امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت28%

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت مؤلف:
زمرہ جات: امام رضا(علیہ السلام)
صفحے: 131

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 131 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57509 / ڈاؤنلوڈ: 4962
سائز سائز سائز
امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۴۵۸&view=download&format=pdf

word

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۴۵۸&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل ( ihcf.preach@gmail.com )


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جب اس نے میری زبان سے میرا نام سنا تو بے اطمینانی اور تعجب کے ساتھ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:

 ارے ،ارے ، کیا یہ ممکن ہے کہ تم سچ بول رہے ہو، خدا کرے کہ تم نے سچ نہ بولا ہو چونکہ اگر تم نے سچ کہا ہوگا تو ہماری آج کی زحمات بے کارہو جائیں گی اور اگر تم نے جھوٹ کہا ہو گا تو آج تم اپنی جان کھو بیٹھو گے ، جب تک میں واپس آؤں تم یہیں پر ٹھہرو۔

یہ کہہ کر چور اپنے رئیس کی طرف دوڑا، رئیس ایک ٹیلے پر نماز پڑھ رہا تھا غارتگروں کے رئیس کو نماز کی حالت میں دیکھنا میرے لئے بہت عجیب تھا ، میں نے خود سے کہا :

اگر یہ نماز پڑھتا ہے تو پھر چوری کیوں کرتا ہے ؟ اور اگر یہ چوری کرتا ہے تو پھر اس کے نماز پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟

ابھی زیادہ وقت نہ گذرا تھا کے چور اور رئیس میرے پاس آئے ، راہزنوں کے رئیس نے کچھ دیر تک مجھ کو گھور کر دیکھا اور پوچھا کیا واقعاً تم وہی دعبل خزاعی ہو؟ جس نے یہ مشہور قصیدہ امام(ع)کی شان میں کہا ہے؟

دعبل: خدا کی قسم میں وہی دعبل خزاعی ہوں ؟

رئیس: اگر تم سچ کہتے ہو تو اس قصیدہ کو اول سے آخر تک بغیر دیکھے پڑھو۔

اس وقت تک تمام چور میرے اطراف جمع ہوگئے تھے ، میں نے اپنے قصیدہ کو اول سے آخر تک پڑھنا شروع کیا ، جب میرا قصیدہ ختم ہوا تو میں نے دیکھا کہ راہزنوں کی آنکھوں سے آنسو نکل کر زمین پر گر رہے ہیں اور زمین کو گیلا کر رہے ہیں۔

تمام جنگل پر سکوت چھا گیا تھا اور اب قافلے والوں میں" کہ جن کے ہاتھ اور پیر بندھے تھے" اضطراب اور پریشانی کے اثرات باقی نہیں تھے۔ چوروں کے رئیس نے آنسو کو آستین سے صاف کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا:

تمام کاروان والوں کے ہاتھ اور پیر کھول دو ، انکا تمام مال واپس کردو ، اور کسی محفوظ منطقہ تک ان کے ساتھ جاؤ¶!

۲۱

ایک چور نے اعتراض کیا: رئیس لیکن یہ بہترین لقمہ ہے جو گذرے ہوئے کئی مہینوں میں ہم نے حاصل کیا ہے، اب ہم ان کو مال کس طرح واپس کرسکتے ہیں؟

رئیس نے اس کو ڈانٹتے ہوئے کہاکہ: جو میں کہہ رہا ہوں وہ کرو یہ لوگ امام رضا(ع)کی جانب سے آئے ہیں۔

جب ہم لوگ چوروں سے دور ہورہے تھے ، انکا رئیس ہماری ہدایت کرنے کے ساتھ ساتھ ہم سے عذر خواہی کر رہا تھا ۔(۱)

آخرکار زحمتں  اور مشقتںہ برداشت کرتے ہوئے ہم لوگ شہر قم پہونچ گئے،یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے اماموں نے قم کو آشا نہ آل محمد کے نام سے پہچنوایا ہے خدا کی قسم سچ تو یہ ہے کہ اہل قم مرمی مہمان نوازی اور احترام میں ایک پیر پر کھڑے ہوگئے کیونکہ وہ لوگ مجھ کو مولا، امام رضا(ع) کا ایک خادم جانتے تھے خصوصاًان لوگوں نے اس قصدضہ  کوسننے کےلئے میرے گرد حلقہ بنت لیا اور کہا:

تم کو خدا کا واسطہ وہ قصیدہ ہم کو بھی سناؤ جوتم نے امام کو سنایا تھاتوامام نے پسند کیا اور اسکوسنکررونے لگے تھے اور اسکے بدلے تم کو قمتیو صلہ بھی ملا تھا ہم چاہتے ہیں کہ اسکو خود تمھاری زبان سے سنںک۔

میں نے انکی گزارش کو قبول کر لیا ،قم کے لوگ جامع مسجد میں جمع ہو گئے مجمع اس قدر اکھٹا ہو گیا تھا کہ جب میں منبر پر پہونچا تو معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی محشر بپا ہے جب میں نے اشعار پڑھے تو قم کے لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ انھوں نے مجھ کو بہت سا مال اور ہدیے دئےر اور مجھ کو حلقے میں لیکر کہا :

ہماری خواہش ہے کہ وہ متبرک لباس جو امام رضا(ع) نے تمکو عطا کیا ہے اسکو ہمیں ایک ہزار سونے کے سرخ دینار کے بدلے بچر دو۔

--------------

(۱):- با استفادہ از بحار الانوار ، علامہ مجلسی ، ج ۴۹ ، ص ۲۳۸.

۲۲

لیکن آپکو معلوم ہے کہ وہ لباس معنوی اہمیت رکھتا تھا اور میں اسکو تمام دنان کے بدلے بھی دینے کو راضی نہ تھا لہٰذا انھوں نے جتنا بھی التماس کیا میں نے قبول نہ کیا یہاں تک کہ بچے بھی اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ اس کپڑے کا فقط ایک ٹکڑا مجھ سے اسی قیمت میں خرید لیں لیکن میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میں اس کپڑے میں سے ایک دھاگا بھی بیچوں۔

آخر کار میں قم سے عراق کی طرف روانہ ہو گاپ ابھی قم سے کچھ فرسخ دور نہ ہوا تھا کہ جوانان قم کے ایک گروہ نے مجھے گھیر لیا اور جبراً مجھ سے امام رضا(ع) کا لباس چھین کر ہزار آہ وافسوس اور آنسؤں کے ساتھ مجھے جنگل میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔

ناچار ،میں نے قم واپس آکر بزرگوں کا دامن تھاما،انھوں نے بھی ان جوانوں کو بہت نصحتل کی کہ :”تم کیسے امید کر سکتے ہو کہ جو لباس تم نے زبر دستی چھینا ہے وہ تمھارے لئے امن اوربرکت کا سبب بن جائے!“لیکن انھوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔

اب التماس کرنے والے اور التماس سننے والے بدل گئے تھے (یعنی جو پہلے التماس کر رہے تھے اب ان سے التماس کی جارہی تھی اورجس سے پہلے التماس کی جارہی تھی اب وہ خود کھڑا التماس کر رہا تھا )یعنی اب میں تھا جو التماس کر رہا تھا۔

جوانوں نے کہا : ہم چور نہیں ہیں ہم اب بھی تایر کہ تم کو وہ ایک ہزار دینار دےدیں لیکن یہ لباس ہرگز نہیں دے سکتے ۔

اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھامیں نے انکی پرانی درخواست کو خود انھیں کے سامنے پیش کیا:

اس متبرک لباس کا کم سے کم ایک تکڑا تو مجھے دےدیجئے!۔

خدا وند عالم ان سبھوں کا بھلا کرے کہ وہ سب مجھ سے زیادہ انصاف ور تھے انھوں نے میری اس درخواست کو قبول کر لیا،اس لباس کا ایک ٹکڑا اور ایک ہزار سر خ سونے کے دینار احترام کے ساتھ میری خدمت میں پیش کردئیے۔

۲۳

خدا نہ کرے کہ آپ کوئی برا وقت دیکھیں ،جب میں اپنے وطن بغداد واپس ہوا تو شہر کے دروازے پر ہی دو بری اور وحشتناک خبریں مجھ کو ملیں !

ایک تو یہ کہ تمھارے گھر چور داخل ہوئے اور تمھاری غیبت کو غنیمت جان کر سب کچھ لے گئے یہاں تک کہ تہہ خانہ میں بھی جھاڑو لگادی ہے۔

دوسرے یہ وہ کنیز(کہ جو تمھارا عشق تھی ،تمھارے لئے مثل لیلیٰ تھی اورتم اسکے مجنون تھے )آنکھوں کی سخت بیماری میں مبتلا ہو گئی ہے اور اسکا ناک و نقشہ بہت برا ہوگیا ہے۔

یہ دو خبریں سنتے ہی دنیا میرے سامنے اندھیر ہوگئی لیکن میں نے خدا پر بھروسہ کیا اور گھر میں داخل ہو گیا گھر ایسا کہ جسمیں فقط وفقط درودیوار تھے اور کچھ نہ تھا ابھی میں نے سامان سفر نہ اتارا تھا کہ شہرکے لوگ مجھ سے ملاقات کرنے کے لئے آگئے اور میرے گرد حلقہ لگا لیا اور قبول زیارت کی دعا دینے لگے جب میں نے ان لوگوں سے امام رضا (ع) کی ملاقات کا ماجرا بیان کیا اور بتایا کہ ”میں نے امام(ع)کی خدمت میں قصیدہ پڑھا اورامام(ع)نے مجھ کو ایک سو،سونے کے رضوی دینار عطا کئے“تو انھوں نے التماس کی کہ جو دینار تمکو امام رضا(ع)نے دئے ہیں اور ان پر امام کا نام لکھا ہوا ہے وہ سب ہم کو دےدو اور ہر ایک دینار کے  بدلے سو درہم ، ہم سے ہدیہ لے لو۔

مجھے ڈر تھا کہ انکار کرنے کی صورت میں کہیں پر  سے قم کے واقعہ کی تکرار نہ ہو جائے اس لئے میں نے ان لوگوں کی درخواست کو قبول کر لیا اور وہ رضوی سکّے ان لوگوں کو ہدیہ کر دئے ان لوگوں نے بھی اس کے بدلے مجھ کو دس ہزار درہم ہدیہ کئے۔ میں ایک چھوٹی سی مدت میں تین مرتبہ چوروں کا شکار ہو چکا تھالیکن امام رضا(ع)کے ہدیہ کی برکت سے اپنے شہر کا سب سے امیر انسان ہو گیا تھا!(۱)

--------------

(۱):-  منتہی الآمال ، فصل ۷ از باب ۱۰- بحار الانوار ، ج۴۹ ، ص ۲۳۷-۲۴۱ و ص ۲۴۵-۲۵۱ ، کرامات رضویة ج ۲ ص ۲۲۳-۲۵۹.

