امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت28%

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت مؤلف:
زمرہ جات: امام رضا(علیہ السلام)
صفحے: 131

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 131 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57472 / ڈاؤنلوڈ: 4944
سائز سائز سائز
امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

پہلی جہت کی وضاحت

ان روایات میں  سے اکثر روایات کے سلسلہ سند میں ''احمد بن محمد سیاری'' ہے جن کے بارے میں علم رجال کے ماہرین کی تعبیر میں '' فاسد المذہب'' او''ر ضعیف الحدیث'' اور نجاشی ( 1 ) نے اس کو غالی ہونے سے متہم کیا ہے جبکہ ابن غضائری نے اس کوگمراہ اور ہلاک کرنے والا قرار دیا ہے ( 2 ) اس سلسلہ سند میں  جتنے افراد ہیں    ان میں  سے دوسرا شخص یونس بن ظبیان ہے ان کے بارے میں  کہا گیا ہے کہ وہ ضعیف ہے اور ان کی کتابیں  غلطیوں  سے بھری ہوئی ہیں  اور ابن غضائری نے اس کو کذاب ،غالی اور جعلی حدیثیں  گھڑنے والا قرار دیا ہے ۔ ( 3 ) اسی طرح سلسلہ سند میں تیسرا جو شخص '' علی ابن احمد کوفی ''ہے ،اس کو علم رجال کے محققین اور مؤلفین نے ضعیف اور فاسد الرّوایۃ یہاں  تک کہ غالی اور گمراہ سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 4 )

لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر جو لوگ ان روایات کے قائل ہیں  وہ قابل اعتماد افراد نہیں 

...................................

1۔رجال نجاشی ص 58

2۔قاموس الرجال ج1 ص403

3۔خلاصۃ الرجال ص266

4۔دراسات فی الحدیث والمحدثین ص198

۶۱

ہیں  ۔پس ان روایات پر اعتماد نہیں  کیا جاسکتا ہے ۔نیز جن کتابوں میں  ان روایات

کو جمع کیا گیا ہے وہ معتبر کتابیں نہیں  ہیں  ؛

الف:مثال کے طور پر بعض روایات سعد بن عبد اللہ اشعری سے منسوب کتاب سے لی گئی ہیں  ،اور اس کتاب کی جناب نعمانی اور سید مرتضیٰ کی طرف نسبت دی گئی ہے لہٰذا اس بنا پرکتاب کامؤلف و مصنف معلوم نہیں  ،نیزعلم رجال میں سے کسی نے اس کو معتبر شمار نہیں  کیا ہے۔

ب:اسی طرح بعض روایات کو سُلَیم بن قیس ہلالی کی کتاب سے نقل کیا گیا ہے جن کے بارے میں مرحوم شیخ مفید نے فرمایا:''ان کی کتاب میں سے کوئی بات نہیں  ہے کہ اسے موثق قرار دیا جائے اور اس پر عمل کرنا بہت سارے موارد میں جائز نہیں    ہے اور اس کتاب کے اندر غلطیوں  اورفریب کے مواد بھرے ہوئے ہیں    پس جو لوگ پرہیز گار و متدین ہیں    وہ اس پر عمل کرنے سے اجتناب کریں '' ( 1 )

ج:تیسری کتاب ،کتاب التنزیل و التحریف یا کتاب قرائت ہے کہ جس کا مؤلف احمد بن محمد سیّاری ہے اور پہلے بیان ہوا کہ علم رجال کے ماہرین نے اس شخص کو ضعیف قرار دیا ہے ۔

د:ان روایات میں سے بعض کو تفسیر ابی الجارود سے نقل کیا گیا ہے اور یہ ایسا شخص ہے

................................

1۔تصحیح الاعتقاد ص72

۶۲

جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف سے لعنت کا مستحق ہوا ہے ،اس کے علاوہ اس

تفسیر کے سلسلہ سند میں ''کثیر بن عیاش ''ہے جو خود ضعیف ہے ۔

ھ:ان کتابوں میں سے ایک علی ابن ابراہیم قمی کی تفسیر ہے ۔یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جو ان کے شاگردابوالفضل العباس بن محمد علوی کو املاء لکھوایا تھا اور اسی طرح تفسیر ابی الجارود کے ساتھ مخلوظ ہے ۔

و:ان روایات کے مدارک میں سے ایک مدرک کتاب استغاثہ ہے جو'' علی ابن احمدالکوفی ''کی ہے ،ابن غضائری نے'' علی احمد الکوفی ''کو کذاب ،جھوٹا اور غالی ہونے سے متہم کیا ہے ۔

ز:ان روایات میں سے بعض کو'' احتجاج طبرسی ''سے نقل کیا گیا ہے اس کتاب میں موجوداکثرروایتیں  مرسلہ ہیں  اور ایک کتاب روائی کے عنوان سے اس سے

استدلال نہیں  کیا جا سکتا۔

ح:ان روایات میں سے اکثر کافی میں موجود ہیں  ،لیکن صرف کسی کتاب میں کسی روایت کے ہونے کا معنیٰ یہ نہیں  ہے کہ اس کی صحت اور جواز عمل ثابت ہوجائے لہٰذا بعض علماء نے فرمایا :16199 ،احادیث اصول کافی میں  موجود ہیں  لیکن ان میں  سے صرف 5172 احادیث صحیح السند ،144،احادیث کو حَسنہ ،2128 ،احادیث معتبر اور 302،احادیث کو قوی قرار دیا ہے جبکہ 7480،احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے

۶۳

روایات کا صرف اصول کافی میں  ہونا دلیل نہیں  ہے کہ ان تمام پر عمل بھی جائز ہو۔ ( 1 )

دوسری جہت کی وضاحت

یہ روایات دلالت کے اعتبار سے ایک نہیں  ہے ،بلکہ کئی دستوں پر تقسیم

ہوتی ہیں  ۔

پہلا دستہ :بعض روایات ،تحریف معنوی سے مربوط ہیں  جو کہ محل نزاع سے خارج

ہیں    ۔

دوسرا دستہ:روایات اس طرح کی ہیں  کہ وہ قرآن کی قرائت مختلف ہونے پر دلالت کرتی ہیں  ،جو ہماری بحث سے خارج ہےں ۔

تیسرا دستہ :کسی آیت کریمہ کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں  جس سے بعض محققین نے یہ خیال کیا ہے کہ روایت کا مضمون ہی قرآن کی آیت تھی ،جیسے وہ روایت جو مرحوم کلینی ؒنے اپنی سند کے ساتھ موسی بن جعفر علیہما السلام سے اس روایت کے بارے میں کہ:

................................

