امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت28%

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت مؤلف:
زمرہ جات: امام رضا(علیہ السلام)
صفحے: 131

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 131 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57514 / ڈاؤنلوڈ: 4963
سائز سائز سائز
امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۴۵۸&view=download&format=pdf

word

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۴۵۸&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل ( ihcf.preach@gmail.com )


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

یہ سن کر راہب کے چہرے کا خوف و وحشت کا پیلاپن ختم ہو گیا اور اس کا چہرا کچھ کھلا ہوا نظر آنے لگا ، اس نے ایک گہری سانس لی اور ہم سے بالکل قریب ہو کرگذارش کرتے ہوئے کہا:میری التماس ہے کہ آپ مجھے اپنے مولیٰ کے پاس لے چلیں ، آپکو خدا کا واسطہ میری درخواست کو قبول کرلیجےل۔

ہم نے راہب کی التماس کو قبول کیا اورحضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پاس لے آئے۔

حضرت (ع)نے جیسے ہی راہب کو دیکھا خندہ پیشانی کے ساتھ فرمایا:

شمعون تم!....

راہب نے حیرت زدہ ہو کر جواب دیا:

ہاں میں شمعون ہوں یہ وہی نام ہے جو میری ماں نے رکھا تھا اور خدا وند عالم کے علاوہ کوئی میرا نام نہیں جانتا ،میں نہیں جانتا کہ آپ کو میرا نام کہاں سے معلوم ہوا لیکن اگر آپ واقعاً و صی پیغمبرﷺ ہیں تو پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔

اب آپ سے میری گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے معجزہ کو مکمل کر دیجےآ تا کہ آپ کی وصایت و ولایت پر میرا ایمان کا مل ہو جائے ۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

اے شمعون ! تم کیا چاہتے ہو؟

شمعون نے کہا:

میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ کونسا چشمہ ہے اور اس کا نام کیا ہے؟

امام علی علیہ السلام نے جواب دیا:

۶۱

اس چشمے کا نام ”راحوما“ہے اور یہ بہشت کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے اب تک ۳۱۳ پیغمبروں (ع)کے جانشین اس چشمہ کا پانی پی چکے ہیں اور میں آخری وصی ہوں کہ جس نے اس چشمہ کا پانی پیا ہے چونکہ پیغمبر آخر محمد مصطفٰےﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور میں انکا وصی ہوں۔ راہب کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ تمام عمر انتظار،تلاش و کوشش کے بعد اب اس کو اسکی کھوئی ہوئی چیز واپس مل گئی ہے ، اس نے بڑے شوق سے کہا :

میں نے انجیل میں یہی پڑھا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور تم محمدﷺکے وصی وجانشین ہو۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلامکے لشکر کا عابدین نامی جگہ پر معاویہ کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو سب سے پہلے مولائے کائنا ت کی طرف سے شمعون نے جام شہادت نوش کیا۔

جب آپ کو شمعون راہب کی شہادت کی خبر ملی تو آپ اس کے احترام میں گھوڑے سے اتر گئے اور روتے ہوئے فرمایا:

جو شخص جس کو دوست رکھتا ہے قیامت کے دن اس کا حساب اسی کے ساتھ ہوگااور یہ راہب قیامت کے دن جنت میں ہمارا دوست اور پڑوسی ہوگا۔(۱)

--------------

(۱):- بحار الانوار ، ج ۳۳ ، ص ۳۹-۴۰، بہ نقل از امالی شیخ صدوق ص ۱۵۵ ، حدیث ۱۴ از مجلس ۴۴.

۶۲

جنت کے پھول اور سنبل

اس واقعہ کو امام رضاعلیہ السلام نے مجھ (اباصلت)سے اپنے اجداد کو واسطہ قرار دیتے ہوئے بیا ن کیا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:(۱)

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے ساتھ میری شادی کو ابھی زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ ایک روزمیں حضرت رسولخداﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، یہ دن دوسرے دنوں سے کچھ الگ تھا چونکہ اس دن پیغمبرﷺ زیادہ خوشحال نظر آرہے تھے !

جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو آپ نے فرمایا:

آج میرے پاس تمہارے اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کے لئے ایک خوشخبری ہے۔

میں نے شوق سے پوچھا :

خوشخبری؟کون سی خوش خبری؟

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

تمہاری اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شادی کے بعد سے مجھے تم دونوں کی ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ فکر رہتی تھی آج خدا نے میری وہ فکر دور کر دی ہے۔

امام علی علیہ السلامنے سوال کیا:

یا رسول اللہ ﷺ! وہ کس طرح؟

--------------

(۱):-  جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت اگر چہ مستقیما حضرت امیر المؤمنین سے مربوط ہے ، لیکن چونکہ اس کو اباصلت نے امام رضا(ع) سے سنا ہے اور نقل کیا ہے لہذا یہ (خاطرات اباصلت از امام رضا (ع)میں شامل ہے) اور اسی وجہ سے ہم نے یہاں پر اس کو ذکر کیا ہے۔

۶۳

رسول خداﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور آہستہ آہستہ مہربانی کے ساتھ اپنی طرف کھینچااور اپنے پاس بیٹھا تے ہوئے فرمایا:

 آج جب جبرئیل میرے پاس آئے تو جنت کے پھول کی دو شاخ ساتھ لے کر آئے تھےایک سنبل کی اور دوسرے گل نار کی!میں نے پھولوں کو لیا اور سونگھا،پھول بہت زیادہ خوشبودار اور خوبصورت تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا:

اے جبرئیل !ان پھولو ں کے لانے کا کیا مقصد ہے؟

جبرئیل نے جواب دیا:خدا وند عالم نے تمام فرشتوں اور اہل بہشت کوحکم دیا ہے کہ جنت کے درختوں،نہروں،قصروں، گھروں،مکانوں ،کمروں کو جتنا ممکن ہو سکے سجائںں اور خوبصورت آنکھو ں والی حوروں کو حکم دیا ہے  کہ سب مل کرحمعسق (۱) ،یٰس (۲) اورطٰه ٰ (۳) کو بہترین لحن کے ساتھ پڑھںہ ،پھر ایک ندا کرنے والے نے ندا کی:

خدا وند عالم فرماتا ہے: میں نے فاطمہ سلام اللہ علیھا بنت محمد کی شادی علی ابن ابی طالب علیہ السلامکے ساتھ کر دی ہے ۔

پھر خدا وند عالم نے ایک بادل کو حکم دیا کہ اس جشن میں شامل ہونے والوں پر ہیرے،یاقوت،مروارید ،سنبل اورگل نار کی بارش کرو!

جبرئیل نے رسول اکرم سے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ!یہ سنبل اور گل نار ان چیزوں میں سے ہیں جو فرشتوں کے سروں پر نثار ہوئے ہے۔(۴)

--------------

(۱):- سورہ شوری(۴۲)، آیات ۱ و ۲.

(۲):- قرآن کا ۳۶ واں سورہ.

(۳):- قرآن کا ۲۰ واں سورہ، البتہ اس روایت میں اس سورہ کا نام موجود نہیں ہے، لہذا چونکہ دوسری روایت میں اس سورہ کا نام بھی آیا ہے لہذا ہم نے اس سورہ کا نام ذکر کردیا ہے.

(۴):- بررسی زندگی عبدالسلام بن صالح اباصلت ہروی، ص ۱۰۰-۱۰۱ ، بہ نقل از دلائل الامامة ، ص ۱۹ و مسند فاطمة (س) ، ص ۱۸۶.

۶۴

معراج

یہ ماجرامجھ(اباصلت)سےامام رضاعلیہ السلامنےحضرت امیرالمؤمنینعلیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے رسول خداکی زبانی بیان کیا ہے۔

 رسول اکرمﷺ نے واقعہ معراج کو اس طرح بیان کیا ہے:

جب مجھ کو معراج پر لیجایا گیا تو جبرئیل نے اذان و اقامت کہی اور ہر جز ءکی دو ،دو مرتبہ تکرار کی اسکے بعد مجھ سے کہا:

اے محمدﷺ! نماز کے لئےآگے بڑھئے۔

میں نے تعجب سے پوچھا:

یعنی میں تم سے آگے بڑھوں ؟

جبرئیل نے جواب دیا:

جی ،ہاں آپ مجھ سے آگے بڑھ جائیے چونکہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبروںﷺ کو فرشتوں پر فضیلت عطا کی ہے اور خصوصاً آپ کو توتمام انبیاءﷺپر فضیلت عطا کی ہے ۔

 میں آگے بڑھا اور تمام فرشتوں نے میری اقتدا کی لیکن میں نے اسکے بعد بھی غرور و تکبر نہیں کیا، نماز تمام ہونے کے بعد ہم آگے بڑھے ۔

جب ہم نور کے پردوں میں پہونچے تو جبرئیل نے کہا:

آپ چلتے رہیں، آگے بڑھیں یہ کہکر جبرئیل خود پیچھے ہٹ گئے۔

میں نے جبرئیل سے کہا :ایسے موقع پر مجھے تنہا چھوڑ دوگے؟

جیسے ہی میں نے یہ بات کہی ،جبرئیل نے جواب میں کہا :

خدا وند عالم نے اس جگہ کو میری آخری حد قرار دیا ہے اگر میں اس سے آگے بڑھنا چاہوں تو خدا وند عالم میرے بالوں و پر جلا دے گا۔

۶۵

بہر حال اس گفتگو کے بعد میں آگے بڑھا اور اس اعلی مقام تک پہونچ گیا جہا ں خدا وندعالم چاہتا تھا،پروردگار عالم کی آواز آئی :اے محمد !(ص)

میں نے جواب دیا: لبیک اے پروردگار،تو بلند مرتبہ اوربزرگ مقام والاہے۔

جب میں نے یہ کہا تو آواز آئی:

اے محمدﷺ! تو میرا بند ہ ہے اور میں تیرا پروردگار ہوں پس تو میری عبادت کر اور مجھ پر بھروسہ کر ،تو میرے بندوں میں میرانور،میری مخلوق کے درمیان میرارسول، اور میری مخلوقات پر میری حجت ہے میں نے تیرے اور تیری پیروی کرنے والوں کے لئے جنت اور تیرے مخالفین کے لئے جہنم کو پیدا کیا ہے اورتیرے جانشینوں کے لئے اپنے احترام اور ان کے شیعوں کے لئے اپنے ثواب کو واجب قرار دیا ہے۔

میرے دل میں شوق پیدا ہوا اور میں نے یہ جاننے کے لئے کہ میرے اوصیا اور جانشین کون لوگ ہیں ، سوال کیا:

پروردگار میرے اوصیاءو جانشین کون لوگ ہیں؟

خداوند عالم کی آواز آئی کہ:

اے محمدﷺ! تیرے اوصیا کے نام میرے عرش کے پائے پر لکھے ہوئے ہیں۔

جب میں نے عرش کی طرف نگاہ کی تو چودہ نور نظر آئے کہ ہر نور میں ایک سبز رنگ کی سطر موجود تھی اور اس سطر پر میرے اوصیا میں سے ایک وصی کا نام (کہ ان میں سے پہلے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلاماور آخری مہدی(عج) ہیں)لکھا ہوا تھا۔ میں نے  درگاہ خداوند میں عرض کیا:

۶۶

معبود ! کیا یہ میرے بعد میرے اوصیاءہونگے؟

آواز پروردگار آئی:

اے محمدﷺ! یہ بارہ (کے بارہ امام(ع) معصوم)تیرے بعد میری مخلوقات کے در میان تیرے جانشین و دوست اور میرے برگزیدہ و حجت قرار پائیں گے۔

مجھے اپنے عزت و جلال کی قسم میں اپنے دین کو ان کے وسیلے سے کامیاب کرونگا اوران کے ذریعہ اپنے کلمہ کو بلند کرونگا اور ان اوصیا میں سے آخری وصی کے ذریعہ زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کرونگا اور دنیا کا مشرق و مر ب اسکے اختیار اور حکومت میں دیدونگا، ہواؤں کو اس کا فرمانبردار بنادونگا اور وزنی بادلوں کو اسکے سامنے ذلیل و خوار کردونگا،اس کو آسمانوں کی سیر کراؤ¶نگا۔ اپنے لشکر اور فرشتوں کے ذریعہ اسکی مدد کرونگا،تا کہ وہ میری دعوت کو تمام دنیا کے سامنے ظاہر کردے اور مخلوق کو توحید پرستی پر جمع کردے ، اسکے بعد اسکی حکومت کو آگے بڑھاؤ¶نگا اور قیامت تک اپنے اولیاءمیں سے ایک کے بعد دوسرے کے اختیار میں دیتا رہونگا۔(۱)

--------------

(۱):- عیون اخبار الرضا، ج ۱ ، ص ۵۴۱.

