امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت42%

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت مؤلف:
زمرہ جات: امام رضا(علیہ السلام)
صفحے: 131

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 131 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57497 / ڈاؤنلوڈ: 4959
سائز سائز سائز
امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۴۵۸&view=download&format=pdf

word

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۴۵۸&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل ( ihcf.preach@gmail.com )


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

﴿وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ﴾ (۱)

اور یونس اپنی قوم کے در میان سے غصے کی حالت میں چلے گئے اور گمان کیا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔

﴿وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا﴾ (۲)

زلیخا نے یوسف کا ارادہ کیا اور یوسف نے زلیخا کا۔

﴿وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ﴾ (۳)

اور داؤ¶د نے گمان کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لے لیا ۔

﴿وَتُخْفِی فِی نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِیهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ﴾ (۴)

تم اپنے دل میں (زید کی بیوی کے بارے میں) کچھ چھپائے ہوئے تھے کہ خدا نے اس کو ظاہر کردیااور تم لوگوں سے ڈرتے ہو جبکہ مناسب یہ ہے کہ تم فقط اللہ سے ڈرو ۔امام رضاعلیہ السلامنے جب انبیاءکے بارے میں علی بن محمد بن جہم کی یہ تہمتیں سنی تو غصہ ہوئے اور فرمایا: اے ابن جہم تجھ پر لعنت ہو ، خدا سے ڈراور ان برے گناہوں کی نسبت پیامبران خدا کی طرف مت دے اور قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے نہ کر! کیا تو نے خداکا یہ فرمان نہیں سنا:

﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِیلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ﴾ (۵)

تاویل (اور تفسیر قرآن) خدا اور راسخون(۶) فی العلم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

--------------

(۱):- سورہ انبیاء (۲۱)، آیت ۸۷.

(۲):- سورہ ی یوسف (۱۲)، آیت ۲۴.

(۳):- سورہ ص (۳۸)، آیت ۲۴.

(۴):- سورہ ی احزاب (۳۳)، آیت ۳۷.

(۵):- سورہ ی آل عمران (۳)، آیت ۷.

(۶):-  یعنی ۱۴ معصوم(ع).

۴۱

خداوند کے جس فرمان سے تو نے حضرت آدمعلیہ السلام پر اعتراض کیا ہے اسکا جواب یہ ہے کہ:

خدا نے حضرت آدم کو اس لئے پیدا کیا کہ اپنی زمین پر ان کو حجت اور خلیفہ بنائے اس لئے نہیں کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں اور جس کو تم گناہ سمجھ رہے ہو وہ کام آدم نے جنت میں انجام دیا تھا نہ کہ زمین پر لہذا زمین پر اسکے سلسلے میں مقدرات اور حدود الہی جاری نہیں ہونگے پس جب آدم زمین پر آئے اور خدا کی حجت اور خلیفہ مقرر ہوگئے تو ان کو عصمت بھی عطا کی گئی جس کی دلیل یہ آیت ہے :

﴿إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِینَ ﴾ (۱)

خداوند عالم نے آدم ، نوح اور خاندان ابراہیم و خاندان عمران کو تمام عالمین پر چن لیا۔

خداوند عالم کی جانب سے لوگوں کی ہدایت اور رہبری کے لئے چنا جانا خود عصمت کی دلیل ہے کیوں کہ بغیر عصمت کے اس کے انتخاب کا مقصد بے معنی ہو جائیگا۔

اور حضرت یونسعلیہ السلام کے بارے میں (لن نقدر) سے مراد یہ نہیں ہے کہ انھوں نے یہ گمان کیا کہ خدا ان کو سزا دینے پر قادر نہیں ہے بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ حضرت یونس نے گمان کیا کہ خداوند عالم ان کی روزی کے سلسلے میں ان پر سختی نہیں کریگا کیا تونے خداوند عالم کا قول نہیں سنا!

﴿وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ﴾ (۲)

لیکن جب خداوند انسان کوسختی میں  مبتلا کرتا ہےاور اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے میری توہین کردی۔

--------------

(۱):- سورہ ی آل عمران (۳) ، آیت ۳۳.

(۲):- سورہ فجر (۸۹)، آیت ۱۶.

۴۲

اور اگر یونس گمان (یقین)کرلیتے کہ خدا ن پر قادر نہیں ہے تو بغیر کسی شک کہ وہ کافر ہوگئے ہوتے۔

اب رہی بات حضرت یوسف(ع) کی تو انکے سلسلے میں فرمان خدا کا مقصد یہ ہے کہ زلیخا نے گناہ میں وارد ہونے اور جناب یوسف (ع)کا غلط استعمال کرنا کا ارادہ کیا اور جناب یوسف (ع)نے زلیخا کو قتل کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ آپ کو گناہ کبیرہ کا مرتکب کرنا چاہتی تھی لیکن خدا نے یوسف کو قتل اور فحشا (زنا)دونوں سے بچالیا یعنی یہاں پر ”سوء“سے مراد قتل اور فحشاسے مراد زنا ہے۔

اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جناب داؤ¶د کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟

علی بن محمد بن جہم نے ایک گڑھی ہوئی، جھوٹی داستان سنانا شروع کی:لوگ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت داؤد محراب میں نماز پڑھنے میں مشغول تھے کہ ابلیس ایک خوبصورت پرندہ بن کر ان کے سامنے آیا ۔ جناب داؤ¶د نے اس پرندے کو پکڑنے کے لئے اپنی نماز کو توڑ دیا اور اسکے پیچھے چھت تک پہونچ گئے وہاں سے آپکی نظر اپنے لشکر کے فرمانروا ”اوریا بن حنان“کی بیوی کے ننگے بدن پر پڑی کہ جو نہا رہی تھی اور آپ صرف ایک دل سے نہیں بلکہ سو دل سے اسکے عاشق اور دیوانے ہوگئے چونکہ آپ ایک شوہر دار عورت سے شادی نہیں کرسکتے تھے لہذا آپ نے اوریا ( کہ جو اس وقت محاذ جنگ پر تھا)کو فرماندہ کے عنوان سے سب سے پہلی صف میں بھیج دیا تا کہ وہ قتل ہو جائے اتفاقاً وہ اس جنگ سے کامیابی کہ ساتھ پلٹ آیا یہ کامیابی جناب داؤ¶د کو بہت بری لگی اور حکم دیا کہ دوبارہ (دوسری جنگ میں)بھی ان کو پہلی صف میں بھیجا جائے اس مرتبہ اوریا جنگ میں مارا گیا اور جناب داؤ¶د نے اس کی بیوی سے شادی کرلی۔

امام رضاعلیہ السلام نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور فرمایا:

﴿انّا لله وَ اِنَّا اِلَیهِ رَاجِعُون﴾ (۱)

-------------

(۱):- کلمہ استرجاع (خواہش رجعت تمنائے رجوع) ہے مصیبت کے وقت بولاجاتا ہے۔

۴۳

تو نے خدا کے نبی ﷺپر بہت بری تہمت لگائی ہے ، نماز کو ہلکہ سمجھنا وہ بھی صرف ایک پرندہ کو پکڑنے کے لئے ، اس کے بعد گناہ کا ارتکاب اور آخر میں ناحق قتل!

ابن جہم: اے فرزند رسول!ﷺاگر یہ بات سچ نہیں ہے تو پھر خداوند عالم نے جو آیت میں کہا ہے کہ داؤ¶د نے خطا کی ، وہ کونسی خطا ہے؟

امام: تجھ پر لعنت ہو ، انھوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا ، ان کے کام پر خدا کا اعتراض صرف اس لئے تھا کہ انھوں نے خود اپنی طرف سے گمان کیا تھا کہ خداوند عالم نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو ان سے زیادہ علم رکھتی ہو!

خداوند عالم نے دو فرشتوں کو بھیجا وہ دونوں اللہ کے حکم سے انسان کی شکل میں آگئے اور جناب داؤ¶د کی عبادتگاہ کی دیوار کے اوپر بیٹھ گئے اور کہا:

ہم دونوں آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں ، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ستم کیا ہے اب ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور ہم کو صحیح راستے کی ہدایت کریں ۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا اور کہا:یہ میرا بھائی ہے اسکے پاس ۹۹ بھیڑیں ہیں اور میرے پاس صرف ایک بھیڑ ہے وہ کہتا ہے کہ یہ ایک بھیڑ بھی تم مجھ کو دیدو اور وہ بولنے میں مجھ سے بہت آگے ہے۔(۱)

جناب داؤد نے جلدی کی اور بغیر گواہی طلب کئے اسکے دوسرے بھائی پر حکم لگاتے ہوئے کہا:

تمہارا بھائی تم پر ستم کر رہا ہے کہ تم سے تمہاری بھیڑ مانگ رہا ہے۔(۲)

-------------

(۱):- سورہ ی ص(۳۸)، آیات ۲۲/۲۳.

(۲):- ہمان، آیت ۲۴.

۴۴

داؤد کی خطا صرف انکے فیصلہ کرنے میں تھی یہ خطا نہیں تھی جو تم سمجھ رہے ہو، جس کی دلیل خداوند عالم نے آیت میں پیش کی ہے۔

﴿يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِیفَةً فِی الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى ﴾ (۱)

ای داود ! ہم نے تم کو زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا کر بھیجا ہے ، پس تم لوگوں کے در میان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات نفس کی پیروی نہ کرو۔

اگر داؤ¶د اتنا بڑا گناہ کرتے تو پھر خدا ان کو اتنا بلند مقام کیسے عطا کرسکتا تھا؟!

علی بن محمد ابن جہم ، بہت بد حواس ہو گیا تھا ، اس نے پوچھا:

اے فرزند رسول ، پھر داؤ¶د کا اوریا کے ساتھ کیا معاملہ تھا؟

امام(ع) نے جواب دیا:

جناب داؤ¶د کے زمانے میں قانون تھا کہ جس عورت کا شوہر مر جائے یا قتل ہو جائے اس عورت کو آخر عمر تک شادی کا حق حاصل نہ ہوتا تھا اس پر لازم ہوتا تھا کہ تنہا زندگی بسر کرے ۔ سب سے پہلے خداوند عالم نے جناب داؤ¶د(ع) کو اجازت دی تھی کہ وہ بیوہ عورت سے شادی کر سکتے ہیں لہذا انھوں نے اوریا کی بیوہ سے شادی کرلی اور یہ کام بعض لوگوں کو بہت برا لگا!

رہی بات حضرت محمد ﷺ کی کہ خداوندعالم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:

تم نے اپنے دل میں کچھ چھپا رکھا تھا خدانے اس کو ظاہر کردیا۔

-------------

(۱):-  ہمان ، آیت ۲۶.

