امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت0%

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت مؤلف:
زمرہ جات: امام رضا(علیہ السلام)
صفحے: 131

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حسین صبوری
زمرہ جات: صفحے: 131
مشاہدے: 50545
ڈاؤنلوڈ: 3252

تبصرے:

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 131 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50545 / ڈاؤنلوڈ: 3252
سائز سائز سائز
امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام رضا علیہ السلام

بہ زبان اباصلت

ترجمہ کتاب:

خاطرات اباصلت ہروی

از امام رضا علیہ السلام

مؤلف: حسین صبوری

مترجم: سید عسکری رضا رضوی

متعلم جامعة الشہید الرابع دہلی

(پھلاؤدہ- میرٹھ)

انتشارات علویون

مرکز پخش:

تلفن:78319999-7837663(0251)

موبائل:09122519681-09155007699

۱

خاطرات اباصلت ہروی از امام رضا(ع)

مؤلف: حسین صبوری

مترجم: سید عسکری رضا رضوی

نظر ثانی: مولانا سید محمد میثم نقوی ،سیدہ  شوبی زیدی

پروف ریڈنگ: سید حسین عباس نقوی (قاری،پھنڈیروی)

کمپوزنگ: سید شوذب علی نقوی

قطع و صفحات: رقعی،184

طبع: اول ، زمستان سال 1390

تعداد:  2000

چاپخانہ : امیران

صحافی: ہاشمی

قیمت: 25000 ریال

۲

عرض مؤلف

ہم سب عبد السلام بن صالح ابا صلت ہروی کو خادم الرضا(ع) کے عنوان سے پہچانتے ہیں چونکہ آپ امام رضا علیہ السلامکے بہت مقرب اور ہمرازصحابی تھے اس لئے آپ کے خصوصی احترام کے قائل ہیں اور حق بھی یہی ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے بہتر یہ ہے کہ خود انکی شخصیت کے متعلق اور ان معارف اہل بیت کے متعلق جو انکے ذریعہ ہم تک پہونچے ہیں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں ۔

     بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپکی بزرگ اوربا اہمیت شخصیت پر اہل تسنن کی طر ف مائل ہونے کی تہمت بھی لگائی گئی ہے ، آپکے متعلق زیادہ کتابیں اور معلومات بھی نہیں ملتیں اس لئے بندهٔ ناچیز نے سرمایہ علم کی کمی کے باوجود اس بات کا ارادہ کیا کہ اس سلسلے میں اپنے امکانات کی حد تک وظیفے کو انجام دوں۔

 آپکے ہاتھوں میں یہ مختصر سی کتاب اسی ارادہ و جذبہ کا نتیجہ ہے ،کتاب کی اصلی بحثوں میں داخل ہونے سے پہلے چندنکات قابل ذکر ہیں:

 1)کبھی کبھی حضرت ابا صلت کے مرقد مطہر کی جگہ کے بارے میں اختلاف سامنے آتا ہے اگر چہ احتمال قوی یہ ہے کہ آپکی قبر شہر مقدس مشدی الرضا(ع)(معروف بہ مشدی مقدس) کے قریب ایک مقام پر ہے لیکن یہ 

بات مسلم ہے کہ آپکی شخصتم اس قدرمشہورومعروف اوربزرگ ہے کہ آپکے مزار مقدس کے معلوم نہ ہونے سے آپکی قدرومنزلت کم نہیں ہو سکتی بالکل اسی طرح سے جسےل کہ جناب زینب(س)کی قبر مطہرکی دقیق جگہ معلوم نہیں ہے لیکن پھر بھی ہر روز دسوں کاروان فقط آپکی بزرگ اور معنوی شخصیت کی تعظمپ وتکریم اور زیارت کے لئے شہر دمشق جاتے ہیں ،اس سے بڑھ کرحضرت زہرا ء(س)کے مرقد شریف کی دققا جگہ کا مخفی ہونا کسی بھی صورت میں جنت البقیع میں آپکی قبر احتمالی پر آپکے عاشقان ومحبان کے حضور میں مانع نہیں ہے۔

۳

۲)شہر مقدس مشہد کے نزدیک جو جگہ آپ کے حرم سے منسوب ہے وہاں پر جو لوگ آپ سے توسل کرتے ہیں انکے لئے آپکی جانب سے بہت زیادہ کرامات دیکھی گئی ہیں جنکے ذریعہ اسی مقام پر(آپکی قبر موجود ہونے کے متعلق) آپکے زائرین کے اطمنان قلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔(1)

۳)اگرچہ ہم نے اس کتاب کا نام خاطرات ابا صلت ہروی از امام رضاؑ رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اسی موضوع سے متعلق اچھے اچھے مطالب با ن کئے جائیں لیکن بعض مقامات پر[طرداً  للباب] (2) یعنی اسی موضوع سے متعلق ہونے کی وجہ سے کچھ دوسرے مطالب بھی ذکر کئے گئے ہیں کہ جو ابا صلت کے ذریعہ ہم تک پہونچے ہیں اور بہت اہم ہیں کہ جس میں چند واقعات حضرت امیرالمؤمنین(ع) و حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھااور چند احادیث نبوی شامل ہیں۔

(۴)اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ خاطرات ابا صلت کو خود انھیں کی زبانی بامن کیا جائے ،ہم نے اس کتاب کے مطالب کو پیش کرنے کے لئے ایسے قلم کو اختا ر کیا ہے جو لوگوں کواپنی طرف مائل کرنے اور واقعات میں اثر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ قلم اباصلت کا قلم ہے (یعنی تمام واقعات انھیں کی زبانی نقل کئے ہیں)یہاں تک کہ اباصلت کا تعارف بھی خودانھیں کی زبانی کرایا گیا ہے ۔

--------------

(1):-  یہ تمام کرامات آپکے حرم کی کمیٹی کی جانب سے ایک کاپی (فائل) میں تحریر کرکےمحفوظ کی جاتی ہیں.

