اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات21%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56250 / ڈاؤنلوڈ: 4980
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ہونے کے باوجود باقی مباحث کلامی کی بہ نسبت مشکل اور پیچیدہ ہے لہٰذا قیامت کی مباحث میں بہت سے ایسے مسائل بھی ہیں کہ جن کی توضیح اور درک کرنا ہر عام و خاص کی بساط سے باہر ہے کہ انھیں میں سے ایک نامہئ اعمال ہے اگر چہ نامہئ اعمال کا مسئلہ اہم ترین مسئلہ بھی ہے کیونکہ بہت سی روایتیں اور آیات کی روشنی میں معلوم ہوتاہے کہ انسان کے تمام اعمال قیامت کے دن مجسم ہوکر حاضر ہوں گے نیز جن اعضاء و جوارح وہ اعمال انجام دئے گئے وہی اعضاء اسی پر گواہی دیتا ہے لہٰذا اس طرح کی باتیں نامہئ اعمال کے متعلق روایات اور آیات میں زیادہ ہیں اور اعمال کی حقیقت اور کیفیت کو درک کرنا انسان کی قدرت سے باہر ہے اگرچہ محقق ہی کیوں نہ ہو لہٰذا بوعلی سینا کا یہ قول ہے کہ میری تحقیقات معاد جسمانی کو ثابت کرنے سے قاصر رہی۔

لیکن میرا مولا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے لہٰذا میں سر تسلیم خم کرتا ہوں۔اور نامہئ اعمال کی اتنی اہمیت ہے کہ جنت اور جہنم کا فیصلہ ہی نامہئ اعمال کا نتیجہ ہے گویا مباحث معاد میں نامہئ اعمال کو ہی مرکزیت حاصل ہے لیکن اس کی حقیقت اور ماہیت روشن کرنا اس کتاب کی گنجائش سے خارج ہے لہٰذا مختصر یہ ہے کہ قیامت کے دن نامہئ اعمال یا دائیں ہاتھ یا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ نامہئ اعمال جس ہاتھ میں دیا جائے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب محققین دے چکے ہیں لیکن پھر بھی ایک اشارہ لازم ہے کہ نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جنّتی ہے اور اس کے سارے اعمال قبول ہونے کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ ابدی زندگی آباد ہونے پر بھی دلیل ہے اسی طرح نامہئ اعمال بائیں ہاتھ میں دینے کا مطلب بھی واضح ہے کہ خدا کی نظر میں اعمال قابل قبول نہ ہونے کی علامت ہے اسی لئے آئمہ معصومین علہیم السلام سے منقول بہت سی دعاؤں میں اس طرح کے جملات مذکور ہیں۔ کہ پالنے والے! روز قیامت میرا نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں لینے کی توفیق دے لہٰذا قیامت کے دن جن لوگوں کا نامہئ اعمال جب دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ لوگ خوش اور ان کے چہرے نور سے منور ہونگے لیکن جن لوگوں کے نامہئ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائیگا وہ خدا سے التجاء کریں گے:

۱۲۱

اے خدا وند کاش میرے نامہئ اعمال پیش نہ کیا جاتا اے کاش آج میرے تمام گناہوں اور برائیوں کو اس طرح میدان میں آشکار نہ کیا جاتا لہٰذا ایسی بڑی مشکل میں مبتلاء ہونے کا سبب ہمارے برے اعمال ہیں چنانچہ اگر انسان روز قیامت ایسے شرمناک اور ہولناک حالات سے نجات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب انجام دے لہٰذا روایات میں وارد ہوا ہے اگر آپ نے نماز شب انجام دی تو خدا اس کے عوض میں ان کے نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں عطا فرمائے گانیز حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی شخص رات کے آخری وقت میں خدا کی عبادت اور نماز شب پڑھنے میں مشغول رہے تو خدا اس کے بدلے میں روز قیامت اس کے نامہئ اعمال کو دائیں ہاتھ میں عطا فرمائے گا۔ اسی طرح دوسری روایات بھی آنحضرتؑ سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اگر کوئی شخص رات کے چوتھائی حصے عبادات اور نماز شب انجام دینے میں گزارے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ اسے قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جوار میں جگہ عطا فرمانے کے علاوہ اس کے نامہئ اعمال کو دائیں ہاتھ میں دیگا۔(١)

لہٰذا خلاصہ یہ ہوا کہ نامہئ اعمال کے دائیں ہاتھ میں دئےے جانے، اعمال کے قبول ہونے خدا کی رضایت کے شامل حال ہونے اور جنت میں داخل کیا جانے جاودانی زندگی پانے اور تنگدست لوگوں کے امیر بننے کا سبب نماز شب ہے لہٰذا خدا سے ہماری دعا ہے کہ ہمیں نماز شب انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

٤۔پل صراط سے بامیدی عبور کا سبب

روز قیامت سے مربوط نماز شب کے فوائد میں سے ایک اور فائدہ یہ ہے اگر کوئی شخص نماز شب جیسی بابرکت عبادت کو انجام دے تو قیامت کے دن پل صراط سے بآسانی گذرسکتا ہے لیکن پل صراط خود کیا ہے اور اس کی سختی کے بارے میں شاید قارئین کرام جانتے ہوں روایات سے صراط کی کیفیت اس طرح روشن ہوتی ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو قیامت کے دن رونما ہونے والی مشکلات

____________________

(١)ثواب الاعمال و عقابہاص١٠٠.

۱۲۲

میں سے ایک مشکل صراط کی صورت میں پیش آئے گی کیونکہ روایت میں صراط کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ بال سے زیادہ باریک ، تلوار سے زیادہ تیز، اور آگ سے زیادہ گرم ہوگا کہ جو خدا نے جہنم کے اوپر خلق کیا ہے تاکہ جنّت میں جانے سے پہلے اس سے عبور کرے کہ ایسے اوصاف کے حامل راستے کو عبور کرنا عام عادی انسانوں کے لئے یقینا بہت سخت اور مشکل امر ہے لیکن ایسے دشوار راہ سے اگر بہ آسانی گذرنا چاہے تو رات کے وقت خدا کی عبادت اور نماز شب انجام دے۔ کیونکہ نماز شب میں خدا نے ایسے فوائد مؤمنین کے لئے مخفی رکھا ہے کہ ہر مشکل امر کا راہ حل نماز شب ہے چنانچہ اس مسئلہ کو حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے اگر کوئی شخص رات کے تین حصے گذر جانے کے بعد نیند کی لذت چھوڑ کر اٹھے اور نماز شب انجام دے تو خداوند قیامت کے دن اس شخص کو مؤمنین کی پہلی صف میں قرار دے گا اور صراط سے عبور کے وقت آسانی، حساب و کتاب میں تخفیف اور کسی مشکل کے بغیر جنّت میں داخل کیا جائے گا۔(١)

پس نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ کرنا شاید ہماری قدرت سے خارج ہو اسی لئے بہت سی روایات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ نماز شب دنیا و قبر اور آخرت کے تمام مشکلات کے لئے راہ نجات ہے کہ اس طرح کی اہمیت اور ثواب اسلام میں شاید کسی اور عبادت اور کار خیر کو ذکر نہیں کیا ہے۔ تب ہی تو پورے انبیاء

____________________

(١)ثواب الاعمال ص١٠٠

۱۲۳

اور آئمہ ٪ اور دیگر مؤمنین کی سیرت طیبہ ہمیشہ یہی رہی ہیں کہ رات کے آخری وقت خدا سے راز و نیاز کیا کرتے تھے۔

٥۔جنت کے جس دروازے سے چاہیں داخل ہوجائیں

روایات اور آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جنت کے متعدد دروازے ہیں کہ ہر ایک دروازے کا مقام و منزلت دوسروں سے مختلف ہے۔ لہٰذا جنت ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں کسی قسم کا آپس میں ٹکراؤ یا الجھاؤ نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ ہر جنّتی کے مراتب اور درجات مختلف ہیں لہٰذا اسی بناء پر ہر ایک طبقے کا جنّت میں داخل ہونے کا الگ دروازہ مخصوص کیا گیا ہے لیکن اس قانون سے ایک گروہ مستثنیٰ ہے کہ وہ طبقہ ایسا خوش نصیب طبقہ ہے جو دنیا میں نماز شب کو انجام دیتا رہا ہے ایسے افراد جنّت کے آٹھ دروازے سے چاہے گذر سکتا ہے کہ اس مطلب کو حضرت علی علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو رات کے اوقات میں سے کوئی ایک وقت نماز میںگذاریں گے تو خداوند کریم اپنے محبوب ترین فرشتوں سے کہا کرتے ہیں میرے اس تہجد گذار بندے سے عام انسان کی طرح تم ملاقات نہ کرو بلکہ اس سے ایک خاص اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ پیش آئیں اور خدا کے ہاں ان کا مقام ومنزلت دیکھ کر فرشتے تعجب کریں گے اور فرشتے انہی افراد سے عر ض کریں گے کہ آپ جنت کے جس دروازے سے چاہیں گذر سکتے ہیں.