۴۵

ماجرا اس طرح سے ہے کہ خداوند عالم نے پیغمبرﷺ کو آپ کی دنیا اور آخرت کی تمام بیبیوں (کہ جو مؤ¶منین کی مائیں ہیں اور پیغمبرﷺ کے بعد کوئی ان سے شادی نہیں کرسکتا)کے نام بتادیئے تھے ان میں ایک نام زینب بنت جحش کا بھی تھا جب کہ اس زمانے میں زینب آپ کے منھ بولے بیٹے زید کی بیوی تھی اور پیغربیﷺ(اس خوف سے کہ کہیں منافقین یہ نہ کہیں کہ آپ ایک شوہر دار عورت کا نام اپنے بیوی کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں اور آپ کی نظریں اس کی طرف جمی ہوئی ہیں)زینب کے نام کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔

یہاں تک کہ زید نے پیغمبر ﷺ کی نصیحتوں پر عمل نہ کیا کہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھے اور اپنی بیوی  زینب کو طلاق دیدی تو پیغمبرﷺ کو اللہ کا حکم ہوا کہ زینب سے شادی کرلیں تاکہ منھ بولے بیٹے کی بیوہ سے شادی کرنا مؤ¶منین کے لئے مشکل نہ ہو لیکن پھر بھی پیغمبر ﷺ منافقین کی سازشوں سے فکر میں ڈوبے ہوئے تھے ، لہذا خدا نے فرمایا:

تم خدا کے سوا کسی سے کیوں ڈر تے ہو؟! بہتر یہ ہے کہ صرف خدا سے ڈرو اور اس کے حکم کو بجالاؤ¶۔(۱)

اور تم یہ بھی جان لو کہ تین شادیوں کا حکم خود پروردگارنے دیا ہے:

۱۔ آدم کی شادی حوا سے

۲۔ زینب کی شادی آخری رسولﷺ سے

۳۔ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شادی علی علیہ السلام سے

جب امام رضا(ع) کا بیان یہاں تک پہونچا تو علی بن جہم رونے لگا اور کہا:

اے فرزند رسول!ﷺ میں خدا وند عز و جل کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد انبیا (ع)کے بارے میں صرف وہی کہوں گا جو آپ نے فرمایا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہوں گا!(۲)

--------------

(۱):- سورہ ی احزاب(۳۳)، آیت ۳۷.

(۲):- بحار الانوار ، ج۱۱ ، ص ۷۲-۷۴، بہ نقل از امالی شیخ صدوق ، ص ۵۵-۵۷ و عیون اخبار الرضا، ص ۱۰۷-۱۰۸.

۴۶

صلہ رحم

میں علی بن ابی حمزہ ہوں(۱) میں چاہتا ہوں کہ ایک عجبک ،دلچسپ اور درس آموز واقعہ آپکے سامنے باان کروں :

ایک دن میں امام موسیٰ بن جعفر(ع)کی خدمت میں تھا حضرت نے بغر  کسی مقدمہ کے ایک ذمہ داری مجھے سونپی :

اے علی بن ابی حمزہ !بہت جلد اہل مغرب سے ایک شخص تمہاری تلاش میں آئیگا اور تم سے میرے بارے میں سوال کریگا،تم اسکے جواب میں کہنا کہ ”خدا کی قسم یہ وہی امام ہیں کہ جنکی امامت کی تائید امام صادق (ع) نے ہمارے سامنے کی ہے“ پھر وہ تم سے حلال و حرام کے بارے میں سوال کریگا،تم میری طرف سے اسکے سوالوں کا جواب دینا۔

میں نہیں جانتا تھا کہ اس شخص کو کس طرح پہچانوں گااس لئے میں نے عرض کیا:

میری جان آپ پر قربان ،اس شخص کی علامت کیا ہے؟

امام نے فرمایا:

وہ شخص طویل قد اور بھاری جسم کا آدمی ہے اسکانام یعقوب ہے،تم فکر نہ کرو وہ خود تمکو پہچان لیگا اور تم سے کچھ سوالات کرےگا تم اسکے تمام سوالوں کے جواب دینا!وہ اپنی قوم کا رئیس ہے۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہے کہ امام کاظم(ع) شدید گھٹن کے ماحول میں زندگی گزار رہے تھے اور سختی سے تقیہ کا حکم دیتے تھے یہاں تک کہ ہم کو اس بات کی بھی اجازت نہ تھی کہ ہم ہر سوال کا جواب دیں چونکہ ممکن تھا کہ سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس ہو ۔

--------------

(۱):- اس واقعہ کو اباصلت نے امام رضا (ع) سے نقل کیا ہے اس لئے یہ خاطرات اباصلت از امام رضا(ع) میں شامل ہے اور اسی وجہ سے ہم نے اس کو ذکر بھی کیا ہے البتہ یہ روایت دوسری اسناد سے بھی ذکر ہوئی ہے لیکن وہاں پر علی بن ابی حمزہ کے شعیب العقر قوقی کا نام ذکر ہوا ہے۔

۴۷

امام(ع) نے میری فکر کو ختم کرتے ہوئے فرمایا :

اگر وہ مجھ سے ملاقات کرنا چاہے تو اس کو میرے پاس لے آنا۔

خدا کی قسم میں طواف کعبہ کر رہا تھا ،تیھا ایک طویل قد اور بھاری کا جسم آدمی میرے پاس آیا اور کہا:

میں چاہتا ہوں کہ تمہارے آقا کے بارے میں تم سے سوال کروں۔

میں مطمئن نہیں تھا کہ یہ وہی شخص ہے کہ جسکے بارے میں امام(ع) نے فرمایا تھا لہذا میں کنارے ہو ا اورپوچھا:

کون سے آقا کی بات کر رہے ہو؟

 اس سوال کے جواب میں جب اس نے امام موسیٰ ابن جعفر(ع)کا نام لیا تو میں نے اطمینان قوی حاصل کرنے کی لئے اس سے پوچھا:

تمہارا نام کاے ہے؟

اس نے کہا: میرا نام یعقوب ہے۔

میں نے پوچھا :تم کہاں کے رہنے والے ہو؟

اسنے جواب دیا کہ میں مغرب کا رہنے والاہوں۔

اب میری فکر کو کچھ راحت حاصل ہوئی لیکن مجھے تعجب ہوا کہ ایک اجنبی انسان نے مجھے کے م پہچانا اور یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں امام کاظم(ع)سے تعلق رکھتا ہوںاور بغیر کسی خوف کے مجھے تلاش کر کے امام(ع)کے بارے سوال کر رہا ہے!

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اس سے سوال کیا ۔

تم نے مجھ کو کیسے پہچانا؟

اس نے بڑا دلچسپ جواب دیا:میں نے ایک شخص کو خواب میں دیکھاکہ اس نے مجھ سے کہا :

۴۸

علی بن ابی حمزہ کو تلاش کرواور اپنے تمام سوالوں کے جوابات ان سے دریافت کرو۔

میں نے یہاں کے رہنے والوں سے پوچھا کہ علی بن ابی حمزہ کون ہے؟

ان لوگوں نے تمہاری طرف اشارہ کر کے کہاکہ یہ علی ابن ابی حمزہ ہیں۔

اب میں بالکل مطمئن ہو گیاتھا اور میں نے اس سے کہا :

تم یہیں بیٹھو میں اپنا طواف پورا کر کے تمہاری خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔

طواف تمام کرنے کے بعدمیں واپس ہوااور جب میں نے اس سے گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک عاقل اور منطقی انسان ہے ۔

اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے امام(ع) کی خدمت میں لے چلو۔

میں نے اسکی درخواست کو قبول کیا اور اسے امام(ع) کی خدمت میں لے آیا۔

جب امام (ع)نے اسکودیکھا تو فرمایا:

اے یعقوب کل فلاں جگہ پر تمہارے اور تمہارے بھائی کے بیچ میں جھگڑا ہو گیا تھا یہاں تک کہ تم نے ایک دوسرے کوگالی بھی دی تھی۔

یہ چیز ہمارے دین سے بالکل خارج ہے اور ہم کسی کو بھی ایسے کاموں کا حکم نہیں دیتے چاہے وہ ہماری پیروی کرتا ہو یا نہ کرتا ہو ۔

اس خدا سے ڈرو جویک و تنہا اور لا شریک ہے چونکہ بہت جلدہی موت تم دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیگی ۔

یعقوب ابھی تھوڑے سے وقت ہی میں غیب کی کئی خبریں سن چکا تھا اس لئے وہ موت اور جدائی کی باتیں سنکر فکر میں ڈوب گیا۔

امام(ع) نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

۴۹

تیرا بھائی اس سفر میں گھر پہونچنے سے پہلے انتقال کرجائیگا اور تم نے جو اس سے جھگڑا کیا ہے تمکو اس پر شرمندگی ہوگی۔

یعقوب نے امام(ع)سے سوال کیا کہ آخر ہم لوگ کیوں اتنی جلدی جدا ہو جاینگے؟

امام(ع) نے جواب میں فرمایا:

چونکہ تم نے آپ سی تعلقات کو ختم کر دیا ہے لذما خدا نے تمہاری زندگی کے رشتے کو ختم کر دیا۔

یعقوب بہت پریشان ہوا اور اضطراب وبے چینی کے عالم میں امام(ع) سے سوال کیا:

پھر تو میں بھی جلد ہی مر جاؤنگا؟

امام(ع) نے فرمایا:

ہاں تم بھی اپنے بھائی کی طرح جلد ہی اس دنیا سے چلے جاتے لیکن چونکہ تم آنے والے وقت میں اپنی پھوپھی کی خدمت کروگے اس لئے خدا وند عالم نے تمہاری عمر میں بیس سال کا اضافہ کر دیا ہے۔

 ایسا ہی ہوا !اگلے سال جب میں نے یعقوب کو مراسم حج میں دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا:

اے علی بن ابی حمزہ تم نے میری بدبختی کو دیکھا میرا بھائی گھر تک بھی نہ پہونچ سکا اوردرمیان راہ ہی میں انتقال کر گیا۔(۱)

--------------

(۱):- بحار الانوار ، ج ۴۸ ، ص ۳۷ و ص ۳۵-۳۶ ، بہ نقل از الخرائج و الجرائح ، ص ۲۰ ، و رجال الکشّی ، ص ۲۷۶ ، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج۲ ، ص ۲۴۵- مسند الامام الکاظم ، ج۱ ، ص ۳۷۹.

