اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات14%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56237 / ڈاؤنلوڈ: 4978
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

گے۔ (نہج البلاغہ/خبطہ۹۷)

وہ علم کے لیے باعث حیات اورجہالت کے لیے سبب مرگ ہیں۔ ان کا حلم ان کے علمکا، ان کا ظاہر ان کے باطن کا اور ان کی خاموشی ان کے کلام کی حکمتوں کو پتہ دیتی ہے۔ وہ نہ حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں وہ اسلام کے ستون اور بچاؤ کا ٹھکانہ ہیں۔ ان کی وجہ سے حق اپنے اصلی مقام پر پلٹ آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا او اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی۔ انہوں نے دین کو سمجھ کر اور حاصلکر کے اس پر عمل کیا ہے نہ یہ کہ صرف سنا اور لوگوں سے بیان کردیا ہو۔ یوں تو علمکے راوی بہت ہیں مگر اس پر عمل پیرا ہوکر اس کی نگہبانی کرنے والے کم ہیں۔(نہج البلاغہ/خطبہ۲۳۹)

ہاں! یہ نہج البلاغہ کے کچھ گوشے ہیں جنہیں میں نے امام علی(ع) کی زبان سے نقل کیاہے یہ کلام پیغمبر(ص) اور آل پیغمبر(ص)  کے درمیان حقیقی رابطہ کی شکل کو بیان کرتاہے نیز اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ صرف اہل بیت(ع) ہی مختلف زمانوں اور صدیوںمیں پوری بشریت کے اختلافِ فکر و ذوق کے باوجود، آںحضرت(ص) کی راہ پر چلانے والےاور ان کے دین کی تبلیغ کرنے والے ہیں۔

امام(ع)، مسلمانوں کے نزدیک عترت طاہرہ(ع) کی منزلت کی وضاحت پر ہی بس نہیں کرتےبلکہ فرماتے ہیںکہیہ خود عترت طاہرہ(ع) کے محور و سردار ہیں اور پھر اپنی اس اہم ذمہ­داری کی طرف اشارہ کرتے ہیںجسے خدا و رسول(ص)  نے آپ کے سپرد کیا ہے کہ آپ اسے لگوں کےدرمیان نبھائیں اور اسے ترک نہ کریں۔

آپ فرماتے ہیں :

تو تم کہاں جارہے ہو اورتمہیں کدھر موڑا جارہا ہے حالانکہ ہدایت کے جھنڈے اور بلند نشانات ظاہر و روشن ہیں اور حق کے مینار نصب ہیں

۲۱

 اور تمہیں کہاں بہکایا جارہا ہے اور کیوںاِدھر اُدھر بھٹک رہے ہو جبکہ تمہارے نبی(ص) کی عترت تمہارے درمیان موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں ہیں۔ ذکر خیر اور صدق گفتار سے ہم آہنگ ہیں لہذا انہیں بھی قرآن کے مانند محترم جانو! اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کےسرچشمہ ہدایت پر اترو۔

اے لوگو! خاتم النبیین کے اس ارشاد کو سنو کہ ( انہوں نے فرمایا) ہم میں سے جو مرجاتا ہے وہ مردہ نہیں ہے۔ اور ہم میں سے ( جو بظاہر مرکر) بوسیدہ ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں بوسیدہ نہیں ہے۔ جو باتیں تم نہیں جانتے ان کے متعلق زبان سے کچھ نہ نکالو اس لیے کہ حق کا بیشتر حصہ انہیں چیزوں میں ہوتا ہے جن سے تم بیگانہ اور نا آشنا ہو۔ ( جس شخص کی تم پر حجت تمام ہو)  اور تمہاری کوئی حجت اس پر تمام نہ ہو۔ وہ میں ہوں۔ کیا میں نے تمہارے سامنے ثقل اکبر(قرآن) پر عمل نہیں کیا اور ثقل اصغر ( اہل بیت(ع)) کو تم میں نہیں رکھا ( چھوڑا) ۔ میں نے تمہارے درمیان ایمان کا جھنڈا گاڑا۔ حلال و حرام کی حدیں بتائیں اور اپنے عدل سے تمہیں عافیت کے جامے پہنائے۔ اور قول و عمل سے حسن سلوک کا فرش تمہارے لیے بچھا دیا اور تم سے ہمیشہ پاکیزہ اخلاق کے ساتھ پیش آیا۔جس چیز کی گہرائیوں تک نگاہ نہ پہنچ سکے اور فکر کی جولانیاں عاجز رہیں۔ اس میں اپنی رائے کو دخل نہ دو۔ ( نہج البلاغہ/۸۷)

محترم قارئین ! اگر امام علی(ع) کے کلام پر توجہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ وہ خود حدیث ثقلین کی تفسیر ہیں۔ وہی حدیث جسے اہل سنت حضرات نے رسول خدا(ص) سے نقل کیا کہ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، کتاب خدا اور اپنی عترت اگر ان دونوں سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

۲۲

۲۳

۲۴

پیغمبر(ص) نے تمہارے درمیان وہی چیزیںچھوڑی ہیںجو گزشتہ انبیاء اپنی امتوں کے درمیان چھوڑا کرتے تھے اس لیے کہ وہ لوگوں کو راہ روشن اور نشان محکم قائم کیے بغیر یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے۔ پیغمبر(ص) نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے اس حالت میںکہ انہوں نے کتاب کے حلال و حرام واجبات و مستحبات، ناسخ و منسوخ، رخص و عزائم، خاص و عام، عبر و امثال، مطلق ومقید، محکم و متشابہ کو واضح طور پر بیان کردیا۔ مجمل آیتوں کی تفسیر کردی اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔ اس میںکچھ آیتیں وہ ہیں جن کا جاننا واجب قرار دیا گیا ہے۔ اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے بندے ان سے واقف نہ رہیں تو مضائقہ نہیں ہے۔ کچھ احکام ایسے ہیں جن کا واجب ہونا ثابت ہے لیکن حدیث میں اس کو منسوخ کیا گیا ہے۔ کچھ مطالب ایسے ہیں جن کا وجوب سنت میں واجب ہے اور اس پرعمل نہ کرنے کی اجازت دی گئی  ہے۔اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانہ آیندہ میں ان کا وجوب برطرف ہوجاتا ہے۔ قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہےکچھ کبیرہ ہیں اور کچھ صغیرہ ہیں جن کے لیے مغفرت کی توقعات پیدا کی گئی ہیںکچھ اعمال ایسے ہیں جن کاتھوڑا سا حصہ بھی مقبول ہے اور زیادہ سے زیادہ اضافہ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ( نہج البلاغہ/خطبہ۱)

۲۵

دین سے لگاؤ ماضی و حال میں

ظاہر سی بات ہے کہ دین اسلام جسے پیغمبر اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لائے آخری دین و شریعت ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے:

            ”ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجالِكُمْ وَ لكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خاتَمَ النَّبِيِّينَ “ ( احزاب/۴۰)

محمد(ص) تم میں سے کسی شخص کے  باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کےرسول اور آخری پیغمبر ہیں۔

جب حضرت محمد(ص) آخری پیغمبر اور آپ کی کتاب آخری کتاب ہے۔ تو پھر آپ کے بعد نہ کوئی پیغمبر ہے اور نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب الہی ہے۔ دین اسلام، دین خالص ہے جس میںتمام گزشتہ دین و آئین جذب ہوگئے ہیں۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

                وہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق پر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب

                کردے اور خدا شاہد و گواہ کے عنوان سے کافی ہے۔

لہذا رسول اکرم(ص) کی بعثت کےبعد سارے انسانوں پر واجب اور لازم ہے کہ گزشتہ ادیان جیسے یہودیت ، عیسائیت سے دست بردار ہوجائیں اور اسلام اختیار کر لیں۔ شریعت محمدی(ص) کی رو سے خدا کی عبادت کریں کیوںکہ خدا اس دین کے علاوہ کسی اور دین کو قبول نہیں کرے گا۔ قرآن میں ارشاد ہے۔

”جوخداکےدین کےعلاوہ کوئی اوردیناختیارکرےگااس کا دین ہرگزقبول نہیں کیاجائ ے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں

۲۶

میں سے ہوگا۔ ( آل عمران/ ۸۵ )

اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہود و نصاری لاکھ دعویٰ کریں کہ ہماری شریعتیں صحیح ہیں اور ہم حضرت عیسیٰ و موسی علیہما السلام کی پیروی کرتے ہیں۔ لیکن انہیں در اصل رسول اکرم(ص) کی پیروی کرنی ہوگی۔ کسی یہودی و عیسائی کا اپنے دین پر باقی رہنے کا دعوی صحیح نہیں ہوسکتا کیوںکہ حضرت محمد(ص) تمام عالم بشریت کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیںاور آپ(ص) سارے عالم کے لیے رحمت ہیں اس بات کا یہ مطلب نہینکہ گزشتہ آسامنی شریعتیں بالکل بے اہمیت ہیں۔ خدا کے علم میں یہ بات تھی کہ اس کے بندوں نے شریعتوں کو تحریف کیا۔ اور اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق اس کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرڈالا۔ وہ گمراہ ہوگئے اور اپنے ساتھ دوسروںکو بھی گمراہ کیا۔ ایسے میں رسول اکرم(ص) کی بعثت سارے عالم کے لیے رحمت ہے  تاکہ سب حق کو حاصل کریں اور جنت کے مستحق ہوجائیں۔

لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ حق سے کتراتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات وگمراہی میں گرفتار ہیں۔ خدا ایسے افراد کے بارے میں فرماتا ہے:

