اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 50505
ڈاؤنلوڈ: 3870

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50505 / ڈاؤنلوڈ: 3870
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 اپنے دشمنوں پر بلند کرتے تھے آج خود اپنے سروں پر مار رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ انگریز عزاداری کے دستوں کو بڑی مقدار میں تلواریں اپنی طرف سے تقسیم کرتے تھے! اگر چہ یہ قمع زنی ہندوستان سے یہاں آئی تھی لیکن انھوں نے کربلا میں بھی اسے رائج کردیا اور رفتہ رفتہ یہ عزاداری کا جزو شمار ہونے لگی۔ لیکن الحمد للہ آج مسلمانوں کے افکار میں وسعت اور علماء کے فتوؤں کے ذریعہ قمع زنی کم ہونے لگی ہے۔ اور اسلامی جمہوریہ ایران میں ۹۷ فیصد ختم ہوگئی ہے اسی طرح عراق اور لبنان میں بھی اس میں بہت کمی آئی ہے۔ بہر حال یہ ناواقف اور سادہ لوح افراد کی روش ہے کہ امام حسین(ع) کے قضیہ کو علماء و مراجع دین کے فتوؤں سے بالاتر جانتے ہیں۔ اور اس اہم ترین قضیہ یعنی عزائے حسین(ع) کو اپنی مرضی کے مطابق من مانے ڈھنگ سے انجام دیتے ہیں اور ایسے نہیں کرتے جیسے ائمہ، اہل بیت(ع) اور علماء مراجع چاہتے اور بتاتے ہیں۔

۱۲۱

شیعہ اور نماز

اہل سنت جوانوں کا شیعوں پر ایک اعتراض یہ ہے کہ شیعہ اقامہ نماز کو نہ اہمیت دیتے ہیں نہ خشوع رکھتے ہیں۔ مثلا کسی کانفرنس یا کسی مناسبت کے وقت جب وہ شیعہ بھائیوں کے  ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بعض شیعہ نماز گزار نماز جماعت میں صف کی ترتیب اور ایک دوسرے کے بغل میں کھڑے ہونے کے خاص نظم پر توجہ نہیں دیتے۔

اکثر دیھا گیا ہے کہ ابھی صف اول کامل نہیں ہوئی لیکن امام جماعت کے پیچھے بغیر نظم و ترتیب کے دوسری صفیں بن جاتی ہیں اور کچھ شیعہ نماز گزار نماز جماعت کے وقت مسجد میں داخل یا اس سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں۔ نماز گزاروں کے درمیان راہ چلتے ہیں اور نماز گزار اور قبلہ کےدرمیان حائل ہوتے ہیں اس سے برادران اہل سنت کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔

حق یہ ہے کہ اہل سنت حضرات کی نماز جماعت شیعوں سے زیادہ منظم ہوتی ہے۔ اگر آپ ان کے ساتھ نماز ادا کریں تو آپ  کو اندازہ ہوگا امام جماعت نماز شروع کرنے سے پہلے لوگوں کو دیکھتا اور ان سے منظم کرنے کے لیے کہتا ہے( استووا رحمکم اللہ) نمازیوں سے کہتا ہے اپنے درمیان فاصلہ نہ رکھیں اور سب ایک دوسرے کے بغل میں کھڑے ہوں اور ایک صف بنائیں۔ آپ نمازیوں کو دیکھیں گے کہ ایک دوسرے سے ملکر کھڑے ہوتے ہیں اور خالی جگہ پر کرنے میں سبقت کرتے ہیں۔

یقینا یہ کام صحیح اور اچھا ہے لیکن افسوس اگر آپ اہل سنت حضرات کی

۱۲۲

مسجدوں کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہو نقش و نگار پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ان کے علماء بہت نصیحت کرتے ہیں۔ لیکن وہ طہارت و پاکیزگی اور نجاست سے دوری پر کوئی خاص توجہ اور اہمیت نہیں دیتے۔ یہ ان کے مذاہب خاص کر حنبلیوں میں جائز ہے۔ مثلا مردوں کا سونا پہننا، ان کے غیر دیندار افراد  میں اس کثرت سے نظر آتا ہے کہ میں سمجنھے لگا ان کے مذاہب نے جائز قرار دیا ہے اور سونا پہن کر نماز پڑھنا صحیح ہے۔

جبکہ تمام اہل سنت فرقوں نے مردوں کے لیے سونا قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں صفوں کو پر کرو تا کہ تمہارے درمیان شیطان داخل نہ ہو لیکن افسوس کہ یہ ہر اچھے اور برے کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں ممکن ہے کہ صف اول میں کوئی کافر حاکم ( جو بظاہر مسلمان ہے) اپنے ساتھیوں کے ساتھ صف اول میں موجود ہو جو کہ کسی کمی بیشی کے خود شیطان ہے!!

