امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت28%

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت مؤلف:
زمرہ جات: امام رضا(علیہ السلام)
صفحے: 131

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 131 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57466 / ڈاؤنلوڈ: 4937
سائز سائز سائز
امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام رضا علیہ السلام

بہ زبان اباصلت

ترجمہ کتاب:

خاطرات اباصلت ہروی

از امام رضا علیہ السلام

مؤلف: حسین صبوری

مترجم: سید عسکری رضا رضوی

متعلم جامعة الشہید الرابع دہلی

(پھلاؤدہ- میرٹھ)

انتشارات علویون

مرکز پخش:

تلفن:۷۸۳۱۹۹۹۹-۷۸۳۷۶۶۳(۰۲۵۱)

موبائل:۰۹۱۲۲۵۱۹۶۸۱-۰۹۱۵۵۰۰۷۶۹۹

۱

خاطرات اباصلت ہروی از امام رضا(ع)

مؤلف: حسین صبوری

مترجم: سید عسکری رضا رضوی

نظر ثانی: مولانا سید محمد میثم نقوی ،سیدہ  شوبی زیدی

پروف ریڈنگ: سید حسین عباس نقوی (قاری،پھنڈیروی)

کمپوزنگ: سید شوذب علی نقوی

قطع و صفحات: رقعی،۱۸۴

طبع: اول ، زمستان سال ۱۳۹۰

تعداد:  ۲۰۰۰

چاپخانہ : امیران

صحافی: ہاشمی

قیمت: ۲۵۰۰۰ ریال

۲

عرض مؤلف

ہم سب عبد السلام بن صالح ابا صلت ہروی کو خادم الرضا(ع) کے عنوان سے پہچانتے ہیں چونکہ آپ امام رضا علیہ السلامکے بہت مقرب اور ہمرازصحابی تھے اس لئے آپ کے خصوصی احترام کے قائل ہیں اور حق بھی یہی ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے بہتر یہ ہے کہ خود انکی شخصیت کے متعلق اور ان معارف اہل بیت کے متعلق جو انکے ذریعہ ہم تک پہونچے ہیں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں ۔

     بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپکی بزرگ اوربا اہمیت شخصیت پر اہل تسنن کی طر ف مائل ہونے کی تہمت بھی لگائی گئی ہے ، آپکے متعلق زیادہ کتابیں اور معلومات بھی نہیں ملتیں اس لئے بندهٔ ناچیز نے سرمایہ علم کی کمی کے باوجود اس بات کا ارادہ کیا کہ اس سلسلے میں اپنے امکانات کی حد تک وظیفے کو انجام دوں۔

 آپکے ہاتھوں میں یہ مختصر سی کتاب اسی ارادہ و جذبہ کا نتیجہ ہے ،کتاب کی اصلی بحثوں میں داخل ہونے سے پہلے چندنکات قابل ذکر ہیں:

 ۱)کبھی کبھی حضرت ابا صلت کے مرقد مطہر کی جگہ کے بارے میں اختلاف سامنے آتا ہے اگر چہ احتمال قوی یہ ہے کہ آپکی قبر شہر مقدس مشدی الرضا(ع)(معروف بہ مشدی مقدس) کے قریب ایک مقام پر ہے لیکن یہ 

بات مسلم ہے کہ آپکی شخصتم اس قدرمشہورومعروف اوربزرگ ہے کہ آپکے مزار مقدس کے معلوم نہ ہونے سے آپکی قدرومنزلت کم نہیں ہو سکتی بالکل اسی طرح سے جسےل کہ جناب زینب(س)کی قبر مطہرکی دقیق جگہ معلوم نہیں ہے لیکن پھر بھی ہر روز دسوں کاروان فقط آپکی بزرگ اور معنوی شخصیت کی تعظمپ وتکریم اور زیارت کے لئے شہر دمشق جاتے ہیں ،اس سے بڑھ کرحضرت زہرا ء(س)کے مرقد شریف کی دققا جگہ کا مخفی ہونا کسی بھی صورت میں جنت البقیع میں آپکی قبر احتمالی پر آپکے عاشقان ومحبان کے حضور میں مانع نہیں ہے۔

۳

۲)شہر مقدس مشہد کے نزدیک جو جگہ آپ کے حرم سے منسوب ہے وہاں پر جو لوگ آپ سے توسل کرتے ہیں انکے لئے آپکی جانب سے بہت زیادہ کرامات دیکھی گئی ہیں جنکے ذریعہ اسی مقام پر(آپکی قبر موجود ہونے کے متعلق) آپکے زائرین کے اطمنان قلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔(۱)

۳)اگرچہ ہم نے اس کتاب کا نام خاطرات ابا صلت ہروی از امام رضاؑ رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اسی موضوع سے متعلق اچھے اچھے مطالب با ن کئے جائیں لیکن بعض مقامات پر[طرداً  للباب] (۲) یعنی اسی موضوع سے متعلق ہونے کی وجہ سے کچھ دوسرے مطالب بھی ذکر کئے گئے ہیں کہ جو ابا صلت کے ذریعہ ہم تک پہونچے ہیں اور بہت اہم ہیں کہ جس میں چند واقعات حضرت امیرالمؤمنین(ع) و حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھااور چند احادیث نبوی شامل ہیں۔

(۴)اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ خاطرات ابا صلت کو خود انھیں کی زبانی بامن کیا جائے ،ہم نے اس کتاب کے مطالب کو پیش کرنے کے لئے ایسے قلم کو اختا ر کیا ہے جو لوگوں کواپنی طرف مائل کرنے اور واقعات میں اثر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ قلم اباصلت کا قلم ہے (یعنی تمام واقعات انھیں کی زبانی نقل کئے ہیں)یہاں تک کہ اباصلت کا تعارف بھی خودانھیں کی زبانی کرایا گیا ہے ۔

--------------

(۱):-  یہ تمام کرامات آپکے حرم کی کمیٹی کی جانب سے ایک کاپی (فائل) میں تحریر کرکےمحفوظ کی جاتی ہیں.

(۲):- (طرداً للباب)یہ ایک حوزوی اصطلاح ہے ، اسکے معنی ہیں بحث کا جامع، کامل اور حاوی ہونا.

۴

اپنی بات

نحمده لاهله و الصلاة علی اهلها

اما بعد:

معصومین علیہم السلام کے مزارات مقدسات کی زیارت کا بڑا ثواب ہے ، ہر شیعہ اور محب اہل بیت اپنے دل میں زیارت کی خواہش رکھتا ہے ، خداوند عالم سب کو ان زیارتوں سے مشر ف فرمائے ۔آمین

بندہ حقیر نے بھی زیارت اور طلب علم کے ارادے سے ۲۸ مئی ۲۰۱۱ کو ہندوستان سے ایران کا سفر اختیار کیا، ایران پہونچ کر ایک ہفتہ شہر قم، معصومہ کے جوار میں بسر کیا ، ایک ہفتے کے بعد مشہد کا سفر اختیار کیا اور امام رضاعلیہ السلام کے روضے کی زیارت کے بعد آپ کی قدمگاہ کی زیارت کےلئے نیشاپور کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں آپ کے جلیل القدر صحابی عبد السلام بن صالح اباصلت ہروی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، آپ کے حرم کے دروازے کے برابر میں صدوقی نامی ایک بندہ مؤمن کتابوں کی دکان لگاتا ہے میں دکان کے سامنے کھڑا ہو کر کتابوں کو دیکھ رہا تھا کہ میری نظر اس کتاب پر پڑی ان دنوں میں ایک کتاب (صدیقہ شہیدہ) کا ترجمہ بھی 

کر رہا تھا، میں نے سوچا کہ کیوں نہ ہو کہ میں امام رضاعلیہ السلام اور آپکے صحابی اباصلت کی زیارت کی برکت میں اس کتاب کا ترجمہ کردوں، لہذا میں نے یہ سوچ کر کتاب کو خرید لیا، جیسے ہی میں نے کتاب کو خریدا، آقای صدوقی نے مجھ سے کہا کہ یہاں پر ہندی اور پاکستانی اردو زبان لوگ آتے ہیں اور ہم سے اردو زبان کی کتابیں مانگتے ہیں لہذا اگر آپ اس کتاب کا ترجمہ ہم کو دیدیں تو بہت مہربانی ہوگی ۔