۱۲۴

٦۔آتش جہنم سے نجات کا باعث

قیامت کے مسائل میں سے سنگین ترین مسئلہ آتش جہنم ہے اور اسی حوالے سے قرآن و سنت اور انبیاء و آئمہ٪ کی تعلیمات سے یہ ملتا ہے کہ تم لوگ کسی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کرو کہ جس کا نتیجہ آتش جہنم ہو لیکن جہنم کی آگ کی حقیقت دنیوی آگ کی مانند نہیں ہے اور جس طرح دنیوی آگ کی گرمائش اور جلن قابل تحمل نہیں تو جہنم کی آگ کیسے قابل تحمل ہوسکتی ہے جبکہ جہنم کی آگ کی تپش و جلن دنیوی آگ کی بہ نسبت نوگنا زیادہ ہوگی۔ لہٰذاآتش جہنم کی سختی کا اندازہ اور ان سے پیدا ہونے والے خوف و ہراس کا سبب یہی ہے پس اگر کوئی شخص ایسی آگ سے نجات چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب سے مدد مانگے چنانچہ اس مطلب کو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یوں ذکر فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو عبادت الٰہی میں شب بیداری کریں گے تو خداوند اس کو جہنم کی سختیوں سے نجات دیتا ہے اور عذاب الٰہی سے محفوظ رہے گا۔(١)

اسی طرح قرآن کریم میں جہنم کی آگ کے متعلق متعدد آیات نازل ہوئی ہیں۔ جیسے:

____________________

(١)ثواب الاعمال ص١٠٠.

۱۲۵

( فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ ) (١)

پس تم اس آگ سے بچو کہ جس کے ایندھن انسان اور پتھر ہوں گی جو کافروں کے لئے خلق کیا ہے۔

نیز فرمایا:

( إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِیرًا ) (٢)

بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوگا اور تم ان کی حمایت میں کوئی مددگار نہ پاؤگے۔

پس اگر کوئی انسان ایسی آگ سے نجات کا خواہاں ہے تو آج نماز شب انجام دینے کا عزم کریں۔

٧۔آخرت کی زادو راہ نماز شب

یہ امر طبیعی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ملک یا شہر سے دوسرے شہر یا ملک کی طرف سفر کرنا چاہتا ہے تو سفر کے تمام ضروریات کو سفر سے پہلے مہیا کرتا ہے

____________________

(١)سورہئ بقرۃ آیت ٢٤.

(٢)سورہئ نساء آیت ١٤٥

۱۲۶

تاکہ سفر کے دوران کسی مشکل سے دوچار نہ ہو لیکن یہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ انسان اس دنیا میں معمولی سفر شروع کرنے سے پہلے کچھ زادوراہ آمادہ کرتاہے لیکن جب اخروی سفر اور ابدی عالم کی طرف جانے لگتا ہے تو سفر کے ضروریات اور لوازمات سے بالکل غافل ہے جبکہ وہ یہ جانتا بھی ہے کہ یہ سفر کس قدر طولانی ہے اور زادوراہ کس قدر زیادہ ہونا چاہیے پس اگر کوئی شخص عالم آخرت کے سفر کا تصور کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ سفر دنیوی سفر سے بہت زیادہ اور طولانی اورمشکل ہے لہٰذا اس سفر کے زادو راہ میں سے ایک نماز شب ہے۔

چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا وہ شخص خوش قسمت ہے جو سردی کے موسم میں رات کے اوقات میں سے کسی خاص وقت میں عالم آخرت کے زادو راہ مہیا کرنے میں گزارے اسی طرح دوسری روایت میں پیغمبر اکر م ؐنے فرمایا:''فان صلاة اللیل تدفع عن اهلها حرا النار لیوم القیامة'' (١)

بے شک روز قیامت نماز شب نمازی کو جہنم کے حرارت سے نجات دیتی ہے پس ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز شب آخرت کے لئے ایک ایسا زخیرہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا اتنی فضیلت اور اہمیت کے باوجود انجام نہ دینا ہماری غفلت وکوتا ہی کا نتیجہ ہے ۔

____________________

(١)کننرالعمال ج ٧.

۱۲۷

٨۔نماز شب آخرت کی خوشی کا باعث اگر انسان دنیا میںخوف خدا میں آنسوبہا ئے تو روزقیامت اس کو کسی چیز کے خوف سے رونا نہیں پڑے گا اسی لئے سکونی نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت کی ہے

''قال قال رسول الله (ص)کل عین باکیة یوم القیامه الا ثلاثة اعین عین بکت من خشة الله وعین غضت عن محارم الله وعین باتت ساهرة فی سبیل الله '' (١)

روز قیامت تین آنکھوںکے علاوہ باقی تمام آنکھیں اشک بارہونگی (١)وہ آنکھوں جو خوف خدا کی وجہ سے روتی رہی ہو(٢) وہ آنکھ جو حرام نگاہوں سے اجتناب کرتی رہی ہے (٣) وہ آنکھ جو راہ خدا میں شب بیداری کرتی رہی ہو اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا:

روز قیامت تمام آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے مگر تین آنکھیں، (١) جو محرمات الٰہی سے پرہیز کرتی رہی دوسری وہ آنکھیں جو رات کی تاریکی میں خوف خدا کے نتیجے میں گریہ وزاری میں رہی ہے تیسری وہ آنکھیں جو اطاعت الہٰی کے خاطر اپنے آپ کو نیند سے محروم کرکے شب بیداری کرتی رہی ہو لہٰذا

____________________

(١) خصال صدوق ص ٩٨

۱۲۸

قرآن کریم میں بھی یوں فرمایا ہے :

( فلیضحکو اقلیلا والیبکواکثیرا )

یعنی زیادہ رویا کرو اور خوشحالی کم کرو۔

اسی طرح تمام انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ وہ آخرت کے خوف سے دنیا میں رویا کرتے تھے اور بہتیرین رونے کا وقت رات کی تاریکی ہے کہ جس وقت نماز شب انجام دیجاتی ہے پس دنیا میں جہنم کی آگ اور عذاب کے خوف میں رونا اور آنسو بہانا اخروی شرمندگی سے نجات کا باعث ہوگا۔

٩۔آخرت کی زینت نماز شب

ہر عالم میں کچھ چیزیں باعث زینت ہوا کرتی ہے لیکن ان کا آپس میں بہت بڑا فرق بھی ہے چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جفرصادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

''ان الله عزوجل قال المال والبنون زینة الحیاة الدنیا وان ثمان رکعات التی یصلیها العبد اخراللیل زینة الاخرة ۔''(١)

خدا نے فرمایا کہ اولاد اور دولت دنیوی زندگی کی زینت ہے لیکن آٹھ

____________________

(١) بحار الانوار ج ٨٣

۱۲۹

رکعات نماز جو رات کے آخری وقت میںانجام دی جاتی ہے وہ آخرت کی زینت ہے پس اس روایت سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ عالم دنیا میں لوگوں کی نظر میں زینت کا ذریعہ اولاد اور دولت سمجھا جا تا ہے جب کہ عالم آخرت میں باعث زینت نماز شب اور دوسرے اعمال صالحہ ہوں گے چنانچہ خدا نے اسی مذکورہ آیہ شریفہ کے ذیل میں یوں اشارہ فرمایا والباقیات الصالحات لہٰذا نماز شب انجام دینے والے روز قیامت دوسروں سے مزین اور منور نظر آتا ہے