1۔دراسات الحدیث و المحدثین ص137

۶۴

''أولٰئک الذین یعلم الله ما فی قلوبهم فاعرض عنهم وعظهم و مثل لهم فی انفسهم قولاً بلیغاً'' انّه علیه السلام تلاهذه الایة الیٰ قوله :''فاعرض عنهم ''و أضاف:'' فقد سبقت علیهم کلمة الشفاء و سبق لهم العذاب '' و تلابقیة الایة ۔ ( 1 ) یعنی امام علیہ السلام نے آیت ''فاعرض عنھم '' تک کی تلاوت فرمائی ،پھر آپ نے اضافہ کیا ،شقا اور عذاب کی بات ک وپہلے ذکر کیا گیا تھا ،پھر آیت کے دوسرے جملے کی تلاوت فرمائی ۔جس سے بعض محققین جیسے محدث نوری وغیرہ نے فرمایا کہ اس حدیث کی ظاہر ی ہم آہنگی اور سیاق یہ بتاتا ہے کہ یہ آیت کی تفسیر نہیں  ہے بلکہ موجودہ آیت پر ایک اضافہئ جملہ ہے جو آیت کا حصہ تھا۔ ( 2 )

لیکن مرحوم علامہ مجلسی اور دیگر مفسرین نے صاف صاف بتایا ہے کہ یہ آیت کی تفسیر ہے ۔

چوتھا دستہ:روایات اس طرح کی ہیں    کہ وہ دلالت کرتی ہیں  کہ کچھ آیات میں  حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارک تھے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی روایات کی توضیح اور تاویل کرتی ہیں  نہ یہ کہ حضرت علی اور دیگر ائمہ (ع) کے اسماء مبارکہ آیت کا جزء اور حصہ ہونے پر دلالت کریں ۔

پانچواں دستہ :یہ وہ روایات ہیں  جو قرآن کریم میں قریش کے لوگوں میں سے چند

...............................

1۔روضہ کافی 8/184

2۔فصل الخطاب ص 275

۶۵

کے نام موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں    ۔تحریف کرنے والوں نے اس کو ہٹایا اور صرف ابو لہب کا نام باقی رکھا ہے ۔

لیکن ان روایات پر دو اعتراض ہیں  ۔

پہلا اعتراض :یہ ہے کہ ایسا مطلب بیان کرنے والی روایات خود آپس میں تناقض اور تضاد رکھتی ہیں  کیونکہ چند روایات میں سات لوگوں  کے نام حذف ہونے کا ذکر ہے اور چند میں  ستر لوگوں کے نام مٹانے کا ذکر ہے۔

دوسرا اعتراض :یہ ہے کہ اگر غور سے دیکھیں  تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی روایات کے مضامین ہی ان کے جھوٹ ہونے پر بہترین دلیل ہیں  ،کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ قریش کے دوسرے ناموں کو حذف کر کے صرف ابی لہب کے نام کو باقی رکھیں ؟

چھٹا دستہ :روایات اس طرح کی ہیں    کہ جو دلالت کرتی ہیں  کہ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد الفاظ میں تبدیلی لائی گئی ہے یا کچھ الفاظ کو جا بجا کیا گیا ہے ،یعنی ایسی احادیث قرآن میں تحریف ہونے پر دلالت کرتی ہیں    ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی احادیث اجماع کے خلاف ہیں  کیونکہ سارے مسلمانوں کا اجماع ہے کہ قرآن میں  ایک لفظ بھی زیادہ یا کم نہیں    ہوا ہے۔

ساتواں دستہ:احادیث حضرت حجت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی شان میں  وارد ہوئی ہیں  وہ روایات حضرت حجت کے ظہور کے بعد وہ قرآن جو حضرت علی علیہ السلام سے منسوب ہے آپ کے پاس محفوظ ہے ،لوگوں کو اس پر عمل کرنے پر مجبور

کریں  گے پر دلالت کرتی ہیں  ۔

۶۶

اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ایسی روایات حضرت علی علیہ السلام کے مصحف اور موجودہ مصحف میں  فرق ہونے پر دلالت کرتی ہیں  لیکن حقیقت میں متن قرآن میں اختلاف ہونے کو بیان نہیں  کرتیں  بلکہ از نظر نظم و ضبط اور بعض آیات کی تفسیر و توضیح میں اختلاف ہونے پر دلالت کرتی ہیں  ۔

آٹھواں دستہ :بعض احادیث قرآن میں  کمی ہونے پر دلالت کرتی ہیں  ،ایسی روایات اور احادیث کی خود تین قسمیں  ہیں  :

1۔بعض روایات اور احادیث دلالت کرتی ہیں  کہ قرآنی آیات کی تعداد موجودہ تعداد سے کئی گنازیادہ تھی ۔

2۔کچھ روایات بیان کرتی ہیں    کہ بعض سوروں کی آیات کی تعداد واقعی تعداد سے کم ہے ۔

3۔بعض احادیث بیان کرتی ہیں    کہ کوئی ایک لفظ کسی آیت سے یا کوئی ایک آیت قرآن سے کم ہوئی ہے ۔اس کے کئی جوابات ہیں    ـ:

پہلا جواب یہ ہے کہ ان احادیث میں سے کچھ احادیث ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارکہ کے حذف اور مٹا دینے پر دلالت کرتی ہیں  اور چنانچہ پہلے بھی بیان ہوا وہ آیت کے جزء ہونے کو بیان نہیں  کرتی ہیں    انہیں  تاویل و تفسیر پر محمول کرنا چاہئیے یا مصداق آیہ پر محمول کیا جائے۔

والحمد لله رب العالمین

۶۷

منابع کتاب

1۔القرآن الکریم

2۔کتاب کشّاف

3۔مفردات راغب

4۔تفسیر کبیر

5۔البیان

6۔اصول کافی

7۔عوالی اللاالی

8۔آلاء الرحمن بلاغی

9۔مجمع البیان

10۔تفسیر تبیان

11۔سعد السعود

12۔تفسیر صافی

13۔اظہار الحق

14۔کشف الغطائ

15۔بحار الانوار

۶۸

16۔صیانۃ القرآن عن التحریف

17۔فصل الخطاب

18۔اکذوبۃ تحریف القرآن

19۔مدخل التفسیر

20۔گفتار آسان در نفی تحریف قرآن

21۔سنن دارمی

22۔الاحکام فی اصول الاحکام

23۔مسند احمد ابن حنبل

24۔محلی ابن حزم

25۔الاحکام آمدی

26۔فتح المنان

27۔ چہرہ ہای درخشان

28۔اہل بیت

29۔رجال نجاشی

30۔قاموس الرجال

31۔خلاصۃ الرجال

32۔دراسات فی الحدیث والمحدثین

۶۹

33۔تصحیح الاعتقاد

34۔روضہ کافی

۷۰

فہرست

حرف آغاز 3

پہلا مطلب 6

لفظ تحریف کی تحقیق 6

دوسرا مطلب 9

تحریف کی قسمیں  اور ان کے استعمال کے موارد 9

تحریف کے دوسراے معنیٰ 10

تحریف کے تیسرے معنی 11

چوتھے معنی 12

پانچویں  معنی 12

چھٹے معنی 13

۷۱

نتیجہ 13

پہلا اعتراض 14

دوسرا عتراض 14

تیسرا مطلب 16

اجمالی اور تفصیلی تحریف 16

چوتھا مطلب 18

تحریف کے قائل ہونے کے لئے خبر واحد کافی نہیں   ہے 18

پانچواں مطلب 19

قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر علماء شیعہ کا نظریہ 19

چھٹا مطلب 27

قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتب میں  فرق 27

۷۲

ساتواں  مطلب 29

قرآن کے مراحل اور درجات 29

آٹھواں  مطلب 32

عقل کی رو سے تحریف کا امکان اورعملی طور پر واقع نہ ہونا 32

نواں  مطلب 32

کیا قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر قرآن سے دلیل لانے سے دور لازم آتا ہے ؟ 32