میں نے ان  کی بات کو قبول کر لیا اور مشہد سے قم واپس آنے کے بعد دوسری ذمہ داریوں اور مصروفیات کے با وجود آقای صدوقی کے اصرار کی بنا پرتقریباً پندرہ روز کے عرصے میں ، الحمد اللہ اس کتاب کا ترجمہ مکمل ہوگیا، اب اس مفید کتاب کاردو ترجمہ بھی آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔

۵

کتاب بہت مفید ہے، اس کتاب کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں تمام روایات اباصلت سے لی گئی ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ ہر واقعہ اسی شخصیت کی زبانی بیان کیا گیا جسکا اس واقعہ میں اہم نقش رہا ہے ۔

لہذا قارئین کرام کے لئے یہ بات عرض کر دینا بہتر سمجھتا ہوں کہ واقعات میں راوی کو تلاش کرنے کے لئے زیادہ نگران نہ ہوں کیونکہ سب روایتوں کے راوی اباصلت ہروی ہیں ۔

قارئین کرام سے گزارش ہے اگر ترجمہ میں کوئی غلطی نظر آئے تو تنقید کرنے کے بجائے ہم کو متوجہ کردیں بڑی مہربانی ہوگی ۔

اب میں ان سب لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس کتاب کے ترجمہ میں میرا کسی بھی طرح تعاون کیا ہے خصوصاً اپنی خواہر سیدہ شوبی زیدی، مولانا محمد میثم نقوی میرٹھی (کہ جنھوں نے ترجمے پر نظر ثانی کی)اور مولانا قاری حسین عباس اور دوست عزیز سید شوذب علی نقوی کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جنھوں نے کمپوزنگ اور پروف ریڈینگ کی ذمہ داری انجام دی ۔

آخر میں خداوند عالم سے دعاگو ہوں کہ اس کتاب کے ترجمے کو ہمارے اورہمارے مرحومین کے لئے سرمایہ نجات قرار دے اور ہم سب کو دامن اہل بیت سے متمسک رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

والسلام       

سید عسکری رضارضوی

آگست/۲۰۱۱ء      

۶

پہلی فصل:

معرفی اباصلت

خادم امام رضا علیہ السلا م ابا صلت ہروی

میں عبد السلام بن صالح بن سلیمان ايّوب بن میسرہ ہوں۔ لوگ مجھے اباصلت ہروی کے نام سے پہچانتے ہیں ،میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ میں امام رضا علیہ السلام کا ہم وطن ہوں چونکہ میری پیدائش ۱۶۰ھ قمری(۱) کو  مدینہ منورہ(۲) میں ہوئی ہے۔ البتہ چونکہ میرے اجداد خراسان کے ایک ہرات نامی دیہات کے رہنے والے تھے اسی لئے میں اباصلت ہروی سے مشہور ہو گیا۔(۳)

میری زندگی کا سب سے بڑا عشق اہلبیت علیہم السلام اور پیغمبر اسلام ﷺکی احادیث وروایات کو جمع کرنا تھا اسی لئے میں نے اپنی تمام زندگی اور مال کو اسی کام میں خرچ کر دیا ،اکثر اوقات سفر میں رہا ،اس زمانے میں سفر کےخطروں اور مشقتوں کے باوجودشام،حجاز،یمن،عراق،کوفہ،بغداد، خراسان، نیشاپور اور ہرات وغر ہ کا سفر کیا اور عمر کے آخری حصہ میں نیشاپور کو وطن قرار دیا ۔(۴)

--------------

(۱):- دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۵،ص۶۱۲.

(۲):-  تاریخ بغداد،ج۱۱، ص۴۶-تہذیب التہذیب،ج۶ ، ص۳۱۹.

(۳):- راویان امام رضا(ع)، ص ۲۳۵- مزارات خراسان، ص۴۸.

(۴):- راویان امام رضا(ع)، ص ۲۳۱، النجوم الزاہرة، فی ملوک المصر و القاہرة، ج۲، ص۲۸۷.

۷

میں نے نیشاپور کے کئی سفر کئے ہیں کہ جن میں سے ایک سفر  امام رضا(ع)کے ساتھ رہا ہے،نیز میں نے امام علیہ السلام کی عمرکے آخری لمحے تک آپکی خدمت گزاری کا شرف حاصل کیا ہے۔

اگر آپ یہ بھی جان لیں (تو کچھ برا نہ ہوگا)کہ میں امام کاغلام یا زر خریدہ نہیں تھا بلکہ میں نے اپنے لگاؤ سے آپکی خدمت گزاری اور نوکری کو قبول کیا اور خادم الرضاؑ کے نام سے مشہور اور لائق صد افتخار ہو گار۔(۱)

میرے لئے ایک بات یہ بھی باعث فخر ہے کہ میں نے تنن عالی مقام اماموں(یعنی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام(۲) ،امام رضا علیہ السلام اورامام محمدتقی علیہ السلام) کی خدمت میں حاضری دی ہے اور بطور مستقمی ان تینوں اماموں کے خزانہ علم ودانش اور تقویٰ سے استفادہ کیا ہے یہاں تک کہ میں نے امام حسن عسکریعلیہ السلام  کا زمانہ بھی دیکھا ہے۔(۳)

چونکہ میں اہلبیت(ع)پانمبر اورانکے معارف وافکار سے دفاع کرنے کو اپنی سب سے بڑی ذمہ داری سمجھتا تھا اس لئے امام رضا (ع) کی اجازت سے اکثر اوقات مناظرات (خصوصاً مامون عباسی کے دربار میں ہونے والے مناظرات)میں شرکت کرتا تھااور خدا وند عالم کے لطف ومعارف اہلبیت(ع)کی برکت سے ہمیشہ کامیاب و سر بلند ہوتا تھا۔شہادت امام رضا (ع) اور مامون کی ہلاکت کے بعد میں نے  شہر طوس کو واپس ہوکر زندگی کے آخری ایام وہیں پر گزارے،۲۳۲ھ قمری میں اس دار فانی کو الوداع کہا(۴) اور مشہد مقدس کے نزدیک دفن کردیا گیا ،خدمت گزاری امام رضا (ع) کی برکت سے مرکا مقبرہ زیارتگاہ میں تبدیل ہو گار۔

اس گفتگو کے بعد اب مناسب یہ ہے کہ میں خادم امام رضا (ع) ہونے کے عنوان سے کچھ مطالب خود امام(ع) عزیز ومہربان کے بارے میں آپ لوگوں کے لئے باکن کروں ۔

--------------

(۱):- مزارات خراسان، ص۴۹.

(۲):- راویان امام رضا (ع)، ص ۲۳۲- مناقب آل ابی طالب، ج۳ ، ص ۴۳۸.

(۳):- علامہ مجلسی اور شیخ حر عاملی کے نقل کے مطابق امام حسن عسکری(ع) کی ولادت ربیع الثانی ۲۳۲ھ کو ہونی ہے.منتہی الآمال.

(۴):- دائرہ المعارف بزرگ اسلامی ، ج۵ ، ص ۶۱۲.

۸

تمام زبانوں پر امام رضاعلیہ السلام کا تسلط

امام رضا علیہ السلام ہر شخص سے اسی کی زبان میں گفتگو کرتے تھے، خدا کی قسم جس زبان میں بھی آپ گفتگو کرتے تھے تمام اہل زبان سے فصیح تر بولتے تھے۔

ایک روز میں نے آپکی خدمت میں عرض کیا :

اے فرزند رسول ﷺمجھے تعجب ہے کہ زبانوں کے مختلف ہونے کے باوجود بھی آپ تمام زبانوں پر بے نظرے تسلط رکھتے ہںے!

