اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات0%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 279
مشاہدے: 50481
ڈاؤنلوڈ: 3867

تبصرے:

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50481 / ڈاؤنلوڈ: 3867
سائز سائز سائز
اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس نے کہا: ہاں۔ آںحضرت(ص) کی حیات کے زمانہ میں جائز تھی۔ لیکن وفات کے بعد نہیں۔

ہم نےکہا: الحمد اللہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہابیت نے وسیلہ کا اعتراف کیا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

میں نے کہا: اجازت دیجئے تو اب میں یہ بھی کہتا ہوں کہ وفات پیغمبر(ص) کے بعد بھی وسیلہ جائز ہے۔

وہابی نےکہا: قرآن سے دلیل پیش کرو۔

میں نے کہا: آپ تو محال کی فرمایش کررہے ہیں۔ اس لیے کہ وفات پیغمبر(ص) کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوگیا۔ لہذا احادیث کی کتابوں سے استدلال پیش کروں گا۔

اس نے کہا : ہم حدیث قبول نہیں کرتے۔ مگر یہ کہ صحیح ہو اور جو کچھ شیعہ نقل کرتے ہیں اس کی کوئی قیمت نہیں۔

میں نے کہا: کیا آپ صحیح بخاری کو قبول کرتے ہیں؟ وہی کتاب جو آپ کے یہاں قرآن کے بعد سب سے معتبر کتاب ہے۔

وہ تعجب سے کہنے لگا: کیا بخاری وسیلہ کو جائز سمجھتے ہیں؟

ہم نے کہا: ہاں! لیکن افسوس کہ آپ لوگ خود اپنی کتب صحاح نہیں پڑھتے اور خود اپنے نظریوں سے تعصب برتتے ہیں۔ بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ جب بھی قحط پڑتا، حضرت عمر بن خطاب، عباس بن عبدالمطلب کے پاس آتے اور آپ سے طلب باران کے لیے کہتے اور خود بھی کہتے: پروردگارا ہم آںحضرت(ص)

۱۸۱

 کے زمانہ میں آںحضرت(ص) کو وسیلہ قرار دے کر تجھ سے طلب کرتے تھے اور تو بھی ہم پر بارش نازل کرتا تھا۔ آج رسول(ص) کے چچا کے وسیلہ بناتا ہوں پس ہم پر بارش نازل کر۔ راوی کہتا ہے کہ پس خدا ان پر بارش نازل کرتا تھا۔

                        (صحیح بخاری، ج۵، ص۲۵، کتاب بدء الخلق۔ باب مناقب جعفر بن ابی طالب)۔

پھر ہم نے کہا: یہ ہیں عمر بن خطاب ! جو کہ آپ کے درمیان سب سے بزرگ و برتر صحابی رسول(ص) ہیں اور ان کے عقیدہ و ایمان کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کرتے اس لیے کہ خود آپ کہتے ہیں:

اگر آںحضرت(ص) کے بعد کوئی پیغمبر ہوتا وہ عمر بن خطاب تھے اور آپ اس وقت دو باتوں کےدرمیان مجبور ہیں کہ کسی ایک کو قبول کریں۔ یا یہ کہ وسیلہ و توسل دین اسلام کا اہم جزو ہے اور حضرت عمر بن خطاب کا رسول اور رسول(ص)  کے چچا سے توسل کرنا صحیح تھا یا پھر یہ کہئے کہ حضرت عمر مشرک ہیں۔ اس لیے کہ عباس بن عبدا لمطلب کو اپن اوسیلہ بنایا جب کہ عبس نہ پیغمبر  ہیں نہ امام حتی کہ اہل بیت(ص) میں بھی داخل نہیں ہیں۔ جن سے خدا نے ہر قسم کی پلیدی و کثافت کو دور کیا  اس کے علاوہ وہ آپ کے یہاں بخاری امام المحدثین  ہیں اور انھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس کی صحت کا اقرار کیا ہے۔ اور یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ  جب بھی قحط پڑتا تھا وہ حضرت عباس  سے متوسل پس خدا ان پر بارش نازل کرتا تھا۔ یعنی خداوند عالم ان کی دعا کو مستجاب کرتا تھا۔ پس بخاری اور صحابہ میں وہ محدثین جنھوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے سبھی اہلسنت والجماعت ہیں یہ سب مشرک  ہیں؟

وہابی نےکہا: اگر یہ حدیث صحیح ہے تو یہ تیرے برخلاف دلیل ہے نہ کہ تیرے حق میں۔

میں نے کہا : کس طرح؟

۱۸۲

کہنےلگا : اس لیے کہ حضرت عمر نے رسول(ص) سے توسل نہ کیا اس لیے کہ وہ مرچکے تھے بلکہ عباس کو وسیلہ بنایا اور وہ زندہ تھے۔