لیکن شیعہ مسجدوں کو خدا کا گھر سمجھتے ہیں اور اسے مسلمانوں کو مورچہ سمجھنے پیسہ سے بنی ہوتی ہیں نہ کہ حکومت کے پیسہ سے۔ اس کے علاوہ مسجد کی پاکیزگی وطہارت پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ایک لحظہ بھی اسے نجس نہیں رہنے دیتے۔ بہر حال مسجد کے احکام زیادہ ہیں جنھیں علماء برابر بیان کیا کرتے ہیں۔

فی الوقت ایران، لبنان، شام میں شیعہ مسجدوں کی حالت بہت بہتر اور منظم ہوگئی ہے۔

کیا ہم اس بات پر مامور نہیں ہیں کہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں؟ پھر کیوں صرف نظم کا خیال نہ رکھنے اور صفوں کے درمیان چلنے پر اس درجہ سختی سے کام لیتے ہیں۔ حتی کہ انہی سختیوں کی وجہ سے بعض اہل سنت نوجوان ہماری مسجدوں میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

۱۲۳

ہمارے لیے یہ بات کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ نوجوان مسجدوں میں آئیں اور وہاں تربیت پائیں۔ یہ نہ چاہیے کہ جیسے ہی کوئی ( نماز میں سامنے آئے) اور صفوں کے درمیان راہ چلے۔ چلانا شروع کردیں اور اسے مسجد سے باہر کردیں۔ بلکہ اس کے ساتھ اسلامی اخلاق سے پیش آنا چاہئے اور صحرائی اور جنگل رویہ کےبجائے اسلامی رویہ اختیار کرنا چاہئے۔

بہر حال اہل سنت حضرات اس بات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں کہ نماز کے وقت کوئی صفوں کے درمیان راہ نہ چلے اس لیے کہ وہ اپنی روایات کے مطابق معتقد ہیں کہ اگر نماز گزار کے سامنے کوئی راہ چلے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے۔

اور ان کی بعض روایات میں آیا ہے کہ اگر کوئی نماز گزار کے سامنے سے گذرے تو  وہ شیطان ہے اسے بھگانا چاہیے!!

دوسروں طرفف شیعہ ان مسائل پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، میں نے بہت سے علماء مراجع کے پیچھے مختلف ممالک میں نماز پڑھی ہے۔ لیکن کہیں پر نہیں دیکھا کہ امام جماعت لوگوں سے مخاطب ہو اور کہے صفوں کے درمیان راہ چلنے سے منع کرتے نہیں دیکھا۔

البتہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ مذہب اہل بیت(ع) میں نماز گزار کے سامنے راہ چلنے یا کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور عقلی نقلی لحاظ سے بھی یہی ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ مبطلات نماز شیعہ اور شیعہ اور اہل سنت کے یہاں واضح ہیں۔ اور ان میں کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ نمازی کے سامنے راہ چلنے سے اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔

بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ سے یوں بیان کیا گیا :

نماز قطع نہیں ہوتی مگر کتا، گدھا یا عورت کے نماز گزار اور قبلہ کے

۱۲۴

درمیان حائل ہوجانے سے حضرت عائشہ بہت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں : ہمیں کتوں اور گدھوں سے تشبیہ دیتے ہو خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ رسول خدا(ص) نماز پڑھ رہے تھے اور میں تخت پر آنحضرت(ص) اور قبلہ کے درمیان حائل تھی۔

(بخاری، ج ۱، ص۱۳۷، کتاب الصلوة باب من قال لا یقطع الصلوة شئی)

اب اہل سنت حضرات کے لیے مذکورہ روایت قانع کنندہ دلیل اور قوی برہان ہے کہ نماز اور قبلہ کے درمیان فاصلہ ڈالنے سے نماز باطل ہوتی۔ لیکن ہر جائز عمل پسندیدہ نہیں ہوتا؟ اگر مسلمان احتیاط کرے اور نمازیوں کی گردنوں پر پاؤں رکھنے سے پرہیز کرے اور اپنے قدموں سے ان کی اہانت  نہ کرے کیونکہ اس وقت وہ اپنے رب کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتے ہیں تو یہ ایک مستحب اور پسندیدہ عمل ہے اور اخلاقی تربیت کے لحاظ سے سبھی کے یہاں قابل قبول ہے اور اسلام بھی اسے صحیح سمجھتا ہے۔ در اصل اس عمل میں نمازیوں کا احترام پوشیدہ ہے۔بہر پل انسان کے لیے یہ امر تکلیف دہ ہے کہ وہ خشوع و خضوع میں مشغول ہو اور اپنے رب سے مناجات کررہا اور کوئی سامنے سے گزر کر اس حالت کو ختم کر دے۔

کیا رسول خدا(ص)  نے راستہ میں بیٹھنے سے منع نہیںکیا ہے؟ س یے کہ اس سے راستہ چلنے والوں کو مشکل ہوتی ہے اور خصوصا عورتوں کو اس وقت یقینا تکلیف ہوتی ہے جب راستہ کے دونوں طرف مرد بیٹھے ہوں۔

اس وقت جب کہ حق کی بات سامنے آگئی ہے اور ہم نے اپنی بحثوں میں اسی پر تکیہ ہے اور قرآن کریم نے بھی یہی درس دیا ہے کہ : خدا حق کہنے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔لہذا حق یہ ہے کہ اس مسئلہ میں شیعہ حضرات کو برادران اہل سنت سے استفادہ کرنا چاہیے وہ اس اخلاقی تربیت کو ان سے حاصل کریں

۱۲۵

 اور جب نماز گزار اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہو، یا رکوع و سجدہ کر رہا ہوتو اس کے لیے خاص احترام وتقدس کے قائل ہوں۔