۲۴

 اب میری پریشانی صرف اور صرف میری پیاری کنیز کی آنکھیں تھیں میں نے شہرکے تمام طببوسں اور حکیموں کوجمع کرکے کہا:

 اگر میری کنیز کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں تو میں اپنی تمام دولت دینے کے لئے حاضر ہوں!

لیکن طبیبوں اور حکیموں نے آپس میں رائے ، مشورہ کرنے کے بعد صاف صاف مجھ سے کہہ دیاکہ:

اسکی داہنی آنکھ کسی بھی صورت میں قابل علاج نہیں ہے چونکہ اسکی بینائی جاچکی ہے لیکن اگر کچھ پیسہ خرچ کیا جائے تو شاید ہم اسکی بائی آنکھ کوخراب ہونے سے بچالیں۔

اب میری حالت بہت خراب ہو گئی تھی میں نے دور ہی سے خراسان کا رخ کرکے عرض کیا: اے امام رضا(ع)آپ نے ایک ایک کرکے میری تمام مشکلات کو حل کردیا ہے میری درخواست ہے کہ آپ میری اس مشکل کو بھی آسان کردیں!

اچانک مجھے یاد آیاکہ میرے پاس امام رضا (ع) کے لباس کا ایک ٹکڑا موجود ہے میں نے سوچا:

 امام رضا(ع) کا لباس ،لباس یوسف(ع)سے کم نہیں ہے اذن خدا سے جناب یوسف(ع)کاکرتا مس کرنے سے جناب یعقوب(ع)کی آنکھں  شفایاب ہو گئی تھیں ،کتنا بہتر ہوگا کہ میں امام کے متبرک لباس کو اپنی کنیز کی آنکھوں پر رکدتوں اگر مصلحت ہوئی تو یقینآً شفا ہو جائے گی۔

رات کو میں نے وہ کپڑا اپنی کنیز کی آنکھوں پر باندھ دیا، صبح جب میں نے کپڑے کو کھولا توآنکھوں میں درد و الم اور بیماری کا ذرہ برابر بھی اثر نہ پایا!

اب پھر سے میں امام رضا(ع)کی برکت سے زمین پر بت  خوش نصیب انسان ہو گیا تھا۔ 

۲۵

نماز باران

مجھ کو تو آپ پچا نتے ہی ہیں میں مامون ہوں(۱) ، مامون عباسی ، یقیناً آپ کا دل مجھ سے راضی نہ ہوگا، بہر حال آپ کو ناراضگی کا حق بھی ہے چونکہ میں نے اپنے بھائی پر بھی رحم نہ کیا اور اس کو قتل کردیا ، اس سے برا یہ ہے کہ فرزند رسول اور انکے جانشین برحق یعنی شیعیوں کے آٹھویں امام ، امام رضا(ع) کو بھی زہر دے کر شہید کردیا، ان تمام جنایتوں اور دوسرے بہت سے گناہوں کا مرتکب میں اپنی قدرت اور حکومت کی وجہ سے ہوا ہوں ، حالانکہ میں دنیا میں اپنے گناہوں کا اعتراف نہیں کرتا تھا لیکن جو کچھ تھا وہ گذر گیا اور اب تمام باتیں سب پر روشن ہوگئی ہیں، لہذا اب چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ، جیسا کہ ایک مشہور کہاوت بھی ہے ”جب خدا سے چوری نہیں تو بندوں سے کیا چوری“۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ امام رضا(ع)کو مدینہ سے خراسان بلانا ، ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کرنا دھوکا ، مکاری اور عوام فریبی کے علاوہ کچھ نہ تھا ، میں چاہتا تھا کہ اس طریقہ سے ایک تیر سے کئی نشانے لوں، منجملہ یہ کہ 

امام رضا(ع) کو قریب سے اپنی زیر نظر رکھوں تا کہ یہ میری حکومت کے لئے کوئی مشکل پیدا نہ کرسکے ۔

دوسرے یہ کہ ایران کی عوام، خصوصاً خراسان کے لوگوں کو (کہ جو خاندان پیغمبرﷺ، خصوصاً امام رضاعلیہ السلامسے بہت زیادہ محبت رکھتے ہیں) دھوکہ دوں اور اپنی حکومت کو (کہ جو ان کی نظروں میں غیر شرعی و غیر قانونی ہے، بہ ظاہر امام رضا کو ولیعہد بنا کر)قانونی اور شرعی بنا کر پیش کروں اور اس طریقہ سے شیعوں کے احتمالی حملہ سے محفوظ ہو جاؤں ۔

میرا ایک اور مقصد یہ تھا کہ امام رضا(ع) کو اپنی غاصب اور ستمگار حکومت سے نسبت دے کر لوگوں کی نظروں سے گرا دوں اور اگر موقع ہاتھ لگے تو جیسے بھی ممکن ہو، خود آپ پر اور آپ کی علمی و معنوی منزلت پر ایسی ضرب لگاؤ¶ں کہ جس کا جبران نہ ہوسکے۔

---------------

(۱):- اس واقعہ کے راوی بھی اباصلت ہیں لیکن ہم نے اس کو خود مامون کی زبانی بیان کیا ہے۔

۲۶

مجھ کو ایک موقع اس وقت ہاتھ لگا کہ جب امام رضا(ع)کے ولیعہدی قبول کرنے کے بعد مدتوں تک کوئی بارش نہ ہوئی اور میری حکومت میں سراسر خشکی اور خشکسالی کے آثار نمودار ہوئے ، جب کہ یہ خشک سالی کی مشکل معمولی تھی لیکن میں اور میرے ساتھیوں نے مشہور کردیا کہ جب سے امام رضا(ع) دنیا کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اورانہوں نے ولایت عہدی کو قبول کیا ہے خداوند عالم ان پر غصہ ہے اور ان سے ناراض ہے اسی لئے اس نے تمام لوگوں سے اپنی رحمت کو روک لیا ہے ۔

پھر بھی میں نے اس ضربت اور افواہ کو مکمل طریقہ سے اثر انداز بنانے کے لئے بظاہر خیرخواہانہ طور پر امام رضا(ع)سے التماس کی کہ ایک دن آپ لوگوں کے ساتھ جنگل جائیے اور نماز طلب باران پڑھئے تا کہ خداوند عالم اپنی رحمت سے بارش نازل کردے۔

میں بالکل مطمئن تھا کہ کسی بھی صورت میں بارش ہونا ممکن نہیں ہے ، میں نے سوچا کہ دومیں سے ایک حالت پیش آئی گی اور دونوں صورتوں میں یہ پیشنہاد امام (ع)کے لئے ایک جان لیوا حملہ ہوگی۔

۱۔ یا تو یہ کہ امام نماز باران پڑھنے کو قبول نہ کریں گے ، اس صورت میں ہم یہ بات پھیلائیں گے کہ امام رضا(ع)کو خوف تھا کہ کیںم ان کی دعا مستجاب نہ ہو، لہذا انھوں نے نماز باران پڑھنے سے انکار کردیا ۔

۲۔ یا پھر امام نماز باران پڑھنے کو قبول کرلیں اور خشکسالی کی وجہ سے بارش نہ ہو اس صورت میں بھی لوگوں کے در میان ان کی عزت و آبرو باقی نہ رہے گی اور ان کی امامت سے لوگوں کا اعتقاد اٹھ جائے گا!

لیکن امام(ع) نے بغیر کسی فاصلہ کے قبول کرلیا کہ لوگوں کے ساتھ جنگل میں جائیں گے اور نماز باران پڑھیں گے، میں نے امام سے پوچھا:

اے فرزند رسولﷺ ، کس وقت آپ نماز اور دعائے باران کے لئے نکلے گیں ؟

 آپ نے بلافاصلہ (جیسے کہ پہلے ہی سے اس نماز کے لئے پروگرام بنا چکے تھے) جواب دیا:

امام:پیر کے دن

۲۷

مامون: پیر کے دن!!ابھی کیوں نہیں ؟!

امام: کل رات میں نے اپنے جد امجد رسول خدا ﷺکو خواب میں دیکھا کہ آپ امیرالمؤ¶منین حضرت علی (ع) کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں :”پیر کے دن تک صبر کرواور جب پیر کا دن آئے تو نماز باران اور دعا کے لئے شہر سے نکل پڑو۔“

چونکہ ہم خواب پر یقین نہیں رکھتے تھے لہذا ہم نے قبول کرلیا اور منادی کرنے والوں سے کہا کہ شہر میں منادی کردیں کہ تمام لوگوں کو پیر کے دن امام رضا(ع) کی امامت میں نماز باران کے لئے نکلنا ہے تا کہ تمام لوگ امام(ع)کی دعا کے قبول ہونے کو مشاہدہ کرلیں!

جب پیر کا دن آیا اور لوگوں کا جمع غفیر امام رضا(ع)کے پیچھے بیابان کی طرف روانہ ہوا، آسمان بالکل صاف اور نیلا تھا ، بادل اور بارش کے کچھ آثار نظر نہ آرہے تھے!

ایسے حالات میں حمد پروردگار کے بعد امام نے آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کیا اورکہا:

”پروردگارا! تو نے اپنے رسول ﷺ کے خاندان کو بزرگی عطا کی ہے اور اب یہ لوگ تیرے فرمان کی بنا پر ہم سے متوسل ہوئے ہیں اور تیرے بے پایان فضل و رحمت اور احسان و نعمت کی امید رکھتے ہیں پس ہم پر رحمت کی بارش نازل کردے ، ایسی بارش کہ جسمیں فائدہ ہی فائدہ ہو اور کوئی نقصان نہ ہو ، لیکن معبود لوگوں کے گھروں کو پلٹنے کے بعد بارش نازل کر۔“

ابھی آپ کی تقریر کو چند منٹ بھی نہ گذرے تھے کہ سخت بجلی اور بادل آسمان میں ظاہر ہوگئے ، بہت تیز ہوا چلنے لگی اور بادل سروں پر آگئے ،لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہوگیا کہ جتنا جلد ممکن ہو اپنے گھروں کو پہنچ جائیں تا کہ بارش میں نہ بھیگنے پائیں، لیکن امام(ع) نے فرمایا:

۲۸

جلدی نہ کرو یہ بادل تمہاری سرزمین کے لئے نہیں ہیں یہ بادل فلاں منطقہ میں برسنے پر مإمور ہیں!

ایسا ہی ہوا ، وہ بادل آئے اور بغیر برسے چلے گئے پھر دوسرے بادل پہونچے پھر لوگ تیاریاں کرنے لگے کہ اٹھیں اور بھاگیں ، لیکن پھر امام(ع) نے ان کو جانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

یہ بادل بھی تمہاری سرزمین کے لئے نہیں ہیں ، یہ مامور ہیں کہ فلاں سرزمین پر برسیں!