امام(ع)نے مسکراتے ہوئے فرمایا:

اے ابا صلت میں اللہ کی تمام مخلوقات پر اسکی حجت ہوں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کسی کو لوگوں پر حجت قرار دے اور وہ لوگوں کی زبان کو نہ سمجھتا ہو(اور ان سے رابطہ نہ کر سکتا ہو)کیا تم نے حضرت امیرالمومنینؑ کا قول نہیں سنا؟کہ آپ نے فرمایا:فصل الخطاب ہمکو عطا کیا گیا ہے،کیا فصل الخطاب کا مطلب لوگوں کی زبانوں کو جاننے کے علاوہ کچھ اور ہے؟(۱)

--------------

(۱):- بحار الانوار، ج۲۶ ، ص۱۹۰ و ج۴۹، ص ۸۷ و ج۳۹ ، ص ۲۷۹- عیون اخبار الرضا، ص ۲۲۸-مسند الامام الرضا ، ج۱ ، ص ۱۹۲- مناقب ابن شہر آشوب، ج۴ ، ص ۳۳۳- اثباة الہداة، ج۳ ص ۲۷۹- اعلام الوری ، ص ۳۳۳.

۹

عالم آل محمد(ص)

در حققت  امام علیہ السلام کا زبانوں سے آگاہ ہونا آپکے علم پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کا علم عام انسانوں کی طرح معمولی نہیں ہے کہ جو دوسروں سے حاصل کیاجاتا ہے اوربہت محدود ہوتا ہے بلکہ امام کا علم ،علم لدنّی ہے،خدا کی جانب سے ہے اور لا محدود ہے۔میں نے اپنی تمام عمر میں امام رضا (ع) سے بزرگ کوئی عالم دین نہیں دیکھا بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ اس زمانے کے تمام علماءودانشمندان بھی میری طرح آپکی علمی برتری کے قائل تھے۔

مامون مختلف مذاہب کے علماءاور شریعت اسلام کے فقہا و متکلمین کواپنی مجلس میں جمع کرتا تھا تاکہ ان میں سے کو ئی ایک بھی امام رضا (ع) کو شکست دے سکے لیکن آخر کار آپ ان سب پر کاما ب ہو جاتے تھے یہاں تک کہ کوئی بھی ایسا نہ رہتا تھا جو امام کے سامنے اپنی عجزوناتوانی کا اعتراف نہ کرلے ۔میں نے خود امام ر ضا (ع)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : میں حرم اور مسجد نبویﷺ میں بیٹھتا تھا ،مدینہ میں بہت سے علماءموجود تھے جب بھی ان علماءمیں سے کوئی سوال کرنے والے کا جواب نہ دے پاتا تھا تو وہ سب  میری طرف اشارہ کر دیتے تھے (یعنی سوال کرنے والے کو میری طرف بھجی دیتے تھے )اور یہ لوگ بھی اپنے سوالات کو میرے سامنے رکھتے اور میں انکے جوابات دیتا تھا۔(۱)

امام (ع)کے اس کام سے ( یعنی لوگوں کو اطمینان بخش جوابات دینے سے )مجھے امام موسیٰ بن جعفر(ع) کی ایک روایت یاد آتی ہے کہ آپ امام رضا(ع) کی طرف اشارہ کر کے اپنی اولاد سے فرماتے تھے کہ :یہ تمہارا بھائی علی  بن موسیٰ(ع) عالم آل محمد ہے اپنے دین کے بارے میں ان سے سوال کرو اور ان کے جوابات کو اچھی طرح یاد کر لو چونکہ میں نے بارہا اپنے پدر بزرگوار سے سنا ہے کہ آپ مجھ سے فرماتے تھے کہ عالم آل محمد(ع)تمہارے صلب میں ہے کاش کہ میں اسکو دیکھتا، وہ امیر المؤمنین کا ہمنام ہوگا۔(۲)

--------------

(۱):- کشف الغمة ، ج۳ ، ص ۱۰۷.

(۲):-  بحار الانوار ، ج۴۹ ، ص۱۰۰- کشف الغمة ، ج۲ ، ص ۳۱۶- منتہی الآمال ، فصل ۲ از باب ۱۰.

۱۰

امام رضاعلیہ السلام کے لئے خلافت کی پیشکش

یقینا آپ کے ذہن میں یہ سوال ہوگا کہ:

 مامون کے امام رضا(ع) کو خلافت سپرد کرنے کا ماجرا کیا ہے؟ اور امام(ع) نے اسکو قبول کیوں نہیں فرمایا؟!

یہ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک دن مامون نے امام رضا (ع)سے کہا:

اے فرزند رسو لﷺ میں نے آپ کے فضل و عمل، زہدوپارسائی اور آپیف عبادت کو دیکھا ہے میں آپ کو خلافت کا خود سے زیادہ حقدارسمجھتا ہوں۔

امام رضا(ع)کہ جو اسکے باطن کو جانتے تھے آپ نے فرمایا:

 میں خدائے بزرگ کی عبادت اور بندگی پر فخر کرتا ہوں اور اپنے زہدکی بنا پرامیدوار ہوں کہ خدا وند دنیا کی برائیوں سے مجھ کو نجات دے اور حرام کامو ں سے دوری کے ذریعہ نعمت الٰہی کے حصول اور تواضع و انکساری سے عالمین کے پروردگار کی بارگاہ میں بزرگ مقام حاصل کرنے کا امیدوار ہوں۔

مامون نے ہوشمندی اور ریاکارانہ طور پر کہا:

میرا ارادہ یہ ہے کہ خود کو مقام خلافت سے ہٹا کر آپ کو اپنی جگہ پر منصوب کر دوں اور خود آپکی بیعت کر وں۔

امامؑ نے بہت ہی دلچسپ ،عاقلانہ وعالمانہ جواب دیا کہ:

اے مامون!اگر یہ خلافت ترنا حق ہے اور خدا نے لباس خلافت  تجھ کو پہنایا ہے تو پھر جائز نہیں ہے کہ ت. اس لباس کو اپنے تن سے اتار کر کسی دوسرے کو پہنا دے ۔اب چونکہ مامون کے پاس کوئی جواب نہ تھا اس لئے ناچار اس نے حاکمانہ انداز میں کہا :اے فرزند رسولﷺ  آپ کو یہ پیشکش قبول کرنا پڑیگی۔

امام رضا(ع)نے بے جھجھک جواب دیا:میں ہر گز اس کام کو رضایت اور خشنودی کے ساتھ انجام نہیں دونگا۔

۱۱

ولایت عہدی کی پیشکش

مختصر یہ ہے کہ مامون نے پیچھا نہ چھوڑا تقریباًدو مہینے تک اس پیشکش پر اصرار کرتا رہا لیکن جب کسی نتجہے تک نہ پہونچ سکا اور مکمل طور پر مایوس ہوگیا تو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اس نے ایک نئی پیشکش کی :

اگر آپ خلافت کی پیشکش کو قبول نہیں کرتے ہیں اور اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میں خلیفہ کے عنوان سے(آپکو خلیفہ مان کر) آپکی بعتگ کروں تو پھر آپ ولایت عہدی کی پیشکش کو قبول کر لیجئے تاکہ میرے بعد خلافت آپ کے ہاتھ میں رہے۔

امام رضا(ع)نے جوجواب دیااس سے بری طرح میرے دل میں درد ہونے لگا،آپ نے فرمایا:

خدا کی قسم میرے بابا نے اپنے اجدادامیرالمومنین(ع)اور رسول اکرم سے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں تجھ سے پہلے زہر دغا کے ذریعہ مظلومانہ طورپر اس دنا  سے چلا جاؤںگا ، آسمان وزمین کے فرشتے مجھ پر روئگےدن اور میں غریب الوطن ہارون رشدج کی قبر کے برابر میں دفن کردیاجاؤنگا !

