امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت0%

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت مؤلف:
زمرہ جات: امام رضا(علیہ السلام)
صفحے: 131

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حسین صبوری
زمرہ جات: صفحے: 131
مشاہدے: 50896
ڈاؤنلوڈ: 3308

تبصرے:

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 131 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50896 / ڈاؤنلوڈ: 3308
سائز سائز سائز
امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

﴿وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ﴾ (1)

اور یونس اپنی قوم کے در میان سے غصے کی حالت میں چلے گئے اور گمان کیا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔

﴿وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا﴾ (2)

زلیخا نے یوسف کا ارادہ کیا اور یوسف نے زلیخا کا۔

﴿وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ﴾ (3)

اور داؤ¶د نے گمان کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لے لیا ۔

﴿وَتُخْفِی فِی نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِیهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ﴾ (4)

تم اپنے دل میں (زید کی بیوی کے بارے میں) کچھ چھپائے ہوئے تھے کہ خدا نے اس کو ظاہر کردیااور تم لوگوں سے ڈرتے ہو جبکہ مناسب یہ ہے کہ تم فقط اللہ سے ڈرو ۔امام رضاعلیہ السلامنے جب انبیاءکے بارے میں علی بن محمد بن جہم کی یہ تہمتیں سنی تو غصہ ہوئے اور فرمایا: اے ابن جہم تجھ پر لعنت ہو ، خدا سے ڈراور ان برے گناہوں کی نسبت پیامبران خدا کی طرف مت دے اور قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے نہ کر! کیا تو نے خداکا یہ فرمان نہیں سنا:

﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِیلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ﴾ (5)

تاویل (اور تفسیر قرآن) خدا اور راسخون(6) فی العلم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

--------------

(1):- سورہ انبیاء (21)، آیت 87.

(2):- سورہ ی یوسف (12)، آیت 24.

(3):- سورہ ص (38)، آیت 24.

(4):- سورہ ی احزاب (33)، آیت 37.

(5):- سورہ ی آل عمران (3)، آیت 7.

(6):-  یعنی 14 معصوم(ع).

۴۱

خداوند کے جس فرمان سے تو نے حضرت آدمعلیہ السلام پر اعتراض کیا ہے اسکا جواب یہ ہے کہ:

خدا نے حضرت آدم کو اس لئے پیدا کیا کہ اپنی زمین پر ان کو حجت اور خلیفہ بنائے اس لئے نہیں کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں اور جس کو تم گناہ سمجھ رہے ہو وہ کام آدم نے جنت میں انجام دیا تھا نہ کہ زمین پر لہذا زمین پر اسکے سلسلے میں مقدرات اور حدود الہی جاری نہیں ہونگے پس جب آدم زمین پر آئے اور خدا کی حجت اور خلیفہ مقرر ہوگئے تو ان کو عصمت بھی عطا کی گئی جس کی دلیل یہ آیت ہے :

﴿إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِینَ ﴾ (1)

خداوند عالم نے آدم ، نوح اور خاندان ابراہیم و خاندان عمران کو تمام عالمین پر چن لیا۔

خداوند عالم کی جانب سے لوگوں کی ہدایت اور رہبری کے لئے چنا جانا خود عصمت کی دلیل ہے کیوں کہ بغیر عصمت کے اس کے انتخاب کا مقصد بے معنی ہو جائیگا۔

اور حضرت یونسعلیہ السلام کے بارے میں (لن نقدر) سے مراد یہ نہیں ہے کہ انھوں نے یہ گمان کیا کہ خدا ان کو سزا دینے پر قادر نہیں ہے بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ حضرت یونس نے گمان کیا کہ خداوند عالم ان کی روزی کے سلسلے میں ان پر سختی نہیں کریگا کیا تونے خداوند عالم کا قول نہیں سنا!

﴿وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ﴾ (2)

لیکن جب خداوند انسان کوسختی میں  مبتلا کرتا ہےاور اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے میری توہین کردی۔

--------------

(1):- سورہ ی آل عمران (3) ، آیت 33.

(2):- سورہ فجر (89)، آیت 16.

۴۲

اور اگر یونس گمان (یقین)کرلیتے کہ خدا ن پر قادر نہیں ہے تو بغیر کسی شک کہ وہ کافر ہوگئے ہوتے۔

اب رہی بات حضرت یوسف(ع) کی تو انکے سلسلے میں فرمان خدا کا مقصد یہ ہے کہ زلیخا نے گناہ میں وارد ہونے اور جناب یوسف (ع)کا غلط استعمال کرنا کا ارادہ کیا اور جناب یوسف (ع)نے زلیخا کو قتل کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ آپ کو گناہ کبیرہ کا مرتکب کرنا چاہتی تھی لیکن خدا نے یوسف کو قتل اور فحشا (زنا)دونوں سے بچالیا یعنی یہاں پر ”سوء“سے مراد قتل اور فحشاسے مراد زنا ہے۔

اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جناب داؤ¶د کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟

علی بن محمد بن جہم نے ایک گڑھی ہوئی، جھوٹی داستان سنانا شروع کی:لوگ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت داؤد محراب میں نماز پڑھنے میں مشغول تھے کہ ابلیس ایک خوبصورت پرندہ بن کر ان کے سامنے آیا ۔ جناب داؤ¶د نے اس پرندے کو پکڑنے کے لئے اپنی نماز کو توڑ دیا اور اسکے پیچھے چھت تک پہونچ گئے وہاں سے آپکی نظر اپنے لشکر کے فرمانروا ”اوریا بن حنان“کی بیوی کے ننگے بدن پر پڑی کہ جو نہا رہی تھی اور آپ صرف ایک دل سے نہیں بلکہ سو دل سے اسکے عاشق اور دیوانے ہوگئے چونکہ آپ ایک شوہر دار عورت سے شادی نہیں کرسکتے تھے لہذا آپ نے اوریا ( کہ جو اس وقت محاذ جنگ پر تھا)کو فرماندہ کے عنوان سے سب سے پہلی صف میں بھیج دیا تا کہ وہ قتل ہو جائے اتفاقاً وہ اس جنگ سے کامیابی کہ ساتھ پلٹ آیا یہ کامیابی جناب داؤ¶د کو بہت بری لگی اور حکم دیا کہ دوبارہ (دوسری جنگ میں)بھی ان کو پہلی صف میں بھیجا جائے اس مرتبہ اوریا جنگ میں مارا گیا اور جناب داؤ¶د نے اس کی بیوی سے شادی کرلی۔

امام رضاعلیہ السلام نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور فرمایا:

﴿انّا لله وَ اِنَّا اِلَیهِ رَاجِعُون﴾ (1)

-------------

(1):- کلمہ استرجاع (خواہش رجعت تمنائے رجوع) ہے مصیبت کے وقت بولاجاتا ہے۔

۴۳

تو نے خدا کے نبی ﷺپر بہت بری تہمت لگائی ہے ، نماز کو ہلکہ سمجھنا وہ بھی صرف ایک پرندہ کو پکڑنے کے لئے ، اس کے بعد گناہ کا ارتکاب اور آخر میں ناحق قتل!

ابن جہم: اے فرزند رسول!ﷺاگر یہ بات سچ نہیں ہے تو پھر خداوند عالم نے جو آیت میں کہا ہے کہ داؤ¶د نے خطا کی ، وہ کونسی خطا ہے؟

امام: تجھ پر لعنت ہو ، انھوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا ، ان کے کام پر خدا کا اعتراض صرف اس لئے تھا کہ انھوں نے خود اپنی طرف سے گمان کیا تھا کہ خداوند عالم نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو ان سے زیادہ علم رکھتی ہو!

خداوند عالم نے دو فرشتوں کو بھیجا وہ دونوں اللہ کے حکم سے انسان کی شکل میں آگئے اور جناب داؤ¶د کی عبادتگاہ کی دیوار کے اوپر بیٹھ گئے اور کہا:

ہم دونوں آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں ، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ستم کیا ہے اب ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور ہم کو صحیح راستے کی ہدایت کریں ۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا اور کہا:یہ میرا بھائی ہے اسکے پاس ۹۹ بھیڑیں ہیں اور میرے پاس صرف ایک بھیڑ ہے وہ کہتا ہے کہ یہ ایک بھیڑ بھی تم مجھ کو دیدو اور وہ بولنے میں مجھ سے بہت آگے ہے۔(1)

جناب داؤد نے جلدی کی اور بغیر گواہی طلب کئے اسکے دوسرے بھائی پر حکم لگاتے ہوئے کہا:

تمہارا بھائی تم پر ستم کر رہا ہے کہ تم سے تمہاری بھیڑ مانگ رہا ہے۔(2)

-------------

(1):- سورہ ی ص(38)، آیات 22/23.

(2):- ہمان، آیت 24.

۴۴

داؤد کی خطا صرف انکے فیصلہ کرنے میں تھی یہ خطا نہیں تھی جو تم سمجھ رہے ہو، جس کی دلیل خداوند عالم نے آیت میں پیش کی ہے۔

﴿يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِیفَةً فِی الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى ﴾ (1)

ای داود ! ہم نے تم کو زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا کر بھیجا ہے ، پس تم لوگوں کے در میان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات نفس کی پیروی نہ کرو۔

اگر داؤ¶د اتنا بڑا گناہ کرتے تو پھر خدا ان کو اتنا بلند مقام کیسے عطا کرسکتا تھا؟!

علی بن محمد ابن جہم ، بہت بد حواس ہو گیا تھا ، اس نے پوچھا:

اے فرزند رسول ، پھر داؤ¶د کا اوریا کے ساتھ کیا معاملہ تھا؟

امام(ع) نے جواب دیا:

جناب داؤ¶د کے زمانے میں قانون تھا کہ جس عورت کا شوہر مر جائے یا قتل ہو جائے اس عورت کو آخر عمر تک شادی کا حق حاصل نہ ہوتا تھا اس پر لازم ہوتا تھا کہ تنہا زندگی بسر کرے ۔ سب سے پہلے خداوند عالم نے جناب داؤ¶د(ع) کو اجازت دی تھی کہ وہ بیوہ عورت سے شادی کر سکتے ہیں لہذا انھوں نے اوریا کی بیوہ سے شادی کرلی اور یہ کام بعض لوگوں کو بہت برا لگا!

رہی بات حضرت محمد ﷺ کی کہ خداوندعالم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:

تم نے اپنے دل میں کچھ چھپا رکھا تھا خدانے اس کو ظاہر کردیا۔

-------------

(1):-  ہمان ، آیت 26.

