اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات21%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56229 / ڈاؤنلوڈ: 4978
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

دوسری جگہ فرماتا ہے:

کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے(غرض سب کچھ) خدا ہی نے انہیں تمہارا تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ( خواہ مخواہ) خدا کے بارے میں جھگرتے ہیں ( حالاںکہ) نہ ان کے پاس علم ہے نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روشن کتاب ہے)۔(لقمان / ۲۰)

وہ مسلمان جو اپنے خدا کی کتاب میں یہ پڑھتا ہے کہ جو کچھ آسمان میں افلاک، چاند، سورج، برج، کہکشائیں، ستارے، ہوا، بادل، برف و باران کا وجود ہے اور زمین پر  دریا، نہریں، پہاڑ، بیابان،جنگلات، درندے، حیوانات خزانے، معادن ، پتھر، جمادات و نباتات وغیرہ ہیں سبھی کچھ اس کے لیے مسخر کر دیئے گئے ہیں تو پھر وہ کیسے ہاتھ پر ہاتھ دھرے اہل مغرب کی ایجاد و پیشرفت کا منتظر رہتا ہے۔ اگر ایسا کرتا ہے تو اس نے اپنے فریضہ کو ترک کردیا ہے اور اپی وقعت کو گرا دیا ہے اور اسے زبردست گھاٹا ہوا ہے۔ اس لیے کہ جو قرآن خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے اس میں ساری چیزیں موجود ہیں اور کسی قسم کی کمی اور نقص اس میں نظر نہیں آتا ۔

قرآن فرماتا ہے:

ہم نے کتاب میں کوئی بات فرو گذاشت نہیں کی ہے۔(انعام/ ۳۸ )(۲۰)

رسول خدا(ص) نے بھی ( انسان) کو علم و دانش کے حاصل کے لیے تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے: ”گہوارہ سے قبر تک علم حاصل کرو۔“

صرف یہی نہیں بلکہ اسے سب سے بلند مقام کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

۴۱

” اگر انسان عرش سے آگے کا حوصلہ بھی رکھے تو وہاں بھی پہنچ سکتا ہے“

لہذا اسلام علم و دانش اور ترقی کے میدان میں بہت آگے گیا ہے اور اس میں کسی قسم کسیرکاوٹ کا قائل نہیں ہے۔ البتہ اگر اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ کہیں بات طولانینہ ہو جائے اور کتاب کے اصل مقصد سے خارج نہ ہوجائیں تو اس موضوع پر ایک مفصل بحث کرتا۔ محققوں کی ذمہ داری ہےکہ اس موضوع پر دوسری تحقیقی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

یہ مطالب اس سوال کا جواب تھے جسے شروع میںی عرض کیا تھا۔ اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب ترقی سے مراد فقط علمی، فقہی، تکنیکی اور صنعتی ترقی ہو جس نے یورپیوں، امریکیوں اور خصوصا جاپانیوں کی عقلوں اور ان کے گھروں کو چکا چوند کر رکھا ہے۔ اور مسلمان اس  سے بے خبر ہیں ان کے خیال میں یہ ساری قابل توجہ ایجادات اور علمی ترقی غیر مسلموں کے ہاتھوں ہوئی ہے اور اسلام ان کی پسماندگی کا باعث ہے!!! خصوصا کمیونزم پرست جو دین کو قوم کے لیے افیون سمجھتے ہیں۔ اگر ان کے پاس انصاف ہوتا تو یہ سمجھ لیتے کہ دین اسلام نے ہی قوموں کو زندہ کیا ہے اور انسانی ترقی کو دائمی رفتار بخشی ہے۔ کیا یہی اسلام نہ تھا جس نے ایک باچیز قوم کو کہ جس کےپاس کچھ بھی نہ تھا اسے جزیرة العرب میں ہر چیز کا مالک بنا دیا۔ اور اس درجہ کہ یہی پسماندہ سرزمین ساری دنیا کے لیے علم، ترقی، پیشرفت اور مدنیت کا مقصد و مرکز  بن گئی۔ اور بعض یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ” اسلام و عرب کا سورج یورپ پر چمکنے لگا“ اور یہ اقرار کیا کہ ان بدیہ نشین عربوں نے اسلام سے متمسک ہونے کے بعد بھلائی کے ہر میدانمیں ترقی کر لی  اور ہر طرح کے ایجاد میں پیش قدم ہوگئے۔(۲۱)

اگر ترقی سے مراد وہ ترقی ہے جسے اہل مغرب و امریکہ نے اپنے یہاں کھلی آزادی کا لباس پہنا رکھا ہے اور نوبت یہاں تک  پہنچ گئی ہے کہ ہم جنس

۴۲

بازی اور برہنہ رہنے والوں کے لیے کلب کھول دیئے  گئے ہیں اور جانوروں اور کتوں کے لیے میراث معین کردی گئی ہے۔ ہر روز نئی چیز وجود یں آرہی ہے۔ اور وہ تمام ا اخلاقی برائیاں جس کی مغربی ٹیلی وژن سے تبلیغ ہوتی ہے تو بلاشبہ اسلام نے ایسی باتوں کو اپنے یہاں کوئی جگہ نہیں دی ہے اور نہ صرف یہی بلکہ پوری طاقت  کےساتھ اس پر حملہ آور ہوا ہے اور فساد و تباہی کے تمام مراکز کو ختم کرنے کے درپے ہے۔

یہاں ضروری ہے کہ ہم کچھ مسلمانوں کی بعض عجیب و غریب روش کی طرف بھی اشارہ کریں جو رسول خدا(ص) کی سنت سے تمسک کے مدعی ہیں اور خود کو (سلفی) کہتے ہیں مثلا ہم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ ایک لمبا کرتا یا اٹنگا عربی پیرہن پہنے ہوئے ہیں۔ داڑھی سینے تک لہرا رہی ہے۔ ہاتھ میں ایک عصا ہے، مسجد کے کنارے کھڑے ہیں، (اراک) لکڑی سے مسواک کررہے ہیں اور کبھی دائیں طرف کے دانت اور کبھی بائیں سمت کے دانت رگڑے جارہے ہیں۔ کبھی اس سے بکلتی رطوبت کو تھوک دیتے  ہیں تو کبھی نگل جاتے ہیں! اپنے سر کو باندھ رکھا ہے اور اگر کبھی انھیں اپنے گھر کھانے کی میز پر دعوت دیں تو مخالفت کریں گے۔ حتی کیہ چمچہ اور کانٹے سے کھانا کھانے کو تیار نہیں ہوں گے بلکہ ہاتھ سے نوش فرمائیں گے۔ انگلیوں کو برابر چاٹتے رہیں گے اور فرمائیں گے: میں رسول خدا(ص) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں!!!

اور بعض تو دو چار قدم اور آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے لاؤڈ اسپیکر سے اذان ممنوع کردی ہے۔ اس لیے کہ یہ رسول(ص) کے زمانہ میں نہ تھا اور یہ بدعت ہے!!

اور بعض نے تو پسماندگی کو اس کے اوج پر پہنچا دیا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ لوگوں کو ان باتوں کی جانب واپس لائیں لہذا جو بھی تیز آواز میں ہنستا ہے منع

۴۳

کرتے ہیں، فورا اس پر بگڑ پڑتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ہیں اور ہنسنے سےمنع کرتے ہیںاس لیے کہ آنحضرت(ص) فقط مسکراتے تھے۔ اور اگر انہوں نے سکی کو پیٹ کے بل لیٹا ہوا دیکھ لیا تو زور سے لات مارتے اور نیند سے اٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے شیطان سوتا ہے۔

میں نے ا میں سے ایک شخص کو دیھا کہ اپنی چھوٹی بچی کی پٹائی کررہا ہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اس کم سن بچی نے مہمانوں کو داہنے ہاتھ کے بجائے بائیں ہاتھ سے شربت پیش کردیا تھا۔ اتنے مہمانوں کےسامنے اس بچی کی اہانت اور پٹائی کر کے ان کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ سنت کی حفاظت کرنی چاہئے!!!

آخر یہ کیسی سنت ہے جس سے لوگ متنفر اور بد دل ہوجائیں خصوصا اس وقت جب اسلام اس شکل میں دشمنوں اورغریبوں کے سامنے پیش کیا جائے۔

بلاشبہ یہ لوگوںکو اسلام کی طرف راغب کرنے اور اسلام کا منور چہرہ پیش کرے اور اپنی طرف جذب کرنے کے بجائے ایسی ہی بری اور نازیبا حرکتوں سے متنفر کر دیتے ہیں کہ جن پر پھر کسی تبلیغ کا اثر نہیں ہوسکتا۔

ان کو یہ نہیں معلوم کہ رسول خدا(ص) نے اگر ان دنوں اراک کی شاخ کو مسواک کے بطور استعمال کیا اور اسے دانتوں کی صفائی اور پاکیزگی کے لہیے کام میں لائے تو یہ اس لیے تھا کہ اس زمانہ مین آج کی طرح مختلف قسم کے برش اور ٹوتھ پیسٹ نہیں تھے اور یہ آنحضرت(ص) کی ترقی پسندی کی دلیل ہے کہ آںحضرت(ص) نے اس زمانہ میں دانتوں کی صفائی اور پاکیزگی پر اس درجہ توجہ دی۔ اور لوگوں کو اس کی ترٰغیب دلائی۔ لیکن یہ ان باتوں سے قانع نہیں ہوتے اور استدلال پیش  کرتے ہیں کہ اراک کی شاخ سارے برش اور ٹوتھ پیسٹ سے  بہتر ہے اس میں محصوص نمک ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اگر آپ ان سے اس ترقی ے متعلق بتائیں کہ یہ ٹوتھ پیسٹ دانت اور منہ کو اسٹرلائیز(sterilize) کردیتا ہے، صاف کرنے

۴۴

 والا اور بہت ہی مفید ہے تو بھی وہ اس لکڑی کو بہتر سمجھیںگے۔ اور اس کو غیر طبعی ڈھنگ سے جیب میں رکھیں گے بلک کبھی کبھی تو آپ دیکھیں گے منہ کے خون کی وجہ سے اس کا رنگ لال ہوگیا ہے! مگر پھر بھی وہ رسول خدا(ص) کا قول دہراتے ملیں گے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا ہے:

اگر مجھے اپنی امت کےلیے سختی کا خیال نہ ہوتا تو میں اپنی امت پر ہر واجب نماز سے پہلے مسواک کرنا واجب قررار دے دیتا۔

افسوس کہ یہ لوگ سنت پیغمبر(ص) کے متعلق سوائے سطحی اور ظاہری مسائل کے اور کچھ نہیں جانتے اور آنحضرت(ص) کے قول کے روحانی اور علمی گوشوں سے بالکل بے خبر ہیں۔

بہر حال یہ اندھی تقلید کی طرح ان باتوں اور حرکتوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ نہ ہی فہم  و ادراک کی  بنیاد پر ہے اور نہ ہی غور و تحقیق سے اس کا کوئی ربط ہے۔ فقط جو باتیں اپنے پیشواؤوں اور اماموں سے سن لی ہیں اسی کی تکرار کرتے رہتے ہیں۔ اس میں بہت سے تو سطحی معلومات رکھتے ہیں اور شاید صدفی صد جاہل ہوں۔ لیکن اگر ان پر اعتراض کیجئے تو کہیں گے کہ رسول(ص) نے بھی علم حاصل نہ کیا تھا۔!!!

پس ایسے افراد پر تو اس زمانہ میںفخر و مباہات کرنی چاہئے جو قول میں بھی اور شکل و انداز میں بھیآنحضرت(ص) کے پیرو ہیں!!!

ایک مرتبہ مسجد عمر بن خطاب(پیرس) میں نے ان سے بحث کی اور کہا: کیا آپ واقعا سنتپیغمبر(ص) سے متمسک ہیں اور جو بھی نیا ہے  اسے بدعت سمجھتے ہیں اور معتقد ہیں کہ جو چیز نئی ہیں وہی سب سے بدتر ہیں۔ اس لیے کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت و گمراہی کا انجام دوزخ ہے؟

انہوں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔ تو میں نے کہا پھر آپ کارپٹ پر کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ جبکہ یہ مصنوعی اور جدید طرز پر بنا ہوا فرش یہ مغربی ممالک

۴۵

 میں بنا ہے معلوم نہیں اسے کس مواد سے بنایا گیا ہے؟ جو چیز قطعی ہے وہ یہ کہ آنحضرت(ص) نے ہرگز کارپٹ کے اوپر نماز ادا نہیں فرمائی۔ اور اصلا اسے انہوں نے دیکھا تک نہیں۔

ان میں سے بعض کہنے لگے ہم مغربی ملکوں میں رہتے ہیں ہمارا حکم مضطر ( مجبور) کا ہے لہذا فقہ میں یہ بات آئی ہے کہ ضرورت حرام چیزوں کو جائز کردیتی ہے۔

میں نے کہا یہ کون سی ضرورت ہے آپ اس فرش کو اٹھا دیں اور زمین پر نماز پڑھیں کیوںکہ آںحضرت(ص) نے زمین پر نماز ادا کی ہے یا پھر کم از کم سجدہ کی جگہ پر پتھر رکھ لیں؟

امام جماعت نے مذاق اڑانے کے انداز میں ہماری طرف رخ کیا اور کہا:

تم جیسے ہی مسجد میں داخل ہوئے میں سمجھ گیا کہ تم شیعہ ہو۔ کیوںکہ تم نے سجدہ کی جگہ پر کاغذ رکھا تھا ہم نے کہا : اس میں کوئی حرج ہے؟ کیا آپ جس صحیح سنت کا نعرہ لگاتے ہیں اس سے ہمیں مطمئن کرسکتے ہیں؟

اس نے کہا : مجھے بحث کرنے کو وہ بھی خاص کر شیعوں سے منع کیا گیا ہے۔ اور ہم تمہاری ایک بھی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمارے لیے ہمارا دین اور تمہارے لیے تمارا دین کافی ہے۔

یہ وہ سرگزشت تھی جس کا تذکرہ مناسب معلوم ہوا اور اس سے مسلمان اور روشن فکر حضرات کو اندازہ ہوگا کہ سنت پیغمبر کبھی بھی علمی ترقی اور ٹیکنالوجی کی مخالف نہیں رہی ہے اور اسے ہرگز حرام قرار نہیں دیا گیا ہے۔

مرد ہو یا عورت اس پر ہرگز مناسب لباس پہننا حرام قرار نہیں دیا گیا، بس یہ ضروری ہے کہ بدن ڈھکنا چاہئے اور توہین کا باعث نہ ہونا چاہئے۔ اور عورتوں

۴۶

کو پردہ کی رعایت کرنی چاہئے۔ چونکہ آنحضرت(ص) نے فرمایا ہے:

پروردگار عالم تمہارے لباس، حالت، شکل و صورت اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ صرف تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ ( صحیح مسلم ج۴، ص۱۹۸۷ / ح۲۵ ۶ ۴)

چنانچہ سنت پیغمبر(ص) ہرگز ڈائننگ ٹیبل اور چمچہ، کانٹے کی مخالف نہیں ہے۔ بلکہ اہم یہ ہے کہانسان کھانے پینے میں ادب کا پاس رکھے اس طرح کہ ساتھ بیٹھنے والے یہ خیال نہ کریں کہ حیوانوں کی طرح شکار پر ٹوٹا پڑ رہا ہے اور کھانے پینے میں اس کے داڑھی اور بال شریک نہ ہوں۔

