اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات21%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56252 / ڈاؤنلوڈ: 4980
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

نمازشب انجام دینے سے اچھے اخلاق اورنیک سیرت کامالک بن جاتاہے چنانچہ اس مطلب کویوں ذکرفرمایاہے :وتحسن الخلق کہ خوش اخلاق اورنیک سیرتی کی اہمیت اورضرورت کے تمام انسان قائل ہیں اگرچہ کسی قانون اورمذہب سے منسلک نہ بھی ہو لہٰذااگرکوئی شخص خوش رفتار اوراچھے اخلاق کامالک بنناچاتاہے تونمازشب کوہرگزفراموش نہیں کرناچاہئے کیونکہ نمازشب کانتیجہ خوش اخلاقی اورنیک سیرتی ہے ۔

١٤۔نمازشب بصیرت میں اضافہ کاسبب

دنیوی فوائد میں سے ایک جسکا امامؑ نے مذکورہ روایت میں تذکرہ فرمایا ہے بصیرت اور بینائی میں اضافہ ہے کہ اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:وتجلّواالبصر یعنی نماز شب کی وجہ سے آنکھوں کی بصیرت میں اضافہ ہوتاہے ۔

توضیح : دنیا میں انسان کو دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت بصیرت ہے کہ جس کی حفاظت کے لئے خود خدا نے ہی ایک ایسا نظام اور سسٹم مہیا فرمایا ہے کہ جس کی تحقیق کرنے والے حضرات اس سے واقف ہیں لہٰذا انسان کی کوشش بھی اسی کی حفاظت اور بقا رکھنے میں مرکوزہے پس اگر ہم بصیرت میں اضافہ اور نوراینیت میں ترقی کے خواہاں ہیں تو نماز شب پڑھنا ہوگا

١٥۔ قرضہ کی ادائیگی کا سبب نماز شب

نیز دنیوی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب قرضہ کی ادائیگی کا سبب ہے چنانچہ امام نے فرمایا و تقضی الدین یعنی نماز شب قرضہ کو ادا کرتی ہے کہ دنیا میں انسان کے لئے مشکل ترین کاموںمیں سے ایک قرضہ کی ادائیگی ہے کہ اس سے نجات ملنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے لہٰذا مقروض حضرات کو ہمیشہ سرزنش اور اہانت کا سامنا کرنا پڑتاہے اگر ہم اس سے نجات او معاشرے میں باوقار رہنا چاہتے ہیں تو نماز شب کا پابند رہنا ہوگا چنانچہ امام نے فرمایا: تدر الرزق نیز پریشانی کی برطرفی کا سبب بھی نماز شب ہے

۱۰۱

١٦۔نماز شب دشمن پر غلبہ پانے کا ذریعہ

اگرہم نمازشب انجام دیناشروع کردیں توانشاء اﷲہم اپنے دشمنوں پرہمیشہ غالب اورہروقت ہماری قسمت میں فتح ونصرت ہوگی خواہ ہمارادشمن ظاہری ہویاباطنی اگرکوئی شخص نمازشب جیسے اسلحے کے ساتھ مسلّح ہوکرمیدان جنگ میں واردہوجائے تویقیناکامیابی اورفتح سے ہمکنارہوجائے گالہٰذامسلمانوں کابہترین اسلحہ یہی نمازشب ہے چنانچہ مولاعلی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کومطالعہ کرنے سے اس مطلب کی وضاہت ہوجاتی ہے کہ آپ نے بہتّرجنگوںمیں دشمنوںسے مقابلہ کیااورہمیشہ مشکلات میں کامیاب ہوئے کہ اس کامیابی کے پیچھے نمازشب جیسے عظیم معنوی اسلحہ کی طاقت تھی کہ جس سے آپ مددلیاکرتے تھے اس طرح امام حسین علیہ السلام نے کربلامیں اس انسان ساز عظیم قربانی کے موقع پردشمنوں سے جنگ کرنے سے پہلے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ نمازشب انجام دیں اوراپنی بہن بی بی زینب سے نماز شب کی سفارش بھی کی لہٰذانمازشب کے فوائد میں سے ایک دشمنوں پرغلبہ ہے کہ اس مطلب کو امام )ع(نے یوںارشادفرمایا:صلاة ا لیل سلاح علیٰ الاعدائ (١)

یعنی نمازشب دشمنوںپرفتح پانے کے لئے بہترین اسلحہ ہے اسی مضمون کے مانندکچھ اورروایات کاتذکرہ پہلے ہوچکاہے ان تمام روایات کانتیجہ یہ ہے کہ نمازشب مشکلات کی برطرفی اوردشمنوںپرکامیابی کابہترین ذریعہ ہے اگرکسی کادشمن طاقت اوراسلحہ وغیرہ کے حوالے سے کسی پرغالب نظرآئے تواسے چاہئے کہ وہ نمازشب انجام دے کیونکہ نماز شب ہی انسان سے ہرلمحات پرحملہ آورہونے والے دشمن کودورکردیتی ہے کہ جس دشمن کوقرآن میں عدوء مبین کی تعبیرسے یادفرمایاہے۔

چنانچہ اس مطلب کوامام علی علیہ السلام نے یوں بیان فرمایاہے ''صلاة الیل کراهته الشیطان'' نمازشب پڑھنے والوں کوشیطان نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے لہٰذاعدومبین ہے یعنی انسان کاآشکار دشمن شیطان ہے کہ اس کے بارے میں سب کااجماع ہے اگرچہ خودشیطان کی حقیقت کے بارے میںعلماء اورمحققین کے درمیان اختلاف نظرپائی جاتی ہے کہ جن کاخلاصہ یہ ہے شیطان کی حقیقت کے بارے میں تین نظریے پائے جاتے ہیں ۔

١۔شیطان انسان کی مانندایک مستقل موجود ہے جوانسان کونظرنہیں

____________________

(١)بحارج٨٧.

۱۰۲

آتاہے لیکن ہمیشہ انسان پرمسلط رہتاہے لہٰذاانسان کی اعضاء وجوارح پرغیرشرعی تصرف کرتاہے جس اس کی حرکتیں شیطانی نظرآتاہے ۔

٢۔یہی دنیا عین شیطان ہے شیطان کوئی مستقل چیزنہیں ہے ۔

٣۔خودانسان ہی عین شیطان ہے ہمارے محترم استاد حضرت آیت اﷲمصباح یزدی نے اپنے فلسفہ اخلاق کے لیکچرمیں ان نظریات میں سے پہلے نظریے کوقبول کیاہے اورکہتے ہیںکہ شیطان ایک مستقل موجودہے لہٰذا مزید تفصیلات کے لئے ان کے فلسفہئ اخلاق کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کی طرف مراجعہ فرمائےے۔

خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کاوجوداوراس کاانسان کے لئے عدو مبین اورسب سے خطرناک دشمن ہوناایک واضح اورمسلم حقیقت ہے جس کاقرآن مجیدمیں بھی متعددبارذکرہواہے جیساکہ ارشادہے( انّ الشیطان لکم عدو مبین ) اورخالق رحیم نے اس خطرناک اورعیاردشمن سے بچاؤکے متعددذریعے فراہم فرمایاہے جن میں سے ایک اہم ذریعہ نمازشب ہے ۔

۱۰۳

١٧۔نمازشب باعث خیروسعادت

نماز شب کے مادّی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے مؤمن کو خیر و سعادت نصیب ہوتی ہے کہ علم اخلاق کے دانشمندوں نے خیر و سعادت کے اصول و ضوابط کے بارے میں مختلف نظریات کو ذکر کیا ہے کہ جن کی آراء کا تذکرہ کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا اختصار کے پیش نظر راقم الحروف اس کی طرف صرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کیونکہ نماز شب ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کی برکت سے دنیا میں ہی انسان سعادت مند بن جاتا ہے اور ہر باشعور انسان کی یہی کوشش رہی ہے کہ سعادت مند بن جائے اسی لئے انسان ہزاروں زحمتیں اور مشکلات اٹھاتا ہے تاکہ سعادت جیسی عظیم نعمت حاصل کرنے سے محروم نہ رہے پیغمبر اکرم)ص( نے جنگ تبوک میں اپنے صحابی معاذ ابن جمیل سے فرمایا کیا میں تجھے خیر و سعادت کے اسباب سے مطلع نہ کروں تو معاذ ابن جمیل نے کہا: یارسول اﷲ کیوں نہیں! اس وقت پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ سے نجات مل جاتی ہے اور صدقہ دینے کے نتیجے میں اشتباہات کا خسارہ ختم ہوجاتا ہے جبکہ اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرنے سے سعادت مند ہوجاتا ہے پھر اس آیہئ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( تَتَجَافَی جُنُوبُهُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ ) (١)

یعنی نماز شب پڑھنے والے اپنے پہلو کو بستروں سے دور کیا کرتے ہیں۔(٢) لہٰذا جو انسان باعزت اور سعادت مند ہونےکا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب انجام دے ۔

____________________

(١) سورہئ سجدہ آیت ١٦.