ہم نے اس بات کو اہل تشیع کے بزرگوں اور رہبروں کے سامنے رکھا انھوں نے اس بابت کوتاہی کا اعتراف کیا۔ لیکن ان میں سے ایک نے ہم پر اعتراض کیا کہ یہ مسائل سطحی اور بے ارزش ہیں اور اصل تو نماز ہے۔

ہم نے کہا : اس درجہ بھی سطحی نہیں ہیں اس لیے کہ یہ ایک طرح کا نظم و ضبط ہے جس میں ہیبت ووقار پایا جاتا ہے اور یہ دوسروں کو احترام پر آمادہ کرتاہے۔ ہمارا دین نظم و ترتیب کا دین ہے جو ہرج و مرج  کوپسند نہیں کرتا اور نظم و ترتیب کو دوست رکھتا ہے۔ کیا خداوند عالم نے نہیں فرمایا:

اور (مسلمانو!) تم تمام نمازوں کی اور (خصوصا) بیچ والی نماز کی پابندی کرو اور خضوع و خشوع کے ساتھ خدا کے سامنے نماز کےلیے کھڑے ہوجاؤ۔( بقرہ/ ۲۳۸)

اور کیا یہ نہیں فرمایا ہے کہ:

خدا ان لوگوں سے الفت رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کے لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں۔(صف/ ۴)

شاید نماز جماعت کے متعلق تاریخ شیعہ کی مشکلات نے ان کے یہاں اس طرح کی لاپرواہی کو جنم دیا ہے۔ چونکہ ان پر بڑا سخت دور گزرا ہے اور ان کے لیے بہت مشکل تھا کہ اہل سنت کی امامت مین نماز اداکریں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل سنت جب نماز کے احکام کو بخوبی بجالانا چاہتے تو ان کی ایک عادت یہ بھی ہوگئی تھی کہ نماز کے دوران امام علی(ع) اور اہل بیت(ع) کو دشنام دیتے اور لعنت کرتے تھے۔ اور دوسری طرف شیعہ نماز جماعت علیحدہ طور پر قائم نہیں کرسکتے تھے اس لیے کہ فورا ہی ان پر رافضی ہونے کا الزام لگتا تھا اور قتل کردیئے جاتے لہذا اکثر و بیشتر تقیہ کی حالت میں اہل سنت حضرات کے ساتھ نماز پڑھتے اور فورا

۱۲۶

گھر واپس آکر بہت سی نمازوں کو اعادہ کرتے تھے۔

یہاں ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اہل بیت(ع) اور ان کے شیعوں کے مخالف اس وجہ سے ( اہل سنت والجماعت)  کے نام سے معروف ہوئے کہ اکثر مسلمان ان کی پیروی کرتے تھے۔ اور ان کے ساتھ ہی کی طرح نماز ادا کرتے تھے اور ان کی جماعت می حاضر ہوتے تھے۔ لیکن شیعہ اپنے اماموں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور ان کی تعداد اس وجہ کم ہوتی جیسے پورے سیاہ لباس میں ایک سفید نقطہ ہو۔ یوں وہ ایک الگ فرقہ شمار کئے جاتے تھے۔

ایک خاص اسلامی فرقہ کے عنوان سے معروف ہونے اور اہل بیت(ع) کی فقہ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے بعد، اہل بیت(ع) کی جانب سے وارد نصوص کی رو سے شیعہ صرف عادل، زاہد اور عالم امام جماعت کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے اور ہیں لیکن اس کے برعکس اہل سنت کے یہاں ہر مومن اور فاسق کے پیچھے نماز صحیح ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب شیعہ کسی مسجد میں جاتے ہیں جس کے امام کے بارے میں  انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا تو وہ مسجد کے ایک گوشہ میں فردی نماز پڑھتے ہیں اس لیے کہ امام کے بارے میں اطمینان نہیں ہوتا لیکن اہل سنت ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے  وہ ہر مومن و فاجر  کے پیچھے نماز کو جائز سمجھتے ہیں۔

کیا عبداللہ بن عمر نے یزید بن معاویہ ، حجاج بن یوسف ثقفی حتی مجدة خارجی کے پیچھے نماز نہیں پڑھی؟ جب کہ یہ سب کے سب علانیہ فسق و فساد کرنے والے تھے۔

اور اگر شیعہ اس موضوع میں افراط سے کام لیتے ہیں اور ہر کس وناکس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور ان دسیوں نماز گزاروں پر تکیہ نہیں کرتے جو نماز جماعت میں مشغول ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ وہ دین میں احتیاط سے کام لیتے

۱۲۷

ہیں اور اپنی نماز کو بطور احسن انجام دینا چاہتے ہیں تاکہ مورد رضائے الہی قرار پائے۔ گویا ایک شیعہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر نامعلوم امام کے پیچھے نماز پڑھی جائے تو شرعی لحاظ سے مقبول نہیں ہے۔ اور گویا خداوند عالم نے اسے دینی امور میں غور و جستجو کے لیے  مجبور کیا ہے۔

مذکورہ مسائل اور امور کے علاوہ جہاں تک مجھے یاد ہے جمہوری اسلامی ایران کے ذمہ داروں میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ میری اور میرے دوستوں کے آرزو تھی کہ حکومت من جملہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن ان  کے ہاتھوں میں آئیں، لیکن جب اسلامی انقلاب کو کامیابی نصیب ہوئی تو ہمیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

شیعہ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا انھیں زبردستی سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ لہذا ان کے فتوے بہت ہی احتیاط کے ساتھ ہوتے ہیں مثلا مقدمات نماز جسیے طہارت وضو اور غسل کو بہت اہمیت دیتے ہیں  یہاں تک کہ آپ کو کوئی مسجد ایسی نہ ملے گی جس میں طہارت، قرائت اور رکعات نماز کے متعلق وسواس رکھنے والے موجود نہ ہوں!