سنت پیغمبر(ص) ٹوتھ پیسٹ اور برش سے دانت منہ کی صفائی کی مخالف نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس بات کی مخالف ہے کہ انسان اپنے بدن کو پاک صاف رکھے، بدن کے زائد بالوں کو دور کرے، خوشبو لگائے اور خود کو معطر کرے تاکہ لوگ اس سے متنفر نہ ہوں نیز جیب میں ایک صاف رومال رکھے۔ لیکن وہ لوگ جو سنت کی پیروی کا جھوٹا دعوی کرتے ہیںاور ان کےبدن کی بدبو خصوصا گرمی میں حمام نہ جانے کی حکایت کرتی ہے راہ چلتے ہوئے ہاتھ کو آب دہن سے لودہ کرتے ہیں۔ناک کی کثافت لوگوں کا خیال کئے بغیر جہاں چاہتے ہیں چھینک دیتے ہیں ہاتھ کو دامن سے صاف کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ خدا کی قسم سنت پیغمبر(ص) سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔

سنت پیغمبر(ص) ہرگز ممانعت نہیں کرتی کہ مسلمانوں تک اذان کی آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر، مائیکرو فون، ٹیپ ریکارڈر کا استعمال نہ کیا جائے حتی کہ اس بات کی بھی ممانعت نہیںکرتی کہ مسجد میں ویڈیو کا استعمال کیا جائے۔ اور اوقات نماز کے علاوہ اس پر اسلامی فلم یا دینی سبق دیکھا اور سنا جائے۔

سنت پیغمبر(ص) مسلمان عورتوں کے سینٹری نیپکن(Sanitary Napkin) کے استعمال کی ممانعت نہیں کرتی اور اگر وہ مباح کاموں کے لیے ڈرائیونگ کرتی

۴۷

 ہیں اور بازار جاکر دکانوں سے اپنی ضرورت کا سامان خریدتی ہیں تو سنت پیغمبر(ص) اسے حرام نہیں سمجھتی۔ صرف شرعی پردہ کا  خیال رکھیں۔ اپنے دامن کو حرام سے بچائیں، نامحرم کو نہ دیکھیں جیسا کہ خود پروردگار عالم کا حکم ہے۔ مختصر یہ کہ سنت نبوی(ص) ترقی کی مخالف نہیں ہے لیکن اس وقت تک جب کہ یہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ہوا سے بیماریوں سے محفوظ رکھے اور سعادت بخشے۔

اے رسول(ص) ان سے پوچھو تو کہ جو زینت کے سازو سامان اور کھانے پینے کی صاف ستھیر چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں کس نے حرام کردیں؟ ( اعراف/ ۳۲)

ہاں ! اسلام نے ان تمام چیزوں کو حرام کیا ہے جو گندگی ، کثافت و نجاست میں شمار ہوتی ہیں اور ان تمام چیزوں کا مخالف ہے جن سے آدمی فطرتا نفرت کرتا ہوجیسے بدبو، گندے ناخن و بال، نجاست وکثافت کے عالم میں رہنا۔ چونکہ خداوند عالم جمیل ہے اور جمال کو دوست رکھتا ہے۔ لہذا آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ ہر بندہ مومن حتی کہ کافر بھی جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو صورت ولباس کو مرتب کرتا ہے، خوشبو لگاتا ہے۔ حتی کہ آپ کو کوئی گھر ایسا نہ ملے گا کہ اس میں آئینہ نہ ہو۔ توجب مرد حضرات زینت و آرائش کی فکر میں ہیں تو پھر عورتوں کو کیوں اس سے منع کیا جائے۔ اس شرط کے ساتھ کہ وہ اسلام کے معین حدود سے خارج نہ ہوجائیں اور نا محرم مردوں کے سامنے بن سنور کر نکلنے نہ لگیں۔

” الناس اعداء ما جهلوا“ (۲۲)

جس چیز کو لوگ نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں۔

مجھے یاد ہے ایام جوانی میں مجھے روز چہار شنبہ سرمہ لگانا بہت پسند تھا اور بہت سی احادیث کی کتابیں موجود ہیں جو روایت کرتی ہیں کہ آںحضرت(ص) آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے اور اس کی تشویق فرماتے تھے لیکن اس کے برخلاف جب بھی میں سرمہ لگاتا تو عورت و مرد مجھے عجیب نظر سے دیکھتے اور ایک دوسرے کو

۴۸

۴۹

۵۰

سیاسی مشکلات، تمدن کا نتیجہ

جس وقت رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا اور ان سے فرمایا : حبشہ کی سمت روانہ ہوجاؤ اس لیے کہ وہاں کا بادشاہ ایسا ہے کہ اس کے یہاں کسی پر بھی ظلم و ستم نہیں ہوتا۔ ( الکامل فی التاریخ/ج۲/ص۷۴)

کیا آںحضرت(ص) نے ان اصحاب کو پاسپورٹ دیا؟ یا حبشہ سے ان لوگوں کے لیے ویزے کی درخواست کی؟ یا پیسہ تبدیل کروایا؟ نہیں!

نہ یہ مسائل اس زمانہ میں تھے اور نہ ہی اس طرح کی بات سامنے آئی۔ اللہ کی زمین وسیع تھی جب بھی انسان پر اس کا وطن دشوار ہوجاتا، مرکب پر سوار ہوتا اور خدا کی طویل و عریض زمین پر کہیں کے لیے بھی نکل پڑتا۔ اور مناسب جگہ ٹھہرجاتا۔ نہ کسی قسم کا محاسبہ ہوتا نہ سیکیورٹی چیکنگ ہوتی نہ کسٹم کا مسئلہ پیش آتا نہ ٹیکس اور میڈیکل سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑتی اور نہ گدھے اور خچر کے لیے شہنشاہی گواہی کی ضرورت پیش آتی تھی کہ کہیں چرایا ہوا نہ ہو یا کوئی ٹیکس ادا کئے بغیر چل دیا ہو۔

کیا یہ تمدن یا کثرت جمعیت بہتر ہوگا، جس نے زمین کو مختلف ملکوں اور حکومتوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ہر حکومت اپنے ملک کی زبان میں بولتی ہے اور ہر ملک کا الگ پرچمہے۔ زمینی اور دریائی حدیں ہیں۔ جن پر چوکس نگہبان تعینات ہیں تاکہ ہر کس و ناکس گھس نہ آئے۔ جب قوموں کی تعداد بڑھی طمع میں شدت آئی اس طرح کہ ہر ایک دوسرے کا استحصال کرنے اور دہانے کی فکر میں پڑ گیا۔ انقلاب، بغاوتیں، جرائم بکثرت ہوگئے۔ تو ترقی یافتہ سماج قومیتوں کو الگ

۵۱

کرنے لگے ، ولادت و وفات کی گواہی اور شناختی کارڈ بنائے گئے، پاسپورٹ بھی بن گیا، سرحدیں بن گئیں، اب ہر شخص میں طاقت نہ تھی کہ بغیر اجازت اور ویزا دوسرے کی سرحد میں داخل ہو سکے خلاصہ یہ کہ ہر جگہ اور ہر حکومت کا ایک جدا گانہ قانون بن گیا۔

میں بھی بہت سے جوان مسلمانوں کی طرح اپنے ملک کی اذیت و آزار اور سیاسی مشکلات کے بعد دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگیا لیکن میرے لیے سارے دروازے بند نظر آئے خصوصا عربی اور اسلامی ممالک میں۔

میں کتاب خدا کی اس آیت کو پڑھنے کے بعد کسی درجہ حیران ہوجاتا ہوں، فرماتا ہے:

بے شک جن لوگوں کی قبض روح فرشتوں نے اس وقت قبض کی ہے کہ ( دارالحرب میں پڑے) اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے تو فرشتے قبض روح کے بعد حیرت سے کہتے ہیں تم کس ( حالت غفلت میں تھے) تو وہ ( معذرت کے لہجے میں ) کہتے ہیں ہم تو روئے زمین پر بے کس تھے تو فرشتے کہتے ہیں کہ خدا کی لمبی، چوڑی زمین میں اتنی بھی گنجائش نہ تھی کہ تم( کہیں) ہجرت کرکے چلے جاتے !! پس ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور  وہ بڑا، برا ٹھکانا ہے۔(نساء/ ۹۷)

میں اپنے آپ سے کہتا ہوں سچ ہے پوری دنیا کی زمین سب کی سب خدا کی ملکیت ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں لیکن بعض خدا کے بندوں نے اس پر قبضہ کیا اور آپس میں تقسیم کر لیا اور دوسروں کا فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ اگر غیر مسلم مثلا فرانسیسی، جرمن، انگریز، امریکن عذر کریں تو ٹھیک۔ لیکن مسلمان ملکوں کے پاس کیا بہانہ اور عذر ہے اور اگر عرب و اسلامی ممالک کے پاس کوئی بہانہ ہے بھی تو حاکم مکہ و مدینہ کے پاس کیا بہانہ رہ جاتا ہے جو مسلمانوں کو

۵۲

اجازت نہیں دیتے کہ وہ آسانی سے آسکیں۔ ان سے حج و عمرہ کے لیے ٹیکس لیتے ہیں اور کس مشکل سے ویزا دیتے ہیں۔

سچ مچ حیرت ہوتی ہے جب ہم قرآن میں پڑھتے ہیں بے شک جو لوگ کافر ہو بیٹھے اور خدا  کی راہ سے اور مسجد الحرام ( خانہ کعبہ) سے جسے ہم نے سب لوگوں کےلیے عبادت گاہ بنایا ہے( اور) اس میں شہری اور دیہاتی سب کا حق برابر ہے لوگوں کو روکتے ہٰں۔ (حج / ۲۵)

پس اگر خدا نے مسجد الحرام کو سبھی کے لیے مرکز امن قرار دیا ہے چاہے وہ وہاں ساکن ہوں یا باہر سے آئیں پھر اس ملک کی حکومت کس طرح بعض کو آنے کی اجازت دیتی ہے اور بعض کو نہیں دیتی۔ اب تو ہمیں اپنے اسلام و قرآن کی طرف پلٹنا چاہیئے اور اپنے امور میں تبدیلی لانا چاہئیے۔

ایک طویل مدت گذر گئی اور میںاس فکر و خیال میں سرگرداں تھا حتی کہ اپنے رب سے مناجات کرتے ہوئے عرض کیا کرتا تھا کہ پروردگار تو کہتا ہے اور تیرا قول حق ہے:

کیا خدا کی زمین وسیع نہیں کہ تم اس میں ہجرت کرو۔(نساء/ ۹۷)

اور تیرا ہی قول ہے کہ :( لوگوں کو مناسک حج ادا کرنے کے لیے بلاؤ تاکہ لوگ سوار اور پیادہ ہر طرف سے اکھٹا ہوجائیں)۔ ( حج/۲۷)

بےشک تیری زمین جو وسیع و عریض ہے لیکن اس پر دوسروں کا قبضہ ہے اور یہ گھر تو تیرا ہے لیکن دوسرے اس کے مالک بن بیٹھے ہیں اور وہاں آنے سے روکتے ہیں خدایا کیا کیا جائے؟

ایک روز قرآن کے متعلق نہج البلاغہ میں امیر المومنین(ع) کے کلام کا مطالعہ کررہا تھا کہ مجھے ایک ایسا جملہ نظر آیا جسے میں نے کئی مرتبہ پڑھا اور جس چیز کی تلاش تھی وہ مل گئی اس نے یہ معما حل کردیا اور میری حیران فکر کو سکون بخشا۔

۵۳

حضرت امیرالمومنین(ع) قرآن مجید کے متعلق نہج البلاغہ کے سب سے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں:

” کچھ آیات و احکام ہیں جو اپنے وقت  پر واجب ہیں لیکن مستقبل میں ان کا وجوب نہیں رہتا۔“

حضرت(ع) کے اس کلام سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ وہ آیات ہیں جن پرعمل آںحضرت(ع) کے زمانہ میں ممکن تھا۔ لیکن مستقبل میں ستمگروں اور کافروں کے قبضہ کی وجہ سے غیر ممکن ہوجائے گا۔

لہذا اگر کوئی روز قیامت اپنے خدا سے کہے :

پروردگار ! میں تیری زمین پر کمزور و لاچار تھا تو وہ خداوند عالم جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے اسے پتہ ہے کہ وہ ایسے ہی زمانہ میں تھا تو وہ اس سے یہ نہ فرمائے گا کہ تیری جگہ دوزخ ہے اور نہ بہت ہی بری جگہ ہے۔

اور اگر کوئی اس وقت اپنے رب سے کہے کہ :

پروردگارا ! مجھے تیرے گھر آنے سے روک دیا گیا۔ میں تیرا حج نہ کرسکا۔ تو اسے یہ جواب ملے گا : میں نے بھی تجھ سے کہا تھا اگر تم میں حج کرنے کی استطاعت و قدرت ہوتو کرنا پس تمہارا عذر معقول ہے اور جس شخص نے تم کو آنے سے روکا وہ ذمہ دار ہے اور اسی کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔

اے امیر المومنین(ع) ! آپ پر سلام ہو۔ جس روز آپ نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں اور جس روز آپ نے اس دنیا سے وفات پائی اور جس روز بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوں گے۔(۲۸)

۵۴

نیکی کی طرف دعوت اور برائی سے روکنا

اس نئے تمدن نے سامراج کےدرمیان جن سیاسی مشکلات کوجنم دیا ان  میں سے ایک خود بینی بھی ہے۔ یعنی ہر آدمی صرف اپنی فکر میں ہو اور دوسرون کا ذرا بھی خیال نہ کرے۔ خود سلامت رہے، دوسرے جہنم میں جائیں! یہ بدترین صورت حال ہے جس مٰںآج کا انسانی سماج گرفتار ہے وہ بھی اس طرح کہ امت کے مفادات تو خطرہ میں وہں اور انجام نا معلوم ہو لیکن نہ کوئی آواز اٹھائے اور نہ آگے قدم بڑھائے۔ ایسی صورت میں بہادری، مردانگی، ایثار، جہاد، ظالموں کے مقابلہ میں استقامت جیسے عظیم اقدار نابود ہوجائیں گے۔ دین کا رنگ پھیکا اور ضمیر کی موت واقع ہوجائے گی۔

جیسا کہ ہم نے پہلے قرآن سے استدالال پیش کیا، بعض احادیث کے ذریعہ بھ اسی طرح استدالال پیش کرںگے۔ رسول خدا(ص) کا قول جس پر سبھی کا اتفاق ہے سے ساتھ ملکر پڑھتے ہیں۔ آںحضرت(ص) فرماتے ہیں:

”تم کو چاہئے کہ لوگوں کو بیکی کی طرف دعوت دو اور برائی سے روکو نہیں تو خدا تم میں سب سے برے کو تم پر مسلط کردے گا پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے لیکن ان کی دعا مستجاب نہ ہوگی۔“

نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا امت کی زندگی کے لیے ایک لازمی امر ہے اسی لئے ائمہ(ع) نے اسے دین کے ارکان میں شمار کیا ہے۔ یہی وہ ہے کہ معاصر اسلامی گروہ جو نعرہ سب سے پہلے بلند کرتے ہیں وہ امربالمعروف اورنہی ازمنکرکا نعرہ ہے۔ لیکن ترقی یافتہ سماج شدت سے اس نعرہ کے مخالف ہیں اور

۵۵

 اس کے مقابلہ کے لیے انہوں نے مختلف تنظیمیں بنا رکھی رہیں۔ جیسے  انسانی حقوق کی تنظیم، خواتین کے حقوق کی تنظیم اور جمعیت تحفظ حیوانات و غیرہ۔۔۔ لہذا اگر خودحکومت اس اہم امر ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) کو اپنے ذمہ نہ لے تو یہ محال ہے کہ لوگوں کی جماعت اسے انجام دے سکے متفرق افراد کا تو شمار ہی نہیں۔

آج آپ خود بہت سی برائیوں کےشاہد ہیں لیکن انکی مخالفت کرنےکی قوت نہیں رکھتے یہاں تک کہ اگر نہی از منکر کریں تو ممکن ہے مد مقابل چاہے لڑکی ہو یا لڑکا آپ کے خلاف کورٹ میں مقدمہ درج کرسکتا ہے پھر بڑے اچھے انداز آپ سے کہا جائے گا اس سے تمہیں کیا سروکار ! بے جا مداخلت نہ کرو! اور اگر آپ نے کہا میں امر بالمعروف اور نہی از منکر کررہا ہوں تو آپ کو جواب ملے گا یہ حق تم کو کس نے دیا اور کس طرح تمہیں حاصل ہے؟

خود مجھے اس کا تلخ تجربہ ہے جیسا کہ بعض دیگر مسلمانوں کے ساتھ یہ صورتحال پیش آئی ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں تلخی، ناچاری اور افسردگی کا مزا مجھے اب بھی محسوس ہوتا ہے اور دو باتوں کے درمیان اب بھی سرگرداں ہوں۔

اولاً ۔ میرا عقیدہ مجھے اپنے شرعی فرائض کی ادائیگی کےلئے آگے بڑھاتا ہے اور اگر خاموشی اختیار کروں تو جواب دہ ہونا پڑےگا۔

ثانیاً ۔ جس فضا میں زندگ گزار رہا ہوں اس نےمجھ سے اس حق کو زبردستی چھین رکھا ہے اور مجھے خائف کررہی ہے کہمیں پھر اس فریضہ کو انجام نہ دوں میں گورنر کی گفتگو نہیں بھول سکتاایک روز اس نے کہا تھا کیا تم خدا کے رسول(ص) ہو؟ اور خدا نے تمہیں نئے دین کے ساتھ مبعوث کیا ہے کہ لوگوں کی اصلاح کرو؟ میں نے اسے جواب دیا  ہرگز نہیں !