اہل کتاب اور مشرکوں سے جو لوگ کافر تھے جب تک ان کے پاس کھلی ہوئی دلیل نہ پہنچے وہ اپنے کفر سے باز آنے والے نہ تھے۔ خدا کی طرف سے رسول(ص) بھیجے گئے تاکہ انہیں پاک آسمانی کتابیں پڑھ کر سنائیںاس کتاب میں پر زور اور درست باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ اہل کتاب جب کہ ان کے پاس کھلی ہوئی دلیل آچکی تھی۔ ( بینہ/۱۰۴)

کسی یہودی یا عیسائی کے لیے یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ محمد(ص) پر ایمان رکھتا ہوں لیکن اپنے دین پر باقی ہو ں جیسا کہ بہت سی عیسائی عرب راہبوں سے میں نے سنا ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ خدا کو یہ بات ہرگز قبول نہ ہوگی مگر یہ کہ وہ

۲۷

رسول اکرم(ص) کی کامل طور سے پیروی کریں۔ اس بارے میں ارشاد خداوندی ہے :

     جو لوگ ہمارے پیغمبر امی(ص) کے قدم بقدم چلتے ہیں جس کی بشارت کو اپنے یہاں توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ نبی جو اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور پاک چیزیں ان پر حلال اور ناپاک او گندی چیزیں ان پر حرام کردیتا ہے۔ اور وہ سخت احکام او رنج و مشقت کا بوجھ  جو زنجیر کی  مانند ان کی گردن پر تھا ان سے ہٹا دیتا ہے۔ پس یاد رکھو جو لوگ اس نبی(ص) پر ایمان لائے، اس کی عزت کی اور اس کی مدد کی اور  اس نور ( قرآن) کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے تو یہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے۔( اعراف/۱۵۷)

خدا کی یہ دعوت نہ صرف یہود و نصاری، بلکہ ساری انسانیت کو شامل ہے اس میں کسی طرح کا کوئی استثناء نہیں ہے۔

خدا ارشاد فرماتا ہے:

اے رسول(ص) تم کہہ دو کہ لوگو! میں تم سب کے پاس اس خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں جس کے پاس سارے آسمان و زمین کی بادشاہت (حکومت) ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا ہے وہی مار ڈالتا ہے پس لوگو! خدا اور اس کے رسول، نبی آدم پر ایمان لاؤ،جو خود بھی خدا اور اس کی باتوں پر( دل) سے ایمان رکھتا ہے اور اسی کے قدم بقدم چلو تا کہ ہدایت پاؤ۔

قرآن صراحت کےساتھ اعلان کررہا ہے کہ صرف رسول اکرم(ص) کی نبوت کا معتقد ہونا کافی نہیں ہے بلکہ آپ کی تعلیمات پر عمل بھی ضروری ہے۔ اور پیغمبروں کو بھیجنے کی حکمت و مصلحت بھی یہی ہے۔ لہذا تاریخ ہمیں کہیں بھی یہ نہیں دکھاتی کہ دنیا کے کسی پیغمبر نے اپنی امت سے  یہ کہا ہو کہ مجھ سے پہلے جو

۲۸

تمہارا دین تھا اس پر باقی رہو۔

ہاں اتنا ضرور ہے کہ پیغمبران(ع) خدا اپنے سے سابق پیغمبروں پر ایمان اور ان کی تصدیق کو لازم جانتے تھے تاکہ کوئی ان کی نبوت پر اعتراض اور خدشہ نہ کرسکے اور عوام جہالت کی بنا پر انہیں خدا نہ مان بیٹھیں۔ ارشاد خداوندی ہے:

                پیغمبر(محمد (ص)) اور مومنین جو کچھ ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے، سب کے سب خدا ، اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں یا نبیوں پر ایمان لائے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم خدا کے پیغمبروں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور کہنے لگے: اے ہمارے پروردگار! ہم نے تیرا ارشاد سنا اور مان لیا۔ پروردگار! ہمیں تیری ہی مغفرت کی خواہش ہے اور تیری ہی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ (بقرہ/۲۸۵)

ان آیات سے یہواضحہوتا ہےکہاسلام،مومنبندوںکےلیےخدا کا آخری تحفہ ہے۔اور اس کے احکام و قوانین اہم اور ہر زمان و مکان سے سازگار ہیں۔ یہ قیامت تک کے لیے ہیں کیوںکہ رسول اکرم(ص) کے بعد کوئی نبی نہیںآئے گا اور نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب آنے والی ہے۔ خدا اس سلسلہ میں ارشاد فرمارہا ہے:

        میں تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے دین کو اسلام کے عنوان سے پسند کر لیا۔ ( مائدہ/ ۳ )

آج کا مسلمانوں کا ایک طبقہ اسلام اور دینی احکام کا پایند نہیں ہے۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ اسلام کو عملی طور پر لاگو نہیں کیا جاسکتا اور عوام کی کثرت اسلامی احکام کو عملی طور پر اپنانے سے قاصر ہے۔ حتی کے بعض روشن خیال دانشور یہ کہتے  ہیں کہ زمان و مکان کے تقاضے کے مطابق اسلام میں رد و بدل ہونا چاہیئے اور

۲۹

 تمام موارد میں اجتہاد ہونا چاہیئے۔

روشن خیال او تمدن ماب افرداممکن ہے بہت سے جوانوں کی گمراہیکا سبب بن جائیں کیوںکہ یہ افراد اسلامی دوستی کا بہت زیادہ دکھاوا کرتے ہیں اور یہ سمجھتے  ہیں کہ سب سے زیادہ انہیں اسلامی احکام کو لاگو کرنے کی فکر ہے۔ وہ مسلمانوں کی پسماندگی کی ویجہ یہی بتاتے ہیں کہ پندرہ صدیوں سے ان کےدین میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ آج زمانہ کتنا بدل چکا ہے جب دین آیا تھا تو آمد و رفت اور ٹرانسپورٹیشن کے ذرائع حیوانات ہوا کرتے  تھے اور آج کا زمانہ راٹوں کا زمانہ ہے جن کی رفتار آواز کی رفتاد سے سے بھی زیادہ ہے۔ آج کا زمانہ ٹیلی فون، فیکس اور کمپیوٹر کا زمانہ ہے آج چند سیکنڈ میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ لہذا ہم قرآن کو سی سطحی انداز سے نہیں لے سکتے۔ مثلا آج کل چور کا ہاتھ کاٹنا یا قاتل کا سر تلوار سے اڑانا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور اس سلسلہ میں یہ لوگ عجیب و غریب فلسفہ پیش کرتے  ہیں۔

میں بھول نہیں سکتا کہ ایک روز یونیورسٹی کے ایک استاد جو روشن خیال بھی تھے سے گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے درمیان ہم نے ان سے کہا: آنحضرت(ص) فرماتے ہیں :

        علی(ع) کے جیسا جوان مرد اور ذوالفقار کے جیسی تلوار نہیں ہے۔

                                                                        ( مناقب خوارزمی/۱۰۱)

وہ مجھ پر بہت انسے اور کہنے لگے ڈاکٹر! س طرح کی باتیں پھر نہ کہنا! یہ کلام رسول(ص) کےزمانہ میں معنی تھا۔ جب دشمن پر غالب آنے میں تلوار کا اہم کردار ہوا کرتا تھا اور یہ واحد ہتھیار تھا کہ جس پر بہادر رجز، شعر اور قصیدہ کہتے تھے۔ لیکن آج مشین گن کے زمانہ میں ہیں جس کے ایک سیکنڈ مین ۷۰ گولیاں نکلتی ہیں۔ آج جیٹ لڑاکا جہازوں کا زمانہ ہے جو چند سیکنڈوں میں ایک     بڑے شہر کو نابود کر دیتے ہیں۔ بلکہ ہم ایٹم بم اور جدید ہتھیاروں کے زمانہ میں

۳۰

ہیں جو چند لمحوں میں ایک براعظم کو پوری طرح نابود کرسکتے ہیں۔ اور آپ ان سب سے بے خبر ہیں اور ابھی علی بن ابی طالب(ع) کی شجاعت و بہادری کی تعریف کررہے ہیں۔

ہم نے کہا: ہاں! البتہ جو باتیں آپ نے کہی ہیں یہ ان کی مخالف بھی نہیں ہے اور ہر  جگہ کے لیے ایک بات موجود ہے۔ کیا آپ نے خداواند عالم کا وہ کلام نہیں دیکھا جہاں پر اس نے مقابلہ کرنے والے اسلحوں کا جدا جدا تذکرہ کرنے کے بجائے سبھی کو ایک کلمہ میں بیان فرمایا ہے:

                     ” وَ أَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ“(انفال/۶۰)

اور ان سے (مقابلہ) کے لیے جس قدر قوت اکٹھا کر سکتے ہو کرو۔

ہر شخص اپنے زمانہ کی زبان میں مصدر قوت کی تعریف کرتا ہے۔ چاہیئے سب کے لیے ایک ہی معنی ہاتھ آئے یعنی اسلحہ۔ چنانچہ پروردگار عالم فرماتا ہے:

”وَ أَنزَلْنَا الحَْدِيدَفِيهِبَأْسٌشَدِيدٌ“ (حدید/۲۵)

ہم نے لوہے کو پیدا کیا جس میں سختی، جنگ ( میں کام آنے کی صلاحیت) اور لوگوں کے لیے فوائد ہیں۔

لہذا تمام اسلحے چاہے وہ ابتدائی ہوں جیسے تلوار و نیزہ یا جدید ہوں جیسے بم، مشین گن، ٹینک۔۔۔۔ ان سبھی کو کلمہ ( باس شدید) اپنے اندر شامل کر لیتا ہے اور دوسری طرف تمام راحت و آرام کے وسائل مثلا گاڑیاں، ہوائی جہاز، کشتی، ٹیلی ویژن وغیرہ کلو ” منافع للنالس“ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ کتنا پاکیزہ ہے وہ پروردگار جس نے لوہے کو خلق کیا اور اسے لوگوں کے حوالہ کیا اور جو باتیں وہ نہیں جانتے تھے تعلیم فرمائیں۔

