امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت42%

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت مؤلف:
زمرہ جات: امام رضا(علیہ السلام)
صفحے: 131

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 131 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57515 / ڈاؤنلوڈ: 4963
سائز سائز سائز
امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۴۵۸&view=download&format=pdf

word

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۴۵۸&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل ( ihcf.preach@gmail.com )


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

﴿وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ﴾ (۱)

اور یونس اپنی قوم کے در میان سے غصے کی حالت میں چلے گئے اور گمان کیا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔

﴿وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا﴾ (۲)

زلیخا نے یوسف کا ارادہ کیا اور یوسف نے زلیخا کا۔

﴿وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ﴾ (۳)

اور داؤ¶د نے گمان کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لے لیا ۔

﴿وَتُخْفِی فِی نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِیهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ﴾ (۴)

تم اپنے دل میں (زید کی بیوی کے بارے میں) کچھ چھپائے ہوئے تھے کہ خدا نے اس کو ظاہر کردیااور تم لوگوں سے ڈرتے ہو جبکہ مناسب یہ ہے کہ تم فقط اللہ سے ڈرو ۔امام رضاعلیہ السلامنے جب انبیاءکے بارے میں علی بن محمد بن جہم کی یہ تہمتیں سنی تو غصہ ہوئے اور فرمایا: اے ابن جہم تجھ پر لعنت ہو ، خدا سے ڈراور ان برے گناہوں کی نسبت پیامبران خدا کی طرف مت دے اور قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے نہ کر! کیا تو نے خداکا یہ فرمان نہیں سنا:

﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِیلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ﴾ (۵)

تاویل (اور تفسیر قرآن) خدا اور راسخون(۶) فی العلم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

--------------

(۱):- سورہ انبیاء (۲۱)، آیت ۸۷.

(۲):- سورہ ی یوسف (۱۲)، آیت ۲۴.

(۳):- سورہ ص (۳۸)، آیت ۲۴.

(۴):- سورہ ی احزاب (۳۳)، آیت ۳۷.

(۵):- سورہ ی آل عمران (۳)، آیت ۷.

(۶):-  یعنی ۱۴ معصوم(ع).

۴۱

خداوند کے جس فرمان سے تو نے حضرت آدمعلیہ السلام پر اعتراض کیا ہے اسکا جواب یہ ہے کہ:

خدا نے حضرت آدم کو اس لئے پیدا کیا کہ اپنی زمین پر ان کو حجت اور خلیفہ بنائے اس لئے نہیں کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں اور جس کو تم گناہ سمجھ رہے ہو وہ کام آدم نے جنت میں انجام دیا تھا نہ کہ زمین پر لہذا زمین پر اسکے سلسلے میں مقدرات اور حدود الہی جاری نہیں ہونگے پس جب آدم زمین پر آئے اور خدا کی حجت اور خلیفہ مقرر ہوگئے تو ان کو عصمت بھی عطا کی گئی جس کی دلیل یہ آیت ہے :

﴿إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِینَ ﴾ (۱)

خداوند عالم نے آدم ، نوح اور خاندان ابراہیم و خاندان عمران کو تمام عالمین پر چن لیا۔

خداوند عالم کی جانب سے لوگوں کی ہدایت اور رہبری کے لئے چنا جانا خود عصمت کی دلیل ہے کیوں کہ بغیر عصمت کے اس کے انتخاب کا مقصد بے معنی ہو جائیگا۔

اور حضرت یونسعلیہ السلام کے بارے میں (لن نقدر) سے مراد یہ نہیں ہے کہ انھوں نے یہ گمان کیا کہ خدا ان کو سزا دینے پر قادر نہیں ہے بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ حضرت یونس نے گمان کیا کہ خداوند عالم ان کی روزی کے سلسلے میں ان پر سختی نہیں کریگا کیا تونے خداوند عالم کا قول نہیں سنا!

﴿وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ﴾ (۲)

لیکن جب خداوند انسان کوسختی میں  مبتلا کرتا ہےاور اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے میری توہین کردی۔

--------------

(۱):- سورہ ی آل عمران (۳) ، آیت ۳۳.

(۲):- سورہ فجر (۸۹)، آیت ۱۶.

۴۲

اور اگر یونس گمان (یقین)کرلیتے کہ خدا ن پر قادر نہیں ہے تو بغیر کسی شک کہ وہ کافر ہوگئے ہوتے۔

اب رہی بات حضرت یوسف(ع) کی تو انکے سلسلے میں فرمان خدا کا مقصد یہ ہے کہ زلیخا نے گناہ میں وارد ہونے اور جناب یوسف (ع)کا غلط استعمال کرنا کا ارادہ کیا اور جناب یوسف (ع)نے زلیخا کو قتل کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ آپ کو گناہ کبیرہ کا مرتکب کرنا چاہتی تھی لیکن خدا نے یوسف کو قتل اور فحشا (زنا)دونوں سے بچالیا یعنی یہاں پر ”سوء“سے مراد قتل اور فحشاسے مراد زنا ہے۔

اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جناب داؤ¶د کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟

علی بن محمد بن جہم نے ایک گڑھی ہوئی، جھوٹی داستان سنانا شروع کی:لوگ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت داؤد محراب میں نماز پڑھنے میں مشغول تھے کہ ابلیس ایک خوبصورت پرندہ بن کر ان کے سامنے آیا ۔ جناب داؤ¶د نے اس پرندے کو پکڑنے کے لئے اپنی نماز کو توڑ دیا اور اسکے پیچھے چھت تک پہونچ گئے وہاں سے آپکی نظر اپنے لشکر کے فرمانروا ”اوریا بن حنان“کی بیوی کے ننگے بدن پر پڑی کہ جو نہا رہی تھی اور آپ صرف ایک دل سے نہیں بلکہ سو دل سے اسکے عاشق اور دیوانے ہوگئے چونکہ آپ ایک شوہر دار عورت سے شادی نہیں کرسکتے تھے لہذا آپ نے اوریا ( کہ جو اس وقت محاذ جنگ پر تھا)کو فرماندہ کے عنوان سے سب سے پہلی صف میں بھیج دیا تا کہ وہ قتل ہو جائے اتفاقاً وہ اس جنگ سے کامیابی کہ ساتھ پلٹ آیا یہ کامیابی جناب داؤ¶د کو بہت بری لگی اور حکم دیا کہ دوبارہ (دوسری جنگ میں)بھی ان کو پہلی صف میں بھیجا جائے اس مرتبہ اوریا جنگ میں مارا گیا اور جناب داؤ¶د نے اس کی بیوی سے شادی کرلی۔

امام رضاعلیہ السلام نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور فرمایا:

﴿انّا لله وَ اِنَّا اِلَیهِ رَاجِعُون﴾ (۱)

-------------

(۱):- کلمہ استرجاع (خواہش رجعت تمنائے رجوع) ہے مصیبت کے وقت بولاجاتا ہے۔

۴۳

تو نے خدا کے نبی ﷺپر بہت بری تہمت لگائی ہے ، نماز کو ہلکہ سمجھنا وہ بھی صرف ایک پرندہ کو پکڑنے کے لئے ، اس کے بعد گناہ کا ارتکاب اور آخر میں ناحق قتل!

ابن جہم: اے فرزند رسول!ﷺاگر یہ بات سچ نہیں ہے تو پھر خداوند عالم نے جو آیت میں کہا ہے کہ داؤ¶د نے خطا کی ، وہ کونسی خطا ہے؟

امام: تجھ پر لعنت ہو ، انھوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا ، ان کے کام پر خدا کا اعتراض صرف اس لئے تھا کہ انھوں نے خود اپنی طرف سے گمان کیا تھا کہ خداوند عالم نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو ان سے زیادہ علم رکھتی ہو!

خداوند عالم نے دو فرشتوں کو بھیجا وہ دونوں اللہ کے حکم سے انسان کی شکل میں آگئے اور جناب داؤ¶د کی عبادتگاہ کی دیوار کے اوپر بیٹھ گئے اور کہا:

ہم دونوں آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں ، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ستم کیا ہے اب ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور ہم کو صحیح راستے کی ہدایت کریں ۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا اور کہا:یہ میرا بھائی ہے اسکے پاس ۹۹ بھیڑیں ہیں اور میرے پاس صرف ایک بھیڑ ہے وہ کہتا ہے کہ یہ ایک بھیڑ بھی تم مجھ کو دیدو اور وہ بولنے میں مجھ سے بہت آگے ہے۔(۱)

جناب داؤد نے جلدی کی اور بغیر گواہی طلب کئے اسکے دوسرے بھائی پر حکم لگاتے ہوئے کہا:

تمہارا بھائی تم پر ستم کر رہا ہے کہ تم سے تمہاری بھیڑ مانگ رہا ہے۔(۲)

-------------

(۱):- سورہ ی ص(۳۸)، آیات ۲۲/۲۳.

(۲):- ہمان، آیت ۲۴.

۴۴

داؤد کی خطا صرف انکے فیصلہ کرنے میں تھی یہ خطا نہیں تھی جو تم سمجھ رہے ہو، جس کی دلیل خداوند عالم نے آیت میں پیش کی ہے۔

﴿يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِیفَةً فِی الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى ﴾ (۱)

ای داود ! ہم نے تم کو زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا کر بھیجا ہے ، پس تم لوگوں کے در میان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات نفس کی پیروی نہ کرو۔

اگر داؤ¶د اتنا بڑا گناہ کرتے تو پھر خدا ان کو اتنا بلند مقام کیسے عطا کرسکتا تھا؟!

علی بن محمد ابن جہم ، بہت بد حواس ہو گیا تھا ، اس نے پوچھا:

اے فرزند رسول ، پھر داؤ¶د کا اوریا کے ساتھ کیا معاملہ تھا؟

امام(ع) نے جواب دیا:

جناب داؤ¶د کے زمانے میں قانون تھا کہ جس عورت کا شوہر مر جائے یا قتل ہو جائے اس عورت کو آخر عمر تک شادی کا حق حاصل نہ ہوتا تھا اس پر لازم ہوتا تھا کہ تنہا زندگی بسر کرے ۔ سب سے پہلے خداوند عالم نے جناب داؤ¶د(ع) کو اجازت دی تھی کہ وہ بیوہ عورت سے شادی کر سکتے ہیں لہذا انھوں نے اوریا کی بیوہ سے شادی کرلی اور یہ کام بعض لوگوں کو بہت برا لگا!

رہی بات حضرت محمد ﷺ کی کہ خداوندعالم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:

تم نے اپنے دل میں کچھ چھپا رکھا تھا خدانے اس کو ظاہر کردیا۔

-------------

(۱):-  ہمان ، آیت ۲۶.

۴۵

ماجرا اس طرح سے ہے کہ خداوند عالم نے پیغمبرﷺ کو آپ کی دنیا اور آخرت کی تمام بیبیوں (کہ جو مؤ¶منین کی مائیں ہیں اور پیغمبرﷺ کے بعد کوئی ان سے شادی نہیں کرسکتا)کے نام بتادیئے تھے ان میں ایک نام زینب بنت جحش کا بھی تھا جب کہ اس زمانے میں زینب آپ کے منھ بولے بیٹے زید کی بیوی تھی اور پیغربیﷺ(اس خوف سے کہ کہیں منافقین یہ نہ کہیں کہ آپ ایک شوہر دار عورت کا نام اپنے بیوی کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں اور آپ کی نظریں اس کی طرف جمی ہوئی ہیں)زینب کے نام کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔

یہاں تک کہ زید نے پیغمبر ﷺ کی نصیحتوں پر عمل نہ کیا کہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھے اور اپنی بیوی  زینب کو طلاق دیدی تو پیغمبرﷺ کو اللہ کا حکم ہوا کہ زینب سے شادی کرلیں تاکہ منھ بولے بیٹے کی بیوہ سے شادی کرنا مؤ¶منین کے لئے مشکل نہ ہو لیکن پھر بھی پیغمبر ﷺ منافقین کی سازشوں سے فکر میں ڈوبے ہوئے تھے ، لہذا خدا نے فرمایا:

تم خدا کے سوا کسی سے کیوں ڈر تے ہو؟! بہتر یہ ہے کہ صرف خدا سے ڈرو اور اس کے حکم کو بجالاؤ¶۔(۱)

اور تم یہ بھی جان لو کہ تین شادیوں کا حکم خود پروردگارنے دیا ہے:

۱۔ آدم کی شادی حوا سے

۲۔ زینب کی شادی آخری رسولﷺ سے

۳۔ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شادی علی علیہ السلام سے

جب امام رضا(ع) کا بیان یہاں تک پہونچا تو علی بن جہم رونے لگا اور کہا:

اے فرزند رسول!ﷺ میں خدا وند عز و جل کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد انبیا (ع)کے بارے میں صرف وہی کہوں گا جو آپ نے فرمایا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہوں گا!(۲)

--------------

(۱):- سورہ ی احزاب(۳۳)، آیت ۳۷.