۴۵

ماجرا اس طرح سے ہے کہ خداوند عالم نے پیغمبرﷺ کو آپ کی دنیا اور آخرت کی تمام بیبیوں (کہ جو مؤ¶منین کی مائیں ہیں اور پیغمبرﷺ کے بعد کوئی ان سے شادی نہیں کرسکتا)کے نام بتادیئے تھے ان میں ایک نام زینب بنت جحش کا بھی تھا جب کہ اس زمانے میں زینب آپ کے منھ بولے بیٹے زید کی بیوی تھی اور پیغربیﷺ(اس خوف سے کہ کہیں منافقین یہ نہ کہیں کہ آپ ایک شوہر دار عورت کا نام اپنے بیوی کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں اور آپ کی نظریں اس کی طرف جمی ہوئی ہیں)زینب کے نام کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔

یہاں تک کہ زید نے پیغمبر ﷺ کی نصیحتوں پر عمل نہ کیا کہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھے اور اپنی بیوی  زینب کو طلاق دیدی تو پیغمبرﷺ کو اللہ کا حکم ہوا کہ زینب سے شادی کرلیں تاکہ منھ بولے بیٹے کی بیوہ سے شادی کرنا مؤ¶منین کے لئے مشکل نہ ہو لیکن پھر بھی پیغمبر ﷺ منافقین کی سازشوں سے فکر میں ڈوبے ہوئے تھے ، لہذا خدا نے فرمایا:

تم خدا کے سوا کسی سے کیوں ڈر تے ہو؟! بہتر یہ ہے کہ صرف خدا سے ڈرو اور اس کے حکم کو بجالاؤ¶۔(1)

اور تم یہ بھی جان لو کہ تین شادیوں کا حکم خود پروردگارنے دیا ہے:

۱۔ آدم کی شادی حوا سے

۲۔ زینب کی شادی آخری رسولﷺ سے

۳۔ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شادی علی علیہ السلام سے

جب امام رضا(ع) کا بیان یہاں تک پہونچا تو علی بن جہم رونے لگا اور کہا:

اے فرزند رسول!ﷺ میں خدا وند عز و جل کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد انبیا (ع)کے بارے میں صرف وہی کہوں گا جو آپ نے فرمایا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہوں گا!(2)

--------------

(1):- سورہ ی احزاب(33)، آیت 37.

(2):- بحار الانوار ، ج11 ، ص 72-74، بہ نقل از امالی شیخ صدوق ، ص 55-57 و عیون اخبار الرضا، ص 107-108.

۴۶

صلہ رحم

میں علی بن ابی حمزہ ہوں(1) میں چاہتا ہوں کہ ایک عجبک ،دلچسپ اور درس آموز واقعہ آپکے سامنے باان کروں :

ایک دن میں امام موسیٰ بن جعفر(ع)کی خدمت میں تھا حضرت نے بغر  کسی مقدمہ کے ایک ذمہ داری مجھے سونپی :

اے علی بن ابی حمزہ !بہت جلد اہل مغرب سے ایک شخص تمہاری تلاش میں آئیگا اور تم سے میرے بارے میں سوال کریگا،تم اسکے جواب میں کہنا کہ ”خدا کی قسم یہ وہی امام ہیں کہ جنکی امامت کی تائید امام صادق (ع) نے ہمارے سامنے کی ہے“ پھر وہ تم سے حلال و حرام کے بارے میں سوال کریگا،تم میری طرف سے اسکے سوالوں کا جواب دینا۔

میں نہیں جانتا تھا کہ اس شخص کو کس طرح پہچانوں گااس لئے میں نے عرض کیا:

میری جان آپ پر قربان ،اس شخص کی علامت کیا ہے؟

امام نے فرمایا:

وہ شخص طویل قد اور بھاری جسم کا آدمی ہے اسکانام یعقوب ہے،تم فکر نہ کرو وہ خود تمکو پہچان لیگا اور تم سے کچھ سوالات کرےگا تم اسکے تمام سوالوں کے جواب دینا!وہ اپنی قوم کا رئیس ہے۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہے کہ امام کاظم(ع) شدید گھٹن کے ماحول میں زندگی گزار رہے تھے اور سختی سے تقیہ کا حکم دیتے تھے یہاں تک کہ ہم کو اس بات کی بھی اجازت نہ تھی کہ ہم ہر سوال کا جواب دیں چونکہ ممکن تھا کہ سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس ہو ۔

--------------

(1):- اس واقعہ کو اباصلت نے امام رضا (ع) سے نقل کیا ہے اس لئے یہ خاطرات اباصلت از امام رضا(ع) میں شامل ہے اور اسی وجہ سے ہم نے اس کو ذکر بھی کیا ہے البتہ یہ روایت دوسری اسناد سے بھی ذکر ہوئی ہے لیکن وہاں پر علی بن ابی حمزہ کے شعیب العقر قوقی کا نام ذکر ہوا ہے۔

۴۷

امام(ع) نے میری فکر کو ختم کرتے ہوئے فرمایا :

اگر وہ مجھ سے ملاقات کرنا چاہے تو اس کو میرے پاس لے آنا۔

خدا کی قسم میں طواف کعبہ کر رہا تھا ،تیھا ایک طویل قد اور بھاری کا جسم آدمی میرے پاس آیا اور کہا:

میں چاہتا ہوں کہ تمہارے آقا کے بارے میں تم سے سوال کروں۔

میں مطمئن نہیں تھا کہ یہ وہی شخص ہے کہ جسکے بارے میں امام(ع) نے فرمایا تھا لہذا میں کنارے ہو ا اورپوچھا:

کون سے آقا کی بات کر رہے ہو؟

 اس سوال کے جواب میں جب اس نے امام موسیٰ ابن جعفر(ع)کا نام لیا تو میں نے اطمینان قوی حاصل کرنے کی لئے اس سے پوچھا:

تمہارا نام کاے ہے؟

اس نے کہا: میرا نام یعقوب ہے۔

میں نے پوچھا :تم کہاں کے رہنے والے ہو؟

اسنے جواب دیا کہ میں مغرب کا رہنے والاہوں۔

اب میری فکر کو کچھ راحت حاصل ہوئی لیکن مجھے تعجب ہوا کہ ایک اجنبی انسان نے مجھے کے م پہچانا اور یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں امام کاظم(ع)سے تعلق رکھتا ہوںاور بغیر کسی خوف کے مجھے تلاش کر کے امام(ع)کے بارے سوال کر رہا ہے!