اس طرح قرآن تک سبھی کی دسترس ہے اور ہر نسل اپنی زبان میں اسے سمجھتی اور محسوس کرتی ہے اور آپ کا یہ کہنا کہ قرآن کو سطحی ادر ظاہری طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔ اور چور کے ہاتھ کاٹنا یا قاتل کا سر قلم کرنا۔ ان سے اگر آپ کی

۳۱

مراد یہ ہے کہ احکام الہی میں بشری تقاضوں کے تحت تبدیلی ہونی چاہیئے اور آپ کے خیال میں یہ احکام بندگان خدا کے لیے مناسب نہیں ہیں اور مہربانی و نرمی سے دور ہیں تو اس کلامکو قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ یہ سو فیصدی ہی کفر ہے۔

لیکن اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہمین ترقی کرنی چاہیے اور مجرموں کو سزا دینے اور پھانسی دینے کے وسائل کو جدید بنانا چاہئے تو یہ بحث کا مقام ہے کیوںکہ یہ چیزیں امور ثانوی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور اسلامی شریعت نے اس پر سختی نہیں کی ہے گرچہ قصاص میں حدود الہی کے اجرا کےسلسلہ میں سختی کی ہے۔ اور خداوند عالم نے فرمایا ہے:

             اے مومنین ! تم پر قصاص واجب کیا گیا ہے۔اے عقل رکھنے والو! قصاص میں زندگی ہے

              تاکہ تم تقوی کو اپنا شعار بنالو۔ ( بقرہ/۱۷۹۔۱۷۸)

اب یہ کہ چور کا ہاتھ تلوار سے یا چاپڑ سے یا پھر کسی جدید وسیلہ سے کاٹنا چاہئے اس کی بازگشت حاکم شرع یا مرجع تقلید کی طرف ہے کہ وہ اجتہاد کرے اور اپنا نظریہ دے۔

استاد محترم! اہم یہ ہے کہ الہی احکام کو یورپی حکومتوں کے ہاتھوں وضع کیے گئے احکام کے ساتھ تبدیلی نہ کریں۔ اور کیا خود پورپیوں نے مجرم کے لیے پھانسی کیسزاکو ختم نہیں کردیا ہے چاہے اس کا جرم کتنا بڑا کیوں  نہ ہو؟ اس طرح اس کام کے ذریعہ حکم خدا کو ترک کرتے ہوئے قصاص کو ختم کردیا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو امن و امان کا زندگی سے خاتمہ ہوجائے گا۔ مجرم فساد و تباہی پھیلائیں گے  اور انسانوں کو نابود کرڈالیں گے اور زندگی ایک ایسے جہنم میں تبدیل ہوجائے گی کہ اس میں کوئی خیر نہ ہوگا۔

استاد کہنے لگے : شرکا علاج شر سے نہیں جاسکتا اور اعداد وشمار سے پتہ

۳۲

چلتا ہے کہ بہت سے موت کی سزا پانے والے بے گناہ تھے۔

میں نے کہا : معذرت چاہتا ہوں آپ کی باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ خود کو پروردگار عالم سے زیادہ عقل و فہم رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات غلط ہے۔ اور یہ کہ اکثر چاہیئے کہ اسلام صرف تہمت یا الزام کی بنیاد پر سزا نہیں دیتا بلکہ سزا کے لیے اقرار، اعتراف، گواہ و شاہد وغیرہ ضروری ہے۔ بہر حال ہماری گفتگو کسی نتیجہ پر نہ پہنچی اس لیے کہ ہر ایک اپنی بات پر جما ہوا تھا۔

کتنا بہتر ہوگا کہ ہم اپنی گفتگو آںحضرت(ص) کے متعلق حضرت امیرالمومنین(ع)  کے کلام سے تمام کردیں آپ فرماتے ہیں:

     اللہ نے اپنے رسول کو چمکتے ہوئے نور روشن دلیل کھلی ہوئی راہ شریعت اور ہدایت دینے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ۔ ان کا قوم و قبیلہ بہترین قوم و قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے۔ جس کی شاخیں سیدھی اور پھل جھکے ہوئے ہیں۔ ان کا مولد مکہ اور ہجرت کا مقام مدینہ ہےجہاں سے آپ کے نام کا بول بالا ہوا او آپ کا آوازہ ( چار سو) پھیلا۔ اللہ نے آپ کو مکمل دلیل شفا بخش نصیحت اور ( پہلی جہالتوں کی)  تلافی کرنے والا پیاغام دے کر بھیجا اور ان کے ذریعہ سے ( شریعت کی ) نامعلوم راہیں آشاکر کیں۔ اور غلط سلط بدعتوں کا قلع قمع کیا( قرآن و سنت میں) بیان کیے ہوئے احکام واضح کیے تو اب جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے تو اس کی بدبختی مسلم، اس کا شیرازہ درہم برہم اور اس کا منہ کے بک گرنا سخت و ( باگزیر) اور انجام طویل حزن اور مہلک عذاب ہے۔ ( نہج البلاغہ/عربی۱۶۱۔اردو۱۶۰)

ٹھیک یہی قرآن کریم کی عبارت ہے جو فرماتا ہے:

جو بھی اپنے لیے اسلام کے علاوہ اور کوئی دین اختیار کرے تو اس سے

۳۳

ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوگا۔۔۔(آل عمران/۸۵)

میرے خیال میں اس بیان کے بعد اب اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ چاپلوسی کرتے ہوئے اپنے یہودی و مسیحی دوستوں سے کہیں کہ چونکہ ہم سبھی ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے ہم بھی حق پر ہیں اس لیے کہ جس خدا نے موسی(ع) و عیسی(ع) کو مبعوث فرمایا اسی خدا نے محمد(ص) کو بھی مبعوث فرمایا اور اگر ہم پیغمبروں کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں تو کیا ہوا، جس خدا نے ان کو مبعوث فرمایا اس میں تو اختلاف نہیں رکھتے ! جبکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

     ( اے رسول(ص)) تم ان سے پوچھو کہ کیا تم ہم سے خدا کےبارے میں جھگڑتے ہو حالانکہ ( وہی ) ہمارا بھی پروردگار ہے اور (وہی) تمہارا بھی پروردگار ہے۔ ہم اپنے عمل کے ذمہ دار ہیں اور تم اپنے عمل کے ذمہ دار ہو۔ اور ہم تو نرے کھرے اسی کے ہیں۔ کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم(ع)، اسماعیل(ع)، اسخق(ع) اور یعقوب(ع) سب کےسب یہودی یا نصرانی تھے( اے رسول(ص)) ان سے پوچھو تو کہ تم زیادہ واقف ہو یا خدا اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس کے پاس خدا کی طرف سے گواہی موجود ہو( کہ وہ یہودی نہ تھے) اور پھر وہ چھپائے اور جو کچھ تمکرتے ہو خدا اس سے بے خبر نہیں ہے۔( بقرہ/۱۴۰۔۱۳۹)

۳۴

کیا اسلام پر عمل مشکل ہے؟

یہ وہ دعوی ہے کہ جس کی کوئی بنیاد نہیں اور جو بھی اس طرح کا دعوی کرے وہ یا تو جاہل اور بے وقوف ہے  یا اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتا ہے یا پھر اسلام کا دشمن ہے۔ اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنا چاہتا ہے۔ اور اس کوشش میں ہےکہ لوگ اپنے دینی احکام سے دست بردار ہوجائیں۔

یا آخری صورت یہ ہے کہ وہ غلو کرنے والا دقیانوس ہے۔ جو ضدی فقہا کے علاوہ اور کسی کے نظریہ کو قبول نہیں کرتا جنہوں نے لوگوں پر خدا کی پرستش کو حرام کر ڈالا اور خود کو لوگوں کے لیے خدا کا جانشین مقرر کردیا ہے۔ لہذا یہ اپنی عقل یا اپنی مخصوص روایتوں کے تحت حلال وحرام کرتے ہیں اور فتوی دیتے ہیں!

اس کے متعلق جو جملہ سب سے پہلے کہنا چاہیئے آںحضرت(ص)  کا کلام ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

آسانی پیدا کرو اور لوگوں پر سختی نہ کرو۔ بشارت دو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔(۱۴)

خود پر بھی سختی بہ کرو تاکہ خداوند عالم تم پر سختی نہ کرے۔ جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔(۱۵)

اور اکثر اپنے اصحاب کے درمیان فرماتے تھے:

میں نہ تمھارے لیے بدبختی اور بیچارگی چاہتا ہوں اور نہ ہی ذلت و رسوائی۔ بلکہ مجھے تو خدا نے آسانی چاہنے والے معلم کی صورت مبعوث فرمایا ہے۔(۱۶)

۳۵

اور یہ مشہور ہے کہ آںحضرت(ص) جب وہ باتوںکے درمیان کوئی چیز اختیار کرنا چاہتے تو سب سے آسان کو اختیار فرماتے تھے۔

اور اسی طرح جیسا کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) شارع نہیں تھے۔(۱۷) آنحضرت(ص) کی امر و نہی سوائے پروردگار عالم کی تبلیغ کے اور کچھ نہیں تھی۔ آںحضرت(ص) جو کچھ پروردگار عالم کا حکم ہوتا اسے بغیر کسی کمی یا زیادتی کے لوگوں تک پہنچا دیتے تھے۔ اور جو کچھ کہتے سوائے وحی الہی کے کچھ اور نہ ہوتا۔ اس لیے کہ وہ اپنی خواہش نفس کی بنیاد پر گفتگو نہ کرتے تھے بلکہ سب وحی ہوتی تھی۔

” وَ مَا يَنطِقُ عَنِ الهَْوَىإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَى“(نجم/۴-۳)