اسی طرح بادلوں کے دس گروہ آئے اور بغیر برسے چلے گئے یہاں تک کہ بادلوں کے گیارہویں گروہ کے سرے نظر آنے لگے ۔ اس مرتبہ امام(ع) نے لوگوں سے خطاب کیا:

ان بادلوں کو خدائے مہربان نے تمہارے لئے بھیجا ہے ، اسکے فضل و کرم کا شکریہ ادا کرو اور اب اپنے گھروں کی طرف پلٹ جاؤ ، چونکہ جب تک تم لوگ اپنے گھروں کو نہ پہونچ جاؤ¶گے تب تک بارش نہیں ہوگی۔

بالکل ایسا ہی ہوا!جیسا ہی لوگ اپنے گھروں کو پہونچے ، ایسی بارش ہوئی کہ تمام حوض اورگڑھے اور نہر یں میں پانی سے بھر گئیں۔

اگر چہ میں غصے اور حسد سے جل رہا تھا پھر بھی میں نے امام رضا(ع)کے سامنے مسرت و خوشی کا اظہار کیا لیکن باطن میں دوسری فرصت تلاش کرنے لگا تا کہ ان سے اپنے دل کی بھڑ اس نکال لوں۔

--------------

(۱):- عیون اخبار الرضا ، ج۲ ، ص ۱۶۷.

۲۹

شیروں کا زندہ ہونا

ایک دن ”حمید بن مہران“ نے مجھ سے کہاکہ:   

اے مامون ہر روز علی ابن موسی الرضا(ع) کی محبت لوگوں کے دلوں میں بڑھتی جارہی ہے تم اس کو کس طرح برداشت کررہے ہو؟!اس بارش کو تو اس دن برسنا ہی تھا چاہے وہ نماز باران پڑھتے یا نہ پڑھتے تم لوگوں کو کیوں اجازت دے رہے ہو کہ وہ اس بارش کو علی ابن موسی الرضا(ع) کا معجزہ اور کرامت شمار کریں؟

مامون نے دلچسپی سے پوچھا: تمہارا پروگرام کیا ہے؟

حمید:تم ایک مجلس کا پروگرام رکھو تا کہ میں تمام حاضرین کے سامنے ان کی توہین کروں اور سب کو یہ سمجھادوں کہ یہ معجزہ نہیں دکھا سکتے اور اس بارش کا ان کی دعا اور نماز سے کوئی ربط نہیں ہے۔

مامون:میں احمق بھی بالکل گدھا بن گیا اور وہی کام کر بیٹھا جو حمید بن مہران چاہتا تھا، حمید بن مہران ایک بہت بڑا جادوگر تھا لہذا اس نے سب سے پہلے فن جادوگری کے ذریعہ دستر خوان پر امام سے کچھ چھیڑ چھاڑ کی (کھانا کھاتے وقت لقمہ کو امام رضا (ع)کے ہاتھ سے غائب کردیا )یہ دیکھ کر حاضرین ہنسنے لگے امام رضا(ع) حمید بن مہران کی ان حرکتوں سے ناراض 

ہوگئے لیکن آپ کے ما تھے پر بل نہ پڑے یہاں تک کہ حمیدنے حد سے زیادہ بے ادبی کی اور تمام حاضرین کے سامنے بلند آواز سے کہا:

اے علی بن موسی(ع) تم اپنی حد سے تجاوز کرچکے ہو اور وہ بارش جو خداوند عالم نے وقت معین میں نازل کی ہے اس کو اپنی دعا کا اثر سمجھتے ہو اور لوگوں سے کہتے ہو کہ میں خدا کے نزدیک صاحب عزت وبا عظمت ہوں اور جب گفتگو کرتے ہو تو اس

۳۰

طرح کہ جیسے تم نے ابھی ابھی ابراہیم خلیل اللہ کے معجزہ کی تکرار کی ہے کہ انھوں نے پرندوں کو اذن خدا سے زندہ کیا تھا اگر تم سچے ہو تو ان دو شیروں کو کہ جو مامون کی قالین پر نقش ہیں حکم دو کہ زندہ ہو کر مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ، اگر تم نے یہ کام کردیا تو یہ معجزہ مانا جائے گانہ یہ کہ ہم اس  بارش کو معجزہ مانیں جو کہ معمول کے مطابق ہوئی ہے۔

اس وقت امام رضا(ع) کو غصہ آگیا اگرآپ اس حساس موقع پر معجزہ نہ دکھاتے تو در حقیقت آپکی امامت پر حرف آجاتا اس لئے آپ نے شیروں کی تصویر کی طرف دیکھا اور کہا:

اس مرد فاسق و فاجر کو پکڑلو۔

 اچانک ان شیروں کی تصویر میں جان آگئی وہ قالین سے مجسم ہو کر دوڑے اور وحشتناک طریقے سے بدبخت حمید بن مہران کی جان پر ٹوٹ پڑے اور اس کے حرکت کرنے سے پہلے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے سب کے سامنے کھا گئے یہاں تک کہ زمین پر جو اس کا خون گرا تھا اس کو پی گئے اور اس کا کوئی نشان بھی باقی نہ چھوڑا!

حاضرین بری طرح ڈرگئے تھے اورکوئی بھی بولنے کی طاقت نہ رکھتا تھا یہاں تک کہ میں بھی!

لیکن اصلی حادثہ تو اس وقت پیش آیا کہ جب دونوں شیر امام رضا(ع)کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اپنے سر کے ذریعہ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے امام سے پوچھا :

اے ولی خدا! اگر آپ حکم دیں تو اس شخص (مامون)کو بھی اس کے دوست سے ملحق کردیں۔

بس اب کیا تھا میں نے اپنی فاتحہ پڑھ لی ، عزرائیل کو غصہ سے بھرے ہوئے دو درندہ شیروں کی شکل میں دیکھ لیا اور خوف کی شدت سے بے ہوش ہوگیا!

لیکن امام رضا(ع)نے ان شیروں سے کہا کہ :

خداوند عالم خود اسکے بارے میں فیصلہ کریگا اب تم اپنی پرانی جگہ اور حالت پر پلٹ جاؤ¶۔

۳۱

جب میں ہوش میں آیا تو حکومت کو امام رضا(ع) کو بخش دیا اورآپ کی طرف رخ کرکے ہانپتے اور لرزتے ہوئے کہا:

 شکر پروردگار کے ہم کو حمید بن مہران کے شر سے محفوظ رکھا۔ اے فرزند رسول آج میں بہت اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ یہ حکومت اور خلافت آپ اور آپ کے خاندان سے متعلق ہے ، اب جو آپ پسند کریں۔(اب جو چاہیں کریں)

امام نے میری بات کو کاٹتے ہوئے کہا:

اے مامون ! اگر مجھے اس خلافت سے کوئی لگاؤ ہوتا تو میں تم سے بحث و مباحثہ کرنے نہ بیٹھتا، چونکہ خدا کی تمام مخلوقات اسکے اذن سے میرے اختیار میں ہیں لیکن میں خداکی طرف سے مامور ہوں کہ تمہارے کام میں دخل اندازی نہ کروں(تمہارے کام سے مطلب نہ رکھوں)۔

--------------

(۱):- عیون اخبار الرضا ، ج۲، ص ۱۷۰.

۳۲

بادشاہ ہند کے تحفے

ایک بہت دلچسپ اور درس آموز واقعہ امام رضا(ع)نے مجھ سے بیان کیا میں بھی چاہتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں۔

امام رضا(ع): میرے بابا موسی بن جعفر(ع) فرماتے ہیں کہ:

ایک دن میں اپنے بابا امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ ایک دوست اندر آیا اور کہا:

بہت سے سوار دروازے پر کھڑے ہیں اور امام صادق (ع)سے ملاقات کی اجازت چاہتے ہیں۔

بابا نے میری طرف رخ کیا اور کہا:

بیٹا دیکھو دروازے پرکون لوگ ہیں:

جب میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ سامنے ایک بڑا کاروان ہے کہ جس میں کچھ اونٹ ہیں کہ جنکی پشت پر مال سے بھرے ہوئے صندوق لادے گئے ہیں اور بہت سارے سوار بھی انکے ہمراہ ہیں،ان کا فرمانروا آگے آگے ایک خوبصورت اور سجے ہوئے اونٹ پر سوار تھا۔

امام کاظم(ع): تم کون ہو اور کیا کام ہے؟

جب میں نے یہ پوچھا تو اس نے جواب دیا:

میں ہندوستان سے ہوں اور امام صادق (ع)سے ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں۔

امام کاظم(ع):جب میرے بابا نے یہ سنا تو غصے سے بھڑک اٹھے اور فرمایا:

اس نجس نامرد، خیانتکار کو داخل ہونے کی اجازت نہ دو!

۳۳

مرد ہندی ایک طولانی مدت تک دروازے پر کھڑا رہا لیکن داخل ہونے کی اجازت نہ ملی یہاں تک کہ اس نے سلمان کے بیٹے یزید اور محمد کو وسیلہ بنایا کہ یہ دونوں میرے بابا کی خدمت میں آتے رہتے تھے۔

جب مرد ہندی امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو زانوئے ادب تہہ کرکے بہت ہی مودبانہ انداز میں شکوہ کیا:

خدا امام کے کاموں کی اصلاح فرمائے ، میں ہندوستان کا رہنے والا ہوں اور وہاں کے بادشاہ کا قاصد ہوں اور اس کی طرف سے آپکے لئے کچھ قیمتی ہدیے اور ایک خط لے کر آیا ہوں ، اب آپ یہ بتائیں کہ میری کیا خطا ہے کہ آپ نے مجھ کو دروازے پر کھڑے رکھا اور اندر آنے کی اجازت نہ دی ، کیا پیغمبر اکرمﷺ کے فرزند مہمانوں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے ہیں؟

امام نے لوگوں کی طرف دیکھا اور کہا:

وَلََتَعلَمَنَّ نَبَّاهُ بَعدَ حِینٍ (۱)

بہت جلدہی تم اسکے بارے میں جان لو گے۔

امام نے پھر سے فرمایا:

اے میرے بیٹے موسی(ع) ، اس سے خط لے لو اور اس کو کھولو۔

خط کا مضمون یہ تھا:

--------------

(۱):- سورہ ص (۳۸) ، آیت ۸۸.

