اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات21%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57541 / ڈاؤنلوڈ: 5318
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

گے۔ (نہج البلاغہ/خبطہ۹۷)

وہ علم کے لیے باعث حیات اورجہالت کے لیے سبب مرگ ہیں۔ ان کا حلم ان کے علمکا، ان کا ظاہر ان کے باطن کا اور ان کی خاموشی ان کے کلام کی حکمتوں کو پتہ دیتی ہے۔ وہ نہ حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں وہ اسلام کے ستون اور بچاؤ کا ٹھکانہ ہیں۔ ان کی وجہ سے حق اپنے اصلی مقام پر پلٹ آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا او اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی۔ انہوں نے دین کو سمجھ کر اور حاصلکر کے اس پر عمل کیا ہے نہ یہ کہ صرف سنا اور لوگوں سے بیان کردیا ہو۔ یوں تو علمکے راوی بہت ہیں مگر اس پر عمل پیرا ہوکر اس کی نگہبانی کرنے والے کم ہیں۔(نہج البلاغہ/خطبہ۲۳۹)

ہاں! یہ نہج البلاغہ کے کچھ گوشے ہیں جنہیں میں نے امام علی(ع) کی زبان سے نقل کیاہے یہ کلام پیغمبر(ص) اور آل پیغمبر(ص)  کے درمیان حقیقی رابطہ کی شکل کو بیان کرتاہے نیز اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ صرف اہل بیت(ع) ہی مختلف زمانوں اور صدیوںمیں پوری بشریت کے اختلافِ فکر و ذوق کے باوجود، آںحضرت(ص) کی راہ پر چلانے والےاور ان کے دین کی تبلیغ کرنے والے ہیں۔

امام(ع)، مسلمانوں کے نزدیک عترت طاہرہ(ع) کی منزلت کی وضاحت پر ہی بس نہیں کرتےبلکہ فرماتے ہیںکہیہ خود عترت طاہرہ(ع) کے محور و سردار ہیں اور پھر اپنی اس اہم ذمہ­داری کی طرف اشارہ کرتے ہیںجسے خدا و رسول(ص)  نے آپ کے سپرد کیا ہے کہ آپ اسے لگوں کےدرمیان نبھائیں اور اسے ترک نہ کریں۔

آپ فرماتے ہیں :

تو تم کہاں جارہے ہو اورتمہیں کدھر موڑا جارہا ہے حالانکہ ہدایت کے جھنڈے اور بلند نشانات ظاہر و روشن ہیں اور حق کے مینار نصب ہیں

۲۱

 اور تمہیں کہاں بہکایا جارہا ہے اور کیوںاِدھر اُدھر بھٹک رہے ہو جبکہ تمہارے نبی(ص) کی عترت تمہارے درمیان موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں ہیں۔ ذکر خیر اور صدق گفتار سے ہم آہنگ ہیں لہذا انہیں بھی قرآن کے مانند محترم جانو! اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کےسرچشمہ ہدایت پر اترو۔

اے لوگو! خاتم النبیین کے اس ارشاد کو سنو کہ ( انہوں نے فرمایا) ہم میں سے جو مرجاتا ہے وہ مردہ نہیں ہے۔ اور ہم میں سے ( جو بظاہر مرکر) بوسیدہ ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں بوسیدہ نہیں ہے۔ جو باتیں تم نہیں جانتے ان کے متعلق زبان سے کچھ نہ نکالو اس لیے کہ حق کا بیشتر حصہ انہیں چیزوں میں ہوتا ہے جن سے تم بیگانہ اور نا آشنا ہو۔ ( جس شخص کی تم پر حجت تمام ہو)  اور تمہاری کوئی حجت اس پر تمام نہ ہو۔ وہ میں ہوں۔ کیا میں نے تمہارے سامنے ثقل اکبر(قرآن) پر عمل نہیں کیا اور ثقل اصغر ( اہل بیت(ع)) کو تم میں نہیں رکھا ( چھوڑا) ۔ میں نے تمہارے درمیان ایمان کا جھنڈا گاڑا۔ حلال و حرام کی حدیں بتائیں اور اپنے عدل سے تمہیں عافیت کے جامے پہنائے۔ اور قول و عمل سے حسن سلوک کا فرش تمہارے لیے بچھا دیا اور تم سے ہمیشہ پاکیزہ اخلاق کے ساتھ پیش آیا۔جس چیز کی گہرائیوں تک نگاہ نہ پہنچ سکے اور فکر کی جولانیاں عاجز رہیں۔ اس میں اپنی رائے کو دخل نہ دو۔ ( نہج البلاغہ/۸۷)

محترم قارئین ! اگر امام علی(ع) کے کلام پر توجہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ وہ خود حدیث ثقلین کی تفسیر ہیں۔ وہی حدیث جسے اہل سنت حضرات نے رسول خدا(ص) سے نقل کیا کہ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، کتاب خدا اور اپنی عترت اگر ان دونوں سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

۲۲

۲۳

۲۴

پیغمبر(ص) نے تمہارے درمیان وہی چیزیںچھوڑی ہیںجو گزشتہ انبیاء اپنی امتوں کے درمیان چھوڑا کرتے تھے اس لیے کہ وہ لوگوں کو راہ روشن اور نشان محکم قائم کیے بغیر یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے۔ پیغمبر(ص) نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے اس حالت میںکہ انہوں نے کتاب کے حلال و حرام واجبات و مستحبات، ناسخ و منسوخ، رخص و عزائم، خاص و عام، عبر و امثال، مطلق ومقید، محکم و متشابہ کو واضح طور پر بیان کردیا۔ مجمل آیتوں کی تفسیر کردی اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔ اس میںکچھ آیتیں وہ ہیں جن کا جاننا واجب قرار دیا گیا ہے۔ اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے بندے ان سے واقف نہ رہیں تو مضائقہ نہیں ہے۔ کچھ احکام ایسے ہیں جن کا واجب ہونا ثابت ہے لیکن حدیث میں اس کو منسوخ کیا گیا ہے۔ کچھ مطالب ایسے ہیں جن کا وجوب سنت میں واجب ہے اور اس پرعمل نہ کرنے کی اجازت دی گئی  ہے۔اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانہ آیندہ میں ان کا وجوب برطرف ہوجاتا ہے۔ قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہےکچھ کبیرہ ہیں اور کچھ صغیرہ ہیں جن کے لیے مغفرت کی توقعات پیدا کی گئی ہیںکچھ اعمال ایسے ہیں جن کاتھوڑا سا حصہ بھی مقبول ہے اور زیادہ سے زیادہ اضافہ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ( نہج البلاغہ/خطبہ۱)

۲۵

دین سے لگاؤ ماضی و حال میں

ظاہر سی بات ہے کہ دین اسلام جسے پیغمبر اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لائے آخری دین و شریعت ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے:

            ”ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجالِكُمْ وَ لكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خاتَمَ النَّبِيِّينَ “ ( احزاب/۴۰)

محمد(ص) تم میں سے کسی شخص کے  باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کےرسول اور آخری پیغمبر ہیں۔

جب حضرت محمد(ص) آخری پیغمبر اور آپ کی کتاب آخری کتاب ہے۔ تو پھر آپ کے بعد نہ کوئی پیغمبر ہے اور نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب الہی ہے۔ دین اسلام، دین خالص ہے جس میںتمام گزشتہ دین و آئین جذب ہوگئے ہیں۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

                وہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق پر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب

                کردے اور خدا شاہد و گواہ کے عنوان سے کافی ہے۔

لہذا رسول اکرم(ص) کی بعثت کےبعد سارے انسانوں پر واجب اور لازم ہے کہ گزشتہ ادیان جیسے یہودیت ، عیسائیت سے دست بردار ہوجائیں اور اسلام اختیار کر لیں۔ شریعت محمدی(ص) کی رو سے خدا کی عبادت کریں کیوںکہ خدا اس دین کے علاوہ کسی اور دین کو قبول نہیں کرے گا۔ قرآن میں ارشاد ہے۔

”جوخداکےدین کےعلاوہ کوئی اوردیناختیارکرےگااس کا دین ہرگزقبول نہیں کیاجائ ے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں

۲۶

میں سے ہوگا۔ ( آل عمران/ ۸۵ )

اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہود و نصاری لاکھ دعویٰ کریں کہ ہماری شریعتیں صحیح ہیں اور ہم حضرت عیسیٰ و موسی علیہما السلام کی پیروی کرتے ہیں۔ لیکن انہیں در اصل رسول اکرم(ص) کی پیروی کرنی ہوگی۔ کسی یہودی و عیسائی کا اپنے دین پر باقی رہنے کا دعوی صحیح نہیں ہوسکتا کیوںکہ حضرت محمد(ص) تمام عالم بشریت کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیںاور آپ(ص) سارے عالم کے لیے رحمت ہیں اس بات کا یہ مطلب نہینکہ گزشتہ آسامنی شریعتیں بالکل بے اہمیت ہیں۔ خدا کے علم میں یہ بات تھی کہ اس کے بندوں نے شریعتوں کو تحریف کیا۔ اور اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق اس کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرڈالا۔ وہ گمراہ ہوگئے اور اپنے ساتھ دوسروںکو بھی گمراہ کیا۔ ایسے میں رسول اکرم(ص) کی بعثت سارے عالم کے لیے رحمت ہے  تاکہ سب حق کو حاصل کریں اور جنت کے مستحق ہوجائیں۔

لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ حق سے کتراتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات وگمراہی میں گرفتار ہیں۔ خدا ایسے افراد کے بارے میں فرماتا ہے:

اہل کتاب اور مشرکوں سے جو لوگ کافر تھے جب تک ان کے پاس کھلی ہوئی دلیل نہ پہنچے وہ اپنے کفر سے باز آنے والے نہ تھے۔ خدا کی طرف سے رسول(ص) بھیجے گئے تاکہ انہیں پاک آسمانی کتابیں پڑھ کر سنائیںاس کتاب میں پر زور اور درست باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ اہل کتاب جب کہ ان کے پاس کھلی ہوئی دلیل آچکی تھی۔ ( بینہ/۱۰۴)

کسی یہودی یا عیسائی کے لیے یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ محمد(ص) پر ایمان رکھتا ہوں لیکن اپنے دین پر باقی ہو ں جیسا کہ بہت سی عیسائی عرب راہبوں سے میں نے سنا ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ خدا کو یہ بات ہرگز قبول نہ ہوگی مگر یہ کہ وہ

۲۷

رسول اکرم(ص) کی کامل طور سے پیروی کریں۔ اس بارے میں ارشاد خداوندی ہے :

     جو لوگ ہمارے پیغمبر امی(ص) کے قدم بقدم چلتے ہیں جس کی بشارت کو اپنے یہاں توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ نبی جو اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور پاک چیزیں ان پر حلال اور ناپاک او گندی چیزیں ان پر حرام کردیتا ہے۔ اور وہ سخت احکام او رنج و مشقت کا بوجھ  جو زنجیر کی  مانند ان کی گردن پر تھا ان سے ہٹا دیتا ہے۔ پس یاد رکھو جو لوگ اس نبی(ص) پر ایمان لائے، اس کی عزت کی اور اس کی مدد کی اور  اس نور ( قرآن) کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے تو یہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے۔( اعراف/۱۵۷)

خدا کی یہ دعوت نہ صرف یہود و نصاری، بلکہ ساری انسانیت کو شامل ہے اس میں کسی طرح کا کوئی استثناء نہیں ہے۔

خدا ارشاد فرماتا ہے:

اے رسول(ص) تم کہہ دو کہ لوگو! میں تم سب کے پاس اس خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں جس کے پاس سارے آسمان و زمین کی بادشاہت (حکومت) ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا ہے وہی مار ڈالتا ہے پس لوگو! خدا اور اس کے رسول، نبی آدم پر ایمان لاؤ،جو خود بھی خدا اور اس کی باتوں پر( دل) سے ایمان رکھتا ہے اور اسی کے قدم بقدم چلو تا کہ ہدایت پاؤ۔

قرآن صراحت کےساتھ اعلان کررہا ہے کہ صرف رسول اکرم(ص) کی نبوت کا معتقد ہونا کافی نہیں ہے بلکہ آپ کی تعلیمات پر عمل بھی ضروری ہے۔ اور پیغمبروں کو بھیجنے کی حکمت و مصلحت بھی یہی ہے۔ لہذا تاریخ ہمیں کہیں بھی یہ نہیں دکھاتی کہ دنیا کے کسی پیغمبر نے اپنی امت سے  یہ کہا ہو کہ مجھ سے پہلے جو

۲۸

تمہارا دین تھا اس پر باقی رہو۔

ہاں اتنا ضرور ہے کہ پیغمبران(ع) خدا اپنے سے سابق پیغمبروں پر ایمان اور ان کی تصدیق کو لازم جانتے تھے تاکہ کوئی ان کی نبوت پر اعتراض اور خدشہ نہ کرسکے اور عوام جہالت کی بنا پر انہیں خدا نہ مان بیٹھیں۔ ارشاد خداوندی ہے:

                پیغمبر(محمد (ص)) اور مومنین جو کچھ ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے، سب کے سب خدا ، اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں یا نبیوں پر ایمان لائے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم خدا کے پیغمبروں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور کہنے لگے: اے ہمارے پروردگار! ہم نے تیرا ارشاد سنا اور مان لیا۔ پروردگار! ہمیں تیری ہی مغفرت کی خواہش ہے اور تیری ہی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ (بقرہ/۲۸۵)

ان آیات سے یہواضحہوتا ہےکہاسلام،مومنبندوںکےلیےخدا کا آخری تحفہ ہے۔اور اس کے احکام و قوانین اہم اور ہر زمان و مکان سے سازگار ہیں۔ یہ قیامت تک کے لیے ہیں کیوںکہ رسول اکرم(ص) کے بعد کوئی نبی نہیںآئے گا اور نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب آنے والی ہے۔ خدا اس سلسلہ میں ارشاد فرمارہا ہے:

        میں تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے دین کو اسلام کے عنوان سے پسند کر لیا۔ ( مائدہ/ ۳ )

آج کا مسلمانوں کا ایک طبقہ اسلام اور دینی احکام کا پایند نہیں ہے۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ اسلام کو عملی طور پر لاگو نہیں کیا جاسکتا اور عوام کی کثرت اسلامی احکام کو عملی طور پر اپنانے سے قاصر ہے۔ حتی کے بعض روشن خیال دانشور یہ کہتے  ہیں کہ زمان و مکان کے تقاضے کے مطابق اسلام میں رد و بدل ہونا چاہیئے اور

۲۹

 تمام موارد میں اجتہاد ہونا چاہیئے۔

روشن خیال او تمدن ماب افرداممکن ہے بہت سے جوانوں کی گمراہیکا سبب بن جائیں کیوںکہ یہ افراد اسلامی دوستی کا بہت زیادہ دکھاوا کرتے ہیں اور یہ سمجھتے  ہیں کہ سب سے زیادہ انہیں اسلامی احکام کو لاگو کرنے کی فکر ہے۔ وہ مسلمانوں کی پسماندگی کی ویجہ یہی بتاتے ہیں کہ پندرہ صدیوں سے ان کےدین میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ آج زمانہ کتنا بدل چکا ہے جب دین آیا تھا تو آمد و رفت اور ٹرانسپورٹیشن کے ذرائع حیوانات ہوا کرتے  تھے اور آج کا زمانہ راٹوں کا زمانہ ہے جن کی رفتار آواز کی رفتاد سے سے بھی زیادہ ہے۔ آج کا زمانہ ٹیلی فون، فیکس اور کمپیوٹر کا زمانہ ہے آج چند سیکنڈ میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ لہذا ہم قرآن کو سی سطحی انداز سے نہیں لے سکتے۔ مثلا آج کل چور کا ہاتھ کاٹنا یا قاتل کا سر تلوار سے اڑانا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور اس سلسلہ میں یہ لوگ عجیب و غریب فلسفہ پیش کرتے  ہیں۔

میں بھول نہیں سکتا کہ ایک روز یونیورسٹی کے ایک استاد جو روشن خیال بھی تھے سے گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے درمیان ہم نے ان سے کہا: آنحضرت(ص) فرماتے ہیں :

        علی(ع) کے جیسا جوان مرد اور ذوالفقار کے جیسی تلوار نہیں ہے۔

                                                                        ( مناقب خوارزمی/۱۰۱)

وہ مجھ پر بہت انسے اور کہنے لگے ڈاکٹر! س طرح کی باتیں پھر نہ کہنا! یہ کلام رسول(ص) کےزمانہ میں معنی تھا۔ جب دشمن پر غالب آنے میں تلوار کا اہم کردار ہوا کرتا تھا اور یہ واحد ہتھیار تھا کہ جس پر بہادر رجز، شعر اور قصیدہ کہتے تھے۔ لیکن آج مشین گن کے زمانہ میں ہیں جس کے ایک سیکنڈ مین ۷۰ گولیاں نکلتی ہیں۔ آج جیٹ لڑاکا جہازوں کا زمانہ ہے جو چند سیکنڈوں میں ایک     بڑے شہر کو نابود کر دیتے ہیں۔ بلکہ ہم ایٹم بم اور جدید ہتھیاروں کے زمانہ میں

۳۰

ہیں جو چند لمحوں میں ایک براعظم کو پوری طرح نابود کرسکتے ہیں۔ اور آپ ان سب سے بے خبر ہیں اور ابھی علی بن ابی طالب(ع) کی شجاعت و بہادری کی تعریف کررہے ہیں۔

ہم نے کہا: ہاں! البتہ جو باتیں آپ نے کہی ہیں یہ ان کی مخالف بھی نہیں ہے اور ہر  جگہ کے لیے ایک بات موجود ہے۔ کیا آپ نے خداواند عالم کا وہ کلام نہیں دیکھا جہاں پر اس نے مقابلہ کرنے والے اسلحوں کا جدا جدا تذکرہ کرنے کے بجائے سبھی کو ایک کلمہ میں بیان فرمایا ہے:

                     ” وَ أَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ“(انفال/۶۰)

اور ان سے (مقابلہ) کے لیے جس قدر قوت اکٹھا کر سکتے ہو کرو۔

ہر شخص اپنے زمانہ کی زبان میں مصدر قوت کی تعریف کرتا ہے۔ چاہیئے سب کے لیے ایک ہی معنی ہاتھ آئے یعنی اسلحہ۔ چنانچہ پروردگار عالم فرماتا ہے:

”وَ أَنزَلْنَا الحَْدِيدَفِيهِبَأْسٌشَدِيدٌ“ (حدید/۲۵)

ہم نے لوہے کو پیدا کیا جس میں سختی، جنگ ( میں کام آنے کی صلاحیت) اور لوگوں کے لیے فوائد ہیں۔

لہذا تمام اسلحے چاہے وہ ابتدائی ہوں جیسے تلوار و نیزہ یا جدید ہوں جیسے بم، مشین گن، ٹینک۔۔۔۔ ان سبھی کو کلمہ ( باس شدید) اپنے اندر شامل کر لیتا ہے اور دوسری طرف تمام راحت و آرام کے وسائل مثلا گاڑیاں، ہوائی جہاز، کشتی، ٹیلی ویژن وغیرہ کلو ” منافع للنالس“ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ کتنا پاکیزہ ہے وہ پروردگار جس نے لوہے کو خلق کیا اور اسے لوگوں کے حوالہ کیا اور جو باتیں وہ نہیں جانتے تھے تعلیم فرمائیں۔

اس طرح قرآن تک سبھی کی دسترس ہے اور ہر نسل اپنی زبان میں اسے سمجھتی اور محسوس کرتی ہے اور آپ کا یہ کہنا کہ قرآن کو سطحی ادر ظاہری طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔ اور چور کے ہاتھ کاٹنا یا قاتل کا سر قلم کرنا۔ ان سے اگر آپ کی

۳۱

مراد یہ ہے کہ احکام الہی میں بشری تقاضوں کے تحت تبدیلی ہونی چاہیئے اور آپ کے خیال میں یہ احکام بندگان خدا کے لیے مناسب نہیں ہیں اور مہربانی و نرمی سے دور ہیں تو اس کلامکو قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ یہ سو فیصدی ہی کفر ہے۔

لیکن اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہمین ترقی کرنی چاہیے اور مجرموں کو سزا دینے اور پھانسی دینے کے وسائل کو جدید بنانا چاہئے تو یہ بحث کا مقام ہے کیوںکہ یہ چیزیں امور ثانوی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور اسلامی شریعت نے اس پر سختی نہیں کی ہے گرچہ قصاص میں حدود الہی کے اجرا کےسلسلہ میں سختی کی ہے۔ اور خداوند عالم نے فرمایا ہے:

             اے مومنین ! تم پر قصاص واجب کیا گیا ہے۔اے عقل رکھنے والو! قصاص میں زندگی ہے

              تاکہ تم تقوی کو اپنا شعار بنالو۔ ( بقرہ/۱۷۹۔۱۷۸)

اب یہ کہ چور کا ہاتھ تلوار سے یا چاپڑ سے یا پھر کسی جدید وسیلہ سے کاٹنا چاہئے اس کی بازگشت حاکم شرع یا مرجع تقلید کی طرف ہے کہ وہ اجتہاد کرے اور اپنا نظریہ دے۔

استاد محترم! اہم یہ ہے کہ الہی احکام کو یورپی حکومتوں کے ہاتھوں وضع کیے گئے احکام کے ساتھ تبدیلی نہ کریں۔ اور کیا خود پورپیوں نے مجرم کے لیے پھانسی کیسزاکو ختم نہیں کردیا ہے چاہے اس کا جرم کتنا بڑا کیوں  نہ ہو؟ اس طرح اس کام کے ذریعہ حکم خدا کو ترک کرتے ہوئے قصاص کو ختم کردیا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو امن و امان کا زندگی سے خاتمہ ہوجائے گا۔ مجرم فساد و تباہی پھیلائیں گے  اور انسانوں کو نابود کرڈالیں گے اور زندگی ایک ایسے جہنم میں تبدیل ہوجائے گی کہ اس میں کوئی خیر نہ ہوگا۔

استاد کہنے لگے : شرکا علاج شر سے نہیں جاسکتا اور اعداد وشمار سے پتہ

۳۲

چلتا ہے کہ بہت سے موت کی سزا پانے والے بے گناہ تھے۔

میں نے کہا : معذرت چاہتا ہوں آپ کی باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ خود کو پروردگار عالم سے زیادہ عقل و فہم رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات غلط ہے۔ اور یہ کہ اکثر چاہیئے کہ اسلام صرف تہمت یا الزام کی بنیاد پر سزا نہیں دیتا بلکہ سزا کے لیے اقرار، اعتراف، گواہ و شاہد وغیرہ ضروری ہے۔ بہر حال ہماری گفتگو کسی نتیجہ پر نہ پہنچی اس لیے کہ ہر ایک اپنی بات پر جما ہوا تھا۔

کتنا بہتر ہوگا کہ ہم اپنی گفتگو آںحضرت(ص) کے متعلق حضرت امیرالمومنین(ع)  کے کلام سے تمام کردیں آپ فرماتے ہیں:

     اللہ نے اپنے رسول کو چمکتے ہوئے نور روشن دلیل کھلی ہوئی راہ شریعت اور ہدایت دینے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ۔ ان کا قوم و قبیلہ بہترین قوم و قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے۔ جس کی شاخیں سیدھی اور پھل جھکے ہوئے ہیں۔ ان کا مولد مکہ اور ہجرت کا مقام مدینہ ہےجہاں سے آپ کے نام کا بول بالا ہوا او آپ کا آوازہ ( چار سو) پھیلا۔ اللہ نے آپ کو مکمل دلیل شفا بخش نصیحت اور ( پہلی جہالتوں کی)  تلافی کرنے والا پیاغام دے کر بھیجا اور ان کے ذریعہ سے ( شریعت کی ) نامعلوم راہیں آشاکر کیں۔ اور غلط سلط بدعتوں کا قلع قمع کیا( قرآن و سنت میں) بیان کیے ہوئے احکام واضح کیے تو اب جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے تو اس کی بدبختی مسلم، اس کا شیرازہ درہم برہم اور اس کا منہ کے بک گرنا سخت و ( باگزیر) اور انجام طویل حزن اور مہلک عذاب ہے۔ ( نہج البلاغہ/عربی۱۶۱۔اردو۱۶۰)

ٹھیک یہی قرآن کریم کی عبارت ہے جو فرماتا ہے:

جو بھی اپنے لیے اسلام کے علاوہ اور کوئی دین اختیار کرے تو اس سے

۳۳

ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوگا۔۔۔(آل عمران/۸۵)

میرے خیال میں اس بیان کے بعد اب اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ چاپلوسی کرتے ہوئے اپنے یہودی و مسیحی دوستوں سے کہیں کہ چونکہ ہم سبھی ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے ہم بھی حق پر ہیں اس لیے کہ جس خدا نے موسی(ع) و عیسی(ع) کو مبعوث فرمایا اسی خدا نے محمد(ص) کو بھی مبعوث فرمایا اور اگر ہم پیغمبروں کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں تو کیا ہوا، جس خدا نے ان کو مبعوث فرمایا اس میں تو اختلاف نہیں رکھتے ! جبکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

     ( اے رسول(ص)) تم ان سے پوچھو کہ کیا تم ہم سے خدا کےبارے میں جھگڑتے ہو حالانکہ ( وہی ) ہمارا بھی پروردگار ہے اور (وہی) تمہارا بھی پروردگار ہے۔ ہم اپنے عمل کے ذمہ دار ہیں اور تم اپنے عمل کے ذمہ دار ہو۔ اور ہم تو نرے کھرے اسی کے ہیں۔ کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم(ع)، اسماعیل(ع)، اسخق(ع) اور یعقوب(ع) سب کےسب یہودی یا نصرانی تھے( اے رسول(ص)) ان سے پوچھو تو کہ تم زیادہ واقف ہو یا خدا اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس کے پاس خدا کی طرف سے گواہی موجود ہو( کہ وہ یہودی نہ تھے) اور پھر وہ چھپائے اور جو کچھ تمکرتے ہو خدا اس سے بے خبر نہیں ہے۔( بقرہ/۱۴۰۔۱۳۹)

۳۴

کیا اسلام پر عمل مشکل ہے؟

یہ وہ دعوی ہے کہ جس کی کوئی بنیاد نہیں اور جو بھی اس طرح کا دعوی کرے وہ یا تو جاہل اور بے وقوف ہے  یا اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتا ہے یا پھر اسلام کا دشمن ہے۔ اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنا چاہتا ہے۔ اور اس کوشش میں ہےکہ لوگ اپنے دینی احکام سے دست بردار ہوجائیں۔

یا آخری صورت یہ ہے کہ وہ غلو کرنے والا دقیانوس ہے۔ جو ضدی فقہا کے علاوہ اور کسی کے نظریہ کو قبول نہیں کرتا جنہوں نے لوگوں پر خدا کی پرستش کو حرام کر ڈالا اور خود کو لوگوں کے لیے خدا کا جانشین مقرر کردیا ہے۔ لہذا یہ اپنی عقل یا اپنی مخصوص روایتوں کے تحت حلال وحرام کرتے ہیں اور فتوی دیتے ہیں!

