اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات21%

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 279

اہل بیت(ع) حلاّل مشکلات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 279 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56231 / ڈاؤنلوڈ: 4978
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

یہی(کعبہ) ہے جو کہ مکہ میں بڑی خیر وبرکت والا ہے اور سارے جہاں کے لوگوںکے لیے رہنما ہے۔( آل عمران/ ۹ ۶ )

پس یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ تمدن آسمانی ادیان کا نچوڑ ہے اور اس اصل کی رو سے  جو اسلام محمد  بن عبداللہ(ص) پ رنزال ہوا نہایت ہی ترقی یافتہ تمدن ہے جس پر انسانیت سبقت حاصل نہیں کرسکتی اور نہ ہی اس سے آگے بڑھ سکتی ہے بلکہ ہمیشہ اس سے ایک زینہ نیچے ہی رہے گی۔ اور اس سے وابستہ رہے گی۔

بیشک ی قرآن متمدن انسان میں حیرت انگیز تبدلیکل کا باعث ہوا ہے جو مدتوں جبے دینی اور اعلی معنوی قدروں کے نہ ہنے کی وجہ سے کفر والحاد کی مصیبت کو تحمل کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان اپنی شخصیت ڈھونڈتا رہا اور یہ  چیز اسے عقیدہ کی آگو۳ش میں تدریجا نظر آگئی۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

تو ( اے رسول(ص)!) تم باطل سے کترا کر اپنا رخ دین کی طرف کئے رہو وہی دین جو فطرت الہی ہے اور لوگ اسی پر خلق کئے گئے ہیں اور خلقت خدا کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہی مضبوط اور سب سے استوار دین ہے لیکن بہت سے لوگ اسے نہیں جانتے ( آل عمران/ ۳۰)

ہاں! آج ہم چاہےروشن فکروں کے درمیان ہوں یا ان کے عالوہ کسی بھی گروہ میں ہر میدان میں عظیم اسلامی بیداری کے شاہد ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ رنگ و نسل میں اختلاف کے باوجود قوموں میں مکمل تغیر اور تبدیلی آرہی ہے۔

ملحد بے دین اقوام جو انسانی حقوق کی تھیوری کے قائل ہیں ان میں ہم مطلق آزادی کا اعلان سن رہے ہیں اور ان میں عجیب تضاد دیکھتے ہیں۔ مثلا وہ ڈرائیونگ کے وقت شراب نوشی کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔ جب کہ ان کے دین میں

۶۱

شراب حرام نہیں ہے خود ان کے بقول حضرت مسیح( نعوذ باللہ من ذالک) نے ان کے لیے شراب بنائی ہے۔ اور اس ممنوعیت کی وجہ وہ ایکسیڈنٹ ہیںجو شراب نوشی کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ صرف فرانس میں ڈرائیونگ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے بیس ہزار لوگ اپنی جان گنوادیتے ہیں۔

اگر ہم ان ترقی یافتہ ممالک کے ترقی یافتہ تمدنوں کا مطالعہ کریں اور ان کا اسلامی تمدن کے ساتھ موازنہ کریں تو ایک بہت بڑے فاصلہ اور اختلاف کا مشاہدہ کریں گے۔ ایسا فاصلہ جو زمین و آسمان کے برابر ہے۔ تو کافی ہے کہ امیر المومنین(ع) کے اس خط پر ایک نگاہ ڈالیں جسے آپ نے مالک اشتر نخعی کو بصرہ کا گورنر بنانے کے بعد انھیں تحریر فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی ہر میدان میں ترقی کا اندازہ کرسکیں۔

ایک محقق جب اس عہد نامہ کو دیکھتا ہے تو ان تحریروں کو درمیان بشری تمدن کے اس اعلی مفہوم کو پالیتا ہے جہاں تک ابھی بیسویں صدی کا تمدن نہیں پہچ سکا ہے۔

اس عہد نامہ میں تمام طرح کے اجتماعی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے ساتھ معنوی، عبادی، اخلاقی مسائل اور بشری روح و طبائع کی ترتیب کو بھی فرو گذاشت نہیں کیا گیا ہے۔

مجھے افسوس ہوتا ہے کہ بیشتر مسلمانوں نے نہج البلاغہ کو فراموش کردیا ہے جب کہ یہ کتاب بہت ہی گرانقدر اور عرفانی خزانوں اور علمی حقائق سے پر ہے۔ لیکن مسلمان مغربی کتابوں اور ھیوری کی طرف تیزی سے بھاگتے ہیںاس امید پر کہ اس جھوٹے مغربی تمدن پر گامزن ہوسکیں۔ وہی تمدن جس نےسوائے نکبت، بد بختی اور مصیبت کےکچھ اور غریب سماجوں اور قوموں کے حوالہ نہ کیا۔

اگر ان میں سے کسی ایک سے کہیں کہ : اسلام اور اسلامی شخصیات میں

۶۲

 انسان و انسانیت کے لیے ہر طرح کےبہتر نمونے موجود ہیں تو آپ کو جواب دیں گے۔ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو مسلمان پسماندہ نہ ہوتے؟ وہ پیچھے رہ گئے اور دوسرے آگے بڑھ گئے اور متمدن ہوگئے!؟

یہ اور ان کی طرح کے لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ افسوس ! اسلام صرف ایک تھیوری کی صورت میں باقی بچا ہے جس پر عمل نہیں کیا جاتا اور بیشتر شخصیات جو اس پر عمل کرانا چاہتی تھیں ان جپر حملہ کیا گای، شہر بدر کیا گیا، قتل کردیا گیا ی اپھر منبروں سے ان پر لعنت و سب وشتم کیا گیا، شہر بدر کیا گیا ، قتل کردیا گیا، ان کی کتابیں ، ان کے آثار بوسیدہ و ناشاختہ رہ گئے ان پر تہمتیں لگائی گئیں، ان کے خلاف پروپگنڈہ کیا گیا۔

حالانکہ امریکہ، جرمنی اور انگلینڈ میں مغربی دانشوروں نے سب سے زیاہ اسلام سے فائدہ اٹھایا ہے اور مسلمان اس بات سے بے خبر ہیں۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

ان کے بعد کچھ ناخلف ان کے جانشین بن بیٹھے۔ جنہوں نے نمازیں کھوئیں اور نفسانی خواہش کے اسیر بن گئے۔ عنقریب یہ لوگ (اپنی) گمراہی ( کے خمیازے) بھگتیں گے۔ ( مریم/ ۵۹)

ایک روز ان میں سے ایک مجھ سے کہنے لگا۔ اگر اسلام شخصیات سے تمہاری مراد اہل بیت(ع) کے بارہ امام(ع) ہیں جیسا کہ کتب میں آیا ہے۔ اور شیعوں نے ان کی امامت کو قبول کیا ہے ان کی پیروی کرتے ہیں اور امور دنیا میں بھی ان ہی کی تقلید کرتے ہیں تو پھر کیوں شیعوں نے بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح ترقی نہ کی اور کسی ایجاد اختراع میں آگے نہ رہے۔

میں نے اسے جواب دیا: شیعہ اثناعشری جو ، ان بارہ اماموں پر ایمان لائے وہ اس درجہ کم تھے کہ جیسے پورے سیاہ لباس میں ایک نقطہ کے برابر سفیدی ہو اور انھیں ہمیشہ قتل کا خوف لاحق رہتا اس لیے کہ صدیوں تک ان کا خون مباح

۶۳

رہا ہے اور ان کی ناموس کی بے حرمتی کیجاتی رہی ہے۔ اور وہ بدترین روحانی اور جسمانی شکنجوں اور سخت تکالیف میں مبتلا رہے ہیں۔