۳۴

بسم الله الرحمن الرحیم

بہ خدمت جعفر بن محمد طاہر و مطہر

از طرف بادشاہ ہند

اما بعد، خداوند عالم نے مجھے آپ کے ذریعہ ہدایت عطا فرمائی ، مجھے ایک ایسی کنیز ملی ہے کہ میں نے اپنی تمام عمر میں کسی عورت کو اس سے خوبصورت نہیں دیکھا ہے ، میں نے سوچا کہ آپ کے علاوہ کسی میں صلاحیت نہیں ہے کہ اس کا مالک بنے ،

میں کچھ زیورات ، جواہرات اور خوشبو دار عطر کے ساتھ اس کنیز کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں، میں جانتا ہوں کہ اتنی قیمتی اور عمدہ چیزہر کسی کے حوالہ نہیں کی جاسکتی لہذا میں نے اپنے وزیروں کو جمع کیا اور ان کی مدد سے ایک ہزار امین لوگوں کو چنا اس کے بعد ان ایک ہزار میں سے سو کو انتخاب کیااور پھر اس کے بعد ان سو میں سے دس لوگوں کو منتخب کیا اور پھر آخری مرحلہ میں ان دس میں سے میزاب بن حباب نامی ایک شخص کو چنا کہ میرے نزدیک اس سے زیادہ کوئی امین نہ تھا، تب کہیں اس خوبصورت اور چاندسی عورت کو میں نے اس کے حوالہ کیا تا کہ اس کو آپ تک پہنچادے۔

خط کا مضمون سنانے کے بعد امام نے مرد ہندی کی طرف رخ کرکے غصہ اور نفرت کی انداز میں فرمایا :

اے خیانتکار پلٹ جا اور بادشاہ ہند کے تمام تحفوں کو واپس لے جا، میں حتماً اس میں سے کچھ بھی قبول نہ کروں گا چونکہ تو نے اس میں خیانت کی ہے!

مرد ہندی نے یہ حالات دیکھے تو قسم کھاکر خیانت کا انکار کرتے ہوئے کہا:

خدا کی قسم ، بزرگوں کی قسم، پیغمبرﷺکی قسم میں نے کوئی خیانت نہیں کی ، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ مجھ بے گناہ کے بارے میں ایسا برا خیال کیوں کر رہے ہیں ؟

۳۵

لیکن میرے پدر بزرگوار علم امامت سے ہر چیز جانتے تھے ، آپ نے بڑے سرد لہجہ میں فرمایا :

اگر تیر ا کوئی لباس گواہی دے کہ تو نے خیانت کی ہے تو کیا تو اسلام کو قبول کرلے گااور گواہی دیگا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں؟

لیکن اس مرد بدبخت نے دنیا اور آخرت کی تمام نیکیوں کو ٹھکڑاتے ہوئے کہا: مجھے اس کام سے معاف کیجئے۔

امام صادق(ع): اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو میں تمہاری خیانتکاری کو بادشاہ ہند کو لکھوں گا تا کہ وہ خود تمہارے بارے میں فصلہ  کرے۔

میزاب(مرد ہندی): میں نے کوئی خیانت نہیں کی ہے لیکن اگر آپ(ع) کو کوئی خبر ہے تو بادشاہ کو لکھ دیجئے۔

میزاب کے بدن پر ایک کوٹی تھی ، امام نے میزاب سے کہا :

اس کوٹی کو اتارو !

میزاب نے غفلت اور بے خیالی کے ساتھ اپنی کوٹی کو اتار ا اور زمین پر پھینک دیا،میرے بابا(امام صادق(ع)) نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور نمازکے آخری سجدہ میں دعا کی:

پروردگار تجھے تیری عزت اور کمال رحمت کا واسطہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد اور آل محمد پر دورد بھیج اور میزاب کی کوٹی کو حکم دے کہ وہ بولے اور جو کام اس نے انجام دیا ہے عربی زبان میں اس کو سب کے سامنے بیان کرے تا کہ ہمارے تمام دوست جو اس مجلس میں جمع ہیں وہ سب سنے اور یہ اہلبیت پیغمبرﷺ کے معجزات میں شمار ہو اور دوستوں کے ایمان میں اضافہ کا سبب بنے ۔

میرے پدر بزگوار (امام صادق (ع)) نے سجدہ سے سر اٹھایا ، کوٹی کی طرف رخ کرکے فرمایا:

اے کوٹی تو میزاب کے بارے میں جو کچھ جانتی ہے بیان کر۔

۳۶

سب نے کمال تعجب سے دیکھا کہ کوٹی ہل کر ایک پرندہ کے صورت میں تبدیل ہوگئی اور بولنا شروع کیا :

اے فرزند رسولﷺ ، بادشاہ ہند نے اس شخص پر اعتماد کیا ، کنیزکو دوسرے اموال کے ساتھ اس کے سپرد کردیا تا کہ آپ تک پہونچادے اور ان کی حفاظت کے بارے میں اس کو بہت تاکید کی ، جب ہم ایک جنگل میں پہونچے ، تو موسلا دھار بارش ہونے لگی جو کچھ بھی ہمارے ساتھ تھا سب بھیگ گیا بارش بند ہوئی تو اس مرد نے اس کنیز کے ”بُشر “نامی خادم کوبلاکر کچھ درہم اس کو دئے اور کہا :”نزدیک کے شہر میں جاؤ اور ہمارے لئے کھانے کا کچھ انتظام کرو “۔

پھر میزاب نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ دھوپ میں اس کنیز کے لئے خیمہ لگاؤ، جب خیمہ تیار ہوا تم میزاب نے کنیز کو حکم دیا کے اس خیمہ میں داخل ہو جاؤ اور اپنا لباس تبدیل کرکے خشک کر لو ، تمام زمین پانی سے گیلی تھی ، اس کنیز نے اپنے کپڑے کو کچھ اوپر اٹھایا اور خیمہ میں وارد ہوئی ، عین اسی وقت میں میزاب کی نگاہیں اس کنیز کے برہنہ پیروں پر جا پڑیں ، میزاب پر شہوت طاری ہوئی اور وہ خیمہ میں داخل ہو گیااور کنیز کے ساتھ زنا کیا ، کنیز کو یہ بات بری نہ لگی اور اس نے میزاب کی خواہش کو پورا کردیا، اس طریقہ سے اس مرد ہندی میزاب نے آپ کے ساتھ خیانت کی ہے۔

میزاب نے جب یہ منظر دیکھا تو خود کو زمین پر گرا دیا ، رونے لگا اور کہا :

میں نے غلطی کی ، خطا کی میں اپنی خطا کا اقرار کرتا ہوں اورآپ سے رحم کا طلب گار ہوں ۔

امام کے اشارہ سے کوٹی اپنی پرانی حالت پر پلٹ گئی۔ امام نے میزاب سے کہا:

اپنی کوٹی اٹھااور پہن لے۔

جیسے ہی میزاب نے کوٹی کو اٹھا کر پہننے کے ارادہ سے کاندھے پر رکھا، کوٹی کی آستینںن میزاب کی گردن میں لپٹ گئیں اور اس کے گلے کو دبانا شروع کیا ، یہاں تک کے اس کا چہرہ کالا ہو گیا اور مرنے میں کچھ باقی نہ تھا کہ امام (ع)نے کوٹی کو مخاطب کر کے کہا:

اے کوٹی اس کو چھوڑ دے تا کہ یہ اپنے بادشاہ کے پاس واپس چلا جائے اور وہ خود اس کے بارے میں فیصلہ کرے ۔

۳۷

میزاب لرز رہا تھا اور خوف و وحشت کے آثار اس کے چہرہ پر نمایان تھے اس نے امام(ع) سے عرض کیا :

خدا مجھ پر رحم کرے ، اگر آپ نے بادشاہ ہند کے تحفے واپس کردئے تو مجھے ڈر ہے کہ بادشاہ مجھ پر غصہ ہو اور مجھے سزا دے ، وہ بہت سخت سزا دیتا ہے !

امام چاہتے تھے کے اس کو نجات مل جائے ، لہذا آپ نے فرمایا: اسلام قبول کرلو تا کہ میں کنیز تم کو بخش دوں اور تم اس شادی کرلو۔

لیکن اس بدبخت نے غرور اور تعصب کی بنا پر کہا :

میں آپ سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں مجھے اس کام سے معاف رکھئے !

امام نے تحفوں کو قبول کیا لیکن کنیز کو واپس کردیا کچھ مہینے بعد بادشاہ ہند کا خط امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہونچا جس کا مضمون یہ تھا:

بسم الله الرحمن الرحیم

بخدمت امام جعفر صادق بن محمد علیہما السلام

از طرف بادشاہ ہند

امابعد میں نے ایک کنیز ہدیہ کے طور پر آپکی خدمت میں بھیجی تھی لیکن جن تحفوں کی کوئی قیمت نہ تھی ، ان کو آپ نے قبول کرلیا اور جو کنیز میری نظر میں تمام تحفوں سے قیمتی تھی اس کو آپ نے واپس کردیا! آپ کے اس کام سے میرا دل ٹوٹ گیا تھا لیکن میں جانتا تھا کے اللہ کے پیغمبرﷺ اور ان کی اولاد بہت زیادہ ذہین ہوتے ہیں اس لئے میں نے اپنے قاصد کو خیانت کار سمجھا ، میں نے اپنی طرف سے ایک خط لکھا اور اپنے قاصد میزاب سے کہا کہ یہ خط امام(ع)کے طرف سے مجھے ملا ہے

۳۸

اور امام نے مجھے تیرے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے اور میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تم سچ سچ نہ بتادو تب تک تم کو نجات نہیں مل سکتی ۔

 میری اس چالاکی کے ذریعہ میزاب اور کنیز دونوں نے اپنی خیانت کا اقرار کرلیااور کوٹی کا واقعہ بھی مجھ سے بیان کیا کہ جو میرے تعجب اور ایمان میں اضافہ کا سبب بنااور میں نے ان دونوں خیانت کاروں کو قتل کردیا ۔

جان لیجئے کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ پروردگار کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے کہ جو اکیلا اور بے مثل ہے اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، ان شاءاللہ اس خط کے بعد میں بھی آپ کے خدمت میں حاضر ی دوں گا ۔

کچھ دنوں بعد بادشاہ ہند نے بادشاہی کو چھوڑ دیا اور اپنے تمام وجود کے ساتھ اسلام کا عاشق وگرویدہ ہو گیا!

--------------

(۱):-  بحار الانوار ، ج ۴۷ ، ص ۱۱۳  ۱۱۵، بہ نقل از الخرائج و الجوارح ، ص ۱۹۹.

۳۹

عصمت انبیاءکے بارے میں امام رضا علیہ السلام    کا مناظرہ

اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ مامون نے امام رضاعلیہ السلام کے مقام علمی و معنوی پر ضرب لگانے کے لئے ہرممکن فریب و مکاری کو  استعمال کیا ۔ اسکا ایک حیلہ اور مکر یہ تھا کہ تمام مذاہب و ادیان کے علماء اور دانشمندوں کو دعوت دیتا تھاوعلمی اور دینی مناظرات کی محافل منعقد ہوتی تھی جن میں تمام مذاہب کے علماءکے مقابل میں امام رضا (ع) ہوتے تھے ان تمام مناظروں میں جو لوگ بھی امام(ع) سے بحث کرتے تھے سب کو شکست فاش ہوتی تھی اور سب شرمندہ ہوتے تھے، ایک روز مناظرے میں علی بن محمد بن الجہم اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے بہت ادب کے ساتھ اسلام کے مختلف فرقوں کے علماءاور علماءیہود ، علماءمسیحی ، علماءزرتشتی گویا تمام مذاہب کے علماءکے سامنے اپنا سوال بیان کیا۔

علی ابن محمد بن الجہم : عصمت انبیاءکے بارے میں آپکا کیا نظریہ ہے ؟

کیا آپ ان سب کو معصوم سمجھتے ہیں؟

علماء: ہاں ہم ان سب کو معصوم مانتے ہیں۔

علی بن محمد بن الجہم: پس آپ ان آیات کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ جن سے انبیاءکی عصمت پر اعتراض ہوتا ہے جیسا کہ خداوند قرآن کریم میں فرماتاہے:

﴿وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى﴾

آدم نے اپنے رب کی معصیت کی اور وہ گمراہ ہوگئے۔(۱)

--------------

(۱):- سورہ طہ (۲۰)، آیت ۱۲۱.