(2):- (طرداً للباب)یہ ایک حوزوی اصطلاح ہے ، اسکے معنی ہیں بحث کا جامع، کامل اور حاوی ہونا.

۴

اپنی بات

نحمده لاهله و الصلاة علی اهلها

اما بعد:

معصومین علیہم السلام کے مزارات مقدسات کی زیارت کا بڑا ثواب ہے ، ہر شیعہ اور محب اہل بیت اپنے دل میں زیارت کی خواہش رکھتا ہے ، خداوند عالم سب کو ان زیارتوں سے مشر ف فرمائے ۔آمین

بندہ حقیر نے بھی زیارت اور طلب علم کے ارادے سے 28 مئی 2011 کو ہندوستان سے ایران کا سفر اختیار کیا، ایران پہونچ کر ایک ہفتہ شہر قم، معصومہ کے جوار میں بسر کیا ، ایک ہفتے کے بعد مشہد کا سفر اختیار کیا اور امام رضاعلیہ السلام کے روضے کی زیارت کے بعد آپ کی قدمگاہ کی زیارت کےلئے نیشاپور کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں آپ کے جلیل القدر صحابی عبد السلام بن صالح اباصلت ہروی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، آپ کے حرم کے دروازے کے برابر میں صدوقی نامی ایک بندہ مؤمن کتابوں کی دکان لگاتا ہے میں دکان کے سامنے کھڑا ہو کر کتابوں کو دیکھ رہا تھا کہ میری نظر اس کتاب پر پڑی ان دنوں میں ایک کتاب (صدیقہ شہیدہ) کا ترجمہ بھی 

کر رہا تھا، میں نے سوچا کہ کیوں نہ ہو کہ میں امام رضاعلیہ السلام اور آپکے صحابی اباصلت کی زیارت کی برکت میں اس کتاب کا ترجمہ کردوں، لہذا میں نے یہ سوچ کر کتاب کو خرید لیا، جیسے ہی میں نے کتاب کو خریدا، آقای صدوقی نے مجھ سے کہا کہ یہاں پر ہندی اور پاکستانی اردو زبان لوگ آتے ہیں اور ہم سے اردو زبان کی کتابیں مانگتے ہیں لہذا اگر آپ اس کتاب کا ترجمہ ہم کو دیدیں تو بہت مہربانی ہوگی ۔

میں نے ان  کی بات کو قبول کر لیا اور مشہد سے قم واپس آنے کے بعد دوسری ذمہ داریوں اور مصروفیات کے با وجود آقای صدوقی کے اصرار کی بنا پرتقریباً پندرہ روز کے عرصے میں ، الحمد اللہ اس کتاب کا ترجمہ مکمل ہوگیا، اب اس مفید کتاب کاردو ترجمہ بھی آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔

۵

کتاب بہت مفید ہے، اس کتاب کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں تمام روایات اباصلت سے لی گئی ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ ہر واقعہ اسی شخصیت کی زبانی بیان کیا گیا جسکا اس واقعہ میں اہم نقش رہا ہے ۔

لہذا قارئین کرام کے لئے یہ بات عرض کر دینا بہتر سمجھتا ہوں کہ واقعات میں راوی کو تلاش کرنے کے لئے زیادہ نگران نہ ہوں کیونکہ سب روایتوں کے راوی اباصلت ہروی ہیں ۔

قارئین کرام سے گزارش ہے اگر ترجمہ میں کوئی غلطی نظر آئے تو تنقید کرنے کے بجائے ہم کو متوجہ کردیں بڑی مہربانی ہوگی ۔

اب میں ان سب لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس کتاب کے ترجمہ میں میرا کسی بھی طرح تعاون کیا ہے خصوصاً اپنی خواہر سیدہ شوبی زیدی، مولانا محمد میثم نقوی میرٹھی (کہ جنھوں نے ترجمے پر نظر ثانی کی)اور مولانا قاری حسین عباس اور دوست عزیز سید شوذب علی نقوی کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جنھوں نے کمپوزنگ اور پروف ریڈینگ کی ذمہ داری انجام دی ۔

آخر میں خداوند عالم سے دعاگو ہوں کہ اس کتاب کے ترجمے کو ہمارے اورہمارے مرحومین کے لئے سرمایہ نجات قرار دے اور ہم سب کو دامن اہل بیت سے متمسک رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

والسلام       

سید عسکری رضارضوی

آگست/2011ء      

۶

پہلی فصل:

معرفی اباصلت

خادم امام رضا علیہ السلا م ابا صلت ہروی

میں عبد السلام بن صالح بن سلیمان ايّوب بن میسرہ ہوں۔ لوگ مجھے اباصلت ہروی کے نام سے پہچانتے ہیں ،میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ میں امام رضا علیہ السلام کا ہم وطن ہوں چونکہ میری پیدائش 160ھ قمری(1) کو  مدینہ منورہ(2) میں ہوئی ہے۔ البتہ چونکہ میرے اجداد خراسان کے ایک ہرات نامی دیہات کے رہنے والے تھے اسی لئے میں اباصلت ہروی سے مشہور ہو گیا۔(3)

میری زندگی کا سب سے بڑا عشق اہلبیت علیہم السلام اور پیغمبر اسلام ﷺکی احادیث وروایات کو جمع کرنا تھا اسی لئے میں نے اپنی تمام زندگی اور مال کو اسی کام میں خرچ کر دیا ،اکثر اوقات سفر میں رہا ،اس زمانے میں سفر کےخطروں اور مشقتوں کے باوجودشام،حجاز،یمن،عراق،کوفہ،بغداد، خراسان، نیشاپور اور ہرات وغر ہ کا سفر کیا اور عمر کے آخری حصہ میں نیشاپور کو وطن قرار دیا ۔(4)

--------------

(1):- دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج5،ص612.