(۲):- بحار الانوار ، ج۱۱ ، ص ۷۲-۷۴، بہ نقل از امالی شیخ صدوق ، ص ۵۵-۵۷ و عیون اخبار الرضا، ص ۱۰۷-۱۰۸.

۴۶

صلہ رحم

میں علی بن ابی حمزہ ہوں(۱) میں چاہتا ہوں کہ ایک عجبک ،دلچسپ اور درس آموز واقعہ آپکے سامنے باان کروں :

ایک دن میں امام موسیٰ بن جعفر(ع)کی خدمت میں تھا حضرت نے بغر  کسی مقدمہ کے ایک ذمہ داری مجھے سونپی :

اے علی بن ابی حمزہ !بہت جلد اہل مغرب سے ایک شخص تمہاری تلاش میں آئیگا اور تم سے میرے بارے میں سوال کریگا،تم اسکے جواب میں کہنا کہ ”خدا کی قسم یہ وہی امام ہیں کہ جنکی امامت کی تائید امام صادق (ع) نے ہمارے سامنے کی ہے“ پھر وہ تم سے حلال و حرام کے بارے میں سوال کریگا،تم میری طرف سے اسکے سوالوں کا جواب دینا۔

میں نہیں جانتا تھا کہ اس شخص کو کس طرح پہچانوں گااس لئے میں نے عرض کیا:

میری جان آپ پر قربان ،اس شخص کی علامت کیا ہے؟

امام نے فرمایا:

وہ شخص طویل قد اور بھاری جسم کا آدمی ہے اسکانام یعقوب ہے،تم فکر نہ کرو وہ خود تمکو پہچان لیگا اور تم سے کچھ سوالات کرےگا تم اسکے تمام سوالوں کے جواب دینا!وہ اپنی قوم کا رئیس ہے۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہے کہ امام کاظم(ع) شدید گھٹن کے ماحول میں زندگی گزار رہے تھے اور سختی سے تقیہ کا حکم دیتے تھے یہاں تک کہ ہم کو اس بات کی بھی اجازت نہ تھی کہ ہم ہر سوال کا جواب دیں چونکہ ممکن تھا کہ سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس ہو ۔

--------------

(۱):- اس واقعہ کو اباصلت نے امام رضا (ع) سے نقل کیا ہے اس لئے یہ خاطرات اباصلت از امام رضا(ع) میں شامل ہے اور اسی وجہ سے ہم نے اس کو ذکر بھی کیا ہے البتہ یہ روایت دوسری اسناد سے بھی ذکر ہوئی ہے لیکن وہاں پر علی بن ابی حمزہ کے شعیب العقر قوقی کا نام ذکر ہوا ہے۔

۴۷

امام(ع) نے میری فکر کو ختم کرتے ہوئے فرمایا :

اگر وہ مجھ سے ملاقات کرنا چاہے تو اس کو میرے پاس لے آنا۔

خدا کی قسم میں طواف کعبہ کر رہا تھا ،تیھا ایک طویل قد اور بھاری کا جسم آدمی میرے پاس آیا اور کہا:

میں چاہتا ہوں کہ تمہارے آقا کے بارے میں تم سے سوال کروں۔

میں مطمئن نہیں تھا کہ یہ وہی شخص ہے کہ جسکے بارے میں امام(ع) نے فرمایا تھا لہذا میں کنارے ہو ا اورپوچھا:

کون سے آقا کی بات کر رہے ہو؟

 اس سوال کے جواب میں جب اس نے امام موسیٰ ابن جعفر(ع)کا نام لیا تو میں نے اطمینان قوی حاصل کرنے کی لئے اس سے پوچھا:

تمہارا نام کاے ہے؟

اس نے کہا: میرا نام یعقوب ہے۔

میں نے پوچھا :تم کہاں کے رہنے والے ہو؟

اسنے جواب دیا کہ میں مغرب کا رہنے والاہوں۔

اب میری فکر کو کچھ راحت حاصل ہوئی لیکن مجھے تعجب ہوا کہ ایک اجنبی انسان نے مجھے کے م پہچانا اور یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں امام کاظم(ع)سے تعلق رکھتا ہوںاور بغیر کسی خوف کے مجھے تلاش کر کے امام(ع)کے بارے سوال کر رہا ہے!

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اس سے سوال کیا ۔

تم نے مجھ کو کیسے پہچانا؟

اس نے بڑا دلچسپ جواب دیا:میں نے ایک شخص کو خواب میں دیکھاکہ اس نے مجھ سے کہا :

۴۸

علی بن ابی حمزہ کو تلاش کرواور اپنے تمام سوالوں کے جوابات ان سے دریافت کرو۔

میں نے یہاں کے رہنے والوں سے پوچھا کہ علی بن ابی حمزہ کون ہے؟

ان لوگوں نے تمہاری طرف اشارہ کر کے کہاکہ یہ علی ابن ابی حمزہ ہیں۔

اب میں بالکل مطمئن ہو گیاتھا اور میں نے اس سے کہا :

تم یہیں بیٹھو میں اپنا طواف پورا کر کے تمہاری خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔

طواف تمام کرنے کے بعدمیں واپس ہوااور جب میں نے اس سے گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک عاقل اور منطقی انسان ہے ۔

اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے امام(ع) کی خدمت میں لے چلو۔

میں نے اسکی درخواست کو قبول کیا اور اسے امام(ع) کی خدمت میں لے آیا۔

جب امام (ع)نے اسکودیکھا تو فرمایا:

اے یعقوب کل فلاں جگہ پر تمہارے اور تمہارے بھائی کے بیچ میں جھگڑا ہو گیا تھا یہاں تک کہ تم نے ایک دوسرے کوگالی بھی دی تھی۔

یہ چیز ہمارے دین سے بالکل خارج ہے اور ہم کسی کو بھی ایسے کاموں کا حکم نہیں دیتے چاہے وہ ہماری پیروی کرتا ہو یا نہ کرتا ہو ۔

اس خدا سے ڈرو جویک و تنہا اور لا شریک ہے چونکہ بہت جلدہی موت تم دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیگی ۔

یعقوب ابھی تھوڑے سے وقت ہی میں غیب کی کئی خبریں سن چکا تھا اس لئے وہ موت اور جدائی کی باتیں سنکر فکر میں ڈوب گیا۔

امام(ع) نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

۴۹

تیرا بھائی اس سفر میں گھر پہونچنے سے پہلے انتقال کرجائیگا اور تم نے جو اس سے جھگڑا کیا ہے تمکو اس پر شرمندگی ہوگی۔

یعقوب نے امام(ع)سے سوال کیا کہ آخر ہم لوگ کیوں اتنی جلدی جدا ہو جاینگے؟

امام(ع) نے جواب میں فرمایا:

چونکہ تم نے آپ سی تعلقات کو ختم کر دیا ہے لذما خدا نے تمہاری زندگی کے رشتے کو ختم کر دیا۔

یعقوب بہت پریشان ہوا اور اضطراب وبے چینی کے عالم میں امام(ع) سے سوال کیا:

پھر تو میں بھی جلد ہی مر جاؤنگا؟

امام(ع) نے فرمایا:

ہاں تم بھی اپنے بھائی کی طرح جلد ہی اس دنیا سے چلے جاتے لیکن چونکہ تم آنے والے وقت میں اپنی پھوپھی کی خدمت کروگے اس لئے خدا وند عالم نے تمہاری عمر میں بیس سال کا اضافہ کر دیا ہے۔

 ایسا ہی ہوا !اگلے سال جب میں نے یعقوب کو مراسم حج میں دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا:

اے علی بن ابی حمزہ تم نے میری بدبختی کو دیکھا میرا بھائی گھر تک بھی نہ پہونچ سکا اوردرمیان راہ ہی میں انتقال کر گیا۔(۱)

--------------

(۱):- بحار الانوار ، ج ۴۸ ، ص ۳۷ و ص ۳۵-۳۶ ، بہ نقل از الخرائج و الجرائح ، ص ۲۰ ، و رجال الکشّی ، ص ۲۷۶ ، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج۲ ، ص ۲۴۵- مسند الامام الکاظم ، ج۱ ، ص ۳۷۹.

۵۰

حرزا مام رضاعلیہ السلام

دروازہ کھٹکھٹا نے کی آواز آئی ایک آدمی بہت تیزتیزدروازہ پیٹ رہا تھا میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ہارون رشیدکا قاصد غصہ کی حالت میں دروازہ پر کھڑا ہے میں نے اسکو سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیئے بغیر میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے کنارے کیا اور گھر کے اندر داخل ہوگیا امام رضا(ع)صحن میں بیٹھے ہوئے تھے ہارون کا قاصد امام کے پاس پہونچا اور کہا امیرالمؤمنین  ہارون نے آپکو بلایا ہے امام(ع)نے جواب دیا تم چلو ہم ابھی آتے ہیں ۔

جب قاصد چلا گیا تو امام(ع)نے مجھ سے فرمایا اے ابا صلت اس وقت ہارون نے مجھ کو اس لئے بلایا ہے تا کہ میری ناراضگی کے اسباب فراہم کرے میں یہ سنکر کچھ پریشان ہوا جب امام(ع) نے میرے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے تو فرمایا گھبراؤ نہیں وہ کسی بھی صورت میں مجھ کو ناراض نہیں کر سکتا۔

 میں نے امام(ع) سے سوال کیا :

کیسے ممکن ہے کہ وہ آپ کو ناراض نہ کر سکے جب کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے؟

امام نے جواب دیا:

جو کلمات میرے جد امجد رسول خدا ﷺ کی جانب سے مجھ تک پہونچے ہیں انکی برکت کی وجہ سے وہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔(۱)

--------------

(۱):- ایک دوسری روایت (بحارالانوار، ج۴۹، ص۱۱۵) میں آیا ہے کہ امام رضا (ع) نے فرمایا، جیسے کہ رسول خدا نے فرمایا: اگر ابوجہل میرا بال بینکا بھی کردے تو تم سب لوگوں کے سامنے گواہی دیتا کہ می ں پیغمبر خدا نہیں ہوں۔

میں بھی کہہ رہا ہوں:

اگر مامون میرا بال بینکا کردے تو تم سب کے سامنے گواہی دیتا کہ میں امام نہیں ہوں۔

۵۱

سچ تو یہ ہے کہ میں امام(ع) کے مقصد کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہو سکا بس اتنا سمجھ گیا کہ ہوگا وہی جو امام(ع) نے فرمایا ہے۔

جیسے ہی امام(ع) کی نظر ہارون پر پڑی آپ نے دورہی سے وہ حرز پڑھا :

جب آپ ہارون کے سامنے پہونچےِ،ہارون نے آپ کودیکھا اور بہت ہی مؤدبانہ انداز میں کہا:

اے ابو الحسن! میں نے اپنے خزانچی کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کو ایک لاکھ درہم دےاور آپ اپنے گھر والو ں کی ضروریات کی ایک فہرست بنا کر ہمیں دیدیں تاکہ تمام چیزیں آپکے لئے فراہم کی جا سکیں۔

جب امام(ع)، ہارون سے جدا ہو رہے تھے اس وقت ہارون نے امام(ع) کے قد و قامت کو دیکھا اور دھیمی آواز میں کہا:

ہم نے کچھ ارادہ کیا او رخدا نے کچھ ارادہ کیالیکن جو ارادہ خدا کرتا ہے وہی بہتر ہوتا ہے اور انجام پاتا ہے۔(۱)

--------------

(۱):- بحار الانوار ، ج ۴۹ ، ص ۱۱۶ و ج ۹۱، ص ۳۴۴.