(٢)بحار ج٨٧.

۱۰۴

١٨۔انسان کے اطمئنان کا ذریعہ

اسی طرح نماز شب کے فوائد مادّی میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب پڑھنے سے انسان کو سکون اور آرام حاصل ہوجاتا ہے کہ آج انسان اکیسویں صدی میں داخل ہے اور آبادی چھہ ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے لیکن ان میں بہت سارے انسان سکون او ر آرام جیسی نعمت کے حصول کی خاطر منشیات اور مضر اشیاء کے عادی بن چکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے وسائل انسان کو حقیقی آرام و سکون مہیا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کچھ عرصہ شراب اور دیگر مضر چیزوں کے استعمال سے سکون اور آرام پیدا ہونے کے بعد نتیجتاً خودکشی کرلیتا ہے یا پھر انسانیت کے دائرے سے ہی نکل جاتا ہے اسی لئے شریعت اسلام میں اس قسم کے مضر چیزوں کے استعمال کوحرام قراردیاگیاہے لہٰذااگرہم ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلامی تعلیمات کاپوری طرح سے پابندہوجائے تومعلوم ہوتاہے کہ اس میں کس قدرلذت اورسکون ہے کہ جس کاہم اندازہ نہیں لگاسکتے اوراسی کے طفیل ہمارے نفسیاتی تمام امراض دور ہوجاتے ہیں کہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے:

صلاة اللیل راحة الابدان (١)

یعنی نماز شب کی وجہ سے بدنوں میں آرام و سکون پید اہوجاتا ہے ۔

____________________

(١)بحار ج٨٧

۱۰۵

١٩۔نماز شب طولانی عمر کا ذریعہ

اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے نزدیک عمر اور زندگی سے زیادہ محبوب کوئی اور چیز نظر نہیں آتی بہت سار ے محققین نے عمر میں ترقی اور اضافہ کی خاطر مختلف راستوں کو بیان کیا ہے لیکن جس حقیقی راستے کی نشاندہی اسلامی تعلیمات اور آئمہ معصومینؑ کے اقوال میں کی گئی ہے اس کا اور کسی محقق کی بات یا نظریہ میں ملنا مشکل ہے لہٰذا اگر قرآنی تعلیمات یا انبیاء اور آئمہ کے اقوال کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے ان کے فرمودات میں انسان کی روز مرہ زندگی کی تمام ضروریات کی طرف رہنمائی پائی جاتی ہے اگر چہ انسان یہ خیال کرے کہ نماز شب اور طولانی عمر کا آپس میں کیا رابطہ ہوسکتا ہے؟ لیکن انبیاء اور آئمہ کے اقوال اور ان کے عمل و کردار میں فائدہ ہی فائدہ ہے جس کی حقیقت کو درک کرنے سے اکثر لوگ قاصرہیں پس اگر انسان اپنی عمر میں ترقی دولت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو ایک مہم ترین سبب نماز شب ہے اس کو فراموش نہ کیجئے کہ اس مطلب کو امام رضا علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا: تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص آٹھ رکعت نماز شب پڑھے دو رکعت نماز شفع اور ایک رکعت نماز وتر (کہ جس کے قنوت میں ستر دفعہ استغفراﷲ کا ذکر تکرار کیا جاتا ہے) انجام دیگا تو خداوند اسکو عذاب قبر اور جہنم کی آگ سے نجات اور اس کی عمر میں اضافہ فرماتا ہے۔(١)

____________________

(١) بحار الانوار ج٨٧.

۱۰۶

لہٰذا اس روایت کی بنا پر عمر میں ترقی ہونا حتمی ہے لیکن اس کے باوجود توفیق کا نہ ہونا ہماری بدقسمتی ہے

ب۔ عالم برزخ میں نماز شب کے فوائد

مقدمہ :

جب ہم دور حاضر کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم کو محققین اور فلاسفرنے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔

١۔عالم طبیعت :۔ کہ اس عالم کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ تمام حرکات و سکنات مادہ یا مادیات سے وابستہ ہے اور نماز شب کے کچھ فوائداس عالم سے مربوط ہیں کہ جن کا بیان ہوچکا ہے ۔

٢۔عالم برزخ :۔ کہ جس کا آغاز موت سے ہوتاہے اور اس کا انتہاء قیامت ہے یعنی عالم دنیا کے بعد اور عالم آخرت سے پہلے درمیانی اوقات کا نام عالم برزخ ہے کہ جس کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان دنیوی اور مادی لوازمات سے استفاہ نہیں کرسکتاہے ۔

٣۔عالم آخرت:۔کہ جس کی وضاحت عنقریب کی جائے گی (تاکہ خوش نصیب افراد نماز شب کے عادی ہوں اور اس کے نتائج سے مستفیض ہوں) لہٰذا اب ان فوائد کی طرف اشارہ کرنا لازم سمجھتاہوں جو عالم برزخ سے مربوط ہیں۔

١۔نماز شب قبر میں روشنی کا ذریعہ

اگر انسان ایک لمحہ کے لئے عالم برزخ کا تصور کرے تو اس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ عالم انسان کے لئے کتنا مشکل اور سخت عالم ہے کہ اس کی حقیقت کو ہم درک نہیں کرسکتے اور ہم میں سے کسی کو خبر نہیں ہے صرف آئمہ معصومینؑ کے اقوال اور سیرت طیبہ کے مطالعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ عالم برزخ میں دوست و احباب اورتمام لوازمات زندگی اور مادی وسائل سے منقطع اور محروم ہوجاتاہے اسی لئے اس کو قیامت صغریٰ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ انسان اس میں ہر قسم کی سختیوں اور دشواریوں سے دوچار ہوگا ہم عالم برزخ کے عذاب اور اس کی سختیوں سے نجات کے خواہاں ہیں تو نماز شب جیسی عبادات کوانجام دینے میں کوتاہی نہیں کرنا ہوگی کیونکہ عالم برزخ میں ہونے والی سختیوں میں سے ایک قبر کی بھیانک تاریکی ہے کہ جس سے انسان کا موت کے آتے ہی سامنا ہوجاتاہے

۱۰۷

کہ تاریکی اور اندھیرا ایک ایسی بھیانک چیز ہے جس سے انسان دنیا میں خوف زدہ ہوجاتاہے کہ ایک لمحہ بھی تاریکی میں گذارنا اس کے لئے کتنا مشکل ہوجاتاہے اسی طرح جب انسان عالم برزخ میں پہنچے گاتو وہ لمحات بہت ہی سخت ہوںگے کیونکہ دنیا میں ہر قسم کی سہولیات جیسے بجلی سورج چاند ستارے اور دوسرے وسائل کا سلسلہ موجود ہے لہٰذا دنیوی اندھیرے اور تاریکی سے نجات مل سکتی ہے لیکن عالم برزخ میںان تمام ذرایع سے محروم ہوگا لہٰذا عالم برزخ کی تاریکی سے نجات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ اس غربت کے زاد راہ کا فکر کریں اور اس تاریک گھر (قبر) کی روشنی کا اس دنیا سے جانے سے پہلے بندوبست کریں اور قبر میں کام آنے والے اور قبر کی تاریکی کو نور میں بدلنے والے اعمال میں سے ایک مہم عمل نماز شب ہے نماز شب عالم برزخ میں بجلی کے مانند ہے اور اس کی وجہ سے قبر منور ہوگی چنانچہ اس مطلب کی طرف حضرت علی علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا اگر کوئی شخص پوری رات عبادت الٰہی میں بسر کرے یعنی رات کو تلاوت قرآن کریم اور نماز شب انجام دے کہ جس کے رکوع و سجود ذکر الٰہی پر مشتمل ہو تو خدا وند اس کی قبر کو نور سے منور کرتا ہے اور دل حسد کی بیماری اور دوسرے گناہوں کی آلودگیوں سے شفاء پاتا ہے اور اس کو قبر کے عقاب و عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات ملتی ہے، چنانچہ معصوم علیہ السلام نے فرمایا:

''یثبت النور فی قبر ه و ینزع الاثم والحسد من قلبه ویجار من عذاب القبر و یعطی برأة من النار ۔''(١)

اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح انسان کے لئے دنیا میں نور اور روشنی کے وسائل خدا نے مہیا فرمائے ہیں اسی طرح عالم برزخ میں بھی روشنی اور نور کے اسباب کو فراہم کیا لیکن دنیوی نور کے ذرایع مادّی ہیں جبکہ عالم برزخ کی روشنی اور نور کاذریعہ معنوی چیزیں ہیں جیسے نماز شب. لیکن نماز شب سے قبر میں نور حاصل

____________________

(١)ثواب الاعمال ص١٠٢.