میں نے کہا: میں عمر بن خطاب کے قول و عمل کے لیے کسی قدر وقیمت کا قائل نہیں ہوں۔ اور ہرگز اسے اپنے لیے دلیل نہیں بناتا لیکن اس روایت کو پیش کیا تاکہ موضوع بحث پر استدالال  کروں۔ البتہ میں پوچھتا ہوں کہ کیوں عمر بن خطاب نے قحط کے زمانے میں علی بن ابی طالب(ع) سے توسل نہ کیا۔ جن کی منزلت رسول(ص) کے نزدیک ایسی تھی جیسی ہارون(ع) کی موسی(ع) کے نزدیک اور مسلمانوں میں کسی نے نہیں کہا کہ عباس بن عبدالمطلب علی(ع) سے افضل ہیں۔ لیکن یہ ایک دوسرا موضوع ہے جس کی بحث کی گنجائش یہاں نہیں ہے۔ صرف اس پر اکتفاء کرتا ہوں کہ آپ کہتے ہیں کہ زندوں سے توسل جائز ہے۔ اور یہی ہمارے لیے بڑی کامیابی ہے خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے ہماری دلیل کو قاطع قرار دیا اور آپ کی دلیل کو باطل کیا اور جب ایسا ہے تو میں آپ لوگوں کے حضور میں توسل کرتا ہوں۔

اس وقت میں بیٹھا تھا فورا اٹھا اور رو بہ قبلہ ہوکر کہنے لگا: پروردگار میں تجھ سے دعا گو ہوں اور تجھ سے تیرے صالح و نیک بندے امام خمینی(رح) کو وسیلہ قرار دے کر قربت چاہتا ہوں۔

اچانک وہابی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تعجب و غصے کے ساتھ اعوذ باللہ! اعوذ باللہ! کہتا ہوا تیزی سے باہر چلا گیا۔

حاضرین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیسا بد بخت آدمی تھا کس درجہ ہم سے بحث کرتا تھا اور ہم پر تنقید کرتا تھا اور ہم خیال کرتے تھے ذی علم آدمی ہے لیکن پتہ چلا کوڑی کا بھی نہیں ہے۔

ان میں سے ایک نے کہا«انالله وانا الیه راجعون» پروردگار! تیری

۱۸۳

طرف پلٹا ہوں اور تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور ہم سے کہنے لگا۔ اس کی بات کس درجہ ہم پر اثر کرتی تھی۔ حتی کہ آج بھی میں نے اس کی بات کو پسند کیا تھا کہ توسل خدا کی نسبت شرک ہے اور اگر میں اس جلسہ میں حاضر نہ ہوتا تو اسی گمراہی پر باقی رہتا۔ ( خدا کا شکر)

اے رسول(ص) کہہ دیجئے حق آیا  اور باطل گیا بے شک باطل مٹ جانے والا ہے۔ (اسراء/۸۱)

۱۸۴

وہابیت پر رسول خدا(ص) کی رد

اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ قرآن نے خدا اور بندہ کے درمیان وساطت و وسیلہ کا اقرار کیا ہے اور اسے حرام نہیں سمجھا ہے اور نہ ہی رسول خدا(ص) نے اسے ممنوع قرار دیا ہے بلکہ اسے مباح و مستحب سمجھا ہے۔ قرآن نے پیغمبر(ص) کے قول و فعل کو ہمارے لیے حجت او اسوہ قرار دیا ہے تاکہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس کی پیروی کریں اور ترقی پائیں۔

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

 اور بے شک عمل رسول(ص) تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ ( احزاب/ ۲۱)

اس طرح ہم اقوال و افعال رسول خدا(ص) کے ذریعہ استدلال کریں گے ۔ اور اس استدلال میں نہ تو شیعہ کتابوں کی طرف رجوع کریں گے اور نہ ہی کتب اہل سنت کی طرف رجوع کریں گے بلکہ صرف اور صرف صحیح بخاری کی روایتوں پر تکیہ کریں گے تاکہ وہابیت پر رد مضبوط اور قوی ہو۔ جس کے بعد اگر وہ با انصاف ہیں تو بات نہیں کرسکتے۔ ورنہ بلاشبہ ان کی دشمنی اور اندھا تعصب انھیں لوگوں کے درمیان خود ہی رسوا اور خوار کردے گا۔

اب جب کہ ہم کتاب وسنت کےذریعہ توسل کے جواز اور اس کی شرعی حیثیت کو ثابت کرچکے ہیں تو ایک دوسرے مسئلہ پر بحث کرتے ہیں جو وہابیت کی نظر میں بہت ہی برا اور ممنوع ہے۔ اور وہ شفا اور حاجتوں کے پوری ہونے کی غرض سے متبرک چیزوں کو چومنا اور مس کرنا ہے۔

اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حجاج بیت اللہ کو آںحضرت(ص) کی ضریح پ رہاتھ پھیرنے اور بوسہ دینے پر مارا جاتا ہے اور مشرک کا الزام لگایا جاتا ہے۔

۱۸۵

موئے مبارک رسول خدا(ص) کا احترام

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحابہ کاعمل وہابیوں کےلیے حجت ہے اس لے کہ وہابی تمام صحابہ کی عدالت کے معتقد ہیںِ بلکہ ان کا دعوی تو یہ ہے کہ وہ صحابہ کے آثار کی پیروی و اتباع کرتے ہیں اور خود کو سلفی کہتے ہیں۔ یعنی وہ سلف صالح کی پیروی کرتے ہں اور تمام صحابہ کو صالح اور نیک سمجھتے ہیں۔

