امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت0%

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت مؤلف:
زمرہ جات: امام رضا(علیہ السلام)
صفحے: 131

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حسین صبوری
زمرہ جات: صفحے: 131
مشاہدے: 54914
ڈاؤنلوڈ: 4127

تبصرے:

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 131 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54914 / ڈاؤنلوڈ: 4127
سائز سائز سائز
امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جب اس نے میری زبان سے میرا نام سنا تو بے اطمینانی اور تعجب کے ساتھ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:

 ارے ،ارے ، کیا یہ ممکن ہے کہ تم سچ بول رہے ہو، خدا کرے کہ تم نے سچ نہ بولا ہو چونکہ اگر تم نے سچ کہا ہوگا تو ہماری آج کی زحمات بے کارہو جائیں گی اور اگر تم نے جھوٹ کہا ہو گا تو آج تم اپنی جان کھو بیٹھو گے ، جب تک میں واپس آؤں تم یہیں پر ٹھہرو۔

یہ کہہ کر چور اپنے رئیس کی طرف دوڑا، رئیس ایک ٹیلے پر نماز پڑھ رہا تھا غارتگروں کے رئیس کو نماز کی حالت میں دیکھنا میرے لئے بہت عجیب تھا ، میں نے خود سے کہا :

اگر یہ نماز پڑھتا ہے تو پھر چوری کیوں کرتا ہے ؟ اور اگر یہ چوری کرتا ہے تو پھر اس کے نماز پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟

ابھی زیادہ وقت نہ گذرا تھا کے چور اور رئیس میرے پاس آئے ، راہزنوں کے رئیس نے کچھ دیر تک مجھ کو گھور کر دیکھا اور پوچھا کیا واقعاً تم وہی دعبل خزاعی ہو؟ جس نے یہ مشہور قصیدہ امام(ع)کی شان میں کہا ہے؟

دعبل: خدا کی قسم میں وہی دعبل خزاعی ہوں ؟

رئیس: اگر تم سچ کہتے ہو تو اس قصیدہ کو اول سے آخر تک بغیر دیکھے پڑھو۔

اس وقت تک تمام چور میرے اطراف جمع ہوگئے تھے ، میں نے اپنے قصیدہ کو اول سے آخر تک پڑھنا شروع کیا ، جب میرا قصیدہ ختم ہوا تو میں نے دیکھا کہ راہزنوں کی آنکھوں سے آنسو نکل کر زمین پر گر رہے ہیں اور زمین کو گیلا کر رہے ہیں۔

تمام جنگل پر سکوت چھا گیا تھا اور اب قافلے والوں میں" کہ جن کے ہاتھ اور پیر بندھے تھے" اضطراب اور پریشانی کے اثرات باقی نہیں تھے۔ چوروں کے رئیس نے آنسو کو آستین سے صاف کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا:

تمام کاروان والوں کے ہاتھ اور پیر کھول دو ، انکا تمام مال واپس کردو ، اور کسی محفوظ منطقہ تک ان کے ساتھ جاؤ¶!

۲۱

ایک چور نے اعتراض کیا: رئیس لیکن یہ بہترین لقمہ ہے جو گذرے ہوئے کئی مہینوں میں ہم نے حاصل کیا ہے، اب ہم ان کو مال کس طرح واپس کرسکتے ہیں؟

رئیس نے اس کو ڈانٹتے ہوئے کہاکہ: جو میں کہہ رہا ہوں وہ کرو یہ لوگ امام رضا(ع)کی جانب سے آئے ہیں۔

جب ہم لوگ چوروں سے دور ہورہے تھے ، انکا رئیس ہماری ہدایت کرنے کے ساتھ ساتھ ہم سے عذر خواہی کر رہا تھا ۔(1)

آخرکار زحمتں  اور مشقتںہ برداشت کرتے ہوئے ہم لوگ شہر قم پہونچ گئے،یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے اماموں نے قم کو آشا نہ آل محمد کے نام سے پہچنوایا ہے خدا کی قسم سچ تو یہ ہے کہ اہل قم مرمی مہمان نوازی اور احترام میں ایک پیر پر کھڑے ہوگئے کیونکہ وہ لوگ مجھ کو مولا، امام رضا(ع) کا ایک خادم جانتے تھے خصوصاًان لوگوں نے اس قصدضہ  کوسننے کےلئے میرے گرد حلقہ بنت لیا اور کہا:

تم کو خدا کا واسطہ وہ قصیدہ ہم کو بھی سناؤ جوتم نے امام کو سنایا تھاتوامام نے پسند کیا اور اسکوسنکررونے لگے تھے اور اسکے بدلے تم کو قمتیو صلہ بھی ملا تھا ہم چاہتے ہیں کہ اسکو خود تمھاری زبان سے سنںک۔

میں نے انکی گزارش کو قبول کر لیا ،قم کے لوگ جامع مسجد میں جمع ہو گئے مجمع اس قدر اکھٹا ہو گیا تھا کہ جب میں منبر پر پہونچا تو معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی محشر بپا ہے جب میں نے اشعار پڑھے تو قم کے لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ انھوں نے مجھ کو بہت سا مال اور ہدیے دئےر اور مجھ کو حلقے میں لیکر کہا :

ہماری خواہش ہے کہ وہ متبرک لباس جو امام رضا(ع) نے تمکو عطا کیا ہے اسکو ہمیں ایک ہزار سونے کے سرخ دینار کے بدلے بچر دو۔

--------------

(1):- با استفادہ از بحار الانوار ، علامہ مجلسی ، ج 49 ، ص 238.