(2):-  تاریخ بغداد،ج11، ص46-تہذیب التہذیب،ج6 ، ص319.

(3):- راویان امام رضا(ع)، ص 235- مزارات خراسان، ص48.

(4):- راویان امام رضا(ع)، ص 231، النجوم الزاہرة، فی ملوک المصر و القاہرة، ج2، ص287.

۷

میں نے نیشاپور کے کئی سفر کئے ہیں کہ جن میں سے ایک سفر  امام رضا(ع)کے ساتھ رہا ہے،نیز میں نے امام علیہ السلام کی عمرکے آخری لمحے تک آپکی خدمت گزاری کا شرف حاصل کیا ہے۔

اگر آپ یہ بھی جان لیں (تو کچھ برا نہ ہوگا)کہ میں امام کاغلام یا زر خریدہ نہیں تھا بلکہ میں نے اپنے لگاؤ سے آپکی خدمت گزاری اور نوکری کو قبول کیا اور خادم الرضاؑ کے نام سے مشہور اور لائق صد افتخار ہو گار۔(1)

میرے لئے ایک بات یہ بھی باعث فخر ہے کہ میں نے تنن عالی مقام اماموں(یعنی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام(2) ،امام رضا علیہ السلام اورامام محمدتقی علیہ السلام) کی خدمت میں حاضری دی ہے اور بطور مستقمی ان تینوں اماموں کے خزانہ علم ودانش اور تقویٰ سے استفادہ کیا ہے یہاں تک کہ میں نے امام حسن عسکریعلیہ السلام  کا زمانہ بھی دیکھا ہے۔(3)

چونکہ میں اہلبیت(ع)پانمبر اورانکے معارف وافکار سے دفاع کرنے کو اپنی سب سے بڑی ذمہ داری سمجھتا تھا اس لئے امام رضا (ع) کی اجازت سے اکثر اوقات مناظرات (خصوصاً مامون عباسی کے دربار میں ہونے والے مناظرات)میں شرکت کرتا تھااور خدا وند عالم کے لطف ومعارف اہلبیت(ع)کی برکت سے ہمیشہ کامیاب و سر بلند ہوتا تھا۔شہادت امام رضا (ع) اور مامون کی ہلاکت کے بعد میں نے  شہر طوس کو واپس ہوکر زندگی کے آخری ایام وہیں پر گزارے،2۳۲ھ قمری میں اس دار فانی کو الوداع کہا(4) اور مشہد مقدس کے نزدیک دفن کردیا گیا ،خدمت گزاری امام رضا (ع) کی برکت سے مرکا مقبرہ زیارتگاہ میں تبدیل ہو گار۔

اس گفتگو کے بعد اب مناسب یہ ہے کہ میں خادم امام رضا (ع) ہونے کے عنوان سے کچھ مطالب خود امام(ع) عزیز ومہربان کے بارے میں آپ لوگوں کے لئے باکن کروں ۔

--------------

(1):- مزارات خراسان، ص49.

(2):- راویان امام رضا (ع)، ص 232- مناقب آل ابی طالب، ج3 ، ص 438.

(3):- علامہ مجلسی اور شیخ حر عاملی کے نقل کے مطابق امام حسن عسکری(ع) کی ولادت ربیع الثانی 232ھ کو ہونی ہے.منتہی الآمال.

(4):- دائرہ المعارف بزرگ اسلامی ، ج5 ، ص 612.

۸

تمام زبانوں پر امام رضاعلیہ السلام کا تسلط

امام رضا علیہ السلام ہر شخص سے اسی کی زبان میں گفتگو کرتے تھے، خدا کی قسم جس زبان میں بھی آپ گفتگو کرتے تھے تمام اہل زبان سے فصیح تر بولتے تھے۔

ایک روز میں نے آپکی خدمت میں عرض کیا :

اے فرزند رسول ﷺمجھے تعجب ہے کہ زبانوں کے مختلف ہونے کے باوجود بھی آپ تمام زبانوں پر بے نظرے تسلط رکھتے ہںے!

امام(ع)نے مسکراتے ہوئے فرمایا:

اے ابا صلت میں اللہ کی تمام مخلوقات پر اسکی حجت ہوں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کسی کو لوگوں پر حجت قرار دے اور وہ لوگوں کی زبان کو نہ سمجھتا ہو(اور ان سے رابطہ نہ کر سکتا ہو)کیا تم نے حضرت امیرالمومنینؑ کا قول نہیں سنا؟کہ آپ نے فرمایا:فصل الخطاب ہمکو عطا کیا گیا ہے،کیا فصل الخطاب کا مطلب لوگوں کی زبانوں کو جاننے کے علاوہ کچھ اور ہے؟(1)

--------------

(1):- بحار الانوار، ج26 ، ص190 و ج49، ص 87 و ج39 ، ص 279- عیون اخبار الرضا، ص 228-مسند الامام الرضا ، ج1 ، ص 192- مناقب ابن شہر آشوب، ج4 ، ص 333- اثباة الہداة، ج3 ص 279- اعلام الوری ، ص 333.

