اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات21%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57551 / ڈاؤنلوڈ: 5320
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اس نے کہا: ہاں۔ آںحضرت(ص) کی حیات کے زمانہ میں جائز تھی۔ لیکن وفات کے بعد نہیں۔

ہم نےکہا: الحمد اللہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہابیت نے وسیلہ کا اعتراف کیا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

میں نے کہا: اجازت دیجئے تو اب میں یہ بھی کہتا ہوں کہ وفات پیغمبر(ص) کے بعد بھی وسیلہ جائز ہے۔

وہابی نےکہا: قرآن سے دلیل پیش کرو۔

میں نے کہا: آپ تو محال کی فرمایش کررہے ہیں۔ اس لیے کہ وفات پیغمبر(ص) کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوگیا۔ لہذا احادیث کی کتابوں سے استدلال پیش کروں گا۔

اس نے کہا : ہم حدیث قبول نہیں کرتے۔ مگر یہ کہ صحیح ہو اور جو کچھ شیعہ نقل کرتے ہیں اس کی کوئی قیمت نہیں۔

میں نے کہا: کیا آپ صحیح بخاری کو قبول کرتے ہیں؟ وہی کتاب جو آپ کے یہاں قرآن کے بعد سب سے معتبر کتاب ہے۔

وہ تعجب سے کہنے لگا: کیا بخاری وسیلہ کو جائز سمجھتے ہیں؟

ہم نے کہا: ہاں! لیکن افسوس کہ آپ لوگ خود اپنی کتب صحاح نہیں پڑھتے اور خود اپنے نظریوں سے تعصب برتتے ہیں۔ بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ جب بھی قحط پڑتا، حضرت عمر بن خطاب، عباس بن عبدالمطلب کے پاس آتے اور آپ سے طلب باران کے لیے کہتے اور خود بھی کہتے: پروردگارا ہم آںحضرت(ص)

۱۸۱

 کے زمانہ میں آںحضرت(ص) کو وسیلہ قرار دے کر تجھ سے طلب کرتے تھے اور تو بھی ہم پر بارش نازل کرتا تھا۔ آج رسول(ص) کے چچا کے وسیلہ بناتا ہوں پس ہم پر بارش نازل کر۔ راوی کہتا ہے کہ پس خدا ان پر بارش نازل کرتا تھا۔

                        (صحیح بخاری، ج۵، ص۲۵، کتاب بدء الخلق۔ باب مناقب جعفر بن ابی طالب)۔

پھر ہم نے کہا: یہ ہیں عمر بن خطاب ! جو کہ آپ کے درمیان سب سے بزرگ و برتر صحابی رسول(ص) ہیں اور ان کے عقیدہ و ایمان کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کرتے اس لیے کہ خود آپ کہتے ہیں:

اگر آںحضرت(ص) کے بعد کوئی پیغمبر ہوتا وہ عمر بن خطاب تھے اور آپ اس وقت دو باتوں کےدرمیان مجبور ہیں کہ کسی ایک کو قبول کریں۔ یا یہ کہ وسیلہ و توسل دین اسلام کا اہم جزو ہے اور حضرت عمر بن خطاب کا رسول اور رسول(ص)  کے چچا سے توسل کرنا صحیح تھا یا پھر یہ کہئے کہ حضرت عمر مشرک ہیں۔ اس لیے کہ عباس بن عبدا لمطلب کو اپن اوسیلہ بنایا جب کہ عبس نہ پیغمبر  ہیں نہ امام حتی کہ اہل بیت(ص) میں بھی داخل نہیں ہیں۔ جن سے خدا نے ہر قسم کی پلیدی و کثافت کو دور کیا  اس کے علاوہ وہ آپ کے یہاں بخاری امام المحدثین  ہیں اور انھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس کی صحت کا اقرار کیا ہے۔ اور یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ  جب بھی قحط پڑتا تھا وہ حضرت عباس  سے متوسل پس خدا ان پر بارش نازل کرتا تھا۔ یعنی خداوند عالم ان کی دعا کو مستجاب کرتا تھا۔ پس بخاری اور صحابہ میں وہ محدثین جنھوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے سبھی اہلسنت والجماعت ہیں یہ سب مشرک  ہیں؟

وہابی نےکہا: اگر یہ حدیث صحیح ہے تو یہ تیرے برخلاف دلیل ہے نہ کہ تیرے حق میں۔

میں نے کہا : کس طرح؟

۱۸۲

کہنےلگا : اس لیے کہ حضرت عمر نے رسول(ص) سے توسل نہ کیا اس لیے کہ وہ مرچکے تھے بلکہ عباس کو وسیلہ بنایا اور وہ زندہ تھے۔

میں نے کہا: میں عمر بن خطاب کے قول و عمل کے لیے کسی قدر وقیمت کا قائل نہیں ہوں۔ اور ہرگز اسے اپنے لیے دلیل نہیں بناتا لیکن اس روایت کو پیش کیا تاکہ موضوع بحث پر استدالال  کروں۔ البتہ میں پوچھتا ہوں کہ کیوں عمر بن خطاب نے قحط کے زمانے میں علی بن ابی طالب(ع) سے توسل نہ کیا۔ جن کی منزلت رسول(ص) کے نزدیک ایسی تھی جیسی ہارون(ع) کی موسی(ع) کے نزدیک اور مسلمانوں میں کسی نے نہیں کہا کہ عباس بن عبدالمطلب علی(ع) سے افضل ہیں۔ لیکن یہ ایک دوسرا موضوع ہے جس کی بحث کی گنجائش یہاں نہیں ہے۔ صرف اس پر اکتفاء کرتا ہوں کہ آپ کہتے ہیں کہ زندوں سے توسل جائز ہے۔ اور یہی ہمارے لیے بڑی کامیابی ہے خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے ہماری دلیل کو قاطع قرار دیا اور آپ کی دلیل کو باطل کیا اور جب ایسا ہے تو میں آپ لوگوں کے حضور میں توسل کرتا ہوں۔

اس وقت میں بیٹھا تھا فورا اٹھا اور رو بہ قبلہ ہوکر کہنے لگا: پروردگار میں تجھ سے دعا گو ہوں اور تجھ سے تیرے صالح و نیک بندے امام خمینی(رح) کو وسیلہ قرار دے کر قربت چاہتا ہوں۔

اچانک وہابی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تعجب و غصے کے ساتھ اعوذ باللہ! اعوذ باللہ! کہتا ہوا تیزی سے باہر چلا گیا۔

حاضرین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیسا بد بخت آدمی تھا کس درجہ ہم سے بحث کرتا تھا اور ہم پر تنقید کرتا تھا اور ہم خیال کرتے تھے ذی علم آدمی ہے لیکن پتہ چلا کوڑی کا بھی نہیں ہے۔

ان میں سے ایک نے کہا«انالله وانا الیه راجعون» پروردگار! تیری

۱۸۳

طرف پلٹا ہوں اور تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور ہم سے کہنے لگا۔ اس کی بات کس درجہ ہم پر اثر کرتی تھی۔ حتی کہ آج بھی میں نے اس کی بات کو پسند کیا تھا کہ توسل خدا کی نسبت شرک ہے اور اگر میں اس جلسہ میں حاضر نہ ہوتا تو اسی گمراہی پر باقی رہتا۔ ( خدا کا شکر)

اے رسول(ص) کہہ دیجئے حق آیا  اور باطل گیا بے شک باطل مٹ جانے والا ہے۔ (اسراء/۸۱)

۱۸۴

وہابیت پر رسول خدا(ص) کی رد

اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ قرآن نے خدا اور بندہ کے درمیان وساطت و وسیلہ کا اقرار کیا ہے اور اسے حرام نہیں سمجھا ہے اور نہ ہی رسول خدا(ص) نے اسے ممنوع قرار دیا ہے بلکہ اسے مباح و مستحب سمجھا ہے۔ قرآن نے پیغمبر(ص) کے قول و فعل کو ہمارے لیے حجت او اسوہ قرار دیا ہے تاکہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس کی پیروی کریں اور ترقی پائیں۔

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

 اور بے شک عمل رسول(ص) تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ ( احزاب/ ۲۱)

اس طرح ہم اقوال و افعال رسول خدا(ص) کے ذریعہ استدلال کریں گے ۔ اور اس استدلال میں نہ تو شیعہ کتابوں کی طرف رجوع کریں گے اور نہ ہی کتب اہل سنت کی طرف رجوع کریں گے بلکہ صرف اور صرف صحیح بخاری کی روایتوں پر تکیہ کریں گے تاکہ وہابیت پر رد مضبوط اور قوی ہو۔ جس کے بعد اگر وہ با انصاف ہیں تو بات نہیں کرسکتے۔ ورنہ بلاشبہ ان کی دشمنی اور اندھا تعصب انھیں لوگوں کے درمیان خود ہی رسوا اور خوار کردے گا۔

اب جب کہ ہم کتاب وسنت کےذریعہ توسل کے جواز اور اس کی شرعی حیثیت کو ثابت کرچکے ہیں تو ایک دوسرے مسئلہ پر بحث کرتے ہیں جو وہابیت کی نظر میں بہت ہی برا اور ممنوع ہے۔ اور وہ شفا اور حاجتوں کے پوری ہونے کی غرض سے متبرک چیزوں کو چومنا اور مس کرنا ہے۔

اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حجاج بیت اللہ کو آںحضرت(ص) کی ضریح پ رہاتھ پھیرنے اور بوسہ دینے پر مارا جاتا ہے اور مشرک کا الزام لگایا جاتا ہے۔

