اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات21%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56236 / ڈاؤنلوڈ: 4978
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

دوسری جگہ فرماتا ہے:

کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے(غرض سب کچھ) خدا ہی نے انہیں تمہارا تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ( خواہ مخواہ) خدا کے بارے میں جھگرتے ہیں ( حالاںکہ) نہ ان کے پاس علم ہے نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روشن کتاب ہے)۔(لقمان / ۲۰)

وہ مسلمان جو اپنے خدا کی کتاب میں یہ پڑھتا ہے کہ جو کچھ آسمان میں افلاک، چاند، سورج، برج، کہکشائیں، ستارے، ہوا، بادل، برف و باران کا وجود ہے اور زمین پر  دریا، نہریں، پہاڑ، بیابان،جنگلات، درندے، حیوانات خزانے، معادن ، پتھر، جمادات و نباتات وغیرہ ہیں سبھی کچھ اس کے لیے مسخر کر دیئے گئے ہیں تو پھر وہ کیسے ہاتھ پر ہاتھ دھرے اہل مغرب کی ایجاد و پیشرفت کا منتظر رہتا ہے۔ اگر ایسا کرتا ہے تو اس نے اپنے فریضہ کو ترک کردیا ہے اور اپی وقعت کو گرا دیا ہے اور اسے زبردست گھاٹا ہوا ہے۔ اس لیے کہ جو قرآن خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے اس میں ساری چیزیں موجود ہیں اور کسی قسم کی کمی اور نقص اس میں نظر نہیں آتا ۔

قرآن فرماتا ہے:

ہم نے کتاب میں کوئی بات فرو گذاشت نہیں کی ہے۔(انعام/ ۳۸ )(۲۰)

رسول خدا(ص) نے بھی ( انسان) کو علم و دانش کے حاصل کے لیے تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے: ”گہوارہ سے قبر تک علم حاصل کرو۔“

صرف یہی نہیں بلکہ اسے سب سے بلند مقام کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

۴۱

” اگر انسان عرش سے آگے کا حوصلہ بھی رکھے تو وہاں بھی پہنچ سکتا ہے“

لہذا اسلام علم و دانش اور ترقی کے میدان میں بہت آگے گیا ہے اور اس میں کسی قسم کسیرکاوٹ کا قائل نہیں ہے۔ البتہ اگر اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ کہیں بات طولانینہ ہو جائے اور کتاب کے اصل مقصد سے خارج نہ ہوجائیں تو اس موضوع پر ایک مفصل بحث کرتا۔ محققوں کی ذمہ داری ہےکہ اس موضوع پر دوسری تحقیقی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

یہ مطالب اس سوال کا جواب تھے جسے شروع میںی عرض کیا تھا۔ اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب ترقی سے مراد فقط علمی، فقہی، تکنیکی اور صنعتی ترقی ہو جس نے یورپیوں، امریکیوں اور خصوصا جاپانیوں کی عقلوں اور ان کے گھروں کو چکا چوند کر رکھا ہے۔ اور مسلمان اس  سے بے خبر ہیں ان کے خیال میں یہ ساری قابل توجہ ایجادات اور علمی ترقی غیر مسلموں کے ہاتھوں ہوئی ہے اور اسلام ان کی پسماندگی کا باعث ہے!!! خصوصا کمیونزم پرست جو دین کو قوم کے لیے افیون سمجھتے ہیں۔ اگر ان کے پاس انصاف ہوتا تو یہ سمجھ لیتے کہ دین اسلام نے ہی قوموں کو زندہ کیا ہے اور انسانی ترقی کو دائمی رفتار بخشی ہے۔ کیا یہی اسلام نہ تھا جس نے ایک باچیز قوم کو کہ جس کےپاس کچھ بھی نہ تھا اسے جزیرة العرب میں ہر چیز کا مالک بنا دیا۔ اور اس درجہ کہ یہی پسماندہ سرزمین ساری دنیا کے لیے علم، ترقی، پیشرفت اور مدنیت کا مقصد و مرکز  بن گئی۔ اور بعض یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ” اسلام و عرب کا سورج یورپ پر چمکنے لگا“ اور یہ اقرار کیا کہ ان بدیہ نشین عربوں نے اسلام سے متمسک ہونے کے بعد بھلائی کے ہر میدانمیں ترقی کر لی  اور ہر طرح کے ایجاد میں پیش قدم ہوگئے۔(۲۱)

اگر ترقی سے مراد وہ ترقی ہے جسے اہل مغرب و امریکہ نے اپنے یہاں کھلی آزادی کا لباس پہنا رکھا ہے اور نوبت یہاں تک  پہنچ گئی ہے کہ ہم جنس

۴۲

بازی اور برہنہ رہنے والوں کے لیے کلب کھول دیئے  گئے ہیں اور جانوروں اور کتوں کے لیے میراث معین کردی گئی ہے۔ ہر روز نئی چیز وجود یں آرہی ہے۔ اور وہ تمام ا اخلاقی برائیاں جس کی مغربی ٹیلی وژن سے تبلیغ ہوتی ہے تو بلاشبہ اسلام نے ایسی باتوں کو اپنے یہاں کوئی جگہ نہیں دی ہے اور نہ صرف یہی بلکہ پوری طاقت  کےساتھ اس پر حملہ آور ہوا ہے اور فساد و تباہی کے تمام مراکز کو ختم کرنے کے درپے ہے۔

یہاں ضروری ہے کہ ہم کچھ مسلمانوں کی بعض عجیب و غریب روش کی طرف بھی اشارہ کریں جو رسول خدا(ص) کی سنت سے تمسک کے مدعی ہیں اور خود کو (سلفی) کہتے ہیں مثلا ہم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ ایک لمبا کرتا یا اٹنگا عربی پیرہن پہنے ہوئے ہیں۔ داڑھی سینے تک لہرا رہی ہے۔ ہاتھ میں ایک عصا ہے، مسجد کے کنارے کھڑے ہیں، (اراک) لکڑی سے مسواک کررہے ہیں اور کبھی دائیں طرف کے دانت اور کبھی بائیں سمت کے دانت رگڑے جارہے ہیں۔ کبھی اس سے بکلتی رطوبت کو تھوک دیتے  ہیں تو کبھی نگل جاتے ہیں! اپنے سر کو باندھ رکھا ہے اور اگر کبھی انھیں اپنے گھر کھانے کی میز پر دعوت دیں تو مخالفت کریں گے۔ حتی کیہ چمچہ اور کانٹے سے کھانا کھانے کو تیار نہیں ہوں گے بلکہ ہاتھ سے نوش فرمائیں گے۔ انگلیوں کو برابر چاٹتے رہیں گے اور فرمائیں گے: میں رسول خدا(ص) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں!!!

اور بعض تو دو چار قدم اور آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے لاؤڈ اسپیکر سے اذان ممنوع کردی ہے۔ اس لیے کہ یہ رسول(ص) کے زمانہ میں نہ تھا اور یہ بدعت ہے!!

اور بعض نے تو پسماندگی کو اس کے اوج پر پہنچا دیا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ لوگوں کو ان باتوں کی جانب واپس لائیں لہذا جو بھی تیز آواز میں ہنستا ہے منع

۴۳

کرتے ہیں، فورا اس پر بگڑ پڑتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ہیں اور ہنسنے سےمنع کرتے ہیںاس لیے کہ آنحضرت(ص) فقط مسکراتے تھے۔ اور اگر انہوں نے سکی کو پیٹ کے بل لیٹا ہوا دیکھ لیا تو زور سے لات مارتے اور نیند سے اٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے شیطان سوتا ہے۔

میں نے ا میں سے ایک شخص کو دیھا کہ اپنی چھوٹی بچی کی پٹائی کررہا ہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اس کم سن بچی نے مہمانوں کو داہنے ہاتھ کے بجائے بائیں ہاتھ سے شربت پیش کردیا تھا۔ اتنے مہمانوں کےسامنے اس بچی کی اہانت اور پٹائی کر کے ان کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ سنت کی حفاظت کرنی چاہئے!!!

آخر یہ کیسی سنت ہے جس سے لوگ متنفر اور بد دل ہوجائیں خصوصا اس وقت جب اسلام اس شکل میں دشمنوں اورغریبوں کے سامنے پیش کیا جائے۔

بلاشبہ یہ لوگوںکو اسلام کی طرف راغب کرنے اور اسلام کا منور چہرہ پیش کرے اور اپنی طرف جذب کرنے کے بجائے ایسی ہی بری اور نازیبا حرکتوں سے متنفر کر دیتے ہیں کہ جن پر پھر کسی تبلیغ کا اثر نہیں ہوسکتا۔

ان کو یہ نہیں معلوم کہ رسول خدا(ص) نے اگر ان دنوں اراک کی شاخ کو مسواک کے بطور استعمال کیا اور اسے دانتوں کی صفائی اور پاکیزگی کے لہیے کام میں لائے تو یہ اس لیے تھا کہ اس زمانہ مین آج کی طرح مختلف قسم کے برش اور ٹوتھ پیسٹ نہیں تھے اور یہ آنحضرت(ص) کی ترقی پسندی کی دلیل ہے کہ آںحضرت(ص) نے اس زمانہ میں دانتوں کی صفائی اور پاکیزگی پر اس درجہ توجہ دی۔ اور لوگوں کو اس کی ترٰغیب دلائی۔ لیکن یہ ان باتوں سے قانع نہیں ہوتے اور استدلال پیش  کرتے ہیں کہ اراک کی شاخ سارے برش اور ٹوتھ پیسٹ سے  بہتر ہے اس میں محصوص نمک ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اگر آپ ان سے اس ترقی ے متعلق بتائیں کہ یہ ٹوتھ پیسٹ دانت اور منہ کو اسٹرلائیز(sterilize) کردیتا ہے، صاف کرنے

۴۴

 والا اور بہت ہی مفید ہے تو بھی وہ اس لکڑی کو بہتر سمجھیںگے۔ اور اس کو غیر طبعی ڈھنگ سے جیب میں رکھیں گے بلک کبھی کبھی تو آپ دیکھیں گے منہ کے خون کی وجہ سے اس کا رنگ لال ہوگیا ہے! مگر پھر بھی وہ رسول خدا(ص) کا قول دہراتے ملیں گے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا ہے:

اگر مجھے اپنی امت کےلیے سختی کا خیال نہ ہوتا تو میں اپنی امت پر ہر واجب نماز سے پہلے مسواک کرنا واجب قررار دے دیتا۔

افسوس کہ یہ لوگ سنت پیغمبر(ص) کے متعلق سوائے سطحی اور ظاہری مسائل کے اور کچھ نہیں جانتے اور آنحضرت(ص) کے قول کے روحانی اور علمی گوشوں سے بالکل بے خبر ہیں۔

بہر حال یہ اندھی تقلید کی طرح ان باتوں اور حرکتوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ نہ ہی فہم  و ادراک کی  بنیاد پر ہے اور نہ ہی غور و تحقیق سے اس کا کوئی ربط ہے۔ فقط جو باتیں اپنے پیشواؤوں اور اماموں سے سن لی ہیں اسی کی تکرار کرتے رہتے ہیں۔ اس میں بہت سے تو سطحی معلومات رکھتے ہیں اور شاید صدفی صد جاہل ہوں۔ لیکن اگر ان پر اعتراض کیجئے تو کہیں گے کہ رسول(ص) نے بھی علم حاصل نہ کیا تھا۔!!!

پس ایسے افراد پر تو اس زمانہ میںفخر و مباہات کرنی چاہئے جو قول میں بھی اور شکل و انداز میں بھیآنحضرت(ص) کے پیرو ہیں!!!

