اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات21%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57309 / ڈاؤنلوڈ: 5284
سائز سائز سائز

اہل بیت حلاّل مشکلات

اردو ترجمہ

کل الحلول عند آل الرسول

ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی

ترجمہ

سید امتیاز حیدر

ترتیب و تدوین

اے ایچ رضوی

۱

عرض مترجم

ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی دور حاضر میں دنیاے تشیع کی ایک جانی پہچانی شحصیت کا نام ہے۔ دینی اور دنیاوی دونوں علوم سے آراستہ اس شخصیت نے خود سے راہ حق و حقیقت کی جستجو کی خاردار وادی میں قدم رکھا اور منزل حق تک پہنچ کر دم لیا۔ آج یہ عظیم شیعہ مبلغ اور بے مثل صاحب قلم اپنی بے دریغ کاوش اور بے مثال جہاد لسان و قلم کے ذریعہ پوری دنیا کو مکتب اہل بیت(ع) کی حقانیت سے روشناس کرانے میں ہمہ تن سرگرم عمل ہے۔

تیونس نام کے ایک اسلامی افریقی ملک کے باشندہ ڈاکٹر تیجانی نے اب تک دنیا کے بہت سے ملکوں کا دورہ کیا اور ہزاروں بھٹکےہوئے افراد کو صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے۔ ان کی کئی کتابیں ” پھر میں ہدایت پاگیا “، ” میں بھی سچوں کے ساتھ ہوجاؤں “، ” شیعہ ہی اہل سنت ہیں“، دنیا کی بہت سی اہم زبانوں میں عربی سے ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہیں بلکہ ایک ایک کتاب کے دس دس اور بیس بیس  ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

قارئین کرام، اس وقت جو کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے اس کا اصل نام” کل الحلول عند آل الرسول“ ہے، اس کافارسی ترجمہ بنیاد معارف اسلامی قم کی جانب سے ” اہل بیت(ع) کلید مشکلات“ کے نام سے شائع ہوا۔ جس میں فارسی مترجم نے بعض حاشیہ بھی لکھے ہیں ۔ اسی کا اردو ترجمہ ” اہل بیت(ع) حلال مشکلات“ کے عنوان سے پیش خدمت ہے۔ یہ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے بقیہ کتابوں سے جدا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں اغیار کے معائب پر

۲

 روشنی ڈالتے ہوئے اپنے مسلک میں پیش آنے والی بعض چیزوں پر بھی اس طرح قلم چلایا ہے جیسے جراح کسی پھوڑے کا آپریشن  کرتا ہے اور اس کا علاج کرتا ہےسطحی نقطہ نظر سے ان کی بعض تحریریں سخت ہیں اور مترجم ان میں اپنی رائے محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن اس میں وہ مفید مطالب بھی ہیں جن کا گہری نظر سے مطالعہ پوری ملت اسلامیہ کو راہ ثواب سے ہمکنار کرسکتا ہے ۔ حقائق کتنے ہی تلخ ہوں ہمیں ان کا اعتراف کرنا ہی چاہئے ۔ بہر حال مجموعی طور سے یہ کتاب مصنف کی جرات و ہمت کی  پوری عکاسی کرتی ہے۔

خداوند عالم ہم کو راہ حق کی معرفت اور اس پر مضبوطی سے گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

                                                                                سید امتیاز حیدر

۳

مقدمہ

حمد و ثناء خدا  کے لیے سزاوار ہے اور وہی سارے عالم کا پروردگار ہے۔ اور اعلی ترین درود و سلام پروردگار عالم کی جانب سے منتخب حضرت ابوالقاسم محمد بن عبداللہ(ص) پر ہو جو عالمین کےلیے رحمت، ہمارے سید و سردار، آخری پیغمبر اور اللہ کے رسول(ص) ہیں اور آںحضرت کی عترت طاہرہ(ع) جو ہدایت کی نشانی، گمراہی سے نجات کی مشعل، امت کا سہارا اور ملت کے نجات دہندہ ہیں۔

خدا وند عالم نے محمد(ص) و آل محمد(ص) کی برکت سے ہم پر احسان کیا اور حق کی  شناخت کے لیے ہدایت فرمائی۔ ایسا حق کہ جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں ہے اور مجھے ان میووں کا مزہ چکھایا جو میری چھ کتابوں کا ثمرہ تھے۔

حق کو بیان کرنے کی وجہ سے میری کتابوں پر پردہ ڈال دیا گیا تھا لیکن خدا کے فضل و کرم سے شائع ہوئیں اور ان کی وجہ سے بہت سے سچے اور حق کے جو پاکیزہ طینت مومنین عترت طاہرہ(ع) کے گردیدہ ہوگئے اور ایمان کا جز بن گئے جن کی تعداد سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔

                     ” وَ ما يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُو“( مدثر،۳ ۱ )

                     خداوند کی فوج کو سواے اس کے کوئی نہیں جانتا۔

جو خطوط دنیا کے کونے کونے سے یہاں پیرس اور تیونس  مین ہمیں مل رہے ہیں وہ ہمارے حوصلہ افزائی  کرتے  ہیں۔ اور ہمیں اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ فرج الہی نزدیک ہے اور اس کا وعدہ سچا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں میں اس کی اس آیت کو ورد کرنے لگتا ہوں کہ ۔

۴

” أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْساءُ وَ الضَّرَّاءُ وَ زُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَ الَّذينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتى‏ نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَريبٌ ‏“(بقرہ۔ ۲ ۱ ۴)

کیا تم خیال کرتے ہو کہ جن آزمائشوں سے بزرگوں کو گزرنا پڑا ان کے بغیر جنت مین داخل ہوجاؤ گے۔ وہ رنج و مصیبت میں گرفتار ہوئے، سختیاں برداشت کیں اور اس طرح ان میں لرزہ پیدا ہوا کہ انبیاء(ع) اور ان کی پیروی کرنے والے مومنین بارگاہ پروردگار میں گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگے کہ خدا کی جانب سے ںصرت کب پہنچے گی؟ بے شک ( مومنین کو بشارت دے دو) کہ خدا کی نصرت قریب ہے۔“

ان ڈھیر سارے خطوط کے پڑھنے کے بعد احساس کرتا ہوں کہ بھلائی کبھی بھی بند نہ ہوگی۔ اور حق ہمیشہ کامیاب ہے۔

”بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذا هُوَ زاهِقٌ وَ لَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُون‏“(الانبی اء ۔ ۱ ۸ )

” ہمیشہ باطل پر حق کو غالب رکھیں گے تا کہ باطل کو سرنگوں کرکے نابود کرے۔“

اور جب خود خداوند عالم نے باطل کو مٹانے کا عہد کر لیا ہے تو میں جس چیز کو حق ہونے کا معتقد ہوں اس کے اظہار میں لیت و لعل نہ کروں گا یہاں تک کہ خداوند عالم میرے اور کج فکروں  کے درمیان فیصلہ کردے۔ یہ حق سے دور بھاگتے ہیں۔ اور جس چیز کے عادی بن گئے ہیں۔ چاہے وہ سو فیصد ہی غلط ہو۔ اس کے سوا کسی اور چیز کو قبول نہیں کرتے، باطل  سے پرہیز نہیں کرتے۔

میں پھر خداوند عالم سے ان کے لئے ہدایت کی آرزو رکھتا ہوں اس لیے کہ صرف وہی ہے کہ جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔

۵

اور چون کہ بہت سے قارئین اور حق کے جو یا افراد کے ساتھ خطوط کے ذریعہ یا ان سے ملاقات کے وقت، یا اپنی تقریروں میں مخلتف موقعوں پر تند و ترش ہو جاتا ہوں۔ لیکن مجھے اس بات کا احساس ہے کہ بعض افراد ہماری باتوں کو حق سمجھتے ہیں پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ اس وقت جب  کہ اسلام کی نابودی کی خاطر مشرقی و مغرب متحد ہوچکے ہیں ہم ایسی مشکلات کھڑی نہیں کرنا چاہتے ۔ جو مسلمانوں کے اتحاد کو نقصان پہنچائیں۔