بلاشبہ اگر کوئی اس طرح کی زندگی گزارے تو ہرگز ترقی نہیں کر سکتا ۔ اس لیے کہ وہ تو ہمہ وقت پریشانی اور تکالیف سے دوچار رہے اور ہر آن قتل کردیے جانے کے منتظر رہے۔

اور یہ بھی کسی سے پوشدیدہ نہیں کہ انسان بھوکا اور فقیر ہوتو ہر چیز سے پہلے اس کی فکر روزی، روٹی حاصل کرنے میں مشغول ہوگی۔ جس سے وہ اپنی حیات کو برقرار! رکھ سکے۔ لہذا اس صورت میں کیا ہوگا جب اس کی روزی منقطع ہوجائے  اور خود وہ اور اس کا کنبہ ایک لقمہ روٹی کے لیے محتاج ہوجائیں؟

لیکن اگر انسان کے لیے سہولتیں فراہم ہوں اور مناسب آسائش زندگی مہیا ہوتو اس کی فکر پرواز کرے گی لہذا آپ دیکھیں گے کہ حکومتیں علماء اور دانشوروں کے لیے ایک خاص اہمیت کی قائل ہیں، ان کے لیے مکمل آسائش کے وسائل مہیا کرتی ہیں۔ اور اس راہ میں کافی پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ نیز اس کے لیے جفٹ مخصوص کر دیتی ہیں۔ ان کے لیے آزمائش گاہیں، لیباریڑیاں اور مشینری فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ با آسانی تجربہ و تحقیق کرسکیں اس کے علاوہ ان کے لیے مختلف کتب خانے فراہم کیے جاتے ہیں اور انکشافات اور جدید مقالوں کا ترجمہ کر کے حوالہ کیا جاتا ہے۔ پھر یہ کیوں کر ایجاد نہ کریں؟

لیکن شیعہ اس فقر ، تنگ دستی اور قتل و اذیت کے باوجود علم و دانش کے ہر  میدا ن مین پیش قدم رہے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ یہ مکتب اہل بیت(ع) کے پروردہ ہیں۔ اس مکتب کے جس میں مختلف علوم کے ماہرین فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ امام  جعفر صادق(ع) نے فقہ و تفسیر کی تدریس کے ساتھ ساتھ میتھ میٹکس، فیزکس، کیمسڑی، علم ہیئت کے علاوہ اور بہت سے دیگر علوم

۶۴

 اپنے شاگردوں کو تعلیم فرمائے۔ جب کی اہمیت کا اندازہ جدید دور اور صعنتی انقلاب کے بعد ہوا۔

اس جگہ میں ان مغربی دانشوروں اور مستشرقین کے اس سیمنار کا ذکر کروں گا جو ۱۹۶۸ءمیں فرانس کی ( اسٹراسبرگ) یونیورسٹی میں امام جعفر صادق(ع) اور ان کے علمی دور کی تحقیق میں شیعہ اثناعشری کی علمی اور تمدنی تاریخ کے موضوع سے منایا گیا۔ جس مین امریگا، انگلیکنڈ ، جرمنی ، فرانس ، بیلجیم، سوئیزر لینڈ اور اٹلی کے بیس سے زیادہ اہم دانشوروں اور سیائینسدانوں نے شرکت کی تھی۔

انھوں نے امام جعفر صادق(ع) اور ان کے شاگرد جابر بن حیان کے متعلق سے گفتگو کی اور بتایا کہ جابر بن حیان نے اپنے استاد کے درس علم فلسفہ، طب اور کیمسٹری پر ایک ہزار پانچ سو سے زائد رسالے تحریر کئے۔ اور ابن الندیم نے اپنی فہرست میں اور ابن خلکان نے اپنی کتاب ( احوال الامام الصادق(ع)) میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان دانشوروں نے اس پر اجماع کیا کہ جابر بن حیان نے مختلف علمی نظریات پیش کئے ہیں۔ اور کیمکل مواد کے علاوہ دیگر ترکیبات جو بم بنانے اور دوسرے امور میں کام آتی ہیں ایجاد کئے اسی طرح اس  پر بھی اجماع کیا کہ کیمسٹری کے اسرار و رموز کو جابر بن حیان نے کشف کیا ہے اور وہ اس بات پر بھی قادر تھے کہ معمولی دھانوں کی کانوں کو سونے، چاندی کی کانوں میں بدل دیں اور اس کےمتعلق خود کہتے تھے: میرے استاد جعفر بن محمد(ع) نے مجھے علم و دانش کا ایسا باب تعلیم فرمایا ہے کہ میں چاہوں تو پوری زمین کو خالص سونے میں تبدیل کردوں۔

ڈاکٹر محمد یحی ہاشمی جو ہمارے زمانے کے دانشور ہیں انھوں نے بھی ایک کتاب بنام ( الامام صادق ملہم الکیمیاء) تحریر کی وہ اس میں کہتے ہیں: جس چیز سے ہمیں سب سے زیادہ تعجب ہوتا ہے وہ جابر بن حیان کا وہ دعوی

۶۵

ہے یعنی یہ راز کہ دھاتوں کو تبدیل کرنااور اجسام کے بدلنا ی ہر کام میں دخیل ہے اور اگر آج ہم غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ریڈیو ایکٹیو(Radio Active) کے مادہ کی کھوج جس سے ایٹم کا تجزیہ ہوتا ہے اور جو مادہ کی ماہیت میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے اور اس کا نتیجہ فقط ایٹمی بم کی ایجاد نہیں ہے بلکہ وہ ایسی جدید توانائیوں کی ایجاد کا منبع بھی ہے جن کا ابھی تک انسانی فکر نے احاطہ نہیں کیا ہے۔

ان سب سے قطع نظر شیعہ تمام علوم میں پیش قدم ہیں۔ جبکہ دیگر تمام مسلمانوں نے صرف فقہ، تفسیر اور اخلاق پر تکیہ کر رکھا تھا۔ اگر چہ ان موضوعات میں بھی شیعوں نے اہم مقام حاصل کیا ہے اور ان کا اولین موجد شیعوں میں سے ہی تھا اور تاریخ نے بھی اس کی گواہی دی ہے۔ اور جو اس موضوع پر مزید تحقیق کرنا چاہتے ہیں وہ ( شیعہ و فنون الاسلام) اور مقدمہ ( اصل الشیعہ و اصولہا) کا مطالعہ کریں۔ انھیں یقین ہوجائے گا کہ شیعہ ان ائمہ(ع) کے زیر قیادت تمام علوم معارف میں دیگر جماعتوں کی بہ نسبت پیش قدم رہے ہیں ان ہی اماموں نے اسرار علوم کا شگافتہ کیا ہے اور صحیح معنی میں علم و دانش کی طرف دعوت دینے والے یہی تھے۔

حضرت امیرالمومین(ع)  فرماتے ہیں :

” بلکہ میں اس علم میں ڈوب گیا جو تم پر پوشیدہ اور پنہاں ہے اور اگر چاہوں تو اسے ظاہر و آشکار کردوں( لیکن) تم اس سے اس درجہ مضطرب اور لرزہ بر اندام ہوجاؤگے جیسے کسی گہرے کنویں میں رس۔“ ( نہجالبلاغہ / خطبہ۵)