۱۰۸

ہونے میں شرط یہ ہے کہ اس کو اخلاص کے ساتھ انجام دیا جائے ۔

نیز حضرت پیغمبر ؐ کا یہ قول ہے:

''صلاة اللیل سراج لصاحبها فی ظلمة القبر'' (١)

نماز شب قبر کی تاریکی میں نمازی کےلئے ایک چراغ کے مانند روشنی دیتی ہے ۔

٢۔ وحشت قبر سے نجات ملنے کا ذریعہ

نماز شب کے برزخی فوائد میں سے دوسرا فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے خداوند انسانوں کو وحشت قبر سے نجات دیتا ہے اور یہاں وحشت قبر کی تفصیل و حالات بیان کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا مذہب حق جو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اہل بیت اطہار کے نام سے موسوم ہے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ موت کیوجہ سے فنا نہیں ہوتاہے بلکہ موت کے بعد مزید دو زندگی کا آغاز ہوتا ہے

١۔ مثالی زندگی ۔

٢۔ابدی زندگی ۔

مثالی زندگی سے مراد وہ زندگی ہے جو عالم برزخ میں گذارا جاتا ہے کہ اس عالم میں ہر انسان کو مختلف قسم کے عذاب اور طرح طرح کی سختیوں سے دوچار

____________________

(١) بحار ج٨٧

۱۰۹

ہونا یقینی ہے جیسے وحشت قبر لیکن خدا اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے اسی لئے وہ انھیں اس عالم کی سختیوں سے نجات دینے کی خاطر کچھ مستحب اعمال کو انجام دینے کی ترغیب دلائی ہے جیسے نماز شب یعنی اگر ہم نماز شب کو انجام دیں توعالم برزخ میںوحشت قبر جیسی سختیوں سے نجات پاسکیں گے.چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یوں ارشاد فرمایا ہے:

''صلّی فی سواد اللیل لوحشة القبر'' (١)

یعنی رات کی تاریکی میں نماز انجام دو تاکہ قبر کی وحشت اور خوف سے نجات پاسکو اسی طرح دوسری روایت میںخداوند نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دستور دیتے ہوئے فرمایا:

''قم فی ظلمة اللیل اجعل قبرک روضة من ریاض الجنان ''(٢)

یعنی اے موسیٰ! تو رات کی تاریکی میں (نماز شب انجام دینے کی خاطر ) اٹھا کرو( تاکہ میں اس کے عوض میں) تیری قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دوں۔

لہٰذا ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وحشت قبر یقینی ہے لیکن اگر توفیق

____________________

(١)بحار ج٨٧.

(٢) بحارج١٠٠.

۱۱۰

شامل حال ہو تو اس کا علاج نماز شب ہے کیوں کہ اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتاہے کہ دنیا ہی عالم برزخ اور آخرت کے لئے خلق کیا گیا ہے ۔

٣۔قبر کا ساتھی نماز شب

جب انسان اس دار فانی سے چل بسے تو اس کے عزیز و اقارب ہی تجہیز و تکفین ادا کرنے کے بعد سپرد خاک کرکے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور بس پھر آپ کا اس قبرستان کے اس ہولناک ماحول میں کوئی پرسان حال نہ ہوگا حتیٰ ماں باپ اور بھائی،فرزند ہونے کے باوجود اکیلے چھوڑجائیں گے اور پھر آپ ہی کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی کوٹھی یا بنگلہ میں ہی آئے گا اور آپ کے خون پسینہ کرکے کمائی ہوئی جائداد اور مال دولت تقسیم کرینگے جب کہ آپ قبر میں تنہائی کے عالم میں ہر قسم کے عذاب میں مبتلا ہونگے اور ادھر یہی افراد جو آپ کے مال و دولت اور جائیداد پر ناز کرتے ہوئے نظر آئیں گے ان ہی میں سے کوئی ایک بھی ایک لمحہ کے لئے آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تاکہ آپ کو قبر کی وحشت اور مشکلات میں آپ کی مدد کریں لہٰذا احباب کی اس لاتعلقی کا اندازہ مرنے سے پہلے لگائیے جب کہ ہمارا حقیقی خالق ہمیشہ ہما رے فلاح و بہبود کا خواہاں ہیں اسی لئے آپ کو قبرمیں تنہائی سے نجات دینے کی خاطر آپ کے قبر کے ساتھی کا بھی تعارف کرایاہے کہ وہ باوفا ساتھی جو کبھی بھی آپ سے بے وفائی نہیں کریگا اور ہمیشہ آپ کا محافظ اور مددگار کی حیثیت سے آپ کے ہمراہ رہے گا وہ نماز شب ہے یعنی اگر آپ نماز شب انجام دینگے تو قبر میں تنہائی محسوس نہیں کرینگے کیونکہ نماز شب تنہائی کی سختی سے نجات دیتی ہے

۱۱۱

چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے نماز شب ملک الموت اور نماز گذار کے درمیان ایک واسطہ اور قبر میں ایک چراغ اور جس مصلّے پر نماز شب پڑھی جاتی ہے وہ لباس نکیر و منکر کے لئے جواب دہ اور روز قیامت تک قبر کی تنہائی میں آپ کی ساتھی ہوگی۔(١)

اور دنیا میں یہ عام رواج ہے کہ مخصوص ایام اور پروگراموں میں شرکت کرنے کی خاطر مخصوص لباس پہنا جاتاہے اور اسی طرح علماء عاملین کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ جب وہ اپنے ملائے حقیقی کی عبادت کے لئے آمادہ ہوا کرتے ہیں تو خاص لباس پہن کر عبادت کرتے تھے تاکہ روز قیامت وہ لباس ان کے حق میں شہادت دے اسی لئے علماء اور مؤمنین موت کے وقت اپنی وصیتوں میں ایسے لباس کے بارے میں تاکید کرتے تھے جس لباس میںمیںنے خدا کی عبادت کی ہے وہ لباس میرے ہمراہ قبر میں دفن کیا جائے تاکہ وحشت قبر اور اس کی تنہائی اور تاریکی میں اس کی شفاعت کرسکیں لہٰذا مرحوم آیۃ اﷲ مرعشی نجفیؒ کے وصیت نامہ میں ایسے ہی الفاظ ملتے ہیں کہ آپ نے وصیت نامہ میں فرمایا:

میرا وہ لباس میرے ساتھ دفن کیا جائے کہ جس میں میں نے نماز شب پڑھی ہے اور اس رومال کو بھی میرے ساتھ دفن کرے کہ جس سے امام حسین علیہ

____________________

(١)بحار ج٨٧.

۱۱۲

السلام کی مصیبت کو یاد کرکے بہائے گئے آنسو پونچھا کوجمع کیا لہٰذا نماز شب کے اتنے فوائد ہونے کے بعد اس سے محروم ہونا شاید ہماری بدقسمتی ہے پالنے والا ہم سب کو نماز شب پڑھنے کی توفیق عطا فرما ۔

٤۔نماز شب مانع فشار قبر

جیسا کہ معلوم ہیںکہ عذاب الٰہی کی تین قسمیں ہیں :

١۔ دنیوی عذاب ۔

٢۔برزخی عذاب ۔

٣۔اخروی عذاب ۔

لیکن ہمارے درمیان معروف ہے کہ عذاب کا سلسلہ اس عالم دنیا اور عالم برزخ کے سفر طے کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے جبکہ یہ خام خیالی ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہو تو کچھ کی سزا دنیا ہی میں مل جاتی ہے اور اسی کو عذاب دنیوی کہا جاتا ہے اگر چہ انسان غفلت اور سستی کے نتیجے میں دنیوی عذاب کو درک کرنے سے عاجز رہتا ہے لہٰذا یہی وجہ ہے کہ جب خدا کی طرف سے کسی جرم کی سزا دینا میں دی جائے تو غافل انسان اس کی مختلف توجیہات سے کام لیتا ہے۔ جب کہ اس کی اصلی علت یہی نافرمانی ہوتی ہے ۔

۱۱۳

اسی طرح کچھ دوسرے جرم ہیں کہ جس کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی بلکہ اس کی سزا عالم برزخ میں روبرو ہوتی ہے اور اسی طرح کچھ ایسے گناہ اور جرائم ہیں کہ جن کی سزا خداوند عالم آخرت میں دیتا ہے لہٰذا نماز شب واحد ذریعہ ہے جو انسان کو قبر کے تمام عذاب سے نجات دینے والی ہے لہٰذا نماز شب کے برزخی فوائد میں سے چوتھا فائدہ یہ ہے کہ نمازی کو قبر کے عذاب اور فشار قبر سے نجات دیتی ہے کہ فشار قبر اتنا سخت سزا ہے جو انسان کے بدن کے گوشت کو ہڈیوں سے الگ کردیتی ہے اس مطلب کو صحابی رسول اکرم)ص( جناب ابوذر نے یوںارشاد فرمایا ہے کہ ایک دن کعبہ کے نزدیک بیٹھے ہوئے لوگوں کو نصیحت کررہے تھے اور انھیں ابدی زندگی کی طرف ترغیب و تشویق دلارہے تھے اتنے میں لوگوں نے آپ سے پوچھا اے ابوذر وہ کونسی چیز ہے جو آخرت کے لئے زادراہ بن سکتی ہے تو آپنے فرمایا گرمی کے موسم میں روزہ رکھنے سے حساب و کتاب آسان ہوجاتاہے اور رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز پڑھنے سے وحشت قبر سے نجات ملتی ہے اور صدقہ دینے سے انسان کی تنگ دستی دور اور مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔(١)

اسی طرح دوسری روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا کہ تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص رات کے آخری وقت میں گیارہ رکعت نماز انجام دے تو خداوند اس کو قبر کے عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات عطا فرماتاہے۔(٢)

____________________

(١)داستان ج٢ص٢٦.