ہم نے ان کی اس بات کو ایک حد تک معقول سمجھا اور ان کے نظریہ کو پسند کیا۔ کیوں کہ ان کی کوشش یہ ے کہ اختلاف کم کیے جائیں۔ اور مسلمانوں کی صفوں کو منظم کیا جائے لہذا ان کے نظریوں کو ماننا چاہئے۔ اور ان کی نصیحتوں کو قبول کرنا چاہئے اور ان کا ممنون ہونا چاہئے۔ اس جگہ پر امیر المومنین(ع) کا ارشاد یاد آتا ہے، آپ(ع) فرماتے ہیں

        ” اور تم کو چاہئے کہ اپنے امور مین اس عمل کو زیادہ دوست رکھو کہ نہ حق سے غفلت ہو اور نہ اسے کنار چھوڑا جائے، عدالت کی ہمہ گیری رکھتا ہو اور رعیت کو پسند آئے۔ چونکہ  زیادہ افراد کی ناراضگی بعض کی خوشنودی کو بے اثر بنادیتی ہے اور اپنوں کی ناخوشی لوگوںکی خوشنودی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔“

لہذا میں اپنی کتاب ” اہل بیت (ع) حلال مشکلات“ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اس کتاب میں کوشش کی ہے کہ وہ مسائل جو لوگوں کو مشتعل اور برانگیختہ کرتے ہیں ان سے پرہیز کروں تاکہ وہ حق سے دور نہ ہوں اور ان میں ہدایت کی تلاش کا جذبہ ختم نہ ہو۔ اگر چہ میں اس بات کا معتقد ہوں کہ جذبات کو برانگیختہ کرنے کی روش آزاد افراد کی نفسیات میں جوش و ولولہ پیدا کرتی ہے اسی اپنی گزشتہ کتابوں میں، میں نے اس روش کا استعمال کیا ہے جس کا قیمتی و تعجب انگیز نتیجہ حاصل ہوا ہے۔

۶

البتہ نرم اور مصلحت آمیز روش اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے چونکہ اس سے بہت سے لوگ مطمئن اور راضی ہوں گے۔ اور بلاشبہ اس کا نتیجہ شیریں و لذت بخش ہوگا۔ چنانچہ ہم نے دونوں روشوں کا استعمال کیا اور قرآن کریم کی پیروی کی ہے اور یہ دونوں روشوں آرزو اور خوف، بہشت کی آرزو رکھنے والوں کو روانہ بہشت کرتی ہے اور خوف کھانے والوں کو جہنم سے نجات دیتی ہے۔ اور مجھے قطعی طمع نہیں ہے کہ پرہیز گاروں کے پیشوا، امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے اس عظیم مقام کو حاصل کرلوں  جو نہ جنت کی لالچ میں عبادت کرتے تھے اور نہ ہی جہنم کے خوف سے عبادت کرتے تھے اور اگر پردے اٹھ جاتے تو ان کے یقین میں اضافہ نہ ہوتا، لہذا میں پروردگار سے صمیم قلب کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنی رحمت کو ہمارے شامل حال کرے اور مجھے سچوں کے ساتھ ملحق کردے۔

                                                                        محمد تیجانی سماوی

۷

پیش لفظ

میں نے اپنی گزشتہ کتابوں میں کوشش کی کہ مسلمانوں کو ثقلین( قرآن و عترت(ع)) کی طرف واپس لاؤں اور ان سے چاہا کہ گمراہی سے نجات اور ہدایت کی ضمانت کے لیے ان دونوں ( قرآن و اہل بیت(ع)) کو مضبوطی سے پکڑ لیں۔ جیسا کہ رسول خدا(ص) کی زبانی بیان ہوا ہے اور معتبر و مورد اعتماد راویوں نے اپنی صحاح و مسانید میں سنی و شیعہ دونوں ہی سے نقل کیا ہے۔

میں نے اس مطلب پر کافی بحث کی، حتیٰ کے بعض افراد یہ خیال کرنے لگے کہ ہماری اساس اصحاب کی تحقیر اور ان کی بے عدالتی کو ثابت کرنے میں منحصر ہے۔ لیکن خداوند عالم گواہ ہے کہ میری غرض صرف یہ تھی کہ پیغمبر اکرم(ص) کی حرمت کا دفاع کروں اس لیے کہ آنحضرت(ص) کے وجود ہی سے پورا اسلام سامنے آتا ہے۔ اسی طرح منزلت اہل بیت(ع) کا بھی دفاع کرنا چاہتا تھا اس لیے کہ وہ بھی قرآن کےہم پلہ و ہم رتبہ ہیں جس نے بھی ان کی پہچانا قرآن کو پہچانا اور جس نے بھی ان کو نظر انداز کیا اس نے قرآن کو نظر انداز کیا ہے۔ پیغمبر(ص) نے برابر اس کی  گواہی دی اور اسی پر زور دیا ہے۔

ان شاءاللہ اس کتاب میں، میں ان مسلمانوں پر ثابت کروں گا۔ جو بیسویں صدی جی رہے ہیں، مختلف ناموں میں بٹے ہوئے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ واقعی اسلام تک رسائی پیدا کریں اور اس پر عمل کریں ، ان کے لیے اہل بیت(ع)  کی پیروی واجب ہے۔ وہ حقیقت جس سے یہ گریزاں ہیں، یہ ہے کہ قرآن و سنت دونوں ہی میں تاویل و تحریف کی گئی ہے۔ قرآن کو مختلف معنی میں

۸

تاویل کیا گیا تاکہ اس کو شریعت کے حقیقی مقاصد سے دور کردیں اور سنت میں جعلی احادیث داخل کر کے تحریف کردی گئی۔ لہذا آج قرآن کی جو تفسیریں ہمارے پاس ہیں وہ اسرائیلیت یا بعض مفسروں کی ذاتی اجتہاد سے خالی نہیں ہیں جو اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن کی بعض آیتیں منسوخ ہوگئی ہیں۔ اسی طرح کتب احادیث اس درجہ جھوٹ اور تحریف کا شکار ہوئی ہیں کہ کسی پر بھی سو فیصد اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

یہی وہ مقام ہے. جہاں معصوم ائمہ(ع) اور رہبروں کی طرف رجوع کرنا واجب ہوجاتا ہے. اس لیے کہ صرف وہ ہیں جو کتاب خدا کی تفسیر اور احکام خدا کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور صرف وہی احادیث پیغمبر اکرم(ص) کو تمام  تبدیلیوں، تحریفوں اور شبہات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں.

اگر آج مسلمانوں کی آخری خواہش سلف صالح کی جانب واپسی ہے تاکہ ان دونوں تشریعی ماخذ کو ان سے حاصل کریں اور چونکہ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ (اہل بیت(ع))  سب سے افضل ہیں، لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان سے پوچھیں کہ آپ کے پاس کیا دلیل ہے. ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم ان سے بین و واضح دلیل و برہان طلب کریں جو انسان کے لیے بہانہ کی راہ کو بند کر دیتی ہے، اسے قانع کردیتی ہے اور قلب مطمئن ہوجاتا ہے. اس لیے کہ صرف حسن ظن کافی نہیں ہے حتی کہ استقامت اور نیک رویہ بھی فہم کے صحیح ہونے اور غلطی سے محفوظ رہنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا.

نبی(ص) کے شہر علم کا در، جناب امیرالمومنین(ع) اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.

                ” لوگوں  کے ہاتھ میں حق و باطل ہے. سچ و جھوٹ، ناسخ و منسوخ، عام  اور خاص، محکم

اور متشابہ ہے. جو چیز لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہے،جس پر حدیث بیان کرنے والے نے گمان

 کیا ہے. اور رسول خدا(ص)

۹

کے زمانے میں ہی جھوٹ باندھا، یہاں تک کہ آںحضرت(ص) خطبہ دینےکے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ” جس نے بھی عمدا میری طرف جھوٹی باتین        منسوب کیں اس نے اپنے لیے جہنم میں جگہ تیار کر لی .

