وند عالم ،آپ ،علی امیر المو منینعليه‌السلام ان کے امام فرزندجن کے سلسلہ میں آپ نے فر مایا کہ وہ آپ کے فرزنداور ان (علی) کے صلب سے ہیں کی اطاعت کرتے ہیں ۔ ”ھ “ (آپ نے فرمایا وہ علیعليه‌السلام کے صلب سے آپ کے فرزند ہیں وہ جب بھی آئیں اور امامت کا دعویٰ کریں )جو حسن و حسین علیھما السلام کے بعد ہیں میں نے ان دو نوںکے مقام و منزلت کی اپنے اور خدا کے نزدیک نشاندھی کرادی ہے ۔ان دونوں کے سلسلہ میں میں نے یہ مطالب تم تک پہنچا دئے ہیں ، وہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں ،وہ اپنے والد بزرگوار علیعليه‌السلام کے بعد امام ہیں اور میں علیعليه‌السلام سے پہلے ان دونوں کاباپ ہوں۔

کہو ”ھم اس سلسلہ میں خدا وند عالم ،آپ ،علیعليه‌السلام ،حسن و حسین اور جن اماموں کا آپ نے تذکرہ فر مایا ہے ان سے عہد و پیمان باندھتے ہیں اورھم سے امیر المو منین علیہ السلام کے لئے میثاق لیاجائے ۔(”ھ “پس یہ پیمان مو منین سے لے لیا گیاہو ) ہمارے دلوں ،جانوں ،زبانوں اور ہاتھ سے ،جس شخص کےلئے ممکن ہو اس سے ہاتھ سے ورنہ وہ اپنی زبان سے اقرار کرے ۔اس پیمان کو ہم نہیں بد لیں گے اور ہم کبھی بھی اس میں تغیرو تبدل کرنے کا ارادہ نہیں کریں گے۔

ھم آ پ کا یہ فرمان اپنے دور اور قریب سب رشتہ داروں تک پہنچا دیں گے۔ ”ھ“ ہم آپ کا یہ قول اپنے تمام بچوں تک پہنچا ئیں گے چا ہے وہ پیدا ہو گئے ہوں اور چا ہے ابھی پیدا نہ ہو ئے ہوں )،ھم خدا کو اس مطلب کے لئےاپنا گواہ بناتے ہیں اور گواھی کے لئے خدا کافی ہے اور آپعليه‌السلام ہم پر شاہد ہیں ،نیز ہر وہ انسان جوخدا کی اطاعت کرتا ہے (چا ہے آشکار طور پر اور چاہے مخفی طور پر) نیز خداوند عالم کے ملا ئکہ ،اس کا لشکر اور اس کے بندوں کو اپنا گواہ قرار دیتے ہیں اور خداوند عالم تمام گواہوںسے بلند و بالا ہے “۔

ایھا الناس!اب تم کیا کہتے ہو ؟یاد رکھو کہ اللہ ہر آواز کو جانتا ہے اور ہر نفس کی مخفی حالت سے باخبر ہے ،جو ہدایت حاصل کرے گاوہ اپنے لئے اور جو گمراہ ہوگا وہ اپنا نقصان کرے گا ۔جو بیعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی بیعت کی،اسکے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہے ۔

[۱۰۸] یعنی کہو ”السلام علیک یا امیر المو منین “۔اور عبارت ” ب “میں اس طرح ہے :ایھا الناس جس کی میں نے تملوگوں کوتلقین کی ہے اس کی تکرار کرو اوراپنے امیر المو منین کو سلام کرو“۔

[۱۰۹] اس عبارت کے دو طریقہ سے معنی بیان کئے جا سکتے ہیں :

الف :”عَرَفَھَا “بغیر تشدید ،یعنی امیرالمو منین علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے والے کو اہل معرفت ہو نا چا ہئے اورصرف سنے ہوئے کو لیں اس وقت تک نقل نہ کریں جب تک دشمنوںکی مکاریوںاور حذف شدہ عبارتوں سے آگاہ نہ ہو جائیں کہ کہیں ایک فضیلت کا نتیجہ برعکس نہ ہوجائے ۔

خطبہ غدیر کا خلاصہ

اگر چہ خطبہ غدیر کا عربی متن اور اس کا اردو ترجمہ اس کتاب کے چھٹے اور ساتویں حصہ میں بیان ہو گا لیکن خطبہ کا خلاصہ ،اس کی مو ضوعی تقسیم اورمطالب کا جدا جدا بیان کرنا قارئین کرام کےلئے خطبہ کے متن کا دقیق طور پر مطالعہ کرنے کا ذوق بڑھاتا ہے ۔لہٰذاھم اس اہم مطلب کو دو حصوں میں بیان کرتے ہیں ۔

۱ خطبہ غدیر کے چند اہم نکات

خطبہ غدیر پر ایک سرسری نگاہ کرنے سے کچھ مھم نکات نظر آتے ہیں جن کو ہم ذیل میں ذکر کر رہے ہیں :

۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطبہ کے مختلف موارد میں اپنی تبلیغ پر خداوند عالم کو گواہ بنانا۔

۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کامختلف مواقع پر اپنے پیغام کو پہنچانے پر لوگوں کو گواہ بنانا۔

۔خطبہ کے دوران قرآن کی آیتوں کو بطور شاہد پیش کرنا۔

۔خطبہ کے دوران کئی جگہوں پر اپنے بعدبارہ اماموںعليه‌السلام کی امامت کے مسئلہ پرتاکید کرنا۔

۔حرام وحلال کے تبدیل نہ ہونے اور اماموں کے ذریعے ان کے بیان ہونے پر تاکیدکرنا

۔خطبہ میں بہت ساری آیتوں کی اہل بیت علیھم السلام کے ذریعے تفسیر کرنا۔

۔کئی مقامات پر منافقین کے گذشتہ اور آئندہ اقدامات کی طرف کبھی صاف طور پراور کبھی تلویحاً اشارہ کرنا۔

۔خطبہ کے پہلے آدہے حصہ کو امیر المومنین علیعليه‌السلام کی ولایت کے رسمی اعلان سے مخصوص کرنا اور اس بنیادی مطلب اوراصل مو ضوع کو بیان کر نے کے بعداس کے سلسلہ میں وضاحت نیز دوسرے مطالب جیسے نماز۔زکات ،حج وغیرہ کا بیان کرنا۔

۲ خطبہ غدیر کے مطالب کی موضوعی تقسیم

وہ مطالب جو ذیل میں ۲۱ عنوان کے تحت ذکر ہوئے ہیں خطبہ غدیر جو انشاء اللہ چھٹی اور ساتویںفصل میں ذکر ہوگاکے متن سے لئے گئے ہیں ان کو ذکر کرنے سے پہلے چارنکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے :

۱ ۔وہ موضوعات جو ہم نے مد نظر رکہے ہیں اور ان کاذکر کیا ہے خطبہ کے مھم مطالب سے مربوط ہیں اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان پر زیادہ زوردیا ہے اگر خطبہ کے تمام مطالب کا ذکر کیا جائے توایک مفصل مو ضوعی فھرست درکار ہے ۔

۲ ۔اختصار کی وجہ سے ہم نے خطبہ کی عبارتوں کو مختصر تلخیص کے ساتھ ذکر کیا ہے علاقہ مند حضرات زیادہ توضیحات کے لئے متن خطبہ کی طرف مراجعہ کرسکتے ہیں ۔

۳ ۔ہر عبارت کے آخر میں بریکٹ کے اندر خطبہ کے گیارہ حصوںمیں سے جس کے اندر وہ عبارت ذکر ہوئی ہے اسکا ایڈرس نیچے دیا گیاہے ۔

۴ ۔اس موضوعی تقسیم کے عناوین درج ذیل ہیں :

۱ ۔توحید۔

۲ ۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت۔

۳ ۔علی بن ابی طالبعليه‌السلام کی ولایت۔

۴ ۔بارہ معصوم اماموں کا تذکرہ۔

۵ اہل بیتعليه‌السلام کے فضائل۔

۶ ۔امیرالمومنینعليه‌السلام کے فضائل۔

۷ ۔ امیرالمومنین ہونے کا لقب۔

۸ ۔اہل بیتعليه‌السلام کا علم ۔

۹ ۔حضرت مھدی (عج)۔

۱۰ ۔اہل بیتعليه‌السلام کے شیعہ اور محبّین۔

۱۱ ۔اہل بیتعليه‌السلام کے دشمن۔

۱۲ ۔گمراہ کرنے والے امام۔

۱۳ ۔اتمام حجت۔

۱۴ ۔بیعت۔

۱۵ ۔قرآن۔

۱۶ ۔تفسیر قرآن۔

۱۷ ۔حلال و حرام۔

۱۸ ۔نمازاور زکات۔

۱۹ ۔حج اور عمرہ۔

۲۰ ۔امر بالمعروف ونھی عن المنکر۔

۲۱ ۔قیامت ۔

۱ ۔توحید

خطبہ کا پہلا حصہ ، توحید کے متعلق اعلیٰ اور معنی عبارت پر مشتمل ہے کہ جسکی طرف اجمالی طور پر اشارہ کیا جاتا ہے :خداوند عالم کی عظمت اور بزرگی،اسکا علم ،قدرت اورخالقیت،اسکا سمیع وبصیر ہونا،اسکا ازلی اور ابدی ہونا،اسکا بے نیاز ہونا،اس کا ارادہ،اس کی ضداور شریک کا نہ ہونا،پروردگارکا حکےم وکریم ہونا، اسکا قدوس اورمنزہ ہونا،تمام امور کاخدا کی طرف پلٹنا،بندوں سے اسکاقریب ہونا۔خداکی رحمت ونعمت کا وسیع ہونا،انسان اورافلاک کے اندر اسکی قدرت کے آثار، خدا کا انتقام اورعذاب،خدا کی حمد وثناکاضروری ہونا، اسکی صفات کو درک کرنے سے عاجز ی کا اظھار کرنا۔اسکی عظمت کے مقابلے میں تواضع اور انکساری کرنا۔( ۱)

۲ ۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت

۔میں زمین وآسمان کی تمام مخلوقات پر خداکی حجت ہوں جو بھی اس بارے میں شک کرے وہ کافرہے ۔( ۳)

۔جس نے میری ایک بات میں شک کیا گویا اس نے میری ساری گفتگومیں شک کیا اور جو میری گفتار میں شک کرے اسکا ٹھکاناجہنّم ہے ۔( ۳)

۔خدا کے حکم کے بغیرمیرے کلام میں تغیر وتبدیلی نہیں آسکتی۔( ۴)

۔مجھ سے پہلے والے انبیاء اور مرسلین نے میرے آنے کی بشارت دی ہے ۔ ( ۳)

۔کوئی ایسا علم نہیں ہے جس کی خدا نے مجہے تعلیم نہ دی ہو( ۳)

۳ ۔علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت

خداوند عالم نے علی کو صاحب اختیار اور تم لوگوں پر امام بنایا ہے ( ۳ )

علیعليه‌السلام کی اطاعت شھری ، دیھاتی ،عربی، عجمی ،آزاد، غلام ،چھوٹے بڑے سب پر واجب ہے ۔

علیعليه‌السلام کام حکم ھرموحد( موجود) پرقابل اجراء اور ان کا کلام مورد عمل اورامر نافذ ہے ۔( ۳)

جس جس پر میں اختیار رکھتا ہوں یہ علیعليه‌السلام بھی اس پر اختیار رکھتے ہیں ۔( ۳)

علیعليه‌السلام کی ولایت خدا کی طرف سے ہے اور اس کا حکم بھی خدا کی طرف سے ہوا ہے ( ۳)

خدایا ! جو علیعليه‌السلام کو دوست رکہے تو اس کو دوست رکھ ۔( ۴)

خدا نے تمھارے دین کو حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے ذریعے کا مل کیا ہے ۔( ۵)

علیعليه‌السلام کے حکم کو غور سے سننا تا کہ سالم رہو ،ان کی اطاعت کر نا تا کہ ہدایت پا سکو ،ان کے روکنے سے باز رہنا تاکہ صلاح و بھبودی تک پہونچ سکو ،اور اس کے ارادہ کے پیچہے پیچہے چلنا تاکہ مختلف راستے تم کو گمراہ نہ کر سکیں ۔( ۶)

علیعليه‌السلام کے راستے کو چھو ڑ کر گمراھی کی طرف مت چلے جانا ،ان سے دور نہ ہوجانا اور ان کی ولایت سے سر پیچی نہ کر نا ۔

اگر طویل عر صہ گزرنے کے بعد تم نے کو تا ہی کی یاان کوبھول گئے تو یاد رکھو کہ تمھارے نفسوں پر اختیار رکھنے والے اور تمھارے دین کو بیان کرنے والے علی ہیں جس کو خدا نے میرے بعد اپنی مخلوق پر امین قرار دیا ہے ۔وہ تمھارے ہر سوال کا جواب دیں گے اور جس چیز کو تم نہیں جانتے اس کو بیان کریں گے( ۱۰)

۴ ۔ بارہ ائمہ معصومین علیھم السلام کا تذکرہ

میں خدا کا وہ صراط مستقیم ہوں جس کی پیروی کا خدا نے تم کو حکم دیا ہے اور میرے بعد علیعليه‌السلام اور ان کی نسل سے میرے فرزند ہیں جو حق کی طرف ہدایت کر نے والے امام ہیں ۔( ۷)

