اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات21%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56239 / ڈاؤنلوڈ: 4978
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ان اشعار میں ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ ہے یہی دنیا ہے ، اس عالم کےسوا اور کوئی عالم نہیں ہے لہذا یہاں کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم نہ رہنا چاہیے ۔ یہ وہ اشعار ہیں جو اس کے دیوان میں درج ہیں اور ابوالفرج ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب الغلید میں ان کی شہادت دی ہے۔

من جملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و بے دینی اور الحاد پر گواہ ہیں وہ شعر بھی ہیں جو سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں ان کے جد ابو الفرج نے تفصیل سے درج کئے ہیں ۔ ان کے مطلع میں کہتا ہے۔

عليه هاتی ناول ي نی و ترنمی حد ي ثک انی لا احب التناج ي ا

اپنی معشوقہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ، اے میری محبوبہ قریب آ اور مجھ کو اپنے دلی مطالب سے کھل کر آگاہ کر کیونکہ میں تیرے آہستہ بولنے کو پسند نہیں کرتا ( یہاں تک کہ کہتا ہے)

فان الذی حدثت عن ي وم بعثنا احاد ي ث زور تترک القلب ساه ي ا

یعنی جو شخص قیامت کے قصے سے ڈرتا ہے تو یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو دل کو سازو آواز کے لطف سے محروم کرتی ہیں۔

چنانچہ ابراہیم ابن اسحق معروف “ دیک الجن” نے جو جلیل القدر شیعہ فقہاء و علماء اور فضلاء و ادباء میں سے تھے خلیفہ ہارون الرشید عباسی کے سامنے یہ سارے اشعار پڑھے تو اس نے بے اختیار یزید پر لعنت کی اور کہا زندیق نے خدا اور حشر و نشر کا پورا انکار کیا ہے۔

منجملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و الحاد پر دلالت کرتے ہیں وہ بھی ہیں جو وہ اپنے عیش و ترنم کے موقع پر پڑھا کرتا تھا :

ي ا معشر الندمان قوموا واسمعوا صوت الاغانی

واشربوا کاس مدامواترکوا ذکر المعانی

شغلتنی نغمة الع ي دان عن صوت الاذان

و نغوضت عن الحور عجوزا فی الدنان

ماحصل معنی یہ ہیں کہ اپنے ہم مشرب اور ہم پیالہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اٹھو اور سازو آواز پر کان لگاؤ اور شراب ناب کے جام پیو اور دینی خرافات کو چھوڑو ، کیونکہ سازو نغمہ نے مجھ کو اذان کی آواز سے ہٹا کر اپنی طرف جذب کر لیا ہے اور میں بہشت کی حوروں کے عوض بوڑھی مغینہ عورتوں کو قبول کرتا ہوں۔

کتب مقاتل میں ہرجگہ منقول ہے اور سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص148 پر لکھا کہ جب اہل بیت رسالت(ص) شام میں لائے گئے تو یزید پلید اپنے محل کے بالا خانے پر جو محلہ جیروں کے سامنے تھا، بیٹھا اور یہ دو شعر پڑھ کر اپنے کفر کو ثابت کیا :

۱۲۱

لما بدت تلك الحمول و اشرقت تلك الشموس على ربي جيرود

نعب الغراب فقتل نح او لا تنح فلقد قضيت من الغريم ديونى!

خلاصہ مطلب یہ کہ اسیران آل محمد(ص) کی محملیں ظاہر ہوئیں تو ایک کوے نے آواز دی ( کیونکہ عرب میں اس آواز کو شگونہ بد سمجھتے تھے) تو میں نے کہا ، اے کوئے تو بول یا نہ بول میں نے پیغمبر(ص) سے اپنے قرضے وصول کرلیے ۔

کنایہ اس بات کا ہے کہ پیغمبر(ص) نے میرے بزرگ اور اقارب کو بدر و احد اور حنین میں قتل کیا تھا لہذا میں نے بھی اس کا بدلہ لیا اور ان کی اولاد کو قتل کیا ۔ اور یزید کے کفر کی دلیلوں میں سے یہ بھی ہے کہ جب اس نے فرزند رسول(ص) کی شہادت پر جشن کی محفل منعقد کی تو مثالا اس نے عبداﷲ بن الزبعری کے کفر آمیز اشعار پڑھے یہاں تک کہ سبط ابن جوزی ابو ریحان بیرونی اور دوسرے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے اجداد میں سے ان لوگوں کی موجودگی اور حیات کی تمنا کی جو سب کے سب مشرک اور کافر محض تھے اور خدا و رسول(ص) کے حکم سے بدر کبرے کی جنگ میں مارے گئے تھے بظاہر ان میں سے دوسرا اور پانچواں شعر خود یزید ہی کا ہے جو اس نے مسلمانوں، یہودیوں اور نصرانیوں کے مجمع عام کے سامنے پڑھے۔

ليت أشياخي ببدر شهدوا جزع الخزرج من وقع الأسل

فأهلّوا و استهلّوا فرحاثمّ قالوا: يا يزيد لا تشل

قد قتلنا القرم من ساداتهم و عدلناه ببدر فاعتدل

لعبت هاشم بالملك فلاخبر جاء و لا وحي نزل

لست من خندف إن لم أنتقم من بني أحمد ما كان فعل

قد اخذنا من علی ثارنا و قتلنا الفارس الل ي ث البطل

یعنی اے کاش میرے وہ بزرگان قبیلہ جو بدر میں قتل کئے گئے اور قبیلہ خزرج والوں کا ( جنگ احد میں) نیزے لگنے کی وجہ سے گریہ و زاری دیکھنے والے موجود ہوتے تو خوشی سے چیختے اور کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں کیونکہ ہم نے ان کے بزرگان قوم اور سرداروں کو قتل کیا، اور یہ کام ہم نے بدر کے عوض میں کیا جو پورا ہوا۔ بنی ہاشم نےسلطنت کے ساتھ کھیل کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی نہ وحی نازل ہوئی۔ میں خندق کے خاندان سے نہیں تھا، اگر فرزندانِ پیغمبر(ص) سے ان کے افعال کا انتقام نہ لیتا۔ ہم نے علی(ع) سے اپنے خون کا بدلہ لیا اور شہسوار بہادر شیر کو قتل کیا۔)

آپ کے بعض علماء جیسے ابو الفرج ، شیخ عبداﷲ بن محمد بن عامر شیرازی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص18 میں ، خطیب خوارزمی مقتل الحسین(ع) جلد دوم میں اور دوسرے لوگ لکھتے ہیں کہ یزید لعین

۱۲۲

ان حضرات کے لب و دندان کے ساتھ چھڑی سے بے ادبی کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہا تھا۔

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت

آپ کے اکثر علماء نے اس ملعون زندیق کو کافر سمجھا ہے یہاں تک امام احمد بن حنبل اور آپ کے بہت سے اکابر علماء نے اس پر لعنت کرنے کو جائز قرار دیا ہے ، خصوصا عبدالرحمن ابوالفرج ابن جوزی نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب موسوم بہ “ کتاب الرد علی المتعصب الغلید المانع عن لعن یزید لعنہ اﷲ ” لکھی ہے اور ابوالعلاء مصری نے اس باب میں کہا ہے :

أرى الأيّام تفعل كلّ نكر فما أنا في العجائب مستزيد

أليس قريشكم قتلت حسينا و كان على خلافتكم يزيد

( حاصل معنی یہ ہے کہ زمانہ ، توحید و اہل توحید کی ضد میں برابر شیطانی نقشے بناتا ہے اور اس طرح کے عجائبات اور مکاریوں پر مجھ کو تعجب نہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے قریش نے حسین(ع) کو قتل کیا اور اپنے امور اور خلافت کی باگ ڈور یزید ملعون کے ہاتھ میں دے دی) صرف آپ کے چند متعصب علماء جیسے غزالی نے یزید کی طرفداری کی ہے اور اس ملعون کی صفائی میں مضحکہ خیز اور مہمل عذرات تراشے ہیں در آنحالیکہ عام طور پر آپ کے علماء نے اس کے کفر آمیز اعمال اور ظالمانہ اطوار کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ وہ ملسمانوں کی مسند ریاست پر بظاہر تو خلافت کے عنوان سے قابض تھا لیکن عملی طور پر کوشش کرتا تھا کہ وین و توحید کی بساط ہی الٹ دے اور بڑے افعال کو نیک اعمال کے عنوان سے عمل میں لاتا تھا ۔ چنانچہ دمیری نے حیواہ الحیوان میں اور مسعودی نے مروج الذہب میں لکھا ہے کہ وہ بہت سے بندر پالے ہوئے تھا جن کو عمدہ قسم کے ریشمی لباس اور گردنوں میں سونے کے طوق پہنا کر گھوڑوں پر سوار کراتا تھا اسی طرح بہت سے کتوں کو طوق پہنچائے ہوئے تھا۔ ان کو اپنے ہاتھسے نہلاتا دہلاتا تھا ، سونے کے برتنوں میں ان کو پانی دیتا تھا اور ان کا پس خوردہ خود استعمال کرتا تھا ، مکمل طور پر شراب کا عادی تھا اور ہمیشہ مست و مخمور رہتا تھا۔

مسعودی مروج الذہب جلد دوم میں کہتے ہیں کہ یزید کی سیرت فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون رعیت داری میں یزید سے زیادہ انصاف پرور تھا۔ اس کی سلطنت اسلام کے اندر انتہائی باعث ننگ تھی، کیونکہ اس کی بہت سی بداعمالیوں جیسے شراب نوشی، فرزند رسول(ص) کا قتل، وصی پیغمبر (ص) علی ابن ابی طالب(ع) پر لعنت

۱۲۳

کرنا، خانہ خدا ( مسجد الحرام ) کو جلانا اور برباد کرنا، کثرت کے ساتھ خونریزی ( خصوصا اہل مدینہ کا قتل عام) اور بے شمار فسق و فجور وغیرہ جس کا حساب نہیں ہوسکتا ، اس کی عدم مغفرت اور جہنمی ہونے کو ثابت کررہی ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب ! یزید کے حکم سے مدینے کے قتل عام کا کیا معاملہ تھا؟ متمنی ہوں کہ اس کو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : عام طور پر مورخین اور بالخصوص سبط ابن جوزی تذکرہ صفحہ63 میں لکھتے ہیں کہ سنہ62ھ میں اہل مدینہ کی ایک جماعت شام کی طرف گئی ، جب وہاں ان لوگوں کو یزید کی بدکاریوں اور کفریات کا علم ہوا تو مدینہ واپس آکر اس کی بیعت توڑ دی ، بالاعلان اس پر لعنت کرنے لگے اور اس کے عامل عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو نکال کر باہر کیا۔ عبداﷲ بن حنظلہ ( غسیل الملائکہ) نے کہا اے لوگو ہم لوگ شام سے واپس نہیں ہوئے اور یزید پر خروج نہیں کیا لیکن اس وقت جب ہم نے دیکھا کہ :

" ه و رجل لا دين ل ه ينکح الام ه ات والبنات والاخوات و يشرب الخمر ويدع الصلوة و يقتل اولاد النبيين ۔"

(یعنی وہ ایسا بے دین شخص ہے جو ماؤں بیٹیوں اور بہنوں سے حرام کاری کرتا ہے ، شراب پیتا ہے ، نماز نہیں پڑھتا ہے اور اولاد انبیاء کو قتل کرتا ہے۔)

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام

جب یہ خبر یزید کو پہنچی تو اس نے اہل شام کے ایک بھاری لشکر کے ساتھ مسلم ابن عقبہ کو اہل مدینہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، اور ان لوگوں نے تین شبانہ روز مسلسل اہل مدینہ کا قتل عام کیا ابن جوزی اور مسعودی وغیرہ لکھتے ہیں کہ اس قدر کشت و خون کیا گیا کہ راستوں میں خون بہہ نکلا

" وخاض الناس فی الدماء حتی وصلت الدماء قبر رسول اﷲ صلی اﷲ علي ه و آله وسلم وامتلات الروضة والمسجد "

یعنی مدینے کے کوچوں میں اس کثرت سے خون جاری ہوا کہ لوگ خون میں شرابور ہوگئے تھے، یہاں تک کہ خون رسول اﷲ(ص) کی قبر تک پہنچ گیا اور روضہ رسول(ص) اور مسجد خون سے بھر گئی۔

اشراف قریش اورمہاجرین و اںصار میں سے سات سو محترم اور سربرآوردہ افراد کو قتل کیا اور عام مسلمانوں میں سے دس ہزار اشخاص تہ تیغ ہوئے مسلمانوں کی ہتک حرمت اور بے آبروئی کے حالات بیان کرتے ہوئے مجھ کو شرم محسوس ہوتی ہے لہذا تذکرہ سبط ابن جوزی صفحہ163 کی عبارتوں