بہر حال ہمارا یہ خیال ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت امور میں میانہ روی کا نام ہے خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے:

اور اسی طرح ہم نے تم کو میانہ، و امت قرار دیا۔(بقرہ/ ۱۴۳)

سب سے اچھا کام امور میں میانہ روی ہے۔ نہ افراط ہو اور نہ تفریط ہو۔(سنن بیہقی، ج۳، ص۲۷۳)

پس اہل سنت جو سہل انگاری میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور ہر مومن اور فاجر کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں افراط ہے۔

اور دوسری طرف شیعوں کے سخت شرائط کہ وہ صرف اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز سمجھتے ہیں جو ہر جہت سے عادل ہو یہ بھی افراط ہے۔

۱۲۸

اہل بیت(ع) کا اسلام، فاسق و فاجر امام کو قبول نہین کرتا ۔ امام جماعت کے شرائط میں اتنا کافی سمجھتا ہے کہ وہ علی الاعلان فسق وفجور کا مرتکب نہ ہوتا ہو۔ امام کے عادل ہونے کےلیے اتنی شرط کافی ہے۔

آںحضرت(ص) ہمیشہ اپنے اصحاب سے سفارش کرتے تھے کہ سختی نہ کرو نرمی سےکام لو۔ لوگوں کو خوشخبری دو اور متنفر نہ کرو۔( کنزالعمال، ج۳، ص۳۵)

آنحضرت(ص) نے مزید فرمایا:

اپنے ساتھ سختی نہ برتو تاکہ خدا بھی تمہارے ساتھ سختی نہ کرے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔

پس دین اسلام نرمی اور آسانی کا دین ہے البتہ ہمارا مقصد احکام شرع میں اںحطاط و سہل انگاری ہرگز نہیں ہے۔ میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں۔ بلکہ مین خود ان مذاہب سے متنفر ہوں جو اپنی آراء و نظریات کے مطابق عمل کرتے ہیں اور الہی کو اپنی نفسانی خواہش کی بنیاد پر کم و زیادہ  کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان ساری سختیوں  اور شدت کو دینی اخلاص کے بجائے بشری اجتہادات کے نتیجہ میں دیکھیں تو یقینا متاثر ہوں گے۔آپ خود قرآن مجید میں خداوند عالم کا قول پڑھتے ہیں :

اور بلاشبہ خدا نے تمہارے لیے دین میں سختی قرار نہیں دی۔ ( حج/ ۷۸)

اور دوسری جگہ پڑھتے ہیں :

( خدا تمہارے لیے راحت و آسانی چاہتا ہے نہ کہ شدت و سختی۔ (بقرہ / ۱۸۵)

لہذا جبہم سختی برتنے والوں اور وسواسیوں کو دیکھتے ہیں تو دین ایک ایسا ڈراؤنا خواب نظر آتا ہے جو انسان کی طاقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں شیطان کا دل میں راہ پانا ممکن ہوجاتا ہے۔ اور شکوک و شبہات گھر کر لیتے ہیں۔ بے شک بدترین بیماری یہی ہے کہ مسلمان شخص وسوسہ کا شکار

۱۲۹

 ہوجائے۔ اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے کتنی، کب اور کیسے نماز پڑھی اور شیطان بھی اس کے ساتھ تماشا کرے اور اس کے دل کو وسوسہ سے بھر دے۔ اور ممکن ہے اس کا یہ وسوسہ عبادات سے معاملات تک پہنچ جائے اور اس کی زندگی نہ صرف اس کے یے قابل تحمل نہ ہو بلکہ اس سے وابستہ لوگوں کےلیے بھی باعث مشکل ہو جائے۔

خداوند عالم ہمیں اور آپ کو اس سے امان میں رکھے۔

ہمارے فقہاء بھی ایسے شخص کو مریض سمجھتے ہیں اور شدت کے ساتھ اسے وسوسہ سے روکتے ہیں۔

۱۳۰

شیعہ اور نماز جمعہ

اہل سنت حضرات جن اہم باتوں کے متعلق شیعوں پر تنقید کرتے یں ان میں سے ایک نماز جمعہ کو اہمیت نہ دینا ہے، البتہ بعض  افراط سے کام لیتے ہوئے نماز جمعہ کو اہمیت نہ دینے پر شیعوں کو کافر سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل میں رسول خدا(ص) کی حدیث نقل کرتے ہیں: آںحضرت(ص) نے فرمایا:

جو بھی تین ہفتہ نماز جمعہ میں شرکت نہ کرے وہ اسلام سے بیزار ہے۔

یا یہ کہ : حضرت سے سوال کیا گیا جو نماز کو ترک کرتا ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟ آںحضرت(ص)  نے فرمایا: وہ دوزخ میں ہے۔(الموطا، ج ۱، ص۱۱۱)