۲۲

لیکن آپکو معلوم ہے کہ وہ لباس معنوی اہمیت رکھتا تھا اور میں اسکو تمام دنان کے بدلے بھی دینے کو راضی نہ تھا لہٰذا انھوں نے جتنا بھی التماس کیا میں نے قبول نہ کیا یہاں تک کہ بچے بھی اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ اس کپڑے کا فقط ایک ٹکڑا مجھ سے اسی قیمت میں خرید لیں لیکن میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میں اس کپڑے میں سے ایک دھاگا بھی بیچوں۔

آخر کار میں قم سے عراق کی طرف روانہ ہو گاپ ابھی قم سے کچھ فرسخ دور نہ ہوا تھا کہ جوانان قم کے ایک گروہ نے مجھے گھیر لیا اور جبراً مجھ سے امام رضا(ع) کا لباس چھین کر ہزار آہ وافسوس اور آنسؤں کے ساتھ مجھے جنگل میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔

ناچار ،میں نے قم واپس آکر بزرگوں کا دامن تھاما،انھوں نے بھی ان جوانوں کو بہت نصحتل کی کہ :”تم کیسے امید کر سکتے ہو کہ جو لباس تم نے زبر دستی چھینا ہے وہ تمھارے لئے امن اوربرکت کا سبب بن جائے!“لیکن انھوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔

اب التماس کرنے والے اور التماس سننے والے بدل گئے تھے (یعنی جو پہلے التماس کر رہے تھے اب ان سے التماس کی جارہی تھی اورجس سے پہلے التماس کی جارہی تھی اب وہ خود کھڑا التماس کر رہا تھا )یعنی اب میں تھا جو التماس کر رہا تھا۔

جوانوں نے کہا : ہم چور نہیں ہیں ہم اب بھی تایر کہ تم کو وہ ایک ہزار دینار دےدیں لیکن یہ لباس ہرگز نہیں دے سکتے ۔

اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھامیں نے انکی پرانی درخواست کو خود انھیں کے سامنے پیش کیا:

اس متبرک لباس کا کم سے کم ایک تکڑا تو مجھے دےدیجئے!۔

خدا وند عالم ان سبھوں کا بھلا کرے کہ وہ سب مجھ سے زیادہ انصاف ور تھے انھوں نے میری اس درخواست کو قبول کر لیا،اس لباس کا ایک ٹکڑا اور ایک ہزار سر خ سونے کے دینار احترام کے ساتھ میری خدمت میں پیش کردئیے۔

۲۳

خدا نہ کرے کہ آپ کوئی برا وقت دیکھیں ،جب میں اپنے وطن بغداد واپس ہوا تو شہر کے دروازے پر ہی دو بری اور وحشتناک خبریں مجھ کو ملیں !

ایک تو یہ کہ تمھارے گھر چور داخل ہوئے اور تمھاری غیبت کو غنیمت جان کر سب کچھ لے گئے یہاں تک کہ تہہ خانہ میں بھی جھاڑو لگادی ہے۔

دوسرے یہ وہ کنیز(کہ جو تمھارا عشق تھی ،تمھارے لئے مثل لیلیٰ تھی اورتم اسکے مجنون تھے )آنکھوں کی سخت بیماری میں مبتلا ہو گئی ہے اور اسکا ناک و نقشہ بہت برا ہوگیا ہے۔

یہ دو خبریں سنتے ہی دنیا میرے سامنے اندھیر ہوگئی لیکن میں نے خدا پر بھروسہ کیا اور گھر میں داخل ہو گیا گھر ایسا کہ جسمیں فقط وفقط درودیوار تھے اور کچھ نہ تھا ابھی میں نے سامان سفر نہ اتارا تھا کہ شہرکے لوگ مجھ سے ملاقات کرنے کے لئے آگئے اور میرے گرد حلقہ لگا لیا اور قبول زیارت کی دعا دینے لگے جب میں نے ان لوگوں سے امام رضا (ع) کی ملاقات کا ماجرا بیان کیا اور بتایا کہ ”میں نے امام(ع)کی خدمت میں قصیدہ پڑھا اورامام(ع)نے مجھ کو ایک سو،سونے کے رضوی دینار عطا کئے“تو انھوں نے التماس کی کہ جو دینار تمکو امام رضا(ع)نے دئے ہیں اور ان پر امام کا نام لکھا ہوا ہے وہ سب ہم کو دےدو اور ہر ایک دینار کے  بدلے سو درہم ، ہم سے ہدیہ لے لو۔

مجھے ڈر تھا کہ انکار کرنے کی صورت میں کہیں پر  سے قم کے واقعہ کی تکرار نہ ہو جائے اس لئے میں نے ان لوگوں کی درخواست کو قبول کر لیا اور وہ رضوی سکّے ان لوگوں کو ہدیہ کر دئے ان لوگوں نے بھی اس کے بدلے مجھ کو دس ہزار درہم ہدیہ کئے۔ میں ایک چھوٹی سی مدت میں تین مرتبہ چوروں کا شکار ہو چکا تھالیکن امام رضا(ع)کے ہدیہ کی برکت سے اپنے شہر کا سب سے امیر انسان ہو گیا تھا!(1)

--------------

(1):-  منتہی الآمال ، فصل 7 از باب 10- بحار الانوار ، ج49 ، ص 237-241 و ص 245-251 ، کرامات رضویة ج 2 ص 223-259.

۲۴

 اب میری پریشانی صرف اور صرف میری پیاری کنیز کی آنکھیں تھیں میں نے شہرکے تمام طببوسں اور حکیموں کوجمع کرکے کہا:

 اگر میری کنیز کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں تو میں اپنی تمام دولت دینے کے لئے حاضر ہوں!