پہلا جواب : 33

دوسرا جواب 34

تیسرا جواب : 35

چوتھا جواب: 36

پانچواں  جواب 37

۷۳

دسواں  مطلب 38

تحریف کے بارے میں  دو دعوے 38

گیارہواں  مطلب 39

تحریف نہ ہونے پر عقلی اور عقلائی دلیل کا تجزیہ 39

دلیل عقلی کی وضاحت 39

دوسری صورت 42

تیسری صورت 43

دلیل عقلی کا دوسرا بیان 43

سیرت اوربناء عقلاء : 44

بارہواں  مطلب 45

تحریف کے نہ ہونے پر واضح ترین آیت شریفہ 45

۷۴

اشکالات 48

تیرہواں مطلب 50

کیا تحریف کے قائل ہونے سے ظواہر کتاب کا حجیت سے ساقط ہونا لازم آتا ہے ؟ 50

چودہواں  مطلب 51

تحریف نہ ہونے پر حدیث ثقلین کی دلالت 51

پہلا طریقہ 52

دوسرا طریقہ 53

پندرہواں  مطلب 54

تلاوت کا مٹ جانا اور باطل قرار پانا 54

سولہواں  مطلب 58

شیعہ امامیہ تحریف قرآن کے قائل نہیں  ہوسکتے 58

۷۵

سترہواں مطلب 60

تحریف کی روایات کا اجمالی جائزہ 60

پہلی جہت کی وضاحت 61

دوسری جہت کی وضاحت 64

منابع کتاب 68

۷۶

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

امام رضاعلیہ السلام کیا کر رہے ہیں؟

مجبوراً  میں نے بھی (جیسے کہ میں مامون کو صاحب عزا اور مصیبت زدا سمجھ رہا تھا)مامون کو ان الفاظ میں تسلی دی:  عظم اللہ اجرک

مامون یہ غمگین خبر سنتے ہی اپنے گھوڑے سے نیچے اتر گیا ،گریبان کوچاک کر لیا، سر پر مٹی ڈالی اور بہت دیر تک بلند آواز سے روتا رہا، پھر اپنے دربار یوں کو حکم دیا: امام رضاعلیہ السلامکے جنازہ کو اچھی طرح تجہیز و تکفین کرو!

میں نے کہا: یہ کام پہلے ہی ہوچکا ہے۔

مامون کو کسی بھی ضرورت میں یہ امید نہ تھی کہ وہ یہ الفاظ،سنے گا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی یہ جرات بھی کرسکتا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے ولیعہد کو غسل و حنوط و کفن دے سکتا ہے اور اس کی نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے، لہذا اس نے غصے کے ساتھ اعراض کیا:

یہ کام کس نے انجام دیا ہے؟!

میں نے مِن مِن کرتے ہوئے جواب دیا:

ایک لڑکا آیا تھا اس نے آپ کی تجہیز و تکفین کی یقینی طور پر میں اس کو نہیں جانتا لیکن میرا خیال ہے کہ وہ امام رضاعلیہ السلامکے بیٹے ہونگے۔(۱)

جب میں نے یہ جملہ کہا تو میری جان ہونٹوں پر آگئی مجھے امید تھی کہ اس جملے کا ردّ عمل مامون کی طرف سے بہت سخت ہوگا لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا پھر مامون نے کوئی اعتراض نہ کیا فقط اتنا کہا کہ:

امام رضاعلیہ السلام کے لئے اس گنبد میں ایک قبر بنائیے جس میں میرا باپ دفن ہے۔میں پھر بولا اور کہا کہ: امام رضا علیہ السلام کی یہ خواہش تھی کہ آپ ان کے مراسم تدفین میں شروع سے آخر تک شریک رہیں۔

--------------

(۱):-  امام جواد علیہ السلام کو ابن الرضا (یعنی فرزند امام رضاعلیہ السلام) کہا جاتا ہے.

۱۰۱

مامون نے جواب دیا: ٹھیک ہے انشااللہ میں شرکت کرونگا ۔

جس گنبد میں مامون دفن تھا اس کے نیچے ایک کرسی بچھائی گئی اور مامون اس پر بیٹھ گیا ۔ سب لوگ کھڑے ہوئے تھے ، کچھ مضبوط و ماہر قبر کھودنے والے ہاتھ میں کدالیں لئے ہوئے مامون کے حکم کے منتظر کھڑے ہوئے تھے کہ مامون نے اپنے باپ کی قبر کے پیروں کی زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس جگہ کو کھو دو!

وہ یہ چاہتا تھا کہ امام رضا علیہ السلام کو اپنے باپ کے پیروں کی طرف دفن کرکے آپ کی بے احترامی کرے اور لوگوں کی نظروں میں اپنے باپ کے مقام کو امام کے مقام سے بڑھادے۔

قبر کھودنے والوں نے زمین کو کھودنا شروع کیا لیکن بہت جلد ایک ایسے پتھر سے ٹکراگئے کہ جس کو کاٹنانا ممکن تھا، مجبور ہو کر انھوں نے کہا:

اگراس شہر کی تمام کدالیں لائی جائیں تب بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا:

مجبوراً مامون نے اپنے نظریہ کو بدل دیا اور اپنے باپ کی قبر کے بائیں جانب کو کھودنے کے لئے کہا جب وہاں کوئی  مثبت نتیجہ نہ نکلا تو داہنی جانب قبر کھودنے کا حکم دیا لیکن یہاں پر بھی بائیں جانب کی طرح ایک نوک دار پتھر کا ٹیلا نکلا جس کو وہ کاٹ نہ سکے، جب مامون نے یہ دیکھ لیا کہ دائیں ، بائیں جانب قبر کھودنے میں بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو وہ اس بات پر راضی ہو گیا کہ امام رضا علیہ السلامکی قبر مامون کی قبر کے سرہانے بنائی جائے۔

اس طرف کی زمین بہت آسانی سے کھدی گئی تا کہ مامون کی خواہش کے برخلاف اس کا باپ ہمیشہ امام رضا علیہ السلامکے قدموں کے نیچے رہے۔

امام رضاعلیہ السلامکی قبر کے سب سے آخری حصے کو میں نے کھودا، قبر کھودنے میں جو حادثات اور زحمات پیش آئے ان کی وجہ سے مامون بہت غصہ تھا لیکن اپنے غصہ کو چھپائے ہوئے تھا، اس کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا اور وہ بہت غور سے تمام مراسم کو دیکھ رہا تھا میں نے اپنی ہتھیلی کو قبر کی سطح پر رکھا اور جو کلمات مجھ کو امام رضا(ع) نے سکھائے تھے ان کو پڑھا ،

۱۰۲

اچانک قبر کے اندر سے پانی ابل پڑا یہاں تک کہ قبر پانی سے بھر گئی اس کے بعد (جیسا کہ پہلے امام رضاعلیہ السلامفرما چکے تھے)بہت ساری چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پانی میں ظاہرہوئیں میں نےروٹی کے ٹکڑے کو چور کر پانی میں ڈال دیا ، چھوٹی مچھلیاں اس روٹی کو کھاگئیں پھر وہ بڑی مچھلی ظاہر ہوئی اور تمام چھوٹی مچھلیوں کو نگل گئی اس کے بعد وہ بڑی مچھلی بھی غائب ہوگئی، میں نے اپنے ہاتھ کو پانی پر رکھ کروہی کلمات دہرائے تو زمین پانی پی گئی اور قبر خکن ہوگئی!عجیب بات یہ اس وقت میں ان کلمات کو اس طرح بھول گیا کہ بہت کوشش کے بعد بھی ایک کلمہ تک نہ یاد کرسکا!