میری نسل میں امامت علیعليه‌السلام کی اولاد سے ہو گی جب تک کہ قیامت کے دن خدا اور اس کے رسول سے ملاقات نہ کر لو ۔( ۳)

جس شخص نے خدا ،رسول ،علی اور ان کے بعد آنے والے ائمہ کی اطاعت کی یقیناً وہ بڑا کامیاب ہوگا ۔( ۱۱)

امیر المو منین علیعليه‌السلام ،حسن ،حسین اور باقی ائمہعليه‌السلام کی کلمہ باقی اور طیب و طاھر کے اعتبار سے بیعت کرو ( ۱۱ )

قرآن تم کو دعوت دے رہا ہے کہ علی علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند امام ہیں اور میں نے بھی تم لوگو ں کو آگاہ کر دیا ہے کہ باقی امام میری اور ان کی نسل سے ہیں ،قرآن کہہ رہا ہے :( وَجَعَلَهَا کَلِمَةً بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهِ ) اور میں کہہ رہا ہوں ( ۱۰)لَنْ تَضِلُّوْامَااِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا > ( ۱۰) جو لوگ قیامت تک علیعليه‌السلام اور ان کی نسل اور میری اولاد سے ہو نے والے اماموں کو امام کے عنوان سے قبول نہیں کریں گے ان کے اعمال حبط ہو جا ئیں گے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہینگے( ۵)

میں خلا فت کو امامت کے عنوان سے اپنی نسل میں قیامت تک کےلئے چھو ڑے جا رہا ہوں ۔( ۶)

حلا ل و حرام اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ میں ان کو ایک مجلس میں بیٹھ کر شمار کروں پس مجھ کو خدا کی جانب سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ علی امیر المو منین اور ان کے بعدقیامت تک اماموں کے بارے میں جو میری اولاداور ان کی نسل سے ہیں اور ان کا قائم مھدی ہے ان کے سلسلہ میں جو کچھ خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے اس پر تم لوگوں سے بیعت لوں ۔( ۱۰)

حلال وہ ہے جس کو خدا ،رسول اور بارہ امام حلال قراردیں اور حرام وہ ہے جس کو خدا ،رسول اور بارہ امام حرام قرار دیں ۔( ۳)

۵ ۔اہل بیت علیھم السلام کے فضائل

تمھارا پیغمبر بہترین پیغمبر ،تمھارے پیغمبر کاجانشین بہترین جا نشین اور ان کی اولاد بہترین جا نشین ہیں ۔

حضرت علیعليه‌السلام صبر اور برد باری کا بہترین نمونہ ہیں اور ان کے بعد ان کی نسل سے میرے فرزند ۔

خدا وند عالم نے اپنا نور مجھ میں پھر علیعليه‌السلام میں ان کے بعد ان کی نسل میں مھدی مو عود تک قرار دیا ہے ۔ ( ۶)

۶ ۔امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل

علیعليه‌السلام امام مبین اور امام المتقین ہیں ۔( ۳)

علیعليه‌السلام حق کی طرف ہدایت کر تے ہیں ،اور اس پر عمل کر تے ہیں باطل کو نیست و نا بود کر نے والے اور اس سے منع کر نے والے ہیں اور راہِ خدا میں کسی ملا مت کر نے والے کی ملامت ان کے لئے رکا وٹ نہیں ہوسکتی ۔( ۳)

علیعليه‌السلام خدا وند عالم پر ایمان لا نے والے سب سے پہلے شخص ہیں ۔( ۳)

علیعليه‌السلام کو سب سے افضل مانو اس لئے کہ وہ میرے بعد ہر مرد و عورت سے افضل ہیں ۔( ۳)

علیعليه‌السلام جنب خدا ہیں قرآن میںآیا ہے :( یَاحَسْرَتَا عَلیٰ مَافَرَّطْتُ فِیْ جَنْبِ اللهِ ) ( ۳)

یہ علیعليه‌السلام ہیں جس نے تم سب سے زیادہ میری مدد کی ،تم میں سب سے زیادہ میرے نزدیک محبوب اور عزیز ہیں میں اور میرا خدا اس سے راضی ہیں ۔( ۵)

خدا وند عالم کی رضا کے با رے میں کوئی آیت نازل نہیں ہو ئی مگر علیعليه‌السلام کے بارے میں ۔( ۵)

خداوند عالم نے قرآن میں جب بھی مو منین سے خطاب کیاتو ان میں سب سے پہلے علیعليه‌السلام کومخاطب قراردیا ۔( ۵)

خدا وند عالم نے سورہ ”ھل اتیٰ “میں جنت کی گوا ہی صرف علیعليه‌السلام کے لئے دی ہے ( ۵)

سورہ ” ھل اتیٰ“فقط علیعليه‌السلام کے سلسلہ میں اور علیعليه‌السلام کی مدح میں نازل ہوا ہے ۔( ۵)

علیعليه‌السلام دین خدا کے یاور ومددگاراور رسول کے محافظ ہیں ۔( ۵)

علیعليه‌السلام تقی ،نقی ،ھادی اور مھدی ہیں ۔( ۵)

علیعليه‌السلام وعدہ گاہ الٰہی ہیں ( ۶)

علیعليه‌السلام مبشر ہیں ۔۔۔علیعليه‌السلام ھادی ہیں ۔( ۷)

علیعليه‌السلام وہ شخصیت ہیں جن کو خدا وند عالم نے مجھ سے خلق فرمایا اور مجھ کو علیعليه‌السلام سے خلق فرمایا ۔( ۱۰)

حضرت علیعليه‌السلام کے فضائل و کمالات صرف خدا جانتا ہے اور خداوند عالم نے ان کو قرآن میں بیان فر مایا ہے ،علیعليه‌السلام کے فضائل اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ میں ان کو ایک مجلس میں بیان کروں ۔پس جو بھی علیعليه‌السلام کے فضائل تمھارے سامنے بیان کرے (بشر طیکہ ان کی معرفت بھی رکھتا ہو )اس سے قبول کر لو ۔

۷ ۔”امیر المو منینعليه‌السلام “کے القاب

میرے بھا ئی (علیعليه‌السلام ) کے علاوہ کو ئی” امیر المو منین “نہیں ہے اور میرے بعد مو منین کا امیر بننا علیعليه‌السلام کے علاوہ کسی کے لئے جا ئز نہیں ہے ۔( ۳)

علیعليه‌السلام کو امیر المو منین کہہ کر سلام کیا کرو ۔( ۱۱)

جو لوگ علیعليه‌السلام کو امیر المو منین کہہ کر سلا م کر نے میں سبقت کریں گے وہ کامیاب ہیں ۔( ۱۱)

۸ ۔اہل بیت علیھم السلام کا علم

کو ئی ایسا علم نہیں ہے جس کی خدا نے مجہے تعلیم نہ دی ہو اور کوئی ایسا علم نہیں ہے جس کی میں نے علیعليه‌السلام کو تعلیم نہ دی ہو ۔( ۳)

خدا وند عالم نے مجھ کو امر و نھی کیا ہے اور میں نے علیعليه‌السلام کو امرونھی کیا ہے پس علیعليه‌السلام نے امر و نھی خدا کی جانب سے سیکھا ہے ۔( ۶)

ایھا الناس !میں نے تمھارے لئے (احکام) بیان کئے اور تمہیں تعلیم دی ہے اور میرے بعد تمہیں یہ علیعليه‌السلام تعلیم دیں گے ۔( ۹)

۹ ۔حضرت مھدی عج

خدا وند عالم نے اپنا نور میرے اور علیعليه‌السلام کے صلب میں اور اور ان کی نسل میں مھدی قائم تک قرار دیا ہے ( ۶)

مھدی ،حق خدا اور ہمارے ہر حق کا بدلہ لیں گے ۔( ۶)

کو ئی ایسی سر زمین نہیں ہے مگر خدا وند عالم اس کے باشندوں کو ان کی تکذیب کی وجہ سے ھلاک کرے گا اور ان کو مھدی کے اختیار میں قرار دے گا ۔( ۶)

خاتم الا ئمہ ،قائم آل محمد ہم سے ہیں ۔( ۸)

مھدی وہ ہیں جو تمام ا دیان پر غالب آنے والے ،ظالموں سے انتقام لینے والے دین خدا کے مددگار ،ناحق بہنے والے خون کے منتقم،قلعوںکوفتح کرنے والے،دریائے عمیق سے نشات پانے والے انسانوں کو ان کی حیثیت کے مطابق نشاندھی کرانے والے،علوم کے وارث اور آیات الٰہی کو استحکام بخشنے والے ہیں ۔( ۸)

مھدی وہ ہیں جن کے سپرد امور کئے گئے ہیں گزشتہ انبیاء و ائمہ نے ان کے آنے کی بشارت دی ہے وہ زمین پر باقی رہنے والی خدا کی حجت اوراس کے ولی ہیں اور وہ خداوند عالم کے سرّ اور آشکار کے امانتدار ہیں ۔( ۸)

۱۰ ۔اہل بیت علیھم السلام کے دوستدار اور شیعہ

خدا وند عالم ہر اس شخص کو بخش دے گا جو علیعليه‌السلام کا کلام سنے گا اور اس کی اطاعت کرے گا ۔( ۳)

خدایا جو علیعليه‌السلام کو دوست رکہے تو اس کو دوست رکھ ۔( ۴)

متقی شخص کے علاوہ کوئی خدا کو دوست نہیں رکھ سکتا ،اور مخلص مو من کے علا وہ کوئی علی پر ایمان نہیں لا سکتا ۔( ۷)

علیعليه‌السلام کے دوست وہ لوگ ہیں جن کا تذکرہ خدا وند عالم نے قر آن میں کیا ہے (اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے سلسلہ میںقر آن کریم کی چند آیات کی تلاوت فر ما ئی)( ۷)

ہمارا دوست وہ شخص ہے جس کی خدا نے تعریف کی ہے اور جس کو خدا دوست رکھتا ہے ( ۷)

جو شخص خدا ،اس کے رسول اوربارہ اماموں کی اطاعت کر ے گا وہ عظیم کا میابیاں حاصل کرے گا ( ۱۱)

وہ لوگ جو علیعليه‌السلام کی بیعت ،ولایت اور ”امیر المو منین “ کے عنوان سے سلام کر نے میں سبقت کرےںگے وہ کامیاب ہیں اور ان کا ٹھکا نا جنت ہے ۔( ۱۱)

۱۱ ۔اہل بیت علیھم السلام کے دشمن

علیعليه‌السلام کی مخالفت کر نے والا ملعون ہے ۔( ۳)

خدا وند عالم علیعليه‌السلام کی ولایت کا انکار کر نے والے کی توبہ ہر گز قبول نہیں کرے گا اور اس کو نہیں بخشے گا ۔( ۳)

علیعليه‌السلام کی مخالفت سے بچو ورنہ ایسی آگ کے حوالے کئے جا و گے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے لئے بنا ئی گئی ہے ۔( ۳)

خدا وند عالم فرماتا ہے (جو شخص علیعليه‌السلام کے ساتھ دشمنی رکہے اور ان کی ولایت قبول نہ کرے اس پر میری لعنت اور غضب نا زل ہو ۔( ۳)

ملعون ہے ،ملعون ہے ،مغضوب ہے ،مغضوب ہے وہ شخص جو (علی کے بارے میں )میری اس بات کو قبول نہ کرے اور اس سے متفق نہ ہو ۔( ۳)

خدایا علی کے دشمن کو اپنا دشمن قرار دے ،علیعليه‌السلام کے منکر پر اپنی لعنت بھیج اورحق علیعليه‌السلام کے منکر پر اپنا غضب نازل فرما ۔( ۴)

جو لوگ علیعليه‌السلام اور ان کے جا نشینوں کی امامت کے منکر ہیں قیامت کے دن ان کے اعمال حبط ہو جا ئیں گے اور وہ ہمیشہ آتش جہنم میں جلیں گے ان کے عذاب میں کو ئی کمی نہیں ہو گی اور ان کو مھلت نہیں دی جا ئے گی ۔( ۵)

شقی انسان کے علاوہ کو ئی علی سے دشمنی نہیں کرے گا ۔( ۵)

خدا وند عالم نے ہمیں دنیائے عالم کے تمام مقصروں ،معاندوں ،مخالفوں ،خائنوں، گناہگاروں ظالموں اور غاصبوں پر حجت قرار دیا ہے ۔( ۶)

گمراہ کرنے والے پیشوا ،ان کے دوست ،ان کی اتباع کر نے والے اور ان کی مد د کرنے والے جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہو ں گے ۔( ۶)

علیعليه‌السلام کے دشمن ،اھل شقاوت اہل نفاق اور اپنے نفسوں پر ظلم کر نے والے ہیں ،وہ شیطانوں کے بھا ئی ہیں جو آپس میںبظاہر خوبصورت اور تکبر آمیز باتیں کیا کرتے ہیں ۔( ۷)

خداوند عالم نے قر آن کریم میں علیعليه‌السلام کے دشمنوں کا تذکرہ کیا ہے (اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سلسلہ میں قرآن کریم کی چند آیات کی تلاوت فر ما ئی )( ۷)

ہمارا دشمن وہ شخص ہے جس پر خدا وند عالم نے لعنت و ملامت کی ہے ۔( ۷)