۱۲۴

میں سے صرف ایک کو نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جس کو ابوالحسن مدائنی سے نقل کرتے ہیں کہ “ ولدت الف امراة بعد الحرة من غير زوج ” یعنی واقعہ حرہ ( مدینہ کے قتل عام) کے بعد ایک ہزار کنواری عورتوں کے یہاں بچے پیدا ہوئے ( کنایہ یہ کہ فاتح لشکر کی عصمت دری سے وہ عورتیں حاملہ ہوئیں)۔

میں اس سے زیادہ اہل بزم کا وقت لینا اور ان کو متاثر کرنا نہیں چاہتا ۔ خیالات کو صاف کرنے کے لیے اسی قدر کافی ہے۔

شیخ : آپ نے جو کچھ بیان کیا ، یہ سب یزید کے فسق و فجور پر دلالت کرتا ہے اور ہر فاسق و گنہگار انسان کا عمل معافی اور چشم پوشی کے قابل ہے یزید نےقطعا توبہ کر لی اور خدا بھی غفار الذنوب ہے اس نے بخش دیا ، پھر آپ کس وجہ سے برابر اس پر لعنت کرتے اور اس کو ملعون کہتے ہیں؟

خیر طلب : بعض دعویداروں کے وکیل اس غرض سے کہ ان کو فیس وغیرہ ملتی رہے چار و ناچار آخری وقت تک اپنے موکل کی طرف سے پیروی کرتے رہتے ہیں چاہتے حق بات ان پر ظاہرہو ہی جائے۔ لیکن مجھ کو نہیں معلوم کہ جناب عالی کن فوائد کے پیش نظر اس لعین پلید کی وکالت میں اس قدر ثابت قدمی دکھا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یزدی نے توبہ کر لی ہے۔ حالانکہ یزدی کیکفر آمیز گفتگو، اولیائے خدا کی شہادت اور اہل مدینہ کا قتل عام وغیرہ درایت ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ اس نے توبہ کر لی روایت ہے جو ثابت نہیں ہوسکی اور درایت کے مقابلے میں نہیں آسکتی۔

آیا مبدا و معاد اور وحی و رسالت سے انکار اور دین سے مرتد ہونا آپ کی نظر میں لعنت کا مستحق نہیں بناتا ۔ آیا خدا نے قرآن مجید میں ظالمین پر کھلی ہوئی لعنت نہیں فرمائی ہے؟

آیا آپ یزید کو ظالم نہیں سمجھتے ؟

اگر آپ کے ایسے یزید ابن معاویہ کے خاندانی پیروکار وکیل ( حاضرین کا پر زور قہقہہ ) کی نگاہ میں یہ دلائل کافی نہیں ہیں تو میں آپ کی اجازت سے آپ کے بزرگ علماء کے منقولات سے دو حدیثیں بھی نقل کرتا ہوں اور اس کے بعد اپنی گذارش ختم کرتا ہوں۔

بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحیں میں ، علامہ سمہودی نے تاریخ المدینہ میں، ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب العنید میں، سبط ابن جوزی نے تذکرة خواص الامہ میں۔ امام احمد بن حنبل مسند میں اور دوسروں نے حضرت رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و النّاس أجمعين لا يقبل اﷲ

۱۲۵

منه يوم القيمة صرفا ولا عدلا"

یعنی جو شخص ظلم سے اہل مدینہ کو خوف زدہ کرے خدائے تعالی، اس کو ( روز قیامت) خوف زدہ کرے گا ۔ اس پر خدا اور ملائکہ اور سارے انسانوں کی لعنت ہو۔ قیامت کے روز خدا ایسے شخص سے کوئی عمل قبول نہیں کرے گا۔

نیز فرمایا “ لعن اﷲ من اخاف مدینتی( ای اھل مدینتی) یعنی خدا کی ایسے شخص پر جو میرے شہر ( یعنی اہل مدینہ ) کو ڈرائے”

کیا مدینے کے اندر یہ سارا قتل عام ، ہتک حرمت او لوٹ مار وہاں کے باشندوں کے لیے ڈر اور خوف کا باعث نہیں تھا ؟ اور اگر تھا تو تصدیق کیجئے کہ وہ کمینہ اور پلید خدا و رسول(ص) ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی زبان سے ملعون تھا اور قیامت تک رہے گا۔

آپ کے اکثر علماء یزید پلید پرلعنت کی ہے اور اس پر لعن کے جائز ہونے پر کتابیں لکھی ہیں من جملہ ان کے علامہ جلیل القدر عبداﷲ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص20 میں لعن یزید کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جس وقت ملا سعد تفتازانی کے سامنے یزید کا نام لیا گیا تو انہوں نے کہا " فلعنة اﷲ عليه و علی انصاره و علی اعوانه" ( یعنی لعنت ہو خدا کی اس پر اور اس کے اعوان و اںصاری پر) اور جواہر العقدین علامہ سمہودی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا

"اتفق العلماء علی جواز لعن من قتل الحسين رضی اﷲ عنه او امر بقتله او اجازه اور رضی به من غير تعيين"

یعنی عام طور پر علماء نے اس شخص پر لعنت کے جائز ہونے پر اتفاق کیا ہے جس نے حسین رضی اﷲ کو قتل کیا یا ان کے قتل کا حکم دیا یا اس کی اجازت دی یا اس پر رضا مند ہوا بلا تخصیص۔

اور ابن جوزی ، ابو یعلی اور صالح ابن احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ آیات قرآن وغیرہ کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہ حضرات لعن یزید کو ثابت کرتے ہیں لیکن جلسہ کا وقت اس سے زیادہ گفتگو کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

نشست کافی لمبی ہوچکی ہے اور آدھی رات سے بھی کئی گھنٹے زیادہ گزر چکے ہیں، ورنہ یہ معمہ حل ہونا بہت ضروری تھا تاکہ آپ حضرات ان مقدمات سے اس عظیم حق کا پتہ لگائیں جو حضرت امام حسین (ع) اسلام اکھاڑ پھینکایا اپنے اپل بیت کے خون سے لا الہ الا اﷲ کے شجرہ طیبہ کی آبیاری کی جو بنی امیہ اور بالخصوص یزید پلید کے ظلم سے خشک ہونے کے قریب تھا، اور اسلام و توحید کو ایک نئی زندگی عطا کی۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آپ بجائے اس کے کہ ان بزرگوار کے خدمات کی قدر کرتے

۱۲۶

ان کے زائرین کے زیارت کے لیے جانے پر اعتراض اور نکتہ چینی کرتے ہیں ، اس کا نام مردہ پرستی رکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ کس لیے کروڑوں انسان ہر سال ان حضرات کے مرقد مطہر کی زیارت کو جاتے ہیں، مجلس عزا برپا کرتے ہیں اور ان مظلوم کی غریبی پر گریہ کرتے ہیں۔

گمنام جاں نثار

ہم کتب و رسائل اور اخبارات میں پڑھتے ہیں اور سیاحت کرنے والے بتاتے ہیں کہ دنیا کے متمدن ممالک کے مرکزی مقامات جیسے پیرس، لندن، برلن اور واشنگٹن وغیرہ میں“ گمنام جاں نثار ” کے نام سے کچھ محترم مزارات موجود ہیں۔

کہتے ہیں کہ اس جوانمرد نے وطن کی حفاظت میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی ہے۔ لیکن اس کے جسم و لباس میں کوئی ایسی واضح علامت نہیں پائی گئی جس سے معلوم ہوتا کہ یہ کس قوم و قبیلہ اور شہر کا باشندہ ہے۔

باوجودیکہ وہ ایک گمنام اور بے نام و نشان شخصیت ہے لیکن صرف اس خیال سے کہ اس نے ظلم و ظالم کے مقابلہ میں اپنے خون کی قربانی دی ہے جب کوئی بادشاہ صدر جمہوریہ، وزیر یا کسی طبقے کا کوئی شریف و بزرگ انسان ان شہروں میں وارد ہوتا ہے تو احتراما اس گمنام۔۔۔۔۔ جاں باز کی زیارت کو جاتا ہے او پھولوں کا تاج اس کی قبر پر رکھتا ہے۔

قدر دانی کے نام پر ایک غیر معروف سپاہی کا اس قدر احترام اس لیے کرتے ہیں کہ اقوام عالم کے سامنے اپنی قومی حیثیتوں کا تحفظ کرسکیں۔

لیکن صاحبان اںصاف کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ ہم مسلمان لوگ باوجودیکہ بہتر با نام و نشان سر فروش رکھتے ہیں جوسب کےسب عالم و عابد، صاحبان تقوی اور بعض ان میں سے قاری و حافظ قرآن تھے اور جنہوں نے دین و توحید ، حریم اسلام کے تحفظ اور عدل و انصاف کی راہ میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتےہوئے جان دی اور ان میں سے زیادہ تر خدا و رسول (ص) اور عترت پیغمبر (ص) کی امانت تھے لیکن بجائے قدردانی اور لوگوں کو ان کی زیارت کا شوق دلانے اور ان کی قبروں کے احترام کا حکم دینے کے نکتہ چینی کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دوسرے فرقے والے علاوہ عیب جوئی اور اعتراض کے اپنے متعصب علماء کے بھڑکانے سے ان کی قبروں کو برباد کرتے ہیں اور ان کے صندوق بالائے قبر کو

۱۲۷

جلا کر قہوہ بناتے ہیں۔

چنانچہ سنہ1216 ہجری میں عید غدیر کے روز جب کربلا کے سارے باشندے ( سوا تھوڑے افراد کے) زیارت کے لیے نجف اشرف گئے ہوئے تھے نجدی وہابیوں نے موقع غنیمت سمجھ کر حملہ کر دیا۔ ضعیف وغیر ضعیف شیعوں کے قتل و غارت میں مشغول ہوئے اور دین کے نام پر فدائیاں دین توحید ( یعنی سید شہداء حضرت امام حسین (ع) اور آپ کے انصار) کی مقدس قبروں کو برباد اور زمین کے برابر کردیا ( تقریبا پانچ ہزار) باشندگان کربلا علماء اور ناتوان ضعفاء یہاں تک کہ شیعوں کی عورتوں اور بے گناہ بچوں کو قتل کیا۔ حضرت سید شہداء (ع) کا خزانہ لوٹ لیا، جواہرات ، سونے کی قندیلیں، قیمتی اشیاء اور بڑے بڑے پیش بہا فرش اٹھا لےگئے قبر مطہر کے اوپر کا قیمتی صندوق جلا کر اس سے قہوہ بنایا اور ایک کثیر جماعت کو قید کر کے اپنے ہمراہ لے گئے انا ﷲ و انا ال يه راجعون ۔ ( افسوس ہے ایسے اسلام پر)۔

واقعی بہت افسوس ناک بات ہے کہ تمام متمدن مملاک ، علماء سلاطین اور دانش مندوں کی یہاں تک کہ اپنے گمنام سپاہی کی قبروں کا احترام کریں لیکن مسلمان جو اپنے مایہ ناز افراد کے قبور کی حفاظت میں سب سے زیادہ اولی اور احق ہیں وہ آدم خور وحشیوں کی طرح ان کے مزارات کو مسمار اور تباہ و بردباد کریں حتی کہ مکہ اور مدینہ میں حضرت حمزہ سید شہداء (ع) جیسے شہدائے احد، پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد جیسے جناب عبدالمطلب و عبداﷲ آں حضرت(ص) کے اعمام و اہل وقوم، فرزندان رسول خدا(ص) جیسے سبط اکبر حضرت امام حسن(ع) مسموم ، سید الساجدین حضرت امام زین العابدین (ع) ، باقر العلوم حضرت امام باقر(ع)، صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہم السلام ، دوسرے بنی ہاشم ، علمائے اعلام اور مفاخر اسلام کی قبروں کو زمین کے برابر کر دیں اور اس کے بعد بھی اپنے کو مسلمان کہیں۔ ہاں اپنے بزرگوں اور بادشاہوں کے مقبرے البتہ بہت شاندار طریقے سے تعمیر کریں۔ حالانکہ ہمارے اور آپ کے علماء نے قبور مومنین کی زیارت پر راغب کرنے کے لیے کس قدر کثرت سے حدیثیں نقل کی ہیں تاکہ اس ذریعے سے مومنین کی قبریں حوادث زمانہ کی دستبرد سے محفوظ رہیں۔

خود رسول اﷲ(ص) قبور مومنین کی زیارت کو تشریف لے جاتے تھے اور ان کے لیے مغفرت طلب فرماتے تھے مسئلہ یہ کہ کچھ خفیہ مقاصد کے ماتحت مذہب کے نام پر اپنے ہی ہاتھوں اپنی قابل فخر ہستیوں کی قبریں خراب اور خاک کے برابر کریں اور ان کا نشان بھی دنیا میں باقی نہ رہنے دیں بات ختم کرتا ہوں ورنہ دل میں ابھی بہت کچھ ہے۔