۶۷

قید خانہ یا عبادتگاہ؟!

امام رضا علیہ السلام نے اپنی زندگی کی ایک مدت سرخس کے ایک بہت تنگ اور ایسے قید خانہ میں گذاری ہے کہ جس میں فقط ایک انسان کے رہنے کی گنجائش تھی اور وہ بہت تاریک تھا، اس وقت میں نے سوچا کہ میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں آپ سے ملاقات کروں۔

میں قید خانہ آیا اور قید خانہ کے دربان سے امام سے ملاقات کرانے کی درخواست کی لیکن اس نے اجازت نہ دی اور کہا:

کسی بھی صورت میں تم ان سے ملاقات نہیں کرسکتے!

جب میں نے اسکے چہرے پر رعب کے ساتھ(۱) نگاہ ڈالی تو اس نے اپنے لہجے کو بدلتے ہوئے کہا:

ایسا نہیں ہے کہ میں تم کو ملاقات کی اجازت نہیں دینا چاہتا بلکہ خود انکے پاس وقت نہیں ہے کہ کسی سے ملاقات کریں!

یہ بات میرے لئے بہت عجیب تھی میں نے کہا:

یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ملاقات کا وقت نہ رکھتے ہوں ؟!

ایک قیدی قید خانہ میں کیا کرتاہے کہ اس کے پاس ایک مختصرسی ملاقات کا بھی وقت نہیں ہے؟!

قید خانہ کے دربان نے جواب دیا:

میرا خیال ہے کہ وہ ہر شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے ہیں۔ یہ ایک ہزار نماز ان نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے جو آپ ہر روز طلوع آفتاب،زوال آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت پڑھتے ہیں وہ ان اوقات میں ہمیشہ اپنے مصلی پر ہوتے ہیں اور اپنے خدا سے راز و نیاز کرتے ہیں!

--------------

(۱):- (رعب کے ساتھ ) یہ عبارت اباصلت کی روایت میں موجود نہیں ہے ہم نے اس کو اقتضاء حالکی بنا پر بڑھایا ہے۔

۶۸

میں نے قید خانہ کے دربان سے کہا کہ تم مجھ پر یہ احسان کردو کہ آقا سے میرے لئے انھیں اوقات میں سے کسی وقت ملاقات کے لئے وقت لے لو۔

دربان اندر گیا امام (ع)سے اجازت طلب کی اور میں قید خانہ میں داخل ہو گیا۔

آپکی آنکھیں کوئی برا دن نہ دیکیں)،ان نامردوں نے امام کو زنجیر وطوق سے جکڑاہوا تھا!امام (ع)محراب عبادت میں بیٹھے ہوئے کچھ سوچ رہے تھے۔ جب میں نے امام (ع)کو اس حال میں دیکھا تو میری آنکھوں میں آنسوں آگئے ، لیکن میں نے کوشش کی کہ خود کنٹرول کروں اس وقت حکومت نے لوگوں کے در میان ایک افواہ پھیلائی ہوئی تھی ، میرا اہم کام یہ تھا کہ اس افواہ کا جواب خود امام (ع)کی زبان سے سنوں اور لوگوں کو بتاؤ¶ں اس لئے میں نے امام(ع) سے پوچھا!

اے فرزند رسولﷺ میں نے ایک بات سنی ہے جس کو لوگ آپ سے نقل کرتے ہیں؟!

امام(ع) نے پوچھا کہ: لوگ کیا کہتے ہیں؟

میں نے عرض کیا:

لوگ کہتے ہیں کہ آپکا دعوی ہے کہ تمام لوگ آپ کے غلام ہیں!

امام رضاعلیہ السلامنے تعجب اور ناراضگی کے ساتھ آسمان کی طرف سر بلند کیا اور کہا:

اے میرے پروردگار! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے ، اے ظاہر و باطن کو جاننے والے!تو گواہ ہے میں نے  ہرگز اور کیسے بھی شرائط کے تحت ایسی بات نہیں کہی ہے اور نہ ہی اپنے بزرگوں سے ایسا کچھ سنا ہے ،معبود جو ستم اس امت کی جانب سے ہم پر ہوئے ہیں تو ان کو جانتا ہے اور یہ بھی ایک ہی ستم ہے! پھر آپ نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:

اے عبدالسلام جو بات لوگ ہم سے نقل کرتے اگر یہ حقیقت ہے پس جو لوگ کسی کے غلام نہیں ہیں بلکہ آزاد ہیں ہم نے ان کو کس سے خریداہے؟!

۶۹

امام(ع) کا یہ فرمان سن کر میں نے سوچا کہ یہ جواب خود میرے ذہن میں کیوں نہ آیا، میں نے مسکراتے ہوئے عرض کیا:

فرزند رسول بے شک آپ درست فرماتے ہیں!

لیکن امام(ع) کو مجھ سے امید نہ تھی کہ میں آپ سے اس طرح کا سوال کروں گا، آپ نے تعجب یا شاید میری تنبیہ کے لئے مجھ سے پوچھا:

اے عبدالسلام ، کیا تم بھی تمام لوگوں کی طرح اس ولایت کے منکر ہوگئے ہو جو خدا نے ہمارے لئے واجب قرار دی ہے؟!(۱)

میں نے اپنے ہاتھ پیروں کو سمیٹتے ہوئے جواب دیا:

نہیں ، نہیں خدا کی پناہ !خدا ایسا دن نہ لائے کہ میں ایک لمحے کے لئے بھی ایسا سوچوں، میں اپنے تمام وجود کے ساتھ آپکی ولایت کا اقرار کرتا ہوں۔(۲)

-------------

(۱):- یہ عبارت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ائمہ تمام بندگان خدا پر ولی ہیں ، تمام لوگوں پر واجب ہے کہ ان کی اطاعت کریں جیسے کہ غلام اپنے آقاؤں کی اطاعت کرتے ہیں ، اس اعتبار سے تمام لوگ چودہ معصومین کے غلام ہیں۔.

(۲):- بحار الانوار ، ج ۴۹ ، ص ۱۷۰-۱۷۱ و ۴۹ ، ج ۲۵ ص ۲۶۸ ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا ، ص ۳۱۱. یہ روایت اباصلت کے شیعہ ہونے پر بہترین دلیل ہے۔

۷۰

مامون پر امام رضاعلیہ السلام کی نفرین

ایک دن مامون کو بہت زیادہ ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کو سمجھ میں آگیا کہ اب آئندہ امام رضاعلیہ السلامسے کس طرح گفتگو کرنی چاہئے!ماجرا اس طرح سے ہے کہ امامت اور پیغمبرﷺکی جانشینی کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے امام (ع)نے علمی اور اعتقادی مجلسیں(کلاسیں) تیار کی تھیں اور لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے تھے، یہ کام اس بات کا سبب بنا کہ لوگ آپکے دیوانے ہوگئے اور روز بروز معاشرے کے مختلف طبقوں کے افراد کے دلوں میں آپ کی محبت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور لوگ خود بہ خود آہستہ آہستہ اس بات کو سمجھ رہے تھے کہ امام رضاعلیہ السلاممسند پیامبرﷺ پر بیٹھنے کے لائق و اہل ہیں نہ کہ مامون!

اس دن کسی نے مامون کو خبر دی کہ امام نے ایک مجلس بر پا کی ہے اور لوگ آپ سے علمی و اعتقادی سوال کر رہے ہیں اور آپ ان کے جواب دے رہے ہیں،مامون کو یہ سن کر غصہ آگیا اس نے اپنے قصر کے مسؤل انتظامات (محمد بن عمرو طوسی)کو حکم دیا کہ لوگوں کو امام(ع) کے پاس سے جدا کردو اور امام(ع)کو میرے پاس بلاکر لاؤ¶۔ محمد بن عمروطوسی امام(ع) کو بلاکر لے آیا!

جب مامون کی نظر امام رضاعلیہ السلام پر پڑی تو اس نے حسد سے جل کر غصہ کے عالم میں امام رضاعلیہ السلامسے بلند آواز میں گفتگو کی یہاں تک کہ اس نے آپ کو ذلیل و رسوا کیا۔جب امام رضاعلیہ السلاممامون کے دربار سے باہر آرہے تھے تو آپ غصہ کے عالم میں آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے کہ:محمدمصطفیﷺ ، علی مرتضیعلیہ السلام ، فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے حق کی قسم میں اس پر ایسی لعنت کرونگا کہ اس علاقے کےکتّے(۱) اسوآ ڈورائیں گے اور وہ عام و خاص کی نظر میں ذلیل و خوار ہوجائیگا۔آپ گھر پہونچے ، وضو کیا، دو رکعت نماز پڑھی اور قنوت میں ایک دعا پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے:(۲)

--------------

(۱):- یہ واقعہ شہر مرو میں واقع ہواہے۔

(۲):-  ہم یہاں پر اس دعا کے ترجمے پر اکتفا کر رہے ہیں اس کا عربی متن (اصل دعا) بحارا الانوار ج۴۹ ص ۸۲-۸۳ پر موجود ہے۔

۷۱

اے وہ خدا کہ جو مکمل قدرت ، بے کران رحمت، بے پایان نعمتوں ، لگاتار نیکیوں اور بے شمار کرامتوں کا مالک ہے!

اے وہ خدا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ، جس کو کسی مانند و نظیر سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی، اور تمام طاقتیں مل کر بھی تیرے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں!

