اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 50493
ڈاؤنلوڈ: 3868

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50493 / ڈاؤنلوڈ: 3868
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

رہے وہ لوگ جو قیمتی سگریٹ پیتے ہیں ان کو اس حساب میں شامل نہیں کیا گیا ہے تو نتیجہ اس طرح ہوگا (۲۰۰) ملین سگریٹ کو ایک ڈالر میں ضرب دیں۔ روزانہ (۲۰۰) ملین ڈالر ہوگا، اور اگر اس روزانہ کی شرح (۳66) روز یعنی ایک سال کی مدت سے ضرب دیں تو (۷۳۰۰۰) ارب ڈالر ہوں گے، یعنی مسلمان سب سے کم حساب کرنے کی صورت میں (۷۳۰۰۰) ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں، اور اس سے مہلک بیماریاں خریدتے ہیں۔

اگر اس کے ساتھ سگریٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری جیسی کینسر، دمہ، سانس پھولنا، برون کائیٹسBronchitis (حلق کی سوجنا) مسوڑھے اور دانت کی خرابی وغیرہ کے علاج پر خرچ ہونے والی کثیر رقم کو حساب کیا جائے تو بلاشبہ ایک ایسی شرح حاصل ہوگی جس کو عقل باور نہیں کرسکتیں، اگر مسلمان دس سال اس مال کو جمع کریں تو اس سرزمین پر ایک جنت تعمیر کرسکتے ہیں۔ اور ایک بھی مسلمان فقیر نظر نہ آئے گا۔

اور پہھر انھیں کوئی ضرورت نہ ہوگی کہ وہ اپنا ہاتھ کفار کے سامنے پھیلائیں، اور یقینا فقر و فاقہ، بیماری، و پسماندگی کاخاتمہ کرسکتے ہیں، یہ پیش رفت کے لیے جدید ٹیکنالوجی خرید سکتے ہیں اور دوسروں پر سبقت حاصل کرسکتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ جو چیز سوائے نقصان کے کوئی فائدہ نہیں رکھتی گرچہ اس کی حرمت پر نص موجود نہ ہو پھر بھی خود حرام قرار دیں اس لیے کہ یہ دین پاکی کا حکم دیتا ہے اور انھیں پلیدی سے روکتا ہے، خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

ان پر پاک و پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیا ہے نجس اور پلید چیزوں کو حرام کیا ہے۔(اعراف/ ۱۵۷)

اگر رسول خدا(ص) اپنے اصحاب کو جمعہ کے دن لہسن کھانے سے روکتے تھے تاکہ اس کی مہک سے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچے جب کہ لہسن بہت سے

۱۴۱

طبی فائدے ہیں ، اور لہسن کی بو کو سگریٹ کے ساتھ قیاس نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ لہسن کھانے والے کے منہ سے کوئی ایسا دھواں نہیں نکلتا تھا جو فضا کو آلودہ کرے جیسا کہ سگریٹ پینے میں ہوتا ہے مگر رسول خدا(ص)  نے قاعدہ ( لا ضرر) دوسروں کو نقصان نہ پہنچاؤ کے تحت اس سے منع فرمایا تو کیا رسول(ص) کی نہی میں عقلمندوں  کے لیے عبرت موجود نہیں ہے؟

اس کے علاوہ جو بھی لہسن کھاتا  ہے اسے کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے،لیکن جمعہ کےدن کھانا مکروہ ہے اس لیے کہ اس سے دوسروں کو تکلیف ہوگی، اور پھر لہسن کھانے میں مد مقابل کو صرف اس کی بو سے تکلیف ہوگی اور کسی قسم کے مرض کا خطرہ نہ ہوگا لیکن سگریٹ کےساتھ ایسا نہیں ہے۔ یہ دوسروں کو مریض کرکے قطعا نقصان پہنچاتا ہے۔