ایک مرتبہ مسجد عمر بن خطاب(پیرس) میں نے ان سے بحث کی اور کہا: کیا آپ واقعا سنتپیغمبر(ص) سے متمسک ہیں اور جو بھی نیا ہے  اسے بدعت سمجھتے ہیں اور معتقد ہیں کہ جو چیز نئی ہیں وہی سب سے بدتر ہیں۔ اس لیے کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت و گمراہی کا انجام دوزخ ہے؟

انہوں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔ تو میں نے کہا پھر آپ کارپٹ پر کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ جبکہ یہ مصنوعی اور جدید طرز پر بنا ہوا فرش یہ مغربی ممالک

۴۵

 میں بنا ہے معلوم نہیں اسے کس مواد سے بنایا گیا ہے؟ جو چیز قطعی ہے وہ یہ کہ آنحضرت(ص) نے ہرگز کارپٹ کے اوپر نماز ادا نہیں فرمائی۔ اور اصلا اسے انہوں نے دیکھا تک نہیں۔

ان میں سے بعض کہنے لگے ہم مغربی ملکوں میں رہتے ہیں ہمارا حکم مضطر ( مجبور) کا ہے لہذا فقہ میں یہ بات آئی ہے کہ ضرورت حرام چیزوں کو جائز کردیتی ہے۔

میں نے کہا یہ کون سی ضرورت ہے آپ اس فرش کو اٹھا دیں اور زمین پر نماز پڑھیں کیوںکہ آںحضرت(ص) نے زمین پر نماز ادا کی ہے یا پھر کم از کم سجدہ کی جگہ پر پتھر رکھ لیں؟

امام جماعت نے مذاق اڑانے کے انداز میں ہماری طرف رخ کیا اور کہا:

تم جیسے ہی مسجد میں داخل ہوئے میں سمجھ گیا کہ تم شیعہ ہو۔ کیوںکہ تم نے سجدہ کی جگہ پر کاغذ رکھا تھا ہم نے کہا : اس میں کوئی حرج ہے؟ کیا آپ جس صحیح سنت کا نعرہ لگاتے ہیں اس سے ہمیں مطمئن کرسکتے ہیں؟

اس نے کہا : مجھے بحث کرنے کو وہ بھی خاص کر شیعوں سے منع کیا گیا ہے۔ اور ہم تمہاری ایک بھی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمارے لیے ہمارا دین اور تمہارے لیے تمارا دین کافی ہے۔

یہ وہ سرگزشت تھی جس کا تذکرہ مناسب معلوم ہوا اور اس سے مسلمان اور روشن فکر حضرات کو اندازہ ہوگا کہ سنت پیغمبر کبھی بھی علمی ترقی اور ٹیکنالوجی کی مخالف نہیں رہی ہے اور اسے ہرگز حرام قرار نہیں دیا گیا ہے۔

مرد ہو یا عورت اس پر ہرگز مناسب لباس پہننا حرام قرار نہیں دیا گیا، بس یہ ضروری ہے کہ بدن ڈھکنا چاہئے اور توہین کا باعث نہ ہونا چاہئے۔ اور عورتوں

۴۶

کو پردہ کی رعایت کرنی چاہئے۔ چونکہ آنحضرت(ص) نے فرمایا ہے:

پروردگار عالم تمہارے لباس، حالت، شکل و صورت اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ صرف تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ ( صحیح مسلم ج۴، ص۱۹۸۷ / ح۲۵ ۶ ۴)

چنانچہ سنت پیغمبر(ص) ہرگز ڈائننگ ٹیبل اور چمچہ، کانٹے کی مخالف نہیں ہے۔ بلکہ اہم یہ ہے کہانسان کھانے پینے میں ادب کا پاس رکھے اس طرح کہ ساتھ بیٹھنے والے یہ خیال نہ کریں کہ حیوانوں کی طرح شکار پر ٹوٹا پڑ رہا ہے اور کھانے پینے میں اس کے داڑھی اور بال شریک نہ ہوں۔

سنت پیغمبر(ص) ٹوتھ پیسٹ اور برش سے دانت منہ کی صفائی کی مخالف نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس بات کی مخالف ہے کہ انسان اپنے بدن کو پاک صاف رکھے، بدن کے زائد بالوں کو دور کرے، خوشبو لگائے اور خود کو معطر کرے تاکہ لوگ اس سے متنفر نہ ہوں نیز جیب میں ایک صاف رومال رکھے۔ لیکن وہ لوگ جو سنت کی پیروی کا جھوٹا دعوی کرتے ہیںاور ان کےبدن کی بدبو خصوصا گرمی میں حمام نہ جانے کی حکایت کرتی ہے راہ چلتے ہوئے ہاتھ کو آب دہن سے لودہ کرتے ہیں۔ناک کی کثافت لوگوں کا خیال کئے بغیر جہاں چاہتے ہیں چھینک دیتے ہیں ہاتھ کو دامن سے صاف کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ خدا کی قسم سنت پیغمبر(ص) سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔

سنت پیغمبر(ص) ہرگز ممانعت نہیں کرتی کہ مسلمانوں تک اذان کی آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر، مائیکرو فون، ٹیپ ریکارڈر کا استعمال نہ کیا جائے حتی کہ اس بات کی بھی ممانعت نہیںکرتی کہ مسجد میں ویڈیو کا استعمال کیا جائے۔ اور اوقات نماز کے علاوہ اس پر اسلامی فلم یا دینی سبق دیکھا اور سنا جائے۔

سنت پیغمبر(ص) مسلمان عورتوں کے سینٹری نیپکن(Sanitary Napkin) کے استعمال کی ممانعت نہیں کرتی اور اگر وہ مباح کاموں کے لیے ڈرائیونگ کرتی

۴۷

 ہیں اور بازار جاکر دکانوں سے اپنی ضرورت کا سامان خریدتی ہیں تو سنت پیغمبر(ص) اسے حرام نہیں سمجھتی۔ صرف شرعی پردہ کا  خیال رکھیں۔ اپنے دامن کو حرام سے بچائیں، نامحرم کو نہ دیکھیں جیسا کہ خود پروردگار عالم کا حکم ہے۔ مختصر یہ کہ سنت نبوی(ص) ترقی کی مخالف نہیں ہے لیکن اس وقت تک جب کہ یہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ہوا سے بیماریوں سے محفوظ رکھے اور سعادت بخشے۔

اے رسول(ص) ان سے پوچھو تو کہ جو زینت کے سازو سامان اور کھانے پینے کی صاف ستھیر چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں کس نے حرام کردیں؟ ( اعراف/ ۳۲)

ہاں ! اسلام نے ان تمام چیزوں کو حرام کیا ہے جو گندگی ، کثافت و نجاست میں شمار ہوتی ہیں اور ان تمام چیزوں کا مخالف ہے جن سے آدمی فطرتا نفرت کرتا ہوجیسے بدبو، گندے ناخن و بال، نجاست وکثافت کے عالم میں رہنا۔ چونکہ خداوند عالم جمیل ہے اور جمال کو دوست رکھتا ہے۔ لہذا آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ ہر بندہ مومن حتی کہ کافر بھی جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو صورت ولباس کو مرتب کرتا ہے، خوشبو لگاتا ہے۔ حتی کہ آپ کو کوئی گھر ایسا نہ ملے گا کہ اس میں آئینہ نہ ہو۔ توجب مرد حضرات زینت و آرائش کی فکر میں ہیں تو پھر عورتوں کو کیوں اس سے منع کیا جائے۔ اس شرط کے ساتھ کہ وہ اسلام کے معین حدود سے خارج نہ ہوجائیں اور نا محرم مردوں کے سامنے بن سنور کر نکلنے نہ لگیں۔

” الناس اعداء ما جهلوا“ (۲۲)

جس چیز کو لوگ نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں۔

مجھے یاد ہے ایام جوانی میں مجھے روز چہار شنبہ سرمہ لگانا بہت پسند تھا اور بہت سی احادیث کی کتابیں موجود ہیں جو روایت کرتی ہیں کہ آںحضرت(ص) آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے اور اس کی تشویق فرماتے تھے لیکن اس کے برخلاف جب بھی میں سرمہ لگاتا تو عورت و مرد مجھے عجیب نظر سے دیکھتے اور ایک دوسرے کو

۴۸

۴۹

۵۰

سیاسی مشکلات، تمدن کا نتیجہ

جس وقت رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا اور ان سے فرمایا : حبشہ کی سمت روانہ ہوجاؤ اس لیے کہ وہاں کا بادشاہ ایسا ہے کہ اس کے یہاں کسی پر بھی ظلم و ستم نہیں ہوتا۔ ( الکامل فی التاریخ/ج۲/ص۷۴)

کیا آںحضرت(ص) نے ان اصحاب کو پاسپورٹ دیا؟ یا حبشہ سے ان لوگوں کے لیے ویزے کی درخواست کی؟ یا پیسہ تبدیل کروایا؟ نہیں!

نہ یہ مسائل اس زمانہ میں تھے اور نہ ہی اس طرح کی بات سامنے آئی۔ اللہ کی زمین وسیع تھی جب بھی انسان پر اس کا وطن دشوار ہوجاتا، مرکب پر سوار ہوتا اور خدا کی طویل و عریض زمین پر کہیں کے لیے بھی نکل پڑتا۔ اور مناسب جگہ ٹھہرجاتا۔ نہ کسی قسم کا محاسبہ ہوتا نہ سیکیورٹی چیکنگ ہوتی نہ کسٹم کا مسئلہ پیش آتا نہ ٹیکس اور میڈیکل سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑتی اور نہ گدھے اور خچر کے لیے شہنشاہی گواہی کی ضرورت پیش آتی تھی کہ کہیں چرایا ہوا نہ ہو یا کوئی ٹیکس ادا کئے بغیر چل دیا ہو۔

کیا یہ تمدن یا کثرت جمعیت بہتر ہوگا، جس نے زمین کو مختلف ملکوں اور حکومتوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ہر حکومت اپنے ملک کی زبان میں بولتی ہے اور ہر ملک کا الگ پرچمہے۔ زمینی اور دریائی حدیں ہیں۔ جن پر چوکس نگہبان تعینات ہیں تاکہ ہر کس و ناکس گھس نہ آئے۔ جب قوموں کی تعداد بڑھی طمع میں شدت آئی اس طرح کہ ہر ایک دوسرے کا استحصال کرنے اور دہانے کی فکر میں پڑ گیا۔ انقلاب، بغاوتیں، جرائم بکثرت ہوگئے۔ تو ترقی یافتہ سماج قومیتوں کو الگ

۵۱

کرنے لگے ، ولادت و وفات کی گواہی اور شناختی کارڈ بنائے گئے، پاسپورٹ بھی بن گیا، سرحدیں بن گئیں، اب ہر شخص میں طاقت نہ تھی کہ بغیر اجازت اور ویزا دوسرے کی سرحد میں داخل ہو سکے خلاصہ یہ کہ ہر جگہ اور ہر حکومت کا ایک جدا گانہ قانون بن گیا۔

میں بھی بہت سے جوان مسلمانوں کی طرح اپنے ملک کی اذیت و آزار اور سیاسی مشکلات کے بعد دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگیا لیکن میرے لیے سارے دروازے بند نظر آئے خصوصا عربی اور اسلامی ممالک میں۔

میں کتاب خدا کی اس آیت کو پڑھنے کے بعد کسی درجہ حیران ہوجاتا ہوں، فرماتا ہے:

بے شک جن لوگوں کی قبض روح فرشتوں نے اس وقت قبض کی ہے کہ ( دارالحرب میں پڑے) اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے تو فرشتے قبض روح کے بعد حیرت سے کہتے ہیں تم کس ( حالت غفلت میں تھے) تو وہ ( معذرت کے لہجے میں ) کہتے ہیں ہم تو روئے زمین پر بے کس تھے تو فرشتے کہتے ہیں کہ خدا کی لمبی، چوڑی زمین میں اتنی بھی گنجائش نہ تھی کہ تم( کہیں) ہجرت کرکے چلے جاتے !! پس ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور  وہ بڑا، برا ٹھکانا ہے۔(نساء/ ۹۷)

میں اپنے آپ سے کہتا ہوں سچ ہے پوری دنیا کی زمین سب کی سب خدا کی ملکیت ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں لیکن بعض خدا کے بندوں نے اس پر قبضہ کیا اور آپس میں تقسیم کر لیا اور دوسروں کا فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ اگر غیر مسلم مثلا فرانسیسی، جرمن، انگریز، امریکن عذر کریں تو ٹھیک۔ لیکن مسلمان ملکوں کے پاس کیا بہانہ اور عذر ہے اور اگر عرب و اسلامی ممالک کے پاس کوئی بہانہ ہے بھی تو حاکم مکہ و مدینہ کے پاس کیا بہانہ رہ جاتا ہے جو مسلمانوں کو

۵۲

اجازت نہیں دیتے کہ وہ آسانی سے آسکیں۔ ان سے حج و عمرہ کے لیے ٹیکس لیتے ہیں اور کس مشکل سے ویزا دیتے ہیں۔

سچ مچ حیرت ہوتی ہے جب ہم قرآن میں پڑھتے ہیں بے شک جو لوگ کافر ہو بیٹھے اور خدا  کی راہ سے اور مسجد الحرام ( خانہ کعبہ) سے جسے ہم نے سب لوگوں کےلیے عبادت گاہ بنایا ہے( اور) اس میں شہری اور دیہاتی سب کا حق برابر ہے لوگوں کو روکتے ہٰں۔ (حج / ۲۵)

پس اگر خدا نے مسجد الحرام کو سبھی کے لیے مرکز امن قرار دیا ہے چاہے وہ وہاں ساکن ہوں یا باہر سے آئیں پھر اس ملک کی حکومت کس طرح بعض کو آنے کی اجازت دیتی ہے اور بعض کو نہیں دیتی۔ اب تو ہمیں اپنے اسلام و قرآن کی طرف پلٹنا چاہیئے اور اپنے امور میں تبدیلی لانا چاہئیے۔