۴۰

﴿وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ﴾ (1)

اور یونس اپنی قوم کے در میان سے غصے کی حالت میں چلے گئے اور گمان کیا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔

﴿وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا﴾ (2)

زلیخا نے یوسف کا ارادہ کیا اور یوسف نے زلیخا کا۔

﴿وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ﴾ (3)

اور داؤ¶د نے گمان کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لے لیا ۔

﴿وَتُخْفِی فِی نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِیهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ﴾ (4)

تم اپنے دل میں (زید کی بیوی کے بارے میں) کچھ چھپائے ہوئے تھے کہ خدا نے اس کو ظاہر کردیااور تم لوگوں سے ڈرتے ہو جبکہ مناسب یہ ہے کہ تم فقط اللہ سے ڈرو ۔امام رضاعلیہ السلامنے جب انبیاءکے بارے میں علی بن محمد بن جہم کی یہ تہمتیں سنی تو غصہ ہوئے اور فرمایا: اے ابن جہم تجھ پر لعنت ہو ، خدا سے ڈراور ان برے گناہوں کی نسبت پیامبران خدا کی طرف مت دے اور قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے نہ کر! کیا تو نے خداکا یہ فرمان نہیں سنا:

﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِیلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ﴾ (5)

تاویل (اور تفسیر قرآن) خدا اور راسخون(6) فی العلم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

--------------

(1):- سورہ انبیاء (21)، آیت 87.

(2):- سورہ ی یوسف (12)، آیت 24.

(3):- سورہ ص (38)، آیت 24.

(4):- سورہ ی احزاب (33)، آیت 37.

(5):- سورہ ی آل عمران (3)، آیت 7.

(6):-  یعنی 14 معصوم(ع).

۴۱

خداوند کے جس فرمان سے تو نے حضرت آدمعلیہ السلام پر اعتراض کیا ہے اسکا جواب یہ ہے کہ:

خدا نے حضرت آدم کو اس لئے پیدا کیا کہ اپنی زمین پر ان کو حجت اور خلیفہ بنائے اس لئے نہیں کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں اور جس کو تم گناہ سمجھ رہے ہو وہ کام آدم نے جنت میں انجام دیا تھا نہ کہ زمین پر لہذا زمین پر اسکے سلسلے میں مقدرات اور حدود الہی جاری نہیں ہونگے پس جب آدم زمین پر آئے اور خدا کی حجت اور خلیفہ مقرر ہوگئے تو ان کو عصمت بھی عطا کی گئی جس کی دلیل یہ آیت ہے :

﴿إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِینَ ﴾ (1)

خداوند عالم نے آدم ، نوح اور خاندان ابراہیم و خاندان عمران کو تمام عالمین پر چن لیا۔

خداوند عالم کی جانب سے لوگوں کی ہدایت اور رہبری کے لئے چنا جانا خود عصمت کی دلیل ہے کیوں کہ بغیر عصمت کے اس کے انتخاب کا مقصد بے معنی ہو جائیگا۔

اور حضرت یونسعلیہ السلام کے بارے میں (لن نقدر) سے مراد یہ نہیں ہے کہ انھوں نے یہ گمان کیا کہ خدا ان کو سزا دینے پر قادر نہیں ہے بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ حضرت یونس نے گمان کیا کہ خداوند عالم ان کی روزی کے سلسلے میں ان پر سختی نہیں کریگا کیا تونے خداوند عالم کا قول نہیں سنا!

﴿وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ﴾ (2)

لیکن جب خداوند انسان کوسختی میں  مبتلا کرتا ہےاور اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے میری توہین کردی۔

--------------

(1):- سورہ ی آل عمران (3) ، آیت 33.

(2):- سورہ فجر (89)، آیت 16.

۴۲

اور اگر یونس گمان (یقین)کرلیتے کہ خدا ن پر قادر نہیں ہے تو بغیر کسی شک کہ وہ کافر ہوگئے ہوتے۔

اب رہی بات حضرت یوسف(ع) کی تو انکے سلسلے میں فرمان خدا کا مقصد یہ ہے کہ زلیخا نے گناہ میں وارد ہونے اور جناب یوسف (ع)کا غلط استعمال کرنا کا ارادہ کیا اور جناب یوسف (ع)نے زلیخا کو قتل کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ آپ کو گناہ کبیرہ کا مرتکب کرنا چاہتی تھی لیکن خدا نے یوسف کو قتل اور فحشا (زنا)دونوں سے بچالیا یعنی یہاں پر ”سوء“سے مراد قتل اور فحشاسے مراد زنا ہے۔

اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جناب داؤ¶د کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟

علی بن محمد بن جہم نے ایک گڑھی ہوئی، جھوٹی داستان سنانا شروع کی:لوگ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت داؤد محراب میں نماز پڑھنے میں مشغول تھے کہ ابلیس ایک خوبصورت پرندہ بن کر ان کے سامنے آیا ۔ جناب داؤ¶د نے اس پرندے کو پکڑنے کے لئے اپنی نماز کو توڑ دیا اور اسکے پیچھے چھت تک پہونچ گئے وہاں سے آپکی نظر اپنے لشکر کے فرمانروا ”اوریا بن حنان“کی بیوی کے ننگے بدن پر پڑی کہ جو نہا رہی تھی اور آپ صرف ایک دل سے نہیں بلکہ سو دل سے اسکے عاشق اور دیوانے ہوگئے چونکہ آپ ایک شوہر دار عورت سے شادی نہیں کرسکتے تھے لہذا آپ نے اوریا ( کہ جو اس وقت محاذ جنگ پر تھا)کو فرماندہ کے عنوان سے سب سے پہلی صف میں بھیج دیا تا کہ وہ قتل ہو جائے اتفاقاً وہ اس جنگ سے کامیابی کہ ساتھ پلٹ آیا یہ کامیابی جناب داؤ¶د کو بہت بری لگی اور حکم دیا کہ دوبارہ (دوسری جنگ میں)بھی ان کو پہلی صف میں بھیجا جائے اس مرتبہ اوریا جنگ میں مارا گیا اور جناب داؤ¶د نے اس کی بیوی سے شادی کرلی۔

امام رضاعلیہ السلام نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور فرمایا:

﴿انّا لله وَ اِنَّا اِلَیهِ رَاجِعُون﴾ (1)

-------------

(1):- کلمہ استرجاع (خواہش رجعت تمنائے رجوع) ہے مصیبت کے وقت بولاجاتا ہے۔

۴۳

تو نے خدا کے نبی ﷺپر بہت بری تہمت لگائی ہے ، نماز کو ہلکہ سمجھنا وہ بھی صرف ایک پرندہ کو پکڑنے کے لئے ، اس کے بعد گناہ کا ارتکاب اور آخر میں ناحق قتل!

ابن جہم: اے فرزند رسول!ﷺاگر یہ بات سچ نہیں ہے تو پھر خداوند عالم نے جو آیت میں کہا ہے کہ داؤ¶د نے خطا کی ، وہ کونسی خطا ہے؟

امام: تجھ پر لعنت ہو ، انھوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا ، ان کے کام پر خدا کا اعتراض صرف اس لئے تھا کہ انھوں نے خود اپنی طرف سے گمان کیا تھا کہ خداوند عالم نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو ان سے زیادہ علم رکھتی ہو!

خداوند عالم نے دو فرشتوں کو بھیجا وہ دونوں اللہ کے حکم سے انسان کی شکل میں آگئے اور جناب داؤ¶د کی عبادتگاہ کی دیوار کے اوپر بیٹھ گئے اور کہا:

ہم دونوں آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں ، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ستم کیا ہے اب ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور ہم کو صحیح راستے کی ہدایت کریں ۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا اور کہا:یہ میرا بھائی ہے اسکے پاس ۹۹ بھیڑیں ہیں اور میرے پاس صرف ایک بھیڑ ہے وہ کہتا ہے کہ یہ ایک بھیڑ بھی تم مجھ کو دیدو اور وہ بولنے میں مجھ سے بہت آگے ہے۔(1)

جناب داؤد نے جلدی کی اور بغیر گواہی طلب کئے اسکے دوسرے بھائی پر حکم لگاتے ہوئے کہا:

تمہارا بھائی تم پر ستم کر رہا ہے کہ تم سے تمہاری بھیڑ مانگ رہا ہے۔(2)

-------------

(1):- سورہ ی ص(38)، آیات 22/23.

(2):- ہمان، آیت 24.

۴۴

داؤد کی خطا صرف انکے فیصلہ کرنے میں تھی یہ خطا نہیں تھی جو تم سمجھ رہے ہو، جس کی دلیل خداوند عالم نے آیت میں پیش کی ہے۔

﴿يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِیفَةً فِی الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى ﴾ (1)

ای داود ! ہم نے تم کو زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا کر بھیجا ہے ، پس تم لوگوں کے در میان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات نفس کی پیروی نہ کرو۔

اگر داؤ¶د اتنا بڑا گناہ کرتے تو پھر خدا ان کو اتنا بلند مقام کیسے عطا کرسکتا تھا؟!

علی بن محمد ابن جہم ، بہت بد حواس ہو گیا تھا ، اس نے پوچھا:

اے فرزند رسول ، پھر داؤ¶د کا اوریا کے ساتھ کیا معاملہ تھا؟

امام(ع) نے جواب دیا:

جناب داؤ¶د کے زمانے میں قانون تھا کہ جس عورت کا شوہر مر جائے یا قتل ہو جائے اس عورت کو آخر عمر تک شادی کا حق حاصل نہ ہوتا تھا اس پر لازم ہوتا تھا کہ تنہا زندگی بسر کرے ۔ سب سے پہلے خداوند عالم نے جناب داؤ¶د(ع) کو اجازت دی تھی کہ وہ بیوہ عورت سے شادی کر سکتے ہیں لہذا انھوں نے اوریا کی بیوہ سے شادی کرلی اور یہ کام بعض لوگوں کو بہت برا لگا!