١٠۔جنت میں خصوصی مقام ملنے کا سبب

روایات کی روشنی میں یہ بات مسلم ہے کہ جنت میں ہر جنتی کا مقام ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہے کہ جس طرح دنیا میں ہر ایک کی جگہ اور منزل یکسان نہیں ہے اسی طرح جنت میں بھی سکونت کی جگہ اور دیگر سہولیات کے حوالے سے مختلف ہے لہٰذا اگر کوئی شخص دنیا میں نماز شب کا عادی اور نیک اعمال کے پابند ہوتو روز قیامت جنت میں اس کو ایسے خصوصی قصر دیا جائے گا کہ جو مختلف کمروں پر مشتمل ہونے کے علاوہ اس کی زینت فیروزہ یاقوت اور زبرجد جیسے قیمتی پھتروں سے کی گئی ہے چنانچہ اس مسئلہ کو پیغمبر اکرم)ص(نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

''ان فی الجنة غرفا یری ظاهرها من باطنها وباطنها من ظاهر ها یسکنها من امتی من اطاب الکلام واطعم الطعام وافش السلام وادام الصیام وصلی بااللیل والناس ینام ۔''

بے شک جنت میں کچھ اسے قصر بھی تیار کیا گیا ہے کہ جن کے باہر کی زینت اندرسے اور اندر کی زینت باہر سے نظر آئے گی کہ ایسے کمروں میں میری امت میں سے ان لوگوں کی سکونت ہوگی کہ جن کا سلوک دنیاء میں لوگوں کے ساتھ اچھا رہا اور لوگوں کو کھنا کھلایا اور سرعام یعنی کھلم کھلا لوگوں کو سلام کرنے کے عادی رہے ہو اور ہمیشہ روزہ رکھنے کے علاوہ رات کے وقت نماز شب انجام دیتے رہیں جب کہ باقی افراد خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ۔

۱۳۰

تحلیل وتفسیر:

اگر کوئی شخص دنیا میں نیک گفتاری کا مالک اور سلام کرنے کا عادی اور روزہ رکھنے پر پابند ہو تو خدا اس کے نیکی کا بدلہ روز قیامت ایسا گھر عطا فرمائے گا کہ جن کی خوبصورتی اور زینت کھلم کھلا نظر آئے گی اسی طرح نماز شب کی برکت سے جنت میں نماز شب انجام دینے والے ایسا گھر اور قصر کا مالک ہوگا نیز اگر دنیا میں نماز شب انجام دینے کی توفیق ہوئی ہو تو محشر کے میدان میں حساب وکتاب کے وقت نماز شب ایک بادل کی طرح اس شخص کی پیشانی پرسایہ کئے ہوئے نظر آئے گی چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے ارشاد فرمایا :

'' صلاةاللیل ظلا فوقه ''

یعنی نماز شب اس کے سرپر سایہ کی طرح نمودار ہوگی وتاجاًعلی راسہ یعنی نماز شب قیامت کے دن ایک تاج کی مانند ظاہر ہوگی نیز فرمایا ولباسا علی بدنہ نماز شب اس کے بدن پر لباس کی مانند ایک پردہ ہے ونورا سعی بین یدیہ اور نماز شب نور بن کر اس کے سامنے روشن ہوجائے گی وسترا بینہ وبین النار اور نماز شب نمازی اور جہنم کے درمیان ایک پردہ ہے وحجۃ بین یدی اللہ تعالی۔

خدا اور نمازی کے درمیان دلیل اور برہان ہوگی، وثقلا فی المیزان اور نامہ اعمال کے سنگین ہونے کا سبب ہے پس خلاصہ نماز شب حساب وکتاب میزان عمل حشرو نشر کے مو قع پر کام آنے والا واحد ذریعہ ہے لہٰذا فراموش نہ کیجئے ۔

۱۳۱

تیسری فصل :

نماز شب سے محروم ہونے کی علت

نماز شب کے اس قدر فضائل وفوائد کے باوجود اسے انجام نہ دینے کی وجہ کیا ہے ؟ کہ اس علت سے بھی آگاہ ہونا مؤمنین کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ جب کسی کام کا عملی جامہ پہنانا چاہتے تو اس کے دو پہلو کو مد نظر رکھنا چاہئیے تا کہ اس کام سے فائدہ اأٹھایا جاسکے وہ پہلو یہ ہے کہ جن شرائط پروہ کام موقوف ہے ان کو انجام دینا اور ان کے موانع اور رکاوٹوں کو برطرف کرنا کہ یہ دونوں مقدمے تمام افعال میں مسلم ہے اور عقل بھی اس کے انجام دینے کا حکم دیتی ہے اگر چہ ہر فعل کی شرائط اور موانع کی تعریف کے بارے میں علماء اور محققین کے درمیان اختلا ف آراء پائی جاتی ہے لیکن اس طرح کے اختلاف سے شرائط کی ضرورت اور موانع کی برطرفی کے لازم ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لہٰذا نماز شب کی شرائط اور موانع کو مدنظر رکھنا لازم ہے تاکہ نماز شب سے محروم نہ رہ سکے لیکن جو موانع روایات میں ذکر کیا گیا ہے وہ بہت ہی زیادہ ہے کہ جن کا تذکرہ کرنا اس کتابچہ کی گنجائش سے خارج ہے لہٰذا راقم الحروف صرف اشارہ پر اکتفاء کرتا ہے۔

۱۳۲

الف۔ گناہ :

کسی بھی نیک اور اہم کام سے محروم ہونے کے اسباب میں سے ایک گناہ ہے کہ جن کے مرتکب ہونے سے انسان نماز شب جیسے بابرکت کام کو انجام دینے سے محروم ہو جاتا ہے جیسا کہ اس مطلب کو متعدد روایات میں واضح اور روشن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے حضرت امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کسی نے آپ سے دریافت کیا ۔

''لرجل قال له انی حرمت الصلاة بااللیل انت رجل قد قیدتک ذنوبک'' (١)

(یاعلی) میں نماز شب سے محروم ہوجاتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے گناہوں نے تجھے جھکڑرکھا ہے اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا:

''ان الرجل یکذب الکذب یحرم بها صلاة اللیل''

بے شک اگر کوئی شخص جھوٹ بولنے کا عادی ہو تو وہ اس جھوٹ کی وجہ سے نماز شب سے محروم رہے گا نیز اور ایک روایت میں فرمایا :

''ان الرجل یذنب الذنب فیحرم صلاة اللیل وان العمل

____________________

(١) اصول کافی ج ٣

۱۳۳

السیئی اسرع فی صاحبه من السکین فی اللحم ''

بے شک گناہ کرنے سے انسان نماز شب انجام دینے کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے اور برے کام میں مرتکب ہونے والے افراد میںاس طرح تیزی سے برائی کا اثر ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح چاقو گوشت کو ٹکرے ٹکرے کردیتاہے

تحلیل وتفسیر:

مذکورہ روایتوں سے دومطلب ثابت ہوجاتے ہیں:

١۔گناہ ہر نیک اور اچھے عمل سے محروم ہونے کا سبب ہے۔

٢۔ برے اعمال کا اثر ظاہر ہونے کا طریقہ۔

لہٰذا اگر نماز شب انجام دینے کی خواہش ہو تو گناہ سے اجتناب لازم ہے تاکہ اس کو انجام دینے کی توفیق سے محروم نہ رہے

ب۔نماز شب سے محروم ہونے کا دوسرا سبب

انسان اپنی روز مرہ زندگی میں خداوند کی عطا کردہ نیند جیسی عظیم نعمت سے بہرہ مند ہورہا ہے چاہے مسلمان ہو یا کافر مرد ہویا عورت، نوجوان ہو یا بچے، غریب ہو یا دولت مند جاہل ہو یا عالم ہر انسان اس نعمت سے بہرہ مندہے لیکن اب تک اکیسویں صدی کا انسان نیند کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہے اور محققین نیند کی حقیقت کے بارے میں پریشان ہے لہٰذا مختلف تعبیرات کا اظہار کیا جاتاہے اسی طرح نیند کی اہمیت بھی اس طرح بیان کئے ہیں کہ انسان ایک ہفتہ تک بغیر کھانے پینے کے زندہ رہ سکتا ہے لیکن ایک ہفتہ تک نہ سوئے تو زندہ رہنا ناممکن ہے اس روسے نیند کی حقیقت مبہم اور مجمل نظر آتی ہے لہٰذا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نیند کی دوقسمیں ہیں:١۔ کسی اصول وضوابط کے ساتھ سونا کہ جس کو انسانی خواب سے تعبیر کیا گیاہے۔٢۔ کسی اصول وضوابط کے بغیر سونا کہ جس کو حیوانی نیند سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۱۳۴