۱۲ ۔گمرا ہ کر نے والے پیشوا

عنقریب میرے بعد ؛کچھ افراد اپنے آپ کو امام کھلا ئیں گے اور لوگوں کو آتش جہنم کی طرف دعوت دیں گے ،قیامت کے دن ان کی کو ئی مدد نہیں کی جا ئیگی ،خدا وند عالم اور میں ان سے بیزار ہیں ،وہ ان کے اعوان و انصار اور ان کی اتباع کر نے والے جہنم کے سب سے آخری درجہ میں ہو ں گے ،آگاہ ہو جاو وہ اصحاب صحیفہ ہیں لہٰذا تم میں سے ہر کوئی اپنے صحیفہ پرغور کرلے (آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے ذریعہ اصحاب صحیفہ ملعونہ کی طرف اشارہ فرمایاہے )۔( ۶)

عنقریب میرے بعد کچھ لوگ خلافت کو بادشاہت کے عنوان سے غصب کر لیں گے ۔خدا ان غاصبوں پر لعنت کرے ۔( ۶)

۱۳ ۔اتمام حجت

خدا وند عالم نے ہمیں دنیا کے تمام مقصروں ،دشمنوں ،مخالفوں ،خائنوں ،گناہگاروں ،ظالموں اور غاصبوں پر حجت قرار دیا ہے ۔( ۶)

مجہے خدا نے جس چیز کے پہنچانے کا حکم دیا تھا میں نے پہنچا دیا تاکہ ہر حاضر و غائب اور ہر اس شخص پر جو دنیا میں آیا ہے یا ابھی نہیں آیا حجت تمام ہو جا ئے ۔( ۶)

حاضر ین غائبین کو اور باپ اپنی اولاد کو قیامت تک اس(واقعہ غدیر) پیغام کو پہنچا ئیں ۔( ۶)

ایھا الناس ،خدا تم لوگوں کو تمھارے حال پر نہیں چھوڑے گا یھاں تک کہ خبیث لوگوں کوپاک لوگوں سے الگ کرلے ( ۶)

سب سے بڑا امر با لمعروف یہ ہے کہ تم میری باتوں کو غور سے سنو اور جو حاضر نہیں ہیں ان تک پہنچاو،ان کو ان باتوں کے قبول کر نے پر زور دو اور ان کی مخالفت کر نے سے روکو۔( ۱۰)

حضرت آدم علیہ السلام ایک معمولی سے ترک اولیٰ کی وجہ سے زمین پر بھیج دئے گئے، حالانکہ خدا کے منتخب بندے تھے تو تمھارا کیا حشر ہو گا حالانکہ تم ہو !(یعنی تم میں اور حضرت آدم علیہ السلام بہت میں فرق ہے )اور تمھارے درمیان خدا کے دشمن بھی مو جود ہیں ۔( ۵)

ایسی باتیں کروکہ خداتم سے راضی ہو ،اس لئے کہ اگرتم اور تمام روئے زمین کے لوگ کافر ہو جا ئیں تو خدا کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔( ۱۰)

تم میں سے ہر ایک علیعليه‌السلام کی نسبت جتنی دل میں محبت اور نفرت رکھتا ہے اسی کے مطابق پر عمل کرے۔( ۶)

۱۴ ۔بیعت

میں خطبہ کے بعد تم لوگوں کو دعوت دونگا کہ میرے ساتھ علیعليه‌السلام کی بیعت اور ان کے بلندو بالامقام کے اقرارکے عنوان سے ہاتھ ملائیں اور میرے بعد علی علیہ السلام سے ہاتھ ملا ئیں ۔آگاہ ہو جا ؤ !میں نے خدا کی بیعت کی ہے اور علیعليه‌السلام نے بھی میری بیعت کی ہے اور میں خدا کی نیابت میں علیعليه‌السلام کےلئے بیعت لے رہا ہوں،پس جو بھی اپنی بیعت سے منھ موڑے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا ( ۹)

میں تم لوگوں سے بیعت لینے پر مامو ر ہوں اور امیر المومنین علیعليه‌السلام اور ان کے بعد ائمہ جو مجھ سے ہیں اور ان کا آخری قائم ہے ان کے سلسلہ میں جو کچھ خدا کی جانب سے لا یا ہوں اس کی قبولیت پر تمھارے ساتھ ہاتھ ملاوں۔( ۱۰)

ایھا الناس !تمھاری تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کہ میں تم سے اس مختصر سے وقت میں بیٹھ کر بیعت لوں ،لہٰذا خدا نے مجہے یہ حکم دیا ہے کہ میں علیعليه‌السلام اور ان کے بعد آنے والے ائمہ کی خلافت اورمقام کے بارے میں تمھاری زبانوں سے اقرار لوں ۔( ۱۱)

امیر المو منین علیعليه‌السلام ،حسن ،حسین اور باقی ائمہعليه‌السلام کی بیعت کرو۔( ۱۱)

جو کچھ میں کہوں تم اس کو اپنی زبان سے دھراو۔۔۔کہو ”ھم نے سنا اور ہم اطاعت کریںگے‘( ۱۱)

علیعليه‌السلام کی بیعت کرنے میں سبقت کر نے والے افراد کا میاب ہیں ۔( ۱۱)

۱۵ ۔قرآن

قرآن میں تدبر کرو ،اس کی آیات کو سمجھو ،اس کے محکمات میں دقت کرو اور متشابھات کے پیچہے مت جا و ۔( ۳)

خدا کی قسم علی بن طالب علیہ السلام کے علاوہ کو ئی قرآ ن کے باطن اور اس کی تفسیر بیان نہیں کر سکتا ہے کہ جن کے ھاتھو ں کو میں نے تمھارے سامنے بلند کر رکھا ہے ۔( ۳)

۱۶ ۔تفسیر قرآن

رضا ئے خدا کے بارے میں نازل ہو نے والی آیت، علیعليه‌السلام کے بارے میں ہے ( ۵)

خدانے قرآن میں مومنین کو مخاطب نہیں قرار دیا مگران میں سب سے پہلے شخص علیعليه‌السلام ہیں ۔( ۵)

خدانے سورہ (ھل آتی)کو فقط علی کے بارے میں نازل کیا ہے اور اسمیں صرف علی کی مدح کی ہے ۔( ۵)

خدا کی قسم سورہ ”والعصر“علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔( ۵)

قرآن تم سے کہہ رہا ہے کہ علیعليه‌السلام کے بعد امام ان کی اولاد میں سے ہوں گے۔۔لہٰذا خدا فرماتاہے :

( وجعلهاکلمة باقیة فی عقبه ) ( ۱۰)

خدا نے علی کے فضائل کو قرآن میں نازل کیا ہے ۔( ۱)

یہ علیعليه‌السلام ہے جس نے نمازکو قائم کیا،حالت رکوع میں زکات دی اور ہر حال میں خدا کو یاد رکھتا ہے ۔(آیت”انماولیکم واللہورسولہ و۔۔۔کی تفسیر( ۲)

خدا کا یہ قول:<۔۔۔من قبل ان نطمس وجوھافنردھاعلی آدبارھا> سورہ نساء آیت/ ۴۷ ۔”۔۔۔قبل اس کے کہ ہم تمھارے چھروں کو بگاڑکر پشت کی طرف پھیر دیں“میرے اصحاب میں سے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوا ہے جن کو میں نام ونسب سے جانتا ہوں مگرمجہے ان کے نام نہ لینے کا حکم دیا گیا ہے ۔

۱۷ ۔حلال اور حرام

ھر وہ حلال جس کی طرف میں نے تمھاری ہدایت کی ہے اور ہر وہ حرام جس سے میں نے منع کیا ہے ہمیشہ وھی رہے گا کبھی بھی اس میں تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔یہ بات ہمیشہ یاد رہے اور دوسروں کو بھی اس بات کی تلقین کر دیجئے کہ ہر گز میرے حلال وحرام میں تغیّرو تبدل نہ کریں۔( ۱)

حلال وحرام اس سے زیادہ ہیں کہ میں سب کوتم لوگوںکے سامنے گنوادوں اور ایک ہی مجلس میں تمام حلال کاموں کاامر کروں اور تمام حرام کاموں سے نھی کروں پس میں مامور ہوں کہ تم سے بیعت لوںاوراس بات پرھاتھ ملاوںکہ جو کچھ میں خدا وند عالم کی طرف سے علیعليه‌السلام اور ان کے بعد کے ائمہعليه‌السلام کے بارے میں لیکر آیا ہوںتم اسے قبول کرو۔( ۱۰)

حلال کام فقط وھی ہے جسکو خدا ،اسکے رسول اور اماموں نے حلال کیا ہو،اور حرام کام فقط وھی ہے جسکو خدا،اسکے رسول اور اماموں نے حرام کیا ہو۔( ۳)

۱۸ ۔نماز اور زکات

نماز کو قائم رکھو اور زکات دیتے رہو جیسا کہ خدا نے تمہیں حکم دیا ہے ۔( ۱۰)

میں دوبارہ اپنی بات کی تکرار کر رھاہوں ۔”نماز کو قائم رکھو اور زکات ادا کرو۔“

۱۹ ۔حج اور عمرہ

حج اور عمرہ شعائر الٰہی ہیں ۔( ۱۰)

خانہ خداکے حج کےلئے جاؤ،کوئی انسان خانہ خداکی زیارت نہیں کرے گا مگریہ کہ غنی ہو جا ئیگا اور (ممکن ہونے کے باوجود) کوئی خانہ خدا کی زیارت سے انکار نہیں کرے گا مگر یہ کہ فقیرہوجائے گا۔( ۱۰)

دین کامل اور معرفت کے ساتھ خانہ خدا کی زیارت کے لئے جاؤ ،اور گناہوںسے دوری اور توبہ کئے بغیر مقدس مقامات سے واپس نہ لوٹو۔

حاجیوںکی مدد کی جائے گی جو کچھ وہ خرچ کریں گے دوبارہ انکو دے دیاجائے گا۔خدا احسان کرنے والوں کا اجر ضایع نہیں کرتا۔( ۱۰)

کوئی مومن موقف پہ توقف نہیں کرتا مگر خدا اس وقت تک کے اسکے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور جب اسکا حج تمام ہوجاتا ہے تو اسکے نامہ اعمال کانئے سرے سے آغاز ہوتا ہے ۔( ۱۰)

۲۰ ۔امر بالمعروف و نھی عن المنکر

میں اپنی بات کی تکرار کرتا ہوں۔”امر با لمعروف ونھی عن المنکر کرو۔“( ۱۰)

بہترین امر با لمعروف اور نھی عن المنکر یہ ہے کہ میری بات کو غور سے سنواور جو لوگ حاضر نہیں ہیں ان تک پہنچاؤ اوران کو قبول کرنے کا حکم دو۔

اور اسکی مخالفت سے بچو،اس لئے کہ یہ حکم خدا کی طرف سے ہے ۔( ۱۰)

کوئی امر بہ معروف ونھی ازمنکر نہیں ہے مگر معصوم امام( کی راہنمائی) کے ساتھ۔( ۱۰)

۲۱ ۔قیامت اور معاد

تقویٰ اختیار کرو۔تقویٰ اختیار کرو۔روز قیامت سے ڈرو۔موت،حساب و کتاب۔ میزان،اور خدا کی بارگاہ میںمحاسبہ اورثواب وعقاب کو یاد کرو۔( ۱۰)

جواپنے ساتھ نیکی لے کرآئے گااسکو ثواب دیا جائے گا اور جو گناہ لے کرآئے گاوہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ پائے گا۔( ۱۰)

اس مقام پر خطبہ غدیر کے مطالب کا خلاصہ اور اس کی مو ضوعی تقسیم تمام ہوجاتی ہے ۔

حدیث غدیر کی سند اور متن کے سلسلہ میں تحقیق

اگرچہ حدیث غدیرکی سند اورمتن کے سلسلہ میں مفصل علمی بحثیں ہیں لیکن پھر بھی ہم ان پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ۔

علماء کرام نے ان دونوں مطالب کے سلسلہ میں کافی اور وافی بحثیں کی ہیں مطالعہ کرنے والے افراد اسی حصہ میں جن کتابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کی طرف رجوع کریں ۔

۱ حدیث غدیر کی سند

غدیر کے عظیم واقعہ میں خطبہ سے پہلے جو مقدماتی مراحل انجام پائے،خطبہ کامتن،اور وہ واقعات جو خطبہ کے ساتھ یا خطبہ کے بعد رونما ہوئے سب ایک روایت کی شکل میں ہمارے ھاتھوں تک نہیں پہنچ پائے۔بلکہ غدیر میں موجود افراد میں سے ہر ایک نے مراسم کے ایک گوشہ یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کے ایک حصے کو نقل کیا ہے ۔البتہ اس واقعہ کا کچھ حصہ متواتر طریقے سے بھی ہم تک پہنچاہے اور خطبہ غدیر بھی مکمل طورپر کتابوں میں محفوظ ہے ۔

حساس دور میں حدیث غدیرکی روایت

غدیر کے میدان میں اس جمع غفیر میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو باتیں کیںوہ اس طریقے سے شھروں میں منتشر ہوگئیں کہ حتی غیر مسلم بھی ان سے باخبر ہوگئے۔

بجا ہوتا اگر غدیرمیںایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ حاضرمسلمانوں میں سے ہر ایک اپنے سھم کے مطابق خطبہ غدیر کے ایک حصہ کو حفظ کرتااوراسکے متن کو اپنی اولاد ،اپنے رشتہ داروں اور دوستوں تک پہنچاتا۔