۱۲۸

شرح این ہجراں و ایں خون جگر ایں زمان بگزار تا وقت دگر

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں

آیا آپ اس جلیل القدر خانوادہ کو جس نے دین اور توحید کی راہ م ی ں جا نی ں دیں ، شہ ی د سمجھتے ہیں یا ن ہیں ؟ اگر کہئے کہ شہید نہیں ہیں تو اس پر آپ کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر شہید ہیں تو پھر آپ انہیں مردہ کیوں سمجھتے ہیں؟ حالانکہ قرآن مجید میں کھلا ہوا ارشاد ہے " احياء عند ربهم يرزقون " یعنی وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے پاس رزق پاتے ہیں۔ 12 مترجم) پس قرآنی آیات اور معتبر احادیث کی بنا پر مقدس ہستیاں زندہ ہیں، مردہ نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم لوگ بھی مردہ پرست نہیں ہیں اور مردے پر سلام نہیں کرتے بلکہ زندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔

علاوہ اس کے کوئی با سواد یا جاہل شیعہ ان حضرات کو حاجت روائی میں خود مختار نہیں سمجھتا بلکہ ان کو خدا کے نیک بندے اور معبود کی طرف ایک بلند مرتبہ واسطہ جانتا ہے ( جیسا کہ اسی کتاب کے صفحہ97 میں مذکور ہے)

ہم صرف اس لئے اپنی حاجتوں کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ برحق ائمہ اور عالی منزلت صالحین ، خدا سے دعا فرمائیں تاکہ وہ ہم نا اہل انسانوں پر کرم فرمائے۔ اور اگر زبان سے یہ کہتے ہیں کہ یا علی ادرکنی ، یا حسین ادرکنی تو اس کی مثال بعینہ اسی آدمی کی ایسی ہے جو کسی با اقتدار بادشاہ سے کوئی حاجت رکھتا ہے تو وزیر اعظم کے دروازے پر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب وزیر صاحب میری فریاد کو پہنچئے۔ لیکن یہ کہنے والا وزیر کو ہرگز بادشاہ اور اپنی حاجت روائی میں خود مختار نہیں مانتا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ چونکہ بادشاہ کی نظر میں با عزت ہیں۔ لہذا میری سفارش کردیجئے تاکہ میرا کام بن جائے۔

شیعہ بھی آل محمد علیہم السلام کو خدا اور خدائی کاموں میں شریک نہیں جانتے ہیں بلکہ ان کو اﷲ کے صالح بندے سمجھتے ہیں جو علاوہ اپنی پاک فطرت کے عبادت و تقوی اور دینی خدمات کے نتیجہ میں حق تعالی کے منظور نظر قرار پائے لہذا دونوں عالم میں ان کو امامت و ولایت کے عہدے اور بلند و بالا درجات عطا کیئے تاکہ پروردگار کے حکم اور اجازت سے موجودات میں تصرف کرسکیں۔ چونکہ یہ حضرات خدائے ذوالجلال کے امانت دار اور نمائندے ہیں اس بنا پر حاجت مندوں کے ضروریات خدا کی بارگاہ میں پیش

۱۲۹

کرتے ہیں ، اگر سائل کی حاجت روائی مصلحت کے مطابق ہوتی ہے تو قبول فرماتا ہے ورنہ آخرت میں اس کا عوض دیتا ہے ۔ چنانچہ عملی طور پر ہم ایسا دیکھتے بھی ہیں اور نتائج بھی حاصل کرتے ہیں۔

یہ مشتے نمونہ از خود ؟؟؟؟؟؟؟؟ چند مختصر جملے تھے جو مجبورا آپ کی اس بات کے جواب میں عرض کئے گئے کہ مردے سے خطاب کیوں کرتے ہو اس مقام پر یہ نکتہ بھی بغیر کہے نہ رہ جائے کہ شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی منزل اس سے بالاتر سمجھتے ہیں کہ دوسرے شہدائے اسلام کی طرح ان کےلیے بھی صرف ایک زندگی ثابت کریں۔

حافظ : آپ کے بیان میں یہ فقرہ ایک معمہ ہے جس کے حل کی ضرورت ہے ۔ آخر آپ کے اماموں میں دوسرے اماموں سے کیا فرق ہے؟ صرف سیادت کی منزلت اور رسول اکرم(ص) سے ان کی نسبت نے ان کو دوسروں کے مقابلے میں ممتاز بنا دیا ہے۔

خیر طلب : اس میں کوئی معمہ قطعی نہیں ہے صرف اس مطلب کا تصور آپ کےلیے دشوار ہے کیونکہ ساری زندگی منزل امامت کی معرفت سے دور رہے ہیں۔ سب سے پہلے ضرورت اس کی ہے کہ اپنی عادت اور تعصب سے الگ ہو کر علم و عقل اور منطق و اںصاف کی نظر سے مقام امامت کا مطالعہ فرمائیے اس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ شیعہ اعتقاد کے لحاظ سے منصب امامت اور آپ کے عقائد کے مطابق امامت کے درمیان ایک بین اور واضح فرق یہ۔ اگر میں اس مقصد کو ثابت کرنے بیٹھوں تو صبح تک انتظار کرنا ہوگا۔ اب یہ اہم موضوع ایک اطمیانی نشست کے لیے ملتوی کرتا ہوں جس میں گفتگو کا پورا وقت ہو انشاء اﷲ۔

( اس کے بعد ہم لوگوں نے جلسہ برخاست کیا ۔ چونکہ اذان صبح کا وقت قریب تھا اور سلسلہ گفتگو طولانی ہوچکا تھا لہذا لوگوں نے کہا کہ اب امامت کا موضوع کل رات پر رہا ہم نے خوش طبعی اور مزاح کے ساتھ ان حضرات کو کچھ دور چل کر رخصت کیا اور وہ بخیر و عافیت تشریف لے گئے۔)

۱۳۰

چوتھی نشست

شب دوشنبہ 26 رجب سنہ1345ھ

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا

مغرب کے اول وقت حضرات اہل سنت میں سے تین نفر تشریف لائے اور کہا کہ جلسہ شروع ہونے سے قبل ہم آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتے ہیں کہ آج غروب آفتاب تک مسجدوں ، مکانوں، دفتروں اور بازاروں میں ہر جگہ آپ ہی کا تذکرہ تھا جس جگہ کسی کے ہاتھ میں آج کا اخبار تھا وہاں چاروں طرف کثرت سے لوگ اکٹھا تھے اور آپ کی تقریروں کےبارے میں بحث کررہے تھے۔ ہم لوگوں کو آپ سے کافی تعلق خاطر پیدا ہوگیا ہے۔ ہم سب کے دلوں میں آپ نے گھر کر لیا ہے اور ہم پر آپ کا بہت بڑا حق ہے کیونکہ آپ ان شبہات کو حل کر رہے ہیں جن کو ہمارے پیشواؤں نے بچپن ہی سے ہم کو الٹے طریقے پر سمجھایا تھا۔ہم اس کے لیے تہ دل سے معذرت خواہ ہیں کہ ہم شیعہ جماعت کو مشرک سمجھتے تھے ہم کیا کریں ہم کو ہمیشہ سے تعلیم ہی یہی دی گئے ہے۔ امید ہے کہ خداوند غفور ہماری توبہ قبول کرے گا۔ ادھر چند روز سے ہر شب کی بحثیں رسالوں اور اخباروں میں شائع ہو رہی ہیں تو اکثر اخبارات کے خریداروں اور بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں، خصوصا ہم لوگ جو شریک جلسہ اور آپ کی لطیف گفتگو سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں بہت متاثر ہوئے ہیں خاص طور پر گذشتہ شب کیونکہ آپ نے خوب خوب پردے اٹھائے اور پوشیدہ حقائق کو ظاہر فرمایا امید ہے کہ مزید انکشافات ہوں گے اور اس سے زیادہ حقیقتیں بے نقاب ہوں گی۔

دوسری بات جس کی طرف ہم آپ کی توجہ منذول کرانا چاہتے ہیں یہ ہے کہ ہم پر اور ہماری جماعت پر جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے وہ جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں آپ کی واضح اور سادہ گفتگو ہے۔ کیونکہ آپ ہماری ہی زبان میں مطلب کو اس قدر مفصل اور عام فہم طریقے سے بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے تمام بے سواد افراد کو اپنی طرف جذب کر لیتے ہیں ، آپ قطعی طور پر یہ پہلو پیش نظر رکھیں کہ ساری جماعت میں فی صد پانچ نفر سے زیادہ صاحبان علم و خبر نہیں ہیں۔ کورکورانہ طور بچپن سے جو کچھ سن رکھا ہے اس نے ان کے

۱۳۱

قلب و دماغ میں جگہ پکڑ لی ہے اب تو انہیں صرف سادگی ہی کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے ، چنانچہ آپ اسی بات پر عمل کر رہے ہیں اور امید ہے کہ پورا پورا نتیجہ حاصل ہوگا۔

اتنے میں حضرات علماء تشریف لے آئے اور ہم نے گرم جوشی اور خندہ پیشانی کےساتھ ان کو خوش آمدید کہا ۔ چائے نوشی اور معمولی خاطر تواضع کے بعد جلسے کی کاروائی شروع ہوئی۔

نواب : قبلہ صاحب گزشتہ رات طے پایا تھا کہ آج کی شب امامت کے بارے میں گفتگو ہوگی، ہم اس خاص موضوع کو سمجھنے کے لیے بہت مشتاق ہیں اور چونکہ اسی موضوع پر دوسرے مطالب کی بنیاد ہے لہذا ہماری تمنا ہے کہ صرف اسی مسئلے کو مورد بحث قرار دیں تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہمارے اور آپ کے درمیاں موضوع امامت میں کیا اختلاف ہے۔

خیر طلب : مجھ کو کوئی عذر نہیں ہے، چنانچہ اگر مولوی صاحبان اسی طرف مائل ہوں تو میں حاضر ہوں۔

حافظ : ( اڑے ہوئے رنگ اور اترے ہوئے چہرے کے ساتھ) ہماری طرف سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے آپ جس طرح سے مناسب سمجھیں بیان فرمائیں۔

امامت کے بارے میں بحث

خیر طلب : آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ لغت اور اصطلاح کی حیثیت سے امام کے کئی معنی ہیں۔ لغت میں امام پیشوا کے معنی رکھتا ہے الامام هو المتقدم بالناس یعنی امام انسانوں کا پیشوا ہے۔ امام جماعت یعنی نماز جماعت میں لوگوں کا پیشوا۔ امام الناس یعنی امور سیاسی یا روحانی وغیرہ میں آدمیوں کا پیشوا۔ امام جمعہ یعنی جو شخص نماز جمعہ میں پیشوائی کرے۔

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت

اس بنا پر جماعت اہل تسنن یعنی مذاہب اربعہ کے پیرو اپنے پیشواؤں کو امام کہتے ہیں جیسے امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل۔ یعنی وہ فقہاء و مجتہدین جو امر دین میں ان کے پیشوا ہیں اور جنہوں نے اپنی عقل و فکر کے ذریعہ اجتہاد یا قیاس کے ساتھ ان کے لیے حلال و حرام کے احکام معین کئے ہیں۔

۱۳۲

یہی وجہ سے کہ جب ہم آپ کے چاروں اماموں کی فقہی کتابون کا مطالعہ کرتے ہیں تو اصول و فروع کی حیثیت سے ان میں بہت اختلافات نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے ائمہ اور پشوا تمام ادیان و مذاہب کے اندر ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب شیعہ میں بھی علماء فقہاء وہی درجہ رکھتے ہیں جس کے آپ اپنے اماموں کے لیے قائل ہیں۔ لہذا وہ حضرت امام عصر عجل اﷲ فرجہ کی غیبت میں ہر عہد اور زمانےمیں موازین علمی کی روسے کتاب و سنت اور عقل و اجماع کے ادلہ اربعہ کے ساتھ فتوے دیتے ہیں۔ پھر بھی ہم ان کو امام نہیں کہتے ہیں کیونکہ امامت عترت طاہرہ(ع) سے بارہ اوصیاء کے ساتھ مخصوص ہے۔ ایک فرق یہ ہے کہ آپ کے بزرگوں نے بعد کے لیے اجتہاد کا دروازہ بند رکھا ہے یعنی پانچویں صدی ہجری سے جب کہ بادشاہ کے حکم سے علماء و فقہاء کی ایجاد کردہ رائیں جمع کی گئیں، صرف چار کے اندر منحصر کر کے مذاہب اربعہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی کو رائج کیا گیا اور لوگوں کو مجبور کیا گیا ہے ان چاروں میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کریں جیسا کہ اب تک رواج ہے معلوم نہیں کہ مقام تقلید میں ایک فرد کو دوسرے افراد پر کس دلیل و برہان سے ترجیح حاصل ہے۔ حنفیوں کے امام میں کیا خصوصیت ہے جو مالکیوں کو نہیں ملی اور شافعیوں کا امام کیا فضیلت رکھتا ہے جو حںبلیوں کے پاس نہیں۔