بخاری نے اپنی  صحیح میں مالک بن اسماعیل سے اور انھوں نے اسرائیل سے اور انھوں نے نےعاصم سے اور انھوں نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے کہ میں نے عبیدہ سے کہا: رسول خدا(ص) کے موئے مبارک ہمارے پاس ہیں جو انس سے یا انس کے خاندان کےذریعہ ہم تک پہنچے ہیں،( عبیدہ نے ) کہا:

اگر آںحضرت(ص) کا ایک بال بھی ہمارے پاس ہو تو دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ ( صحیح بخاری، ج ۱،ص۴۵۔ کتاب الوضوء)

اس طرح بخاری نے محمد بن عبدالرحیم سےنقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سعید بن سلیمان نے اور انھوں نے عقاد سے اور انھوں نے ابن عون سے اور انھوں نے ابن سیرین سے اور انھوں نے انس سے نقل کیا ہے کہ (جس وقت رسول خدا(ص)  نے اپنے سر کے بال بنوائے تو ابوطلحہ سب سے پہلے شخص تھے جنھوں نے آںحضرت(ص) کے کچھ بال اٹھالئے)۔ (صحیح بخاری، ج۱، ص۵۴، کتاب الوضوء)

پس اگر انس بن مالک ، رسول خدا(ص) کے صحابی، آںحضرت(ص)  کے موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں اور اس کو بطور ہدیہ اپنے دوستوں اور رشتہ

۱۸۶

داروں کو پیش کرتے ہیں اور اگر وہ صحابی کہتا ہے کہ اگر نبی(ص) کا ایک بال میرے پاس ہوتو میرے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہے تو خدا کی قسم یہ اس بات پر ایک واضح دلیل ہے کہ اصحاب رسول(ص) آںحضرت(ص)  کی چیزوں سے برکت حاصل کرتے تھے۔ اور یہ وہابیت کے اوپر رد ہے۔ جو رسول خدا(ص) کے آثار سے برکت حاصل کرنے کی وجہ سے حاجیوں اور خانہ خدا کے زائروں کو کوڑے مارتے ہیں اور ان کی اہانت کرتے ہیں۔

میں نے اپنی کتاب ( پھر میں ہدایت پاگیا) میں اس دلچسپ  واقعہ کو نقل کیا ہے کہ جس وقت ایک شیعہ عالم دین ( علی شرف الدین) نے سعودی بادشاہ کو ایک قرآن ہدیہ میں دیا تو بادشاہ نے قرآن کی جلد کو چوما اور تعظیم کےلیے اپنے چہرہ پر رکھا۔

اس پر شیعہ عالم دین بولے: قرآن کی جلد کو کیوں چومتے ہو اور اسے کیوں بوسہ دیتے ہو؟

بادشاہ نے کہا: کیا آپ نے نہیں کہا کہ اس میں قرآن ہے؟

شیعہ عالم نے کہا: قرآن اس کے اندر ہے اور تم نے تو قرآن کو بوسہ نہیں دیا؟

بادشاہ نےکہا: قرآن کی جلد کو بوسہ دینے سے ہماری مراد وہی قرآن ہے جو جلد کے اندر ہے۔

تو اس شیعہ عالم نے کہا: ہم لوگ جب نبی(ص) کی ضریح کی جالیوں کو بوسہ دیتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ یہ لوہا ہے اور نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن ہمارا مقصد ان جالیوں کے اندر قبر رسول(ص) ہے۔

۱۸۷

بعد وفات آںحضرت(ص) کے آثار کا احترام

میں نے اس موضوع پر اہل سنت کی کتابوں میں بیس سے زیادہ روایتیں دیکھی ہیں۔ جن میں آثار رسول(ص) کو تمام صحابہ اور بالخصوص خلفاء نے متبرک قرار دیا ہے۔ لیکن چونکہ میں ںے وعدہ کیا ہے کہ بخاری کی صرف ایک یا دو روایت پر اکتفا کروں گا۔ اور خود بخاری کے اس کی روایات میں دقت سے کام لیا ہے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں رسول (ص) کی زرہ، آپ کے عصاء آپ کے تلوار، آپ کے گلاس، آپ کی انگوٹھی اور آپ کے بعد خلفا جن چیزوں سے استفادہ کرتے تھے، اسی طرح آنحضرت(ص) کے موئے مبارک، نعلین اور ظروف اور آپ کی وفات کے بعد اصحاب نے آپ کی جن چیزوں کو متبرک قرار دیا ہے، اس ذیل میں پورا ایک باب ان سے مخصوص قرار دیا ہے۔

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں زبیر سے نقل کیا ہے کہ ہم نے روز بدر عبیدہ بن سعید بن عاص سے ملاقات کی۔ اس نے آہنی لباس پہن کر بلاتے تھے۔ اس نے کہا:

میں ابو ذات کرش ہوں میں نے بھی اس پر حملہ کیا اور ہاتھ کی چھڑی جس کے آخر میں تیز لوہا لگا ہوا تھا اس کی آنکھ میں دے ماری اور اسے قتل کر ڈالا۔

ہشام کہتے ہیں:

زبیر کا بیان ہےکہ میں نے اسے اپنے پیروں تلے لاکر دبایا اور پوری

۱۸۸

قوت سے اس چھڑی کو باہر کھینچا۔ اسکے دونوں کنارے ٹیڑھے ہوگئے تھے۔ عروہ نے کہا میں نے اسے آںحضرت(ص) سے مانگا، پس آںحضرت(ص) نے اسے دے دیا۔ اور جس وقت آںحضرت(ص) نے وفات فرمائی تو حضرت ابوبکر نے اسے مانگ لیا اورجس وقت حضرت ابوبکر دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت عمر نے طلب کر لیا ان کے مرنےکے بعد حضرت عثمان نے مانگا اور انھیں دے دی گئی۔ لیکن حضرت عثمان کے قتل کے بعد خاندان علی(ع) کے پاس آگئی۔ پھر عبداللہ بن زبیر نے مانگا اور انھیں دے دی گئی اور انھیں کے پاس تھی یہاں تک کہ وہ بھی قتل کردیئے گئے۔

ایک ضروری وضاحت

اس روایت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خود رسول خدا(ص) نےزبیر کے اس عصا کا احترام کیا جس سے زبیر جنگ میں طاقتور دشمنوں کو قتل کیا کرتے تھے، ابو عبیدہ بن سعید بن عاص، جس نے زرہ پہن رکھی تھی تاکہ تلوار اور نیزہ سے محفوظ رہے اور سوائے آنکھوں کے کوئی حصہ دکھائی نہ دیتا تھا لیکن زبیر نے عصاکے ذریعہ اس کی آنکھ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا اور پھر پوری قوت لگا کر اسے باہر نکالا۔

سچ یہ تو بڑاعجیب و غریب عصا ہے۔ کہیں عصائے حضرت موسی(ع) کی نسل سے تو نہیں ہے۔ جس کو موسی(ع) نے دریائے نیل پر مارا تھا اور اسی کے مارنے سے بارہ چشمے بھی پھوٹ پڑے تھے۔ سبحان اللہ!

پھر تو تعجب کی  جگہ نہیں کہ پیغمبر(ص) اس کو زبیر سے مانگیں تاکہ اس سے تبرک حاصل کریں یا پھر وہ چاہتے تھے اس احترام کے جواز کو سمجھائیں اور یہی احتمال قوی ہے۔ خصوصا اس وقت جب کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ آںحضرت(ص)  کے بعد تمام خلفاء نے وہ عصا طلب کیا اور ان کی عمر کے آخری لمحہ تک ان کے ساتھ رہا۔ اور بالاخرہ عبداللہ بن زبیر کو واپس مل گیا۔ اور وہ اس کے زیادہ مستحق تھے کیونکہ وہ ان

۱۸۹

کے باپ کے میراث شمار ہوتا تھا۔

بہر حال قرآن مجید میں ایسے بہت سے اشارے موجود ہیں جو انبیاء و مرسلین اور ان سے مربوط اشیاء کے احترام سے متعلق ہیں۔

قرآن مجید میں آیا ہے کہ:

موسی(ع) نے سامری سے کہا: تو نے یہ کیسا فتنہ پھیلا دیا؟

سامری نے کہا: میں نے حق کے رسول(حضرت جبرائیل(ع)) کے قدم کے کچھ اثرات دیکھے۔ جسے دوسروں نے نہیں دیکھا لہذا میں نے اسے اٹھا کر گوسالہ میں ڈال دیا اور مجھے اس پر میری نفسانی خواہش نے آمادہ کیا۔ (طہ/ ۹۵ـ۹ 6 )

جس چیز کو دوسروں نے نہیں دیکھا اور سامری نے دیکھا، شاید اسی وجہ سے اس نے فرشتہ کے قدم کے بچے ہوئے آثار سے معجزہ پیش کر دیا۔ لہذا اس نے جبرائیل کے قدموں کی مٹی اٹھالی اور اس کو گوسالہ میں ڈال کر بنی اسرائیل کو گوسالہ کی عبادت کی طرف پلٹانا چاہا اور اس داستان میں تاکید ہوئی ہے کہ اس کی بعض کرامتوں اور معجزات سے جس کی بنی اسرائیل پیروی کرتے تھے مغرور ہوگئے تھے۔

قرآن مجید میں انبیاء کے آثار سے  تبرک و شفا حاصل کرنے کے مزید اشارے موجود ہیں چنانچہ سورہ یوسف میں ملتا ہے کہ :

حضرت یوسف(ع) نے کہا:

میرا کرتا اپنے ساتھ لے جاؤ اور میرے باپ کے چہرہ پر ڈال دینا تاکہ وہ پھر بینا ہوجائیں اور جس وقت بشیر نے آکر کرتے کو باپ کے چہرہ پر ڈالا تو اچانک والد بزرگوار ( حضرت یعقوب(ع)) کی آنکھوں کی روشنی واپس آگئی۔ اور وہ ان سے کہنے لگے۔ کیا ہم نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اپنے رب کی جانب سے وہ چیز جانتا ہوں جسے تم