اس کے متعلق جو جملہ سب سے پہلے کہنا چاہیئے آںحضرت(ص)  کا کلام ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

آسانی پیدا کرو اور لوگوں پر سختی نہ کرو۔ بشارت دو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔(۱۴)

خود پر بھی سختی بہ کرو تاکہ خداوند عالم تم پر سختی نہ کرے۔ جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔(۱۵)

اور اکثر اپنے اصحاب کے درمیان فرماتے تھے:

میں نہ تمھارے لیے بدبختی اور بیچارگی چاہتا ہوں اور نہ ہی ذلت و رسوائی۔ بلکہ مجھے تو خدا نے آسانی چاہنے والے معلم کی صورت مبعوث فرمایا ہے۔(۱۶)

۳۵

اور یہ مشہور ہے کہ آںحضرت(ص) جب وہ باتوںکے درمیان کوئی چیز اختیار کرنا چاہتے تو سب سے آسان کو اختیار فرماتے تھے۔

اور اسی طرح جیسا کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) شارع نہیں تھے۔(۱۷) آنحضرت(ص) کی امر و نہی سوائے پروردگار عالم کی تبلیغ کے اور کچھ نہیں تھی۔ آںحضرت(ص) جو کچھ پروردگار عالم کا حکم ہوتا اسے بغیر کسی کمی یا زیادتی کے لوگوں تک پہنچا دیتے تھے۔ اور جو کچھ کہتے سوائے وحی الہی کے کچھ اور نہ ہوتا۔ اس لیے کہ وہ اپنی خواہش نفس کی بنیاد پر گفتگو نہ کرتے تھے بلکہ سب وحی ہوتی تھی۔

” وَ مَا يَنطِقُ عَنِ الهَْوَىإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَى“(نجم/۴-۳)

اب ہم قرآن سے استفتا کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام مشکل و دشوار ہے؟ قرآن کے شروع کے مطالعہ میں ہی ہم اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ مشقت و تکلیف کو اپنے بندوں سے ختم کرتا ہے اور ان کے لیے ہرگز حرج مرج نہیں چاہتا۔ وہ فرماتا ہے:

             خدا نے تم کو منتخب کیا اور تمہارے لیے دین میں کسی قسم کی مشقت و تکلیف کو قرار نہیں دیا۔ ( حج/۷۸)

اور دوسری جگہ فرماتا ہے:

     خدا تمہارے لیے ہرگز سختی و مشکل نہیں چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے ہے تمہیں ( آلودگیوں سے) پاک رکھے اور تم پر اپنی نعمت (دین اسلام) کو تمام کرے تاکہ تم شکر گزار رہو۔(مائدہ/۶)

اور ایک مقام پر فرماتا ہے:

خداوند عالم تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ مشکل وسختی۔ (بقرہ/۸۵)

یہ آیات امت اسلامی سے مربوط ہیں جنہوں نے دین اسلام کو قبول کیا

۳۶

ہے اور عبادات و معاملات میں اس کے احکام قوانین کو اختیار کیا ہے لیکن پروردگار رحمت سبھی کے شامل حال ہے چاہے وہ کسی بھی دین و آئین کا پیرو ہو۔ وہ سب ہی پر مہربان ہے اور اس نے کبھی بھی کسی کو مشقت میں نہیں رکھا۔

             خداوند عالم انسان کی خلقت کے متعلق فرماتا ہے:

اس نے  اسے نطفہ کیا پھر راہ کو اس پر آسان کردیا۔ ( عبس/۱۹)

لہذا الہی راہ جسے انسان اپنی زندگی میں کوشش کے ساتھ طے کرتا ہے تاکہ اس کی طرف پلٹ سکے بہت ہی آسان راہ ہے اس میں ذرا بھی مشقت اور دشواری نہیں ہے۔

خداوند عالم نے اپنی کتاب میں چار جگہ انسان کو آسان باتوں کے لیے مکلف کیا ہے اور فرمایا ہے:

۱۔ خداوند عالم نے کسی کو بھی اس کی توانائی سے زیادہ حکم نہیں دیا ہے ( بقرہ/۲۸۶)

۲۔ کسی کو بھی اس کی قوت  سے زیادہ مکلف نہیں کیا ہے۔( انعام/۱۵۲)

۳۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور اپنی توانائی کے مطابق نیک عمل انجام دیا۔ بے شک ہم کسی کو بھی اس کی قدرت سے زیادہ مکلف نہیں کرتے۔(اعراف/۴۲)

۴۔ اور ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف دیتے ہی نہیں اور ہمارے پاس تو لوگوں کے (اعمال کی) کتاب موجود ہے جو بالکل ٹھیک (حال) بتاتی ہے اور لوگوںکی ذرہ برابر حق تلفی نہیںکی جائے گی۔ ( مومنون/۶۲)

ان آیات شریفہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ خداوند عالم نے کسی بھی شخص کو اس کی توانائی سے بڑھ کر تکلیف نہیں دی ہے اور یہ حضرت آدم(ع) کے زمانہ سے لے کر ابھی تک رہا ہے۔

۳۷

اب اگر دین میں سختی پیدا ہوگئی ہے تو یہ لوگوں کے اجتہاد کا نتیجہ ہے جنہوں نےشریعت کے اعلی مقاصد کو اپنی فہم کے مطابق تاویل کیا ہے یا پھر بعض بڑے گناہوں کے مرتکب ہوئے تھے۔ پھر اپنے کو مشقتوں میں مبتلا کرتے تھے اور تکلیف دیتے تھے تاکہ شاید خداوند عالم انہیں بخش دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ لہذا انہوں نے کچھ باتیں ایجاد کیں اور اپنے نفس پر سختی کی۔ خداوند عالم نے بھی ان کے لیے ان امور کو لازم و ضروری قرار دیا گرچہ آخر کار انہوں نے اسے پورا نہ کیا۔

اس کے متعلق خداوند عالم فرماتا ہے:

اور رہبانیت ( لذات سے کنارہ کشی) کی ان لوگوں نے خود ایک نئی بات نکالی تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ مگر ( ان لوگوں نے) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ( خود ایجاد کر لیا) تو اس کو بھی جیسا بناہنا چاہیئے تھا نہ بناہ سکے۔( حدید/۲۷)

یہی وہ مقام ہے جہاں رسول خدا(ص) کا کلام نظر آتا ہے کہ :

اپنے آپ پر سختی نہ کرو تاکہ خدا بھی تم پ رسختی نہ کرے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔(۱۸)

اس منطق کو پیش نظر رکھنے کے بعد خداوند عالم کا کلام بھی سمجھ میں آتا ہے کہ جسے اس نے رسول اکرم(ص) کے متعلق فرمایا ہے:

( وہ نبی(ص)) جو انہیں اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور جو پاک او پاکیزہ چیزیں ان پر حلال اور ناپاک اور گندی چیزیں ان پر حرام کردیتا ہے اور وہ ( سخت احکام کا) بوجھ جو ان کی گردنوں پر تھا اور وہ پھندے جو ان پر (پڑے ہوئے) تھے اسے ہٹا دیتا ہے۔ (اعراف/۱۵۷)

لہذا انہوں نے خود یہ قید و بند اپنے لیے تیار کر رکھی تھی۔ خدا نے ایسا نہ کیا

۳۸

تھا۔

اس بحث سے ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ دین اسلام میں کسی قسم کی مشقت، سختی، مشکل اور قید وبند نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سہل اور آسان دین ہے جو بندوں کے لیے سوائے رحمت و مہربانی کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا دین ہےجس نے ہمیشہ انسانوں کی جسمانی اور روحانی کمزوری کا پاس رکھا ہے جیسا کہ خود فرماتا ہے:

             خداوند عالم تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے بے شک انسان کمزور خلق ہوا ہے( نساء/۲۸)

             اور تم پر یہ تمہارے پروردگار کی رحمت تخفیف کی وجہ سے ہے (بقرہ/۱۷۸)

             اس طرح آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اہل بیت(ع) کی شناخت کے مطابق اور عام مجتہدوں کے اجتہاد اور مشکل پرستوں کی مشقت سے قطع نظر اسلام کیسا سہل و آسان دین ہے کہ آج کا انسان بھی دیگر زمانوں کے انسانوں کی طرح بغیر کسی سختی اور مشکل کے اسلام کو اپنی دنیا وآخرت کےلیے منتخب کرسکتا ہے۔

۳۹

کیا اسلام ترقی کو قبول کرتا ہے؟

بے شک! اسلام نہ صرف ترقی کا مخالف نہیں ہے بلکہ خود عین ترقی و تمدن ہے۔

اسلام وہ بلند معنی ومفہوم ہے جسے انسان نے بشریت کے آغاز سے ہی پالیا ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی آیات موجود ہیں جو علم اور حصول علم کا شوق دلاتی ہیں اور انسان سے چاہتی ہیں کہ زندگی کے اعلی مراحل تک پہنچنے کے لیے عقل و خرد سے کام لے چاہے اسے خلاء میں کیوں نہ پہنچنا ہو۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

اے گروہ جن و انسان اگر تم آسمان و زمین کی حدود سے آگے جاسکتے ہو تو جاؤ۔( رحمن/ ۳۳)(۱۹)

خداوند عالم نے ایک دوسری آیت میں انسان کو تمام مخلوقات پر برتر قرار دیا ہے اور اسے بتایا ہے کہ تمام کائنات اور مخلوقات اس کی خدمت پر کمر بستہ ہیں۔

فرماتا ہے:

خدا تو  وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے قابو میں کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور اس کے فضل (وکرم ) سے ( معاش کی) تلاش کرو اور شکر کرو اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو اپنے حکم سے تماہرے کام میں لگا دیا ہے  جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں ( قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔( جاثیہ/ ۱۲۔۱۳)

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ہوجائیں _(۱)

اگر امام حسن عسکر ی کی رحلت کے بعد ہی مکمل غیت واقع ہوجاتی تو امام زمانہ کے مقدس وجود ہی سے لوگ غافل رہتے اور رفتہ رفتہ فراموش کردیتے _ اس لئے غیبت صغری سے ابتداء ہوئی تا کہ شیعہ اس زمانہ میں اپنے امام سے نائبوں کے ذریعہ رابطہ کریں اور ان کی علامتوں اور کرامات کو مشاہدہ کریں اور اپنے ایمان کی تکمیل کریں جب خیالات مساعد اور کامل آمادگی ہوگئی تو غیبت کبری کا آغاز ہوا _

کیا غیبت کبری کی انتہا ہے؟

انجینئر: کیا غیبت کبری کی کوئی حد معین ہے؟

ہوشیار : کوئی حد تو معین نہیں ہے _ لیکن احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت اتنی طویل ہوگی کہ ایک گروہ شک میں پڑجائے گا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

امیر المؤمنین نے حضرت قائم کے بارے میں فرمایا:

'' ان کی غیبت اتنی طویل ہوگی کہ جاہل کہے گا : خد ا کو رسول (ص) کے اہل بیت کی احتیاج نہیںہے ''_(۲)

____________________

۱_ اثبات الوصیہ ص ۲۰۶_

۲_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۹۳_

۱۸۱

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''قائم (ع) میں جناب نوح (ع) کی ایک خصوصیت پائی جائیگی اور وہ ہے طول عمر ''(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۲۱۷_

۱۸۲

فلسفہ غیبت

انجینئر: اگر امام ظاہر ہوتے اور لوگ ضرورت کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچ کر اپنی مشکلیں حل کرتے تو یہ ان کے دین اور دنیا کیلئے بہتر ہوتا _ پس غیبت کیوں اختیار کی؟

ہوشیار: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر مانع نہ ہوتا تو آپ کا ظہور زیادہ مفید و بہتر تھا _ لیکن چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند عالم نے اس مقدس وجود کو آنکھوں سے پنہاں رکھا ہے اور خدا کے افعال نہایت ہی استحکام اور مصلحت و اقع کے مطابق ہوتے ہیں _ لہذا امام کی غیبت کی بھی یقینا کوئی وجہ ہوگی _ اگر چہ ہمیں اس کی تفصیل معلوم نہیں ہے ، درج ذیل حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی بنیادی سبب لوگوں کو نہیں بتایا گیاہے ، صرف ائمہ اطہار علیہم السلام کو معلوم ہے _

عبداللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:

''صاحب الامر کیلئے ایسی غیبت ضروری ہے کہ گمراہ لوگ شک میں مبتلا ہوجائیں گے'' _ میں نے عرض کی ، کیوں ؟ فرمایا: ''ہمیں اس کی علّت بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے'' _ اس کا فلسفہ کیا ہے؟ وہی فلسفہ جو گزشتہ

۱۸۳

حجت خدا کی غیبت میں تھا _ لیکن اس کی حکمت ظہور کے بعد معلوم ہوگی _ بالکل ایسے ہی جیسے جناب خضر(ع) کی کشتی میں سوراخ ، بچہ کے قتل اور دیوار کو تعمیر کرنے کی جناب موسی کو جدا ہوتے وقت معلو م ہوئی تھی _ اے فضل کے بیٹے غیبت کا موضوع سرّ ی ہے _ یہ خدا کے اسرار اور الہی غیوب میں سے ایک ہے _ چونکہ ہم خدا کو حکیم تسلیم کرتے ہیں _ اس لئے اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ اس کے امور حکمت کی روسے انجام پاتے ہیں _ اگر چہ اسکی تفصیل ہم نہیں جانتے ''_(۱)

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی اصلی علت و سبب اسلئے بیان نہیں ہوئی ہے کہ لوگوں کو بتانے میں صلاح نہیں تھی یا وہ اس کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے _

فائدہ اول: امتحان و آزمائشے _ تا کہ جن لوگوں کا ایمان قوی نہیں ہے انکی باطنی حالت ظاہر ہوجائے اور جن لوگوں کے دل کی گہرائیوں میں ایمان کی جڑیں اتر چکی ہیں ، غیبت پر ایمان ، انتظار فرج اور مصیبتوں پر صبر کے ذریعہ ان کی قدر و قیمت معلوم ہوجائے اور ثواب کے مستحق قرار پائیں ، امام موسی کاظم فرماتے ہیں :

'' ساتویں امام کے جب پانچویں بیٹے غائب ہوجائیں ، اس وقت تم اپنے دین کی حفاظت کرنا _ ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دین سے خارج کردے _ اے میرے چھوٹے بیٹے صاحب الامر کے لئے ایسی غیبت ضروری ہے کہ جسمیں

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۹۱_

۱۸۴

مومنین کا ایک گروہ اپنے عقیدے سے منحرف ہوجائے گا _ خدا امام زمانہ کی غیبت کے ذریعہ اپنے بندوں کا امتحان لے گا _(۱)

دوسرا فائدہ : غیبت کے ذریعہ ستمگروں کی بیعت سے محفوظ رہیں گے _ حسن بہ فضال کہتے ہیں کہ امام رضا (ع) نے فرمایا:

''گویا میں اپنے تیسرے بیٹے (امام حسن عسکری(ع) ) کی وفات پر اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے امام کو ہر جگہ تلاش کررہے ہیں لیکن نہیں پارہے ہیں'' میں نے عرض کی : فرزند رسول کیوں؟ فرمایا:'' ان کے امام غائب ہوجائیں گے'' عرض کی : کیوں غائب ہوں گے ؟ فرمایا: '' تا کہ جب تلوار کے ساتھ قیام کریں تو اس وقت آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو ''_(۲)

تیسرا فائدہ : غیبت کی وجہ سے قتل سے نجات پائی _

زرارہ کہتے ہیں کہ امام صادق (ع) نے فرمایا:

''قائم کے لئے غیبت ضرور ی ہے '' _ عرض کی کیوں ؟ فرمایا: قتل ہوجانے کا خوف ہے اور اپنے شکم مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا''_(۳)

مذکورہ تینوں حکمتیں اہل بیت کی احادیث میں منصوص ہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۱۳_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۲_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۱۸۵

امام زمانہ اگر ظاہر ہوتے تو کیا حرج تھا ؟

انجینئر : اگر امام زمانہ لوگوں کے درمیان آشکار طور پر رہتے ، دنیا کے کسی بھی شہر میں زندگی بسر کرتے ، مسلمانوں کی دینی قیادت کی زمام اپنے ہاتھوں میں رکھتے اور شمشیر کے ساتھ قیام اور کفر کاخاتمہ کرنے کیلئے حالات سازگار ہونے تک ایسے ہی زندگی گزارتے تو کیا حرج تھا؟

ہوشیار : اچھا مفروضہ ہے لیکن اس کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ اس سے کیا نتائج بر آمد ہوئے _ میں حسب عادت موضوع کی تشریح کرتا ہوں _

پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اطہار نے بارہا یہ بات لوگوں کے گوش گزار کی تھی کہ ظلم وستم کی حکومتیں مہدی موعود کے ہاتھوں تباہ ہوں گی اور بیداد گری کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے لوگوں کے دو گروہ ہمیشہ امام زمانہ کے وجود مقدس کے منتظر رہے _ ایک مظلوم و ستم رسیدہ لوگوں کا گروہ جو کہ ہمیشہ اکثریت میں رہا ہے _ وہ حمایت و دفاع کے قصد سے امام زمانہ کے پاس جمع ہوئے اور انقلاب و دفاع کا تقاضا کرتے تھے _ یہ ہمیشہ ہوتا تھا کہ ایک بڑا گر وہ آپ کا احاطہ کئے رہتا اور انقلاب کا تقاضا کرتا تھا _

دوسرا اگر وہ خونخوار ستمگروں کارہا ہے جس کا پسماندہ اور محروم قوموں پر تسلط رہا ہے یہ ذاتی مفاد کے حصول اور اپنے منصب کے تحفظ میں کسی بھی برے سے برے

۱۸۶

کام کو انجام دینے سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور پوری قوم کو اپنے مفاد پر قربان کرنے کیلئے تیار رہتا تھا_ یہ گروہ امام زمانہ کے وجودکو اپنے شوم مقاصد کی راہ میں مانع سمجھتا اور اپنی فرمان روائی کو خطرہ میں دیکھتا تھا تو آپ کا خاتمہ کرکے اس عظیم خطرہ سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا _ اس منصوبہ میں وہ سب متحد ہوگئے تا کہ عدالت و دادخواہی کی جڑیں اس طرح کاٹ دیں کہ پھر سر سبز نہ ہو سکیں _

موت سے دڑ

جلالی : امام زمانہ اگر معاشرہ کی اصلاح ، دین کی ترویج اور مظلوموں سے دفاع کرتے ہوئے قتل ہوجاتے تو اس میں کیا حرج تھا؟ کیا ان خون ان کے آباء و اجداد کے خون سے زیادہ عزیز ہے ؟ موت سے کیوں دڑتے تھے؟