۶۶

شیعہ ! چند سطروں میں

اواخر کے چند برسوں میں خصوصا ایران کے اسلامی انقلاب کی  کامیابی کےبعد شیعوں کے متعلق کافی بحث چھڑ گئی ہے اور اس وقت مغربی پروپیگنڈہ اور عالمی ذرائع ابلاغ نے خصوصا ایرانی شیعوں کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے، ان کو کبھی خدا نے دیوانے اور کبھی قاتل و دہشت گرد کہتے ہیں اور یہی صفات لبنانی شیعوں کے لیے بھی بیان کرتے ہیں اس لیے کہ انھوں نے بیروت میں امریکی اور غربی منابع پر حملہ کر کے اسے ختم کر ڈالا تھا۔ اسی طرح ان صفات سے دنیا کےتمام شیعوں کو نواز دیا گیا اور اسے سے بھی بالاتر دنیا میں جتنی اسلامی تحریکیں تھیں انھیں بھی یہ القاب دیدیئے گئے، گرچہ ان میں اکثریت سنیوں کی ہے اور شیعوں سے ان کا کوئی ربط نہیں ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ اوع اسلام دشمنوں کے ان جھوٹے خیالی پروپگنڈوں کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لیے کہ ممکن ہے ہر دشمن، دوست بن جائے لیکن زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب بعض مسلمان شیعوں کے متعلق اس طرح کی بات کرتے ہیں اور بلا دلیل و برہان ، بغیر کسی تحقیق و جستجو کےدوسروں کی کہی ہوئی باتیں دہراتے ہیں۔

اگر چہ ہم نے اپنی کتاب ( الشیعہ ہم اہل السنہ) ( شیعہ ہی اہل سنت ہیں) میں شیعوں کی حقیقی تعریف پیش کی ہے۔ لیکن  یہاں بھی شیعوں کے متعلق خدا اور رسول(ص) کے ارشادات کا ایک گوشہ پیش کررہے ہیں۔ پھر ہم موافق و مخالف علماء اور دانشوروں کی باتوں کو سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوں گے۔

۶۷

شیعہ ! قرآن کریم کی روشنی میں

خداوند عالم فرماتا ہے :

”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“

( سورہ البینہ/ ۷)

جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے وہی سب سے بہتر ہیں۔

جلال الدین سیوطی ( عظیم اہل سنت عالم) اپنی معروف تفسیر ( الدر المنثور فی تفسیر الماثور) می اس آیت کی تفسیر یوں تحریر کرتے ہیں:

ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ کیا خدا کے نزدیک فرشتوں کے مقام منزلت پر تعجب کرتے ہو؟ اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، بہ تحقیق روز قیامت خدا کے نزدیک بندہ مومن کا مقام فرشتوں سے کہیں بالاتر ہوگا اور اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو:

             ”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“

حضرت عائشہ کہتی ہیں :

میں نے حضرت رسول خدا(ص) سے سوال کیا: خدا کےنزدیک سب سے با منزلت کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا : اے عائشہ کیا تم اس آیت کو نہیں پڑھتیں :

”إِنَّ الَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِ أُوْلَئكَ هُمْ خَيرُْالْبرَِيَّة“

۶۸

جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں :

ہم رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں علی(ع) وارد ہوئے تو رسول خدا(ص)  نے فرمایا : جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس کی قسم یہ اور اس کےشیعہ روز قیامت کامیاب ہیں۔ اور اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی

”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَ هُمْ خَيرُْالْبرَِيَّة“

اس کے بعد جب بھی اصحاب رسول(ص)، علی(ع) کو آتے دیکھتے تو کہتےخير البرية آئے۔

ابو سعید کہتے ہیں :

علی(ع) (خير البرية ) اور لوگوں میں سب سے بہتر ہیں۔

ابن عباس کہتے ہیں :

جس وقت یہ آیت نازل ہوئی رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا : بے شک روز قیامت تم اور تمہارے شیعہ خداسے راضی اور خدا تم سے  خوشنود ہے۔

حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:

رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا : کیا تم نے خدا کے اس کلام کو نہیں سنا کہ وہ فرماتا ہے :

”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“

( اس سے مراد) تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔۔۔ ہمارا وعدہ حوض کوثر ہے اس جگہ ساری امتیں حساب وکتاب کے لیے آئیں گی اور تم اور تمہارے شیعہ خوبصورت اور عزت کے ساتھ وارد ہوں گے۔

جن اہل سنت علماء نے اس تفسیر کو بیان کیا ہے وہ بکثرت ہیں بطور مثال

۶۹

 جلاالدین سیوطی کے عالوہ طبری نےاپنی تفسیر میں حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، شوکانی نے فتحالقدیر میں، آلوسی نے روح المعانی میں، مناوی نے کنوز الحقائق میں اسے بیان کیا ہے اس طرح خوارزمی نے مناقب میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، شبلنجی نے نور الابصار میں، ابن الجوزی نے تذکرة الخواص میں، قندوزی حنفی نے ینابیع المودة میں، ہیثمی نے  مجمع الزوائد میں، متقی ہندی نے کنز العمال میں اور ابن حجر مکی نے صواعق المحرقہ میں بھی یہی تفسیر بیان کی ہے۔

اس محکم اور معقول دلیل کے بعد کوئی سبب نہیں کہ تحقیق کرنے والے ان بعض تاریخ نگاروں کی بات پر قانع اور مبمئن ہوجائیں جو معتقد ہیں کہ تشیع کی پیدائش امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد ہوئی ہے۔

۷۰

شیعہ آنحضرت(ص) کے اقوال میں

رسول خدا(ص) نے شیعوں کے متعلق بارہا گفتگو کی ہے اور ہر مرتبہ ثابت کیا ہے کہ حضرت علی(ع) اور ان کی پیروی کرنے والے ہی کامیاب ہیں چون کہ انھوں نے حق کی پیروی کی ہے اور حق کی مدد کی ہے، باطل سے دور رہے ہیں اور اسے ذلیل کیا ہے۔

اسی طرح آںحضرت(ص)  نےتصدیق کی ہے کہ علی(ع)  کے شیعہ ہمارے شیعہ ہیں ہم اس جگہ اس حدیث پر تکیہ کرتے ہیں جسے ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں نقل کیا ہے۔ اور دیگر علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا:

” کیا تم خوش نہیں ہو کہ حسن(ع) و حسین(ع) کے ہمراہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوگے۔اورہماری ذریت ہمارے پیچھے اور ہماری عورتیں ہماری ذریت کے پیچھے اور ہمارے شیعہ ہمارے داہنے اور بائیں ہوں گے۔“

آںحضرت(ص) نے کئی مرتبہ علی(ع) اور ان کےشیعوں کو یاد کیا اور فرمایا :

اس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ (علی(ع)) اور ان کے شیعہ روز قیامت کامیاب ہیں۔

اور یہ فبری بات ہے کہ آںحضرت(ص)  حق کی پیروی کرنے والوں کو یاد کریں اور ان کی صفات بیان کریں کہ وہ ہر زمانہ میں پہچانے جاسکیں تا کہ مسلمان پوشیدہ حقیقت سے پردہ اٹھاسکیںاور نزدیک ترین راستے سے ہدایت پاسکیں۔

آںحضرت(ص) کے ہی پیہم تذکرہ کے پیش نظر بزرگ اصحاب کے ایک گروہ

۷۱

نے وفات رسول(ص) کے بعد علی(ع) کی پیروی کی اور بنام شیعہ مشہور ہوگئے ۔ ان میں حضرت سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، حذیفہ بن یمان، مقداد بن اسود سہر فہرست ہیں حتی کی فقط شیعہ ان کا لقب بن گیا۔ جیسا کہ ڈاکٹر مصطفی شیمی اپنی کتاب( الصلة بين التصوف و التشيع) اور ابو حاتم اپنی کتاب( الزينة) میں رقم طراز ہیں۔

ابوحاتم کہتے ہیں :

اسلام میں جس مذہب کا سب سے کم نام ہوا وہ شیعہ ہے اور یہ اصحاب کے ایک گروہ کا لقب بھی تھا جیسے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، مقداد بن اسود وغیرہ۔۔۔

اس طرح مستشرقین کا یہ شبہ غلط ثابت ہوجاتا ہے  جس کی پیروی بعض مسلمان محقیقن نے بھی کی کہ تشیع کا وجود  میں آنا ایک سیاسی مسئلہ تھا جسے امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد کے سیاسی حالات نے پیدا کیا تھا۔