مامون اس منظر کو دیکھ کر حیرت زدہ اور شکستہ ہوگیا تھا اس نے میری طرف رخ کیا اور پوچھا:

کیا امام رضاعلیہ السلامنے تم کو حکم دیا تھا کہ یہ کام انجام دو؟

میں نے جواب دیا : ہاں!

جب مامون نے یہ جواب سنا تو کہا:

امام رضاعلیہ السلام ہمیشہ زندگی میں ہم کو عجیب و غریب  واقعات دکھاتے رہتے تھے اور انھوں نے اپنے انتقال کے بعد بھی یہی کام کردیا!

پھر مامون نے اپنے وزیر کی طرف رخ کیا اور پوچھا:

ان چیزوں (حادثات )کے کیا معنی ہیں؟!

وزیر نے بہت اچھا جواب دیا: میرا دل چاہ رہا تھا کہ یہ وہ کہہ دے جو میں چاہتا ہوں، ایسا ہی ہوا اور اس نے وہی کہا جو میں چاہتا تھا!

۱۰۳

وزیر:تم ان چھوٹی مچھلیوں کی طرح بہت زیادہ ہو لیکن تم لوگ صرف ایک مختصر سی مدت اس دنیا سے فائدہ اٹھا سکو گے اس کے بعد ایک شخص ان کے خاندان (خاندان امام رضا(ع)، خاندا ن اہل بیت)سے آئیگا اور تم سب کو ہلاک کردے گا!

اباصلت:جب تک امام رضاعلیہ السلام زندہ تھے اس وقت تک میں بھی آپ کی نوکری کے لباس میں رہ کر آقائی کرتا تھا اور کوئی بھی یہاں تک کہ خود مامون بھی مجھ کو کچھ بھی نہ کہہ سکتا تھا، لیکن جیسے ہی امام رضاعلیہ السلامکی وفات ہوئی میری بدبختی کا آغاز ہو گیا!

ابھی صحیح سے میرے قدم گھر تک نہ پھونچے تھے اور امام رضاعلیہ السلام کے دفن کی غبارمیرے کپڑوں سے صاف نہ ہوئی تھی کہ مامون کا قاصد میرے پاس آیا اور مجھے مامون کے دربار میں لے گیا۔

مامون نے مجھ سے کہا:

تم نے کہا تھا کہ جو کلمات تم نے قبر کے اندر پڑھے تھے وہ تم کو امام رضاعلیہ السلامنے سکھائے تھے اور  یہ بھی کہا تھا کہ تم ان کو پڑھنا تا کہ پانی آئے اور چلا جائے؟

جب مامون نے مجھ سے یہ سوال کیاتو میں جھوٹ بولنے والوں میں تو تھا نہیں، اگر میں جھوٹ بولنا بھی چاہتا تو مامون جیسے بے رحم و طاقتور انسان کے سامنے جھوٹ بولنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا چونکہ وہ کچھ بھی کرسکتاہے۔

آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ اس نے ہمارے امام(ع) کے ساتھ کیا کیاپھر میری کیا حیثیت ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ میں اس بات کو پہلے بھی اس سے کہہ چکا تھا( کہ یہ کلمات مجھ کو امام(ع) نے سکھائے ہیں )

ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے جواب دیا:

جی ہاں ، اے امیر المؤ¶منین (مجھے یہ کلمات امام رضاعلیہ السلامنے سکھائے تھے اور ان کو پڑھنے کا حکم بھی دیا تھا)

مامون نے کہا: ٹھیک ہے اب وہ کلمات تم مجھ کو سکھاؤ¶: 

۱۰۴

یہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ ان کلمات میں سے ایک لفظ بھی مجھے یاد نہ رہا تھا اگر مجھے یاد ہوتے تو شاید میں اس وقت مامون کے ڈرسے ان کلمات کو سنادیتا!لہذا میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ میں حقیقت کو بیان کردوں اور حقیقت بھی ایسی کہ جو مامون کو اصلاً پسند نہ آئے ،میں نے کہا: اے امیر المؤ¶منین بڑے افسوس کی بات ہے کہ مجھے کچھ یاد نہیں آرہا ہے میں سب کچھ بھول گیا ہوں!

مامون کو یہ امید نہ تھی کہ میں اس کو منفی (نہیں میں )جواب دونگالہذا اس نے  چلاکر کہا:

اے ہرات کےبیہودہ انسان آدمی!امام رضاعلیہ السلامکہ جو تمہارے آقا تھے وہ بھی مجھ کو منفی جواب نہیں دیتے تھے، اب تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟! خدا کی قسم اگر تم نے وہ کلمات مجھے نہ سکھائے تو میں تم کو بھی اسی جگہ پہونچادونگا جہاں تمہارے مولاکو۔

قریب تھا کہ مامون نا چاہتے ہوئے بھی غصے کے عالم میں اپنے گناہ (قتل امام رضاعلیہ السلام) کا سب کے سامنے اعتراف کرلے لیکن اس نے خود کو کنٹرول کیا اور اپنے الفاظ کو بدلتے ہوئے کہا:

اگر تم نے مجھے وہ کلمات نہ سکھائے تو میں تمھیں اسی جگہ پر پہونجا دونگا جہاں تمہارے آقا چلے گئے ہیں!

میں کچھ نہیں کر سکتا تھا سوائے اس کے کہ قسم کھا کر حقیقت کی تکرا ر کروں، لہذا میں نے کہا: خدا کی قسم مجھے کچھ یاد نہیں آرہا ہے! خود امام رضاعلیہ السلامکی قسم ان کلمات میں سے ایک لفظ بھی میرے ذہن میں باقی نہیں ہے! بزرگوں کی قسم پیغمبرﷺکی قسم!

میرا یہ جواب سن کر مامون نے کہا: اس کو قید کرلو اور اس پر سختی کرو شاید اس کا حافظہ پلٹ آئے ورنہ وہ اپنی جان کھو بیٹھے گا۔

۱۰۵

جیسے ہی بے رحم مامون نے یہ بات کہی جلّادوں نے میری گریہ و زاری پر توجہ کئے بغیر مجھ کو کھینچتے ہوئے لے جا کر ایک اندھیرے اور ڈراؤ¶نے قید خانے میں ڈال دیا۔

اس وقت میری خوش نصیبی یہ تھی کہ مامون یہ چاہتا تھا کہ ان کلمات کو کسی بھی قیمت پر مجھ سے معلوم کرلے،اسی لئے وہ میرے قتل میں جلدی نہیں کر رہا تھا لیکن ذہنی طور پر مجھ پر دباؤ ڈالتا تھا اور روزانہ مجھے موت کی دھمکی دیتاتھا۔

میں  نہیں چاہتا کہ بات کو طول دے کر آپ کے سروں میں درد کروں لہذا مختصر یہ ہے کہ ایک سال اسی طرح گزر گیا اور اب میرے صبر کی انتہا ہوچکی تھی اور میرے سینے میں گھٹن ہونے لگی تھی، یہاں تک کہ میں نے شب جمعہ کو غسل کیا اور طلوع فجر تک جاگ کر اس رات کو رکوع، سجدہ اور تصرع و زاری میں گزار دیا، جیسے ہی میں نے نماز صبح پڑھی اچانک امام  جوادعلیہ السلامکو دیکھا کہ آپ میرے پاس آئے ! مجھ کو یقین نہ آیا میں نے سوچا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں روتے ہوئے ڈور کر امام (ع)کےپیروں میں جا پڑا اور آپ کے قدم مبارک کو بوسہ دیا آپ نے میرے ہاتھوں کو پکڑا اور مجھ کو زمین سے اٹھاتے ہوئے فرمایا:(۱) اےاباصلت تمہارا سینہ تنگ ہوگیاہے؟

میں نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا: جی ہاں،اے میرے  آقا، خدا کی قسم (میرا سینہ تنگ ہو گیا) امام(ع) نے مہربانی سے فرمایا: جو کام تم نے آج کیا ہے کاش کہ یہی پہلے کرلیا ہوتا تا کہ خدا تم کو جلدی نجات دیدتا جیسے کہ قیامت کے دن تم کو نجات دیگا!