۱۹۰

نہیں جانتے۔ (یوسف/ ۹۳ـ۹ 6 )

ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت یعقوب(ع) نے اپنی بینائی کھودی تھی اور حضرت یوسف(ع) نے بشیر سے جس طرح اور جو کہا وہی ہوا۔

گرچہ ہم اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت یعقوب(ع) کی بینائی کو خداوند عالم یوسف(ع) کے کرتے  کے بغیر بھی پلٹا سکتا تھا اور وہ معبود اس بات پر قادر تھا کہ حضرت موسی(ع) کے عصا مارے بغیر پتھروں سے چشمہ جاری کر سکتا تھا۔ اور اسی طرح اس بات پر بھی قادر تھا کہ وہ گائے (کہ جس کو ذبح کرنے کا بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا) کے بعض حصوں کو مردہ پر ڈالے  بغیر مردہ کو زندہ کردے۔

لیکن خداوند عالم نے ان تمام کاموں کے لیے وسیلہ قرار دیا تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ خدا کی خلقت کےدرمیان وسیلہ و واسطہ اس کی سنت ہے اور ہرگز شرک نہیں ہےجیسا کہ وہابیت مدعی ہے۔

یہ ہماری کتاب ہے جو تم سے حق کہتی ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اسے ہم لکھتے ہیں پس جو ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے ان کو پروردگار عالم اپنی رحمت میں شامل کرلے گا۔ اور یہ واضح کامیابی ہے۔ لیکن جو کافر ہوگئے۔ تو کیا ہماری آیات تمہارے لیے تلاوت نہ کی جاتی تھیں پھرکیوں گناہ کیا؟ اور متکبر ہوگئے( بلاشبہ) تم ظلم کرنے والا گروہ بن گئے۔ ( جاثیہ/ ۳۱ـ۲۹)

۱۹۱

پیغمبر(ص) تبرک اور احترام کو جائز سمجھتے ہیں!

بعض منکرین کا یہ کہنا کہ متبرک چیزوں سے برکت حاصل کرنا بدعت ہے اور اس کے موجد بعض اصحاب یا تابعین ہیں۔ اس مقولہ کا فریب نہ کھانا چاہئے۔ اس لیے کہ یا تو وہ حقائق سے نا بلد ہیں یا پھر نئے مذہب وہابیت کی وجہ سے تعصب کرتے ہیں۔

مذہب وہابیت خود بدعت سے اور کیا ہی بڑی بدعت ہے! یہ کیسا مذہب ہے جو ایک جھوٹے اور باطل شبہ کی بنیاد پر مسلمانوں پر شرک کی تہمت لگاتا ہے؟

رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب کو متعدد مقامات پر برکت حاصل کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور اس کی موافقت فرمائی ہے بلکہ اسے تو مستحب جانا ہے۔ لہذا صحابہ آںحضرت(ص) کے بعد ان کی چیزوں سے تبرک حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں آدم سے نقل کیا ہے کہ شعبہ نے کہا کہ حکم نے ہم سے بیان کیا کہ میں نے سنا ابو جحیفہ نے کہا:

ایک گرم دن میں  ظہر کے وقت رسول خدا(ص) ہمارے پاس تشریف لائے، پانی لایا گیا کہ حضرت(ص) وضو فرمائیں، آںحضرت(ص) نے وضو کیا، آںحضرت(ص) کے وضو کرنے کے بعد بہت سے لوگوں نے اس پانی کو لیا اور اپنے سر اور چہرے پر ملا۔

پیغمبر(ص) نے ظہر کی نماز دو رکعت اور عصر کی نماز دو رکعت پڑھی جب کہ آںحضرت(ص) کے سامنے عصا رکھا ہوا تھا، ابوموسی کہتے ہیں: پیغمبر(ص) نے

۱۹۲

پانی مانگا۔ اور آپ(ص) کے لیے ایک برتن میں پانی لایا گیا، آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ منہ اس سے دھویا اور آب دہن اس برتن میں ڈال دیا اور پھر ان دونوں سے فرمایا : اس پانی کو پیو اور اپنے سینے اور چہرے پر ملو۔

بخاری نے اپنی صحیح میں ایک دوسری حدیث پیش کی ہے جو اس سے کہیں واضح ہے۔ اس بحث کے خاتمہ پر اس کا بیان کرنا بھی برا نہ ہوگ۔

بخاری کہتے ہیں:

ابو موسی کا بیان ہے کہ جعرانہ( مکہ اور مدینہ کے درمیان ) میں آںحضرت(ص) کے پاس تھا بلال بھی ساتھ تھے ایک بدو عرب آںحضرتص(ص) کے پاس آیا، اس بدو عرب نےکہا: آپ(ص)  نے ہم سے جس چیز کا وعدہ کیا ہے اسے پورا کریں گے؟