لیکن شیعوں کے درمیان اختلاف ہے کہ حضرت امام مہدی(عج) کی غیبت کے زمانے میں نماز جمعہ واجب ہے یا نہیں؟ فقہاء دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں، ایک  گروہ ہر زمانے میں نماز جمعہ کے وجوب کا قائل ہے تو دوسرا معتقد ہےکہ نماز جمعہ صرف اس صورت واجب ہے جب اس کے شرائط فراہم ہوں اور ان شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ عادل حاکم نماز جمعہ برقرار کرے۔

یہاں پر یہ کہنا ضروری ہوگا کہ جناب خالصی حرم امام موسی کاظم(ع) (کاظمین بغداد) میں نماز جمعہ پڑھاتے تھے۔ اور مجھے شیعہ ہونے کے پہلے سے ہی اچھے لگتے تھے چنانچہ میں کبھی کبھی نجف یا کربلا سے نماز جمعہ میں شرکت کی غرض سے بغداد جاتا تھا اور جناب خالصی کی شجاعت پر تعجب کرتا تھا کہ آپ نماز جمعہ کو واجب نہ جاننے والوں کی تنقید کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے اور نہایت ہی اچھے ڈھنگ سے نماز ادا کرتے تھے اور وہ زمانہ 1968ء کا تھا میں دیکھتا تھا

۱۳۱

کہ لوگ کثرت سے آپ کے ساتھ نماز جمعہ میں سرکت کرتے تھے۔

اور دوسری طرف ان لوگوں پر تعجب ہوتا تھا جو آپ کے نماز جمعہ بر قرار کرنے پر تنقید کرتے تھے۔ میں خود سے کہتا تھا کہ یہ کس طرح ایک مجتہد پر تنقید کرتے ہیں اور صرف اس بات پر کہ آپ نماز جمعہ قائم کرتے ہیں، جب کہ خداوند عالم نے قرآن میں فرماتا ہے:

«يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا نُودِىَ لِلصَّلَوةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْاْ إِلىَ‏ ذِكْرِ اللَّهِ »( سورہ جمعہ آیت ۹)

اے مومنو جس وقت نماز جمعہ کا اعلان ہو تیزی کے ساتھ یاد خدا کے لیے دوڑ پڑو۔۔۔۔

میں ان دونوں اجتہاد ( وجوب نماز جمعہ اور عدم وجوب نماز جمعہ) کے درمیان سرگرداں تھا، یہاں تک کہ ایرانی اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور اسلامی جمہور قائم ہوئی اور وہاں پہلے ہی روز سے نماز جمعہ قائم ہوگئی، اسلامی جمہوریہ نے مسلمانوں کے درمیان وحدت کو جامہ عمل پہنانے کےلیے پوری کوشش کی اور یہی وہ وجہ تھی جہاں میں نے شیخ خالصی کی قدر کو سمجھا اور یقین ہوگیا کہ آپ مخلص فرد ہیں اور امید رکھتا ہوں کہ ایک روز آپ سے ملوں اور آپ کاہم نشین ہوں۔

بہر حال شیعہ ویسے ہی اب بھی نماز جمعہ پڑھنے اور ترک کرنے والوں میں منقسم ہیں اور امام مہدی(عج) کے ظہور کے منتظر ہیں۔

اور میری خواہش و قلبی آرزو ہے کہ نماز جمعہ شیعوں کے ہر ریہات اور شہروں میں قائم ہوجائے اس لیے کہ اس میں بہت زیادہ اجرو ثواب ہے۔ جس کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا، ہم نے جن سرزمینوں کے زیارت کی ہے اپنی اکثر تقریروں میں وہاں کے شیعوں کے درمیان کہا ہے کہ وہ ضرور اسلامی جمہوریہ ایران اور عظیم رہبر امام خمینی(رح) کی پیروی کریں اور مسلمانوں کی تالیف قلوب اور دنیا کے شیعہ اور سنی مسلمانوں کےدرمیان الفت و محبت برقرار کرنے کے لیے نماز

۱۳۲

جمعہ قائم کریں، اور اس کام کو ضرور انجام دیں اور اس خدا سےدعا کرتا ہوں کہ مجھے اپنے ذکر وشکر کی قوت بخشے اور بطور احسن اپنی عبادت و پرستش کی توفیق عنایت فرمائے۔ اور ہمارے دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کرے تاکہ اس کی نعمت کے زیر سایہ ہم ایک دوسرے کے بھائی ہوجائیں۔اور کیوں نہ ہو وہ سننے والا اور دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔

۱۳۳

مسجدوں میں سگریٹ پینا

شیعہ حضرات پر اہل سنت کا ایک دوسرا اعتراض مسجد میں سگریٹ پینا ہے، وہ کہتے ہیں یہ برا عمل ہے اور شیطان کے اعمال میں سے ہے۔

اور حق تو یہ ہے کہ شیعوں کی مسجد میں معمولا یہ عمل نظر بھی آتا ہے۔ مجھے یاد ہے پہلی مرتبہ جب مین نجف اشرف میں مشرف ہوا تھا تو یہ صورت حال ںظر آئی جسے دیکھ کر مجھے یہ تعجب ہوا۔ اسی وقت میں نے کچھ علماء کے ساتھ بحث کی لیکن ان کے جواب سے قانع نہ ہوا۔