ہوشیار : دین و حق کی راہ میں قتل ہونے سے امام زمانہ اپنے آبا ء و اجداد کی طرح نہ ڈرتے تھے اور نہ ڈرتے ہیں _ لیکن ان کے قتل ہونے میں معاشرہ اور دین کی صلاح نہیں ہے _ کیونکہ ہر شہید ہونے والے امام کے بعد دوسرا امام اس کا جانشین ہوا ہے لیکن اگر امام زمانہ قتل ہوجائیں تو پھر کوئی جانشین نہیں ہے _ اور زمین حجّت خدا کے وجود سے خالی ہوجائے گی _ جبکہ یہ مقدر ہوچکا ہے کہ آخر کار حق باطل پر غالب ہوگا اور امام زمانہ کے ذریعہ دنیا کی زمام حق پرستوں کے ہاتھوں میں آئے گی _

کیا امام کی حفاظت کرنے پر خدا قادر نہیں ہے؟

جلالی : کیا خدا امام زمانہ کو دشمنوں کے شرسے بچانے اور ان کی حفاظت پر قادر

۱۸۷

نہیں ہے؟

ہوشیار : باوجودیکہ خدا کی قدرت لا محدود ہے لیکن اپنے امور کو وہ اسباب و عادات کے مطابق انجام دیتا ہے _ ایسا نہیں ہے کہ وہ انبیاء و ائمہ کی حفاظت اور دین کی ترویج میں عام اسباب و علل سے دست بردار ہوجائے اور عادت کے خلاف عمل کرے اور اگر ایسا کرے گا تو دنیا اختیار و امتحان کی جگہ نہ رہے گی _

ستمگران کے سامنے سراپا تسلیم ہوجاتے

جلالی : اگر امام زمانہ ظاہر ہوتے اور کفار و ستمگر آپ کو دیکھتے ، آپ کی برحق باتیں سنتے تو ممکن تھا کہ وہ آپ کو قتل نہ کرتے بلکہ آپ کے ہاتھوں پر ایمان لاتے اور اپنی روش بدل دیتے _

ہوشیار: ہر شخص حق کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہوتا ہے بلکہ ابتداء سے آج تک لوگوں کے درمیان ایک گروہ حق و صحت کا دشمن رہا ہے اور اسے پا مال کرنے کیلئے اپنی پوری طاقت صرف کی ہے _ کیا انبیاء و ائمہ اطہار حق نہیں کہتے تھے؟ کیا ان کی برحق باتیں اور معجزات ستمگروں کی دست رس میں نہیں تھے؟ اس کے باوجود انہوں نے چراغ ہدایت کو خاموش کرنے کے سلسلے میں کسی کام سے دریغ نہ کیا _ صاحب الامر بھی اگر خوف کے مارے غائب نہ ہوئے ہوتے تو ان کے ہاتھوں اسیر ہوجاتے _

خاموش رہو تا کہ محفوظ رہو

ڈاکٹر : میرے نقطہ نظر سے اگر امام زمانہ کلی طور پر سیاست سے علیحدہ رہتے

۱۸۸

اور کفار و ستمگروں سے کوئی سروکار نہ رکھتے ، ان کے اعمال کے مقابل سکوت اختیار کرتے اور اپنی دینی و اخلاقی راہنمائی میں مشغول رہتے تو دشمنوں کے شر سے محفوظ رہتے _

ہوشیار : چونکہ ستمگروں نے یہ بات سن رکھی تھی کہ مہدی موعود ان کے دشمن ہیں اور ان کے ہاتھوں ظلم کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے وہ آپ کے سکوت پر اکتفا نہ کرتے _ اس کے علاوہ جب مومنین یہ دیکھتے کہ آپ ظلم و ستم کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں ، ایک دو سال سے نہیں بلکہ سیکڑوں سال سے اس کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ امام کسی رد عمل کا اظہار نہیں کرتے تو وہ بھی آہستہ آہستہ دنیا کی اصلاح اور حق کی کامیابی سے مایوس ہوجاتے اور پیغمبر اکرم و قرآن مجید کی بشارتوں میں شک کرنے لگتے _ ان تمام چیزوں کے علاوہ مظلوم لوگ آپ کو سکوت کی اجازت نہ دیتے _

عدم تعرض کا معاہدہ

انجینئر : وقت کے ستمگروں سے عدم تعرض کا معاہدہ کرنے کا امکان تھا وہ اس طرح کہ آ پ(ع) ان کے کسی کام میں مداخلت نہیں کریں گے اور چونکہ آپ کی امانت داری و نیک منشی مشہور تھی اس لئے آپ کے معاہدے محترم اور اطمینان بخش ہوتے اور ستمگروں کو بھی آپ سے سروکار نہ ہوتا _

ہوشیار: مہدی موعود کا پروگرام تمام ائمہ اطہار کے پروگرام سے مختلف ہے _ ائمہ کو تا حد امکان ترویج دین اور امر بالمعروف و نہی از منکر کیلئے مامور کیا گیا تھا ، جنگ کے لئے نہیں _ لیکن ابتداء ہی سے یہ مقدر تھا کہ مہدی کی سیرت و رفتار ان سے مختلف ہوگی ، وہ ظلم اور باطل کے مقابلہ میں سکوت نہیں کریں گے اور

۱۸۹

جنگ و جہاد کے ذریعہ ظلم و جور کی بیخ کنی کریں گے اور ستمگروں کے خودسری کی محلوں کو منہدم کریں گے _

ایسی سیرت و رفتار مہدی کی علامتیں اور خصوصیات شمار کی جاتی تھیں_ ہر امام سے کہا جاتاتھا کہ ستمگروں کے خلاف قیام کیوں نہیں کرتے؟ فرماتے تھے : مہدی تلوار سے جنگ کریں گے ، قیام کریں گے جبکہ میرے اندر یہ خصوصیات نہیں ہیں اور ان کی طاقت بةی نہیں ہے _ بعض سے دریافت کیا جاتا تھا: کیا آپ(ع) ہی قائم ہیں؟ فرماتے تھے : میں قائم بر حق ہوں لیکن و ہ قائم نہیں ہوں جو زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کریں گے _ بعض کی خدمت عرض کیا جاتا تھا: ہمیں امید ہے کہ آپ ہی قائم ہیں _فرماتے تھے: میں قائم ہوں لیکن جو قائم زمیں کو کفر و ظلم سے پاک کریں گے وہ اور ہیں _ دنیا کی پریشان حالی ، ابتری ، ظالموں کی ڈکٹیڑی اور مومنین کی محرومیت کی شکایت کی جاتی تھی تو فرماتے تھے: مہدی کا انقلاب مسلّم ہے _ اسی وقت دنیا کی اصلاح ہوگی اور ظالموں سے انتقام لیا جائے گا _ مومنین کی قلّت اور کافروں کی کثرت و طاقت کی اعتنا کی جاتی تو ائمہ شیعوں کی ڈھارس بندھاتے اور فرماتے تھے: آل محمد کی حکومت حتمی اور حق پرستی کی کامیابی یقینی ہے _ صبر کرو اور فرج آل محمد (ص) کے منتظر رہو اور دعا کرو، مومنین اور شیعہ ان خوش خبریوں سے مسرور ہوتے اور ہر قسم کے رنج و غم کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہوجاتے تھے ''_

اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ مومنین بلکہ بشریت کو جو مہدی سے توقعات ہیں ان کے باوجود آپ وقت کے ستمگروں سے پیمان مودت و دوستی باندھ سکتے تھے؟ اگر آپ ایسا کرتے تو کیا مومنین پر یاس و ناامیدی غالب نہ آجاتی _ کیا وہ آپ پر

۱۹۰

یہ تہمت نہ لگاتے کہ آپ نے ظالموں سے ساز باز کرلی ہے اور آپ کا مقصد اصلاح نہیں ہے ؟

میرے نقطہ نظر سے تو اس کا امکان ہی نہیں تھا او راگر ایسا ہوگیا ہوتا تو مومنین کی قلیل تعداد مایوس و بد ظن ہوکر دین سے خارج اور طریقہ کفر پر گامزن ہوجاتی _

اس کے علاوہ اگر آپ ستمگروں سے عدم تعرّض اور دوستی کا معاہدہ کرلیتے تو مجبوراً اپنے عہد کی پابندی کرنے ، نتیجہ میں کبھی جنگ کا اقدام نہ کرتے ، کیونکہ اسلام نے عہدو پیمان کو محترم قرار دیا ہے اور اس پر عمل کو ضروری جانا ہے _(۱)

اس وجہ سے احادیث میں تصریح ہوتی ہے ک صاحب الامر کی ولادت کے مخفی رکھنے اور غیبت کا ایک راز یہ ہے کہ ظالموں سے بیعت نہ کر سکیں تا کہ جب چاہیں قیام کریں اور کسی کی بیعت میں نہ ہوں _ چند نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' صاحب الامر کی ولادت کو مخفی رکھا جائے گا تا کہ ظہور کے وقت آپ کسی پیمان کے پابند نہ ہوں ، خدا ایک رات میں ان کے لئے زمین ہموار کریگا ''(۲) _