۵۲

متن حرز امام رضاعلیہ السلام

میں جانتاہوں کہ آپ اس لمحہ کے مشتاق ہونگے کہ اس متن کو دیکھیں، بہت اچھا !اب میں آپکی خدمت میں وہ حرز پیش کرتا ہوں:

بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ

بِسمِ اللهِ اِنی اَعوذُ بالرَّحمنِ مِنکَ اِن کُنتَ تَقيّاً اَو غَیرَ تَقيٍّ، اَخَذتُ بِاللهِ السَّمیعِ البَصیرِ علی سَمعِکَ وَ بَصَرِکَ لا سُلطانَ لَکَ عَلَيَّ وَ لا علی سَمعی وَ لا علی بَصَری وَ لا علی شَعری وَ لا علی بَشَری و لا علی لَحمی وَ لا علی دَمی وَ لا علی مُخّی وَ لا علی عَصَبی وَ لا علی عِظامی وَ لا علی مالی وَ لا علی ما رَزَقَنی رَبّی. سَتَرتُ بَینی وَ بَینَکَ بِسِترِ النُّبُوَّةِ الَّذی اَستَرَ اَنبِیاءَ اللهِ بِهِ مِن سَطَواتِ الجَابِرَةِ وَ الفَراعِنَةِ.جِبرَئیلُ عَن يَمینی وَ میکائیلُ عَن يَساری وَ اِسرافیلُ عَن وَرائی وَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ اَمامی، وَ اللهُ مَطَّلِعٌ عَلَيَّ يَمنَعُ الشَّیطانَ مِنّی.الّلهُمَّ لا يَغلِبُ جَهلُهُ اَناتَکَ اَن يَستَفِزَّنی وَ يَستَخِفَّنی.الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ، الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ، الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ.(۱)

ترجمہ حرز :

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے میں تجھ سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں چاہے تو با تقوےٰ ہویابےتقویٰ،خدا وند عالم کی مدد سے میں تیرے کان اور تیری آنکھوں کو بند کر رہا ہوں، تیرے پاس مجھ پر تسلط حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے،نہ میرے کانوں پر ،نہ میری آنکھوں پر،نہ میرے بالوں پر،نہ کھال پر ،نہ گوشت پر،نہ خون پر، نہ دماغ پر،نہ اعصاب پر ،نہ میرے مال پراور نہ ہی میرے رزق پرکہ جو خدا وند عالم نے مجھے عطا کیا ہے،میں اپنے اور تیرے درمیان ایک پردہ ڈال رہا ہوں ،ایسا پردہ جو نبوت کا پردہ ہے یعنی وہ پردہ جس کو انبیاءﷺنے فرعون جیسے ظالم اور جابر بادشاہوں کے حملوں سے بچنے کی لئے اپنے اور انکے درماین ڈالا تھا۔

--------------

(۱):- اس حرز کو شیخ عباس قمی نے منتہی الآمال کی فصل ۵ باب ۱۰ میں اور مفاتیح الجنان میں بی) تحریر کیا ہے۔

۵۳

داہنی جانب سے جبرئیل،بائں  جانب سے میکائیل،پیچھے سے اسرافیل،سامنے سے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ،یہاں تک کہ خدا وند بھی (کہ جو میرے حالات کو جانتا ہے) تیرے شر کو مجھ سے روکے ہوئے ہے،اور شیطان کو مجھ سے دور کئے ہوئے ہے۔

پروردگارا! وہ تیری قدرت سے نادانی کی بنا پر غافل ہو کر مجھ کو وھشت زدہ اور ذلیل و خوار نہ کر دے۔

پروردگار میں تریی پناہ چاہتا ہوں   پروردگار میں تر۔ی پناہ چاہتا ہوں

پروردگار میں ترری پناہ چاہتا ہوں

پانی کا چشمہ جاری کرنا

ہم لوگ مامون سے ملاقات کے ارادے سے نیشاپور سے نکلے،ابھی قریہ حمراء(۱) تک پہونچے تھے کہ سورج بالکل سر پر آ گیا ۔

ایک شخص جو امام(ع) کی سواری کے نزدیک تھا اس نے آسمان کی جانب نگاہ کی اور امام رضاعلیہ السلام سے کہا:

آقا ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔

امام رضاعلیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا :

پانی لے آؤ تاکہ میں وضو کر سکوں۔سب لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ آقا کے لئے پانی لاؤ۔

یہاں تک کہ وہ شخص جس پر سفر کی تمام ضروریات مہیا کرنے کی ذمہ داری تھی امام (ع) کے قریب آیا اور اس نے شرمندگی کے ساتھ کہا:

فرزندے رسول میری جان آپ پر قربان، جو پانی ہمارے پاس تھا وہ ختم ہو گیا اور یہاں اطراف میں کوئی نہر اورچشمہ بھی نہیں ہے۔

--------------

(۱):- قریہ حمراء یعنی قریہ دہ سرخ۔

۵۴

 اگر آپ بہتر سمجھیں تو ہم لوگ  آگے بڑھیں؟ اور قریہ حمراءپہونچ کر نماز کو اول وقت کے بجائے کچھ تاخرر سے پڑھ لیں گے؟

امام(ع) ہمیشہ فضیلت کے وقت میں نماز پڑھتے تھے،کبھی تاخیر نہ کرتے تھے، جس جگہ امام(ع)کھڑے تھے وہیں دوزانوں ہو کر بیٹھ گئے اور کچھ زمین کھودی، اچانک میٹھا پانی زمین سے ابل پڑا اور ایک نئے چشمہ کی شکل اختیار کرلی۔

 امام رضاعلیہ السلاماور انکے تمام اصحاب نے وضو کیا اور اول وقت اسی بیابان میں نماز جماعت ادا کی ، وہ چشمہ آج تک جاری ہے۔

ہم آگے بڑھے اور سناباد(۱) پہونچ گئے وہاں پر ایک پہاڑ تھا ،وہاں کے رہنے والے اس پہاڑ کے پتھر سے دیگ بناتے تھے۔(۲) امام علیہ السلام نے اس پہاڑ سے ٹیک لگائی اور دعا کی:

الّلهُمَّ اَنفِع بِهِ وَ بارِک فیما يُجعَلُ فیما يُنحَتُ مِنهُ

اے پروردگار!اس پہاڑ میں یہاں والوں کے لئے نفع قرار دےاور اس پہاڑ سے جو پتیلیاں بنائی جائیں اور ا ن میں جو کھانا تیارر ہو اس میں برکت عطاکر ۔

پھر امام(ع)نے حکم دیا کہ ہمارے لئے کچھ پتیلیاں اس پہاڑ کے پتھر سے تارر کرو اور پھر ایک بات کہی جو بڑی دلچسپ تھی اور وہ یہ کہ:میرے لئے اس پتیلی کے علاوہ کسی اور پتیلی میں کھانا نہ بنایا جائے۔

البتہ میں آپکی خدمت میں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ امام(ع) کھانا بہت کم کھاتے تھے!

اس دن سے لوگوں میں اس پہاڑ کی پتیلیاں خریدنے کا شوق پیدا ہو گیا اور اس طریقہ سے اس پہاڑ کے سلسلے میں حضرت(ع) کی دعا کا اثر ظاہر ہو گیا۔(۳)

--------------

(۱):- سناباد، پہلے ایک گاؤں تھا لیکن اب مشہد میں شامل ہو گیا ہے اور آج بھی اسی نام سے ایک مشہور محلہ ہے۔

(۲):- یہ پتیلیاں آج بھی مشہد مقدس میں بنائی جاتی ہیں ان پتیلیوں کا نام (ہرکارہ) ہے اوریہ کےپتھروں سے بنائی جاتی ہیں۔

(۳):- بحار الانوار ، ج ۴۹ ، ص ۱۲۵ ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ج ۲، ص ۱۳۶- منتہی الآمال فصل ۵ از باب ۱۰.

۵۵

اپنے مزار کی پیش گوئی

جب ہم طوس پہونچے تو حمید بن قحطبہ طائی کے مہمان ہوئے،امام(ع) ایک گنبد میں وارد ہوئے کہ جس میں ہارون کی قبر تھی، سچ تو یہ ہے کہ یہ بات میرے لئے بہت عجیب تھی کہ امام(ع) کا ہارون کی قبر سے کچھ تعلق ہے لیکن میں بہت جلد سمجھ گیا کہ امام رضاعلیہ السلام اپنے ساتھیوں کو کوئی دوسری چیز سمجھانا چاہتے ہیں آپ نے ہارون کی قبر کے سرہانے اپنے مبارک ہاتھوں سے ایک خط کھینچا اور ایک دائرہ معین کیا اور فرمایا:

یہ میرے مرقد کی مٹی ہے میں اس جگہ دفن کیا جاؤنگا اور جلد ہی خدا اس مقام کو ہمارے شیعوں اور دوستوں کے آنے ،جانے کی جگہ قرار دے گا۔

خدا کی قسم !جو بھی میری زیارت کرے گا اور مجھے سلام کر ے گا،اس پر ہماری شفاعت کے ذریعہ خدا کی رحمت اور مغفرت واجب ہو جائےگی۔

یہ فرما کر آپ نے قبلے کی طرف رخ کیا اور چند رکعت نمازاور کچھ دعائںم پڑھیں،نماز اور دعا تمام ہونے کے بعد ایک طولانی سجدہ کیا،میں نے خود سنا ہے کہ آپ نے سجدے میں پانچ سو مرتبہ ذکر تسبیح پڑھا پھر سجدے سے سر اٹھایا اور اپنی قیام گا ہ یعنی حمید بن قحطبہ طائی کے گھر پلٹ آئے۔(۱)

--------------

(۱):- بحار الانوار ، ج ۴۹ ، ص ۱۲۵ ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ج ۲، ص ۱۳۶- منتہی الآمال فصل ۵ از باب ۱۰.

۵۶

بہشت کا چشمہ(۱)

ابھی ایک چشمہ کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کیا ہے جو امام رضا(ع) نے خشک اور بے آب زمین پر اپنے اعجاز سے جا ری کیا اب بہتر سمجھتا ہوں کہ ایک اور چشمہ کا ذکر کروں جو حضرت علی(ع)نے اپنے اعجاز سے بے آب و گیاہ بیابان میں جاری کیا تھا ۔

یہ روایت محمد بن یوسف فریابی،سفیان اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، حبیب ابن جہم کے ذریعہ مجھ تک پہونچی ہے۔

حبیب ابن جہم روایت کرتے ہیں :

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ہم امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کی رکاب میں سرزمین صفین کی طرف جا رہے تھے ہم صندود نامی ایک گاؤ میں پہونچے اور وہاں ٹھہرنے کا قصد کیا ابھی ہم نے اپنے سامان گھوڑوں سے نہ اتارے تھے کہ امام علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ یہاں سے حرکت کریں ہم نے حکم کی تعمیل کی اورایک ایسے مقام پر پہونچے جہاں زمین بالکل خشک تھی اور آب و گیاہ کا کچھ نام و نشان نہ تھا ۔

امام علی علیہ السلام نے حکم دیا :یہیں پر قیام کریں۔

مالک اشتر کو کون نہیں جانتا، وہ جنگ کے مرغ (سب سے بڑے بہادر)کہلاتے تھے اور امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کے سپاہ سالار تھے۔

آپ امیر المؤمنین(ع)کے پاس آئے اور کہا:

اے امیر المومنین(ع)! یہاں پر پانی کا نام و نشان نہیں ہے ۔

--------------

(۱):- چونکہ یہ روایت بھی اباصلت نے نقل کی ہے اورپہلی والی روایت سے مشابہت رکھتی ہے لہذا ہم نے اس کو یہاں پر ذکر کردیا ہے۔

۵۷

یہاں جنگی لشکر کو ٹھہرانا کیسا ہوگا؟

 حضرت امیر المومنین(ع) مسکرائے ،ایک نگاہ مالک اشتر کی طرف کی اور فرمایا:

اے مالک ! میں بہتر جانتا ہوں کہ جنگ کے زمانے میں لشکر کو ایسی سرزمین پر روکنا مناسب نہیں ہے کہ جس میں پانی موجود نہ ہولیکن یہ بات جان لو کہ بہت جلد خدا وند عالم اس سر زمین سے ہم کو ایسے پانی سے سیراب کرے گا جو شہد سے زیادہ شیرین  و لطیف ہوگا، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور یاقوت سے زیادہ صاف و شفاف ہوگا۔

ہم سب کوبہت تعجب ہوا جب کہ ہم یہ جانتے تھے کہ جو کچھ امیر المؤمنین(ع)کہہ دیں وہ سو فصداہو کر رہے گا اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

 حضرت امیر المؤمنین(ع) نے یہ فرما کر اپنی عبا کو دوش سے اتارا،تلوار کو ہاتھ میں لیا،کچھ قدم آگے بڑھ کر ایک بالکل خشک مقام پر کھڑے ہو گئےاور مالک سے کہا:

اے مالک! لشکر کی مدد کے ذریعہ اس جگہ کو کھودو۔

مالک اور اسکے لشکر نے زمین کو کھودنا شروع کیایہاں تک کہ ایک بہت بڑا کالے رنگ کا پتھر نمودار ہواکہ جس سے چاندی کا ایک چمکدار چھلا متصل تھا۔

 حضرت امیر المومنین ؑنے مالک سے فرمایا:

اپنے دوستوں کی مدد سے پتھر کو اٹھا کر کنارے ڈال دو۔

مالک اور ایک سو جنگی جوانوں نے پتھر کو چاروں طرف سے پکڑا اور اکھاڑنا چاہا لیکن بہت زیادہ طاقت لگانے کے بعد بھی کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ کچھ کر نہیں پا رہیں تو آپ خود پتھر کے قریب آئے اورپتھر

۵۸

کو پکڑنے سے پہلے آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کیا اور ایک ایسی دعا پڑی کہ ہم میں سے کوئی بھی اسکے معنی کو نہ سمجھ سکا!