۵۰

حرزا مام رضاعلیہ السلام

دروازہ کھٹکھٹا نے کی آواز آئی ایک آدمی بہت تیزتیزدروازہ پیٹ رہا تھا میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ہارون رشیدکا قاصد غصہ کی حالت میں دروازہ پر کھڑا ہے میں نے اسکو سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیئے بغیر میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے کنارے کیا اور گھر کے اندر داخل ہوگیا امام رضا(ع)صحن میں بیٹھے ہوئے تھے ہارون کا قاصد امام کے پاس پہونچا اور کہا امیرالمؤمنین  ہارون نے آپکو بلایا ہے امام(ع)نے جواب دیا تم چلو ہم ابھی آتے ہیں ۔

جب قاصد چلا گیا تو امام(ع)نے مجھ سے فرمایا اے ابا صلت اس وقت ہارون نے مجھ کو اس لئے بلایا ہے تا کہ میری ناراضگی کے اسباب فراہم کرے میں یہ سنکر کچھ پریشان ہوا جب امام(ع) نے میرے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے تو فرمایا گھبراؤ نہیں وہ کسی بھی صورت میں مجھ کو ناراض نہیں کر سکتا۔

 میں نے امام(ع) سے سوال کیا :

کیسے ممکن ہے کہ وہ آپ کو ناراض نہ کر سکے جب کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے؟

امام نے جواب دیا:

جو کلمات میرے جد امجد رسول خدا ﷺ کی جانب سے مجھ تک پہونچے ہیں انکی برکت کی وجہ سے وہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔(۱)

--------------

(۱):- ایک دوسری روایت (بحارالانوار، ج۴۹، ص۱۱۵) میں آیا ہے کہ امام رضا (ع) نے فرمایا، جیسے کہ رسول خدا نے فرمایا: اگر ابوجہل میرا بال بینکا بھی کردے تو تم سب لوگوں کے سامنے گواہی دیتا کہ می ں پیغمبر خدا نہیں ہوں۔

میں بھی کہہ رہا ہوں:

اگر مامون میرا بال بینکا کردے تو تم سب کے سامنے گواہی دیتا کہ میں امام نہیں ہوں۔

۵۱

سچ تو یہ ہے کہ میں امام(ع) کے مقصد کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہو سکا بس اتنا سمجھ گیا کہ ہوگا وہی جو امام(ع) نے فرمایا ہے۔

جیسے ہی امام(ع) کی نظر ہارون پر پڑی آپ نے دورہی سے وہ حرز پڑھا :

جب آپ ہارون کے سامنے پہونچےِ،ہارون نے آپ کودیکھا اور بہت ہی مؤدبانہ انداز میں کہا:

اے ابو الحسن! میں نے اپنے خزانچی کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کو ایک لاکھ درہم دےاور آپ اپنے گھر والو ں کی ضروریات کی ایک فہرست بنا کر ہمیں دیدیں تاکہ تمام چیزیں آپکے لئے فراہم کی جا سکیں۔

جب امام(ع)، ہارون سے جدا ہو رہے تھے اس وقت ہارون نے امام(ع) کے قد و قامت کو دیکھا اور دھیمی آواز میں کہا:

ہم نے کچھ ارادہ کیا او رخدا نے کچھ ارادہ کیالیکن جو ارادہ خدا کرتا ہے وہی بہتر ہوتا ہے اور انجام پاتا ہے۔(۱)

--------------

(۱):- بحار الانوار ، ج ۴۹ ، ص ۱۱۶ و ج ۹۱، ص ۳۴۴.

۵۲

متن حرز امام رضاعلیہ السلام

میں جانتاہوں کہ آپ اس لمحہ کے مشتاق ہونگے کہ اس متن کو دیکھیں، بہت اچھا !اب میں آپکی خدمت میں وہ حرز پیش کرتا ہوں:

بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ

بِسمِ اللهِ اِنی اَعوذُ بالرَّحمنِ مِنکَ اِن کُنتَ تَقيّاً اَو غَیرَ تَقيٍّ، اَخَذتُ بِاللهِ السَّمیعِ البَصیرِ علی سَمعِکَ وَ بَصَرِکَ لا سُلطانَ لَکَ عَلَيَّ وَ لا علی سَمعی وَ لا علی بَصَری وَ لا علی شَعری وَ لا علی بَشَری و لا علی لَحمی وَ لا علی دَمی وَ لا علی مُخّی وَ لا علی عَصَبی وَ لا علی عِظامی وَ لا علی مالی وَ لا علی ما رَزَقَنی رَبّی. سَتَرتُ بَینی وَ بَینَکَ بِسِترِ النُّبُوَّةِ الَّذی اَستَرَ اَنبِیاءَ اللهِ بِهِ مِن سَطَواتِ الجَابِرَةِ وَ الفَراعِنَةِ.جِبرَئیلُ عَن يَمینی وَ میکائیلُ عَن يَساری وَ اِسرافیلُ عَن وَرائی وَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ اَمامی، وَ اللهُ مَطَّلِعٌ عَلَيَّ يَمنَعُ الشَّیطانَ مِنّی.الّلهُمَّ لا يَغلِبُ جَهلُهُ اَناتَکَ اَن يَستَفِزَّنی وَ يَستَخِفَّنی.الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ، الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ، الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ.(۱)

ترجمہ حرز :

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے میں تجھ سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں چاہے تو با تقوےٰ ہویابےتقویٰ،خدا وند عالم کی مدد سے میں تیرے کان اور تیری آنکھوں کو بند کر رہا ہوں، تیرے پاس مجھ پر تسلط حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے،نہ میرے کانوں پر ،نہ میری آنکھوں پر،نہ میرے بالوں پر،نہ کھال پر ،نہ گوشت پر،نہ خون پر، نہ دماغ پر،نہ اعصاب پر ،نہ میرے مال پراور نہ ہی میرے رزق پرکہ جو خدا وند عالم نے مجھے عطا کیا ہے،میں اپنے اور تیرے درمیان ایک پردہ ڈال رہا ہوں ،ایسا پردہ جو نبوت کا پردہ ہے یعنی وہ پردہ جس کو انبیاءﷺنے فرعون جیسے ظالم اور جابر بادشاہوں کے حملوں سے بچنے کی لئے اپنے اور انکے درماین ڈالا تھا۔

--------------

(۱):- اس حرز کو شیخ عباس قمی نے منتہی الآمال کی فصل ۵ باب ۱۰ میں اور مفاتیح الجنان میں بی) تحریر کیا ہے۔

۵۳

داہنی جانب سے جبرئیل،بائں  جانب سے میکائیل،پیچھے سے اسرافیل،سامنے سے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ،یہاں تک کہ خدا وند بھی (کہ جو میرے حالات کو جانتا ہے) تیرے شر کو مجھ سے روکے ہوئے ہے،اور شیطان کو مجھ سے دور کئے ہوئے ہے۔

پروردگارا! وہ تیری قدرت سے نادانی کی بنا پر غافل ہو کر مجھ کو وھشت زدہ اور ذلیل و خوار نہ کر دے۔

پروردگار میں تریی پناہ چاہتا ہوں   پروردگار میں تر۔ی پناہ چاہتا ہوں

پروردگار میں ترری پناہ چاہتا ہوں

پانی کا چشمہ جاری کرنا

ہم لوگ مامون سے ملاقات کے ارادے سے نیشاپور سے نکلے،ابھی قریہ حمراء(۱) تک پہونچے تھے کہ سورج بالکل سر پر آ گیا ۔

ایک شخص جو امام(ع) کی سواری کے نزدیک تھا اس نے آسمان کی جانب نگاہ کی اور امام رضاعلیہ السلام سے کہا:

آقا ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔

امام رضاعلیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا :

پانی لے آؤ تاکہ میں وضو کر سکوں۔سب لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ آقا کے لئے پانی لاؤ۔

یہاں تک کہ وہ شخص جس پر سفر کی تمام ضروریات مہیا کرنے کی ذمہ داری تھی امام (ع) کے قریب آیا اور اس نے شرمندگی کے ساتھ کہا:

فرزندے رسول میری جان آپ پر قربان، جو پانی ہمارے پاس تھا وہ ختم ہو گیا اور یہاں اطراف میں کوئی نہر اورچشمہ بھی نہیں ہے۔

--------------

(۱):- قریہ حمراء یعنی قریہ دہ سرخ۔

۵۴

 اگر آپ بہتر سمجھیں تو ہم لوگ  آگے بڑھیں؟ اور قریہ حمراءپہونچ کر نماز کو اول وقت کے بجائے کچھ تاخرر سے پڑھ لیں گے؟

امام(ع) ہمیشہ فضیلت کے وقت میں نماز پڑھتے تھے،کبھی تاخیر نہ کرتے تھے، جس جگہ امام(ع)کھڑے تھے وہیں دوزانوں ہو کر بیٹھ گئے اور کچھ زمین کھودی، اچانک میٹھا پانی زمین سے ابل پڑا اور ایک نئے چشمہ کی شکل اختیار کرلی۔

 امام رضاعلیہ السلاماور انکے تمام اصحاب نے وضو کیا اور اول وقت اسی بیابان میں نماز جماعت ادا کی ، وہ چشمہ آج تک جاری ہے۔

ہم آگے بڑھے اور سناباد(۱) پہونچ گئے وہاں پر ایک پہاڑ تھا ،وہاں کے رہنے والے اس پہاڑ کے پتھر سے دیگ بناتے تھے۔(۲) امام علیہ السلام نے اس پہاڑ سے ٹیک لگائی اور دعا کی:

الّلهُمَّ اَنفِع بِهِ وَ بارِک فیما يُجعَلُ فیما يُنحَتُ مِنهُ

اے پروردگار!اس پہاڑ میں یہاں والوں کے لئے نفع قرار دےاور اس پہاڑ سے جو پتیلیاں بنائی جائیں اور ا ن میں جو کھانا تیارر ہو اس میں برکت عطاکر ۔

پھر امام(ع)نے حکم دیا کہ ہمارے لئے کچھ پتیلیاں اس پہاڑ کے پتھر سے تارر کرو اور پھر ایک بات کہی جو بڑی دلچسپ تھی اور وہ یہ کہ:میرے لئے اس پتیلی کے علاوہ کسی اور پتیلی میں کھانا نہ بنایا جائے۔

البتہ میں آپکی خدمت میں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ امام(ع) کھانا بہت کم کھاتے تھے!