رہی بات حضرت محمد ﷺ کی کہ خداوندعالم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:

تم نے اپنے دل میں کچھ چھپا رکھا تھا خدانے اس کو ظاہر کردیا۔

-------------

(1):-  ہمان ، آیت 26.

۴۵

ماجرا اس طرح سے ہے کہ خداوند عالم نے پیغمبرﷺ کو آپ کی دنیا اور آخرت کی تمام بیبیوں (کہ جو مؤ¶منین کی مائیں ہیں اور پیغمبرﷺ کے بعد کوئی ان سے شادی نہیں کرسکتا)کے نام بتادیئے تھے ان میں ایک نام زینب بنت جحش کا بھی تھا جب کہ اس زمانے میں زینب آپ کے منھ بولے بیٹے زید کی بیوی تھی اور پیغربیﷺ(اس خوف سے کہ کہیں منافقین یہ نہ کہیں کہ آپ ایک شوہر دار عورت کا نام اپنے بیوی کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں اور آپ کی نظریں اس کی طرف جمی ہوئی ہیں)زینب کے نام کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔

یہاں تک کہ زید نے پیغمبر ﷺ کی نصیحتوں پر عمل نہ کیا کہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھے اور اپنی بیوی  زینب کو طلاق دیدی تو پیغمبرﷺ کو اللہ کا حکم ہوا کہ زینب سے شادی کرلیں تاکہ منھ بولے بیٹے کی بیوہ سے شادی کرنا مؤ¶منین کے لئے مشکل نہ ہو لیکن پھر بھی پیغمبر ﷺ منافقین کی سازشوں سے فکر میں ڈوبے ہوئے تھے ، لہذا خدا نے فرمایا:

تم خدا کے سوا کسی سے کیوں ڈر تے ہو؟! بہتر یہ ہے کہ صرف خدا سے ڈرو اور اس کے حکم کو بجالاؤ¶۔(1)

اور تم یہ بھی جان لو کہ تین شادیوں کا حکم خود پروردگارنے دیا ہے:

۱۔ آدم کی شادی حوا سے

۲۔ زینب کی شادی آخری رسولﷺ سے

۳۔ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شادی علی علیہ السلام سے

جب امام رضا(ع) کا بیان یہاں تک پہونچا تو علی بن جہم رونے لگا اور کہا:

اے فرزند رسول!ﷺ میں خدا وند عز و جل کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد انبیا (ع)کے بارے میں صرف وہی کہوں گا جو آپ نے فرمایا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہوں گا!(2)

--------------

(1):- سورہ ی احزاب(33)، آیت 37.

(2):- بحار الانوار ، ج11 ، ص 72-74، بہ نقل از امالی شیخ صدوق ، ص 55-57 و عیون اخبار الرضا، ص 107-108.

۴۶

صلہ رحم

میں علی بن ابی حمزہ ہوں(1) میں چاہتا ہوں کہ ایک عجبک ،دلچسپ اور درس آموز واقعہ آپکے سامنے باان کروں :

ایک دن میں امام موسیٰ بن جعفر(ع)کی خدمت میں تھا حضرت نے بغر  کسی مقدمہ کے ایک ذمہ داری مجھے سونپی :

اے علی بن ابی حمزہ !بہت جلد اہل مغرب سے ایک شخص تمہاری تلاش میں آئیگا اور تم سے میرے بارے میں سوال کریگا،تم اسکے جواب میں کہنا کہ ”خدا کی قسم یہ وہی امام ہیں کہ جنکی امامت کی تائید امام صادق (ع) نے ہمارے سامنے کی ہے“ پھر وہ تم سے حلال و حرام کے بارے میں سوال کریگا،تم میری طرف سے اسکے سوالوں کا جواب دینا۔

میں نہیں جانتا تھا کہ اس شخص کو کس طرح پہچانوں گااس لئے میں نے عرض کیا:

میری جان آپ پر قربان ،اس شخص کی علامت کیا ہے؟

امام نے فرمایا:

وہ شخص طویل قد اور بھاری جسم کا آدمی ہے اسکانام یعقوب ہے،تم فکر نہ کرو وہ خود تمکو پہچان لیگا اور تم سے کچھ سوالات کرےگا تم اسکے تمام سوالوں کے جواب دینا!وہ اپنی قوم کا رئیس ہے۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہے کہ امام کاظم(ع) شدید گھٹن کے ماحول میں زندگی گزار رہے تھے اور سختی سے تقیہ کا حکم دیتے تھے یہاں تک کہ ہم کو اس بات کی بھی اجازت نہ تھی کہ ہم ہر سوال کا جواب دیں چونکہ ممکن تھا کہ سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس ہو ۔

--------------

(1):- اس واقعہ کو اباصلت نے امام رضا (ع) سے نقل کیا ہے اس لئے یہ خاطرات اباصلت از امام رضا(ع) میں شامل ہے اور اسی وجہ سے ہم نے اس کو ذکر بھی کیا ہے البتہ یہ روایت دوسری اسناد سے بھی ذکر ہوئی ہے لیکن وہاں پر علی بن ابی حمزہ کے شعیب العقر قوقی کا نام ذکر ہوا ہے۔

۴۷

امام(ع) نے میری فکر کو ختم کرتے ہوئے فرمایا :

اگر وہ مجھ سے ملاقات کرنا چاہے تو اس کو میرے پاس لے آنا۔

خدا کی قسم میں طواف کعبہ کر رہا تھا ،تیھا ایک طویل قد اور بھاری کا جسم آدمی میرے پاس آیا اور کہا:

میں چاہتا ہوں کہ تمہارے آقا کے بارے میں تم سے سوال کروں۔

میں مطمئن نہیں تھا کہ یہ وہی شخص ہے کہ جسکے بارے میں امام(ع) نے فرمایا تھا لہذا میں کنارے ہو ا اورپوچھا:

کون سے آقا کی بات کر رہے ہو؟

 اس سوال کے جواب میں جب اس نے امام موسیٰ ابن جعفر(ع)کا نام لیا تو میں نے اطمینان قوی حاصل کرنے کی لئے اس سے پوچھا:

تمہارا نام کاے ہے؟

اس نے کہا: میرا نام یعقوب ہے۔

میں نے پوچھا :تم کہاں کے رہنے والے ہو؟

اسنے جواب دیا کہ میں مغرب کا رہنے والاہوں۔

اب میری فکر کو کچھ راحت حاصل ہوئی لیکن مجھے تعجب ہوا کہ ایک اجنبی انسان نے مجھے کے م پہچانا اور یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں امام کاظم(ع)سے تعلق رکھتا ہوںاور بغیر کسی خوف کے مجھے تلاش کر کے امام(ع)کے بارے سوال کر رہا ہے!

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اس سے سوال کیا ۔

تم نے مجھ کو کیسے پہچانا؟

اس نے بڑا دلچسپ جواب دیا:میں نے ایک شخص کو خواب میں دیکھاکہ اس نے مجھ سے کہا :

۴۸

علی بن ابی حمزہ کو تلاش کرواور اپنے تمام سوالوں کے جوابات ان سے دریافت کرو۔

میں نے یہاں کے رہنے والوں سے پوچھا کہ علی بن ابی حمزہ کون ہے؟

ان لوگوں نے تمہاری طرف اشارہ کر کے کہاکہ یہ علی ابن ابی حمزہ ہیں۔

اب میں بالکل مطمئن ہو گیاتھا اور میں نے اس سے کہا :

تم یہیں بیٹھو میں اپنا طواف پورا کر کے تمہاری خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔

طواف تمام کرنے کے بعدمیں واپس ہوااور جب میں نے اس سے گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک عاقل اور منطقی انسان ہے ۔

اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے امام(ع) کی خدمت میں لے چلو۔

میں نے اسکی درخواست کو قبول کیا اور اسے امام(ع) کی خدمت میں لے آیا۔

جب امام (ع)نے اسکودیکھا تو فرمایا:

اے یعقوب کل فلاں جگہ پر تمہارے اور تمہارے بھائی کے بیچ میں جھگڑا ہو گیا تھا یہاں تک کہ تم نے ایک دوسرے کوگالی بھی دی تھی۔

یہ چیز ہمارے دین سے بالکل خارج ہے اور ہم کسی کو بھی ایسے کاموں کا حکم نہیں دیتے چاہے وہ ہماری پیروی کرتا ہو یا نہ کرتا ہو ۔

اس خدا سے ڈرو جویک و تنہا اور لا شریک ہے چونکہ بہت جلدہی موت تم دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیگی ۔

یعقوب ابھی تھوڑے سے وقت ہی میں غیب کی کئی خبریں سن چکا تھا اس لئے وہ موت اور جدائی کی باتیں سنکر فکر میں ڈوب گیا۔

امام(ع) نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

۴۹

تیرا بھائی اس سفر میں گھر پہونچنے سے پہلے انتقال کرجائیگا اور تم نے جو اس سے جھگڑا کیا ہے تمکو اس پر شرمندگی ہوگی۔

یعقوب نے امام(ع)سے سوال کیا کہ آخر ہم لوگ کیوں اتنی جلدی جدا ہو جاینگے؟

امام(ع) نے جواب میں فرمایا:

چونکہ تم نے آپ سی تعلقات کو ختم کر دیا ہے لذما خدا نے تمہاری زندگی کے رشتے کو ختم کر دیا۔

یعقوب بہت پریشان ہوا اور اضطراب وبے چینی کے عالم میں امام(ع) سے سوال کیا:

پھر تو میں بھی جلد ہی مر جاؤنگا؟

امام(ع) نے فرمایا:

ہاں تم بھی اپنے بھائی کی طرح جلد ہی اس دنیا سے چلے جاتے لیکن چونکہ تم آنے والے وقت میں اپنی پھوپھی کی خدمت کروگے اس لئے خدا وند عالم نے تمہاری عمر میں بیس سال کا اضافہ کر دیا ہے۔

 ایسا ہی ہوا !اگلے سال جب میں نے یعقوب کو مراسم حج میں دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا:

اے علی بن ابی حمزہ تم نے میری بدبختی کو دیکھا میرا بھائی گھر تک بھی نہ پہونچ سکا اوردرمیان راہ ہی میں انتقال کر گیا۔(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 48 ، ص 37 و ص 35-36 ، بہ نقل از الخرائج و الجرائح ، ص 20 ، و رجال الکشّی ، ص 276 ، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج2 ، ص 245- مسند الامام الکاظم ، ج1 ، ص 379.