۱۸۵

موئے مبارک رسول خدا(ص) کا احترام

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحابہ کاعمل وہابیوں کےلیے حجت ہے اس لے کہ وہابی تمام صحابہ کی عدالت کے معتقد ہیںِ بلکہ ان کا دعوی تو یہ ہے کہ وہ صحابہ کے آثار کی پیروی و اتباع کرتے ہیں اور خود کو سلفی کہتے ہیں۔ یعنی وہ سلف صالح کی پیروی کرتے ہں اور تمام صحابہ کو صالح اور نیک سمجھتے ہیں۔

بخاری نے اپنی  صحیح میں مالک بن اسماعیل سے اور انھوں نے اسرائیل سے اور انھوں نے نےعاصم سے اور انھوں نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے کہ میں نے عبیدہ سے کہا: رسول خدا(ص) کے موئے مبارک ہمارے پاس ہیں جو انس سے یا انس کے خاندان کےذریعہ ہم تک پہنچے ہیں،( عبیدہ نے ) کہا:

اگر آںحضرت(ص) کا ایک بال بھی ہمارے پاس ہو تو دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ ( صحیح بخاری، ج ۱،ص۴۵۔ کتاب الوضوء)

اس طرح بخاری نے محمد بن عبدالرحیم سےنقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سعید بن سلیمان نے اور انھوں نے عقاد سے اور انھوں نے ابن عون سے اور انھوں نے ابن سیرین سے اور انھوں نے انس سے نقل کیا ہے کہ (جس وقت رسول خدا(ص)  نے اپنے سر کے بال بنوائے تو ابوطلحہ سب سے پہلے شخص تھے جنھوں نے آںحضرت(ص) کے کچھ بال اٹھالئے)۔ (صحیح بخاری، ج۱، ص۵۴، کتاب الوضوء)

پس اگر انس بن مالک ، رسول خدا(ص) کے صحابی، آںحضرت(ص)  کے موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں اور اس کو بطور ہدیہ اپنے دوستوں اور رشتہ

۱۸۶

داروں کو پیش کرتے ہیں اور اگر وہ صحابی کہتا ہے کہ اگر نبی(ص) کا ایک بال میرے پاس ہوتو میرے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہے تو خدا کی قسم یہ اس بات پر ایک واضح دلیل ہے کہ اصحاب رسول(ص) آںحضرت(ص)  کی چیزوں سے برکت حاصل کرتے تھے۔ اور یہ وہابیت کے اوپر رد ہے۔ جو رسول خدا(ص) کے آثار سے برکت حاصل کرنے کی وجہ سے حاجیوں اور خانہ خدا کے زائروں کو کوڑے مارتے ہیں اور ان کی اہانت کرتے ہیں۔

میں نے اپنی کتاب ( پھر میں ہدایت پاگیا) میں اس دلچسپ  واقعہ کو نقل کیا ہے کہ جس وقت ایک شیعہ عالم دین ( علی شرف الدین) نے سعودی بادشاہ کو ایک قرآن ہدیہ میں دیا تو بادشاہ نے قرآن کی جلد کو چوما اور تعظیم کےلیے اپنے چہرہ پر رکھا۔

اس پر شیعہ عالم دین بولے: قرآن کی جلد کو کیوں چومتے ہو اور اسے کیوں بوسہ دیتے ہو؟

بادشاہ نے کہا: کیا آپ نے نہیں کہا کہ اس میں قرآن ہے؟

شیعہ عالم نے کہا: قرآن اس کے اندر ہے اور تم نے تو قرآن کو بوسہ نہیں دیا؟

بادشاہ نےکہا: قرآن کی جلد کو بوسہ دینے سے ہماری مراد وہی قرآن ہے جو جلد کے اندر ہے۔

تو اس شیعہ عالم نے کہا: ہم لوگ جب نبی(ص) کی ضریح کی جالیوں کو بوسہ دیتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ یہ لوہا ہے اور نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن ہمارا مقصد ان جالیوں کے اندر قبر رسول(ص) ہے۔

۱۸۷

بعد وفات آںحضرت(ص) کے آثار کا احترام

میں نے اس موضوع پر اہل سنت کی کتابوں میں بیس سے زیادہ روایتیں دیکھی ہیں۔ جن میں آثار رسول(ص) کو تمام صحابہ اور بالخصوص خلفاء نے متبرک قرار دیا ہے۔ لیکن چونکہ میں ںے وعدہ کیا ہے کہ بخاری کی صرف ایک یا دو روایت پر اکتفا کروں گا۔ اور خود بخاری کے اس کی روایات میں دقت سے کام لیا ہے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں رسول (ص) کی زرہ، آپ کے عصاء آپ کے تلوار، آپ کے گلاس، آپ کی انگوٹھی اور آپ کے بعد خلفا جن چیزوں سے استفادہ کرتے تھے، اسی طرح آنحضرت(ص) کے موئے مبارک، نعلین اور ظروف اور آپ کی وفات کے بعد اصحاب نے آپ کی جن چیزوں کو متبرک قرار دیا ہے، اس ذیل میں پورا ایک باب ان سے مخصوص قرار دیا ہے۔

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں زبیر سے نقل کیا ہے کہ ہم نے روز بدر عبیدہ بن سعید بن عاص سے ملاقات کی۔ اس نے آہنی لباس پہن کر بلاتے تھے۔ اس نے کہا:

میں ابو ذات کرش ہوں میں نے بھی اس پر حملہ کیا اور ہاتھ کی چھڑی جس کے آخر میں تیز لوہا لگا ہوا تھا اس کی آنکھ میں دے ماری اور اسے قتل کر ڈالا۔

ہشام کہتے ہیں:

زبیر کا بیان ہےکہ میں نے اسے اپنے پیروں تلے لاکر دبایا اور پوری

۱۸۸

قوت سے اس چھڑی کو باہر کھینچا۔ اسکے دونوں کنارے ٹیڑھے ہوگئے تھے۔ عروہ نے کہا میں نے اسے آںحضرت(ص) سے مانگا، پس آںحضرت(ص) نے اسے دے دیا۔ اور جس وقت آںحضرت(ص) نے وفات فرمائی تو حضرت ابوبکر نے اسے مانگ لیا اورجس وقت حضرت ابوبکر دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت عمر نے طلب کر لیا ان کے مرنےکے بعد حضرت عثمان نے مانگا اور انھیں دے دی گئی۔ لیکن حضرت عثمان کے قتل کے بعد خاندان علی(ع) کے پاس آگئی۔ پھر عبداللہ بن زبیر نے مانگا اور انھیں دے دی گئی اور انھیں کے پاس تھی یہاں تک کہ وہ بھی قتل کردیئے گئے۔

ایک ضروری وضاحت

اس روایت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خود رسول خدا(ص) نےزبیر کے اس عصا کا احترام کیا جس سے زبیر جنگ میں طاقتور دشمنوں کو قتل کیا کرتے تھے، ابو عبیدہ بن سعید بن عاص، جس نے زرہ پہن رکھی تھی تاکہ تلوار اور نیزہ سے محفوظ رہے اور سوائے آنکھوں کے کوئی حصہ دکھائی نہ دیتا تھا لیکن زبیر نے عصاکے ذریعہ اس کی آنکھ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا اور پھر پوری قوت لگا کر اسے باہر نکالا۔

سچ یہ تو بڑاعجیب و غریب عصا ہے۔ کہیں عصائے حضرت موسی(ع) کی نسل سے تو نہیں ہے۔ جس کو موسی(ع) نے دریائے نیل پر مارا تھا اور اسی کے مارنے سے بارہ چشمے بھی پھوٹ پڑے تھے۔ سبحان اللہ!

پھر تو تعجب کی  جگہ نہیں کہ پیغمبر(ص) اس کو زبیر سے مانگیں تاکہ اس سے تبرک حاصل کریں یا پھر وہ چاہتے تھے اس احترام کے جواز کو سمجھائیں اور یہی احتمال قوی ہے۔ خصوصا اس وقت جب کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ آںحضرت(ص)  کے بعد تمام خلفاء نے وہ عصا طلب کیا اور ان کی عمر کے آخری لمحہ تک ان کے ساتھ رہا۔ اور بالاخرہ عبداللہ بن زبیر کو واپس مل گیا۔ اور وہ اس کے زیادہ مستحق تھے کیونکہ وہ ان

۱۸۹

کے باپ کے میراث شمار ہوتا تھا۔

بہر حال قرآن مجید میں ایسے بہت سے اشارے موجود ہیں جو انبیاء و مرسلین اور ان سے مربوط اشیاء کے احترام سے متعلق ہیں۔

قرآن مجید میں آیا ہے کہ:

موسی(ع) نے سامری سے کہا: تو نے یہ کیسا فتنہ پھیلا دیا؟

سامری نے کہا: میں نے حق کے رسول(حضرت جبرائیل(ع)) کے قدم کے کچھ اثرات دیکھے۔ جسے دوسروں نے نہیں دیکھا لہذا میں نے اسے اٹھا کر گوسالہ میں ڈال دیا اور مجھے اس پر میری نفسانی خواہش نے آمادہ کیا۔ (طہ/ ۹۵ـ۹ ۶ )

جس چیز کو دوسروں نے نہیں دیکھا اور سامری نے دیکھا، شاید اسی وجہ سے اس نے فرشتہ کے قدم کے بچے ہوئے آثار سے معجزہ پیش کر دیا۔ لہذا اس نے جبرائیل کے قدموں کی مٹی اٹھالی اور اس کو گوسالہ میں ڈال کر بنی اسرائیل کو گوسالہ کی عبادت کی طرف پلٹانا چاہا اور اس داستان میں تاکید ہوئی ہے کہ اس کی بعض کرامتوں اور معجزات سے جس کی بنی اسرائیل پیروی کرتے تھے مغرور ہوگئے تھے۔