(٢)بحار ج٨٧ص١٦١.

۱۱۴

٥۔نماز شب قبر میں آپ کی شفیع

جس طرح عالم دنیامیں کسی کی سفارش اور تعاون کے بغیر کوئی بھی مشکل برطرف نہیں ہوتی اسی طرح عالم برزخ میں بھی مشکلات اور سختیوں کو برطرف کرنے کے لئے مدد کی ضرورت یقینی ہے اگر چہ ان دو سفارشوں کے مابین فرق ہی کیوں نہ ہو لہٰذا عالم دنیا کی سفارش مادی اسباب کا نتیجہ ہے جیسے کسی بڑی شخصیت کی سفارش جب وہ میسر نہ آئے تو پھر رشوت وغیرہ کے ذریعہ سے مشکلات کی برطرفی اور مقاصد کے حصول کے لئے ہر انسان کوشش کرتا ہے جب کہ عالم برزخ اور مثالی عالم کی سفارش معنوی اور صوری ذرایع کی ہوتی ہے۔

لہٰذا عالم برزخ میں دنیا کے اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات کام نہیں آئیں گی بلکہ خدا کی نظر میںجو مقرب اور نیک حضرات ہیں وہی اس مشکل کو حل اور ہماری سفارش کرسکتے ہیں لہٰذا ایسے وسائل کے بارے میں بھی انسان کو شناخت و معرفت اور ان میںسے ایک معنوی تعلق جوڑنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے تبھی تو خدا وند عالم نے برزخ میں بھی مؤمن انسان کی شفاعت اور اس کی فلاح کے لئے کچھ دستورات دئے ہیں ان کو انسان پابندی کے ساتھ انجام دینے کی صورت میں اور محرمات سے اجتناب کرنے میں اور اخلاق حسنہ اپنانے میں اور اخلاق رذیلہ سے اپنے آپ دور رکھنے کی صورت میں اس کی تمام مشکلات برطرف ہوسکتی ہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا:

۱۱۵

صلاة اللیل شفیع صاحبها (١)

یعنی نماز شب قبر کی وحشت ناک تنہائی میں نمازی کی شفیع ہوگی پس نماز شب قبر کے وحشت ناک تنہائی اور عالم غربت کی سختی کے وقت اور ملک الموت و نکیر و منکر کے سوال و جواب کے موقع پرآپ کی شفیع ہے لہٰذا آیات و روایات کی روشنی میں بخوبی یہ نتیجہ نکلتاہے کہ نماز شب کے فوائد عالم برزخ میں بہت زیادہ ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں چند فوائد پر اکتفاء کرینگے پس جب ہم دنیوی فوائد ااوربرزخی فوائد سے فارغ ہوگئے تونمازشب کے ایسے فوائد کی طرف بھی اشارہ کریں گے جوابدی زندگی سے مربوط ہیں کیونکہ ابدی زندگی کے فوائدمادی زندگی اورمثالی زندگی کے فوائدسے زیادہ اہم ہیں تاکہ مومنین کے لئے اطمئنان قلب کا باعث بنے ۔

ج۔عالم آخرت میں نماز شب کے فوائد

١۔جنت کادروازہ نمازشب

اخروی فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ جوشخص علم جیسی نعمت سے بہرہ مندہواوراس کی نظروں سے کچھ کتابیں نما شب کے اخروی فوائد سے متعلق گذری ہوگی کہ دنیوی زندگی اورمثالی زندگی گزرنے کے بعد انسان کی ابدی زندگی

____________________

(١)جامع آیات و احادیث ج٢

۱۱۶

کاآغازہوجاتاہے کہ اس زندگی گزرنے کی جگہ مومن کے لئے جنت ہے لیکن اگرکافرہے توجہنم ہے.

لہٰذا جنت اور جہنم میں زندگی گذار نا ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے یعنی انسان کے اعمال و کردارعلت ہے،جنت میں داخل ہونایا جہنم میں رہنا معلول ہے تب ہی توانسان کے اعمال و کردار دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے نیک اعمال اور بد اعمال. اگر انسان اس دنیا میں اچھے اعمال کا عادی ہو اور اسلام کی تعلیمات کا پابند ہو تو جنت میں ابدی زندگی سے ہمکنار ہوتے ہوئے ہمیشہ جنت میں رہے گا لیکن اگر اس دنیا میں برے اعمال کا عادی رہا ہو اور اسلامی تعلیمات سے دور ہو یعنی اپنی خواہشات کا تابع ہو تو اس کی ابدی زندگی کی جگہ جہنم جیسی بری جگہ ہوگی پس جنت و جہنم دو ایسے مقام کا نام ہے کہ جس کی زندگی مثالی زندگی اور مادّی زندگی سے مختلف ہے لہٰذا جنت و جہنم کی زندگی کو ابدی کہا جاتاہے جب کہ باقی زندگی کو موقتی اور تغییر پذیر زندگی کہا جاتاہے چنانچہ اس مطلب پر قرآن کی کئی آیات میں اشارہ ملتاہے مثلاً:

۱۱۷

'' فیہا خالدون...'' یعنی جنت اور جہنم میں ہمیشہ رکھا جاتا ہے جب کہ ایسے الفاظ قرآن وسنت میں دنیوی زندگی کے بارے میں نظر نہیں آتے پس انسان غور سے کام لے تو بخوبی معلوم ہوتاہے کہ انسان کتنا غافل ہے کہ دنیا میں دنیوی زندگی سے اس قدر محبت رکھتاہے جبکہ یہ زندگی کچھ مدت کی زندگی ہے لیکن اگر یہی انسان خدا کا مطیع ہو تو فرشتوں سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے کہ اس تعبیر کی حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیوی زندگی کو ہی حقیقی زندگی مان لے توحیوانات سے بھی بدتر ہے لیکن اگر دنیوی زندگی کو ابدی زندگی کے لئے مقدمہ سمجھے تو فرشتوں سے بھی افضل ہے تبھی تو قرآن وسنت میں کئی مقام پر تدبر و تفکر سے کام لینے کی ترغیب ہوئی ہے تاکہ غافل انسان یہ نہ سمجھے کہ زندگی کا دار ومدار یہی زندگی ہے پس اگر کوئی ابدی زندگی کو آباد کرنے کا خواہاں ہے تو آج ہی نماز شب انجام دینے کا عزم کیجئے کیونکہ نماز شب جن فوائدپر مشتمل ہے شاید کوئی اور عمل نہ ہو لہٰذا نماز شب انجام دینے سے جنت کے دروازے ہمیشہ کےلئے کھل جاتے ہیں اور نمازی آسانی سے جنت میں داخل ہوسکتے ہیں چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( کا یہ ارشاد ہے: اے خاندان عبدالمطلب تم لوگ رات کے وقت جب تمام انسان خواب غفلت میں غرق ہوجاتے ہیں تو شب بیداری کیا کرو اور خدا سے راز و نیاز کرو تاکہ جنت میں آسانی سے جاسکوں۔(١)

دوسری روایت میں پیغمبر )ص( نے فرمایا:

''من ختم له بقیام اللیل ثم مات فله الجنة '' (٢)

اگر کوئی شخص شب بیداری کا عادی ہو اور مرجائے تو خداوند اس کے عوض میں اس کو جنت عطا فرمائے گا۔

____________________

(١)محاسن برقی ص٨٧.

(٢)وسائل ج٥.