اگرملت اسلامی اس پر مجبور ہے کہ ان چاروں کے فتاوی سے باہر نہ جائے تو جماعت مسلمین بہت سخت جمود کے پنجے میں گرفتار ہوگئی ہے اور کبھی ان میں ترقی اور بلندی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ حالانکہ مقدس دین اسلام کے خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ ہر دور اور زمانے میں قافلہ تمدن کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور یہ مقصد لازمی طور پر ایسے فقہاء و مجتہدین چاہتا ہے جو ہر عہد میں موازین شرعیہ کے تحفظ کے ساتھ کاروانِ تہذیب کے ہمراہ آگے بڑھیں اور مذہب کی مرکزیت کو محفوظ رکھیں۔

کیونکہ بہت سے امور ایسے ہیں ج کے تجدد کی وجہ سے ان میں تقلید میت کی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ حتمی طور پر زندہ فقیہ اور مجتہد کی طرف رجوع کرنا ان کی دماغی کاوش سے فائدہ حاصل کرنا اورا ن کے فتوی کو اپنا لائحہ عمل بنانا ضروری ہوتا ہے۔ باوجودیکہ بعد کے زمانوں میں آپ کے یہاں ایسے عالی منزلت مجتہدین اور فقہاء پیدا ہوئے جو ان چاروں اماموں سے بدرجہا اعلم اور افقہ تھے لیکن معلوم نہیں یہ ترجیح بلا مرجح ، مقام اجتہاد کو ان چار نفر کے اندر محصور کر دینا اور دوسروں کے علمی افادات کو ضائع کرنا کس مصلحت کی بنا پر تھا۔ البتہ جماعت شیعہ کے اندر ظہور امام آخرالزمان عجل ا ﷲ فرجہ تک ہر دور اور ہر زمانے میں تمام فقہاء اور مجتہدین کو فتاوی کا حق حاصل ہے اور ہم مسائل جدیدہ میں ابتداء تقلید میت کو ہرگز جائز نہیں سمجھتے ۔

۱۳۳

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے

تعجب ہے کہ آپ شیعہ فرقے کو تو بدعتی اور مردہ پرست کہتے ہیں جو اہل بیت رسول(ص) میں سے بارہ ائمہ(ع) کی ہدایتوں پر آں حضرت(ص) ہی کے حکم سے ( ان نصوص خاصہ کے ساتھ جو آپ کی کتابوں میں بھی تشریح کے ساتھ مندرج ہیں) عمل کرتے ہیں لیکن معلوم نہیں آپ حضرات کس دلیل سے مسلمانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ اصول میں اشعری یا معتزلی مذہب پر اور فروع میں لازمی طور پر مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک پر عمل پیرا ہوں۔ اور اگر ان باتوں پر جو آپ بغیر دلیل کے کہتے ہیں عمل نہ کریں۔ یعنی اشعری یا معتزلی مذہب یا مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کے پیرو نہ بنیں تو رافضی ، مشرک اور گردن زدنی قرار پائیں۔

اگر آپ پر ایراد کیا جائے کہ چونکہ ابو الحسن اشعری یا ابو حنیفہ ، مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل کی پیروی کے لیے پیغمبر(ص) کا کوئی فرمان نافذ نہیں ہوا ہے اور یہ بھی من جملہ اور اسلامی علماء و فقہاء کے تھے لہذا صرف انہیں کی تقلید پر اںحصار کرنا بدعت ہے تو کیا جواب دیجئیے گا؟

حافظ : ائمہ اربعہ چونکہ زہد و ورع تقوی و امانت اور عدالت کے ساتھ ساتھ فقاہت اور علم و اجتہاد کی منزل پر فائز تھے لہذا ان کی پیروی ہم پر لازمی ہوگئی۔

خیر طلب : اول تو جو کچھ آپ نے فرمایا یہ ایسے دلائل نہیں ہیں جو حصر کا سبب بن جائیں کہ روز قیامت تک مسلمان ان کے طریقے کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں۔ اس لیے کہ آپ اپنے سارے علماء و فقہاء کے لیے ان صفات کے قائل ہیں اور ان چاروں کے اندر اںحصار کرنا بعد کے علماء کے توہین ہے۔ کسی ایک فرد یا افراد کی پیروی پر اسی وقت مجبور کیا جاسکتا ہے جب کہ خاتم الانبیاء(ص) سے کوئی ہدایت یا نص مروی ہو حالانکہ آپ کے ائمہ اربعہ کے بارے میں ایسا کوئی حکم یا نص آنحضرت(ص) سے منقول نہیں ہے لہذا آپ نے کیونکہ مذاہب کو چار کے اندر محدود کردیا اور ان چار اماموں میں سے ایک کی پیروی کا لازمی ہونا حق سمجھتے ہیں؟

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے

بہت مضحکہ خیز بات ہے کہ چند شب پہلے آپ نے شیعہ مذہب کو سیاسی قرار دیا اور کہا کہ یہ مذہب چونکہ رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں نہیں تھا اور خلافت عثمان میں پیدا ہوا ہے۔ لہذا اس کی پیروی

۱۳۴

جائز نہیں ہے۔ حالانکہ پرسوں شب میں نے عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کردیا کہ مذہب شیعہ کی بنیاد رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں آں حضرت(ص) ہی کی ہدایت سے قائم ہوئی اور شیعوں کے سردار امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بچپن ہی سے دامن نبوت میں پرورش پائی۔ آں حضرت (ص) سے معالم دین کی تعلیم حاصل کی، ان روایات کے مطابق جو آپ کی معتبر کتابوں میں منقول ہیں آںحضرت(ص) نے آپ کو اپنے علم کا دروازہ فرمایا اور صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی مخالت میری مخالفت ہے، ستر ہزار مسلمانوں کے مجمع میں آپ کو امارت و خلافت کے عہدے پر منصوب فرمایا اور عام مسلمانوں کو یہاں تک کہ عمر اور ابوبکر کو بھی حکم دیا اور ان لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔

لیکن آپ کے چاروں مذاہب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کس بنیاء پر قائم ہوئے ہیں؟ آپ کے ان چار اماموں میں سے کس نے رسول خدا(ص) سے ملاقات کی ہے یا کس کے بارے میں آںحضرت(ص) کی طرف سے کوئی ہدایت جاری ہوئی ہے تاکہ مسلمان آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی پر مجبور ہوں؟ جیسا کہ آپ بھی بغیر کسی دلیل کے اپنے اسلاف کے قدم بقدم چلتے ہوئے ان چار اماموں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی امامت مطلقہ پر ایک دلیل بھی دلیل نہیں رکھتے سوا اس کے کہ آپ نے فرمایا وہ فقیہ، عالم، مجتہد، زاہد اور صاحبان تقوی تھے تو ہر ایک کے زمانے والوں کو صرف ان کی زندگی میں ان علماء کے فتاوی پر عمل کرنا چاہئیے تھا نہ یہ کہ ساری دنیا کے مسلمان روز قیامت تک ان کی اطاعت کے پابند بنا دیے جائیں۔

علاوہ ان باتوں کے اگر رسول اﷲ(ص) کے صریحی ارشادات کے ساتھ ساتھ یہ صفات بھی ہزاروں گنا زیادہ آں حضرت (ص) کی عترت میں جمع ہوگئی ہوں تو بدرجہ ادنی ان حضرات کا اتباع اور پیروی فرض ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جن کے بارے میں قطعا کوئی نص یا فرمان نافذ نہیں ہوا ہے۔ آیا وہ مذاہب جن کا رسول(ص) کے زمانے میں کوئی نشان نہیں تھا اور ائمہ اربعہ میں سے کوئی ایک بھی آں حضرت(ص) کے عہد میں موجود نہیں تھا نہ ان کے بارے میں آں حضرت (ص) سے کوئی حکم منقول ہے اور ایک صدی کے بعد دنیا میں رونما ہوئے ، ایجاد بندہ اور سیاسی ہیں؟ یا وہ مذہب جس کے بانی رسول خدا(ص) اور جس کا پیشوا آں حضرت(ص) کے ہاتھوں میں تربیت پایا ہوا تھا؟ اور اسی طرح باقی گیارہ امام جن سب کے لیے فردا فردا حدیثیں مروی ہیں، ان کو عدیل قرآن قرار دیا ہے اور حدیث ثقلین میں صاف ارشاد فرمایا ہے کہ :

" من تمسک بهما فقد نجی و من تخلف عنهما فقد هلک ۔" (1)

جس نے ان دونوں سے تمسک کیا وہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جس نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۵

دونوں سے رو گردانی کی وہ یقینا ہلاک ہوا 12 مترجم) اور حدیث سفینہ میں فرمایا ہے کہ من تخلف عنهم فقد هلک (1) یعنی اور جس نے ان سے منہ موڑا پس وہ یقینا ہلاک میں گرفتار ہوا۔ 12 مترجم)

ابن حجر صواعق باب وحیتہ النبی صفحہ135 میں آن حضرت(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا “ قرآن اور میری عترت تمہارے درمیان میری امانت ہیں کہ اگر ان دوںوں سے ایک ساتھ تمسک اختیار کرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے”

پھر ابن حجر کہتے ہیں کہ اس قول کی موید ایک دوسری حدیث ہے جو آں حضرت (ص) نے قرآن و عترت کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے۔" فلا تقدموهما فتهلكوا، و لا تعلموهما فإنهما أعلم منكم." ( یعنی قرآن اور میری عترت پر پیش قدمی نہ کرو۔ اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کرو۔ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اور میری عترت کو تعلیم نہ دو۔ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔)

اس کے بعد ابن حجر نے تبصرہ کیا ہے کہ “ یہ” حدیث شریف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت(ع) مراتب علمیہ اور وظائف دینیہ میں دوسروں پر تقدم کا حق رکھتے ہیں۔” حیرت ہے کہ اس بات کا یقین رکھتے ہوئے بھی کہ عترت و اہل بیت رسول(ص) کو دوسروں پر مقدم ہونا چاہیئے بغیر کسی دلیل و برہان کے اصولی ہیں ابوالحسن اشعری کو اور فروع میں ان چاروں فقہا کو اس خاندان جلیلی پر مقدم قرار دیتے ہیں۔ در حقیقت فقیہ امام علم و ورع اور تقوی اور عدالت کی وجہ سے پیشوا قرار پائے تو ان میں سے ایک نے دوسرے پر فسق اور کفر کا فتوی کس لیے لگایا ہے؟

حافظ : آپ بہت زیادتی کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، یہاں تک کہ ہمارے فقہا اور اماموں پر تہمت لگاتے ہیں کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی تردید و توہین یا تفسیق و تکفیر پر اتر آئے ہیں۔ آپ کا یہ بیان قطعا کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ اگر ان کے بادے میں کوئی تردید یا تنقید کی گئی ہے تو وہ شیعہ علماء کی طرف سے ہے ورنہ ہمارے علماء کی جانب سے سوا تعظیم و تکریم کے جو ان حضرات کے شایان شان تھی ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ جناب عالی کو اپنے علماء کی معتبر کتابوں کے مندرجات پر کوئی توجہ نہیں ہے یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں یعنی جانتے ہوئے مغالطہ دے رہے ہیں ، ورنہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان کی رد میں کتابیں لکھی ہیں یہاں تک کہ خود چاروں اماموں نے ایک دوسرے کو فاسق اور کافر بنایا ہے۔

--------------

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۶

حافظ : فرمائیے وہ علماء کون ہیں اور ان کی کتابوں کے اندراجات کیا ہیں؟ اگر آپ کی نظر میں ہو تو بیان کیجئے۔

خیر طلب : اصحاب ابو حنیفہ اور ابن حزم ( علی ابن احمد اندلسی متوفی سنہ456ھ) وغیرہ برابر امام مالک اور محمد بن ادریس شافعی پر طعن کرتے رہے ہیں اور اسی طرح اصحاب شافعی جیسے امام الحرمین اور امام غزالی وغیرہ ابو حنیفہ اور مالک پر طعن کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ میں جناب عالی سے پوچھتا ہوں کہ فرمائیے امام شافعی، ابو حامد محمد بن محمد عزالی اور جار اﷲ زمخشری کیسے اشخاص ہیں؟

حافظ : ہمارے بزرگ ترین فقہاء و علماء میں سے ، ثقہ اور اہل سنت واجماعت کے امام ہیں۔

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا

خیر طلب : امام شافعی کہتے ہیں ما ولد فی الاسلام اشام من ابی حنیفہ۔ ( یعنی اسلام کے اندر کوئی شخص ابو حنیفہ سے زیادہ منحوس پیدا نہیں ہوا) نیز کہا ہے

" نظرت في كتب أصحاب أبي حنيفة فإذا فيها مائة و ثلاثون ورقة خلاف الكتاب و السنة."