ایک طویل مدت گذر گئی اور میںاس فکر و خیال میں سرگرداں تھا حتی کہ اپنے رب سے مناجات کرتے ہوئے عرض کیا کرتا تھا کہ پروردگار تو کہتا ہے اور تیرا قول حق ہے:

کیا خدا کی زمین وسیع نہیں کہ تم اس میں ہجرت کرو۔(نساء/ ۹۷)

اور تیرا ہی قول ہے کہ :( لوگوں کو مناسک حج ادا کرنے کے لیے بلاؤ تاکہ لوگ سوار اور پیادہ ہر طرف سے اکھٹا ہوجائیں)۔ ( حج/۲۷)

بےشک تیری زمین جو وسیع و عریض ہے لیکن اس پر دوسروں کا قبضہ ہے اور یہ گھر تو تیرا ہے لیکن دوسرے اس کے مالک بن بیٹھے ہیں اور وہاں آنے سے روکتے ہیں خدایا کیا کیا جائے؟

ایک روز قرآن کے متعلق نہج البلاغہ میں امیر المومنین(ع) کے کلام کا مطالعہ کررہا تھا کہ مجھے ایک ایسا جملہ نظر آیا جسے میں نے کئی مرتبہ پڑھا اور جس چیز کی تلاش تھی وہ مل گئی اس نے یہ معما حل کردیا اور میری حیران فکر کو سکون بخشا۔

۵۳

حضرت امیرالمومنین(ع) قرآن مجید کے متعلق نہج البلاغہ کے سب سے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں:

” کچھ آیات و احکام ہیں جو اپنے وقت  پر واجب ہیں لیکن مستقبل میں ان کا وجوب نہیں رہتا۔“

حضرت(ع) کے اس کلام سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ وہ آیات ہیں جن پرعمل آںحضرت(ع) کے زمانہ میں ممکن تھا۔ لیکن مستقبل میں ستمگروں اور کافروں کے قبضہ کی وجہ سے غیر ممکن ہوجائے گا۔

لہذا اگر کوئی روز قیامت اپنے خدا سے کہے :

پروردگار ! میں تیری زمین پر کمزور و لاچار تھا تو وہ خداوند عالم جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے اسے پتہ ہے کہ وہ ایسے ہی زمانہ میں تھا تو وہ اس سے یہ نہ فرمائے گا کہ تیری جگہ دوزخ ہے اور نہ بہت ہی بری جگہ ہے۔

اور اگر کوئی اس وقت اپنے رب سے کہے کہ :

پروردگارا ! مجھے تیرے گھر آنے سے روک دیا گیا۔ میں تیرا حج نہ کرسکا۔ تو اسے یہ جواب ملے گا : میں نے بھی تجھ سے کہا تھا اگر تم میں حج کرنے کی استطاعت و قدرت ہوتو کرنا پس تمہارا عذر معقول ہے اور جس شخص نے تم کو آنے سے روکا وہ ذمہ دار ہے اور اسی کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔

اے امیر المومنین(ع) ! آپ پر سلام ہو۔ جس روز آپ نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں اور جس روز آپ نے اس دنیا سے وفات پائی اور جس روز بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوں گے۔(۲۸)

۵۴

نیکی کی طرف دعوت اور برائی سے روکنا

اس نئے تمدن نے سامراج کےدرمیان جن سیاسی مشکلات کوجنم دیا ان  میں سے ایک خود بینی بھی ہے۔ یعنی ہر آدمی صرف اپنی فکر میں ہو اور دوسرون کا ذرا بھی خیال نہ کرے۔ خود سلامت رہے، دوسرے جہنم میں جائیں! یہ بدترین صورت حال ہے جس مٰںآج کا انسانی سماج گرفتار ہے وہ بھی اس طرح کہ امت کے مفادات تو خطرہ میں وہں اور انجام نا معلوم ہو لیکن نہ کوئی آواز اٹھائے اور نہ آگے قدم بڑھائے۔ ایسی صورت میں بہادری، مردانگی، ایثار، جہاد، ظالموں کے مقابلہ میں استقامت جیسے عظیم اقدار نابود ہوجائیں گے۔ دین کا رنگ پھیکا اور ضمیر کی موت واقع ہوجائے گی۔

جیسا کہ ہم نے پہلے قرآن سے استدالال پیش کیا، بعض احادیث کے ذریعہ بھ اسی طرح استدالال پیش کرںگے۔ رسول خدا(ص) کا قول جس پر سبھی کا اتفاق ہے سے ساتھ ملکر پڑھتے ہیں۔ آںحضرت(ص) فرماتے ہیں:

”تم کو چاہئے کہ لوگوں کو بیکی کی طرف دعوت دو اور برائی سے روکو نہیں تو خدا تم میں سب سے برے کو تم پر مسلط کردے گا پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے لیکن ان کی دعا مستجاب نہ ہوگی۔“

نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا امت کی زندگی کے لیے ایک لازمی امر ہے اسی لئے ائمہ(ع) نے اسے دین کے ارکان میں شمار کیا ہے۔ یہی وہ ہے کہ معاصر اسلامی گروہ جو نعرہ سب سے پہلے بلند کرتے ہیں وہ امربالمعروف اورنہی ازمنکرکا نعرہ ہے۔ لیکن ترقی یافتہ سماج شدت سے اس نعرہ کے مخالف ہیں اور

۵۵

 اس کے مقابلہ کے لیے انہوں نے مختلف تنظیمیں بنا رکھی رہیں۔ جیسے  انسانی حقوق کی تنظیم، خواتین کے حقوق کی تنظیم اور جمعیت تحفظ حیوانات و غیرہ۔۔۔ لہذا اگر خودحکومت اس اہم امر ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) کو اپنے ذمہ نہ لے تو یہ محال ہے کہ لوگوں کی جماعت اسے انجام دے سکے متفرق افراد کا تو شمار ہی نہیں۔

آج آپ خود بہت سی برائیوں کےشاہد ہیں لیکن انکی مخالفت کرنےکی قوت نہیں رکھتے یہاں تک کہ اگر نہی از منکر کریں تو ممکن ہے مد مقابل چاہے لڑکی ہو یا لڑکا آپ کے خلاف کورٹ میں مقدمہ درج کرسکتا ہے پھر بڑے اچھے انداز آپ سے کہا جائے گا اس سے تمہیں کیا سروکار ! بے جا مداخلت نہ کرو! اور اگر آپ نے کہا میں امر بالمعروف اور نہی از منکر کررہا ہوں تو آپ کو جواب ملے گا یہ حق تم کو کس نے دیا اور کس طرح تمہیں حاصل ہے؟

خود مجھے اس کا تلخ تجربہ ہے جیسا کہ بعض دیگر مسلمانوں کے ساتھ یہ صورتحال پیش آئی ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں تلخی، ناچاری اور افسردگی کا مزا مجھے اب بھی محسوس ہوتا ہے اور دو باتوں کے درمیان اب بھی سرگرداں ہوں۔

اولاً ۔ میرا عقیدہ مجھے اپنے شرعی فرائض کی ادائیگی کےلئے آگے بڑھاتا ہے اور اگر خاموشی اختیار کروں تو جواب دہ ہونا پڑےگا۔

ثانیاً ۔ جس فضا میں زندگ گزار رہا ہوں اس نےمجھ سے اس حق کو زبردستی چھین رکھا ہے اور مجھے خائف کررہی ہے کہمیں پھر اس فریضہ کو انجام نہ دوں میں گورنر کی گفتگو نہیں بھول سکتاایک روز اس نے کہا تھا کیا تم خدا کے رسول(ص) ہو؟ اور خدا نے تمہیں نئے دین کے ساتھ مبعوث کیا ہے کہ لوگوں کی اصلاح کرو؟ میں نے اسے جواب دیا  ہرگز نہیں !

اس نے کہا : اچھا پھر جاؤ خود کو اور اپنے گھر والوں کو دیکھو اور ہمیں اپنے

۵۶

شر سے نجات دو! ہم لوگوں کی سلامتی اور ان کےامن و امان کے ذمہ دار ہیں اور اگر ہر برے غیرے کو امر و نہی کی اجازت دے دیں تو ملک ہرج ومرج کا شکار ہوجائے گا۔

میں بھی اپنی جگہ چپ بیٹھ رہا اگر چہ اندر سے اپنے فریضہ کا احساس کرتا تھا اور کرنے نہ کرنے کے درمیان سالوں کذر گئے یہاں تک کہ رسول گرامی(ص) کی حدیث نظروں سے گذری جس میں آپ(ص)  فرماتے ہیں۔

” تم میں سے جو بھی کسی برائی کو دیکھے تو اسے خود اپنے ہاتھ سے ختم کرے اور اگر قادر نہ ہو تو زبان سے اور اگر اس کا بھی امکان نہ ہوتو اپنے قلب سے اور یہ ایمان کا نہایت ہی ضعیف مرحلہ ہے۔“

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

” خدا نے ہم سے پہلے کسی ایسے نبی کو مبعوث نہیں فرمایا جس کے حواری و اصحاب نہ رہے ہوں وہ اس کی سنت پر عمل رتے تھے اور اس کے حکم کی اطاعت کرتے تھے۔ ان کے بعد دوسرا گروہ ان کا جانشین بنتا گیا لیکن یہ جو کہتے اس پر عمل نہ کرتے تھے اور جو کرتے اس کا انہیں حکم نہ ہوتا تھا لہذا جو بھی ایسوں سے اپنے ہاتھ اور اپنی قوت سے ان سے مقابلہ اور جہاد کرے مومن ہے اور جو اپنی زبان سے ان کا مقابلہ کرے مومن ہے۔ اسی طرح جو اپنے قلب سے ان کا مقابلہ کرے وہ بھی مومن ہے اور اس کےبعد تو پھر رائی کے ایک دانہ ے برابر بھی ایمان باقی نہیں بچتا۔“

میں نے پروردگار عالم کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری قوت سے زیادہ ہمیں تکلیف نہیں دی ہے۔ بے شک آںحضرت(ص) کی یہ حدیث کتاب خدا کی تفسیر کرتی ہے۔ چون کہ ماضی، حال اور مستقبل کا علم خدا کے پاس ہے لہذا اسے معلوم تھا کہ ایک زمانہ مسلمان پر ایسا آئے گا کہ وہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کی قوت

۵۷

 نہ رکھتے ہوںگے۔ اسی کے پیش نظر اس نے حکم کو آسان رکھا۔ اور ان کی قوت سے زیادہ ان سے طلب نہ کیا آحضرت(ص) نے نہی از منکر کے مراحل کو تدریجا بیان فرمایا ہے اور یہ اسلامی سماج میں تبدیلی اور قوت کے ضعف میں بدلجانے کے اوپر دلیل ہے اسی طرح حالات کے بدلنے کی صورت میں حکم شرعی میں تبدیلی کے اوپر بھی دلیل ہے۔

تو جس کے پاس قوت ہے اسے طاقت سے برائیوں کا مقابلہ کرنا چاہئے لیکن جس کے پاس قوت نہیں ہے لیکن زبان سے منکرات کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے چاہئے کہ زبان سے ان کا مقابلہ کرے۔لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ اس کے کہنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا یا اس کی وجہ سے دردسر اور مشکلات پیدا ہوجائیں گی تو اس صورت میں منہ سے کوئی بات کہے بغیر صرف قلبی مخالفت کافی ہے۔پس کس درجہ بے نیاز ہے وہ رب جس نے لوگوں کو ان کی قوت سے زیادہ تکلیف نہیں دی ہے۔ اور بے شمار درود ہو اس نبی(ص)  رحمت پر جو مومنین پر خود ان سے زیادہ مہربان تھا اسی طرح ان کی پاک و طاہر آل(ع) پر بھی درود و سلام ہو۔(۳۲)

۵۸

مہذب انسان، آسان شریعت

بلاشبہ جو آسمانی ادیان خداوند عالم کی جانب سے نازل ہوئے ہیں ان کا مقصد سب سے پہلے: انسان میں پروردگار عالم کی معرفت پیدا کرنا تھااور اس کو بت پرستی،شرک اور مختلف طرح کی گمراہی سے نجات دینا تھا۔

دوسرے : اس کی سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنا تھا اور یہ مقاصد دو بنیادی چیزوں سے عبارت ہیں:

۱۔ ایمان

۲۔ عمل

اورجب کبھی ایمان و عمل کہا جائے تو اس سے مراد صحیح ایمان اور عمل صالح ہے۔ لہذا ہر ایمان و عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہے اس لیے کہ ممکن ہے انسان مختلف عقائد پر ایمان رکھے لیکن اسلام سے اس کا ذرہ برابر بھی ربط نہ ہو اور ممکن ہےکہعقائد اسے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ہاتھ لگے ہوں اور بالفرض صحیح ہوں تو بھی ممکن ہے اس میں تغیر و تبدیلی پیدا ہوگئی ہو۔