لہٰذا آیات اور روایات کی روسے مسلم ہے کہ نیند ایک نعمت ا لٰہی ہے اگر اس نعمت کو اصول وضوابط کے ساتھ استفادہ کرے تو صحت پر برے اثرات نہ پڑنے کے باوجود شریعت میں ایسی نیند کی مدح بھی کی گئی ہے لیکن اگر اس کے آداب کی رعایت نہ کرے تو صحت پر برا اثر پڑتا ہے اور شریعت میں اس کی مذمت ہے اسی حوالے سے آج کل کے محققین انسان کو ٹائم ٹیبل کے مطابق سونے اور اٹھنے کی سفارش کرتے ہیں تاکہ کثرت سے سونے والوں کو ان کے منفی اثرات سے بچایا جاسکے پس نماز شب سے محروم ہونے والے اسباب میں سے ایک کثرت سے سونا ہے چنانچہ پیغمبر اکرم )ص( کا ارشاد گرامی ہے :

''قالت ام سلمان ابن داود یابنی ایاک وکثرة النوم بااللیل فان کثرة النوم بااللیل تدفع الرجل فقرا یوم القیامه'' (١)

حضرت سلیمان ابن داود کی ماں نے کہا اے بیٹا رات کو زیادہ سونے سے

____________________

(١)بحار ج ٨٧

۱۳۵

اجتناب کرو کیونکہ رات کو زیادہ سونا قیامت کے دن فقرو فاقہ کاباعث بنتا ہے۔

پس اس روایت سے بخوبی روشن ہوتا ہے کہ زیادہ سونا نیک کاموں کے انجام دہی کےلئے رکاوٹ اور محرومیت اخروی کا سبب ہے

ج۔نماز شب سے محروم ہونے کاتیسرا سبب

جب انسان کسی نیک عمل کا موقع ضائع کردیتا ہے تو سب سے پہلے اس کی اپنی فطرت اس کی ملامت کرتی ہے لیکن انسان اتنا غافل ہے کہ اس ملامت فطری سے بچنے کی خاطر تو جیہات سے کام لیتا ہے تاکہ وہ اپنی ایسی عادت کو قائم رکھ سکیں لہٰذا اگر ہم کسی طالب علم سے نماز شب کے بارے میں سوال کرے کہ آپ کیوں اس عظیم نعمت سے استفادہ نہیں کرتے تو فورا جواب دیتا ہے کہ مجھے نیند آتی جس سے نماز شب نہیں پڑھ سکتا اور ایسی نیند صحت کے لئے ضروری بھی ہے لہٰذا ایسے بہانوں میں انسان غرق ہوجاتا ہے پس نماز شب سے محروم ہونے کی ایک علت بہانے اور توجیہات ہے جبکہ نماز شب ادا کرنے کے لئے بیس منٹ یا آدھ گھنٹہ سے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں پڑتی اگر نماز شب کے انجام دینے کے وقت میں نہ سونے سے صحت پر برا اثر پڑتا تو خدا وند بھی اپنے بندوں کو رات کے اس مخصوص وقت میں نماز شب مستحب نہ فرماتے کیونکہ وہی انسان کے حقیقی مصالح اور مفاسد کا علم رکھتا ہے کہ نیند انسان کو صحت مند بنانے کے ضامن نہیں ہے بلکہ نماز شب ہے جو انسانی ترقی اور جسمانی صحت کا ضامن قرار پاتی ہے لہٰذا تحصیل علم اور دنیوی ترقی کے بہترین ذریعہ نماز شب ہے کہ جس کی برکت سے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام اور مؤمنین کو قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے۔

۱۳۶

د۔ پر خوری

شاید اب تک کسی محقق نے اپنی تحقیقات میں شکم پوری اور زیادہ کھانے کے عمل کو اچھے کام سے تعبیر نہ ہو۔

لہٰذا اسلامی تعلیمات میں بھی جب اسی حوالہ سے مطالعہ کیا جائے تو پر خوری مذموم اور نامرغوب نظر آتا ہیں کیونکہ زیادہ کھانے سے انسانی معدہ مختلف قسم کے امراض کا شکار ہو جاتاہے اور اسی طرح پرخوری مادی اور معنوی امور کے لئے مانع بھی بن جاتا ہے لہٰذا پر خوری کا نتیجہ ہے انسان نماز شب جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے چنانچہ اس مطلب کو امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے زیادہ غذا کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ زیادہ کھانا کھانے سے نماز شب سے محروم اور جسم میں مختلف قسم کے امراض اور قلب میں قساوت جیسی بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔(١)

ھ۔عجب اور تکبر

عجب اور تکبر دوایسی بیماری ہے جن کی وجہ سے انسان تمام معنویات الہٰی

____________________

(١) غررالحکم ص٨٠.

۱۳۷

سے محروم ہوجاتا ہے لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ چھ ہزار سال عبادت میں مشغول ہونے کے باوجود شیطان تکبر کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ نہ کرنے کے سبب ہمیشہ کے لئے لعنت خدا کا مستحق قرار پایا لہٰذا عجب اور تکبر نماز شب سے محروم ہونے کا ایک ذریعہ ہے چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم )ص( نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

''قال رسول الله قال الله عزوجل ان من عبادی المؤمنین لمن یجتهد فی عبادتی فیقوم.... ''(١)

(ترجمہ) پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا کہ خدا نے فرمایا ہے بے شک میرے مؤمن بندوں میں سے کچھ اس طرح میری عبادت کرنے میں مشغول ہیں نیند سے اٹھ کر اپنے آپ کو بستر کی نرمی اور گرمی کی لذتوں سے محروم کرکے میری عبادت کرنے کے خاطر زحمت میں ڈالتے ہیں لیکن میں اس کی آرام کی خاطر اپنی لطف اورمحبت کے ذریعے ان پر نیند کا غلبہ کرتا ہوں تاکہ ایک یادو راتیں نماز شب اور عباد ت سے محروم رہے کہ جس پر وہ پریشان اور اپنی مذمت کرنے لگتا ہے لیکن میں اگر اس طرح نہ کروں بلکہ اس کو اپنی حالت پر چھوڑدیتا تو وہ میری عبادت کرتے کرتے عجب کے مرض کا شکار ہوجاتا کہ عجب ایک ایسا مرض ہے کہ جس سے مؤمن کے اعمال کی ارزش ختم ہونے کے علاوہ اس کی نابودی کا باعث بھی بن جاتا

____________________

(١) اصول کافی

۱۳۸

ہے لہٰذا کئے ہوئے اعمال پر ناز کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ میں تمام عبادت گزار حضرات سے بالاتر اور افضل ہوں جبکہ اس نے میری عبادت کرنے میں افراط وتفریط سے کام لیا ہے پس وہ مجھ سے دور ہے لیکن وہ گمان کرتا ہے کہ ہم خدا کے مقرب بندوں میں سے ہیں ۔

اس روایت میں پیغمبر اکرم )ص( نے کئی مطالب کی طرف اشارہ فرمایا ہے :

١) خدا کی عبادت کر نے میں افراط وتفریط مضرہے۔

٢) اپنی عبادت پر ناز کرنا بربادی ونابودی کا سبب ہے۔

٣) اصول وضوابط کے بغیر عبادت فائدہ مند نہیں ہے۔

لہٰذا تمام عبادات میں اخلاص شرط ہے پس اگر ہم نماز شب اخلاص کے بغیر انجام دے تووہ صحیح تہجد گزار نہیں بن سکتا

۱۳۹

چوتھی فصل:

جاگنے کے عزم پر سونے کا ثواب

گذشتہ بحث میں نیند کے اقسام اور ان کے فوائد کا مختصر ذکر کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ سونے کی دوقسمیں ہیں :

١) انسانی طریقہ پر سونا۔

٢) حیوانی طریقہ پر سونا اور انسانی طریقہ کی نیند خودتین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے:

١)اصول وضوابط اور نماز شب کو انجام دینے کے عزم کے بغیر سونا کہ ایسی نیند کو محققین نے صحت بدن کے لئے بھی مضر قراردیا ہے اور اسلام کی نظر میں ایسی نیند پر کوئی ثواب نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اکرم )ص(کی روایت ہے کہ انما الاعمال باالنیۃ تما م کاموں کے دارومدار نیت پر ہے اور مؤمن کی نیت ان کے اعمال سے بہتر ہے۔