۱۱۸

نیز تیسری روایت جس میں حضرت پیغمبر اکرم)ص( نے جناب ابوذر سے فرمایا :

'' یا اباذر ایما رجل تطوع فی یوم ولیلة اثنتا عشرة رکعة سوی المکتوبة کان له حقاً واجباً بیت فی الجنة''

اے ابوذر اگر کوئی شخص چوبیس گھنٹے کے اوقات میں واجبات کے علاوہ بارہ رکعات مستحبی (نماز شب) بھی انجام دے تو خداوند اس کے بدلے میں اس کو جنت عطا کریگا(١)

تفسیر وتحلیل:

ان مذکورہ روایات کا خلاصہ یہ ہوا کہ جنت میں جانے کے خواہاں افراد کو چاہیے کہ وہ نماز شب کو ترک نہ کریں کیونکہ نماز شب کی خاطر جنت میں خداوندخوش نصیب افراد کو ایک خاص قسم کا قصر عطا کریگا ۔

٢۔جنت میں سکون کا ذریعہ

نماز شب کے فوائد اخروی میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کے نتیجے میں خداوند نمازی کو ابدی زندگی میں سکون جیسی نعمت عطا فرماتاہے کہ سکون جیسی نعمت کی نیاز تمام زندگی کے مراحل میں یقینی ہے چنانچہ دنیا میں ہر انسان کی طبیعت یہ ہے کہ زندگی سکون سے گذارے لہٰذا سکون کی خاطر طرح طرح

____________________

(١)مکارم الاخلاق ص٤٦١.

۱۱۹

کی مشقتیں برداشت کرکے عدم سکون جیسی بلا سے جان بخشی کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتا ہے لہٰذا اگر کوئی شخص جنت میں زیادہ سے زیادہ آرام و سکون کا خواہاں ہو کہ انسانی فطرت اور عقل بھی یہی چاہتی ہے تو اس آرزو کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک عمل درکار ہے اور وہ عمل نماز شب ہے کہ جو اس مشکل کو حل کرسکتاہے یعنی سکون اور آرام جیسی نعمت سے زیادہ سے زیادہ مالامال ہوسکتاہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے ارشاد فرمایا:اطولکم قنوتاً فی الوتر اطولکم یوم القیامة فی الموقف ، تم لوگ نماز وتر کے قنوت کو جتنا زیادہ وقت تک انجام دوگے تو اتنا ہی خدا قیامت کے دن آرام و سکون میں اضافہ فرمائے گا(١) پس اسی روایت کی روشنی میں یہ کہہ سکتاہے کہ سکون جیسی نعمت کا ذریعہ بھی نماز شب ہے.

٣۔دائیں ہاتھ میں نامہئ اعمال دیا جانے کا سبب

نماز شب کے عالم آخرت سے مربوط نتائج میں سے اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کی وجہ سے خداوند قیامت کے حساب وکتاب کے دن نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں دے گا کہ یہی قبولیت اعمال اور رضایت خدا کی علامت ہے لہٰذا اس مطلب کو روایت کی روشنی میں بیان کرنے سے پہلے ایک مقدمہ ضروری ہے کہ وہ مقدمہ یہ ہے کہ قیامت کی بحث علم کلام میں مستقل ایک بحث

____________________

(١)بحارالانوار ج٨٧.

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

لایا گیا آپ(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا، اچانک انگلیوں کے درمیان سے پانی ابلنے لگا پوری قوم نے اس پانی سے وضو کیا، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس سے پوچھا ، تم لوگ کتنے آدمی تھے انھوں نے جواب دیا: تقریبا ۳۰۰ آدمی تھے۔

جابر بن عبداللہ کہتے ہیں:

روز حدیبیہ لوگ پیاسے ہوئے پانی کا ایک برتن آںحضرت(ص) کی بغل میں تھا۔ آںحضرت(ص) نے وضو کیا لوگ گھبرائی ہوئی حالت میں آںحضرت(ص) کے پاس آئے، آںحضرت(ص) نے فرمایا: تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ بولے: وضو کرنے یا پینے کے لیے بس یہی پانی ہے۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ پانی میں رکھا اچانک آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی ایسے ابلنے لگا جیسے چشمہ ابلتا ہے۔ پس ہم نے اس  میں سے پیا اور وضو کیا۔ہم نے پوچھا کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ڈیڑھ ہزار لوگ تھے لیکن ایک لاکھ لوگ بھی ہوتے تو بھی پانی کافی تھا۔

علقمہ عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ :

ہم رسول خدا(ص) کے ساتھ ہم سفر تھے۔ پانی کم ہوگیا، آںحضرت(ص) نے فرمایا : تھوڑا سا پانی لاؤ، ایک برتن میں پیش کیا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیا، اور فرمایا پاک و مبارک پانی کی طرف دوڑ پڑو یہ خدا کی برکت ہے، ہم نے پانی کو دیکھا جو انگلیوں کے درمیان سے ابل رہا تھا۔

۲۰۱

وہابیت کی تاریخی حیثیت

اگر ہم اپنی تاریخ کی طرف نگاہ اٹھائیں اور اس کے درد ناک اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو ان میں سے بعض واقعات ہمیں ٹھہرنے پر مجبور کردیں گے۔ تاکہ ہمیں سمجھا سکیں کہ یہ وہابیت جسے ہم نے اس قرآن میں پہچانا ہے۔ اسکی بھی تاریخی حیثیت ہے جو کبھی ظاہر تو کبھی پوشیدہ رہی ہے۔ کبھی جرات کر کے ظاہر ہوئی اور کبھی تقیہ و خوف سےپوشیدہ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اسلام پر ایسے دن آپڑے اور استعمار نے اس نئی فکر کو تقویت بخشی، اس کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ وہ ہالہ یا دائرہ جو آںحضرت(ص) کے گرد ہے اور آپ کا وہ احترام و اکرام جو مسلمان کرتے ہیں ختم اور بے اثر ہوجائے۔ استعمار کو پتہ ہےکہ مسلمان دو چیزوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ قرآن اور سنت پیغمبر(ص) اور یہ دونوں شریعت اسلام کے بنیادی مصدر ہیں جو ان کے حملہ کا نشانہ قرار پائے ہیں۔

اور یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ کتاب خدا میں کسی باطل کے نفوذ کی گنجائش نہیں اور خداوند عالم اس کی حفاظت کا خود ضامن ہے لیکن سنت رسول(ص) میں جعل و تحریف کی جاسکتی ہے اور آںحضرت(ص) کی وفات کے پہلے روز سے ہی سنت میں اختلاف پید ہوگیا۔

لیکن انھیں معلوم ہے کہ علمائے امت نےسنت کی حفاظت کی غرض سے جس کی صحت ثابت ہوچکی ہے اسے اکھٹا کرلیا ہے اور اس کے لیے قوانین بنائے ہیں۔ جو اس کو زیادتی  و کمی سے روکتے ہیں۔

اس کے پیش نظر انھوں نے ایک شیطانی چال چلی تاکہ اس کے ذریعہ جو

۲۰۲

چیزیں مسلمانوں کےدرمیان خوشحالی و نشاط کا باعظ ہیں نابود کر ڈالیں۔ چنانچہ جب مسلمان روحانی اور معنوی امور سے جدا ہوں گے تو الحادی مادیت سےنزدیک ہو جائیں گے۔ اور دھیرے دھیرے سیلاب کے اوپر پیدا ہونے والے جھاگ کی طرح ختم ہوجائیں گے۔ اس دوران انھیں ایک ایسے مسلمان شخص کی تلاش ہوئی جو ریاست طلب اور دنیا پرست ہو۔ انہوں نے محمد بن عبدالوھاب کو اس  کےلیے سب سے موزوں پایا۔ اس کے اندر اپنی روح پھونک  دی اور اس کو قانع کردیا کہ وہ اپنے زمانہ کا واحد دانشور ہے۔ اور ایسی ذہانت و ہوش کا مالک ہے کہ جو خلفائے راشدین کے پاس بھی نہ تھی۔ اور خلفائ کے اجتہاد کو کتاب و سنت جیسے صریح نصوص کا مخالف بتایا، خصوصا آںحضرت(ص) کی زندگی میں حضرت عمر کا آپ(ص) کی مخالفت کرنا۔اور محمد بن عبدالوہاب کو مطمئن کردیا  کہ محمد(ص) بشر ہیں، معصوم نہیں ہیں، مختلف مقامات پر ان سے بھول چوک ہوئی ہے۔ اورلوگوں نے ان کے اشتباہ کی اصلاح کی ہے اور یہ شخصیت کی کمزوری کی دلیل ہے۔

پھر اس میں جزیرة العرب پر تسلط اور اس پر حکومت کی طمع پیدا کی اس کے بعد اس میں تمام عرب دنیا اور اس کےبعد پورے عالم اسلام پر حکومت کی امید بندھائی۔

وہابیت انھیں مفاہیم پر استوار ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ رسول(ص) کو بی حقیقت اور ان کی اہمیت کو کم کردے۔ جیسا کہ ان کے علماء صراحت کے ساتھ کہتے ہیں وہ شخص مرگیا۔ ـنعوذ باللہ) اور ان کے بزرگ ( محمد بن عبدالوہاب نے کہا) محمد (ص) بوسیدہ مردار ہیں۔ (نعوذ باللہ) جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، یہ میرا عصا ان سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ فائدہ بھی پہنچاتا ہے اور نقصان بھی!