اس نے کہا : اچھا پھر جاؤ خود کو اور اپنے گھر والوں کو دیکھو اور ہمیں اپنے

۵۶

شر سے نجات دو! ہم لوگوں کی سلامتی اور ان کےامن و امان کے ذمہ دار ہیں اور اگر ہر برے غیرے کو امر و نہی کی اجازت دے دیں تو ملک ہرج ومرج کا شکار ہوجائے گا۔

میں بھی اپنی جگہ چپ بیٹھ رہا اگر چہ اندر سے اپنے فریضہ کا احساس کرتا تھا اور کرنے نہ کرنے کے درمیان سالوں کذر گئے یہاں تک کہ رسول گرامی(ص) کی حدیث نظروں سے گذری جس میں آپ(ص)  فرماتے ہیں۔

” تم میں سے جو بھی کسی برائی کو دیکھے تو اسے خود اپنے ہاتھ سے ختم کرے اور اگر قادر نہ ہو تو زبان سے اور اگر اس کا بھی امکان نہ ہوتو اپنے قلب سے اور یہ ایمان کا نہایت ہی ضعیف مرحلہ ہے۔“

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

” خدا نے ہم سے پہلے کسی ایسے نبی کو مبعوث نہیں فرمایا جس کے حواری و اصحاب نہ رہے ہوں وہ اس کی سنت پر عمل رتے تھے اور اس کے حکم کی اطاعت کرتے تھے۔ ان کے بعد دوسرا گروہ ان کا جانشین بنتا گیا لیکن یہ جو کہتے اس پر عمل نہ کرتے تھے اور جو کرتے اس کا انہیں حکم نہ ہوتا تھا لہذا جو بھی ایسوں سے اپنے ہاتھ اور اپنی قوت سے ان سے مقابلہ اور جہاد کرے مومن ہے اور جو اپنی زبان سے ان کا مقابلہ کرے مومن ہے۔ اسی طرح جو اپنے قلب سے ان کا مقابلہ کرے وہ بھی مومن ہے اور اس کےبعد تو پھر رائی کے ایک دانہ ے برابر بھی ایمان باقی نہیں بچتا۔“

میں نے پروردگار عالم کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری قوت سے زیادہ ہمیں تکلیف نہیں دی ہے۔ بے شک آںحضرت(ص) کی یہ حدیث کتاب خدا کی تفسیر کرتی ہے۔ چون کہ ماضی، حال اور مستقبل کا علم خدا کے پاس ہے لہذا اسے معلوم تھا کہ ایک زمانہ مسلمان پر ایسا آئے گا کہ وہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کی قوت

۵۷

 نہ رکھتے ہوںگے۔ اسی کے پیش نظر اس نے حکم کو آسان رکھا۔ اور ان کی قوت سے زیادہ ان سے طلب نہ کیا آحضرت(ص) نے نہی از منکر کے مراحل کو تدریجا بیان فرمایا ہے اور یہ اسلامی سماج میں تبدیلی اور قوت کے ضعف میں بدلجانے کے اوپر دلیل ہے اسی طرح حالات کے بدلنے کی صورت میں حکم شرعی میں تبدیلی کے اوپر بھی دلیل ہے۔

تو جس کے پاس قوت ہے اسے طاقت سے برائیوں کا مقابلہ کرنا چاہئے لیکن جس کے پاس قوت نہیں ہے لیکن زبان سے منکرات کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے چاہئے کہ زبان سے ان کا مقابلہ کرے۔لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ اس کے کہنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا یا اس کی وجہ سے دردسر اور مشکلات پیدا ہوجائیں گی تو اس صورت میں منہ سے کوئی بات کہے بغیر صرف قلبی مخالفت کافی ہے۔پس کس درجہ بے نیاز ہے وہ رب جس نے لوگوں کو ان کی قوت سے زیادہ تکلیف نہیں دی ہے۔ اور بے شمار درود ہو اس نبی(ص)  رحمت پر جو مومنین پر خود ان سے زیادہ مہربان تھا اسی طرح ان کی پاک و طاہر آل(ع) پر بھی درود و سلام ہو۔(۳۲)

۵۸

مہذب انسان، آسان شریعت

بلاشبہ جو آسمانی ادیان خداوند عالم کی جانب سے نازل ہوئے ہیں ان کا مقصد سب سے پہلے: انسان میں پروردگار عالم کی معرفت پیدا کرنا تھااور اس کو بت پرستی،شرک اور مختلف طرح کی گمراہی سے نجات دینا تھا۔

دوسرے : اس کی سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنا تھا اور یہ مقاصد دو بنیادی چیزوں سے عبارت ہیں:

۱۔ ایمان

۲۔ عمل

اورجب کبھی ایمان و عمل کہا جائے تو اس سے مراد صحیح ایمان اور عمل صالح ہے۔ لہذا ہر ایمان و عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہے اس لیے کہ ممکن ہے انسان مختلف عقائد پر ایمان رکھے لیکن اسلام سے اس کا ذرہ برابر بھی ربط نہ ہو اور ممکن ہےکہعقائد اسے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ہاتھ لگے ہوں اور بالفرض صحیح ہوں تو بھی ممکن ہے اس میں تغیر و تبدیلی پیدا ہوگئی ہو۔

خداوند عالم فرماتا ہے۔

اور جب ان سے کہا گیا کہ جو قرآن خدا نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ تو کہنے لگے ہم تو اس کتاب توریت پر ایمان لائے ہوئے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی گے اور اس کے بعد آئی ہے نہیں مانتے حالاںکہ وہ ( قرآن) حق ہے اور اس کتاب (توریت) کی جو ان کے پاس ہےتصدیق بھی کرتا ہے۔( بقرہ/۹۱)

۵۹

بعض اوقات انسان کسی کام کو یہ سمجھ کر انجام دیتا ہے کہ اس میں بشریت کے لیے فائدہ ہے جب کہ اس کے کاموں سے سوائے نقصان و ضرر کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

خداوند عالم فرماتا ہے۔

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ کرتے پھرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرتے ہیں خبردار ہوجاؤ ! بیشک یہ لوگ فسادی ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ (بقرہ / ۱۱ / ۱۲)

یا ممکن ہے انسان نیک کام کرے جو بشریت کے لیے بہت مفید اور فائدہ مند ہو لیکن اس نے اسے خدا کے لیے انجام نہ دیا ہو بلکہ اس کا مقصد صرف دکھاوا او ریاکاری ہو تو اس طرح کا عمل سراب اور دھوکہ ہے کہ دور سے پیاسے اس کی طرف پانی سمجھ کر آئیں لیکن جب نزدیک پہنچیں تو کچھ نہ پائیں۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

اور ان لوگوں نے دنیا میں جو کچھ نیک کام کئےہیںہمانکیطرفتوجہکریںگے (کہوہفاسداورغیرخالصاعمالہیں ) گویا اڑتی ہوئی خاک بنا ( کر برباد کر) دیں گے۔(فرقان / ۲۳)

اگر دین انسان کے لیے راہنمائی ہے جس کے ذریعہ وہ ہدایت پائے اور ترقی کرے اس لیے کہ ابتدائے خلقت سے انسان جہاں بھی تھا  وہاں دین موجود تھا اور یہ بات موجودہ تحقیقات اور آثار قدیمہ کی شناخت کرنے والوں کے ذریعہ بھی مسلم ہوچکی ہے کہ ابتدا میں رہنے والے انسان بہت سی چیزوں سے ناواقف تھے اور بہت عرصے کے بعد انھیںاس کا علم ہوا لیکن انکے یہاں پہلے سے ہیہ عبادت گاہ نظر آتی ہے اور اسی مطلب کی طرف پروردگار عالم کا قول اشارہ کرتا ہے۔

لوگوں کی عبادت کے واسطے جو گھر سب سے پہلے بنایا گیا وہ یقینا

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خان ے م یں ان کی کوئی نہ کوئ ی جلد او رنسخہ موجود ہے ۔

چنانچہ اگر فقہ ک ی استدلالی کتابوں اور عمل یہ رسائل کامطالعہ ک یجئے تو آپ دیکھیں گے ک ہ علاو ہ اس ک ے ک ہ کوئ ی شرک کاطریقہ موجود نہیں ہے ،احکام ب ھی مہ مل اور ب ے قاعد ہ ن ہیں ہیں بلکہ فق ہ جعفر ی کے باطن س ے توح ید کا لب لباب ظاہ ر و آشکار ہے ۔

شرح لمعہ اور شرائع الاسلام سار ے کتب خانو ں م یں موجود ہیں ان کامطالعہ ک یجیے تو اسی باب نذر میں نیز جملہ فق ہ ائ ے ش یعہ کے عمل یہ رسالوں م یں ملے گا ۔ نذر چونک ہ خدا ک ے لئ ے کس ی عمل کو اپنے اوپر لازم کرن ے ک ی وجہ س ے ابواب عبادت م یں سے ا یک باب ہے ل ہ ذا اس ک ے لئ ے حت می طور پر دو شرطوں کا لحاظ رک ھ نا ضرور ی ہے ۔ ک یونکہ اگر ان دونوں م یں سے کوئ ی مفقود ہ وگ ی تو نذر منعقد نہ ہ وگ ی ،اول:- نیت متصل بہ عمل ، اور دوسر ی :- صیغہ چاہے و ہ جس زبان م یں ہ و ۔

جب مسلمان یہ سمجھ ل ے گا ک ہ اس ک ی نذر بغیر ان دو شرطوں ک ے صح یح نہ ہ وگ ی تو کوشش کرے گا ک ہ پ ہ ل ے ان دونو ں کامطلب اور نوع یت سمجھ ل ے اس ک ے بعد نذر کر ے جس وقت کس ی فقیہ سے سوال کر ے گا یا کوئی رسالہ پ ڑھے گا تو اس کو معلوم ہ وگا ک ہ اولا سار ی عبادتوں م یں بالخصوص نذر میں نیت اللہ ک ے بار ے م یں اور اللہ ک ی خوشنودی حاصل کرنے ک ے لئ ے ہ ونا چا ہ ئ یے لہ ذا غ یر خدا کے لئ ے ن یت کا سوال یہ ختم ہ و جاتا ہے ۔

دوسری شرط جو پہ ل ی شرط کا تتمہ ہے اور اس کو مضبوط کرن ے وال ی ہے ، یہ ہے ک ہ نذر کن ے وال ے کو نذر ک ے وقت ص یغہ پڑھ نا لازم ی ہے اور ص یغہ میں جب تک خدا کا نا م نہ ہ و ص یغہ جاری نہیں ہ وتا ،مثلا روز ے ک ی نذر کرنا چاہ تا ہے ۔ تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اصوم"

یا شراب ترک کرنا چاہ تا ہے تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اترک شرب الخمر" اور اسی طریقے سے دوسر ی نذریں ہیں۔

اگر فارسی یا اردو وغیرہ بولنے وال ے ک ے لئ ے عرب ی صیغہ جاری کرنا آسان نہ ہ و تو ہ ر قوم والا اپن ی زبان میں صیغہ جاری کر سکتا ہے اس شرط س ے ک ہ ا س ک ے معن ی مذکورہ ص یغہ سے مطابق ہ و ں ، اور اگر ن یت میں غیر خدا ہ و یا کسی اور زندہ یا مردہ کو خدا ک ے نا م ک ے سات ھ شامل کر لے ۔ چ ہ ل ہے پ یغمبر یا امام یا امام زادے ہی کا نام ہ و تو قطعا و ہ نذر باطل ہے اور اگر عمدا جان بوج ھ کر ا یسا کرے تو مشرک ہے ک یونکہ مذکورہ آ یت میں کھ لا ہ و ا ارشاد ہے "ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا" البت ہ ا ہ ل علم پر لازم ہے ک ہ نا واقف لوگو ں کو سمج ھ ا ئ یں کہ ن ذر قطعا خدا کے نام پر اور خدا ہی کے لئ ے ہ ونا چا ہیئے ،چنانچہ واعظ ین اور مبلغین برابر اپنا فرض انجام دیتے رہ ت ے ہیں ۔ اور ش یعہ فقہ ا عموما ب یان کیا کرتے ہیں کہ نذر ہ ر زند ہ یا مردہ ک ے لئ ے چا ہے و ہ پ یغمبر یا امام ہی ہ و باطل ہے اور اگر سمج ھ ک ے عمدا ا یسا کرے ت و مشرک ہے ۔

۸۱

نذر صرف خدا کے لئ ے کر یں اس کے مصرف ک ے تع ین میں اختیار ہے ۔ مثلا نذر کر ے ک ہ خدا ک ے لئ ے کوئ ی گوسفند فلاں مکان یا عبادت خانے یا بقعہ امام وغ یرہ میں لے جا کر قربان ی کرے گا ۔یا کوئی رقم یا لباس خدا کے لئ ے فلا ں س یّد یا عالم یا یتیم یا فقیر کو دے گا تو کوئ ی حرج ن ہی ں ہے ،ل یکن اگر پیغمبر یا امام یا امام زادہ یا عالم یا یتیم یا محتاج وغیرہ کے لئ ے نذر کر ے تو حتما باطل ہے اور علم وقصد ک ے سات ھ قطعا شرک ہے ۔ ہ ر رسول ،فق یہ ،عالم، واعظ اور مبلغ کا فرض لکھ نا اور ب یان کرنا ہے "وما علی الرسول الا البلاغ" یعنی پیامبر پر سوا مکمل طریقے سے پ ہ نچا د ینے کے اور کوئ ی ذمہ دار ی نہیں ہے ۔ سور ہ نور آ یت 54۔