لیکن طبیبوں اور حکیموں نے آپس میں رائے ، مشورہ کرنے کے بعد صاف صاف مجھ سے کہہ دیاکہ:

اسکی داہنی آنکھ کسی بھی صورت میں قابل علاج نہیں ہے چونکہ اسکی بینائی جاچکی ہے لیکن اگر کچھ پیسہ خرچ کیا جائے تو شاید ہم اسکی بائی آنکھ کوخراب ہونے سے بچالیں۔

اب میری حالت بہت خراب ہو گئی تھی میں نے دور ہی سے خراسان کا رخ کرکے عرض کیا: اے امام رضا(ع)آپ نے ایک ایک کرکے میری تمام مشکلات کو حل کردیا ہے میری درخواست ہے کہ آپ میری اس مشکل کو بھی آسان کردیں!

اچانک مجھے یاد آیاکہ میرے پاس امام رضا (ع) کے لباس کا ایک ٹکڑا موجود ہے میں نے سوچا:

 امام رضا(ع) کا لباس ،لباس یوسف(ع)سے کم نہیں ہے اذن خدا سے جناب یوسف(ع)کاکرتا مس کرنے سے جناب یعقوب(ع)کی آنکھں  شفایاب ہو گئی تھیں ،کتنا بہتر ہوگا کہ میں امام کے متبرک لباس کو اپنی کنیز کی آنکھوں پر رکدتوں اگر مصلحت ہوئی تو یقینآً شفا ہو جائے گی۔

رات کو میں نے وہ کپڑا اپنی کنیز کی آنکھوں پر باندھ دیا، صبح جب میں نے کپڑے کو کھولا توآنکھوں میں درد و الم اور بیماری کا ذرہ برابر بھی اثر نہ پایا!

اب پھر سے میں امام رضا(ع)کی برکت سے زمین پر بت  خوش نصیب انسان ہو گیا تھا۔ 

۲۵

نماز باران

مجھ کو تو آپ پچا نتے ہی ہیں میں مامون ہوں(1) ، مامون عباسی ، یقیناً آپ کا دل مجھ سے راضی نہ ہوگا، بہر حال آپ کو ناراضگی کا حق بھی ہے چونکہ میں نے اپنے بھائی پر بھی رحم نہ کیا اور اس کو قتل کردیا ، اس سے برا یہ ہے کہ فرزند رسول اور انکے جانشین برحق یعنی شیعیوں کے آٹھویں امام ، امام رضا(ع) کو بھی زہر دے کر شہید کردیا، ان تمام جنایتوں اور دوسرے بہت سے گناہوں کا مرتکب میں اپنی قدرت اور حکومت کی وجہ سے ہوا ہوں ، حالانکہ میں دنیا میں اپنے گناہوں کا اعتراف نہیں کرتا تھا لیکن جو کچھ تھا وہ گذر گیا اور اب تمام باتیں سب پر روشن ہوگئی ہیں، لہذا اب چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ، جیسا کہ ایک مشہور کہاوت بھی ہے ”جب خدا سے چوری نہیں تو بندوں سے کیا چوری“۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ امام رضا(ع)کو مدینہ سے خراسان بلانا ، ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کرنا دھوکا ، مکاری اور عوام فریبی کے علاوہ کچھ نہ تھا ، میں چاہتا تھا کہ اس طریقہ سے ایک تیر سے کئی نشانے لوں، منجملہ یہ کہ 

امام رضا(ع) کو قریب سے اپنی زیر نظر رکھوں تا کہ یہ میری حکومت کے لئے کوئی مشکل پیدا نہ کرسکے ۔

دوسرے یہ کہ ایران کی عوام، خصوصاً خراسان کے لوگوں کو (کہ جو خاندان پیغمبرﷺ، خصوصاً امام رضاعلیہ السلامسے بہت زیادہ محبت رکھتے ہیں) دھوکہ دوں اور اپنی حکومت کو (کہ جو ان کی نظروں میں غیر شرعی و غیر قانونی ہے، بہ ظاہر امام رضا کو ولیعہد بنا کر)قانونی اور شرعی بنا کر پیش کروں اور اس طریقہ سے شیعوں کے احتمالی حملہ سے محفوظ ہو جاؤں ۔

میرا ایک اور مقصد یہ تھا کہ امام رضا(ع) کو اپنی غاصب اور ستمگار حکومت سے نسبت دے کر لوگوں کی نظروں سے گرا دوں اور اگر موقع ہاتھ لگے تو جیسے بھی ممکن ہو، خود آپ پر اور آپ کی علمی و معنوی منزلت پر ایسی ضرب لگاؤ¶ں کہ جس کا جبران نہ ہوسکے۔

---------------

(1):- اس واقعہ کے راوی بھی اباصلت ہیں لیکن ہم نے اس کو خود مامون کی زبانی بیان کیا ہے۔

۲۶

مجھ کو ایک موقع اس وقت ہاتھ لگا کہ جب امام رضا(ع)کے ولیعہدی قبول کرنے کے بعد مدتوں تک کوئی بارش نہ ہوئی اور میری حکومت میں سراسر خشکی اور خشکسالی کے آثار نمودار ہوئے ، جب کہ یہ خشک سالی کی مشکل معمولی تھی لیکن میں اور میرے ساتھیوں نے مشہور کردیا کہ جب سے امام رضا(ع) دنیا کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اورانہوں نے ولایت عہدی کو قبول کیا ہے خداوند عالم ان پر غصہ ہے اور ان سے ناراض ہے اسی لئے اس نے تمام لوگوں سے اپنی رحمت کو روک لیا ہے ۔