اس دعا کا متن یہ ہے:

طاب طاب مربا بما لم طبیوثا بوثة شتمیا کوبا جاحا نوثا تودیثا برحوثا، آمین یا رب العلمین، ربّ موسیٰ وهارون

پھر آپ نے انگلیوں کو پتھر میں پھسایا اورقدرت ید اللٰھی کے ذریعہ صرف ایک جھٹکے میں پتھر کو اکھاڑ کر چالیس ہاتھ دور پھینک دیا۔جن نو جوانوں نے بزورگوں کی زبانی در خیبر اکھاڑنے کے واقعہ کو سنا تھا، اس دن انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے اسی کے مثل خدا کے ہاتھ کی قدرت کا معجزہ دیکھ لیا۔

اچانک شہد سے زیادہ شیرین ،برف سے زیادہ ٹھنڈا اور یاقوت سے زیادہ شفاف پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلاماور ہم سب نے چشمے کا پانی پیا اور اپنی مشکوں وتمام برتنوں کو پانی سے بھر لیا۔

پھر حضرت علی علیہ السلامدوبارہ پتھر کی طرف گئے اور پتھر کو اٹھا کر چشمہ کی طرف بڑھے ہم سب لوگ راستے سے ہٹ گئے یہاں تک کہ حضرت نے پتھر کو اسکی پرانی جگہ پر رکھ دیا اور فرمایا: پتھر کو مٹی سے چھپا دو۔

ہم نے پتھر کو چھپا دیااور اپنے سازوسامان کو باندھ کر روانہ ہو گئے لیکن ابھی زیادہ آگے نہ بڑھے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ٹھہرنے کا حکم دیااور لشکر کو مخاطب کر کے فرمایا:

کیا تم میں سے کوئی اس چشمے کی جگہ کو جانتا ہے؟

لشکر میں جوش پیدا ہو گاشاور سب نے ہاتھ بلند کر کے کہا:

آقا ہم جانتے ہیں،ہم جانتے ہیں۔

ہم میں سے ایک گروہ مالک اشتر کے ساتھ واپس آیا لیکن ہم کو اس چشمے  کا کوئی نشان نہ ملا!پانی کا چشمہ پانی ہو کر زمین کے نیچے جا چکا تھاحتی کہ اس بڑے پتھر کی بھی کوئی خبر نہ تھی۔

۵۹

مالک نے کہا :یقینا امیرالمؤمنین(ع) پیاسے ہیں اسی لئے ہم کو پانی لینے کے لئے بھیجا ہےلذاا سب لوگ اسی اطراف میں پانی کو تلاش کریں تا کہ ہم امیرالمؤمنین(ع)کی خدمت میں پانی پیش کرسکیں۔

کچھ تلاش و کوشش کے بعد ہم کو ایک خانقاہ نظر آئی ہم خانقاہ میں داخل ہوئے تو وہاں ہم نے ایک راہب کو دیکھا جسکی پلکیں برف کی طرح سفید ہو چکی تھی اور اسکی آنکھوں پر گری ہوئی تھیں!

مالک نے راہب سے پوچھا:اے راہب کیا تمہارے پاس کچھ پانی ہے؟

راہب تمام جنگی جوانوں کو مسلح دیکھ کر بہت زیادہ ڈر گیا تھا اور ہم سب کو ایک ایک کر کے دیکھ رہا تھااس نے ڈرتے ہوئے جواب دیا:

ہاں ، ہاں دو دن پہلے میں نے کچھ پانی میٹھا کیا تھا ایسا میٹھا پانی اس اطراف میں دور دور تک نہیں ملتا۔

یہ کہہ کر راہب ایک چھوٹے سے کمرے میں گیا اور وہاں سے پانی کی مشک اٹھا کر لایااور مشک کو مالک کے ہاتھ میں دے دیا،مالک نے اطمینان حاصل کرنے کے لئے کہ پانی میں کوئی خرابی تو نہیں ہے مشک کو اوپر کیا اور تھوڑا سا پانی منھ میں ڈالا لیکن فورا ًہی اس پانی کو منھ سے باہر نکال دیا جیسے کہ مالک کو یہ امید نہ تھی کہ پانی ایسا ہوگااور کہا:

اے بزرگوار!یہی وہ میٹھاپانی ہے جسکی آپ تعریف کر رہے تھے ؟یہ پانی تو نمکین بھی نہیں کڑوا ہے شاید آپ نے میٹھا اور لطیف پانی پیا ہی نہیں اس لئے نہیں جانتے کہ شیرین اور لذت بخش پانی کسے کہتے ہیں ؟ کاش تم نے ایک پیالہ اس پانی میں سے پیا ہوتا جو ہمارے مولیٰ نے ہم کو پلایا ہے تا کہ تمںیش معلوم ہوتا کہ جسکو تم پانی کہہ رہے ہو اصلاً وہ پانی ہی نہیں ہے ۔

پھر مالک اشتر نے اس چشمہ کا پورا واقعہ اس راہب سے بیان کیا۔

جب راہب نے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلامکے اعجاز کا یہ واقعہ سناتو سوال کیا:کیا تمہارے مولیٰ پیغمبرﷺ ہیں؟

مالک اشتر:  ہما رے مولیٰ ،پیغمبر نہیں بلکہ پیغمبر ﷺ کے وصی ہیں۔

۶۰

دور ِعثمان میں بزرگ صحابی ،ابوذر غفاری اور معاویہ کے درمیان کیا پیش آیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی حشمتوں کے پیچھے،عیش پرستی اور قومی سرمایہ کے لوٹ کھسوٹ کے پیچھے پڑاتھا۔معاویہ کے رویہ پر اعتراض کرنے کی وجہ سے حضرت عثمان نے ابوذر کو مدینہ بلانے کے بعد 'ربذہ' نامی علاقہ میں جلاء وطن کیا۔زید ابن وہب سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا،''میں ربذہ سے گذرتے ہوئے ابوذر سے ملا، اورپوچھا تم کو کون سی چیز اس ویران علاقہ میں لے آئی ہے؟ تو انہوں نے کہا ،' ہم شام میں تھے۔ ''اور جو لوگ سونا،چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے ہیں،پیغمبر آپ انہیں دردناک عذاب کی بشارت دیدیں (سورۂ توبہ 3 4 ) کے بارے میں معاویہ نے کہا کہ یہ آیت مسلمانوں کے متعلق نہیں اتری ہے بلکہ اہل کتاب کیلئے۔میں نے کہا کہ یہ ہمارے متعلق بھی نازل ہوئی ہے اور ان کے متعلق بھی ''(104)

اسطرح ابوذر غفاری کو جلاوطنی کے سزا دی گئی حالانکہ رسولخدا (ص) نے اس کے سچا ہونے کی ضمانت دی ہے۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ہے،'' نہ ہی کسی شجر نے ابوذر جیسے سچے انسان کا سایہ کیا ہے اور نہ ہی کسی صحراء نے ایسا سچا آدمی دیکھا ہے''(105) ۔ اس معاملہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معاویہ نے کسطرح قرانی آیات کی غلط تاویل کرکے بیت المال کے اپنے لوٹ کھسوٹ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے جس کو اپنی عیاشی لئے اسطرح بیباک خرچ کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔مسئلہ یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا کہ معاویہ کسطرح ایک فقیہ ہوسکتا ہے ! ابو ما لیکا نے کا بیان ہے ،''معاویہ نے نماز مغرب کے بعد ایک رکعت نماز وتر پڑھی اور اس کے ساتھ ابن عباس کا ایک غلام تھا۔ابن عباس آئے اور اپنے غلام سے کہا؛اسکوچھوڑو کیونکہ وہ رسول خدا (ص) کا ایک صحابی ہے!(106) اس واقعہ کو دوسرے طریقہ سے اسطرح بیان کیا گیا ہے کہ،'' ابن عباس نے فرمایا ہے کہ معاویہ ایک 'فقیہ' تھا!(107) ۔جب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ معاویہ نے پچیس سال بحیثیت خلیفہ مسلمین کے گذارے جس سے پہلے وہ والیٔ شام تھا،قاری خودسمجھ سکتا ہے کہ اس نے جعلی احادیث لکھوانے،پھیلانے اور پیغمبر خدا (ص) سے منسوب کرکے اپنے کرتوت کا جواز پیدا کرنے کیلئے اپنے اثر و رسوخ کا ناجائز استعمال کس حد تک کیا ہے۔

۶۱

ان تمام ذرائع کے باوجود جو اسنے اپنے کرتوت چھپانے کیلئے کیا،وہ احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں اسطرح صاف درج ہیں جن سے اس نام نہاد خلیفہ مسلمین کے متعلق حقائق کے معلومات کی کسی مغالطہ کی کوئی گنجائش نہیں رہجاتی ہے جسکو اہلسنت'امیر المومنین 'کا لقب بھی دیتے ہیں ''! حاکمیت اور اقتدار کے بارے میں معاویہ کے برتائو کی جڑیں سفیانی خاندان سے پیوست ہیں۔اس کے باپ ابوسفیان نے حضرت عثمان کی بیعت کرنے کے بعد کہا ِ،' اسکو گیند کی طرح پکڑتے رہو، اس کیلئے جسکی قسم کھا کر ابوسفیان کہتا ہے،میں پُر امید ہوں کہ تم (بنو امیہ) کو بھی یہ ملے گی اور تمہاری نسل کوبھی وراثت میں ملیگی''(108) دوسرے ایسے ہی بیان میں اس نے فرمایا'' اس کو گیند کی طرح پکڑو،کیونکہ نہ کوئی جنت ہے اور نہ کوئی جہنم'' اسطرح وہ فتحہ مکہ کے بعد جہاں سب مکہ والوں نے اسلام قبول کیا تھا اسلام قبول کرنے کے بہانہ کے اصلی راز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اور اس آگے والے بیان شدہ واقعہ سے دیکھو کہ انہوں نے کونسا اسلام کراہتاََ قبول کیا تھا:

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے،'' ابوسفیان نے کہا،' اللہ کی قسم میں یقین کے ساتھ اس خوف میں رہا کہ رسول (ص) خدا کا پیغام حاوی ہوکے رہے گا یہاں تک کی اللہ نے میری خواہش کے بر خلاف میرے دل میں اسلام داخل کر دیا(109) ۔زبانِ ابوسفیان کی اقرار سے خیال کرو کہ اگر اسکے دل کو بیان کرنے کی اجازت دی جاتی تو وہ کہتا کہ اس میں کیا ہے!

پیغمبر خدا (ص) نے معاویہ کے متعلق کیا فرمایا

صحیح مسلم میں یہ بیان درج ہے۔''پیغمبر خدا نے کچھ لکھنے کیلئے ایک دن عبداللہ ابن عباس کو معاویہ کو بلانے کیلئے بھیجا ۔ابن عباس نے اس کو کھانا کھاتے دیکھاتو واپس آگئے کچھ وقفہ کے بعدا بن عباس پھر گئے اسی طرح تین مرتبہ ابن عباس اس کو بلانے گئے مگر اسے کھانا کھانے میں مصروف پایا ،تیسری مرتبہ جب ابن عباس نے آکربتایا تو اللہ کے رسول نے کہا،' اللہ کبھی بھی اس (معاویہ) کا پیٹ سیر نہ کرے''(110) ۔

۶۲

صحیح مسلم میں ہی یہ بھی درج ہے:'' اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا : ۔۔جہاں تک معاویہ کا تعلق ہے،وہ کنگال اور بے روح انسان ہے''(111) ۔ مسندا حمد بن حنبل میں معاویہ اور عمروعاص کے متعلق روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا:''اے اللہ ! ان کو جلد اختلاف میں مبتلا کر اور انکو جہنم میں جگہ دے''۔

جگرخور کے بیٹے معاویہ کے ہاتھوں اپنی زندگی میں ہی اپنے شراب خور ،عیاش اوربدکار بیس سالہ بیٹے یزید کو اپنے بعد مسلمانوں کا امیر المومنین بنانے کیلئے راہ ہموار کرنا انکے متعلق حقائق کا پردہ اٹھانے کیلئے کافی ہے۔ معاویہ نے امام حسن کے ساتھ ہوئے صلح نامہ کو توڑکر احکام الہٰی اور فرمان رسول (ص) کی مخالفت کے ساتھ ساتھ سنتِ خلفائے راشدین اور اہلسنت کے تسلیم شدہ دوسری احادیث کی بھی دھجیاں اڑائیں''۔

شہادتِ امام علی

امام علی کے ہاتھوں لڑی گئی آخری جنگ ''جنگِ نہروان'' ہے۔یہ جنگ آنجناب نے ان لوگوں سے لڑی جنہوں نے آپ کو صفین میں تحکیم ماننے پر مجبور کیا مگر کچھ دنوں بعد مکر گئے،عہدنامہ کو بھی توڑا اور بیعت امام علی سے دغا بازی کی۔بعد میں وہ 'خوارج' یا 'مارقین' کے نام سے موسوم ہوگئے۔ان کو دبانے کے بعد امام علی نے کوششِ صلح کی ناکامی کے بعد شام کے باغیوں کی سرکشی روکنے کیلئے اقدام کرنے شروع کئے مگر امام ایک خارجی بنام ابن ملجم لعنتی کے ہاتھوں شہید کئے جاتے ہیں جب وہ نامراد امام کو دورانَ نماز صبح سجدے کی حالت میںزہریلے خنجر سے زخمی کرتا ہے۔یہ واقعہ مسند خلافت سنبھالنے کے پانچ سال بعد مسجدِ کوفہ میں 19 ماہِ رمضان 4 0ھ بمطابق 26 جنوری 661ء پیش آیا۔انا لا اللہ و انا الیہ راجعون۔امام اس زخم کاری کے بعد صرف تین دن زندہ رہے جن کے دوران انہوں نے اپنے بڑے فرزند اور پہلے نواسئہ رسول (ص)، امام حسن کو منصب امامت حوالہ کیاتاکہ وہ امت کی رہبری کے فرائض سنبھال سکیں۔ منصب خلافت امام حسن کو سپرد کرنے کا جواز امام علی کا بیٹے ہونے کی نسبت سے نہیں تھا بلکہ اللہ کے حکم کی تعمیل کی بناپر بارہ جانشینِ رسول (ص)کی فہرست کے مطابق وہ سلسلۂ امامت کی دوسری کڑی ہیں ۔