قرآن مجید میں انبیاء کے آثار سے  تبرک و شفا حاصل کرنے کے مزید اشارے موجود ہیں چنانچہ سورہ یوسف میں ملتا ہے کہ :

حضرت یوسف(ع) نے کہا:

میرا کرتا اپنے ساتھ لے جاؤ اور میرے باپ کے چہرہ پر ڈال دینا تاکہ وہ پھر بینا ہوجائیں اور جس وقت بشیر نے آکر کرتے کو باپ کے چہرہ پر ڈالا تو اچانک والد بزرگوار ( حضرت یعقوب(ع)) کی آنکھوں کی روشنی واپس آگئی۔ اور وہ ان سے کہنے لگے۔ کیا ہم نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اپنے رب کی جانب سے وہ چیز جانتا ہوں جسے تم

۱۹۰

نہیں جانتے۔ (یوسف/ ۹۳ـ۹ ۶ )

ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت یعقوب(ع) نے اپنی بینائی کھودی تھی اور حضرت یوسف(ع) نے بشیر سے جس طرح اور جو کہا وہی ہوا۔

گرچہ ہم اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت یعقوب(ع) کی بینائی کو خداوند عالم یوسف(ع) کے کرتے  کے بغیر بھی پلٹا سکتا تھا اور وہ معبود اس بات پر قادر تھا کہ حضرت موسی(ع) کے عصا مارے بغیر پتھروں سے چشمہ جاری کر سکتا تھا۔ اور اسی طرح اس بات پر بھی قادر تھا کہ وہ گائے (کہ جس کو ذبح کرنے کا بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا) کے بعض حصوں کو مردہ پر ڈالے  بغیر مردہ کو زندہ کردے۔

لیکن خداوند عالم نے ان تمام کاموں کے لیے وسیلہ قرار دیا تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ خدا کی خلقت کےدرمیان وسیلہ و واسطہ اس کی سنت ہے اور ہرگز شرک نہیں ہےجیسا کہ وہابیت مدعی ہے۔

یہ ہماری کتاب ہے جو تم سے حق کہتی ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اسے ہم لکھتے ہیں پس جو ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے ان کو پروردگار عالم اپنی رحمت میں شامل کرلے گا۔ اور یہ واضح کامیابی ہے۔ لیکن جو کافر ہوگئے۔ تو کیا ہماری آیات تمہارے لیے تلاوت نہ کی جاتی تھیں پھرکیوں گناہ کیا؟ اور متکبر ہوگئے( بلاشبہ) تم ظلم کرنے والا گروہ بن گئے۔ ( جاثیہ/ ۳۱ـ۲۹)

۱۹۱

پیغمبر(ص) تبرک اور احترام کو جائز سمجھتے ہیں!

بعض منکرین کا یہ کہنا کہ متبرک چیزوں سے برکت حاصل کرنا بدعت ہے اور اس کے موجد بعض اصحاب یا تابعین ہیں۔ اس مقولہ کا فریب نہ کھانا چاہئے۔ اس لیے کہ یا تو وہ حقائق سے نا بلد ہیں یا پھر نئے مذہب وہابیت کی وجہ سے تعصب کرتے ہیں۔

مذہب وہابیت خود بدعت سے اور کیا ہی بڑی بدعت ہے! یہ کیسا مذہب ہے جو ایک جھوٹے اور باطل شبہ کی بنیاد پر مسلمانوں پر شرک کی تہمت لگاتا ہے؟

رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب کو متعدد مقامات پر برکت حاصل کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور اس کی موافقت فرمائی ہے بلکہ اسے تو مستحب جانا ہے۔ لہذا صحابہ آںحضرت(ص) کے بعد ان کی چیزوں سے تبرک حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں آدم سے نقل کیا ہے کہ شعبہ نے کہا کہ حکم نے ہم سے بیان کیا کہ میں نے سنا ابو جحیفہ نے کہا:

ایک گرم دن میں  ظہر کے وقت رسول خدا(ص) ہمارے پاس تشریف لائے، پانی لایا گیا کہ حضرت(ص) وضو فرمائیں، آںحضرت(ص) نے وضو کیا، آںحضرت(ص) کے وضو کرنے کے بعد بہت سے لوگوں نے اس پانی کو لیا اور اپنے سر اور چہرے پر ملا۔

پیغمبر(ص) نے ظہر کی نماز دو رکعت اور عصر کی نماز دو رکعت پڑھی جب کہ آںحضرت(ص) کے سامنے عصا رکھا ہوا تھا، ابوموسی کہتے ہیں: پیغمبر(ص) نے

۱۹۲

پانی مانگا۔ اور آپ(ص) کے لیے ایک برتن میں پانی لایا گیا، آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ منہ اس سے دھویا اور آب دہن اس برتن میں ڈال دیا اور پھر ان دونوں سے فرمایا : اس پانی کو پیو اور اپنے سینے اور چہرے پر ملو۔

بخاری نے اپنی صحیح میں ایک دوسری حدیث پیش کی ہے جو اس سے کہیں واضح ہے۔ اس بحث کے خاتمہ پر اس کا بیان کرنا بھی برا نہ ہوگ۔

بخاری کہتے ہیں:

ابو موسی کا بیان ہے کہ جعرانہ( مکہ اور مدینہ کے درمیان ) میں آںحضرت(ص) کے پاس تھا بلال بھی ساتھ تھے ایک بدو عرب آںحضرتص(ص) کے پاس آیا، اس بدو عرب نےکہا: آپ(ص)  نے ہم سے جس چیز کا وعدہ کیا ہے اسے پورا کریں گے؟

حضرت(ص) نے فرمایا: ہاں تمہیں بشارت ہو۔

بدو عرب نے کہا: بہت بشارت بشارت لگا رکھی ہے۔ پیغمبر(ص) ابو موسی اور بلال کے پاس غصہ کی حالت میں وارد ہوئے اور کہا اس نے بشارت کو رد کردیا ہے پس تم اس  بشارت کو لے لو۔

انھوں نے کہا: ہم نے قبول کیا۔ پھر آںحضرت(ص) نے ایک ظروف میں پانی مانگا اور پھر اس سے اپنے ہاتھ اور منہ دھویا اور اس پانی میں آب دہن ڈال دیا اور فرمایا اسے پی جاؤ اور اسے سینہ اور چہرے پر مل لو تمہیں بشارت ہو۔

انھوں نے پانی کے اس برتن کو لیا اور وہی کیا جس کا آپ(ص) نے حکم فرمایا تھا۔

حضرت ام سلمہ نے پردہ کے پیچھے سے فرمایا کہ تھوڑا سا اپنی ماں کے لیے بھی چھوڑ دینا۔ تو انھوں نے تھوڑا سا پانی ام سلمہ کے لیے الگ کردیا۔ ( صحیح بخاری،ج ۵، ص۱۹۹ ، کتاب مغازی باب غزوہ

۱۹۳

طائف ماہ شوال)

یہ روایات نہ صرف تبرک حاصل کرنے پر پیغمبر(ص) کے اعتراف و اقرار کو ثابت کرتی ہیں بلکہ ان سے پتہ چلتا ہے کہ آںحضرت(ص) جس پانی سے اپنا ہاتھ منہ وھوتے ہیں اور اس میں آب دہن ملاتے ہیں اسی کو اپنے اصحاب کو پینے اور سینہ اور چہرے پر ملنے کا حکم فرماتے ہیں اور انھیں بشارت دیتے ہیں کہ اس پانی کی برکت سے انھیں خیر کثیر حاصل ہوگا اور نہ صرف اصحاب بلکہ ام سلمہ(رض) جو آںحضرت(ص) کی بیوی ہیں وہ خود اس پانی سے تھوڑا سا الگ کرنے کو کہتی ہیں جو رسول(ص) کے ذریعہ متبرک ہوا ہے۔

ان واضح حقائق کے مقابل وہابیت کا کیا جواب ہے؟ یا پھر ان کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے؟

۱۹۴

محمد(ص) در شہوار

ایک مرتبہ پھر امام بوصیری کے حضور میں احترام سے کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے اشعار کے سامنے سر تعظیم خم کرتے ہیں۔ اور ہر ایک کے لیے یہ اعلان کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) جوہر مخلوقات ہیں۔ آںحضرت(ص)  کے ساتھ کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ تمام اولاد آدم(ع) کےسید و سردار اور تمام انبیاء و مرسلین اور برگزیدہ بندوں کے آقا ہیں۔

آپ (ص) کی بشری صفات کے متعلق جو بھی اور جتنا بھی کہا جائے لیکن آپ کو خداوند عالم نے ہر طرح کی آلودگی وپلیدی سے پاک رکھا ہے۔ اور حدیث بیان کرنے والے آںحضرت(ص) کی ایسی خصوصیات بیان کرتے ہیں جو کسی اور میں دیکھی نہ گئیں اس کی مثالیں زیادہ ہیں، من جملہ ملاحظہ ہوں۔

کبھی بھی آںحضرت(ص) کے اوپر مکھی نہیں بیٹھی تھی اور بادل کا ایک ٹکڑا آںحضرت(ص) پر سایہ کئے رہتا۔ زمین آپ(ص) کے بدن کی فاضل چیزوں کو نگل لیتی اور آپ کے بدن سے مشک کی خوشبو ہوا میں پھیلی رہتی تھی۔

میں جب بھی اس طرح کی روایات کو پڑھتا ہوں اور ان کی صحت و درستگی پر ایمان بھی رکھتا ہوں تو ان میں کچھ ایسی چیزیں میری سمجھ آتی ہیں جنھیں دوسرے نہیں سمجھ سکتے۔لہذا میں ہرگز اسے غلط نہیں سمجھتا اگر کوئی رسول(ص) کے ہاتھ منہ کے دھونے کے بعد بچے ہوئے پانی کو پئیے۔ اس لیے کہ وہ بشر تو ہیں لیکن ان کی طرح کوئی بشر نہیں بلکہ آپ ایک درخشاں یاقوت ہیں۔

جب ہم میں سے کسی کو بھی اچھا نہ لگے کہ کسی کے ہاتھ منہ دھونے کے بعد

۱۹۵

بچے ہوئے پانی کو پیئے تو پھر اگر اس نے اس میں کلی بھی کہ ہوتو بھلا کیسے پی سکتے ہیں؟ اس لیے ان جراثیم اور کثافت و گندگی اور امراض کے خوف کے علاوہ طبعی طور پر انسان ایسے پانی سے نفرت کرتا ہے اور خصوصا اس وقت جب اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب  ہوتے دیکھے!