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اس سے سوال کیا ۔

تم نے مجھ کو کیسے پہچانا؟

اس نے بڑا دلچسپ جواب دیا:میں نے ایک شخص کو خواب میں دیکھاکہ اس نے مجھ سے کہا :

۴۸

علی بن ابی حمزہ کو تلاش کرواور اپنے تمام سوالوں کے جوابات ان سے دریافت کرو۔

میں نے یہاں کے رہنے والوں سے پوچھا کہ علی بن ابی حمزہ کون ہے؟

ان لوگوں نے تمہاری طرف اشارہ کر کے کہاکہ یہ علی ابن ابی حمزہ ہیں۔

اب میں بالکل مطمئن ہو گیاتھا اور میں نے اس سے کہا :

تم یہیں بیٹھو میں اپنا طواف پورا کر کے تمہاری خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔

طواف تمام کرنے کے بعدمیں واپس ہوااور جب میں نے اس سے گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک عاقل اور منطقی انسان ہے ۔

اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے امام(ع) کی خدمت میں لے چلو۔

میں نے اسکی درخواست کو قبول کیا اور اسے امام(ع) کی خدمت میں لے آیا۔

جب امام (ع)نے اسکودیکھا تو فرمایا:

اے یعقوب کل فلاں جگہ پر تمہارے اور تمہارے بھائی کے بیچ میں جھگڑا ہو گیا تھا یہاں تک کہ تم نے ایک دوسرے کوگالی بھی دی تھی۔

یہ چیز ہمارے دین سے بالکل خارج ہے اور ہم کسی کو بھی ایسے کاموں کا حکم نہیں دیتے چاہے وہ ہماری پیروی کرتا ہو یا نہ کرتا ہو ۔

اس خدا سے ڈرو جویک و تنہا اور لا شریک ہے چونکہ بہت جلدہی موت تم دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیگی ۔

یعقوب ابھی تھوڑے سے وقت ہی میں غیب کی کئی خبریں سن چکا تھا اس لئے وہ موت اور جدائی کی باتیں سنکر فکر میں ڈوب گیا۔

امام(ع) نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

۴۹

تیرا بھائی اس سفر میں گھر پہونچنے سے پہلے انتقال کرجائیگا اور تم نے جو اس سے جھگڑا کیا ہے تمکو اس پر شرمندگی ہوگی۔

یعقوب نے امام(ع)سے سوال کیا کہ آخر ہم لوگ کیوں اتنی جلدی جدا ہو جاینگے؟

امام(ع) نے جواب میں فرمایا:

چونکہ تم نے آپ سی تعلقات کو ختم کر دیا ہے لذما خدا نے تمہاری زندگی کے رشتے کو ختم کر دیا۔

یعقوب بہت پریشان ہوا اور اضطراب وبے چینی کے عالم میں امام(ع) سے سوال کیا:

پھر تو میں بھی جلد ہی مر جاؤنگا؟

امام(ع) نے فرمایا:

ہاں تم بھی اپنے بھائی کی طرح جلد ہی اس دنیا سے چلے جاتے لیکن چونکہ تم آنے والے وقت میں اپنی پھوپھی کی خدمت کروگے اس لئے خدا وند عالم نے تمہاری عمر میں بیس سال کا اضافہ کر دیا ہے۔

 ایسا ہی ہوا !اگلے سال جب میں نے یعقوب کو مراسم حج میں دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا:

اے علی بن ابی حمزہ تم نے میری بدبختی کو دیکھا میرا بھائی گھر تک بھی نہ پہونچ سکا اوردرمیان راہ ہی میں انتقال کر گیا۔(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 48 ، ص 37 و ص 35-36 ، بہ نقل از الخرائج و الجرائح ، ص 20 ، و رجال الکشّی ، ص 276 ، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج2 ، ص 245- مسند الامام الکاظم ، ج1 ، ص 379.