اس دن سے لوگوں میں اس پہاڑ کی پتیلیاں خریدنے کا شوق پیدا ہو گیا اور اس طریقہ سے اس پہاڑ کے سلسلے میں حضرت(ع) کی دعا کا اثر ظاہر ہو گیا۔(۳)

--------------

(۱):- سناباد، پہلے ایک گاؤں تھا لیکن اب مشہد میں شامل ہو گیا ہے اور آج بھی اسی نام سے ایک مشہور محلہ ہے۔

(۲):- یہ پتیلیاں آج بھی مشہد مقدس میں بنائی جاتی ہیں ان پتیلیوں کا نام (ہرکارہ) ہے اوریہ کےپتھروں سے بنائی جاتی ہیں۔

(۳):- بحار الانوار ، ج ۴۹ ، ص ۱۲۵ ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ج ۲، ص ۱۳۶- منتہی الآمال فصل ۵ از باب ۱۰.

۵۵

اپنے مزار کی پیش گوئی

جب ہم طوس پہونچے تو حمید بن قحطبہ طائی کے مہمان ہوئے،امام(ع) ایک گنبد میں وارد ہوئے کہ جس میں ہارون کی قبر تھی، سچ تو یہ ہے کہ یہ بات میرے لئے بہت عجیب تھی کہ امام(ع) کا ہارون کی قبر سے کچھ تعلق ہے لیکن میں بہت جلد سمجھ گیا کہ امام رضاعلیہ السلام اپنے ساتھیوں کو کوئی دوسری چیز سمجھانا چاہتے ہیں آپ نے ہارون کی قبر کے سرہانے اپنے مبارک ہاتھوں سے ایک خط کھینچا اور ایک دائرہ معین کیا اور فرمایا:

یہ میرے مرقد کی مٹی ہے میں اس جگہ دفن کیا جاؤنگا اور جلد ہی خدا اس مقام کو ہمارے شیعوں اور دوستوں کے آنے ،جانے کی جگہ قرار دے گا۔

خدا کی قسم !جو بھی میری زیارت کرے گا اور مجھے سلام کر ے گا،اس پر ہماری شفاعت کے ذریعہ خدا کی رحمت اور مغفرت واجب ہو جائےگی۔

یہ فرما کر آپ نے قبلے کی طرف رخ کیا اور چند رکعت نمازاور کچھ دعائںم پڑھیں،نماز اور دعا تمام ہونے کے بعد ایک طولانی سجدہ کیا،میں نے خود سنا ہے کہ آپ نے سجدے میں پانچ سو مرتبہ ذکر تسبیح پڑھا پھر سجدے سے سر اٹھایا اور اپنی قیام گا ہ یعنی حمید بن قحطبہ طائی کے گھر پلٹ آئے۔(۱)

--------------

(۱):- بحار الانوار ، ج ۴۹ ، ص ۱۲۵ ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ج ۲، ص ۱۳۶- منتہی الآمال فصل ۵ از باب ۱۰.

۵۶

بہشت کا چشمہ(۱)

ابھی ایک چشمہ کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کیا ہے جو امام رضا(ع) نے خشک اور بے آب زمین پر اپنے اعجاز سے جا ری کیا اب بہتر سمجھتا ہوں کہ ایک اور چشمہ کا ذکر کروں جو حضرت علی(ع)نے اپنے اعجاز سے بے آب و گیاہ بیابان میں جاری کیا تھا ۔

یہ روایت محمد بن یوسف فریابی،سفیان اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، حبیب ابن جہم کے ذریعہ مجھ تک پہونچی ہے۔

حبیب ابن جہم روایت کرتے ہیں :

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ہم امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کی رکاب میں سرزمین صفین کی طرف جا رہے تھے ہم صندود نامی ایک گاؤ میں پہونچے اور وہاں ٹھہرنے کا قصد کیا ابھی ہم نے اپنے سامان گھوڑوں سے نہ اتارے تھے کہ امام علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ یہاں سے حرکت کریں ہم نے حکم کی تعمیل کی اورایک ایسے مقام پر پہونچے جہاں زمین بالکل خشک تھی اور آب و گیاہ کا کچھ نام و نشان نہ تھا ۔

امام علی علیہ السلام نے حکم دیا :یہیں پر قیام کریں۔

مالک اشتر کو کون نہیں جانتا، وہ جنگ کے مرغ (سب سے بڑے بہادر)کہلاتے تھے اور امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کے سپاہ سالار تھے۔

آپ امیر المؤمنین(ع)کے پاس آئے اور کہا:

اے امیر المومنین(ع)! یہاں پر پانی کا نام و نشان نہیں ہے ۔

--------------

(۱):- چونکہ یہ روایت بھی اباصلت نے نقل کی ہے اورپہلی والی روایت سے مشابہت رکھتی ہے لہذا ہم نے اس کو یہاں پر ذکر کردیا ہے۔

۵۷

یہاں جنگی لشکر کو ٹھہرانا کیسا ہوگا؟

 حضرت امیر المومنین(ع) مسکرائے ،ایک نگاہ مالک اشتر کی طرف کی اور فرمایا:

اے مالک ! میں بہتر جانتا ہوں کہ جنگ کے زمانے میں لشکر کو ایسی سرزمین پر روکنا مناسب نہیں ہے کہ جس میں پانی موجود نہ ہولیکن یہ بات جان لو کہ بہت جلد خدا وند عالم اس سر زمین سے ہم کو ایسے پانی سے سیراب کرے گا جو شہد سے زیادہ شیرین  و لطیف ہوگا، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور یاقوت سے زیادہ صاف و شفاف ہوگا۔

ہم سب کوبہت تعجب ہوا جب کہ ہم یہ جانتے تھے کہ جو کچھ امیر المؤمنین(ع)کہہ دیں وہ سو فصداہو کر رہے گا اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

 حضرت امیر المؤمنین(ع) نے یہ فرما کر اپنی عبا کو دوش سے اتارا،تلوار کو ہاتھ میں لیا،کچھ قدم آگے بڑھ کر ایک بالکل خشک مقام پر کھڑے ہو گئےاور مالک سے کہا:

اے مالک! لشکر کی مدد کے ذریعہ اس جگہ کو کھودو۔

مالک اور اسکے لشکر نے زمین کو کھودنا شروع کیایہاں تک کہ ایک بہت بڑا کالے رنگ کا پتھر نمودار ہواکہ جس سے چاندی کا ایک چمکدار چھلا متصل تھا۔

 حضرت امیر المومنین ؑنے مالک سے فرمایا:

اپنے دوستوں کی مدد سے پتھر کو اٹھا کر کنارے ڈال دو۔

مالک اور ایک سو جنگی جوانوں نے پتھر کو چاروں طرف سے پکڑا اور اکھاڑنا چاہا لیکن بہت زیادہ طاقت لگانے کے بعد بھی کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ کچھ کر نہیں پا رہیں تو آپ خود پتھر کے قریب آئے اورپتھر

۵۸

کو پکڑنے سے پہلے آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کیا اور ایک ایسی دعا پڑی کہ ہم میں سے کوئی بھی اسکے معنی کو نہ سمجھ سکا!

اس دعا کا متن یہ ہے:

طاب طاب مربا بما لم طبیوثا بوثة شتمیا کوبا جاحا نوثا تودیثا برحوثا، آمین یا رب العلمین، ربّ موسیٰ وهارون

پھر آپ نے انگلیوں کو پتھر میں پھسایا اورقدرت ید اللٰھی کے ذریعہ صرف ایک جھٹکے میں پتھر کو اکھاڑ کر چالیس ہاتھ دور پھینک دیا۔جن نو جوانوں نے بزورگوں کی زبانی در خیبر اکھاڑنے کے واقعہ کو سنا تھا، اس دن انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے اسی کے مثل خدا کے ہاتھ کی قدرت کا معجزہ دیکھ لیا۔

اچانک شہد سے زیادہ شیرین ،برف سے زیادہ ٹھنڈا اور یاقوت سے زیادہ شفاف پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلاماور ہم سب نے چشمے کا پانی پیا اور اپنی مشکوں وتمام برتنوں کو پانی سے بھر لیا۔

پھر حضرت علی علیہ السلامدوبارہ پتھر کی طرف گئے اور پتھر کو اٹھا کر چشمہ کی طرف بڑھے ہم سب لوگ راستے سے ہٹ گئے یہاں تک کہ حضرت نے پتھر کو اسکی پرانی جگہ پر رکھ دیا اور فرمایا: پتھر کو مٹی سے چھپا دو۔

ہم نے پتھر کو چھپا دیااور اپنے سازوسامان کو باندھ کر روانہ ہو گئے لیکن ابھی زیادہ آگے نہ بڑھے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ٹھہرنے کا حکم دیااور لشکر کو مخاطب کر کے فرمایا:

کیا تم میں سے کوئی اس چشمے کی جگہ کو جانتا ہے؟

لشکر میں جوش پیدا ہو گاشاور سب نے ہاتھ بلند کر کے کہا:

آقا ہم جانتے ہیں،ہم جانتے ہیں۔

ہم میں سے ایک گروہ مالک اشتر کے ساتھ واپس آیا لیکن ہم کو اس چشمے  کا کوئی نشان نہ ملا!پانی کا چشمہ پانی ہو کر زمین کے نیچے جا چکا تھاحتی کہ اس بڑے پتھر کی بھی کوئی خبر نہ تھی۔

۵۹

مالک نے کہا :یقینا امیرالمؤمنین(ع) پیاسے ہیں اسی لئے ہم کو پانی لینے کے لئے بھیجا ہےلذاا سب لوگ اسی اطراف میں پانی کو تلاش کریں تا کہ ہم امیرالمؤمنین(ع)کی خدمت میں پانی پیش کرسکیں۔

کچھ تلاش و کوشش کے بعد ہم کو ایک خانقاہ نظر آئی ہم خانقاہ میں داخل ہوئے تو وہاں ہم نے ایک راہب کو دیکھا جسکی پلکیں برف کی طرح سفید ہو چکی تھی اور اسکی آنکھوں پر گری ہوئی تھیں!