اے وہ کہ جس نے ہم کو پیدا کیا اور روزی دی، الہام کیا اور بولنا سکھایا ، وجود بخشا اور ہدایت کی بلندی عنایت کی اور ایک نظام عطا کیا، نیک بنایا اور ایک راستہ دکھایا، ہم کو محکم اور مضبوط بنایا اور دلیل پیش کی ، ہم کو مکمل و سالم بنایا اور نعمت عطا کی اور ہم کو ہمارے مقصد تک پہونچایا اور بہت زیادہ نعمتوں سے نوازا ۔

اے وہ کہ جو اپنی عز و کبریائی میں اتنا بلند ہے کہ دیکھنے والے اس کو دیکھ نہیں سکتے اور اپنی لطافت میں اتنا قریب ہوگیا کہ اتنی قربت کا ذہن تصور بھی نہیں کرسکتا۔

اے وہ کہ جو اپنی سلطنت میں ایسا اکیلا ہے کہ تمام کائنات میں کوئی  اسکا مانند و مثل نہیں ہے اور اپنی کبریائی میں ایسا تنہا ہے کہ کوئی بھی اس کی قدرت اور جبروت کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا۔

اے وہ کہ جس کی ہیبت اتنی زیادہ ہے کہ فکر کرنے والوں کی فکریں اسکے آگے حیران و سرگردان ہیں ، اور اسکی عظمت کو درک کرنے سے دیکھنے والے اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں۔

اے کہ لوگوں کے دلوں کی باتوں کو جاننے والے۔

اے دیکھنے والوں کی آنکھوں کے نور، اے وہ کہ جس کی ہیبت سے چہرے خاک پر گڑ پڑے ہیں اور سر اسکے جلال کی بلندی کے سامنے جھک گئے ہیں اور دل اسکی قدرت کے خوف سے ڈرے ہوئے ہیں اور انسان کے جسم کی رگیں اسکی وحشت سے لرز رہی ہیں۔

۷۲

اے پیدا کرنے والے، اے نور عطا کرنے والے، اے طاقتور اے بزرگ مقام والے ، اے بلند مرتبے والے، دورد بھیج اس پر کہ جس پر درود بھیجنے کے ذریعہ تونے نماز کو شرف بخشا ہے ، اور انتقام لے اس شخص سے کہ جس نے مجھ پر ستم کیا، مجھ کو ذلیل سمجھا، اور میرے شیعوں کو جلا وطن کیا، خدایا اس کو ذلت اور سوائی کا مزہ چکھادے بالکل اسی طرح جیسے اس نے مجھے ذلیل کیا ہے اوراس پر ایسی بلا نازل فرما کہ دنیا کے پست وگناہکار افراد بھی اس کو قبول نہ کریں بلکہ اس سے نفرت اور دوری اختیار کریں۔

ابھی میرے مولا و آقا کی دعا تمام نہ ہوئی تھی کہ شہر میں سخت زلزلہ آیا کہ پورا شہر لرز گیا،تمام لوگ فریادیں بلند کرنے لگے، کالی آندھی آنے لگی، تمام فضا میں گردو غبار اڑنے لگی اور پورے شہر میں شور و غوغا ہونے لگا۔

میں اپنی جگہ سے نہ ہلا یہاں تک کہ امام(ع) نے نماز تمام کی اور فرمایا:

اے اباصلت ، چھت کے اوپر جاؤ وہاں تم کو ایک بدکار، لاغر اندام، بد ہیکل، تباہ کارو احمق عورت نظر آئیگی کہ جو اپنی شہوت کے اعضا کو حرکت دے رہی ہوگی اور کتھئی رنگ کا لباس پہنے ہوگی اس علاقے کے لوگ اس کی بے حیائی اور بے حرمتی کی وجہ سے اس کو ”سمّانہ“ کے نام سے پکارتے ہیں وہ نیزے کے بدلے ایک نوک دار لکڑی ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اور اپنی لال رنگ کی چادر کو اس لکڑی پر باندھے ہوئے پرچم کی جگہ پر اس کو استعمال کررہی ہے اور اشرار کے لشکر کو مامون کے قصر اور اس کے فرمانرواؤ¶ں کے کی طرف بھیج کر رہی ہے!جب میں چھت پر پہونچا تو میں نے  بہت سارے لوگوں کو دیکھا کہ لکڑی سے حملہ کر رہے ہیں اور پتھروں سے سروں کو پھوڑ رہیں ، اچانک میں نے دیکھا کہ مامون زرہ پہن کر قصر (شاہ جان)سے باہر آیا اور فرار ہو گیا۔

بہت زیادہ نفسا نفسی کا عالم ہوگیا تھا اور میں زیادہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ؟!فقط ایک دفعہ میں نے دیکھاکہ حجّام کے شاگرد نے ایک چھت سے ایک بہت بڑی اینٹ اٹھائی اور مامون کی طرف پھینکی، اسکا نشانہ بالکل فٹ رہا اور وہ اینٹ مامون کی گدی پر جا لگی، تاج اسکےسر سےگر پڑا اور اس کا چہرہ خون سے رنگین ہو گیا۔

۷۳

ایک شخص جس نے مامون کو پہچان لیا تھا اس نے حجّام کے شاگرد کی طرف رخ کیا اور فریاد کی: تجھ پر لعنت ہو!یہ امیر المؤ¶منین مامون ہے کہ جس کے سر پر تو نے اینٹ ماری ہے اور یہ اسکا حال کردیا ہے!

سمّانہ بدکار نے جب یہ بات سنی اور مامون کو پہچان لیا تو اس مرد سے چلا کر کہا کہ: دفعہ ہوجا اے بے ماں کی اولاد!آج  امتیاز ظاہر کرنے اور کسی کی طرفداری کرنے کا دن نہیں ۔ آج احترام کرنے یا مقام عطا کرنے کا دن نہیں ہے، کہ ہر انسان کے ساتھ اس کے مقام و منزلت کے اعتبار سے سلوک کیا جائے، اگر وہ واقعاً امیرالمؤ¶منین ہو تا تو اپنے خیر خواہ اور غیر ذمہ دار لوگوں کو ہرگز جوان اور باکرہ لڑکیوں پر مسلط نہ کرتا!

اس دن مامو ن اور اس کے لشکر کو ذلت و خواری اور رسوائی کے ساتھ شہر سے بھگادیا گیا اور ان کے اموال کو غارت کردیا گیا!(۱)

--------------

(۱):- بحار الانوار ، ج ۴۹ ، ص ۸۲-۸۴ ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا (ع) ، ص ۱۷۳-۱۷۴.

۷۴

شفا بخش سند کا سلسلہ

میں ”عبد الرحمن بن ابی حاتم الرازی“ہوں میں نے اپنے باپ کے ساتھ شام کا ایک سفر کیا تھا جس میں مجھے ایک بہترین تجربہ حاصل ہوا بہتر سمجھتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں:میں ایک دن شام میں ایک سڑک سے بابا کے ساتھ گزر رہا تھا میں نے دیکھا کہ لوگ ایک شخص کے گرد جمع ہیں آور ایک ہنگامہ برپا ہے سب لوگ باری باری کپڑے  کا ایک ٹکڑا ہوا میں اڑاتے تھے اور دوسرے لوگ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگتے تھے!

میں کچھ آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک دیوانہ زمین پر پڑا ہے ، اور ایک پھٹا ہوا، گرد و غبار سے بھرا ہوا لباس پہنے ہوئے ہے، اسکی ناک سے بلغم، اورمنھ سے رال بہہ رہی ہے!مجھے اس کی حالت پر بہت رحم آیا اور میں نے خود سے کہا:

کاش کہ میں اس کی کوئی مدد کرسکتا:اچانک مجھے یاد آیا کہ بارہا اباصلت نے امام رضاعلیہ السلام سے اور انھوں نےاپنے معصوم اجداد سے (یہاں تک کہ سلسلہ سند پیغمبر اسلامﷺ تک پھونچتا ہے)(۱)

ایک روایت نقل کی ہے، اور اباصلت نے کہا ہے کہ اگر اس سلسلہ سند کو کسی دیوانے پر پڑھ دیا جائے تو اس کی دیوانگی جاتی رہے گی اور وہ بہتر ہو جائیگا۔سچ تو یہ ہے میں مطمئن نہ تھا کہ بغیر کسی دوا کو استعمال کئے صرف ” چند ایسے افراد کے نام لینے سے جو بارگاہ خدا میں مقرب ہیں“ کسی دیوانے کو شفا حاصل ہو جائیگی۔لیکن میں نے سوچا کہ اس عمل کو آزمانے میں کوئی نقصان نہیں ہے میں آگے بڑھا اور ان ناموں کو اس دیوانے پر پڑھا، جیسے ہی میں نے ان ناموں کو اس دیوانے پر پڑھا ، وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا ، سب لوگوں پر ایک عاقلانہ نگاہ ڈالی اور ان کی حرکتوں پر تعجب کیا ، اور اپنے لباس سے مٹی کو جھاڑ کر آہستہ سے لوگوں کے درمیان سے نکلا اور چلا گیا!(۲)

--------------

(۱):- یہ روایت اسی کتاب کی تیسری فصل میں ترجمہ کے ساتھ آئیگی اور وہ یہ ہے: الایمان اقرار باللسان و معرفة بالقلب و عمل بالارکان.

(۲):- بحارالانوار ، ج۱۰ ، ص ۳۶۷ ، بہ نقل از صحیفة الرضا (ع)، و عیون اخبار الرضا (ع)، ص ۱۹۵  ۲۱۲.

۷۵

تقیہ کی حالت میں امام محمد تقی علیہ السلام

کا احکام بیان کرنے کا طریقہ!

ایک رو ز ، میں امام محمد تقی علیہ السلامکی مجلس میں حاضر تھا اس دن شیعوں کے علاوہ کچھ جاسوس بھی آپ کی مجلس میں بیٹھے تھے جو یہ جاننا چاہتے تھے کہ کون کون افراد امام کے شیعہ اور پیروکار ہیں ، لیکن شیعہ حضرات کو اس بات کا علم نہ تھا!

ایک شیعہ کھڑا ہوا تا کہ آپ سے سوال کرے، اس نے اپنی بات کو اس طرح شروع کیا: فرزند رسول میری جان آپ پر قربان.......

ابھی اس نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ امام نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا: تم اپنی نماز کو قصر نہیں بلکہ پوری پڑھو، اور اب بیٹھ جاؤ۔

جب اس کو ، اس کا جواب مل گیا تو وہ بیٹھ گیا پھر ایک دوسرا شیعہ کھڑا ہوا اور کہا: میرے آقا میں آپ پر قربان ہو جاؤ¶ں.......

اما م نے اسکی بات کو بھی کاٹ دیا اور فرمایا:

اگر تم کو وہاں کوئی نہ ملے تو اس کو پانی میں پھینک دو وہ اپنے مالک کے پاس پہونچ جائیگا!

گویا کہ اس کو بھی اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا اس لئے وہ بھی بیٹھ گیا

اور پھر کچھ نہ پوچھا ۔

جب سب لوگ چلے گئے تو میں نے امام(ع)سے عرض کیا:میری جان آپ پر قربان آج میں نے آپکی خدمت عجیب منظر کو ملاحظہ کیاہے!

۷۶

امام :ہاں ٹھیک کہتے ہو، کیا تم ان دو مردوں کے بارے میں بات کررہےہو؟

ابا صلت: جی ہاں ، میرے آقا(ع)۔

امام: پہلا اس لئے کھڑا ہوا تا کہ یہ سوال کرے کہ کیا کشتی چلانے والا اپنی نماز قصر پڑھے گا؟

میں نے اس کو جواب دیا کہ قصر نہیں تمام پڑھے گا چونکہ کشتی اس کے لئے گھر کی طرح ہے اور وہ اس سے خارج نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمیشہ اسی میں زندگی بسر کرتا ہے۔

دوسرا یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر کوئی شیعہ زکات نکالے اور اس کو کوئی مستحق شیعہ نہ ملے تو زکات کس کو دیگا؟

میں نے کہا: اگر تم کو کوئی نہ ملے، تو زکات کو پانی میں ڈال دو ، وہ خود اپنے اہل کے پاس پہونچ جائیگی۔(۱)

-------------

(۱):-  بررسی زندگی عبد السلام بن صالح اباصلت ہروی ، ص ۱۱۸ ، بہ نقل از الثاقب فی المناقب، ص ۵۲۳ ، و مدینة المعاجز ص ۵۳۴، و مسند الامام الجواد ، ص ۱۲۹.