افسوس کا مقام ہے کہ اس وقت کی مسلمانوںکی اجتماعی حالت اور رحلت پیغمبر کے بعدکی تاریک فضا کہ جس میں کئی سال تک حدیث سنانا اور لکھنا ممنوع تھا۔اس بات کا سبب بنی کہ لوگ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تقدیر ساز باتوں کو بھی بھول جائیں،اور ان کی اہمیت کو کھوبیٹہیں ۔

طبیعی طور پر ایسا ہی ہونا چاہے ے تھا اسلئے کہ مسئلہ غدیر کو چھیڑنا ،غاصبین خلافت کی جڑوں کو اکھاڑپھینکنے کے مترادف تھا اور وہ ہر گزاس کام کی اجازت نہیں دے سکتے تھے لیکن اسکے باوجود واقعہ غدیر یوں لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھا کہ اکثر لوگوں نے غطبہ غدیر یا اس کا کچھ حصہ حفظ کیااور اس کوآنے والی نسلوں تک پہنچایا اور کسی کے بس میں نہیں تھا کہ اس پر کنٹرل کر سکے اور اس مھم خبر کو منتشرہونے سے روک سکے۔

خود امیر المومنینعليه‌السلام اور فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاجو غدیر کا رکن تھے اور ائمہ یکے بعد دیگرے اس حدیث کو محفوظ رکھتے رہے اور کئی بار دوستوں اور دشمنوں کے مقابلے میں اس کے ذریعے استدلال پیش کرتے رہے ۔( ۱ ) ھم دیکھتے ہیں کہ اس خطرناک ماحول میں امام باقر علیہ السلام خطبہ غدیر کے مکمل متن کو اپنے اصحاب کےلئے بیان کرتے تھے ۔

اسی طرح صحابہ میں سے دو سو آدمیوں نے اور تابعین کے ایک گروہ نے اس تقیہ کے ماحول میں کہ جھاں ایک حدیث کا نقل کرنا ایک جان دینے کے برابر تھا اسکو نقل کیا۔کتاب عوالم العلوم:ج ۱۵/۳ صفحات ۴۹۳ ۔ ۵۰۸ میں حدیث غدیر کے راویوں کی چودہ سو سال سے اب تک کی زمانہ کے لحاظ سے ایک فھرست ذکر ہوئی ہے اور ا س میں ثابت کیا ہے کہ یہ نقل خَلَف از سَلَف اس بات کی دلیل ہے کہ بغیر انقطاع کے حدیث غدیر کے نقل کاسلسلہ مستحکم ہے ۔صفحات ۵۰۱ ۔ ۵۱۷ میں غدیر کے راویوں کو الف، با ،کی ترتیب سے ذکر کیا ہے ، صفحہ ۵۲۲ میں وہ مو لفین جنھوںنے حدیث غدیر کو ضبط(لکھا) کیا ہے کاتذکرہ کیا ہے ۔صفحات ۹ ۲ ۵ ۔ ۴ ۳ ۵ میں حدیث غدیر کے نقل کرنے والے صحابہ تابعین اور دوسرے لوگوں کی وثاقت کو بیان کیا ہے ۔اسی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان ”حدیث غدیر“برابرکسی حدیث کے راوای نہیں ہیں اوراس کے تواترکے علاوہ علم رجال اور درایت اسناد کے اعتبار سے بھی یہ حدیث فوق العادہ ہے ۔

حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں کتابوں کی شناخت

حدیث غدیر کی سند سے مربوط تاریخی اور رجالی بحثوں کے اعتبار سے بہت سی مفصل کتابیں تالیف ہوئی ہیں ۔

ان کتابوں میں ،حدیث غدیر کے راویوں کے نام جمع کئے گئے ہیں اور راویوں کے موثق ہونے کے بارے میں رجالی بحثیں ہوئی ہیں راویوںاور اسنادکے بارے میں مفصل تاریخ بیان ہوئی ہے اور اس کے اسناد و رجال کے بارے میںتعجب خیز باتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ذیل میں دو نمونوں کی طرف ا شارہ کیا جاتاہے :

ابوالمعالی جو ینی کہتے ہیں :میں نے بغداد میں ایک جلد ساز کے پاس ایک کتاب دیکھی کہ جس کی جلد پر یہ لکھا ہوا تھا۔”من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ“کی اسنادکے بارے میں اٹھائیسویں جلد اور اس جلد کے بعد انتیسویںجلدہے “( ۲ )

ابن کثیر کہتے ہیں :میں نے دو ضخیم جلدوں میں ایک کتاب کو دیکھا جس میں طبری نے غدیر خم کی احادیث کو جمع کیا ہے ۔( ۳ )

اھل سنت کی بہت سی بڑی بڑی کتابوں میں حدیث غدیر کو مسلمات کے عنوان کے تحت ذکر کیا گیاہے ۔منجملہ ان کے مولفین یہ ہیں :اصمعی ، ابن سک یت ،جاحظ،سجستانی، بخاری اندلسی ، ثعلبی، ذھبی، مناوی، ابن حجر،تفتازانی،ابن اثیر،قاضی عیاض،باقلانی۔( ۴ )

اگر چہ اس سلسلے میں کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ہم یھاںپر اختصار کے ساتھ چند ایک کتابوںکاتعارف کراتے ہیں :

۱ ۔عبقات الانوار۔میرحامد حسین ہندی۔(غدیر سے مربوط جلدیں)

۲ ۔الغدیر:علامہ امینی؛ج ۱ ص ۱۲ ۔ ۱۵۱ ۔ ۲۹۴ ۔ ۳۲۲ ۔

۳ ۔نفحات الازھارفی خلاصة عبقات الانوار:علامہ سید علی میلانی؛ج ۶ ۔ ۹ ۔

۴ ۔عوالم العلوم:شیخ عبداللہبحرانی؛ج ۱۵/۳ ص ۳۰۷ ۔ ۳۲۷ ۔

۵ ۔بحار الانوار ،علا مہ مجلسی :جلد / ۳۷ ،صفحہ / ۱۸۱ ۔ ۱۸۲ ۔

۶ ۔اثبات الھدات ،شیخ حر عا ملی جلد ۲ صفحہ ۲۰۰ ۔ ۲۵۰ ۔

۷ ۔کشف المھم فی طریق خبر غدیر خم سید ھاشم بحرانی ۔

۸ ۔الطرائف سید ابن طا وس صفحہ / ۳۳ ۔

خطبہ غدیرکے مکمل متن کے مدارک

اسلامی کتابوں کی تاریخ میں:خطبہ غدیر کو مستقل طور پر نقل کرنے میں سب سے پہلی کتاب کہ جس کو شیعہ عالم ،علم نحو کے استاد،شیخ خلیل بن احمد فراھیدی متوفیٰ ۱۷۵ ہجری نے تالیف کیا ہے ملتی ہے ۔کہ جو عنوان”جزء فی خطبةالنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یوم الغدیر“( ۵ ) کے تحت پہچانی جاتی ہے اور اسکے بعدبہت سی کتابیں اس سلسلے میں تالیف ہوئی ہیں ۔

خوش قسمتی سے خطبہ غدیر کا مکمل اور مفصل متن ،شیعوںکے معتبر مدارک میں سے طبع شدہ نو کتابوںمیں متصل سند کے ساتھ مذکورہے ۔

ان نو کتابوں کی روایات تین سلسلوںپر ختم ہوتی ہیں :

ایک امام باقرعلیہ السلام کی روایت کا سلسلہ ہے کہ جو معتبر اسناد کے ساتھ چار کتابوں”روضة الواعظین“(شیخ ابن فتال نیشاپوری)( ۶ ) ”الاحتجاج“(شیخ طبری)( ۷ ) ، ”الیقین“(سیدابن طاووس( ۸ ) اور ”نزھة الکرام ”شیخ محمد بن حسینی رازی)( ۹ ) میں نقل ہوا ہے ۔

دوسرا سلسلہ :حذیفہ بن یمان کی روایت ہے کہ جے متصل سند کے ساتھ سیدابن طاووس نے اپنی کتاب”الاقبال“( ۱۰ ) ”النشر والطیّ“کتاب نقل کیا ہے ۔

تیسرا سلسلہ:زید بن ارقم کی روایت کا ہے کہ جومتصل اسنا د کے ساتھ چار کتابوں ”العُدد القویة“ تالیف شیخ بن یوسف حلی( ۱۱ ) ،”التحصین“تالیف سیدابن طاووس( ۱۲ ) ،”الصراط المستقیم“ تالیف شیخ علی بن یونس بیاضی( ۱۳ ) اور ”نھج الایمان“ تالیف شیخ علی بن حسین بن جبر( ۱۴ ) ، دونوں نے مورخ طبری کی کتاب”الولایة “ کے مطابق نقل کیا ہے ۔

شیخ حرعاملی نے کتاب”اثبات الھداة“( ۱۵ ) میں،علامہ مجلسی نے ”بحار الانوار“( ۱۶ ) میں،سید بحرانی نے کتاب”کشف المھم“( ۱۷ ) میں اور باقی متاخرین علماء نے خطبہ غدیر کو مکمل طورپر مدارک مذکور سے نقل کیاہے ۔

اس طرح خطبہ غدیر کے متن کامل کی ان شیعہ بزرگوں کے ذریعہ حفاظت ہو ئی اور ہم تک پہنچاہے اور یہ خود عالم اسلام میں شیعوں کےلئے فخر کا مقام ہے ۔

خطبہ غدیر کے متن کامل کی روایت کر نے والے اسناد و رجال

ذیل میں خطبہ غدیر کے پشت پناہ کے اعتبار سے خطبہ غدیر سے مربوط روایات کو بعینہ نقل کیاجارھا

ہے ۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت دو سندوں کے ساتھ :

۱ ۔شیخ احمد بن علی بن ابی منصور طبر سی اپنی کتاب ”الاحتجاج “میں لکھتے ہیں :مجہے سید عالم عابد ابو جعفر مھدی بن ابی الحرث الحسینی مر عشی نے ، شیخ ابو علی حسن بن شیخ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی سے بیان کیا انھوں نے شیخ سعید ابو جعفر قدس اللہ روحہ سے انھوں نے ایک جماعت سے اورانھوں نے ابو محمدھارون بن مو سیٰ تلعکبری سے انھوں نے ابو علی محمد بن ھمام سے انھوں نے علی سوری سے انھوں نے اولاد افطس (وہ اللہ کے صالح بندوں میں سے تھے )میں سے ابو محمد علوی سے انھوں نے محمد بن مو سیٰ ھمدانی سے انھوں نے محمد بن خالد طیالسی سے انھوں نے سیف بن عمیرہ و صالح بن عقبہ سے انھوں نے قیس بن سمعان سے انھوں نے علقمہ بن محمد حضرمی سے اورانھوں نے ابو جعفر محمد بن علی (الباقر) علیہ السلام سے نقل کیا ہے ۔

۲ ۔حذیفہ بن یمان کی روایت کی سند اس طرح ہے :

سید بن طاؤ س نے اپنی کتاب ”الاقبال “میں نقل کیا ہے :مولف کتاب ”النشرو الطی “نے احمد بن محمد بن علی المھلب سے انھوں نے شریف ابوالقاسم علی بن محمد بن علی بن القاسم شعرانی سے انھوں نے اپنے والد بزرگوارسے انھوںنے سلمہ بن فضل انصاری سے انھوںنے ابو مریم سے انھوں نے قیس بن حیان (حنان) سے انھوں نے عطیہ سعدی سے انھوںنے حذیفہ بن یمان سے نقل کیا ہے ۔

۳ ۔زید بن ارقم کی روایت کی سند یوں ہے :

سید بن طاؤ س نے اپنی کتاب ”التحصین “میں نقل کیا ہے کہ حسن بن احمد جاوانی نے اپنی کتاب ”نور المھدی والمنجی من الردی “میں ابوالمفضل محمد بن عبد اللہ شیبانی سے نقل کیا ہے انھوں نے ابو جعفر محمد بن حریر طبری اورھارون بن عیسیٰ بن سکین البلدی سے انھوںنے حمید بن الربیع الخزاز سے انھوںنے یزید بن ھارون سے انھوں نے نوح بن مبشر سے انھوں نے ولید بن صالح سے اور انھوں نے زید بن ارقم کی زوجہ اورزید بن ارقم سے نقل کیا ہے ۔

۲ حدیث غدیر کا متن

جس طرح غدیر کا واقعہ اور اس کا خطبہ ایک سند کے ذریعہ ہم تک نہیں پہنچا ہے اسی طرح اس کا متن بھی ٹکڑوں ٹکڑوں میں نقل ہوا ہے اور مختلف وجوھات جیسے تقیہ اور اس کے مانند چیزیں نیز خطبہ کے طولانی ہو نے اوراس کے سب کےلئے مکمل طورپر حفظ نہ ہو نے کی وجہ سے غدیر کے اکثر راویوں نے اس کے گوشوں کو نقل کیا ہے لیکن جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌ مَوْلَاه “اور دوسرے چند جملوں کو تمام راو یوں نے اشارتاًیا صاف طور پر نقل کیا ہے ۔ ان تمام باتوں کے با وجود خطبہ کا پورا متن ہم تک پہنچا ہے جیساکہ پہلے حصہ میں ہم نے بیان کیا ہے اور صاحب ولایت کا لطف و کرم ہے کہ اسلام کی اس بڑی سند کو ہمارے لئے محفوظ کیا ہے ۔