مالک نے راہب سے پوچھا:اے راہب کیا تمہارے پاس کچھ پانی ہے؟

راہب تمام جنگی جوانوں کو مسلح دیکھ کر بہت زیادہ ڈر گیا تھا اور ہم سب کو ایک ایک کر کے دیکھ رہا تھااس نے ڈرتے ہوئے جواب دیا:

ہاں ، ہاں دو دن پہلے میں نے کچھ پانی میٹھا کیا تھا ایسا میٹھا پانی اس اطراف میں دور دور تک نہیں ملتا۔

یہ کہہ کر راہب ایک چھوٹے سے کمرے میں گیا اور وہاں سے پانی کی مشک اٹھا کر لایااور مشک کو مالک کے ہاتھ میں دے دیا،مالک نے اطمینان حاصل کرنے کے لئے کہ پانی میں کوئی خرابی تو نہیں ہے مشک کو اوپر کیا اور تھوڑا سا پانی منھ میں ڈالا لیکن فورا ًہی اس پانی کو منھ سے باہر نکال دیا جیسے کہ مالک کو یہ امید نہ تھی کہ پانی ایسا ہوگااور کہا:

اے بزرگوار!یہی وہ میٹھاپانی ہے جسکی آپ تعریف کر رہے تھے ؟یہ پانی تو نمکین بھی نہیں کڑوا ہے شاید آپ نے میٹھا اور لطیف پانی پیا ہی نہیں اس لئے نہیں جانتے کہ شیرین اور لذت بخش پانی کسے کہتے ہیں ؟ کاش تم نے ایک پیالہ اس پانی میں سے پیا ہوتا جو ہمارے مولیٰ نے ہم کو پلایا ہے تا کہ تمںیش معلوم ہوتا کہ جسکو تم پانی کہہ رہے ہو اصلاً وہ پانی ہی نہیں ہے ۔

پھر مالک اشتر نے اس چشمہ کا پورا واقعہ اس راہب سے بیان کیا۔

جب راہب نے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلامکے اعجاز کا یہ واقعہ سناتو سوال کیا:کیا تمہارے مولیٰ پیغمبرﷺ ہیں؟

مالک اشتر:  ہما رے مولیٰ ،پیغمبر نہیں بلکہ پیغمبر ﷺ کے وصی ہیں۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۷۔ بہیقی، کتاب السنن الکبریٰ، جلد۷،صفحہ۶۵۔

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،ینابیع المودة، باب مناقب السبعون ، ص۲۷۵،حدیث۱۱اور باب۱۷،صفحہ۹۹۔

۹۔ محب الدین طبری، کتاب ذخائر العقبی،صفحہ۱۰۲۔

۱۰۔ ابن حجر،کتاب فتح الباری،جلد۸،صفحہ۱۵۔

۱۱۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد۱۱،صفحہ۵۹۸و۶۱۷،اشاعت بیروت۔

۱۲۔ احمد بن حنبل، کتاب المسند،جلد۱،صفحہ۱۷۵۔

۱۳۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ،جلد۹،صفحہ۱۷۳۔

۱۴۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں ، جلد۹،صفحہ۱۱۵۔

ساتویں روایت

علی کا مقام و منزلت

عَنْ اِبْنِ عباس، عَنِ النَّبِی قٰالَ لِاُمِّ سَلَمَة:یَااُمِّ سَلَمَةَ اِنَّ عَلِیًّا لَحْمُهُ مِنْ لَحْمِیْ وَدَمُهُ مِنْ دَمِیْ وَهُوَ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا اَنَّهُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی ۔

حدیث منزلت امام علی علیہ السلام ایک نہایت ہی اہم اور معتبر ترین حدیث پیغمبر اسلام ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی شان ،مقام عالی اور منزلت کا پتہ دیتی ہے۔ البتہ یہ حدیث کئی اور ذرائع اور مختلف طریقوں سے بھی بیان کی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب اُم سلمہ سے مخاطب ہیں۔ لیکن ابوہریرہ سے یہ روایت(اس روایت کو ابن عساکر نے ترجمہ تاریخ دمشق ،جلد۱،حدیث۴۱۲میں اس طرح نقل کیا ہے)اس طرح سے منقول ہے:

اِنَّ النَّبی قٰالَ بِعَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام: یَاعَلِیُّ اَنْتَ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا النَّبُوَّةَ ۔

”پیغمبر اسلام نے حضرت علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا:’یا علی ! آپ کی نسبت مجھ سے ایسی ہے جیسی ہارون کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی، سوائے نبوت کے“۔

۸۱

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب اُم سلمہ سے فرمایا :’اے اُم سلمہ! بے شک علی کا گوشت میرا گوشت ہے، علی کا خون میرا خون ہے اور اُس کی نسبت محمد سے ایسی ہے جیسی ہارون کی موسیٰ سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق،شرح حال امام علی ، جلد۱،حدیث۴۰۶،۳۳۶سے لے کر۴۵۶تک۔

۲۔ احمد بن حنبل، مسند سعد بن ابی وقاص ، جلد۱،صفحہ۱۷۷،۱۸۹اورنیز الفضائل میں،حدیث۷۹،۸۰۔

۳۔ ابن ماجہ قزوینی اپنی کتاب میں، جلد۱،صفحہ۴۲،حدیث ۱۱۵۔

۴۔ بخاری،صحیح بخاری میں،جلد۵،صفحہ۸۱،حدیث۲۲۵(فضائل اصحاب النبی )۔

۵۔ ابی عمریوسف بن عبداللہ، استیعاب ،ج۳،ص۱۰۹۷اورروایت۱۸۵۵کے ضمن میں

۶۔ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء ، جلد۷،صفحہ۱۹۴۔

۷۔ بلاذری، کتاب انصاب الاشراف، ج۲،ص۹۵،حدیث۱۵،اشاعت اوّل بیروت

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۶،صفحہ۵۶،۱۵۳۔

۹۔ ابن مغازلی،کتاب مناقب میں،حدیث۴۰،۵۰،صفحہ۳۳۔

۱۰۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۰۸۔

۱۱۔ ابن کثیر،کتاب البدایہ والنہایہ ،جلد۸،صفحہ۷۷۔

۱۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۳۷،صفحہ۱۶۷۔

۱۳۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۲،صفحہ۳،حدیث۲۵۸۶۔

۱۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۶۵۶۔

۱۵۔ سیوطی،کتاب اللئالی المصنوعة،جلد۱،صفحہ۱۷۷،اشاعت اوّل۔

۱۶۔ ابن حجر عسقلانی،کتاب لسان المیزان میں، جلد۲،صفحہ۳۲۴۔

۸۲

آٹھویں روایت

حدیث ولایت اور مقام علی

عَنْ عَمْروذی مَرَّ عَنْ عَلی اَنَّ النَّبِی صلی اللّٰه علیه وآله وسلَّم قٰالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ، اَلَّلهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عٰادٰاهُ

حدیث ولایت بھی ایک اہم ترین حدیث ہے جو شان علی اور مقام علی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ حدیث بھی مختلف ذرائع اور مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے لیکن اصل مفہوم وہی ہے۔

”عمروذی حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ پروردگار! تو اُس کودوست رکھ جو علی علیہ السلام کو دوست رکھے اور تو اُس کو دشمن رکھ جو علی علیہ السلام سے دشمنی رکھے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ، جلد۲،ص۳۰،حدیث۵۳۲۔

۲۔ احمد بن حنبل ،المسند،جلد۴،ص۲۸۱،حدیث۱۲،جلد۱،ص۲۵۰،حدیث۹۵۰،۹۶۱،۹۶۴۔

۳۔ حاکم،المستدرک میں، حدیث۸،باب مناقب علی ،،جلد۳،صفحہ۱۱۰اور۱۱۶۔

۴۔ سیوطی، تفسیرالدرالمنثور،جلد۲،صفحہ۳۲۷اوردوسری اشاعت جلد۵،صفحہ۱۸۰اورتاریخ الخلفاء صفحہ۱۶۹۔

۵۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث۳۶،صفحہ۱۸،۲۴،۲۶،اشاعت اوّل۔

۶۔ ہیثمی،کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۰۵،۱۰۸اور۱۶۴۔

۷۔ ابن ماجہ سنن میں،جلد۱،صفحہ۴۳،حدیث۱۱۶۔

۸۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ ،استیعاب ، ج۳،ص۱۰۹۹،روایت۱۸۵۵کے ضمن میں

۹۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۳۵،۳۴۴،۳۶۶۔

۱۰۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب۴،صفحہ۳۳۔

۸۳

۱۱ خطیب”حال یحییٰ بن محمد ابی عمرالاخباری“،شمارہ۷۵۴۵،کتاب تاریخ بغداد میں،جلد۱۴،صفحہ۲۳۶۔

۱۲۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف میں،جلد۲،صفحہ۱۰۸،اشاعت اوّل،حدیث۴۵اور باب شرح حال امیر المومنین علیہ السلام میں۔

۱۳۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب میں، باب۱،صفحہ۵۸۔

۱۴۔ نسائی، کتاب الخصائص میں، حدیث۸،صفحہ۴۷اورحدیث۷۵،صفحہ۹۴۔

۱۵۔ ابن اثیر، کتاب اسدالغابہ میں ،جلد۴،صفحہ۲۷اور ج۳،ص۳۲۱اورج۲،ص۳۹۷

۱۶۔ ترمذی اپنی کتاب صحیح میں، حدیث۳۷۱۲،جلد۵،صفحہ۶۳۲،۶۳۳۔

نویں روایت

علی کی محبت جہنم سے بچاؤاور جنت میں داخلے کی ضمانت ہے

عَنْ اِبْنِ عباس،قٰالَ: قُلْتُ لِنَّبِی صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ هَلْ لِلنَّارِ جَوازٌ؟قٰالَ نَعَمْ قُلْتُ وَمَاهُوَ؟ قٰالَ حُبُّ علیِّ ۔

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا جہنم سے عبور کیلئے کوئی جواز یا پروانہ ہے؟ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’ہاں‘۔ میں نے پھر عرض کیا کہ وہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا:’علی سے محبت‘۔“

اس طرح کی دوسری مشابہ حدیث بھی ابن عباس سے روایت کی گئی ہے:

عَنْ ابنِ عباس قٰالَ: قٰالَ رَسُوْل اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ: علیٌ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ عَلَی الْحَوْضِ لَایَدْخِلُ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ جَاءَ بِجَوَازمِنْ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب ۔

ترجمہ روایت

”ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علی علیہ السلام قیامت کے دن حوض کوثر پر ہوں گے اور کوئی بھی جنت میں داخل نہ ہوسکے گا مگر جس کے پاس علی علیہ السلام کی جانب سے پروانہ ہوگا“۔

۸۴

حوالہ جات روایت ہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں،باب حال علی ،جلد۲،صفحہ۱۰۴،حدیث۶۰۸اورجلد۲

صفحہ۲۴۳،حدیث۷۵۳۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۱۵۶،صفحہ۱۱۹،۱۳۱اور۲۴۲۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة، باب۵۶،ص۲۱۱اور باب۳۷،ص۱۳۳،

۲۴۵،۳۰۱۔

۴۔ سیوطی، اللئالی المصنوعة ، جلد۱،صفحہ۱۹۷،اشاعت اوّل(آخر مناقب علی )۔

۵۔ محب الدین طبری، کتاب ریاض النضرةمیں،جلد۲،صفحہ۱۷۷،۲۱۱اور۲۴۴۔

دسویں روایت

قیامت کے روز حُب علی اور حُب اہل بیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا

عَنْ اَبِی ذَر قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ لَا تَزُوْلُ قَدَمٰا اِبْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ حَتّیٰ یُسْأَلَ عَنْ اَرْبَعٍ،عَنْ عِلْمِه مٰا عَمِلَ بِه،وَعَنْ مٰااکْتَسَبَهُ،وَفِیْمٰااَنْفَقَهُ،وَعَنْ حُبِّ اَهْلِ الْبَیْتِ فَقِیْلَ یٰا رَسُوْلَ اللّٰهِ،وَمَنْ هُمْ؟ فَأَوْمَأَ بِیَدِهِ اِلٰی عَلِیِّ ۔

”ابوذر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن کوئی انسان اپنا قدم نہ اٹھاسکے گا جب تک اُس سے چار سوال نہ کئے جائیں گے:

اُس کے علم کے بارے میں کہ کس طرح اُس نے عمل کیا؟

اُس کی دولت کے بارے میں کہ کہاں سے کمائی؟

وہ دولت کہاں خرچ کی؟

اہل بیت سے دوستی کے بارے میں۔

۸۵

عرض کیا گیا :’یا رسول اللہ! آپ کے اہل بیت کون ہیں؟آپ نے اپنے ہاتھ سے علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور کہا:علی ابن ابی طالب علیہ السلام‘۔“

حوالہ جات روایت، اہل سنت کی کتب سے

۱۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۹۱۱،صفحہ۳۲۴۔

۲۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،باب حال امیر المومنین ،،جلد۲،ص۱۵۹،حدیث۶۴۴۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،باب۳۲،ص۱۲۴،باب۳۷ص۱۳۳،۲۷۱

۴۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۱۰،صفحہ۳۲۶۔

۵ ۔ ابن مغازلی، حدیث۱۵۷،مناقب میں صفحہ۱۲۰،اشاعت اوّل۔

۶۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، حدیث۵۷۴،باب۶۲۔

۷۔ خوارزمی، کتاب مقتل میں،جلد۱،باب۴،صفحہ۴۲،اشاعت اوّل۔

یارہویں روایت

علی سے اللہ اور اُس کے رسول محبت کرتے ہیں

عَنْ دٰاودبنِ علیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عباس، عَنْ اَبِیْهِ عَنْ جَدِّه ابنِ عباس قٰالَ: اُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ بِطٰائِرِ فَقَالَ: اَلَّلهُمَّ اِئْتِنِیْ بِرَجُلٍ یُحِبُّهُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ،فَجٰاءَ عَلِیٌّ فَقٰالَ: اَلَّلهُمَّ وٰالِ ۔

ترجمہ

”ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک مرغ بطور طعام پیش کیا گیا۔ آپ نے دعافرمائی کہ پروردگار! ایسے شخص کو میرے پاس بھیج جس کو خدا اور رسول دوست رکھتے ہیں(تاکہ اس کھانے میں میرے ساتھ شریک ہوجائے)۔پس تھوڑی دیر بعد ہی علی وہاں پہنچے ۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:پروردگار! توعلی علیہ السلام کودوست رکھ۔علی پیغمبر اسلام کے ساتھ بیٹھے اور آپ نے پیغمبر کے ساتھ وہ کھانا تناول فرمایا“۔

۸۶

مندرجہ بالا حدیث ایک اہم اور متواتر حدیث ہے جو کتب اہل سنت اور شیعہ میں مختلف صورتوں میں بیان کی گئی ہے۔ ماجراکچھ اس طرح ہے کہ ایک دن پیغمبر خدا کی خدمت میں طعام مرغ پیش کیا گیا۔پیغمبر خدا نے اُس وقت دعا مانگی کہ پروردگار!ایسے شخص کو میرے پاس بھیج دے جس کو خداا و رسول محبوب رکھتے ہوں(تاکہ میرے ساتھ طعام میں شامل ہوسکے)۔کچھ ہی دیر بعد امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام وہاں پہنچے۔ آپ خوش ہوئے۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب حال امیر المومنین ،ج۲،ص۶۳۱،حدیث۶۲۲اورج۲،حدیث۶۰۹تا۶۴۲(شرح محمودی)۔

۲۔ ابن مغازلی، مناقب میں حدیث۱۸۹،صفحہ۱۵۶،اشاعت اوّل۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۸،صفحہ۶۲۔

۴۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۵۱اور اس کے بعد۔

۵۔ حاکم، کتاب المستدرک میں جلد۳،صفحہ۱۳۰(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۳۳،صفحہ۱۴۸۔

۷۔ ذہبی، میزان الاعتدال ، باب شرح حال ابی الہندی،ج۴،صفحہ۵۸۳،شمارہ۱۰۷۰۳اورتاریخ اسلام میں جلد۲،صفحہ۱۹۷۔

۸۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۲۵اور جلد۵،صفحہ۱۹۹۔

۹۔ خطیب، تاریخ بغداد ، باب شرح حال طفران بن الحسن بن الفیروزان،ج۹،صفحہ۳۶۹،شمارہ۴۹۴۴۔

۱۰۔ ابو نعیم،حلیة الاولیاء میں،جلد۶،صفحہ۳۳۹۔

۱۱۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف میں، باب شرح حال علی ،حدیث۱۴۰،ج۲،صفحہ

۱۴۲،اشاعت اوّل از بیروت۔

۱۲۔ خوارزمی، کتاب مناقب ، باب ۹،صفحہ۶۴،اشاعت تبریز اور اشاعت دوم ،صفحہ۵۹۔

۱۳۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ میں، باب شرح حال امیر المومنین میں،جلد۴،صفحہ۳۰۔

۱۴۔ طبرانی،معجم الکبیر میں، باب مسند انس بن مالک، جلد۱،صفحہ۳۹۔

۱۵۔ نسائی، کتاب الخصائص میں ، حدیث۱۲،صفحہ۵۱۔

۸۷

فضائل امام علی علیہ السلام احادیث کی نظر میں۔ ۱

(حصہ دوم)

بارہویں روایت

حُب علی کے بغیر پیغمبر اسلام سے دوستی کا دعویٰ جھوٹا ہے

عَنْ جابِر قٰالَ: دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ وَنَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ وَهُوَاَخِذَ بِیَدِ عَلِیٍّ فَقٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ،اَلَسْتُمْ زَعَمْتُمْ اَ نَّکُمْ تُحِبُّوْنِیْ؟ قٰالُوا:بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰهِ قٰالَ: کَذِبَ مَنْ زَعَمَ اَنَّهُ یُحِبُّنِیْ وَیُبْغِضُ هٰذا ۔

”جابر سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم مسجد میں داخل ہوئے اور ہم بھی پہلے سے وہاں موجود تھے۔ آپ نے علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور فرمایا:’کیا تم یہ گمان نہیں کرتے کہ تم سب مجھ سے محبت کرتے ہو؟‘ سب نے کہا:’ہاں! یا رسول اللہ‘۔ آپ نے فرمایا کہ اُس نے جھوٹ بولا جو یہ کہتا ہے کہ مجھ(محمد) سے محبت کرتا ہے لیکن اس (علی علیہ السلام) سے بغض رکھتا ہے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، باب شرح حال امیر المومنین ،ج۲،ص۱۸۵،حدیث

۶۶۴اور اس کے بعد کی احادیث۔

۲۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۱،صفحہ۵۳۶،شمارہ۲۰۰۷۔

۳۔ ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں، جلد۷،صفحہ۳۵۵،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۴۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۳۰۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب۴،صفحہ۳۱۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۸۸،صفحہ۳۱۹۔

۷۔ ابن حجر عسقلانی ، کتاب لسان المیزان میں،جلد۲،صفحہ۱۰۹۔

۸۔ سیوطی، کتاب جامع الصغیر میں،جلد۲،صفحہ۴۷۹۔

۸۸

تیرہویں روایت

محبان علی مومن اور دشمنان علی منافق ہیں

عَنْ زَرِّبْنِ جَیْشٍ قٰالَ سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُوْلُ:وَالَّذِی فَلَقَ الَْحَبَّةَ وَبَرَی النَّسَمَةَ اِنَّهُ لَعَهِدَ النَّبِیُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ اِلیَّ اَنْ لَا یُحِبُّکَ اِلَّا مُومِنُ،وَلَا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنٰافِقٌ ۔

ترجمہ

”زر بن جیش کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے قسم ہے اُس خدا کی جودانہ کو کھولتا ہے اور مخلوق کو وجود میں لاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد کرتے ہوئے فرمایا:’یا علی ! تم سے کوئی محبت نہ رکھے گا مگر سوائے مومن کے اور تم سے کوئی بغض نہیں رکھے گا سوائے منافق کے‘۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ احمد بن حنبل، کتاب المسند، باب مسند علی ،جلد۱،صفحہ۹۵،حدیث۷۳۱اور دوسریاشاعت میں صفحہ۲۰۴اور حدیث۶۴۲،جلد۱،صفحہ۸۴،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ، باب شرح حال امیر المومنین ،ج۲،ص۱۹۰،حدیث۶۷۴

۳۔ ابن مغازلی مناقب میں، حدیث۲۲۵،صفحہ۱۹۰،اشاعت اوّل۔

۴۔ خطیب ،تاریخ بغداد میں، شمارہ۷۷۸۵،باب شرح حال ابی علی بن ہشام حربی۔

۵۔ بلا ذری، کتاب انسابُ الاشراف میں، باب شرح حال علی ،حدیث۲۰،ج۲،ص۹۷اورحدیث۱۵۸،صفحہ۱۵۳۔

۶۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۲۹۔

۷۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں، جلد۷،صفحہ۳۵۵،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۸۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ ، استیعاب میں، جلد۳،صفحہ۱۱۰۰اور روایت۱۸۵۵۔

۹۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۳،صفحہ۶۸۔

۱۰۔ ابن ماجہ قزوینی اپنی کتاب ”سنن“ میں، جلد۱،صفحہ۴۲،حدیث۱۱۴۔

۱۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں ،باب۶،صفحہ۵۲اور۲۵۲پر۔

۸۹

چودہویں روایت

علی مسلمانوں کے اور متّقین کے امام ہیں

حَدَّثَنِی عَبْدُاللّٰهِ بْنِ اَسْعَدْبنِ زُرَارة قٰالَ:قٰالَ رسول اللّٰهِ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِنْتَهَیْتُ اِلٰی رَبِّی،فَأَوْحٰی اِلیَّ(اَوْاَخْبَرَنِی)فِی عَلِیٍ بثلَاثٍ:اِنَّهُ سَیِّدُالْمُسْلِمِیْنَ وَوَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ وَقَائِدُالْغُرَّالْمُحَجَّلِیْنَ ۔