ممکن ہے کہ ایسی صورت میں (یعنی مستحق شیعہ نہ ملنے کی صورت میں) زکات کا حکم واقعی پانی میں ڈالنا ہو، لیکن امام جواد نے راز کو محفوظ رکھنے کے لئے اس خاص مورد میں اس شخص کو یہی حکم دیا ہو۔

۷۷

قیمتی نصیحتیں

امام رضاعلیہ السلامنے مجھ سے ایک عجیب و غریب اور درس آموز و اقعہ بیان کیا ہے اگر میں اس کو آپ سے بیان نہ کروں تو مجھ کو بہت افسوس ہوگا ،وہ واقعہ یہ ہے کہ:

خداوند عالم نے اپنے ایک نبی (ع)پر وحی کی کہ:

کل صبح تم گھر سے باہر نکلو کسی ایک سمت سفر اختیار کرو، تم کو راستے میں پانچ چیزیں ملیں گی۔

پہلی کو کھالینا، دوسری کو چھپا لینا، تیسری کو قبول کرنا، چوتھی کو نا امید نہ کرنااور پانچویں سے پرہیز کرنا(دور رہنا)۔

انھوں نے سر پر ٹوپی اوڑھی، کاندھے پر شال ڈالی اور صبح سویرے طلوع آفتاب کے وقت گھر سے نکل پڑے سب سے پہلے آپکو ایک بہت بڑا کالا پہاڑ نظرآیا! اس کو دیکھ کر آپ حیرت زدہ ہوگئے اور خود سے کہنے لگے:

آخر میں اس سخت، کالے اور اتنے بڑے پہاڑ کو کیسے کھا سکتا ہوں؟!

آپ نے کچھ سوچا اور پھر خود سے کہا:

خداوند عالم مجھے اس کام کا حکم ہرگز نہیں دے سکتا جس کے بجالانے کی مجھ میں طاقت نہ ہو پس حتماً میں یہ کام کر سکتا ہوں(یعنی اس پھاڑ کو کھا سکتا ہوں) آگے بڑھ کر دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے۔

یہ سوچ کر نبی خداﷺ آگے بڑے ، جتنا بھی وہ آگے بڑھتے تھے اور بہاڑ کے قریب جاتے تھے، پہاڑ چھوٹا ہوتا چلا جاتا تھا یہاں تک جب آپ پہاڑ کے پاس پہونچے تو وہ ایک لقمہ کے برابر ہو چکا تھا! آپ نے اس کو اٹھا کر کھالیا۔

جب آپ نے اس کو کھا یا تو معلوم ہوا کہ آج تک جتنا بھی کھانا کھایا ہے یہ لقمہ ان سب سے لذیذ ہے!

۷۸

اس کے بعد اللہ کے نبی آگے بڑھے یہاں تک کہ ایک سونے کے طشت کو دیکھا ، سونا بہت بہترین چیز ہے کسی کا دل نہیں چاہتا کہ اتنی بہترین اور قیمتی چیز کو زمین میں چھپادے اور اس کو چھوڑ کر چلائے، لیکن آپ کو خداوند عالم کے حکم کے مطابق یہ کام انجام دینا تھا لہذا آپ نے اس کو چھپادیا!

جب آپ کچھ اور آگے بڑھے توپلٹ کر دیکھا کو وہ طشت زمین سے نکل کر اوپر آگیا ہے!

یہ دیکھ کر آپ نے خود سے کہا:

میں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کردیا اب اس کے بعد کیا ہو رہا ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔

پھر آپ آگے بڑہے اچانک ایک ہراسان پرندے کی چیخ پکار کی آواز نے آپکو اپنی طرف متوجہ کرلیا ، ایک شکاری باز ایک کمزور و مجبور پرندے کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ پرندہ پیغمبرﷺکے پاس آیا اور انکے گرد چکر لگاتےہوئے اور اپنی زبان حال سے آپ سے پناہ کی درخواست کی۔ آپ نے فرمان خدا پر عمل کرتےہوئے اپنی آستین کوکھولا اور پرندےنے آپ کی آستین میں پناہ لی۔

شکاری باز بھی زمین پر آپ کے سامنے بیٹھ گیا اور گویا ہوکر اعتراض کیا :

کئی دن سے میں اس شکار کے پیچھے دوڑ رہا ہوں یہاں تک کہ آج میں اس کو پکڑنے ہی والا تھا لیکن آپ نے اس کو مجھ سے بچالیا ، اب میں اپنے اس بھوکے پیٹ کا کیا کروں؟!

 پیغمبر خدا کو یاد آیا کہ یہ باز چوتھی چیز ہے جو آج مجھ کو ملی ہے، مجھے اس کو ناامید نہیں کرنا چاہئے آپ نے اپنا سامان، جیبںے اور ادھر ادھر بہت تلاش کیا لیکن کوئی چیز ایسی نہ ملی جس سے اس شکاری باز کا بیٹ بھر جائے مجبور ہو کر آپ نے اپنی ران سے گوشت کاایک ٹکڑا کاٹا اور باز کو دیدیا!(خدا کی قدرت سے آپکی ران کو کوئی نقصان نہ ہوا اور آپ ٹھیک ہوگئے)۔

پھر آپ کچھ آگے بڑھے یہاں تک کہ آپکو ایک بدبو دار مردار نظر آیا جسکے جسم پر ہاتھ پیر نہ تھے خدا کے حکم کے مطابق آپ بہت جلدی سے اس سے دور ہوگئے اور اپنے گھر پلٹ آئے۔

۷۹

جیسے ہی آپ گھر پہونچے بہت زیادہ تھکن کی وجہ سے آپ گہری نیند سوگئے، خواب میں کسی نے آپ سے کہا:

تم نے خدا کے حکم انجام دیا ہے لیکن کیا تم اسکا مطلب بھی سمجھے ہو؟

پیغمبر خدا ﷺ نے جواب دیا:

نہیں، میں تو فقط اپنے وظیفے کو انجام دینےکی فکر میں لگا تھا، اپنے کام کے مطلب و معنا کی طرف متوجہ نہ تھا! اگر ممکن ہو تو آپ مجھ کو ان کاموں کے معنی بتادیجئے۔

ادھر سے جواب ملا:

وہ کالا اور بڑا پہاڑ غصہ ہے ، جب انسان کو غصہ آتا ہے تو وہ خود کو بھی نہیں دیکھتا اور اپنی قدر کو نہیں پہچانتا (اور کچھ بھی کر بیٹھتا ہے)لیکن اگر یہ انسان اس وقت خود پر کنٹرول کرے ، اپنے وجود کے گوہر کی قدر کو پہچان لے اور اپنے غصے کو ختم کردے تو اسکا آخر بھی اس لذیذ لقمے کی طرح بن جائیگا کہ جس کو تم نے کھا یا ہے۔

وہ سونے کا طشت ایک عمل صالح اور پسندیدہ خدا ہے کہ اگر بندہ اس کو خالص نیت اورتقرب خدا کے ارادے سے انجام دے اور چھپالے (یعنی اپنے عمل کو سب کے سامنے ظاہر نہ کرے)تو پھرخداوند عالم خود ہی اس عمل کو لوگوں پر آشکار کردیگا تا کہ یہ عمل اس بندے کی زینت بن جائے اور یہ جزاء اس انعام سے الگ ہے جو خداوند عالم نے آخرت میں اس کے لئے معین کیا ہے۔

اور وہ پرندہ جس کو تم نے پناہ دی ہے ، وہ شخص ہے جو نصیحت اور خیر خواہی کے لئے تمہارے پاس آتا ہے تم کو چاہئے کہ اس کا استقبال کرو اور اس کی نصیحت قبول کرو!وہ باز جس کو تم نے گوشت دیا، وہ ایسا شخص ہے کہ جو تمہارے پا س اپنی حاجت لیکر آتا ہے تم کو چاہئے کہ اس کو نا امید نہ کرو(اور حد امکان میں اسکے کام کو حل کرنے کی کوشش کرو)۔لیکن وہ مرد ارکا سڑا ہوا گوشت (بدن)غیبت ہے کہ اس سے جتنا جلدی ممکن ہو دوری اختیار کرو۔(۱)

--------------

(۱):-  بحارالانوار ، ج ۱۴، ص ۴۵۶-۴۵۷، بہ نقل از عیون اخبار الرضا (ع) ، ص ۱۵۲-۱۵۳.

۸۰

حدیث سلسلة الذہب

یقینا آپ نے حدیث سلسلة الذہب کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوگا۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ذہب عربی زبان کا لفظ ہے اور اسکے معنی سونا ، طلا کے ہیں ۔ اس حدیث کا نام سلسة الذہب اس لئے رکھا ہے کیونکہ اس حدیث کے تمام راوی معصومینعلیہم السلام ہیں یہاں تک کہ یہ سلسلہ خدا تک پہونچتا ہے یعنی یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور اسکا کہنے والا خود خداوند عالم ہے۔

جب یہ حدیث حضرت امام علی رضاعلیہ السلامنے اپنی زبان سے بیان کی اس وقت میں آپ کے ساتھ موجود تھا۔

یقینا آپ کو معلوم ہوگا کہ اس زمانے میں نیشاپور اسلام کا ایک بہترین ، بزرگترین اور مہمترین مرکز علم و فرہنگ تھا جب امام رضاعلیہ السلام نیشاپور میں وارد ہوئے اس وقت آپ محمل میں بیٹھے ہوئے تھے ، نیشاپور کے تمام علماء و دانشمندان تمام قبیلوں کے افراد کے ساتھ آپ کے استقبال کے لئے آئے۔

بھیڑ اتنی تھی کہ ایک سوئی رکھنے کی بھی جگہ نہ تھی، جب ہم چوراہے پر پہونچے تو نیشاپور کے علماءآپ کی سواری کی لگام سے پلٹ گئے اور التماس کی کہ:

اے فرزند رسولﷺ ہم آپ کو آپ کے پاک بزرگوں کی قسم دیتے ہیں کہ آپ اپنے بزرگوں کی کوئی حدیث سنائیے۔

میں نے سوچا کہ اہل نیشاپور کتنے ہوشیار ہیں کہ قسم دے کر امام(ع) کو آمادہ کرلیا کہ آپ ان کو حدیث سنائیں ، امام(ع) نے اپنے سر مبارک کو محمل سے باہر نکالا آپ کے دوش پر کھال کی ایک ردا تھی آپ نے فرمایا:

مجھ سے میرے والد موسی بن جعفرعلیہ السلامنے ان سے ان کے والد جعفر صادقعلیہ السلامنے ان سے انکے والد محمد باقرعلیہ السلامنے ، ان سے ان کے والد زین العابدینعلیہ السلام نے ان سے ان کے والد امام حسین علیہ السلامنے ان سے ان کے بھائی امام حسنعلیہ السلام اور ان کے با با امام علی علیہ السلام نے ، ان سے رسول خدا ﷺنے فرمایاکہ:

۸۱

جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ خدا فرماتا ہے:

اِنِّی اَنَا اللهُ لا اِلَهَ اِلَّا اَنَا وَحدِی، عِبادِی فَاعبُدُونی وَ ليَعلَم مَن لَقِيَنی مِنکُم بِشَهادَةِ اَن لا اِلَهَ اِلَّا اللهُ، مُخلِصاً بِها، اَنَّهُ قَد دَخَلَ حِصنی، و مَن دَخَلَ حِصنی اَمِنَ عَذابی.