۵۰

حرزا مام رضاعلیہ السلام

دروازہ کھٹکھٹا نے کی آواز آئی ایک آدمی بہت تیزتیزدروازہ پیٹ رہا تھا میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ہارون رشیدکا قاصد غصہ کی حالت میں دروازہ پر کھڑا ہے میں نے اسکو سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیئے بغیر میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے کنارے کیا اور گھر کے اندر داخل ہوگیا امام رضا(ع)صحن میں بیٹھے ہوئے تھے ہارون کا قاصد امام کے پاس پہونچا اور کہا امیرالمؤمنین  ہارون نے آپکو بلایا ہے امام(ع)نے جواب دیا تم چلو ہم ابھی آتے ہیں ۔

جب قاصد چلا گیا تو امام(ع)نے مجھ سے فرمایا اے ابا صلت اس وقت ہارون نے مجھ کو اس لئے بلایا ہے تا کہ میری ناراضگی کے اسباب فراہم کرے میں یہ سنکر کچھ پریشان ہوا جب امام(ع) نے میرے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے تو فرمایا گھبراؤ نہیں وہ کسی بھی صورت میں مجھ کو ناراض نہیں کر سکتا۔

 میں نے امام(ع) سے سوال کیا :

کیسے ممکن ہے کہ وہ آپ کو ناراض نہ کر سکے جب کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے؟

امام نے جواب دیا:

جو کلمات میرے جد امجد رسول خدا ﷺ کی جانب سے مجھ تک پہونچے ہیں انکی برکت کی وجہ سے وہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔(1)

--------------

(1):- ایک دوسری روایت (بحارالانوار، ج49، ص115) میں آیا ہے کہ امام رضا (ع) نے فرمایا، جیسے کہ رسول خدا نے فرمایا: اگر ابوجہل میرا بال بینکا بھی کردے تو تم سب لوگوں کے سامنے گواہی دیتا کہ می ں پیغمبر خدا نہیں ہوں۔

میں بھی کہہ رہا ہوں:

اگر مامون میرا بال بینکا کردے تو تم سب کے سامنے گواہی دیتا کہ میں امام نہیں ہوں۔

۵۱

سچ تو یہ ہے کہ میں امام(ع) کے مقصد کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہو سکا بس اتنا سمجھ گیا کہ ہوگا وہی جو امام(ع) نے فرمایا ہے۔

جیسے ہی امام(ع) کی نظر ہارون پر پڑی آپ نے دورہی سے وہ حرز پڑھا :

جب آپ ہارون کے سامنے پہونچےِ،ہارون نے آپ کودیکھا اور بہت ہی مؤدبانہ انداز میں کہا:

اے ابو الحسن! میں نے اپنے خزانچی کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کو ایک لاکھ درہم دےاور آپ اپنے گھر والو ں کی ضروریات کی ایک فہرست بنا کر ہمیں دیدیں تاکہ تمام چیزیں آپکے لئے فراہم کی جا سکیں۔

جب امام(ع)، ہارون سے جدا ہو رہے تھے اس وقت ہارون نے امام(ع) کے قد و قامت کو دیکھا اور دھیمی آواز میں کہا:

ہم نے کچھ ارادہ کیا او رخدا نے کچھ ارادہ کیالیکن جو ارادہ خدا کرتا ہے وہی بہتر ہوتا ہے اور انجام پاتا ہے۔(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 116 و ج 91، ص 344.

۵۲

متن حرز امام رضاعلیہ السلام

میں جانتاہوں کہ آپ اس لمحہ کے مشتاق ہونگے کہ اس متن کو دیکھیں، بہت اچھا !اب میں آپکی خدمت میں وہ حرز پیش کرتا ہوں:

بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ

بِسمِ اللهِ اِنی اَعوذُ بالرَّحمنِ مِنکَ اِن کُنتَ تَقيّاً اَو غَیرَ تَقيٍّ، اَخَذتُ بِاللهِ السَّمیعِ البَصیرِ علی سَمعِکَ وَ بَصَرِکَ لا سُلطانَ لَکَ عَلَيَّ وَ لا علی سَمعی وَ لا علی بَصَری وَ لا علی شَعری وَ لا علی بَشَری و لا علی لَحمی وَ لا علی دَمی وَ لا علی مُخّی وَ لا علی عَصَبی وَ لا علی عِظامی وَ لا علی مالی وَ لا علی ما رَزَقَنی رَبّی. سَتَرتُ بَینی وَ بَینَکَ بِسِترِ النُّبُوَّةِ الَّذی اَستَرَ اَنبِیاءَ اللهِ بِهِ مِن سَطَواتِ الجَابِرَةِ وَ الفَراعِنَةِ.جِبرَئیلُ عَن يَمینی وَ میکائیلُ عَن يَساری وَ اِسرافیلُ عَن وَرائی وَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ اَمامی، وَ اللهُ مَطَّلِعٌ عَلَيَّ يَمنَعُ الشَّیطانَ مِنّی.الّلهُمَّ لا يَغلِبُ جَهلُهُ اَناتَکَ اَن يَستَفِزَّنی وَ يَستَخِفَّنی.الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ، الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ، الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ.(1)

ترجمہ حرز :

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے میں تجھ سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں چاہے تو با تقوےٰ ہویابےتقویٰ،خدا وند عالم کی مدد سے میں تیرے کان اور تیری آنکھوں کو بند کر رہا ہوں، تیرے پاس مجھ پر تسلط حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے،نہ میرے کانوں پر ،نہ میری آنکھوں پر،نہ میرے بالوں پر،نہ کھال پر ،نہ گوشت پر،نہ خون پر، نہ دماغ پر،نہ اعصاب پر ،نہ میرے مال پراور نہ ہی میرے رزق پرکہ جو خدا وند عالم نے مجھے عطا کیا ہے،میں اپنے اور تیرے درمیان ایک پردہ ڈال رہا ہوں ،ایسا پردہ جو نبوت کا پردہ ہے یعنی وہ پردہ جس کو انبیاءﷺنے فرعون جیسے ظالم اور جابر بادشاہوں کے حملوں سے بچنے کی لئے اپنے اور انکے درماین ڈالا تھا۔

--------------

(1):- اس حرز کو شیخ عباس قمی نے منتہی الآمال کی فصل 5 باب 10 میں اور مفاتیح الجنان میں بی) تحریر کیا ہے۔

۵۳

داہنی جانب سے جبرئیل،بائں  جانب سے میکائیل،پیچھے سے اسرافیل،سامنے سے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ،یہاں تک کہ خدا وند بھی (کہ جو میرے حالات کو جانتا ہے) تیرے شر کو مجھ سے روکے ہوئے ہے،اور شیطان کو مجھ سے دور کئے ہوئے ہے۔

پروردگارا! وہ تیری قدرت سے نادانی کی بنا پر غافل ہو کر مجھ کو وھشت زدہ اور ذلیل و خوار نہ کر دے۔

پروردگار میں تریی پناہ چاہتا ہوں   پروردگار میں تر۔ی پناہ چاہتا ہوں

پروردگار میں ترری پناہ چاہتا ہوں

پانی کا چشمہ جاری کرنا

ہم لوگ مامون سے ملاقات کے ارادے سے نیشاپور سے نکلے،ابھی قریہ حمراء(1) تک پہونچے تھے کہ سورج بالکل سر پر آ گیا ۔

ایک شخص جو امام(ع) کی سواری کے نزدیک تھا اس نے آسمان کی جانب نگاہ کی اور امام رضاعلیہ السلام سے کہا:

آقا ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔

امام رضاعلیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا :

پانی لے آؤ تاکہ میں وضو کر سکوں۔سب لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ آقا کے لئے پانی لاؤ۔

یہاں تک کہ وہ شخص جس پر سفر کی تمام ضروریات مہیا کرنے کی ذمہ داری تھی امام (ع) کے قریب آیا اور اس نے شرمندگی کے ساتھ کہا:

فرزندے رسول میری جان آپ پر قربان، جو پانی ہمارے پاس تھا وہ ختم ہو گیا اور یہاں اطراف میں کوئی نہر اورچشمہ بھی نہیں ہے۔

--------------

(1):- قریہ حمراء یعنی قریہ دہ سرخ۔

۵۴

 اگر آپ بہتر سمجھیں تو ہم لوگ  آگے بڑھیں؟ اور قریہ حمراءپہونچ کر نماز کو اول وقت کے بجائے کچھ تاخرر سے پڑھ لیں گے؟

امام(ع) ہمیشہ فضیلت کے وقت میں نماز پڑھتے تھے،کبھی تاخیر نہ کرتے تھے، جس جگہ امام(ع)کھڑے تھے وہیں دوزانوں ہو کر بیٹھ گئے اور کچھ زمین کھودی، اچانک میٹھا پانی زمین سے ابل پڑا اور ایک نئے چشمہ کی شکل اختیار کرلی۔

 امام رضاعلیہ السلاماور انکے تمام اصحاب نے وضو کیا اور اول وقت اسی بیابان میں نماز جماعت ادا کی ، وہ چشمہ آج تک جاری ہے۔

ہم آگے بڑھے اور سناباد(1) پہونچ گئے وہاں پر ایک پہاڑ تھا ،وہاں کے رہنے والے اس پہاڑ کے پتھر سے دیگ بناتے تھے۔(2) امام علیہ السلام نے اس پہاڑ سے ٹیک لگائی اور دعا کی:

الّلهُمَّ اَنفِع بِهِ وَ بارِک فیما يُجعَلُ فیما يُنحَتُ مِنهُ

اے پروردگار!اس پہاڑ میں یہاں والوں کے لئے نفع قرار دےاور اس پہاڑ سے جو پتیلیاں بنائی جائیں اور ا ن میں جو کھانا تیارر ہو اس میں برکت عطاکر ۔

پھر امام(ع)نے حکم دیا کہ ہمارے لئے کچھ پتیلیاں اس پہاڑ کے پتھر سے تارر کرو اور پھر ایک بات کہی جو بڑی دلچسپ تھی اور وہ یہ کہ:میرے لئے اس پتیلی کے علاوہ کسی اور پتیلی میں کھانا نہ بنایا جائے۔

البتہ میں آپکی خدمت میں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ امام(ع) کھانا بہت کم کھاتے تھے!

اس دن سے لوگوں میں اس پہاڑ کی پتیلیاں خریدنے کا شوق پیدا ہو گیا اور اس طریقہ سے اس پہاڑ کے سلسلے میں حضرت(ع) کی دعا کا اثر ظاہر ہو گیا۔(3)

--------------

(1):- سناباد، پہلے ایک گاؤں تھا لیکن اب مشہد میں شامل ہو گیا ہے اور آج بھی اسی نام سے ایک مشہور محلہ ہے۔

(2):- یہ پتیلیاں آج بھی مشہد مقدس میں بنائی جاتی ہیں ان پتیلیوں کا نام (ہرکارہ) ہے اوریہ کےپتھروں سے بنائی جاتی ہیں۔

(3):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 125 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 136- منتہی الآمال فصل 5 از باب 10.