اور تمہارے لیے جو حدیث بیان کرتے ہیں وہ صرف اور صرف چار ہیں.

( ۱ ) دو چہرے رکھنے والا جو کہ اظہار ایمان کرے لیکن بظاہر مسلمان ہو، گناہ سے نہ ڈرے اور دل میں خوف نہ رکھتا ہو، عمدا رسول خدا(ص) پر جھوٹ باندھے اور خوف نہ کرے اور اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ وہ منافق اور جھوٹا ہے تو اس کی ( بیان کی ہوئی) حدیث کو قبول نہ کریں. اور اس باتوں کو سچ نہ سمجھیں. لیکن اگر رسول خدا(ص) کے دوستوں میں سے ہو تو اس کو دیکھنا اور سننا چاہئے. اور اس کی باتوں کو محفوظ کرنا چاہئے. اس کے کہے ہوئے کو قبول کرنا چاہیے. خدا نے تم کو منافقوں کے متعلق بتایا ہے اور جس طرح ان کی قلعی کھلنی چاہیے خدا نے بیان فرما دیا ہے.

یہ رسول خدا(ص) اور اہل بیت(ع)  جب پر خدا کی رحمت ہو اپنی جگہ رہ گئے اور لوگ جھوٹ و تہمت کے ذریعہ گمراہوں کے سرغنہ اور جہنم کی طرف دعوت دینے سے نزدیک ہوگئے۔ انہوں نے ان منافقوں کو عہدوں پر مامور کیا اور لوگوں کے امور کو ان کے حوالہ کردیا۔ اور انہیں کے ہاتھوں دنیا کو ہتھیایا۔ اور لوگ تو وہاں جاتے ہیں جہاں بادشاہ اور دنیا رخ کرتی ہے۔ مگر یہ کہ خدا محفوظ رکھے۔ ان چار میں سے یہ ایک ہے۔

( ۲ ) کچھ حدیث نقل کرنے والے ایسے ہیں جو حدیث کو رسول خدا(ص) سے سنتے ہیں لیکن جس توجہ سے سننا چاہیئے نہیں سنتے اور غلط بیان کرتے ہیں لیکن ان کا یہ عمل عمدا نہیں ہوتا۔ جو حدیث اس کے پاس ہے اس کو بیان کرتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اور کہتا ہے ہم نے اسے

۱۰

رسول خدا(ص) سے سنا ہے۔ اگر مسلمانوں کو پتہ ہوتا کہ اس نے حدیث سننے میں غلطی کی ہے تو ہرگز اس کو قبول نہ کرتے اور اگر خود اسے معلوم ہوتا کہ یہ حدیث غلط ہے تو اس کو بیان کرنے سے گریز کرتا۔

( ۳ ) اور تیسرا وہ ہے جس نے سنا کہ رسول خدا(ص) نے کسی چیز کو حکم فرمایا اور پھر اس کی نفی کردی لیکن اس نفی کرنے کا علم اسے نہ ہوسکایا حضرت(ص) نے کسی چیز کی نفی کی اور بعد میں اسکا حکم فرمایا۔ لیکن وہ اس حکم سے بے خبر ہے۔ لہذا جو حکم ہوا اس کی تو اسے خبر ہے۔ لیکن اس کے منسوخ ہونے کی اسے خبر نہیں ہے چوںکہ اگر اسے پتہ ہوتا کہ وہ روایت منسوخہوچکی ہے۔ تو وہ اسے ترک کردیتا اور جس وقت مسلمانوں نے اس سے حدیث سنی اگر جانتے کہ منسوخ ہوچکی ہے اسے ترک کردیتے۔

( ۴ ) اور چاتھا شخص وہ ہے جو خدا اور رسول(ص) کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیتا، خدا سے ڈرتا ہے اور رسول خدا(ص) کی حرمت کا خیال رکھتا ہے غلطی کا بھی مرتکب نہیں ہوتا۔ جو کچھ اسے یاد ہے وہی ہے جسے اس نے سنا ہے۔ اور جو کچھ سنا ہے بغیر کسی کمی اور اضافہ کے وہی روایت کرت ہے پس ناسخ کو ذہن میں محفوظ کیا اور اس پر عمل کیا اور منسوخ بھی جو ذہن میں تھا اس سے پرہیز کیا۔ خاص و عام کو سمجھا، محکم و متشابہ کو پہچانا اور ہر ایک کو اسی جگہ پر قرار دیا۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدیث رسول(ص) کے دو طرح کے معنی ہوتے ہیں۔ ایک خاص گفتگو ہوتی ہے اور ایک عام گفتگو ہوتی ہے۔ ممکن ہے کوئی سننے کے بعد نہ سمجھ پائے کہ خدا اور رسول(ص) اس سے کیا چاہتے ہیں؟ پس سننے والا تاویل کرتا ہے بغیر اس کے کہ کلام کو سمجھے یا اس کے مقصود کو جانے یا یہ نہ جانے کہ یہ کیوں بیان ہوئی ہے؟ رسول خدا(ص)  کے تمام اصحاب تو اس طرح کے نہ تھے کہ آن حضرت(ص) سے پوچھیں اور اس کے معنی کو معلوم کریں۔ بلکہ وہ تو منتظر رہتے تھے کہ کوئی صحرائی عرب پہنچے اور رسول(ص) سے سوال کرے، اس

۱۱

۱۲

یہ ہے سچا دین

دو سال قبل سان فرانسکو میں برادران اہلسنت کی مسجد میں، میری تقریر کا یہی عنوان تھا۔ اس روز جلسہ میں افریقہ کے متعدد ممالک نیز ترکی، افغانستان اور مصر کے باشندے شریک تھے۔ اس تقریر اور پھر آزاد بحث کے نتیجہ میں بہت سے حاضرین نے اپنی رضائیت کا اظہار کیا۔

ایک مصری طالب علم جس حال ہی میں اپنی ڈاکڑیٹ حاصل کی تھی مجھ پر یہ اعتراض کیا کہ آپ کس بنا پر شیعوں کے دین کو حقیقی اسلام سمجتھے جبکہ شہرت اس کے برعکس ہے اور جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل سنت والجماعت ہی فرقہ ناجیہ ہے۔ کیوں یہ لوگ قرآن و سنت سے متمسک ہیں اور دیگر فرقے گمراہ ہیں؟

میں نے بہت ضبط و حوصلہ اور نرمی سے حاضرین کو مخاطب کر کے اس کا جواب دیا:

میرے بھائیو! میں حق کو حاضر و ناظر جان کر قسم کھا کر کہتا ہوں اگر مجھے کوئی ایسا اہل سنت فرقہ مل جائے جو حضرت ابوبکر کی طرف منسوب مذہب کا پیرو ہوتو میں انہیں مبارک باد دوں گا۔ کیوں کہ حضرت ابوبکر کا شمار پیغمبر خدا(ص) کے اصحاب میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی فرقہ ملے جو حضرت عمر اور حضرت عثمان کی طرف منسوب مذہب کی پیروی کرتا ہے تو میں انہیں مبارک باد پیش کروں گا۔ کیوں کہ یہ دونوں اصحاب رسول(ص) میں شمار ہوتے ہیں لیکن مجھے آج تک اہل سنت یا دیگر فرقوں میں کوئی ایسا گروہ نہیں ملا جو ان خلفاء یا کسی اور صحابی سے منسوب مذہب کی

۱۳

 پیروی کرتا ہو۔ صرف ایک شیعہ فرقہ ہے جو علی بن ابی طالب(ع) سے منسوب مذہب کی پیروی کرتا ہے۔ یہ لوگ شیعہ امامیہ ہیں ان کے مقابل کوئی ابوحنفیہ کی تقلید کرتا ہے تو کوئی شافعی اور احمد بن حنبل کی یہ حضرات عظیم دانشور ہونے کے باجود صحابی نہیں ہیں۔ انہوں نے رسول اکرم(ص) کو ایک دن کے لیے بھی درک نہیں کیا اور نہ ان کے ہمنشین رہے ہیں۔ یہ حضرات تاریخ کے ایک عظیم فتنہ کے بعد معرض وجود میں آئے ہیں اور بلاشک و شبہ اس فتنہ سے متاثر ہوئے ہیں۔(۱)