اب ہم قرآن سے استفتا کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام مشکل و دشوار ہے؟ قرآن کے شروع کے مطالعہ میں ہی ہم اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ مشقت و تکلیف کو اپنے بندوں سے ختم کرتا ہے اور ان کے لیے ہرگز حرج مرج نہیں چاہتا۔ وہ فرماتا ہے:

             خدا نے تم کو منتخب کیا اور تمہارے لیے دین میں کسی قسم کی مشقت و تکلیف کو قرار نہیں دیا۔ ( حج/۷۸)

اور دوسری جگہ فرماتا ہے:

     خدا تمہارے لیے ہرگز سختی و مشکل نہیں چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے ہے تمہیں ( آلودگیوں سے) پاک رکھے اور تم پر اپنی نعمت (دین اسلام) کو تمام کرے تاکہ تم شکر گزار رہو۔(مائدہ/۶)

اور ایک مقام پر فرماتا ہے:

خداوند عالم تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ مشکل وسختی۔ (بقرہ/۸۵)

یہ آیات امت اسلامی سے مربوط ہیں جنہوں نے دین اسلام کو قبول کیا

۳۶

ہے اور عبادات و معاملات میں اس کے احکام قوانین کو اختیار کیا ہے لیکن پروردگار رحمت سبھی کے شامل حال ہے چاہے وہ کسی بھی دین و آئین کا پیرو ہو۔ وہ سب ہی پر مہربان ہے اور اس نے کبھی بھی کسی کو مشقت میں نہیں رکھا۔

             خداوند عالم انسان کی خلقت کے متعلق فرماتا ہے:

اس نے  اسے نطفہ کیا پھر راہ کو اس پر آسان کردیا۔ ( عبس/۱۹)

لہذا الہی راہ جسے انسان اپنی زندگی میں کوشش کے ساتھ طے کرتا ہے تاکہ اس کی طرف پلٹ سکے بہت ہی آسان راہ ہے اس میں ذرا بھی مشقت اور دشواری نہیں ہے۔

خداوند عالم نے اپنی کتاب میں چار جگہ انسان کو آسان باتوں کے لیے مکلف کیا ہے اور فرمایا ہے:

۱۔ خداوند عالم نے کسی کو بھی اس کی توانائی سے زیادہ حکم نہیں دیا ہے ( بقرہ/۲۸۶)

۲۔ کسی کو بھی اس کی قوت  سے زیادہ مکلف نہیں کیا ہے۔( انعام/۱۵۲)

۳۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور اپنی توانائی کے مطابق نیک عمل انجام دیا۔ بے شک ہم کسی کو بھی اس کی قدرت سے زیادہ مکلف نہیں کرتے۔(اعراف/۴۲)

۴۔ اور ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف دیتے ہی نہیں اور ہمارے پاس تو لوگوں کے (اعمال کی) کتاب موجود ہے جو بالکل ٹھیک (حال) بتاتی ہے اور لوگوںکی ذرہ برابر حق تلفی نہیںکی جائے گی۔ ( مومنون/۶۲)

ان آیات شریفہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ خداوند عالم نے کسی بھی شخص کو اس کی توانائی سے بڑھ کر تکلیف نہیں دی ہے اور یہ حضرت آدم(ع) کے زمانہ سے لے کر ابھی تک رہا ہے۔

۳۷

اب اگر دین میں سختی پیدا ہوگئی ہے تو یہ لوگوں کے اجتہاد کا نتیجہ ہے جنہوں نےشریعت کے اعلی مقاصد کو اپنی فہم کے مطابق تاویل کیا ہے یا پھر بعض بڑے گناہوں کے مرتکب ہوئے تھے۔ پھر اپنے کو مشقتوں میں مبتلا کرتے تھے اور تکلیف دیتے تھے تاکہ شاید خداوند عالم انہیں بخش دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ لہذا انہوں نے کچھ باتیں ایجاد کیں اور اپنے نفس پر سختی کی۔ خداوند عالم نے بھی ان کے لیے ان امور کو لازم و ضروری قرار دیا گرچہ آخر کار انہوں نے اسے پورا نہ کیا۔

اس کے متعلق خداوند عالم فرماتا ہے:

اور رہبانیت ( لذات سے کنارہ کشی) کی ان لوگوں نے خود ایک نئی بات نکالی تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ مگر ( ان لوگوں نے) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ( خود ایجاد کر لیا) تو اس کو بھی جیسا بناہنا چاہیئے تھا نہ بناہ سکے۔( حدید/۲۷)

یہی وہ مقام ہے جہاں رسول خدا(ص) کا کلام نظر آتا ہے کہ :

اپنے آپ پر سختی نہ کرو تاکہ خدا بھی تم پ رسختی نہ کرے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔(۱۸)

اس منطق کو پیش نظر رکھنے کے بعد خداوند عالم کا کلام بھی سمجھ میں آتا ہے کہ جسے اس نے رسول اکرم(ص) کے متعلق فرمایا ہے:

( وہ نبی(ص)) جو انہیں اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور جو پاک او پاکیزہ چیزیں ان پر حلال اور ناپاک اور گندی چیزیں ان پر حرام کردیتا ہے اور وہ ( سخت احکام کا) بوجھ جو ان کی گردنوں پر تھا اور وہ پھندے جو ان پر (پڑے ہوئے) تھے اسے ہٹا دیتا ہے۔ (اعراف/۱۵۷)

لہذا انہوں نے خود یہ قید و بند اپنے لیے تیار کر رکھی تھی۔ خدا نے ایسا نہ کیا

۳۸

تھا۔

اس بحث سے ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ دین اسلام میں کسی قسم کی مشقت، سختی، مشکل اور قید وبند نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سہل اور آسان دین ہے جو بندوں کے لیے سوائے رحمت و مہربانی کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا دین ہےجس نے ہمیشہ انسانوں کی جسمانی اور روحانی کمزوری کا پاس رکھا ہے جیسا کہ خود فرماتا ہے:

             خداوند عالم تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے بے شک انسان کمزور خلق ہوا ہے( نساء/۲۸)

             اور تم پر یہ تمہارے پروردگار کی رحمت تخفیف کی وجہ سے ہے (بقرہ/۱۷۸)

             اس طرح آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اہل بیت(ع) کی شناخت کے مطابق اور عام مجتہدوں کے اجتہاد اور مشکل پرستوں کی مشقت سے قطع نظر اسلام کیسا سہل و آسان دین ہے کہ آج کا انسان بھی دیگر زمانوں کے انسانوں کی طرح بغیر کسی سختی اور مشکل کے اسلام کو اپنی دنیا وآخرت کےلیے منتخب کرسکتا ہے۔

۳۹

کیا اسلام ترقی کو قبول کرتا ہے؟

بے شک! اسلام نہ صرف ترقی کا مخالف نہیں ہے بلکہ خود عین ترقی و تمدن ہے۔

اسلام وہ بلند معنی ومفہوم ہے جسے انسان نے بشریت کے آغاز سے ہی پالیا ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی آیات موجود ہیں جو علم اور حصول علم کا شوق دلاتی ہیں اور انسان سے چاہتی ہیں کہ زندگی کے اعلی مراحل تک پہنچنے کے لیے عقل و خرد سے کام لے چاہے اسے خلاء میں کیوں نہ پہنچنا ہو۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

اے گروہ جن و انسان اگر تم آسمان و زمین کی حدود سے آگے جاسکتے ہو تو جاؤ۔( رحمن/ ۳۳)(۱۹)

خداوند عالم نے ایک دوسری آیت میں انسان کو تمام مخلوقات پر برتر قرار دیا ہے اور اسے بتایا ہے کہ تمام کائنات اور مخلوقات اس کی خدمت پر کمر بستہ ہیں۔

فرماتا ہے:

خدا تو  وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے قابو میں کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور اس کے فضل (وکرم ) سے ( معاش کی) تلاش کرو اور شکر کرو اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو اپنے حکم سے تماہرے کام میں لگا دیا ہے  جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں ( قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔( جاثیہ/ ۱۲۔۱۳)

۴۰

دوسری جگہ فرماتا ہے:

کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے(غرض سب کچھ) خدا ہی نے انہیں تمہارا تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ( خواہ مخواہ) خدا کے بارے میں جھگرتے ہیں ( حالاںکہ) نہ ان کے پاس علم ہے نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روشن کتاب ہے)۔(لقمان / ۲۰)

وہ مسلمان جو اپنے خدا کی کتاب میں یہ پڑھتا ہے کہ جو کچھ آسمان میں افلاک، چاند، سورج، برج، کہکشائیں، ستارے، ہوا، بادل، برف و باران کا وجود ہے اور زمین پر  دریا، نہریں، پہاڑ، بیابان،جنگلات، درندے، حیوانات خزانے، معادن ، پتھر، جمادات و نباتات وغیرہ ہیں سبھی کچھ اس کے لیے مسخر کر دیئے گئے ہیں تو پھر وہ کیسے ہاتھ پر ہاتھ دھرے اہل مغرب کی ایجاد و پیشرفت کا منتظر رہتا ہے۔ اگر ایسا کرتا ہے تو اس نے اپنے فریضہ کو ترک کردیا ہے اور اپی وقعت کو گرا دیا ہے اور اسے زبردست گھاٹا ہوا ہے۔ اس لیے کہ جو قرآن خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے اس میں ساری چیزیں موجود ہیں اور کسی قسم کی کمی اور نقص اس میں نظر نہیں آتا ۔

قرآن فرماتا ہے:

ہم نے کتاب میں کوئی بات فرو گذاشت نہیں کی ہے۔(انعام/ ۳۸ )(۲۰)

رسول خدا(ص) نے بھی ( انسان) کو علم و دانش کے حاصل کے لیے تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے: ”گہوارہ سے قبر تک علم حاصل کرو۔“

صرف یہی نہیں بلکہ اسے سب سے بلند مقام کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