۹

عالم آل محمد(ص)

در حققت  امام علیہ السلام کا زبانوں سے آگاہ ہونا آپکے علم پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کا علم عام انسانوں کی طرح معمولی نہیں ہے کہ جو دوسروں سے حاصل کیاجاتا ہے اوربہت محدود ہوتا ہے بلکہ امام کا علم ،علم لدنّی ہے،خدا کی جانب سے ہے اور لا محدود ہے۔میں نے اپنی تمام عمر میں امام رضا (ع) سے بزرگ کوئی عالم دین نہیں دیکھا بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ اس زمانے کے تمام علماءودانشمندان بھی میری طرح آپکی علمی برتری کے قائل تھے۔

مامون مختلف مذاہب کے علماءاور شریعت اسلام کے فقہا و متکلمین کواپنی مجلس میں جمع کرتا تھا تاکہ ان میں سے کو ئی ایک بھی امام رضا (ع) کو شکست دے سکے لیکن آخر کار آپ ان سب پر کاما ب ہو جاتے تھے یہاں تک کہ کوئی بھی ایسا نہ رہتا تھا جو امام کے سامنے اپنی عجزوناتوانی کا اعتراف نہ کرلے ۔میں نے خود امام ر ضا (ع)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : میں حرم اور مسجد نبویﷺ میں بیٹھتا تھا ،مدینہ میں بہت سے علماءموجود تھے جب بھی ان علماءمیں سے کوئی سوال کرنے والے کا جواب نہ دے پاتا تھا تو وہ سب  میری طرف اشارہ کر دیتے تھے (یعنی سوال کرنے والے کو میری طرف بھجی دیتے تھے )اور یہ لوگ بھی اپنے سوالات کو میرے سامنے رکھتے اور میں انکے جوابات دیتا تھا۔(1)

امام (ع)کے اس کام سے ( یعنی لوگوں کو اطمینان بخش جوابات دینے سے )مجھے امام موسیٰ بن جعفر(ع) کی ایک روایت یاد آتی ہے کہ آپ امام رضا(ع) کی طرف اشارہ کر کے اپنی اولاد سے فرماتے تھے کہ :یہ تمہارا بھائی علی  بن موسیٰ(ع) عالم آل محمد ہے اپنے دین کے بارے میں ان سے سوال کرو اور ان کے جوابات کو اچھی طرح یاد کر لو چونکہ میں نے بارہا اپنے پدر بزرگوار سے سنا ہے کہ آپ مجھ سے فرماتے تھے کہ عالم آل محمد(ع)تمہارے صلب میں ہے کاش کہ میں اسکو دیکھتا، وہ امیر المؤمنین کا ہمنام ہوگا۔(2)

--------------

(1):- کشف الغمة ، ج3 ، ص 107.

(2):-  بحار الانوار ، ج49 ، ص100- کشف الغمة ، ج2 ، ص 316- منتہی الآمال ، فصل 2 از باب 10.

۱۰

امام رضاعلیہ السلام کے لئے خلافت کی پیشکش

یقینا آپ کے ذہن میں یہ سوال ہوگا کہ:

 مامون کے امام رضا(ع) کو خلافت سپرد کرنے کا ماجرا کیا ہے؟ اور امام(ع) نے اسکو قبول کیوں نہیں فرمایا؟!

یہ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک دن مامون نے امام رضا (ع)سے کہا:

اے فرزند رسو لﷺ میں نے آپ کے فضل و عمل، زہدوپارسائی اور آپیف عبادت کو دیکھا ہے میں آپ کو خلافت کا خود سے زیادہ حقدارسمجھتا ہوں۔

امام رضا(ع)کہ جو اسکے باطن کو جانتے تھے آپ نے فرمایا:

 میں خدائے بزرگ کی عبادت اور بندگی پر فخر کرتا ہوں اور اپنے زہدکی بنا پرامیدوار ہوں کہ خدا وند دنیا کی برائیوں سے مجھ کو نجات دے اور حرام کامو ں سے دوری کے ذریعہ نعمت الٰہی کے حصول اور تواضع و انکساری سے عالمین کے پروردگار کی بارگاہ میں بزرگ مقام حاصل کرنے کا امیدوار ہوں۔

مامون نے ہوشمندی اور ریاکارانہ طور پر کہا:

میرا ارادہ یہ ہے کہ خود کو مقام خلافت سے ہٹا کر آپ کو اپنی جگہ پر منصوب کر دوں اور خود آپکی بیعت کر وں۔

امامؑ نے بہت ہی دلچسپ ،عاقلانہ وعالمانہ جواب دیا کہ:

اے مامون!اگر یہ خلافت ترنا حق ہے اور خدا نے لباس خلافت  تجھ کو پہنایا ہے تو پھر جائز نہیں ہے کہ ت. اس لباس کو اپنے تن سے اتار کر کسی دوسرے کو پہنا دے ۔اب چونکہ مامون کے پاس کوئی جواب نہ تھا اس لئے ناچار اس نے حاکمانہ انداز میں کہا :اے فرزند رسولﷺ  آپ کو یہ پیشکش قبول کرنا پڑیگی۔

امام رضا(ع)نے بے جھجھک جواب دیا:میں ہر گز اس کام کو رضایت اور خشنودی کے ساتھ انجام نہیں دونگا۔

۱۱

ولایت عہدی کی پیشکش

مختصر یہ ہے کہ مامون نے پیچھا نہ چھوڑا تقریباًدو مہینے تک اس پیشکش پر اصرار کرتا رہا لیکن جب کسی نتجہے تک نہ پہونچ سکا اور مکمل طور پر مایوس ہوگیا تو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اس نے ایک نئی پیشکش کی :