۵۰

حرزا مام رضاعلیہ السلام

دروازہ کھٹکھٹا نے کی آواز آئی ایک آدمی بہت تیزتیزدروازہ پیٹ رہا تھا میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ہارون رشیدکا قاصد غصہ کی حالت میں دروازہ پر کھڑا ہے میں نے اسکو سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیئے بغیر میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے کنارے کیا اور گھر کے اندر داخل ہوگیا امام رضا(ع)صحن میں بیٹھے ہوئے تھے ہارون کا قاصد امام کے پاس پہونچا اور کہا امیرالمؤمنین  ہارون نے آپکو بلایا ہے امام(ع)نے جواب دیا تم چلو ہم ابھی آتے ہیں ۔

جب قاصد چلا گیا تو امام(ع)نے مجھ سے فرمایا اے ابا صلت اس وقت ہارون نے مجھ کو اس لئے بلایا ہے تا کہ میری ناراضگی کے اسباب فراہم کرے میں یہ سنکر کچھ پریشان ہوا جب امام(ع) نے میرے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے تو فرمایا گھبراؤ نہیں وہ کسی بھی صورت میں مجھ کو ناراض نہیں کر سکتا۔

 میں نے امام(ع) سے سوال کیا :

کیسے ممکن ہے کہ وہ آپ کو ناراض نہ کر سکے جب کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے؟

امام نے جواب دیا:

جو کلمات میرے جد امجد رسول خدا ﷺ کی جانب سے مجھ تک پہونچے ہیں انکی برکت کی وجہ سے وہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔(1)

--------------

(1):- ایک دوسری روایت (بحارالانوار، ج49، ص115) میں آیا ہے کہ امام رضا (ع) نے فرمایا، جیسے کہ رسول خدا نے فرمایا: اگر ابوجہل میرا بال بینکا بھی کردے تو تم سب لوگوں کے سامنے گواہی دیتا کہ می ں پیغمبر خدا نہیں ہوں۔

میں بھی کہہ رہا ہوں:

اگر مامون میرا بال بینکا کردے تو تم سب کے سامنے گواہی دیتا کہ میں امام نہیں ہوں۔

۵۱

سچ تو یہ ہے کہ میں امام(ع) کے مقصد کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہو سکا بس اتنا سمجھ گیا کہ ہوگا وہی جو امام(ع) نے فرمایا ہے۔

جیسے ہی امام(ع) کی نظر ہارون پر پڑی آپ نے دورہی سے وہ حرز پڑھا :

جب آپ ہارون کے سامنے پہونچےِ،ہارون نے آپ کودیکھا اور بہت ہی مؤدبانہ انداز میں کہا:

اے ابو الحسن! میں نے اپنے خزانچی کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کو ایک لاکھ درہم دےاور آپ اپنے گھر والو ں کی ضروریات کی ایک فہرست بنا کر ہمیں دیدیں تاکہ تمام چیزیں آپکے لئے فراہم کی جا سکیں۔

جب امام(ع)، ہارون سے جدا ہو رہے تھے اس وقت ہارون نے امام(ع) کے قد و قامت کو دیکھا اور دھیمی آواز میں کہا:

ہم نے کچھ ارادہ کیا او رخدا نے کچھ ارادہ کیالیکن جو ارادہ خدا کرتا ہے وہی بہتر ہوتا ہے اور انجام پاتا ہے۔(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 116 و ج 91، ص 344.

۵۲

متن حرز امام رضاعلیہ السلام

میں جانتاہوں کہ آپ اس لمحہ کے مشتاق ہونگے کہ اس متن کو دیکھیں، بہت اچھا !اب میں آپکی خدمت میں وہ حرز پیش کرتا ہوں:

بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ

بِسمِ اللهِ اِنی اَعوذُ بالرَّحمنِ مِنکَ اِن کُنتَ تَقيّاً اَو غَیرَ تَقيٍّ، اَخَذتُ بِاللهِ السَّمیعِ البَصیرِ علی سَمعِکَ وَ بَصَرِکَ لا سُلطانَ لَکَ عَلَيَّ وَ لا علی سَمعی وَ لا علی بَصَری وَ لا علی شَعری وَ لا علی بَشَری و لا علی لَحمی وَ لا علی دَمی وَ لا علی مُخّی وَ لا علی عَصَبی وَ لا علی عِظامی وَ لا علی مالی وَ لا علی ما رَزَقَنی رَبّی. سَتَرتُ بَینی وَ بَینَکَ بِسِترِ النُّبُوَّةِ الَّذی اَستَرَ اَنبِیاءَ اللهِ بِهِ مِن سَطَواتِ الجَابِرَةِ وَ الفَراعِنَةِ.جِبرَئیلُ عَن يَمینی وَ میکائیلُ عَن يَساری وَ اِسرافیلُ عَن وَرائی وَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ اَمامی، وَ اللهُ مَطَّلِعٌ عَلَيَّ يَمنَعُ الشَّیطانَ مِنّی.الّلهُمَّ لا يَغلِبُ جَهلُهُ اَناتَکَ اَن يَستَفِزَّنی وَ يَستَخِفَّنی.الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ، الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ، الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ.(1)

ترجمہ حرز :

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے میں تجھ سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں چاہے تو با تقوےٰ ہویابےتقویٰ،خدا وند عالم کی مدد سے میں تیرے کان اور تیری آنکھوں کو بند کر رہا ہوں، تیرے پاس مجھ پر تسلط حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے،نہ میرے کانوں پر ،نہ میری آنکھوں پر،نہ میرے بالوں پر،نہ کھال پر ،نہ گوشت پر،نہ خون پر، نہ دماغ پر،نہ اعصاب پر ،نہ میرے مال پراور نہ ہی میرے رزق پرکہ جو خدا وند عالم نے مجھے عطا کیا ہے،میں اپنے اور تیرے درمیان ایک پردہ ڈال رہا ہوں ،ایسا پردہ جو نبوت کا پردہ ہے یعنی وہ پردہ جس کو انبیاءﷺنے فرعون جیسے ظالم اور جابر بادشاہوں کے حملوں سے بچنے کی لئے اپنے اور انکے درماین ڈالا تھا۔