میں وہ خدا ہوں کہ جس کے سوائے کوئی معبود نہیں ہے اے میرے بندوں میری عبادت کرو، سب لوگ جان لیں کہ جو بھی مجھ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ خلوص کے ساتھ کلمہ لا الہ اللہ کی گواہی دیتا ہو توسمجھو کہ وہ میرے مضبوط قلعے میں داخل ہو گیا ہے اور جو بھی میرے قلعے میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوگیا۔

خداوند عالم نے اپنے کلام میں اخلاص کی شرط جو لگائی تھی وہ لوگوں کے لئے واضح نہ ہوئی لہذا لوگوں نے امام (ع)سے پوچھا:

خدا کی وحدانیت کی گواہی میں اخلاص کا کیا مطلب ہے؟

آپ نے جواب میں فرمایا:طاعةُ اللهِ و رسولِهِ و وِلایةُ اهلِ بیته

اخلاص سے مراد خدا و رسول کی اطاعت اور اہل بیت رسول کی ولایت کو قبول کرناہے۔(1)

--------------

(1):- بحارالانوار ، ج 3 ، ص 14-15، ج 49 ، ص 120-121 و ج 27، ص 134  بہ نقل از امالی شیخ صدوق ، ص 24.

۸۲

حضرت علی علیہ السلام جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے

مامون اپنے قصر میں بیٹھا تھااور امام رضاعلیہ السلام اس کے قریب میں تشریف فرماتھے ، مامون نے امام(ع) سے مخاطب ہو کر کہا:

اے اباالحسن کافی مدت سے ایک مسئلہ میراذہن میں ہے ، میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں اور آپ سے اس کا جواب طلب کروں۔

امام(ع) نے سوال کیا وہ مسئلہ کیا ہے؟

مامون نے کہا:

مسئلہ یہ ہے کہ یہ روایت جو وارد ہوئی ہے کہ آپ کے جد حضرت علی مرتضیعلیہ السلام جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں“ کس طرح آپ کے جد جنت و جہنم کو تقسیم کریں گے؟!

امام(ع)نے جو جواب مامون کو دیا وہ دلچسپ بھی تھا اور قابل قبول بھی ، آپ نے فرمایا:

اے مامون کیا تونے اپنے بزرگوں سے ، عبداللہ ابن عباس سے نہیں سنا ہے کہ وہ فرماتا تھے کہ پیغمبرﷺ فرماتے ہیں:

”حب علی ایمان وبغضہ کفر“علی علیہ السلام کی محبت ایمان ہے اور علی علیہ السلام کی دشمنی کفرہے۔

مامون نے کہا: بے شک میں نے سنا ہے۔

امام (ع) نے فرمایا:

بس اب جو بھی علی علیہ السلام کو دوست رکھے گا جنت میں جائے گا اور جو دشمن رکھے گا وہ دوزخ میں جائیگا، اس طریقے سے حضرت علی علیہ السلامجنت اور جہنم کو بانٹنے والے ہونگے۔

۸۳

یہ جوا ب سن کر مامون نے کہا:

اے اباالحسنعلیہ السلام، خدا مجھے آپ کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی زندہ نہ رکھے ! میں گواہی دیتا ہوں کو واقعاً آپ پیغمبر اسلامﷺ کے حقیقی وارث ہیں۔

امام رضاعلیہ السلامیہ جواب دےکر گھر واپس ہوئے میں بھی آپ کے ساتھ آپکے گھر گیااورشوق و ذوق کےساتھ آپکے پاس بیٹھ گیااورعرض کیا:

آپ نے حضرت علی علیہ السلام امیرالمؤ¶منین کے بارے میں مامون کو بڑا عجیب جواب دیا!

میرا گمان یہ تھا کہ مامون کے سوال کا اصلی جواب یہی ہے لیکن امام نےفرمایا:

اے اباصلت ، میں نے اس وقت حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہ بات کی ہے ور نہ اس سوال کا جواب اس سے بھی بڑھ کر اس طرح ہے کہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے اور انھوں نے بھی اپنے بزرگوں سے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے اور آپ نے حضرت رسول خدا ﷺسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

اے علی علیہ السلام قیامت کے دن تم جنت و جہنم کو تقسیم کروگے اس طریقے سے کہ کہوگے:

اے دوزخ یہ میرا آدمی ہے اور وہ تیرا آدمی ہے!(1)

-------------

(1):- بحارالانوار، ج 49 ، صص 172-173، بہ نقل از کشف الغمة ، ج 3 ، ص 147 و بحارالانوار ، ج 39 ، ص 193-194، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ص 239.

۸۴

افتخارات(1) حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیھا

زبان کا زخم بہت برا ہوتا ہے خداوند عالم سب کو زبان کے زخم سے محفوظ رکھے، لیکن افسوس کہ پیغمبرﷺکی اکلوتی بیٹی، جنت کی عورتوں کی سردار بھی زبان کے زخم سے محفوظ نہ رہ سکیں، بد اخلاق اور پلید لوگوں نے آپ کو اپنی نجس زبانوں سے بہت سارے زخم پہونچائے ہیں۔حضرت علی علیہ السلام امیر المؤ¶منین کے ساتھ ابھی آپ کی شادی کو زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ مدینے کی تنگ نظر عورتوں نے آپ کو حلقے میں لیا اور آپ کے کانوں میں یہ بات ڈالی کہ افسوس ہے تم پر کہ اتنے امیر و مالدار رشتے ہونے کے با وجود تمہارے بابا نے تمہاری شادی ایسے شخص سے کی ہے کہ جس کے ہاتھ مال دنیا سے بالکل خالی ہیں؟!

ایسا نہیں ہے کہ مال دنیا کی جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکی نظر میں کوئی اہمیت تھی یا آپ اپنے شوہر کی قدر و منزلت کو نہیں جانتی تھیں ، لیکن آخر کار لوگوں کے طعنے بھی بے اثر نہیں ہوتے، لہذا جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا نے لوگوں کے ان طونبں کا جواب اپنے بابا رسول خدا ﷺکی زبان سے 

سننے کے لئے اپنے دل کو ذرا محکم کیا اوراس مسئلے کو اپنے پدر بزگوار کے سامنے پیش کیا ، پیغمبر ﷺ نے آپ کے جواب میں فرمایا:اے میری پیاری بیٹی، اللہ نے تمام مخلوقات کی طرف نگاہ کی اور ان میں سے دو مردوں کو بہت زیادہ پسند کیا اور ان کو چن لیا اور خداوند تم کو اتنا دوست رکھتا تھا کہ ان دو میں سے ایک کو تمہارا باپ اور دوسرے کو تمہارا شوہر بنایا!...کیا تم اب بھی ناراض ہو؟!(1) جیسے ہی پیغمبر اسلامﷺ نے یہ جواب دیا تو آپ نے دیکھا کہ فاطمہ زہراءسلام اللہ علیھا کے چہرے پر رضایت مسکراہٹ بن کر بکھر رہی تھی۔

-------------

(1):- چونکہ اس روایت کے راوی اباصلت ہیں اور سیاق کلام بھی متفق علیہ ہے لہذا ہم نے (طرداً للباب) اس کو یہاں ذکر کردیا ہے۔

 (2):- بررسی زندگی عبدالسلام بن صالح اباصلت ہروی، ص 80-81 ، بہ نقل از ترجمة الامام علی (ع) {تاریخ دمشق} ، ج 1 ، ص 269.

۸۵

اصحاب رس کا واقعہ

آپ کو معلوم ہوگا کہ سورہ فرقان سورہ نمبر(25)کی آیت نمبر 38 میں اور سورہ ق  سورہ نمبر(50)کی آیت نمبر12میں ”اصحاب رس“ کا نام لیا گیا ہے لیکن انکے بارے میں کوئی توضیح و تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے ۔

ایک دن میں (اباصلت)عالم آل محمد امام رضاعلیہ السلامکی خدمت میں حاضرتھا کہ اصحاب رس کے بارے میں تذکرہ شروع ہو گیا ۔

امام رضا علیہ السلامنے اپنے بزرگوں سےروایت کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلامسے نقل کیاکہ امام حسین علیہ السلامنے فرمایا:

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے تین روز قبل بنی تمیم کے بزرگوں میں سے عمرونامی ایک شخص امام علی علیہ السلامکے پاس آیا اور اصحاب رس کے بارے میں چند سوال آپ کے سامنے بیان کئے ، وہ سوالات یہ ہیں۔

1 ۔اصحاب رسّ نے کس زمانے میں زندگی گزاری ہے؟

۲۔ انکے مکانات کہاں تھے؟

۳۔ان کا حاکم کون تھا؟

4۔کیا خدا نے ان لوگوں کے لئے کوئی پمبر   بھیجا تھا؟

۵۔ وہ کس گناہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے؟

حضرت امیر المؤ منین علیہ السلام نے اس طرح ان کا جواب دیا کہ جیسے آپ اپنی پوری عمر سے اس انتظار میں تھے کہ کوئی علم و دانش کا پیاسا آپ سے یہ سوال کرے ۔

امام علی ؑ نے فرمایا:

تم نے مجھ سے وہ سوال کیا ہے جو تم سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا اور میرے بعد جو بھی اصحاب رس کے بارے میں بتائے گاصرف مجھ سے نقل کرتے ہوئے بتا سکتا ہے اس کے الگ کچھ نہیں بتائے گا۔

۸۶

یہ بھی جان لو کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جسے میں نہ جانتا ہوں ، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کون سی آیت کس مقام پر نازل ہوئی ہے، یہاں تک کے مجھے معلوم ہے کہ پہاڑ پر نازل ہوئی یا جنگل میں ،اور مجھے آیت کے نازل ہونے کا وقت بھی معلوم ہے یعنی میں جانتا ہوں کہ کون سی آیت دن میں نازل ہوئی اور کو ن سی رات میں۔

پھر آپ نے غم و اندوہ سے بھرے ہوئے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی گفتگو کو آگے بڑھایا:

میرے سینے میں بہت سارے علوم بھرے ہوئے ہں: لیکن اس علم کو حاصل کرنے والے بہت کم ہیں ،بہت جلد ہی یہ لوگ مجھے کھو بیٹھیں گے اور پھر پشیمان ہونگے۔

پھر امام(ع) نے تمیمی کو مخاطب کر کے فرمایا:

اے تمیمی بھائی! اصحاب رس کا ماجرا کچھ اس طرح ہے کہ:اصحاب رس وہ گروہ ہے جس نے صنوبر کے درخت کا نام ”شاہ درخت“ رکھا تھا اور وہ اسکی پوجا کرتے تھے ، اس درخت کو یافث بن نوح علیہ السلامنے روشاب(1) نامی ایک چشمے کے کنارے لگایا تھا توفان حضرت نوح علیہ السلامکے بعد وہ درخت حضرت نوح علیہ السلامکے استفادہ کے لئے پروان چڑھ گا  تھا ۔

رسّ کے معنی زیرخاک کرنے (مٹی میں دبانے)کے ہیں(2) چونکہ اس قوم نے اپنے نبی کو زندہ زمین میں دفن کر دیا تھا اس لئے یہ اصحاب رس کے نام سے مشہور ہوگئے یہ ماجرا حضرت سلیمان نبیعلیہ السلام کے بعد کا ہے۔

ان لوگوں کے رس نامی دریا کے کنارے پر بارہ شہر تھے اور تمام شہر ”رس سرزمین شرق“کے نام سے مشہور ہو گئے تھے(3) اس زمانے میں تما م زمین پر نہ اس دریا سے بہتر ، زیادہ پانی والا تھا اور اس سے زیادہ میٹھا کوئی دریا تھااور نہ ان بارہ شہروں سے بہتر اورزیادہ آبادی والی کوئی دوسری آبادی تھی۔

--------------

(1):- بعض کتابوں میں اس چشمے کا نام روشتاب ہے اور (کتاب العرائس) میں (دوشان) ذکر ہوا ہے۔

(2):-  ترجمہ منجد الطلاب.