اگر ہمارا ایمان نہ ہوتا کہ رسول خدا(ص) ہرطرح کی کثافت و پلیدی،  جراثیم اور بری بو سے مبرا ہیں اور آپ کا بدن طاہر و مطہر ہے تو اس طرح کی روایات کو قبول نہ کرتے۔ اور اگر رسول(ص) کے بعض مخلص اصحاب کا ان حقائق پر ایمان نہ ہوتا تو اس پانی کو زیادہ سے زیادہ پینے پر سبقت نہ کرتے یہاں تک کہ ان کے درمیان نزاع اور کشمکش پیدا ہوجاتی۔ بلکہ یہ مخلص صحابہ حقائق رسول(ص) سے متعلق ایسی چیزیں جانتے تھے جن سے دوسرے نا واقف تھے۔ لہذا وہ نہ صرف وضو کا پانی یا لعاب دہن پڑا ہوا پانی پیتے تھے۔ بلکہ کچھ ایسے کام بھی کرتے تھے جس کو انسانی طبیعت بمشکل تحمل کرسکتی ہے!

ہم اس جگہ تذکرہ کریںگے کہ وہ کیا کرتے تھے!

بخاری اپنی صحیح میں ایک طویل روایت پیش کی ہے جس کا مورد نظر حصہ پیش خدمت ہے:

پھر عروہ کی آنکھیں اصحاب رسول(ص) پر جمی ہوئی تھیں وہ کہتا ہے: ہم نے نہیں دیکھا کہ رسول(ص) ناک سے نکلی ہوئی رطوبت کو پھینک پاتے، بلکہ اسے کوئی نہ کوئی صحابی لے لیتا اور اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا، اور اگر آنحضرت(ص)  وضو فرماتے تو اس کے بچے ہوئے پانی سے شفا حاصل کرتے۔

اسی طرح بخاری نے عروہ اور مسورومروان سے نقل کیا ہےکہ:

رسول خدا(ص) اپنی ناک سے خارج شدہ رطوبت کو نہیں پھینک پاتے تھے بلکہ اسے کوئی نہ کوئی صحابی لے لیتا اور اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیتا تھا۔

۱۹۶

یہ گرامی قدر اصحاب رسول(ص) جن پر خدا کا درود و سلام ہو۔ یہ جانتے تھے کہ اس سے رسول خدا(ص) راضی ہیں اور اس عمل پر آںحضرت(ص) کا سکوت ان کے اقرار اور اعتراف کا ثبوت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اصحاب آںحضرت(ص) سے بہت سی کرامات دیکھتے تھے، مثلا : عافیت، سلامتی، خیرو برکت، بیماریوں سے شفا، درد سے چھٹکارا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو آںحضرت(ص) کے لعاب دہن اور ناک سے نکلی ہوئی رطوبت کو اپنے چہرہ اور بدن پر نہ ملتے۔

اس مطلب پر مزید تائید کےلیے بخاری سے ایک اور روایت ملاحظہ ہو:

رسول خدا(ص) ایک گرم دن میں ظہر کے وقت بطحاء کی طرف گئے اور نماز ظہر دو رکعت پڑھی، جبکہ آپ کے سامنے عصا رکھا ہوا تھا۔

عون، ابی جحیفہ سے مزید نقل کرتے ہیں کہ آپ(ص) کے پیچھے بھی لوگ چل رہے تھے، پس لوگ آگے بڑھے،رسول(ص) کے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے چہرہ پرملنے لگے۔ اس کا بیان ہے کہ میں نے بھی آںحضرت(ص) کے ہاتھوں کو پکڑا او اپنے چہرہ پر رکھ لیا۔ اس کو برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار پایا۔        (بخاری، ج ۴، ص ۲۲۹، کتاب بدء الخلق باب صفتہ النبی(ص)۔

۱۹۷

نبی(ص) کے ذریعہ خدا سے شفا طلب کرنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ آںحضرت(ص) ہاتھ سے مس کر کے یا اپنے وضو کے پانی اور آب دہن کے ذریعہ بیماری کا علاج کرتے تھے اور بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔

مسلم اور بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ سہل بن سعید نے کہا: ہم نے سنا کہ آںحضرت(ص) نے روز خیبر فرمایا:

کل میں علم اس مرد کے حوالہ کروں گا جس کو خدا کامیابی عطا کرے گا، وہ خدا اور رسول(ص) کو دوست رکھتا ہوگا۔ اور خدا اور رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہوں گے۔ تمام شب لوگ اس فکر میں تھے کہ کل علم کس کے حوالہ کیا جائے گا۔ اور جب دوسرا دن آیا تو ہر شخص کا دل چاہتا تھا کہ وہ خود وہی شخص ہو۔

حضرت(ص) نے فرمایا:

علی(ع) کہاں ہیں؟ بتایا گیا : علی(ع) آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔ تو آںحضرت(ص) نے اپنے لعاب دہن علی(ع) کی آنکھ پر مل دیا اور ان کے لیے دعا فرمائی اور انھیں ایسی شفا مل گئی، گویا انھیں مرض ہوا ہی نہ تھا، پس علم آپ کے حوالہ کیا۔

حضرت علی(ع) نے عرض کی:

آیا میں ان کے ساتھ جنگ کروں کہ وہ ہماری طرح ہوجائیں؟

آںحضرت(ص) نے فرمایا:

۱۹۸

جلدی کرو تاکہ ان کی حد میں داخل  ہوجاؤ اور انھیں اسلام کی طرف دعوت دو اور جو کچھ ان پر واجب ہے اس سے انھیں باخبر کردو۔

اسی طرح بخاری سے نقل کیا ہے کہ ہم نے سنا ہے کہ سائب بن یزید کا بیان ہے کہ:

میری خالہ مجھے رسول(ص) کے پاس لے گئی اور کہا: اے خدا کے رسول(ص) میرا بھانجا زمین پر گرپڑا ہے۔ پس رسول(ص) نے میرے سر پر اپنے ہاتھوں کو ملا اور میرے لیے دعا کی پھر وضو فرمایا اور میں نے آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو پیا۔

بخاری نے جابر سے بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

پیغمبر(ص) ہماری عیادت کے لیے آئے جبکہ میں بخار کی شدت سے بے ہوش تھا۔ پس آںحضرت(ص) نے وضو کیا اور وضو کے بچے پانی کو مجھ پر چھڑکا، میں ہوش میں آگیا۔

رسول خدا(ص)، اللہ کے نزدیک ایسے مرتبہ و مقام کے مالک ہیں کہ آب دہن کے ذریعہ اندھوں کو بینائی عطا کرتے ہیں اور آب وضو کے ذریعہ مرگی سے بے ہوش مریض کو ہوش میں لاتے ہیں اور شفا بخشتے ہیں ۔ اور صحابہ آپ کی ناک کی رطوبت کو لیتے ہیں اور شفا کی غرض سے اپنے چہرے اور بدن پر ملتے ہیں اور روایت میں تو یہاں تک آیا ہےکہ حذیفہ بن یمان کے پاس ایک تھیلی تھی جس کے ذریعہ بیماروں کا علاج کرتے تھے اور کوئی ایسا مریض نہ تھا جس پر وہ تھیلی رکھی جائے اور اسے شفا نہ حاصل ہو۔ یہ خبر کافی مشہور ہوئی اس کی اطلاع آںحضرت(ص) کو بھی ملی آپ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا؟

اے حذیفہ ! کیا تم آشوب گرہو؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں بلکہ یا رسول اللہ(ص)  آپ کا پیر ایک پتھر پر نقش ہوگیا تھا، میں نے اسے اٹھا کر اس کپڑے کی تھیلی میں رکھ لیا اور اس بیماروں کا علاج کرتا ہوں۔

۱۹۹

پیغمبر(ص) نے فرمایا : اگر کسی پتھر پر بھی اعتقاد پیدا کر لو تو تمہارے لیے مفید ہوگا۔

ان روایتوں کے نقل کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ کرتب دکھانے والے ، شعبدہ بازوں، دجالوں اور دھوکہ بازوں پر ایمان لایا جائے اور علم طب وحکمت سے ایمان کو کم کردیا جائے ، اس لیے کہ خود آںحضرت(ص) فرماتے ہیں کہ:

اپنے لیے ایک طبیب (ڈاکٹر) تلاش کرو، خدا نے مرض کو خلق کیا تو اس کا علاج بھی خلق کیا ہے۔