ہم اگر علی بن ابی طالب(ع) کو تمام فضیلتوں سے الگ کر دیں تو ان کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ آپ سب سے پہلے مسلمان اور مومن تھے اور آپ نے اپنی ساری زندگی رسول خدا(ص) کی رقابت اور ان کے دین کی  خدمت میں گزار دی۔ میں آپ سے خدا کاواسطہ دے کر کہتا ہوں تعصب اور جذبات سے کنارہ کرتے ہوئے صرف اور صرف اپنی عقل کو حاکم بتائیں اور فقط خدا کی مرضی کو مدنظر رکھیں اس کے بعد اپنے ضمیر سے پوچھیں اور مجھے بتائیں کہ پیروی اور اتباع کا کون مستحق ہے؟ حاضرین میں سے سنکڑوں آواز بلند ہوئیں کہ علی(ع) پیروی اور اخباع کے زیادہ مستحق ہیں۔

اس کے بعد میں نے حاضرین کو رسول اکرم(ص) کی وہ حدیثیں سنائیں جو اہل سنت والجماعت کی معتبر ترین کتب ( صحاح و مسانید حدیث) میں منقول ہیں۔ یہ حدیثیں مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں۔(۲)

۲۔ علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے۔ جہاں علی(ع) ہوں گے، حق بھی ان کے ساتھ ہوگا۔(۳)

۳۔ جس کا میں مولا ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں۔(۴)

۱۴

۴۔ میری نسبت علی(ع) سے ایسی ہے جیسے ہارون کو موسی(ع) سے تھی۔(۵)

۵۔ میرے بعد علی(ع) میری امت کے اختلافات کو حل کرنے والے ہوں گے۔

۶۔ علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے اور یہ دونوں  ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کے میرے پاس حوض کوثر پر آجائیں۔(۶)

اگر مسلمان ان حقائق کو سجھ لیں اور ان کی عقلیں صرف اور صرف حضرت علی(ع) کے صحابی پیغمبر(ص) ہونے کی وجہ سے ان کی پیروی کی دعوت دیں تو اس میں کوئی شک وشبہ نہیں رہ جاتا کہ حقیقی اسلام وہی ہے جو شیعہ امامیہ کا دین ہے۔ انہی رافضیوں کا اسلام جنہوں نے علی(ع) کے علاوہ کسی اور کی پیروی کو رفض ( ناپسند) کیا ہے۔

آخر کار جلسہ میں بہت گفتگو اور بحث کے بعد جو کہ بڑے صبر و حوصلہ و آرام سے انجام پائی، حاضرین میں سے بہت سے لوگ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے مبارکباد دی اور خدا کا شکر ادا کیا۔ مجھ سے درخواست کی کہ اپنی کتابیں انہیں پیش کروں اور شیعوں کی کتابوں کے بارے میں انہیں معلومات فراہم کروں۔

اس گروہ میں ایک فرد اسی مسجد کے امام جماعت بھی تھے جب میں مصائب اہل بیت(ع) پڑھ رہا تھا تو وہ گریہ کررہے تھے۔ انہوں نے مصر سے ph .D کی ہے۔ وہ  محب اہل بیت(ع) ہیں انہوں نے مجھ سے کہا: مبارک ہو اے بھائی! مجھے یقین نہیں تھا کہ تم اتنی آسانی سے ہمیں مطمئن اور قانع کر لوگے مجھے بعض متعصبین سے جو تم سے جلتے ہیں خوف محسوس ہورہا تھا، لیکن خدا کی قسم تم نے اپنی سچی باتوں سے ان کے دل جیت لیے۔

۱۵

راہ پیغمبر(ص) کو جاری رکھنے والے

اہل بیت(ع) سے ہماری مراد پیغمبر(ص) کی عترت میں بارہ امام علیہم السلام ہیں۔ ہم نے گزشتہ کتابوں میں اس سلسلے  میں جو گفتگو کی ہے۔ شیعوں اور اہل سنت کا اتفاق ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

     میرے بعد ائمہ بارہ افراد ہوں گے اور یہ سب کےسب قریش سے ہوں گے۔(۷)

     آپ(ص) نے مزید فرمایا۔ یہ امر ( امامت) قریش ہی میں رہے گا خواہ قریش میں صرف دو ہی آدمی کیوں نہ بچے ہوں۔

اور چونکہ سبھی جانتے ہیںکہ خدا  نے آدم(ع) و نوح(ع) و ابراہیم(ع) و خاندان عمران کو دنیا کے تمام لوگوں میان منتخب کیا ہے۔ پس پیغمبر اکرم(ص) نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا نے ان تماملوگوںپر بنی ہاشم کو منتخب کیا ہے اور یہ لوگ تمام برگزیدہ افراد پر فضیلت رکھتے ہیں۔(۸)

صحیح مسلم کے باب فضائل میں (دیگر لوگوں پر فضیلت پیغمبر اکرم(ص)) کے باب میں آن حضرت(ص)  سے منقول ہے کہ

             خدا نے کنانہ کو فرزندان اسماعیل(ع) سے منتخب کیا اور قریش کو کنانہ سے۔ اور بنی ہاشم کو قریش سے اور مجھے بنی ہاشم سے۔(۹)

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے بنی ہاشم کو تمام مخلوق پر فوقیت اور فضیلت دی ہے اور بنی ہاشم پر رسول اکرم(ص) کو فوقیت و فضیلت دی ہے۔ لہذا بنی ہاشم کا رتبہ آپ کے بعد ہے۔ اور رسول اکرم(ص) نے تمام بنی ہاشم میں علی(ع) اور ان کی

۱۶

اولاد کو منتخب کیا اور خدا کے حکم سے انہیں اپنا جانشین بنایا ہے۔ جس طرح سے خود آپ(ص) پر درود و سلام بھیجنا واجب تھا، اسی طرح آپ نے علی(ع) اور اولاد علی(ع) پر درود و سلام بھیجنا واجب قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے اکثر مفسرین نے علی(ع) و آل علی(ع) کو آیہ تطہیر کا مصداق بتایا ہے۔ صرف آیہ تطہیر ہی نہیں بلکہ آیت مودت، آیت ولایت اور آیت اصطفاء کا مصداق بھی اہل بیت(ع) ہی ہیں۔کتاب کے وارث، اہل ذکر، راسخون فی العلم اور سورہ ہل اتی سے مراد اہل بیت علیہم السلام ہی ہیں۔

رسول اکرم(ص) کی وہ حدیثیں جن کی صحت پر تمام علماء فریقین کو اتفاق ہے، بہت زیادہ ہیں ان حدیثوں میں رسول اکرم(ص) نے اہل بیت علیہم السلام کی فضیلتوں کو بیان کیا ہے اور انہیں ہدایت دینے والے رہبر بتایا ہے۔ چونکہ یہ حدیثیں بہت زیادہ ہیں لہذا ہم صرف دو حدیثوں کا ذکر کرتے ہیں۔

۱۔ مسلم نے اپنی صحیح میں باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع) میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

        اے لوگو! میں بھی ایک بشر ہوں، ممکن ہے جلد ہی خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ آجائے اور میں اس کی

دعوت پر لبیک کہہ دوں۔ آگاہ ہو جاؤ! میں تمہارے درمیان دور گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں

ایک کتاب خدا ہے  جس میں ہدایت اور نور ہے۔ کتاب خدا کو مضبوطی سے تھام لو۔ دوسرے میرے

اہل بیت(ع) ہیں تمہیں خدا کا واسطہ میرے اہل بیت(ع) کو بھلا نہ دینا۔ تمہیں خدا کا واسطہ میرے

اہل بیت(ع) کو بھلا نہ دینا۔ تمہیں خدا کا واسطہ میرے اہل بیت(ع) کو یاد رکھنا۔(۱۰)( صحیح مسلم ج۴،

ص۱۸۷۳، ح۲۴۰۸)