اور لوگوں کا فرض سننا اور عمل کرنا ہے اگر کوئ ی شخص یا اشخاص احکام دین کے س یکھ ن ے اور سکھ ان ے ک ی کوشش نہ کر یں اور ہ دا یات کے مطابق اپن ے مذ ہ ب ی فرائض پر عمل نہ کر یں تو ان کے اصل عق یدے اور اصول وقواعد میں کوئی نقص نہیں پیدا ہ وتا ۔

میرا خیال ہے ک ہ اس ی قدر جواب سے حق یقت ظاہ ر ہ وگئ ی ہ وگ ی اور اس کے بعد آپ حضرات ش یعوں کو مشرک کہہ کر عوام کو غلط ف ہ م ی میں مبتلا نہ کر یں گے ۔

شرک خفی

بہ تر ہے ک ہ ہ م لوگ پ ہ ل ی گفتگو کی طرف رجوع کریں اور مطلب پورا کریں ۔ دوسر ی قسم شرک خفی و پوشیدہ ہے اور و ہ شرک در اعمال اور طاعات وعبادات میں رہ ا ہے اس قسم ک ے شرک اور شرک در عبادت ک ے درم یان جس کو ہ م ن ے شرک جل ی میں شمار کیا ہے فرق یہ ہے ک ہ بند ہ سرک عب ادت میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیتا ہے اور مقام عبادت م یں اس کی پر ستش کرتا ہے ،مثلا اگر نماز یمں غیر خدا کو مد نظر رکھے جیسے شیاطین کے ب ہ کان ے س ے مقام ولا یت کی صورت نگاہ م یں لائے یا کسی مرشد کو مر کز توجہ بنائ ے تو قطعا و ہ عمل باطل اور شرک خف ی ہے ، عبادت میں سوا ذات وحدہ لاشر یک کے انسان ک ے ذ ہ ن وفکر م یں اور کسی کو دخل نہ ہ ونا چا ہیئے ورنہ شرک جل ی میں داخل ہ وجاتا ہے ۔

حضرت رسول خدا(ص) سے مرو ی ہے ک ہ فرما یا "یقول الله تعالی من عمل عملا صالحا اشرک فیه غیری فهو له کله وانا منه برئ وانا اغنی الاعنیاء عن الشرک" یعنی خدائے تعال ی فرماتا ہے ک ہ جو شخص کوئ ی نیک عمل کرے اور اس م یں میرے غیر کو شریک کرلے تو سارا عمل اس ی کے لئ ے ہے اور م یں اس (عمل یا عامل) سے ب یزار ہ و ں اور م یں تمام اغنیا سے ز یادہ شک سے غن ی ہ و ں۔

۸۲

ن یز روایت میں ہے ک ہ ارشاد فرما یا جو شخص نماز پڑھے یا روزہ رک ھے یا حج کرے اور اس کا نظر یہ یہ ہ و ک ہ لوگ اس عمل پر اس ک ی مدح کریں "فقد اشرک فی عملہ "تو یقینا اس نے ا س عمل میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیا۔

نیز کاشف اسرار حقائق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ک ہ "لو ان عبدا عمل عملا یطلب به رحمة الله والدار الآخرة ثم ادخل فیه رضا احد من الناس کان مشرکا" (یعنی اگر کوئی بندہ رحمت خدا اور جزائ ے آخرت ک ی طلب میں کوئی عمل کرے اور اس م یں کسی انسان کی رضامندی کو شامل کرے تو و ہ عامل مشرک ہ و جائ ے گا) ۔

شرک خفی کا دامن بہ ت وس یع ہے ک یونکہ کسی عمل میں غیر خدا کی طرف ایک مختصر سی توجہ ب ھی مشرک بنا دیتی ہے ۔

شرک در اسباب

اس شرک کی قسموں م یں سے ا یک شرک در اسباب ہے ج یسا کہ اکثر لوگ صرف اسباب اور خلق پر ام ید وخوف کی نظر رکھ ت ے ہیں ، یہ بھی شرک ہے ل یکن شرک در اسباب سے مراد یہ ہے ک ہ اسباب ہی میں اثر سمجھے مثلا آفتاب اش یا کی تربیت میں اثر انداز ہ وتا ہے اگر اس اثر کو ب غیر مؤثر حقیقی کی طرف توجہ کئ ے ہ وئ ے خود آفتاب کی جانب سے سمج ھیں تو شرک ہے اور اگر اس کا مؤثر حک یم مطلق کو اور آفتاب کو فیض رسانی کا ذریعہ جانیں تو ہ رگز شرک ن ہیں ہے ،بلک ہ یہ تو ایک طرح کی عبادت ہے ک یونکہ حق کی نشانیوں پر توجہ کرنا خود حق ک ی طرف توجہ کرنے کا پ یش خیمہ ہے ؛ج یسا کہ قرآن مج ید کی بہ ت س ی آیتوں میں اس امر کی جانب اشارہ موجود ہے ک ہ آ یات الہی پر غور کرو اس لئے ک ہ فکر ونظر خود خدائ ے تعال ی کی طرف توجہ کا مقدم ہ ہے ۔

اسی طرح اسباب میں سے ہ ر سبب ک ی طرف جیسے تاجر کی تجارت کی طرف ،کاشتکار کی زراعت کی طرف ،باغبان کی باغبانی کی طرف ،پیشہ ور کی پیشہ ور کی طرف اور منتظم کی اپنے انتظام ک ی طرف یہ ا ں تک کہ کس ی قسم کا کام کرنے وال ے ک ی اپنے شغل اور عمل ک ی طرف مستقل اور خاص توجہ مشرک بناد یتی ہے اور اگر سبب و اسباب پر اس ک ی نظر اس نیت سے ہ و ک ہ "لا مؤثر ف ی الوجود الا اللہ " یعنی اثر دینے والا سوا خدا کے کوئ ی اور نہیں ہے تو کوئ ی قباحت نہیں ہے اور شرک ن ہ ہ وگا ۔

شیعہ کسی پہ لو س ے مشرک ن ہیں

اس مختص تمھید کے بعد جس س ے مطلب واضح ہ وگ یا ہے اور ہ م اصول شرک اور اس ک ے معان ی وآثار بیان کرچکے ہیں ، اب اجازت دیجئے کہ اپن ے ب یانات سے نت یجہ نکالیں اور دیکھیں کہ ہ م ن ے شرک جل ی و خفی کے جو طر یقے بیان

۸۳

کئے ہیں ان میں سے کس ک ے ماتحت آپ ش یعوں کو مشرک کہ ت ے ہیں ۔ آ یا کہ ا ں اور کس پ ڑھے لک ھے یا جاہ ل ش یعہ سے آپ ن ے سنا ہے ک ہ و ہ خدائ ے تعال ی کی ذات وصفات اور افعال میں کسی شریک کا قائل ہ و؟ یا پروردگار کی عبادت میں کسی دوسرے معبود کو پ یش نظر رکھ تا ہ و ؟ یا شیعوں کی کونسی کتب اور اخبار واحادیث میں دیکھ ا ہے ک ہ اصول وفروع اور عقائد ک ے بار ے م یں ان بزرگان دین اور ائمہ طا ہ ر ین سے کوئ ی ایسی بات یا حکم منقول ہ و جو شرک ک ے ان طر یقوں سے ملتا ہ و جو م یں نے عرض ک یئے ؟۔

اب رہ ا شرک خف ی اور اس کے اقسام ج یسے لوگوں کو دک ھ ان ے اور ان کو متاثر کرن ے ک ے لئ ے کوئ ی عمل کریں یا اسباب سے ربط او ر ام ید قائم کریں تو یہ بات تنہ ا ش یعوں سے مخصوص ن ہیں ہے بلک ہ ش یعہ اور سنی سبھی عالم اجسام میں گرفتار ہیں اور بہ ت س ے عقل ومعرف ت ،تزکیہ نفس اور کامل توجہ ن ہ ہ ون ے ک ی وجہ س ے کب ھی کبھی شیطان کے وسوسو ں م یں مبتلا ہ و کر ر یائی عمل کرتے ہیں ،یا سرتا پا اسباب میں محو ہ وجات ے ہیں اور حق کی اطاعت سے ہٹ کر اطاعت ش یطان کرنے لگت ے ہیں اور جیسا عرض کیا جاچکا ہے اگر چ ہ یہ طرز عمل شرک ک ے مف ہ وم م یں آجاتا ہے ل یکن شرک مغفور ہے اور یقینا معانی اور چشم پوشی کے قابل ہے ک یونکہ تھ و ڑی روحانی توجہ س ے اس ک ی تلافی ہ وجات ی ہے ۔ پ ھ ر آپ کس پ ہ لو س ے ش یعوں کو مشرک سمجھ ت ے ہیں ؟ اور عوام کو دھ وک ے م یں ڈ الت ے ہیں ،جیسا کہ ف ی الحال آپ نے اشار ہ ک یا ہے ۔

حافظ:- آپ کی ساری باتیں صحیح ہیں لیکن میں نے عرض ک یا کہ اگر آپ غور فرمائ یے تو خود تصدیق کیجئے گا کہ امامو ں س ے حاجت طلب کرنا اور ان کا وس یلہ اختیار کرنا شرک ہے چونک ہ ہ م ک و انسانی واسطے ک ی ضرورت نہیں ہے ل ہ ذا جب ب ھی خدا کی طرف توجہ کر یں گے نت یجہ حاصل ہ وجائ ے گا ۔

خیرطلب :- بڑے تعجب کا مقام ہے ک ہ آپ کا ا یسا منصف اور ہ وش یار عالم کیونکر بغیر تحقیق کے اپن ے اسلاف ک ی عادتوں ک ے ز یر اثر رہ کر ا یسے بیان دیتا ہے ،غالبا آپ سور ہے ت ھے یا میری گزارشوں ک ی طرف کوئی توجہ ن ہیں تھی کہ ان مقدمات کو ذکر کرن ے کا اور مطالب ک ی تشریح کردینے کے بعد ب ھی آپ یہ بات دہ را ر ہے ہیں کہ امامو ں س ے حاجت چا ہ نا شرک ہے ۔

جناب محترم! کیا مطلقا مخلوقات سے حاجت طلب کرنا شرک ہے ؟ اگر ایسا ہے تو سارا عالم مشرک ہے اور کب ھی کوئی موحد مل نہیں سکتا ۔ اگر خلق س ے حاجت چا ہ نا اور ان س ے مدد ک ی خواہ ش کرنا شرک ہے تو انب یاء کس لئے خلائق س ے امداد مانگت ے ت ھے ؟ ب ہ تر ہ و گا ک ہ آپ ح ضرات کسی قدر قرآن مجید کی آیتوں پر بھی غورفرمائیں تاکہ حق یقت واضح ہ وجائ ے ۔

۸۴

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلق یس لانا

ضرورت ہے ک ہ سور ہ نمبر27(نمل)ک ی آیات نمبر 38 تا 40 پر توجہ فرمائ یے جن میں ارشاد ہے " قَالَ يَا أَيُّهَا المَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ٭ قَالَ عِفْريتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ٭ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرّاً عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ٭ "( یعنی جناب سلیمان نے حاضر ین مجلس سے ک ہ ا ک ہ تم م یں سے کون شخص بلق یس کا تخت میرے پاس لائے گا ، قبل اس ک ے ک ہ و ہ لوگ م یرے سامنے اطاعت گزار بن ک ے آئ یں ؟ جنا ت میں سے ا یک دیو بولا کہ م یں اس کا تخت لے آن ے پر ا یسا قادر اور امین ہ و ں ک ہ آپ ک ے دربار س ے ا ٹھ ن ے س ے پ ہ ل ے ہی لا کر حاضر کردوں گا ، اس شخص ن ے جس کو ت ھ و ڑ ا سا علم کتاب معلوم ت ھ ا ( یعنی آصف بن برخیا جو اسم اعظم جانتے ت ھے ) ک ہ ا ک ہ م یں آپ کی پلک جھ پکن ے سے قبل اس کو یہ ا ں لے آؤ ں گا ۔ جب سل یمان نے و ہ تخت اپن ے پاس د یکھ ا تو کہ ا ۔ یہ طاقت میرے پروردگار کے فضل س ے ہے ۔۔ ال ی آخر) بدیہی چیز ہے ک ہ بلق یس کا اتنا بڑ ا تخت اتن ی طویل مسافت سے پلک ج ھ پکن ے س ے قبل سل یمان کے پاس ل ے آنا عاجز مخلوق کا کام ن ہیں ہے اور مسلّم ہے ک ہ ا یک خلاف عادت امر ہے ل یکن حضرت سلیمان نے یہ سمجھ ت ے ہ وئ ے ب ھی کہ یہ کام خدائی قدرت چاہ تا ہے تخت منگوان ے ک ی درخواست خدا سے ن ہیں کی بلکہ ا یک عاجز مخلوق سے حاجت روائ ی اور امداد کی خواہ ش ک ی اور اہ ل دربار س ے فرمائش ک ی کہ و ہ ع ظیم الشان تخت میرے لئے منگوادو، ل ہ ذا خود جناب سل یمان کا عاجز بندوں س ے یہ تقاضا کرنا کہ تم م یں سے کون اپن ی خدا داد قوت سے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور تخت بلق یس کو اس کے آن ے س ے پ ہ ل ے م یرے سامنے حاضر کرسکتا ہے ؟ اس بات کا ثبوت ہے ک ہ مخلوق س ے مطلق حاج ت چاہ نا شرک ن ہیں ہے ۔ خدا ن ے دن یا کو عالم اسباب قرار دیا ہے ۔ شرک ب ھی ایک قلبی امر ہے اگر اس شخص کو جس س ے حاجت طلب کر رہ ا ہے خدا یا خدا کا شریک نہ سمج ھے تو اس س ے مدد ل ینے میں کبھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ عام طور پر لوگو ں م یں رواج ہے ک ہ ہ م یشہ زید ،عمر وبکر کے درواز ے پر جاکر بغ یر خدا کا نام زبان پر جاری کئے ہ وئ ے امداد کا تقاضا کرت ے ہیں ۔

چنانچہ اگر کوئی مریض طبیب اورڈ اک ٹ ر ک ے درواز ے پر جاکر ک ہے ک ہ ڈ اک ٹ ر صاحب م یری فریاد کو پہ نچئ ے ،ب یماری مجھ کو مار ے ڈ الت ی ہے تو ک یا یہ مریض مشرک ہے ؟ ۔

اگر کوئی دریا میں ڈ وبن ے والا ہ و فر یاد کرے ک ہ لوگو م یری مدد کو پہ نچو اور مج ھ کو بچاؤ اور خدا کا نام ن ہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

۸۵

اگر کسی ظالم نے کس ی بے گنا ہ مظلوم کا پ یچھ ا کیا اور اس نے وز یر اعظم کے در پر جا ک ے ک ہ ا جناب وز یر صاحب میری فریاد رسی کیجئے ۔ م یں آپ کا دامن نہ چ ھ و ڑ و ں گا ک یونکہ مجھ کو سوا آپ ک ے اور کس ی سے ام ید نہیں جو مجھ کو اس ظالم ک ے پنج ے س ے چ ھٹ کارا دلائ ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

اگر کسی کے گ ھ ر کوئ ی چور جان یا مان یا عزت کے قصد س ے داخل ہ وا اور و ہ کو ٹھے پر چ ڑھ ک ے اپن ے پ ڑ وس یوں کو مدد کے لئ ے پکار ے اور رسما ک ہے ک ہ لوگو م یری مدد کو دوڑ و اور اس چور س ے بچاؤ ل یکن اس وقت خدا کا نا بالکل نہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟

قطعا جواب نفی میں ہ وگا اور کوئ ی عقلمند آدمی ایسے کو مشرک نہیں کہے گا بلک ہ جو لوگ مشرک ک ہیں وہ یا تو بیوقوف ہیں یا پھ ر ان ک ی کوئی غرض ہے ۔

محترم حضرات ! انصاف کیجئے اور غلط فہ م ی نہ پ ھیلائے ، بالعموم سارے ش یعہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئ ی شخص آل محمد کو خدا سمجھے یا ان کو خدائی ذات وصفات او رافعال میں شریک جانے تو و ہ قطع ی مشرک ہے ۔ اور ہ م لوگ اس س ے ب ے ب یزاری اختیار کرتے ہیں ۔ اگر آ پ نے مص یبتوں میں شیعوں کو" یا علی ادرکنی " یا حسین ادرکنی" کہ ت ے ہ وئ ے سنا ہے تو اس ک ے معن ی یہ نہیں ہیں کہ " یا علی اللہ ادرکن ی" یا حسین اللہ ادرکن ی" بلکہ دن یا چونکہ دار اسباب ہے ک یونکہ "ابی الله ان یجری الامور الا باسبابها" یعنی اللہ ن ے امور کو ب غیر ان کے اسباب نافذ کرن ے س ے انکار ک یا ہے (مترجم)۔ ل ہ ذا ش یعہ اس خاندان جلیل کو وسیلہ اور اسباب نجات سمجھ ت ے ہیں اور انہیں حضرات کے ذر یعے سے خدا تک رسائ ی کی کوشش کرتے ہیں ۔

حافظ:- مستقل طور پر خدا ہی سے ک یوں حاجت طلب نہیں کرتے ک ہ وس یلہ اور واسطہ ک ے پ یچھے دوڑ ر ہے ہیں ؟

خیر طلب :-طلب حاجات اور رنج وغم کے دف یعہ میں ہ مار ی مستقل توجہ پروردگار ہی کی یکتاذات سے مخصوص ہے ل یکن قرآن مجید جو ایک محکم آسمانی کتاب ہے ہ م کو ہ دا یت کررہ ا ہے ک ہ خدا ک ی جلیل بارگاہ م یں وسیلے کے سات ھ حاضر ہ ونا چا ہ ئ یے چنا نچہ سور ہ نمبر 5 (مائد ہ )آ یت نمبر36 میں ارشاد ہ وتا ہے "یا ایهاالذین آمنوا اتقوالله وابتغوه الیه الوسیلة" (یعنی اے ا یمان والو خدا سےڈ رو اور اس ک ی بارگاہ م یں پہ نچن ے ک ے لئ ے (اول یائے حق کا) وسیلہ اختیار کرو (تاکہ مطلب برآئ ے ) ۔

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذر یعے ہیں

ہ م شیعہ اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کو امور کے حل وعقد م یں قادر مطلق نہیں سمجھ ت ے بلک ہ ان حضرات کو خط ک ے صالح بند ے اور ف یض خداوندی کاواسطہ جانت ے ہیں اور اس جلیل القدر خاندان کے سات ھ ہ مارا توسل رسول الل ہ

۸۶

ک ے حکم س ے ہے ۔

حافظ:- کس مقام پر رسول اکرم (ص) نے ان س ے توسل اخت یار کرنے کا حکم د یا ہے اور ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ واسط ے س ے مراد آل محمد (ص) ہیں ؟ ۔

خیرطلب :-بکثرت حدیثوں میں حکم دیا ہے ک ہ خطرات اور م ہ لکو ں س ے نجات حاصل کرن ے ک ے لئ ے م یری عزت اور اہ ل ب یت سے متوسل ہ و ۔

حافظ:- یا یہ ممکن ہے ؟ اگر ا یسی حدیثیں آپ کی نظر میں ہیں تو ہ مار ے سامن ے ب ھی بیان فرما دیجیئے۔

خیرطلب :-آپ نے جو یہ فرمایا کہ ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ وس یلے سے مراد عترت اور ا ہ ل ب یت پیغمبر (ع) ہیں ؟ تو آپ کے اکابر علماء ج یسے حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی "نزول القرآن فی علی " میں حافظ ابو بکر شیرازی "ما نزل من القرآن فی علی "میں اور امام احمد ثعلبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ آ یہ شریفہ میں وسیلہ سے مراد عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ع)ہیں ۔ چنانچ ہ علماء م یں سے شرح ن ہ ج البلاغ ہ جلد چ ہ ارم صفح ہ 79 م یں حضرت صدیقہ کبری فاطمہ ز ہ را سلام الل ہ عل یھ ا کا وہ خطب ہ نقل ک یا ہے جو جناب معصوم ہ ن ے قض یہ فدک کے سلسل ے م یں مہ اجر ین انصار کے سامن ے ارشاد فرما یا تھ ا چنانچ ہ خطب ے ک ے شروع ہی میں ان مظلومہ ن ے مندرج ہ ذ یل عبارت کے سات ھ اس آ یت کے معن ی کی طرف اشارہ فرما یا ہے "واحمدالل ہ الذ ی بعظمتہ ونور ہ یبتغی من فی السموات والارض الیہ الوسیلۃ ونحن وسیلتہ فی خلقہ "( یعنی میں حمد کرتی ہ و ں اس خدا ک ی جس کی عظمت اور نور کی وجہ س ے آسمانو ں اور زم ینوں کے ر ہ ن ے وال ے اس ک ی طرف وسیلہ تلاش کر تے ہیں ، اور ہ م ہیں اس کا وسیلہ مخلوقات کے اندر ۔

حدیث ثقلین

عترت رسول اور اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک و توسل اور ان ک ی پیروی کے جواز پر مضبوط دل یلوں میں سے ا یک حدیث ثقلین بھی ہے جو فر یقین کے نزد یک صحیح اسناد کے سات ھ توا تر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے ک ہ رسول الل ہ (ص) س ے ارشاد فرمایا "ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی" (یعنی اگر ان کے سات ھ تمسک رک ھ و گ ے تو م یرے بعد ہ رگز گمرا ہ ن ہ ہ وگ ے ) ۔

حافظ:- میرا خیا ل ہے ک ہ آپ ن ے د ھ وکا ک ھ ا یا ہے جو اس حد یث کو صحیح الاسناد اور متواتر کہہ د یا ہے ۔ اس لئ ے ک ہ یہ مقصد ہ مار ے اکابر علماء ک ے نزد یک غیر معلوم ہے اور اس بات پر دل یل یہ ہے ک ہ ہ مار ے ش یخ بزرگ اور مذہ ب

۸۷

سنت وجماعت ک ے قبل ہ وکعب ہ محمد بن اسماع یل بخاری نے اپن ی معتبر صحیح میں جو قرآن کریم کے بعد تمام کتابو ں س ے ز یادہ صحیح ہے اس کا ذکر ن ہیں کیا ہے ۔

خیر طلب :-اول تو یہ کہ م یں نے د ھ وکا ن ہیں کھ ا یا ہے بلک ہ اس حد یث مبارک کا صحیح اور معتبر ہ و نا آپ ک ے علماء ک ے نزد یک مسلم ہے یہ ا ں تک کہ ابن حجر مک ی نے اتن ے سخت تعصب ک ے بعد اس ک ی صحت کا اعتراف کیا ہے ۔ ضرورت ہے ک ہ اپن ے ذ ہ ن کو روشن کرن ے ک ے لئ ے صواعق محرق ہ فصل دوم با ب 11 ذیل آیہ چہ ارم صفح ہ 89-90 ک ی طرف رجوع کیجئے جہ ا ں و ہ ترمذ ی ،امام احمد بن جنبل ،طبرانی ،اور مسلم سے روا یتیں نقل کرنے ک ے بعد ک ہ ت ے ہیں "اعلم ان لحدیث التمسک با الثقلین طرقا کثیرۃ و وردت من نیف و عشرین صحابیا "(یعنی جان لو کہ ثقل ین (عترت رسول اور قرآن مجید)سے تمسک کرن ے ک ی حدیث بہ ت طر یقوں سے مرو ی ہے یہ بیس سے ز یادہ اصحاب رسول (ص)سے نقل ہ وئ ی ہے ) ۔

پھ ر کہ ت ے ہیں کہ حد یث کے طرق م یں تھ و ڑ ا سا اختلاف ہے کس ی میں کہ ت ے ہیں کہ حج ۃ الوداع میں عرفات کے اندر ، کس ی میں مرض الموت کے عالم م یں مدینے کے اندر جب حجر ہ صحاب ہ س ے ب ھ را ہ وا ت ھ ا کس ی ،میں ملتا ہے غد یر خم کے اندر اور کس ی میں درج ہے ک ہ طائف س ے وا پسی کے بعد کا ذکر ہے اس ک ے بعد خود ہی تبصرہ کرت ے ہ وئ ے ک ہ ت ے ہیں کہ ان اختلافات م یں کوئی منافات نہیں ہے اور بلکل ممکن ہے ک ہ رسول اکرم (ص)نے قرآن کر یم اور عترت طاہ ر ہ ک ی عظمت وشان ثابت کرنے ک ے لئ ے ان سار ے مقامات پر بار بار اس حد یث کو ارشاد فرمایا ہ و ۔

بغیر تعصّب کے بار یک بینی سعادت کا سبب ہے

دوسرے آپ نے یہ فرمایا ہے ک ہ بخار ی کا اپنی صحیح میں نقل نہ کرنا اس حد یث کے صح یح نہ ہ ون ے ک ی دلیل ہے تو آپ کا یہ بیان بہ ت س ی وجہ و ں س ے قابل رد اور علماء ک ے نزد یک لائق نفرت ہے ک یونکہ یہ حدیث مبارک اگرچہ بخار ی نے اپن ی صحیح میں درج نہیں کی ہے ،ل یکن آپ کے اکابر علماءن ے بالعموم اس کو نقل ک یا ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ مسر مسلم بن حجاج اور سار ے ارباب صحاح ست ہ نس اپن ی معتبر کتابوں م یں تفصیل کے سات ھ ذکر ک یا ہے ۔

یا تو آپ حضرات کوچاہیئے کہ تمام صحاح اور اپن ے علماء ک ی معتبر کتابوں کو د ھ و کر دور پ ھینک دیجیئے اور اپنے سار ے عقائد کو صرف بخار ی تک محدود رکھیئے یا اگر دوسرے علماء ک ی عدالت اور علم ودانش کے معترف م یں جواپنے دور ا ہ ل سنت ک ے درم یان علم وفہ م او ر تقو ی میں ممتاز ت ھے خصوصا صحاح ست ہ ک ے مؤلف ین تو آپ کا فرض ہ وگا ک ہ اگر کس ی خبر کو اپنی مصلحتوں ک ی بنا پر بخاری نے ن ہیں لکھ ا ہے اور دوسرو ں ن ے نقل ک یا ہے تو اس کو قبول فرمائ یے ۔

۸۸

حافظ:- مصلحت کوئی بھی نہیں تھی صرف امام بخاری محتاط بہ ت ز یادہ تھے اور نقل اخبار م یں بہ ت جانچ پ ڑ تال کرت ے ت ھے چنانچ ہ جس روا یت کو سند یا عبارت کے لحاظ س ے مشکوک اور عقل ک یخلاف پایا اس کو نقل نہیں کیا ۔

خیر طلب :- قاعدہ "حب الشیء یعمی ویصم"(یعنی کسی چیز کی محبت آدمی کو اندھ ا اور ب ہ را بناد یتی ہے )ک ے مطابق اس مقام پر حضرات ا ہ ل سنت کو غلط ف ہ م ی ہ وئ ی ہے ک یوں کہ آپ ان ک ے بار ے م یں غلو رکھ ت ے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ امام بخار ی بہ ت بار یک بین تھے او ر جو روا یت انہ و ں ن ے اپن ی صحیح میں درج کی ہے و ہ انت ہ ائ ی معتبر اور وحی کی منزل کے مانند ہے حالانک ہ ا یسا ہے ن ہیں ، بخاری کے سلسل ہ اسناد م یں بکثرت مردود ،منفور کذاب اور جعال اشخاص موجو د ہیں۔

حافظ:- آپ کایہ بیان مردود ومنفور ہے اس لئ ے ک ہ آپ ن ے بخار ی کے مرتب ہ علم ودانش ک ی توہین کی ہے ( یعنی سارے ا ہ ل سنت وجماعت ک ی اہ انت ک ی ہے )-

خیرطلب :-اگر علمی تنقید اہ انت ہے تو آپ ک ے تمام ب ڑے ب ڑے علماء جن ہ و ں ن ے روا یات کی گہ ر ی تحقیق کی ہے اور آپ ک ی معتبر صحاح کی بلکہ مخصوص طور پر صح یح بخاری اور صحیح مسلم کی بہ ت س ی روایتوں کو ان کے سلسل ہ اسناد م یں مردود ،کذاب اور جعال شخص کے موجو د ہ ون ے ک ی وجہ س ے رد کرد یا ہے ، سب س ے مرتب ہ علم ودانش ک ی تو ہین کرنے وال ے اور مردود ت ھے۔

بہ تر ہ وگا آپ حضرات کتب اخبار م یں ذرا دقت نظر سے کام ل یں اور مطالعے ک ے وقت غلو ک ی نگاہ س ے ن ہ د یکھیں کہ چ ونکہ یہ بخاری یا مسلم ہیں لہ ذا جو کچ ھ نقل کرد یا ہے ہ ر ح یثیت سے صح یح اور یقینی ہے ۔

ضروری ہے ک ہ آپ ک ے و ہ علماء جو صحاح ست ہ اور بالخصوص صح یح بخاری اور صحیح مسلم کے بار ے م یں غلو کا عقیدہ رکھ ت ے ہیں پہ ل ے ان کتابو ں ک ی طرف رجوع فرما ئیں جو اخبار کی جرح وتعدیل میں لکھی گئی ہیں تا کہ امام بخار ی کی قدر منزلت اور نقل احادیث میں ان کی گہ ر ی تحقیق کی حقیقت معلوم ہ وجائ ے ۔ اگر آپ "اللئا ل ی المصنوعۃ فی احادیث الموضوعۃ" ،سیوطی "میزان الاعتدال" تلخیص المستدرک ذہ ب ی" تذکرۃ الموضوعات ابن جوزی " تاریخ بغدادمؤلفہ ابو بکر احمد ابن عل ی خطیب بغداد اور علم رجال میں اپنے دوسر ے بزرگ علماء ک ی ساری کتابیں پ ڑھیں تو پھ ر مج ھ پر اعتراض ن ہ کر یں اور یہ فرمائیں کہ تم ن ے حضرت بخار ی کی اہ انت ک ی ہے