ان روایات کا معنی اور مطلب یہ نہیں کہ مسلمان صرف دعا، حرز، قرآن اور برکت کے ذریعہ بیماری سے شفا حاصل کرنے پر اکتفا کریں، بلکہ ہماری غرضیہ ہے کہ وہابیت کے اوپر حجت کامل ہوجائے جو ان تمام امور کا انکار کرتے ہیں اور جو بھی اس کا معتقد ہو اس  کو مشرک سمجھتے ہیں۔ رسول گرامی(ص) سے توسل و تبرک حاصل کرنے میں صحابہ کا اقدام معقول ہے۔ کیونکہ انھوں نے آںحضرت(ص) کے ساتھ معاشرت کی اور معجزات کے علاوہ بشر کی قوت سے بالاتر امور کا مشاہدہ کیا جس نے ان کے نفوس کو آرزؤں سے بھر دیا۔

بیشک سیرت و تاریخ کے مصنفین اور جو لوگ معجزات کو اہمیت دیتے ہیں انھوں نے رسول خدا(ص) کے لیے وہی کچھ تحریر کیا ہے جسے انبیاء کے متعلق کتاب خدا نےثبت کیا ہے، مثلا بیماروں کو شفا، اندھے ہوجانے والوں اور پیدایش اندھوں کو بینائی دینا، مردوں کو زندہ کرنا، آسمان سے خوان بہشتی منگانا، جانوروں سے ہم کلام ہونا وغیرہ وغیرہ۔

ہم یہاں بخاری کی ایک یا دو روایت پر اکتفاء کریں گے۔ اور محققین سے کہیں گے کہ وہ خود اس کے متعلق علماء کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

قتادہ، انس سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا:

رسول خدا(ص) ایک بے آب و گیاہ صحرا میں تھے آپ(ص) کے لیے ایک برتن

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

طول پکڑگئی لیکن ہر روز آپ کی حالت سخت تر ہوتی جا رہی تھی اور آپ کی بیماری میں شدت آتی جارہی تھی_ آپ نے ایک دن حضرت علی (ع) سے کہا اے ابن عم ___ میں موت کے آثار اور علامتیں اپنے آپ میں مشاہدہ کر رہی ہوں مجھے گمان ہے کہ میں عنقریب اپنے والد سے ملاقات کروں میں آپ کو وصیت کرنا چاہتی ہوں_ حضرت علی (ع) جناب فاطمہ (ع) کے بستر کے قریب آبیٹھے اور کمرہ کو خالی کردایا اور فرمایا اے دختر پیغمبر (ص) جو کچھ آپ کا دل چاہتا ہے وصیت کیجئے اور یقین کیجئے کہ میں آپ کی وصیت پر عمل کروں گا_ آپ کی وصیت کی انجام دہی کو اپنے ذاتی کاموں پر مقدم کروں گا_ حضرت علی (ع) نے جناب زہراء (ع) کے افسردہ چہرے اور حلقے پڑی ہوئی آنکھوں پر نگاہ کی اور رودیئے، جناب فاطمہ (ع) نے پلٹ کر اپنی ان آنکھوں سے حضرت علی (ع) کے غمناک اور پمردہ مہربان چہرے کو دیکھا اور کہا اے ابن عم میں نے آج تک آپ کے گھر میں جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی خیانت کی ہے اور نہ کبھی آپ کے احکام اور دستورات کو پس پشت ڈالا ہے_

حضرت علی (ع) نے فرمایا آپ کو اللہ تعالی کی معرفت اور آپ کا تقوی اتنا قوی اور عالی ہے کہ آپ کے بارے میں اس کا احتمال تک نہیں دیا جاسکتا خدا کی قسم آپ کی جدائی اور فراق مجھ پر بہت سخت ہے لیکن موت کے سامنے کسی کا چارہ نہیں_ خدا کی قسم تم نے میرے مصائب تازہ کردیئے ہیں، تمہاری بے وقت موت میرے لئے ایک دردناک حادثہ ہے_ ''انا للہ و انا الیہ راجعون'' یہ مصیبت کتنی ناگوار اور دردناک ہے؟ خدا کی قسم اس ہلاک کردینے والی مصیبت کو میں کبھی نہیں فراموش کروں گا _ کوئی چیز اس مصیبت سے تسلی بخش نہیں ہوسکتی، اس

۲۲۱

وقت دونو بزرگوار رو رہے تھے(۱) _

جناب زہراء (ع) نے اپنے مختصر جملوں میں اپنی زندگی کے برنامے کو سمودیا اپنی صداقت کے مقام اور پاکدامنی اور شوہر کی اطاعت کو اپنے شوہر سے بیان کیا حضرت علی (ع) نے بھی آپ کے علمی عظمت اور پرہیزگاری و صداقت اور دوستی و زحمات کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بے پنا محبت اور لگاؤ کو آپ کی نسبت ظاہر کیا، اس وقت عواطف اور احساسات پھر سے دونوں زن و شوہر ہیں ''جو اسلام کے نمونہ اور مثال تھے'' اس طرح ابھرے کہ دونوںاپنے رونے پر قابو نہ پاسکے اور کافی وقت تک دونوں روتے رہے اور اپنی مختصر سی ازدواجی زندگی پر جو محبت و صفا اور مہر و صداقت سے پر تھی گریہ کرتے رہے اور ایک دوسرے کو غیر معمولی زحمات اور گرفتاریوں اور مصائب پر روتے رہے تا کہ یہی آنکھوں کے آنسو ان کی اندرونی آگ جو ان کے جسم کو جلا دینے کے نزدیک تھی ٹھنڈا کرسکیں_

جب آپ کا گریہ ختم ہوا حضرت علی (ع) نے جناب فاطمہ (ع) کا سر مبارک اپنے زانو پر رکھا اور فرمایا، اے پیغمبر(ص) کی عزیز دختر جو آپ کا دل چاہتا ہے وصیت کریں اور مطمئن رہین کہ میں آپ کی وصیتوں سے تخلف نہ کروں گا جناب فاطمہ (ع) نے یہ وصیتیں کیں_

۱_ مرد بغیر عورت کے زندگی نہیں بسر کرسکتا اور آپ بھی مجبور ہیں کہ شادی کریں میری خواہش ہے کہ آپ میرے بعد امامہ سے شادی کیجئے_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۱_

۲۲۲

گا، کیونکہ یہ میرے بچوں پر زیادہ مہربان ہے(۱) _

۲_ میرے بچے میرے بعد یتیم ہوجائیں گے ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ان کو سخت لہجہ سے نہ پکارنا، ان کی دلجوئی کے لئے ایک رات ان کے پاس رہنا ایک رات اپنی بیوی کے پاس(۲) _

۳_ میرا اس طرح اور کیفیت کا تابوت بناناتا کہ میرا جنازہ اٹھاتے وقت میرا جسم ظاہر نہ ہو پھر آپ نے اس تابوت کی کیفیت بیان کی(۳) _

۴_ مجھے رات کو غسل دینا اور کفن پہنانا اور دفن کرنا اور ان آدمیوں کو اجازت نہ دینا جنہوں نے میرا حق غصب کیا ہے اور مجھے اذیت اور آزار دیا ہے کہ وہ میر نماز جنازہ یا تشیع میں حاضر ہوں(۴) _

۵_ رسول خدا کی بیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ وقیہ (گندم کا وزن) دینا _

۶_ بنی ہاشم کی ہر ایک عورت کو بھی بارہ وقیہ دینا_

۷_ امامہ کو بھی کچھ دینا(۵) _

۸_ ذی الحسنی نامی باغ اور ساقیہ اور دلال اور غراف اور ہیشم اور ام ابراہیم نامی باغات جو سات عدد بنتے ہیں میرے بعد آپ کے اختیار میں ہوں گے اور آپ کے بعد حسن (ع) اور حسن (ع) کے بعد حسین (ع) اور حسین (ع) کے بعد ان کے بڑے لڑکے کے اختیار میں ہوں گے اس وصیت کے لکھنے والے

____________________

۱) مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ ص ۳۶۲_

۲) بحار الانوارء ج ۴۳ ص ۱۷۸_

۳،۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۵) دلائل الامامہ ص ۴۲_

۲۲۳

علی (ع) اور گواہ مقداد اور زبیر تھے(۱) _

ابن عباس نے روایت کی ہے کہ یہ تحریری وصیت بھی آنحضرت(ص) سے ہاتھ لگی ہے_

بسم اللہ الرحمن الرحیم_ یہ وصیت نامہ فاطمہ (ع) پیغمبر(ص) کی دختر کا ہے میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہوں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد(ص) خدا کے رسول ہیں_ بہشت و دوزخ حق ہیں، قیامت کے واقع ہونے میں شک نہیں ہے_ خدا مردوں کو زندہ کرے گا، اے علی (ع) خدا نے مجھے آپ کا ہمسر قرار دیا ہے تا کہ دنیا اور آخرت میں اکٹھے رہیں، میرا اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے، اے علی (ع) رات کو مجھے غسل و کفن دینا اور حنوط کرنا اور دفن کرنا اور کسی کو خبر نہ کرنا اب میں آپ سے وداع ہوتی ہوں، میرا سلام میری تمام اولاد کو جو قیامت تک پیدا ہوگی پہنچا دینا(۲)

آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں

جناب فاطمہ (ع) کی بیماری شدید ہوگئی اور آپ کی حالت خطرناک ہوگئی حضرت علی (ع) ضروری کاموں کے علاوہ آپ کے بستر سے جدا نہ ہوتے تھے_ جناب اسماء بنت عمیس آپ کی تیمار داری کیا کرتی تھیں_ جناب امام حسن اور امام حسین اور زینب و ام کلثوم ماں کی یہ حالت دیکھ کر آپ سے