پھر بھی میں نے اس ضربت اور افواہ کو مکمل طریقہ سے اثر انداز بنانے کے لئے بظاہر خیرخواہانہ طور پر امام رضا(ع)سے التماس کی کہ ایک دن آپ لوگوں کے ساتھ جنگل جائیے اور نماز طلب باران پڑھئے تا کہ خداوند عالم اپنی رحمت سے بارش نازل کردے۔

میں بالکل مطمئن تھا کہ کسی بھی صورت میں بارش ہونا ممکن نہیں ہے ، میں نے سوچا کہ دومیں سے ایک حالت پیش آئی گی اور دونوں صورتوں میں یہ پیشنہاد امام (ع)کے لئے ایک جان لیوا حملہ ہوگی۔

۱۔ یا تو یہ کہ امام نماز باران پڑھنے کو قبول نہ کریں گے ، اس صورت میں ہم یہ بات پھیلائیں گے کہ امام رضا(ع)کو خوف تھا کہ کیںم ان کی دعا مستجاب نہ ہو، لہذا انھوں نے نماز باران پڑھنے سے انکار کردیا ۔

۲۔ یا پھر امام نماز باران پڑھنے کو قبول کرلیں اور خشکسالی کی وجہ سے بارش نہ ہو اس صورت میں بھی لوگوں کے در میان ان کی عزت و آبرو باقی نہ رہے گی اور ان کی امامت سے لوگوں کا اعتقاد اٹھ جائے گا!

لیکن امام(ع) نے بغیر کسی فاصلہ کے قبول کرلیا کہ لوگوں کے ساتھ جنگل میں جائیں گے اور نماز باران پڑھیں گے، میں نے امام سے پوچھا:

اے فرزند رسولﷺ ، کس وقت آپ نماز اور دعائے باران کے لئے نکلے گیں ؟

 آپ نے بلافاصلہ (جیسے کہ پہلے ہی سے اس نماز کے لئے پروگرام بنا چکے تھے) جواب دیا:

امام:پیر کے دن

۲۷

مامون: پیر کے دن!!ابھی کیوں نہیں ؟!

امام: کل رات میں نے اپنے جد امجد رسول خدا ﷺکو خواب میں دیکھا کہ آپ امیرالمؤ¶منین حضرت علی (ع) کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں :”پیر کے دن تک صبر کرواور جب پیر کا دن آئے تو نماز باران اور دعا کے لئے شہر سے نکل پڑو۔“

چونکہ ہم خواب پر یقین نہیں رکھتے تھے لہذا ہم نے قبول کرلیا اور منادی کرنے والوں سے کہا کہ شہر میں منادی کردیں کہ تمام لوگوں کو پیر کے دن امام رضا(ع) کی امامت میں نماز باران کے لئے نکلنا ہے تا کہ تمام لوگ امام(ع)کی دعا کے قبول ہونے کو مشاہدہ کرلیں!

جب پیر کا دن آیا اور لوگوں کا جمع غفیر امام رضا(ع)کے پیچھے بیابان کی طرف روانہ ہوا، آسمان بالکل صاف اور نیلا تھا ، بادل اور بارش کے کچھ آثار نظر نہ آرہے تھے!

ایسے حالات میں حمد پروردگار کے بعد امام نے آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کیا اورکہا:

”پروردگارا! تو نے اپنے رسول ﷺ کے خاندان کو بزرگی عطا کی ہے اور اب یہ لوگ تیرے فرمان کی بنا پر ہم سے متوسل ہوئے ہیں اور تیرے بے پایان فضل و رحمت اور احسان و نعمت کی امید رکھتے ہیں پس ہم پر رحمت کی بارش نازل کردے ، ایسی بارش کہ جسمیں فائدہ ہی فائدہ ہو اور کوئی نقصان نہ ہو ، لیکن معبود لوگوں کے گھروں کو پلٹنے کے بعد بارش نازل کر۔“

ابھی آپ کی تقریر کو چند منٹ بھی نہ گذرے تھے کہ سخت بجلی اور بادل آسمان میں ظاہر ہوگئے ، بہت تیز ہوا چلنے لگی اور بادل سروں پر آگئے ،لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہوگیا کہ جتنا جلد ممکن ہو اپنے گھروں کو پہنچ جائیں تا کہ بارش میں نہ بھیگنے پائیں، لیکن امام(ع) نے فرمایا:

۲۸

جلدی نہ کرو یہ بادل تمہاری سرزمین کے لئے نہیں ہیں یہ بادل فلاں منطقہ میں برسنے پر مإمور ہیں!

ایسا ہی ہوا ، وہ بادل آئے اور بغیر برسے چلے گئے پھر دوسرے بادل پہونچے پھر لوگ تیاریاں کرنے لگے کہ اٹھیں اور بھاگیں ، لیکن پھر امام(ع) نے ان کو جانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

یہ بادل بھی تمہاری سرزمین کے لئے نہیں ہیں ، یہ مامور ہیں کہ فلاں سرزمین پر برسیں!