خداوند عالم فرماتا ہے۔

اور جب ان سے کہا گیا کہ جو قرآن خدا نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ تو کہنے لگے ہم تو اس کتاب توریت پر ایمان لائے ہوئے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی گے اور اس کے بعد آئی ہے نہیں مانتے حالاںکہ وہ ( قرآن) حق ہے اور اس کتاب (توریت) کی جو ان کے پاس ہےتصدیق بھی کرتا ہے۔( بقرہ/۹۱)

۵۹

بعض اوقات انسان کسی کام کو یہ سمجھ کر انجام دیتا ہے کہ اس میں بشریت کے لیے فائدہ ہے جب کہ اس کے کاموں سے سوائے نقصان و ضرر کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

خداوند عالم فرماتا ہے۔

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ کرتے پھرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرتے ہیں خبردار ہوجاؤ ! بیشک یہ لوگ فسادی ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ (بقرہ / ۱۱ / ۱۲)

یا ممکن ہے انسان نیک کام کرے جو بشریت کے لیے بہت مفید اور فائدہ مند ہو لیکن اس نے اسے خدا کے لیے انجام نہ دیا ہو بلکہ اس کا مقصد صرف دکھاوا او ریاکاری ہو تو اس طرح کا عمل سراب اور دھوکہ ہے کہ دور سے پیاسے اس کی طرف پانی سمجھ کر آئیں لیکن جب نزدیک پہنچیں تو کچھ نہ پائیں۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

اور ان لوگوں نے دنیا میں جو کچھ نیک کام کئےہیںہمانکیطرفتوجہکریںگے (کہوہفاسداورغیرخالصاعمالہیں ) گویا اڑتی ہوئی خاک بنا ( کر برباد کر) دیں گے۔(فرقان / ۲۳)

اگر دین انسان کے لیے راہنمائی ہے جس کے ذریعہ وہ ہدایت پائے اور ترقی کرے اس لیے کہ ابتدائے خلقت سے انسان جہاں بھی تھا  وہاں دین موجود تھا اور یہ بات موجودہ تحقیقات اور آثار قدیمہ کی شناخت کرنے والوں کے ذریعہ بھی مسلم ہوچکی ہے کہ ابتدا میں رہنے والے انسان بہت سی چیزوں سے ناواقف تھے اور بہت عرصے کے بعد انھیںاس کا علم ہوا لیکن انکے یہاں پہلے سے ہیہ عبادت گاہ نظر آتی ہے اور اسی مطلب کی طرف پروردگار عالم کا قول اشارہ کرتا ہے۔

لوگوں کی عبادت کے واسطے جو گھر سب سے پہلے بنایا گیا وہ یقینا

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

(۴۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند المسير إلى الشام قيل إنه خطب بها وهو بالنخيلة خارجا من الكوفة إلى صفين

الْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا وَقَبَ لَيْلٌ وغَسَقَ والْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وخَفَقَ والْحَمْدُ لِلَّه غَيْرَ مَفْقُودِ الإِنْعَامِ ولَا مُكَافَإِ الإِفْضَالِ.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِي وأَمَرْتُهُمْ بِلُزُومِ هَذَا الْمِلْطَاطِ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرِي - وقَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَقْطَعَ هَذِه النُّطْفَةَ إِلَى شِرْذِمَةٍ مِنْكُمْ - مُوَطِّنِينَ أَكْنَافَ دِجْلَةَ - فَأُنْهِضَهُمْ مَعَكُمْ إِلَى عَدُوِّكُمْ - وأَجْعَلَهُمْ مِنْ أَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَكُمْ.

قال السيد الشريف أقول يعنيعليه‌السلام بالملطاط هاهنا السمت الذي أمرهم بلزومه وهو شاطئ الفرات ويقال ذلك أيضا لشاطئ البحر وأصله ما استوى من الأرض ويعني بالنطفة ماء الفرات وهو من غريب العبارات وعجيبها.

(۴۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا)

پروردگار کی حمد ہے جب بھی رات آئے اورتاریکی چھائے یا ستارہ چمکے اورڈوب جائے۔پروردگار کی حمدوثنا ہے کہ اس کی نعمتیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔

امابعد! میں نے اپنے لشکر کا ہر اول دستہ روانہ کردیا ہے اور انہیں حکم دے دیا ہے کہ اس نہر کے کنارے ٹھہر کر میرے حکم کا انتظار کریں۔میں چاہتا ہوں کہ اس دریائے دجلہ کو عبور کرکے تمہاری(۱) ایک مختصرجماعت تک پہنچ جائوں جو اطراف دجلہ میں مقیم ہیں تاکہ انہیں تمہارے ساتھ جہاد کے لئے آمادہ کر سکوں اور ان کے ذریعہ تمہاری قوت میں اضافہ کر سکوں۔

سید رضی : ملطاط سے مراد دریا کا کنار ہ ہے اور اصل میں یہ لفظ ہموار زمین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نطفہ سے مراد فرات کا پانی ہے اور یہ عجیب و غریب تعبیرات میں ہے۔

(۱)اس جماعت سے مراد اہل مدائن ہیں جنہیں حضرت اس جہاد میں شامل کرنا چاہتے تھے اور ان کے ذریعہ لشکر کی قوت میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔خطبہ کے آغاز میں رات اور ستاروں کاذکر اسامر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لشکراسلام کو رات کی تاریکی اورستارہ کے غروب و زوال سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔نور مطلق اور ضیاء مکمل ساتھ ہے تو تاریکی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور ستاروں کا کیا بھروسہ ہے۔ستارے تو ڈوب بھی جاتے ہیں لیکن جو پروردگار قابل حمدو ثناء ہے اس کے لئے زوال و غروب نہیں ہے اور وہ ہمیشہ بندۂ مومن کے ساتھ رہتا ہے۔!

۸۱

(۴۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه جملة من صفات الربوبية والعلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي بَطَنَ خَفِيَّاتِ الأَمُوُرِ - ودَلَّتْ عَلَيْه أَعْلَامُ الظُّهُورِ - وامْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ - فَلَا عَيْنُ مَنْ لَمْ يَرَه تُنْكِرُه - ولَا قَلْبُ مَنْ أَثْبَتَه يُبْصِرُه - سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْءَ أَعْلَى مِنْه - وقَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْءَ أَقْرَبُ مِنْه - فَلَا اسْتِعْلَاؤُه بَاعَدَه عَنْ شَيْءٍ مِنْ خَلْقِه - ولَا قُرْبُه سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِه - لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِه - ولَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِه - فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَه أَعْلَامُ الْوُجُودِ - عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ - تَعَالَى اللَّه عَمَّا يَقُولُه الْمُشَبِّهُونَ بِه - والْجَاحِدُونَ لَه عُلُوّاً كَبِيراً!

(۴۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جو مخفی امور کی گہرائیوں سے با خبر ہے اوراس کے وجود کی رہنمائی ظہور کی تمام نشانیاں کر رہی ہیں۔وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں آنے والا نہیں ہے لیکن نہ کسی نہ دیکھنے والے کی آنکھ اس کا انکار کر سکتی ہے۔اورنہ کسی اثبات کرنے والے کا دل اس کی حقیقت کو دیکھ سکتا ہے۔وہ بلندیوں میں اتنا آگے ہے کہ کوئی شے اس سے بلند تر نہیں ہے اور قربت میں اتنا قریب ہے کہ کوئی شے اس سے قریب تر نہیں ہے۔نہ اس کی بلندی اسے مخلوقات سے دور بنا سکتی ہے اور نہ اس کی قربت برابر کی جگہ پر لا سکتی ہے۔اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدوں سے باخبر نہیں کیاہے اوربقدر واجب معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا ہے۔وہ ایسی ہستی ہے کہ اس کے انکار کرن والے کے دل پر اس کے وجود کی نشانیاں شہادت دے رہی ہیں۔وہ مخلوقات سے تشبیہ دینے والے اور انکار کرنے والے دونوں کی باتوں سے بلند وبالاتر ہے۔

۸۲

(۵۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه بيان لما يخرب العالم به من الفتن وبيان هذه الفتن

إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وأَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ - يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّه - ويَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّه - فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ - لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ ولَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ - انْقَطَعَتْ عَنْه أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ - ولَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ ومِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ - فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِه - ويَنْجُو( الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ ) مِنَ اللَّه( الْحُسْنى ).

(۵۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے)

فتنوں) ۱) کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جوگڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سے الگ ہو جاتے ہیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلب گاروں پرمخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں۔لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے ' اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے اورایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اورصرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہی جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔

(۱)اس ارشاد گرامی کا آغاز لفظ انما سے ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کا ہرفتنہ خواہشات کی پیروی اور بدعتوں کی ایجاد سے شروع ہوتا ہے اور یہی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر امت اسلامیہ نے روز اول کتاب خدا کے خلاف میراث کے احکام وضع نہ کئے ہوتے اور اگرمنصب و اقتدار کی خواہش میں ''من کنت مولاہ '' کا انکار نہ کیا ہوتااور کچھ لوگ کچھ لوگوں کے ہمدرد نہ ہوگئے ہوتے اور نص پیغمبر (ص) کے ساتھ سن و سال اورصحابیت و قرابت کے جھگڑے نہ شامل کردئیے ہوتے تو آج اسلام بالکل خالص اورصریح ہوتا اور امت میں کسی طرح کا فتنہ وفساد نہ ہوتا۔لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ ہوگیا اور امت ایک دائمی فتنہ میں مبتلا ہوگئی جس کا سلسلہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔

۸۳

(۵۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما غلب أصحاب معاوية أصحابهعليه‌السلام على شريعة الفرات بصفين ومنعوهم الماء

قَدِ اسْتَطْعَمُوكُمُ الْقِتَالَ فَأَقِرُّوا عَلَى مَذَلَّةٍ وتَأْخِيرِ مَحَلَّةٍ - أَوْ رَوُّوا السُّيُوفَ مِنَ الدِّمَاءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ فَالْمَوْتُ فِي حَيَاتِكُمْ مَقْهُورِينَ،والْحَيَاةُ فِي مَوْتِكُمْ قَاهِرِينَ - أَلَا وإِنَّ مُعَاوِيَةَ قَادَ لُمَةً مِنَ الْغُوَاةِ - وعَمَّسَ عَلَيْهِمُ الْخَبَرَ - حَتَّى جَعَلُوا نُحُورَهُمْ أَغْرَاضَ الْمَنِيَّةِ.

(۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في التزهيد في الدنيا وثواب الله للزاهد ونعم الله على الخالق

التزهيد في الدنيا

أَلَا وإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَصَرَّمَتْ وآذَنَتْ بِانْقِضَاءٍ - وتَنَكَّرَ مَعْرُوفُهَا وأَدْبَرَتْ حَذَّاءَ فَهِيَ تَحْفِزُ بِالْفَنَاءِ سُكَّانَهَا - وتَحْدُو بِالْمَوْتِ جِيرَانَهَا

(۵۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا)

دیکھو دشمنوں نے تم سے غذائے جنگ کا مطالبہ کردیا ہے اب یا تو تم ذلت اوراپنے مقام کی پستی پر قائم رہ جائو'یااپنی تلواروں کو خون سے سیراب کر دو اورخود پانی سے سیراب ہو جائو۔در حقیقت موت ذلت کی زندگی میں ہے اور زندگی عزت کی موت میں ہے۔آگاہ ہو جائو کہ معاویہ گمراہوں کی ایک جماعت کی قیادت کر رہا ہے جس پر تمام حقائق پوشیدہ ہیں اور انہوں نے جہالت کی بناپ ر اپنی گردنوں کو تیر اجل کا نشانہ بنادیا ہے۔

(۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے )

آگاہ ہو جائو دنیا جا رہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں۔وہ تیزی سے منہ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف سے جا رہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔

۸۴

وقَدْ أَمَرَّ فِيهَا مَا كَانَ حُلْواً وكَدِرَ مِنْهَا مَا كَانَ صَفْواً - فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا سَمَلَةٌ كَسَمَلَةِ الإِدَاوَةِ أَوْ جُرْعَةٌ كَجُرْعَةِ الْمَقْلَةِ لَوْ تَمَزَّزَهَا الصَّدْيَانُ لَمْ يَنْقَعْ فَأَزْمِعُوا عِبَادَ اللَّه - الرَّحِيلَ عَنْ هَذِه الدَّارِ الْمَقْدُورِ عَلَى أَهْلِهَا الزَّوَالُ - ولَا يَغْلِبَنَّكُمْ فِيهَا الأَمَلُ - ولَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمْ فِيهَا الأَمَدُ.