یعنی میں نے اصحاب ابوحنیفہ کی کتابوں میں نظر کی تو ان میں مجھ کو ایک سو تیس ورق کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کے خلاف ملے۔)

ابو حامد غزالی کتاب متحول فی علم الاصول میں کہتے ہیں:

"فأمّا أبو حنيفة فقد قلب الشريعة ظهرا لبطن و شوّش مسلكها و غيّر نظامها، و أردف جميع قواعد الشريعة بأصل هدم به شرع محمّد المصطفى صلّى اللّه عليه و آله و سلم، و من فعل شيئا من هذا مستحلّا كفر، و من فعل غير مستحلّ فسق"

یعنی در حقیقت ابوحنیفہ نے شریعت کو پلٹ دیا، اس کے راستے کو مشتبہ بنا دیا، اس کے نظام کو بدل ڈالا اور قوانین شرع میں سے ہر ایک کو ایک ایسی اصل کے ساتھ جوڑ دیا جس کے ذریعے رسول اﷲ(ص) کی شرع کو برباد کر دیا۔ جو شخص عمدا ایسی حرکت کرے اور اس کو جائز سمجھے وہ کافر ہے اور جو شخص نا جائز سمجھتے ہوئے ایسا کرے وہ بدکار ہے۔ چنانچہ اس بزرگ عالم کے قول کے مطابق ابوحنیفہ یا کافر تھے یا فاسق۔ اس کے بعد اس باب میں ان کی طعن درد اور تفسیق میں بہت سی باتیں لکھی ہیں جن کا بیان میں ترک کرتا ہوں اور جار اﷲ زمخشری صاحب تفسیر کشاف نے جو آپ کے ثقات علماء میں سے ہیں ربیع الابرار میں لکھا ہے :

" قال يوسف بن اسباط رد ابو حنيفه علی رسول اﷲ اربعة مائة حديث او اکثر. "

یعنی یوسف بن اسباط نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نےرسول خدا(ص) پر چار سویا اس سے زیادہ حدیثیں روکیں۔ نیز یوسف کہتا ہے کہ ابو حنیفہ کہتا تھا لو ادرکنی

۱۳۷

رسول اﷲ لاخذ بکثیر من قولی۔ یعنی اگر رسول اﷲ مجھ کو پاتے تو میرے بہت سے اقوال اختیار کرتے یعنی میری باتوں کی پیروی کرتے) ۔ اسی طرح کے بکثرت مطاعن ابو حنیفہ اور باقی تین اماموں کے بارے میں آپ کے علماء سے منقول ہیں جو غزالی کی کتاب متحول، شافعی کی کتاب نکت الشریف زمخشری کی ربیع الابرار اور ابن جوزی کی منتظم وغیرہ دیکھنے سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام غزالی متحول میں کہتے ہیں :

" ان ابا حنيفه النعمان بن ثابت الکوفی يحق فی الکلام ولا يصرف اللغة والنحو ولا يعرف الاحاديث ۔"

( یعنی ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی کے کلام میں غلطیاں بہت ہیں۔ ان کو لغت و نحو اور احادیث کا علم نہیں تھا) نیز لکھتے یں کہ یہ چونکہ علم حدیث سے ( جو قرآن کے بعد دین کا ستون اور بنیاد ہے) واقف نہیں تھے لہذا فقط قیاس رپ عمل کرتے تھے، حالانکہ اول من قاس ابلیس یعنی سب سے پہلے جس نے قیاس پر عمل کیا وہ شیطان تھا۔ ( چنانچہ جو شخص قیاس پر عمل کرے اس کا حشر ابلیس کے ساتھ ہوگا۔)

اور ابن جوزی منتظم میں کہتے ہیں اتفق الکل علی الطعن فیہ۔ یعنی سارے علماء ابو حنیفہ پر طعن کرنے میں متفق ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ طعن کرنے والے تین قسم کے ہیں۔ ایک گروہ نے ان کو اس لئے مورد طعن قرار دیا ہے کہ یہ اصول عقائد میں متزلزل تھے۔ دوسری جماعت نے کہا ہے کہ ان کے پاس حافظ اور ضبط روایات کی قوت نہیں تھی اور تیسری صنف کا اعتراض یہ ہے کہ یہ اپنی رائے اور قیاس سے کام لیتے تھے اور ان کی رائے ہمیشہ صحیح حدیثوں کی مخالفت ہوتی تھی۔

غرضیکہ آپ کے اماموں کے بارے میں آپ ہی کے علماء کی طرف سے اس طرح کی گفتگو اور مطاعن بہت ہیں۔ جن کے بیان کا فی الحال وقت نہیں ہے کیونکہ میں تردید اور انتقاد کی منزل میں نہیں تھا۔ آپ نے بات کا سلسلہ یہاں تک پہنچا دیا کہ فرمایا جو مطاعن منقول ہیں وہ صرف علمائے کی طرف سے ہیں اور جو کچھ تمہارے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہو لہذا میں نے یہ بتا دینا چاہا کہ آپ کا اعتراض بے جا ہے اور آپ محض گریز کا راستہ تلاش کرنے کے لیے بغیر عقل و منطق کے مقابلہ کر رہے ہیں ورنہ اصلیت اسکے خلاف ہے جو کچھ میری زبان پر جاری ہوتا ہے وہ علم و عقل اور منطق کے مطابق اور تعصب سے خالی ہوتا ہے علماء شیعہ نے آپ کے چاروں اماموں سے سوا ان باتوں کے جو خود آپ کے علماء نے لکھی ہیں کوئی نئی چیز منسوب نہیں کی ہے اور نہ ان کی توہین ہی کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے علماء کے بر خلاف علمائے شیعہ امامیہ کے درمیان ہمارے بارہ ائمہ (ع) کے مقامات مقدسہ کی نسبت کسی طرح کا کوئی ایراد یا اعتراض موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم ائمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم

۱۳۸

اجمعین کو ایک ہی مدرسے کے شاگرد جانتے ہیں جن پر یکساں طور پر فیض خداوندی جارہی تھا اور یہ حضرات من اولہم الی آخرہم بالعموم قوانین الہیہ کے مطابق جو خاتم النبیین سے ان کو پہنچے تھے عمل فرماتے تھے۔ رائے و قیاس اور ایجاد بندہ پر کار بند نہیں تھے بلکہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ پیغمبر(ص) کی طرف سے تھا لہذا بارہ اماموں کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا( جیسے کہ آپ کے چاروں اماموں کے درمیان سارے عقائد و احکام میں اختلاف موجود ہیں) کیونکہ یہ حضرات امام تھے۔ لیکن امام لغوی نہیں جس کے معنی صرف آگے چلنے والے کے ہوں۔

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے

بلکہ علم کلام کی اصطلاح میں جیسا کہ محققین علماء نے بیان کیا ہے یہ امامت ریاست عالیہ الہیہ کے معنی میں اور اصول دین میں سے ایک اصل ہے اور ہم بھی اسی عقیدے پر ہیں کہ : “ الامامة ہی الریاسة العامة الہیة خلافة عن رسول اﷲ فی امور الدین و الدنیا بحیث یجب اتباعہ علی کافة الامة” یعن امامت سارے خلائق پر ایک عمومی ریاست الہی ہے بطریق خلافت رسول اﷲ(ص) کی طرف سے امور دین و دنیا میں اس صورت سے کہ اس کی متابعت سارے انسانوں پر واجب ہے۔”

شیخ : بہتر تھا کہ آپ قطعی اور حتمی طور سے یہ نہ فرماتے کہ امامت اصطلاحی اصول دین میں سے ہے کیونکہ بڑے بڑے علمائے اسلام کہتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے نہیں ہے بلکہ مسلمہ فروعات میں سے ہے، جس کو آپ کے علماء نے بغیر دلیل کے اصول دین کا جز بنا دیا۔

خیر طلب : میرا یہ بیان صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے اکابر علماء بھی اسی عقیدے پر ہیں من جملہ ان کے آپ کے مشہور مفسر قاضی بیضاوی کتاب منہاج الاصول میں بسلسلہ بحث اخبار انتہائی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں :

" أن الإمامة من أعظم مسائل أصول الدين التي مخالفتها توجب الكفر و البدعة "

یعنی حقیقتا امامت اصول دین کے عظیم ترین مسائل میں سے ہے جس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب ہے۔

ملا علی قوشجی شرح تجرید مبحث امامت میں کہتے ہیں :

" «الإمامة رئاسة عامّة في أمور الدين و الدنيا خلافة عن النبيّ "

یعنی امامت ایک ریاست عمومی ہے امور دین و دنیا میں بطریق خلافت پیغمبر(ص) کی طرف سے) اور قاضی روز بہان جیسے آپ کے انتہائی متعصب عالم نے بھی اسی مفہوم کو نقل کیا ہے کہ امامت ریاست براست اور نیابت و خلافت رسول(ص)

۱۳۹

ہے اس عبارت کے ساتھ کہ :" و الإمامة عند الأشاعرة: هي خلافة الرسول في إقامة الدين و حفظ حوزة الملّة، بحيث يجب اتّباعه على كافّة الأمّة."

یعنی امامت اشاعرہ کے نزدیک رسول اﷲ(ص) کی خلافت ہے دین کو قائم کرنے اور حلقہ ملت اسلام کی حفاظت کرنے میں، اس طرح سے کہ ساری امت پر اس کا اتباع واجب ہے۔

اگر امامت فروع دین میں سے ہوتی تو رسول اﷲ(ص) یہ نہ فرماتے کہ جو شخص بغیر امام کو پہچانے ہوئے مرے تو اس کی موت طریقہ جاہلیت پر ہے۔ چنانچہ آپ کے اکابر علماء جیسے حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، ملا سعد تفتازانی نے شرح عقائد نصفی میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"من مات و هو لا يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية" (1)

بدیہی چیز ہے کہ فروع دین میں سے کسی ایک فرع کی معرفت نہ ہوتا دین کے تزلزل اور طریقہ جاہلیت پر مرنے کا سبب نہیں ہوسکتا جیسا کہ بیضاوی صریحی طور پر کہتے ہیں کہ اس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب قرار پائے۔ پس ثابت ہے کہ امامت اصول دین میں داخل اور مقام نبوت کا تتمہ ہے۔ لہذا امامت کے معنی میں بہت بڑا فرق ہے ، آپ جو اپنے علماء کو امام کہتے ہیں جیسے امام اعظم ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد حنبل، امام فخرالدین ، امام ثعلبی امام غزالی وغیرہ تو یہ لغوی معنی کے لحاظ سے ہے۔ ہم بھی امام جمعہ اور امام جماعت رکھتے ہیں ، اماموں کی اس نوع کا دامن وسیع ہے اور ممکن ہے کہ ایک وقت میں سیکڑوں امام موجود ہوں، لیکن اس معنی میں جو میں نے عرض کیا امام ریاست عامہ مسلمین کے عہدے پر ہے۔ یہ ہر زمانے میں صرف ایک ہوتا ہے، ایسا امام کہ اس کو حتمی طور پر سارے صفات حمیدہ و اخلاق پسندیدہ کا حامل ، علم وفضل ، شجاعت ، زہد، ورع اور تقوی میں سارے انسانوں سے بہتر اور منزل عصمت پر فائز ہونا چاہیئے۔ اور کبھی روز قیامت تک زمین ایسے امام کے وجود سے خالی نہ رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا امام جو انسانیت کے تمام صفات حالیہ کا حامل ہو صفات روحانیت کے بلند ترین مقام پر ہوگا۔ اور یقینا ایسے امام کو خدائے تعالی کی طرف سے خصوص اور رسول اﷲ (ص) کی طرف سے منصوب ہونا چاہیئے کیونکہ یہ سارے ؟؟؟؟؟ حتی کہ انبیائے کرام سے بھی اعلی و ارفع ہوتا ہے۔

حافظ : ایک طرف تو آپ غالیوں کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی امام کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور اس کی منزل کو مقام بنوت سے بالاتر سمجھتے ہیں، حالانکہ عقلی دلائل کے علاوہ قرآن مجید نے بھی انبیاء کی منزل کو سب سے بلند قرار دیا ہے اور واجب و ممکن کے درمیان صرف انبیاء(ع) ہی کا مقام ہے آپ کا یہ دعوی چونکہ بلا دلیل ہے لہذا سراسر زبردستی اور نا قابل قبول چیز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اپنے امام زمان کو نہ پہچانتا ہو تو وہ حقیقت میں جاہلیت کی موت مرا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اس نے کہا: ہاں۔ آںحضرت(ص) کی حیات کے زمانہ میں جائز تھی۔ لیکن وفات کے بعد نہیں۔

ہم نےکہا: الحمد اللہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہابیت نے وسیلہ کا اعتراف کیا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

میں نے کہا: اجازت دیجئے تو اب میں یہ بھی کہتا ہوں کہ وفات پیغمبر(ص) کے بعد بھی وسیلہ جائز ہے۔

وہابی نےکہا: قرآن سے دلیل پیش کرو۔

میں نے کہا: آپ تو محال کی فرمایش کررہے ہیں۔ اس لیے کہ وفات پیغمبر(ص) کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوگیا۔ لہذا احادیث کی کتابوں سے استدلال پیش کروں گا۔