۶۳

صلح نامہ اور شہادتِ امام حسن :

امام علی کی شہادت کے بعد اہلِ کوفہ نے امام حسن کی بحیثیتِ جانشین رسول(ص) اور امامِ امت بیعت کی۔مگراس کی مدت چھ مہینے سے زیادہ نہ ہوئی ۔جب شام یہ خبر پہنچی کی امام علی شہید کئے گئے تو معاویہ نے ایک بڑی فوج جمع کرکے کوفہ کی طرف کوچ کیا تاکہ اما م حسن ابن علی کو دستبر داری پر مجبور کرنے کے بعد خود مسلمانوں کا امیر بنے امام حسن کے سامنے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ معاویہ کے ساتھ صلح کریں۔ جن وجوہات کے تحت آپ صلح کے لئے آمادہ ہوئے وہ یہ تھے:فوج میں پھوٹ، عراق کے اندرونی اور بیرونی خراب حالات اور ملکِ روم کی اہل اسلام پر حملہ کرنے کی سازش جو ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ حملہ آور ہونے کے تاک میں تھا۔ان حالات میں امام حسن اور معاویہ کے درمیان جنگ کی صورت میں جیت رومیوں کی ہوتی نہ کہ امام حسن یا معاویہ کی۔اسطرح امام حسن کے ذریعے صلح کرنے کی وجہ سے اسلام ایک بڑے خطرہ سے محفوظ ہوا۔صلح نامہ کے شرائط مندرجہ ذیل تھے :

(1): امام حسن کو اقتدار و نظم ونسق معاویہ کے سپرد کرنا تھااس شرط کے ساتھ کہ مذکور الآخر(معاویہ) قرآن اور سنت رسول (ص) کا اتباع کرے۔

(2): معاویہ کے مرنے کے بعد خلافت امام حسن کا خصوصی حق ہوگا۔اگر ان کو کچھ ہوگیا،تو یہ حق ان کے بھائی امام حسین کو ملیگا۔

(3): امام علی کی شان میں تمام گستاخیاں اور لعن و طعن پرپابندی لگنی چاہئے،چاہے وہ بر سرمنبرہو یا اور کہیں پر۔

( 4 ):کوفہ کے بیت المال میں جمع پچاس لاکھ درہم اما م حسن کی نگرانی میں رہیں گے۔اور معاویہ کو سالانہ ایک لاکھ درہم خراج (ٹیکس) امام حسن کے سپرد کرنا تھا جو کہ امام علی کی صف میں جنگِ صفین اور جمل کے مقتولین کے اہل و عیال کے لئے تھا۔

۶۴

(5): معاویہ کو ضمانت دینی تھی کہ وہ تمام لوگوں کوبلا لحاظ نسل اور ذات چھوڑنا ہے اور انکا تعقب نہ کرنا اور نہ ہی انہیں نقصان پہنچانا۔اور اسکو اس عہد نامہ صلح کے شرائط کی مکمل پاسداری و بجا آوری پر عمل کرنا تھا اور عوام کو اس کیلئے گواہ مقرر کرنا تھا۔

مگر امام حسن 50 ھ بمطابق 670 ء میں اپنی زوجہ جعدہ بنت اشعت ابن قیس کے ہاتھوں زہر دینے سے شہید ہوئے۔ اس عورت کا تعلق اس خاندان سے تھا جو ہمیشہ ذریتِ امام علی کا دشمن تھا۔ معاویہ نے اس کو ایسا سنگین جرم کرنے کیلئے ایک لاکھ درہم دئیے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ اگر اس نے امام حسن کو زہر دیا تو وہ اس کی شادی اپنے بیٹے یزید سے کردیگا۔معاویہ امام حسن کی خبر ِ شہادت سن کر بہت ہی خو ش ہوا ، اس نے اس میں اپنے کرتوت کی بجا آوری میں سب سے بڑی رکاوٹ سے چھٹکارا پالیا تھا اور اسطرح اس نے سلطنت ِ بنی امیہ کی بنیاد ڈالی۔اس کے بعد معاویہ کو وہ سب کچھ حاصل ہو گیا جس کے وہ خواب دیکھ رہا تھااس نے اپنے عیاش و فحاش بیٹے یزید کو امت پر زبردستی حکمران معین کردیا۔تو اہلسنت کے عقیدہ کے مطابق'' کہ خلیفہ اجماع سے منتخب ہوتا ہے''؟ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ۔

کیا وہ ان ثبوتوں کی مخالفت نہیں کرتے ہیں جن میں ِ اہل بیت کے اماموں کی خلافت کا حکم تھا ؟ کیا انکی نظر میںوہ خلافت جائز ہے جو مشورہ اور اجماع سے نہیں بنی ہے؟ آخر وہ کیسے معاویہ و یزید کی خلافت برحق سمجھتے ہیں؟ اور کیسے وہ ان کو امیر المومنین کے ا لقاب سے نوازتے ہیں !؟ اسلامی تاریخ کے تاریک صفحات الٹ کر ان دونوں امیرالمومنین یزید ابن معاویہ اورمعاویہ ابن ابوسفیان کے کا لے کرتوت ملاحظہ فرمائیںجن کا ہم ذکر کرنے جارہے ہیں۔

۶۵

انقلابِ کربلا اور شہادتِ امام حسین علیہ السلام:

امام حسن کی شہادت کے بعد 50ھ بمطابق 670 ء میں شیعیانِ عراق نے امام حسین کو یہ عرضداشت لکھنے شروع کئے کہ معاویہ کو خود ساختہ حاکمِ مسلمان کے عہدہ سے برطرف کریں۔لیکن امام حسین نے جواب دیا کہ معاویہ کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے جسکو ہم توڑ نہیں سکتے ہیں۔ جہاں تک معاویہ کا تعلق ہے،اس نے اپنے بیس سالہ اقتدار میں اپنے عیاش و فحاش بیٹے ''یزید'' کی سلطنت کیلئے راہ ہموار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور صلح نامہ کے شرائط کی کوئی پرواہ نہیں کی جن پر عمل کرنا اس نے قبول کیا تھا( یعنی شرعاََ اس پر واجب تھا)اور اہلسنت کے اس عقیدہ کے ۔خلیفہ 'شوریٰ' کے ذریعے اس شرط پر منتخب کیا جانا چاہئے کہ وہ سب سے'' نیک ،دیندار ،خداترس اورمتقی ہو'' کو بھی پائوں تلے روند ڈالا۔اگر آپ ان سب پر غور و فکر کریں گے ،تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئے گئے معاویہ کے جرائم کا اندازہ ہوگا۔ اسکی روش باقی خلفائے بنو امیہ،بنو عباس اور سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں نے جاری رکھی اور آج بھی بعض عیاش وفحاش اور رشوت خور مسلمان حکمراںاس کی روش پر عمل پیرا ہیں۔

معاویہ کی وفات کے بعد 60ھ بمطابق 680 ئ میں یزید خلیفہ وقت بن بیٹھا۔ اس کا محل خانہ رشوت اور گناہوں کا مرکز تھا۔اکثر مسلم گروہوں کے مطابق یزید شامیانہ (راتوں)محفلوں میں کھلے عام شراب پیتا تھا۔اسکی تصدیق شدہ عاشقانہ مزاج کی تصویر اس کے ان مخصوص اشعار سے عیاں ہوتی ہے:۔

'' اے حریفانِ شراب،اُٹھو اور گانوں کی صدا سنو، ساغر شراب پیو اور دوسری باتوں کا ذکر چھوڑدو۔مجھے ستارہ اور سارنگی کے نغمہ سے اذان کی آواز سننے کی فرصت نہیں اور حوروں کے بدلے میں نے شیشہ کی پری کو پسند کرلیا''

''اگر دینِ احمد میں شراب پینے کو حرام سمجھا گیا ہے،تو خیر دینِ مسیح پر ہو کر ہی پی لو '' ''خدا نے شراب خوروں کو عذاب سے ڈرانے کیلئے ''ویل لِلشاربین'' نہیں کہا بلکہ قرآن میں نماز گزاروں کیلئے ''ویل لِلمصلین'' کہا ہے ''

۶۶

اس سے ہم کو حیرانی نہیں ہوتی ہے کیونکہ یزید کی پرورش ایک نصرانی دایہ نے کی ہے۔ تاریخ دانوں نے اسے آوارہ ،بے حیا،تنگ نظر ، خود پسند اور اوباش گردانا ہے جو ہمیشہ عیاشی اور عیش و عشرت میں بے خود رہتا تھا۔اسکے متعلق جمعہ کی نماز بدھ وار کو پڑھنے اور صبح کی نماز دو کے بدلے چار رکعت پڑھنے کے واقعات بیان کئے گئے ہیں کیونکہ وہ اکثر شراب میں مست ہوتا تھا۔ اسکے متعلق ایسے بھی واقعات درج ہوئے ہیں جنکا بیان کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ ہم نے یزید کی خلاف ورزیوں کی طرف اشارہ کیا ہے تاکہ ان حالات پر روشنی ڈالیں جنمیں امام حسین نے دیکھا کہ انقلاب کی ضرورت ہے تاکہ اسلام اور سنت کو زندہ کرکے حفاظت کی جاسکے کیونکہ انہیں تحریف کا شکار ہوکے ناپید ہونے کا خطرہ لاحق تھا۔اس انقلاب کے پیچھے امام حسین کا اقتدار جمانے یا خلافت پر قابض ہونے کا کوئی مدعاء نہیں تھا کیونکہ انکو معلوم تھا کہ بنی امیہ اس پر قابض ہونے کیلئے پوری طرح سے تیار تھے خاص کر جب اہل عراق بنی امیہ کے خوف سے دستبردار ہوچکے تھے۔

کربلا کے نزدیک امام حسین اپنے ایک خطبہ میں اس انقلاب کے مقاصد اسطرح بیان کرتے ہیں ،

'' اے لوگو! جو کوئی کسی ظالم رہنما کو اس حالت میں دیکھتا ہے کہ وہ اللہ کے منع کئے گئے احکام پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے،اللہ کے احکام جاننے کے بعد انکی خلاف ورزی کرتا ہے،اپنے نبی (ص) کی سنت کے برخلاف کرتا ہے، گناہوں اور ظلم کے ساتھ اللہ کی رعایا پر حکومت کرتا ہے تو اللہ اس انسان کو اسی حاکم کے ساتھ نارِ جہنم میں پھینکے گا ''۔دوسرے بیان میں انہوں نے اسطرح فرمایا ہے ،'' اے لوگو! انہوں نے (امویوں) نے شیطان کی پیروی کی ہے،سب سے اچھے رحم دل (محمد(ص))کی مخالفت کی،زمین میں رشوت قائم کی،سنتِ رسول (ص) کی بجا آوری کو معطل کیا،مسلمانوں کے حقوق اپنے لئے حلال کئے،اللہ کے ممنوع کو جائز قرار دیا،اللہ کے اجازت شدہ کو ممنوع کیا،اور میں(حسین ) سب سے زیادہ اسکا حقدار ہوں کہ انکی مخالفت کروں''۔

۶۷

جب امام حسین کو ان کے ساتھ ہوئے عہد نامے کی کوفہ میں غداری اور خلاف ورزی کے متعلق خبر ہوئی،انہوںنے اپنے اہل وعیال اور اصحاب کو جمع کیا جو پہلے ہی ان کے ساتھ تھے اور بلا جھجک ان سے فرمایا:'' لوگوں نے ہم سے بے وفائی کی ہے۔جو کوئی ہم سے الگ ہوناچاہتا ہے، وہ ہوسکتا ہے جن کو جانا تھا وہ چلے گئے ان کے ساتھ صرف وہی رہے جو مکہ و مدینہ سے ان کے ساتھ آئے تھے۔مگر امام حسین اسی جذبہ اور ارادے کے ساتھ آگے بڑھتے رہے جس سے وہ مکہ مکرمہ سے نکلے تھے۔کسی شاعر نے انکے حالات کا خاکہ اسطرح کھنچا ہے:'' اگر دینِ محمد (ص) میرے قتل کے بناسیدھی راہ پر نہیں رہ سکتا ہے، میں حاضر ہوںاے خنجر!