۸۹

بخاری اور مسلم نے مردود اور جعل سازرجال س ے روا یتیں نقل کی ہیں

آخر میں نے کون س ی بات عرض کی کہ آپ اس قدر غ ھہ م یں بھ ر گئ ے ؟م یری گذارش تو صرف یہی تھی کہ آپ ک ی صحاح یہ ا ں تک کہ صح یحین ،بخاری ومسلم میں بھی مردود اور کذاب رجال سے ب ھی روایات اور احادیث مروی ہیں۔ اگر آپ کتب رجال کو پ یش نظر رکھ ت ے ہ وئ ے صح یح بخاری کی روایتوں کا غور سے مطالع ہ فرمائ یں تو نظر آجائے گا ک ہ ان ہ و ں ن ے بکثرت جعّال ،وضّاع اور مردود رجال س ے خبر یں نقل کی ہیں جیسے ابو ہ ر یرہ کذّاب ،عکرمہ خارج ی،محمد بن عبد سمر قندی محمد بن بیان ، ابراہیم بن مہ د ی ابلی بنوس بن احمد واسطی ،محمد بن خالد حنبلی،محمد بن محمد یمانی،عبد اللہ بن واقد حرّان ی ابوداؤد سلیمان بن عمر کذّاب ،عمران بن حطّان اور ان کے علاو ہ دوسر ے مردود راو ی جن کی پوری فہ رست پ یش کرنے کا ن ہ وقت ہے ن ہ سب م یرے حافظہ م یں محفوظ ہے اگر آپ رجال ک ی کتابیں ملاحظہ فرمائ یں تو حقیقت امر ظاہ ر ہ وجائ ے گ ی کہ حضرت بخار ی ویسے نہیں ہیں جیسے آپ کی نگاہ و ں م یں پھ ر ر ہے ہیں ،یعنی غیر معمولی طور پر تحقیق اور احتیاط سے کام ن ہیں لیتے تھے بلک ہ نقل اخبار م یں اشخاص کے صرف ظا ہ ر ی حالات پر توجہ رک ھ ت ے ت ھے ۔ہ مار ی اصطلاح میں اپنی جگہ پر ب ہ ت خوش ف ہ م اور خوش عق یدہ تھے اور جس شخص سے ب ھی کوئی ایسی روایت سن لی جو بظاہ ر ٹھیک ہ و اس ک ی درج کر لیا۔

اس مطلب پر خود آپ کے علماء ک ی کتب رجالیہ گواہ ہیں جن میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ کرچکا ہ و ں ک ہ ان ہ و ں ن ے موضوع اور مردود روا یات کی چھ ان ٹ ک ے الگ کرد یا ہے اور بخار ی و مسلم کے سلسلہ روا یات میں محققانہ وقت نظر س ے کام ل یتے ہ وئ ے ان م یں سے ب ہ تو ں کا پرد ہ فاش کردیا ہے تاک ہ ہ مار ی اور آپ کی توجہ مبذول ہ و اور ان کتابو ں پر نظر رک ھ ت ے ہ وئ ے آج رات کو یہ نہ فرمائ یے کہ حد یث ثقلین اور عترت طاہ ر ہ ہے تمسک کو بخار ی نے اپن ی احتیاط کی وجہ س ے نقل ن ہیں کیا ۔ آ یا عقل باور کرتی ہے ک ہ ا یک محقق اور محتاط عالم غیرمؤثق ،کذّاب او ر وضّاع روایوں سے ا یسی فرضی روایتیں نقل کرے جو ا ہ ل علم اور ارباب عقل ودانش ک ے نزد یک مضحکہ بن ک ے ر ہ جائ یں کیاکلیم اللہ کا ملک الموت ک ے من ہ پر طمانچ ہ مارک ے ان کو اندھ ا بنا د ینا یا آپ کا پا برہ ن ہ بغ یر ساتر عورتین کے بن ی اسرائیل کے درم یان دوڑ نا جس ک ا تذکرہ م یں نے پ ہ ل ے کرچکا ہ و ں ،خرافات اور مو ہ ومات م یں سے ن ہیں ہے ؟

کیا قیامت کے روز خدا ک ی رویت یا اس کے زخم ی پاؤں یا اپنی پنڈ ل ی کھ ولن ے ک ی حدیثیں جو انہ و ں ن ے صح یح کے اندر نقل ک ی ہیں اور ان میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ ب ھی کر چکا ہ و ں کفر یات میں سے ن ہیں ہیں۔ ؟

۹۰

صحیحین بخاری ومسلم میں مضحک روایت اور رسو ل(ص)کی اہ انت

کیا یہ بخاری کی سخت علمی اور عملی احتیاط ہی کا نتیجہ ہے ک ہ اپن ی صحیح جلد دوم "باب اللہ و با الحراب "صفحہ 120 م یں اسی طرح مسلم جلد اول "باب الرخصۃ فی اللعب الذی ما معصیۃ فیہ فی ایام السعید" میں ابو ہ ر یرہ سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ ع ید کے روز کچ ھ حبش ی سیّاح مسجد رسول (ص) میں جمع ہ وئ ے ت ھے اور ناچ کود ک ے فن س ے لوگو ں کو خوش کر ر ہے ت ھے رسو ل الل ہ (ص) ن ے عائش ہ س ے فرما یا کیا تم بھی دیکھ نا چاہ ت ی ہ و؟ ان ہ و ں ن ے عرض ک یا ہ ا ں یا رسول اللہ (ص) ۔ حضرت ن ے ان کو اپن ی پیٹھ پر اس طریقہ سے سوال ک یا کہ ان ہ و ں ن ے اپنا سر آن حضرت (ص)کے کاند ھے ک ے اوپ ر سے نکالا اور چ ہ ر ہ آپ ک ے چ ہ ر ہ مبارک پر رک ھ ل یا۔ آنحضرت(ص) عائش ہ کو محفوظ کرن ے ک ے لئ ے ان لوگو ں کو ترغ یب دے ر ہے ت ھے ک ہ اس س ے ب ہ تر نا چ دک ھ ائ یں ،یہ ا ں تک عائشہ ت ھ ک گئ یں تو ان کو زمین پر اتار دیا ۔

خدا کے لئ ے انصاف ک یجئے کہ اگر آپ حضرات م یں سے کس ی کی طرف ایسی بات منسوب کی جائے تو ک یا آپ ناراض نہ ہ و ں گ ے اور اس کو اپن ی توہین نہ سمج ھیں گے ؟ اگر کوئ ی جناب حافظ صاحب سے ک ہے ک ہ مج ھ س ے ا یک راوی نے ب یان کیا ہے ک ہ کل شب م یں جب حافظ صاحب کے مکان ک ی پشت پر بازی گروں کا ا یک دستہ سازندگ ی او ربازیگری میں مشغول تھ ا تو میں نے د یکھ ا جلیل القدر عالم جناب حافظ صاحب اپنی بیوی کو پیٹھ پر اٹھ ائ ے تماش ہ د یکھ ار ہے تھے بلک ہ باز یگروں سے یہ بھی کہہ ر ہے ت ھے ک ہ خوب ناچ ے جاؤ تاک ہ م یری بیوی اور لطف اندوز ہ و ۔ تو للل ہ سچ ک ہ ئ یے گا کہ یہ بات سن کر حافظ صاحب متاثر اور شرمندہ تو ن ہ ہ و ں گ ے ؟ اور اس کو ا یک مخلص خادم ہ ون ے ک ے بعد اگر کس ی شخص سے ا یسی خبر سنوں چا ہے و ہ بظا ہ ر معتبر ہی ہ و تو ک یا میرے لئے اس کونقل کرنا مناسب ہے ؟ اور اگر م یں بیان کردوں تو عقلمند لوگ یہ نہ سمج ھیں گے ک ہ فلاں جاہ ل ن ے ا یک بات کہ د ی تو آپ نے ہ وش یار ہ وکر ک یوں اس کو نقل کیا؟۔

اب ذرا بخاری کی روایتوں پر فیصلہ دیجئے کہ اگر و ہ واقع ی محقق اور اخبار کی چھ ان ب ین کرنے وال ے ت ھے تو فرض ک یجئے ایسی روایت انہ و ں سن ی تھی تو کیا مناسب تھ ا ک ہ اس کو اپن ی کتاب میں نقل بھی کریں اور پھ ر مولو ی صاحبان اس کتاب کو "اصح الکتب بعد القرآن "بتائیں ؟

لیکن حدیث ثقلین کو جس میں رسول اللہ (ص) اپن ی امت کو حکم دے ر ہے ہیں کہ م یرے بعد قرآن مجید اور میرے اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک کرو، نقل ن ہ کر یں (کیونکہ عترت کا نام بیچ میں ہے ) البتہ فرض ی گھڑی ہ وئ ی روایتیں جن کی پو ری تفصیل کا وقت نہیں اپنی کتابوں ک ے ابواب م یں درج کریں۔

۹۱

ہ ا ں ایک پہ لو س ے م یں ضرور آپ کی تصدیق کرتا ہ و ں ک ہ علماء ا ہ ل سنت ک ے درم یان بخاری صاحب یقینا اس حیثیت سے ب ہ ت محتاط ت ھے ک ہ جس روا یت میں یہ نظر آیا کہ عنوان امامت و ولا یت کے لحاظ س ے ولا یت علی ابن ابی طالب علیھ ما السلام او ر حرمت اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کے ثبوت م یں کوئی راہ نکل ر ہی ہے تو احت یاطا اس کو نقل نہیں کیا کہ ا یسا نہ ہ و کس ی روز عقلمندوں ک ے ہ ات ھ کا حرب ہ بن جائ ے اور و ہ حق و حق یقت کو ظاہ ر کرد یں ۔ چنانچ ہ جب ہ م صحاح ک ی جلدوں کا صح یح بخاری سے مقابل ہ کرت ے ہیں تو اس نتیجے تک پہ نچت ے ہیں ۔ کہ اس روشن موضوع پر کوئی روایت چاہے و ہ متواتر ،ضرور ی اور قرآن وآیات الہی کی تائید سے مضبوط ہی ہ و ان ہ و ں ن ے نقل ن ہیں کی ہے ج یسے آیات مبارکہ "یا ایها الرّسول بلغ ما انزل الیک من ربّک " ، "انما ولیکم الله و رسو له و الذین آمنو الذین یقیمون الصلواة و یوتون الزکا ة و هم راکعون"،"و انذر عشیرتک الاقربین" وغ یرہ کی شان میں بکثرت حدیثیں ،حدیث ولایت یوم الغدیر ، حدیث انذار ، حدیث مواخات ، حدیث، حدیث سفینہ ،حدیث با ب الحطہ اور دوسر ی حدیثیں جو اہ لب یت طہ ارت عل یھ م السلام کی حرمت وولایت کے اثبات س ے نسب ت رکھ ت ی تھیں انہ و ں ن ے احت یاطا نقل نہیں کیں ۔ ل یکن ہ ر و ہ حد یث جو انبیاء کرام او ر با لخصوص حضرت خاتم الا نبیاء (ص) کے وجود اقدس اور آنحضرت (ص) ک ی عترت طاہ ر ہ ک ے مقامات ومدارج عال یہ کی اہ انت کا کوئ ی پہ لو رک ھ ت ی تھی وہ (چا ہے کس ی جعّال ،کذّاب اور وضّاع ہی سے م نقول ہ و)بغ یر احتیاط کے نقل کرد ی جن میں بعض کی طرف اشارہ ہ و چکا ہے ۔

حدیث ثقلین کے اسناد

اب میں مجبور ہ و ں ک ہ آپ ک ی بعض کتابوں ک ی طرف اشارہ کرو ں تاک ہ آپ ب ھی جان لیں کہ حد یث مبارکہ ثقل ین کو اگر بخاری صاحب نے درج ن ہیں کیا ہے تو آپ ک ے دوسر ے اکابر وموثق ین علماء یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ م پل ہ (ج یسا کہ آپ ب ھی مانتے ہیں )مسلم بن حجاج نے ب ھی نقل کیا ہے ۔

مسلم بن حجاج نے "صح یح مسلم"جلد ہ فتم صفح ہ 122 م یں ،ترمذی نے " صح یح " میں ، ابو داؤد نے "سنن "جزء دوم صفح ہ 207 م یں نسائی نے " خصائص "صفح ہ 30 م یں ، امام احمد بن جنبل نے "مسند "جلد سوم صفح ہ 14-17 وجلد پنجم صفح ہ 182-189 م یں ،حاکم نے مستدرک"جلد سوم صفح ہ 109 -148 میں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیا " جلد اول صفحہ 355 م یں ،سبط ابن جوزی نے تذکر ۃ صفحہ 186 م یں ، ابن اثیر جوزی نے اسد الغاب ہ جلد دوم صفح ہ 12 وجلد سوم صفح ہ 147 م یں حمیدی نے جمع ب ین الصحیصین میں ، رزین نس "جمع بین الصحاح الستہ "م یں ، طبرانی نے "کبیر" میں ،ذہ ب ی نے " تلخیص مستدرک" میں ، ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" میں محمد ابن طلحہ شافع ی نے "مطالب السئول" م یں ، خطیب خوارزمی نے " مناقب" م یں سلیمان بلخی

۹۲

حنفی نے " ینابیع المودۃ"باب 4 میں ، میر سید علی ہ مدان ی نے "مود ۃ القربی " کی مودۃ دوم میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلاغ ۃ " میں ، شبلنجی نے " نور الابصار" صفح ہ 99 م یں ،نورالدین بن صباغ مالکی نے " فصول الم ہ م ہ "صفح ہ 25م یں ، حموینی نے فرائد السبط ین میں ،امام ثعلبی نے "مناقب "م یں ، محمد بن یوسف کنجی شافعی نے "کفا یت الطالب"باب اول بیان صحت خطبہ غد یر خم وضمن باب 62صفحہ 130 م یں ، محمد بن سعد کاتب نے " طبقات" جلد چ ہ ارم صفح ہ 8 م یں ، فخر الدین رازی نے " تفس یر کبیر "جلد سوم ضمن آیہ اعتصام صفحہ 18 م یں ابن کثیر دمشقی نے " تفس یر" جلد چہ ارم ضمن آ یہ مودت صفحہ 113 م یں ،ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" جلد دوم صفحہ 158 ،346 میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلا غ ہ " جزء ششم صفح ہ 130 ،سل یمان حنفی نے ینابیع المودۃ صفحات115،95،34،32،31،30،29،25،18، 230،199،126، میں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ ،ابن حجر مک ی نے صواعق محرق ہ صفحات 136،99،90،87،75، م یں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ اور آپ کے دوسرے اکابر علماء ن ے جن ک ے سار ے اقوال کرنا اس مختصر جلس ہ م یں دشوار ہے الفاظ وعبارات ک ے مختصر اختلاف ک ے سات ھ اس حد یث مبارک کو جو نقل اقوال خاصہ وعام ہ ہے تواتر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے رسول اکرم(ص) س ے نقل ک یا ہے ک ہ آپ(ص) ن ے فرما یا "انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی اهلبیتی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض من توسل(تمسک) بهما فقد نجی ومن تخلف عنها فقد هلک ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا " ( یعنی بہ تحق یق میں تمہ ار ے درم یان دو گرانقدر چیزیں چھ و ڑ ر ہ ا ہ و ں ،الل ہ ک ی کتاب(قرآن مجید) اور میری عترت و اہ ل بیت یہ دونوں آپس م یں ایک دوسرے س ے جدا ن ہ ہ و ں گ ے یہ ا ں تک کہ حوض کوثر ک ے کنار ے م یرے پاس پہ نچ جائ یں جو شخص ان دونوں س ے توسل وتمسک رک ھے گا و ہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جو شخص ان دونو ں س ے من ہ مو ڑے گا تو و ہ یقینا ہ لاک شد ہ ہے جب تک ان دونو ں س ے تمسک کروگ ے ہ رگز کبھی گمراہ ن ہ ہ و ں گ ے ) ۔

یہ ہ مار ی ایک محکم دلیل ہے ک ہ ہ م رسو ل (ص)ک ے حکم س ے قرآن کر یم اور اہ ل ب یت طاہ ر ین(ص) سے تمسک وتوسل رک ھ ن ے پر مجبور ہیں۔

شیخ:- اس حدیث کو صالح بن موسی بن عبداللہ بن اسحق بن طلح ہ بن عبدالل ہ القرش ی التیمی،الطلحی نے اپن ی سند کے سات ھ ابو ہ ر یرہ سے اس طرح نقل ک یا ہے ک ہ ۔ "انی قد خلفت فیکم ثنتین کتاب الله و سنتی الی آخر"

خیر طلب :- آپ نے پ ھ ر ا یک طرفہ ا یک بدکار ،متروک ، ضعیف اور ارباب جرح وتعدیل ، جیسے ذہ ب ی ،یحیی ،امام نسائی ،بخاری ،اور ابن عبد ربہ وغ یرہ کے نزد یک مردود فرد سے حد یث نقل کرکے وقت ضائع ک یا ۔

جناب من!