۴۱

” اگر انسان عرش سے آگے کا حوصلہ بھی رکھے تو وہاں بھی پہنچ سکتا ہے“

لہذا اسلام علم و دانش اور ترقی کے میدان میں بہت آگے گیا ہے اور اس میں کسی قسم کسیرکاوٹ کا قائل نہیں ہے۔ البتہ اگر اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ کہیں بات طولانینہ ہو جائے اور کتاب کے اصل مقصد سے خارج نہ ہوجائیں تو اس موضوع پر ایک مفصل بحث کرتا۔ محققوں کی ذمہ داری ہےکہ اس موضوع پر دوسری تحقیقی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

یہ مطالب اس سوال کا جواب تھے جسے شروع میںی عرض کیا تھا۔ اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب ترقی سے مراد فقط علمی، فقہی، تکنیکی اور صنعتی ترقی ہو جس نے یورپیوں، امریکیوں اور خصوصا جاپانیوں کی عقلوں اور ان کے گھروں کو چکا چوند کر رکھا ہے۔ اور مسلمان اس  سے بے خبر ہیں ان کے خیال میں یہ ساری قابل توجہ ایجادات اور علمی ترقی غیر مسلموں کے ہاتھوں ہوئی ہے اور اسلام ان کی پسماندگی کا باعث ہے!!! خصوصا کمیونزم پرست جو دین کو قوم کے لیے افیون سمجھتے ہیں۔ اگر ان کے پاس انصاف ہوتا تو یہ سمجھ لیتے کہ دین اسلام نے ہی قوموں کو زندہ کیا ہے اور انسانی ترقی کو دائمی رفتار بخشی ہے۔ کیا یہی اسلام نہ تھا جس نے ایک باچیز قوم کو کہ جس کےپاس کچھ بھی نہ تھا اسے جزیرة العرب میں ہر چیز کا مالک بنا دیا۔ اور اس درجہ کہ یہی پسماندہ سرزمین ساری دنیا کے لیے علم، ترقی، پیشرفت اور مدنیت کا مقصد و مرکز  بن گئی۔ اور بعض یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ” اسلام و عرب کا سورج یورپ پر چمکنے لگا“ اور یہ اقرار کیا کہ ان بدیہ نشین عربوں نے اسلام سے متمسک ہونے کے بعد بھلائی کے ہر میدانمیں ترقی کر لی  اور ہر طرح کے ایجاد میں پیش قدم ہوگئے۔(۲۱)

اگر ترقی سے مراد وہ ترقی ہے جسے اہل مغرب و امریکہ نے اپنے یہاں کھلی آزادی کا لباس پہنا رکھا ہے اور نوبت یہاں تک  پہنچ گئی ہے کہ ہم جنس

۴۲

بازی اور برہنہ رہنے والوں کے لیے کلب کھول دیئے  گئے ہیں اور جانوروں اور کتوں کے لیے میراث معین کردی گئی ہے۔ ہر روز نئی چیز وجود یں آرہی ہے۔ اور وہ تمام ا اخلاقی برائیاں جس کی مغربی ٹیلی وژن سے تبلیغ ہوتی ہے تو بلاشبہ اسلام نے ایسی باتوں کو اپنے یہاں کوئی جگہ نہیں دی ہے اور نہ صرف یہی بلکہ پوری طاقت  کےساتھ اس پر حملہ آور ہوا ہے اور فساد و تباہی کے تمام مراکز کو ختم کرنے کے درپے ہے۔

یہاں ضروری ہے کہ ہم کچھ مسلمانوں کی بعض عجیب و غریب روش کی طرف بھی اشارہ کریں جو رسول خدا(ص) کی سنت سے تمسک کے مدعی ہیں اور خود کو (سلفی) کہتے ہیں مثلا ہم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ ایک لمبا کرتا یا اٹنگا عربی پیرہن پہنے ہوئے ہیں۔ داڑھی سینے تک لہرا رہی ہے۔ ہاتھ میں ایک عصا ہے، مسجد کے کنارے کھڑے ہیں، (اراک) لکڑی سے مسواک کررہے ہیں اور کبھی دائیں طرف کے دانت اور کبھی بائیں سمت کے دانت رگڑے جارہے ہیں۔ کبھی اس سے بکلتی رطوبت کو تھوک دیتے  ہیں تو کبھی نگل جاتے ہیں! اپنے سر کو باندھ رکھا ہے اور اگر کبھی انھیں اپنے گھر کھانے کی میز پر دعوت دیں تو مخالفت کریں گے۔ حتی کیہ چمچہ اور کانٹے سے کھانا کھانے کو تیار نہیں ہوں گے بلکہ ہاتھ سے نوش فرمائیں گے۔ انگلیوں کو برابر چاٹتے رہیں گے اور فرمائیں گے: میں رسول خدا(ص) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں!!!

اور بعض تو دو چار قدم اور آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے لاؤڈ اسپیکر سے اذان ممنوع کردی ہے۔ اس لیے کہ یہ رسول(ص) کے زمانہ میں نہ تھا اور یہ بدعت ہے!!

اور بعض نے تو پسماندگی کو اس کے اوج پر پہنچا دیا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ لوگوں کو ان باتوں کی جانب واپس لائیں لہذا جو بھی تیز آواز میں ہنستا ہے منع

۴۳

کرتے ہیں، فورا اس پر بگڑ پڑتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ہیں اور ہنسنے سےمنع کرتے ہیںاس لیے کہ آنحضرت(ص) فقط مسکراتے تھے۔ اور اگر انہوں نے سکی کو پیٹ کے بل لیٹا ہوا دیکھ لیا تو زور سے لات مارتے اور نیند سے اٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے شیطان سوتا ہے۔

میں نے ا میں سے ایک شخص کو دیھا کہ اپنی چھوٹی بچی کی پٹائی کررہا ہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اس کم سن بچی نے مہمانوں کو داہنے ہاتھ کے بجائے بائیں ہاتھ سے شربت پیش کردیا تھا۔ اتنے مہمانوں کےسامنے اس بچی کی اہانت اور پٹائی کر کے ان کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ سنت کی حفاظت کرنی چاہئے!!!

آخر یہ کیسی سنت ہے جس سے لوگ متنفر اور بد دل ہوجائیں خصوصا اس وقت جب اسلام اس شکل میں دشمنوں اورغریبوں کے سامنے پیش کیا جائے۔

بلاشبہ یہ لوگوںکو اسلام کی طرف راغب کرنے اور اسلام کا منور چہرہ پیش کرے اور اپنی طرف جذب کرنے کے بجائے ایسی ہی بری اور نازیبا حرکتوں سے متنفر کر دیتے ہیں کہ جن پر پھر کسی تبلیغ کا اثر نہیں ہوسکتا۔

ان کو یہ نہیں معلوم کہ رسول خدا(ص) نے اگر ان دنوں اراک کی شاخ کو مسواک کے بطور استعمال کیا اور اسے دانتوں کی صفائی اور پاکیزگی کے لہیے کام میں لائے تو یہ اس لیے تھا کہ اس زمانہ مین آج کی طرح مختلف قسم کے برش اور ٹوتھ پیسٹ نہیں تھے اور یہ آنحضرت(ص) کی ترقی پسندی کی دلیل ہے کہ آںحضرت(ص) نے اس زمانہ میں دانتوں کی صفائی اور پاکیزگی پر اس درجہ توجہ دی۔ اور لوگوں کو اس کی ترٰغیب دلائی۔ لیکن یہ ان باتوں سے قانع نہیں ہوتے اور استدلال پیش  کرتے ہیں کہ اراک کی شاخ سارے برش اور ٹوتھ پیسٹ سے  بہتر ہے اس میں محصوص نمک ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اگر آپ ان سے اس ترقی ے متعلق بتائیں کہ یہ ٹوتھ پیسٹ دانت اور منہ کو اسٹرلائیز(sterilize) کردیتا ہے، صاف کرنے

۴۴

 والا اور بہت ہی مفید ہے تو بھی وہ اس لکڑی کو بہتر سمجھیںگے۔ اور اس کو غیر طبعی ڈھنگ سے جیب میں رکھیں گے بلک کبھی کبھی تو آپ دیکھیں گے منہ کے خون کی وجہ سے اس کا رنگ لال ہوگیا ہے! مگر پھر بھی وہ رسول خدا(ص) کا قول دہراتے ملیں گے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا ہے:

اگر مجھے اپنی امت کےلیے سختی کا خیال نہ ہوتا تو میں اپنی امت پر ہر واجب نماز سے پہلے مسواک کرنا واجب قررار دے دیتا۔

افسوس کہ یہ لوگ سنت پیغمبر(ص) کے متعلق سوائے سطحی اور ظاہری مسائل کے اور کچھ نہیں جانتے اور آنحضرت(ص) کے قول کے روحانی اور علمی گوشوں سے بالکل بے خبر ہیں۔

بہر حال یہ اندھی تقلید کی طرح ان باتوں اور حرکتوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ نہ ہی فہم  و ادراک کی  بنیاد پر ہے اور نہ ہی غور و تحقیق سے اس کا کوئی ربط ہے۔ فقط جو باتیں اپنے پیشواؤوں اور اماموں سے سن لی ہیں اسی کی تکرار کرتے رہتے ہیں۔ اس میں بہت سے تو سطحی معلومات رکھتے ہیں اور شاید صدفی صد جاہل ہوں۔ لیکن اگر ان پر اعتراض کیجئے تو کہیں گے کہ رسول(ص) نے بھی علم حاصل نہ کیا تھا۔!!!

پس ایسے افراد پر تو اس زمانہ میںفخر و مباہات کرنی چاہئے جو قول میں بھی اور شکل و انداز میں بھیآنحضرت(ص) کے پیرو ہیں!!!