ثواب الزهاد

فَوَاللَّه لَوْ حَنَنْتُمْ حَنِينَ الْوُلَّه الْعِجَالِودَعَوْتُمْ بِهَدِيلِ الْحَمَامِ وجَأَرْتُمْ جُؤَارَ مُتَبَتِّلِي الرُّهْبَانِ - وخَرَجْتُمْ إِلَى اللَّه مِنَ الأَمْوَالِ والأَوْلَادِ - الْتِمَاسَ الْقُرْبَةِ إِلَيْه فِي ارْتِفَاعِ دَرَجَةٍ عِنْدَه - أَوْ غُفْرَانِ سَيِّئَةٍ أَحْصَتْهَا كُتُبُه - وحَفِظَتْهَا رُسُلُه لَكَانَ قَلِيلًا فِيمَا أَرْجُو لَكُمْ مِنْ ثَوَابِه - وأَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ عِقَابِه.

اس کی شیرینی تلخ ہو چکی ہے اور اس کی صفائی مکدر ہو چکی ہے۔اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو تہہ میں بچا ہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیا سا پی بھی لے تو اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے۔لہٰذا بندگان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جس کے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبر دار! تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا۔

خدا کی قسم اگر تم ان اونٹنیوں کی طرح بھی فریاد کرو جن کا بچہ گم ہوگیا ہو اور ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو جو اپنے جھنڈ سے الگ ہوگئے ہوں اور ان راہبوں کی طرح بھی گریہ و فریاد کرو جو اپنے گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں اور مال و اولاد کو چھوڑ کر قربت خدا کی تلاش میں نکل پڑو تاکہ اس کی بارگاہ میں درجات بلند ہو جائیں یا وہ گناہ معاف ہو جائیں جو اس کے دفتر میں ثبت ہوگئے ہیں اور فرشتوں نے انہیں محفوظ کرلیا ہے تو بھی یہ سب اس ثواب سے کم ہوگا(۱) جس کی میں تمہارے بارے میں امید رکھتا ہوں یا جس عذاب کا تمہارے بارے میں خوف رکھتا ہوں۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ '' فکر ہر کس بقدر ہمت اوست'' دنیا کا انسان کتنا ہی بلند نظر اور عالی ہمت کیوں نہ ہو جائے مولائے کائنات کی بلندی فکر کو نہیں پا سکتا ہے اور اس درجہ علم پرفائز نہیں ہو سکتا ہے جس پر مالک کائنات نے باب مدینتہ العلم کوفائز کیا ہے۔آپ فرمانا چاہتے ہیں کہ تم لوگ میری اطاعت کرو اور میرے احکام پر عمل کرو۔اس کا اجروثواب تمہارے افکار کی رسائی کی حدوں سے بالاتر ہے۔میں تمہارے لئے بہترین ثواب کی امید رکھتا ہوں اور تمہیں بد ترین عذاب سے بچانا چاہتا ہوں لیکن اس راہ میں میرے احکام کی اطاعت کرنا ہوگی اور میرے راستہ پر چلنا ہوگا جو در حقیقت شہادت اورقربانی کا راستہ ہے اور انسان اسی راستہ پر قدم آگے بڑھانے سے گھبراتا ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک دنیا دار انسان جس کی ساری فکر مال دنیا اورثروت دنیا ہے وہ بھی کسی ہلاکت کے خطرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے سارا مال و متاع قربان کردیتا ہے تو پھرآخر دیندار انسان میں یہ جذبہ کیوں نہیں پایا جاتا ہے؟ وہ جنت النعیم کو حاصل کرنے اور عذاب جہنم سے بچنے کے لئے اپنی دنیا کو قربان کیوں نہیں کرتا ہے؟ اس کا تو عقیدہ یہی ہے کہ دنیا چند روزہ اور فانی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے تو پھر فانی کوباقی کی راہ میں کیوں قربان نہیں کردیتا ؟''اف هذا الشی عجاب''

۸۵

نعم الله

وتَاللَّه لَوِ انْمَاثَتْ قُلُوبُكُمُ انْمِيَاثاً وسَالَتْ عُيُونُكُمْ مِنْ رَغْبَةٍ إِلَيْه أَوْ رَهْبَةٍ مِنْه دَماً - ثُمَّ عُمِّرْتُمْ فِي الدُّنْيَا مَا الدُّنْيَا بَاقِيَةٌ مَا جَزَتْ أَعْمَالُكُمْ عَنْكُمْ - ولَوْ لَمْ تُبْقُوا شَيْئاً مِنْ جُهْدِكُمْ - أَنْعُمَه عَلَيْكُمُ الْعِظَامَ وهُدَاه إِيَّاكُمْ لِلإِيمَانِ.

(۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكرى يوم النحر وصفة الأضحية

ومِنْ تَمَامِ الأُضْحِيَّةِ اسْتِشْرَافُ أُذُنِهَا وسَلَامَةُ عَيْنِهَا - فَإِذَا سَلِمَتِ الأُذُنُ والْعَيْنُ سَلِمَتِ الأُضْحِيَّةُ وتَمَّتْ - ولَوْ كَانَتْ عَضْبَاءَ الْقَرْنِ تَجُرُّ رِجْلَهَا إِلَى الْمَنْسَكِ

قال السيد الشريف والمنسك هاهنا المذبح.

(۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف أصحابه بصفين حين طال منعهم له من قتال أهل الشام

خدا کی قسم اگر تمہارے دل بالکل پگھل جائیں اور تمہاری آنکھوں سے آنسوئوں کے بجائے رغبت ثواب یا خوف عذاب میں خون جاری ہوجائے اور تمہیں دنیا میں آخر تک باقی رہنے کا موقع دے دیا جائے تو بھی تمہارے اعمال اس کی عظیم ترین نعمتوں اور ہدایت ایمان کا بدلہ نہیں ہو سکتے ہیں چاہے ان کی راہ میں تم کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھو۔

(۵۳)

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے)

قربانی کے جانور کا کمال یہ ہے کہ اس کے کان بلند ہوں اور آنکھیں سلامت ہوں کہ اگر کان اور آنکھ سلامت ہیں توگویا قربانی سالم اورمکمل ہے چاہے اس کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو اور وہ پیروں کو گھسیٹ کر اپنے کوقربان گاہ تک لے جائے۔

سید رضی : اس مقام پر منسلک سے مراد مذبح اورقربان گاہ ہے۔

(۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے)

۸۶

فَتَدَاكُّوا عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ يَوْمَ وِرْدِهَا وقَدْ أَرْسَلَهَا

رَاعِيهَا وخُلِعَتْ مَثَانِيهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ أَوْ بَعْضُهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَدَيَّ - وقَدْ قَلَّبْتُ هَذَا الأَمْرَ بَطْنَه وظَهْرَه حَتَّى مَنَعَنِي النَّوْمَ - فَمَا وَجَدْتُنِي يَسَعُنِي إِلَّا قِتَالُهُمْ - أَوِ الْجُحُودُ بِمَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَكَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مُعَالَجَةِ الْعِقَابِ - ومَوْتَاتُ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مَوْتَاتِ الآخِرَةِ.

(۵۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد استبطأ أصحابه إذنه لهم في القتال بصفين

لوگ مجھ) ۱ ( پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے وہ پیاسے اونٹ پانی پر ٹوٹ پڑتے ہیں جن کے نگرانوں نے انہیں آزاد چھوڑ دیا ہو اور ان کے پیروں کی رسیاں کھول دی ہوں یہاں تک کہ مجھے یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ مجھے مار ہی ڈالیں گے یا ایک دوسرے کوقتل کردیں گے۔میں نے اس امرخلافت کو یوں الٹ پلٹ کردیکھاہے کہ میری نیند تک اڑ گئی ہے اور اب یہ محسوس کیا ہے کہ یا ان سے جہاد کرنا ہوگا یا پیغمبر (ص) کے احکام کا انکار کر دینا ہوگا۔ظاہر ہے کہ میرے لئے جنگ کی سختیوں کا برداشت کرنا عذاب کی سختی برداشت کرنے سے آسان تر ہے اور دنیا کی موت آخرت کی موت اورتباہی سے سبک تر ہے۔

(۵۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں)

(۱)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اسلام میں روز اول سے بزور شمشیر بیعت لی جا رہی تھی اور انکار بیعت کرنے پر گھروں میں آگ لگائی جا رہی تھی یا لوگوں کو خنجر و شمشیر اورتازیانہ و درہ کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔اس میں یکبارگی یہ انقلاب کیسے آگیا کہ لوگ ایک انسان کی بیعت کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے اوریہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔کیا اس کا راز یہ تھا کہ لوگ اس ایک شخص کے علم و فضل ' زہد و تقویٰ اور شجاعت و کرم سے متاثر ہوگئے تھے۔ایسا ہوت تو یہ صورت حال بہت پہلے پیدا ہو جاتی اور لوگ اس شخص پر قربان ہو جاتے۔حالانکہ ایسا نہیں ہو سکا جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نے شخصیت سے زیادہ حالات کو سمجھ لیا تھا۔اوریہ اندازہ کرلیا تھا کہ وہ شخص جو امت کے درمیان واقعی انصاف کر سکتا ہے اور جس کی زندگی ایک عام انسان کی زندگی کی طرح سادگی رکھتی ہے اور اس میں کسی طرح کی حرص و طمع کا گزر نہیں ہے وہ اس مرد مومن اور کل ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی بیعت میں سبقت کرنا ایک انسانی اور ایمان فریضہ ہے اور در حقیقت مولائے کائنات نے اس پوری صورت حال کو ایک لفظ میں واضح کردیا ہے کہ یہ دن در حقیقت پیاسوں کے سیراب ہونے کادن تھا اور لوگ مدتوں سے تشنہ اورتشنہ کام تھے لہٰذا ان کاٹوٹ پڑنا حق بجانب تھا اس ایک تشبیہ سے ماضی اورحال دونوں کا مکمل اندازہ کیا جا سکتا ہے۔!

۸۷

أَمَّا قَوْلُكُمْ أَكُلَّ ذَلِكَ كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ - فَوَاللَّه مَا أُبَالِي - دَخَلْتُ إِلَى الْمَوْتِ أَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ إِلَيَّ - وأَمَّا قَوْلُكُمْ شَكَّاً فِي أَهْلِ الشَّامِ - فَوَاللَّه مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ يَوْماً - إِلَّا وأَنَا أَطْمَعُ أَنْ تَلْحَقَ بِي طَائِفَةٌ فَتَهْتَدِيَ بِي - وتَعْشُوَ إِلَى ضَوْئِي - وذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقْتُلَهَا عَلَى ضَلَالِهَا - وإِنْ كَانَتْ تَبُوءُ بِآثَامِهَا.

(۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يصف أصحاب رسول الله وذلك يوم صفين حين أمر الناس بالصلح

ولَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَقْتُلُ آبَاءَنَا وأَبْنَاءَنَا وإِخْوَانَنَا وأَعْمَامَنَا - مَا يَزِيدُنَا ذَلِكَ إِلَّا إِيمَاناً وتَسْلِيماً -

تمہارا یہ سوال کہ کیا یہ تاخیر موت کی ناگواری سے ہے تو خدا کی قسم مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں اس کے پاس وارد ہو جائوں یا وہ میری طرف نکل کر آجائے۔اور تمہارا یہ خیال کہ مجھے اہل شام کے باطل کے بارے میں کوئی شک ہے۔تو خدا گواہ ہے کہ میں نے ایک دن بھی جنگ کو نہیں ٹالا ہے مگر اس خیال سے کہ شائد کوئی گروہ مجھ سے ملحق ہو جائے اور ہدایت پاجائے اورمیری روشنی میں اپنی کمزور آنکھوں کا علاج کرلے کہ یہ بات میرے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کی گمراہی کی بنا پر اسے قتل کردوں اگرچہ اس قتل کا گناہ اسی کے ذمہ ہوگا۔

(۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا)

ہم(۱) رسول اکرم (ص) کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگ' بچے 'بھائی اور چچائوں کو بھی قتل کردیا کرتے تھے اوراس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا

(۱)حضرت محمد بن ابی بکر شہادت کے بعد معاویہ نے عبداللہ بن عامر حضرمی کو بصرہ میں دوبارہ فساد پھیلانے کے لئے بھیج دیا۔وہاں حضرت کے والی ابن عباس تھے اور وہ محمد کی تعریف کے لئے کوفہ آگئے تھے۔زیاد بن عبید ان کے نائب تھے۔انہوں نے حضرت کو اطلاع دی۔آپ نے بصرہ کے بنی تمیم کا عثمانی رجحان دیکھ کر کوفہ کے بنی تمیم کو مقابلہ پر بھیجنا چاہا لیکن ان لوگوں نے برادری سے جنگ کرنے سے انکار کردیا تو حضرت نے اپنے دور قدیم کا حوالہ دیا کہ اگر رسول اکرم (ص) کے ساتھ ہم لوگ بھی قبائلی تعصب کا شکار ہوگئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔اسلام حق و صداقت کا مذہب ہے اس میں قومی اورقبائلی رجحانات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

۸۸

ومُضِيّاً عَلَى

اللَّقَمِ وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الأَلَمِ وجِدّاً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - ولَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا والآخَرُ مِنْ عَدُوِّنَا - يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ يَتَخَالَسَانِ أَنْفُسَهُمَا أَيُّهُمَا يَسْقِي صَاحِبَه كَأْسَ الْمَنُونِ - فَمَرَّةً لَنَا مِنْ عَدُوِّنَا ومَرَّةً لِعَدُوِّنَا مِنَّا - فَلَمَّا رَأَى اللَّه صِدْقَنَا أَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ وأَنْزَلَ عَلَيْنَا النَّصْرَ - حَتَّى اسْتَقَرَّ الإِسْلَامُ مُلْقِياً جِرَانَه ومُتَبَوِّئاً أَوْطَانَه - ولَعَمْرِي لَوْ كُنَّا نَأْتِي مَا أَتَيْتُمْ - مَا قَامَ لِلدِّينِ عَمُودٌ ولَا اخْضَرَّ لِلإِيمَانِ عُودٌ - وايْمُ اللَّه لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَماً ولَتُتْبِعُنَّهَا نَدَماً!