٢) دوسری قسم نیند وہ ہے جس میں اصول وضوابط کے ساتھ ساتھ نماز شب کے انجام دینے کی نیت بھی ہوئی ہے جبکہ اس پر نیند کا غلبہ ہونے کی وجہ سے وہ نماز شب ادا نہیں کر سکتا ایسی نیند پر صحت بدن کے لئے مفید ہونے کے علاوہ ثواب بھی دیا جاتاہے چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم )ص( نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

لایا گیا آپ(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا، اچانک انگلیوں کے درمیان سے پانی ابلنے لگا پوری قوم نے اس پانی سے وضو کیا، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس سے پوچھا ، تم لوگ کتنے آدمی تھے انھوں نے جواب دیا: تقریبا ۳۰۰ آدمی تھے۔

جابر بن عبداللہ کہتے ہیں:

روز حدیبیہ لوگ پیاسے ہوئے پانی کا ایک برتن آںحضرت(ص) کی بغل میں تھا۔ آںحضرت(ص) نے وضو کیا لوگ گھبرائی ہوئی حالت میں آںحضرت(ص) کے پاس آئے، آںحضرت(ص) نے فرمایا: تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ بولے: وضو کرنے یا پینے کے لیے بس یہی پانی ہے۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ پانی میں رکھا اچانک آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی ایسے ابلنے لگا جیسے چشمہ ابلتا ہے۔ پس ہم نے اس  میں سے پیا اور وضو کیا۔ہم نے پوچھا کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ڈیڑھ ہزار لوگ تھے لیکن ایک لاکھ لوگ بھی ہوتے تو بھی پانی کافی تھا۔

علقمہ عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ :

ہم رسول خدا(ص) کے ساتھ ہم سفر تھے۔ پانی کم ہوگیا، آںحضرت(ص) نے فرمایا : تھوڑا سا پانی لاؤ، ایک برتن میں پیش کیا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیا، اور فرمایا پاک و مبارک پانی کی طرف دوڑ پڑو یہ خدا کی برکت ہے، ہم نے پانی کو دیکھا جو انگلیوں کے درمیان سے ابل رہا تھا۔

۲۰۱

وہابیت کی تاریخی حیثیت

اگر ہم اپنی تاریخ کی طرف نگاہ اٹھائیں اور اس کے درد ناک اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو ان میں سے بعض واقعات ہمیں ٹھہرنے پر مجبور کردیں گے۔ تاکہ ہمیں سمجھا سکیں کہ یہ وہابیت جسے ہم نے اس قرآن میں پہچانا ہے۔ اسکی بھی تاریخی حیثیت ہے جو کبھی ظاہر تو کبھی پوشیدہ رہی ہے۔ کبھی جرات کر کے ظاہر ہوئی اور کبھی تقیہ و خوف سےپوشیدہ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اسلام پر ایسے دن آپڑے اور استعمار نے اس نئی فکر کو تقویت بخشی، اس کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ وہ ہالہ یا دائرہ جو آںحضرت(ص) کے گرد ہے اور آپ کا وہ احترام و اکرام جو مسلمان کرتے ہیں ختم اور بے اثر ہوجائے۔ استعمار کو پتہ ہےکہ مسلمان دو چیزوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ قرآن اور سنت پیغمبر(ص) اور یہ دونوں شریعت اسلام کے بنیادی مصدر ہیں جو ان کے حملہ کا نشانہ قرار پائے ہیں۔

اور یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ کتاب خدا میں کسی باطل کے نفوذ کی گنجائش نہیں اور خداوند عالم اس کی حفاظت کا خود ضامن ہے لیکن سنت رسول(ص) میں جعل و تحریف کی جاسکتی ہے اور آںحضرت(ص) کی وفات کے پہلے روز سے ہی سنت میں اختلاف پید ہوگیا۔

لیکن انھیں معلوم ہے کہ علمائے امت نےسنت کی حفاظت کی غرض سے جس کی صحت ثابت ہوچکی ہے اسے اکھٹا کرلیا ہے اور اس کے لیے قوانین بنائے ہیں۔ جو اس کو زیادتی  و کمی سے روکتے ہیں۔

اس کے پیش نظر انھوں نے ایک شیطانی چال چلی تاکہ اس کے ذریعہ جو

۲۰۲

چیزیں مسلمانوں کےدرمیان خوشحالی و نشاط کا باعظ ہیں نابود کر ڈالیں۔ چنانچہ جب مسلمان روحانی اور معنوی امور سے جدا ہوں گے تو الحادی مادیت سےنزدیک ہو جائیں گے۔ اور دھیرے دھیرے سیلاب کے اوپر پیدا ہونے والے جھاگ کی طرح ختم ہوجائیں گے۔ اس دوران انھیں ایک ایسے مسلمان شخص کی تلاش ہوئی جو ریاست طلب اور دنیا پرست ہو۔ انہوں نے محمد بن عبدالوھاب کو اس  کےلیے سب سے موزوں پایا۔ اس کے اندر اپنی روح پھونک  دی اور اس کو قانع کردیا کہ وہ اپنے زمانہ کا واحد دانشور ہے۔ اور ایسی ذہانت و ہوش کا مالک ہے کہ جو خلفائے راشدین کے پاس بھی نہ تھی۔ اور خلفائ کے اجتہاد کو کتاب و سنت جیسے صریح نصوص کا مخالف بتایا، خصوصا آںحضرت(ص) کی زندگی میں حضرت عمر کا آپ(ص) کی مخالفت کرنا۔اور محمد بن عبدالوہاب کو مطمئن کردیا  کہ محمد(ص) بشر ہیں، معصوم نہیں ہیں، مختلف مقامات پر ان سے بھول چوک ہوئی ہے۔ اورلوگوں نے ان کے اشتباہ کی اصلاح کی ہے اور یہ شخصیت کی کمزوری کی دلیل ہے۔

پھر اس میں جزیرة العرب پر تسلط اور اس پر حکومت کی طمع پیدا کی اس کے بعد اس میں تمام عرب دنیا اور اس کےبعد پورے عالم اسلام پر حکومت کی امید بندھائی۔

وہابیت انھیں مفاہیم پر استوار ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ رسول(ص) کو بی حقیقت اور ان کی اہمیت کو کم کردے۔ جیسا کہ ان کے علماء صراحت کے ساتھ کہتے ہیں وہ شخص مرگیا۔ ـنعوذ باللہ) اور ان کے بزرگ ( محمد بن عبدالوہاب نے کہا) محمد (ص) بوسیدہ مردار ہیں۔ (نعوذ باللہ) جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، یہ میرا عصا ان سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ فائدہ بھی پہنچاتا ہے اور نقصان بھی!

اسی سے ملتی جلتی عبارت حجاج بن یوسف کے زمانہ میں بھی کہی جاتی تھی۔

۲۰۳

اسی نے کہا:

ان کے سروں پر خاک! یہ لوگ ایک بوسیدہ مردار کے گرد طواف کرتے ہیں، اگر یہ عبدالملک بن مروان کے محل کےگرد طواف کرتے تو ان کےلیے بہتر ہوتا!

در حقیقت جس چیز نے حجاج او بنی امیہ جیسے ظالموں کو آںحضرت(ص) کے عظیم مقام کی اہانت کی جرات بخشی تھی وہ عمر بن خطاب کا قول تھا جسے اس نے آںحضرت(ص) کے حضور میں کہا تھا:

یہ شخص ہذیان بک رہا ہے ہمارے لیے صرف کتاب خدا کافی ہے!