(3):-  ترجمہ منجد الطلاب.

۸۷

ان شہروں (آبادیوں )کے نام یہ ہیں ۔

۱۔آبان ۲۔آذر ۳۔دی ۴۔ بمنل ۵۔اسفند ۶۔فروردین ۷۔اردیبہشت ۸۔خرداد ۹۔تیر 10۔مرداد ۱۱۔شہریور12۔مرھ

ان شہروں میں سب سے بزرگ اور اہم شہر اسفند تھا جو ان کے بادشاہ ”ترکوذ بن غابور بن یارش بن سازن بن نمرود بن کنعان“(1) کا پایتخت تھا وہ روشاب نامی چشمہ اور صنوبر کا درخت بھی اسی آبادی میں تھے ان میں سے ہر ایک آبادی میں اسی صنوبر کے  درخت کا بیج بویا ہوا تھا کہ جو کافی بڑا بھی ہو گیا تھا اور اس چشمہ سے ان تمام درختوں تک پانی پہونچانے کا ایک راستہ بنا یا ہوا تھا ۔ان لوگوں نے اس چشمے اور اس سے نکلنے والی تمام نہروں کا پانی اپنے اور اپنے جانوروں کے اوپر حرام کررکھا تھا اگر کوئی اس میں سے پانی پیتا تو اسے قتل کر دیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ یہ پانی ہمارے خداؤں کے زندہ رہنے کا وسیلہ ہے لهٰذا صحیح نہیں ہے کہ کوئی ہمارے خداؤں کی زندگی کو کم کرے یہ لوگ اور انکے جانور رس نامی نہر سے (کہ جس کے کنارے پر انکی آبادیاں تھی )پانی پیتے تھے لیکن ”روشاب“ نامی چشمے سے کبھی پانی نہیں پیتے تھے ۔

یہ لوگ ہر مہینہ بارہ میں سے ایک آبادی میں جشن عید بناتے تھے اور ریشم کی ایک بڑی مچھر دانی اس درخت کے اوپر شامیانے کی طرح باندھتے تھے اور طرح طرح کے مجسمے اور بت اسکے نیچے رکھتے تھے گائے، بھیڑوں کو اس درخت سے تقرب حاصل کرنے کے قصد سے قربان کرتے تھے اور بہت ساری لکڑیوں کو اس مچھر دانی کے اندر جلاتے تھے یہاں تک کہ ان لکڑیوں کا دھواں قربانیوں اور فضا ؤں پر چھا جاتا تھا اور آسمان نظر نہ آتا تھا ، پھر یہ لوگ سجد ے میں جا کر گریہ و زاری کرتے تھے تا کہ وہ درخت ان سے راضی ہو جائے!اسی وقت شیطان آکر درخت کی ڈالیوں کو ہلادیتا تھا اور درخت کے تنے کے در میان سے بچے کی آوازمیں کہتا تھا:اے میرے بندوں !اب میں تم سے راضی ہو گیا ہوں، تم خوش رہو اور تمھاری آنکھیں سدا روشن رہیں۔

--------------

(1):- اس بادشاہ کانام علل الشرائع میں (برکوذ بن غابور بن فارش بن شارب) اور کتاب العرائس میں (ترکون بین غابور بن نوش بن سارب) ذکر شدہ است ۔

۸۸

شیطان کی اس آواز کو سنکر وہ لوگ سجدے سے سر کواٹھاتے تھے، شراب پیتے تھے اور ایک دن ، رات کے لئے ناچ گانے میں مصروف ہو جاتے تھے اس کے بعد اپنے گھروں کو پلٹتے تھے!

ایرانیوں نے اپنے سال کے مہینوں کے ناموں کو ان بارہ آبادیوں کے نام سے لیا ہے۔

جب ان لوگوں کی بڑی عید یعنی اس آبادی میں عید کی نوبت آتی تھی جو انکے بادشاہ کا پایتخت تھا ،  تو تمام آبادیوں کے چھوٹے ، بڑے سب لوگ درخت صنوبر اور چشمے کے پاس جمع ہوجاتے تھے، ریشم کے بڑے بڑے پردوں پر طرح طرح کی تصویریں بنائی جاتی تھیں اور ان پردوں کو درخت صنوبر کے اطراف میں خیموں کی شکل میں لگاتے تھے اور ہر آبادی والوں کے لئے اس درخت کی طرف ایک دروازہ بنایا جاتا تھا پھر وہ لوگ ان خیموں کے پیچھے اس درخت صنوبر کی عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے اور ہر مہینے سے گئی گنا زیادہ اس مہینے میں قربانی کرتے تھے!

اس بار خود ابلیس آتا تھا اور درخت صنوبر کو سختی سے ہلاتا تھا اور پھر درخت کے در میان سے بولنا شروع کرتا تھا اور جتنے وعدے ان لوگوں سے ہر مہینے آنے والے شیاطین نے کئے ہوتے تھے اس سے کئی گنازیادہ وعدے کرتا تھا۔ ابلیس کی آواز سننے اور وعدو و عید تمام ہونے کے بعدلوگ سجدے سے سر کو اٹھاتے تھے اور مست ہو کر بارہ دن، رات کے لئے خوشی دیوانگی و بیہودگی میں مصروف ہو جاتے تھے پھر اس کے بعد اپنے گھروں کو پلٹتے تھے!

جب ان لوگوں نے کفر اور غیر خدا کی عبادت کی انتہا کردی تو خداوند عزوجل نے یہودا بن یعقوب علیہ السلام کی نسل سے ایک پیامبر ان لوگوں کے در میان مبعوث کیا، پیغمبرﷺ  خدا نے ایک طولانی مدت تک ان لوگوں کے در میان خدا پرستی کی تبلیغ کی لیکن کسی نے آپ کی باتوں پر توجہ نہ کی یہاں تک کہ انکی بڑی عید کا وقت قریب آگیا، پیغمبرﷺ خدا نے ہاتھوں کو اٹھایا اور شکستہ دل سے دعا کی:

۸۹

معبود! یہ تیرے بندے نہ میری پیغمبری پر ایمان لائے ہیں اور نہ ہی انھوں نے تیرے علاوہ دوسری چیزوں کی عبادت کو ترک کیا ہے! معبود جن درختوں کی یہ عبادت کرتے ہیں ان سب کو سکھا کر ان کو اپنی قدرت کا کرشمہ دکھادے۔

صبح جب لوگ نیند سے بیدار ہوئے تو انھوں نے دیکھا کہ صنوبر کے تمام درخت سوکھ گئے ہیں۔

اس منظر کو دیکھ کر یہ لوگ ہوش میں آکر ان کی عبادت کرتا تو کیا چھوڑ تے ، بلکہ دوحصوں میں تقسیم ہوگئے اور دونوں کا نظریہ الگ الگ ہو گیا۔

پہلے گروہ کا نظریہ یہ تھا کہ یہ مرد جو اپنے آپ کوزمین اور آسمان کے پروردگار کا رسول کہتا ہے اس نے ہمارے خداؤ¶ں پر جادو کردیا ہے تا کہ تم لوگ ان سے منھ موڑلو۔

دوسرےگروہ کا نظریہ یہ تھا کہ:ایسا نہیں ہے کہ اس نے ہمارے خداؤ¶ں پر جادو کیا ہے ، اس کی طاقت ہماری خداؤ¶ں تک نہیں پہونچ سکتی ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب ہمارے خداؤ¶ں نے دیکھا کہ یہ مرد ان اکی اہانت کر رہا ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کی عبادت کی دعوت دے رہا ہے تو ہمارے خداؤں کو غصہ آگیا اور انھوں نے اپنی خوبصورتی ، بلندی اور عظمت کو چھپالیا!

آؤہم سب مل کر اپنے خداؤ¶ں کی مدد کریں تا کہ ان کا غصہ ختم ہو جائے!

پہلے گروہ نے پوچھا: کیسے ہم ان کی مدد کریں؟

دوسرے گروہ نے جواب دیا:یہ مرد جو اپنی پیغمبری کا دعوی کرتا ہے ہم اس کو قتل کرکے اپنے خداؤ¶ں کی مدد کر سکتے ہیں در حقیقت یہ ہمارے خداؤ¶ں کا دشمن ہے۔یہ ارادہ بنانے کے بعد انھوں نے کچھ بڑے بڑے پائپ نما چیزوں کے ذریعہ چشمے کا تمام پانی نکال کر دوسری جگہ پہونچا دیا اور اس چشمے کے نیچے ایک گہرا کواں کھودا اور اسکے منھ کو تنگ رکھا پھر پیغمبر خدا کو اس کنویں میں ڈال کر ایک بڑے پتھر سے اس کے منھ کو بند کردیا تا کہ پانی نیچے نہ جا سکے، پھر دوبارہ چشمے کے پانی کو اس کی پرانی جگہ پر پلٹادیا اور پیغمبر خدا کو زندہ چشمے کے نیچے دفن کردیا!رات بھر اللہ کے نبی آہ و بکا اور فریاد و زاری کرتے رہے کہ:

۹۰

” اے خدا، اے میرے آقا، تو جگہ کی تنگی اور میرے ضعف و سستی و بیچارگی کو دیکھ رہا ہے، میری درخواست ہے کہ جس قدر جلدی ممکن ہو مجھے اس دنیا سے اٹھالے تا کہ مجھے سکون مل جائے!“

یہ لوگ تمام رات آپ کے نالہ وفریاد کی آواز سن رہے تھے اور بے رحمی و خوشی کے ساتھ کہہ رہے تھے: ہم نے اپنے خداؤں کے دشمن کو (کہ جوان کی برائی کرتا تھا اور ان کی عبادت کرنے میں رکاوٹ بنتا تھا)قتل کردیا اب ہم کو امید ہے کہ ہمارے خدا ہم سے راضی ہوگئے ہونگے اور دوبارہ ان کا نور اور سر سبز و شادابی واپس آگئے ہونگے۔