کلمہ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث

خطبہ غدیر کو اسلام کا دائمی منشور کہا جاتا ہے اور اس میں اسلام کے تمام پہلو کلی طورپر جمع ہیں لیکن حدیث غدیر کے متن میں علمی بحثیں عام طور سے کلمہ ”مولیٰ “کے لغوی اور عرفی معنی کے اعتبار سے ذہنوں کو اپنی طرف مر کوز کئے ہو ئے ہیں ۔

یہ اس لئے ہے کہ حدیث کا اصل محور جملہ”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ “ ہے اور جب بھ ی حدیث غدیر کی طرف مختصر طور پر اشارہ کیا جاتا ہے یھی جملہ مد نظر ہو تا ہے ۔راویوں اور محدثین نے بھی اختصار کے وقت اسی جملہ پر اکتفا کی ہے اور اس کے قرائن کو حذف کر دیا ہے ۔

اس سلسلہ میں قابل غور بات یہ ہے کہ خطبہ کے مفصل متن اور خطبہ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیان کردہ تمام مطالب کے پیش نظر غدیر میں کلمہ ”مولیٰ “کے معنی اور ولایت سے مراد تمام مخاطبین کےلئے با لکل واضح و روشن تھا اور خطبہ کے متن کامطالعہ کرنے اور خطبہ کی تمام شرطوں کو مکمل طور پر نظر میں رکھنے والے ہر منصف پر یہ معنی اتنے واضح ہو جا ئےں گے کہ اس کو کسی بحث اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ۔( ۱۸ )

کلمہ”مو لیٰ “کو استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا لفظ جیسے ”امامت “،” خلافت “اور ”وصایت “ اور ان کے مانند الفاظ اس معنی کے حامل نہیں ہیں جو لفظ ”ولایت “میں مو جود ہیں اور یہ مندرجہ بالا الفاظ کے معانی سے بالا ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی علیہ السلام کی صرف امامت یا خلافت یا وصایت کو بیان کر نا نہیں چا ہتے ہیں بلکہ آپ تو ان کے لو گو ں کے جان و مال و عزت و آبرواور ان کے نفسو ں سے اولیٰ اور ان کے تام الاختیار ہو نے کو بیان کرنا چا ہتے ہیں واضح الفاظ میں آپ ان کی ”ولایت مطلقہ الٰھیہ“یعنی خدا وند عالم کی طرف سے مکمل نیابت کو بیان کرنا چا ہتے تھے اس بنا پر کو ئی بھی لفظ ،لفظ ”مولیٰ “سے فصیح اور بلیغ اورواضح نہیں ہے ۔

اگر کو ئی اور لفظ استعمال کیا جاتا تو غدیر کے دشمن اس کو بڑی آسانی کے ساتھ قبول کرلیتے یا اس کی تردید میں اتنی تلاش و جستجو نہ کرتے ،اور اگر متعدد معنی رکھنے کی بنا ہو تی تو دوسرے لفظوں میں بہت آسان تھی۔وہ اس کلمہ کے معنی سے متعلق شک میں ڈال کر اس کے عقیدتی اور معاشرتی پہلو سے جدا کرنا چاہتے تھے اور اس کو عاطفی اور اخلاقی مو ضوع کی حد تک نیچے لاناچا ہتے تھے ۔

غدیر کے مخالفین ”اولیٰ بنفس “کے وسیع معانی سے خوف کہا تے ہیں وہ اس کے معنی کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں لہٰذا اس طرح ان کا مقابلہ کرنے کےلئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ھم کو اس معنی پر زور دینا چا ہئے، اور اس طرح کے کلمہ کے استعمال کرنے کےلئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شکریہ ادا کرنا چا ہئے جس نے ہماری اعتقاد میں ایک محکم و مضبوط بنیاد ڈالی ہے جس سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہو تے ہیں :

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بلا فاصلہ بارہ معصوم اماموںکی امامت و ولایت ۔

ان کی ولایت اور اختیار کا تمام انسانوںپر تمام زمان و مکان اور ہر حال میں عام اور مطلق ہونا ۔

ان کی ولایت کا پروردگار عالم کی مھر سے مستند ہو نا اور یہ کہ امامت ایک منصب الٰہی ہے ۔

صاحبان ولایت کی عصمت کا خدا وندعالم اور رسول کی مھر کے ذریعہ اثبات ۔

لوگوں کا ائمہ علیھم السلام کی ولایت کا عہد کرناان کی طرف سے بالکل رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولایت کے عہد کے مانند ہے ۔

سب سے اہم بات یہ کہ اس طرح کے بلند مطالب کے اثبات کا لازمہ ،خداوند عالم کی اجازت اور انتخاب کے بغیر ہر ولایت، شرعی ولایت نہیں ہے ،اس طرح ہر اس دین و مذھب کی نفی ہو جا تی ہے جو اھلبیتعليه‌السلام کے علاوہ کسی اور کی ولایت کو تسلیم کرتاہو۔

کلمہ مولیٰ میں بحث کا منشا

کلمہ ”مو لیٰ “کے معنی کے سلسلہ میں بحث اس وقت شروع ہوئی جب شیعوں کے مخالف اکثر راویوں نے حدیث کے صرف اسی جملہ کو نقل کرنے پر اکتفا کیا اوران کے متکلمین نے اپنا دفاع کرنے کےلئے تاریخ کے تمام قرینوں اور مطالب کو چھوڑتے ہو ئے پورے خطبہ سے صرف کلمہ ”مو لیٰ “کا انتخاب کیا اور اس کے معنی کے سلسلہ میں لغوی اور عرفی بحث کرنا شروع کردی ۔( ۱۹ ) یہ فطری بات ہے کہ ان کے مقابلہ میں علماء شیعہ نے بھی اسی مو ضوع کے سلسلہ میں بحث و جستجو کی ہے اور ان کو لازمی جوابات دئے ہیں اور سب نے نا خواستہ طورپر اسی کلمہ کو مد نظر رکھا ہے ۔

واقعہ غدیر کے ہر پہلو کا دقیق و کامل مطالعہ اور خطبہ کے متن میں دقت کرنے سے کلمہ ”مو لیٰ“ کے معنی واضح ہو نے کے لئے بہت سے جاذب نظر مطالب سامنے آتے ہیں :

پھلی تجلی

اگر ہم پورے خطبہ پر نظر ڈالیں تو یہ مشاہدہ کریں گے کہ اس کے اکثر مطالب کلمہ ”مو لیٰ“کے معنی کی تفسیر و تو ضیح ،اس کے مصداق معین کرنے اور معاشرہ میں”ولایت “کی قدر و قیمت اور اس کے توحید و نبوت و وحی سے مرتبط ہونے کے بارے میں ہے ۔

بنابریں جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کلمہ ”مو لیٰ “کے معنی واضح و روشن فر ما دئے اور غدیرمیں مو جود تمام افراد (جن کے مابین عرب کے بڑے شاعر حسان بھی تھے )صاحب اختیار ہو نے کے معنی سمجھ گئے اور اسی اعتبار سے انھوں نے بیعت کی ، تو پھر اس کا کو ئی مطلب نہیں رہ جاتا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام کے معنی سمجھنے کےلئے ہم لغت اور اس کے عرفی معنی کی طرف مراجعہ کریں ،چا ہے وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تفسیر کے مطابق ہوں یا تفسیر کے مطابق نہ ہوں ۔

دوسری تجلی

یہ بات طے شدہ ہے کہ غدیر کے اجتماع اور خطبہ کا اصل مقصد مسئلہ ولایت کا بیان کرنا تھا اور اس وقت تھا جب لوگوں نے خود پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس سلسلہ میں مطالب سنے تھے ۔ان تمام باتوں کے باوجود ظاہر ہے کہ غدیر کا عظیم اجتماع مسئلہ ولایت اور کلمہ مو لا کے معنی میں باقی رہ جانے والے ابہام کو رفع کرنے کے لئے تھا ۔

اس بنا پر یہ بات بڑی مضحکہ خیز ہو گی کہ اس طرح کے مجمع اور ان حساس شرطوں میں ”مولیٰ “ کے سلسلہ میں گفتگو کی جا ئے جو نہ صرف مطالب کو روشن نہ کرے بلکہ اس میں اور زیادہ ابہام پیدا ہو جائے اور اس ابہام کو رفع کرنے کےلئے لغت اور اس کے مانند کتابوں کی ضرورت پیش آئے اور ہر عقل مند انسان یہ فیصلہ کرتا ہوا نظر آئے کہ اصلا ً اس طرح سے اتنا بڑا جلسہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ !!

تیسری تجلی

اس دن کا اجتماع مسئلہ ولایت میں پیدا ہو نے والے ہر ابہام کو دور کرنے کیلئے تھا ،اور اگریہ بنا قرار دی جا ئے کہ اسی مجلس میں، اس مسئلہ میں بڑے ابہام کاآغازہوااور اس میں ایک ایسا عجیب کلمہ استعمال کیا جا ئے جو بہت پیچید گی کا حامل ہو ،تو ایسی صورت میں تو یہ کہنا ہی منا سب ہو گاکہ: اگراس طرح کی مجلس بر پا ہی نہ ہو تی تو بھی مسئلہ ولایت بہت واضح تھا !!!

اسی مقام پر آیہ قرآن :<وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ >محقق ہو تی ہے ۔یعنی اگر ابلاغ پیغام اس طرح ہو کہ اس کا مطلب چودہ صدیوںمیں روشن و واضح نہ ہوا ہو تو گو یاحقیقت میں پیغام ابلاغ ہی نہیں ہوا ہے !!

چوتھی تجلی

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ انھوں نے اپنی زندگی کی سب سے اہم گفتگو میں ایک ایسا مطلب بیان فرمایا کہ جسے سمجھنے کے لئے چودہ سو سال سے مسلمان اس کے تحت اللفظی معنی کو سمجھنے کی خاطربحث کر رہے ہیں اور ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے تو یہ آپ کی اس فصاحت و بلاغت کے خلاف ہو گا اور کسی پیغمبر نے الٰہی پیغام کواس طرح نہیں پہنچایا ہے !!

پانچویں تجلی

یہ سوال پیدا ہو تا ہے :کہ جب غاصبین خلافت کو خلیفہ معین کرنے کاکو ئی حق نہیں تھاتو پھر بھی وہ اپنا خلیفہ معین کرتے تھے اور کلمہ ”و لی“سے استفادہ کرتے تھے تو کسی شخص نے یہ کیوں نہیں کہا کہ اس لفظ کے ستّر معنی ہیں ؟جب ابو بکر نے عمر کے لئے لکھا کہ”:ولَّیْتُکُمْ بعدی عمربن خطاب “ تو ولایت کے معنی میں کو ئی ابہام نہیں تھا اور یہ ابہام صرف غدیر خم میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگومیں ہی کیوں پیش آیا ؟

ظاہر ہے کہ بحث کلمہ کے لغوی معنی اور ابہام میں نہیں ہے بلکہ غدیر کا وزن اتنا زیادہ اور گراں ہے کہ دشمن اس طرح کی مذبوحانہ کو شش کرنے پر مجبور ہو گئے ؟

چھٹی تجلی

اسی طرح ذہن میں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ :حدیث غدیر اہل سنت اور شیعوں کے نزدیک متواتر ہے اور بہت کم ایسی حدیثیں ہیں چودہ سو سا ل کے دور ان میں اس کے اتنے زیادہ نقل کرنے والے ہوں اگر اس کے معنی اتنے زیادہ مبھم ہیں کہ آج تک کو ئی بھی اس کے واقعی معنی کو نہیں سمجھ سکا ہے اور وہ اتنے احتمالات کے درمیان اسی طرح سرگردان ہے تو اس حدیث کو کیوں نقل کیا گیا اور یہ بڑے بڑے راوی جن میں سے بہت سے علما ء اور مولفین ہیں تو ان کو اس حدیث کے نقل کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟!حدیث مبھم کو نقل کرنے کی کیا ضرورت ہے !حدیث مبھم کی تو سند کو جمع کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے !تو یہ کہنا چاہئے کہ: ”مو لیٰ “ کے اہم معنی تو سب کےلئے واضح و روشن تھے لہٰذا اس کو نقل کرنے کےلئے اتنا اہتمام کیاگیا ۔

ساتویں تجلی

کو ئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے :ابوبکر ،عمر ،حارث فھری اور کئی افراد نے یہ سوال کیا :”کیا یہ مسئلہ خدا وند عالم کی طرف سے ہے یا خود آپ کی طرف سے ہے ؟“یہ سب اسی وجہ سے تھا کہ وہ کلمہ مو لیٰ سے صاحب اختیار ہونے کے معنی کو اخذ کرچکے تھے لہٰذا انھوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایسا سوال کرنے کی جسارت کی ورنہ سب جانتے تھے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام گفتار آیہ( وَمَایَنْطِقُ عَنِ الهَویٰ ) کے مطابق وحی الٰہی اور خداوند عالم کے کلام کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔

کلمہ مولیٰ کے معنی کا واضح ہونا

بارہ زیادہ اہم قرینے جملہ” مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاهُ “ کے معن ی کے بیان گرہیں کہ ان میں ہر ایک تنھا اس کے اثبات کےلئے کا فی ہے ،یھاں تک کہ اگر ان میں سے ایک بھی نہ ہوتا پھر بھی اس کے معنی واضح تھے ہم ان کو ترتیب کے ساتھ ذیل میں نقل کر رہے ہیں :