اسی سے ملتی جلتی عبارت حجاج بن یوسف کے زمانہ میں بھی کہی جاتی تھی۔

۲۰۳

اسی نے کہا:

ان کے سروں پر خاک! یہ لوگ ایک بوسیدہ مردار کے گرد طواف کرتے ہیں، اگر یہ عبدالملک بن مروان کے محل کےگرد طواف کرتے تو ان کےلیے بہتر ہوتا!

در حقیقت جس چیز نے حجاج او بنی امیہ جیسے ظالموں کو آںحضرت(ص) کے عظیم مقام کی اہانت کی جرات بخشی تھی وہ عمر بن خطاب کا قول تھا جسے اس نے آںحضرت(ص) کے حضور میں کہا تھا:

یہ شخص ہذیان بک رہا ہے ہمارے لیے صرف کتاب خدا کافی ہے!

اس باب میں وہابیت جو کچھ چاہتی ہے زور و زبردستی لوگوں کے اذہان میں داخل کرتی ہے اس لیے کہ اس کا کہنا ہے کہ محمد(ص) کا کردار ختم ہوا اور ان سے سوائے تاریخ کے کچھ نہیں بچا ہے اور جو بھی ان سے توسل اختیار کرے گویا اس نے ان کی پرستش کی ہے اور خدا کی خدائی میں انہیں شریک بنایا ہے۔

اور یہ کوئی تازہ فکر نہیں ہے بلکہ یہ تاریخی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ خود حضرت ابوبکر نے اعتراف کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ اعلان کیا۔ اور چیلنج کر کے کہا:

اے لوگو! جو بھی محمد(ص) کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے محمد(ص) مرچکے ہیں اور جو بھی خدا کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے اور ہرگز نہ مرے گا۔

اس بیان کی وجہ اور علت کیا تھی؟ جب کہ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں میں کوئی بھی آںحضرت(ص) کی پرستش نہیں کرتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت ابوبکر یہ سمجھتے تھے کہ واقعا بعض مسلمان آںحضرت(ص) کی پرستش کرتے ہیں۔ اگر ایسا تھا پھر آںحضرت(ص) کیوں خاموش رہے اور ان کو منع نہیں کیا؟ بلکہ ان کو کیوں قتل نہ کر ڈالا؟

۲۰۴

بہر حال میں ذاتی طور پر یہی عقیدہ رکھتا ہوں کہ ہو بھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو آج وہابیت کے یہاں وجود میں آیا ہے۔ یعنی وہ آںحضرت(ص) کا احترام و اکرام ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اور بلاشبہ اس پر جل بھن جاتے تھے۔ اور جس وقت دیکھتے لوگ پیغمبر(ص) کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو اپنے اوپر ملنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے ہیں۔ اور اس سے متبرک ہوتے ہیں اور آںحضرت(ص) واہل بیت(ص) کی محبت مودت کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کرتے ہیں اور خدا سے نزدیک ہوتے ہیں تو لوگوں کے اس عمل سے قریش میں برعکس اثر ہوتا۔ لہذا وہ آںحضرت(ص) کی ذات سے دشمنی رکھتے تھے۔ گرچہ وہ کسی اشتباہ کے مرتکب نہ ہوتے تھے۔

آخر کار قریش کے لیڈر، معاویہ بن ابو سفیان  نے اپنے اس باطنی کینہ سے پردہ اٹھا دیا اور جس وقت مغیرہ نے اس سےکہا:

اے امیرالمؤمنین کتنا اچھا ہوتا کہ تم ہاشم میں اپنے عزیزوں پر لطف و کرم کرتے۔ خدا کی قسم ان کے پاس کوئی چیز نہیں بچی ہے جس سے آپ ڈریں آپ کا یہ عمل آپ کے حق میں نفع بخش ہوگا۔

معاویہ نے کہا:

برادر بنی تمیم(ابوبکر) نے حکومت کی لیکن جیسے ہی اس دنیا سے گئے نام ختم ہوگیا۔ البتہ کوئی کبھی یاد کرلیتا ہے۔ برادر عدی(عمر) نے حکومت کی اور دس سال خود خواہی اور قدرت کی بنیاد پر لوگوں پر سلط رہے۔ لیکن جس وقت دنیا سے گئے ان کا نام بھی ان کےساتھ ختم ہوگیا، مگر یہ کوئٰ کہے حضرت عمر! اور حضرت عثمان نے بھی حکومت کی اور جو کچھ چاہا کیا لیکن جیسے ہی دنیا سے سدھارے ان کا نام بھی دینا سے رخصت ہوگیا۔ کسی کا نام بھی نہیں بچا سوائے ابن ابی بکر کشبہ(مراد رسول خدا(ص) ہیں) کے ، کسی اور کا نام نہیں بچا ہے اور ہر روز دن پانچ مرتبہ یاد کیا جاتا

۲۰۵

ہے۔ اور لوگ کہتے ہیں۔(اشہد ان محمد رسول اللہ) یہ کون سی یاد ہے جو باقی رہ جانا چاہتی ہے۔ تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، خدا کی قسم اس کے نام کو دفن کردوں گا اور مٹی میں ملا دوں گا۔

یہ وہی وہابیت ہے جس کا کل بہترین شکلی اور فصیح ترین عبارتوں میں نقشہ تیار کیا گیا اور آج کل اس کو عملی شکل دے رہے ہیں۔

(وہ چاہتے ہیں اپنے منہ سے نور خدا کو خاموش کردیں لیکن خدا اسے پورا کر کے رہے گا چاہے کافروں کو اچھا نہ لگے۔(صف / ۸)

۲۰۶

وہابیت اور زیارت قبور کی تحریم

اس وقت کی رائج بدعتوں میں ایک بدعت عورتوں پر قبر کی زیارت کو حرام قرار دینا ہے۔ مسلمان عورت جب خانہ خدا کی زیارت اور حج کے لیے جاتی ہے تو اسے بقیع اور شہداء احد اور دیگر قبور کی زیارت کی اجازت نہیں ملتی۔

وہابیت نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے پاس اس کو حرام قرار دینے میں سوائے تعصب کے کوئی اور دلیل نہیں ہے۔

مسلم اپنی صحیح میں باب جنائز کے اندر نقل کرتے ہیں کہ:

حضرت عائشہ نے رسول خدا(ص) سے  پوچھا۔ عورت اگر قبروں کی زیارت کے لیے نکلے تو کیا کہے۔

حضرت نے ان سے فرمایا:

کہے: اے قوم جو آرام سے اپنے گھروں میں سوئی ہے تم پر سلام ہو تم ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم بھی جب خدا نے چاہا تم سے ملحق ہو جائیں گے۔ خداواند عالم گذرے ہوئے اور جو بعد میں؟؟؟ ہیں ان کی مغفرت فرمائے۔

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ: آںحضرت(ص) ایک عورت کے قریب سے گذرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ(ص) نے فرمایا: تقواے الہی اختیار کر اور صابر رہ۔ اس عورت نے کہا: مجھ سے دور ہوجاؤ۔ تم میری مصیبت میں نہ گرفتار ہو اور نہ ہی اسے جانتے ہو۔ اس عورت سے کہا گیا کہ یہ رسول(ص)

۲۰۷

تھے۔ وہ عورت رسول(ص) کے گھر آئی اور عرض کیا: میں نے آپ کو نہ پہچانا مجھے معاف فرمائیے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا: اولین صدمہ اور مصیبت کے لیے صبر ہے۔

اس سلسلے میں حدیثیں بکثرت موجود ہیں اہل سنت کی کتب صحاح اور شیعوں کی کتابیں اس سے مالامال ہیں لیکن وہابیت اس کا انکار کرتی ہے اور اس کے لیے کس قدر قیمت ی قائل نہیں اور جس وقت ان میں سے بعض لوگوں پر میں نے اعتراض کیا اور احادیث کے ذریعہ استدلال کیا تو وہ کہنے لگے یہ روایتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔

میں نے کہا بلکہ اس کے برعکس ! تحریم منسوخ ہےاس لیے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

میں پہلے تم کو قبروں کو زیارت سے روکتا تھا لیکن اس وقت کہتا ہوں کہ زیارت کرو کیوںکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے۔

جواب ملا: یہ حدیث مردوں کے لیے مخصوص ہے عورتیں اس سے خارج ہیں،

میں نے کہا : تاریخ میں ثابت ہوا ہے اور محققین اہلسنت نے بھی اسے بیان کیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا ہر روز اپنے بابا کی قبر کی زیارت کو جایا کرتی تھیں، اور فرماتی تھی:

میرے بابا! مجھ پر وہ مصیبتیں نازل ہوئیں جو اگر دنوں پر پڑتیں تو شب تاریک میں بدل جاتے۔