خداوند عالم نے جناب جبرئیل کو مخاطب کرکے کہا: ”کیا میرے یہ بندے (کہ جو میرے حلم و بردباری  کی وجہ سے مغرور ہو گئے ہیں اور خودکو میری تدبیر سے محفوظ سمجھتے ہیں میرے علاوہ دوسرے خداؤ¶ں کی عبادت کرتے ہیں میرے رسول کو قتل کر چکے ہیں) میرے عذاب یا میری سلطنت سے بھاگ کر کہیں جا سکتے ہیں؟!کیسے فرار کرسکتے ہیں ہرگز نہیں! کیونکہ میں ہر اس شخص سے انتقام لونگا جو میری نافرمانی کرے گا اور میرے عذاب سے نہیں ڈرے گا؟میں اپنے عزت کی قسم کھا چکا ہوں کہ ان لوگوں کو دنیا والوں کے لئے درس عبرت قرار دونگا۔“پھر کیا تھا اسی دن جب وہ لوگ جشن عید منانے میں مشغول تھے، اچانک توفان آیا ، سرخ آندھی چلنے لگی ، اس طرح سے کہ وہ سب لوگ حیران ہوگئے، اور آندھی سے مقابلے کرنے کی طاقت کھوبیٹھے ، یہاں تک کہ اتنا پریشان ہوئے کہ نہ کچھ سوچ پا رہے تھے اور نہ کوئی ارادہ کر پا رہے تھے، بس وہ لوگ ایک دوسرے کی پناہ لے رہے تھے!ان کے نیچے کی زمین سنگ کبریتی یعنی ایسے پتھروں میں تبدیل ہوگئی تھی جن سے آگ نکل رہی تھی اور کالے بادل ان کے سروں پرچھا گئے تھے ، ان بادلوں سے شعلہ صفت پتھروں کی باش ہو رہی تھی اور ان کے جسم اس دھات کی مانند ہوگئے تھے کہ جس کو آگ میں ڈال کر پگھلادیا گیا ہو!یہ تمام واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت امیرالمؤمنین نے فرمایا:

 ہم خداوند عالم کے عذاب و غصے سے اس کی پناہ چاہتے ہیں، لا حَولَ و لا قُوَةَّ اِلَّا باللہ العلیِّ العظیمِ۔(1)

--------------

(1):- بحارالانوار، ج 14 ، ص 148-152، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ص 114-116 و علل الشرائع ، ص 25-26.

۹۱

شراب سے پرہیز کریں

ہمیشہ یاد رکھئے کہ شراب کو کبھی منھ بھی نہ لگائےع گا، اس لئے کہ یہ انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے، اور بے عقلی کے عالم میں انسان خطرناک سے خطرناک کام حتی گناہ بھی کربیٹھتا ہے ، اس سے بڑھ کر یہ کہ شراب پینا دشمنان اہلبیت علیہا السلام کا شوق ہے ، امام رضا علیہ السلامنے مجھ سے فرمایا کہ:

حاکمان اسلام میں سب سے پہلے  یزید بن معاویہ نے جو کی شراب پی تھی کہ جو شام کا حاکم تھا خدا اس پر لعنت کرےاس نے حکم دیا تھا کہ رنگین دستر خوان”کہ جو جشن کے لئے پچھایا جاتا ہے“لگائیں، دستر خواں لگایاگیا، امام حسین علیہ السلام کا سر ،   یزید ملعون کے سامنے رکھا ہوا تھا،    یزید نجس شراب کو پی رہا تھا،اور اپنے اطراف والوں کو بھی پلا رہا تھا اورمستی میں آکر کہہ رہاتھا:

یہ شراب پیو، یہ مبارک شراب ہے سب سے پہلے اس شراب کو میں نے پیا ہے اسی شراب کی برکت ہے کہ ہمارے دشمن کا سر ہمارے دسترخوان پر رکھا ہواہے۔

اب ہم یہ شراب پی رہے ہیں اور ہمارے ذہنوں کو سکون ہے اور ہمارا دل کاملاً مطمئن ہںہ!

امام نے اپنی بات کوآگے بڑھایا اور کہا:

      جو بھی اپنے آپ کو ہمارا شیعہ سمجھتا ہے اس کو چاہئے کہ شراب پینے سے پرہیز کرے کیونکہ اس کو ہمارے دشمن پیتے تھے۔(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 45 ، ص 176-177.

۹۲

امام رضاعلیہ السلام کا شہادت نامہ

میں مختلف مواقع و مقامات پر امام رضا علیہ السلام سے سن چکا تھا کہ ایک دن مجھ کو مامون زہر دے گا اور میں شہید ہو جاؤ¶ں گا، لیکن میں دعا کرتا تھا کہ وہ دن نہ آئے یا اگر آئے بھی تو بہت دن بعد آئے کہ جب میں اس دنیا سے جا چکا ہوں تا کہ میں اس برے منظر کو نہ دیکھوں کہ میرے مولا و آقا جانکنی کے عالم میں تڑپ رہے ہوں ، یہاں تک کہ ایک دن آپ نے مجھے بلایا اور حکم دیا کہ:     

اس گنبد میں جاؤ جس کے نیچے ہارون دفن ہے اور اس کی قبر کے چاروں طرف سے ایک ایک مٹھی خاک اٹھا کر لاؤ¶، لیکن یاد رکھو کہ ہر طرف کی مٹی الگ رہے(یعنی سب آپس میں ملنے نہ پائیں)۔

میں رومال میں مٹی لے کر آیا اور امام رضاعلیہ السلامکی خدمت میں پیش کیا ، سب سے پہلے آپ نے اس مٹی پر ہاتھ رکھا جو میں نے داخل ہونے والے دروازے کے قریب سے اٹھائی تھی، اور فرمایا:

یہ مٹی تم نے دروازے کی طرف سے اٹھائی ہے۔

چونکہ میں امام(ع)سے بہت سے کرامات اور عجائب دیکھ چکا تھا اس لئے مجھے تعجب نہ ہوا میں نے عرض کیا: جی ہاں!

لیکن اس کے بعد امام(ع) نے ایسا جملہ ارشاد فرمایا کہ جو میرے لئے بہت عجیب اور ہلادینے والا اور خلاف امید تھا۔

کل لوگ اس مٹی پر میری قبر کھودیں گے لیکن ایک بہت بڑے پتھر سے ٹکرائیں گے کہ اس کو کسی بھی صورت سے نہ ہٹا سکیں گے۔

یہ کہہ کر آپ نے اس مٹی کو دور پھینک دیا  اسکے بعد آپ نے اس مٹی پر ہاتھ رکھا جو میں نے ہارون کی قبر کے داہنی جانب سے اٹھائی تھی اور فرمایا:

یہ مٹی داہنی جانب کی ہے۔

۹۳

میں نے عرض کیا :

جی ہاں، آپ نے درست فرمایا:

آپ نے اس کو بھی دور پھینک دیا اور فرمایا:

پھر لوگ اس جگہ کو کھودیں گے اوریہاں پر ایک تیز نوک دار ٹیلے سے ٹکرائیں گے اور کسی بھی صورت میں اس کو نہ کھود سکیں گے!

پھر آپ نے بائیں جانب کی مٹی پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:

اس میں بھی پہلے ہی کی طرح ایک ٹیلا نکلے گا۔ اس کو بھی آپ نے دور پھینکا، اس کے بعد آپ نے اس مٹی پر ہاتھ رکھا جو میں نے ہارون کی قبر کے سر ہانے سے اٹھائی تھی اور فرمایا:

آخر میں اس مقام پر میری قبر کھودی جائیگی اور وہاں کوئی مشکل پیش نہ آئیگی جب میری قبر کھودی جائے تو تم بھی وہاں پر موجود رہنا اور میری قبر کھودنے میں حصہ لینا ، جب تم میری قبر کی تہہ تک پہونچ جاؤ تو اپنے ہاتھوں کو قبر کی سطح  پر رکھنا اور یہ دعا پڑھنا یہ کہہ کر امام (ع)نے مجھے کچھ کلمات سکھائے وہ سب فوراً مجھے یاد ہوگئے لیکن آپ کی اور مراسم تدفین تمام ہوتے ہی میں ان سب کو بھول گیا:

ان کلمات کو بتانے کے بعد امام(ع)نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:

جیسے ہی تم ان کلمات کو پڑھو گے قبر کے اندر پانی ابل پڑےگا یہاں تک کہ قبر پانی سے بھر جائیگی ۔ پھر اس پانی میں بہت سی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ظاہر ہوں گی۔

اس کے بعد امام (ع)نے مجھے روٹی کا ایک ٹکڑادیتے ہوئے کہا کہ:

۹۴

اس روٹی کو ان مچھلیوں کے لئے چورلو اور جب وہ مچھلیاں ظاہر ہوں تو اس کو پانی میں ڈال دینا جب یہ چھوٹی مچھلیاں روٹی کو کھا چکیں گی تو ایک بہت بڑی مچھلی ظاہر ہو گی اور ان تمام چھوٹی مچھلیوں کو کھاکر غائب ہوجائیگی۔

پھر تم دوبارہ انھیں کلمات کو پڑھوگے تو پانی زمین میں چلا جائیگا اور قبر خشک ہوجائے گی۔

تم میری طرف سے مامون سے کہنا کہ وہ میرے مراسم دفن میں ضرور شرکت کرے تا کہ اس منظر کو دیکھ لے۔

میں نے امام(ع)کی خدمت میں عرض کیا!

اگر مامون نے قبول نہ کیا؟!

امام(ع)نے جواب دیا:

وہ حتماً قبول کریگا!

 ابھی مامون کا قاصد مجھ کو بلانے آئے گا تم بھی میرے پیچھے پیچھے دربار میں آنا اور دیکھنا اگر واپس آتے وقت میں  اپنے سر کو کسی کپڑے سے نہ چھپاؤ¶ں تو تم جس موضوع کے متعلق چاہو مجھ سے گفتگو کرنا لیکن اگر میں اپنے سر کو چھپالوں تو ہرگز، حتی ایک حرف بھی مجھ سے کلام نہ کرنا!

کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ یہ باتیں سن کر میرے دل کو کتنا درد پہونچا ہوگا، اس وقت میں یہ تمنا کر رہا تھا کہ:

اے کاش میں زندہ نہ ہوتا، تاکہ مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑنا۔

ابھی یہ گفتگو ہوہی رہی تھی کہ مامون کا قاصد آیا اور امام(ع)سے کہا کہ:

آپ کو مامون نے بلایا ہے۔

امام (ع)نے لباس تبدیل کیا اور مامون کے قاصد کے پیچھے روانہ ہوگئے ، میں بھی ان کے پیچھے روانہ ہوا۔

چونکہ سب لوگ جانتے تھے کہ میں امام رضا(ع) کا خادم ہوں ا س لئے میں ہر جگہ پر امام(ع)کے ساتھ جاسکتا تھا۔

۹۵

مامون نے جیسے ہی امام(ع)کو دیکھا کھڑا ہو گیا اور تخت سے نیچے اتر آیا، امام(ع)کی پیشانی کا بوسہ لیا اور آپ کو اپنے تخت پر سرہانے کی طرف اپنے برا برمیں بھای یا ۔

مامون کے سامنے ایک میز لگی ہوئی تھی جس پر ایک بہت بہترین ، خوبصورت طبق میں عمدہ قسم کے انگوررکھے ہوئے تھے۔ مامون نے ہاتھ بڑھا کر انگور کا ایک خوشہ (گچھا) اٹھایا،اس میں سے آدھے کو خود کھایااور دوسرا آدھا حصہ (کہ جس میں پہلے سے ہی زہر ڈال رکھا تھا)امام(ع)کی خدمت میں پیش کیا اور کہا:

یہ انگور مجھے تحفے میں دیئے گئے ہیں ، مجھے یہ بات گوارا نہیں ہے کہ میں خود تو کھاؤں¶لیکن آپ کو نہ کھلاؤ¶ں، میری درخواست ہے کہ آپ ان کو تناول فرمائیے۔

امام رضاعلیہ السلام(علم امامت کے ذریعہ اس کی حقیقت کو جانتے تھے) آپ نے فرمایا:

مجھے اس کام سے معاف رکھو!