پھلا قرینہ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ”نفس سے اولیٰ ہو نا “کے سلسلہ میں پہلے خدا وند عالم اس کے بعد اپنا ذکر فرمایا پھر اس کے بعد اس کلمہ کو امیر المو منین علیہ السلام کے بارے میں استعمال کیا جبکہ ان کی ولایت مطلقہ کے معنی کسی پر پوشیدہ نہ تھے ۔

دوسرا قرینہ

آیت :( یَااَیُّهَاالرَّسُوْلُ) جس کے آخر میں خداوندعالم فرماتا ہے :( وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَا لَتَهُ ) یہ کسی بھی حکم الٰہی کے بارے میں نازل نہیں ہو ئی ہے لہٰذا اسلام کا سب سے اہم مسئلہ ہو نا چا ہئے جس کے با رے میں اس طرح کے مطلب کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔

تیسرا قرینہ

بیابان و جنگل میں لوگوں کو روکنا وہ بھی تین دن ،نظم و ترتیب کے ساتھ پروگرام کرنا اور ایک استثنا ئی طویل خطبہ ارشاد فرمانا یہ سارے پروگرام پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں بلکہ پوری تاریخ میں بے مثال ہیں یہ سب سے قوی و محکم دلیل ہے کہ مو لیٰ کے معنی بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔

چو تھا قرینہ

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کااس بات کی طرف اشارہ فرمانا کہ میری عمر اختتام کو پہنچ رہی ہے اور میں تمھارے درمیان سے جانے والا ہوں ،یہ اس بات کا بہت ہی اچھا قرینہ ہے کہ مو لیٰ کے معنی آپ کی رحلت کے بعد والے ایام سے متعلق ہو جو وھی امامت اور وصایت ہیں ۔

پانچواں قرینہ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس پیغام کے پہنچانے پر کئی مرتبہ خدا وندعالم کو اپنا گواہ قرار دیا کہ کسی بھی حکم الٰہی کو پہنچا نے پر آپ نے ایسا نہیں کیا ۔اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے متعدد مرتبہ لوگوں سے یہ بھی چاھاکہ ”حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا دیں “ایساکسی اور حکم الٰہی کے لئے نہیں فرمایا ۔

چھٹا قرینہ

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس بات کی تصریح فرمانا کہ مجہے ڈر ہے کہیں لوگ میری تکذیب نہ کریں حالانکہ کسی دوسرے حکم الٰہی میں آپ کو ایسا خو ف نہیں تھا ۔ظاہر ہے کہ جا نشین کا معین کرناھی وہ حساس نکتہ ہے جسے لوگ آسانی سے قبول نہیں کر سکتے ہیں ۔

ساتواں قرینہ

آیت :( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ ) بھ ی مندرجہ بالا آیت کے مانند کسی بھی حکم الٰہی کے سلسلہ میں نازل نہیں ہو ئی اور یقیناً وہ حکم جس کے سلسلہ میں یہ آیت نازل ہو ئی ہے وہ اسلام کا سب سے اہم حکم ہو نا چاہئے جس کے ذریعہ دین کی تکمیل ہو رہی ہے ۔

آٹھواں قرینہ

بیعت کا مسئلہ جو خطبہ کے دوران زبانی طورپر بیان کیا گیا اور خطبہ کے بعد ہاتھ کے ذریعہ انجا م دیا گیا اس کا ولایت کو قبول کرنے کے علاوہ کو ئی دوسرا مطلب نہیں ہوسکتاہے ۔

نواں قرینہ

غدیر خم میں مو جود لوگوں کا بیعت کرنا اور مبارک باد پیش کرنا اور دوست و دشمن کے ذریعہ ہو نے والی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس جملہ سے ولایت اور امارت کے معنی سمجہے تھے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس طرح کے مطلب کے اخذ کرنے کی نھی نہیں فرما ئی ہے یا ان کی اصلاح نہیں کی ہے ۔

دسواں قرینہ

حسان بن ثابت کے ذریعہ پڑہے جا نے والے اشعار جن کی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تا ئید فرما ئی یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے انھوں نے بھی مولیٰ سے”اولیٰ بہ نفس “کے معنی سمجہے تھے ۔چونکہ وہ عرب کے بڑے ادباء اور شعراء میں شمار ہو تا ہے لہٰذا وہ لغوی اعتبار سے دوسرے ہر لغتنامہ پر ترجیح رکھتا ہے چونکہ لغتنامہ میں صرف کلمہ کے معنی بیان کئے جاتے ہیں لیکن اس مورد معین کے کونسے معنی حاضرین کے ذہن میںآتے ہیں یہ خداوندعالم کا لطف و کرم تھا کھاتنا بڑا لغت شناس شاعر غدیر خم میں حا ضر تھا اور اس نے اپنے ذہنی تبادر کااسی مقام پر صریح طور پر اعلان کیا یھاں تک کہ اس کو شعر کی صورت میں ڈھال دیا جو ہمیشہ کے لئے محکم سند ہے ۔

گیار ہواں قرینہ

حارث فھری کی داستان مو لا کے معنی میں شک کر نے والوں کے لئے ایک قسم کا مباھلہ تھا اس نے صاف طور پر یہ سوال کیا کہ کیا ” مولیٰ “کا مطلب یہ ہے کہ علی بن ابی طالب ہمارے صاحب اختیار ہو ں گے ؟اس مباھلہ میںخداوند عالم نے فوراً حق کی نشاندھی کرائی اور حارث پر عذاب نازل فرمایا اور اس کو ھلاک کیا تاکہ ”مو لیٰ “ کا مطلب ”اولیٰ بہ نفس “ثابت ہو جائے ۔

بارہواں قرینہ

حضرت عمر نے وہیں غدیر میں جملہ”اَصْبَحْتَ مَوْلَایَ وَمَوْلیٰ کُلِّ مُومِنٍ وَمُومِنَةٍ“ استعمال کیا جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ دشمن کا اس سے بہتر کو نسا اقرار ہو گا ۔کلمہ” اَصْبَحْتُ “ اس نئے واقعہ ک ی طرف اشارہ ہے اور کلمہ”کُلْ ولایت مطلقہ کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ اقرار اس بات کی علا مت ہے کہ دشمن نے بھی اس کو قبول کیا ہے ۔

تیرہواں قرینہ

علی بن ابی طالب کے سامنے حاضر ہو کرآپعليه‌السلام کو”امیرالمو منین کے عنوان سے سلام کرنے “ کا حکم عنوان بھی مو لیٰ کے لئے امارت کے معنی کو ثابت کرتا ہے اور اس کا عملی اقرار بھی کرنا ہے ۔

معصومین علیھم السلام کے کلام میں مو لیٰ کا مطلب

اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ ہم غدیر میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلمہ مو لیٰ “کے معنی کاصاحبان غدیراور ائمہ معصومین علیھم السلام سے سوال کریں :

۱ ۔اس چیز میں اطاعت کرنا جسکو دوست رکھتے ہو یا دوست نہیں رکھتے ہو

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیاگیا :جس ولایت کے ذریعہ آپ ہماری نسبت ہم سب سے مقدم ہیں وہ کیا چیز ہے ؟آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :جن تمام چیزوںکو پسندیانا پسند کرتے ہو ان سب میں ہمارے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنااور ہماری اطاعت کرنا ۔( ۲۰ )

۲ ۔حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کےلئے نمونہ

غدیر خم میں جناب سلمان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا :حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کس ولایت کے مانند ہے ؟آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :ان کی ولایت میری ولایت کے مانند ہے ۔میں جس شخص پر میںاس کی نسبت زیادہ اختیار رکھتا ہوں علی بھی اس کے نفس پر اس سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں ۔( ۲۱ )

۳ ۔ولایت یعنی امامت

حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام سے سوال کیا گیا :پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس کلام”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌِّ مَوْلَاهُ “ کاک یا مطلب ہے ؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو خبر دار کیا کہ میرے بعد علی امام ہیں ۔( ۲۲ )

۴ ۔یہ بھی سوال ہو سکتا ہے ؟!

ابان بن تغلب نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ “کے سلسلہ م یں سوال کیا توآپ نے فرمایا :

اے ابو سعید کیا اس مطلب کے سلسلہ میں بھی سوال ہو سکتا ہے !؟ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو سمجھا یا کہ میرے بعد حضرت علی علیہ السلام میرے مقام پر ہوں گے ۔( ۲۳ )

۵ ۔حزب اللہ کی علا مت

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ “ کے سلسلہ م یں سوال کیا گیاتو آپعليه‌السلام نے فر مایا :

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کو ایک ایسی نشانی قرار دینا چا ہتے تھے کہ وہ لوگوں کے اختلاف اور تفرقہ کے وقت خداوند عالم کے حزب کی شنا خت ہو سکے ۔( ۲۴ )

۶ ۔علیعليه‌السلام کے امر کے ہوتے ہوئے لوگوں کو اختیار نہیں ہے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ :پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں اس فرمان”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌِّ مَوْلَاهُ کا ک یا مطلب ہے ؟آپعليه‌السلام نے فرمایا :خدا کی قسم یھی سوال آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھی کیا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا :

خدا وند عالم میرا مو لا ہے اور وہ مجھ پر مجھ زیادہ سے اختیار رکھتا ہے اور اس کے امر کے ہوتے ہوئے میرا کو ئی امر و اختیار نہیں ہے اور میں مومنوں کا مو لا ہوں اور ان کی نسبت ان پر ان سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں اور میرے امر کے ہوتے ہوئے ان کا کو ئی اختیار نہیں ہے اور جس شخص کا میں صاحب اختیار ہوں اور میرے امر میں اس کا کو ئی دخل نہیں ہے ،علی بن ابی طالب اس کے مو لا ہیں اور اس پر اس کے نفس سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں اور ان کے امر کے ہوتے ہوئے اس شخص کاکوئی امر اور اختیار نہیں ہے ۔( ۲۵ )

حدیث غدیر کے متن کے سلسلہ میں کتابوں کا تعارف

جیسا کہ حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں کتابوں میں مفصل بحث ہو ئی ہے ،حدیث کے متن کے سلسلہ میں بھی بڑی محکم کتابیں تا لیف کی گئی ہیں ہم ذیل میں ان میں سے بعض کتابوںکا تذکرہ کررہے ہیں :

۱ ۔عبقات الانوار ،میر حا مد حسین ،غدیر سے متعلق جلدیں ۔

۲ ۔الغدیر علا مہ امینی جلد ۱ صفحہ ۳۴۰ ۔ ۳۹۹ ۔

۳ ۔عوالم العلوم جلد ۱۵/۳ صفحہ / ۳۲۸ ۔ ۳۷۹ ۔

۴ ۔فیض القدیر فیمایتعلق بحدیث الغدیر،شیخ عباس قمی ۔

۵ ۔المنھج السوی فی معنی المو لیٰ والولی ،محسن علی بلتستا نی پاکستانی ۔

۶ ۔بحا رالانوار جلد ۳۷ صفحہ ۲۳۵ ۔ ۲۵۳ ۔

۷ ۔الغدیر فی الاسلام ،شیخ محمد رضا فرج اللہ صفحہ / ۸۴ ۔ ۲۰۹ ۔

۸ ۔کتاب ”اقسام المو لیٰ فی اللسان “شیخ مفید ۔

۹ ۔رسالہ فی معنی المو لیٰ،شیخ مفید ۔

۱۰ ۔رسالہ فی الحواب عن الشبھات الواردة لخبر الغدیر،سید مرتضیٰ۔

۱۱ ۔معا نی الاخبار ،شیخ صدوق صفحہ ۶۳ ۔ ۷۳ ۔

اس بات کے مد نظر کہ مفصل استد لالی بحثیں اس کتاب میں بیان کرنا مقصود نہیں ہیں لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ قارئین کرام مذکورہ کتابوں کو ملاحظہ فرما کر اپنے مقصود تک رسا ئی حاصل کرسکتے ہیں ۔

۳ خطبہ غدیر کے کامل متن کو مھیا اور منظم کرنا

خطبہ غدیر کے نسخوں کی ایک دوسرے سے مقایسہ کرنے کی اہمیت و ضرورت

”خطبہ غدیر “کے متن کو مقایسہ کرنے کی اہمیت مندرجہ ذیل طریقوں سے واضح ہو تی ہے :

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،ائمہ معصومین علیھم السلام اور اصحاب سے نقل شدہ احادیث چودہ صدیاں طے کر کے ہم تک پہنچی ہیں لیکن اس دوران انہیں بڑی مشکلیں جھیلنا پڑیںجیسے تقیہ ،شیعوں کے ثقافتی اور اقتصادی حالات کا نا مساعد ہونا ،کتابوں کو چھاپنے کے امکانات کا نہ ہونا ،نسخہ برداری کرنے میں فنی اصول کی رعایت کا امکان نہ ہونا ،ناسخین کی کتابت کی غلطیاں اور ان کے مانند دو سرے اسباب ہیں جوکسی ایک معین روایت کے سلسلہ میں نسخوں کے اختلاف کا باعث ہوئے ہیں ۔

لہٰذا ایک کتاب کے نسخوں کا مقابلہ اور تطبیق یا ایک حدیث کے متن کا تقابل جو کئی مختلف کتابوں میں نقل ہو ئی ہے یہ متن سے متعلق بہت سی مشکلوں کو حل کردیتا ہے اور دو سرے نسخہ میں جو ابہام و مشکل پا ئی جاتی ہے اس کو برطرف کردیتا ہے اور اس طرح متن کامل طور پر روشن ہو جاتا ہے ۔