وہ فوجِ یزید کے کمانڈر عمر ابن سعد سے ملے جو تیس ہزار یزیدی لشکرلیکر قتلِ امام حسین پر مامور کیا گیا تھا۔ یزید ابن معاویہ کی بھاری اور پیشہ ور فوج کیلئے امام حسین کی چھوٹی سی جماعت کو شہید کرنا بہت ہی آسان تھا۔اس دن اہلبیت کا سانحہ عملایا گیا،انکے ساتھ دن دھاڑے کیسی زیادتی ہوئی۔ یزید ابن معاویہ اس قتلِ عام سے وہ اجر پیش کر رہا تھا جو رسول خدا (ص) نے ان سے اسطرح قرآنی آواز میں مانگا تھا: ''میں تم سے اپنے اہلبیت کی محبت کے سوا کچھ اجرنہیں مانگتا ہوں(شوریٰ 4 2)۔ تاریخ ایسے دلخراش واقعات کی اصلیت پیش کرتی ہے جنکو بیان کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہے۔ ان میں سے ایک امام حسین کے شیر خوار بیٹے کا جگر سوز قتل جس کو امام دشمنوں کے سامنے میدانِ جنگ میں اسلئے لائے تھا کہ اسکو پانی پلا سکیںکیونکہ ظالموںنے دریائے فرات پر پہرہ بٹھاکر پانی تک رسائی سے محروم کر رکھا تھا۔ شدت تشنگی سے بچے بلک رہے تھے۔امام نے شیر خوار بیٹے کو اس غرض سے ہاتھوں پر لیا تاکہ اس کے لئے کچھ پانی ملے اور ان کے ضمیر اور انسانی ہمدردی کو بیدار کیا جائے۔مگر انہوں نے ایک بھاری تیر سے حملہ کرکے اس شیرخوار کو بھی باپ کی باہوں میں شہید کرڈالا۔(انا للّٰہ و انا الیہ راجعون)۔امام حسین کے جانباز اور اہلبیت رسول (ص) کے رفیق ایک ایک کرکے میدانِ کارزار میں شہید ہوئے۔اس فیصلہ کن لڑائی کے آخری شہید امام حسین تھے ۔وہ سردارِ جوانانِ جنت کو شہید کرنے سے بھی اپنی پیاس بجھا نہ سکے،ان کے بدنِ مبارک سے سرِاطہر کو قلم کرکے دوسرے سرہائے شہدا کے ساتھ نیزوں پر سوار کرکے اصلی قاتل یزید ابن معاویہ کو شام کے محل خانہ پرتحفہ میں بھیجے۔

۶۸

( امام حسین کے بدن مبارک سے لباس بھی لوٹا، بے سر بدنوں پر گھوڑے دوڑائے،خیموں میں لوٹمارکرکے آگ لگائی،آل رسول (ص) کے یتیموں مع مخدرات اہلبیت رسول (ص) کو زندہ جلانے کی وحشتناک اور درندہ صفت کوشش کی،شہدائے بنی ہاشم اوردیگر اصحاب حسین کی بے سر نعشوں کو بے گور و کفن اس ویران میں درندوں کے رحم وکرم پر اسلامی اصولوں کے خلاف چھوڑا،اسیران کربلا جن میں شیر خوار بچے اور رسول (ص) کی نواسیاں تھیں کورسیوں میں باندھ کر شہر،شہر تشہیر کرکے دربارِ ابن زیاد اور یزیدِملعون میں کھڑا رکھکر کر طعنے دیئے گئے۔ مترجم)۔ اور کچھ مسلمان اسی یزید کو'' امیر المومنین ''کہنے کیلئے بہت زور دیتے ہیں۔۔ لاحول ولا قوة الا بااللہ علی العظیم۔۔! ان واقعات کو بیان کرنے سے جن میںاقدام ِ امام حسین کے عظیم مقاصد کی نشان دہی ہوتی ہے،ایک ایسا انقلاب ہے جسکو ایک بہت بڑے اسلامی دانشور ڈاکٹر امر عبد الرحمان نے اس طرح خراج عقیدت پیش کیا ہے :'' امام حسین علیہ السلام کی شہادت ان کے زندہ رہنے سے ہزار گنا عظیم ہے ''۔ لیکن کچھ لوگ بنی امیہ کے گمراہ کن پروپگنڈہ کا شکار ہوکے ان کی عظمت کو گٹھانا چاہتے ہیں۔ایسے پروپگنڈہ نے تاریخ کو مسخ کرنے کی سخت کوشش کی ہے۔ اور وہ مجرمانہ مسلکی تعصب کے شکار ہوئے۔ اسی لئے وہ ایسی شرمناک تحریفی حقائق قبول کرنے کیلئے مجبور کئے جاتے ہیں جیسا کہ نام نہاد شیخ الا اسلام ابن تیمیہ کے اس خیال سے: '' امام حسین نے اپنے اقدام سے امت اسلام میں انتشار پیدا کیا انہوں نے ایک مسلم حکمران کی نافرمانی کی''۔۔۔!!! اگر ہم اس نام نہاد '' شیخ الاسلام ''سے معاویہ کے متعلق پوچھیں ،جس نے اس وقت کے خلیفۂ مسلمین امام علی سے بغاوت کی،وہ اس میں کوئی امتشار نہیں پائے گا اور اسمیں اسکو معاویہ کا کوئی گناہ بھی نظر نہیںآئیگا۔ حضرت عائشہ کا بھی یہی حال ہے جنہوںنے امام علی کی بغاوت کی۔۔یہ کچھ نہیں ہے ،صر ف ہما ری تاریخِ اسلام کو کھلے عام جھٹلانے کی ایک کوشش ہے؛ورنہ ہم اس کی وضاحت کیسے کر پائیں گے کہ اکثر اہلسنت حضرات اس عظیم تاریخی سانحہ کو کیسے بھلا دیتے ہیں جس میں رسول خدا (ص) کی ذریت کو بڑی بے رحمی اور سفاکانہ طریقہ سے ماراگیا؟

۶۹

معاویہ کی ذریت اور اس کے بیٹے یزید نے بنی امیہ اور بنی عباسی کے نقش قدم پر پوری طرح عمل کیاانہوں نے اپنے خلاف ہر کوشش کو پوری طرح کچل ڈالا خاص کر اس وقت جب خانۂ نبوت کے کسی فرد نے ایسی کوشش کی اور انہیں قتل،غارت گری، جلاوطنی اور ظلم و بربریت کی سزا سے دبایا گیا۔ ایسا ظلم و تشدد اہلبیت رسول (ص) تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ بنی امیہ کے مظالم کے شکار دوسرے بھی ہوئے جیسے عبداللہ ابن زبیروغیرہ۔

تاریخ نے مکہ مکرم میں ہونے والے اس وحشتناک واقعہ کو درج کیا ہے جس میں ابن زبیر کو بیدردی سے ذبحہ کیا گیا اور اسکی کھال اتاری گئی۔اس جگہ کی پاکدامنی دورِ جاہلیت میں بھی محفوظ تھی کیونکہ اس کے احاطہ میں جانور بھی مارنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی چہ جائیکہ انسان۔اور متبرک کعبہ بھی اسکو بنی امیہ کی درندگی سے بچا نہ سکا جب اس نے اس کے پردوںسے اپنے آپ کو چمٹایاتھا۔اسی کعبہ پرنوکیلے پتھروں کی بمباری کی گئی جب عبد الملک بن مروان نے اپنے بدنامِ زمانہ کمانڈر حجاج کو بیگناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے کی پوری آزادی دی۔ان دونوں کے متعلق حسن البصری کا کہنا ہے کہ،'' اگر عبد الملک نے حجاج کو ایسا کرنے کی صرف ایک بار اجازت دی ہوتی،وہی اس کی تباہی کیلئے کافی تھا۔''عمر ابن عبد العزیز کا کہنا ہے،'' اگر ہر قوم اپنا ایک ظالم پیش کرے اور ہم امویوں سے صرف حجاج کو پیش کردیںتو یہ سب پر سبقت لے جائے گا ''۔

تو کیا ایسے کرتوت بجا لانے والا اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کا حقدار ہے،صرف اس بات پر کہ وہ خلیفہ یا امیر المومنین ہے''؟؟ ! ہمیں اپنی تاریخ کا دوبارہ مطالعہ کرنا چاہئے(112) ۔ اس کے کچھ واقعات کا ادراک کرکے ان تمام مسالک کی جڑوں تک پہنچ کر ان کا خلاصہ پیش کرنا چاہئے جن سے آج کے مسلمان وابستہ ہیں۔ان میں وہ واقعات درج ہیں جو حقیقتاََ ہمیں اس فرقہ کی نشان دہی کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہونگے جو ظلم اور نا انصافی سے مبرّاہے۔ان ہی واقعات کے ذریعے مسلمان محمدمصطفیٰ (ص)کی دینی راہِ نجات سے بہک گئے،مختلف فرقوں اور مسلکوں میں بٹ گئے اور ہر کوئی فرقہ نجات یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

۷۰

ہم میں سے کسی کو بھی ''الہٰی وحی '' کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو ہمیں اس فرقہ کا نام بتائے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں صحیح اور غلط کا ادراک کرنے کیلئے عقل و دانش سے نوازا ہے جو اس نے بطور دلیل اپنے بندوں کو عطا کی ہے تاکہ وہ آنکھ بند کرکے دوسروں کی نقل کرنے سے باز رہیں۔اور فرمایا ہے ،''۔۔کیا یہ ایسا ہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا جاہل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہے ہوں؟!(بقرہ 170)۔اللہ نے یہ بھی فرمایا،''۔۔جب کہ وہ انکے پاس حق لیکر آیا ہے اور انکی اکثریت حق کو ناپسند کرتی ہے (مومنون 71)اللہ نے کسی بر بھروسہ اور یقین کرنے سے پہلے ہم پر تحقیق اور غور وفکر کرنے کا حکم صادر کیا ہے اور فرمایا ،''اے ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لیکر تمہارے پاس آئے،تو اس کی تحقیق کرو،ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کو تم تکلیف دو اور پھر اپنے کئے ہوئے پر نادم ہونا پڑیگا(حجرات 6)۔

کیا سب اصحابِ رسول (ص) عادل تھے

اصحاب کا مسئلہ اور انکی عدالت کا درجہ ایک ایسا معاملہ ہے جو سب سے زیادہ مقابلہ آرائی کا حامل اور حساس ہے۔ اہلسنت کاعقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عادل اور مساوی ہیں اور ان سے کسی طرح کی غلطی کے امکان کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔احادیث رسول (ص) کے بارے میں ان کی رائے کے متعلق ان پر نقطہ چینی یا رائے زنی نہیں کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی شک۔ اسطرح اہلسنت وہ سب قبول کرلیتے ہیں جس کے راوی صحابہ ہیں۔اہلسنت کے مطابق جیسا کہ النواوی نے شرح صحیح مسلم میں کہا ہے کہ جس مسلمان نے اللہ کے رسول (ص)کو ایک لمحہ کیلئے دیکھا،وہ ''صحابی'' ہے ۔امام احمد بن حنبل ، امام بخاری اور دوسرے محدثوں کے مطابق یہی صحیح ہے(113) ۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق تمام صحابہ عدل و انصاف میں مساوی نہیں ہیں او رقرآن و سنت کی روشنی میں ان پر تنقید کی جاسکتی ہے۔جہاں تک اس جھوٹ کا تعلق ہے کی شیعہ تمام صحابہ کو گالی گلوچ کرنے کے علاوہ کافر کہتے ہیں،ایک انتہائی شرمناک بہتان کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۷۱

صحابہ پر تنقید کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انکو کافر کہا جائے جیسا کہ کچھ بیوقوف پروپگنڈہ کرتے ہیں۔ اگر ایسی تنقید صحیح دلائل کی بنیادپر مشتمل ہے تو کوئی ناراض کیوں ہوتا ہے اور خوامخواہ کی پریشانی مول لیتا ہے؟ صحابہ میں مومن بھی ہیں جنکی تعریف قرآن پاک اسطرح کررہا ہے:'' یقیناََ اللہ صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ(ص) کی بیعت کر رہے تھے،پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اسکے عوض قریبی فتح نصیب کی ''(فتحہ 18)