____________________

۱) دلائل الامامہ، ص ۴۲_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۱۴_

۲۲۴

بہت کم جدا ہوا کرتے تھے، جناب فاطمہ (ع) کبھی مرض کی شدت سے بیہوش ہوجایا کرتی تھیں، کبھی آنکھیں کھولتیں اور اپنے عزیز فرزندوں پر حسرت کی نگاہ ڈالتیں_

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے احتضار کے وقت آنکھیں کھولیں اور ایک تند نگاہ اطراف پر ڈالی اور فرمایا السلام علیک یا رسول اللہ (ص) اے میرے اللہ مجھے اپنے پیغمبر(ص) کے ساتھ محشور کر خدایا مجھے اپنی بہشت اور اپنے جوار میں سکونت عنایت فرما اس وقت حاضرین سے فرمایا اب فرشتگان خدا اور جبرئیل موجود ہیں میرے بابا بھی حاضر ہیں اور مجھ سے فرما رہے ہیں کہ میرے پاس جلدی آو کہ یہاں تمہارے لئے بہتر ہے(۱) _

حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھ سے وفات کی رات فرمایا کہ اے ابن عم ابھی جبرئیل مجھے اسلام کرنے کے لئے حاضر ہوئے اور کہہ رہے ہیں کہ خدا بعد از سلام فرماتا ہے کہ عنقریب تم بہشت میں والد سے ملاقات کروگی اس کے بعد آپ نے فرمایا و علیکم السلام_ اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے ابن عم ابھی میکائیل نازل ہوئے اور اللہ کی طرف سے پیغام لائے اس کے بعد فرمایا و علیکم السلام_ اس وقت آپ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا ابن عم خدا کی قسم عزرائیل آگئے ہیں اور میری روح قبض کرنے کے لئے آئے ہیں، اس وقت عزرائیل سے فرمایا کہ میری روح قبض کرلو لیکن نرمی سے_ آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں فرمایا خدایا تیری طرف آوں نہ آ گ کی طرف، یہ کلمات آپ نے فرمائے اور اپنی نازنین آنکھوں کو بند کرلیا اور

____________________

۱) دلائل الامامہ ص ۴۴_

۲۲۵

اور جان کو خالق جان کے سپرد کردیا_

اسماء بنت عمیس نے جناب زہراء (ع) کی وفات کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ جب جناب فاطمہ (ع) کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے والد کی وفات کے وقت جبرئیل (ع) کچھ کا فور لے کرئے تھے آپ (ص) نے اسے تین حصّوں میں تقسیم کردیا تھا، ایک حصّہ اپنے لئے رکھا تھا ایک حصّہ حضرت علی (ع) کے لئے اور ایک حصّہ مجھے دیا تھا اور میں نے اسے فلاں جگہ رکھا ہے اب مجھے اس کی ضرورت ہے اسے لے آؤ_ جناب اسماء وہ کافور لے آئیں_ آپ نے اس کے بعد_ آپ نے غسل کیا اور وضو کیا اور اسماء سے فرمایا میرے نماز کے کپڑے لے آؤ اور خوشبو بھی لے آؤ_

جناب اسماء نے لباس حاضر کیا آپ نے وہ لباس پہنا اور خوشبو لگائی اور قبلہ رخ ہو کر اپنے بستر پر لیٹ گئیں اور اسماء سے فرمایا کہ آرام کرتی ہوں تھوڑی دیر___ بعد مجھے آواز دینا اگر میں نے جواب نہ دیا تو سمجھ لینا کہ میں دنیا سے رخصت ہوگئی ہوں اور علی (ع) کو بہت جلدی اطلاع دے دینا، اسماء کہتی ہیں کہ میں تھوڑی دیر صبر کیا اور پھر میں کمرے کے دروازے پر آئی جناب فاطمہ (ع) کو آواز دی لیکن جواب نہ سنا تب میں نے لباس کو آپ کے چہرے سے ہٹایا تو دیکھا آپ د نیا سے گزر گئی ہیں_ میں آپ کے جنازے پر گرگئی آپ کو بوسہ دیا اور روئی اچانک امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) وارد ہوگئے اپنی والدہ کی حالت پوچھی اور کہا کہ اس وقت ہماری ماں کے سونے کا وقت نہیں ہے میں نے عرض کی اے میرے عزیز و تمہاری ماں دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں_

۲۲۶

امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) ماں کے جنازے پر گرگئے بوسہ دیتے اور روتے جاتے، امام حسن (ع) کہتے تھے اماں مجھ سے بات کیجئے، امام حسین (ع) کہتے تھے اماں جان میں تیرا حسین (ع) ہوں قبل اس کے میری روح پرواز کرجائے مجھ سے بات کیئجے، جناب زہرا (ع) کے یتیم مسجد کی طرف دوڑے تا کہ باپ کو ماں کی موت کی خبردیں، جب جناب زہراء (ع) کی موت کی خبر علی (ع) کی ملی تو آپ نے شدت غم اور اندوہ سے بیتاب ہوکر فرمایا_ پیغمبر(ص) کی دختر آپ میرے لئے سکون کا باعث تھیں، اب آپ کے بعد کس سے سکون حاصل کروں گا؟(۱)

آپ کا دفن اور تشیع جنازہ

جناب زہراء (ع) کے گھر سے رونے کی آواز بلند ہوئی اہل مدینہ کو علم ہوگیا اور تمام شہر سے رونے اور گریہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں لوگوں نے حضرت علی (ع) کے گھر کا رخ کیا، حضرت علی (ع) بیٹھے ہوئے تھے جناب امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) آپ کے اردگرد بیٹھے گریہ کر رہے تھے_ جناب ام کلثوم روتی اور فرماتی تھیں یا رسول اللہ (ص) گویا آپ ہمارے پاس سے چلے گئے لوگ گھر کے باہر اجتماع کئے ہوئے تھے اور وہ حضرت زہراء (ع) کے جنازے کے باہر آنے کے منتظر تھے، اچانک جناب ابوذر گھر سے باہر نکلے اور کہا لوگو چلے جاؤ کیونکہ جنازے کی تشیع میں دیر کردی گئی ہے(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۶_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۲۲۷

جناب ابوبکر اور عمر نے حضرت علی (ع) کو تعزیب دی اور عرض کیا یا اباالحسن مبادا ہم سے پہلے جناب فاطمہ (ع) پر نماز پڑھیں(۱) _

لیکن حضرت علی (ع) نے اسماء کے ساتھ مل کر اسی رات جناب زہراء (ع) کو غسل و کفن دیا، جناب زہرا کے چھوٹے چھوٹے بچے جنازے کے اردگرد گریہ کر رہے تھے، جب آپ غسل و کفن سے فارغ ہوگئے تو آواز دی اے حسن (ع) و حسین (ع) اے زینب و ام کلثوم آو ماں کو وداع کرو کہ پھر ان کو نہ دیکھ سکو گے، جناب زہراء (ع) کے یتیم، ماں کے نازنین جنازے پر گرے اور بوسہ دیا اور روئے_ حضرت علی (ع) نے ان کو جنازے سے ہٹایا(۲) _

جنازے پر نماز پڑھی اور جناز اٹھایا، جناب عباس، فضل، مقداد، سلمان، ابوذر، عمار، حسن (ع) اور حسین (ع) ، عقیل، بریدہ، حذیفہ، ابن مسعود جنازے کی تشیع میں شریک ہوئے(۳) _

جب تمام آنکھیں ہو رہی تھیں اندھیرے میں جنازے کو آہستہ آہستہ اور خاموشی کے ساتھ قبر کی طرف لے گئے تا کہ منافقین کو علم نہ ہوجائے اور دفن کرنے سے روک نہ دیں، جنازے کو قبر کے کنارے زمین پر رکھا گیا_ امیرالمومنین حضرت علی (ع) نے خود اپنی بیوی کے نازنین جسم کو اٹھایا اور قبر میں رکھ دیا اور قبر کو فوراً بند کردیا(۴) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۹_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۷۹_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۲۲۸

حضرت علی (ع) جناب زہراء (ع) کی قبر پر

جناب زہراء (ع) کے دفن کو مخفی اور بہت سرعت سے انجام دیا گیا تا کہ دشمنوں کو اطلاع نہ ہو اور وہ _ آپ کے دفن میں مانع نہ ہوں لیکن جب حضرت علی (ع) جناب زہراء (ع) کے دفن سے فارغ ہوئے آپ پر بہت زیادہ غم و اندوہ نے غلبہ کیا آپ نے فرمایا اے خدا کس طرح میں نے پیغمبر (ص) کی نشانی کو زمین میں دفن کیا ہے، کتنی مہربان بیوی، باصفا، پاکدامن اور فداکار کو اپنے ہاتھ سے دے بیٹھا ہوں خدایا اس نے میرا دفاع کرنے میں کتنے مصائب برداشت کئے ہیں کتنی میرے گھر میں زحمت اٹھائی ہے_ آہ زہراء (ع) کا اندرونی درد افسوس ان کے ٹوٹے ہوئے پہلو پر اور ان کے ورم کئے ہوئے بازو پر ان کے ساقط شدہ بچے پر، اے میرے خدا میری امید تھی کہ آخری زندگی تک اس مہربان بیوی کے ساتھ گزاروں گا لیکن افسوس اور صد افسوس کو موت نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی ہے_ آہ میں زہراء (ع) کے یتیم چھوٹے بچوں کا کیا کروں؟