بعض نے کہا سگریٹ پینا حرام نہیں ہے۔ حتی کہ مکروہ بھی نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ اس کے اوپر آںحضرت(ص) اور ائمہ اطہار(ع) کی جانب سے کوئی نص موجود نہیں ہے اور رہا قیاس تو وہ ہمارے یہاں باطل ہے، اور کچھ نے کہا ہم مسجد میں سگریٹ نہیں پیتے بلکہ صرف امام بارگاہوں اور نشست گاہوں میں پیتے ہیں اور امام بارگاہوں اور مسجد میں فرق ہے۔

پہلی توجیہ کے بارے میں ہم ان سے کہیں گے کہ یہ صحیح نہیں کہ جس کی حرمت سے متعلق نص موجود نہ ہو وہ حلال اور جائز ہے اس لیے کہ بعض نصوص عام ہیں اور تمام خبائث و محرمات کو اپنے اندر شامل کر لیتی ہیں، جیسے خداوند عالم کا ارشاد :

اے پیغمبر کہہ دو: ہمارے پروردگار نے ہی طرح کے رے عاعمال چاہے ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کو حرام قرار دیا ہے۔ (اعراف، آیت ۳۳)

یا رسول خدا (ص)کا فرمان:

۱۳۴

مست کرنے والی تمام چیزیں حرام ہیں۔ ( صحیح بخاری، ج۵، ص۲۰۵)

یا یہ:

ضرر اٹھانا اور ضرر پہنچانا اسلام میں نہیں ہے۔ ( سنن ابن ماجہ، ج۲، ص۴۸)

لیکن بعض نصوص خاص ہیں اور کسی ایک امر کی حرمت سے متعلق ہیں جیسے خدا کا یہ ارشاد :

زنا کے نزدیک نہ ہو۔(سورہ اسراء، آیت، ۲۳)

قتل نہ کرو۔ ( سورہ اسراء، آیت، ۳۳)

سود نہ کھاؤ۔( سورہ آل عمران، آیت ۳۰)

یا آںحضرت(ص) کا فرمان:

جو بھی فریب دے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (صحیح مسلم، ج۱، ص۹۹)

جو بھی ہم پر جھوٹ باندھے اسے چاہئے کہ اپنی جگہ جہنم میں تلاش کرے۔( صحیح بخاری، ج۱، ص۳۸)

لہذا اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ سگریٹ ائمہ اطہار(ع) اور آںحضرت(ص) کے زمانے میں نہیں تھا اس لیے اس سے متعلق خدا اور اس کے رسول(ص) و ائمہ (ع) کی جانب سے کوئی صریح حکم نہیں ملتا، جیسے بہت سے محرمات اب بھی ہیں اور ان کو ںصوص عام اپنے اندر شامل کئے ہوئے ہیں جیسے لاٹری، یا دوسرے کھیل جو بغیر زحمت کے، پیسے سے کھیلے جاتے ہیں یا اس قسم کے دیگر مسائل۔

اسراف نہ کرو اس لیے کہاسرف کرنے ولے شیاین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا منکر ہے۔( اسراء ، آیت 26)

۱۳۵

اور رسول خدا(ص)  نے فرمایا ہے:

اسراف یہ ہے کہ ایک درہم اس چیز میں صرف کرو جس میں ذرا بھی تمہارے لیے فائدہ نہ ہو۔

اس سے بڑھ کر اور کیا نقصان ہوگا کہ انسان اپنے مال کو ان نقصان دہ چیزوں میں صرف کرے جو  اس کی صحت کےلیے خطرناک ہوں اور اس کی زندگی کو ہلاکت میں ڈال دیں؟

حتی ( لاضرر ولا ضرار) والا قاعدہ بھی سگریٹ نوشی کو اپنے اندر شامل کئے ہوئے ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر اور کیا ضرر ہوگا کہ موجودہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ ہر سگریٹ پینے والے کے لیے کینسر اور تنگی نفس کا خطرہ لاحق ہے۔ جو نکوٹین سگریٹ میں موجود ہے وہ منشیات کا ایک جزو ہے۔ جس سے سگریٹ نوش کرنے والے کو رہائی ممکن نہیں مگر یہ کہ اس کا مستقل علاج کیا جائے۔

اسی طرح ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین سماجیات  نے سگریٹ نوشی کے خطرہ کو محسوس کرلیا ہے۔ لہذا سگریٹ نوشی کو عام جگہوں، حکومتی مراکز حتی کہ ہوائی جہاز، ٹرین اور بسوں میں منع کردیا ہے۔

اور ادھر انگینڈ اور فرانس نے میٹرو میں بھی سگریٹ نوشی کو ممنوع کر دیا ہے س لیے کہ ماڈرن میڈیکل سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ سگریٹ نوشی سے صرف اسی شخص کو خطرہ لاحق نہیں ہے۔ بلکہ اس کے اطراف کو بھی بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔ لہذا ذمہ داروں نے اسے عمومی مراکز میں بالکل ممنوع قرار دیدیا ہے اور سگریٹ پینے والوں کو مجبور کر دیا ہے کہ دھواں نکلنے کے لیے لوگوں سے دور ہوجائیں، اور یہ صرف دوسروں کے احترام کے لیے نہیں بلکہ ان کی سلامتی و حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے۔