علامہ لطف اللہ صافی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ درخت کے نیچے بیعت رضوان میں شامل لوگوں میں ان خاص بندوں کا ذکر کررہا ہے جو باایمان تھے اور اللہ ان منافقین سے راضی نہیں ہوسکتا ہے جو وہاں موجود تھے جیسے عبداللہ بن ابی اور عوص بن خولی وغیرہ۔ اس آیت میں کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ سارے بیعت کرنے والوں کی مدح خوانی میں نازل ہوئی ہے اور یہ ان تمام با ایمان بیعت کرنے والوں کے اچھے افعال و اعمال کی ضمانت پیش نہیں کرتی ہے۔ یہ آیت اس مطلب کے سوا کچھ نہیں بتا رہی ہے کہ اللہ رسول (ص)کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر ان سے راضی ہے۔ یعنی اللہ نے ایسی بیعت قبول کی اور ان سے راضی ہوتا ہے۔ ان بیعت کرنے والوں سے اللہ کے راضی ہونے سے انکے آخرت میں بھی راضی ہونا لازمی نہیں ہے۔اس کے ثبوت میں وہ ہے جو اللہ نے اسطرح فرمایا،''بیشک جو لوگ آپ (ص) کی بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہی ہاتھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کر لیتا ہے اور جو عہد الہٰی کو پورا کرتا ہے خدا اسی کو عنقریب اجر عظیم عطا کریگا،( فتحہ10)۔ اگر ان بیعت کرنے والوں میں سے کچھ نے اپنی بیعت توڑی ہوتی یا بغاوت کی ہوتی اور اللہ کی مرضی ان کے ساتھ ہمیشہ رہتی ،تو اللہ کی طرف سے یہ آیت نازل کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی :''۔۔۔ اور جو کوئی اپنی بیعت سے پیچھے ہٹے گا،وہ اپنی آخرت برباد کرنے کیلئے ہی ایسا کرے گا ( فتحہ 10)۔

۷۲

صحابہ میں وہ بھی شامل تھے جن کے متعلق اللہ کے رسول (ص) نے پیشین گوئی کی تھی کہ وہ آنجناب (ص) کی رحلت کے بعدالٹے پائوں اپنے پرانے دین پر پلٹ جائیں گے او ر روز قیامت نابودہوجائیں گے۔ اس کی تصدیق صحیح بخاری میں درج سہل ابن سعد کی سند سے روایت شدہ اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں سعد کہتا ہے کہ میں نے اللہ کے رسول (ص) کو فرماتے سنا ،'' میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہنچوں گا۔جو بھی وہاں میرے پاس پہنچے گا وہ آب کوثر پیئے گا اور کبھی بھی پیاس محسوس نہیں کریگا۔وہ لوگ جو مجھے جانتے ہیں اور میں بھی ان کو جانتا ہوں ،جب وہاں میرے پاس آئیں گے تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہوجائے گا۔اللہ کا رسول (ص) فرمائیگا،'' کہ یہ میرے اصحاب ہیں!'' تو اللہ کا جواب آئیگا،'' آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیسی بدعتیں پھیلائیں''۔ اللہ کے رسول (ص) فرمائیں گے،'' ان کے لئے تباہی،جس نے میرے بعد بدعات پھیلائے، اسکے لئے تباہی''(114) ۔عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے کچھ صحابہ سے فرمایا:'' میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہنچو نگا۔ تم میں سے کچھ لوگ میرے پاس آئیں گے۔جب میں ان کو آب کوثر دینے کی کوشش کروں گا تو وہ مجھ تک پہنچ نہ پائیں گے۔میں کہوں گا،'' اللہ!یہ میرے اصحاب ہیں ! تو اللہ کی آواز آئے گی'' آپ کو پتہ نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیسی کیسی بدعتیں پھیلائیں''(115)

اوپربیان کی گئیں دونوں احادیث میں امت میں بدعات رائج کرنے کا اشارہ ہے جس کی تصدیق کرتے ہوئے اللہ کے رسول (ص) اپنے کچھ اصحاب کا موازنہ قومِ یہود و نصاریٰ سے کرتے ہیں جنہوں نے ِ اللہ کے کلام کی تحریف کرکے سیدھی راہ سے منھ موڑلیا۔ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' تم پچھلی امتوں کی بالشت ببالشت اور قدم بقدم پیروی کرو گے اور اگر وہ سوسمار کی بِل میں گھس جائیں گے،تم انکی پیروی کرتے کرتے وہاں بھی گھس جائو گے'' ہم(صحابہ) نے پوچھا ،'' یہودی اور نصرانی ؟! آنحضرت (ص) نے فرمایا،''پھر کون؟!(116)

۷۳

اور صحابہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے متعلق اللہ اپنی کتاب میں اسطرح مخاطب ہے،'' جب وہ کوئی دنیاوی کاروبار یا لالچ دیکھتے ہیں تو اے بنی(ص) تم کوچھوڑدیتے ہیں کھڑا۔۔( جمعہ 11)۔ یہ آیت ان صحابہ کے متعلق نازل ہوئی جنہوں نے رسولخدا (ص) کو جمعہ کے خطبہ کے دوران ہی چھوڑا جب انہوں نے شام سے ایک تجارتی قافلہ کو آتے دیکھا اور آنحضرت (ص) کے ہزاروں صحابہ میں سے صرف بارہ افراد وہاں ٹھہرے۔ اس واقعہ کو بہت سے طریقوں سے نقل اور بیان کیا گیا ہے اور اتنی ہی صحابہ کی تعداد 12نے جنگ احد میں اللہ کے رسول (ص) کا ساتھ دیا،باقی سب فراری ہوگئے جسکی وجہ سے پیغمبر خدا (ص) ان کے اس فعل سے بیزار ہوئے۔برا ء بن عازب سے روایت ہے،''میرا چچا انس ابن نضرجنگ احد میں غیر حاضر تھا اور اسی لئے اس نے کہا ،'' اے اللہ کے رسول (ص)! میں پہلے دن غیر حاضر تھا جب آپ (ص) نے مشرکوں سے جنگ کی۔اگر اللہ نے چاہا کہ میں بھی مشرکوں کے ساتھ جنگ میں شامل ہوجائوں،تو اللہ دیکھے گا کہ میں کیا کروں گا۔ جب جنگ احد کا وقت نزدیک آیا اور مسلمان فرار ہوگئے،تو رسولخدا (ص) نے فرمایا ''اے اللہ ! ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،میں انکے اس فعل سے تیری پناہ چاہتا ہوں ،''(117) ۔ اس کے علاوہ جنگ حنین میں پیش آئے واقعات زیر نظر رکھئے جہاں صحابہ کی خراب حالت نے بہت ہی بدمزگی کی مثال قائم کی۔ قرآن مقدس نے انہیں ایسے نفرت انگیز افعال انجام دینے پر اسطرح سرزنش کیا :''بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا اور اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اسکے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔پھر اسکے بعد خدا نے اپنے رسول (ص) اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کیا اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور کفر اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کیا کہ یہی کافرین کی جزا اور انکا انجام ہے '' ( توبہ 25۔26)۔ اور صحابہ میں وہ بھی شامل تھے جنکے بارے میں اللہ جلہ شانہ اعلان کررہا ہے ،''کسی نبی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ قیدی بنا کر رکھے جبتک زمین میں جہاد کی سختیوں کا سامنا نہ کرے۔

۷۴

تم لوگ تو صرف مال دنیا چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت چاہتا ہے اور وہی صاحب عزت و حکمت ہے۔اگر اللہ کی طرف سے پہلے فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو تم لوگوں نے جو فدیہ لیا تھا اس پر عذاب عظیم نازل ہوجاتا'' ( انفال 67۔68)۔ یہ آیت صحابہ کے اس گروہ کے بارے میں نازل ہوئی جن کا منشا اس کاروان پر قبضہ کرنے کا تھا اور جو ابو سفیان کا کاروان لیجا رہا تھا، اوراس کو جنگ پر ترجیح دی جب اللہ کا رسول (ص) ان سے جنگ بدر کے متعلق ان کی آمادگی اور تیاری کو جانچنے کے سلسلے میں ان سے بات چیت کر رہا تھا۔ صحابہ میں وہ بھی شامل تھے جنہیں آنحضرت (ص) نے جاہلیت اورقبیلہ داری کے طور طریقے اپنانے پرڈانٹ پلائی تھی۔یہ اس واقعہ سے بھی صاف ظاہر ہے جو جابر بن عبداللہ سے بیان ہوا ہے کہ:'' ایک دفعہ ہم ایک مہم میں شامل تھے۔مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصار کی ایک فرد پر حملہ کردیا۔ اس پر انصاری فرد نے پکار کر کہا کہ کون انصار کی مدد کریگا؟ ادہر مہاجربھی چیخا کہ مہاجر کی مدد کون کریگا ؟ جب اللہ کے رسول نے یہ سنا تو فرمایا ،'' یہ کس جاہلیت کی دعوت ہے ''؟(118) ۔ اس جاہلیت کی آواز سے قبیلہ عوص اور قبیلہ خزرج میں جنگ کا ماحول بن گیا جو کہ دونوں انصار کی اکثریت میں سے تھے۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے جس میں وہ کہتی ہیں ،''۔۔۔پھر سعد بن معاث کھڑے ہوئے اور کہا،' اے اللہ کے رسول (ص)! میں اس سے نپٹنے کیلئے آپ (ص) پر چھوڑتا ہوں! اگر وہ قبیلہ عوص سے ہے ،تو ہم اس کی گردن ابھی ماریں گے اور اگر وہ خزرج بھائیوں میں سے ہے توآپ ہمیں حکم دیں ہم اس پر عمل کریں گے۔ خزرج کا سربراہ سعد ابن عبادہ جو اس سے پہلے ایک اچھا آدمی تھا کو شاید قبائلی پن نے زیر کیا اور اس نے کہا : تم نے جھوٹ کہا ہے،اللہ کی قسم ! ہم اسے قتل کریں گے کیونکہ تم منافق ہو اور منافقوں کی طرفداری کی کوشش کرتے ہو۔ عوص اور خزرج کے درمیان بحث و تکرار تیز ہوئی اور اس وقت رسولخدا (ص) منبر پر تشریف فرما تھے۔وہ جناب (ص)نیچے آئے اور اور ان کی شرارت کو شانت کیا جب تک وہ خاموش ہوگئے اور خود بھی شانت ہوگئے''(119)

۷۵

صحابہ میںوہ بھی شامل تھے جو علی سے نفرت کرتے تھے،جن کی نفرت منافقت کی نشانی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے ہی بیان کیا ہے۔ ابو بریدہ سے روایت ہے جس میں وہ کہتے ہیں :'' پیغمبر خدا (ص) نے علی اور خالدبن ولید کو مال خمس جمع کرنے کیلئے روانہ کیا اور میں علی سے نفرت کرتا تھا جس نے اسی وقت غسل کیا تھا جس پر میں نے خالد سے کہا،' کیا تم یہ نہیں دیکھ رہے ہو؟! جب ہم نبی (ص) کے پاس گئے ،تو میں نے اسے یہ سب کچھ بتا دیا۔انہوں(رسول(ص)) نے مجھ سے فرمایا،' اے بریدہ! کیا تم علی سے نفرت کرتے ہو؟ میں نے کہا ،ہاں۔انہوں نے کہا،'' اس سے نفرت مت کرو کیونکہ خمس میں اس کاحصہ اس سے بہت زیادہ ہے'' ''(120) ۔

صحابہ میں وہ بھی تھے جنہوں نے پیغمبر خدا (ص) کے دانشمندانہ فیصلوں پر اعتراض کیا۔یہ اسوقت نمایاں ہوا جب انہوں نے اسامہ کو لشکر کا کمانڈر مقرر کیا اور اصحاب نے اعتراض کیا اور کچھ نے اس قائد کومقرر کرنے پر شک کیا۔ اس پر اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' اس کی سربراہی پر اعتراض مت کرو کیونکہ تم نے اس سے پہلے اسکے والد (زید) کی سرداری پر بھی اعتراض کیا تھا ''(121) ۔

صحابہ میں وہ بھی تھے جنہیں پیغمبر خدا (ص) نے اپنے پاس سے بھگایا تھا جب انہوں نے آنجناب (ص) کو وقتِ آخر وصیت لکھنے پر بھی اعتراض کیا اور ہذیان کہنے کا الزام دیا۔ سعد ابن زبیر عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے جس میں ابن عباس کہتے تھے ،'' پنج شنبہ کا دن! ہائے وہ کیا دن تھا پنج شنبہ کا! یہ کہہ کروہ اتنا روئے کہ آنسوئوں سے سنگریزے تر ہوگئے۔پھر کہا، اسی پنج شنبہ کے دن رسول خدا (ص) کی تکلیف بہت بڑھ گی تھی آنحضرت نے فرمایا:'' میرے لئے کاغذ اور قلم لائو،میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھدوں تاکہ تم پھرکبھی گمراہ نہ ہوسکو'' اس پر لوگ جھگڑنے لگے حالانکہ نبی (ص)کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں ہے لوگوں نے کہا: رسول (ص) بیہودہ بک رہے ہیں(نعوذباللہ) اس پر آنحضرت (ص) نے فرمایا:مجھے میرے حال پر چھوڑدو اور میرے پاس سے چلے جائو۔میں جس حال میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کا تم مجھے الزام دے رہے ہو ''(122)

۷۶

صحابہ میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے وصال نبی (ص) کے بعد اقتدار کیلئے جھگڑا کیا یہاں تک کہ کچھ نے کہا کہ ہم میں دو حکمران ہونے چاہیئیں، ایک محاجرین میں سے اور ایک انصار میں سے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے دورِ جاہلیت کا قبائلی نظریہ اور سوچ ترک نہیں کیا تھا جو ان میں اسلام قبول کرنے کے بعد بھی جاری رہا جو حالاتِ سقیفہ میں بیان ہوا ہے۔