اسی طرح ان دشمنوں کی نادانی بھی کھل جاتی ہے جو تشیع کو ایرانیوں سے وابستہ کرتے ہیں۔

اس لیے کہ اس سے ان کا جہل و تعصب ظاہر ہو جاتا ہے۔

پھر یہ محققین امام علی(ع) کی زندگی میں ان کے اصحاب کے تشیع کی کس طرح تفسیر کرتے ہیں؟ اور یہ کس طرح بیان کرتے ہیں کہ آغاز اسلام اور جنگ جمل و صفین میں کوفہ شیعوں کا مرکز تھا؟

یہ خود غرض دشمن کس طرح بیان کرتے ہیں کہ عربی اور افریقی ممالک میں شیعہ حکومتیں موجود تھیں۔ جیسے شمالی افریقہ میں مراکش، تیونس، مشرق میں مصر و حلب جب کہ اس وقت ایران تشیع سے آشنا تھی نہ تھا۔ اس لیے مراکش میں اوریسیوں کی حکومت دوسری ہجری میں تھی اور تیونس میں فاطمیوں کی حکومت تیسری ہجری کے خاتمہ پر تھی اسی طرح تیسری ہجری کے اواسط میں فاطمیوں کی

۷۲

 مصر پر حکومت تھی ۔ اور حلب(شام) اور عراق میں شیعہ حمدانیوں کی حکومت ؟؟؟؟ہجری میں تھی جب کہ ایران میں صفویوں کی حکومت دسویں ہجری میں قائم ہوئی؟؟؟؟؟ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ تشیع کے آغاز کو ایرانیوں سے وابستہ سمجھیں۔

ہم نے اپنی کتاب ( پھر میں ہدایت پاگیا) میں ذکر کیا ہے کہ اکثریت اہل سنت علماء اور ائمہ ایرانی تھے۔ اور یہ کہ شیعہ نہ تھے بلکہ شیعوں اور تشیع کی نسبت شدید تعصب کا اظہار کرتے تھے بس یہی جان لینا کافی ہے کہ اہل سنت کے سب سے بڑے مفسر زمخشری ہیں اور وہ ایرانی ہیں اور ان کے سب سے بڑے محدث بخاری و مسلم بھی ایرانی ہیں اور ابوحنیفہ جنھیں اہل سنت امام اعظم کہتے ہیں یہ بھی ایرانی ہیں ان کا نحوی امام سیبویہ ایرانی ہے۔ امام المتکلمین واصل بن ؟؟ ایرانی ہے۔ امام لغت، فیروز آبادی ( صاحب قاموس المحیط) ایرانی ہے۔ فخر رازی ، ابن سینا، ابن رشد سبھی تو ایرانی ہیں اور یہ سب کے سب اہل سنت کے علماء اور پیشوا سمجھتے جاتے ہیں۔

۷۳

اے کاش ! اس روز، تمام مسلمان شیعہ ہوجاتے !

عید غدیر نہایتہیباعظمتاورعظیم عیدوں میں شمار ہوتی ہے۔

دنیا کے مشرق و مغرب میں مسلمان دو عیدوں میں خوشیاں مناتے ہیں۔ پہلی عید، عید  فطر جہے جو ماہ مبارک رمضان کے بعد آتی ہے اور دوسری عید، عید الاضحیٰ ہے جو اعمال  حج کے بعد آتی ہے۔

بسلمانوں نے شروع سے لیکر اب تک ان دونوں عیدون کو محفوظ رکھا ہے اور اس موقع پر تمام عالم میں جشن مناتے ہیں تیسری بڑی عید، جسے عید ” غدیر“ کہتے ہیں یہ وہی دن ہے جب دین کامل ہوا اور خدا کی نعمت مسلمانوں پر تمام ہوئی  لیکن افسوس کہ اس میں انھوں نے اختلاف کیا۔

محققین تاریخ کو اس کا اندازہ ہوگا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی علت وفات رسول(ص) کے بعد سقیفہ بنانے والوں کی سیاسی سرگرمیاں تھیں ، انھوں نے خدا اور رسول (ص) کی جانب ںصوص کے مقابل اجتہاد کیا اور اپنی ذاتی رائے پر مسلمانوں سے زبردستی عمل کرایا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں امیر المومنین علی(ع) کو ایک طرف کر دیا گیا، گرچہ ںصوص کے مطابق وہ واقعی خلیفہ تھے اور ان کی جگہ پر وہ خلیفہ بنا جسے قریش نے نفسانی خواہشات کی بنیاد پر چنا تھا۔ وفات حضرت رسول(ص)  کے بعد یہ سب

۷۴

 سے تلخ واقعہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان پیش آیا اور جس نے انھیں مصیبت سے دوچار کیا اور حق و باطل، جاہلیت و اسلام  کے درمیان پیکار کی ابتدا کا باعث بنا۔

بے شک یہ آیت کریمہ جس میں خدا فرماتا ہے:

محمد(ص) سوائے رسول کے کچھ نہیں ہیں ان سے پہلے بھی رسول بھیجے گئے پس اگر (محمد(ص)) اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں ( اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے۔ ( آل عمران/ ۱۴۴)

اس کا عید غدیر سے براہ راست رابطہ ہے۔

رسول خدا(ص) نے عید غدیر کا جشن منایا جس وقت پروردگار عالم نے آنحضرت(ص) کو حکم دیا کہ اپنے بعد علی(ع) کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنادیں اور امت پر اچھی طرح واضح کردیں۔ چنانچہ حاضریں غدیر کی جب علی(ع) کے ہاتھوں پر بیعت ہوچکی اور آںحضرت(ص) نے بھی مبارک باد دے دی اور جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔

”الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتمَْمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتىِ وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْاسْلَامَ دِينًا“ ( مائدہ/ ۳)

آج ہم نے تمہارے دین کو کمال کی منزل پر پہنچادیا تم پر اپنی نعمتیں تما کردیں اور دین اسلام کو تمہارے لیے بہترین دین و آئین قرار دیا تو پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا :

اللہ اکبر ! اس خدا کا شکر جس نے میرے دین کو کامل کیا اور مجھ پر نعمتیں تمام کیں اور میرے بھائی اور چچا کے بیٹے کی ولایت سے راضی ہوا۔

چنانچہ مبارک باد کے لیے اسی روز ایک خیمہ ںصب کیا گیا اور حاضرین میں عورتوں اور مردوں میں کوئی نہ بچا جس نے علی(ع) کو ان کی ولایت پر مبارکباد نہ دی ہو۔

۷۵

لیکن ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے اس الہی عید کے عظیم جشن کے ٹھیک دو ماہ بعد امت اپنی بیعت سے پلٹ گئی۔ اور اس عید اور صاحب عید کو بھلا بیٹھی اور ایسے کو اپنے لیے منتخب کر لیا جو خدا کو منظور نہ تھا۔ اور بہانہ کے لیے کبھی بزرگی اور کم سنی کو پیش کرتے  تو کبھی کہتے بنی ہاشم کو نبوت جیسا عظیم شرف حاصل ہے لہذا یہ مناسب نہیں ہے کہ خلافت بھی انہیں کے درمیان رہے۔ اور کبھی یہ بہانہ کرتے کہ قریش ہرگز اس شخص کو اپنا امیر نہیں بناسکتے جس نے ان کے بہادروں کو قتل کیا ہے اور ان کے باحیثیت افراد کو موت گھاٹ اتارا ہے اور ان کی ناک مٹی میں رگڑ دی ہے۔