اسی طرح بادلوں کے دس گروہ آئے اور بغیر برسے چلے گئے یہاں تک کہ بادلوں کے گیارہویں گروہ کے سرے نظر آنے لگے ۔ اس مرتبہ امام(ع) نے لوگوں سے خطاب کیا:

ان بادلوں کو خدائے مہربان نے تمہارے لئے بھیجا ہے ، اسکے فضل و کرم کا شکریہ ادا کرو اور اب اپنے گھروں کی طرف پلٹ جاؤ ، چونکہ جب تک تم لوگ اپنے گھروں کو نہ پہونچ جاؤ¶گے تب تک بارش نہیں ہوگی۔

بالکل ایسا ہی ہوا!جیسا ہی لوگ اپنے گھروں کو پہونچے ، ایسی بارش ہوئی کہ تمام حوض اورگڑھے اور نہر یں میں پانی سے بھر گئیں۔

اگر چہ میں غصے اور حسد سے جل رہا تھا پھر بھی میں نے امام رضا(ع)کے سامنے مسرت و خوشی کا اظہار کیا لیکن باطن میں دوسری فرصت تلاش کرنے لگا تا کہ ان سے اپنے دل کی بھڑ اس نکال لوں۔

--------------

(1):- عیون اخبار الرضا ، ج2 ، ص 167.

۲۹

شیروں کا زندہ ہونا

ایک دن ”حمید بن مہران“ نے مجھ سے کہاکہ:   

اے مامون ہر روز علی ابن موسی الرضا(ع) کی محبت لوگوں کے دلوں میں بڑھتی جارہی ہے تم اس کو کس طرح برداشت کررہے ہو؟!اس بارش کو تو اس دن برسنا ہی تھا چاہے وہ نماز باران پڑھتے یا نہ پڑھتے تم لوگوں کو کیوں اجازت دے رہے ہو کہ وہ اس بارش کو علی ابن موسی الرضا(ع) کا معجزہ اور کرامت شمار کریں؟

مامون نے دلچسپی سے پوچھا: تمہارا پروگرام کیا ہے؟

حمید:تم ایک مجلس کا پروگرام رکھو تا کہ میں تمام حاضرین کے سامنے ان کی توہین کروں اور سب کو یہ سمجھادوں کہ یہ معجزہ نہیں دکھا سکتے اور اس بارش کا ان کی دعا اور نماز سے کوئی ربط نہیں ہے۔

مامون:میں احمق بھی بالکل گدھا بن گیا اور وہی کام کر بیٹھا جو حمید بن مہران چاہتا تھا، حمید بن مہران ایک بہت بڑا جادوگر تھا لہذا اس نے سب سے پہلے فن جادوگری کے ذریعہ دستر خوان پر امام سے کچھ چھیڑ چھاڑ کی (کھانا کھاتے وقت لقمہ کو امام رضا (ع)کے ہاتھ سے غائب کردیا )یہ دیکھ کر حاضرین ہنسنے لگے امام رضا(ع) حمید بن مہران کی ان حرکتوں سے ناراض 

ہوگئے لیکن آپ کے ما تھے پر بل نہ پڑے یہاں تک کہ حمیدنے حد سے زیادہ بے ادبی کی اور تمام حاضرین کے سامنے بلند آواز سے کہا:

اے علی بن موسی(ع) تم اپنی حد سے تجاوز کرچکے ہو اور وہ بارش جو خداوند عالم نے وقت معین میں نازل کی ہے اس کو اپنی دعا کا اثر سمجھتے ہو اور لوگوں سے کہتے ہو کہ میں خدا کے نزدیک صاحب عزت وبا عظمت ہوں اور جب گفتگو کرتے ہو تو اس

۳۰

طرح کہ جیسے تم نے ابھی ابھی ابراہیم خلیل اللہ کے معجزہ کی تکرار کی ہے کہ انھوں نے پرندوں کو اذن خدا سے زندہ کیا تھا اگر تم سچے ہو تو ان دو شیروں کو کہ جو مامون کی قالین پر نقش ہیں حکم دو کہ زندہ ہو کر مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ، اگر تم نے یہ کام کردیا تو یہ معجزہ مانا جائے گانہ یہ کہ ہم اس  بارش کو معجزہ مانیں جو کہ معمول کے مطابق ہوئی ہے۔

اس وقت امام رضا(ع) کو غصہ آگیا اگرآپ اس حساس موقع پر معجزہ نہ دکھاتے تو در حقیقت آپکی امامت پر حرف آجاتا اس لئے آپ نے شیروں کی تصویر کی طرف دیکھا اور کہا:

اس مرد فاسق و فاجر کو پکڑلو۔

 اچانک ان شیروں کی تصویر میں جان آگئی وہ قالین سے مجسم ہو کر دوڑے اور وحشتناک طریقے سے بدبخت حمید بن مہران کی جان پر ٹوٹ پڑے اور اس کے حرکت کرنے سے پہلے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے سب کے سامنے کھا گئے یہاں تک کہ زمین پر جو اس کا خون گرا تھا اس کو پی گئے اور اس کا کوئی نشان بھی باقی نہ چھوڑا!

حاضرین بری طرح ڈرگئے تھے اورکوئی بھی بولنے کی طاقت نہ رکھتا تھا یہاں تک کہ میں بھی!

لیکن اصلی حادثہ تو اس وقت پیش آیا کہ جب دونوں شیر امام رضا(ع)کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اپنے سر کے ذریعہ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے امام سے پوچھا :

اے ولی خدا! اگر آپ حکم دیں تو اس شخص (مامون)کو بھی اس کے دوست سے ملحق کردیں۔

بس اب کیا تھا میں نے اپنی فاتحہ پڑھ لی ، عزرائیل کو غصہ سے بھرے ہوئے دو درندہ شیروں کی شکل میں دیکھ لیا اور خوف کی شدت سے بے ہوش ہوگیا!