ان تمام چیزوں کے علاوہ جب خودخواہ ستمگر و زمامدار اپنے مفاد و منافع کیلئے خطرہ محسوس کرتے تو وہ اس پیمان سے مطمئن نہ ہوتے اور آپ کے قتل کا منصوبہ بتاتے اور زمین کو حجت خدا کے وجود سے خالی کردیتے _

____________________

۱_ مائدہ /۱ و اسراء / ۳۴ و مومنوں/۸

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۹۶

۱۹۱

مخصوص نواب کیوں معین نہ کئے ؟

جلالی: ہم اصل لزوم غیبت کو قبول کرتے ہیں لیکن غیبت کبری میں آپ نے اپنے شعیوں کے لئے غیبت صغری کی مانند نواب کیوں معین نہیں کئے شیعہ ان کے ذریعہ آپ سے رابطہ قائم کر تے اور اپنے مشکلات حل کرتے ؟

ہوشیار : دشمنوں نے نواب حضرت کو بھی اذ یتیں پہنچائی ہیں '، شکنجے دیئےیں تا کہ وہ امام کی قیام گاہ کاپتہ بتادیں انھیں آزاد نہیں چھوڑ اگیا تھا _ _

جلالی : یہ بھی ممکن تھا کہ معین اشخاص کو وکیل منصوب کرتے _ خود کبھی کبھی بعض مومنین کے پاس تشریف لاتے اور شعیوں کے لئے انھیں احکام و پیغام دیتے _

ہوشیار : اس میں بھی صلاح نہیں تھی بلکہ ممکن نہیں تھا کیونکہ وہی لوگ دشمنوں کو امام کے مکان کا پتہ بتاد یتے اور آپ کی اسیری و قتل کے اسباب فراہم کردیتے _

جلالی : خطرہ کا احتمال اس صورت میں تھا کہ جب آپ مجہول الحال شخص کے لئے ظاہر ہوتے لیکن اگر آپ صرف علما اور موثق و معتمد مومنین کے لیے ظہور فرماتے تو خطرہ کا با لکل احتمال نہ ہوتا _

ہوشیار : اس مفروضہ کے بھی کئی جواب دیئےاسکتے میں :

ا_ جس شخص کے لئے بھی ظہور فرماتے اس سے اپنا تعارف کرانے اور اپنے دعوے کے ثبوت میں ناچار معجزہ دکھا ناپڑ تا بلکہ ان لوگون کے لئے تو کئی معجزے دکھا نے پڑتے جو آسانی سے کسی بات کو قبول نہیں کرتے _ اسی اثناء میں فریب کار

۱۹۲

اور جادو گر بھی پیدا ہوجاتے جو کہ لوگوں کو فریب دیتے ، امامت کا دعوی کرتے اور سحر و جادو دکھا کر عوام کو گمراہ کرتے اور معجزہ و جادو میں فرق کرنا ہر ایک کے قبضہ کی بات نہیں ہے ، اس قضسہ سے بھی لوگوں کے لئے بہت سے مفاسد و اشکالات پیدا ہوجا تے _

۲ _ فریب کار بھی اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ، جاہل لوگوں کے در میان جاکر امام سے ملاقات کا دعوی کرتے اور اپنے مقصد تک پہنچا نے کیلئے آپ کی طرف خلافت شرع احکام کی نسبت دیتے ، جو چاہتا خلاف شرع عمل کرتا اور اپنے کام کی ترقی تصیح کے لئے کہتا _ میں امام زمانہ کی خدمت میں حاضر ہواتھا _ کل رات غریب خانہ ہی پر تشریف لائے تھے مجھ سے فرمایا ہے _ فلاں کام انجام دو ، فلاں کام کیلئے میری تائید کی سے ، اس میں جو خر ابی اور مفاسد میں وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں _

۳ _ اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام زمانہ کسی بھی شخص ، یہاں تک صالح لوگوں بھی ملاقات نہیں کرتے بلکہ ممکن ہے کہ بہت سے صالحین و اولیاء خدا آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوتے ہوں لیکن انہیں یہ بات بیان کرنے کی اجازات نہ ہو ، ہر شخص اپنی ہی کیفیت سے واقف ہے اسے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے _

۱۹۳

امام غائب کا کیا فائدہ ؟

انجینئر : اگرامام لوگوں کے پیشوا ہیں ، تو انھیں ظاہر ہونا چا ہئے _ غائب امام کے وجود سے کیا فائدہ ہے ؟ جو امام سیکڑوں سال غائب رہے _ دین کی ترویج نہ کرے ، معاشر ے کی مشکوں کو حل نہ کر ے ، مخالفوں کے جواب نہ دے _ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے ، مظلوموں کی حمایت نہ کرے ، خدا کے احکام وحدود کو نا فذ نہ کرے ایسے امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟

ہوشیار :غیبت کے زمانہ میں لوگ آپ کے بیان کردہ فوائد سے اپنے اعمال کی بنا پر محروم ہیں لیکن وجود امام کے فوائد ان ہی میں منحصر نہیں ہیںبلکہ اور بہی فوائد ہین جو کہ غیبت کے زمانہ میں مترتب ہو تے ہیں منجملہ ان کے ذیل کے دو فوائد تہی ہیں:

اول : گزشتہ بحث ، علما کی کتابوںمیں نقل ہونے والی دلیلوں اور موضوع امامت کے سلسلہ میں وارد ہونے والی احادیث کے مطابق امام کا مقدس وجود نوع انسان کی غایت ، انسانیت کا فرد کامل اور عالم مادی وعالم ربویت کے در میان رابطہ ہے_اگرروئے زمین پر امام کا وجود نہ ہو گا تو نوع انسان تباہ ہو جائے گی _ اگر امام نہ ہوں گے توصحیح معنوں میں خدا کی معرفت وعبادت نہ ہوگی _ اگر امام نہ ہوں گے تو عالم مادی اور منبع تخلیق کے در میان رابطہ منقطع ہو جائے گا_ امام کے قلب مقدس کی مثال ایک

۱۹۴

ٹرانسفار مر کی سی ہے جو کار خانہ کے ہزاروں بلبوں کو بجلی فراہم کرتاہے_ عوالم غیبی کے اشراقات وافاضات پہلے امام کے پاکیزہ قلب پر اور ان کے وسیلہ سے تمام لوگوں کے دلوں پر نازل ہوتے ہیں _ امام عالم وجود کا قلب اور نوع انسانی کے رہبر و مربی ہیں اور یہ واضح ہے کہ ان فوائد کے ترتیب میں آپ کی غیبت وحضور میں کوئی فرق نہیں ہے _ کیا اس کے با وجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟ میں سمجھتاہوں کہ آپ نے یہ اعتراض اس کی زبان سے کیا ہے جس نے امامت و ولایت کے معنی کی تحقیق نہیں کی ہے اور امام کو صرف مسئلہ بیان کرنے والا تصور کرلیا ہے نہ کہ حدود جاری کرنے والا جبکہ عہدہ امامت وولایت اس سے کہیںبلند وبالاہے_

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''ہم مسلمانوںکے امام ، دنیا پر حجت ،مؤمنین کے سردار، نیکوکاروں کے رہبر اور مسلمانوں کے مولاہیں ہم زمین والوں کے لئے امان ہیں جیسا کہ آسمان والوں کے لئے ستارے امان ہیں _ ہماری وجہ سے آمان اپنی جگہ ٹھراہواہے جب خدا چاہتا ہے ہمارے واسطہ سے باران رحمت نازل کر تا اور زمین سے برکتیں ظاہر کرتاہے _اگر ہم روئے زمین پر نہ ہو تے تو اہل زمین دھنس گئے ہوتے''پھر فرمایا : '' جس دن سے خدا نے حضرت آدم کو پیدا کیا ہے_ اس دن سے آج تک زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں رہی ہے لیکن حجت خدا کا وجود کبھی ظاہر وآشکار اور کبھی غائب و مخفی رہا ہے_ قیامت تک زمین حجت خدا سے خالی نہ ہوگی_ اگر امام نہ ہو گا تو خدا کی عبادت نہ ہوگی_

۱۹۵

سلیمان کہتے ہیں : میں نے عرض کی امام غائب کے وجود سے لوگوں کو کیسے فائدہ پہنچتا ہے ؟ جیسے ابر میں چھیے ہوئے سورج پہنچتا ہے(۱) _

اس اور دیگر حدیثوں میں صاحب الامر کے مقدس وجود اور ان کے ذریعہ لوگوں کو پہنچنے والے فائدہ کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ بادل میں چھپ کربھی لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے _ وجہ تشبیہ یہ ہے : طبیعی اور فلکیات کے علوم سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سورج شمسی نظام کامر کز ہے _ اس کی قوت جاذبہ زمین کی محافظ اور اسے گرنے سے بچاتی ہے ، زمین کو اپنے چاروں طرف گردش دیتی ہے ، دن ، رات اور مختلف فصلوں کو وجود میں لاتی ہے _ اس کی حرارت حیوانات ، نباتات اور انسانوں کی زندگی کا باعث ہے _ اس کا نور زمین کو روشنی بخشتاہے _ ان فوائد کے مترتب ہونے میں سورج کے ظاہر یابادل میں پوشیدہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے یعنی اس کی قوت جاذبہ حرارت اور نور دونوں صورتوں میں رہتا ہے _ ہاں کم و بیش کا فرق ہوتا ہے _