--------------

(1):- اس حرز کو شیخ عباس قمی نے منتہی الآمال کی فصل 5 باب 10 میں اور مفاتیح الجنان میں بی) تحریر کیا ہے۔

۵۳

داہنی جانب سے جبرئیل،بائں  جانب سے میکائیل،پیچھے سے اسرافیل،سامنے سے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ،یہاں تک کہ خدا وند بھی (کہ جو میرے حالات کو جانتا ہے) تیرے شر کو مجھ سے روکے ہوئے ہے،اور شیطان کو مجھ سے دور کئے ہوئے ہے۔

پروردگارا! وہ تیری قدرت سے نادانی کی بنا پر غافل ہو کر مجھ کو وھشت زدہ اور ذلیل و خوار نہ کر دے۔

پروردگار میں تریی پناہ چاہتا ہوں   پروردگار میں تر۔ی پناہ چاہتا ہوں

پروردگار میں ترری پناہ چاہتا ہوں

پانی کا چشمہ جاری کرنا

ہم لوگ مامون سے ملاقات کے ارادے سے نیشاپور سے نکلے،ابھی قریہ حمراء(1) تک پہونچے تھے کہ سورج بالکل سر پر آ گیا ۔

ایک شخص جو امام(ع) کی سواری کے نزدیک تھا اس نے آسمان کی جانب نگاہ کی اور امام رضاعلیہ السلام سے کہا:

آقا ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔

امام رضاعلیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا :

پانی لے آؤ تاکہ میں وضو کر سکوں۔سب لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ آقا کے لئے پانی لاؤ۔

یہاں تک کہ وہ شخص جس پر سفر کی تمام ضروریات مہیا کرنے کی ذمہ داری تھی امام (ع) کے قریب آیا اور اس نے شرمندگی کے ساتھ کہا:

فرزندے رسول میری جان آپ پر قربان، جو پانی ہمارے پاس تھا وہ ختم ہو گیا اور یہاں اطراف میں کوئی نہر اورچشمہ بھی نہیں ہے۔

--------------

(1):- قریہ حمراء یعنی قریہ دہ سرخ۔

۵۴

 اگر آپ بہتر سمجھیں تو ہم لوگ  آگے بڑھیں؟ اور قریہ حمراءپہونچ کر نماز کو اول وقت کے بجائے کچھ تاخرر سے پڑھ لیں گے؟

امام(ع) ہمیشہ فضیلت کے وقت میں نماز پڑھتے تھے،کبھی تاخیر نہ کرتے تھے، جس جگہ امام(ع)کھڑے تھے وہیں دوزانوں ہو کر بیٹھ گئے اور کچھ زمین کھودی، اچانک میٹھا پانی زمین سے ابل پڑا اور ایک نئے چشمہ کی شکل اختیار کرلی۔

 امام رضاعلیہ السلاماور انکے تمام اصحاب نے وضو کیا اور اول وقت اسی بیابان میں نماز جماعت ادا کی ، وہ چشمہ آج تک جاری ہے۔

ہم آگے بڑھے اور سناباد(1) پہونچ گئے وہاں پر ایک پہاڑ تھا ،وہاں کے رہنے والے اس پہاڑ کے پتھر سے دیگ بناتے تھے۔(2) امام علیہ السلام نے اس پہاڑ سے ٹیک لگائی اور دعا کی:

الّلهُمَّ اَنفِع بِهِ وَ بارِک فیما يُجعَلُ فیما يُنحَتُ مِنهُ

اے پروردگار!اس پہاڑ میں یہاں والوں کے لئے نفع قرار دےاور اس پہاڑ سے جو پتیلیاں بنائی جائیں اور ا ن میں جو کھانا تیارر ہو اس میں برکت عطاکر ۔

پھر امام(ع)نے حکم دیا کہ ہمارے لئے کچھ پتیلیاں اس پہاڑ کے پتھر سے تارر کرو اور پھر ایک بات کہی جو بڑی دلچسپ تھی اور وہ یہ کہ:میرے لئے اس پتیلی کے علاوہ کسی اور پتیلی میں کھانا نہ بنایا جائے۔

البتہ میں آپکی خدمت میں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ امام(ع) کھانا بہت کم کھاتے تھے!

اس دن سے لوگوں میں اس پہاڑ کی پتیلیاں خریدنے کا شوق پیدا ہو گیا اور اس طریقہ سے اس پہاڑ کے سلسلے میں حضرت(ع) کی دعا کا اثر ظاہر ہو گیا۔(3)

--------------

(1):- سناباد، پہلے ایک گاؤں تھا لیکن اب مشہد میں شامل ہو گیا ہے اور آج بھی اسی نام سے ایک مشہور محلہ ہے۔

(2):- یہ پتیلیاں آج بھی مشہد مقدس میں بنائی جاتی ہیں ان پتیلیوں کا نام (ہرکارہ) ہے اوریہ کےپتھروں سے بنائی جاتی ہیں۔

(3):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 125 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 136- منتہی الآمال فصل 5 از باب 10.