اگر آپ خلافت کی پیشکش کو قبول نہیں کرتے ہیں اور اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میں خلیفہ کے عنوان سے(آپکو خلیفہ مان کر) آپکی بعتگ کروں تو پھر آپ ولایت عہدی کی پیشکش کو قبول کر لیجئے تاکہ میرے بعد خلافت آپ کے ہاتھ میں رہے۔

امام رضا(ع)نے جوجواب دیااس سے بری طرح میرے دل میں درد ہونے لگا،آپ نے فرمایا:

خدا کی قسم میرے بابا نے اپنے اجدادامیرالمومنین(ع)اور رسول اکرم سے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں تجھ سے پہلے زہر دغا کے ذریعہ مظلومانہ طورپر اس دنا  سے چلا جاؤںگا ، آسمان وزمین کے فرشتے مجھ پر روئگےدن اور میں غریب الوطن ہارون رشدج کی قبر کے برابر میں دفن کردیاجاؤنگا !

مامون ریاکارانہ طور پر رونے لگا اور کہا:

اے فرزند رسولﷺ جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک کس میں ہمت ہے جو آپ کو قتل یا آپکی شان میں گستاخی کرسکے۔

چونکہ امام رضا علیہ السلاما س وقت یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ تو خود میرا قاتل ہے لہذا آپ نے اشارةً فرمایا:

جان لو کہ اگر میں چاہوں تو ابھی ابھی اپنے قاتل کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔

مامون نہیں چاہتا تھا کہ امام علیہ السلامسب کے سامنے اپنے قاتل کا نام بیان کریں اس لئے اس نے کہا:

فرزند رسول ﷺ آپ چاہتے ہیں کہ ان باتوں کے ذریعہ چھٹکارا پالیں اور اس مسؤلیت و ذمہ داری کے وزن سے بچے رہیں تا کہ لوگ کہیں کہ موسی بن جعفر علیہما السلام کا بیٹا (یعنی امام رضا علیہ االسلام) زاہد ہے ، دنیاوی مقامات کا طلبگار نہیں ہے۔

امام رضاعلیہ السلام نے مامو ن کے جواب میں فرمایا کہ:

۱۲

خدا کی قسم جب سے خدا نے مجھے پیدا کیا ہے اس دن سے آج تک میں نےدنیا کو حاصل کرنے کے لئے کبھی جھوٹ نہیں بولا ، میں جانتا ہوں کہ اس پیشکش سے تیرا کیا مقصد ہے۔

مامون: کیا مقصد ہے؟

امام:اگر میں حقیقت بیان کروں تو کیا مجھے امان ہے؟

مامون: البتہ آپ امان میں ہیں۔

تیرا مقصد یہ ہے کہ لوگ یہ کہیں کہ علی ابن موسیٰ (ع)دنیا میں زہد حقیقی نہیں رکھتے تھے بلکہ انہونے زہد اس لئے اختایر کیا تھاکہ دنیا انکے ہاتھوں نہیں لگ رہی تھی لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ موقع ملتے ہی انہوں نے خلافت کو حاصل کرنے کے لئے کس طرح ولایت عدقی کو قبول کر لیاہے۔یہ سنتے ہی مامون آگ بگولہ ہو گیا اب اسکے پاس آواز بلند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا لذ ا ا س نے بلند وآواز سے کہا:آپ ہمیشہ وہی کام انجام دیتے ہیں جو مجھے پسند نہیں ہے آپکو میرے غصہ کا کوئی خوف نہیں ہے۔خدا کی قسم اگر آپنے اپنی مرضی سے ولایت عد ی کو قبول کر لیا توٹھیک ہے ورنہ میں آپکو یہ عدنہ قبول کرنے پر مجبورکروں گااور اگر پھر بھی قبول نہیں کریں گے تو میں آپکا سر قلم کر دوںگا۔

امام رضاؑنے ناچارہوکر فرمایا:خداوندعالم نے مجھے اپنی جان کو اپنے ہاتھ سے ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا ہے لیکن اگرتومجھے اجازت دے کہ میں جو چاہوں کروں تو پھرمیں تیری پیشکش کو قبول کر سکتا ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ مں  فقط ترنا مشاوربن کررہوں گا،نہ امراءو حکام کے عزل ونصب مںھ دخل اندازی کروں گا،اور نہ ہی کسی قانون یا سنت کو ختم کروں گا ، یہاں تک کہ اپنا ارادہ اور فیصلہ سنانے سے بھی دوری اختیار کروں گا۔مامون نے سوچا کہ مجھے اپنے مقصد تک پہچنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے لہذا اس نے امام(ع) کے شرائط کو قبول کرلیا جب کہ امام(ع) اس بات سے راضی نہ تھے۔(1)

-------------

(1):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 120-امالی صدوق ، مجلس 16 ، عیون اخبار الرضا، ج2 ، ص 139- علل الشرایع ، باب 1733 ، ص 237.