حضرت(ص) نے فرمایا: ہاں تمہیں بشارت ہو۔

بدو عرب نے کہا: بہت بشارت بشارت لگا رکھی ہے۔ پیغمبر(ص) ابو موسی اور بلال کے پاس غصہ کی حالت میں وارد ہوئے اور کہا اس نے بشارت کو رد کردیا ہے پس تم اس  بشارت کو لے لو۔

انھوں نے کہا: ہم نے قبول کیا۔ پھر آںحضرت(ص) نے ایک ظروف میں پانی مانگا اور پھر اس سے اپنے ہاتھ اور منہ دھویا اور اس پانی میں آب دہن ڈال دیا اور فرمایا اسے پی جاؤ اور اسے سینہ اور چہرے پر مل لو تمہیں بشارت ہو۔

انھوں نے پانی کے اس برتن کو لیا اور وہی کیا جس کا آپ(ص) نے حکم فرمایا تھا۔

حضرت ام سلمہ نے پردہ کے پیچھے سے فرمایا کہ تھوڑا سا اپنی ماں کے لیے بھی چھوڑ دینا۔ تو انھوں نے تھوڑا سا پانی ام سلمہ کے لیے الگ کردیا۔ ( صحیح بخاری،ج ۵، ص۱۹۹ ، کتاب مغازی باب غزوہ

۱۹۳

طائف ماہ شوال)

یہ روایات نہ صرف تبرک حاصل کرنے پر پیغمبر(ص) کے اعتراف و اقرار کو ثابت کرتی ہیں بلکہ ان سے پتہ چلتا ہے کہ آںحضرت(ص) جس پانی سے اپنا ہاتھ منہ وھوتے ہیں اور اس میں آب دہن ملاتے ہیں اسی کو اپنے اصحاب کو پینے اور سینہ اور چہرے پر ملنے کا حکم فرماتے ہیں اور انھیں بشارت دیتے ہیں کہ اس پانی کی برکت سے انھیں خیر کثیر حاصل ہوگا اور نہ صرف اصحاب بلکہ ام سلمہ(رض) جو آںحضرت(ص) کی بیوی ہیں وہ خود اس پانی سے تھوڑا سا الگ کرنے کو کہتی ہیں جو رسول(ص) کے ذریعہ متبرک ہوا ہے۔

ان واضح حقائق کے مقابل وہابیت کا کیا جواب ہے؟ یا پھر ان کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے؟

۱۹۴

محمد(ص) در شہوار

ایک مرتبہ پھر امام بوصیری کے حضور میں احترام سے کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے اشعار کے سامنے سر تعظیم خم کرتے ہیں۔ اور ہر ایک کے لیے یہ اعلان کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) جوہر مخلوقات ہیں۔ آںحضرت(ص)  کے ساتھ کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ تمام اولاد آدم(ع) کےسید و سردار اور تمام انبیاء و مرسلین اور برگزیدہ بندوں کے آقا ہیں۔

آپ (ص) کی بشری صفات کے متعلق جو بھی اور جتنا بھی کہا جائے لیکن آپ کو خداوند عالم نے ہر طرح کی آلودگی وپلیدی سے پاک رکھا ہے۔ اور حدیث بیان کرنے والے آںحضرت(ص) کی ایسی خصوصیات بیان کرتے ہیں جو کسی اور میں دیکھی نہ گئیں اس کی مثالیں زیادہ ہیں، من جملہ ملاحظہ ہوں۔

کبھی بھی آںحضرت(ص) کے اوپر مکھی نہیں بیٹھی تھی اور بادل کا ایک ٹکڑا آںحضرت(ص) پر سایہ کئے رہتا۔ زمین آپ(ص) کے بدن کی فاضل چیزوں کو نگل لیتی اور آپ کے بدن سے مشک کی خوشبو ہوا میں پھیلی رہتی تھی۔

میں جب بھی اس طرح کی روایات کو پڑھتا ہوں اور ان کی صحت و درستگی پر ایمان بھی رکھتا ہوں تو ان میں کچھ ایسی چیزیں میری سمجھ آتی ہیں جنھیں دوسرے نہیں سمجھ سکتے۔لہذا میں ہرگز اسے غلط نہیں سمجھتا اگر کوئی رسول(ص) کے ہاتھ منہ کے دھونے کے بعد بچے ہوئے پانی کو پئیے۔ اس لیے کہ وہ بشر تو ہیں لیکن ان کی طرح کوئی بشر نہیں بلکہ آپ ایک درخشاں یاقوت ہیں۔

جب ہم میں سے کسی کو بھی اچھا نہ لگے کہ کسی کے ہاتھ منہ دھونے کے بعد

۱۹۵

بچے ہوئے پانی کو پیئے تو پھر اگر اس نے اس میں کلی بھی کہ ہوتو بھلا کیسے پی سکتے ہیں؟ اس لیے ان جراثیم اور کثافت و گندگی اور امراض کے خوف کے علاوہ طبعی طور پر انسان ایسے پانی سے نفرت کرتا ہے اور خصوصا اس وقت جب اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب  ہوتے دیکھے!