لیکن مامون نے اصرار کیا کہ:

خدا کی قسم !اگر آپ اس کو کھائیں گے تو خوشحال ہونگے!

امام(ع)نے تین مرتبہ عذر خواہی کی،لیکن ہر مرتبہ مامون نے آپ کو حضرت محمدمصطفی ﷺ اور علی مرتضےٰ علیہ السلامکی قسم دیکر کہا کہ ،کم ہی سہی ، مگرآپ اس میں سے کچھ ضرور رکھا ئںع۔

مجبوراً امام(ع)نے تین دانے انگور کے کھالئے ،اپنی عبا کو دوش کے بجائے سر پر ڈالا اور مامون کے دربار سے نکل گئے۔

جب میں نے دیکھاکہ امام رضا علیہ السلام اپنے سر پر ردا اوڑھے ہوئے ہیں تو سمجھ گیا کہ میں بدبخت ہو گیا ہوں اور اس ملعون نے اپنا کام کردیا ہے۔

جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو چونکہ اما م رضا علیہ السلام میں بولنے کی طاقت نہ تھی اس لئے آپ نے اشارہ کیا کہ میں دوازہ

۹۶

بند کردوں میں نے مضبوطی سے دروازے کو بند کردیا تاکہ کوئی بھی اندر آکر حضرت کو زحمت نہ دے سکے ۔ اس کے با وجود بھی جب حضرت اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئے، ناگاہ میں نے دیکھا صحن میں ایک جوان ہے جو امام رضاعلیہ السلام سے بہت شباہت رکھتا ہے جب کہ میں نے اس سے پہلے اس جوان کو کبھی نہ دیکھا پھر بھی میں نے خیال کیا کہ یہ امام رضاعلیہ السلامکے فرزند ہیں،میں نے عرض کیا:

اے میرے آقا دروازہ تو بند تھا پھر آپ کہاں سے داخل ہوئے؟!

سچ تو یہ ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ امام رضاعلیہ السلام کے بعد کے امام یعنی اما م جواد علیہ السلام ہیں تو میں ہرگز ان سے یہ سوال نہ کرتا چونکہ میں امام رضا علیہ السلام سے اس قدر معجزات دیکھ چکا تھا کہ میں سمجھ گیا تھا کہ ”طی الارض“اور اسی طرح کے کام ہر امام کے لئے چھوٹی سی کرامت اور مختصرسا معجزہ ہے۔

بہر حال اس ماہ ناز جوان نے جواب دیا:زیادہ سوال نہ کرو!(1) یہ جواب دے کر جوان امام رضاعلیہ السلامکی طرف دوڑ پڑے جیسے ہی امام رضاعلیہ السلامنے امام جوادعلیہ السلام  کو دیکھا کمزوری اور بد حالی کے با وجود فوراً   کھڑے ہوگئے اور آپ کو سینہ سے چمٹا لیا پھر دونوں بستر پربیٹھ گئے ۔ امام رضاعلیہ السلام نے اپنی ردا کو سر پر ڈالا اور اسی عبا کے نیچے اپنے بیٹے جوادعلیہ السلام کو بھی لے لیا ، پھر (نجوا) یعنی آہستہ آہستہ راز و نیاز کی باتیں کرنے میں مشغول ہو گئے ،میں ان کی راز کی باتوں میں سے کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔(2)

---------------

(1):-  بعض رویات میں آیا ہے کہ امام جوادعلیہ السلامنے جواب میں فرمایا کہ:”جو خدا مجھے پلک جھپکنے میں مدینہ سے طوس لایا ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ بند دروازے سے مجھکو داخل کردے !”

(2):- بحار الانوار ج49، ص301، پر اس عبارت کا اضافہ ہوا ہے:”میں نے دیکھا کہ امام رضاعلیہ السلامکے منھ سے کف (تھوک جو غصے یا زبان خشک ہونے کی صورت میں خارج ہوتا ہے) خارج ہوا کہ جو برف سے زیادہ سفید تھا، امام جواد علیہ السلام نے اس کو چاٹ لیا اس کے بعد اپنے ہاتھوں کو امام رضا علیہ السلام کے سینے کی جانب سے آپ کے لباس میں داخل کیا اور چڑیا کی مانند کوئی چیز باہر نکالی اور اس کو آپ نے تناول کر لیا اسکے بعد امام رضاعلیہ السلامکا انتقال ہو گیا.

۹۷

اس کے بعد امام رضا علیہ السلام  اپنی جگہ پر لیٹ گئے اور آپکے فرزند محمد جوادعلیہ السلام نے آپ کی عبا سے اپنے چہرے کو چھپایا اور مکان کے در میانی حصے تک آکر مجھے نام کے ساتھ پکارا: اباصلت

میں نے جواب دیا:

فرزند رسول میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔

جب میں آپ کے قریب گیا تو آپ نے مجھے تسلی دی، میں سمجھ گیا کہ میرے آقا امام رضاعلیہ السلامکی روح پرواز کرگئی ہے میں رونے لگا، آپ نے فرمایا:

عظم اللہ اجرک فی الرضا،امام رضاعلیہ السلامدنیا سے چلے گئے ہیں!

جب آپ نے مجھے روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:

اب گریہ نہ کرو،جاؤ مغتسل(1) (یعنی وہ تختہ جس پر میت کو غسل دیا جاتا ہے)اور پانی لے کر آؤ¶تا کہ امام رضاعلیہ السلامکی تجہیز و تکفین کا کام شروع کیاجائے۔

میں مدتوں امام رضاعلیہ السلام کے ساتھ اس گھر میں رہ چکا تھا اور اس گھر کی ہر ہر چیز کی خبر رکھتا تھا، میں نے عرض کیا:

اے میرے آقا ، پانی گھر میں موجود ہے، لیکن گھر میں کوئی بھی غسل کا تختہ نہیں ہے ، صرف یہی ایک صورت ہے کہ باہر سے لایا جائے۔

لیکن امام جواد علیہ السلام نے فرمایا:

انبار میں ایک مغتسل موجود ہے۔

---------------

(1):-  مغتسل یعنی وہ تختہ جس پر جنازے کو غسل دیتے ہیں.

۹۸

میں نے بارہا تمام انبار کو اوپر نیچے کیا تھا ، لیکن میں نے کبھی بھی وہاں کوئی مغتسل نہ دیکھا تھا، اس کے باوجود بھی میں جیسے ہی داخل انبار ہوا میں دیکھا کہ وہاں ایک صاف ستھرا مغتسل موجود ہے۔

میں نے امام رضا علیہ السلام کے بدن کو مغتسل پر رکھنے میں امام جوادعلیہ السلام کی مدد کی سوچا نے چاہا کہ دوسرے کاموں میں بھی آپ کی مدد کروں لیکن آپ فرمایا: تم ایک طرف بیٹھ جاؤ¶، فرشتے میری مدد کریں گے ، ابھی تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

جب غسل تمام ہوا تو امام جوادعلیہ السلامنے فرمایا:

بابا کا کفن اور حنوط لے کر آؤ¶۔

میں نے جواب دیا کہ: 

ابھی ہم نے امام رضاعلیہ السلامکے لئے کوئی کفن آمادہ نہیں کیا تھا۔

پھر بھی امام جواد علیہ السلامنے فرمایا: کفن انبار میں موجود ہے۔

جب میں انبار میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کفن و حنوط موجود ہے !جب کہ میں نے اس سے پہلے کبھی بھی اس کو اس جگہ پر نہ دیکھا تھا، اس کے بعد پھر آپ نے فرمایا:

تابوت لے کر آؤ¶۔

مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آئی کہ ہمارے پاس تابوت نہیں ہے ، اب میں خود سمجھ چکا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے ، میں سیدھا انبار میں گیا اور وہاں سے ایک تابوت لا یا جس کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور لا کر امام جوادعلیہ السلامکی خدمت میں رکھ دیا:

ہم نے امام رضا علیہ السلامکے جنازے پر نماز میت پڑھی ۔ سورج بھی آپ کی جگہ کو خالی دیکھ کرتاب نہ لاسکا اور شہر طوس کے بڑے پایڑوں کے پیچھے جا کر چھپ گیا۔

۹۹

میں نے نماز مغرب بھی امام جوادعلیہ السلامکی اقتدا میں پڑھی۔ نماز کے بعد ہم لوگ گفتگو میں مشغول ہوگئے کہ اچانک مکان کی چھت پھٹی اور امام رضاعلیہ السلامکا تابوت آسمان کی طرف پرواز کر گیا:

یہ منظر امام جوادعلیہ السلامکے لئے بالکل معمولی تھا لیکن میں نے وحشت زدہ ہو کر آپ کی خدمت میں عرض کیا:

اے میرے آقا! یقینا ًمامون امام رضاعلیہ السلامکے جنازے کو مجھ سے طلب کریگا اس وقت کونسی مٹی سے میں اپنے سر کو چھپاؤ نگا؟!(اس کو کیا جواب دونگا)

امام جوادعلیہ السلام نے اطمنان کے ساتھ جواب دیا:

آپ پریشان  نہ ہوں آپ کے لئے کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی ۔ بہت جلد امام علیہ السلامکا جسم (تابوت)اپنی جگہ پرواپس پلٹ آئیگا۔

جان لو کہ اگر کوئی پیغمبرﷺ زمین کے مغربی حصے میں انتقال کرے اور اس کا کوئی وصی زمین کے مشرق میں انتقال کرے تو بھی خدا وند عالم دفن سے پہلے ان دونوں کو واپس میں جمع کرتا ہے۔(یعنی دونوں کی ملاقات کراتاہے)

آدھی یا آدھی سے کچھ زیادہ رات گذر چکی تھی کہ دوبارہ چھت پھٹی اور تابوت اپنی پرانی جگہ پر پلٹ آیا!

نماز صبح پڑھنے کے بعد امام جوادعلیہ السلامنے فرمایا:

جاؤ¶گھر کے دروازے کو کھول دو اب مامون (گمراہ انسان)تمہاری تلاش میں آئیگا تم اس کو یہ بات سمجھا دینا کہ امام رضاعلیہ السلام کی تجہیز و تکفین ہو چکی ہے۔میں نے دروازے کی طرف حرکت کی اور پلٹ کر پھر سے ایک مرتبہ امام جوادعلیہ السلامکی طرف دیکھا لیکن آپ کی کوئی خبر نہ تھی(یعنی آپ موجود نہ تھے)جب کہ آپ نہ کسی دروازے سے داخل ہوئے اور نہ خارج !

میں نے دروازہ کھولاتودیکھا کہ مامون گھوڑے کی پشت پر سوار ہے کچھ محافظ اور درباری بھی اس کے پیچھے ہیں جیسے ہی مامون نے مجھے دیکھا بلافاصلہ سوال کیا:

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131