اس نے کہا : ہم حدیث قبول نہیں کرتے۔ مگر یہ کہ صحیح ہو اور جو کچھ شیعہ نقل کرتے ہیں اس کی کوئی قیمت نہیں۔

میں نے کہا: کیا آپ صحیح بخاری کو قبول کرتے ہیں؟ وہی کتاب جو آپ کے یہاں قرآن کے بعد سب سے معتبر کتاب ہے۔

وہ تعجب سے کہنے لگا: کیا بخاری وسیلہ کو جائز سمجھتے ہیں؟

ہم نے کہا: ہاں! لیکن افسوس کہ آپ لوگ خود اپنی کتب صحاح نہیں پڑھتے اور خود اپنے نظریوں سے تعصب برتتے ہیں۔ بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ جب بھی قحط پڑتا، حضرت عمر بن خطاب، عباس بن عبدالمطلب کے پاس آتے اور آپ سے طلب باران کے لیے کہتے اور خود بھی کہتے: پروردگارا ہم آںحضرت(ص)

۱۸۱

 کے زمانہ میں آںحضرت(ص) کو وسیلہ قرار دے کر تجھ سے طلب کرتے تھے اور تو بھی ہم پر بارش نازل کرتا تھا۔ آج رسول(ص) کے چچا کے وسیلہ بناتا ہوں پس ہم پر بارش نازل کر۔ راوی کہتا ہے کہ پس خدا ان پر بارش نازل کرتا تھا۔

                        (صحیح بخاری، ج۵، ص۲۵، کتاب بدء الخلق۔ باب مناقب جعفر بن ابی طالب)۔

پھر ہم نے کہا: یہ ہیں عمر بن خطاب ! جو کہ آپ کے درمیان سب سے بزرگ و برتر صحابی رسول(ص) ہیں اور ان کے عقیدہ و ایمان کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کرتے اس لیے کہ خود آپ کہتے ہیں:

اگر آںحضرت(ص) کے بعد کوئی پیغمبر ہوتا وہ عمر بن خطاب تھے اور آپ اس وقت دو باتوں کےدرمیان مجبور ہیں کہ کسی ایک کو قبول کریں۔ یا یہ کہ وسیلہ و توسل دین اسلام کا اہم جزو ہے اور حضرت عمر بن خطاب کا رسول اور رسول(ص)  کے چچا سے توسل کرنا صحیح تھا یا پھر یہ کہئے کہ حضرت عمر مشرک ہیں۔ اس لیے کہ عباس بن عبدا لمطلب کو اپن اوسیلہ بنایا جب کہ عبس نہ پیغمبر  ہیں نہ امام حتی کہ اہل بیت(ص) میں بھی داخل نہیں ہیں۔ جن سے خدا نے ہر قسم کی پلیدی و کثافت کو دور کیا  اس کے علاوہ وہ آپ کے یہاں بخاری امام المحدثین  ہیں اور انھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس کی صحت کا اقرار کیا ہے۔ اور یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ  جب بھی قحط پڑتا تھا وہ حضرت عباس  سے متوسل پس خدا ان پر بارش نازل کرتا تھا۔ یعنی خداوند عالم ان کی دعا کو مستجاب کرتا تھا۔ پس بخاری اور صحابہ میں وہ محدثین جنھوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے سبھی اہلسنت والجماعت ہیں یہ سب مشرک  ہیں؟

وہابی نےکہا: اگر یہ حدیث صحیح ہے تو یہ تیرے برخلاف دلیل ہے نہ کہ تیرے حق میں۔

میں نے کہا : کس طرح؟

۱۸۲

کہنےلگا : اس لیے کہ حضرت عمر نے رسول(ص) سے توسل نہ کیا اس لیے کہ وہ مرچکے تھے بلکہ عباس کو وسیلہ بنایا اور وہ زندہ تھے۔

میں نے کہا: میں عمر بن خطاب کے قول و عمل کے لیے کسی قدر وقیمت کا قائل نہیں ہوں۔ اور ہرگز اسے اپنے لیے دلیل نہیں بناتا لیکن اس روایت کو پیش کیا تاکہ موضوع بحث پر استدالال  کروں۔ البتہ میں پوچھتا ہوں کہ کیوں عمر بن خطاب نے قحط کے زمانے میں علی بن ابی طالب(ع) سے توسل نہ کیا۔ جن کی منزلت رسول(ص) کے نزدیک ایسی تھی جیسی ہارون(ع) کی موسی(ع) کے نزدیک اور مسلمانوں میں کسی نے نہیں کہا کہ عباس بن عبدالمطلب علی(ع) سے افضل ہیں۔ لیکن یہ ایک دوسرا موضوع ہے جس کی بحث کی گنجائش یہاں نہیں ہے۔ صرف اس پر اکتفاء کرتا ہوں کہ آپ کہتے ہیں کہ زندوں سے توسل جائز ہے۔ اور یہی ہمارے لیے بڑی کامیابی ہے خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے ہماری دلیل کو قاطع قرار دیا اور آپ کی دلیل کو باطل کیا اور جب ایسا ہے تو میں آپ لوگوں کے حضور میں توسل کرتا ہوں۔

اس وقت میں بیٹھا تھا فورا اٹھا اور رو بہ قبلہ ہوکر کہنے لگا: پروردگار میں تجھ سے دعا گو ہوں اور تجھ سے تیرے صالح و نیک بندے امام خمینی(رح) کو وسیلہ قرار دے کر قربت چاہتا ہوں۔

اچانک وہابی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تعجب و غصے کے ساتھ اعوذ باللہ! اعوذ باللہ! کہتا ہوا تیزی سے باہر چلا گیا۔

حاضرین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیسا بد بخت آدمی تھا کس درجہ ہم سے بحث کرتا تھا اور ہم پر تنقید کرتا تھا اور ہم خیال کرتے تھے ذی علم آدمی ہے لیکن پتہ چلا کوڑی کا بھی نہیں ہے۔

ان میں سے ایک نے کہا«انالله وانا الیه راجعون» پروردگار! تیری

۱۸۳

طرف پلٹا ہوں اور تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور ہم سے کہنے لگا۔ اس کی بات کس درجہ ہم پر اثر کرتی تھی۔ حتی کہ آج بھی میں نے اس کی بات کو پسند کیا تھا کہ توسل خدا کی نسبت شرک ہے اور اگر میں اس جلسہ میں حاضر نہ ہوتا تو اسی گمراہی پر باقی رہتا۔ ( خدا کا شکر)

اے رسول(ص) کہہ دیجئے حق آیا  اور باطل گیا بے شک باطل مٹ جانے والا ہے۔ (اسراء/۸۱)

۱۸۴

وہابیت پر رسول خدا(ص) کی رد

اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ قرآن نے خدا اور بندہ کے درمیان وساطت و وسیلہ کا اقرار کیا ہے اور اسے حرام نہیں سمجھا ہے اور نہ ہی رسول خدا(ص) نے اسے ممنوع قرار دیا ہے بلکہ اسے مباح و مستحب سمجھا ہے۔ قرآن نے پیغمبر(ص) کے قول و فعل کو ہمارے لیے حجت او اسوہ قرار دیا ہے تاکہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس کی پیروی کریں اور ترقی پائیں۔

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

 اور بے شک عمل رسول(ص) تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ ( احزاب/ ۲۱)

اس طرح ہم اقوال و افعال رسول خدا(ص) کے ذریعہ استدلال کریں گے ۔ اور اس استدلال میں نہ تو شیعہ کتابوں کی طرف رجوع کریں گے اور نہ ہی کتب اہل سنت کی طرف رجوع کریں گے بلکہ صرف اور صرف صحیح بخاری کی روایتوں پر تکیہ کریں گے تاکہ وہابیت پر رد مضبوط اور قوی ہو۔ جس کے بعد اگر وہ با انصاف ہیں تو بات نہیں کرسکتے۔ ورنہ بلاشبہ ان کی دشمنی اور اندھا تعصب انھیں لوگوں کے درمیان خود ہی رسوا اور خوار کردے گا۔

اب جب کہ ہم کتاب وسنت کےذریعہ توسل کے جواز اور اس کی شرعی حیثیت کو ثابت کرچکے ہیں تو ایک دوسرے مسئلہ پر بحث کرتے ہیں جو وہابیت کی نظر میں بہت ہی برا اور ممنوع ہے۔ اور وہ شفا اور حاجتوں کے پوری ہونے کی غرض سے متبرک چیزوں کو چومنا اور مس کرنا ہے۔

اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حجاج بیت اللہ کو آںحضرت(ص) کی ضریح پ رہاتھ پھیرنے اور بوسہ دینے پر مارا جاتا ہے اور مشرک کا الزام لگایا جاتا ہے۔

۱۸۵

موئے مبارک رسول خدا(ص) کا احترام

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحابہ کاعمل وہابیوں کےلیے حجت ہے اس لے کہ وہابی تمام صحابہ کی عدالت کے معتقد ہیںِ بلکہ ان کا دعوی تو یہ ہے کہ وہ صحابہ کے آثار کی پیروی و اتباع کرتے ہیں اور خود کو سلفی کہتے ہیں۔ یعنی وہ سلف صالح کی پیروی کرتے ہں اور تمام صحابہ کو صالح اور نیک سمجھتے ہیں۔

بخاری نے اپنی  صحیح میں مالک بن اسماعیل سے اور انھوں نے اسرائیل سے اور انھوں نے نےعاصم سے اور انھوں نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے کہ میں نے عبیدہ سے کہا: رسول خدا(ص) کے موئے مبارک ہمارے پاس ہیں جو انس سے یا انس کے خاندان کےذریعہ ہم تک پہنچے ہیں،( عبیدہ نے ) کہا:

اگر آںحضرت(ص) کا ایک بال بھی ہمارے پاس ہو تو دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ ( صحیح بخاری، ج ۱،ص۴۵۔ کتاب الوضوء)

اس طرح بخاری نے محمد بن عبدالرحیم سےنقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سعید بن سلیمان نے اور انھوں نے عقاد سے اور انھوں نے ابن عون سے اور انھوں نے ابن سیرین سے اور انھوں نے انس سے نقل کیا ہے کہ (جس وقت رسول خدا(ص)  نے اپنے سر کے بال بنوائے تو ابوطلحہ سب سے پہلے شخص تھے جنھوں نے آںحضرت(ص) کے کچھ بال اٹھالئے)۔ (صحیح بخاری، ج۱، ص۵۴، کتاب الوضوء)

پس اگر انس بن مالک ، رسول خدا(ص) کے صحابی، آںحضرت(ص)  کے موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں اور اس کو بطور ہدیہ اپنے دوستوں اور رشتہ

۱۸۶

داروں کو پیش کرتے ہیں اور اگر وہ صحابی کہتا ہے کہ اگر نبی(ص) کا ایک بال میرے پاس ہوتو میرے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہے تو خدا کی قسم یہ اس بات پر ایک واضح دلیل ہے کہ اصحاب رسول(ص) آںحضرت(ص)  کی چیزوں سے برکت حاصل کرتے تھے۔ اور یہ وہابیت کے اوپر رد ہے۔ جو رسول خدا(ص) کے آثار سے برکت حاصل کرنے کی وجہ سے حاجیوں اور خانہ خدا کے زائروں کو کوڑے مارتے ہیں اور ان کی اہانت کرتے ہیں۔

میں نے اپنی کتاب ( پھر میں ہدایت پاگیا) میں اس دلچسپ  واقعہ کو نقل کیا ہے کہ جس وقت ایک شیعہ عالم دین ( علی شرف الدین) نے سعودی بادشاہ کو ایک قرآن ہدیہ میں دیا تو بادشاہ نے قرآن کی جلد کو چوما اور تعظیم کےلیے اپنے چہرہ پر رکھا۔

اس پر شیعہ عالم دین بولے: قرآن کی جلد کو کیوں چومتے ہو اور اسے کیوں بوسہ دیتے ہو؟

بادشاہ نے کہا: کیا آپ نے نہیں کہا کہ اس میں قرآن ہے؟

شیعہ عالم نے کہا: قرآن اس کے اندر ہے اور تم نے تو قرآن کو بوسہ نہیں دیا؟

بادشاہ نےکہا: قرآن کی جلد کو بوسہ دینے سے ہماری مراد وہی قرآن ہے جو جلد کے اندر ہے۔

تو اس شیعہ عالم نے کہا: ہم لوگ جب نبی(ص) کی ضریح کی جالیوں کو بوسہ دیتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ یہ لوہا ہے اور نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن ہمارا مقصد ان جالیوں کے اندر قبر رسول(ص) ہے۔