۱۳

مامون نے امام رضا علیہ السلامکو کیوں شہید کیا؟

ممکن ہے اب آپ یہ سوال کریں کہ جب مامون نے اپنا مقصد حاصل کرلیا تھا تو پھر اس نے امام رضا(ع)کو کیوں شہید کیا؟ جب کہ سب لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ مامون امام رضا (ع)کا بہت احترام کرتا تھا اور آپ کو اپنا ولیعہد اور اپنے بعد اپنے خلیفہ کے نام سے پہچنواتا تھا یہاں تک کہ اس نے آپ کے نام کا سکہ بھی بنوایا تھا۔اتفاقاً احمد بن علی انصاری نے مجھ سے یہی سوال کرلیا ، میں نے اس کے جواب میں کہا کہ : مامون ،امام رضا علیہ السلام کا احترام اس لئے کرتا تھا کہ وہ اپنے مقابل میں امام (ع) کی فضیلت اور برتری کو جانتا تھا لیکن اس نے امام(ع) کو ولیعہد اس لئے بنایا تھا کہ لوگوں کو یہ دکھا دے کے امام(ع)دنیا سے وابستہ اور دل لگائے ہوئے ہیں تا کہ امام (ع)کے بارے میں ان کے خیالات برے ہو جائیں اور لوگوں کے نزدیک امام (ع)کا مقام اور معنوی مقبولیت کم ہوجائے۔لیکن جب مامون اس طریقہ سے کامیاب نہ ہوا تو اس نے اپنے پلید ، گندے مقاصد تک پہونچ نے کے لئے ایک دوسرا طریقہ استعمال کیا اور وہ یہ کہ اسلام کے علماءاور متکلمین (کہ جن کے نظریات آپس میں مختلف تھے) یہاں تک کہ یہود ، مسیحیت ، زرتشتی، صائبین ، براہمہ،ملحدین اور دہریوں کے علماءکو امام رضا (ع)سے علمی بحث و مناظرہ کرنے کے لئے طلب کیا لیکن امام رضا(ع) نے ان سب کو مغلوب کردیا۔جب لوگوں نے امام رضا علیہ السلام کی اس برتری کو دیکھا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ ”خلافت واقعاً امام رضا(ع)کا حق ہے اور مامون کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے “۔ ہر روز جب مامون کے جاسوس امام رضاعلیہ السلام کی مقبولیت کے خبریں اس کو سنا تے تھے تو اس کے حسد اور کینہ میں اضافہ ہو جاتا تھا۔مامون کے حسد اور کینہ کی زیادتی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ امام رضاعلیہ السلام،مامون کے مقابل میں حق بولنے اور اظہار حقیقت کرنے میں کسی طرح کا خوف نہ کھاتے تھیں۔ مامون اپنی ہوشمندی اور شیطنت سے حسد کی رگ کو چھپائے رکھتا تھا لیکن جب اس نے یہ سمجھ لیا کہ اب کسی طرح بھی امام (ع) کو لوگوں کی نظر میں بے اعتبار نہیں کیا جا سکتا تو اس نے آپ کو ہلاک کنندہ زہر دے کر شہید کردیا۔(1)

--------------

(1):- عیون اخبار الرضا، ج2 ، ص 239- منتہی الآمال  فصل 5 از باب 10.

۱۴

اخبار شہادت امام و ثواب زائرین امام رضاعلیہ السلام

آپ کو معلوم ہوگا کہ امام علیہ السلام ، علم امامت اور اذن خدا کے ذریعہ ہر چیز کو جانتا ہے اور گذشتہ اور آئندہ اس کے لئے برابر ہے ، میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے اپنی شہادت سے مدتوں پہلے فرمایا تھا : میں بہت جلد مظلومانہ ، زہر سے قتل کردیا جاؤ¶نگا اورہارون کے برابر میں دفن کیا جاؤ¶نگا ، خداوند عالم میرے مرقد کو میرے شیعوں اور اہلبیت (ع) کے آمد و رفت کا مرکز قرار دے گا! پس خدا کی قسم جو شخص بھی میری غربت میں میری زیارت کریگا اسکی زیارت روز قیامت مجھ پر واجب ہے ، اس خدا کی قسم جس نے محمد ﷺکو نبوت کے لئے چنا اور تمام مخلوقات میں ہم کو منتخب کیا تم میں سے جو شخص بھی میری قبر پر دو رکعت نماز پڑھے گا وہ خداوند عالم کی جانب سے بخشش و مغفرت کا حقدار ہوگا۔

اس خدا کی قسم جس نے محمد ﷺ(کہ ان پر اور ان کے آل پردرود ہو)کے بعد ہم کو منصب امامت کے ذریعہ بزرگی عطا کی اور پیغمبر کی وصایت کو ہم سے مخصوص کردیا ، قیامت کے دن خداوند عالم کے سامنے حاضر ہونے والوںمیں سے سب سے بزرگ وہ لوگ ہونگے جو میری قبر کے زیارت کریں گے اور کوئی مومن ایسا نہ ہوگا کہ جو میری قبر کی زیارت کرے اور

 اس کے چہرہ پر آنسو کا کوئی قطرہ گر جائے مگر یہ کہ خداوند اس پر آتش جہنم کو حرام کردے۔

اسی طریقہ سے ایک روز میں خدمت امام رضا علیہ السلام میں بیٹھا تھا کہ ایک گروہ وارد ہوا اور اس نے آپ کو سلام کیا ،

۱۵

امام(ع) نے ان کے سلام کا جواب دیا اور انھیں اپنے پاس بیٹھاکر فرمایا: ”مرحبا ، خوش آمدید ہمارے حقیقی شیعہ تم ہو ، ایک روز وہ آئیے گا کہ تم طوس میں میری قبرپر میری زیارت کرو گے، جان لو کہ جو بھی غسل کر کے میری زیارت کرے گا وہ گناہوں سے اس طرح خارج ہو جائے گا جس طرح اپنی پیدائش کے دن گناہوں سے پاک تھا“۔(1)

ایک حدیث اور اسی حوالے سے آپ کے سامنے بیان کررہا ہوں جو میں نے اپنے کانوں سے سنی ہے ، امام رضا (ع)نے فرمایا:”خدا کی قسم ہم میں سے کوئی بھی امام ایسا نہیں ہے جس کو قتل نہ کیا جائے “۔

     حاضرین میں سے ایک نے تعجب سے پوچھا: اے فرزند رسولﷺ کون آپ کو قتل کریگا ؟!