کیا آپ ہی کے اکابر علماء س ے اس قدر معتبر روا یتوں کا نقل کرنا آپ کے لئ ے کاف ی نہیں ہ وا جو آپ اپن ے نقاد

۹۳

علماء ک ے نزد یک ایسی ناقابل قبول حدیث کا سہ ارا ڈھ ون ڈھ ا ؟ حالانک ہ فر یقین (سنی ،شیعہ)کا اس پر اتفاق ہے ک ہ رسول اکرم ن ے کتاب الل ہ و عترت ی فرمایا ہے ن ہ کہ سنت ی کیونکہ کتاب وسنت دونوں اپن ے لئ ے شارح چا ہ ت ی ہیں۔ اور جب سنت خود شارح ک ی محتاج ہے تو قرآن ک ی پوری شارح نہیں بن سکتی لہ ذا عد یل قرآن ،عترت اور اہ ل ب یت ہیں جو قرآن کی تفسیر کرنے وال ے بھی ہیں اور سنت رسول(ص)ظاہ ر کرن ے وال ے ب ھی ۔

حدیث سفینہ

اہ ل بیت رسول (ص) کے توسل پر ہ مار ی دلیلوں میں سے معتبر حد یث سفینہ بھی ہے جس کو آپ ک ے ب ہ ت ب ڑے ب ڑے علماء ن ے تقر یبا تواتر کی حد تک نقل کیا ہے ۔ جس قدر م یرے پیش نظر ہے آپ ک ے سو100 نفر س ے ز یادہ اکابر علماء نے اپن ی کتابوں م یں درج کیا ہے ،مثلا مسلم بن حجاج نے اپن ی "صحیح "میں ، امام احمد بن حنبل نے "مسند" م یں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیاء" میں ، ابن عبد البر نے " است یعاب" میں ، ابو بکر خطیب بغدادی نے " تار یخ بغداد" میں ، محمد ابن طلحہ شافع ی نے " مطالب السئول" م یں ، ابن اثیر نے "ن ہ ا یہ" میں ، سبط ابن جوزی نے " تذکر ہ "م یں ، ابن صباغ مالکی نے "فصول الم ہ م ہ " م یں ،علامہ نورالد ین سمہ ود ی نے "تار یخ المدینہ" میں ، سید مومن شبلنجی نے "نور الابصار"م یں ، امام فخر الدین رازی نے "تفس یر مفا تیح الغیب"میں ، جلال الدین سیوطی نے "در المنثور "م یں امام ثعلبی نے "تفس یر کشف البیان" میں ، طبرانی نے "اوسط"م یں ،حاکم نے " مستدرک " م یں جلد سوم صفحہ 151 م یں ،سلیمان بلخی حنفی نے " ینابیع المودۃ" باب 4 میں ،میر سید علی ہ مدان ی نے "مودت القرب ی " مودت دوم میں ، ابن حجر مکی نے " صواعق محرق ہ " ذ یل آیت ہ شتم م یں ۔ طبر ی نے اپن ی "تفسیر اور تاریخ"میں ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے "کفا یت المطالب "باب 233 اور آپ کے دوسر ے ب ڑے ب ڑے علماء ن ے نقل ک یا ہے ک ہ حضرت خاتم الانب یاء نے فرما یا " انما مثل اہ لب یتی کمثل سفینۃ نوح من رکب نجی ومن تخلف عنھ ا ھ لک"( یعنی سوا اس کے ن ہیں ہے ک ہ تم ہ ار ے درم یان میرے اہ ل ب یت کی مثال کشتی نوح کے مثل ہے ک ہ جو شخص پر سوار ہ و ا اس ن ے نجات پائ ی ۔ اور جس شخص ن ے اس س ے روگردان ی کی ہ لاک ہ وگ یا)۔

نیز امام محمد بن ادریس شافعی نے اپن ے اشعار م یں اس حدیث کی صحت کی طرف اشارہ ک یا ہے ۔ چنانچ ہ علام ہ فاضل عج یلی نے "ذخ یرۃ المال میں ان کو اسطرح سے نقل ک یا ہے ۔

ولمّا رایت النّاس قد ذهبت بهم ------ مذاهب هم فی ابحر الغیّ والجهل

رکبت علی اسم الله فی سفن النجاة ------ وهم اهل بیت المصطفی خاتم الرّسل

وامسکت حبل الله وهو ولاؤهم ------ کما قد امرنا بالتمسک بالحبل

اذا افترقت فی الدین سبعون فرقة ------ وینفا علی ما جاء فی اصح النقل

ولم یک ناج منهم غیر فرقة ------ فقل لی بها یا ذا الرجائة ولعقل

۹۴

انی الفرقة الهلاک آل محمد ------ ام الفرقة اللاتی نجت منهم لی قل

فان قلت فی النّاجین فالقول واحد ------ وان قلت فی الهلاک حفت عن العدل

اذا کان مولی القوم منهم فاننی ------ رضیت بهم لا زال فی ظلّهم ظلّ

رضیت علیا لی اماما و نسله ------ وانت من الباقین فی اوسع الحل (1)

اگر آپ ان کھ ل ے ہ و ئ ے اور و ہ ب ھی اہ ل سنت و جماعت ک ے پ یشوائے بزرگ امام شافعی کے اشعار پر پور ی توجہ فرمائ یں تو دیکھیں گے ک ہ و ہ ک یونک کر اس کا اقرار کر رہے ہیں کہ اس س ے سف ینے کی سواری اور اس پاک خاندان سے تمسک اور تو سل ذر یعہ نجات ہے ک یونکہ امت مرحومہ ک ے ب ہ تر فرقو ں م یں سے ناج ی فرقہ صرف و ہی ہے جو آل محمد (ع) ک ے دامن س ے متمسک اور متوسل ہے اور ادربس چنانچ ہ ش یعہ خود رسول اللہ (ص) ک ے حسب الحکم خدا کی طرف اسی خاندان جلیل کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ایک بات اور یاد آگئی کہ اگر آپ کے قول کے مطابق انسان واسط ے اور وس یلے کا محتاج نہیں ہے اور بارگا ہ خداوند ی میں اگر وسیلے کے سات ھ فر یاد و استغاثہ بلند کر ے تو گن ہ گار اور مشرک ہ وگا ۔ تو پ ھ ر خل یفہ عمر الخطاب کس لئے احت یاج اور اضطرار کے موقع پر واسط ے ک ے سات ھ خدا ک ی طرف رجوع کرتے ت ھے ا ور اس طرح استغاثہ کر ک ے کام یابی حاصل کرتے ت ھے ؟

حافظ:- ہ رگز خل یفہ عمر رضی اللہ عن ہ ن ے واسط ے ک ے سات ھ کوئ ی عمل انجام نہیں دیا اور یہ پہ لا موقع ہے جب م یں ایسے الفاظ سن رہ ا ہ و ں گزارش ہے ک ہ اس کا مجمل ب یان فرمائیے ۔

خیرطلب:- خلیفہ احتیاج کے مواقع پر بار بار ا ہ ل ب یت رسالت (ع) اور آنحضرت کی عترت طاہ ر ہ کا وس یلہ ڈھ ون ڈ ھ ت ے ر ہ ت ے ت ھے اور ان ہیں کے توسل س ے خدا ک ی طرف رجوع کرکے مطلب حاصل کرت ے ت ھے وقت کا لحاظ رکھ ت ے ہ وئ ے صرف دو موقع ے نمون ے ک ے طور پر پ یش کرتا ہ و ں ۔

(پہ لا)ابن حجر مک ی ،صواعق محرقہ م یں آیۃ نمبر14 کے بعد تار یخ دمشق سے نقل کرت ے ہیں کہ سن ہ 17 ہ جر ی میں دعائے بارش ک ے لئ ے لوگ کئ ی مرتبہ نکل ے ل یکن کوئی نتیجہ نہیں ہ و ا سب ب ہ ت متاثر اور پر یشان ہ وئ ے تو عمر ابن الخطاب ن ے ک ہ ا ک ہ اب م یں کل ضرور بالضرور اس شخص کے وس یلے سے طلب باران کرو ں گا جس ک ے واسط ے س ے حتم ی

--------------

(1):- (جب میں نے لوگوں کو جہل گمراہی کے دریا میں غرق دیکھا تو خدا کے نام پر نجات کی کشتیوں میں بیٹھا جو خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی کے اہل بیت ہیں ۔میں نے جہل خدا سے تمسک کیا جو اسی خاندان کی دوستی ہے جیسا کہ ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ اس حبل سے متمسک رہیں ۔جس وقت دین کے اندر ستر سے زیادہ فرقے پیدا ہوگئے جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر آیا ہے اور ان میں سواایک کے کوئی ناجی نہیں ہے تو مجھے سے کہو کہ اے صاحب عقل ودانش ! کہ آیا خاندان رسالت اور آل محمد علیھم السلام کسی فرقہ میں سے ہیں؟یا نجات کی پانے والے حق فرقے کے افراد ہیں؟اگر یہ کہو کہ فرقہ ناجیہ میں ہیں تو ہمارا اور تمہارا قول ایک ہے اور اگر کہو کہ باطل ہونے والے فرقوں کے ساتھ ہیں تو تم صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ۔ اگر قوم کا سردار ان حضرات(ع) میں سے ہو تو میں بخوشی ان کی اطاعت کے لئے آمادہ ہو رہا ہوں ۔ان کا سایہ ہمیشہ سروں پر قائم ہے ۔میں علی اور ان کی اولاد علیھم السلام کی امامت پر راضی ہوں ۔ جو حق پر ہے اور تم باطل فرقوں میں رہو اس روز تک جب حقیقت ظاہر ہو جائے )

۹۵

طور پر خدا ہ م کو پان ی دے گا ۔ دوسر ے دن صبح کو خل یفہ عمر آن حضرت صلعم کے چچا عباس ک ے پاس گئ ے اور ک ہ ا "اخرج بنا حت ی نستسقی اللہ بک " (ہ مار ے سات ھ با ہ ر چلو تا ک ہ ہ م بارگا ہ ال ہی میں تمہ ار ے وس یلے سے پان ی طلب کریں۔

جناب عباس نے فرما یا تھ و ڑی دیر بیٹھ جاؤ تاکہ م یں وسیلہ مہیا کر لوں ،پ ھ ر کس ی کو بھیج کر بنی ہ اشم کو اطلاع د ی کہ اور پاک لباس پ ہ ن ک ے خوشبو لگا ک ے اس صورت س ے با ہ ر آئ ے ک ہ عل ی علیہ السلام عباس کے آگ ے امام حسن عل یہ السلام داہ ن ی طرف، امام حسین علیہ السلام بائیں طرف اور دوسرے بن ی ہ اشم پ یچھے پیچھے تھے اس وقت فرما یا کہ ا ے عمر کس ی اور شخص کو ہ مار ے سات ھ شامل ن ہ کر ۔ چنانچ ہ اس ی حالت سے مصل ے تک پ ہ نچ ے اور جناب عباس ن ے مناجات ک ے لئ ے ہ ات ھ کو بلند کر ک ے عرض ک یا ۔ پروردگار ا ! تو ن ے ہ م کم خلق فرما یا اور جو کچھ ہ م عمل کرت ے ہیں تو اس سے واقف ہے پ ھ ر عرض ک یا کہ "الل ھ م کما تفضلت عل ینا فی اولہ فتفضل عل ینا فی آخرہ " ( یعنی پر وردگار جس طرح تو نے ابتدا م یں ہ م پر فضل ک یا ہے اس ی طرح آخر میں ہ مار ے اوپر تفضل فرما)جابر ک ہ ت ے ہیں ان کی دعا تمام نہ ہ وئ ی تھی کہ بادل آنا شروع ہ وئ ے اور پان ی برسنے لگا ۔ اب ھی ہ م لوگ گ ھ رو ں تک ن ہیں پہ نچ ے ت ھے ک ہ بارش س ے ب ھیگ گئے ۔

نیز بخاری سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ قحط ک ے زمان ہ م یں عمر ابن خطاب عباس ابن عبد المطلب کے وس یلے سے بارگا ہ خداوند ی میں پانی کے لئ ے دعا کر ر ہے ت ھے اور ک ہ ت ے ت ھے "الل ھ م انا نتوسل ال یک بعم نبینا فاسقنا فیسقون" یعنی خداوندا ہ م ت یری طرف عم رسول (ص) کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ہ م کو سیراب کردے ،چنانچ ہ ان لوگو ں پر نزول بارا ں ہ وا )

(دوسرا)ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہ ج البلاغ ہ (مطبوع ہ مصر) جلد دوم صفح ہ 256 م یں نقل کرتے ہیں کہ خل یفہ عمر جناب عباس عم رسول(ص) کے ہ مرا ہ استسقاء ک ے لئ ے گئ ے اور اس طرح دعا ک ی "اللھ م انا نتقرب ال یک بعم نبیک وبقیۃ آبا ئہ وکبر رجال ہ فاحفظ الل ھ م نب یک فی عمہ فقد ولونا ب ہ ال یک مستشفعین ومستغفرین "(یعنی خداندا ! ہ م ت یری طرف وسیلہ ڈھ ون ڈ ت ے ہیں تیرے پیغمبر کے چچا اور ان ک ے آباء اور بزرگ مردو ں م یں سے باق ی ماندہ ک ے ذر یعے سے ، پس اپن ے پ یغمبر کی منزل ان کے چچا ک ے بار ے م یں محفوظ رکھ ک یونکہ ہ م ن ے ان ک ی وجہ سے تیری طرف ہ دا یت پائی تاکہ شفاعت طلب کر یں اور اسغفار کریں۔

۹۶

حضرات اہ ل سنت اور پ یروان خلیفہ عمر کے حالات تو اس مش ہ ور مثل ک ے مطابق ہیں کہ "کاس ہ گرم تر از آش " " یعنی شوربے س ے ز یادہ پیالہ گرم " کیونکہ خلیفہ عمر دعا اور احتیاج واضطرار کے وقت عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ص) کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں اور ان کے وس یلے سے بارگاہ ال ہی میں طلب حاجت کرتے ت ھے تو ان پر کوئ ی اعتراض نہیں ۔ ل یکن جس وقت ہ م ش یعہ اس برگزیدہ خاندان کو شفیع بناتے اور ان کا توسل اخت یار کرتے ہیں تو ہ م کو سخت اعتراض ک ے سات ھ کافر ومشرک ک ہ ا جاتا ہے ۔ اگر آل محمد (ص)اور عترت طا ہ ر ہ کو خدا ک ی طرف شفیع قرار دینا شرک ہے تو آپ ہی کے علماء ک ی روایتوں کے مطابق خل یفہ عمر ابن خطاب قطعا سب سے پ ہ ل ے مشرک ٹھہ رت ے ہیں اور اگر خلیفہ کا وہ عمل شرک ن ہیں تھ ا بلک ہ ب ہ تر ین کام تھ ا ۔ (ک یونکہ خلیفہ نے اس کاانتخاب ک یا تھ ا)تو یقینا شیعوں کے اعمال اور آل محمد عل یھ م السلام سے ان کا توسل ہ رگز شرک ن ہیں ہ و سکتا ۔