۱۸۷

بعد وفات آںحضرت(ص) کے آثار کا احترام

میں نے اس موضوع پر اہل سنت کی کتابوں میں بیس سے زیادہ روایتیں دیکھی ہیں۔ جن میں آثار رسول(ص) کو تمام صحابہ اور بالخصوص خلفاء نے متبرک قرار دیا ہے۔ لیکن چونکہ میں ںے وعدہ کیا ہے کہ بخاری کی صرف ایک یا دو روایت پر اکتفا کروں گا۔ اور خود بخاری کے اس کی روایات میں دقت سے کام لیا ہے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں رسول (ص) کی زرہ، آپ کے عصاء آپ کے تلوار، آپ کے گلاس، آپ کی انگوٹھی اور آپ کے بعد خلفا جن چیزوں سے استفادہ کرتے تھے، اسی طرح آنحضرت(ص) کے موئے مبارک، نعلین اور ظروف اور آپ کی وفات کے بعد اصحاب نے آپ کی جن چیزوں کو متبرک قرار دیا ہے، اس ذیل میں پورا ایک باب ان سے مخصوص قرار دیا ہے۔

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں زبیر سے نقل کیا ہے کہ ہم نے روز بدر عبیدہ بن سعید بن عاص سے ملاقات کی۔ اس نے آہنی لباس پہن کر بلاتے تھے۔ اس نے کہا:

میں ابو ذات کرش ہوں میں نے بھی اس پر حملہ کیا اور ہاتھ کی چھڑی جس کے آخر میں تیز لوہا لگا ہوا تھا اس کی آنکھ میں دے ماری اور اسے قتل کر ڈالا۔

ہشام کہتے ہیں:

زبیر کا بیان ہےکہ میں نے اسے اپنے پیروں تلے لاکر دبایا اور پوری

۱۸۸

قوت سے اس چھڑی کو باہر کھینچا۔ اسکے دونوں کنارے ٹیڑھے ہوگئے تھے۔ عروہ نے کہا میں نے اسے آںحضرت(ص) سے مانگا، پس آںحضرت(ص) نے اسے دے دیا۔ اور جس وقت آںحضرت(ص) نے وفات فرمائی تو حضرت ابوبکر نے اسے مانگ لیا اورجس وقت حضرت ابوبکر دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت عمر نے طلب کر لیا ان کے مرنےکے بعد حضرت عثمان نے مانگا اور انھیں دے دی گئی۔ لیکن حضرت عثمان کے قتل کے بعد خاندان علی(ع) کے پاس آگئی۔ پھر عبداللہ بن زبیر نے مانگا اور انھیں دے دی گئی اور انھیں کے پاس تھی یہاں تک کہ وہ بھی قتل کردیئے گئے۔

ایک ضروری وضاحت

اس روایت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خود رسول خدا(ص) نےزبیر کے اس عصا کا احترام کیا جس سے زبیر جنگ میں طاقتور دشمنوں کو قتل کیا کرتے تھے، ابو عبیدہ بن سعید بن عاص، جس نے زرہ پہن رکھی تھی تاکہ تلوار اور نیزہ سے محفوظ رہے اور سوائے آنکھوں کے کوئی حصہ دکھائی نہ دیتا تھا لیکن زبیر نے عصاکے ذریعہ اس کی آنکھ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا اور پھر پوری قوت لگا کر اسے باہر نکالا۔

سچ یہ تو بڑاعجیب و غریب عصا ہے۔ کہیں عصائے حضرت موسی(ع) کی نسل سے تو نہیں ہے۔ جس کو موسی(ع) نے دریائے نیل پر مارا تھا اور اسی کے مارنے سے بارہ چشمے بھی پھوٹ پڑے تھے۔ سبحان اللہ!

پھر تو تعجب کی  جگہ نہیں کہ پیغمبر(ص) اس کو زبیر سے مانگیں تاکہ اس سے تبرک حاصل کریں یا پھر وہ چاہتے تھے اس احترام کے جواز کو سمجھائیں اور یہی احتمال قوی ہے۔ خصوصا اس وقت جب کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ آںحضرت(ص)  کے بعد تمام خلفاء نے وہ عصا طلب کیا اور ان کی عمر کے آخری لمحہ تک ان کے ساتھ رہا۔ اور بالاخرہ عبداللہ بن زبیر کو واپس مل گیا۔ اور وہ اس کے زیادہ مستحق تھے کیونکہ وہ ان

۱۸۹

کے باپ کے میراث شمار ہوتا تھا۔

بہر حال قرآن مجید میں ایسے بہت سے اشارے موجود ہیں جو انبیاء و مرسلین اور ان سے مربوط اشیاء کے احترام سے متعلق ہیں۔

قرآن مجید میں آیا ہے کہ:

موسی(ع) نے سامری سے کہا: تو نے یہ کیسا فتنہ پھیلا دیا؟

سامری نے کہا: میں نے حق کے رسول(حضرت جبرائیل(ع)) کے قدم کے کچھ اثرات دیکھے۔ جسے دوسروں نے نہیں دیکھا لہذا میں نے اسے اٹھا کر گوسالہ میں ڈال دیا اور مجھے اس پر میری نفسانی خواہش نے آمادہ کیا۔ (طہ/ ۹۵ـ۹ ۶ )

جس چیز کو دوسروں نے نہیں دیکھا اور سامری نے دیکھا، شاید اسی وجہ سے اس نے فرشتہ کے قدم کے بچے ہوئے آثار سے معجزہ پیش کر دیا۔ لہذا اس نے جبرائیل کے قدموں کی مٹی اٹھالی اور اس کو گوسالہ میں ڈال کر بنی اسرائیل کو گوسالہ کی عبادت کی طرف پلٹانا چاہا اور اس داستان میں تاکید ہوئی ہے کہ اس کی بعض کرامتوں اور معجزات سے جس کی بنی اسرائیل پیروی کرتے تھے مغرور ہوگئے تھے۔

قرآن مجید میں انبیاء کے آثار سے  تبرک و شفا حاصل کرنے کے مزید اشارے موجود ہیں چنانچہ سورہ یوسف میں ملتا ہے کہ :

حضرت یوسف(ع) نے کہا:

میرا کرتا اپنے ساتھ لے جاؤ اور میرے باپ کے چہرہ پر ڈال دینا تاکہ وہ پھر بینا ہوجائیں اور جس وقت بشیر نے آکر کرتے کو باپ کے چہرہ پر ڈالا تو اچانک والد بزرگوار ( حضرت یعقوب(ع)) کی آنکھوں کی روشنی واپس آگئی۔ اور وہ ان سے کہنے لگے۔ کیا ہم نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اپنے رب کی جانب سے وہ چیز جانتا ہوں جسے تم

۱۹۰

نہیں جانتے۔ (یوسف/ ۹۳ـ۹ ۶ )

ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت یعقوب(ع) نے اپنی بینائی کھودی تھی اور حضرت یوسف(ع) نے بشیر سے جس طرح اور جو کہا وہی ہوا۔

گرچہ ہم اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت یعقوب(ع) کی بینائی کو خداوند عالم یوسف(ع) کے کرتے  کے بغیر بھی پلٹا سکتا تھا اور وہ معبود اس بات پر قادر تھا کہ حضرت موسی(ع) کے عصا مارے بغیر پتھروں سے چشمہ جاری کر سکتا تھا۔ اور اسی طرح اس بات پر بھی قادر تھا کہ وہ گائے (کہ جس کو ذبح کرنے کا بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا) کے بعض حصوں کو مردہ پر ڈالے  بغیر مردہ کو زندہ کردے۔

لیکن خداوند عالم نے ان تمام کاموں کے لیے وسیلہ قرار دیا تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ خدا کی خلقت کےدرمیان وسیلہ و واسطہ اس کی سنت ہے اور ہرگز شرک نہیں ہےجیسا کہ وہابیت مدعی ہے۔

یہ ہماری کتاب ہے جو تم سے حق کہتی ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اسے ہم لکھتے ہیں پس جو ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے ان کو پروردگار عالم اپنی رحمت میں شامل کرلے گا۔ اور یہ واضح کامیابی ہے۔ لیکن جو کافر ہوگئے۔ تو کیا ہماری آیات تمہارے لیے تلاوت نہ کی جاتی تھیں پھرکیوں گناہ کیا؟ اور متکبر ہوگئے( بلاشبہ) تم ظلم کرنے والا گروہ بن گئے۔ ( جاثیہ/ ۳۱ـ۲۹)

۱۹۱

پیغمبر(ص) تبرک اور احترام کو جائز سمجھتے ہیں!

بعض منکرین کا یہ کہنا کہ متبرک چیزوں سے برکت حاصل کرنا بدعت ہے اور اس کے موجد بعض اصحاب یا تابعین ہیں۔ اس مقولہ کا فریب نہ کھانا چاہئے۔ اس لیے کہ یا تو وہ حقائق سے نا بلد ہیں یا پھر نئے مذہب وہابیت کی وجہ سے تعصب کرتے ہیں۔

مذہب وہابیت خود بدعت سے اور کیا ہی بڑی بدعت ہے! یہ کیسا مذہب ہے جو ایک جھوٹے اور باطل شبہ کی بنیاد پر مسلمانوں پر شرک کی تہمت لگاتا ہے؟

رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب کو متعدد مقامات پر برکت حاصل کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور اس کی موافقت فرمائی ہے بلکہ اسے تو مستحب جانا ہے۔ لہذا صحابہ آںحضرت(ص) کے بعد ان کی چیزوں سے تبرک حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں آدم سے نقل کیا ہے کہ شعبہ نے کہا کہ حکم نے ہم سے بیان کیا کہ میں نے سنا ابو جحیفہ نے کہا:

ایک گرم دن میں  ظہر کے وقت رسول خدا(ص) ہمارے پاس تشریف لائے، پانی لایا گیا کہ حضرت(ص) وضو فرمائیں، آںحضرت(ص) نے وضو کیا، آںحضرت(ص) کے وضو کرنے کے بعد بہت سے لوگوں نے اس پانی کو لیا اور اپنے سر اور چہرے پر ملا۔

پیغمبر(ص) نے ظہر کی نماز دو رکعت اور عصر کی نماز دو رکعت پڑھی جب کہ آںحضرت(ص) کے سامنے عصا رکھا ہوا تھا، ابوموسی کہتے ہیں: پیغمبر(ص) نے

۱۹۲

پانی مانگا۔ اور آپ(ص) کے لیے ایک برتن میں پانی لایا گیا، آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ منہ اس سے دھویا اور آب دہن اس برتن میں ڈال دیا اور پھر ان دونوں سے فرمایا : اس پانی کو پیو اور اپنے سینے اور چہرے پر ملو۔

بخاری نے اپنی صحیح میں ایک دوسری حدیث پیش کی ہے جو اس سے کہیں واضح ہے۔ اس بحث کے خاتمہ پر اس کا بیان کرنا بھی برا نہ ہوگ۔

بخاری کہتے ہیں:

ابو موسی کا بیان ہے کہ جعرانہ( مکہ اور مدینہ کے درمیان ) میں آںحضرت(ص) کے پاس تھا بلال بھی ساتھ تھے ایک بدو عرب آںحضرتص(ص) کے پاس آیا، اس بدو عرب نےکہا: آپ(ص)  نے ہم سے جس چیز کا وعدہ کیا ہے اسے پورا کریں گے؟

حضرت(ص) نے فرمایا: ہاں تمہیں بشارت ہو۔

بدو عرب نے کہا: بہت بشارت بشارت لگا رکھی ہے۔ پیغمبر(ص) ابو موسی اور بلال کے پاس غصہ کی حالت میں وارد ہوئے اور کہا اس نے بشارت کو رد کردیا ہے پس تم اس  بشارت کو لے لو۔

انھوں نے کہا: ہم نے قبول کیا۔ پھر آںحضرت(ص) نے ایک ظروف میں پانی مانگا اور پھر اس سے اپنے ہاتھ اور منہ دھویا اور اس پانی میں آب دہن ڈال دیا اور فرمایا اسے پی جاؤ اور اسے سینہ اور چہرے پر مل لو تمہیں بشارت ہو۔

انھوں نے پانی کے اس برتن کو لیا اور وہی کیا جس کا آپ(ص) نے حکم فرمایا تھا۔

حضرت ام سلمہ نے پردہ کے پیچھے سے فرمایا کہ تھوڑا سا اپنی ماں کے لیے بھی چھوڑ دینا۔ تو انھوں نے تھوڑا سا پانی ام سلمہ کے لیے الگ کردیا۔ ( صحیح بخاری،ج ۵، ص۱۹۹ ، کتاب مغازی باب غزوہ

۱۹۳

طائف ماہ شوال)

یہ روایات نہ صرف تبرک حاصل کرنے پر پیغمبر(ص) کے اعتراف و اقرار کو ثابت کرتی ہیں بلکہ ان سے پتہ چلتا ہے کہ آںحضرت(ص) جس پانی سے اپنا ہاتھ منہ وھوتے ہیں اور اس میں آب دہن ملاتے ہیں اسی کو اپنے اصحاب کو پینے اور سینہ اور چہرے پر ملنے کا حکم فرماتے ہیں اور انھیں بشارت دیتے ہیں کہ اس پانی کی برکت سے انھیں خیر کثیر حاصل ہوگا اور نہ صرف اصحاب بلکہ ام سلمہ(رض) جو آںحضرت(ص) کی بیوی ہیں وہ خود اس پانی سے تھوڑا سا الگ کرنے کو کہتی ہیں جو رسول(ص) کے ذریعہ متبرک ہوا ہے۔