(۵۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة رجل مذموم ثم في فضله هوعليه‌السلام

أَمَّا إِنَّه سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رَجُلٌ رَحْبُ الْبُلْعُومِ مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ يَأْكُلُ مَا يَجِدُ

تھا اور ہم برابر سیدھے راستہ پر بڑھتے ہی جا رہے تھے اور مصیبتوں کی سختیوں پر صبر ہی کرتے جا رہے تھے اور دشمن سے جہاد میں کوششیں ہی کرتے جا رہے تھے۔ہمارا سپاہی دشمن کے سپاہی سے اس طرح مقابلہ کرتا تھا جس طرح مردوں کا مقابلہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں۔اور ہر ایک کو یہی فکر ہو کہ دوسرے کو موت کا جام پلادیں۔پھر کبھی ہم دشمن کو مار لیتے تھے اور کبھی دشمن کو ہم پر غلبہ ہوجاتا تھا۔اس کے بعد جب خدا نے ہماری صداقت(۱) کوآزما لیا تو ہمارے دشمن پر ذلت نازل کردی اورہماری اوپر نصرت کا نزول فرمادیا یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ جم گیا اور اپنی منزل پر قائم ہوگیا۔ میری جان کی قسم اگر ہمارا کرداربھی تمہیں جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی۔خدا کی قسم تم اپنے کرتوت سے دودھ کے بدلے خون دوھوگے اور آخرمیں پچھتائو گے۔

(۵۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں)

آگاہ ہو جائو کہ عنقریب تم پر ایک شخص مسلط ہو گا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا۔جو پاجائے گا کھا جائے گا

(۱)ایک عظیم حقیقت کا اعلان ہےکہ پروردگار اپنے بندوں کی بہر حال مدد کرتا ہے۔اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ'' کان حقا علینا نصر المومنین '' (مومنین کی مدد ہماری ذمہ دری ہے )'' ان الله مع الصابرین '' ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) لیکن اس سلسلہ میں اس حقیقت کو بہرحال سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نصرت ایمان کے اظہار کے بعد اوریہ معیت صبر کیے بعد سامنے آتی ہے جب تک انسان اپنے ایمان و صبر کا ثبوت نہیں دیدیتا ہے خدائی امداد کا نزول نہیں ہوتا ہے۔'' ان تصنرو الله ینصر کم '' (اگرتم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔نصرت الٰہی تحفہ نہیں ہے مجاہدات کا انعام ہے۔پہلے مجاہدہ نفس اس کے بعد انعام۔!

۸۹

ويَطْلُبُ مَا لَا يَجِدُ - فَاقْتُلُوه ولَنْ تَقْتُلُوه - أَلَا وإِنَّه سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي والْبَرَاءَةِ مِنِّي - فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّه لِي زَكَاةٌ ولَكُمْ نَجَاةٌ - وأَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي - فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وسَبَقْتُ إِلَى الإِيمَانِ والْهِجْرَةِ.

(۵۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به الخوارج حين اعتزلوا الحكومة وتنادوا أن لا حكم إلا لله أَصَابَكُمْ حَاصِبٌ ولَا بَقِيَ مِنْكُمْ آثِرٌ أَبَعْدَ إِيمَانِي بِاللَّه،

وجِهَادِي مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - أَشْهَدُ عَلَى نَفْسِي بِالْكُفْرِ - لَالْكُفْرِ( قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وما أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ) - فَأُوبُوا شَرَّ مَآبٍ وارْجِعُوا عَلَى أَثَرِ الأَعْقَابِ أَمَا إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي ذُلاًّ شَامِلًا وسَيْفاً قَاطِعاً - وأَثَرَةً

اور جونہ پائے گا اس کی جستجو میں رہے گا۔تمہاری ذمہ داری ہوگی کہ اسے قتل کردو مگر تم ہر گز قتل نہ کرو گے۔ خیروہ عنقریب تمہیں' مجھے گالیاں دینے اور مجھ سے بیزاری کرنے کا بھی حکم دے گا۔تو اگر گالیوں کی بات ہو تو مجھے برا بھلا کہہ لینا کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سامان ہے اورتمہارے لئے دشمن سے نجات کا۔لیکن خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔

(۵۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے)

خدا کرے۔تم پرسخت آندھیاں آئیں اور کوئی تمہارے حال کا اصلاح کرنے والا نہ رہ جائے۔کیا میں پروردگار پر ایمان لانے اور رسول اکرم (ص) کے ساتھ جہاد کرنے کے بعد اپنے بارے میں کفر کا اعلان کردوں۔ایسا کروں گا تو میں گمراہ ہو جائوں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہ جائوں گا۔جائو پلٹ جائو اپنی بدترین منزل کی طرف اور واپس چلے جائو اپنے نشانات قدم پر۔مگرآگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہمہ گیر ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طریقۂ کار کا مقابلہ کرنا ہوگا

۹۰

يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّةً.

قال الشريف قولهعليه‌السلام ولا بقي منكم آبر يروى على ثلاثة أوجه:

أحدها أن يكون كما ذكرناه آبر بالراء - من قولهم للذي يأبر النخل أي يصلحه -. ويروى آثر وهو الذي يأثر الحديث ويرويه - أي يحكيه وهو أصح الوجوه عندي - كأنهعليه‌السلام قال لا بقي منكم مخبر -. ويروى آبز بالزاي المعجمة وهو الواثب - والهالك أيضا يقال له آبز

(۵۹)

وقالعليه‌السلام

لما عزم على حرب الخوارج - وقيل له:

إن القوم عبروا جسر النهروان!

مَصَارِعُهُمْ دُونَ النُّطْفَةِ - واللَّه لَا يُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ ولَا يَهْلِكُ مِنْكُمْ عَشَرَةٌ.

جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنالیں گے یعنی ہر چیز کو اپنے لئے مخصوص کرلینا۔

سید رضی : حضرت کا ارشاد 'لا بقی منکم آبر'' تین طریقوں سے نقل کیا گیا ہے:

آبر: وہ شخص جو درخت خرمہ کو کانٹ چھانٹ کر اس کی اصلاح کرتا ہے۔

آثر: روایت کرنے والا۔یعنی تمہاری خبر دینے والا بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔اوریہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

آبر: کودنے والا یا ہلاک ہونے والا کہ مزید ہلاکت کے لئے بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔

(۵۹)

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا

یادرکھو(۱) !دشمنوں کی قتل گاہ دریا کے اس طرف ہے۔خدا کی قسم نہ ان میں کے دس باقی بچیں گے اور نہ تمہارے دس ہلاک ہو سکیں گے ۔

(۱)جب امیر المومنین کو یہ خبردی گئی کہ خوارج نے سارے ملک میں فساد پھیلانا شروع کردیا ہے ۔جناب عبداللہ بن خباب بن الارت کو ان کے گھر کی عورتوں سمیت قتل کردیا ہے اور لوگوں میں مسلسل دہشت پھیلا رہے ہیں تو آپ نے ایک شخص کو سمجھانے کے لئے بھیجا۔ان ظالموں نے اسے بھی قتل کردیا۔اس کے بعد جب حضرت عبداللہ بن خباب کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو صاف کہہ دیا کہ ہم سب قاتل ہیں۔اس کے بعد حضرت نے بنفس نفیس توبہ کی دعوت دی لیکن ان لوگوں نے اسے بھی ٹھکرادیا۔آخر ایک دن وہ آگیا جب لوگ ایک لاش کو لے کرآئے اور سوال کیا کہ سرکار اب فرمائیں اب کیا حکم ہے؟ تو آپ نے نعرہ تکبیر بلندکرکے جہاد کا حکم دے دیا اور پروردگار کے دئیے ہوئے علم غیب کی بناپر انجام کار سے بھی با خبر کردیا جو بقول ابن الحدید صد فیصد صحیح ثابت ہوا اور خوارج کے صرف نو افراد بچے اور حضرت کے ساتھیوں میں صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔

۹۱

قال الشريف يعني بالنطفة ماء النهر - وهي أفصح كناية عن الماء وإن كان كثيرا جما - وقد أشرنا إلى ذلك فيما تقدم عند مضي ما أشبهه.

(۶۰)

وقالعليه‌السلام

لما قتل الخوارج فقيل له يا أمير المؤمنين هلك القوم بأجمعهم

كَلَّا واللَّه إِنَّهُمْ نُطَفٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ وقَرَارَاتِ النِّسَاءِ،كُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ - حَتَّى يَكُونَ آخِرُهُمْ لُصُوصاً سَلَّابِينَ.

(۶۱)

وقالعليه‌السلام

لَا تُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِي - فَلَيْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَأَخْطَأَه - كَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَأَدْرَكَه.

قال الشريف - يعني معاوية وأصحابه.

(۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما خوف من الغيلة

وإِنَّ عَلَيَّ مِنَ اللَّه جُنَّةً حَصِينَةً -.

سید رضی : نطفہ سے مراد نہر کا شفاف پانی ہے۔جو بہترین کنایہ ہے پانی کے بارے میں چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو

(۶۰)

آپ نے فرمایا

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے)

ہرگز نہیں۔خدا گواہ ہے کہ یہ ابھی مردوں کے صلب اورعورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں کوئی سر نکالے گا اسے کاٹ دیا جائے گا۔یہاں تک کہ آخرمیں صرف لٹیرے اورچور ہو کر رہ جائیں گے۔

(۶۱)

آپ نے فرمایا

خبر دار میرے بعد خروج کرنے والوں سے جنگ نہ کرنا کہ حق کی طلب میں نکل کر بہک جانے والا اس کا جیسا نہیں ہوتا ہے جو باطل کی تلاش میں نکلے اورحاصل بھی کرلے۔

سید شریف رضی نے فرمایا : یعنی معاویہ اور اس کے پیروکار

(۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا )

یاد رکھو میرے لئے خداکی طرف سے ایک مضبوط و مستحکم سپر ہے

۹۲

فَإِذَا جَاءَ يَوْمِي انْفَرَجَتْ عَنِّي وأَسْلَمَتْنِي - فَحِينَئِذٍ لَا يَطِيشُ السَّهْمُ ولَا يَبْرَأُ الْكَلْمُ

(۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحذر من فتنة الدنيا

أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا دَارٌ لَا يُسْلَمُ مِنْهَا إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنْجَى بِشَيْءٍ كَانَ لَهَا - ابْتُلِيَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً - فَمَا أَخَذُوه مِنْهَا لَهَا أُخْرِجُوا مِنْه وحُوسِبُوا عَلَيْه - ومَا أَخَذُوه مِنْهَا لِغَيْرِهَا قَدِمُوا عَلَيْه وأَقَامُوا فِيه - فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِي الْعُقُولِ كَفَيْءِ الظِّلِّ - بَيْنَا تَرَاه سَابِغاً حَتَّى قَلَصَ وزَائِداً حَتَّى نَقَصَ.