میں نے خود سے کہا کہ امام(ع) درست فرمارہے ہیں، جیسے کہ ایرانیوں کے یہاں کہا وت ہے :

“گر گدا سستی کند ، تقصیر صاحب خانہ چیست؟”” اگر فقیر ہی سست ہو تو مکان مالک کی کیا خطا؟!“پھر آپ نے فرمایا: چلو زندان سے باہر چلیں۔اباصلت :کیا میں زندان سے باہر نکلوں ؟!

---------------

(۱):- “مجھے یقین نہ آیا (کہ امام جواد علیہ السلام آئے ہیں) ایسا لگا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں میں دوڑپڑا اور روتے ہوئے آپکے قدموں میں جا گرا، آپ(ع)پیروں کا بوسہ لیا امام (ع)نے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر مجھکو کھڑا کیا “ یہ عبارت اباصلت کی روایت میں موجود نہیں ہے ہم نے اس کو حالات کے تقاضاے کی بنا پر اضافہ کیا ہے.

۱۰۶

کاا آپ نے نہیں دیکھا کہ نگباون باہر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے چند چراغ ہیں جنہوں نے ہر جگہ کو دن کی طرح روشن کر رکھا ہے۔امام جوادعلیہ السلام : فکر نہ کرو، وہ تم کو نہیں دیکھیں گے!

اباصلت : میں اس فکر میں ہوں کہ اگر اب وہ مجھےنہ بھی دیکھیں اور میں زندان سے نکلنے میں کامیاب ہو جاؤ پھر بھی کل وہ لوگ مجھے اسی اطراف میں گرفتار کرلیں گے اور پھر میری حالت اس وقت سے بھی بدتر ہو جائیگی۔

باوجود اس کے کہ امام(ع)  کا مقام بہت بزرگ ہوتا ہے پھر بھی امام (ع) نے اس بات کو نظر انداز کردیا کہ میں کئی سال امام (ع) کی خدمت میں رہ کر بھی ان کی معرفت حاصل نہ کرسکا (آپ نے مجھے کوئی توبیخ و تنبیہ نہ کی)آپ (ع)نے فرمایا:میں کہہ چکا ہوں کہ تم فکر نہ کرو اب تمہارا آخر عمر تک ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہ پڑیگا ۔ (کبھی سامنا نہ ہوگا!)

اس کے بعد آپ نے میرا ہاتھ پکڑا جب کہ نگبانن بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کررہے تھے، چراغ روشن تھے امام نے مجھے ان لوگوں کے سامنے سے گزارا اور بغیر اس کے کہ وہ لوگ مجھے دیکھیں آپ نے مجھے زندان سے  نکال دیا۔

قید خانہ سے باہر آزاد ہوا  میں نے ابھی صرف ایک گہری سانس ہی لی تھی کہ امام(ع)نے میری طرف رخ کرکے پوچھا:

 اب تم کونسی سرزمین پر جانا چاہتے ہو؟

میرے لئے یہ بات بری نہیں تھی سالوں بعد اپنے آباءواجداد کی سرزمین پر واپس چلا جاؤ¶ں،میں نے فوراً جواب دیا:

میں اپنے گھر ہرات جانا چاہتا ہوں!امام(ع) نے فرمایا : اپنی عبا کو اپنے چھرے پر ڈالو اور میرا ہاتھ پکڑلو!

میں نے ایسا ہی کیا مجھے احساس ہوا کہ امام جوادعلیہ السلام نے مجھ کو اپنی داہنی جانب سے بائیں جانب کھینچا ہے ، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: اب عبا کو چہرے سے ہٹالو۔جیسے ہی میں نے آنکھوں سے عبا کو ہٹایا دیکھا کہ امام جوادعلیہ السلام کی کوئی خبر نہیں ہے اور میں ہرات میں اپنے گھر کے دروازے کے باہر کھڑا ہوں میں گھر میں داخل ہوا!اس کے بعد سے اب تک نہ میں نے مامون کو دیکھا اور نہ ہی اس کے کسی آدمی کو!(۱)

--------------

(۱):-  بحارالانوار ، ج ۵۰ ، ص ۴۹-۵۲ و ج ۴۹ ، ص ۳۰۰-۳۰۳، بہ نقل از عیون اخبار الرضا ، ص ۲۴۲-۲۴۵.

۱۰۷

شہادت کے بعد امام رضا علیہ السلام کا کلام کرنا !

شاید آپ کو یہ بات نہ معلوم ہو کہ مامون کس قدر مکار (لومڑی صفت انسان)تھا!میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ خود اسی نے امام رضاعلیہ السلامکو شہید کیا ہے لیکن وہ امام رضاعلیہ السلام کے جنازے اور تشییع و تدفین میں اس طرح مگر مچھ کے آنسو رورہا تھا کہ جو بھی اس کو دیکھتا تھا سوچتا تھا کہ وہ معاذ اللہ وہ امام جواد علیہ السلام سے بھی زیادہ سوگوار و غمگین ہے! مثال کے طور پر ، وہ امام رضا(ع)کے تشییع جنازہ کے مراسم میں مصیبت زدہ کی طرح کھلے سر ، ننگے پیر ، اور بٹن (پیراہن کے بند)و غیرہ کھولے ہوئے جنازے کے پیچھے چل رہا تھا اور موسم بہار کے بادلوں کی طرح آنسو بہا رہا تھا اور کہہ رہا تھا:

اے بھائی!آپ کی موت سے بنائے اسلام میں ایک عظیم شگاف پیدا ہواگیا ہے ، میری تمنائیں آپ کے بارے میں پوری نہ ہوسکیں ، میری تدبیر پر خدا کی تقدیر غالب آگئی میں یہ چاہتا تھا کہ آپ تخت خلافت پر بیٹھیں لیکن خدا نے آپ کے لئے کچھ اور مقدر کیا تھا۔(کچھ اور ارادہ کر لیا تھا)لیکن بہتر ہوگا کہ آپ جان لیں کہ، جس طریقے سے امام رضاعلیہ السلامنے اپنی شہادت سے پہلے مامون کے فریب اور مکاریوں سے پردہ اٹھادیا تھا اور خبر دیدی تھی کہ آپ(ع) اس ملعون کے ہاتھوں شہید ہونگے اسی طریقے سے آپ نے اپنی شہادت کے بعد بھی اعجاز الہی کے ذریعے ایک مرتبہ پھر (مختصر طور پر ہی سہی لیکن)ان گناہگاروں، خونخواروں اور قدرت پر ستوں کے چہرے سے نقاب ہٹادیا۔آپ کو معلوم ہوگا کہ بظاہر میرے بعد سب سے پہلے امام رضاعلیہ السلام کے جنازے پر  مامون کے حاضر ہونے کے بعد مجھے اس بات کی اجازت نہ تھی کہ میں امام رضاعلیہ السلام کے بدن مطہر کے قریب رہوں لیکن جیسے ہی مامون، امام رضاعلیہ السلامکے جنازے سے گدور ہوا میں فوراً  آپ کے قریب آگیا اچانک میں نے دیکھا کہ امام رضاعلیہ السلام نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور فرمایا:اے اباصلت یہ جو کچھ چاہتے تھے وہ انھوں نے کردیا ہے!