”خطبہ غدیر “کے سلسلہ میں تین اہم جہتوںسے مقایسہ کرنا لازم و ضروری ہے :

۱ ۔ایک سر نوشت ساز حدیث کے عنوان سے خود خطبہ کی اہمیت اور اس دائمی منشور کی طرف امت کا لازمی طور پر توجہ دینا جوخطبہ کی عبارت کو واضح کرنے کی ذمہ داری کو بہت مشکل بنا دیتی ہے ۔

۲ ۔متن کا طولا نی ہونااور فطری طور پرطولانی متن میں مبھم اور مشکل الفاظ و معانی بہت زیادہ ہوتے ہیں جن کو مقایسہ کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے ۔

۳ ۔حدیث کا سماعی ہونا ،یعنی حدیث املاء کے طور پر نہیں بیان کی گئی جو راوی ھمت کرکے لکھ لیتا ،بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطبہ کے دوران اسے ذہن نشین کیا ہے اور اس کے بعد نقل کیا ہے اور یہ بات فطری ہے کہ ایسے مواقع میں حدیث کے کم یا زیادہ ہونے کا امکان زیادہ ہو تا ہے اور مقابلہ کے طریقہ سے حذف شدہ جملے اور کلمات کو ان کے مقام پر لایا جاسکتا ہے ۔

خطبہ غدیر کے مقابلہ کے نتائج

روایات اور نسخوں کی قدرو قیمت کا اندازہ ایک دوسرے سے تقابل کرنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے اور ھرایک کے علمی مقام ومرتبہ کو بڑی آسانی کے ساتھ مشخص ومعین کیا جاسکتا ہے

خطبہ غدیر کے مختلف نسخوں کے ایک دوسرے سے مقائسہ کرنے سے مندرجہ ذیل نتایئج اخذ ہوتے ہیں :

۱ ۔خطبئہ غدیر کے سلسلہ مےں ذکر شدہ تینوں روایات(امام باقرعليه‌السلام ،حذیفہ اور زید بن ارقم کی روایات) متن کے اعتبارسے مکمل طور پر ایک دوسرے کے موافق ہیں سوائے وہ کلمات اور عبارات کے وہ اختلافی موارد جن کا ہر حدیث مےں ہونا ایک عام امر سمجھا جاتاہے حدیث کے طولا نی ہونے کے باوجود اس مطابقت کا ہونا حدیث کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے خاص طور سے اس مطلب کو مدنظر رکھ کر کہ امام باقر علیہ السلام نے اس خطبہ کو علم الٰہی اور غیبی طریقہ سے نقل فرمایا ہے اور آپ بذات خود غدیر خم مےں تشریف نہیں رکھتے تھے حالانکہ حذیفہ اور زیدبن ار قم وشعبہ غدیر کے چشم دید گواہ ہیں اور زید بن ارقم اور حذیفہ اھلسنت کے قابل اعتماد راوی بھی ہیں ۔

۲ ۔تینوں روایات ایک دوسرے کی تائید اور تکمیل کرتی ہیں :اس کا مطلب یہ ہے کہ نسخوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کر تے وقت ایک نسخہ مےں امام باقر علیہ السلام کی روایت میں ایک کلمہ یا جملہ موجود ہے لیکن دوسرے نسخہ مےں مو جود نہیں ہے اور وھی کلمہ یا جملہ زید بن ارقم اور حذیفہ سے مروی روایات مےں بھی ایک میںموجود ہے اور دوسری روایت مےں موجود نہیں ہے جس سے اس مطلب کا پتہ چلتا ہے کہ راویوں اور نا سخین سے غلطی یا کو تا ہی ہوئی ہے اور اس بات کی نشاندھی ہوتی ہے کہ اصل مےں تینوں روایات ایک دوسرے پر منطبق ہوتی ہیں ۔

۳ ۔دو یاتین مقامات جھاں مسئلہ تو لاّ اور تبرا سے متعلق جملہ جو بعض نسخوں مےںموجود ہے تینوں روایات میں اشارہ کے طور پرآیا ہے یا حذف ہوگیا ہے اور یہ بات خطبہ کے راویوں کے تقیہ کے مخصوص حالات کی حکایت کرتی ہے اس مسئلہ کا نمونہ دو اصحاب صحیفہ اور سب سے پہلے بیعت کرنے والوں کانام ہے جو بعض نسخوں میں صاف طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے ۔

۴ ۔کتاب ”الاقبال “مولف سید بن طاؤس نیز کتاب”الصراط المستقیم“ مولف علامہ بیاضی کی ایک روایت میںایک قسم کی تلخیص کی گئی ہے اسکا مطلب یہ ہے یاتو مولف نے اختصار سے کام لیا ہے یااسکے اصل راوی نے مختصر طورپر نقل کیاہے ۔

بھر حال ان دو کتابوں مےں بھی موجود متن کابھی مقابلہ کیا گیا ہے اور ان دونوں کتابوں مےں نسخوں کے مابین اختلافی موارد کو حاشیہ مےں ان کے نام کے ساتھ ذکر کیا گیاہے ۔

۵ ۔کتاب وروضتہ الوا عظین کی روایت کتاب”التحصین “ کے ساتھ بہت سے مقامات پر مشابہت رکھتی ہے اور خاص مقامات پر دوسرے تمام نسخوں سے مختلف ہے ۔

۶ ۔کتاب”نهج الایمان “ کی روایت کتاب”العدد القویه ّ “ کے ساتھ بہت سے مقامات پر مشابہت رکھتی ہے اور اس نے کئی مقامات پر عبارتوں کی مشکل حل کی ہے ۔

۷ ۔کتاب”التحصین “ میں نقل کی گئی روایت کے آخر کے دو صفحہ ناقص ہیں جن کا اس کے مقام پر حاشیہ مےں پور ے متن کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے ۔

۸ ۔روایت کتاب”الیقین “ میں متعدد مقامات پر کچھ اضافہ کیاگیاہے اور اور بعض مقامات پر اس کی جملہ بندی مےں دوسری روایات سے فرق پایا جاتا ہے ۔

غدیر مےں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام فرامین کا جمع کرنا

اس بات کا بیان کردینا نھایت ہی ضروری ہے کہ بعض روایات مےں جو خطبہ یا واقعہ غدیرکاایک حصہ نقل ہواہے اس سے اس میں بعض ایسے مطالب کامشاھد ہ ہوتا ہے جو خطبہ کا مل کے متن مےں موجود نہیں ہیں ان میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لوگوں سے لئے گئے اقراروں کا تذکرہ ہے اور ان سوا لا ت کے جوابات درج ہیں جولوگوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دریافت کئے ہیں ۔

اسی طرح پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنی وفات کے نزدیک ہونے کی خبردینا ،لوگوں کے ساتھ اپنے گزشتہ معاملات کا تذکرہ کرنا، قیامت کا تذکرہ اور غدیر کے سلسلہ میں جوابات دینا ہیں جو دوسرے حصہ میں مفصل طور پر بیان کئے گئے ہیں ۔

ان موارد کے سلسلہ میں کئی احتمال پائے جاتے ہیں :

۱ ۔چونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ ،عرفات اور منیٰ میں کئی مرتبہ خطبے ارشاد فر مائے ہیں لہٰذا وہ تمام خطبے راویوں کی نظر میں خطبہ حجة الوداع کے عنوان سے موجود اور انھوں نے ان کے بعض حصوںکو خطبہ غدیر کے ایک حصہ کے عنوان سے نقل کیا ہے ۔

۲ ۔جو مطالب متن کامل میں نہیں ہیں ان کے سلسلہ میں یہ احتمال ہے کہ یہ مطالب خطبہ سے پہلے یا خطبہ کے بعد لوگوں کے چھوٹے چھوٹے جلسوں میں بیان ہو ئے ہیں اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر خم میں تین دن قیام فرمایا لہٰذا ان تین ایام میںآپ کی زبان اقدس سے متعدد فرامین جا ری ہوئے ہیں ۔

۳ ۔چونکہ نقل کرنے والے کا مقصد اصل خطبہ نقل کرنا تھا یہ مطالب جو سوال و جواب کی شکل میں نقل ہوئے ہیں ان کو متن میں شمار نہیں کیا گیا ہے صرف خطبہ کے متن کو ذکر کیا گیا ہے ۔

۴ ۔مختصر طور پر غدیر میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین میں سے متن خطبہ کے بعض مطالب خطبہ کے قبل و بعد کے مطالب کے ساتھ مخلوط طور پر نقل کئے گئے ہیں ۔

بھر حال خطبہ کو منظم کرنے میں فقط جن نسخوں میں خطبہ غدیر کو مفصل طور پر ایک متن کی صورت میںنقل کیا گیا ہے ان میں ایک دو سرے سے مقابلہ کیا گیا ہے ۔غدیر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام فرامین کو جداگانہ طور پر دستہ بندی کرکے کتاب کے دو سرے حصہ میں نقل کیا گیا ہے ۔

خطبہ کے عربی متن کو منظم کرنا

خطبہ غدیر کا عربی متن متعدد مرتبہ مستقل طور پر طبع ہو چکا ہے جو تمام کے تمام کتاب ”الاحتجاج “ کی روایت کے مطابق تھے ۔اس کے مشہور و معروف دو نمو نوں میں سے ایک کتاب”الخطبة المبار کة النبویة “ جس کو علامہ سید حسن حسینی لواسانی نے مرتب و منظم کیا ہے اور دوسراکتاب”خطبة النبی الاکرم فی یوم الغدیر “ ہے جس کو مرحوم استاد عماد زادئہ اصفھانی نے منظم و مرتب کیا ہے ۔

مو جودہ متن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ،حذیفہ بن یمان ،اور زید بن ارقم کی تین روایات کے مطابق ہے ۔ اس کے نو منابع اور مدارک یعنی ” روضة الواعظین،الاحتجاج ،الیقین ،التحصین ،العدد القویة ، الاقبال ،الصراط المستقیم ،نھج الایمان اور نزہة الکرام سے مقائسہ کرنے کے بعد منظم و مرتب کیا گیا ہے اوراسے گیارہ حصوں میں پیش کیا جائیگا اور ہر حصہ سے پہلے اس کا عنوان ذکرکیا جائیگا ۔

مطالعہ کی آسانی اور اس کو حفظ کرنے کیلئے حروف پر حرکات اور کلمات پر اعراب گذاری کی گئی ہے ۔وہ مقامات جو خطبہ کا جزء نہیں ہیں ان کو خاص حروف اور بغیر اعراب کے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ متن کے اہم موارد کو سیاہ حروف میں ذکر کیا گیا ہے ۔خطبہ کے کامل متن کو بچانے کی غرض سے جوجملے قطعی طورپر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام کا جزء نہیں ہیں ان پر صلی اللہ علیہ وآلہ اور علیہ السلام لکھنے سے احتراز کیا گیا ہے

حاشیہ میں نسخوں میں اختلافات کے مقامات اور ان کی کیفیت بیان کی گئی ہے ۔چھ اصلی مقابلہ کی گئی کتابوں کےلئے مندرجہ ذیل اشاروں کو بیان کیا جا رہا ہے :

الف :الاحتجاج ۔ ب:الیقین ۔ ج:التحصین ۔

د : روضة الواعظین ۔ ھ:العدد القویة ۔ و:نھج الایمان ۔

جن بعض موارد میں نسخوں کا اختلاف کتاب ”الاقبال “،”الصراط المستقیم “اور ”نزھة الکرام “ سے ذکر کیا گیا ہے وہاں پر ان کتابوں کا نام ذکر ہوا ہے اور کوئی رمز نہیں آیا ہے ۔

اس با ت کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ متن نو روایات اور نو کتابوں سے اخذ کیا گیا ہے حاشیوں اور دوسرے نسخوں کے مطالب اس لئے اہمیت کے حا مل ہیں کہ ہر نسخہ واقع کو نمایاں کرنے میںکردار اداکرسکتا ہے ۔

حاشیے میں قرآنی آیات کے حوالے اور مشکل کلمات اور جملوں کی وضاحت کی گئی ہے ۔

چونکہ خطبہ کا متن عربی زبان میں ہے لہٰذا حاشیے بھی عربی زبان میں ہی ذکر کئے گئے ہیں تا کہ دو زبانوں میں خلط ملط نہ ہو جائے ۔ضمناً خطبہ کے گیارہ حصوں میں سے ہر ایک کے حاشیہ کا نمبر جداگانہ طورپر لکھا گیا ہے ۔

۴ خطبہ غدیر کے ترجمے

”خطبہ غدیر “کا فارسی ،اردو ،ترکی اور انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے نیز عربی ،فارسی اردواور ترکی زبان کے اشعار میں متعدد مرتبہ منظم کیا گیاہے اور ان میں سے بہت سے ترجمے و اشعار کے مجموعے چھا پے جا چکے ہیں ۔ ہم ذیل میں خطبہ کے نظم و نثر کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

خطبہ غدیر کا سب سے پہلے فارسی زبان میں ترجمہ ۶ ھ میںایک بلندپایہ کے عالم شیخ محمد بن حسین رازی کے ذریعہ کتاب ”نزھة الکرام “میں انجام پایا اور بعینہ کتاب مذکور میں طبع بھی ہوا ہے ۔

خطبہ غدیر کے فارسی زبان میں چھپے ہوئے تین عنوانوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے :

۱ ۔”خطبہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم در غدیر خم “ مو لف استاد حسین عماد زادہ اصفھانی ۔یہ ترجمہ مختلف صورتوں میں چھاپا گیا ہے کبھی عربی متن اور اس کے نیچے فارسی ترجمہ اور کبھی مستقل فارسی ترجمہ کی صورت میں چھاپا گیا ہے ،اسی طرح ایک مفصل کتاب ”پیامی بزرگ از بزرگ پیامبران “کی صورت میں بھی طبع ہواہے ۔

۲ ۔غدیریہ مولف ملا محمد جعفر بن محمد صالح قاری ۔

۳ ۔غدیر پیوند نا گسستنی رسالت و امامت مو لف شیخ حسن سعید تھرانی مرحوم ۔

خطبہ غدیر کے اردو زبان میں چھاپے گئے تین عنوانوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱ ۔”غدیر خم اور خطبہ غدیر“ مو لف علا مہ سید ابن حسن نجفی یہ ترجمہ کراچی میں طبع ہوا ہے ۔

۲ ۔”حدیث الغدیر “مولف علامہ سید سبط حسن جا ئسی یہ ترجمہ ہندوستان میں طبع ہوا ہے ۔

۳ ۔”حجة الغدیر فی شرح حدیث الغدیر“ یہ ترجمہ دھلی میں طبع ہوا ہے ۔

خطبہ غدیر کا ترجمہ آذری ترکی زبان میںکتاب حاضر سے ”غدیر خطبہ سی “کے عنوان سے انجام پایا ہے ۔

انگریزی زبان میں ہونے والے تین ترجموں کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱ ۔ what happend in qadir ?(واٹ ھیپنڈ ان غدیر )کتاب حاضر میں مذکور خطبہ غدیر کا ترجمہ کیا گیا ہے ۔

۲ ۔ the last two khutbas of the last prophet pbuh (دا لاسٹ ٹو خطباز آف دا لاسٹ پرفیٹ )مترجم سید فیض الحسن فیضی جو راولپنڈی پاکستان میں طبع ہوا ہے ۔

۳ ۔ the last sermon of prophet mohammad at ghadir khum (دا لاسٹ سِر مُن آف پرافیٹ محمد ایٹ غدیر خم )مترجم حسین بھا نجی جو تنزانیا میں طبع ہوا ہے ۔

”حدیث غدیر “کی عربی نظم علامہ امینی کی کتاب ”الغدیر “میں جمع کی گئی ہیں اس کتاب کی گیارہ جلدوں میں ”غدیر “سے متعلق عربی اشعار کو جامع طور پر تدوین کیا گیا ہے ۔اسی طرح کتاب ”شعراء الغدیر “جو مو سسہ الغدیر کے ذریعہ دو جلدوں میں تدوین کی گئی ہے ۔

خطبہ غدیرکی فارسی نظم مندرجہ ذیل کتابوں میںذکر کی گئی ہے :

۱ ۔”سرود غدیر “مو لف علامہ سید احمد اشکوری ، ۲ جلد۔

۲ ۔”شعرائے غدیر از گذشتہ تا امروز “تالیف ڈاکٹر شیخ محمد ھادی امینی ۱۰ جلد ۔

۳ ۔”غدیر در شعر فارسی از کسا ئی مروزی تا شھر یار تبریزی “محمد صحتی سردرودی ۔

کچھ فارسی شعراء نے خطبہ غدیر کو فارسی نظم کی صورت میں تحریر کیا ہے ہم ذیل میں چند طبع شدہ نمونو ں کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱ ۔خطبة الغدیر مولف مرحوم صغیر اصفھانی جو مرحوم عماد زادہ کی مدد سے تحریر کیا گیا ہے ۔

۲ ۔خطبہ غدیریہ مولف مرزا رفیع ، جس کو ۱۳۱۳ ھ میں ہندوستان میں طبع کیا گیا ہے ۔

۳ ۔ترجمہ (منظوم )خطبہ غدیر خم مولف مرزا عباس جبروتی قمی ۔

۴ ۔”غدیر خم “مولف مرتضیٰ سرفراز جس کو ۱۳۴۸ ھ ش میں طبع کیاگیا ہے ۔

یہ چندکتابیں نمونے کے طور پر پیش کی گئی ہیں اور زیادہ اطلاع کے لئے دو کتاب”الغدیر فی التراث الاسلامی “اور ”غدیر در آئینہ کتاب “ملا حظہ کیجئے ۔

غدیر کے خطبہ کو فارسی میں منظم و مرتب کیاجانا

خطبہ کے تمام تر جمے کتاب ”الاحتجاج “کے مطابق ہیں لیکن مو جودہ ترجمہ کے عربی متن کو مذکورہ نو کتابوں سے مقائسہ کرنے کے بعد انجام دیا گیا ہے اورعلم حدیث کی رو سے اضافات اور عبارتوںمیں تغیر و تبدیلی ہو ئی ہے نیز عقیدتی پہلووں پر بھی رو شنی ڈالی گئی ہے ۔

یہ عربی متن کے مطابق ترجمہ (جس کو ہم چھٹے حصہ میں ذکر کریں گے )گیارہ حصوں میں تقسیم ہوا ہے اور حصہ کے آغاز میںاس کانام بھی ذکرکیا گیا ہے ۔

خطبہ غدیر بلند و بالا مطالب و مفاہیم کا حامل ہے لہٰذا ترجمہ کرنے میں ان مطالب کوروشن و واضح کرنے کا خیال رکھا گیا ہے اور تحت اللفظ ترجمہ کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے البتہ خطبہ کی اہمیت ہو نے کے باوجود بعض مقامات پر تفسیر کی احتیاج ہے جس کو اس کتاب کے آٹھویں حصہ میں کسی حد تک بیان کرنے کی کو شش کی گئی ہے ۔

خطبہ کے متن میں موجودہ آیات کو پہلے عربی صورت میں تحریر کیا گیا اس کے بعد ان کا ترجمہ بھی تحریر کیا گیا ہے ۔

جن مقامات پر یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام نہیں ہے وہاں جملہ ”صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “اور” علیہ السلام “تحریر نہیں کیا گیا ہے ۔

خطبہ میں کلمہ ”معاشر الناس “اور ”الا“بہت زیادہ آیا ہے چونکہ اردو زبان میں اس کے معادل کوئی اچھالفظ نہیں ہے لہٰذا پہلے کلمہ کا ” اے لوگو “اور دو سرے کلمہ کا”آگاہ ہو جاؤ “ترجمہ کیا گیاہے ۔

خطبہ کے اہم مقامات کو سیاہ حرفوں میں تحریر کیا گیا ہے خطبہ کے متن سے خارج موارد کو مشخص طور پر اور مختلف حروف کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے ۔

نسخوں کے جن اختلافی موارد کو عربی متن کے حاشیہ میں تحریر کیا گیا ہے اگر کسی ایسے اہم مطلب کا حامل ہے کہ جس کا متن سے استفادہ نہیں ہو رہا ہے یا عبارت میں اتنا اختلاف ہے جس سے جملہ کے معنی تبدیل ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں اس مطلب کو ترجمہ کے حاشیہ میں ذکر کیا گیاہے لیکن اگر کلمات مےں اختلاف ہو اورنئے اور اہم مطلب کا حامل نہ ہو تو اس کوترجمہ کے حاشیہ میں لکھنے سے خودداری کی گئی ہے الف اور با کی علامات جن کو عربی متن کے حاشیہ میں استعمال کیا گیا ہے ان کویھاں پر بھی استعمال کیا گیا ہے اور وہ چند موارد جو دو کتاب ”الاقبال “اور ”الصراط المستقیم “سے بیان کئے گئے ہیں ان کو علامت کے بغیر ذکر کیا گیا ہے ۔

وہ موارد جن میں عبارت کی وضاحت ضروری ہے یا تاریخ سے مربو ط ہیں ان اس کو حاشیہ میں بیان کیا گیا ہے ۔

ھم امید کرتے ہیں کہ مذکورہ نسخوں سے مقائسہ کیلئے جواقدار بیان کئے گئے ہیں ان کے مد نظر قارئین کرام کےلئے خطبہ غدیر کی اہمیت واضح ہو گئی ہو گی اور وہ بڑی توجہ کے ساتھ اس کا مطالعہ کرینگے ۔

____________________

[۱] عوالم جلد ۱۵/۳ صفحہ ۴۷۲۔۴۷۶۔

[۲] بحار الانوار:ج۳۷صفحہ/۲۳۵۔

[۳] بحار:جلد۳۷صفحہ/۲۳۶۔

[۴] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ /۴۷۷۔

[۵] الذریعة جلد ۵ صفحہ /۱۰۱،نمبر ۴۱۸۔الغدیر فی التراث الاسلامی صفحہ۲۳۔

[۶] روضةالواعظین جلد۱صفحہ/۸۹۔

[۷] الاحتجاج جلد۱صفحہ۶۶۔بحارالانوارجلد۳۷صفحہ۲۰۱۔

[۸] الیقین صفحہ/۳۴۳۔ بحارالانوارجلد ۳۷ صفحہ /۲۱۸۔

[۹] نزھة الکرام و بستان العوام جلد پ صفحہ ۱۸۶۔ نزھة الکرام و بستان العوام جلد پ صفحہ ۱۸۶۔

[۱۰] الاقبال صفحہ/۴۵۴،۴۵۶۔۔بحارالانوارجلد۳۷صفحہ/۱۲۷،۱۳۱۔۳۔

[۱۱] العدد القویہ صفحہ /۱۶۹۔۴۔

[۱۲] التحصین صفحہ /۵۷۸ باب۲۹ دوسری قسم ۔

[۱۳] الصراط المستقیم جلد ۱صفحہ /۳۰۱۔

[۱۴] نھج الایمان صفحہ /۹۲۔

[۱۵] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ /۱۱۴۔جلد ۳ صفحہ ۵۵۸۔

[۱۶] بحارالانوارجلد ۳۷ صفحہ ۲۰۱۔۲۱۷۔

[۱۷] کشف المھم صفحہ /۱۹۰۔

[۱۸] اس سلسلہ میں مکمل بیان اسی کتاب کے آٹھویں حصہ میں آئے گا ۔

[۱۹] کتاب ” عوالم العلوم “جلد ۱۵/۳صفحہ /۳۳۱پر کلمہ ” مولیٰ “ کے سلسلہ میں مفصل بحث کی ہے اور صفحہ/۵۸۹ پراھلسنت کی تفسیر کی چند کتابوں کے نام درج کئے ہیں جن میں کلمہ ”مو لیٰ “ کے معنی ”اولیٰ “ بیان کئے گئے ہیں ۔اسی طرح صفحہ /۵۹پر ان راویان حدیث،شعرا اور اہل لغت کے اسماء کی فھرست نقل کی ہے جنھوں نے معنی ”اولیٰ “کو کلمہ”مولیٰ “ کے اصلی معنی سمجھا ہے ذیل میں ہم ان کے نام درج کررہے ہیں :

محمد بن سائب کلبی م ۱۴۶۔سعید بن اوس انصاری لغوی م۲۱۵،معمر بن مثنی نحوی م ۲۰۹،ابو الحسن اخفش نحوی م ۲۱۵،احمد بن یحییٰ ثعلب م۲۹۱،ابوالعباس مبرّد نحوی م ۲۸۶،ابو اسحاق زجاج لغوی نحوی م ۳۱۱،ابو بکر ابن انباری م۳۲۸،سجستانی عزیزی م۳۳۰،ابو الحسن رمانی م ۳۸۴،ابو نصر فارابی م ۳۹۳،ابو اسحاق ثعلبی م ۴۲۷،ابوالحسن واحدی م ۴۶۸،ابو الحجاج شمنتری م ۴۷۶،قاضی زوزنی م ۴۸۶،ابو زکریا شیبانی م ۵۰۲،حسین فرّاء بغوی م ۵۱۰،جار اللہ زمخشری م ۵۳۸،ابن جو زی بغدادی م ۵۹۷،نظام الدین قمی م ۷۲۸،سبط ابن جو زی م ۶۵۴،قاضی بیضاوی م ۶۸۵،ابن سمین حلبی م ۷۵۶،تاج الدین خجندی نحوی م ۷۰۰،عبد اللہ نسفی م ۷۱۰،ابن صباغ ما لکی ۷۵۵،واعظ کا شفی م ۹۱۰،ابو سعود مفسّرم ۹۸۲،شھاب الدین خفا جی م ۱۰۶۹،ابن حجر عسقلانی ،فخر رازی ،ابن کثیر دمشقی ،ابن ادریس شافعی ،جلال الدین سیوطی ،بدر الدین عینی ۔

[۲۰] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۹۶۔

[۲۱] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۶۱۔

[۲۲] معا نی الاخبار صفحہ ۶۳۔

[۲۳] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۱۲۸۔معا نی الاخبار صفحہ ۶۳۔

[۲۴] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۳۹حدیث ۶۰۶۔

[۲۵] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ /۱۳۳حدیث ۱۹۰۔

Signature Down with America Down with Israel punjtni۱۴ View Public Profile Visit punjtni۱۴'s homepage! Find More Posts by punjtni۱۴ ۱۲-۱۱-۰۸, ۰۹:۲۹ AM post no : ۱۹ punjtni۱۴ Urdu Shia Lover Re : اسرار غدیر -محمد باقر انصاری-مکمل کتاب Online Read Book


6

7

8

9

10

11

12