ایک مرتبہ مسجد عمر بن خطاب(پیرس) میں نے ان سے بحث کی اور کہا: کیا آپ واقعا سنتپیغمبر(ص) سے متمسک ہیں اور جو بھی نیا ہے  اسے بدعت سمجھتے ہیں اور معتقد ہیں کہ جو چیز نئی ہیں وہی سب سے بدتر ہیں۔ اس لیے کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت و گمراہی کا انجام دوزخ ہے؟

انہوں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔ تو میں نے کہا پھر آپ کارپٹ پر کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ جبکہ یہ مصنوعی اور جدید طرز پر بنا ہوا فرش یہ مغربی ممالک

۴۵

 میں بنا ہے معلوم نہیں اسے کس مواد سے بنایا گیا ہے؟ جو چیز قطعی ہے وہ یہ کہ آنحضرت(ص) نے ہرگز کارپٹ کے اوپر نماز ادا نہیں فرمائی۔ اور اصلا اسے انہوں نے دیکھا تک نہیں۔

ان میں سے بعض کہنے لگے ہم مغربی ملکوں میں رہتے ہیں ہمارا حکم مضطر ( مجبور) کا ہے لہذا فقہ میں یہ بات آئی ہے کہ ضرورت حرام چیزوں کو جائز کردیتی ہے۔

میں نے کہا یہ کون سی ضرورت ہے آپ اس فرش کو اٹھا دیں اور زمین پر نماز پڑھیں کیوںکہ آںحضرت(ص) نے زمین پر نماز ادا کی ہے یا پھر کم از کم سجدہ کی جگہ پر پتھر رکھ لیں؟

امام جماعت نے مذاق اڑانے کے انداز میں ہماری طرف رخ کیا اور کہا:

تم جیسے ہی مسجد میں داخل ہوئے میں سمجھ گیا کہ تم شیعہ ہو۔ کیوںکہ تم نے سجدہ کی جگہ پر کاغذ رکھا تھا ہم نے کہا : اس میں کوئی حرج ہے؟ کیا آپ جس صحیح سنت کا نعرہ لگاتے ہیں اس سے ہمیں مطمئن کرسکتے ہیں؟

اس نے کہا : مجھے بحث کرنے کو وہ بھی خاص کر شیعوں سے منع کیا گیا ہے۔ اور ہم تمہاری ایک بھی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمارے لیے ہمارا دین اور تمہارے لیے تمارا دین کافی ہے۔

یہ وہ سرگزشت تھی جس کا تذکرہ مناسب معلوم ہوا اور اس سے مسلمان اور روشن فکر حضرات کو اندازہ ہوگا کہ سنت پیغمبر کبھی بھی علمی ترقی اور ٹیکنالوجی کی مخالف نہیں رہی ہے اور اسے ہرگز حرام قرار نہیں دیا گیا ہے۔

مرد ہو یا عورت اس پر ہرگز مناسب لباس پہننا حرام قرار نہیں دیا گیا، بس یہ ضروری ہے کہ بدن ڈھکنا چاہئے اور توہین کا باعث نہ ہونا چاہئے۔ اور عورتوں

۴۶

کو پردہ کی رعایت کرنی چاہئے۔ چونکہ آنحضرت(ص) نے فرمایا ہے:

پروردگار عالم تمہارے لباس، حالت، شکل و صورت اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ صرف تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ ( صحیح مسلم ج۴، ص۱۹۸۷ / ح۲۵ 6 ۴)

چنانچہ سنت پیغمبر(ص) ہرگز ڈائننگ ٹیبل اور چمچہ، کانٹے کی مخالف نہیں ہے۔ بلکہ اہم یہ ہے کہانسان کھانے پینے میں ادب کا پاس رکھے اس طرح کہ ساتھ بیٹھنے والے یہ خیال نہ کریں کہ حیوانوں کی طرح شکار پر ٹوٹا پڑ رہا ہے اور کھانے پینے میں اس کے داڑھی اور بال شریک نہ ہوں۔

سنت پیغمبر(ص) ٹوتھ پیسٹ اور برش سے دانت منہ کی صفائی کی مخالف نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس بات کی مخالف ہے کہ انسان اپنے بدن کو پاک صاف رکھے، بدن کے زائد بالوں کو دور کرے، خوشبو لگائے اور خود کو معطر کرے تاکہ لوگ اس سے متنفر نہ ہوں نیز جیب میں ایک صاف رومال رکھے۔ لیکن وہ لوگ جو سنت کی پیروی کا جھوٹا دعوی کرتے ہیںاور ان کےبدن کی بدبو خصوصا گرمی میں حمام نہ جانے کی حکایت کرتی ہے راہ چلتے ہوئے ہاتھ کو آب دہن سے لودہ کرتے ہیں۔ناک کی کثافت لوگوں کا خیال کئے بغیر جہاں چاہتے ہیں چھینک دیتے ہیں ہاتھ کو دامن سے صاف کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ خدا کی قسم سنت پیغمبر(ص) سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔

سنت پیغمبر(ص) ہرگز ممانعت نہیں کرتی کہ مسلمانوں تک اذان کی آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر، مائیکرو فون، ٹیپ ریکارڈر کا استعمال نہ کیا جائے حتی کہ اس بات کی بھی ممانعت نہیںکرتی کہ مسجد میں ویڈیو کا استعمال کیا جائے۔ اور اوقات نماز کے علاوہ اس پر اسلامی فلم یا دینی سبق دیکھا اور سنا جائے۔

سنت پیغمبر(ص) مسلمان عورتوں کے سینٹری نیپکن(Sanitary Napkin) کے استعمال کی ممانعت نہیں کرتی اور اگر وہ مباح کاموں کے لیے ڈرائیونگ کرتی

۴۷

 ہیں اور بازار جاکر دکانوں سے اپنی ضرورت کا سامان خریدتی ہیں تو سنت پیغمبر(ص) اسے حرام نہیں سمجھتی۔ صرف شرعی پردہ کا  خیال رکھیں۔ اپنے دامن کو حرام سے بچائیں، نامحرم کو نہ دیکھیں جیسا کہ خود پروردگار عالم کا حکم ہے۔ مختصر یہ کہ سنت نبوی(ص) ترقی کی مخالف نہیں ہے لیکن اس وقت تک جب کہ یہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ہوا سے بیماریوں سے محفوظ رکھے اور سعادت بخشے۔

اے رسول(ص) ان سے پوچھو تو کہ جو زینت کے سازو سامان اور کھانے پینے کی صاف ستھیر چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں کس نے حرام کردیں؟ ( اعراف/ ۳۲)

ہاں ! اسلام نے ان تمام چیزوں کو حرام کیا ہے جو گندگی ، کثافت و نجاست میں شمار ہوتی ہیں اور ان تمام چیزوں کا مخالف ہے جن سے آدمی فطرتا نفرت کرتا ہوجیسے بدبو، گندے ناخن و بال، نجاست وکثافت کے عالم میں رہنا۔ چونکہ خداوند عالم جمیل ہے اور جمال کو دوست رکھتا ہے۔ لہذا آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ ہر بندہ مومن حتی کہ کافر بھی جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو صورت ولباس کو مرتب کرتا ہے، خوشبو لگاتا ہے۔ حتی کہ آپ کو کوئی گھر ایسا نہ ملے گا کہ اس میں آئینہ نہ ہو۔ توجب مرد حضرات زینت و آرائش کی فکر میں ہیں تو پھر عورتوں کو کیوں اس سے منع کیا جائے۔ اس شرط کے ساتھ کہ وہ اسلام کے معین حدود سے خارج نہ ہوجائیں اور نا محرم مردوں کے سامنے بن سنور کر نکلنے نہ لگیں۔

” الناس اعداء ما جهلوا“ (۲۲)

جس چیز کو لوگ نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں۔

مجھے یاد ہے ایام جوانی میں مجھے روز چہار شنبہ سرمہ لگانا بہت پسند تھا اور بہت سی احادیث کی کتابیں موجود ہیں جو روایت کرتی ہیں کہ آںحضرت(ص) آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے اور اس کی تشویق فرماتے تھے لیکن اس کے برخلاف جب بھی میں سرمہ لگاتا تو عورت و مرد مجھے عجیب نظر سے دیکھتے اور ایک دوسرے کو

۴۸

۴۹

۵۰

سیاسی مشکلات، تمدن کا نتیجہ

جس وقت رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا اور ان سے فرمایا : حبشہ کی سمت روانہ ہوجاؤ اس لیے کہ وہاں کا بادشاہ ایسا ہے کہ اس کے یہاں کسی پر بھی ظلم و ستم نہیں ہوتا۔ ( الکامل فی التاریخ/ج۲/ص۷۴)

کیا آںحضرت(ص) نے ان اصحاب کو پاسپورٹ دیا؟ یا حبشہ سے ان لوگوں کے لیے ویزے کی درخواست کی؟ یا پیسہ تبدیل کروایا؟ نہیں!