اس باب میں وہابیت جو کچھ چاہتی ہے زور و زبردستی لوگوں کے اذہان میں داخل کرتی ہے اس لیے کہ اس کا کہنا ہے کہ محمد(ص) کا کردار ختم ہوا اور ان سے سوائے تاریخ کے کچھ نہیں بچا ہے اور جو بھی ان سے توسل اختیار کرے گویا اس نے ان کی پرستش کی ہے اور خدا کی خدائی میں انہیں شریک بنایا ہے۔

اور یہ کوئی تازہ فکر نہیں ہے بلکہ یہ تاریخی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ خود حضرت ابوبکر نے اعتراف کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ اعلان کیا۔ اور چیلنج کر کے کہا:

اے لوگو! جو بھی محمد(ص) کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے محمد(ص) مرچکے ہیں اور جو بھی خدا کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے اور ہرگز نہ مرے گا۔

اس بیان کی وجہ اور علت کیا تھی؟ جب کہ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں میں کوئی بھی آںحضرت(ص) کی پرستش نہیں کرتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت ابوبکر یہ سمجھتے تھے کہ واقعا بعض مسلمان آںحضرت(ص) کی پرستش کرتے ہیں۔ اگر ایسا تھا پھر آںحضرت(ص) کیوں خاموش رہے اور ان کو منع نہیں کیا؟ بلکہ ان کو کیوں قتل نہ کر ڈالا؟

۲۰۴

بہر حال میں ذاتی طور پر یہی عقیدہ رکھتا ہوں کہ ہو بھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو آج وہابیت کے یہاں وجود میں آیا ہے۔ یعنی وہ آںحضرت(ص) کا احترام و اکرام ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اور بلاشبہ اس پر جل بھن جاتے تھے۔ اور جس وقت دیکھتے لوگ پیغمبر(ص) کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو اپنے اوپر ملنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے ہیں۔ اور اس سے متبرک ہوتے ہیں اور آںحضرت(ص) واہل بیت(ص) کی محبت مودت کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کرتے ہیں اور خدا سے نزدیک ہوتے ہیں تو لوگوں کے اس عمل سے قریش میں برعکس اثر ہوتا۔ لہذا وہ آںحضرت(ص) کی ذات سے دشمنی رکھتے تھے۔ گرچہ وہ کسی اشتباہ کے مرتکب نہ ہوتے تھے۔

آخر کار قریش کے لیڈر، معاویہ بن ابو سفیان  نے اپنے اس باطنی کینہ سے پردہ اٹھا دیا اور جس وقت مغیرہ نے اس سےکہا:

اے امیرالمؤمنین کتنا اچھا ہوتا کہ تم ہاشم میں اپنے عزیزوں پر لطف و کرم کرتے۔ خدا کی قسم ان کے پاس کوئی چیز نہیں بچی ہے جس سے آپ ڈریں آپ کا یہ عمل آپ کے حق میں نفع بخش ہوگا۔

معاویہ نے کہا:

برادر بنی تمیم(ابوبکر) نے حکومت کی لیکن جیسے ہی اس دنیا سے گئے نام ختم ہوگیا۔ البتہ کوئی کبھی یاد کرلیتا ہے۔ برادر عدی(عمر) نے حکومت کی اور دس سال خود خواہی اور قدرت کی بنیاد پر لوگوں پر سلط رہے۔ لیکن جس وقت دنیا سے گئے ان کا نام بھی ان کےساتھ ختم ہوگیا، مگر یہ کوئٰ کہے حضرت عمر! اور حضرت عثمان نے بھی حکومت کی اور جو کچھ چاہا کیا لیکن جیسے ہی دنیا سے سدھارے ان کا نام بھی دینا سے رخصت ہوگیا۔ کسی کا نام بھی نہیں بچا سوائے ابن ابی بکر کشبہ(مراد رسول خدا(ص) ہیں) کے ، کسی اور کا نام نہیں بچا ہے اور ہر روز دن پانچ مرتبہ یاد کیا جاتا

۲۰۵

ہے۔ اور لوگ کہتے ہیں۔(اشہد ان محمد رسول اللہ) یہ کون سی یاد ہے جو باقی رہ جانا چاہتی ہے۔ تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، خدا کی قسم اس کے نام کو دفن کردوں گا اور مٹی میں ملا دوں گا۔

یہ وہی وہابیت ہے جس کا کل بہترین شکلی اور فصیح ترین عبارتوں میں نقشہ تیار کیا گیا اور آج کل اس کو عملی شکل دے رہے ہیں۔

(وہ چاہتے ہیں اپنے منہ سے نور خدا کو خاموش کردیں لیکن خدا اسے پورا کر کے رہے گا چاہے کافروں کو اچھا نہ لگے۔(صف / ۸)

۲۰۶

وہابیت اور زیارت قبور کی تحریم

اس وقت کی رائج بدعتوں میں ایک بدعت عورتوں پر قبر کی زیارت کو حرام قرار دینا ہے۔ مسلمان عورت جب خانہ خدا کی زیارت اور حج کے لیے جاتی ہے تو اسے بقیع اور شہداء احد اور دیگر قبور کی زیارت کی اجازت نہیں ملتی۔

وہابیت نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے پاس اس کو حرام قرار دینے میں سوائے تعصب کے کوئی اور دلیل نہیں ہے۔

مسلم اپنی صحیح میں باب جنائز کے اندر نقل کرتے ہیں کہ:

حضرت عائشہ نے رسول خدا(ص) سے  پوچھا۔ عورت اگر قبروں کی زیارت کے لیے نکلے تو کیا کہے۔

حضرت نے ان سے فرمایا:

کہے: اے قوم جو آرام سے اپنے گھروں میں سوئی ہے تم پر سلام ہو تم ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم بھی جب خدا نے چاہا تم سے ملحق ہو جائیں گے۔ خداواند عالم گذرے ہوئے اور جو بعد میں؟؟؟ ہیں ان کی مغفرت فرمائے۔

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ: آںحضرت(ص) ایک عورت کے قریب سے گذرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ(ص) نے فرمایا: تقواے الہی اختیار کر اور صابر رہ۔ اس عورت نے کہا: مجھ سے دور ہوجاؤ۔ تم میری مصیبت میں نہ گرفتار ہو اور نہ ہی اسے جانتے ہو۔ اس عورت سے کہا گیا کہ یہ رسول(ص)

۲۰۷

تھے۔ وہ عورت رسول(ص) کے گھر آئی اور عرض کیا: میں نے آپ کو نہ پہچانا مجھے معاف فرمائیے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا: اولین صدمہ اور مصیبت کے لیے صبر ہے۔

اس سلسلے میں حدیثیں بکثرت موجود ہیں اہل سنت کی کتب صحاح اور شیعوں کی کتابیں اس سے مالامال ہیں لیکن وہابیت اس کا انکار کرتی ہے اور اس کے لیے کس قدر قیمت ی قائل نہیں اور جس وقت ان میں سے بعض لوگوں پر میں نے اعتراض کیا اور احادیث کے ذریعہ استدلال کیا تو وہ کہنے لگے یہ روایتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔

میں نے کہا بلکہ اس کے برعکس ! تحریم منسوخ ہےاس لیے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

میں پہلے تم کو قبروں کو زیارت سے روکتا تھا لیکن اس وقت کہتا ہوں کہ زیارت کرو کیوںکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے۔

جواب ملا: یہ حدیث مردوں کے لیے مخصوص ہے عورتیں اس سے خارج ہیں،

میں نے کہا : تاریخ میں ثابت ہوا ہے اور محققین اہلسنت نے بھی اسے بیان کیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا ہر روز اپنے بابا کی قبر کی زیارت کو جایا کرتی تھیں، اور فرماتی تھی:

میرے بابا! مجھ پر وہ مصیبتیں نازل ہوئیں جو اگر دنوں پر پڑتیں تو شب تاریک میں بدل جاتے۔

یہ بھی مشہور ہےکہ حضرت علی(ع) نے ان کے لیے ایک گھر بنایا تھا جس کا نام بیت الحزن تھا اور وہ اپنا زیادہ تر وقت بقیع میں گزارتی تھی۔

اس نے کہا: اگر فرض کر لیں کہ یہ حدیث درست ہے تو یہ فاطمہ(س) سے مخصوص ہے۔

۲۰۸

اسے کہتے ہیں ( اندھا تعصب!) ورنہ مسلمان کیوں کر قصور کر سکتا ہے کہ خدا اور اس کا رسول(ص) عورت کو اس بات سے روکیں کہ وہ اپنے والدین، بھائی، اولاد اور شوہر کی قبروں پر جائے اور ان کے لیے طلب رحمت و مغفرت کرے اور ان کی قبروں پر اشک رحمت چھڑکے اور خود بھی موت کو یاد کرے جس طرح مرد یاد کرتا ہے۔

عورت کی نسبت اس کھلے ہوئے ظلم پر خدا اور اس کا رسول(ص) راضی نہ ہوں گے اور کوئی بھی عقل مند اسے قبول نہ کرے گا