امام(ع) اپنے قاتل کا نام سب کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا آپ نے اپنے قاتل کے باطن سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا:”میرے زمانہ کا سب سے بدترین انسان مجھے قتل کریگا اور ایک تنگ جگہ، سرزمین غربت میں مجھ کو دفن کردیاجائے گا“جان لو کہ جو بھی میری غربت میں میری زیارت کریگا خداوند عالم اس کو ایک ہزار صدیق ، ایک ہزار شہید ، سو ہزار حاجی اور عمرہ کرنے والوں اور سوہزار مجاہدوں کا ثواب عطا کریگا،اس کا حساب ہمارے ساتھ ہوگا اور وہ جنت میں بلند درجات پر ہمارا دوست اور ہمنشنین قرارپائےگا۔(2)

--------------

(1):- اثباة الہداة،ج3 ، ص 283.

(2):-  بحار الانوار ، ج49 ، ص 383- روضة المتقین ، ج5 ، ص 399  امالی شیخ صدوق ص 61  من لا یحضرہ الفقیہ ، ج2 ، ص 351- عیون اخبار الرضا ، ج2 ، ص 630- اثباة الہداة ج3 ، ص 254.

۱۶

دوسری فصل:

خاطرات ابا صلت

سو دینار کا معمہ!

میں دعبل ہوں(1) ، دعبل خزاعی ، امام رضا (ع)کے زمانے کامشہور شاعر ، وہی شاعر کہ جس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ حریم امامت و ولایت اور خاندان پیغمبر کے دفاع کے لئے ایک لکڑی کو اپنے کاندھے پر اٹھائے پھرتاتھا۔

عشق امام رضا علیہ السلامنے مجھ کو آوارہ بنادیا تھا اور میرے کام صرف جنگلوں میں تلاش امام کے لئے گھومنا تھا ، یہاںتک کہ مجھ کو یہ توفیق حاصل ہوگئی کہ میں نے شہر ”مرو“ میں امام کے مبارک ہاتھوں کو چوم لیا ، یہ بات کوئی نہیں جانتا ہے کہ جب میں امام کی خدمت میں پہونچا تو کس حال میں تھا ، میں نے عرض کیا :

اے فرزند رسول ﷺ، میں نے ایک قصیدہ آپ اور آپکے خاندان کی مظلومیت میں کہا ہے اور قسم کھائی ہے کہ آپ سے پہلے وہ قصیدہ کسی کو نہیں سناؤں گا۔(2) آقانے  اجازت دی اور میں نے قصیدہ پڑھنا شروع کیا ، قصیدہ بہت مفصل ہے ، اس مختصر سی کتاب میں اس کو مکمل بیان نہیں کیا جا سکتا فقط اس کے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں پیش ہیں:

مَدارِسُ آیاتٍ خَلَت مِن تَلاوَةٍ

وَمَنزِلُ وَحیٍ مُقَفَّرُ العَرَصاتِ

وہ گھرانے جہاں وحی اور قرآن کا نزول ہوتا تھا خراب اور جنگل کی طرح لاوارث ہوگئے ہیں اور اس کے مقابل میں وہ گھر آباد ہوگئے ہیں کہ جن سے شراب پینے والوں کے ناچ، گانے کی آواز یں آتی ہیں۔

--------------

(1)؛- اس واقعہ کے راوی اباصلت ہیں لیکن ہم نے یہاں اس واقعہ کو خود دعبل کی زبانی بیان کیا ہے۔

(2):- آیت قصیدہ اور دعبل کے تمام اشعار آپ (عیون اخبار الرضا(ع)- اعیان الشیعةج31- دیوان دعبل، چاپ نجف ، عبدالصاحب دجیلی خزرجی اور مناقب ابن شہر آشوب ) میں دیکھ سکتے ہیں۔

۱۷

اَری فَیئَهُم فی غَیرِهم مُتَقَسِّماً

وَ اَیدیهِم مِن فَیئهِم صَفَراتِ

میں دیکھ رہا ہوں کے انکا مال دوسروں کے درمیان تقسیم ہو گیا ہے اور ان کے ہاتھ خالی ہوگئے ہیں۔

جب میں قصیدہ پڑھتے ہوئے اس مقام پر پہونچا تو امام(ع) کے آنکھوں سے آنسو بنےص لگے اور آپ نے فرمایا:”ہاں دعبل تم ٹھیک کہہ رہے ہو !“

جب میرے اشعار تمام ہوگئے تو امام (ع)اپنے جگہ سے اٹھے اور صحن سے حجرہ کی طرف روانہ ہوئے میں بھی اٹھا تا کہ واپس پلٹ جاؤ¶ں اور امام (ع)کو زیادہ زحمت نہ دوں ، لیکن امام (ع)نے فرمایا:”دعبل ذرا ٹھہرو مجھے تم سے کچھ کام ہے“۔

ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ امام (ع) کا ایک غلام سونے کی تھیلی لے کر آیا اور اس کو میرے ہاتھوں میں رکھ دیا ، میں نے پوچھا :یہ کیا ہے ؟ خادم نے کہا : یہ سونے کے سو رضوی(1) دینار ہیں ، یہ تمھارے قصیدہ کا صلہ ہے ، آقا نے اس کو تمھارے لئے بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ ان پیسوں کو اپنے مخارج میں خرچ کرلینا ۔

اس وقت میں بالکل غافل ہو گیاتھا ، میں نے مِن مِن کرتے ہوئے کہا : خدا کی قسم میں پیسوں کے لئے نہیں آیا تھا اور میں نے یہ قصیدہ لالچ میں نہیں کہا ہے،یہ کہتے ہوئے میں نے سونے کے سکوں کی تھیلی واپس کردی ، اور اس کی جگہ کسی ایسی چیز کی درخواست کی کہ جو معنوی اہمیت رکھتی ہو اور کہا :

آقا سے کہئے کہ اگر ممکن ہو تو ان سو دینار کے بدلے ایک ایسا لباس جو آپ نے پہنا ہو مجھ کو عطا فرمادیں تا کہ میں اس سے برکت حاصل کرسکوں۔

--------------

(1):- وہ دینار کہ جو ولایت عہدی کے عنوان سے امام رضا(ع) کے نام سے بنوائے گئے تھے.