۵۵

اپنے مزار کی پیش گوئی

جب ہم طوس پہونچے تو حمید بن قحطبہ طائی کے مہمان ہوئے،امام(ع) ایک گنبد میں وارد ہوئے کہ جس میں ہارون کی قبر تھی، سچ تو یہ ہے کہ یہ بات میرے لئے بہت عجیب تھی کہ امام(ع) کا ہارون کی قبر سے کچھ تعلق ہے لیکن میں بہت جلد سمجھ گیا کہ امام رضاعلیہ السلام اپنے ساتھیوں کو کوئی دوسری چیز سمجھانا چاہتے ہیں آپ نے ہارون کی قبر کے سرہانے اپنے مبارک ہاتھوں سے ایک خط کھینچا اور ایک دائرہ معین کیا اور فرمایا:

یہ میرے مرقد کی مٹی ہے میں اس جگہ دفن کیا جاؤنگا اور جلد ہی خدا اس مقام کو ہمارے شیعوں اور دوستوں کے آنے ،جانے کی جگہ قرار دے گا۔

خدا کی قسم !جو بھی میری زیارت کرے گا اور مجھے سلام کر ے گا،اس پر ہماری شفاعت کے ذریعہ خدا کی رحمت اور مغفرت واجب ہو جائےگی۔

یہ فرما کر آپ نے قبلے کی طرف رخ کیا اور چند رکعت نمازاور کچھ دعائںم پڑھیں،نماز اور دعا تمام ہونے کے بعد ایک طولانی سجدہ کیا،میں نے خود سنا ہے کہ آپ نے سجدے میں پانچ سو مرتبہ ذکر تسبیح پڑھا پھر سجدے سے سر اٹھایا اور اپنی قیام گا ہ یعنی حمید بن قحطبہ طائی کے گھر پلٹ آئے۔(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 125 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 136- منتہی الآمال فصل 5 از باب 10.

۵۶

بہشت کا چشمہ(1)

ابھی ایک چشمہ کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کیا ہے جو امام رضا(ع) نے خشک اور بے آب زمین پر اپنے اعجاز سے جا ری کیا اب بہتر سمجھتا ہوں کہ ایک اور چشمہ کا ذکر کروں جو حضرت علی(ع)نے اپنے اعجاز سے بے آب و گیاہ بیابان میں جاری کیا تھا ۔

یہ روایت محمد بن یوسف فریابی،سفیان اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، حبیب ابن جہم کے ذریعہ مجھ تک پہونچی ہے۔

حبیب ابن جہم روایت کرتے ہیں :

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ہم امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کی رکاب میں سرزمین صفین کی طرف جا رہے تھے ہم صندود نامی ایک گاؤ میں پہونچے اور وہاں ٹھہرنے کا قصد کیا ابھی ہم نے اپنے سامان گھوڑوں سے نہ اتارے تھے کہ امام علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ یہاں سے حرکت کریں ہم نے حکم کی تعمیل کی اورایک ایسے مقام پر پہونچے جہاں زمین بالکل خشک تھی اور آب و گیاہ کا کچھ نام و نشان نہ تھا ۔

امام علی علیہ السلام نے حکم دیا :یہیں پر قیام کریں۔

مالک اشتر کو کون نہیں جانتا، وہ جنگ کے مرغ (سب سے بڑے بہادر)کہلاتے تھے اور امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کے سپاہ سالار تھے۔

آپ امیر المؤمنین(ع)کے پاس آئے اور کہا:

اے امیر المومنین(ع)! یہاں پر پانی کا نام و نشان نہیں ہے ۔

--------------

(1):- چونکہ یہ روایت بھی اباصلت نے نقل کی ہے اورپہلی والی روایت سے مشابہت رکھتی ہے لہذا ہم نے اس کو یہاں پر ذکر کردیا ہے۔

۵۷

یہاں جنگی لشکر کو ٹھہرانا کیسا ہوگا؟

 حضرت امیر المومنین(ع) مسکرائے ،ایک نگاہ مالک اشتر کی طرف کی اور فرمایا:

اے مالک ! میں بہتر جانتا ہوں کہ جنگ کے زمانے میں لشکر کو ایسی سرزمین پر روکنا مناسب نہیں ہے کہ جس میں پانی موجود نہ ہولیکن یہ بات جان لو کہ بہت جلد خدا وند عالم اس سر زمین سے ہم کو ایسے پانی سے سیراب کرے گا جو شہد سے زیادہ شیرین  و لطیف ہوگا، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور یاقوت سے زیادہ صاف و شفاف ہوگا۔

ہم سب کوبہت تعجب ہوا جب کہ ہم یہ جانتے تھے کہ جو کچھ امیر المؤمنین(ع)کہہ دیں وہ سو فصداہو کر رہے گا اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

 حضرت امیر المؤمنین(ع) نے یہ فرما کر اپنی عبا کو دوش سے اتارا،تلوار کو ہاتھ میں لیا،کچھ قدم آگے بڑھ کر ایک بالکل خشک مقام پر کھڑے ہو گئےاور مالک سے کہا:

اے مالک! لشکر کی مدد کے ذریعہ اس جگہ کو کھودو۔

مالک اور اسکے لشکر نے زمین کو کھودنا شروع کیایہاں تک کہ ایک بہت بڑا کالے رنگ کا پتھر نمودار ہواکہ جس سے چاندی کا ایک چمکدار چھلا متصل تھا۔

 حضرت امیر المومنین ؑنے مالک سے فرمایا:

اپنے دوستوں کی مدد سے پتھر کو اٹھا کر کنارے ڈال دو۔

مالک اور ایک سو جنگی جوانوں نے پتھر کو چاروں طرف سے پکڑا اور اکھاڑنا چاہا لیکن بہت زیادہ طاقت لگانے کے بعد بھی کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ کچھ کر نہیں پا رہیں تو آپ خود پتھر کے قریب آئے اورپتھر

۵۸

کو پکڑنے سے پہلے آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کیا اور ایک ایسی دعا پڑی کہ ہم میں سے کوئی بھی اسکے معنی کو نہ سمجھ سکا!