۵۵

اپنے مزار کی پیش گوئی

جب ہم طوس پہونچے تو حمید بن قحطبہ طائی کے مہمان ہوئے،امام(ع) ایک گنبد میں وارد ہوئے کہ جس میں ہارون کی قبر تھی، سچ تو یہ ہے کہ یہ بات میرے لئے بہت عجیب تھی کہ امام(ع) کا ہارون کی قبر سے کچھ تعلق ہے لیکن میں بہت جلد سمجھ گیا کہ امام رضاعلیہ السلام اپنے ساتھیوں کو کوئی دوسری چیز سمجھانا چاہتے ہیں آپ نے ہارون کی قبر کے سرہانے اپنے مبارک ہاتھوں سے ایک خط کھینچا اور ایک دائرہ معین کیا اور فرمایا:

یہ میرے مرقد کی مٹی ہے میں اس جگہ دفن کیا جاؤنگا اور جلد ہی خدا اس مقام کو ہمارے شیعوں اور دوستوں کے آنے ،جانے کی جگہ قرار دے گا۔

خدا کی قسم !جو بھی میری زیارت کرے گا اور مجھے سلام کر ے گا،اس پر ہماری شفاعت کے ذریعہ خدا کی رحمت اور مغفرت واجب ہو جائےگی۔

یہ فرما کر آپ نے قبلے کی طرف رخ کیا اور چند رکعت نمازاور کچھ دعائںم پڑھیں،نماز اور دعا تمام ہونے کے بعد ایک طولانی سجدہ کیا،میں نے خود سنا ہے کہ آپ نے سجدے میں پانچ سو مرتبہ ذکر تسبیح پڑھا پھر سجدے سے سر اٹھایا اور اپنی قیام گا ہ یعنی حمید بن قحطبہ طائی کے گھر پلٹ آئے۔(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 125 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 136- منتہی الآمال فصل 5 از باب 10.

۵۶

بہشت کا چشمہ(1)

ابھی ایک چشمہ کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کیا ہے جو امام رضا(ع) نے خشک اور بے آب زمین پر اپنے اعجاز سے جا ری کیا اب بہتر سمجھتا ہوں کہ ایک اور چشمہ کا ذکر کروں جو حضرت علی(ع)نے اپنے اعجاز سے بے آب و گیاہ بیابان میں جاری کیا تھا ۔

یہ روایت محمد بن یوسف فریابی،سفیان اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، حبیب ابن جہم کے ذریعہ مجھ تک پہونچی ہے۔

حبیب ابن جہم روایت کرتے ہیں :

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ہم امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کی رکاب میں سرزمین صفین کی طرف جا رہے تھے ہم صندود نامی ایک گاؤ میں پہونچے اور وہاں ٹھہرنے کا قصد کیا ابھی ہم نے اپنے سامان گھوڑوں سے نہ اتارے تھے کہ امام علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ یہاں سے حرکت کریں ہم نے حکم کی تعمیل کی اورایک ایسے مقام پر پہونچے جہاں زمین بالکل خشک تھی اور آب و گیاہ کا کچھ نام و نشان نہ تھا ۔

امام علی علیہ السلام نے حکم دیا :یہیں پر قیام کریں۔

مالک اشتر کو کون نہیں جانتا، وہ جنگ کے مرغ (سب سے بڑے بہادر)کہلاتے تھے اور امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کے سپاہ سالار تھے۔

آپ امیر المؤمنین(ع)کے پاس آئے اور کہا:

اے امیر المومنین(ع)! یہاں پر پانی کا نام و نشان نہیں ہے ۔

--------------

(1):- چونکہ یہ روایت بھی اباصلت نے نقل کی ہے اورپہلی والی روایت سے مشابہت رکھتی ہے لہذا ہم نے اس کو یہاں پر ذکر کردیا ہے۔

۵۷

یہاں جنگی لشکر کو ٹھہرانا کیسا ہوگا؟

 حضرت امیر المومنین(ع) مسکرائے ،ایک نگاہ مالک اشتر کی طرف کی اور فرمایا:

اے مالک ! میں بہتر جانتا ہوں کہ جنگ کے زمانے میں لشکر کو ایسی سرزمین پر روکنا مناسب نہیں ہے کہ جس میں پانی موجود نہ ہولیکن یہ بات جان لو کہ بہت جلد خدا وند عالم اس سر زمین سے ہم کو ایسے پانی سے سیراب کرے گا جو شہد سے زیادہ شیرین  و لطیف ہوگا، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور یاقوت سے زیادہ صاف و شفاف ہوگا۔

ہم سب کوبہت تعجب ہوا جب کہ ہم یہ جانتے تھے کہ جو کچھ امیر المؤمنین(ع)کہہ دیں وہ سو فصداہو کر رہے گا اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

 حضرت امیر المؤمنین(ع) نے یہ فرما کر اپنی عبا کو دوش سے اتارا،تلوار کو ہاتھ میں لیا،کچھ قدم آگے بڑھ کر ایک بالکل خشک مقام پر کھڑے ہو گئےاور مالک سے کہا:

اے مالک! لشکر کی مدد کے ذریعہ اس جگہ کو کھودو۔

مالک اور اسکے لشکر نے زمین کو کھودنا شروع کیایہاں تک کہ ایک بہت بڑا کالے رنگ کا پتھر نمودار ہواکہ جس سے چاندی کا ایک چمکدار چھلا متصل تھا۔

 حضرت امیر المومنین ؑنے مالک سے فرمایا:

اپنے دوستوں کی مدد سے پتھر کو اٹھا کر کنارے ڈال دو۔

مالک اور ایک سو جنگی جوانوں نے پتھر کو چاروں طرف سے پکڑا اور اکھاڑنا چاہا لیکن بہت زیادہ طاقت لگانے کے بعد بھی کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ کچھ کر نہیں پا رہیں تو آپ خود پتھر کے قریب آئے اورپتھر

۵۸

کو پکڑنے سے پہلے آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کیا اور ایک ایسی دعا پڑی کہ ہم میں سے کوئی بھی اسکے معنی کو نہ سمجھ سکا!

اس دعا کا متن یہ ہے:

طاب طاب مربا بما لم طبیوثا بوثة شتمیا کوبا جاحا نوثا تودیثا برحوثا، آمین یا رب العلمین، ربّ موسیٰ وهارون

پھر آپ نے انگلیوں کو پتھر میں پھسایا اورقدرت ید اللٰھی کے ذریعہ صرف ایک جھٹکے میں پتھر کو اکھاڑ کر چالیس ہاتھ دور پھینک دیا۔جن نو جوانوں نے بزورگوں کی زبانی در خیبر اکھاڑنے کے واقعہ کو سنا تھا، اس دن انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے اسی کے مثل خدا کے ہاتھ کی قدرت کا معجزہ دیکھ لیا۔

اچانک شہد سے زیادہ شیرین ،برف سے زیادہ ٹھنڈا اور یاقوت سے زیادہ شفاف پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلاماور ہم سب نے چشمے کا پانی پیا اور اپنی مشکوں وتمام برتنوں کو پانی سے بھر لیا۔

پھر حضرت علی علیہ السلامدوبارہ پتھر کی طرف گئے اور پتھر کو اٹھا کر چشمہ کی طرف بڑھے ہم سب لوگ راستے سے ہٹ گئے یہاں تک کہ حضرت نے پتھر کو اسکی پرانی جگہ پر رکھ دیا اور فرمایا: پتھر کو مٹی سے چھپا دو۔

ہم نے پتھر کو چھپا دیااور اپنے سازوسامان کو باندھ کر روانہ ہو گئے لیکن ابھی زیادہ آگے نہ بڑھے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ٹھہرنے کا حکم دیااور لشکر کو مخاطب کر کے فرمایا:

کیا تم میں سے کوئی اس چشمے کی جگہ کو جانتا ہے؟

لشکر میں جوش پیدا ہو گاشاور سب نے ہاتھ بلند کر کے کہا:

آقا ہم جانتے ہیں،ہم جانتے ہیں۔

ہم میں سے ایک گروہ مالک اشتر کے ساتھ واپس آیا لیکن ہم کو اس چشمے  کا کوئی نشان نہ ملا!پانی کا چشمہ پانی ہو کر زمین کے نیچے جا چکا تھاحتی کہ اس بڑے پتھر کی بھی کوئی خبر نہ تھی۔

۵۹

مالک نے کہا :یقینا امیرالمؤمنین(ع) پیاسے ہیں اسی لئے ہم کو پانی لینے کے لئے بھیجا ہےلذاا سب لوگ اسی اطراف میں پانی کو تلاش کریں تا کہ ہم امیرالمؤمنین(ع)کی خدمت میں پانی پیش کرسکیں۔

کچھ تلاش و کوشش کے بعد ہم کو ایک خانقاہ نظر آئی ہم خانقاہ میں داخل ہوئے تو وہاں ہم نے ایک راہب کو دیکھا جسکی پلکیں برف کی طرح سفید ہو چکی تھی اور اسکی آنکھوں پر گری ہوئی تھیں!

مالک نے راہب سے پوچھا:اے راہب کیا تمہارے پاس کچھ پانی ہے؟

راہب تمام جنگی جوانوں کو مسلح دیکھ کر بہت زیادہ ڈر گیا تھا اور ہم سب کو ایک ایک کر کے دیکھ رہا تھااس نے ڈرتے ہوئے جواب دیا:

ہاں ، ہاں دو دن پہلے میں نے کچھ پانی میٹھا کیا تھا ایسا میٹھا پانی اس اطراف میں دور دور تک نہیں ملتا۔

یہ کہہ کر راہب ایک چھوٹے سے کمرے میں گیا اور وہاں سے پانی کی مشک اٹھا کر لایااور مشک کو مالک کے ہاتھ میں دے دیا،مالک نے اطمینان حاصل کرنے کے لئے کہ پانی میں کوئی خرابی تو نہیں ہے مشک کو اوپر کیا اور تھوڑا سا پانی منھ میں ڈالا لیکن فورا ًہی اس پانی کو منھ سے باہر نکال دیا جیسے کہ مالک کو یہ امید نہ تھی کہ پانی ایسا ہوگااور کہا:

اے بزرگوار!یہی وہ میٹھاپانی ہے جسکی آپ تعریف کر رہے تھے ؟یہ پانی تو نمکین بھی نہیں کڑوا ہے شاید آپ نے میٹھا اور لطیف پانی پیا ہی نہیں اس لئے نہیں جانتے کہ شیرین اور لذت بخش پانی کسے کہتے ہیں ؟ کاش تم نے ایک پیالہ اس پانی میں سے پیا ہوتا جو ہمارے مولیٰ نے ہم کو پلایا ہے تا کہ تمںیش معلوم ہوتا کہ جسکو تم پانی کہہ رہے ہو اصلاً وہ پانی ہی نہیں ہے ۔

پھر مالک اشتر نے اس چشمہ کا پورا واقعہ اس راہب سے بیان کیا۔

جب راہب نے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلامکے اعجاز کا یہ واقعہ سناتو سوال کیا:کیا تمہارے مولیٰ پیغمبرﷺ ہیں؟

مالک اشتر:  ہما رے مولیٰ ،پیغمبر نہیں بلکہ پیغمبر ﷺ کے وصی ہیں۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131