ہاں! فرزند ابوطالب(ع) کا کوئی گناہ نہیں، اگر ہے تو بس یہی کہ اس نے خدا کی رضا وخوشنودی کی خاطر اپنی جان کی بازی لگادی، اور نصرت دین کی خاطر ہر چیز کو قربان کردیا وہ دین جو اس کے بھائی اور چچا کے بیٹے کا لایا ہوا تھا لہذا اسے کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں، وہ اپنے ارادہ وعزم کا مال دنیا سے معاملہ نہیں کر سکتا۔

میں ہرگز امام علی(ع) کے فضائل و مناقب کو شمار نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کی خصوصیات اور امتیازات اکی وضاحت کرسکتا ہوں۔ کیونکہ مجھے اس بات کا پہلے ہی سے علم ہے کہ اگر سمندر میرے پروردگار کے کلمات کے لیے روشنائی ہوں اور اشجار قلم ہوں تو سمندر سوکھ جائیگا لیکن میرے پروردگار کے کلمات تمام نہ ہوں گے۔

اس عظیم شخصیت کی شرافت اور فخر و مباہات کےلیے یہی کافی ہے کیہ خدا نے اپنے دین کو ان کی ولایت و امامت سے کامل کیا ہے اور اپنی نعمت کو ان کی خلافت پر تمام کیا اورجن مسلمانوں نے ان کی خلافت کو دل و جان سے قبول کیا ان سے خدا خوشنود ہوا۔

۷۶

آپ ک عزت و فضیلت کے لیے یہ کافی ہے کہ رسول خدا(ص) نے آپ(ع) کو امام المتقین، مسلمانوں کا سید و سردار، مومنین کے لیے امیر اور دین و ایمان کا محور و مرکز قرار دیا ہے۔

میں ہرگز اس بات کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ عید غدیر کی صحت اور اس کی سچائی پر برہان و دلیل پیش کروں۔ اس لیے کہ پوری امت اسلامیہ اس واقعہ کی صحت و سچائی پر ایمان رکھتی ہے اور اسے نقل کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ صرف شیعہ اس روز جشن مناتے ہیں اور اہل سنت اپنی خواہش کے مطابق اس کی تاویل کرتے ہیں۔

ہم جشن منانے والوں کی گفتگو سے بھی آگاہ ہوئے ، اور تاویل کرنے والوں کی باتوں سے بھی اور ولایت قبول کرنے والوں کے عقیدہ کا بھی مطالعہ کیا۔ انھوں نے واضح نص  کے ذریعہ یہ سمجھا کہ امامت اصول دین کی ایک اصل ہے۔ اور ان کے مخالف گروہ کے عقیدہ پر بھی ہم نے بحث کی اور معلوم ہوا کہ انھوں نے نصوص کی تاویل یوں کی ہے : یہ محمد(ص) کی اپنے داماد اور چچا زاد بھائی کے متعلق سوائے ایک رائے اور نظر کے کچھ اور نہ تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ اس طرح علی(ع) کی نسبت ان کے دشمنوں کے دل نرم ہوجائیں۔

ہم ان کے پیروؤں کے مطمح نظر سے واقف ہوئے کہ جو فقیر اور نادار افراد تھے۔ چنانچہ مخالفین اور دشمنوں کی حالت کا بھی اندازہ ہوا جو کہ ثروت مندوں اور مستکبروں کا ایک بڑا گروہ تھا اور ان کی مخالفت اس حد تک بڑھ گئی کہ انھوں نے اہل بیت رسول(ص) کی حرمت کے ساتھ بھی ہتک کی اور صرف سیدة الاوصیاء حضرت علی(ع) پر حملہ کرنے پر اکتفا نہ کی بلکہ سیدة النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا(س) کی بھی اہانت کی اور خاندان نبوت کے خلاف شدید جنگ کا آغاز کردیا جو ناکثین، قاسطین اور مارقین کی جنگ کی صورت میں تمام ہوئی۔

۷۷

آخر کار امام کو محراب نماز میں شہید کیا اور شکر کا سجدہ بجا لائے۔ان مخالفین نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ آپ کےدونوں فرزند جو جوانان جنت کےسردار ہیں ان کو بھی شہید کردیا۔ امام حسن(ع) کو زہر کے ذریعہ امام حسین(ع) کو ان کے روشن ستاروں کےساتھ کربلا میں قتل کرڈالا۔

اس مقام پر سمجھ میں آجاتا ہے کہ عید غدیر اس امت کےلیے امتحان تھی لیکن افسوس یہ متفرق ہوگئی اور اختلاف سے دوچار ہوئی اور اس طرح ٹکڑوں میں بٹ گئی جیسے یہود نصاری نے اختلاف کیا تھا، رسول اسلام(ص) نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

یہ بھی ہم پر واضح ہو گیا کہ امامت جو اصول دین  کی ایک اصل کنارے چھوڑ دی گئی اور اس سے نفرت کی جانے لگی۔ اور اس کے اہل افراد سوائے صبر وشکیبائی کے کچھ نہیں کرسکتے تھے اور اس کی جگہ بغیر سوچے سمجھنے اسی جھوٹی امارت کھڑی کردی کہ جس کے شر کو مسلمانوں کے سر سے سوائے خدا کے کوئی اور ختم نہیں کرسکتا ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آزاد کئے جانے والے ( طلقاء) اور مفسدوں نے بھی اس کی ہوس کر لی۔ اور جس کشتی نجات کو آںحضرت(ص) نے درست کیا تھا اور چلنےکے یے تیار کردیا تھا اس پر کچھ مخلص بندوں کے سوا کوئی سوار نہ ہوا اور تمام مسلمان دنیا کی محبت و ریاست کی خواہش میں ڈوب گئے اور جو ائمہ ہدایت اور راہنما تھے ان کو ایسے ہی چھوڑ دیا۔ اس طرح وہ ایسے خود پسدند راہ و مذہب کے پیرو بن گئے  جس پر کتاب خدا اور سنت رسول(ص) سے قیامت تک کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔

یہ تھا عید غدیر اور صاحب غدیر کی سر گذشت کا خلاصہ اور غدیر کے بعد جو سازش کی گئی اسے بھی وضاحت سے بیان کرنے کی  ضرورت نہیں ہے۔ جو لوگ مزید تحقیق کرنا چاہتے ہیں وہ میری دوسری کتاب (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) کا

۷۸

مطالعہ فرمائیں۔

فی الحال چاہے ہم سنی ہوں یا شیعہ یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم بھی تاریخ کی قربانی ہیں بلکہ ایک ایسی سازش کی قربانی جس کا نقشہ دوسروں نے تیار کیا اور اس کی داغ بیل ڈالی بلا شبہ ہم بھی طبیعت کے مطابق پیدا ہوئے، ہمارے شیعہ یا سنی ہونے کا سبب اور ہدایت و گمراہی کا باعث ہمارے والدین ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جس گمراہی و اںحراف کو چودہ(۱۴) صدیاں بیت چکی ہوں اس کا کچھ برسوں میں ختم ہونا ممکن نہیں ہے اور جو بھی یہ خیال کرتا ہے اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ معصوم ائمہ(ع) نے امام علی(ع) سے لیکر امام حسن عسکری(ع) تک اپنی پوری توانائی کے ذریعہ امت میں اتحاد پیدا کرنے اور سیدھے راستہ کی ہدایت کی کوشش کی اور اس راہ میں اپنی جان قربان کی اور اپنے نونہالوں کو بھی فدا کردیا تاکہدین محمد(ص) قائم رہے لیکن زیادہ تر لوگوں نے کفران نعمت کیا اور ان سے منہ موڑ کر حق کو پامال کردیا۔

اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ اصلاح کرنے والوں اور سچے مومنین سبھی کی کوششیں ناکام ہوئیں اور مسلمانوں کے اتحاد کی تمنا، جہل و نادانی اور اندھے تعصب کے پتھر سے ٹکرا کر رہ گئی۔ قومیتوں کے پہاڑ ، گوناگون نسلیں، اور مختلف حخومتیں، ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کے پس پشت ہمارے دشمن بھی ہیں جن کی محبت و دوستی کو ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔ وہ رسول(ص) کی رسالت کے زمانہ سے لے محبت تک پوری قوت کے ساتھ ہمیشہ اس کی کوشش میں رہے ہیں کہ نور خدا کو خاموش کردیں۔

اور ان کے پیچھے بھی کچھ اورموقع پرست لوگ ہیں جو سوائے اپنے فائدہ کے اور کچھ نہیں سوچتے بلاشبہ مسلمانوں کا اتحادان کے منافع کے لیے بڑا خطرہ

۷۹

 ہے لہذا ان کی ہمیشہ یہی کشش رہتی ہے کہ لوگوں میں تفرقہ ڈال کر انھیں ہانٹ دیں۔

ان کے علاوہ ابلیس ملعون بھی تو بیکار نہیں بیٹھا ہے وہی تو ہے جس نے خداوند عالم سے کہا تھا:

میں یقینا تیرے بندوں کے راہ راست اور صراط مستقیم سے گمراہ اور منحرف کردوں گا۔ ( اعراف/۱۶)

یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وقت کافی گذر چکا ہے چودہ صدیاں بیت گئیں اور ہم سوئے ہوئے ہیں۔ حیران و پریشان ہیں۔ ہماری عقلوں پر دنیا کی زینت و ہوس نے غلبہ کررکھا ہے اور ہماری فکروں کو لاعلاج بیماریوں نے گھیر رکھا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہمارے دشمن علم اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مسلسل ترقی کررہے ہیں اور ہم سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، ہمارا خون بہا رہے ہیں ، ہماری دولت لوٹ رہے ہیں اور ہمیں ذلت و رسوائی کی طرف کھینچ رہے ہیں ۔ ان کا دعوا یہ ہے کہ ہم ( مسلمان) پسماندہ ہیں۔ ہمیں متمدن بنانا چاہئے۔ ہم وحشی جانور ہیں جسے رام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لیے سارے راستے بند کر ڈالے گئے اور ہماری سانسوں کو بھی مقید کر دیا گیا، حتی کہ اگر ہم میں سے کسی کو چھینک بھی آجائے تو اس کا بھی ہزار طرح سے حساب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا مصدر جو کہ زکام یا نزلہ ہے اسے مشخص کرو ایسا نہ ہوکہ انھیں بھی لگ جائے اور وہ بیمار ہوجائیں اور علاج مشکل ہوجائے۔

یہ سب اس لیے ہے کہ جب باتوں کا اسلام نے حکم دیا تھا انھوں نے اس پر عمل کیا اور اسے سیکھ لیا لیکن ہم نے خدا کے بہت سے احکام کو چھوڑ دیا اور ان پر توجہ نہ دی۔ اس سے زیادہ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ عقل مندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔

ہاں آج ہم نیند سے اٹھ بیٹھے ہیں لیکن کیسا جاگنا ! ہم نے اتحاد کے نغمہ پر

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خندق کھورنے لگے امیر المؤمنین کھدی ہوئی مٹی کو خندق سے نکال کر باہر لے جار رہے تھے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنا کام کیا کہ پسینہ سے تر ہوگئے اور تھکاوٹ کے آثار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ سے نمایاں تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''لا عیش لا عیش الاخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرین '' (۱)

آخرت کے آرام کے سوا اور کوئی آرام نہیں ہے اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما_

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی اٹھانے میں منہمک میں تو ان کو اور زیادہ جوش سے کام کرنے لگے_

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں : خندق کھودتے کھودتے ہم ایک بہت ہی سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اب کیا کیا جائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وہاں تھوڑا پانی ڈال دو اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں خود تشریف لائے حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھو کے بھی تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین مرتبہ خدا کا نام زبان پر جاری کرنے کے بعد اس جگہ پر ضرب لگائی تو وہ جگہ بڑی آسانی سے کھد گئی_(۲)

عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ میں اور سلمان اور انصار میں سے چند افراد مل کر چالیس ہاتھ کے قریب زمین کھود رہے تھے ایک جگہ سخت پتھر آگیا جس کی وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲ ص ۲۱۸) _

۲ (بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۱۸۱

گئے ہم نے سلمان سے کہا تم جاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ماجرا بیان کردو سلمان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا واقعہ بیان کردیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشریف لائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند ضربوں میں پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا _(۱)

کھانا تیار کرنے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی سواریوں سے اترے اور اپنا سامان اتار لیا تو یہ طے پایا کہ بھیڑ کو ذبح کرکے کھانا تیار کیا جائے _

اصحاب میں سے ایک نے کہا گوسفند ذبح کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ، دوسرے نے کہا اس کی کھال میں اتاروں گا ، تیسرے نے کہا گوشت میں پکاؤں گا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جنگل سے لکڑی لانے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زحمت نہ فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آرام سے بیٹھیں ان سارے کاموں کو ہم لوگ فخر کے ساتھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سارا کام کرلو گے لیکن خدا کسی بندہ کو اس کے دوستوں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا _پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحرا کی جانب گئے اور وہاں سے لکڑی و غیرہ جمع کرکے لے آئے _(۲)

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۲) ( داستان راستان منقول از کحل البصر ص ۶۸)_

۱۸۲

شجاعت کے معنی :

شجاعت کے معنی دلیری اور بہادری کے ہیں علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے یہ ایک ایسی غصہ والی طاقت ہے جس کے ذریعہ نفس اس شخص پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے دشمنی ہوجاتی ہے _(۱)

جب میدان کا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو کسی انسان کی شجاعت اور بزدلی کا اندازہ ایسے ہی موقع پر لگایا جاتا ہے _

شجاعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

صدر اسلام میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تاریخ کی گواہی کے مطابق اس میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس بہت سی جنگوں میں موجود تھے اور جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھے _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت علیعليه‌السلام کی زبانی :

تقریبا چالیس سال کا زمانہ علیعليه‌السلام نے میدان جنگ میں گذارا عرب کے بڑے بڑے

___________________

۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)

۱۸۳

پہلوانوں کو زیر کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ بیان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کی بہترین دلیل ہے کہ آپعليه‌السلام فرماتا ہیں :

''کنا اذا احمر الباس و القی القوم اتقینا برسول الله فما کان احد اقرب الی العدو منه'' (۱)

جب جنگ کی آگ بھڑکتی تھی اور لشکر آپس میں ٹکراتے تھے تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لیتے تھے ایسے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوئے تھے_

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

''لقد رایتنی یوم بدر و نحن نلوذ بالنبی و هو اقربنا الی العدو و کان من اشد الناس یومئذ'' (۲)

بے شک تم نے مجھ کو جنگ بدر کے دن دیکھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا کی پناہ میں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک اور لشکر میں سب سے زیادہ قوی تھے_

جنگ '' حنین '' میں براء بن مالک سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کے بارے میں دوسری روایت نقل ہوئے ہے جب قبیلہ قیس کے ایک شخص نے براء سے پوچھا کہ کیا تم جنگ حنین کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان کی مدد نہیں کی

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳) _

۲) ( الوفا باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۴

تھی ؟ تو انہوں نے کہا :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محاذ جنگ سے فرار نہیں اختیار کیا قبیلہ '' ہوازان '' کے افراد بڑے ماہر تیرانداز تھے _ ابتداء میں جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے فرار اختیار کیا _ جب ہم نے یہ ماحول دیکھا تو ہم مال غنیمت لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ، اچانک انہوں نے ہم پر تیروں سے حملہ کردیا ہیں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوارہیں_ ابو سفیان بن حارث نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے ہیں :