یہ بھی مشہور ہےکہ حضرت علی(ع) نے ان کے لیے ایک گھر بنایا تھا جس کا نام بیت الحزن تھا اور وہ اپنا زیادہ تر وقت بقیع میں گزارتی تھی۔

اس نے کہا: اگر فرض کر لیں کہ یہ حدیث درست ہے تو یہ فاطمہ(س) سے مخصوص ہے۔

۲۰۸

اسے کہتے ہیں ( اندھا تعصب!) ورنہ مسلمان کیوں کر قصور کر سکتا ہے کہ خدا اور اس کا رسول(ص) عورت کو اس بات سے روکیں کہ وہ اپنے والدین، بھائی، اولاد اور شوہر کی قبروں پر جائے اور ان کے لیے طلب رحمت و مغفرت کرے اور ان کی قبروں پر اشک رحمت چھڑکے اور خود بھی موت کو یاد کرے جس طرح مرد یاد کرتا ہے۔

عورت کی نسبت اس کھلے ہوئے ظلم پر خدا اور اس کا رسول(ص) راضی نہ ہوں گے اور کوئی بھی عقل مند اسے قبول نہ کرے گا

۲۰۹

۲۱۰

۲۱۱

بڑی غلطی پر ان کا سختی سے محاسبہ کرتے ہیں۔

اور کبھی ایک بھول یا معمولی غلطی پر پٹائی کرتے ہیں اور ان پر درجہ سختی کرتے ہیں کہ وہ تھک جاتے اور دین سے متنفر ہوجاتے ہیں جبکہ وہ ابھی سن بلوغ تک بھی نہیں پہنچے ہوتے، یہ وہ چیز ہے جسے ہم نے خود دیکھا ہے۔ شایدخود آپ نے بھی اپنے عزیزوں میں ایسے بچوں کو دیکھا ہو جو سختی کی بنیاد پر نماز پڑھتے ہیں۔

اور جس وقت ماں باپ کی پکڑ کمزور پڑتی ہے تو اس زنجیر کو توڑ کر نکل جاتے ہیں اور نماز کو بالکل ترک کر دیتے ہیں۔

میں نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ اپنے عزیزوں میں کچھ والدین کو اس بات پر راضی کروں کہ نماز نہ  پڑھنے پر بچوں کی پٹائی نہ کیا کریں اور ان کو زبردستی نماز پڑھنے پر مجبور نہ کیا کریں بلکہ محبت و مہربانی اور نرمی کے ساتھ پیش آئیں تاکہ نماز ان کی نظر میں محبوب بنے نہ کہ ڈراؤنا خواب۔

لیکن  میں جب اس بات کو کہتا تو وہ کہتے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا:

سات یا دس سال (روایت میں اختلاف ہے) کے بعد نماز کے لیے بچوں کی پٹائی کرو۔ اس طرح خواہ جوانوں نے عیسائی مبلغوں کی پیروی نہ کی ہو لیکن نماز کو ضائع کردیا اور اپنے دین کو چھوڑ دیا۔ جب کہ انھیں کھیلوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کو چھوڑنا چاہیے تھا جو ذکر خدا سے روک دیتے ہیں۔

۲۱۲

مکتب اہل بیت(ع) میں مشکل کا حل

جو ابھی اسلامی تربیت کے لیے مکتب اہل بیت(ع) کی پیروی کرتا ہے اسے ایسی راہ حل ملتی ہے جس کو خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لیے قرار دیا ہے جو  ان کے لیے دین کو آسان کردے اور احکام کو ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا سکے۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

خدا نے تمہارے لیے دین میں مشقت قرار نہیں دی ہے۔(حج/ ۷۸)

خدا تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ زحمت ومشکل۔ ( بقرہ / ۱۸۵)

خدا ہر شخص پر اس کی قوت کے مطابق فرائض معین کرتا ہے۔(بقرہ / ۲۸ ۶ )

رفع حرج

رفع حرج یعنی سختی اور دباؤ کو ختم کرنا اور یہ اسلام کا ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ ہرج و مرج کو ختم کردیا گیا اور ہر زحمت ممنوع ہے لیکن اگر واقعیت یہی ہے تو پھر یہ ساری سختیاں جو فقہی کتابوں میں موجود ہیں وہ کس لیے ہیں؟

اگر مسلمان (اہل سنت حضرات) کے بعض ابواب وضو اور غسل کر پڑھے تو اسے احساس ہوگا کہ آسانی کس حد تک مشکل میں تبدیل ہوچکی  ہے اور انسان پر اسکی طاقت سے زیادہ فرائض عائد کئے گئے ہیں مثلا تحریر ہے کہ اگر غسل کے بعد غسل کرنے والے ہاتھ اس کے عضو تناسل سے لگ جائے تو اسکا غسل باطل ہے اور اسے بھر سے غسل کرنا پڑیگا۔

مکتب اہل بیت(ع) میں، اہل بیت(ع)  نے اپنے جد حضرت رسول خدا(ص) سے روایت نقل کی ہے کہ وضو و غسل (یعنی دوبارہ دھونا) اور دو مسح ہے( یعنی چہرہ اور ہاتھ کو دھونا اور سرو پا کا مسح ہے۔)

۲۱۳

یہ ہے وضو

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند عالم نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ نماز سے پہلے وضو کریں خداوند عالم فرماتا ہے:

اے رسول(ص) ! اگر نماز کے لیے اٹھو تو چہرہ کے بعد ہاتھوں کو کہنی تک دھوؤ۔ اور اپنے سرو پیرکا ابھرے ہوئے حصہ تک مسح کرو۔(مائدہ )

لہذا وضو چہرہ اور ہاتھوں کے دھونے اور سر وپا کا مسح کرنے کا نام ہےجیسا کہ ہم دیکھتے ہیں یہ بہت ہی آسان ہے اس میں کوئی زحمت بھی نہیں ہے۔ مسلمان مقیم ہو یا مسافر ائرپورٹ پر ہو یا ٹرین میں یا پھر گھر میں اس وضو سے اس کے لیے کوئی مشکل نہ ہوگی۔ پائپ کھولے چہرہ اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دھولے اور تل کو بند کردے۔ اورپھر سرو پا کا ہاتھ کی بچی ہوئی رطوبت سے مسح کرے۔ حتی اگر وہ چاہے تو نماز ادا کرنے کی جگہ تک جوتے کو نہ اتارے(اگر نماز ادا کرنے کی جگہ نزدیک ہو) تو وہاں جوتا اتارے اور پھر پاؤں پر مسح کرے۔

لیکن اہل سنت فقہ کے مطابق وضو بہت ہی سخت ہے کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھونا۔ تین مرتبہ کلی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالنا، تین مرتبہ چہرہ دھونا، تین مرتبہ داہنے ہاتھ کو دھونا ، تین مرتبہ بائیں ہاتھ کو دھونا، پورے سر، اور کان کا مسح، تین مرتبہ داہنے پیر کا دھونا اور تین مرتبہ بائیں پیر کا دھونا۔

ایسا وضو اور خصوصا جوانوں کے لیے سفر کی حالت میں اور خاص کر ٹھنڈک میں جب کہ پیروں کو دھونا ہو اور پھر موزہ پہننے کےلیے پیروں کو خشک کرنا اس میں ان کےلیے کس درجہ زحمت  ہے۔

۲۱۴

لیکن مکتب اہل بیت(ع) میں نص کے مقابل اجتہاد اور ذاتی رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور قرآن و سنت رسول(ص) کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ جو وضو اس مکتب میں ہے اسی کو قرآن نے بھی مسلمانوں پر واجب کیا ہے۔ اور رسول خدا(ص) و ائمہ اطہار(ع) اسی طرح وضو کرتے تھے۔

خدا رحمت کرے عبداللہ بن عباس پر آپ ہمیشہ تکرار کرتے  رہتے کہ :

کتاب خدا میں سوائے دو دھونے  اور دو مسح کے ہمیں اور کچھ نہیں ملتا لیکن تم لوگ تو صرف سنت حجاج کی پیروی کرنا چاہتے ہو۔ ( مصنف عبدالرزاق،ج ۱، ص۳۸)

لہذا آج مسلمانوں پر اور خاص کر سمجھدار جوانوں پر واجب ہے کہ آسانی اور سہولت کی طرف پلٹ آئیں اور لوگوں کو دین کی طرف رغبت اور شوق دلائیں، جناب رسول خدا(ص) نے مسلمانوں کے درمیان کس قدر تاکید فرمائی ہےکہ اس قاعدہ پر عمل کریں۔

لوگوں سہولت سے کام لو، مشکل پیدا نہ کرو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔

خود اپنے آپ پر سختی نہ کرو تا کہ خدا بھی تم سے سختی سے کام نہ کے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔

یہ تجربہ معمولا کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے۔ کتنے ایسے جوان تھے جو وضو کی وجہ سے نماز سے گریز کرتے تھے۔ یا نماز کو تیمم سے پڑھتے تھے ۔ اس ڈر سے کہ کہیں پانی ان کے پاؤں کے لیے مضر نہ ہو۔