صحابہ میں معاویہ اور ابوہریرہ بھی ہیں جن کے متعلق اس تحقیق میں الگ سے بحث ہوئی ہے۔شاید اہلسنت کے ذریعے صحابہ کی شان بڑھانے کے مغالطہ نے صحابہ کا رسول (ص) کے ساتھ چلنے سے جنم لیا ہے مگر یہ اس احترام سے زیادہ نہیں ہے جو ان کے ذریعے انکی بیٹیوں سے نکاح کرنے سے ملتا ہے کیونکہ اللہ نے ازواج رسول (ص) کے بارے میں فرمایا ہے:''اے ازواج پیغمبر جو بھی تم میں سے کھلی ہوئی برائی کا ارتکاب کریگی،اسکا عذاب بھی دوہرا کیا جائے گا اور یہ بات اللہ کیلئے بہت آسان ہے۔ اور جو بھی تم میں سے خد ا اور رسول (ص) کی اطاعت اور نیک اعمال کریگا اسے ہم دوہرا اجر عطا کریں گے ''(احزاب 30،31)َ۔ اور اس نے ازواج رسول (ص) (حضرت عائشہ و حفصہ) کی نا فرمانی کے متعلق فرمایا ہے:'' اب تم دونوں توبہ کرو کہ تمہارے دلوں میں کجی پیدا ہوگئی ہے ورنہ اگر اس کے خلاف اتفاق کروگی تو یاد رکھو کہ اللہ اس کا سرپرست ہے اور جبرائیل اور نیک مومنین اور ملائکہ سب اس کے مددگار ہیں۔وہ اگر تمہیں طلاق بھی دیدے تو خدا تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں عطا کردیگا مسلمہ،مومنہ،فرمانبردار،توبہ کرنے والی،عبادت گذار۔روزہ رکھنے والی۔کنواری اور غیر کنواری سب۔۔۔۔۔۔ خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کیلئے زوجۂ نوح اور زوجۂ لوط کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں خدا کے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ میں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بھی تمام جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاو'' ( تحریم 4 ۔10)۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رسول (ص) کے ساتھ زیادہ وقت گذارنابلندیٔ درجات کا باعث نہیں ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوئیں قرآنی آیات اور احادیث سے اصحاب اور ازواج نبی (ص) کے متعلق نظر آرہا ہے۔

۷۷

ابن عباس سے روایت ہے کہ ،'' میں ایک سال حضرت عمر سے ان ازواج کے متعلق دریافت کرنا چاہتا تھا جنہو ں نے آنحضرت (ص) کی نافرمانی کی تھی مگر میں ان سے ڈرتا تھا۔آخر وہ ایک دن ایک مکان میں داخل ہوئے اور جب باہر آئے تو میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا۔تو انہوں نے کہا،' وہ عا ئشہ اور حفصہ تھیں۔پھر بولے دور جاہلیت میں ہم عورتوں کو بیکار شَی مانتے تھے لیکن جب اسلام آیا اور اللہ نے انکا ذکر کیا ہم کو احساس ہوا کہ زور زبر دستی کے بجائے اب ان کے تئیں ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں ۔ میری اپنی بیوی کے ساتھ ایک مرتبہ تکرار ہوئی،میں اس پر بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم ایسی،ویسی ہو تو اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تم میرے بارے میں ایسا کہتے ہو جبکہ تمہاری بیٹی اللہ کے رسول (ص) کو اذیت دیتی ہے؟ اسلئے میںاپنی بیٹی حفصہ کے پاس گیا اور اس سے کہا،'' میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول (ص) کی نافرمانی کرنے سے تنبیہ کرتا ہوں ''!(123) ۔

حضرت عائشہ کہتی ہیں،'' اللہ کے رسول (ص)نے ایک مرتبہ (اپنی ایک بیوی) زینب بنت جحش کے یہاں شہد تناول فرمایا تھا ۔ میں نے اور حفصہ نے سازش کی کہ جب پیغمبر (ص) ہم میں کسی کے پاس آئیں گے تو ہم ان سے کہیں گے کہ آپ سے مغافیر کی بو آرہی ہے اور جب آنجناب (ص) سے ایسا کہا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں،میں نے زینب کے یہاں شہد تناول کیا ہے اور اب ایسا کبھی نہیں کروں گا۔ تم قسم کھا ؤ کہ یہ بات کسی کو نہیں بتائو گی(124) ۔ حضرت عایشہ نے یہ بھی کہا ہے،'' ہم ازواج نبی (ص) دو گروہ میں تقسیم تھیں، ایک میں ،مَیں (عایشہ) ،حفصہ، صفیہ اور سوداء اور دوسرے میں ام سلمیٰ اور باقی''(125) ۔

حضرت عائشہ ہی کا بیان ہے،'' میں ان عورتوں سے حسد کرتی تھی جو اپنا نفس نبی (ص) کے حوالہ کرتی تھیں اور کہتی کہ کیا سچ مچ عورت حضو(ص)ر کوپیش ہوتی تھی؟! جب یہ قرانی آیت نازل ہوئی،''تمہارے لئے نکاح کے پیغام کی پیشکش یا دل ہی دل میں پوشیدہ ارادہ میں کوئی ارادہ نہیںہے۔خدا کو معلوم ہے کہ تم بعد میں ان سے تذکرہ کروگے لیکن فی الحال خفیہ وعدہ بھی نہ لو صرف کوئی نیک بات کہہ دو تو کوئی حرج نہیں ہے اور جب تک کوئی مقرر ہ مدت پوری نہ ہوجائے عقد نکاح کا ارادہ نہ کرنا یہ یاد رکھو کہ خدا تمہارے دل کی باتیں خوب جانتا ہے لہذا اس سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ وہ غفور بھی ہے اور حلیم و بردبار بھی(بقرہ 235) تو میں (عایشہ) نے ان (ص) سے کہا ،'' میں سمجھتی ہوں کہ تمہارا اللہ تمہارے دل کی خواہشات کیسے جلدی پوری کرتا ہے''(126) ۔

۷۸

حضرت عائشہ کا ہی بیان ہے ' کہ خدیجہ کی بہن حالہ بنت خویلد نے ایک دفعہ پیغمبر (ص) سے ملاقات کی اجازت چاہی اور چونکہ وہ خدیجہ کے طریقۂ دخول بیت سے باخبر تھے انہوںنے حیران ہوکر فرمایا ،''اللہ! مجھے یقین ہے کہ یہ حالہ ہے!۔مجھے حسد ہوا جس پر میں نے کہا،'' آپ(ص) اب تک ایک بوڑھی سرخ آنکھوں والی قریش عورت کونہیں بھولے جو کب کی مر چکی ہے اور اللہ نے آپ (ص) کو اُ س سے بہترعطا کی ہے(یعنی خودعائشہ )(127) ۔ حضرت عائشہ نے حضرت خدیجہ سے حسد کیا ان سے حسد کیا جو دوسری تمام ازواج نبی میں منفرد مقام رکھتی ہیں۔وہ آنحضرت (ص) پر اس وقت ایمان لائیںجب لوگ انہیں (عیاذاً باللہ) جھوٹا کہتے تھے۔ انہوںنے اپنی دولت آنجناب (ص) پر اس وقت نچھاور کردی جب لوگوں نے انہیں محروم کیا تھا اور اللہ نے رسول (ص)کو ان کے ذریعہ ہی صاحب اولاد بنایا۔ یہ سب کچھ بتا رہا ہے کہ حضرت عایشہ جناب خدیجہ سے حسد اسی لئے کرتی تھیں کیونکہ اس کے احسانات کا ذکر اللہ کے رسول (ص) ان کے وفات کے بعد بھی کرتے تھے اور یہ حضرت عائشہ کے اس دعویٰ کی تردید کرتا ہے کہ اللہ نے رسول (ص) کو خدیجہ سے بہتر عورت عطا کی تھی۔حضرت عائشہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں ازواج رسول (ص) میں خدیجہ سے زیادہ کسی سے حسد نہ کرتی تھی۔ حالانکہ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا ہے مگر رسول (ص) ان کا ذکر ہمیشہ کرتے تھے۔اللہ کے رسول (ص) ایک اونٹ ذبحہ کرکے ٹکڑوں میں بانٹ کے حضرت خدیجہ کے دوستوں میں تقسیم کرتے تھے۔ میں آنجناب (ص) کو کہتی تھی کہ شاید دنیا میں خدیجہ جیسی عورت کوئی نہیں ہے؟ ،تو وہ (ص) فرماتے تھے کہ وہ ایسی اور ویسی تھی اور اللہ نے مجھے ان سے صاحب اولاد بنایا''(128) ۔

جو لوگ تمام صحابہ کی عدالت کے معتقد ہیں، وہ اپنے عقیدہ کی بنیادپر دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ہے،''میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں: جس کی تم پیروی کرو گے ،تمہیں ہدایت ملے گی۔'' حالانکہ اہلسنت کھلے عام صحابہ کی عصمت کے قائل نہیں ہیں،پھر بھی جو کوئی اس حدیث کے صحیح ہونے کا یقین کرتا ہے،اس کو تمام صحابہ کی عصمت ضرور قبول کرنا پڑیگی۔یہ اس لئے ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ کے رسول (ص) بغیر کسی شر ط وشروط کے کسی بھی اپنے نافرما ن کی مکمل پیروی کا حکم صادر کرے جیسا کہ اس فرضی بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے۔ اسلئے مذکورہ احادیث اصحاب کی عدالت پر دوبارہ غور وخوض سے جائزہ لینے کی دعوت دیتی ہیں۔

۷۹

بالخصوص ان اصحاب کے متعلق جنہوں نے زیاد ہ وقت پیغمبر خدا (ص) کے ساتھ گذارا۔تو پھر آپ ان کی عدالت کے متعلق کیا کہیں گے جنہیں پیغمبر خدا (ص) کاصرف ایک بار دیدار کرنے یا ایک لمحہ کیلئے دیکھنے پر ہی ''صحابہ'' کے اعزاز سے نوازا گیا؟ اور اس بارے میں اتنی مبالغہ آرائی کیوں کی جاتی ہے ؟! کیا کوئی ''عدالت'' اور'' تقویٰ'' صرف پیغمبر (ص) کے روئے نازنین پر ایک نظر کرنے سے حاصل کر سکتا ہے؟ یا یہ اخلاص اور نیک ارادوں پر استوارمکمل طریقہ سے آنحضرت (ص) کی پیروی اور اتباع سے حاصل ہوسکتا ہے؟ایسا تضاد جو مضبوط دلیل اور انسانی روش سے رد کیا جاتا ہے اس وقت روشنی کی طرح صاف ظاہر ہوتا ہے جب کچھ اہلسنت دانشور جیسے ابن تیمیہ معاویہ بن ابو سفیان کو نیک خلیفہ عمر بن عبد العزیز پر اس وجہ سے ترجیح دیتا ہے کہ معاویہ صحابی تھا اور عمربن عبدالعزیزتابعی تھا اسکے باوجود کہ عمر۔۔ مشہورنیک اور عادل تھا جبکہ معاویہ مسلمانوں میں مشہور فساد برپا کرنیوالا اور امام علی کی بغاوت کرکے جنگ صفین میں 000،75 ہزار اصحاب و تابعین قتل کرانے کا ذمہ دار ہے۔ اسکے علاوہ اہلسنت کی یہ شہرت کہ عمر ابن عبدالعزیز پانچواں خلیفہ راشد ہے معاویہ کے خلیفہ برحق ہونے کا دعویٰ پوری طرح سے مسترد ہوتا ہے۔ اسی لئے صرف صحابی رسول (ص) ہونے کی بنا پر کوئی بھی انسان عادل ،راشد یا برحق نہیں بن سکتا ہے ۔اس معاملے میں پوچھنے کی اصل بات یہ ہے: اونچا مقام اس کا ہے کہ جس نے اپنے آنکھوں سے رسول خدا(ص) کے ہاتھوں واقع ہوئے معجزات دیکھ کر اسلام قبول کیا یا جس نے ایسا دیکھے بغیر ہی دل سے اسلام قبول کیا ؟! حقیقت تو یہ ہے کہ میں صحابہ کی عدالت اور تقویٰ پر ایسی مغالطہ آرائی کا کوئی جواب نہیں پاتا ہوں جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سب ''صحیح '' تھے صرف ا س دروازہ پر تالا چڑھانا ہے جہاں پر ان صحابہ پر تنقید کی جاتی ہے جنہوں نے زور و شور سے خلافت کو اصلی حقداروں سے باہر دھکیل دیا۔ اسطرح کچھ اہلسنت ان سارے ناقابل تردید ثبوت کو فراموش کرتے ہیں جنمیں اہلبیت ِ رسول (ص) مسلمانوں کے امام بننے کیلئے ہر طرح سے موزوں تھے صرف اس وجہ سے کہ وہ تمام اصحاب کو عادل سمجھتے ہیں۔ وہ اسی لئے اس سب کو صحیح مانتے ہیں جو ان صحابہ نے انجام دیا۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131