پھر آپ خدا وند عالم کے ذکر اور حمد و ثنا میں مشغول ہوگئے اس کے بعد آپ نے آنکھیں بند کیں اور ہمیشہ کے لئے خاموشی اختیار کرلی!(۱)

---------------

(۱):-  عجایب و معجزات شگفت انگیزی از امام رضا (ع)، ص ۱۲۴ ، بہ نقل از کتاب جلاء العیون.

۱۰۸

زبان حال امام رضا علیہ السلام اباصلت سے

ای اباصلت بیا ساعتی اندر بر من                 

از رہ مہر و وفا باش دمی یاور من

(اے اباصلت میرے قریب آؤ اور محبت و وفاداری کے ساتھ کچھ دیر میرے پاس بیٹھے رہو)

زہر ہارون لعین ، کار مرا کردہ تمام              

آتش انداختہ اندر دل پر آذر من

(ہارون ملعون کے زہر نے میرا کام تمام کردیا ہےاور میرے مضطرب دل کو جلا دیا ہے)

کاش می بود طبیبی دم مردن بہ سرم              

تا کند چارہ ی درد دل پر آذر من

(اے کاش وقت مرگ (موت) میرے پاس کوئی طبیب ہوتا جو میرے پریشان دل کا علاج کر سکتا)

ای اباصلت برو زود در خانہ ببند          

کہ مرا نیست انیسی بہ جز از داور من

(اے اباصلت جلدی جاؤ دروازہ بند کرو ، چونکہ خدا کے علاوہ یہاں میرا کوئی مونس و یاور نہیں ہے)

تا غریبانہ بمیرچو شہ  کرب و بلا         

فرش بر چین و بیا جمع کن این بستر من

(میں شہ مظلوم کربلا امام حسین(ع) کی طرح غریب الوطن اس دنیا سے چلا جاؤں گا، اب یہ فرش سمیٹ لو اور میرا بستر جمع کرلو)

۱۰۹

جان بہ لب آمدہ و ماندہ مرا چشم بہ راہ          

تا بیاید تقی آن روح و دل و پیکر من

(میری جان ہونٹوں پر آگئی ہے اور میری آنکھیں راہ پر لگی ہوئی ہے، کہ میرا بیٹا میری روح، میرا دل،میرا پیکر محمد تقی(ع) آجائے)

چون در این شہر کسی نیست مرا محرم راز         

تا پیامی برد از من بہ سوی خواہر من

(چونکہ اس شہر میں میرا کوئی ہمراز نہیں ہے جو میری بہن کے پاس میرا پیغام پہونچا سکے)

نامہ ای بہر خدا سوی مدینہ بفرست              

گو بہ آن خواہر معصومہ ی غم پرور من

(اس لئے خدا کے واسطے ایک خط مدینہ کی طرف بھیجنا اور میری جانب سے میری سوگوار ، غمزدہ اور معصومہ بہن سے کہنا)

خواہرا، جای تو خالی است کہ از راہ وفا            

در دم مرگ، بہ زانو بگذاری سر من

(اے بہن، آپ کی جگہ خالی ہے کاش کے آپ ہوتیں تو محبت اور وفاداری کے ساتھ وقت مرگ میرے سر کو اپنے زانو پر رکھ لیتیں)

۱۱۰

آرزو بود سوی قبلہ کشی پای مرا         

یا ببندی ز رہ مہر، دو چشم تر من

(میری آرزو تھی کہ آپ میرے پیروں کو قبلہ کی طرف کرتیں یا محبت سے میری آنسؤں سے بھیگی ہوئی دونوں آنکھوں کو بند کردیتیں)

وعدہ ی ما و تو دیگر بہ قیامت افتاد               

در جنان ، خدمت جد و پدر و مادر من

(اب ہمار ا وعدہ(ملاقات) قیامت کے دن جنت میں اپنے اجداد اور پدر و مادر کے خدمت میں پہونچ کر پورا ہوگا)

امشب از بہر من ای ذاکر اگر کریہ کنی           

در صف حشر بود اجر تو با داور من

(ذاکر اگر آج رات تم میرے غم میں روؤگے تو روز قیامت تمھارا اجر و ثواب میرے پروردگار کے پاس موجود ہوگا)

۱۱۱

تیسری فصل:

ابا صلت کے سوالات

     اس فصل میں ہم نے کچھ ایسی روایات بیان کی ہیں کہ جن میں اباصلت نے امام رضا علیہ السلام سے سوالات کئے ہے اور آپ نے ان سوالوں کے جواب دیئے ہںس۔

شا دت امام حسین علیہ السلام

میں(ابا صلت)نے امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:

فرزند رسول ﷺکوفہ کے اطراف میں ایک گروہ ہے جن کا نظریہ ہے کہ ”حسین بن علی علیہ السلامقتل نہیں ہوئے بلکہ جناب عیسیٰ کی طرح وہ بھی آسمان پر چلے گئے ہںن “۔

یہ عقیدہ اسعد بن شامی کے بیٹے نے لوگوں میں پھیلا دیا ہے وہ اس عقیدے پر اس آیت کو دلیل بناتا ہے :

﴿وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا﴾ (۱)

خدا وند عالم نے ہرگز کافروں کو مومنین پر مسلط ہونے کا اختایر نہیں دیا ہے۔

امام رضاعلیہ السلامنے جواب دیا:

وہ لوگ جھوٹ کہتے ہںہ ان پر خدا کی لعنت اور عذاب نازل ہو!

پیغمبرﷺ  کا فرمان ہے کہ حسین علیہ السلامقتل کیا جائے گا، اور یہ لوگ فرمان رسول ﷺکو جھوٹلاتے ہیں لذیا یہ لوگ کافر ہو گئے ہے۔

----------------

(۱):-  سورہ نساء (۴)، آیت ۱۴۱.

۱۱۲

خداکی قسم!امام حسین علیہ السلامقتل ہو گئے،امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور امام حسن مجتبےٰعلیہ السلامبھی قتل ہو گئے ہیں، ہم اماموں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے قتل نہ کیا جائےگا ۔

خدا کی قسم میں بھی دشمن کے زہر سے شہید ہو جاؤنگا، یہ بات مجھ کو رسول خداﷺ سے معلوم ہوئی ہےاور آپ کے پاس جبرئیل یہ خبر خدا کی طرف سے لائےتھے۔

خدا وند عالم کا یہ فرمان کہ :

﴿وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا﴾ (۱)

اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا وند عالم نے کافروں میں مؤمنوں کے لئے کوئی حجت نہیں رکھی ہےدلیل یہ ہے کہ خدا وند عالم نے قران کریم میں ایےر کافروں کا بھی ذکر کیا ہے کہ جنہوں نے پیغمبروںﷺکو نا حق قتل کیا ہے اور باوجود اس کے کہ ان کافروں نے پیغمبروں کا قتل کیا ہے کافرین قتل اور ظلم و ستم کے اعتبار سے تو انبیاء پر مسلط ہوئے ہیں لیکن خدا وند عالم نے ہدایت و حجت کے اعتبار سے کافروں کو انبیاعلیہم السلام پر کوئی تسلط و اختیار نہیں دیاہے۔(۲)

--------------

(۱):-  سورہ ی نساء (۴)، آیت ۱۴۱.