لہ ذا آپ حضرات کو چاہیے کہ قطع ی طور پر اپنی یہ باتیں چھ و ڑیں بلکہ استغفار کر یں (کیونکہ بے لوث اور موحد ش یعوں کی طرف ایسی غلط نسبت دی ہے )تاک ہ غضب ال ہی کے مستحق ن ہ بن یں اس لئے ک ہ جب خل یفہ عمربزرگان صحابہ ک ی ہ مرا ہی میں بھی چا ہے جس قدر دعا کر یں لیکن بغیر اہ ل ب یت رسول کے وس یلے کے کوئ ی نتیجہ برآمد نہ ہ وا تو آپ ک یونکر امید رکھ ت ے ہیں کہ ہ م بغ یر واسطے اور س ہ ار ے ک ے دعا کرک ے کام یاب ہ و جائ یں گے ۔

پس آل محمد سلام اللہ عل یھ م اجمعین عہ د رسول (ص) س ے ل ے کر ہ مار ے موجود ہ زمان ے تک ہ ر دور م یں خدا کی طرف بندوں ک ے وس یلے تھے اور ہیں اور ہ م لوگ ب ھی حاجت روائی میں ان کی خود مختاری کے قائل ن ہیں ہیں لیکن یہ ضرور ہے ک ہ ان کو خدا ک ے صالح بند ے برحق امام او ر درگاہ خدا م یں مقرب سمجھ ت ے ہیں لہ ذا اپن ے اور خدا ک ے درم یان واسطہ قرار د یتے ہیں۔

اس مقصد پر سب سے ب ڑی دلیل ہ مار ی دعاوؤں ک ی کتابیں ہیں کیونکہ ائمہ معصوم ین علیھم السلام سے تمام ماثور ہ اور دعاوؤ ں م یں ہ م جو کچ ھ م یں نے عرض ک یا ہے اس ک ے علاو ہ کوئ ی اور ہ دا یت ہی نہیں دی گئی ہے اور ہ م ن ے ب ھی اس طریقے کے خلاف ن ہ کوئ ی عمل کیا ہے ا ور نہ کر یں گے ۔

حافظ :- آپ کے یہ بیانات ہ مار ی سنی ہ و ی باتوں ک ے خلاف ہیں ۔

خیر طلب :- اپنی سنی ہ وئ ی باتوں کو چ ھ و ڑیئے اور مشاہ دات کا ذکر ک یجیئے ۔ ک یا آپ نے ہ مار ے ب ڑے علماء ک ی کچھ معتبر کتب ادع یہ کا مطالعہ ک یا ہے ؟

حافظ :- نہیں مجھ کو موقع ن ہیں ملا ۔

خیر طلب:-مناسب یہ تھ ا ک ہ پ ہ ل ے آپ اس قسم ک ی کتابیں ملاحظہ فرما ل یتے اس کے بعد اعتراض فرماتے اس وقت دعا وز یارت کی دو کتابیں میرے ہ مرا ہ ہیں ۔ ا یک علامہ مجلس ی علیہ الرحمہ ک ی تالیف ، زاد المعاد ،اور

۹۷

دوسری "ہ د یۃ الزائرین " مؤلفہ فاضل محدّث وعال م متبحر آقائی حاج شیخ عباس قمی دامت برکاتہ یہ مطالعے ک ے لئ ے حاضر ہیں (میں نے دونو ں جلد یں مولوی صاحبان کی خدمت میں پیش کریں ۔ اور ان ہ و ں ن ے د یکھ نا شروع کیا ،ادعیہ توسل کو پڑھ ا اور غور ک یا لیکن کسی مقام پر خاندان رسالت کے لئ ے خود مختار ی کا ذکر نہیں کیا بلکہ ہ ر جگ ہ ان کو واسط ہ ک ہ ا گ یا ہے اس وقت مولو ی سید عبد الحیی نے دعائ ے تو سل کو جو علام ہ مجلس ی علیہ الرحمہ ن ے بسلسل ہ محمد ابن بابو یہ قمی علیہ الرحمہ ائم ہ طا ہ ر ین سلام اللہ عل یھ م اجمعین نے نقل ک ی ہے نمون ے ک ے طور پر آخر تک پ ڑھی جس کا شروع یہ ہے ۔

دعائے توسل

اللهم انّی اسئلک و اتوجه الیک بنبیک نبی الرحمة محمد صلی الله علیه وآله یا ابا القاسم یا رسول الله یا امام الرحمة یا سیدنا ومولانا انّا توجهنا و استشفعنا وتوسلنا بک الی الله وقد مناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عند الله اشفع لنا عند الله ٭ یا ابا الحسن یا امیر المومنین یا علی ابن ابی طالب یا حجة الله علی خلقه یا سیدنا و مولانا انّا توجهنا واستشفعنا و توسلنا بک الی الله وقدمناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عندالله اشفع لنا عند الله

جس نوعیت سے ام یر المومنین علیہ السلام کو خطاب کیا گیا ہے اس ک ے بعد اس ی طرح سے کل ائم ہ معصوم ین علیھ م السلام کے لئ ے ب ھی ہے اور خطاب م یں ان کو یا حجۃ اللہ عل ی خلقہ ک ہ ا جاتا ہے یعنی اے حجت خدا خلق خدا پر ۔۔۔۔ آخر دعا تک ائم ہ طا ہ ر ین میں سے ا یک ایک کا نام لے کر توسل اخت یار کیا گیا ہے اور اس طر یقے سے مخاطب ک یا گیا ہے ک ہ ا ے ہ مار ے س ید مولا ہ م آپ ک ے وس یلے سے خدا ک ی طرف توجہ وتوسل اور طلب شفاعت کرت ے ہیں ،اے خدائ ے تعال ی کے نزد یک صاحب عزت بارگاہ ال ہی میں ہ مار ی سفارش فرمائیے ۔یہ ا ں تک کہ آخر دع امیں سارے خاندان رسالت کو مخاطب کرک ے ک ہ ا ہے ۔

"یا ساداتی وموالی انی توجهت بکم ائمتی وعدتی لیوم فقری وحاجتی الی الله وتوسلت بکم الی الله واستشفعت بکم الی الله فاشفعوا لی عندالله و استنقذونی من ذنوبی عند الله فانّکم وسیلتی الی الله وبحبکم وبقربکم ارجو نجاة من الله فکونوا عند الله رجائی یا ساداتی یا اولیاء الله"

جس وقت وہ حضرات یہ دعائیں پڑھ ر ہے ت ھے بعض م ہ ذب اور محترم سن ی حضرات ہ ات ھ مارت ے ت ھے

۹۸

اور باربار ک ہ ت ے ت ھے "لا ال ہ الا الل ہ سبحان الل ہ " کس طرح س ے غلط ف ہ م ی پھیلاتے ہیں۔

(میں نے ک ہ ا)م یں آپ حضرات سے انصاف چا ہ تا ہ و ں ۔ ان دعاو ؤ ں ک ی عبارتوں م یں کس مقام پر شرک کے آثار پائ ے جات ے ہیں ؟کیاہ ر جگہ خدائ ے تعال ی کامقدس نام موجود نہیں ہے ؟ ہ م ن ے دعا ک ی کون سی عبارت میں ان حضرات کو باری تعالی کا شریک قراردیا ہے ؟ آخر کس ل ئے آپ ہ م لوگو ں پر ت ہ مت لگات ے ہیں کس وجہ س ے موحد مسلمانو ں کو غال ی اور مشرک کہ ت ے ہیں ؟ کس غرض سے مسلمانو ں ک ے دلو ں م یں بغض وعداوت کا بیج بوتے ہیں ؟کس مقصد سے ناواقف لوگو ں ک ی نظر میں حقیقت کو مشتبہ بنات ے ہیں ؟تاکہ و ہ اپن ے د ینی ایمانی بھ ا یئوں کو کافر سمجھیں ۔ آپ ک ے کتن ے ناواقف اور متعصب عوام ب یچارے شیعوں کو اسی خیال سے قتل کرت ے ہیں کہ ہ م ا یک کافر کو قتل کیا لہ ذا جتن ی ہ وگئ ے ا یسے امور کا مظلمہ آپ ہی جیسے علماء کی گردنوں پر ہے ۔

بات یہ ہے ک ہ ش یعہ علماء او رمبلغین زہ ر ن ہیں پھیلاتے ۔ ش یعہ اور سنی کے درم یان عداوت کا بیج نہیں بوتے اور قتل نفس کو گنا ہ عظ یم سمجھ ت ے ہیں ،ہ م ش یعہ اور سنی کے درم یان ما بہ اختلاف مسائل کو علم ومنطق ک ی روشنی مین بیان کرکے ان کو حق یقت مذہ ب س ے با خبر کرتے ہیں لیکن گفتگو کے ضمن م یں ان کو یہ بھی سمجھ ا د یتے ہین کہ سن ی ہ مار ے مسلمان ب ھ ائ ی ہیں لہ ذا ش یعہ جماعت کو ان کی طرف کینے اوردشمنی کی نظر سے ن ہ د یکھ نا چاہیئے بلکہ برادران ہ طر یقے سے آپس م یں متحد رہ نا چا ہیئے تاکہ ہ م سب مل کر لا الہ الا الل ہ کاپرچم بلند کر یں۔

لیکن اس کے برعکس متعصب سنّ ی علماء کے طرز عمل س ے ہ م کو افسوس ہ وتا ہے ک ہ ابو حن یفہ ،مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد ابن حنبل کے پ یروؤں کو باوجود یکہ ان کے درم یان کثیر اصولی اور فروعی اختلافات ہیں ہ ر مقام پر آزاد ی دیتے ہیں اور مسلمان بھ ائ ی کہ ت ے ہیں لیکن علی ابن ابی طالب اور امام صادق آل محمد علیھ ما السلام جو عترت و اہ ل ب یت رسالت ہیں ،ان کے پ یروؤں کو غالی ،مشرک اور کافر نامزد کرتے ہیں اور ان کی آزادی سلب کرتے ہیں تاکہ سن ی ممالک کے اندر ان ک ی جان ومال محفوظ نہ ر ہے ،کتن ے ز یادہ ہیں کہ ا یسے صاحبان علم وتقوی شیعہ جو سنی علماء کے فتو ے س ے ش ہید کئے گئ ے ل یکن اس کے برعکس ا یسا عمل شیعہ علماء کی طرف سے ک یا بلکہ عوام ش یعہ کی جانب سے ب ھی جن سے اس کا انجام پانا ز یادہ سہ ل ہے کس ی جاہ ل سن ی کے لئ ے ب ھی صادر نہیں ہ وا ہے آپ ک ے علماء بالعموم ش یعوں پر لعنت کرتے ہیں لیکن شیعہ علماء کی کسی کتاب میں یہ نہیں دیکھ ا گیا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ا ہ ل تسنن لعن ھ م الل ہ لک ھ ا ہ و ۔

حافظ:- آپ زیادتی کر رہے ہیں ،کون سا صاحب علم وتقوی شیعہ ہ مار ے علماء ک ے فتو ے س ے قتل ہ وا ہے ک ہ

۹۹

آپ بلا وج ہ جو ش دلا ر ہے ہیں ؟اور کس نے ہ مار ے علماء م یں سے ش یعوں پر لعنت کی ہے ۔

خیرطلب :- اگر آپ کے علماء اور عوام کے حرکات تفص یل سے ب یان کرنا چاہ و ں تو ا یک نشست نہیں بلکہ کئ ی مہینے درکار ہ و ں گ ے ل یکن نمونے اور اثبات ک ے لئ ے ان ک ے بعض اعمال اور اطوار ک ی طرف جو تاریخ کے صفات پر نقش ہیں کئے د یتا ہ و ں تاک ہ آپ کو معلوم ہ وجائ ے ک ہ جوش نہیں دلاتا ہ و ں بلک ہ حق یقت پیش کرتا ہ و ں ۔

اگر آپ بڑے ب ڑے متعصب علماء ک ی کتابیں غور سے مطالع ہ ک یجئے تو لعنت کے مواقع خود ہی نظر آجائیں گے نمون ے ک ے طور پر تفس یر امام فخر الدین رازی کی جلدیں ملاحظہ فرمائ یے کہ جس جگ ہ ان کو موقع ہ ات ھ آ یا ہے ج یسے" آیت ولایت و اکمال الدین" وغیرہ کے ذ یل میں مکرر ومکرر لکھ ت ے ہیں۔

"و اما الرافضة لعنهم الله هؤلاء الرافضة لعنهم ----اما قول الروافض لعنهم الله " ل یکن کسی شیعہ عالم کے قلم س ے عام بردران ا ہ ل سنت ک ے لئ ے بلک ہ خاص صورت م یں بھی ان کے لئ ے ا یسی عبارتیں نہیں نکلی ہیں۔

اس جماعت کے فتو ے س ے ش ہید اول کی شہ ادت

شیعہ ارباب علم کے سات ھ آپ ک ے علماء ک ی دردناک بدسلوکیوں میں سے ا یک وہ عج یب وغریب فتوی ہے جو ا یک بہ ت ب ڑے ش یعہ فقیہ کے واسط ے شام ک ے دوب ڑے قاض یوں (برہ ان الد ین مالکی و عباد بن الجماعۃ الشافعی) کی طرف سے صادر ہ وا ت ھ ا و ہ بزرگ فق یہ جو زہ د وورع ،تقوی اور علم وتفقہ م یں سارے ا ہ ل زمان ہ ک ے سردار ت ھے ۔ ابواب فق ہ پر احاط ہ رک ھ ن ے م یں اپنے دور ک ے اندر جواب ن ہیں رکھ ت ے ت ھے ان ک ی فقہی مہ ارت کا ا یک نمونہ کتاب لمع ہ ہے جو (بغ یر اس کے ک ہ سوا "مختصر نافع" ک ے اور کوئ ی فقہی کتاب آپ کے پاس موجود ر ہی ہ و) صر ف سات روز کے اندر تصنیف فرمائی اور حنفی ، مالکی ،شافعی اور جنبلی چاروں مذ ہ ب ک ے علماء ان ک ے حلق ہ تلامذ ہ م یں داخل ہ و کر ف یض علم سے س یراب ہ وت ے ت ھے جناب ابو عبدالل ہ محمد بن جمال الد ین مکو عاملی رحمۃ اللہ عل یہ تھے۔

باوجودیکہ سنیوں کی سخت گیری کی وجہ س ے آپ ز یادہ تر تقیہ میں رہ ت ے ت ھے ۔ اور با الاعلان تش یع کا اظہ ار ن ہیں فرماتے ت ھے ل یکن پھ ر ب ھی شام کے ب ڑے قاض ی "عباد بن الجماعۃ" نے ا یسے عالم ربانی سے حسد کابرتاؤ کرت ے ہ وئ ے وال ی شام (بید مر) کے پاس ان ک ی چغلی کھ ا ئی اور رفض و تشیع کا الزام لگا کر اس فقیہ عالم کوگرفتارکروایا ۔ ا یک سال تک قید خانہ م یں سخت تکلیفیں دینے کے بعد 9 یا 19 جمادی الاولی سنہ 786 م یں انہیں دو بڑے سن ی قاضیوں (ابن الجماعۃ وبرہ ان الد ین )کے فتو ے س ے پ ہ ل ے آپ کو تلوار س ے قتل ک یا پھ ر آپ کا جسم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279