اور جو رسول خدا(ص) نے فرمایا : ( لاضرر ولا ضرار ) نہ خود نقصان اٹھاؤ اور نہ دوسروں کو پہنچاؤ، ( آںحضرت(ص) کا یہ فرمان) صرف سگریٹ پینے والوں کے

۱۳۶

 اطرافیوں کو شامل نہیں کرتا بلکہ خود اس کے لیے سگریٹ نوشی کو حرام قرار دیتا ہے اس لیے کہ حضور(ص) کے اس فرمان کے مطابق مسلمان شخص پر جس طرح دوسروں کو نقصان پہنچانا حرام ہے ویسے ہی خود کو بھی نقصان پہنچانا حرام ہے۔

آپ نہیں دیکھتے کہ اسلام نے خود کشی کو حرام قرار دیا ہے اور اس کو گناہ کبیرہ شمار کیا ہے، پس انسنا خود اپنے بدن کے متعلق بھی آزاد نہیں ہے کہ جو چاہے کرے اور اس لیے کہ انسان کا بدن خدا کی ملکیت ہے نہ کہ خود اس کی ملکیت لہذا وہ کام نہیں کرنا چاہئے جو خدا کی ناراضی کا باعث ہو۔

اگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک نے ڈرائیونگ کے وقت شرابنوشی کو ممنوع قرار دیا ہے تو اس کا عامل مہلک اور خطرناک ایکسیڈنٹ ہے۔ اور اسی طرح سگریٹ نوشی کو جو عمومی مراکز میں ممنوع قرار دیا ہے تو اس کی وجہ سگریٹ پینے والوں کے ذریعہ لوگوں کی تکلیف ہے، لیکن یہ صرف قاعدہ (لاضرار) دوسروں کو نقصان نہ پہنچاؤ پر عمل کرتے ہیں۔

لیکن قاعدہ (لاضرر) خود بھی نقصان نہ اٹھاؤ کو کنارے چھوڑ دیتے ہیں اور اس خیال سےکہ انسان اپنے جسم کے متعلق آزاد ہے، صرف اس شرط کے ساتھ کہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے۔ اپنی نسبت جو چاہے کرسکتا ہے  لیکن اسلام انسان کی مطلق آزادی کا اعتراف نہیں کرتا اور انسان کو اپنے آپ کو نقصان  پہنچانے کے لیے آزاد نہیں چھوڑتا۔

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

اپنے ہاتھوں خود کو ہالکت میں نہ ڈالو۔( بقرہ، 195)

رسول خدا(ص) فرماتے ہیں:

(لا ضرر ولاضرار) نہ خود نقصان اٹھاؤ نہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ)

بہر حال اگر قبول کریں کہ مسلمان سگریٹ پینے کا حق رکھتے ہیں اس لیے کہ

۱۳۷

اس کے متعلق کوئی نص موجود نہیں ہے تو قطعا اس چیز کی اجازت نہ دینی چاہئے کہ مسجد، نماز و عبادت سے مخصوص مراکز اور مسلمانوں کے مجمع کے درمیان سگریٹ نوشی کریں بلکہ ان کو چاہئے کہ دوسروں کے احترام کی رعایت کریں۔

لیکن ان کا دوسرا جواب ہے جو کہتے ہیں کہ مسجد میں سگریٹ نوشی ممنوع ہے لیکن امام بارگاہوں میں کوئی حرج نہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو نہیں جانتے بیان کرتا ہوں ، امام بارگاہیں وہ مراکز ہیں جنہیں شیعوں نے بناکر امام حسین(ع) کے لیے وقف کر دیا ہے۔ ان مراکز میں ائمہ اطہار(ع) کی ولادت و شہادت، عاشورا، غدیر و غیرہ کی مناسبت سے مجلس و ماتم اور جشن مناتے ہیں عموما یہ امام بارگاہیں قیمتی قالین سے مزین ہوتے ہیں ان میں محراب نماز بھی ہوتی ہے۔ ( اگر چہ مسجد نہیں ہے) پس اگر کوئی شیعہ کہے کہ امام بارگاہ میں سگریٹ پینا جائز ہے۔ چونکہ مسجد نہیں تو اولا: اس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مسجد میں سگریٹ نوشی درست نہیں ہے۔

ثانیا :امام بارگاہیں چاہے اس میں مجلس عزا ہو یا محفل مسرت، وہ نشستیں ہیں جو خدا کے نام اور رسول(ص) و آل رسول(ص) پر صلوات سے پر ہیں، لہذا کیا شائستہ ہے کہ جس جگہ خدا اور رسول(ص) و ائمہ اطہار(ع) کا تذکرہ ہو اور فرشتے اپنے پروں کا سایہ کریں اور مومنین کے لیے استغفار کریں اس جگہ کو سگریٹ کی کثیف اور گندی بو ( جو ملائکہ کی کیا بات خود انسان کےلیے مضر ہے) سے آلودہ کیاجائے؟