مامون ریاکارانہ طور پر رونے لگا اور کہا:

اے فرزند رسولﷺ جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک کس میں ہمت ہے جو آپ کو قتل یا آپکی شان میں گستاخی کرسکے۔

چونکہ امام رضا علیہ السلاما س وقت یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ تو خود میرا قاتل ہے لہذا آپ نے اشارةً فرمایا:

جان لو کہ اگر میں چاہوں تو ابھی ابھی اپنے قاتل کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔

مامون نہیں چاہتا تھا کہ امام علیہ السلامسب کے سامنے اپنے قاتل کا نام بیان کریں اس لئے اس نے کہا:

فرزند رسول ﷺ آپ چاہتے ہیں کہ ان باتوں کے ذریعہ چھٹکارا پالیں اور اس مسؤلیت و ذمہ داری کے وزن سے بچے رہیں تا کہ لوگ کہیں کہ موسی بن جعفر علیہما السلام کا بیٹا (یعنی امام رضا علیہ االسلام) زاہد ہے ، دنیاوی مقامات کا طلبگار نہیں ہے۔

امام رضاعلیہ السلام نے مامو ن کے جواب میں فرمایا کہ:

۱۲

خدا کی قسم جب سے خدا نے مجھے پیدا کیا ہے اس دن سے آج تک میں نےدنیا کو حاصل کرنے کے لئے کبھی جھوٹ نہیں بولا ، میں جانتا ہوں کہ اس پیشکش سے تیرا کیا مقصد ہے۔

مامون: کیا مقصد ہے؟

امام:اگر میں حقیقت بیان کروں تو کیا مجھے امان ہے؟

مامون: البتہ آپ امان میں ہیں۔

تیرا مقصد یہ ہے کہ لوگ یہ کہیں کہ علی ابن موسیٰ (ع)دنیا میں زہد حقیقی نہیں رکھتے تھے بلکہ انہونے زہد اس لئے اختایر کیا تھاکہ دنیا انکے ہاتھوں نہیں لگ رہی تھی لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ موقع ملتے ہی انہوں نے خلافت کو حاصل کرنے کے لئے کس طرح ولایت عدقی کو قبول کر لیاہے۔یہ سنتے ہی مامون آگ بگولہ ہو گیا اب اسکے پاس آواز بلند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا لذ ا ا س نے بلند وآواز سے کہا:آپ ہمیشہ وہی کام انجام دیتے ہیں جو مجھے پسند نہیں ہے آپکو میرے غصہ کا کوئی خوف نہیں ہے۔خدا کی قسم اگر آپنے اپنی مرضی سے ولایت عد ی کو قبول کر لیا توٹھیک ہے ورنہ میں آپکو یہ عدنہ قبول کرنے پر مجبورکروں گااور اگر پھر بھی قبول نہیں کریں گے تو میں آپکا سر قلم کر دوںگا۔

امام رضاؑنے ناچارہوکر فرمایا:خداوندعالم نے مجھے اپنی جان کو اپنے ہاتھ سے ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا ہے لیکن اگرتومجھے اجازت دے کہ میں جو چاہوں کروں تو پھرمیں تیری پیشکش کو قبول کر سکتا ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ مں  فقط ترنا مشاوربن کررہوں گا،نہ امراءو حکام کے عزل ونصب مںھ دخل اندازی کروں گا،اور نہ ہی کسی قانون یا سنت کو ختم کروں گا ، یہاں تک کہ اپنا ارادہ اور فیصلہ سنانے سے بھی دوری اختیار کروں گا۔مامون نے سوچا کہ مجھے اپنے مقصد تک پہچنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے لہذا اس نے امام(ع) کے شرائط کو قبول کرلیا جب کہ امام(ع) اس بات سے راضی نہ تھے۔(۱)

-------------

(۱):- بحار الانوار ، ج ۴۹ ، ص ۱۲۰-امالی صدوق ، مجلس ۱۶ ، عیون اخبار الرضا، ج۲ ، ص ۱۳۹- علل الشرایع ، باب ۱۷۳۳ ، ص ۲۳۷.

۱۳

مامون نے امام رضا علیہ السلامکو کیوں شہید کیا؟

ممکن ہے اب آپ یہ سوال کریں کہ جب مامون نے اپنا مقصد حاصل کرلیا تھا تو پھر اس نے امام رضا(ع)کو کیوں شہید کیا؟ جب کہ سب لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ مامون امام رضا (ع)کا بہت احترام کرتا تھا اور آپ کو اپنا ولیعہد اور اپنے بعد اپنے خلیفہ کے نام سے پہچنواتا تھا یہاں تک کہ اس نے آپ کے نام کا سکہ بھی بنوایا تھا۔اتفاقاً احمد بن علی انصاری نے مجھ سے یہی سوال کرلیا ، میں نے اس کے جواب میں کہا کہ : مامون ،امام رضا علیہ السلام کا احترام اس لئے کرتا تھا کہ وہ اپنے مقابل میں امام (ع) کی فضیلت اور برتری کو جانتا تھا لیکن اس نے امام(ع) کو ولیعہد اس لئے بنایا تھا کہ لوگوں کو یہ دکھا دے کے امام(ع)دنیا سے وابستہ اور دل لگائے ہوئے ہیں تا کہ امام (ع)کے بارے میں ان کے خیالات برے ہو جائیں اور لوگوں کے نزدیک امام (ع)کا مقام اور معنوی مقبولیت کم ہوجائے۔لیکن جب مامون اس طریقہ سے کامیاب نہ ہوا تو اس نے اپنے پلید ، گندے مقاصد تک پہونچ نے کے لئے ایک دوسرا طریقہ استعمال کیا اور وہ یہ کہ اسلام کے علماءاور متکلمین (کہ جن کے نظریات آپس میں مختلف تھے) یہاں تک کہ یہود ، مسیحیت ، زرتشتی، صائبین ، براہمہ،ملحدین اور دہریوں کے علماءکو امام رضا (ع)سے علمی بحث و مناظرہ کرنے کے لئے طلب کیا لیکن امام رضا(ع) نے ان سب کو مغلوب کردیا۔جب لوگوں نے امام رضا علیہ السلام کی اس برتری کو دیکھا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ ”خلافت واقعاً امام رضا(ع)کا حق ہے اور مامون کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے “۔ ہر روز جب مامون کے جاسوس امام رضاعلیہ السلام کی مقبولیت کے خبریں اس کو سنا تے تھے تو اس کے حسد اور کینہ میں اضافہ ہو جاتا تھا۔مامون کے حسد اور کینہ کی زیادتی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ امام رضاعلیہ السلام،مامون کے مقابل میں حق بولنے اور اظہار حقیقت کرنے میں کسی طرح کا خوف نہ کھاتے تھیں۔ مامون اپنی ہوشمندی اور شیطنت سے حسد کی رگ کو چھپائے رکھتا تھا لیکن جب اس نے یہ سمجھ لیا کہ اب کسی طرح بھی امام (ع) کو لوگوں کی نظر میں بے اعتبار نہیں کیا جا سکتا تو اس نے آپ کو ہلاک کنندہ زہر دے کر شہید کردیا۔(۱)

--------------

(۱):- عیون اخبار الرضا، ج۲ ، ص ۲۳۹- منتہی الآمال  فصل ۵ از باب ۱۰.

۱۴

اخبار شہادت امام و ثواب زائرین امام رضاعلیہ السلام

آپ کو معلوم ہوگا کہ امام علیہ السلام ، علم امامت اور اذن خدا کے ذریعہ ہر چیز کو جانتا ہے اور گذشتہ اور آئندہ اس کے لئے برابر ہے ، میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے اپنی شہادت سے مدتوں پہلے فرمایا تھا : میں بہت جلد مظلومانہ ، زہر سے قتل کردیا جاؤ¶نگا اورہارون کے برابر میں دفن کیا جاؤ¶نگا ، خداوند عالم میرے مرقد کو میرے شیعوں اور اہلبیت (ع) کے آمد و رفت کا مرکز قرار دے گا! پس خدا کی قسم جو شخص بھی میری غربت میں میری زیارت کریگا اسکی زیارت روز قیامت مجھ پر واجب ہے ، اس خدا کی قسم جس نے محمد ﷺکو نبوت کے لئے چنا اور تمام مخلوقات میں ہم کو منتخب کیا تم میں سے جو شخص بھی میری قبر پر دو رکعت نماز پڑھے گا وہ خداوند عالم کی جانب سے بخشش و مغفرت کا حقدار ہوگا۔