۲۔ مسلم نے اپنی صحیح میں سعد بن ابی وقاص سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی کہ رسول خدا(ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا :

۱۷

                ” اے علی(ع) تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہےجو ہارون(ع) کو موسی(ع) سے تھی۔

                مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔“(۱۱)

ہم اختصار کی بنا پر ان ہی دو حدیثوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان حدیثوں سے واضح اور ثابت ہوجاتا ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) عترت پیغمبر(ص) کے بزرگ تھے اور آپ ہی نے رسول خدا کی حفاظت کی اور ان کے راستہ کو جاری رکھا۔ رسول اکرم(ص) نے اسی بات پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے:

                میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں۔

کیا یہی حدیث کافی نہیں ہے اس بات پر کہ امت علی(ع) کے بغیر ” شہر پیغمبر“ میں داخل ںہیں ہوسکتی۔ ان دو بزرگوں پر خدا کا درود و سلام ہو خدا نے گھر میں صرف دروازہ سے داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔

اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت علی(ع) نے صرف رسول خدا(ص) سے علم حاصل کیا ہے آپ بچپن ہی سے رسول خدا(ص) کی تربیت میں رہے اور ہمیشہ رسول اکرم(ص) کے ساتھ رہتے تھے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے گزشتہ اور آیندہ کا علم آپ(ع) کو عطا کیا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:

        ” جبرئیل نے مجھے کوئی ایسی چیز نہیں دی جو میں نے علی ابن ابی طالب(ع) کو نہ سکھائی ہو“۔

        اس بارے میں خود حضرت علی(ع) ارشاد فرماتے ہیں:

        ” اگر مسند قضاوت بچھا دی جائے تو میں اہل توریت کے لیے توریت سے اور اہل انجیل کے لیے

        ان کی انجیل سے اور اہل قرآن کے لیے قرآن سے فیصلہ کروں گا۔“(۱۲)

آپ(ع) مزید فرماتے ہیں :” سلونی قبل ان تفقدونی“

” مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان سے اٹھ جاؤں۔“(۱۳)

۱۸

تاریخ اسلام میں تمام مسلمان اور اصحاب اس بات پر متفق ہیں کہ دین و دنیا کے سب سے بڑے عالم علی(ع) ہیں۔ آپ(ع) دنیا کے پارساترین اور زاہد ترین فرد تھے آپ(ع)  نے ہر طرح کی مصیبت اور سختیوں میں صبر کے اعلی ترین مدارج کا مظاہرہ کیا اور جنگوں میںآپ(ع) کی شجاعت کی برابری کون کرسکتا ہے؟

اسی طرح خطا کاروں کو معاف کرنے اور عفو و بخشش کا مظاہر کرنے میں بھی آپ(ع) کا ثانی نہیں ہے۔

ان مطالب کو کامل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رسول اکرم(ص) اور اہل بیت(ع) کے درمیان رشتہ اور ربط کے بارے میں آپ کے ارشادات پر توجہ کی جائے۔

اسرار پیغمبران (اہل بیت(ع)) کے حوالہ کیا گیا ہے جو بھی ان کی پناہ میں آئے اس نے راہ حق اختیار کی ہے، ( وہ علم رسول(ص) کے مخزن ہیں اور ان کی شریعت کے احکام کو بیان کرتے ہیں۔ قرآن و سنت ان کے یہاں محفوظ ہیں، وہ پھیلے ہوئے پہاڑ کی طرحدین کے پاسبان ہیں۔ انہیں کے ذریعہ اس کی پشت مضبوط ہے اور اس کے پہلو کی کپکپی دور ہوئی ہے۔ ( نہیج البلاغہ/خطبہ۲)

خدا کی قسم ہمیں پیغاموں کے پہنچانے، وعدوں کو پورا کرنے، امر و نہی کو بیانکرنے کا پورا علم ہے اور ہم اہل بیت(ع) پر ہی علم و حکمت الہی کے دروازےکھلے ہیں۔ ( نہیج البلاغہ/خبطہ۱۲۰)

کہاں ہیں وہ لوگ جو جھوٹ بولتے ہوئے اور ہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ دعوی کرتےہیں کہ ہو”راسخون فی العلم“ ہیں نہ کہ ہم۔خدانےاسکےعوض ہمیں بلندی دی اور انہیں پستی میں ڈال دیا۔ ہمیں عطا کیا اور انہیں محروم کیا۔ ہمیں اپنی عنایت کے دائرہمیں رکھا اور انہیں باہر کردیا۔ ہم ہی سے طلب ہدایت اور گمراہی کی تاریکیوں کو

۱۹

 چھانٹنے کی خواہش کی جاسکتی ہے۔ بلا شبہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخبنی ہاشم کے کشت زار سے ابھرے ہیں۔ نہ امامت کسی اور کو زیب دیتی ہے اور نہ بنی ہاشمکے علاوہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا۔ ( نہج البلاغہ/خطبہ۱۴۴)

بلا شبہ، آل محمد(ص) کی مثال آسمان کے ستاروں کے مانند ہے۔ اس لیے اگر ایک ستارہ غروب ہوتا ہے تو دوسرا ظاہر ہوجاتا ہے گویا تمہارے حق میں خدا نے خیرو وبرکت کو کمال کی حد تک پہنچایا ہے اور جو کچھ تم آزرو کرتے ہو( خدا نے ) تمہیں بخشا ہے۔ ( نہج البلاغہ/خبطہ۱۰۰)

اس امت میں کسی کو بھی آل محمد(ص) پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں وہ ان کے برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں۔آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ہے۔ حق ولایت کی خصوصیات انہی کے لیے ہیں انہی کے بارے میں پیغمبر(ص) کی وصیت اور انہی کے لیے نبی(ص) کی وراثت ہے۔ اب حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہوگیا۔ ( نہج البلاغہ/خطبہ۲)

اور ( میں اپنے نبی(ص) کے طریقے اور) شاہراہ حق پر گامزن ہوں اور اسے باطل کے راستوں سے جدا کرتا رہتا ہوں۔ اپنے نبی(ص) کے اہل بیت(ع) کو دیکھو! ان کی سیرت پر چلوں ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ وہ تمہیں ہدایت فلاح سے باہر نہیں و فلاح سے باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ بڑھ جاؤ ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے اور نہ( انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ ورنہ تباہ ہوجاؤ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نواں سبق

کیا خدا غیر مرئی ہے

محمود نقاشی کر رہا تھا اس نے کتنا خوبصورت کبوتر بنایا کیا محمود عقل و فہم رکھتا ہے؟ کیا آپ اس کی عقل و فہم کو دیکھ سکتے ہیں_ کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب محمود کی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ پائے لہذا وہ عقل اور فہم ہی نہیں رکھتا؟

لازماً جواب دیں گے کہ عقل اور فہم آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن اس کی علامتیں اور نشانیاں آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ان ہی علامات اور آثار کے دیکھنے سے درک کرتے ہیں کہ وہ عقل اور فہم رکھتا ہے_ جی ہاں یہ آپ کا جواب بالکل درست ہے عقل اور فہم کو آنکھ سے نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ عقل اور فہم جسم نہیں ہے کہ آنکھ سے دیکھا جائے آنکھ اور دوسرے حواس صرف جسم کے آثار اور نشانیوں کو درک کرسکتے ہیں_ بہت سی چیزیں

۴۱

ایسی موجود ہیں کہ جنھیں آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کو آثار سے دیکھ لیتے ہیں اور ان کے وجود کا علم حاصل کرلیتے ہیں خدا بھی چونکہ جسم نہیں ہے لہذا آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور دوسرے حواس سے بھی درک نہیں کیا جاسکتا لیکن اس جہان پر عظمت کی خلقت جو خود اس کی قدرت کے آثار اور علائم میں سے ہے اس سے اس کے وجود کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم جہان کا خالق او رانتظام کرنے والا موجود ہے_

فکر کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اپنے دوست کودیکھیں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے؟

۲)___ کیا اس کی عقل اور فہم کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟

۳)___ کس طرح جانتے ہیں کہ وہ عقل و فہم رکھتا ہے؟

۴)___کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ اسکی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ سکتے لہذا وہ عقل و فہم نہیں رکھتا؟

۵)___ ہمارے ظاہری حواس کس چیز کو درک کرسکتے ہیں؟

۶)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے

۷)___ کیا خدا کو دوسرے کسی حواس سے محسوس کیا جاسکتا ہے اور کیا بتلا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟

۸)___ کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ خدا نہیں دیکھا جاسکتا لہذا موجود نہیں ہے؟

۴۲

دسواں سبق

موحّدین کے پیشوا حضرت ابراہیم (ع)

حضرت ابراہیم (ع) علیہ السلام کے زمانے میں لوگ نادان اور جاہل تھے پہلے پیغمبروں کے دستور کو بھلاچکے تھے خداپرستی کے طور طریقے نہیں جانتے خدا کی پرستش کی جگہ بت پرستی کرتے تھے یعنی پتھر یا لکڑی سونا یا چاندی کے مجسمے انسانی یا حیوانی شکل میں بناتے تھے اور ان بے زبان اور عاجز بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے اور ان کے سامنے زمین پر گرپڑتے اور ان کے لئے نذر و نیاز مانتے اور قربانی دیا کرتے تھے بعض لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے اور بعض لوگ چاند یا ستاروں کی پرستش کرتے تھے_ جاہلوں کا ایک گروہ اس زمانہ میںطاقتور اور ظالموں کی پرستش کرتا تھا اور ان کی اطاعت واجب و لازم سمجھتا تھا اور بغیر سوچے سمجھے ظالموں کے دستور پر عمل کرتا تھا اپنے آپ کو ذلیل کر کے ان کے سامنے زمین پر گرتے تھے اور ان

۴۳

کے لئے بندگی کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو چنا اور انھیں زندگی کا صحیح راستہ بتلایا اور حکم دیا کہ لوگوں کی تبلیغ کریں اور انھیں خداپرستی کے طور طریقے بتلائیں_

حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے فرمایا کہ بتوں میں کونسی قدرت ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور ان کی پرستش کرتے ہو یہ مجسمے کیا کرسکتے ہیں یہ نہ تو دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں یہ نہ تو تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی تمہیں ضرر پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں_ تم کیوں اپنے اپ کو ان کے سامنے ذلیل کرتے ہو؟ تم کیوں ان کے سامنے زمین پر گرتے ہو؟ کیوں ان کی عبادت و اطاعت کرتے ہو؟ جو لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو سنتے اور اس کے متعلق فکر نہ کرتے تھے وہ آپ کے جواب میں کہتے کہ ہمارے آباؤ اجداد بت پرست تھے ہمارے دوست اور رفقاء بھی بت پرست تھے اور ہم اپنے گزرے ہوئے آباؤ اجداد کی پیروی کریں گے اور ان کے دین پر باقی رہیں گے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے تھے کہ تمہارے آباؤ اجداد نے اشتباہ کیا کہ وہ بت پرست بنے کیا تم میں عقل و شعور نہیں؟ کیا تم خود کچھ نہیں سمجھتے؟ کیا دیکھ نہیں رہے ہو کہ ان بتوں سے کچھ بھی تو نہیں ہوسکتا_ کس لئے تم اپنے آپ کو طاقتوروں اور ظالموں کے سامنے ذلیل کرتے ہو وہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں_

لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اس کی طرف سے آ زادی اور سعادتمند ی کا پیغام لایا ہوں_ میری بات سنو تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادت

۴۴

مند بن جاؤ: لوگو تمہارا پروردگار اور مالک وہ ہے کہ جس نے تم کو پیدا کیا ہے، زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے، کائنات اور اس میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے تمام قدرت اس کی طرف سے ہے دنیا کا نظام چلانا کسی کے سپرد نہیں کیا اور اس کے چلانے میں کس سے مدد نہیں لی وہ ایک ہے اور قادر مطلق ہے_ میں ان بتوں سے جن کی تم پرستش کرتے ہو بیزار ہوں اور ان کو دوست نہیں رکھتا اور ان کی اطاعت نہیں کرتا

خدا کو دوست رکھتا ہوں اور صرف اس کی پرستش کرتا ہوں کیوں کہ خدا نے مجھے پیدا کیا ہے_

بیماری سے شفا اور زندگی اور موت دنیا اور آخرت سب اس کے ہاتھ میں ہے_

میں امیدوار ہوں کہ قیامت کے دن بھی خداوند عالم مجھ پر مہربان ہوگا اور مجھ پر رحم کرے گا_

لوگو ایک خدا کی پرستش کرو کیوں کہ تمام قدرت خدا سے ہے، خدا ہے اور ہمیشہ رہے گا تمہاری مدد کرنے والا صرف خدا ہے تمہارا راہنما خدا کا پیغام ہے اسی کی طرف توجہ کرو اور صرف اسی کی پرستش کرو پرستش صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے اس کے سواء اور کوئی لائق اطاعت اور پرستش نہیں ہے_

۴۵

غور کریں اور جواب دیں

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے میں جاہل لوگ کن چیزوں اور کن لوگوں کی پرستش کرتے تھے؟ اور کن لوگوں کی اطاعت کو ضروری سمجھتے تھے؟

۲)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا فرمان دیا؟

۳)___ حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے کیا فرمایا اور کس طرح وضاحت کی کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟

۴)___ کیا لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو پرغور کرتے تھے؟ اور آپ سے کیا کہتے تھے؟

۵)___ لوگوں نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا جواب دیا تھا وہ ٹھیک تھا یا غلط اور کیوں؟

۶)___ کیا یہ جائز ہے کہ ایک انسان دوسرے کے سامنے بندگی کا اظہار کرے؟

۷)___ آپ نے بت پرست دیکھا ہے؟

۸)___ حضرت ابراہیم (ع) کی توحید پر کیا دلیل تھی کیوں صرف خدا کو دوست رکھتے تھے اور صرف اسی کی پرستش کرتے تھے؟

۹)___ سوائے خدا کے اور کوئی کیوں قابل پرستش اور اطاعت نہیں؟

۱۰)___ کیا جو کسی ظالم کی اطاعت کرتا ہے وہ موحّد ہے؟

۱۱)___ کس کو موحّد کہتے ہیں موحّد آدمی کی امید کس سے ہوتی ہے؟

۴۶

۱۲)___ اس سبق سے ایک اور سوال بنائیں اوراپنے دوست سے کہیں کہ وہ اس کا جواب دے_

۴۷

حصّہ دوم معاد

۴۸

پہلا سبق

کیا اچھائی اور برائی برابر ہیں

آپ اچھے اور برے کے معنی سمجھتے ہیں اچھے اور برے انسان میں فرق کرسکتے ہیں جو انسان عدل چاہنے والا سچا، نیک کردار، صحیح با ادب، اور امین ہوا سے اچھا انسان شمار کرتے ہیں، لیکن بد اخلاق، جھوٹا، بدکردار، ظالم بے ادب خائن انسان کو برا انسان سمجھتے ہیں کیا آپ کے نزدیک برے اور اچھے انسان مساوی اور برابر ہیں_ کیا آپ اور تمام لوگ اچھے انسانوں کو دوست رکھتے ہیں اور برے آدمیوں سے بیزار ہیں خدا بھی اچھے کردار والے آدمیوں کو دوست رکھتا ہے اور برے انسانوں سے وہ بیزار ہے اسی لئے اللہ تعالی نے پیغمبر(ص) بھیجے ہیں تا کہ اچھے کاموں کی دعوت دیں اور برے کاموں سے روکیں

اب ان سوالوں کے جواب دیں_

۴۹

کیا اچھے لوگوں کے لئے کوئی جزا ہوگی اور برے لوگ اپنے اعمال بد کی سزا پائیں گے؟

کیا اچھے اور برے لوگ اس جہاں میں اپنے اعمال کی پوری اور کامل جزا اور سزا پالیتے ہیں؟