نہ یہ مسائل اس زمانہ میں تھے اور نہ ہی اس طرح کی بات سامنے آئی۔ اللہ کی زمین وسیع تھی جب بھی انسان پر اس کا وطن دشوار ہوجاتا، مرکب پر سوار ہوتا اور خدا کی طویل و عریض زمین پر کہیں کے لیے بھی نکل پڑتا۔ اور مناسب جگہ ٹھہرجاتا۔ نہ کسی قسم کا محاسبہ ہوتا نہ سیکیورٹی چیکنگ ہوتی نہ کسٹم کا مسئلہ پیش آتا نہ ٹیکس اور میڈیکل سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑتی اور نہ گدھے اور خچر کے لیے شہنشاہی گواہی کی ضرورت پیش آتی تھی کہ کہیں چرایا ہوا نہ ہو یا کوئی ٹیکس ادا کئے بغیر چل دیا ہو۔

کیا یہ تمدن یا کثرت جمعیت بہتر ہوگا، جس نے زمین کو مختلف ملکوں اور حکومتوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ہر حکومت اپنے ملک کی زبان میں بولتی ہے اور ہر ملک کا الگ پرچمہے۔ زمینی اور دریائی حدیں ہیں۔ جن پر چوکس نگہبان تعینات ہیں تاکہ ہر کس و ناکس گھس نہ آئے۔ جب قوموں کی تعداد بڑھی طمع میں شدت آئی اس طرح کہ ہر ایک دوسرے کا استحصال کرنے اور دہانے کی فکر میں پڑ گیا۔ انقلاب، بغاوتیں، جرائم بکثرت ہوگئے۔ تو ترقی یافتہ سماج قومیتوں کو الگ

۵۱

کرنے لگے ، ولادت و وفات کی گواہی اور شناختی کارڈ بنائے گئے، پاسپورٹ بھی بن گیا، سرحدیں بن گئیں، اب ہر شخص میں طاقت نہ تھی کہ بغیر اجازت اور ویزا دوسرے کی سرحد میں داخل ہو سکے خلاصہ یہ کہ ہر جگہ اور ہر حکومت کا ایک جدا گانہ قانون بن گیا۔

میں بھی بہت سے جوان مسلمانوں کی طرح اپنے ملک کی اذیت و آزار اور سیاسی مشکلات کے بعد دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگیا لیکن میرے لیے سارے دروازے بند نظر آئے خصوصا عربی اور اسلامی ممالک میں۔

میں کتاب خدا کی اس آیت کو پڑھنے کے بعد کسی درجہ حیران ہوجاتا ہوں، فرماتا ہے:

بے شک جن لوگوں کی قبض روح فرشتوں نے اس وقت قبض کی ہے کہ ( دارالحرب میں پڑے) اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے تو فرشتے قبض روح کے بعد حیرت سے کہتے ہیں تم کس ( حالت غفلت میں تھے) تو وہ ( معذرت کے لہجے میں ) کہتے ہیں ہم تو روئے زمین پر بے کس تھے تو فرشتے کہتے ہیں کہ خدا کی لمبی، چوڑی زمین میں اتنی بھی گنجائش نہ تھی کہ تم( کہیں) ہجرت کرکے چلے جاتے !! پس ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور  وہ بڑا، برا ٹھکانا ہے۔(نساء/ ۹۷)

میں اپنے آپ سے کہتا ہوں سچ ہے پوری دنیا کی زمین سب کی سب خدا کی ملکیت ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں لیکن بعض خدا کے بندوں نے اس پر قبضہ کیا اور آپس میں تقسیم کر لیا اور دوسروں کا فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ اگر غیر مسلم مثلا فرانسیسی، جرمن، انگریز، امریکن عذر کریں تو ٹھیک۔ لیکن مسلمان ملکوں کے پاس کیا بہانہ اور عذر ہے اور اگر عرب و اسلامی ممالک کے پاس کوئی بہانہ ہے بھی تو حاکم مکہ و مدینہ کے پاس کیا بہانہ رہ جاتا ہے جو مسلمانوں کو

۵۲

اجازت نہیں دیتے کہ وہ آسانی سے آسکیں۔ ان سے حج و عمرہ کے لیے ٹیکس لیتے ہیں اور کس مشکل سے ویزا دیتے ہیں۔

سچ مچ حیرت ہوتی ہے جب ہم قرآن میں پڑھتے ہیں بے شک جو لوگ کافر ہو بیٹھے اور خدا  کی راہ سے اور مسجد الحرام ( خانہ کعبہ) سے جسے ہم نے سب لوگوں کےلیے عبادت گاہ بنایا ہے( اور) اس میں شہری اور دیہاتی سب کا حق برابر ہے لوگوں کو روکتے ہٰں۔ (حج / ۲۵)

پس اگر خدا نے مسجد الحرام کو سبھی کے لیے مرکز امن قرار دیا ہے چاہے وہ وہاں ساکن ہوں یا باہر سے آئیں پھر اس ملک کی حکومت کس طرح بعض کو آنے کی اجازت دیتی ہے اور بعض کو نہیں دیتی۔ اب تو ہمیں اپنے اسلام و قرآن کی طرف پلٹنا چاہیئے اور اپنے امور میں تبدیلی لانا چاہئیے۔

ایک طویل مدت گذر گئی اور میںاس فکر و خیال میں سرگرداں تھا حتی کہ اپنے رب سے مناجات کرتے ہوئے عرض کیا کرتا تھا کہ پروردگار تو کہتا ہے اور تیرا قول حق ہے:

کیا خدا کی زمین وسیع نہیں کہ تم اس میں ہجرت کرو۔(نساء/ ۹۷)

اور تیرا ہی قول ہے کہ :( لوگوں کو مناسک حج ادا کرنے کے لیے بلاؤ تاکہ لوگ سوار اور پیادہ ہر طرف سے اکھٹا ہوجائیں)۔ ( حج/۲۷)

بےشک تیری زمین جو وسیع و عریض ہے لیکن اس پر دوسروں کا قبضہ ہے اور یہ گھر تو تیرا ہے لیکن دوسرے اس کے مالک بن بیٹھے ہیں اور وہاں آنے سے روکتے ہیں خدایا کیا کیا جائے؟

ایک روز قرآن کے متعلق نہج البلاغہ میں امیر المومنین(ع) کے کلام کا مطالعہ کررہا تھا کہ مجھے ایک ایسا جملہ نظر آیا جسے میں نے کئی مرتبہ پڑھا اور جس چیز کی تلاش تھی وہ مل گئی اس نے یہ معما حل کردیا اور میری حیران فکر کو سکون بخشا۔

۵۳

حضرت امیرالمومنین(ع) قرآن مجید کے متعلق نہج البلاغہ کے سب سے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں:

” کچھ آیات و احکام ہیں جو اپنے وقت  پر واجب ہیں لیکن مستقبل میں ان کا وجوب نہیں رہتا۔“

حضرت(ع) کے اس کلام سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ وہ آیات ہیں جن پرعمل آںحضرت(ع) کے زمانہ میں ممکن تھا۔ لیکن مستقبل میں ستمگروں اور کافروں کے قبضہ کی وجہ سے غیر ممکن ہوجائے گا۔

لہذا اگر کوئی روز قیامت اپنے خدا سے کہے :

پروردگار ! میں تیری زمین پر کمزور و لاچار تھا تو وہ خداوند عالم جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے اسے پتہ ہے کہ وہ ایسے ہی زمانہ میں تھا تو وہ اس سے یہ نہ فرمائے گا کہ تیری جگہ دوزخ ہے اور نہ بہت ہی بری جگہ ہے۔

اور اگر کوئی اس وقت اپنے رب سے کہے کہ :

پروردگارا ! مجھے تیرے گھر آنے سے روک دیا گیا۔ میں تیرا حج نہ کرسکا۔ تو اسے یہ جواب ملے گا : میں نے بھی تجھ سے کہا تھا اگر تم میں حج کرنے کی استطاعت و قدرت ہوتو کرنا پس تمہارا عذر معقول ہے اور جس شخص نے تم کو آنے سے روکا وہ ذمہ دار ہے اور اسی کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔

اے امیر المومنین(ع) ! آپ پر سلام ہو۔ جس روز آپ نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں اور جس روز آپ نے اس دنیا سے وفات پائی اور جس روز بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوں گے۔(28)

۵۴

نیکی کی طرف دعوت اور برائی سے روکنا

اس نئے تمدن نے سامراج کےدرمیان جن سیاسی مشکلات کوجنم دیا ان  میں سے ایک خود بینی بھی ہے۔ یعنی ہر آدمی صرف اپنی فکر میں ہو اور دوسرون کا ذرا بھی خیال نہ کرے۔ خود سلامت رہے، دوسرے جہنم میں جائیں! یہ بدترین صورت حال ہے جس مٰںآج کا انسانی سماج گرفتار ہے وہ بھی اس طرح کہ امت کے مفادات تو خطرہ میں وہں اور انجام نا معلوم ہو لیکن نہ کوئی آواز اٹھائے اور نہ آگے قدم بڑھائے۔ ایسی صورت میں بہادری، مردانگی، ایثار، جہاد، ظالموں کے مقابلہ میں استقامت جیسے عظیم اقدار نابود ہوجائیں گے۔ دین کا رنگ پھیکا اور ضمیر کی موت واقع ہوجائے گی۔

جیسا کہ ہم نے پہلے قرآن سے استدالال پیش کیا، بعض احادیث کے ذریعہ بھ اسی طرح استدالال پیش کرںگے۔ رسول خدا(ص) کا قول جس پر سبھی کا اتفاق ہے سے ساتھ ملکر پڑھتے ہیں۔ آںحضرت(ص) فرماتے ہیں:

”تم کو چاہئے کہ لوگوں کو بیکی کی طرف دعوت دو اور برائی سے روکو نہیں تو خدا تم میں سب سے برے کو تم پر مسلط کردے گا پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے لیکن ان کی دعا مستجاب نہ ہوگی۔“

نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا امت کی زندگی کے لیے ایک لازمی امر ہے اسی لئے ائمہ(ع) نے اسے دین کے ارکان میں شمار کیا ہے۔ یہی وہ ہے کہ معاصر اسلامی گروہ جو نعرہ سب سے پہلے بلند کرتے ہیں وہ امربالمعروف اورنہی ازمنکرکا نعرہ ہے۔ لیکن ترقی یافتہ سماج شدت سے اس نعرہ کے مخالف ہیں اور

۵۵

 اس کے مقابلہ کے لیے انہوں نے مختلف تنظیمیں بنا رکھی رہیں۔ جیسے  انسانی حقوق کی تنظیم، خواتین کے حقوق کی تنظیم اور جمعیت تحفظ حیوانات و غیرہ۔۔۔ لہذا اگر خودحکومت اس اہم امر ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) کو اپنے ذمہ نہ لے تو یہ محال ہے کہ لوگوں کی جماعت اسے انجام دے سکے متفرق افراد کا تو شمار ہی نہیں۔