رات کے اندھیرے میں آپ جناب رسول خدا (ص) کی قبر کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کی سلام ہو آپ پر اے رسول خدا (ص) میری طرف سے اور آپ کی پیاری دختر کی طرف سے جو ابھی آپ کی خدمت میں پہنچنے والی ہے اور آپ کے جوار میں دفن ہوئی ہے اور سب سے پہلے آپ سے جاملی ہے، یا رسول اللہ میرا صبر ختم ہوگیا ہے لیکن اس کے سوا چارہ بھی نہیں ہے، جیسے آپ کی مصیبت پر صبر کیا ہے زہراء کے فراق پر بھی صبر کروں گا

۲۲۹

یا رسول اللہ (ص) آپ کی روح میرے دامن میں قبض کی گئی میں آپ کی آنکھوں کو بند کرتا تھا میں تھا کہ جس نے آپ کے جسم مبارک کو قبر میں التارا ہاں صبر کروں گا اور پڑھوں گا انا للہ و انا الیہ راجعون، یا رسول اللہ وہ امانت جو آپ نے میرے سپرد کی تھی اب آپ (ص) کے پاس لوٹ گئی ہے_ زہراء (ع) میرے ہاتھ سے چھینی گئی ہے، آسمان اور زمین کی رونق ختم ہوگئی ہے، یا رسول اللہ (ص) میرے غم کی کوئی انتہا نہیں رہی میری آنکھوں سے نیند اڑ گئی ہے میرا غم و اندوہ ختم نہ ہوگا مگر جب کہ میں مروں گا اور آپ (ص) کے پاس پہنچوں گا یہ ایسے غم اور مصائب ہیں جو دل کے زخموں سے پیدا ہوئے ہیں، ہماری باصفا گھریلو زندگی کتنی جلدی لٹ گئی ہیں اپنے دل کے درد کو خدا سے بیان کرتا ہوں_

یا رسول اللہ (ص) آپ کی دختر آپ کو خبر دے گی کہ آپ کی امت نے اتفاق کر کے خلافت کو مجھ سے چھیں لیا اور زہراء (ع) کے حق پر قبضہ کرلیا_ یا رسول اللہ (ص) حالات اور اوضاع کو اصرار سے جناب فاطمہ (ع) سے پوچھنا کیوں کہ ان کے دل میں بہت زیادہ درد موجود ہے جو یہاں ظاہر یہ کرسکیں لیکن آپ سے وہ بیان کریں گی، تا کہ خدا ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان قضاوت کرے_ یا رسول اللہ(ص) آپ کو وداع کرتا ہوں اس لئے نہیں کہ آپ (ص) کی قبر پر بیٹھنے سے تھک گیا ہوں اور آپ سے رخصت ہوتا ہوں، اس لئے نہیں کہ یہاں ملول خاطر ہوگیا ہوں اور اگر آپ (ص) کی قبر پر بیٹھا رہوں تو اس لئے نہیں کہ اللہ تعالی کے اس وعدے پر ''جو صبر کرنے والوں کو دیا گیا ہے'' یقین نہیں رکھتا پھر بھی صبر کرنا تمام چیزوں سے بہتر ہے_

۲۳۰

یا رسول اللہ (ص) اگر دشمنوں کی شماتت کا خوف نہ ہوتا تو آپ (ص) کی قبر پر بیٹھا رہتا اور اس مصیبت عظمی پر روتا رہتا، یا رسول اللہ (ص) ہمارے حالات ایسے تھے کہ ہم مجبور تھے کہ آپ کی بیٹی کو مخفی طور سے رات کی تاریکی میں دفن کریں_ اس کا حق لے لیا گیا اور اسے میراث سے محروم رکھا گیا، یا رسول اللہ (ص) میں اپنے اندرونی درد کو خدا کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اس دردناک مصیبت پر آپ (ص) کو تسلیت پیش کرتا ہوں آپ(ص) پر اور اپنی مہربانی بیوی پر میرا درد رہو(۱) _

حضرت علی (ع) نے دشمنوں کے خوف سے جناب زہراء (ع) کی قبر مبارک کو ہموار کردیا اور سات یا چالیس تازہ قبریں مختلف جگہ پر بنادیں تا کہ حقیقی قبر نہ پہچانی جاسکے(۲) _

اس کے بعد آپ اپنے گھر واپس لوٹ آئے، جناب ابوبکر اور عمر اور دوسرے مسلمان دوسری صبح کو تشیع جنازہ کے لئے حضرت علی (ع) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے، لیکن مقداد نے اطلاع دی کہ جناب فاطمہ (ع) کو کل رات دفن کردیا گیا ہے جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کہا ہیں نے نہیں کہا تھا کہ وہ ایسا ہی کریں گے؟ جناب عباس نے اس وقت کہا کہ خود جناب فاطمہ (ع) نے وصیت کی تھی کہ مجھے رات کو دفن کردیا جائے اور ہم نے آپ(ع) کی وصیت کے مطابق عمل کیا ہے_ جناب عمر نے کہا، کہ بنی ہاشم کی دشمنی اور حسد ختم ہونے والا نہیں میں فاطمہ (ع) کی قبر کو کھودونگا

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۲_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۳_

۲۳۱

اور اس پر نماز پڑھوں گا_

حضرت علی (ع) نے فرمایا اے عمر خدا کی قسم اگر تم ایسا کروگے تو میں تیرا خون تلوار سے بہادوں گا ہرگز اجازت نہیں دوں گا کہ فاطمہ (ع) کے جنازے کو قبر سے باہر نکالاجائے_ جناب عمر نے حالت کو خطرناک پھانپ لیا اور اپنے اس ارادے سے منحرف ہوگئے(۱) _

وفات کی تاریخ

بظاہر اس امر میں شک کی گنجائشے نہیں کہ جناب زہراء (ع) کی وفات گیا رہ ہجری کو ہوئی ہے کیونکہ پیغمبر (ص) دس ہجری کو حجة الوداع کے سفر پر تشریف لے گئے اور گیارہویں ہجری کے ابتدا میں آپ نے وفات پائی مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ جناب فاطمہ (ع) آپ ے بعد ایک سال سے کم زندہ رہیں، لیکن آپ کی وفات کے دن اور مہینے میں بہت زیادہ اختلاف ہے_

دلائل الامامہ کے مولّف اور کفعی نے مصباح یں اور سید نے اقبال م یں اور محدّث قمی نے منتہی الامال میں آپ نے وفات پائی مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ جناب فاطمہ (ع) آپ کے بعد ایک سال سے کم زندہ رہیں، لیکن آپ کی وفات کے دن اور مہینے میں بہت زیادہ اختلاف ہے_

لائل الامامہ کے مولّف اور کفعی نے مصباح میں اور سید نے اقبال م یں اور محدّث قمی نے منتہی الامال میں آپ کی وفات تیسری جمادی الثانی کو بتلائی ہے_

ابن شہر آشوب نے مناقب میں آپ کی وفات تیرہ ربیع الثانی کو بتلائی ہے_

ابن شہر آشوب نے مناقب میں آپ کی وفات تیرہ ربیع الثانی میں بتائی ہے_

ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں اور طبری نے اپنی تاریخ میں

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۹_

۲۳۲

فرمایا ہے کہ جناب زہراء (ع) نے تیسرے رمضان المبارک کو وفات پائی مجلسی نے بحار الانوار میں بھی یہ محمد بن عمر سے نقل کیا ہے_

مجلسی نے ___ بحار الانوار میںمحمد بن میثم سے نقل کیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کی وفات بیس جمادی الثانی کو ہوئی_

محمد تقی سپہر نے ناسخ التواریخ میں ستائیس جمادی الاوّل کو آپ کی وفات بتلائی ہے_

یہ اتنا بڑا اختلاف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اس میں اختلاف ہے کہ حضرت زہرا (ع) باپ کے بعد کتنے دن زندہ رہیں_ / دن: کلینی نے کافی ہیں اور دلائل الامامہ کے مولّف نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) پیغمبر (ص) کے بعد پچہتر دن زندہ رہی ہیں_ سید مرتضی نے عیون المعجزات میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اس قول کی دلیل وہ روایت ہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس بارے میں وارد ہوئی ہے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) ، پیغمبر (ص) کے بعد پچہتر دن زندہ رہیں_ /دن : ابن شہر آشوب نے مناقب میں لکھا ہے کہ فاطمہ (ع) باپ کے بعد بہتر دن زندہ رہیں_

۳ مہینے: ابوالفرج نے مقاتل الطالبین میں لکھا ہے کہ جناب زہرا (ع) کی زندگی میں پیغمبر (ص) کے بعد اختلاف ہے، لیکن آٹھ مہینہ سے زیادہ اور چالیس دن سے کمتر نہ تھی، لیکن صحیح قول وہی ہے کہ جو جعفر صادق علیہ السلام

____________________

۱) اصول کافی، ج ۱ ص ۲۴۱_

۲۳۳

سے روایت ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت زہرا ء (ع) رسول خدا (ص) کے بعد تین مہینے زندہ رہیں(۱) _ اس قول کو صاحب کشف الغمہ نے دولابی سے اور ابن جوزی نے عمر ابن دینار سے بھی نقل کیا ہے_ دن: مجلسی نے بحار الانوار میں جناب فضّہ سے جو جناب زہراء (ع) کی کنیز تھیں اور کتاب روضة الواعظین میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ حضرت زہرا (ع) باپ کے بعد چالیس دن زندہ رہی ہیں شہر ابن آشوب نے مناقب میں اسی قول کو قربانی سے نقل کیا ہے_