(۲):-  مسند الرضا، ج۱، ص ۸۶ و ج ۲، ص ۵۰۴ ، عیون اخبار الرضا ، ج ۲ ، ص ۲۰۳.

۱۱۳

امام زمانہ علیہ السلام  کا انتقام

(اباصلت:)میں نے ایک روز امام رضاعلیہ السلامسے سوال کیا:  

فرزند رسول !امام صادقعلیہ السلامسے روایت ہے کہ جب امام زمانہ(عج) خروج کریں گے تو امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی اولاد کو انکے اجداد کے کرتوت کی بنا پر قتل کریں گے؟ اس سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟

امام رضاعلیہ السلامنے فرمایا:

ہاں ایسا ہی ہے۔

میں نے تعجب کے ساتھ پوچھا:

قرآن کریم کی اس آیت کے کیا معنی ہے ؟     

﴿وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ (۱)

کسی کے گناہ کا بوجھ کسی دوسرے کے کاندھوں پر نہیں ہے۔

امام رضاعلیہ السلامنے اس طریقے سے وضاحت فرمائی کہ:خدا وند عالم نے اپنے تمام اقوال میں سچائی سے کام لیاہے،لیکن بات یہ ہے کہ قاتلان امام حسین علیہ السلامکے اولاد ہے اپنے باپ،داداؤں کےکام سے راضی اور خوشنود ہے اور انکے کام پر فخر کرتی ہے اور جو انسان جس کام سے راضی ہو ایسا ہے کہ گویا اس نے وہ کام خود انجام دیا ہے ۔یعنی اگر کوئی انسان مشرق میں قتل کیا جائے اور مغرب میں کوئی شخص اسکے قتل سے راضی ہو تو راضی ہونے والا شخص خدا کی بارگاہ میں قاتل کا شریک مانا جاتاہے ۔اور جب امام زمانہ(عج) خروج کریں گے تو اسی وجہ سے (راضی ہونے کی وجہ سے)قاتلین امام حسین علیہ السلام کی اولاد نامراد کو قتل کریں گے۔(۲)

--------------

(۱):-  سورہ انعام(۶)، آیت ۱۶۴.

(۲):- بحارالانوار، ج ۴۵ ، ص ۲۹۵ ، مسند الرضا، ج ۱ ص ۱۴۶، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص ۱۷۳، علل الشرایع، باب ۱۶۴ ، ص ۲۲۶.

۱۱۴

امام زمانہ علیہ السلام کی ظاہری علامات

میں (اباصلت)نے امام رضاعلیہ السلام سے عرض کیا :

جب قائم آل محمد ﷺ ظہور فرمائیں گے تو آپ کی کیا نشانیاں ہونگی؟

امام رضا علیہ السلامنے ارشاد فرمایا:

وہ عمر کے اعتبار سے بزرگ لیکن صورت کے اعتبار سے جوان ہونگے یہاں تک کہ دیکھنے والے یہ گمان کریں گے کہ آپ چالیس یا اس سے بھی کم سال کے ہیں ۔

آپ کی ایک علامت یہ ہے کہ دن و رات گزرنے کے باوجود آپ (ع)بوڑھے نہیں ہوتے اور آپ کے جسم میں سستی نںی  آتی، یہاں تک کہ اسی طرح آپ کی عمر تمام ہو جا ئےگی اور آپ رحلت کر جائیں گے۔(۱)

--------------

(۱):- بحارالانوار، ج ۵۲، ۲۸۵- منتخب الاثر، ص ۲۸۴-اکمال الدین، ص۶۵۲-الخرائج و الجرائح، ج ۳۰ ، ص ۱۱۷۰-اعلام الوری، ص ۴۶۵.

۱۱۵

زیارت خدا کا مطلب

ایک مسئلہ مدتوں سے میرے (اباصلت) ذہن کو مشغول کئے ہوئے تھا میں نے اس کے بارے میں امام رضا علیہ السلامسے سوال کیا:(۱) اے فرزند رسولعلیہ السلام!آپ  کا نظریہ اس حدیث کے بارے میں کیا ہے کہ ”قیامت کے دن مؤمنین جنت میں اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے اپنے پروردگار کی زیارت کریں گے؟ “

امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا :اے ابا صلت !خدا وند تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبر محمدﷺکو پیغمبروںﷺ، فرشتوں گویا کہ تمام مخلوقات پر برتری عطاکی ہے اور انکی اطاعت کو اپنی اطاعت، انکی بیعت کو اپنی بیعت اور انکی زیارت کو اپنی زیارت جانا ہے (کہا ہے)اور فرمایا ہے :

﴿مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ﴾ (۲)

جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے میری اطاعت کی ہے۔ اور پھر یہ بھی فرمایا ہے :    

﴿إِنَّ الَّذِینَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِیهِمْ﴾ (۳)

اے پیغمبرﷺ! جو لوگ تمہاری بیعت کر رہے ہںد انہوں نے خدا کی بیعت کی ہے(یعنی خدا کو بیعت کے لئے ہاتھ دیا ہے)اور خدا کا ہاتھ انکے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ اور پیامبر گرامیﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے :

مَن زارَنی فی حَیاتی اَو بَعدَ مَوتی فَقَد زاراللهَ

جو شخص میری زندگی میں یامیرے مرنے کے بعد میری زیارت کرے گا ایسا ہے کہ اس نے خدا کی زیارت کی ہے۔(۴)

-------------

(۱):-  اباصلت نے جو سوالات امام رضا(ع)سے کئے ہیں ہو سب صرف ایک بیٹھک میں نہیں کئے ہیں ہم نے ان سب کو اس کتاب میں الگ فصل میں جمع کردیا ہے.

(۲):-  سورہ ی نساء (۴)، آیت ۸۰.

(۳):-  سورہ ی فتح(۴۸)، آیت ۱۰.

(۴):-  بحار الانوار ، ج ۴، ص ۳ و ج ۸، ص ۱۱۹.

۱۱۶

چہرہ خدا کو دیکھنے کا مطلب

میں (اباصلت)نے امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا :

اے فرزند رسول ﷺ!اس روایت کا کیا مطلب ہے کہ ”لا ا لهٰ الا اللہ“ کا ثواب خدا کا دیدار ہے“؟

امام نے فرمایا :        اے ابا صلت!اگر کوئی یہ کہے کہ تمام چہروں کی طرح اللہ کا بھی ایک چہرہ ہے تو وہ کافر ہے۔

خدا کے چہرے (وجہ اللہ)سے مراد خدا کے انبیا(ع) اور مرسلین اور اسکی حجت ہں  ، ان ہی کے ذریعہ لوگوں نے خدا ،دین خدا اور اسکی معرفت کی طرف رخ کیا ہے اور خدا کی طرف متوجہ ہوئے ہںد۔خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ(۲۶) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ(۲۷)﴾ (۱)

جو کچھ بھی زمین پر ہے، سب کا سب فنا ہونے والا ہے اور صرف تمہارے پروردگار کا چہرہ (وجہ)باقی رہے گا۔

نیز خداکا فرمان ہے:

﴿كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ﴾ (۲)

تمام چیزیں ہلاک ہونے والی ہیں سوائے چہرہ خدا کے۔

پس انبیا (ع)و مرسلین اور خدا کی حجتوں کو جنت میں انکے مقامات و درجات پر دیکھنا مؤمنین کے لئے قیامت کے دن بہت زیادہ ثواب رکھتا ہے۔چنانچہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: جو شخص میرے خاندان و اہل بیتعلیہم السلامکو دشمن رکھتا ہوگا وہ کسی بھی صورت میں مجھے نہ دیکھ سکے گا ۔اور یہ بھی فرمایا:تم لوگوں میں سے کچھ ایسے ہے جو میرے گزرنے کے بعد ہرگز مجھ کو نہیں دیکھ پائںا گے۔اے اباصلت !مکان کے ذریعہ خدا وند عالم کی توصیف نہیں کی جا سکتی ، آنکھوں اور عقلوں کے ذریعہ اس کو درک نہیں کیا جا سکتا۔

--------------

(۱):- سورہ الرحمن (۵۵)، آیات ۲۶و۲۷.