اس خدا کی قسم جس نے محمد ﷺ(کہ ان پر اور ان کے آل پردرود ہو)کے بعد ہم کو منصب امامت کے ذریعہ بزرگی عطا کی اور پیغمبر کی وصایت کو ہم سے مخصوص کردیا ، قیامت کے دن خداوند عالم کے سامنے حاضر ہونے والوںمیں سے سب سے بزرگ وہ لوگ ہونگے جو میری قبر کے زیارت کریں گے اور کوئی مومن ایسا نہ ہوگا کہ جو میری قبر کی زیارت کرے اور

 اس کے چہرہ پر آنسو کا کوئی قطرہ گر جائے مگر یہ کہ خداوند اس پر آتش جہنم کو حرام کردے۔

اسی طریقہ سے ایک روز میں خدمت امام رضا علیہ السلام میں بیٹھا تھا کہ ایک گروہ وارد ہوا اور اس نے آپ کو سلام کیا ،

۱۵

امام(ع) نے ان کے سلام کا جواب دیا اور انھیں اپنے پاس بیٹھاکر فرمایا: ”مرحبا ، خوش آمدید ہمارے حقیقی شیعہ تم ہو ، ایک روز وہ آئیے گا کہ تم طوس میں میری قبرپر میری زیارت کرو گے، جان لو کہ جو بھی غسل کر کے میری زیارت کرے گا وہ گناہوں سے اس طرح خارج ہو جائے گا جس طرح اپنی پیدائش کے دن گناہوں سے پاک تھا“۔(۱)

ایک حدیث اور اسی حوالے سے آپ کے سامنے بیان کررہا ہوں جو میں نے اپنے کانوں سے سنی ہے ، امام رضا (ع)نے فرمایا:”خدا کی قسم ہم میں سے کوئی بھی امام ایسا نہیں ہے جس کو قتل نہ کیا جائے “۔

     حاضرین میں سے ایک نے تعجب سے پوچھا: اے فرزند رسولﷺ کون آپ کو قتل کریگا ؟!

امام(ع) اپنے قاتل کا نام سب کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا آپ نے اپنے قاتل کے باطن سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا:”میرے زمانہ کا سب سے بدترین انسان مجھے قتل کریگا اور ایک تنگ جگہ، سرزمین غربت میں مجھ کو دفن کردیاجائے گا“جان لو کہ جو بھی میری غربت میں میری زیارت کریگا خداوند عالم اس کو ایک ہزار صدیق ، ایک ہزار شہید ، سو ہزار حاجی اور عمرہ کرنے والوں اور سوہزار مجاہدوں کا ثواب عطا کریگا،اس کا حساب ہمارے ساتھ ہوگا اور وہ جنت میں بلند درجات پر ہمارا دوست اور ہمنشنین قرارپائےگا۔(۲)

--------------

(۱):- اثباة الہداة،ج۳ ، ص ۲۸۳.

(۲):-  بحار الانوار ، ج۴۹ ، ص ۳۸۳- روضة المتقین ، ج۵ ، ص ۳۹۹  امالی شیخ صدوق ص ۶۱  من لا یحضرہ الفقیہ ، ج۲ ، ص ۳۵۱- عیون اخبار الرضا ، ج۲ ، ص ۶۳۰- اثباة الہداة ج۳ ، ص ۲۵۴.

۱۶

دوسری فصل:

خاطرات ابا صلت

سو دینار کا معمہ!

میں دعبل ہوں(۱) ، دعبل خزاعی ، امام رضا (ع)کے زمانے کامشہور شاعر ، وہی شاعر کہ جس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ حریم امامت و ولایت اور خاندان پیغمبر کے دفاع کے لئے ایک لکڑی کو اپنے کاندھے پر اٹھائے پھرتاتھا۔

عشق امام رضا علیہ السلامنے مجھ کو آوارہ بنادیا تھا اور میرے کام صرف جنگلوں میں تلاش امام کے لئے گھومنا تھا ، یہاںتک کہ مجھ کو یہ توفیق حاصل ہوگئی کہ میں نے شہر ”مرو“ میں امام کے مبارک ہاتھوں کو چوم لیا ، یہ بات کوئی نہیں جانتا ہے کہ جب میں امام کی خدمت میں پہونچا تو کس حال میں تھا ، میں نے عرض کیا :

اے فرزند رسول ﷺ، میں نے ایک قصیدہ آپ اور آپکے خاندان کی مظلومیت میں کہا ہے اور قسم کھائی ہے کہ آپ سے پہلے وہ قصیدہ کسی کو نہیں سناؤں گا۔(۲) آقانے  اجازت دی اور میں نے قصیدہ پڑھنا شروع کیا ، قصیدہ بہت مفصل ہے ، اس مختصر سی کتاب میں اس کو مکمل بیان نہیں کیا جا سکتا فقط اس کے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں پیش ہیں:

مَدارِسُ آیاتٍ خَلَت مِن تَلاوَةٍ

وَمَنزِلُ وَحیٍ مُقَفَّرُ العَرَصاتِ

وہ گھرانے جہاں وحی اور قرآن کا نزول ہوتا تھا خراب اور جنگل کی طرح لاوارث ہوگئے ہیں اور اس کے مقابل میں وہ گھر آباد ہوگئے ہیں کہ جن سے شراب پینے والوں کے ناچ، گانے کی آواز یں آتی ہیں۔

--------------

(۱)؛- اس واقعہ کے راوی اباصلت ہیں لیکن ہم نے یہاں اس واقعہ کو خود دعبل کی زبانی بیان کیا ہے۔

(۲):- آیت قصیدہ اور دعبل کے تمام اشعار آپ (عیون اخبار الرضا(ع)- اعیان الشیعةج۳۱- دیوان دعبل، چاپ نجف ، عبدالصاحب دجیلی خزرجی اور مناقب ابن شہر آشوب ) میں دیکھ سکتے ہیں۔

۱۷

اَری فَیئَهُم فی غَیرِهم مُتَقَسِّماً

وَ اَیدیهِم مِن فَیئهِم صَفَراتِ

میں دیکھ رہا ہوں کے انکا مال دوسروں کے درمیان تقسیم ہو گیا ہے اور ان کے ہاتھ خالی ہوگئے ہیں۔

جب میں قصیدہ پڑھتے ہوئے اس مقام پر پہونچا تو امام(ع) کے آنکھوں سے آنسو بنےص لگے اور آپ نے فرمایا:”ہاں دعبل تم ٹھیک کہہ رہے ہو !“

جب میرے اشعار تمام ہوگئے تو امام (ع)اپنے جگہ سے اٹھے اور صحن سے حجرہ کی طرف روانہ ہوئے میں بھی اٹھا تا کہ واپس پلٹ جاؤ¶ں اور امام (ع)کو زیادہ زحمت نہ دوں ، لیکن امام (ع)نے فرمایا:”دعبل ذرا ٹھہرو مجھے تم سے کچھ کام ہے“۔

ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ امام (ع) کا ایک غلام سونے کی تھیلی لے کر آیا اور اس کو میرے ہاتھوں میں رکھ دیا ، میں نے پوچھا :یہ کیا ہے ؟ خادم نے کہا : یہ سونے کے سو رضوی(۱) دینار ہیں ، یہ تمھارے قصیدہ کا صلہ ہے ، آقا نے اس کو تمھارے لئے بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ ان پیسوں کو اپنے مخارج میں خرچ کرلینا ۔

اس وقت میں بالکل غافل ہو گیاتھا ، میں نے مِن مِن کرتے ہوئے کہا : خدا کی قسم میں پیسوں کے لئے نہیں آیا تھا اور میں نے یہ قصیدہ لالچ میں نہیں کہا ہے،یہ کہتے ہوئے میں نے سونے کے سکوں کی تھیلی واپس کردی ، اور اس کی جگہ کسی ایسی چیز کی درخواست کی کہ جو معنوی اہمیت رکھتی ہو اور کہا :

آقا سے کہئے کہ اگر ممکن ہو تو ان سو دینار کے بدلے ایک ایسا لباس جو آپ نے پہنا ہو مجھ کو عطا فرمادیں تا کہ میں اس سے برکت حاصل کرسکوں۔

--------------

(۱):- وہ دینار کہ جو ولایت عہدی کے عنوان سے امام رضا(ع) کے نام سے بنوائے گئے تھے.