لیکن امام رضا(ع)نے ان شیروں سے کہا کہ :

خداوند عالم خود اسکے بارے میں فیصلہ کریگا اب تم اپنی پرانی جگہ اور حالت پر پلٹ جاؤ¶۔

۳۱

جب میں ہوش میں آیا تو حکومت کو امام رضا(ع) کو بخش دیا اورآپ کی طرف رخ کرکے ہانپتے اور لرزتے ہوئے کہا:

 شکر پروردگار کے ہم کو حمید بن مہران کے شر سے محفوظ رکھا۔ اے فرزند رسول آج میں بہت اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ یہ حکومت اور خلافت آپ اور آپ کے خاندان سے متعلق ہے ، اب جو آپ پسند کریں۔(اب جو چاہیں کریں)

امام نے میری بات کو کاٹتے ہوئے کہا:

اے مامون ! اگر مجھے اس خلافت سے کوئی لگاؤ ہوتا تو میں تم سے بحث و مباحثہ کرنے نہ بیٹھتا، چونکہ خدا کی تمام مخلوقات اسکے اذن سے میرے اختیار میں ہیں لیکن میں خداکی طرف سے مامور ہوں کہ تمہارے کام میں دخل اندازی نہ کروں(تمہارے کام سے مطلب نہ رکھوں)۔

--------------

(1):- عیون اخبار الرضا ، ج2، ص 170.

۳۲

بادشاہ ہند کے تحفے

ایک بہت دلچسپ اور درس آموز واقعہ امام رضا(ع)نے مجھ سے بیان کیا میں بھی چاہتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں۔

امام رضا(ع): میرے بابا موسی بن جعفر(ع) فرماتے ہیں کہ:

ایک دن میں اپنے بابا امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ ایک دوست اندر آیا اور کہا:

بہت سے سوار دروازے پر کھڑے ہیں اور امام صادق (ع)سے ملاقات کی اجازت چاہتے ہیں۔

بابا نے میری طرف رخ کیا اور کہا:

بیٹا دیکھو دروازے پرکون لوگ ہیں:

جب میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ سامنے ایک بڑا کاروان ہے کہ جس میں کچھ اونٹ ہیں کہ جنکی پشت پر مال سے بھرے ہوئے صندوق لادے گئے ہیں اور بہت سارے سوار بھی انکے ہمراہ ہیں،ان کا فرمانروا آگے آگے ایک خوبصورت اور سجے ہوئے اونٹ پر سوار تھا۔

امام کاظم(ع): تم کون ہو اور کیا کام ہے؟

جب میں نے یہ پوچھا تو اس نے جواب دیا:

میں ہندوستان سے ہوں اور امام صادق (ع)سے ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں۔

امام کاظم(ع):جب میرے بابا نے یہ سنا تو غصے سے بھڑک اٹھے اور فرمایا:

اس نجس نامرد، خیانتکار کو داخل ہونے کی اجازت نہ دو!

۳۳

مرد ہندی ایک طولانی مدت تک دروازے پر کھڑا رہا لیکن داخل ہونے کی اجازت نہ ملی یہاں تک کہ اس نے سلمان کے بیٹے یزید اور محمد کو وسیلہ بنایا کہ یہ دونوں میرے بابا کی خدمت میں آتے رہتے تھے۔

جب مرد ہندی امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو زانوئے ادب تہہ کرکے بہت ہی مودبانہ انداز میں شکوہ کیا:

خدا امام کے کاموں کی اصلاح فرمائے ، میں ہندوستان کا رہنے والا ہوں اور وہاں کے بادشاہ کا قاصد ہوں اور اس کی طرف سے آپکے لئے کچھ قیمتی ہدیے اور ایک خط لے کر آیا ہوں ، اب آپ یہ بتائیں کہ میری کیا خطا ہے کہ آپ نے مجھ کو دروازے پر کھڑے رکھا اور اندر آنے کی اجازت نہ دی ، کیا پیغمبر اکرمﷺ کے فرزند مہمانوں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے ہیں؟

امام نے لوگوں کی طرف دیکھا اور کہا:

وَلََتَعلَمَنَّ نَبَّاهُ بَعدَ حِینٍ (1)

بہت جلدہی تم اسکے بارے میں جان لو گے۔

امام نے پھر سے فرمایا:

اے میرے بیٹے موسی(ع) ، اس سے خط لے لو اور اس کو کھولو۔

خط کا مضمون یہ تھا:

--------------

(1):- سورہ ص (38) ، آیت 88.

۳۴

بسم الله الرحمن الرحیم

بہ خدمت جعفر بن محمد طاہر و مطہر

از طرف بادشاہ ہند

اما بعد، خداوند عالم نے مجھے آپ کے ذریعہ ہدایت عطا فرمائی ، مجھے ایک ایسی کنیز ملی ہے کہ میں نے اپنی تمام عمر میں کسی عورت کو اس سے خوبصورت نہیں دیکھا ہے ، میں نے سوچا کہ آپ کے علاوہ کسی میں صلاحیت نہیں ہے کہ اس کا مالک بنے ،

میں کچھ زیورات ، جواہرات اور خوشبو دار عطر کے ساتھ اس کنیز کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں، میں جانتا ہوں کہ اتنی قیمتی اور عمدہ چیزہر کسی کے حوالہ نہیں کی جاسکتی لہذا میں نے اپنے وزیروں کو جمع کیا اور ان کی مدد سے ایک ہزار امین لوگوں کو چنا اس کے بعد ان ایک ہزار میں سے سو کو انتخاب کیااور پھر اس کے بعد ان سو میں سے دس لوگوں کو منتخب کیا اور پھر آخری مرحلہ میں ان دس میں سے میزاب بن حباب نامی ایک شخص کو چنا کہ میرے نزدیک اس سے زیادہ کوئی امین نہ تھا، تب کہیں اس خوبصورت اور چاندسی عورت کو میں نے اس کے حوالہ کیا تا کہ اس کو آپ تک پہنچادے۔

خط کا مضمون سنانے کے بعد امام نے مرد ہندی کی طرف رخ کرکے غصہ اور نفرت کی انداز میں فرمایا :

اے خیانتکار پلٹ جا اور بادشاہ ہند کے تمام تحفوں کو واپس لے جا، میں حتماً اس میں سے کچھ بھی قبول نہ کروں گا چونکہ تو نے اس میں خیانت کی ہے!