۲۰۹

۲۱۰

۲۱۱

بڑی غلطی پر ان کا سختی سے محاسبہ کرتے ہیں۔

اور کبھی ایک بھول یا معمولی غلطی پر پٹائی کرتے ہیں اور ان پر درجہ سختی کرتے ہیں کہ وہ تھک جاتے اور دین سے متنفر ہوجاتے ہیں جبکہ وہ ابھی سن بلوغ تک بھی نہیں پہنچے ہوتے، یہ وہ چیز ہے جسے ہم نے خود دیکھا ہے۔ شایدخود آپ نے بھی اپنے عزیزوں میں ایسے بچوں کو دیکھا ہو جو سختی کی بنیاد پر نماز پڑھتے ہیں۔

اور جس وقت ماں باپ کی پکڑ کمزور پڑتی ہے تو اس زنجیر کو توڑ کر نکل جاتے ہیں اور نماز کو بالکل ترک کر دیتے ہیں۔

میں نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ اپنے عزیزوں میں کچھ والدین کو اس بات پر راضی کروں کہ نماز نہ  پڑھنے پر بچوں کی پٹائی نہ کیا کریں اور ان کو زبردستی نماز پڑھنے پر مجبور نہ کیا کریں بلکہ محبت و مہربانی اور نرمی کے ساتھ پیش آئیں تاکہ نماز ان کی نظر میں محبوب بنے نہ کہ ڈراؤنا خواب۔

لیکن  میں جب اس بات کو کہتا تو وہ کہتے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا:

سات یا دس سال (روایت میں اختلاف ہے) کے بعد نماز کے لیے بچوں کی پٹائی کرو۔ اس طرح خواہ جوانوں نے عیسائی مبلغوں کی پیروی نہ کی ہو لیکن نماز کو ضائع کردیا اور اپنے دین کو چھوڑ دیا۔ جب کہ انھیں کھیلوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کو چھوڑنا چاہیے تھا جو ذکر خدا سے روک دیتے ہیں۔

۲۱۲

مکتب اہل بیت(ع) میں مشکل کا حل

جو ابھی اسلامی تربیت کے لیے مکتب اہل بیت(ع) کی پیروی کرتا ہے اسے ایسی راہ حل ملتی ہے جس کو خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لیے قرار دیا ہے جو  ان کے لیے دین کو آسان کردے اور احکام کو ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا سکے۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

خدا نے تمہارے لیے دین میں مشقت قرار نہیں دی ہے۔(حج/ ۷۸)

خدا تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ زحمت ومشکل۔ ( بقرہ / ۱۸۵)

خدا ہر شخص پر اس کی قوت کے مطابق فرائض معین کرتا ہے۔(بقرہ / ۲۸ ۶ )

رفع حرج

رفع حرج یعنی سختی اور دباؤ کو ختم کرنا اور یہ اسلام کا ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ ہرج و مرج کو ختم کردیا گیا اور ہر زحمت ممنوع ہے لیکن اگر واقعیت یہی ہے تو پھر یہ ساری سختیاں جو فقہی کتابوں میں موجود ہیں وہ کس لیے ہیں؟

اگر مسلمان (اہل سنت حضرات) کے بعض ابواب وضو اور غسل کر پڑھے تو اسے احساس ہوگا کہ آسانی کس حد تک مشکل میں تبدیل ہوچکی  ہے اور انسان پر اسکی طاقت سے زیادہ فرائض عائد کئے گئے ہیں مثلا تحریر ہے کہ اگر غسل کے بعد غسل کرنے والے ہاتھ اس کے عضو تناسل سے لگ جائے تو اسکا غسل باطل ہے اور اسے بھر سے غسل کرنا پڑیگا۔

مکتب اہل بیت(ع) میں، اہل بیت(ع)  نے اپنے جد حضرت رسول خدا(ص) سے روایت نقل کی ہے کہ وضو و غسل (یعنی دوبارہ دھونا) اور دو مسح ہے( یعنی چہرہ اور ہاتھ کو دھونا اور سرو پا کا مسح ہے۔)

۲۱۳

یہ ہے وضو

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند عالم نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ نماز سے پہلے وضو کریں خداوند عالم فرماتا ہے:

اے رسول(ص) ! اگر نماز کے لیے اٹھو تو چہرہ کے بعد ہاتھوں کو کہنی تک دھوؤ۔ اور اپنے سرو پیرکا ابھرے ہوئے حصہ تک مسح کرو۔(مائدہ )

لہذا وضو چہرہ اور ہاتھوں کے دھونے اور سر وپا کا مسح کرنے کا نام ہےجیسا کہ ہم دیکھتے ہیں یہ بہت ہی آسان ہے اس میں کوئی زحمت بھی نہیں ہے۔ مسلمان مقیم ہو یا مسافر ائرپورٹ پر ہو یا ٹرین میں یا پھر گھر میں اس وضو سے اس کے لیے کوئی مشکل نہ ہوگی۔ پائپ کھولے چہرہ اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دھولے اور تل کو بند کردے۔ اورپھر سرو پا کا ہاتھ کی بچی ہوئی رطوبت سے مسح کرے۔ حتی اگر وہ چاہے تو نماز ادا کرنے کی جگہ تک جوتے کو نہ اتارے(اگر نماز ادا کرنے کی جگہ نزدیک ہو) تو وہاں جوتا اتارے اور پھر پاؤں پر مسح کرے۔

لیکن اہل سنت فقہ کے مطابق وضو بہت ہی سخت ہے کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھونا۔ تین مرتبہ کلی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالنا، تین مرتبہ چہرہ دھونا، تین مرتبہ داہنے ہاتھ کو دھونا ، تین مرتبہ بائیں ہاتھ کو دھونا، پورے سر، اور کان کا مسح، تین مرتبہ داہنے پیر کا دھونا اور تین مرتبہ بائیں پیر کا دھونا۔

ایسا وضو اور خصوصا جوانوں کے لیے سفر کی حالت میں اور خاص کر ٹھنڈک میں جب کہ پیروں کو دھونا ہو اور پھر موزہ پہننے کےلیے پیروں کو خشک کرنا اس میں ان کےلیے کس درجہ زحمت  ہے۔

۲۱۴

لیکن مکتب اہل بیت(ع) میں نص کے مقابل اجتہاد اور ذاتی رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور قرآن و سنت رسول(ص) کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ جو وضو اس مکتب میں ہے اسی کو قرآن نے بھی مسلمانوں پر واجب کیا ہے۔ اور رسول خدا(ص) و ائمہ اطہار(ع) اسی طرح وضو کرتے تھے۔

خدا رحمت کرے عبداللہ بن عباس پر آپ ہمیشہ تکرار کرتے  رہتے کہ :

کتاب خدا میں سوائے دو دھونے  اور دو مسح کے ہمیں اور کچھ نہیں ملتا لیکن تم لوگ تو صرف سنت حجاج کی پیروی کرنا چاہتے ہو۔ ( مصنف عبدالرزاق،ج ۱، ص۳۸)

لہذا آج مسلمانوں پر اور خاص کر سمجھدار جوانوں پر واجب ہے کہ آسانی اور سہولت کی طرف پلٹ آئیں اور لوگوں کو دین کی طرف رغبت اور شوق دلائیں، جناب رسول خدا(ص) نے مسلمانوں کے درمیان کس قدر تاکید فرمائی ہےکہ اس قاعدہ پر عمل کریں۔

لوگوں سہولت سے کام لو، مشکل پیدا نہ کرو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔

خود اپنے آپ پر سختی نہ کرو تا کہ خدا بھی تم سے سختی سے کام نہ کے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔

یہ تجربہ معمولا کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے۔ کتنے ایسے جوان تھے جو وضو کی وجہ سے نماز سے گریز کرتے تھے۔ یا نماز کو تیمم سے پڑھتے تھے ۔ اس ڈر سے کہ کہیں پانی ان کے پاؤں کے لیے مضر نہ ہو۔

لیکن اہل بیت(ع) کی روش کے مطابق وضو انھیں سکون حاصل ہوا اور وہ مطمئن ہوگئے۔

۲۱۵

یہ ہے نماز

مکتب اہل بیت(ع) میں نماز پانچ وقت پڑھنے کے بجائے تین وقت پڑھتے ہیں۔ یعنی نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب عشاء یکے بعد دیگری  پڑھتے ہیں۔ اور ایک وقت نماز صبح کے لیے نماز و عصر کےلیے اور ایک وقت نماز مغرب و عشاء کے لیے معین کر رکھا ہے۔