۱۸

خادم کو گئے کچھ دیر نہ ہوئی تھی کہ وہ ایک ہاتھ میں امام کا سبز رنگ کا جبہ اور دوسرے ہاتھ میں سونے کے سکوں کی تھیلی لئے ہوئے واپس پلٹا اور کہا:

آقا نے یہ لباس تمھارے لئے بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ پیسوں کی یہ تھیلی بھی تم رکھ لو کہ تم کو اس کی ضرورت پیش آئے گی۔

چار و ناچار میں نے پیسوں کو قبول کرلیا اور ایک قافلے کہ ساتھ ”مرو“ سے خارج ہوا ۔ آپکی آنکھیں کو ئی برا وقت نہ دیکھیں ، جب ہم ”قوہان“(۱) پہونچے تو مسلح راہزنوں نے ہمارے قافلے پرحملہ کیا اور تمام مال، گھوڑے ، امام(ع) کا جبّہ اور وہ سو دینار سب کچھ زبردستی ہم سے چھین لیا اور ہمار ے ہاتھ پیر باندھ کر ہم کو زمین پر ڈال دیا۔

ہماری حالت بری تھی چونکہ ایک طرف تو ڈر ، خوف اور دہشت تھی اور دوسری طرف وہ ہمارا سب کچھ لوٹ چکے تھے اب ہم کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ ہم کو زندہ چھوڑیں گے یا نہیں؟

ایک غارتگر چور جو میرے گھوڑے پر سوار تھا مال کثیر حاصل کرنے کی بنا پر بہت خوش و خرم اور مست تھا، وہ مال جمع کرتے کرتے آہستہ آہستہ کچھ شعر پڑھ رہا تھا، اسکے اشعار میرے کانوں کو کچھ سنے سنائے معلوم ہوئے، میں نے کان لگائے تو سنا کہ وہ یہ بیت پڑھ رہا تھا:

اَری فَیئَهُم فی غَیرِهم مُتُقَسِّماً

وَ اَیدیهِم مِن فَیئهِم صَفَراتِ

     میں دیکھ رہاہوں کہ ان بے سہارا لوگوں کا مال غیروں میں تقسیم ہو رہا ہے اور ان کے ہاتھ ان کے اموال سے خالی ہوگئے۔

--------------

(۱):- قوہان ہرات اور نیشابور کے در میان ایک شہر کا نام ہے.

۱۹

یہ بات میرے لئے بہت دلچسپ تھی کہ جس چور نے میرا سامان (مال) لوٹا ہے وہ مجھ کو پہچانے بغیر میرے اشعار ، میرے ہی سامنے میرے حالات کی زبانی، مستی کے ساتھ پڑھ رہا ہے وہی اشعار جو کچھ دن پہلے ، پہلی بار میں نے امام رضا علیہ السلامکی خدمت میں پڑھے تھے ، اور اب وہ اشعار اسی سرزمین پر میرے ہاتھوں سے دور ہوگئے تھے ۔ میں نے چور کی طرف رخ کر کے کہا :

معلوم ہوتا ہے کہ تم شاعری کا شوق بھی رکھتے ہو !

چور : ہاں، ہم تو ایسے ہی ہیں ، شاعروں کی لطافت بھی رکھتے ہیں اور غارت گروں کی دہشت بھی۔

دعبل: جب تم ان اشعار کو اتنا دوست رکھتے ہو تو بتاؤ ان اشعار کا شاعر کون ہے کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟

چور: یقینا میں اس کو پہچانتا ہوں ، وہ قبیلہ خزاعہ کا ایک آدمی ہے اس کا نام دعبل ہے اور اس نے یہ اشعار امام رضاعلیہ السلامکے شإن میں کہے ہیں، ٹھیک ہے کہ ہم چور ہیں لیکن کچھ بھی ہو امام رضاعلیہ السلامکو دوست رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ہارون اور مامون جیسے غاصب و ستمگر سے بالکل جدا ہے وہ فرشتوں سے بھی زیادہ پاک اور دوستی کے لائق ہیں!

دعبل : میں نے سوچا کہ یہی وقت ہے کہ میں اپنی پہچان بتا دوں لہذا میں نے کہا تم کہتے ہو کہ دعبل کو پہچانتے ہو اگر اس کو اس مجمع میں دیکھو گے تو کیا پہچان لو گے؟

چور: میں اس کو نام سے پہچانتا ہوں چہرہ سے نہیں ۔

دعبل: کیا مجھے پہچانتے ہو؟

چور: میں تم کو کیسے پہچانوں، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ تم ،چوروں کے لئے چربی کا ایک لقمہ ہو۔

دعبل: میں دعبل خزاعی ہوں ، وہی دعبل کہ جس نے امام رضا (ع)کی شان میں یہ اشعار کہے ہیں۔

۲۰

جب اس نے میری زبان سے میرا نام سنا تو بے اطمینانی اور تعجب کے ساتھ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:

 ارے ،ارے ، کیا یہ ممکن ہے کہ تم سچ بول رہے ہو، خدا کرے کہ تم نے سچ نہ بولا ہو چونکہ اگر تم نے سچ کہا ہوگا تو ہماری آج کی زحمات بے کارہو جائیں گی اور اگر تم نے جھوٹ کہا ہو گا تو آج تم اپنی جان کھو بیٹھو گے ، جب تک میں واپس آؤں تم یہیں پر ٹھہرو۔

یہ کہہ کر چور اپنے رئیس کی طرف دوڑا، رئیس ایک ٹیلے پر نماز پڑھ رہا تھا غارتگروں کے رئیس کو نماز کی حالت میں دیکھنا میرے لئے بہت عجیب تھا ، میں نے خود سے کہا :

اگر یہ نماز پڑھتا ہے تو پھر چوری کیوں کرتا ہے ؟ اور اگر یہ چوری کرتا ہے تو پھر اس کے نماز پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟

ابھی زیادہ وقت نہ گذرا تھا کے چور اور رئیس میرے پاس آئے ، راہزنوں کے رئیس نے کچھ دیر تک مجھ کو گھور کر دیکھا اور پوچھا کیا واقعاً تم وہی دعبل خزاعی ہو؟ جس نے یہ مشہور قصیدہ امام(ع)کی شان میں کہا ہے؟

دعبل: خدا کی قسم میں وہی دعبل خزاعی ہوں ؟

رئیس: اگر تم سچ کہتے ہو تو اس قصیدہ کو اول سے آخر تک بغیر دیکھے پڑھو۔

اس وقت تک تمام چور میرے اطراف جمع ہوگئے تھے ، میں نے اپنے قصیدہ کو اول سے آخر تک پڑھنا شروع کیا ، جب میرا قصیدہ ختم ہوا تو میں نے دیکھا کہ راہزنوں کی آنکھوں سے آنسو نکل کر زمین پر گر رہے ہیں اور زمین کو گیلا کر رہے ہیں۔

تمام جنگل پر سکوت چھا گیا تھا اور اب قافلے والوں میں" کہ جن کے ہاتھ اور پیر بندھے تھے" اضطراب اور پریشانی کے اثرات باقی نہیں تھے۔ چوروں کے رئیس نے آنسو کو آستین سے صاف کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا:

تمام کاروان والوں کے ہاتھ اور پیر کھول دو ، انکا تمام مال واپس کردو ، اور کسی محفوظ منطقہ تک ان کے ساتھ جاؤ¶!