۱۸

خادم کو گئے کچھ دیر نہ ہوئی تھی کہ وہ ایک ہاتھ میں امام کا سبز رنگ کا جبہ اور دوسرے ہاتھ میں سونے کے سکوں کی تھیلی لئے ہوئے واپس پلٹا اور کہا:

آقا نے یہ لباس تمھارے لئے بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ پیسوں کی یہ تھیلی بھی تم رکھ لو کہ تم کو اس کی ضرورت پیش آئے گی۔

چار و ناچار میں نے پیسوں کو قبول کرلیا اور ایک قافلے کہ ساتھ ”مرو“ سے خارج ہوا ۔ آپکی آنکھیں کو ئی برا وقت نہ دیکھیں ، جب ہم ”قوہان“(1) پہونچے تو مسلح راہزنوں نے ہمارے قافلے پرحملہ کیا اور تمام مال، گھوڑے ، امام(ع) کا جبّہ اور وہ سو دینار سب کچھ زبردستی ہم سے چھین لیا اور ہمار ے ہاتھ پیر باندھ کر ہم کو زمین پر ڈال دیا۔

ہماری حالت بری تھی چونکہ ایک طرف تو ڈر ، خوف اور دہشت تھی اور دوسری طرف وہ ہمارا سب کچھ لوٹ چکے تھے اب ہم کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ ہم کو زندہ چھوڑیں گے یا نہیں؟

ایک غارتگر چور جو میرے گھوڑے پر سوار تھا مال کثیر حاصل کرنے کی بنا پر بہت خوش و خرم اور مست تھا، وہ مال جمع کرتے کرتے آہستہ آہستہ کچھ شعر پڑھ رہا تھا، اسکے اشعار میرے کانوں کو کچھ سنے سنائے معلوم ہوئے، میں نے کان لگائے تو سنا کہ وہ یہ بیت پڑھ رہا تھا:

اَری فَیئَهُم فی غَیرِهم مُتُقَسِّماً

وَ اَیدیهِم مِن فَیئهِم صَفَراتِ

     میں دیکھ رہاہوں کہ ان بے سہارا لوگوں کا مال غیروں میں تقسیم ہو رہا ہے اور ان کے ہاتھ ان کے اموال سے خالی ہوگئے۔

--------------

(1):- قوہان ہرات اور نیشابور کے در میان ایک شہر کا نام ہے.

۱۹

یہ بات میرے لئے بہت دلچسپ تھی کہ جس چور نے میرا سامان (مال) لوٹا ہے وہ مجھ کو پہچانے بغیر میرے اشعار ، میرے ہی سامنے میرے حالات کی زبانی، مستی کے ساتھ پڑھ رہا ہے وہی اشعار جو کچھ دن پہلے ، پہلی بار میں نے امام رضا علیہ السلامکی خدمت میں پڑھے تھے ، اور اب وہ اشعار اسی سرزمین پر میرے ہاتھوں سے دور ہوگئے تھے ۔ میں نے چور کی طرف رخ کر کے کہا :

معلوم ہوتا ہے کہ تم شاعری کا شوق بھی رکھتے ہو !

چور : ہاں، ہم تو ایسے ہی ہیں ، شاعروں کی لطافت بھی رکھتے ہیں اور غارت گروں کی دہشت بھی۔

دعبل: جب تم ان اشعار کو اتنا دوست رکھتے ہو تو بتاؤ ان اشعار کا شاعر کون ہے کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟

چور: یقینا میں اس کو پہچانتا ہوں ، وہ قبیلہ خزاعہ کا ایک آدمی ہے اس کا نام دعبل ہے اور اس نے یہ اشعار امام رضاعلیہ السلامکے شإن میں کہے ہیں، ٹھیک ہے کہ ہم چور ہیں لیکن کچھ بھی ہو امام رضاعلیہ السلامکو دوست رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ہارون اور مامون جیسے غاصب و ستمگر سے بالکل جدا ہے وہ فرشتوں سے بھی زیادہ پاک اور دوستی کے لائق ہیں!

دعبل : میں نے سوچا کہ یہی وقت ہے کہ میں اپنی پہچان بتا دوں لہذا میں نے کہا تم کہتے ہو کہ دعبل کو پہچانتے ہو اگر اس کو اس مجمع میں دیکھو گے تو کیا پہچان لو گے؟

چور: میں اس کو نام سے پہچانتا ہوں چہرہ سے نہیں ۔

دعبل: کیا مجھے پہچانتے ہو؟

چور: میں تم کو کیسے پہچانوں، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ تم ،چوروں کے لئے چربی کا ایک لقمہ ہو۔

دعبل: میں دعبل خزاعی ہوں ، وہی دعبل کہ جس نے امام رضا (ع)کی شان میں یہ اشعار کہے ہیں۔

۲۰