(۲):- سورہ ی قصص(۲۸)، آیت آخر ۸۸.

۱۱۷

جنت اور جہنم خلق ہو چکی ہیں اور موجود میں

میں (اباصلت)نے امام رضاعلیہ السلام سے عرض کیا :اے فرزند رسولعلیہ السلام!یہ بتائںل کہ کیا  جنت اور جہنم خلق ہو چکی ہیں اور اس وقت موجود ہیں ؟امام رضاعلیہ السلام نے یقین کے ساتھ جواب دیا:بے شک موجودہیں کیونکہ جب رسول اکرم ﷺ کو معراج پر لے جایا گات تو آپ جنت میں داخل ہوئے تھے اور آپ نے دوزخ کو بھی دیکھا تھا ۔اباصلت کہتے ہںل کہ میں نے اپنے سوال کو آگے بڑھایا اور کہا: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے جنت اور جہنم بنانے کا ارادہ کر لیا ہے لیکن ابھی انکو پیدا نہیں کیا ؟امام رضا علیہ السلام اس عقیدے پر غصہ ہوئے اور فرمایا:نہ وہ گروہ ہم سے ہے اور نہ ہم ان سے ہیں !جو شخص جنت و جہنم کا انکار کرے اس نے رسول خدا ﷺ اور ہم کو جھوٹا کہا ہے، اس نے ہماری ولایت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہےگا۔چونکہ خدا وند عزو جل فرماتا ہے:

﴿هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِی يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ(۴۳) يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِیمٍ آنٍ (۴۴)﴾ (۱)

یہ وہی جہنم ہے کہ جسکو گناہگار لوگ جھٹلاتے ہیں(انکار کرتے ہیں) جب کہ یہ لوگ اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی میں رہیں گے۔پیغمبر اسلامﷺ ارشاد فرماتے ہےکہ :جب مجھ کو آسمان پر لے جایا گا  جبرئلی نے ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں داخل کر دیااور جنت کے خرمے سے میری مہمان نوازی کی جب میں نے اسے کھایا تو وہ خرما میرے صلب میں نطفہ سے  تبدیل ہو گیا ،جب مجھے زمین پر واپس لایا گاا تو میں نے خدیجہ کے ساتھ مجامعت کی اور وہ اس نطفہ سے (فاطمہ سلام اللہ علیھا کی) حاملہ ہوگئیں ،فاطمہ سلام اللہ علیھا انسان کی شکل میں ایک فرشتہ ہے جب میں جنت کی خوشبو سونگھنا چاہتا ہوں تو اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کو سونگھ لیتا ہوں۔(۲)

--------------

(۱):-  سورہ ی الرحمن(۵۵)، آیات ۴۳و۴۴.

(۲):- بحارالانوار، ج۴، ص۳و۴و ج۸، ص۱۱۹. عیون اخبار الرضا، ج۱ ص ۱۱۵، توحید صدوق، ص ۱۱۷، امالی الصدوق ، ص ۳۷۲.

۱۱۸

قوم نوح علیہ السلام کے بچوں اور بے گناہوں کی ہلاکت کاسبب

میں (اباصلت)نے امام رضا علیہ السلامسے سوال کیا : کیا وجہ ہے کہ جناب نوح علیہ السلام کے زمانے کے تمام لوگ ہلاک ہو گئے، جب کہ ان میں کچھ بے گناہ انسان اور بچے بھی تھے؟

امام رضاعلیہ السلام نے بڑا دلچسپ جواب دیا آپ  نے فرمایا: غرق ہونے والوں میں ایک بھی بچہ نہ تھاکیوں کہ اللہ تعالیٰ نے طوفان نوح علیہ السلامسے چالیس سال پہلے جناب نوح علیہ السلام کی قوم کے مردوں اور عورتوں کو بانجھ کر دیا تھاپس غرق ہونے کے وقت سب کے سب بڑے اور بزرگ تھے، کوئی بھی بچہ ان کے درمیان میں نہ تھا۔

خدا وند عالم ہرگز کسی بے گناہ کو اپنے عذاب سے ہلاک نہیں کرتا۔

لیکن قوم نوح علیہ السلام کے جو افراد غرق ہوئے انکے دو گروہ تھے یا تو ایسے لوگ تھے جو پیغمبرﷺ خدا یعنی حضرت نوح علیہ السلام کا انکار کرتے تھے یا پھر وہ افراد تھے کہ جو انکار کرنے والوں کے انکار پر راضی تھے اور جو شخص کسی کام میں حاضر نہ ہولیکن اس کام (جو لوگوں نے کیا ہے) سے راضی ہو تو وہ اس کی طرح ہے کہ جو حاضر رہا ہواور اس نے کام کو انجام دیا ہو۔(۱)

--------------

(۱):- بحارالانوار، ج۵، ص۲۸۳، مسند الامام الرضا، ج۱، ص۵۴، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۷۵، توحید صدوق، ص ۳۹۲، علل الشرایع، ج۱، ص۳۰.

۱۱۹

چوتھی فصل:

روایات اباصلت

مخالفین شیعہ کا جواب دینے کے لئے جو روایات اباصلت نے نقل کی  ہںن (اور ان کی سند کو رسول اکرم ﷺ تک پہونچایا ہے)وہ بہت زیادہ ہیں ہم اس کتاب میں ان تمام کو نقل نہیں کرنا چاہتے لیکن برکت کے لئے ان میں سے چند روایات کتاب کے اس حصہ میں ذکر کر رہے ہیں۔

ایمان کی حقیقت

پیامبر اکرم ﷺ نے فرمایا:

الایمانُ قولٌ و عَمَلٌ (۱)

ایمان قول اور عمل کا نام ہے۔

الایمانُ قولٌ بِاللِسانِ وَ مَعرِفَةٌ بِالقَلبِ وَ عَمَلً بِالارکانِ (۲)

ایمان، زبان سے اقرار، دل سے معرفت ، اور ارکان (بدن)سے عمل کرنے کا نام ہے۔

--------------

(۱):-  خصال الصدوق، ص ۵۳و ۱۷۹، مسند الامام الکاظم،ج۱، ص ۲۵۹.

(۲):-  امالی شیخ طوسی، ج۲، ص۶۳. (بعض روایات میں “عمل بالارکان” کے بدلے “عمل باالجوارح” آیا ہے)

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131