۶ مہینے: مجلسی نے بحار الانوار میں امام محمد باقر (ع) سے روایت کی ہے کہ حضرت زہراء (ع) باپ کے بعد چھ مہینے زندہ رہیں، کشف الغمہ میں اسی قول کو ابی شہاب اور زہری اور عائشےہ اور عروہ بن زبیر سے نقل کیا ہے_ ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں ایک قول چھ مہینے سے دس دن کم کا نقل کیا ہے_

۴ مہینے: ابن شہر آشوب نے مناقب میں چہار مہینے کا قول نقل کیا ہے_ دن: امام محمد باقر (ع) سے روایت کی گئی ہے کہ آپ زندہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد پنچانوے دن زندہ رہیں_ دن: ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد ستّر دن زندہ رہیں_

۲ مہینے، ۸ مہینے اور ۱۰۰ دن: مجلسی نے بحار الانوار میں دو مہینے اور آٹھ مہینے اور سو دن کا قول بھی نقل کیا ہے_

____________________

۱) مقاتل الطالبین، ص ۳۱

۲۳۴

پیغمبر (ص) کی وفات کی تاریخ میں بھی اختلاف ہے شیعہ علماء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ آپ کی وفات اٹھائیس صفر کو ہوئی لیکن اہل سنت کے اکثر علماء نے آپ کی وفات کو بارہ ربیع الاوّل کہی ہے اور دوسری ربیع الاوّل بھی گہی گئی ہے_

حضرت زہراء (ع) کا والد کی وفات کے بعد زندہ رہنے میں تیرہ قول ہیں اور جب ان کو جناب رسول خدا (ص) کی وفات کے اقوال کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو پھر جناب فاطمہ (ع) کی وفات میں دن اور مہینے کے لحاظ سے بہت کافی احتمال ہوجائیں گے یعنی تیرہ کو جب تین سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب انتالیس اقوال ہوجائیں گے، لیکن محققین پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ اس معالے میں آئمہ علیہم السلام کے اقوال اور آراء ہی دوسرے اقوال پر مقدم ہوں گے کیوں کہ حضرت زہراء (ع) کی اولاد دوسروں کی نسبت اپنی ماں کی وفات سے بہتر طور باخبر تھی_ لیکن جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے خود آئمہ علیہم السلام کی روایات اس باب میں مختلف وارد ہوئی ہیں اس لئے کہ روایات میں پچہتر دن اور پنچانوے دن اور ستر دن اور تین مہینے اور چھ مہینے بھی وارد ہوئے ہیں_

اگر پیغمبر (ص) کی وفات کو اٹھائیس صفر تسلیم کرلیں اور پھر پچہتر دن کی روایت کا لحاظ کریں تو آپ (ع) کی وفات اس لحاظ سے ۱۳/ اور ۱۵/ جمادی الاوّل کو ہی محتمل ہوگی اور اگر پنچانوے دن کی روایت کا لحاظ کریں تو پھر تیسری یا پانچویں جمادی الثانی کو آنحضرت کی وفات ممکن ہوگی_

اسی طرح آپ خود حساب کرسکتے ہیں اور جو احتمال بن سکتے ہیں انہیں معلوم کرسکتے ہیں_

جناب زہراء (ع) کی عمر کے بارے میں بھی ۱۸، ۲۸، ۲۹، ۳۰، ۳۵ سال

۲۳۵

جیسے اختلافات موجود ہیں اور چونکہ پہلے ہم اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں لہذا یہاں دوبارہ تکرار کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہیتی_

جناب فاطمہ (ع) کی قبر مبارک

ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ خود جناب فاطمہ (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ آپ کی قبر مخفی رہے اسی لئے حضرت علی (ع) نے آپ (ص) کو رات کی تاریکی میں دفن کیا اور آپ کی قبر کو زمین سے ہموار کردیا اور چالیس تازہ قبروں کی صورت بنادی تا کہ دشمن اشتباہ میں رہیں اور آپ کی حقیقی قبر کی جگہ معلوم نہ کرسکیں گرچہ خود حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد اور خاص اصحاب اور رشتہ دار آپ کی قبر کی جگہ جانتے تھے_ لیکن انہیں جناب زہراء (ع) کی شفارش تھی کہ قبر کو مخفی رکھیں لہذا ان میں سے کوئی بھی حاضر نہ ہوتا تھا کہ آپ (ع) کی قبر کی نشاندہی کرتا یہاں تک کہ ایسے قرائن اور آثار بھی نہیں چھوڑے گئے کہ جس سے آپ کی قبر معلوم کی جاسکے_ آئمہ طاہرین یقینی طور سے آپ کی قبر سے آگاہ تھے لیکن انہیں بھی اس کی اجازت نہ تھی کہ وہ اس راز الہی کو فاش اور ظاہر کریں لیکن اس کے باوجود اہل تحقیق نے اس کی جستجو میں کمی نہیں کی اور ہمیشہ اس میں بحث و گفتگو کرتے رہے لہذا بعض قرائن اور امارات سے آپ کے دفن کی جگہ کو انہوں نے بتلایا ہے_

۱_ بعض علماء نے کہا ہے کہ آپ جناب پیغمبر (ص) کے روضہ میں ہی دفن ہیں_ مجلسی نے محمد بن ہمام سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (ع) نے جناب فاطمہ (ع) کو رسول (ص) کے روضہ میں دفن کیا ہے لیکن قبر کے آثار کو بالکل

۲۳۶

مٹادیا_ نیز مجلسی نے جناب فضہ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے کہا کہ جناب فاطمہ (ع) کی نماز جنازہ روضہ رسول میں پڑھی گئی اور آپ کو رسول (ص) کے روضہ میں ہی دفن کردیا گیا_

شیخ طوسی نے فرمایا ہے کہ بظاہر جناب فاطمہ (ع) کو جناب رسول خدا (ص) کے روضہ میں ی اپنے گھر میں دفن کیا گیا ہے اس احتمال کے لئے مزید دلیل جولائی جاسکتی ہے وہ وہ روایت ہے کہ جو رسول خدا (ص) سے نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے(۱) _

دوسری دلیل یہ ہے کہ لکھا ہے کہ حضرت علی (ع) نے روضہ پیغمبر پر فاطمہ (ع) کی نماز پڑھی اور اس کے بعد پیغمبر کو مخاطب کیا اور فرمایا میرا اور آپ کی دختر کا آپ پر سلام ہو جو آپ کے جوار میں دفن ہے_

۲_ مجلسی نے ابن بابویہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ بات صحیح ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو اپنے گھر میں دفن کیا تھا اور جب بنی امیہ نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو جناب فاطمہ (ع) کی قبر مسجد میں آگئی_ مجلسی نے محمد ابن ابی نصر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے جناب ابوالحسن (ع) سے پوچھا کہ جناب فاطمہ (ع) کی قبر کہاں ہے تو آپ نے فرمایا کہ اپنے گھر میں مدفون ہیں اور بعد میں مسجد میں آگئی ہیں جب مسجد کی توسیع کی گئی _

۳_ صاحب کشف الغمہ لکھتے ہیں کہ مشہور یہی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو بقیع میں دفن کیا گیا_ سید مرتضی نے بھی عیون المعجزات میں یہی قول اختیار کیا ہے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۸۵_

۲۳۷

ابن جوزی لکھتے ہیں کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) بقیع میں مدفون ہیں یہ مطلب شاید اس لئے سمجھا گیا ہو کہ حضرت علی (ع) نے چالیس تازہ قبریں بقیع میں بنائی تھیں اور جب بعض نے ان قبروں میں جناب فاطمہ (ع) کے جنازے کو نکالنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی (ع) خشمناک اور غصّے میں آگئے تھے اور انہیں قتل کرنے کی دھمکی بھی دے دی تھی پس معلوم ہوتا ہے کہ ان قبروں میں سے ایک قبر جناب زہراء (ع) کی تھی_

۴_ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ بعض نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو عقیل کے گھر کے قریب دفن کیا گیا تھا آپ کی قبر سے راستے تک سات ذرع کا فاصلہ ہے_ عبداللہ بن جعفر نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب فاطمہ (ع) کی قبر عقیل کے گھر کے قریب واقع ہے_ ان چار احتمالات میں سے پہلا اور دوسرا احتمال ترجیح رکھتا ہے_

۲۳۸

حصّہ ہفتم

حضرت زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف اور اس کی تحقیق

۲۳۹

واقعہ فدک اور جناب زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف و نزاع صدر اسلام سے لے کر آج تک ہمیشہ علماء اور دانشمندوں کے درمیان مورد بحث و تحقیق رہا ہے_ اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں ان تمام مباحث کا ذکر کرنا جب کہ اس کتاب کی غرض جناب فاطمہ (ع) کی زنگی کے ان واقعات کی تشریح کرنے ہے جو لوگوں کے لئے عملی درس ہوں، بہت زیادہ مناسبت نہیں رکھتا اور اہم پہلے سادہ اور مختصر طور پر اس کی طرف اشارہ بھی کرچکے ہیں لیکن پڑھے لکھے لوگ ایک سطح کی معلومات نہیں رکھتے بلکہ ان میں بعض حضرات محقق ہوا کرتے ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ اس حساس اور مہم موضوع پر جو صدر اسلام سے مورد بحث رہا ہے زیادہ تحقیق اور دقت کی جانی چاہیئے اور اس واقعہ کو علمی لحاظ سے مورد بحث اور تحقیقی لحاظ سے ہونا چاہیئے لہذا اہم اس حصے کو سابقہ بحث کی بہ نسبت تفصیل سے بحث کرنے کے لئے اس موضوع میں وارد ہو رہے ہیں تا کہ اس موضوع پر زیادہ بحث کی جائے_

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279