۲۱

ایک چور نے اعتراض کیا: رئیس لیکن یہ بہترین لقمہ ہے جو گذرے ہوئے کئی مہینوں میں ہم نے حاصل کیا ہے، اب ہم ان کو مال کس طرح واپس کرسکتے ہیں؟

رئیس نے اس کو ڈانٹتے ہوئے کہاکہ: جو میں کہہ رہا ہوں وہ کرو یہ لوگ امام رضا(ع)کی جانب سے آئے ہیں۔

جب ہم لوگ چوروں سے دور ہورہے تھے ، انکا رئیس ہماری ہدایت کرنے کے ساتھ ساتھ ہم سے عذر خواہی کر رہا تھا ۔(1)

آخرکار زحمتں  اور مشقتںہ برداشت کرتے ہوئے ہم لوگ شہر قم پہونچ گئے،یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے اماموں نے قم کو آشا نہ آل محمد کے نام سے پہچنوایا ہے خدا کی قسم سچ تو یہ ہے کہ اہل قم مرمی مہمان نوازی اور احترام میں ایک پیر پر کھڑے ہوگئے کیونکہ وہ لوگ مجھ کو مولا، امام رضا(ع) کا ایک خادم جانتے تھے خصوصاًان لوگوں نے اس قصدضہ  کوسننے کےلئے میرے گرد حلقہ بنت لیا اور کہا:

تم کو خدا کا واسطہ وہ قصیدہ ہم کو بھی سناؤ جوتم نے امام کو سنایا تھاتوامام نے پسند کیا اور اسکوسنکررونے لگے تھے اور اسکے بدلے تم کو قمتیو صلہ بھی ملا تھا ہم چاہتے ہیں کہ اسکو خود تمھاری زبان سے سنںک۔

میں نے انکی گزارش کو قبول کر لیا ،قم کے لوگ جامع مسجد میں جمع ہو گئے مجمع اس قدر اکھٹا ہو گیا تھا کہ جب میں منبر پر پہونچا تو معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی محشر بپا ہے جب میں نے اشعار پڑھے تو قم کے لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ انھوں نے مجھ کو بہت سا مال اور ہدیے دئےر اور مجھ کو حلقے میں لیکر کہا :

ہماری خواہش ہے کہ وہ متبرک لباس جو امام رضا(ع) نے تمکو عطا کیا ہے اسکو ہمیں ایک ہزار سونے کے سرخ دینار کے بدلے بچر دو۔

--------------

(1):- با استفادہ از بحار الانوار ، علامہ مجلسی ، ج 49 ، ص 238.

۲۲

لیکن آپکو معلوم ہے کہ وہ لباس معنوی اہمیت رکھتا تھا اور میں اسکو تمام دنان کے بدلے بھی دینے کو راضی نہ تھا لہٰذا انھوں نے جتنا بھی التماس کیا میں نے قبول نہ کیا یہاں تک کہ بچے بھی اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ اس کپڑے کا فقط ایک ٹکڑا مجھ سے اسی قیمت میں خرید لیں لیکن میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میں اس کپڑے میں سے ایک دھاگا بھی بیچوں۔

آخر کار میں قم سے عراق کی طرف روانہ ہو گاپ ابھی قم سے کچھ فرسخ دور نہ ہوا تھا کہ جوانان قم کے ایک گروہ نے مجھے گھیر لیا اور جبراً مجھ سے امام رضا(ع) کا لباس چھین کر ہزار آہ وافسوس اور آنسؤں کے ساتھ مجھے جنگل میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔

ناچار ،میں نے قم واپس آکر بزرگوں کا دامن تھاما،انھوں نے بھی ان جوانوں کو بہت نصحتل کی کہ :”تم کیسے امید کر سکتے ہو کہ جو لباس تم نے زبر دستی چھینا ہے وہ تمھارے لئے امن اوربرکت کا سبب بن جائے!“لیکن انھوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔

اب التماس کرنے والے اور التماس سننے والے بدل گئے تھے (یعنی جو پہلے التماس کر رہے تھے اب ان سے التماس کی جارہی تھی اورجس سے پہلے التماس کی جارہی تھی اب وہ خود کھڑا التماس کر رہا تھا )یعنی اب میں تھا جو التماس کر رہا تھا۔

جوانوں نے کہا : ہم چور نہیں ہیں ہم اب بھی تایر کہ تم کو وہ ایک ہزار دینار دےدیں لیکن یہ لباس ہرگز نہیں دے سکتے ۔

اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھامیں نے انکی پرانی درخواست کو خود انھیں کے سامنے پیش کیا:

اس متبرک لباس کا کم سے کم ایک تکڑا تو مجھے دےدیجئے!۔

خدا وند عالم ان سبھوں کا بھلا کرے کہ وہ سب مجھ سے زیادہ انصاف ور تھے انھوں نے میری اس درخواست کو قبول کر لیا،اس لباس کا ایک ٹکڑا اور ایک ہزار سر خ سونے کے دینار احترام کے ساتھ میری خدمت میں پیش کردئیے۔

۲۳

خدا نہ کرے کہ آپ کوئی برا وقت دیکھیں ،جب میں اپنے وطن بغداد واپس ہوا تو شہر کے دروازے پر ہی دو بری اور وحشتناک خبریں مجھ کو ملیں !

ایک تو یہ کہ تمھارے گھر چور داخل ہوئے اور تمھاری غیبت کو غنیمت جان کر سب کچھ لے گئے یہاں تک کہ تہہ خانہ میں بھی جھاڑو لگادی ہے۔

دوسرے یہ وہ کنیز(کہ جو تمھارا عشق تھی ،تمھارے لئے مثل لیلیٰ تھی اورتم اسکے مجنون تھے )آنکھوں کی سخت بیماری میں مبتلا ہو گئی ہے اور اسکا ناک و نقشہ بہت برا ہوگیا ہے۔

یہ دو خبریں سنتے ہی دنیا میرے سامنے اندھیر ہوگئی لیکن میں نے خدا پر بھروسہ کیا اور گھر میں داخل ہو گیا گھر ایسا کہ جسمیں فقط وفقط درودیوار تھے اور کچھ نہ تھا ابھی میں نے سامان سفر نہ اتارا تھا کہ شہرکے لوگ مجھ سے ملاقات کرنے کے لئے آگئے اور میرے گرد حلقہ لگا لیا اور قبول زیارت کی دعا دینے لگے جب میں نے ان لوگوں سے امام رضا (ع) کی ملاقات کا ماجرا بیان کیا اور بتایا کہ ”میں نے امام(ع)کی خدمت میں قصیدہ پڑھا اورامام(ع)نے مجھ کو ایک سو،سونے کے رضوی دینار عطا کئے“تو انھوں نے التماس کی کہ جو دینار تمکو امام رضا(ع)نے دئے ہیں اور ان پر امام کا نام لکھا ہوا ہے وہ سب ہم کو دےدو اور ہر ایک دینار کے  بدلے سو درہم ، ہم سے ہدیہ لے لو۔

مجھے ڈر تھا کہ انکار کرنے کی صورت میں کہیں پر  سے قم کے واقعہ کی تکرار نہ ہو جائے اس لئے میں نے ان لوگوں کی درخواست کو قبول کر لیا اور وہ رضوی سکّے ان لوگوں کو ہدیہ کر دئے ان لوگوں نے بھی اس کے بدلے مجھ کو دس ہزار درہم ہدیہ کئے۔ میں ایک چھوٹی سی مدت میں تین مرتبہ چوروں کا شکار ہو چکا تھالیکن امام رضا(ع)کے ہدیہ کی برکت سے اپنے شہر کا سب سے امیر انسان ہو گیا تھا!(1)

--------------

(1):-  منتہی الآمال ، فصل 7 از باب 10- بحار الانوار ، ج49 ، ص 237-241 و ص 245-251 ، کرامات رضویة ج 2 ص 223-259.

۲۴

 اب میری پریشانی صرف اور صرف میری پیاری کنیز کی آنکھیں تھیں میں نے شہرکے تمام طببوسں اور حکیموں کوجمع کرکے کہا:

 اگر میری کنیز کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں تو میں اپنی تمام دولت دینے کے لئے حاضر ہوں!

لیکن طبیبوں اور حکیموں نے آپس میں رائے ، مشورہ کرنے کے بعد صاف صاف مجھ سے کہہ دیاکہ:

اسکی داہنی آنکھ کسی بھی صورت میں قابل علاج نہیں ہے چونکہ اسکی بینائی جاچکی ہے لیکن اگر کچھ پیسہ خرچ کیا جائے تو شاید ہم اسکی بائی آنکھ کوخراب ہونے سے بچالیں۔

اب میری حالت بہت خراب ہو گئی تھی میں نے دور ہی سے خراسان کا رخ کرکے عرض کیا: اے امام رضا(ع)آپ نے ایک ایک کرکے میری تمام مشکلات کو حل کردیا ہے میری درخواست ہے کہ آپ میری اس مشکل کو بھی آسان کردیں!