اور اگر مجتہدین تاش اور شطرنج کھیلنے کو حرام قرار دیتےہیں چاہے اس میں ہار جیت کا معلاملہ نہ ہو، غنا، موسیقی، اور دیگر لہو لعب کے افعال کو حرام قرار دیتے ہیں کہ جس کے متعلق شاید نص صریح موجود نہ ہو لیکن کیوں اس امر کو حرام قرار نہیں دیتے جو مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے اور ان کو بیمار کرتا ہے اور اگر شیعہ سگریٹ پینے پر اصرار کریں تو کم از کم جو سگریٹ نہیں پیتے ہیں ان کا احترام کریں۔

خصوصا عبادت گاہوں، مساجد اور نماز خانوں کا احترام و خیال کریں جیسے کہ اہل سنت کرتے ہیں، آپ خود اس کا امتحان کرسکتے ہیں اگر آپ کے ہاتھ میں سگریٹ ہو اور کسی اہل سنت کی مسجد میں داخل ہوں تو فورا منع کریں گے اور آپ کو سگریٹ پینے سے روکیں گے اور شاید آپ کو اذیت بھی پہنچائیں۔

میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سگریٹ نوشی بہت بری چیز ہے اور حتما خدا و رسول(ص) اس سے متنفر ہیں، چونکہ عقل و فطرت اس سے متنفر ہے اور

۱۴۲

شاید یہ اس فبات کا باعث ہو کہ بعض اہل سنت جب شیعی مراکز میں داخل ہوں تو اس سےمتنفر ہوجائیں، چونکہ اس برے ظاہر کے علاوہ شیعہ کےمتعلق نہ انھوں نے کچھ جانا ہے اور نہ سمجھا ہے۔ لہذا اس بات کو پیش نظر رکتھے ہوئے کہتا ہوں کہ امام جعفر صادق(ع) کا وہ قول کس درجہ دل پذیر ہے کہ اپنے شیعوں سے فرماتے ہیں:

اپنے اعمال کے ذریعہ لوگوں کو ہماری طرف دعوت دو نہ کہ گفتار کہ ذریعہ، ہمارے لیے زینت کا سبب بنو نہ کہ باعث نفرت۔ ( بحار الانوار، ج ۸۵، ص۱۳ 6 )

اور ممکن ہے کہ کچھ افعال دیکھنے والے کو ایسا متنفر کردیں کہ اس کے بعد وہ کوئی بات بھی سننے کو تیار نہ ہو، بہر حال اس کے متعلق جو کچھ بھی شیعوں کو کہا جائے وہ اہل سنت پر بھی صادق آتا ہے۔

اس بحث کے خاتمہ پر عرض کرتا ہوں کہ اصلاح کرنی چاہئے اور حق کی طرف بازگشت فضیلت ہے اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اگر غلط  کام پر صدیاں گزر جائیں تو اس کی اصلاح نہیں کی جاسکتی ، البتہ اس کے لیے کوشش ضروری ہے اور جذبہ ہونا چاہئے تاکہ خداوند عالم کی مدد سے اس مہلک بیماری سے ہمیں نجات حاصل ہو۔ چاہے طولانی مدت ہی درکار ہو۔

۱۴۳

ختم بحث

یہ ہیں امامیہ شیعہ مذہب پر ہونے والے اہم اعتراض اور تنقیدیں۔ لہذا بہتر ہوگا کہ ہر شخص جو حقیقت کا متلاشی ہے اس پر تحقیق کرے اور کسی بھی ملامت کرنے والے سے نہ ڈرے اور حق کہے۔ چاہے وہ بہت ہی تلخ اور اس کے حق میں نقصان دہ کیوں نہ ہو۔

آج کے روشن فکر و سمجھدار جوان ان زہریلے اور جھوٹے پروپگنڈوں پر یقین نہیں رکھتے جنہیں پروپگنڈہ کرنے والے ادارے تشیع کے خلاف ہر طرف پھیلاتے رہتے ہیں اور شیعوں کو شدت پسند، دہشت گرد گروہ یا خدا کے دیوانے کہتے ہیں۔

روشن خیال افراد ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے لیکن ممکن ہے کہ بعض مسائل، جو شیعہ محافل میں پیش آتے رہتے ہیں ان سے متاثر ہوں یا بعض مطالب شیعہ کتابوں میں پڑھیں اور حیرت زدہ ہوں اور اس کے لیے انھیں تفسیر و توضیح کی ضرورت ہو۔