(۶۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المبادرة إلى صالح الأعمال

فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وابْتَاعُوا

اس کے بعد جب میرا دن آجائے گا تو یہ سپر مجھ سے الگ ہوجائےگااور مجھے موت کے حوالے کردے گا۔اس وقت نہ تیر خطاکرےگا اورنہ زخم مندمل ہو سکے گا

(۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے)

آگاہ ہوجائو کہ یہ دنیا ایساگھر ہےجس سےسلامتی کاسامان اسی کےاندرسےکیاجاسکتا ہےاورکوئی ایسی شےوسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہےجو دنیا ہی کےلئے ہولوگ اس دنیاکے ذریعہ آزمائےجاتے ہیں جولوگ دنیاکاسامان دنیا ہی کےلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسےچھوڑکرچلےجاتےہیں اورپھرحساب بھی دینا ہوتا ہےاورجولوگ یہاں سےوہاں کےلئےحاصل کرتےہیں وہ وہاں جاکرپالیتےہیں اوراسی میں مقیم ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا درحقیقت صاحبان عقل کی نظرمیں ایک سایہ جیسی ہے جودیکھتے دیکھتےسمٹ جاتا ہے اورپھیلتے پھیلتے کم ہو جاتا ہے۔

(۶۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں )

بندگان خدا! اللہ سے ڈرو اور اعمال کے ساتھ اجل(۱) کی طرف سبقت کرو۔اس دنیا کے فانی مال کے

(۱)انسان کے قدم موت کی طرف بلا اختیاربڑھتے جا رہے ہیں اور اسے اس امر کا احساس ا بھی نہیں ہوتا ہے نتیجہ یہ ہتا ہے کہ ایک دن موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور دائمی خسارہ اورعذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ اعمال کو ساتھ لے کر آگے بڑھے گاتا کہ جب موت کا سامانا ہوتواعمال کا سہارا رہے اورعذاب الیم سے نجات حاصل کرنے کا وسیلہ ہاتھ میں رہے۔

۹۳

مَا يَبْقَى لَكُمْ بِمَا يَزُولُ عَنْكُمْ وتَرَحَّلُوا فَقَدْ جُدَّ بِكُمْ واسْتَعِدُّوا لِلْمَوْتِ فَقَدْ أَظَلَّكُمْ وكُونُوا قَوْماً صِيحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوا - وعَلِمُوا أَنَّ الدُّنْيَا لَيْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوا - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى ومَا بَيْنَ أَحَدِكُمْ وبَيْنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ - إِلَّا الْمَوْتُ أَنْ يَنْزِلَ بِه - وإِنَّ غَايَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ وتَهْدِمُهَا السَّاعَةُ - لَجَدِيرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ - وإِنَّ غَائِباً يَحْدُوه الْجَدِيدَانِ - اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَحَرِيٌّ بِسُرْعَةِ الأَوْبَةِ وإِنَّ قَادِماً يَقْدُمُ بِالْفَوْزِ أَوِ الشِّقْوَةِ - لَمُسْتَحِقٌّ لأَفْضَلِ الْعُدَّةِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً فَاتَّقَى عَبْدٌ رَبَّه نَصَحَ نَفْسَه وقَدَّمَ تَوْبَتَه وغَلَبَ شَهْوَتَه - فَإِنَّ أَجَلَه مَسْتُورٌ عَنْه وأَمَلَه خَادِعٌ لَه - والشَّيْطَانُ مُوَكَّلٌ بِه يُزَيِّنُ لَه الْمَعْصِيَةَ لِيَرْكَبَهَا - ويُمَنِّيه التَّوْبَةَ لِيُسَوِّفَهَا

ذریعہ باقی رہنے والی آخرت کو خرید لو اور یہاں سے کوچ کر جائو کہ تمہیں تیزی سے لیجا یا جا رہا ہے اور موت کے لئے آمادہ ہوجائو کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے اس قوم جیسے ہو جائو جیسے پکارا گیا تو فورا ہوشیار ہوگئی۔اوراس نے جان لیا کہ دنیا اس کی منزل نہیں ہے تو اسے آخرت سے بدل لیا۔اس لئے کہ پروردگار نے تمہیں بیکارنہیں پیداکیا اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور یاد رکھو کہ تمہارے اور جنت و جہنم کے درمیان اتنا ہی وقفہ ہے کہ موت نازل ہو جائے اور انجام سامنے آجائے اور وہ مدت حیات جیسے ہر لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو منہدم کر رہی ہو وہ قصیر المدة ہی سمجھنے کا لائق ہے اور وہ موت جسے دن و رات ڈھکیل کر آگے لا رہے ہوں اسے بہت جلد آنے والا ہی خیال کرنا چاہیے اور وہ شخص جس کے سامنے کامیابی یا ناکامی اوربد بختی آنے والی ہے اسے بہترین سامان مہیا ہی کرنا چاہیے۔لہٰذا تم دنیا میں رہ کر دنیا سے زاد راہ حاصل کر لو جس سے کل اپنے نفس کاتحفظ کرس کو۔اس کا راستہ یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے ڈرے۔اپنے نفس سے اخلاص رکھتے ' توبہ کو مقدم کرے۔خواہشات پر غلبہ حاصل کرے اس لئے کہ اس کی اجل اس سے پوشیدہ ہے اور اس کی خواہش اسے مسلسل دھوکہ دینے والی ہے اور شیطان اس کے سر پر سوار ہے جو معصیتوں کو آراستہ کر رہا ہے تاکہ انسان مرتکب ہو جائے اور توبہ کی امیدیں دلاتا ہے تاکہ اس میں تاخیر کرے یہاں تک کہ غفلت اور بے خبری کے عالم میں موت اس پر

۹۴

إِذَا هَجَمَتْ مَنِيَّتُه عَلَيْه أَغْفَلَ مَا يَكُونُ عَنْهَا - فَيَا لَهَا حَسْرَةً عَلَى كُلِّ ذِي غَفْلَةٍ أَنْ يَكُونَ عُمُرُه عَلَيْه حُجَّةً - وأَنْ تُؤَدِّيَه أَيَّامُه إِلَى الشِّقْوَةِ - نَسْأَلُ اللَّه سُبْحَانَه - أَنْ يَجْعَلَنَا وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه نِعْمَةٌ ولَا تُقَصِّرُ بِه عَنْ طَاعَةِ رَبِّه غَايَةٌ - ولَا تَحُلُّ بِه بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ ولَا كَآبَةٌ.

(۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مباحث لطيفة من العلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ تَسْبِقْ لَه حَالٌ حَالًا - فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً - ويَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً - كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَه قَلِيلٌ - وكُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَه ذَلِيلٌ وكُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَه ضَعِيفٌ - وكُلُّ مَالِكٍ غَيْرَه مَمْلُوكٌ وكُلُّ عَالِمٍ غَيْرَه مُتَعَلِّمٌ - وكُلُّ قَادِرٍ غَيْرَه يَقْدِرُ ويَعْجَزُ - وكُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَه يَصَمُّ

حملہ آور ہوجاتی ہے۔ ہائے کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ انسان کی عمر ہی اس کے خلاف حجت بن جائے اور اس کا روز گار ہی اسے بدبختی تک پہنچادے۔پروردگار سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں قرار دے جنہیں نعمتیں مغرور نہیں بناتی ہیں اور کوئی مقصد اطاعت خدا میں کوتاہی پرآمادہ نہیں کرتا ہے اور موت کے بعد ان پر ندامت اور رنج و غم کا نزول نہیں ہوتا ہے۔

(۶۵)

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس کے صفات میں تقدم(۱) و تاخرنہیں ہوتا ہے کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول رہا ہو اور باطن بننے سے پہلے ظاہر رہا ہو۔اس کے علاوہ جسے بھی واحد کہا جاتا ہے اس کی وحدت قلت ہے اور جسے بھی عزیز سمجھا جاتا ہے ہے اس کی عزت ذلت ہے۔اس کے سامنے ہر قوی ضعیف ہے اور ہر مالک مملوک ہے' ہر عالم متعلم ہے اور ہر قادر عاجز ہے' ہر سننے والا لطیف آوازوں کے لئے بہرہ ہے اور اونچی آوازیں بھی اسے بہرہ بنا دیتی ہیں

(۱)یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کے صفات کمال عین ذات ہیں اور ذات سے الگ کوئی شے نہیں ہیں۔وہ علم کی وجہ سے عالم نہیں ہے۔بلکہ عین حقیقت علم ہے اور قدرت کے ذریعہ قادر نہیں ہے بلکہ عین قدرت کاملہ ہے اور جب یہ سارے صفات عین ذات ہیں تو ان میں تقدم و تاخر کا کوئی سوال ہی نہیں ہے وہ جس لحظہ اول ہے اسی لحظہ آخر بھی ہے اور جس اندازسے ظاہر ہے اسی اندازسے باطن بھی ہے۔اس کی ذات اقدس میں کسی طرح کا تغیر قابل تصور نہیں ہے حدیہ ہے کہ اس کی سماعت و بصارت بھی مخلوقات کی سماعت و بصارت سے بالکل الگ ہے۔دنیا کا ہر سمیع و بصیر کسی شے کو دیکھتا اور سنتا ہے اور کسی شے کے دیکھنے اورسننے سے قاصر رہتا ہے لیکن پروردگار کی ذات اقدس ایسی نہیں ہے وہ مخفی ترین مناظر ک دیکھ رہا ہے اور لطیف ترین آوازوں کو سن رہا ہے ۔وہ ایسا ظاہر ہے جو باطن نہیں ہے اور ایسا باطن ہے جو کسی عقل و فہم پرظاہر نہیں ہو سکتا ہے۔!

۹۵

عَنْ لَطِيفِ الأَصْوَاتِ - ويُصِمُّه كَبِيرُهَا ويَذْهَبُ عَنْه مَا بَعُدَ مِنْهَا - وكُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَه يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الأَلْوَانِ ولَطِيفِ الأَجْسَامِ - وكُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَه بَاطِنٌ وكُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَه غَيْرُ ظَاهِرٍ - لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَه لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ - ولَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ ولَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ ولَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ ولَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وعِبَادٌ دَاخِرُونَلَمْ يَحْلُلْ فِي الأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ كَائِنٌ - ولَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْه خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ - ولَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ ولَا وَقَفَ بِه عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ - ولَا وَلَجَتْ عَلَيْه شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وقَدَّرَ - بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وعِلْمٌ مُحْكَمٌ - وأَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ - الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ!

اور دور کی آوازیں بھی اس کی حد سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس طرح اس کے علاوہ ہر دیکھنے والا مخفی رنگ اور لطیف جسم کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہر ظاہر غیر باطن ہے اور ہر باطن غیر ظاہر ۔اس نے مخلوقات کو اپنی حکومت کے استحکام یا زمانہ کے نتائج کے خوف سے نہیں پیدا کیا ہے۔نہ اسے کسی برابر والے حملہ آور یا صاحب کثرت شریک یا ٹکرانیوالے مد مقابل کے مقابلہ میں مدد لینا تھی۔ یہ ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی اورپالی ہوئی ہے اور یہ سارے بندے اسی کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔اس نے اشیاء میں حلول نہیں کیا ہے کہ اسے کسی کے اندر سمایا ہوا کہا جائے اور نہ اتنا دور ہوگیا ہے کہ الگ تھلگ خیال کیا جائے۔مخلوقات کی خلقت اورمصنوعات کی تدبیر اسے تھکا نہیں سکتی ہے اور نہ کوئی تخلیق اسے عاجز بنا سکتی ہے اور نہ کسی قضاو قدر میں اسے کوئی شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس کا ہر فیصلہ محکم اوراس کا ہر علم متقن اور اس کا ہر حکم مستحکم ہے۔ناراضگی میں بھی اس سے امید وابستہ کی جاتی ہے اورنعمتوں میں بھی اس کا خوف لاحق رہتا ہے۔

۹۶

(۶۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في تعليم الحرب والمقاتلة

والمشهور أنه قاله لأصحابه ليلة الهرير أو أول اللقاء بصفين

مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ اسْتَشْعِرُوا الْخَشْيَةَ وتَجَلْبَبُوا السَّكِينَةَ وعَضُّوا عَلَى النَّوَاجِذِ فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ وأَكْمِلُوا اللأْمَةَ وقَلْقِلُوا السُّيُوفَ فِي أَغْمَادِهَا قَبْلَ سَلِّهَا - والْحَظُوا الْخَزْرَ واطْعُنُوا الشَّزْرَ ونَافِحُوا بِالظُّبَى وصِلُوا السُّيُوفَ بِالْخُطَا واعْلَمُوا أَنَّكُمْ بِعَيْنِ اللَّه ومَعَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّه - فَعَاوِدُوا الْكَرَّ واسْتَحْيُوا مِنَ الْفَرِّ فَإِنَّه عَارٌ فِي الأَعْقَابِ ونَارٌ يَوْمَ الْحِسَابِ - وطِيبُوا عَنْ أَنْفُسِكُمْ نَفْساً - وامْشُوا إِلَى الْمَوْتِ مَشْياً سُجُحاً وعَلَيْكُمْ بِهَذَا السَّوَادِ الأَعْظَمِ والرِّوَاقِ الْمُطَنَّبِ فَاضْرِبُوا ثَبَجَه فَإِنَّ الشَّيْطَانَ كَامِنٌ فِي كِسْرِه

(۶۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(تعلیم جنگ کے بارے میں )