میں تو تعجب کرتا ہوں کہ بعض شیعہ مراجع شطرنج بازی کو حرام قرار دیتے ہیں لیکن سگریٹ نوشی کو جائز سمجھتے ہیں، اور دونوں کے درمیان کس درجہ فرق ہے میں اس حالت سے سخت متاثر تھا، اور اکثر اس مطلب کو بعض علماء سے کہتا بھی تھا لیکن ان میں اس بات کی جرات نہیں دیکھتا تھا کہ وہ اس کو منع یا حرام کرسکیں، ( نہ شیعوں کے درمیان اور نہ اہل سنت کے درمیان)

۱۳۸

مجھے یاد ہے کہ مرحوم شہید صدر کبھی سگریٹ نہیں پیتے تھے، اور جس وقت میں نے سگریٹ نوشی کے متعلق سوال یا تو انھوں نے فرمایا:” میں خود سگریٹ نہیں پیتا اور ہر مسلمان کو نصیحت کرتا ہوں کہ سگریٹ نہ پیئے۔“ لیکن خود انھوں بھی صراحت کے ساتھ حرام نہ کیا، بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرجع نے سگریٹ کو ابتدا سے پینے والوں پر حرام قرار دیا ہے۔ لیکن جو پیتے رہتے ہیں ان کے لیے مکروہ جانا ہے، البتہ بعض اس کو حرام قرار دیتے ہیں لیکن اس کی تصریح اس خوف سے نہیں کرتے کہ عوام ان پر قیاس کا اتہام لگائیں گے۔

ہم کہتے ہیں کہ یہ مراجع کی ذمہ داری ہے کہ اس کے متعلق صراحت سے اپنی رائے بیان کریں اور کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں، اس کو حرام کرنا ان کی ذمہ داری ہے چاہے اجتہاد کے ذریعہ، چونکہ اس بات سے قطع نظر کہ یہ ایک واضح اسراف ہے خود نقصان اٹھانا اور دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے۔

اور بالفرض اگر دھواں نگلنے کے متعلق واضح نص موجود نہ ہو اور خداوند عالم کا قول«لا تبذر تبذيرا» بھی اسے اپنے اندر شامل نہ کرے تو بھی علما و مراجع کے لیے مواقع فراہم ہیں کہ اس میں اجتہاد کریں اور اس کے ذریعہ انسان کے لیے کثرت سے نقصان وہلاکت کے باعث اس کو حرام قرار دیں۔

لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ بعض مشکلات اور عوام کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے ساکت ہوجائیں، یا سگریٹ نوشی کرنے والوں کے رد عمل سے گھبراتے ہوں اور اس کی کراہت کا بھی اعلان نہ کریں، ان توجیہ کرنے والوں میں سے ایک مجھے قائل کرنا چاہتا تھا کہ سگریٹ بڑے فواید کا حامل ہے۔ خدا کی قسم یہ بڑا خطرناک کام ہے اور بڑے ہی وحشت ناک گوشے رکھتا ہے۔ وہ شخص بعض جوانوں کو سگریٹ نوشی کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی بھی کررہا تھا۔

۱۳۹

اور یہ اس وقت ہے جب عالم کفر میں چیئری ٹیبل فاونڈیشن(charitable Foundations) اور اجتماعی ادارے سگریٹ اور سگریٹ پینے والوں کے برخلاف تبلیغات پر کثیر رقوم صرف کررہے ہیں، اور سگریٹ کے فوائد پر پروپگنڈے کو ممنوع کرتےہوئے اس کی کمپنیوں پر فریضہ عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنے سگریٹ کے اوپر لفظ ”خود کشی“ ضرور لکھیں، تاکہ لوگوں کو اس سے تنفر کرسکیں۔

لیکن افسوس کہ اسلامی و مذہبی سماج میں سگریٹ بڑی قبولیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے حتی کہ عورتیں بھی محافل میں سگریٹ کا پیکٹ لے جانے سے پرہیز نہیں کرتیں۔

یقینا بچہ جب آنکھ کھولے اور اپنے ماں باپ کے منہ میں سکگریٹ دیکھے تو مرجع دینی کی تقلید کرنے سے پہلے ان کی تقلید کرے گا، اور اگر سگریٹ کی مستی کے ساتھ بڑا ہوا اورسگریٹ کا عادی بن گیا تو بہت مشکل ہے کہ اس کو بڑے ہونے کے بعد سگریٹ پینے سے روکا جاسکے، اور خصوصا اس وقت جب اس نے ابا جان کو مسجدوں اور عبادت گاہوں میں سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دیکھا ہو۔

مسلمانوں کو نہیں معلوم کہ اس سگریٹ کی وجہ سے وہ کس سنگین مالی اور اقتصادی نقصان کے متحمل ہوتے ہیں۔ اگر معلوم ہوتا تو قطعا متاثر ہوتے، صرف ایک معمولی حساب کے ذریعہ اس بڑے خطرہ سے پردہ اٹھایا جاسکتا ہے، اس سگریٹ پینے والا حساب کریں تو (۲۰۰) ملین سگریٹ پینے والے ہوں گے اور اگر فرض کریں کہ ہر روز ایک ڈالر سگریٹ پر صرف ہوتا ہے( جبکہ یہ ایک پیکٹ سگریٹ کی سب سے کم قیمت ہے) اس حساب میں وہ لوگ جو روزانہ دو یا تین پیکٹ سگریٹ پی جاتے ہیں شامل نہیں ہیں۔

۱۴۰