لیکن اہل بیت(ع) کی روش کے مطابق وضو انھیں سکون حاصل ہوا اور وہ مطمئن ہوگئے۔

۲۱۵

یہ ہے نماز

مکتب اہل بیت(ع) میں نماز پانچ وقت پڑھنے کے بجائے تین وقت پڑھتے ہیں۔ یعنی نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب عشاء یکے بعد دیگری  پڑھتے ہیں۔ اور ایک وقت نماز صبح کے لیے نماز و عصر کےلیے اور ایک وقت نماز مغرب و عشاء کے لیے معین کر رکھا ہے۔

ہم نے اپنی کتاب ( سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) میں ایک باب قرآن کریم اور سنت پاک کی روشنی میں ان تین وقتوں کی شرعی حیثیت سے مخصوص کیا ہے۔ہم طالب کو طول دینا نہیں چاہتے اور جس بات کا تذکرہ پہلے کیا ہے اس کی تکرار نہیں کرنا چاہتے ہمارے محقق احباب اس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

لیکن اس جگہ ان تین وقتوں میں نمازوں کو قرار دینے کی الہی حکمت سے متعلق توضیح دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی تذکرہ کیا ہے۔ سماج کا ین چوتھائی حصہ نوکری پیشہ ہے۔ یہ یا تو نماز نہیں پڑھتا ہے یا اگر پڑھتا ہے تو کسالت اور سستی کے ساتھ پڑھتا ہے اور پھر پڑھنے میں مشقت اور سختی محسوس کرتا ہے۔

اس لیے کہ انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ شرعا کام میں کمی نہیں کرسکتے۔ اور جس وقت میں کام کی تنخواہ لیتے ہیں اس میں نماز نہیں پڑھ سکتے۔ البتہ ہم ان لوگوں سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتے جو مسجد میں پکار پکار کر کہتے ہیں نماز کے وقت کام چھوڑ دو چاہے اس کی وجہ سے تمہیں کام سے نکال دیا جائے اس لے کہ روزی کا دینے والا خدا ہے نہ کہ کارخانہ کا مالک اور منیجر!!!

۲۱۶

تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب یہی نظریہ رکھنے والے افراد خود اسی موضوع میں متضاد نظر آتے ہیں۔ ہم نے انھیں میں سے ایک شخص کو دیکھا وہ حضرت عمر بن خطاب کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا حضرت عمر مسجد میں وارد ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو لوگوں کے آنے سے پہلے نماز پڑھ رہا تھا۔ دوسری مرتبہ آئے دیکھا وہی شخص نماز پڑھ رہا ہے۔ اور جب تیسری مرتبہ دیکھا تو کہا کون تمہاری روزانہ کی زندگی کا خرچ دیتا ہے۔ اس نےکہا میرا بھائی مجھے کھانا کھلا تا ہے اور لباس پہناتا ہے جناب عمر نے اس سے کہا مسجد سے باہر نکل جاؤ اس لیے تیرا بھائی تجھ سے بہتر ہے۔ آسمان سے تو سیم و زر نہیں برستا۔

میں اس کو کنارے لے گیا اور اس سےکہا کہ کیا تم نے ایک ماہ پہلے یہ نہ کہا تھا کہ خدا اپنے بندوں کو روزی دیتا ہے۔ تمہارے اوپر ضروری ہے کہ نماز کے وقت کام چھوڑ دو۔ اس نے بزرگانہ مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ( ہر سخن جائی دارد) میری پہلی بات قرآن سے تھی اور دوسری بات حضرت عمر فاروق کے حوالہ سے تھی اور یہ دونوں باتیں حق ہیں میں نے اس سے کہا خدا تجھے جزائے خیر دے میں نے بڑا استفادہ کیا۔

ہم پھر دو نمازوں کو ایک وقت میں انجام دینے میں الہی حکمت کی طرف پلٹتے ہیں۔ کہ خداوند عالم زمین و زمان کا خالق ہے اور ماضی ، حال اور مستقبل سے آگاہ ہے۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہے۔

خدا کو علم تھا کہ ایک زمانہ میں لوگوں کی ذمہ داریاں زیادہ ہوں گی اور ان کی آزادی کم اور وقت محدود ہوگا۔ اور چونکہ حضرت محمد (ص)خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کی شریعت قیامت تک باقی ہے اور حکمت الہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔ کہ بندوں کےلیے آسانی پیدا کی جائے اور عسر وحرج کو ختم کیا جائے لہذا اپنے

۲۱۷

رسول(ص) سے فرمایا: نماز ظہر و عصر، مغرب و وعشاء کو ایک ساتھ ادا کریں اور یہی روش امت کو تعلیم فرمائیں۔ تاکہ ان پر سے حرج اور سختی ختم ہوجائے۔

پیغمبر(ص) نے اس حکم پر عمل کیا اور کئی مرتبہ مدینہ منورہ میں اسی روش پر نماز ادا کی اور جس وقت آپ سے سوال کیا گیا تو آپ(ص) نے فرمایا:

میں اپنی امت پر سختی نہیں چاہتا۔

صحیح بخاری میں آیا ہے کہ ابن عباس نے کہا:

رسول خدا (ص) نے مدینہ میں سات رکعتی اور آٹھ رکعتی نماز پڑھی، یعنی ظہر و عصر اور اسی طرح مغرب و عشاء۔

یہ ہے حکمت الہی اور یہ ہے رسول خدا (ص) کی نماز، جسے آںحضرت(ص) نے پروردگار کے حکم کی بنیاد پر انجام دیا۔ تاکہ امت کے لیے فشار و سختی کا باعث نہ ہوں۔

ہم کیوں اس روش کو چھوڑ دیتے ہیں جبکہ یہ سہل اور آسان ہے اور ملازم، کاریگر، طالب علم اور فوجی سبھی کے لیے سازگار اور ممکن ہے اور کوئی کام ایسا نہیں جو ان وقتوں سے بڑھ کر ہو۔ اس طرح اب کسی مسلمان کےلیے کوئی بہانہ نہیں۔

یہ بات دنیا میں معروف ہے کہ ڈیوٹی کا وقت  آٹھ گھنٹے ہوتا ہے ۔ اور دو حصوں میں کام ہوتا ہے صبح ۸ بجے سے لے کر ۱۲ بجے تک اور بیچ میں دو گھنٹہ استراحت پھر ۲ بجے سے لےکر شام کے ۶بجے تک۔ اس صورت میں مسلمان نماز ظہر و عصر کو آرام کے وقت میں کام پر دوبارہ جانے سے پہلے انجام دے سکتا ہے۔ اس طرح اس نے نماز ظہر و عصر کو اس کے صحیح وقت پر انجام دیا ہے چنانچہ نہایت آرام سے کام پر آسکتا ہے۔

لیکن اگر کام سارے دن کا ہو جیسے معدنیات یا اس سے مشابہ جگہوں پر کام تو (قانون کار) ۷ گھنٹے مسلسل کام کو تجویز کرتا ہے۔ اور آدھا گھنٹہ آرام کے

۲۱۸

لیے دیتا ہے اس قسم کی کمپنیاں کام کو تین شفٹوں میں معین کرتی ہیں۔

۱ـایک گروہ صبح ۷ بجے سے ۲ بجے تک کام کرتا ہے۔

۲ـدوسرا گروہ ۲ بجے (بعد از ظہر) سے رات کے ۹ بجے تک کام کرتا ہے۔

۳ـ اور تیسرا گروہ ۹بجے رات سے ۴بجے صبح تک کام کرتا ہے۔

نماز کے لیے اس حکمت الہی کے تحت یہ سارے گروہ بغیر کسی زحمت کے اپنے وقت پر نماز ادا کرسکتے ہیں۔

اور کوئی بھی عذر نہیں کرسکتا کہ اس کے پاس نماز ادا کرنےکا وقت نہیں ہےیا یہ کہ نماز وقت جارہا ہے اور وہ نماز ادا نہیں کرسکتا۔

اس طرح ہم نماز ادا کرنے میں قرآن و سنت کی پیروی کریں گے۔

اس لیے کہ حکم یہی ہےکہ مومنین نماز کو اس کے وقت پر انجام دیں۔ اسی کے ساتھ ہم اپنی اور دوسروں کی سختی و مشقت کو بھی دور کرسکتے ہیں۔

شاید بہت سے جوان جنہوں نے اپنی نماز کو ترک کردیا ہے پھر سے نماز کی آغوش میں پلٹ آئیں۔ اگر انھیں یہ پتہ چل جائے کہ خدا نے اسی امر کی تشریح کی  ہے اور رسول خدا(ص) اور آپ کے اہل بیت(ع) نے ایسے ہی انجام دیا ہے

۲۱۹

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279