پس اچھے اور برے کہاں ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور کہاں اپنے اعمال کا پورا اور کامل نتیجہ دیکھ سکیں گے؟

اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہا جاتا ہے کہ جہاں اچھے اور برے لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور اپنے اعمال کا ثمرہ پائیں گے اگر آخرت نہ ہو تو اچھے لوگ کس امید میں اچھا کام کریں اور کس لئے گناہ اور برائی سے دور ہیں_ اگر آخرت نہ ہو تو پیغمبروں کی دعوت بے مقصد اور بیہودہ ہوگی اچھائی اور برائی کے کوئی معنی نہ ہوں گے اگر آخرت ہمارے سامنے نہ ہو تو ہماری زندگی بے نتیجہ اور ہماری خلقت بھی بے معنی ہوگی_ کیا علیم و قادر خدا نے ا س لئے ہمیں پیدا کیا ہے کہ چند دن اس دنیا میں زندہ رہیں؟ یعنی کھائیں پئیں، پہنیں، سوئیں اور پھر مرجائیں اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں یہ تو ایک بے نتیجہ اور بے معنی کام ہے اور اللہ تعالی بے معنی اور بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا_ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''ہم نے تمہیں عبث خلق نہیں کیا ہم نے تم کو پیدا کیا ہے تا کہ اس دنیا میں زندگی گزار و اچھے کام انجام دو اور لائق و کامل بن جاؤ اس کے بعد ہم تم کو اس دنیا سے ایک دوسری دنیا کی طرف لے جائیں گے تا کہ اس دنیا میں اپنے کاموں کا کامل نتیجہ پاؤ''

آخرت میں اچھے بروں سے جدا ہوجائیں گے جو لوگ نیک کام

۵۰

انجام دیتے رہے اور دین دار تھے وہ بہشت میں جائیں گے اور خوشی کی زندگی بسر کریں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ بھی اپنی اچھی زندگی اور اللہ کی بے پایاں نعمتوں سے خوشنود اور راضی ہیں بے دین اور بد کردار لوگ دوزخ میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے اللہ ان پر ناراض ہے اور وہ دردناک عذاب کی زندگی بسر کریں گے اور ان کے لئے بہت سخت زندگی ہوگی

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کون لوگ اچھے ہیں او رکون لوگ برے، ان صفات کو شمار کیجئے

۲)___ کیا برے اور اچھے لوگ آپ کے نزدیک مساوی ہیں؟

۳)___ کیا برے اور اچھے لوگ خدا کی نزدیک برابر ہیں؟

۴)___ پیغمبر(ص) لوگوں کو کن کاموں کی طرف دعوت دیتے ہیں اور کن کاموں سے روکتے ہیں؟

۵)___ کیا لوگ اس دنیا میں اپنے اعمال کی کامل جزاء پاتے ہیں؟

۶)___ کہاں اپنے اعمال کا کامل نتیجہ دیکھیں گے؟

۷)___ اگر آخرت نہ ہو تو اچھائی اور برائی کا کوئی معقول اور درست معنی ہوگا

۸)___ اگر آخرت نہ ہو تو ہماری زندگی کا کیا فائدہ ہوگا؟

۹)___ جب ہم سمجھ گئے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا ہے تو ہم کس طرح زندگی گزاریں؟

۵۱

دوسرا سبق

پھول کی تلاش

ہمارے خاندان کے کچھ لوگ مری کے اطراف میں ایک دیہات میں رہتے ہیں وہ دیہات بہت خوبصورت ہے وہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اس کے نزدیک ایک پہاڑ ہے کہ جس کا دامن سرخ اور زرد پھولوں سے بھرا ہوا ہے_

ایک دن میرے رشتہ دار بچّے میرے چچا کے گھر بیٹھے تھے عید الاضحی کا دن تھا_ ہم چاہتے تھے کہ کمرے کو پھولوں سے سجائیں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ چلیں پھول ڈھونڈ لائیں اور اس کام میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں_

میں نے پوچھا کس طرح؟

والد نے کہا کہ تم تمام کے تمام پہاڑ کے دامن میں جاؤ وہاں بہت

۵۲

زیادہ پھول موجود ہیں پھول توڑو اور لوٹ آؤ لیکن خیال کرنا کہ پھولوں کی جڑوں کو ضرر نہ پہنچے مقابلہ کا وقت ایک گھنٹہ ہے تمام اس مقابلہ میں شریک ہو جاؤ پھول توڑو اور لوٹ آو جو زیادہ پھول لائے گا وہ زیادہ انعام پائے گا تمام بچّے مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے آمادہ ہوگئے_

صبح کو ٹھیک سات بجے مقابلہ شروع ہوا کچھ بچے تو اس دیہات کے اطراف میں ہی رہ گئے اور کہنے لگے کہ راستہ دور ہے اور ہم تھک جائیں گے تم بھی یہیں رک جاؤ اور ہم ہمیں مل کر کھیلیں لیکن ہم نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرا اور چلے گئے راستے میں دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلتے تھے تا کہ پھولوں تک جلدی پہنچ جائیں راستہ دشوار آگیا بعض بچّے ٹھہر گئے آگے نہ بڑھے او رکہنے لگے کہ ہم یہیں سے پھول توڑیں گے_

میں میرا بھائی اور چچا کا بیٹا سب سے پہلے پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے کتنی بہترین اور خوبصورت جگہ تھی زرد اور سرخ پھولوں سے بھری پڑی تھی_ ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے کی مدد کریں اور اکھٹے پھول توڑیں میں اور چچا کا لڑکا پھول توڑنے تھے اور اپنے بھائی کے دامن میں ڈال دیتے تھے اس کا دامن پھولوں سے بھر گیا گھڑی دیکھی تو مقابلہ کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا گھر کی طرف لوٹے دوسرے بچّے بھی لوٹ آئے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں بہترین انعام ملے گا اور جو تھوڑے پھول توڑ لائے تھے خوش نہ تھے کیوں کہ جانتے تھے کہ مقابلہ میں بہتر مقام نہیں لے سکیں گے اور بہترین انعام حاصل نہیں کرسکیں گے اور جو خالی ہاتھ لوٹ آئے تھے شرمسار اور سرجھکائے ہوئے تھے والد کے پاس پہنچے جس نے جتنے پھول توڑے

۵۳

تھے انہیں دے دیئے اور انعام لیا لیکن جنہوں نے سستی کی تھی اور والد کے فرمان پر عمل نہیں کیا تھا انہوں نے انعام حاصل نہیں کیا بلکہ شرمسار تھے ان سے والد صاحب بھی خوش نہیں ہوئے اور ان کی کوئی پرواہ نہ کی وہ سرجھکائے اپنے آپ کو کہہ رہے تھے کاش ہم بھی کوشش کرتے کاش دوبارہ مقابلہ شروع ہو لیکن مقابلہ ختم ہوچکا تھا

جزاء کا دن

مقابلہ کے ختم ہوجانے کے بعد ہمارے والد نے ہم سے گفتگو کرنا شروع کی او رکہا '' میرے عزیز اور پیارے بچّو مقابلہ کے انعقاد کے لئے میرا نظریہ کچھ اور تھا میں اس سے تمہیں سمجھنا چاہتا تھا کہ یہ جہان مقابلہ کا جہان ہے_ ہم تمام اس جہان میں مقابلہ کرنے آئے ہیں اور قیامت کے دن اس کا انعام اور جازء حاصل کریں گے ہمارا مقابلہ نیک کاموں اور اچھے اعمال میں ہے_ اچھے اور برے کام کی جزاء اور سزا ہے اچھے اور برے لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں _ ہماری خلقت اور کام و کوشش کرنا بے معنی اور بے فائدہ نہیں لوگوں کا ایک گروہ اللہ تعالی کے فرمان کا مطیع اور فرمانبردار ہے نیک کاموں کا بجالانے میں کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہے اچھے اور صالح لوگوں سے دوستی کرتا ہے ان کی راہنمائی میں بہت زیادہ اچھے

۵۴

کام انجام دیتا ہے نیک کاموں میں سبقت لے جاتا ہے اپنے دوستوں اور ہمسایوں کی مدد کرتا ہے مظلوموں کی حمایت کرتا ہے