بعض اشتباہات کچھ شیعہ عوام کے ذریعہ عمل میں آئے کہ جو نہ دین میں سے تھے اور نہ ان ضرورتوں میں سے جو محرمات کو جائز کردیتی ہیں لیکن ان کے ذریعہ ایسا نقصان پہنچا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑگیا۔ ان کے متعلق ہم نے ان کی جگہ پر توضیح کی ہے۔

گذشتہ بحثوں میں محکم و شایستہ استدلال جسے ہم نے اپنی کتابوں میں پیش کیا اور مسلمانوں کے درمیان نشر کیا اس میں ثابت کیا کہ امامیہ شیعہ تمام

۱۴۴

۱۴۵

۱۴۶

۱۴۷

۱۴۸

۱۴۹

۱۵۰

۱۵۱

۱۵۲

۱۵۳

۱۵۴

۱۵۵

۱۵۶

۱۵۷

(قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌاللَّهُ الصَّمَدُلَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُولَدْوَ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدُ)

                                                                        (سورہ اخلاص/۱ـ۴)

(اے پیغمبر کہہ دیجئے اللہ ایک ہے وہ سب سے بے نیاز ہے ( اور سبھی اس کے نیاز مند ہیں) نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ ہی اسے کسی نے جنا اور نہ اس کا کوئی ہم پلہ ہے۔)

اس حقیقت کی طرف رسول(ص) خدا اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

خدا کی قسم میں ہرگز انہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے۔ بلکہ اس بات پر خائف ہوں کہ دنیا ( خلافت) کے لیے جھگڑا کرو۔

اور یہ امت محمد(ص) کے مشرک نہ ہونے پر واضح و روشن دلیل ہے اسی طرح اس بات پر بھی دلیل ہے کہ امت محمد(ص) آپ کے بعد دنیا اور قدرت و اقتدار طلبی کے متعلق نزاع کرے گی اور اپنے ماضی کی طرف پلٹ جائے گی اور وہ حکم دے گی جس کو خدا نے نازل نہیں کیا اور یہ وہی چیز ہے جو ظلم، تباہی اور حتی کہ کفر کا باعث ہوگی لیکن ہرگز شرک کا باعث نہ ہوگی اور خداوند عالم نے بھی اس حقیقت کا اعلان قرآن کریم میں کیا ہے:

جو اس چیز کی بنیاد پر حکم نہ کرے جسے خدا نے نازل کیا ہے تو وہ کافر ہے۔(مائدہ/ ۴۴)

جو بھی اس چیز کی بنیاد پر حکم نہ کرے جسے خدا نے نازل کیا ہے تو ایسے لوگ ستمگر ہیں۔(مائدہ / ۴۵)

جو بھی اس چیز کی بنیاد پر حکم نہ کرے جسے خدا نے نازل فرمایا ہے تو ایسے لوگ فاسق و بدکار ہیں۔ (مائدہ / ۴۷)

اور یہ وہی مصیبت ہے جو رسول خدا(ص) کے بعد سے آج تک امت اسلامی کے درمیان موجود ہے، اس لیے کہ وہ قوانین و دستور جو خود بشر کے ہاتھوں بنے تھے اور ذاتی اجتہاد سے وضع کئے گئے تھے اس کو شریعت میں داخل کردیا گیا اور

۱۵۸

 اس طرح احکام خدا میں تبدیلی کردی گئیں لیکن اس کی باوجود خدا ان کو مشرک نہیں کہا بلکہ ظالم، فاسق اور کافر سمجھتا ہے۔

یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اسلامی اور عرب ممالک کے روساء اور بادشاہ کبھی وہ حکم دیتے ہیں جو کتاب خدا کے برخلاف ہوتا ہے۔ لیکن ہم انھیں ہرگز مشرک نہیں کہتے۔ اس لیے کہ وہ خدا کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اگر یہود نصاری خدا کے لیے فرزند کے قائل نہ ہوں تو انھیں موحد سمجھیں گے اور انھیں کافر نہیں کہیں گے۔

خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

اور جب خود یہودیوں کے پاس توریت موجود ہے اور اس میں حکم خدا موجود ہے تو پھر تمہارے پاس فیصلے کرانے کیوں آتے ہیں اور پھر اس کے بعد تمہارے فیصلہ سے پھر جاتے ہیں یہ لوگ با ایمان نہیں ہیں۔ ( مائدہ/ ۴۳)

جو کچھ خدانے نازل کیا ہے اس کے مطابق اہل انجیل کو حکم کرنا چاہئے اور جو بھی خدا کی نازل کردہ کتاب کے مطابق حکم نہ کرے وہ فاسق و بدکار ہے۔

بات واضح ہے اور مزید توضیح کی ضرورت نہیں ہے۔

۲ـ وہابیت کے رنگ و نسل و شہرت کے لحاظ سے مسلمانوں کے مختلف مقدس مقامات پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مکہ مکرمہ جس میں خانہ خدا ہے اور ہر سال مسلمان فریضہ حج کی ادائگی کے لیے وہاں آتے ہیں یہ اسلام کا رکن شمار کیاجاتا ہے اور مسلمان خانہ خدا کے طواف، مشعر میں وقوف،  صفا و مروہ کی سعی، عرفات میں قیام، کی نے انتہا آرزو رکھتے ہیں کہ کم از کم عمر میں ایک مرتبہ اس کی زیارت کرسکیں۔

مدینہ منورہ جہاں مسجد النبی(ص) ہے اور قبر نبی(ص)  بھی اسی مسجد میں ہے آنحضرت(ص)

۱۵۹

کے آثار، مثلا: محراب، آپ کا منبر، اور آپ کی تربت مطہر بھی موجود ہے۔

اسی طرح بقیع بھی مدینہ میں ہے جس میں صحابہ اور آنحضرت(ص) کی بیویوں کی قبریں ہیں اور اہل بیت(ع) کی بھی قبریں ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر مقدس مقامات جیسے شہداء کے مقبرے،کوہ احد، اہم مسجدیں جیسے مسجد قبلتین، مسجد قبا بھی مدینہ منورہ میں ہیں۔

وہابیوں نے ان جگہوں پر مادی ومعنوی ہر لحاظ سے قبضہ کر رکھا ہے اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعہ کبھی ترغیب دے کر اور کبھی دھمکا کر اپنے مذہب کی ترویج کرتے ہیں خصوصا حج کے موسم میں جب دنیا بھر سے لاکھوں حاجی اکٹھا ہوتے ہیں تو مختلف جلسہ اور کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں۔ اور وہابیت کے زر خرید افراد جماعتوں، گروہوں، کے درمیان براہ راست وہابیت کی تبلیغ کرتے ہیں اس کے علاوہ تمام طاقتور تبلیغاتی وسائل مثلا ریڈیو، ٹیلی ویژن، ان کی خدمت میں ہیں جو حاجیوں پر اچھا خاصہ اثر ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے بحث و مناظرہ گفتتگو سے کنارہ کش ہوکر صرف خداوند عالم کی عبادت کرتے ہیں۔

۳ـتیل کی فروخت کے ذریعہ عظیم سرمایہ آتا ہے اور حج و عمرہ میں بلا وقفہ اقتصادی نفع ہوتا رہتا ہے۔ ان سب سے وہابیت کے ارتقاء میں مدد ہوتی ہے تاکہ وہ ساری دنیا میں پھیل جائیں اور بالخصوص ائمہ جماعت و مساجد کے درمیان کثرت سے پیسہ تقیسم کرتے ہیں تاکہ ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کریں حتی کہ تمام عربی ممالک کے پایہ تختوں میں بے شمار مسجدیں تعمیر کی ہیں جن میں بلا استثناء وہابیت کی تبلیغ ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ مدارس، کالج، یونیورسٹیاں، کثرت سے بنائی گئی ہیں جن میں وہابی مبلغین فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں اور شب و روز لوگوں کو اپنے جدید ہذہب کی طرف دعوت دینے میں لگے رہتے

۱۶۰