اس دعا کا متن یہ ہے:

طاب طاب مربا بما لم طبیوثا بوثة شتمیا کوبا جاحا نوثا تودیثا برحوثا، آمین یا رب العلمین، ربّ موسیٰ وهارون

پھر آپ نے انگلیوں کو پتھر میں پھسایا اورقدرت ید اللٰھی کے ذریعہ صرف ایک جھٹکے میں پتھر کو اکھاڑ کر چالیس ہاتھ دور پھینک دیا۔جن نو جوانوں نے بزورگوں کی زبانی در خیبر اکھاڑنے کے واقعہ کو سنا تھا، اس دن انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے اسی کے مثل خدا کے ہاتھ کی قدرت کا معجزہ دیکھ لیا۔

اچانک شہد سے زیادہ شیرین ،برف سے زیادہ ٹھنڈا اور یاقوت سے زیادہ شفاف پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلاماور ہم سب نے چشمے کا پانی پیا اور اپنی مشکوں وتمام برتنوں کو پانی سے بھر لیا۔

پھر حضرت علی علیہ السلامدوبارہ پتھر کی طرف گئے اور پتھر کو اٹھا کر چشمہ کی طرف بڑھے ہم سب لوگ راستے سے ہٹ گئے یہاں تک کہ حضرت نے پتھر کو اسکی پرانی جگہ پر رکھ دیا اور فرمایا: پتھر کو مٹی سے چھپا دو۔

ہم نے پتھر کو چھپا دیااور اپنے سازوسامان کو باندھ کر روانہ ہو گئے لیکن ابھی زیادہ آگے نہ بڑھے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ٹھہرنے کا حکم دیااور لشکر کو مخاطب کر کے فرمایا:

کیا تم میں سے کوئی اس چشمے کی جگہ کو جانتا ہے؟

لشکر میں جوش پیدا ہو گاشاور سب نے ہاتھ بلند کر کے کہا:

آقا ہم جانتے ہیں،ہم جانتے ہیں۔

ہم میں سے ایک گروہ مالک اشتر کے ساتھ واپس آیا لیکن ہم کو اس چشمے  کا کوئی نشان نہ ملا!پانی کا چشمہ پانی ہو کر زمین کے نیچے جا چکا تھاحتی کہ اس بڑے پتھر کی بھی کوئی خبر نہ تھی۔

۵۹

مالک نے کہا :یقینا امیرالمؤمنین(ع) پیاسے ہیں اسی لئے ہم کو پانی لینے کے لئے بھیجا ہےلذاا سب لوگ اسی اطراف میں پانی کو تلاش کریں تا کہ ہم امیرالمؤمنین(ع)کی خدمت میں پانی پیش کرسکیں۔

کچھ تلاش و کوشش کے بعد ہم کو ایک خانقاہ نظر آئی ہم خانقاہ میں داخل ہوئے تو وہاں ہم نے ایک راہب کو دیکھا جسکی پلکیں برف کی طرح سفید ہو چکی تھی اور اسکی آنکھوں پر گری ہوئی تھیں!

مالک نے راہب سے پوچھا:اے راہب کیا تمہارے پاس کچھ پانی ہے؟

راہب تمام جنگی جوانوں کو مسلح دیکھ کر بہت زیادہ ڈر گیا تھا اور ہم سب کو ایک ایک کر کے دیکھ رہا تھااس نے ڈرتے ہوئے جواب دیا:

ہاں ، ہاں دو دن پہلے میں نے کچھ پانی میٹھا کیا تھا ایسا میٹھا پانی اس اطراف میں دور دور تک نہیں ملتا۔

یہ کہہ کر راہب ایک چھوٹے سے کمرے میں گیا اور وہاں سے پانی کی مشک اٹھا کر لایااور مشک کو مالک کے ہاتھ میں دے دیا،مالک نے اطمینان حاصل کرنے کے لئے کہ پانی میں کوئی خرابی تو نہیں ہے مشک کو اوپر کیا اور تھوڑا سا پانی منھ میں ڈالا لیکن فورا ًہی اس پانی کو منھ سے باہر نکال دیا جیسے کہ مالک کو یہ امید نہ تھی کہ پانی ایسا ہوگااور کہا:

اے بزرگوار!یہی وہ میٹھاپانی ہے جسکی آپ تعریف کر رہے تھے ؟یہ پانی تو نمکین بھی نہیں کڑوا ہے شاید آپ نے میٹھا اور لطیف پانی پیا ہی نہیں اس لئے نہیں جانتے کہ شیرین اور لذت بخش پانی کسے کہتے ہیں ؟ کاش تم نے ایک پیالہ اس پانی میں سے پیا ہوتا جو ہمارے مولیٰ نے ہم کو پلایا ہے تا کہ تمںیش معلوم ہوتا کہ جسکو تم پانی کہہ رہے ہو اصلاً وہ پانی ہی نہیں ہے ۔

پھر مالک اشتر نے اس چشمہ کا پورا واقعہ اس راہب سے بیان کیا۔

جب راہب نے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلامکے اعجاز کا یہ واقعہ سناتو سوال کیا:کیا تمہارے مولیٰ پیغمبرﷺ ہیں؟

مالک اشتر:  ہما رے مولیٰ ،پیغمبر نہیں بلکہ پیغمبر ﷺ کے وصی ہیں۔

۶۰