ہم نے اپنی کتاب ( سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) میں ایک باب قرآن کریم اور سنت پاک کی روشنی میں ان تین وقتوں کی شرعی حیثیت سے مخصوص کیا ہے۔ہم طالب کو طول دینا نہیں چاہتے اور جس بات کا تذکرہ پہلے کیا ہے اس کی تکرار نہیں کرنا چاہتے ہمارے محقق احباب اس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

لیکن اس جگہ ان تین وقتوں میں نمازوں کو قرار دینے کی الہی حکمت سے متعلق توضیح دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی تذکرہ کیا ہے۔ سماج کا ین چوتھائی حصہ نوکری پیشہ ہے۔ یہ یا تو نماز نہیں پڑھتا ہے یا اگر پڑھتا ہے تو کسالت اور سستی کے ساتھ پڑھتا ہے اور پھر پڑھنے میں مشقت اور سختی محسوس کرتا ہے۔

اس لیے کہ انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ شرعا کام میں کمی نہیں کرسکتے۔ اور جس وقت میں کام کی تنخواہ لیتے ہیں اس میں نماز نہیں پڑھ سکتے۔ البتہ ہم ان لوگوں سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتے جو مسجد میں پکار پکار کر کہتے ہیں نماز کے وقت کام چھوڑ دو چاہے اس کی وجہ سے تمہیں کام سے نکال دیا جائے اس لے کہ روزی کا دینے والا خدا ہے نہ کہ کارخانہ کا مالک اور منیجر!!!

۲۱۶

تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب یہی نظریہ رکھنے والے افراد خود اسی موضوع میں متضاد نظر آتے ہیں۔ ہم نے انھیں میں سے ایک شخص کو دیکھا وہ حضرت عمر بن خطاب کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا حضرت عمر مسجد میں وارد ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو لوگوں کے آنے سے پہلے نماز پڑھ رہا تھا۔ دوسری مرتبہ آئے دیکھا وہی شخص نماز پڑھ رہا ہے۔ اور جب تیسری مرتبہ دیکھا تو کہا کون تمہاری روزانہ کی زندگی کا خرچ دیتا ہے۔ اس نےکہا میرا بھائی مجھے کھانا کھلا تا ہے اور لباس پہناتا ہے جناب عمر نے اس سے کہا مسجد سے باہر نکل جاؤ اس لیے تیرا بھائی تجھ سے بہتر ہے۔ آسمان سے تو سیم و زر نہیں برستا۔

میں اس کو کنارے لے گیا اور اس سےکہا کہ کیا تم نے ایک ماہ پہلے یہ نہ کہا تھا کہ خدا اپنے بندوں کو روزی دیتا ہے۔ تمہارے اوپر ضروری ہے کہ نماز کے وقت کام چھوڑ دو۔ اس نے بزرگانہ مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ( ہر سخن جائی دارد) میری پہلی بات قرآن سے تھی اور دوسری بات حضرت عمر فاروق کے حوالہ سے تھی اور یہ دونوں باتیں حق ہیں میں نے اس سے کہا خدا تجھے جزائے خیر دے میں نے بڑا استفادہ کیا۔

ہم پھر دو نمازوں کو ایک وقت میں انجام دینے میں الہی حکمت کی طرف پلٹتے ہیں۔ کہ خداوند عالم زمین و زمان کا خالق ہے اور ماضی ، حال اور مستقبل سے آگاہ ہے۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہے۔

خدا کو علم تھا کہ ایک زمانہ میں لوگوں کی ذمہ داریاں زیادہ ہوں گی اور ان کی آزادی کم اور وقت محدود ہوگا۔ اور چونکہ حضرت محمد (ص)خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کی شریعت قیامت تک باقی ہے اور حکمت الہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔ کہ بندوں کےلیے آسانی پیدا کی جائے اور عسر وحرج کو ختم کیا جائے لہذا اپنے

۲۱۷

رسول(ص) سے فرمایا: نماز ظہر و عصر، مغرب و وعشاء کو ایک ساتھ ادا کریں اور یہی روش امت کو تعلیم فرمائیں۔ تاکہ ان پر سے حرج اور سختی ختم ہوجائے۔

پیغمبر(ص) نے اس حکم پر عمل کیا اور کئی مرتبہ مدینہ منورہ میں اسی روش پر نماز ادا کی اور جس وقت آپ سے سوال کیا گیا تو آپ(ص) نے فرمایا:

میں اپنی امت پر سختی نہیں چاہتا۔

صحیح بخاری میں آیا ہے کہ ابن عباس نے کہا:

رسول خدا (ص) نے مدینہ میں سات رکعتی اور آٹھ رکعتی نماز پڑھی، یعنی ظہر و عصر اور اسی طرح مغرب و عشاء۔

یہ ہے حکمت الہی اور یہ ہے رسول خدا (ص) کی نماز، جسے آںحضرت(ص) نے پروردگار کے حکم کی بنیاد پر انجام دیا۔ تاکہ امت کے لیے فشار و سختی کا باعث نہ ہوں۔

ہم کیوں اس روش کو چھوڑ دیتے ہیں جبکہ یہ سہل اور آسان ہے اور ملازم، کاریگر، طالب علم اور فوجی سبھی کے لیے سازگار اور ممکن ہے اور کوئی کام ایسا نہیں جو ان وقتوں سے بڑھ کر ہو۔ اس طرح اب کسی مسلمان کےلیے کوئی بہانہ نہیں۔

یہ بات دنیا میں معروف ہے کہ ڈیوٹی کا وقت  آٹھ گھنٹے ہوتا ہے ۔ اور دو حصوں میں کام ہوتا ہے صبح ۸ بجے سے لے کر ۱۲ بجے تک اور بیچ میں دو گھنٹہ استراحت پھر ۲ بجے سے لےکر شام کے ۶بجے تک۔ اس صورت میں مسلمان نماز ظہر و عصر کو آرام کے وقت میں کام پر دوبارہ جانے سے پہلے انجام دے سکتا ہے۔ اس طرح اس نے نماز ظہر و عصر کو اس کے صحیح وقت پر انجام دیا ہے چنانچہ نہایت آرام سے کام پر آسکتا ہے۔

لیکن اگر کام سارے دن کا ہو جیسے معدنیات یا اس سے مشابہ جگہوں پر کام تو (قانون کار) ۷ گھنٹے مسلسل کام کو تجویز کرتا ہے۔ اور آدھا گھنٹہ آرام کے

۲۱۸

لیے دیتا ہے اس قسم کی کمپنیاں کام کو تین شفٹوں میں معین کرتی ہیں۔

۱ـایک گروہ صبح ۷ بجے سے ۲ بجے تک کام کرتا ہے۔

۲ـدوسرا گروہ ۲ بجے (بعد از ظہر) سے رات کے ۹ بجے تک کام کرتا ہے۔

۳ـ اور تیسرا گروہ ۹بجے رات سے ۴بجے صبح تک کام کرتا ہے۔

نماز کے لیے اس حکمت الہی کے تحت یہ سارے گروہ بغیر کسی زحمت کے اپنے وقت پر نماز ادا کرسکتے ہیں۔

اور کوئی بھی عذر نہیں کرسکتا کہ اس کے پاس نماز ادا کرنےکا وقت نہیں ہےیا یہ کہ نماز وقت جارہا ہے اور وہ نماز ادا نہیں کرسکتا۔

اس طرح ہم نماز ادا کرنے میں قرآن و سنت کی پیروی کریں گے۔

اس لیے کہ حکم یہی ہےکہ مومنین نماز کو اس کے وقت پر انجام دیں۔ اسی کے ساتھ ہم اپنی اور دوسروں کی سختی و مشقت کو بھی دور کرسکتے ہیں۔

شاید بہت سے جوان جنہوں نے اپنی نماز کو ترک کردیا ہے پھر سے نماز کی آغوش میں پلٹ آئیں۔ اگر انھیں یہ پتہ چل جائے کہ خدا نے اسی امر کی تشریح کی  ہے اور رسول خدا(ص) اور آپ کے اہل بیت(ع) نے ایسے ہی انجام دیا ہے

۲۱۹

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279