''اناالنبی لا کذب و انا بن عبدالمطلب'' (۱)

میں راست گو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں فرزند عبدالمطلب ہوں _

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۵

خلاصہ درس :

۱ _ باہمی امداد اور تعاون معاشرتی زندگی کی اساس ہے اس سے افراد قوم کے دلوں میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے _

۲ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف باہمی تعاون کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے کام میں خود بھی شریک ہوجاتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل سے باہمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے _

۳_شجاعت کے معنی میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے مظاہرہ کے ہیں اور علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے _

۴_ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ہیں ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور استقامت فتح کا سب سے اہم سبب تھا_

۵_ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جنگ بدر کے دن ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ دشمنوں کے سب سے زیادہ قریب تھے اور اس دن تمام لوگوں میں سے سب زیادہ قوی اور طاقت ور تھے_

۱۸۶

سوالات :

۱_ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی اہمیت کو ایک روایت کے ذریعے بیان کیجئے؟

۲_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب کے ساتھ کس زمانہ اور کس چیز میں تعاون تھا ؟

۳ _ وہ امور جن کا تعلق معاشرتی امور سے تھا ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا روش تھی مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۴_ شجاعت کا کیا مطلب ہے ؟

۵_ علمائے اخلاق نے شجاعت کی کیا تعریف کی ہے ؟

۶_ جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کیا تھی ؟ بیان کیجئے؟

۱۸۷

تیرہواں سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش و عطا )

دین اسلام میں جس صفت اور خصلت کی بڑی تعریف کی گئی ہے اور معصومینعليه‌السلام کے اقوال میں جس پر بڑا زور دیا گیا ہے وہ جود و سخا کی صفت ہے _

سخاوت عام طور پر زہد اور دنیا سے عدم رغبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء کرامعليه‌السلام سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت کی صفت بھی زہد کے نتیجہ کے طور پر ان کی ایک علامت اور خصوصیت شمار کی جاتی ہے _

اس خصوصیت کا اعلی درجہ یعنی ایثار تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصاً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ما جبل الله اولیائه الا علی السخا ء و حسن الخلق'' (۱)

___________________

۱) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی )_

۱۸۸

سخاوت اور حسن خلق کی سرشت کے بغیر خدا نے اپنے اولیاء کو پیدا نہیں کیا ہے _

سخاوت کی تعریف :

سخاوت یعنی مناسب انداز میں اس طرح فائدہ پہونچانا کہ اس سے کسی غرض کی بونہ آتی ہو اور نہ اس کے عوض کسی چیز کا تقاضا ہو(۱)

اسی معنی میں سخی مطلق صرف خدا کی ذات ہے جس کی بخشش غرض مندی پر مبنی نہیں ہے انبیاءعليه‌السلام خدا '' جن کے قافلہ سالار حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق الہی سے مزین ہیں'' سخاوت میں تمام انسانوں سے نمایان حیثیت کے مالک ہیں _

علماء اخلاق نے نفس کے ملکات اور صفات کو تقسیم کرتے ہوئے سخاوت کو بخل کا مد مقابل قرار دیا ہے اس بنا پر سخاوت کو اچھی طرح پہچاننے کے لئے اس کی ضد کو بھی پہچاننا لازمی ہے _

مرحوم نراقی تحریر فرماتے ہیں :'' البخل هو الامساک حیث ینبغی البذل کما ان الاسراف هو البذل حیث ینبغی الامساک و کلا هما مذمومان و المحمود هو الوسط و هو الجود و السخا ء'' (۲) بخشش کی جگہ پر بخشش و عطا

___________________

۱) ( فرہنگ دہخدا ، منقول از کشاف اصطلاحات الفنون)_

۲) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت)_

۱۸۹

نہ کرنا بخل ہے اور جہاں بخشش کی جگہ نہیں ہے وہاں بخشش و عطا سے کام لینا اسراف ہے یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ میں ان میں سے نیک صفت وہ ہے جو درمیانی ہے اور وہ ہے جودوسخا_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے :

( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط فتقعد ملوما محسورا ) (۱)

اپنے ہاتھوں کو لوگوں پر احسان کرنے میں نہ تو بالکل بندھا ہوا رکھیں اور نہ بہت کھلا ہوا ان میں سے دونوں باتیں مذمت و حسرت کے ساتھ بیٹھے کا باعث ہیں _

اپنے اچھے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :

( و الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما ) (۲)

اور وہ لوگ جو مسکینوں پر انفاق کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ احسان میں میانہ رو ہوتے ہیں _

مگر صرف انہیں باتوں سے سخاوت متحقق نہیں ہوتی بلکہ دل کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے مرحوم نراقی لکھتے ہیں :''و لا یکفی فی تحقق الجود و السخا ان یفعل

___________________

۱) ( الاسراء ۲۹) _

۲) (فرقان ۶۷) _

۱۹۰

ذلک بالجوارح ما لم یکن قلبه طیبا غیر منازع له فیه'' (۱) سخاوت کے تحقق کیلئے صرف سخاوت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا بھی اس کام پر راضی ہونا اور نزاع نہ کرنا ضروری ہے _

سخاوت کی اہمیت :

اسلام کی نظر میں سخاوت ایک بہترین اور قابل تعریف صفت ہے اس کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے نمونہ کے طور پر اس کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں_

''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانها متدلیة علی الارض فمن اخذ منها غصنا قاده ذالک الغصن الی الجنة '' (۲)

سخاوت جنت کا ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہوئی ہیں جو اس شاخ کو پکڑلے وہ شاخ اسے جنت تک پہونچا دے گی _

''قال جبرئیل: قال الله تعالی : ان هذا دین ارتضیته لنفسی و لن یصلحه الا السخاء و حسن الخلق فاکرموه بهما ما استطعم '' (۳)

___________________

۱) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت )_

۲) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی ) _

۳) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷ فیض کاشانی ) _

۱۹۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خدا سے نقل کیا ہے کہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو میں نے اپنے لیئے منتخب کر لیا ہے اس میں جود و سخا اور حسن خلق کے بغیر بھلائی نہیں ہے پس اس کو ان دو چیزوں کے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تک ہوسکے عزیز رکھو _

''تجافوا عن ذنب السخی فان الله آخذ بیده کلما عثر'' (۱) سخی کے گناہوں کو نظر انداز کردو کہ خدا ( اس کی سخاوت کی وجہ سے ) لغزشوں سے اس کے ہاتھ روک دیتا ہے _

سخاوت کے آثار :

خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب چیز ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس نے سخاوت کی وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے_

۱ _ بہت بولنے والا سخی

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ یمن سے ایک وفدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کیلئے آیا ان میں ایک ایسا بھی شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بڑی باتیں اور جدال کرنے والا شخص تھا اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ غصہ کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابرو اور چہرہ سے پسینہ ٹپکنے لگا _

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۷ مطبوعہ بیروت )_

۱۹۲

اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا: کہ یہ شخص ایک سخی انسان ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے _ یہ بات سن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ کم ہوگیا اس شخص کی طرف مخاطب ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر جبرئیل نے مجھ کو یہ خبر نہ دی ہوتی کہ تو ایک سخی انسان ہے تو میں تیرے ساتھ بڑا سخت رویہ اختیار کرتا ایسا رویہ جس کی بنا پر تودوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _

اس شخص نے کہا : کہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا سخاوت کو پسند کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ، اس شخص نے یہ سن کے کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کیا اور کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے آج تک کسی کو اپنے مال سے محروم نہیں کیا ہے(۱)

۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے :

مسلمانوں میں سخاوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ روزی کے معاملہ میں خدا پر توکل کرتے ہیں جو خدا کو رازق مانتا ہے اور اس بات کا معتقد ہے کہ اس کی روزی بندہ تک ضرور پہنچے گی وہ بخشش و عطا سے انکار نہیں کرتا اس لئے کہ اس کو یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم اس کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا _

انفاق اور بخشش سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معراج کے واقعات بتاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے_

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۲ ص ۸۴)_

۱۹۳

''و رایت ملکین ینادیان فی السماء احدهما یقول : اللهم اعط کل منفق خلفا و الاخر یقول : اللهم اعط کل ممسک تلفا'' (۱)

میں نے آسمان پر دو فرشتوں کو آواز دیتے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک کہہ رہا تھا خدایا ہر انفاق کرنے والے کو اس کا عوض عطا کر _ دوسرا کہہ رہا تھا ہر بخیل کے مال کو گھٹادے _

دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا :

بخل کے مد مقابل جو صفت ہے اس کا نام سخاوت ہے _ بخل کا سرچشمہ دنیا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے _ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے اور اس جگہ حقیقی محبوب کا عشق سماجاتا ہے _

اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سخاوت

جناب جابر بیان کرتے ہیں :

''ما سئل رسول الله شیئا قط فقال : لا'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' نہیں '' نہیں فرمایا _

امیرالمؤمنینعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۱۸ ص ۳۲۳) _

۲) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۱) _

۱۹۴

'' کان اجود الناس کفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لهجةو اوفاهم ذمة و الینهم عریکهة و اکرمهم عشیرة من راه بدیهة هابه و من خالطه معرفة احبه لم ارقبله و بعده مثله '' (۱)

بخشش و عطا میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ سب سے زیادہ کھلے ہوئے تھے_ شجاعت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا ، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی ، وفائے عہد کی صفت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سب سے زیادہ موجود تھی ، تمام انسانوں سے زیادہ نرم عادت کے مالک تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان تمام خاندانوں سے زیادہ بزرگ تھا ، آپ کو جو دیکھتا تھا اسکے اوپر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جب کوئی معرفت کی غرض سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بیٹھتا تھا وہ اپنے دل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت لیکر اٹھتا تھا _ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا نہیں پایا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقبول کی یہ صفت تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو بھی ملتا تھا وہ عطا کردیتے تھے اپنے لئے کوئی چیز بچاکر نہیں رکھتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نوے ہزار درہم لایا گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان درہموں کو تقسیم کردیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کو واپس نہیں کیا جب تک اسے فارغ نہیں کیا _(۲)

___________________

۱) ( مکارم الاخلاق ص ۱۸) _

۲) (ترجمہ احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۷۱)_

۱۹۵

خلاصہ درس :

۱) اسلام نے جس چیز کی تاکید کی اور جس پر سیرت معصومینعليه‌السلام کی روایتوںمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ سخاوت کی صفت ہے _

۲) تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصا ً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صفت کے اعلی درجہ '' ایثار '' فائز تھے _

۳) سخاوت یعنی مناسب جگہوں پر اس طرح سے فائدہ پہونچانا کہ غرض مندی کی بو اس میں نہ آتی ہوا اور نہ کسی عوض کے تقاضے کی فکر ہو _

۴) سخاوت بخل کی ضد ہے بخل اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے اس کا نام سخاوت ہے_

۵)خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب صفت ہے کہ اس نے اپنے حبیب کو کافر سخی انسان کی عزت کرنے کا حکم دیا _

۶) انفاق اور بخشش نعمت و روزی میں اضافہ کا سبب ہے_

۷)رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو ملتا تھا اس کو بخش دیا کرتے تھے اپنے پاس بچاکر کچھ بھی نہیں رکھتے تھے_

۱۹۶

سوالات :

۱_ جود و سخاوت کا کیا مطلب ہے ؟

۲_ سب سے اعلی درجہ کی سخاوت کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے ؟

۳_قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ سخاوت کے معنی بیان کیجئے؟

۴_ سخاوت کی اہمیت اور قدر و قیمت بتانے کیلئے ایک روایت پیش کیجئے؟

۵_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جودو سخا کی ایک روایت کے ذریعے وضاحت کیجئے؟

۱۹۷

چودھواں سبق:

(سخاوت ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خداداد صفت )

ابن عباس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا ادیب الله و علی ادیبی امرنی ربی بالسخاء و البر و نهانی عن البخل و الجفاء و ما شئ ابغض الی الله عزوجل من البخل و سوء الخلق و انه لیفسد العمل کما یفسد الخل العسل '' (۱)

میری تربیت خدا نے کی ہے اور میں نے علی علیہ السلام کی تربیت کی ہے ، خدا نے مجھ کو سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے اور اس نے مجھے بخل اور جفا سے منع کیا ہے ، خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ برا اخلاق عمل کو اسی طرح خراب کردیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _ جبیربن مطعم سے منقول ہے کہ ''حنین'' سے واپسی کے بعد ، اعراب مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد اکھٹے ہوئے اور بھیڑ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ردا اچک لے گئے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۱۷_

۱۹۸

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ردوا علی ردائی اتخشون علی البخل ؟ فلو کان لی عدد هذه العضاة ذهبا لقسمته بینکم و لا تجدونی بخیلا و لا کذابا و لا جبانا'' (۱)

میری ردا مجھ کو واپس کردو کیا تم کو یہ خوف ہے کہ میں بخل کرونگا ؟ اگر اس خار دار جھاڑی کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو میں تم لوگوں کے درمیان سب تقسیم کردوں گا تم مجھ کو بخیل جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے _

صدقہ کو حقیر جاننا

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ : ایک دن ایک ساءل میرے گھر آیا ، میں نے کنیز سے کہا کہ اس کو کھانا دیدو ، کنیز نے وہ چیز مجھے دکھائی جو اس ساءل کو دینی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عائشہ تم اس کو گن لوتا کہ تمہارے لئے گنا نہ جائے_(۲)

انفاق کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انفاق کرنے والا اپنے اس عمل کو بڑا نہ سمجھے ورنہ اگر کوئی کسی عمل کو بہت عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا ہوگی کہ جو اسے کمال سے دور کرتی ہے یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہلاکت اور رسوائی تک پہونچا دیتی ہے _

___________________

۱) الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۲ _

۲) شرف النبی ج ۶۹_

۱۹۹

اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد :

'' رایت المعروف لا یصلح الابثلاث خصال : تصغیره و تستیره و تعجیله ، فانت اذا صغرته عظمته من تصنعه الیه و اذا سترته تممته و اذا عجلته هناته و ان کان غیر ذلک محقته و نکدته'' (۱)

نیک کام میں بھلائی نہیں ہے مگر تین باتوں کی وجہ سے اس کو چھوٹا سمجھنے ، چھپا کر صدقہ دینے اور جلدی کرنے سے اگر تم اس کو چھوٹا سمجھ کر انجام دو گے تو جس کے لئے تم وہ کام کررے ہو اس کی نظر میں وہ کام بڑا شمار کیا جائیگا اگر تم نے اسے چھپا کر انجام دیا تو تم نے اس کام کو کمال تک پہونچا دیا اگر اس کو کرنے میں جلدی کی تو تم نے اچھا کام انجام دیا اس کے علاوہ اگر دوسری کوئی صورت اپنائی ہو تو گویا تم نے ( اس نیک کام ) کو برباد کردیا _

اس طرح کے نمونے ائمہ کی سیرت میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،رات کی تاریکی میں روٹیوں کا بورا پیٹھ پر لاد کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا عمل حضرت امیرالمومنین اور معصومین علیہم السلام کی زندگی میں محتاج بیان نہیں ہے _

___________________

۱) (جامع السعادہ ج ۲ ص ۱۳۵)_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279