ترجمہ

”عبداللہ بن اسعد بن زرارہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شب معراج جب میں اپنے پروردگار عزّوجلّ کے حضور پیش ہوا تو مجھے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں تین باتوں کی خبر دی گئی جو یہ ہیں کہ علی مسلمانوں کے سردار ہیں، متقین اور عبادت گزاروں کے امام ہیں اور جن کی پیشانیاں پاکیزگی سے چمک رہی ہیں اُن کے رہبر ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ،باب شرح احوال امام ج۲ص۲۵۶حدیث۷۷۲ص۲۵۹

۲۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں ،صفحہ۶۴،شمارہ۲۱۱۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۱۲۶اور۱۴۷،صفحہ۱۰۴۔

۴۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۲۱۔

۵۔ حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۳۸،حدیث۹۹،باب مناقب علی ۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۴۵،صفحہ۱۹۰۔

۷۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، صفحہ۲۴۵،باب۵۶،صفحہ۲۱۳۔

۸۔ حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء میں، جلد۱،صفحہ۶۳۔

۹۔ خوارزمی، کتاب مناقب میں، صفحہ۲۲۹۔

۱۰۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ میں،جلد۱،صفحہ۶۹اورجلد۳،صفحہ۱۱۶۔

۱۱۔ متقی ہندی، کنزالعمال میں، جلد۱۱،صفحہ۶۲۰(موسسة الرسالہ ،بیروت)۔

۹۰

پندرہویں روایت

پیغمبر اکرم اور علی خدا کے بندوں پر اُس کی حجت ہیں

عَنْ أَنْس قٰالَ: قٰالَ النَّبِیُّ اَنَا وَعَلِیٌ حُجَّةُ اللّٰهِ عَلٰی عِبٰادِهِ ۔

ترجمہ

”انس روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور علی اللہ کی طرف سے اُس کے بندوں پر حجت ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق میں، باب شرح حال امام علی علیہ اسلام،جلد۲،صفحہ۲۷۲،احادیث۷۹۳تا۷۹۶(شرح محمودی)۔

۲۔ خطیب، تاریخ بغداد میں، باب شرح حال محمد بن اشعث،جلد۲،صفحہ۸۸۔

۳۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث۶۷اور۲۳۴،صفحہ۴۵اور۱۹۷،اشاعت اوّل۔

۴۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۴،صفحہ۱۲۸،شمارہ۸۵۹۰۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة میں، باب مناقب، صفحہ۲۸۴،حدیث۵۷۔

۶۔ ابو عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب میں ،جلد۳،صفحہ۱۰۹۱اور روایت۱۸۵۵”یَاعلی اَنْتَ ولی کل مومن بَعْدِی “ کے تسلسل میں۔

۷۔ سیوطی ، اللئالی المصنوعہ میں، ج ۱،صفحہ۱۸۹،اشاعت اوّل اور بعد والی میں۔

۹۱

سولہویں روایت

علی پیغمبران خدا کی تمام اعلیٰ صفات کے حامل تھے

عَنْ اَبِی الحَمْرَاءِ قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ مَنْ اَرَادَ اَنْ یَنْظُرَ اِلٰی آدَمَ فِیْ عِلْمِه وَاِلٰی نُوْحٍ فِیْ فَهْمِه وَاِلٰی اِبْرَاهِیْمَ فِیْ حِلْمِه وَاِلٰی یَحْییٰ بِن زِکرِیَّا فِی زُهْدِهِ وَاِلٰی مُوْسٰی بن عِمْرَانِ فِی بَطْشِه فَلْیَنْظُرْ اِلٰی عَلِیِ بْنِ اَبِیْ طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

ترجمہ

”ابوالحمراء سے روایت ہے کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ جوکوئی چاہتاہے کہ آدم علیہ السلام کو اُن کے علم میں دیکھے،نوح کو اُن کی فہم و دانائی میں دیکھے ، ابراہیم علیہ السلام کو اُن کے حلم میں دیکھے ،یحییٰ بن زکریا کو اُن کے زہد میں دیکھے اور موسیٰ بن عمران کو اُن کی بہادری میں دیکھے ، پس اُسے چاہئے کہ وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے چہرئہ مبارک کی زیارت کرے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ، جلد۲،صفحہ۲۸۰،حدیث۸۰۴(شرح محمودی)۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ۲۵۳۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۲۳،صفحہ۱۲۱۔

۴۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۲۵۶،صفحہ۲۱۲،اشاعت اوّل۔

۵۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں، جلد۷،صفحہ۳۵۶۔

۶۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۴،صفحہ۹۹،شمارہ۸۴۶۹۔

۷۔ ابن ابی الحدید، نہج البلاغہ ، باب شرح المختار(۱۴۷)ج۲ص۴۴۹اشاعت اوّل،مصر

۸۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، حدیث۱۴۲،باب۳۵۔

۹۲

سترہویں روایت

علی بہترین انسان ہیں ،جو اس حقیقت کو نہ مانے ،وہ کافر ہے

عَنْ حُذَیْفَةِ بْنِ الْیَمٰانِ قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ: عَلِیٌّ خَیْرُ الْبَشَرِ،مَنْ أَبٰی فَقَدْکَفَرَ

ترجمہ

”حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ علی بہترین انسان ہیں اور جو کوئی اس حقیقت سے انکار کرے گا، اُس نے گویا کفر کیا“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ خطیب، تاریخ بغداد میں، (ترجمہ الرجل)جلد۳،صفحہ۱۹۲،شمارہ۱۲۳۴۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۴۴۴،حدیث۹۵۵(شرح محمودی)۔

۳۔ گنجی شافعی، کفایة الطالب میں،باب۶۲،صفحہ۲۴۴۔

۴۔ بلاذری، انساب الاشراف ، حدیث۳۵،باب شرح حال علی ،ج۲،ص۱۰۳،اشاعت اوّل،بیروت۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،کتاب ینابیع المودة، باب۵۶،صفحہ۲۱۲۔

۶۔ حموینی،کتاب فرائد السمطین میں، باب۳۰،حدیث۱۲۷۔

۷۔ سیوطی، کتاب اللئالی المصنوعہ،جلد۱،صفحہ۱۶۹،۱۷۰،اشاعت اوّل۔

۸۔ متقی ہندی، کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۶۲۵(موسسة الرسالہ،بیروت)۔

۹۳

اٹھارہویں روایت

علی اور اُن کے شیعہ ہی قیامت کے روزکامیابی اور فلاح پانے والے ہیں

عَنْ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام قٰال: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ یٰاعَلِیُّ اِذَکَانَ یَوْمُ الْقِیٰامَةِ یَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ قُبُوْرِهِمْ لِبَاسُهُمُ النُّوْرُ عَلٰی نَجٰائِبَ مِنْ نُوْرٍ أَزِمَّتُهَا یَٰواقِیتُ حُمْرٌتَزُقُّهُمُ الْمَلاٰ ئِکَةُ اِلَی الْمَحْشَرِفَقٰالَ عَلِیُّ تَبٰارَکَ اللّٰهُ مٰا اَکْرَمَ قَوْمًا عَلَی اللّٰهِ قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ یَاعَلِیُّ هُمْ اَهْلُ وِلٰایَتِکَ وَشِیْعَتُکَ وَمُحِبُّوْکَ،یُحِبُّوْنَکَ بِحُبِّی وَیُحِبُّوْنِی بِحُبِّ اللّٰهِهُمُ الْفٰائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ

ترجمہ

”امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اکرم کا ارشاد ہے کہ یا علی ! قیامت کے روز قبروں سے ایک گروہ نکلے گا ،اُن کا لباس نوری ہوگا اور اُن کی سواری بھی نوری ہوگی۔ اُن سواریوں کی لجا میں یاقوت سرخ سے مزین ہوں گی۔فرشتے ان سواریوں کو میدان محشر کی طرف لے جارہے ہوں گے۔ پس علی علیہ السلام نے فرمایا:تبارک اللہ! یہ قوم پیش خدا کتنی عزت والی ہوگی۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا :’یا علی ! وہ تمہارے شیعہ اور تمہارے حُب دار ہوں گے۔ وہ تمہیں میری دوستی کی وجہ سے دوست رکھیں گے اور مجھے خدا کی دوستی کی وجہ سے دوست رکھیں گے اور وہی قیامت کے روز کامیاب اور فلاح پانے والے ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ، ج۲،ص۳۴۶،۸۴۶،شرح محمودی

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۸۶،صفحہ۳۱۳۔

۳۔ خطیب، تاریخ بغداد میں، شرح حال فضل بن غانم،شمارہ۶۸۹۰،جلد۱۲،صفحہ۳۵۸

۴۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں،جلد۱۰،صفحہ۲۱اورجلد۹،صفحہ۱۷۳۔

۵۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۳۳۹،صفحہ۲۹۶،اشاعت اوّل۔

۹۴

۶۔ بلاذری، انساب الاشراف،باب شرح حال علی ،جلد۲،صفحہ۱۸۲،اشاعت اوّل۔

۷۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب مناقب،صفحہ۲۸۱،حدیث۴۵۔

۸۔ ذہبی،کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۱،صفحہ۴۲۱،شمارہ۱۵۵۱۔

۹۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل میں، حدیث۱۰۷(سورئہ بقرہ آیت ۴کی تفسیر میں)۔

۱۰۔ طبرانی، معجم الکبیر میں، شرح حالابراهیم المکنی بأبی ،جلد۱،صفحہ۵۱۔

اُنیسویں روایت

اہم کاموں کیلئے علی کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتا تھا

عَنْ زَیدِبْنِ یَشِیعَ قٰالَ بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰهِ اَبَابَکْرٍبِبَرٰاء ةٍ،ثُمَّ اَ تْبَعَهُ عَلِیاً فَلَمَّا قَدَمَ اَ بُوْبَکْرٍقٰالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ أَنْزَلَ فِی شَی؟ قٰالَ لَا وَلٰکِنِّی اُمِرْتُ اُبَلِّغَهٰا أَنَااَ وْرَجُلٌ مِنْ اَهْلِ بَیْتِیْ