مسلمانو!خوف(۱) خداکو اپنا شعار بنائو۔سکون و وقار کی چادر اوڑھ لو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اچٹ جاتی ہیں۔زرہ پوشی کو مکمل کرلو۔تلواروں کو نیام سے نکالنے سے پہلے نیام کے اندرحرکت دے لو۔دشمن کو ترچھی نظر سے دیکھتے رہو اور نیزوں سے دونوں طرف وار کرتے رہو۔اسے اپنی تلواروں کی باڑھ پر رکھو اور تلواروں کے حملے قدم آگے بڑھا کرکرو اوریہ یاد رکھو کہ تم پروردگار کی نگا ہ میں اور رسول اکرم (ص) کے ابن عم کے ساتھ ہو ۔دشمن پر مسلسل حملے کرتے رہو اور فرار سے شرم کرو کہ اس کا عار نسلوں میں رہ جاتا ہے اوراس کا انجام جہنم ہوتا ہے۔اپنے نفس کو ہنسی خوشی خدا کے حوالے کردو اور موت کی طرف نہایت درجہ سکون و اطمینان سے قدم آگے بڑھائو۔تمہارا نشانہ ایک دشمن کا عظیم لشکراورطناب دار خیمہ ہونا چاہیے کہ اسی کے وسط پرحملہ کرو کہ شیطان اسی کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا

(۱)ان تعلیمات پرسنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ایک مرد مسلم کے جہاد کا انداز کیا ہونا چاہیے اوراسے دشمن کے مقابلہ میں کس طرح جنگ آزما ہونا چاہیے۔ان تعلیمات کا مختصرخلاصہ یہ ہے:۔ ۱۔دل کے اندر خوف خدا ہو'۲۔باہر سکون و اطمینان کا مظاہر ہو' ۳۔دانتوں کو بھینچ لیا جائے'۴۔آلات جنگ کو مکمل طورپر ساتھ رکھا جائے' ۵۔تلوار کو نیام کے اندرحرکت دے لی جائے کہ بر وقت نکالنے میں زحمت نہ ہو'۶۔دشمن پر غیط آلود نگاہ کی جائے ' ۷۔نیزوں کے حملے ہر طرف ہوں'۸۔تلوار دشمن کے سامنے رہے '۹۔تلوار دشمن تک نہ پہنچے توقدم بڑھاکرحملہ کرے' ۱۰۔فرار کا ارادہ نہ کرے ' ۱۱۔موت کی طرف سکون کے ساتھ قدم بڑھائے'۱۲۔جان جان آفریں کے حوالے کردے' ۱۳۔ہدف اورنشانہ پرنگاہ رکھے '۱۴۔یہ اطمینان رکھے کہ خدا ہمارے اعمال کودیکھ رہا ہے اور پیغمبر (ص) کا بھائی ہماری نگاہ کے سامنے ہے۔

ظاہر ہے کہ ان آداب میں بعض آداب ' تقویٰ ' ایمان وغیرہ دائمی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض کا تعلق نیزہ و شمشیر کے دور سے ہے لیکن اسے بھی ہردور کے آلات حرب و ضرب پرمنطبق کیاجاسکتا ہے اور اس سے فادئہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

۹۷

وقَدْ قَدَّمَ لِلْوَثْبَةِ يَداً وأَخَّرَ لِلنُّكُوصِ رِجْلًا - فَصَمْداً صَمْداً حَتَّى يَنْجَلِيَ لَكُمْ عَمُودُ الْحَقِّ –( وأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ والله مَعَكُمْ ولَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ )

(۶۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قالوا لما انتهت إلى أمير المؤمنينعليه‌السلام أنباء السقيفة بعد وفاة رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالعليه‌السلام :ما قالت الأنصار قالوا قالت منا أمير ومنكم أمير قالعليه‌السلام :

فَهَلَّا احْتَجَجْتُمْ عَلَيْهِمْ - بِأَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَصَّى بِأَنْ يُحْسَنَ إِلَى مُحْسِنِهِمْ - ويُتَجَاوَزَ عَنْ مُسِيئِهِمْ؟

قَالُوا ومَا فِي هَذَا مِنَ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ؟

ہے۔اس کا حال یہ ہے کہ اس نے ایک قدم حملہ کے لئے آگے بڑھا رکھا ہے۔اور ایک بھاگنے کے لئے پیچھے کر رکھا ہے لہٰذا تم مضبوطی سے اپنے ارادہ پرجمے رہو یہاں تک کہ حق صبح کے اجالے کی طرح واضح ہو جائے اور مطمئن ہو کر بلندی تمہارا حصہ ہے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کر سکتا ہے۔

(۶۷)

آپ کا ارشاد گرامی

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔

تم لوگوں نے ان کے خلاف یہ استدلال کیوں نہیں کیا کہ رسول اکرم (ص) نے تمہارے نیک کرداروں کے ساتھ حسن سلوک اور خطا کاروں سے در گزر کرنے کی وصیت فرمائی ہے ؟

لوگوں نے کہا کہ اس میں کیا استد لال ہے؟

(۱)استاد احمد حسن یعقوب نے کتاب نظریہ عدالت صحابہ میں ایک مفصل بحث کی ہے کہ سقیفہ میں کوئی قانونی اجتماع انتخاب خلیفہ کے لئے نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی اس کا ایجنڈہ تھا اورنہ سوا لاکھ صحابہ کی بستی میں سے دس بیس ہزار افراد جمع ہوئے تھے بلکہ سعد بن عبادہ کی بیماری کی بناپر انصارعیادت کے لئے جمع ہوئے تھے اوربعض مہاجرین نے اس اجتماع کودیکھ کر یہ محسوس کیا کہ کہیں خلافت کا فیصلہ نہ ہوجائے' تو بر وقت پہنچ کر اس قدر ہنگامہ کیا کہ انصار میں پھوٹ پڑ گئی اور فی الفور حضرت ابو بکر کی خلافت کا اعلان کردیا اور ساری کاروائی لمحوں میں یوں مکمل ہوگئی کہ سعد بن عبادہ کو پامال کردیا گیا اور حضرت ابو بکر ''تاج خلافت ''سر پر رکھے ہوئے سقیفہ سے برآمد ہوگئے۔اس شان سے کہ اس عظیم مہم کی بنا پرجنازۂ رسول میں شرکت سے بھی محروم ہوگئے اورخلافت کا پہلا اثر سامنے آگیا۔

۹۸

فَقَالَعليه‌السلام :

لَوْ كَانَ الإِمَامَةُ فِيهِمْ لَمْ تَكُنِ الْوَصِيَّةُ بِهِمْ.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام :

فَمَا ذَا قَالَتْ قُرَيْشٌ - قَالُوا احْتَجَّتْ بِأَنَّهَا شَجَرَةُ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَقَالَعليه‌السلام احْتَجُّوا بِالشَّجَرَةِ وأَضَاعُوا الثَّمَرَةَ.

(۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما قلد محمد بن أبي بكر مصر فملكت عليه وقتل

وقَدْ أَرَدْتُ تَوْلِيَةَ مِصْرَ هَاشِمَ بْنَ عُتْبَةَ - ولَوْ وَلَّيْتُه إِيَّاهَا لَمَّا خَلَّى لَهُمُ الْعَرْصَةَولَا أَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ بِلَا ذَمٍّ لِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ - فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وكَانَ لِي رَبِيباً.

فرمایاکہ اگر امارت ان کا حصہ ہوتی تو ان سے وصیت کی جاتی نہ کہ ان کے بارے میں وصیت کی جاتی ۔اس کے بعد آپ نے سوال کیا کہ قریش کی دلیل کیا تھی؟ لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے کو رسول اکرم (ص) کے شجرہ میں ثابت کر رہے تھے۔فرمایا کہ افسوس شجرہ سے استدلال کیا اورثمرہ کو ضائع کردیا

(۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا)

میرا ارادہ تھا کہ مصر کاحاکم ہاشم بن(۱) عتبہ کو بنائوں اور اگر انہیں بنا دیتا تو ہرگزمیدان کو مخالفین کے لئے خالی نہ چھوڑتے اور انہیں موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیتے ( لیکن حالات نے ایسا نہ کرنے دیا)

اس بیان کا مقصد محمد بن ابی بکر کی مذمت نہیں ہے اس لئے کہ وہ مجھے عزیز تھا اور میرا ہی پروردہ(۲) تھا۔

(۱)ہاشم بن عتبہ صفین میں عملدارلشکر امیر المومنین تھے۔مرقال ان کا لقب تھا کہ نہایت تیز رفتاری اورچابکدستی سے حملہ کرتے تھے۔

(۲)محمد بن ابی بکر اسما بنت عمیس کے بطن سے تھے۔جو پہلے جناب جعفر طیارکی زوجہ تھیں اور ان سے عبداللہ بن جعفر پیدا ہوئے تھے اس کے بعد ان کی شہادت کے بعد ابو بکر کی زوجیت میں آگئیں جن سے محمد پیدا ہوئے اور ان کی وفات کے بعد مولائے کائنات کی زوجیت میں آئیں اور محمد نے آپ کے زیر اثر تربیت پائی یہ اوربات ہے کہ جب عمرو عاص نے چار ہزار کے لشکرکے ساتھ مصر پرحملہ کیا تو اپنے آبائی اصول جنگ کی بنا پرمیدان سے فرار اختیار کیا اور بالآخر قتل ہوگئے اورلاش کو گدھے کی کھال میں رکھ کرجلا دیا گیا یا بروایتے زندہ ہی جلادئیے گئے اور معاویہ نے اس خبرکوسن کر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ (مروج الذہب)

امیر المومنین نے اس موقع پر ہاشم کو اسی لئے یاد کیاتھا کہ وہ میدان سے فرار نہ کر سکتے تھے اور کسی گھر کے اندر پناہ لینے کا ارادہ بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

۹۹

(۶۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في توبيخ بعض أصحابه

كَمْ أُدَارِيكُمْ كَمَا تُدَارَى الْبِكَارُ الْعَمِدَةُ والثِّيَابُ الْمُتَدَاعِيَةُ !كُلَّمَا حِيصَتْ مِنْ جَانِبٍ تَهَتَّكَتْ مِنْ آخَرَ - كُلَّمَا أَطَلَّ عَلَيْكُمْ مَنْسِرٌ مِنْ مَنَاسِرِ أَهْلِ الشَّامِ - أَغْلَقَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بَابَه - وانْجَحَرَ انْجِحَارَ الضَّبَّةِ فِي جُحْرِهَا والضَّبُعِ فِي وِجَارِهَا الذَّلِيلُ واللَّه مَنْ نَصَرْتُمُوه - ومَنْ رُمِيَ بِكُمْ فَقَدْ رُمِيَ بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ إِنَّكُمْ واللَّه لَكَثِيرٌ فِي الْبَاحَاتِ قَلِيلٌ تَحْتَ الرَّايَاتِ - وإِنِّي لَعَالِمٌ بِمَا يُصْلِحُكُمْ ويُقِيمُ أَوَدَكُمْ ولَكِنِّي لَا أَرَى إِصْلَاحَكُمْ بِإِفْسَادِ نَفْسِي - أَضْرَعَ اللَّه خُدُودَكُمْ وأَتْعَسَ جُدُودَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ الْحَقَّ كَمَعْرِفَتِكُمُ الْبَاطِلَ - ولَا تُبْطِلُونَ الْبَاطِلَ كَإِبْطَالِكُمُ الْحَقَّ!

(۶۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے)

کب تک میں تمہارے ساتھ وہ نرمی کا برتائو کروں جو بیمار اونٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا کوہان اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو یا اس بوسیدہ کپڑے کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے ایک طرف سے سیا جائے تو دوسری طرف سے پھٹ جاتا ہے۔ جب بھی شام کا کوئی دستہ تمہارے کسی دستہ کے سامنے آتا ہے تو تم میں س ے ہر شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیتاہے اور اس طرح چھپ جاتا ہے جیسے سوراخ میں گوہ یا بھٹ میں بجو۔ خدا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مدد گار ہوں گے اور جو تمہارے ذریعہ تیر اندازی کرے گا گویا وہ سو فار شکستہ اورپیکان نداشتہ تیرے نشانہ لگائے گا۔خدا کی قسم تم صحن خانہ میں بہت دکھائی دیتے ہواور پرچم لشکرکے زیر سایہ بہت کم نظرآتے ہو۔میں تمہاری اصلاح کا طریقہ جانتا ہوں اور تمہیں سیدھا کر سکتا ہوں لیکن کیا کروں اپنے دین کو برباد کرکے تمہاری اصلاح نہیں کرنا چاہتا ہوں۔خدا تمہارے چہروں کو ذلیل کرے اور تمہارے نصیب کو بد نصیب کرے۔تم حق کو اس طرح نہیں پہچانتے ہو جس طرح باطل کی معرفت رکھتے ہو اور باطل کو اس طرح باطل نہیں قراردیتے ہو جس طرح حق کو غلط ٹھہراتے ہو۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279