اگر ہمارا ایمان نہ ہوتا کہ رسول خدا(ص) ہرطرح کی کثافت و پلیدی،  جراثیم اور بری بو سے مبرا ہیں اور آپ کا بدن طاہر و مطہر ہے تو اس طرح کی روایات کو قبول نہ کرتے۔ اور اگر رسول(ص) کے بعض مخلص اصحاب کا ان حقائق پر ایمان نہ ہوتا تو اس پانی کو زیادہ سے زیادہ پینے پر سبقت نہ کرتے یہاں تک کہ ان کے درمیان نزاع اور کشمکش پیدا ہوجاتی۔ بلکہ یہ مخلص صحابہ حقائق رسول(ص) سے متعلق ایسی چیزیں جانتے تھے جن سے دوسرے نا واقف تھے۔ لہذا وہ نہ صرف وضو کا پانی یا لعاب دہن پڑا ہوا پانی پیتے تھے۔ بلکہ کچھ ایسے کام بھی کرتے تھے جس کو انسانی طبیعت بمشکل تحمل کرسکتی ہے!

ہم اس جگہ تذکرہ کریںگے کہ وہ کیا کرتے تھے!

بخاری اپنی صحیح میں ایک طویل روایت پیش کی ہے جس کا مورد نظر حصہ پیش خدمت ہے:

پھر عروہ کی آنکھیں اصحاب رسول(ص) پر جمی ہوئی تھیں وہ کہتا ہے: ہم نے نہیں دیکھا کہ رسول(ص) ناک سے نکلی ہوئی رطوبت کو پھینک پاتے، بلکہ اسے کوئی نہ کوئی صحابی لے لیتا اور اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا، اور اگر آنحضرت(ص)  وضو فرماتے تو اس کے بچے ہوئے پانی سے شفا حاصل کرتے۔

اسی طرح بخاری نے عروہ اور مسورومروان سے نقل کیا ہےکہ:

رسول خدا(ص) اپنی ناک سے خارج شدہ رطوبت کو نہیں پھینک پاتے تھے بلکہ اسے کوئی نہ کوئی صحابی لے لیتا اور اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیتا تھا۔

۱۹۶

یہ گرامی قدر اصحاب رسول(ص) جن پر خدا کا درود و سلام ہو۔ یہ جانتے تھے کہ اس سے رسول خدا(ص) راضی ہیں اور اس عمل پر آںحضرت(ص) کا سکوت ان کے اقرار اور اعتراف کا ثبوت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اصحاب آںحضرت(ص) سے بہت سی کرامات دیکھتے تھے، مثلا : عافیت، سلامتی، خیرو برکت، بیماریوں سے شفا، درد سے چھٹکارا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو آںحضرت(ص) کے لعاب دہن اور ناک سے نکلی ہوئی رطوبت کو اپنے چہرہ اور بدن پر نہ ملتے۔

اس مطلب پر مزید تائید کےلیے بخاری سے ایک اور روایت ملاحظہ ہو:

رسول خدا(ص) ایک گرم دن میں ظہر کے وقت بطحاء کی طرف گئے اور نماز ظہر دو رکعت پڑھی، جبکہ آپ کے سامنے عصا رکھا ہوا تھا۔

عون، ابی جحیفہ سے مزید نقل کرتے ہیں کہ آپ(ص) کے پیچھے بھی لوگ چل رہے تھے، پس لوگ آگے بڑھے،رسول(ص) کے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے چہرہ پرملنے لگے۔ اس کا بیان ہے کہ میں نے بھی آںحضرت(ص) کے ہاتھوں کو پکڑا او اپنے چہرہ پر رکھ لیا۔ اس کو برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار پایا۔        (بخاری، ج ۴، ص ۲۲۹، کتاب بدء الخلق باب صفتہ النبی(ص)۔

۱۹۷

نبی(ص) کے ذریعہ خدا سے شفا طلب کرنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ آںحضرت(ص) ہاتھ سے مس کر کے یا اپنے وضو کے پانی اور آب دہن کے ذریعہ بیماری کا علاج کرتے تھے اور بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔

مسلم اور بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ سہل بن سعید نے کہا: ہم نے سنا کہ آںحضرت(ص) نے روز خیبر فرمایا:

کل میں علم اس مرد کے حوالہ کروں گا جس کو خدا کامیابی عطا کرے گا، وہ خدا اور رسول(ص) کو دوست رکھتا ہوگا۔ اور خدا اور رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہوں گے۔ تمام شب لوگ اس فکر میں تھے کہ کل علم کس کے حوالہ کیا جائے گا۔ اور جب دوسرا دن آیا تو ہر شخص کا دل چاہتا تھا کہ وہ خود وہی شخص ہو۔

حضرت(ص) نے فرمایا:

علی(ع) کہاں ہیں؟ بتایا گیا : علی(ع) آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔ تو آںحضرت(ص) نے اپنے لعاب دہن علی(ع) کی آنکھ پر مل دیا اور ان کے لیے دعا فرمائی اور انھیں ایسی شفا مل گئی، گویا انھیں مرض ہوا ہی نہ تھا، پس علم آپ کے حوالہ کیا۔

حضرت علی(ع) نے عرض کی:

آیا میں ان کے ساتھ جنگ کروں کہ وہ ہماری طرح ہوجائیں؟

آںحضرت(ص) نے فرمایا:

۱۹۸

جلدی کرو تاکہ ان کی حد میں داخل  ہوجاؤ اور انھیں اسلام کی طرف دعوت دو اور جو کچھ ان پر واجب ہے اس سے انھیں باخبر کردو۔

اسی طرح بخاری سے نقل کیا ہے کہ ہم نے سنا ہے کہ سائب بن یزید کا بیان ہے کہ:

میری خالہ مجھے رسول(ص) کے پاس لے گئی اور کہا: اے خدا کے رسول(ص) میرا بھانجا زمین پر گرپڑا ہے۔ پس رسول(ص) نے میرے سر پر اپنے ہاتھوں کو ملا اور میرے لیے دعا کی پھر وضو فرمایا اور میں نے آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو پیا۔

بخاری نے جابر سے بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

پیغمبر(ص) ہماری عیادت کے لیے آئے جبکہ میں بخار کی شدت سے بے ہوش تھا۔ پس آںحضرت(ص) نے وضو کیا اور وضو کے بچے پانی کو مجھ پر چھڑکا، میں ہوش میں آگیا۔

رسول خدا(ص)، اللہ کے نزدیک ایسے مرتبہ و مقام کے مالک ہیں کہ آب دہن کے ذریعہ اندھوں کو بینائی عطا کرتے ہیں اور آب وضو کے ذریعہ مرگی سے بے ہوش مریض کو ہوش میں لاتے ہیں اور شفا بخشتے ہیں ۔ اور صحابہ آپ کی ناک کی رطوبت کو لیتے ہیں اور شفا کی غرض سے اپنے چہرے اور بدن پر ملتے ہیں اور روایت میں تو یہاں تک آیا ہےکہ حذیفہ بن یمان کے پاس ایک تھیلی تھی جس کے ذریعہ بیماروں کا علاج کرتے تھے اور کوئی ایسا مریض نہ تھا جس پر وہ تھیلی رکھی جائے اور اسے شفا نہ حاصل ہو۔ یہ خبر کافی مشہور ہوئی اس کی اطلاع آںحضرت(ص) کو بھی ملی آپ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا؟

اے حذیفہ ! کیا تم آشوب گرہو؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں بلکہ یا رسول اللہ(ص)  آپ کا پیر ایک پتھر پر نقش ہوگیا تھا، میں نے اسے اٹھا کر اس کپڑے کی تھیلی میں رکھ لیا اور اس بیماروں کا علاج کرتا ہوں۔

۱۹۹

پیغمبر(ص) نے فرمایا : اگر کسی پتھر پر بھی اعتقاد پیدا کر لو تو تمہارے لیے مفید ہوگا۔

ان روایتوں کے نقل کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ کرتب دکھانے والے ، شعبدہ بازوں، دجالوں اور دھوکہ بازوں پر ایمان لایا جائے اور علم طب وحکمت سے ایمان کو کم کردیا جائے ، اس لیے کہ خود آںحضرت(ص) فرماتے ہیں کہ:

اپنے لیے ایک طبیب (ڈاکٹر) تلاش کرو، خدا نے مرض کو خلق کیا تو اس کا علاج بھی خلق کیا ہے۔

ان روایات کا معنی اور مطلب یہ نہیں کہ مسلمان صرف دعا، حرز، قرآن اور برکت کے ذریعہ بیماری سے شفا حاصل کرنے پر اکتفا کریں، بلکہ ہماری غرضیہ ہے کہ وہابیت کے اوپر حجت کامل ہوجائے جو ان تمام امور کا انکار کرتے ہیں اور جو بھی اس کا معتقد ہو اس  کو مشرک سمجھتے ہیں۔ رسول گرامی(ص) سے توسل و تبرک حاصل کرنے میں صحابہ کا اقدام معقول ہے۔ کیونکہ انھوں نے آںحضرت(ص) کے ساتھ معاشرت کی اور معجزات کے علاوہ بشر کی قوت سے بالاتر امور کا مشاہدہ کیا جس نے ان کے نفوس کو آرزؤں سے بھر دیا۔

بیشک سیرت و تاریخ کے مصنفین اور جو لوگ معجزات کو اہمیت دیتے ہیں انھوں نے رسول خدا(ص) کے لیے وہی کچھ تحریر کیا ہے جسے انبیاء کے متعلق کتاب خدا نےثبت کیا ہے، مثلا بیماروں کو شفا، اندھے ہوجانے والوں اور پیدایش اندھوں کو بینائی دینا، مردوں کو زندہ کرنا، آسمان سے خوان بہشتی منگانا، جانوروں سے ہم کلام ہونا وغیرہ وغیرہ۔

ہم یہاں بخاری کی ایک یا دو روایت پر اکتفاء کریں گے۔ اور محققین سے کہیں گے کہ وہ خود اس کے متعلق علماء کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

قتادہ، انس سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا:

رسول خدا(ص) ایک بے آب و گیاہ صحرا میں تھے آپ(ص) کے لیے ایک برتن

۲۰۰