ترجمہ

ٍ ”زید بن یشیع کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے حضرت ابوبکر کو سورئہ برائت کے ساتھ(مکہ) روانہ کیاتاکہ مشرکین مکہ کیلئے تلاوت فرمائیں ۔تھوڑی ہی دیر کے بعد علی علیہ السلام کو اُن کے پیچھے بھیجا،علی علیہ السلام نے وہ سورہ اُن سے واپس لے لیا۔جب حضرت ابوبکر واپس آئے تو عرض کیا:’یا رسول اللہ! کیا میرے بارے میں کوئی چیز نازل ہوئی ہے؟‘ پیغمبر خدا نے فرمایا:’نہیں،لیکن خدائے بزرگ کی جانب سے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اس سورہ کی کوئی تبلیغ نہ کرے سوائے میرے یامیری اہل بیت کا کوئی فرد‘۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ بلاذری، انساب الاشراف ، شرح حال علی ،حدیث۱۶۴،جلد۲،صفحہ۱۵۵،اشاعت اوّل،بیروت۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، شرح حال امام علی ،،جلد۲،صفحہ۳۷۶،احادیث۸۷۱تا۸۷۳اور اُس کے بعد(شرح محمودی)۔

۳۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ میں جلد۵،صفحہ۳۷اور جلد۷،صفحہ۳۵(باب فضائل علی )۔

۹۵

۴ ۔ احمد بن حنبل، المسند میں، جلد۱،صفحہ۳۱۸،روایت۱۲۹۶۔

۵۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث۲۶۷اوراس کے بعد صفحہ۲۲۱،اشاعت اوّل۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۶۲،صفحہ۲۵۴،اشاعت الغری۔

۷۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۱۸،صفحہ۱۰۱۔

۸۔ ترمذی اپنی سنن میں، حدیث۸،(باب مناقب علی علیہ السلام)جلد۱۳،صفحہ۱۶۹۔

بیسویں روایت

علی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے

عَنْ اَبِی ذَرٍ قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم مَثَلُ عَلِیٍّ فِیکُمْاَوْقٰالَ فِی هٰذِهِ الْاُمَّةِ کَمَثَلِ الْکَعْبَةِ الْمَسْتُوْرَةِ،اَلنَّظَرُ اِلَیْهَا عِبَادةٌ،وَالْحَجُّ اِلَیْهَا فَرِیْضَةً ۔

”ابوذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ علی کی مثال تمہارے درمیان یا اُمت کے درمیان کعبہ مستورہ کی مانند ہے کہ اُس کی طرف نظر کرنا عبادت ہے اور اُس کا قصد کرنا یا اُس کی جانب جانا واجب ہے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق شرح حال امام علی ، ج۲ص۴۰۶حدیث۹۰۵،شرح محموی

۲۔ سیوطی، تاریخ الخلفاء میں، صفحہ۱۷۲”اَلنَّظَرُ اِلٰی عَلیٍّ عِبَادة“

۳ ابن اثیر، اسدالغابہ میں،جلد۴،صفحہ۳۱(بمطابق نقل آثار الصادقین،جلد۱۴،صفحہ۲۱۳”اَنْتَ بِمَنْزِلَةِ الْکَعْبَة“

۴۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث۱۴۹،صفحہ۱۰۶اور حدیث۱۰۰،صفحہ۷۰۔

۵۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین ، جلد۱،صفحہ۱۸۲(بمطابق نقل آثار الصادقین، جلد۱،صفحہ۱۸۲)”کعبہ اور علی کی طرف نظر کرنا عبادت ہے“۔

۹۶

۶۔ حاکم، المستدرک ،حدیث۱۱۳،باب مناقب علی ،جلد۳،صفحہ۱۴۱’اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجْهِ علی عبادة‘

۷۔ ابونعیم ،حلیة الاولیاء ، شرح حال اعمش،ج۵ص۵۸’اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجْهِ علی عباده‘

۸۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ میں، جلد۷،صفحہ۳۵۸”اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجْهِ علی عبادة“

۹۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۳۴،صفحہ۱۶۰اور۱۶۱۔

۱۰۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۴،صفحہ۱۲۷،شمارہ۸۵۹۰اور جلد۱،صفحہ

۵۰۷،شمارہ۱۹۰۴”اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجْهِ علی عبادة“

اکیسویں روایت

حکمت و دانائی کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا، اُن میں سے نوحصے علی علیہ السلام کو دئیے گئے

عَنْ عَلْقَمَةِ،عَنْ عَبدِاللّٰهِ قٰالَ کُنْتُ عِنْدَالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم فَسُئِلَ عَنْ عَلِیٍّ فَقٰال:قُسِّمَتِ الْحِکْمَةُ عَشَرَةَ اَجْزٰاءٍ فَأُعْطِیَ عَلِیٌّ تِسْعَةَ اَجْزَاءٍ والنَّاسُ جُزْءٌ وَاحِدٌ

”علقمہ سے روایت کی گئی کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھا۔ اس دوران حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا گیا۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ دانائی کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا، ان میں سے نو( ۹) حصے حضرت علی علیہ السلام کودئیے گئے اور ایک حصہ باقی تمام لوگوں کو دیا گیا ہے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء میں، باب شرح حال امیر المومنین ، جلد۱،صفحہ۶۴۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۴۸۱،حدیث۹۹۹۔

۳۔ ابویوسف بن عبداللہ، استیعاب ، ج۳،ص۱۱۰۴،روایت۱۸۵۵کے ضمن میں۔

۴۔ ذہبی، میزان الاعتدال ، حدیث۴۹۹،جلد۱،صفحہ۵۸اور اشاعت بعد،ص۱۲۴۔

۵۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۳۲۸،صفحہ۲۸۶،اشاعت اوّل۔

۹۷

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب مناقب السبعون،حدیث۴۷،صفحہ۲۸۲

۷۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۵۹،صفحہ۲۲۶اور صفحہ۲۹۲،۳۳۲۔

۸۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، حدیث۷۶،باب۱۰اور دوسرے ابواب۔

بائیسویں روایت

پیغمبر اکرم علم کا شہر ہیں اور علی اُس کا دروازہ ہیں

عَن الصَّنٰابجِی،عَن عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلاٰم قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُهَافَمَنْ اَرٰادَالْعِلْمَ فَلْیَأتِ بٰابَ الْمَدِیْنَةِ ۔

ترجمہ

”صنابجی حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی علیہ السلام اُس کا دروازہ ہیں۔ جو کوئی علم چاہتا ہے، وہ شہر علم کے در سے آئے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۴۶۴،حدیث۹۸۴۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۱۲۰،صفحہ۸۰،اشاعت اوّل۔

۳۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء میں، صفحہ۱۷۰اور جامع الصغیر میں،حدیث۲۷۰۵۔

۴۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۲۶۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، صفحہ۱۵۳اور مناقب السبعون میں صفحہ۲۷۸،حدیث۲۲،باب۱۴،صفحہ۷۵۔

۶۔ خطیب ،تاریخ بغداد،باب شرح حال عبدالسلام بن صالح: ابی الصلت الھروی، جلد۱۱،صفحہ۴۹،۵۰،شمارہ۵۷۲۸۔

۹۸

۷۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۵۸،صفحہ۲۲۱۔

۸۔ ذہبی،کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۱،صفحہ۴۱۵،شمارہ۱۵۲۵۔

۹۔ ابوعمریوسف بن عبداللہ ، کتاب استیعاب میں، جلد۳،صفحہ۱۱۰۲،روایت۱۸۵۵۔

۱۰۔ حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء میں،جلد۱،صفحہ۶۴۔

۱۱۔ ابن کثیر،کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۵۹،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۱۲۔ خوارزمی، کتاب مقتل ، باب۴،صفحہ۴۳۔

تئیسویں روایت

علی ہی وصیِ برحق اوروارث پیغمبر ہیں

عَنْ اَبِی بُرَیْدَةِ عَن اَبِیْهِ: قٰالَ،قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لِکُلِّ نَبِیٍّ وَصِیٌ وَوَارِثٌ وَاِنَّاعَلِیًا وَصِیِّی وَوَارِثِی ۔

”ابی بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ ہر نبی کا کوئی وصی اور وارث ہوتا ہے اور بے شک علی علیہ السلام میرے وصی اور وارث ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۲۳۸،صفحہ۲۰۱،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر ،تاریخ دمشق ، باب شرح امام علی ،ج۳،ص۵،حدیث۱۰۲۲شرح محمودی

۳۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۴،صفحہ۱۲۷،۱۲۸،شمارہ۸۵۹۰۔

۴۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب میں، باب۶۲،صفحہ۲۶۰۔

۵۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۱۳اورجلد۷،صفحہ۲۰۰۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب۱۵،صفحہ۹۰اور۲۹۵۔

۷۔ سیوطی، کتاب اللئالی المصنوعة میں، جلد۱،صفحہ۱۸۶،اشاعت اوّل(بولاق)

۹۹

۸۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، تفسیر آیت۳۰سورئہ بقرہ۔

۹۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب۵۲،حدیث۲۲۲۔

۱۰۔ خوارزمی، کتاب مناقب میں، حدیث۲۲،باب۱۴،صفحہ۸۸اور دوسرے۔

چوبیسویں روایت

علی اور آپ کے سچے صحابیوں کودوست رکھنا واجب ہے

عَنْ سُلَیْمٰانِ بْنِ بُرِیْدَةَ عَنْ ابیهِ قٰالَ: قٰالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اِنَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَتَعٰالٰی أَمَرَنِی أَنْ اُحِبَّ اَرْبَعَةً قٰالَ قُلْنٰامَنْ هُمْ؟ قٰالَ،عَلِیُّ وَاَ بُوْذَرْ وَالْمِقْدٰادُ وَسَلْمٰانُ ۔

ترجمہ

”سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ’پیغمبر اکرم نے مجھ سے فرمایا کہ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ چار افراد کو دوست رکھوں‘۔ میں نے عرض کیا کہ وہ کون افراد ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ علی ، ابوذر،مقداد اور سلمان ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب شرح حال مقداد،صفحہ۱۰۰اور اس کتاب کےترجمہ امام علیہ السلام،جلد۲،صفحہ۱۷۲،حدیث۶۵۸(شرح محمودی)۔

۲۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۳۰،۱۳۷۔

۳۔ ابن ماجہ قزوینی اپنی کتاب سنن میں،جلد۱،صفحہ۶۶،حدیث۱۴۹۔

۴۔ ابونعیم،کتاب حلیة الاولیاء ،ترجمہ مقداد،ج۱،ص۱۷۲،شمارہ۲۸اورج۱،ص۱۹۰

۵۔ گنجی شافعی، کفایة الطالب ، باب۱۲،صفحہ۹۴(صرف علی کے نام کاذکر ہے)۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131