جب سیاہ گھٹاؤں میں سورج چھپ جاتا ہے یارات ہوجاتی ہے تو جاہل یہ خیال کرتے ہیں کہ اب موجودات سورج کی حرارت اور نور میسر نہ ہو تو برف بن کر ہلاک ہوجا ئیں ، سورج ہی کی برکت سے سیاہ گھٹا ئیں چھٹتی ہیں اور اس کا حقیقی چہرہ ظاہر ہوتا ہے _

امام کا مقدس وجود بھی عالم انسانیت کا قلب اور سورج اور اس کا تکوینی مربی

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۲۱۷

۱۹۶

وہادی ہے ، اور ان فوائد کے ترتب میں آپ کی غیبت و حضور میں اثر انداز نہیں ہے _ حاضرین سے گزارش ہے _ کہ نبوت عامہ اور امامت کے بارے میں ہونے والی بحث کو مد نظر رکھیں اور نہایت سنجیدگی سے ایک مرتبہ اسے دھرالیں ، تا کہ ولایت کے حقیقی معنی تک پہنچ جائیں _ اور امام کے وجود کے، اہم فائدہ کو سمجھ جائیں اور اس بات کو سمجھ لیں کہ اب بھی نوع انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ امام غائب کی برکت کا اثر ہے _

لیکن آپ نے جو دوسرے فوائد بیان کئے ہیں اگر چہ غیبت کے زمانہ میں عام لوگ ان سے محروم ہیں لیکن خداوند عالم اور خود امام فیض میں مانع نہیں ہیںبلکہ اس میںخود لوگوں کی تقصیر ہے _ اگر وہ ظہور میں مانع چیزوں کو بر طرف کر دیتے اور توحید و عدالت کی حکومت کے اسباب فراہم کر لیتے _ دنیا کے اذہان و افکار کو ہموار کر لیتے تو امام کا ظہور ہوجاتا اور آپ انسانی معاشرہ کو بے پناہ فوائد سے مالا مال کرد یتے_

ممکن ہے آپ یہ کہیں : جب عام حالات امام زمانہ کے ظہور کے لئے سازگار نہیں ہیں تو اس پر خطر کام کی کوشش کرنا بے فائدہ ہے ؟ لیکن واضح رہے مسلمانوں کی طاقت وہمت کو ذاتی منافع کے حصول میں منحصر نہیں ہونا چاہئے ، تمام مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کے اجتماعی امور کی اصلاح میں کوشش کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ، رفاہ عام میں تندہی اور ظلم و بیدادگری سے مبارزہ بہت بڑی عبادت ہے _

ممکن ہے مزید آپ کہیں : ایک یا چند افرادکی کوشش سے کچھ نہیں ہوتا _ اور پھر میرا کیا گناہ ہے کہ امام کے دیدار سے محروم ہوں ؟ جواب : اگر ہم نے عام افکار کے رشد ، دنیا والوں کو اسلامی حقائق سے متعارف کرانے اور اسلام کے مقدس مقصد سے قریب لانے کی کوشش کی اوز اپنا فریضہ

۱۹۷

انجام دید یا ، تو اس کا ہمیں اجر ملے گا ، اگر چہ ہم نے معاشرہ بشریت کو مقصد سے ایک ہی قدم قریب کیا ہوگا اور اس کام کی اہمیت علماء پر مخفی نہیں ہے اسی لئے بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے کہ انتظار فرج سب سے بڑی عبادت ہے _ ۱ _

دوسرا فائدہ : مہدی ، انتظار فرج اور امام زمانہ کے ظہور پر ایمان رکھنے سے مسلمانوں کے دلوں کو سکون ملتا اور امید نبدھتی ہے اور امیدوار رہنا مقصد کی کا میابی کا سبب ہے _ جس گروہ نے اپنے خانہ دل کو یاس و نا اُمیدی سے تاریک کرلیا اور اس میں امید کی کرن کا گزرنہ ہوتووہ ہرگز کا میاب نہ ہوگا _

ہاں دنیا کے آشفتہ حالات ، مادیت کا تبا ہ کن سیلاب ، علوم و معارف کی سرد بازاری پسماندہ طبقہ کی روز افزوں محرومیت ، استعمار کے فنون کی وسعت ، سردو گرم جنگیں ، اور مشرق و مغرب کا اسلحہ کی دوڑ میں مقابلہ نے روشن فکر اور بشر کے خیرخواہوں کو مضطرب کردیا ہے ، یہاں تک کہ وہ کبھی بشرکی اصلی طاقت ہی کی تردید کردیتے ہیں _

بشرکی امید کا صرف ایک جھرو کا کھولا ہوا ہے اور اس دنیا ئے تاریک میں جو امید کی چمکنے والی کرن انتظار فرج اور حکومت توحید کا درخشاں زمانہ اور قوانین الہی کا نفاذ ہے _ انتظار فرج ہی مایوس اور لرزتے دلوں کو آرام بخشتا اور پسماندہ طبقے کے زخمی دلوں پر مرہم رکھتا ہے _ حکومت توحید کی مسرت بخش خوش خبریوں نے ہی مومنین کے عقائد کی حفاظت کی اور دین میں اسے پائیدار کیا ہے _ حق کے غلبہ اور کا میابی نے ہی بشر کے خیر خواہون کو فعالیت و کوشش پر ابھاراہے _اسی غیبی طاقت

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲_۱۵۰

۱۹۸

سے استمداد انسانیت کو یاس و نا امیدی کے ہولنا ک غار میں گرنے سے بچاتی ہے اور امیدو آرزوؤں کی شاہ راہوں کو منور کرتی ہے _ پیغمبر اکرم(ع) توحید کی عالمی حکومت اور عالمی اصلاحات کے رہبر کے تعین و تعارف سے دنیا ئے اسلام سے یاس و نا اُمیدی کے دیوکو نکال دیا ہے _ شکست و نا اُمیدی کے راستوں کو مسدود کردیا ہے _ اس بات کی تو قع کی جاتی ہے کہ اسلام کے اس گراں بہا منصوبہ پر عمل پیرا ہوکر مسلمان دنیا کی پراگندہ قوموں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے اور حکومت توحید کی تشکیل کے لئے ان سے اتحاد کرلیں گے _ امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں :

'' انتظار فرج خود عظیم فرج و گشائشے ہے ''(۱)

مختصر یہ کہ محدی موعود پر ایمان نے شیعوَ کے مستقبل کو تا بناک بنادیا ہے اور اس دن کی امید میں خوش رہتے ہیں _ شکست و یاس کو ان سے سلب کرکے انھیں مقصد کی راہ ، تہذیب اخلاق اور معارف سے دلچپی لینے پر ابھارا ہے _ شیعہ ، مادیت ، شہوت رانی ، ظلم وستم ، کفرو بے دینی اور جنگ و استعمار کے تاریک دور میں حکومت توحید عقل انسانیت کی تکمیل ، ظلم و ستم کی تباہی ، حقیقی صلح برقراری اور علوم و معارف کی گرم بازاری کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں _ اور اس کے اسباب و مقاصد فراہم کردہے ہیں _ اس لئے اہل بیت(ع) کی احادیث میں انتظار فرج کو بہترین عبارت اور راہ حق میں شہادت قرار دیاگیا ہے _ ۲ _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲

۲ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲ تا ۱۵۰

۱۹۹

اسلام سے دفاع

نہج البلاغہ کے ایک خطبہ سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ ولی عصر (ع) زمانہ غیبت میں بھی اسلام کی عظمت و ارتقاء اور مسلمانوں کے امور کے حل و فصل میں ممکنہ حدتک کوشش فرماتے ہیں _

حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ہیں :

وہ لوگ راہ حق سے منحرف ہوکر ، دائیں بائیں چلے گئے اور ضلالت کی راہ

پر گامزن ہوئے ، ہدابت کے راستہ

کوچھوڑدیا ، پس جو ہونے والاہے

اس کیلئے جلد نہ کرو ، انتظار کرو اور جو چیز بہت جلد واقع ہونے والی ہے اسے ددرنہ سمجھو کتنے لوگوں نے کسی چیز کے بارے میں جلد بازی سے کام لیا لیکن جب اسے پالیا تو کہا : اے کاش میں نے اس کا ادراک نہ کیا ہوتا ، مستقبل کی بشار تیں کتنی قریب ہیں اب و عدوں کے پورا ہونے اور ان چیزوں کے ظاہر ہونے کا وقت ہے جنھیں تم پہچانتے آگاہ ہو جاؤ ہم اہل بیت میں سے جو اس زمانہ کو درک کرے گا _ وہ امام زمانہ ہے _ وہ روشن چراغ کے ساتھ قدم اٹھائے گا اور صالحین کا طریقہ اختیار کرے گا _ یہاں تک کہ اس زمانہ کے لوگوں کی مشکلکشائی کرے گا اور اسیروں کو آزاد کرے کا باطل و نقصان دہ طاقتوں کو پراگندہ کرے گا _ مفید لوگوں کو جمع کرے گا _ ان تمام کاموں کو خفیہ طور پرانجام دے گا کہ قیافہ شناس بھی غور وتامل کے بعد کچھ نہ سمجھ سکیں گے _ امام زمانہ کے وجود کی برکت سے _ دین سے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279