یہ لوگ آخرت میں بہترین انعام اور جزاء پائیں گے خدا ان سے خوش ہوگا اور وہ بھی خدا سے انعام لے کر خوش ہوں گے سب سے پہلے بہشت میں جائیں گے اور بہشت کے بہترین باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوش و خرّم زندگی بسر کرین گے ہمیشہ اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوں گے، اور لذت اٹھائیں گے_ ایک اور گروہ اس جہان میں اچھے کام انجام دیتا ہے وہ اچھے کاموں میں مدد بھی کرتا ہے اور اللہ کو یاد بھی کرتا ہے لیکن پہلے گروہ کی طرح کوشش نہیں کرتا اور سبقت لے جانے کے درپے نہیں ہوتا یہ بھی قیامت کے دن انعام او رجزاء پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے لیکن ان کا انعام او رجزاء پہلے گروہ کی طرح نہیں ہوگا_ تیسرا گروہ ظالم اور بے دنیوں کا ہے وہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے فرمان کو قبول نہیں کرتا اور اس پر عمل نہیں کرتا_ وہ خدا کو بھول گیا ہے، اچھے کام انجام نہیں دیتا، گناہ گار اور بداخلاق، اور بدکردار ہے لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور یہ گروہ خالی ہاتھ آخرت میں سامنے آئے گا اچھے کام اپنے ساتھ نہیں لائے گا اپنے برے افعال اور ناپسندیدہ اعمال سے شرمندہ ہوگا_

جب اچھے لوگ انعام پائیں گے تو یہ افسوس کرے گا اور پشیمان ہوگا اور کہے گا_ کاش دنیا میں پھر بھیجا جائے تا کہ وہ نیک کام بجالائے لیکن افسوس کہ دوبارہ لوٹ جانا ممکن نہیں ہوگا اس گروہ کے لوگ جہنم میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے_

۵۵

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ہماری خلقت و کوشش بغیر کسی غرض اور غایت کے ہے اور کیا ہم ان کاموں اور کوششوں سے کوئی نتیجہ بھی لیں گے؟

۲)___ یہ جہان مقابلہ کی جگہ ہے، سے کیا مراد ہے؟

۳)___ متوجہ اور آگاہ انسان اس دنیا میں کن کاموں کی تلاش میں اور کن کاموں میں مقابلہ کر رہا ہے؟

۴)___ کون لوگ آخرت میں بہترین انعام پائیں گے؟

۵)___ ان لوگوں نے دنیا میں کیا کیا ہے؟

۶)___ ان کے اعمال اور کردار کیسے تھے، ان کے دوست کیسے تھے کن کاموں میں مقابلہ کرتے تھے؟

۷)___ آپ کی رفتار اور آپ کا کردار کیسے ہے، آپ کے دوستوں کا کردار کیسا ہے، کن کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر آپ کا کوئی دوست آپکو کسی ناپسندیدہ کام کی دعوت دے تو پھر بھی اس سے دوستی رکھتے ہیں؟

۸)___ کون لوگ قیامت کے دن شرمندہ ہوں گے کیوں افسوس کریں گے یہ لوگ اس دنیا میں کیسا کردار تھے ہیں؟

۹)___ دوسرے گروہ کا انعام اور جزاء کا پہلے گروہ کے انعام اور جزائ

۵۶

سے کیا فرق ہے اور کیوں؟

ان سوالوں کے جواب خوش خط لکھیں

۵۷

تیسرا سبق

جہان آخرت عالم برزخ اور قیامت

مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتے بلکہ اس جہان سے دوسری دنیا کی طرف جاتے ہیں کہ جس کا نام جہان آخرت ہے، آخرت سے پہلے عالم برزخ ہے اور اس کے بعد قیامت ہے عالم برزخ ایک دنیا ہے جو دنیا و آخرت کے درمیان میں واقع ہے_خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ان کے سامنے بزرخ ہے قیامت تک'' اور ایک جگہ فرماتا ہے ''گمان نہ کرو کہ وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوجاتے ہیں وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے روزی پاتے ہیں'' خداوند عالم نے ہمیں پیغمبر(ص) اسلام کے ذریعہ خبر دی ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے اور دنیا کو ترک کرتا ہے_ اور برزخ

۵۸

میں جاتا ہے تو عالم برزخ میں اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کتنے خدا کا عقیدہ رکھتے ہو_ کس کے فرمان کے مطیع تھے خدا کے یا غیر خدا کے، تیرا پیغمبر کون ہے، تیرا دن کیا ہے، تیرا رہبر و امام کون ہے، جس نے دنیا میں خداپرستی او ردینداری اور با ایمان زندگی گزاری ہوگی وہ آسانی سے جواب دے گا اور اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا اس مختصر سوال و جواب کے بعد برزخ میں آرام سے اور خوشی سے قیامت تک زندگی گزاریں گے اور عمدہ نعمتیں جو بہشتی نعمتوں کا نمونہ ہوں گی اسے دی جائیگی لیکن وہ لوگ جو خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کو قبول نہ کرتے تھے اور اس کے فرمان کے مطیع نہ تھے بے دین اور ظالم تھے برزخ میں بھی خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا اقرار نہیں کریں گے ان کا کفر اور ان کے بے دینی ظاہر ہوگی اس قسم کے لوگ برزخ میں سختی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے برزخ کا عذاب ان کے لئے جہنّم کے عذاب کا نمونہ ہوگا_ برزخ میں انسان کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی اور اس کا ایمان اور کفر واضح ہوجائے گا جو شخص دنیا میں خدا و قیامت کے دن پیغمبروں(ص) پر واقعاً ایمان رکھتا تھا اور نیکوکار تھا برزخ میں اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا_ وہ صحیح اور صاف صاف جواب دے گا لیکن جو شخص واقعی ایمان نہیں رکھتا تھا اور ظالم و بدکار تھا برزخ میں اس کا کفر ظاہر ہوجائے گا اور وہ صحیح جواب نہیں دے سکے گا_

گناہ گار انسان جہنم کے عذاب کا نمونہ برزخ میں دیکھے گا اور اس کے اعمال کی سزا یہیں سے شروع ہوجائے گی پیغمبر اسلام حضرت محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ گھر مین بداخلاقی کرتے ہیں برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ

۵۹

جو لوگ خچل خوری کرتے ہیں اور جو لوگ شراب سے پرہیز نہیں کرتے برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے_

برزخ میں سوال و جواب

برزخ میں سوال و جواب حقیقی ہوگا جو لوگ برزخ میں جائیں گے ان سے حقیقتاً سوال ہوگا وہ یقینا ان سوال کا جواب دیں گے لیکن برزخ کا سوال و جواب دنیا کے سوال و جواب کی طرح نہیں_ جو لوگ برزخ میں ہیں سوال کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں لیکن اس کان اور زبان سے نہیں جس کے ذریعہ دنیا میں سنتے اور جواب دیتے تھے بلکہ برزخی زبان اور کان سے، ضروری نہیں کو بولنا اور سنتا ہمیشہ انہی لبوں، زبان اور انہی کانوں سے ہو_ مثلاً آپ خواب میں اپنے دوست سے کلام کرتے ہیں اس کی باتیں سنتے ہیں اور اس سے گفتگو کرتے ہیں کیا اسی کان اور زبان سے؟ یقینا نہیں_ کبھی خواب میں کسی ایسی جگہ جاتے ہیں کہ جہاں کبھی نہ گئے تھے لیکن بیدار ہونے کے بعد وہاں جائیں تو سمجھ جائیں گے کہ خواب میں اس جگہ کو دیکھا تھا خواب میں کس جسم کے ساتھ ادھر ادھر جاتے ہیں خواب میں کس آنکھ سے دیکھتے ہیں اور کس کان سے سنتے ہیں کیا اسی کان اور آنکھ سے؟ کیا اسی جسم سے، یقینا نہیں کیوں کہ یہ جسم بستر پر پڑا آرام

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279