ان واضح حقائق کے مقابل وہابیت کا کیا جواب ہے؟ یا پھر ان کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے؟

۱۹۴

محمد(ص) در شہوار

ایک مرتبہ پھر امام بوصیری کے حضور میں احترام سے کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے اشعار کے سامنے سر تعظیم خم کرتے ہیں۔ اور ہر ایک کے لیے یہ اعلان کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) جوہر مخلوقات ہیں۔ آںحضرت(ص)  کے ساتھ کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ تمام اولاد آدم(ع) کےسید و سردار اور تمام انبیاء و مرسلین اور برگزیدہ بندوں کے آقا ہیں۔

آپ (ص) کی بشری صفات کے متعلق جو بھی اور جتنا بھی کہا جائے لیکن آپ کو خداوند عالم نے ہر طرح کی آلودگی وپلیدی سے پاک رکھا ہے۔ اور حدیث بیان کرنے والے آںحضرت(ص) کی ایسی خصوصیات بیان کرتے ہیں جو کسی اور میں دیکھی نہ گئیں اس کی مثالیں زیادہ ہیں، من جملہ ملاحظہ ہوں۔

کبھی بھی آںحضرت(ص) کے اوپر مکھی نہیں بیٹھی تھی اور بادل کا ایک ٹکڑا آںحضرت(ص) پر سایہ کئے رہتا۔ زمین آپ(ص) کے بدن کی فاضل چیزوں کو نگل لیتی اور آپ کے بدن سے مشک کی خوشبو ہوا میں پھیلی رہتی تھی۔

میں جب بھی اس طرح کی روایات کو پڑھتا ہوں اور ان کی صحت و درستگی پر ایمان بھی رکھتا ہوں تو ان میں کچھ ایسی چیزیں میری سمجھ آتی ہیں جنھیں دوسرے نہیں سمجھ سکتے۔لہذا میں ہرگز اسے غلط نہیں سمجھتا اگر کوئی رسول(ص) کے ہاتھ منہ کے دھونے کے بعد بچے ہوئے پانی کو پئیے۔ اس لیے کہ وہ بشر تو ہیں لیکن ان کی طرح کوئی بشر نہیں بلکہ آپ ایک درخشاں یاقوت ہیں۔

جب ہم میں سے کسی کو بھی اچھا نہ لگے کہ کسی کے ہاتھ منہ دھونے کے بعد

۱۹۵

بچے ہوئے پانی کو پیئے تو پھر اگر اس نے اس میں کلی بھی کہ ہوتو بھلا کیسے پی سکتے ہیں؟ اس لیے ان جراثیم اور کثافت و گندگی اور امراض کے خوف کے علاوہ طبعی طور پر انسان ایسے پانی سے نفرت کرتا ہے اور خصوصا اس وقت جب اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب  ہوتے دیکھے!

اگر ہمارا ایمان نہ ہوتا کہ رسول خدا(ص) ہرطرح کی کثافت و پلیدی،  جراثیم اور بری بو سے مبرا ہیں اور آپ کا بدن طاہر و مطہر ہے تو اس طرح کی روایات کو قبول نہ کرتے۔ اور اگر رسول(ص) کے بعض مخلص اصحاب کا ان حقائق پر ایمان نہ ہوتا تو اس پانی کو زیادہ سے زیادہ پینے پر سبقت نہ کرتے یہاں تک کہ ان کے درمیان نزاع اور کشمکش پیدا ہوجاتی۔ بلکہ یہ مخلص صحابہ حقائق رسول(ص) سے متعلق ایسی چیزیں جانتے تھے جن سے دوسرے نا واقف تھے۔ لہذا وہ نہ صرف وضو کا پانی یا لعاب دہن پڑا ہوا پانی پیتے تھے۔ بلکہ کچھ ایسے کام بھی کرتے تھے جس کو انسانی طبیعت بمشکل تحمل کرسکتی ہے!

ہم اس جگہ تذکرہ کریںگے کہ وہ کیا کرتے تھے!

بخاری اپنی صحیح میں ایک طویل روایت پیش کی ہے جس کا مورد نظر حصہ پیش خدمت ہے:

پھر عروہ کی آنکھیں اصحاب رسول(ص) پر جمی ہوئی تھیں وہ کہتا ہے: ہم نے نہیں دیکھا کہ رسول(ص) ناک سے نکلی ہوئی رطوبت کو پھینک پاتے، بلکہ اسے کوئی نہ کوئی صحابی لے لیتا اور اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا، اور اگر آنحضرت(ص)  وضو فرماتے تو اس کے بچے ہوئے پانی سے شفا حاصل کرتے۔

اسی طرح بخاری نے عروہ اور مسورومروان سے نقل کیا ہےکہ:

رسول خدا(ص) اپنی ناک سے خارج شدہ رطوبت کو نہیں پھینک پاتے تھے بلکہ اسے کوئی نہ کوئی صحابی لے لیتا اور اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیتا تھا۔

۱۹۶

یہ گرامی قدر اصحاب رسول(ص) جن پر خدا کا درود و سلام ہو۔ یہ جانتے تھے کہ اس سے رسول خدا(ص) راضی ہیں اور اس عمل پر آںحضرت(ص) کا سکوت ان کے اقرار اور اعتراف کا ثبوت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اصحاب آںحضرت(ص) سے بہت سی کرامات دیکھتے تھے، مثلا : عافیت، سلامتی، خیرو برکت، بیماریوں سے شفا، درد سے چھٹکارا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو آںحضرت(ص) کے لعاب دہن اور ناک سے نکلی ہوئی رطوبت کو اپنے چہرہ اور بدن پر نہ ملتے۔

اس مطلب پر مزید تائید کےلیے بخاری سے ایک اور روایت ملاحظہ ہو:

رسول خدا(ص) ایک گرم دن میں ظہر کے وقت بطحاء کی طرف گئے اور نماز ظہر دو رکعت پڑھی، جبکہ آپ کے سامنے عصا رکھا ہوا تھا۔

عون، ابی جحیفہ سے مزید نقل کرتے ہیں کہ آپ(ص) کے پیچھے بھی لوگ چل رہے تھے، پس لوگ آگے بڑھے،رسول(ص) کے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے چہرہ پرملنے لگے۔ اس کا بیان ہے کہ میں نے بھی آںحضرت(ص) کے ہاتھوں کو پکڑا او اپنے چہرہ پر رکھ لیا۔ اس کو برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار پایا۔        (بخاری، ج ۴، ص ۲۲۹، کتاب بدء الخلق باب صفتہ النبی(ص)۔

۱۹۷

نبی(ص) کے ذریعہ خدا سے شفا طلب کرنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ آںحضرت(ص) ہاتھ سے مس کر کے یا اپنے وضو کے پانی اور آب دہن کے ذریعہ بیماری کا علاج کرتے تھے اور بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔

مسلم اور بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ سہل بن سعید نے کہا: ہم نے سنا کہ آںحضرت(ص) نے روز خیبر فرمایا:

کل میں علم اس مرد کے حوالہ کروں گا جس کو خدا کامیابی عطا کرے گا، وہ خدا اور رسول(ص) کو دوست رکھتا ہوگا۔ اور خدا اور رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہوں گے۔ تمام شب لوگ اس فکر میں تھے کہ کل علم کس کے حوالہ کیا جائے گا۔ اور جب دوسرا دن آیا تو ہر شخص کا دل چاہتا تھا کہ وہ خود وہی شخص ہو۔

حضرت(ص) نے فرمایا:

علی(ع) کہاں ہیں؟ بتایا گیا : علی(ع) آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔ تو آںحضرت(ص) نے اپنے لعاب دہن علی(ع) کی آنکھ پر مل دیا اور ان کے لیے دعا فرمائی اور انھیں ایسی شفا مل گئی، گویا انھیں مرض ہوا ہی نہ تھا، پس علم آپ کے حوالہ کیا۔

حضرت علی(ع) نے عرض کی:

آیا میں ان کے ساتھ جنگ کروں کہ وہ ہماری طرح ہوجائیں؟

آںحضرت(ص) نے فرمایا:

۱۹۸

جلدی کرو تاکہ ان کی حد میں داخل  ہوجاؤ اور انھیں اسلام کی طرف دعوت دو اور جو کچھ ان پر واجب ہے اس سے انھیں باخبر کردو۔

اسی طرح بخاری سے نقل کیا ہے کہ ہم نے سنا ہے کہ سائب بن یزید کا بیان ہے کہ:

میری خالہ مجھے رسول(ص) کے پاس لے گئی اور کہا: اے خدا کے رسول(ص) میرا بھانجا زمین پر گرپڑا ہے۔ پس رسول(ص) نے میرے سر پر اپنے ہاتھوں کو ملا اور میرے لیے دعا کی پھر وضو فرمایا اور میں نے آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو پیا۔

بخاری نے جابر سے بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

پیغمبر(ص) ہماری عیادت کے لیے آئے جبکہ میں بخار کی شدت سے بے ہوش تھا۔ پس آںحضرت(ص) نے وضو کیا اور وضو کے بچے پانی کو مجھ پر چھڑکا، میں ہوش میں آگیا۔

رسول خدا(ص)، اللہ کے نزدیک ایسے مرتبہ و مقام کے مالک ہیں کہ آب دہن کے ذریعہ اندھوں کو بینائی عطا کرتے ہیں اور آب وضو کے ذریعہ مرگی سے بے ہوش مریض کو ہوش میں لاتے ہیں اور شفا بخشتے ہیں ۔ اور صحابہ آپ کی ناک کی رطوبت کو لیتے ہیں اور شفا کی غرض سے اپنے چہرے اور بدن پر ملتے ہیں اور روایت میں تو یہاں تک آیا ہےکہ حذیفہ بن یمان کے پاس ایک تھیلی تھی جس کے ذریعہ بیماروں کا علاج کرتے تھے اور کوئی ایسا مریض نہ تھا جس پر وہ تھیلی رکھی جائے اور اسے شفا نہ حاصل ہو۔ یہ خبر کافی مشہور ہوئی اس کی اطلاع آںحضرت(ص) کو بھی ملی آپ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا؟

اے حذیفہ ! کیا تم آشوب گرہو؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں بلکہ یا رسول اللہ(ص)  آپ کا پیر ایک پتھر پر نقش ہوگیا تھا، میں نے اسے اٹھا کر اس کپڑے کی تھیلی میں رکھ لیا اور اس بیماروں کا علاج کرتا ہوں۔

۱۹۹

پیغمبر(ص) نے فرمایا : اگر کسی پتھر پر بھی اعتقاد پیدا کر لو تو تمہارے لیے مفید ہوگا۔

ان روایتوں کے نقل کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ کرتب دکھانے والے ، شعبدہ بازوں، دجالوں اور دھوکہ بازوں پر ایمان لایا جائے اور علم طب وحکمت سے ایمان کو کم کردیا جائے ، اس لیے کہ خود آںحضرت(ص) فرماتے ہیں کہ:

اپنے لیے ایک طبیب (ڈاکٹر) تلاش کرو، خدا نے مرض کو خلق کیا تو اس کا علاج بھی خلق کیا ہے۔

ان روایات کا معنی اور مطلب یہ نہیں کہ مسلمان صرف دعا، حرز، قرآن اور برکت کے ذریعہ بیماری سے شفا حاصل کرنے پر اکتفا کریں، بلکہ ہماری غرضیہ ہے کہ وہابیت کے اوپر حجت کامل ہوجائے جو ان تمام امور کا انکار کرتے ہیں اور جو بھی اس کا معتقد ہو اس  کو مشرک سمجھتے ہیں۔ رسول گرامی(ص) سے توسل و تبرک حاصل کرنے میں صحابہ کا اقدام معقول ہے۔ کیونکہ انھوں نے آںحضرت(ص) کے ساتھ معاشرت کی اور معجزات کے علاوہ بشر کی قوت سے بالاتر امور کا مشاہدہ کیا جس نے ان کے نفوس کو آرزؤں سے بھر دیا۔

بیشک سیرت و تاریخ کے مصنفین اور جو لوگ معجزات کو اہمیت دیتے ہیں انھوں نے رسول خدا(ص) کے لیے وہی کچھ تحریر کیا ہے جسے انبیاء کے متعلق کتاب خدا نےثبت کیا ہے، مثلا بیماروں کو شفا، اندھے ہوجانے والوں اور پیدایش اندھوں کو بینائی دینا، مردوں کو زندہ کرنا، آسمان سے خوان بہشتی منگانا، جانوروں سے ہم کلام ہونا وغیرہ وغیرہ۔

ہم یہاں بخاری کی ایک یا دو روایت پر اکتفاء کریں گے۔ اور محققین سے کہیں گے کہ وہ خود اس کے متعلق علماء کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

قتادہ، انس سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا:

رسول خدا(ص) ایک بے آب و گیاہ صحرا میں تھے آپ(ص) کے لیے ایک برتن

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279