آج آپ خود بہت سی برائیوں کےشاہد ہیں لیکن انکی مخالفت کرنےکی قوت نہیں رکھتے یہاں تک کہ اگر نہی از منکر کریں تو ممکن ہے مد مقابل چاہے لڑکی ہو یا لڑکا آپ کے خلاف کورٹ میں مقدمہ درج کرسکتا ہے پھر بڑے اچھے انداز آپ سے کہا جائے گا اس سے تمہیں کیا سروکار ! بے جا مداخلت نہ کرو! اور اگر آپ نے کہا میں امر بالمعروف اور نہی از منکر کررہا ہوں تو آپ کو جواب ملے گا یہ حق تم کو کس نے دیا اور کس طرح تمہیں حاصل ہے؟

خود مجھے اس کا تلخ تجربہ ہے جیسا کہ بعض دیگر مسلمانوں کے ساتھ یہ صورتحال پیش آئی ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں تلخی، ناچاری اور افسردگی کا مزا مجھے اب بھی محسوس ہوتا ہے اور دو باتوں کے درمیان اب بھی سرگرداں ہوں۔

اولاً ۔ میرا عقیدہ مجھے اپنے شرعی فرائض کی ادائیگی کےلئے آگے بڑھاتا ہے اور اگر خاموشی اختیار کروں تو جواب دہ ہونا پڑےگا۔

ثانیاً ۔ جس فضا میں زندگ گزار رہا ہوں اس نےمجھ سے اس حق کو زبردستی چھین رکھا ہے اور مجھے خائف کررہی ہے کہمیں پھر اس فریضہ کو انجام نہ دوں میں گورنر کی گفتگو نہیں بھول سکتاایک روز اس نے کہا تھا کیا تم خدا کے رسول(ص) ہو؟ اور خدا نے تمہیں نئے دین کے ساتھ مبعوث کیا ہے کہ لوگوں کی اصلاح کرو؟ میں نے اسے جواب دیا  ہرگز نہیں !

اس نے کہا : اچھا پھر جاؤ خود کو اور اپنے گھر والوں کو دیکھو اور ہمیں اپنے

۵۶

شر سے نجات دو! ہم لوگوں کی سلامتی اور ان کےامن و امان کے ذمہ دار ہیں اور اگر ہر برے غیرے کو امر و نہی کی اجازت دے دیں تو ملک ہرج ومرج کا شکار ہوجائے گا۔

میں بھی اپنی جگہ چپ بیٹھ رہا اگر چہ اندر سے اپنے فریضہ کا احساس کرتا تھا اور کرنے نہ کرنے کے درمیان سالوں کذر گئے یہاں تک کہ رسول گرامی(ص) کی حدیث نظروں سے گذری جس میں آپ(ص)  فرماتے ہیں۔

” تم میں سے جو بھی کسی برائی کو دیکھے تو اسے خود اپنے ہاتھ سے ختم کرے اور اگر قادر نہ ہو تو زبان سے اور اگر اس کا بھی امکان نہ ہوتو اپنے قلب سے اور یہ ایمان کا نہایت ہی ضعیف مرحلہ ہے۔“

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

” خدا نے ہم سے پہلے کسی ایسے نبی کو مبعوث نہیں فرمایا جس کے حواری و اصحاب نہ رہے ہوں وہ اس کی سنت پر عمل رتے تھے اور اس کے حکم کی اطاعت کرتے تھے۔ ان کے بعد دوسرا گروہ ان کا جانشین بنتا گیا لیکن یہ جو کہتے اس پر عمل نہ کرتے تھے اور جو کرتے اس کا انہیں حکم نہ ہوتا تھا لہذا جو بھی ایسوں سے اپنے ہاتھ اور اپنی قوت سے ان سے مقابلہ اور جہاد کرے مومن ہے اور جو اپنی زبان سے ان کا مقابلہ کرے مومن ہے۔ اسی طرح جو اپنے قلب سے ان کا مقابلہ کرے وہ بھی مومن ہے اور اس کےبعد تو پھر رائی کے ایک دانہ ے برابر بھی ایمان باقی نہیں بچتا۔“

میں نے پروردگار عالم کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری قوت سے زیادہ ہمیں تکلیف نہیں دی ہے۔ بے شک آںحضرت(ص) کی یہ حدیث کتاب خدا کی تفسیر کرتی ہے۔ چون کہ ماضی، حال اور مستقبل کا علم خدا کے پاس ہے لہذا اسے معلوم تھا کہ ایک زمانہ مسلمان پر ایسا آئے گا کہ وہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کی قوت

۵۷

 نہ رکھتے ہوںگے۔ اسی کے پیش نظر اس نے حکم کو آسان رکھا۔ اور ان کی قوت سے زیادہ ان سے طلب نہ کیا آحضرت(ص) نے نہی از منکر کے مراحل کو تدریجا بیان فرمایا ہے اور یہ اسلامی سماج میں تبدیلی اور قوت کے ضعف میں بدلجانے کے اوپر دلیل ہے اسی طرح حالات کے بدلنے کی صورت میں حکم شرعی میں تبدیلی کے اوپر بھی دلیل ہے۔

تو جس کے پاس قوت ہے اسے طاقت سے برائیوں کا مقابلہ کرنا چاہئے لیکن جس کے پاس قوت نہیں ہے لیکن زبان سے منکرات کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے چاہئے کہ زبان سے ان کا مقابلہ کرے۔لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ اس کے کہنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا یا اس کی وجہ سے دردسر اور مشکلات پیدا ہوجائیں گی تو اس صورت میں منہ سے کوئی بات کہے بغیر صرف قلبی مخالفت کافی ہے۔پس کس درجہ بے نیاز ہے وہ رب جس نے لوگوں کو ان کی قوت سے زیادہ تکلیف نہیں دی ہے۔ اور بے شمار درود ہو اس نبی(ص)  رحمت پر جو مومنین پر خود ان سے زیادہ مہربان تھا اسی طرح ان کی پاک و طاہر آل(ع) پر بھی درود و سلام ہو۔(32)

۵۸

مہذب انسان، آسان شریعت

بلاشبہ جو آسمانی ادیان خداوند عالم کی جانب سے نازل ہوئے ہیں ان کا مقصد سب سے پہلے: انسان میں پروردگار عالم کی معرفت پیدا کرنا تھااور اس کو بت پرستی،شرک اور مختلف طرح کی گمراہی سے نجات دینا تھا۔

دوسرے : اس کی سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنا تھا اور یہ مقاصد دو بنیادی چیزوں سے عبارت ہیں:

۱۔ ایمان

۲۔ عمل

اورجب کبھی ایمان و عمل کہا جائے تو اس سے مراد صحیح ایمان اور عمل صالح ہے۔ لہذا ہر ایمان و عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہے اس لیے کہ ممکن ہے انسان مختلف عقائد پر ایمان رکھے لیکن اسلام سے اس کا ذرہ برابر بھی ربط نہ ہو اور ممکن ہےکہعقائد اسے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ہاتھ لگے ہوں اور بالفرض صحیح ہوں تو بھی ممکن ہے اس میں تغیر و تبدیلی پیدا ہوگئی ہو۔

خداوند عالم فرماتا ہے۔

اور جب ان سے کہا گیا کہ جو قرآن خدا نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ تو کہنے لگے ہم تو اس کتاب توریت پر ایمان لائے ہوئے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی گے اور اس کے بعد آئی ہے نہیں مانتے حالاںکہ وہ ( قرآن) حق ہے اور اس کتاب (توریت) کی جو ان کے پاس ہےتصدیق بھی کرتا ہے۔( بقرہ/۹۱)

۵۹

بعض اوقات انسان کسی کام کو یہ سمجھ کر انجام دیتا ہے کہ اس میں بشریت کے لیے فائدہ ہے جب کہ اس کے کاموں سے سوائے نقصان و ضرر کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

خداوند عالم فرماتا ہے۔

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ کرتے پھرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرتے ہیں خبردار ہوجاؤ ! بیشک یہ لوگ فسادی ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ (بقرہ / ۱۱ / ۱۲)

یا ممکن ہے انسان نیک کام کرے جو بشریت کے لیے بہت مفید اور فائدہ مند ہو لیکن اس نے اسے خدا کے لیے انجام نہ دیا ہو بلکہ اس کا مقصد صرف دکھاوا او ریاکاری ہو تو اس طرح کا عمل سراب اور دھوکہ ہے کہ دور سے پیاسے اس کی طرف پانی سمجھ کر آئیں لیکن جب نزدیک پہنچیں تو کچھ نہ پائیں۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

اور ان لوگوں نے دنیا میں جو کچھ نیک کام کئےہیںہمانکیطرفتوجہکریںگے (کہوہفاسداورغیرخالصاعمالہیں ) گویا اڑتی ہوئی خاک بنا ( کر برباد کر) دیں گے۔(فرقان / ۲۳)

اگر دین انسان کے لیے راہنمائی ہے جس کے ذریعہ وہ ہدایت پائے اور ترقی کرے اس لیے کہ ابتدائے خلقت سے انسان جہاں بھی تھا  وہاں دین موجود تھا اور یہ بات موجودہ تحقیقات اور آثار قدیمہ کی شناخت کرنے والوں کے ذریعہ بھی مسلم ہوچکی ہے کہ ابتدا میں رہنے والے انسان بہت سی چیزوں سے ناواقف تھے اور بہت عرصے کے بعد انھیںاس کا علم ہوا لیکن انکے یہاں پہلے سے ہیہ عبادت گاہ نظر آتی ہے اور اسی مطلب کی طرف پروردگار عالم کا قول اشارہ کرتا ہے۔

لوگوں کی عبادت کے واسطے جو گھر سب سے پہلے بنایا گیا وہ یقینا

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279