مرد ہندی نے یہ حالات دیکھے تو قسم کھاکر خیانت کا انکار کرتے ہوئے کہا:

خدا کی قسم ، بزرگوں کی قسم، پیغمبرﷺکی قسم میں نے کوئی خیانت نہیں کی ، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ مجھ بے گناہ کے بارے میں ایسا برا خیال کیوں کر رہے ہیں ؟

۳۵

لیکن میرے پدر بزرگوار علم امامت سے ہر چیز جانتے تھے ، آپ نے بڑے سرد لہجہ میں فرمایا :

اگر تیر ا کوئی لباس گواہی دے کہ تو نے خیانت کی ہے تو کیا تو اسلام کو قبول کرلے گااور گواہی دیگا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں؟

لیکن اس مرد بدبخت نے دنیا اور آخرت کی تمام نیکیوں کو ٹھکڑاتے ہوئے کہا: مجھے اس کام سے معاف کیجئے۔

امام صادق(ع): اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو میں تمہاری خیانتکاری کو بادشاہ ہند کو لکھوں گا تا کہ وہ خود تمہارے بارے میں فصلہ  کرے۔

میزاب(مرد ہندی): میں نے کوئی خیانت نہیں کی ہے لیکن اگر آپ(ع) کو کوئی خبر ہے تو بادشاہ کو لکھ دیجئے۔

میزاب کے بدن پر ایک کوٹی تھی ، امام نے میزاب سے کہا :

اس کوٹی کو اتارو !

میزاب نے غفلت اور بے خیالی کے ساتھ اپنی کوٹی کو اتار ا اور زمین پر پھینک دیا،میرے بابا(امام صادق(ع)) نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور نمازکے آخری سجدہ میں دعا کی:

پروردگار تجھے تیری عزت اور کمال رحمت کا واسطہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد اور آل محمد پر دورد بھیج اور میزاب کی کوٹی کو حکم دے کہ وہ بولے اور جو کام اس نے انجام دیا ہے عربی زبان میں اس کو سب کے سامنے بیان کرے تا کہ ہمارے تمام دوست جو اس مجلس میں جمع ہیں وہ سب سنے اور یہ اہلبیت پیغمبرﷺ کے معجزات میں شمار ہو اور دوستوں کے ایمان میں اضافہ کا سبب بنے ۔

میرے پدر بزگوار (امام صادق (ع)) نے سجدہ سے سر اٹھایا ، کوٹی کی طرف رخ کرکے فرمایا:

اے کوٹی تو میزاب کے بارے میں جو کچھ جانتی ہے بیان کر۔

۳۶

سب نے کمال تعجب سے دیکھا کہ کوٹی ہل کر ایک پرندہ کے صورت میں تبدیل ہوگئی اور بولنا شروع کیا :

اے فرزند رسولﷺ ، بادشاہ ہند نے اس شخص پر اعتماد کیا ، کنیزکو دوسرے اموال کے ساتھ اس کے سپرد کردیا تا کہ آپ تک پہونچادے اور ان کی حفاظت کے بارے میں اس کو بہت تاکید کی ، جب ہم ایک جنگل میں پہونچے ، تو موسلا دھار بارش ہونے لگی جو کچھ بھی ہمارے ساتھ تھا سب بھیگ گیا بارش بند ہوئی تو اس مرد نے اس کنیز کے ”بُشر “نامی خادم کوبلاکر کچھ درہم اس کو دئے اور کہا :”نزدیک کے شہر میں جاؤ اور ہمارے لئے کھانے کا کچھ انتظام کرو “۔

پھر میزاب نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ دھوپ میں اس کنیز کے لئے خیمہ لگاؤ، جب خیمہ تیار ہوا تم میزاب نے کنیز کو حکم دیا کے اس خیمہ میں داخل ہو جاؤ اور اپنا لباس تبدیل کرکے خشک کر لو ، تمام زمین پانی سے گیلی تھی ، اس کنیز نے اپنے کپڑے کو کچھ اوپر اٹھایا اور خیمہ میں وارد ہوئی ، عین اسی وقت میں میزاب کی نگاہیں اس کنیز کے برہنہ پیروں پر جا پڑیں ، میزاب پر شہوت طاری ہوئی اور وہ خیمہ میں داخل ہو گیااور کنیز کے ساتھ زنا کیا ، کنیز کو یہ بات بری نہ لگی اور اس نے میزاب کی خواہش کو پورا کردیا، اس طریقہ سے اس مرد ہندی میزاب نے آپ کے ساتھ خیانت کی ہے۔

میزاب نے جب یہ منظر دیکھا تو خود کو زمین پر گرا دیا ، رونے لگا اور کہا :

میں نے غلطی کی ، خطا کی میں اپنی خطا کا اقرار کرتا ہوں اورآپ سے رحم کا طلب گار ہوں ۔

امام کے اشارہ سے کوٹی اپنی پرانی حالت پر پلٹ گئی۔ امام نے میزاب سے کہا:

اپنی کوٹی اٹھااور پہن لے۔

جیسے ہی میزاب نے کوٹی کو اٹھا کر پہننے کے ارادہ سے کاندھے پر رکھا، کوٹی کی آستینںن میزاب کی گردن میں لپٹ گئیں اور اس کے گلے کو دبانا شروع کیا ، یہاں تک کے اس کا چہرہ کالا ہو گیا اور مرنے میں کچھ باقی نہ تھا کہ امام (ع)نے کوٹی کو مخاطب کر کے کہا:

اے کوٹی اس کو چھوڑ دے تا کہ یہ اپنے بادشاہ کے پاس واپس چلا جائے اور وہ خود اس کے بارے میں فیصلہ کرے ۔

۳۷

میزاب لرز رہا تھا اور خوف و وحشت کے آثار اس کے چہرہ پر نمایان تھے اس نے امام(ع) سے عرض کیا :

خدا مجھ پر رحم کرے ، اگر آپ نے بادشاہ ہند کے تحفے واپس کردئے تو مجھے ڈر ہے کہ بادشاہ مجھ پر غصہ ہو اور مجھے سزا دے ، وہ بہت سخت سزا دیتا ہے !

امام چاہتے تھے کے اس کو نجات مل جائے ، لہذا آپ نے فرمایا: اسلام قبول کرلو تا کہ میں کنیز تم کو بخش دوں اور تم اس شادی کرلو۔

لیکن اس بدبخت نے غرور اور تعصب کی بنا پر کہا :

میں آپ سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں مجھے اس کام سے معاف رکھئے !

امام نے تحفوں کو قبول کیا لیکن کنیز کو واپس کردیا کچھ مہینے بعد بادشاہ ہند کا خط امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہونچا جس کا مضمون یہ تھا:

بسم الله الرحمن الرحیم

بخدمت امام جعفر صادق بن محمد علیہما السلام

از طرف بادشاہ ہند

امابعد میں نے ایک کنیز ہدیہ کے طور پر آپکی خدمت میں بھیجی تھی لیکن جن تحفوں کی کوئی قیمت نہ تھی ، ان کو آپ نے قبول کرلیا اور جو کنیز میری نظر میں تمام تحفوں سے قیمتی تھی اس کو آپ نے واپس کردیا! آپ کے اس کام سے میرا دل ٹوٹ گیا تھا لیکن میں جانتا تھا کے اللہ کے پیغمبرﷺ اور ان کی اولاد بہت زیادہ ذہین ہوتے ہیں اس لئے میں نے اپنے قاصد کو خیانت کار سمجھا ، میں نے اپنی طرف سے ایک خط لکھا اور اپنے قاصد میزاب سے کہا کہ یہ خط امام(ع)کے طرف سے مجھے ملا ہے

۳۸

اور امام نے مجھے تیرے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے اور میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تم سچ سچ نہ بتادو تب تک تم کو نجات نہیں مل سکتی ۔

 میری اس چالاکی کے ذریعہ میزاب اور کنیز دونوں نے اپنی خیانت کا اقرار کرلیااور کوٹی کا واقعہ بھی مجھ سے بیان کیا کہ جو میرے تعجب اور ایمان میں اضافہ کا سبب بنااور میں نے ان دونوں خیانت کاروں کو قتل کردیا ۔

جان لیجئے کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ پروردگار کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے کہ جو اکیلا اور بے مثل ہے اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، ان شاءاللہ اس خط کے بعد میں بھی آپ کے خدمت میں حاضر ی دوں گا ۔

کچھ دنوں بعد بادشاہ ہند نے بادشاہی کو چھوڑ دیا اور اپنے تمام وجود کے ساتھ اسلام کا عاشق وگرویدہ ہو گیا!

--------------

(1):-  بحار الانوار ، ج 47 ، ص 113  115، بہ نقل از الخرائج و الجوارح ، ص 199.

۳۹

عصمت انبیاءکے بارے میں امام رضا علیہ السلام    کا مناظرہ

اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ مامون نے امام رضاعلیہ السلام کے مقام علمی و معنوی پر ضرب لگانے کے لئے ہرممکن فریب و مکاری کو  استعمال کیا ۔ اسکا ایک حیلہ اور مکر یہ تھا کہ تمام مذاہب و ادیان کے علماء اور دانشمندوں کو دعوت دیتا تھاوعلمی اور دینی مناظرات کی محافل منعقد ہوتی تھی جن میں تمام مذاہب کے علماءکے مقابل میں امام رضا (ع) ہوتے تھے ان تمام مناظروں میں جو لوگ بھی امام(ع) سے بحث کرتے تھے سب کو شکست فاش ہوتی تھی اور سب شرمندہ ہوتے تھے، ایک روز مناظرے میں علی بن محمد بن الجہم اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے بہت ادب کے ساتھ اسلام کے مختلف فرقوں کے علماءاور علماءیہود ، علماءمسیحی ، علماءزرتشتی گویا تمام مذاہب کے علماءکے سامنے اپنا سوال بیان کیا۔

علی ابن محمد بن الجہم : عصمت انبیاءکے بارے میں آپکا کیا نظریہ ہے ؟

کیا آپ ان سب کو معصوم سمجھتے ہیں؟

علماء: ہاں ہم ان سب کو معصوم مانتے ہیں۔

علی بن محمد بن الجہم: پس آپ ان آیات کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ جن سے انبیاءکی عصمت پر اعتراض ہوتا ہے جیسا کہ خداوند قرآن کریم میں فرماتاہے:

﴿وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى﴾

آدم نے اپنے رب کی معصیت کی اور وہ گمراہ ہوگئے۔(۱)

--------------

(1):- سورہ طہ (20)، آیت 121.

۴۰