اچانک مجھے یاد آیاکہ میرے پاس امام رضا (ع) کے لباس کا ایک ٹکڑا موجود ہے میں نے سوچا:

 امام رضا(ع) کا لباس ،لباس یوسف(ع)سے کم نہیں ہے اذن خدا سے جناب یوسف(ع)کاکرتا مس کرنے سے جناب یعقوب(ع)کی آنکھں  شفایاب ہو گئی تھیں ،کتنا بہتر ہوگا کہ میں امام کے متبرک لباس کو اپنی کنیز کی آنکھوں پر رکدتوں اگر مصلحت ہوئی تو یقینآً شفا ہو جائے گی۔

رات کو میں نے وہ کپڑا اپنی کنیز کی آنکھوں پر باندھ دیا، صبح جب میں نے کپڑے کو کھولا توآنکھوں میں درد و الم اور بیماری کا ذرہ برابر بھی اثر نہ پایا!

اب پھر سے میں امام رضا(ع)کی برکت سے زمین پر بت  خوش نصیب انسان ہو گیا تھا۔ 

۲۵

نماز باران

مجھ کو تو آپ پچا نتے ہی ہیں میں مامون ہوں(1) ، مامون عباسی ، یقیناً آپ کا دل مجھ سے راضی نہ ہوگا، بہر حال آپ کو ناراضگی کا حق بھی ہے چونکہ میں نے اپنے بھائی پر بھی رحم نہ کیا اور اس کو قتل کردیا ، اس سے برا یہ ہے کہ فرزند رسول اور انکے جانشین برحق یعنی شیعیوں کے آٹھویں امام ، امام رضا(ع) کو بھی زہر دے کر شہید کردیا، ان تمام جنایتوں اور دوسرے بہت سے گناہوں کا مرتکب میں اپنی قدرت اور حکومت کی وجہ سے ہوا ہوں ، حالانکہ میں دنیا میں اپنے گناہوں کا اعتراف نہیں کرتا تھا لیکن جو کچھ تھا وہ گذر گیا اور اب تمام باتیں سب پر روشن ہوگئی ہیں، لہذا اب چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ، جیسا کہ ایک مشہور کہاوت بھی ہے ”جب خدا سے چوری نہیں تو بندوں سے کیا چوری“۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ امام رضا(ع)کو مدینہ سے خراسان بلانا ، ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کرنا دھوکا ، مکاری اور عوام فریبی کے علاوہ کچھ نہ تھا ، میں چاہتا تھا کہ اس طریقہ سے ایک تیر سے کئی نشانے لوں، منجملہ یہ کہ 

امام رضا(ع) کو قریب سے اپنی زیر نظر رکھوں تا کہ یہ میری حکومت کے لئے کوئی مشکل پیدا نہ کرسکے ۔

دوسرے یہ کہ ایران کی عوام، خصوصاً خراسان کے لوگوں کو (کہ جو خاندان پیغمبرﷺ، خصوصاً امام رضاعلیہ السلامسے بہت زیادہ محبت رکھتے ہیں) دھوکہ دوں اور اپنی حکومت کو (کہ جو ان کی نظروں میں غیر شرعی و غیر قانونی ہے، بہ ظاہر امام رضا کو ولیعہد بنا کر)قانونی اور شرعی بنا کر پیش کروں اور اس طریقہ سے شیعوں کے احتمالی حملہ سے محفوظ ہو جاؤں ۔

میرا ایک اور مقصد یہ تھا کہ امام رضا(ع) کو اپنی غاصب اور ستمگار حکومت سے نسبت دے کر لوگوں کی نظروں سے گرا دوں اور اگر موقع ہاتھ لگے تو جیسے بھی ممکن ہو، خود آپ پر اور آپ کی علمی و معنوی منزلت پر ایسی ضرب لگاؤ¶ں کہ جس کا جبران نہ ہوسکے۔

---------------

(1):- اس واقعہ کے راوی بھی اباصلت ہیں لیکن ہم نے اس کو خود مامون کی زبانی بیان کیا ہے۔

۲۶

مجھ کو ایک موقع اس وقت ہاتھ لگا کہ جب امام رضا(ع)کے ولیعہدی قبول کرنے کے بعد مدتوں تک کوئی بارش نہ ہوئی اور میری حکومت میں سراسر خشکی اور خشکسالی کے آثار نمودار ہوئے ، جب کہ یہ خشک سالی کی مشکل معمولی تھی لیکن میں اور میرے ساتھیوں نے مشہور کردیا کہ جب سے امام رضا(ع) دنیا کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اورانہوں نے ولایت عہدی کو قبول کیا ہے خداوند عالم ان پر غصہ ہے اور ان سے ناراض ہے اسی لئے اس نے تمام لوگوں سے اپنی رحمت کو روک لیا ہے ۔

پھر بھی میں نے اس ضربت اور افواہ کو مکمل طریقہ سے اثر انداز بنانے کے لئے بظاہر خیرخواہانہ طور پر امام رضا(ع)سے التماس کی کہ ایک دن آپ لوگوں کے ساتھ جنگل جائیے اور نماز طلب باران پڑھئے تا کہ خداوند عالم اپنی رحمت سے بارش نازل کردے۔

میں بالکل مطمئن تھا کہ کسی بھی صورت میں بارش ہونا ممکن نہیں ہے ، میں نے سوچا کہ دومیں سے ایک حالت پیش آئی گی اور دونوں صورتوں میں یہ پیشنہاد امام (ع)کے لئے ایک جان لیوا حملہ ہوگی۔

۱۔ یا تو یہ کہ امام نماز باران پڑھنے کو قبول نہ کریں گے ، اس صورت میں ہم یہ بات پھیلائیں گے کہ امام رضا(ع)کو خوف تھا کہ کیںم ان کی دعا مستجاب نہ ہو، لہذا انھوں نے نماز باران پڑھنے سے انکار کردیا ۔

۲۔ یا پھر امام نماز باران پڑھنے کو قبول کرلیں اور خشکسالی کی وجہ سے بارش نہ ہو اس صورت میں بھی لوگوں کے در میان ان کی عزت و آبرو باقی نہ رہے گی اور ان کی امامت سے لوگوں کا اعتقاد اٹھ جائے گا!

لیکن امام(ع) نے بغیر کسی فاصلہ کے قبول کرلیا کہ لوگوں کے ساتھ جنگل میں جائیں گے اور نماز باران پڑھیں گے، میں نے امام سے پوچھا:

اے فرزند رسولﷺ ، کس وقت آپ نماز اور دعائے باران کے لئے نکلے گیں ؟

 آپ نے بلافاصلہ (جیسے کہ پہلے ہی سے اس نماز کے لئے پروگرام بنا چکے تھے) جواب دیا:

امام:پیر کے دن

۲۷

مامون: پیر کے دن!!ابھی کیوں نہیں ؟!

امام: کل رات میں نے اپنے جد امجد رسول خدا ﷺکو خواب میں دیکھا کہ آپ امیرالمؤ¶منین حضرت علی (ع) کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں :”پیر کے دن تک صبر کرواور جب پیر کا دن آئے تو نماز باران اور دعا کے لئے شہر سے نکل پڑو۔“

چونکہ ہم خواب پر یقین نہیں رکھتے تھے لہذا ہم نے قبول کرلیا اور منادی کرنے والوں سے کہا کہ شہر میں منادی کردیں کہ تمام لوگوں کو پیر کے دن امام رضا(ع) کی امامت میں نماز باران کے لئے نکلنا ہے تا کہ تمام لوگ امام(ع)کی دعا کے قبول ہونے کو مشاہدہ کرلیں!

جب پیر کا دن آیا اور لوگوں کا جمع غفیر امام رضا(ع)کے پیچھے بیابان کی طرف روانہ ہوا، آسمان بالکل صاف اور نیلا تھا ، بادل اور بارش کے کچھ آثار نظر نہ آرہے تھے!

ایسے حالات میں حمد پروردگار کے بعد امام نے آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کیا اورکہا:

”پروردگارا! تو نے اپنے رسول ﷺ کے خاندان کو بزرگی عطا کی ہے اور اب یہ لوگ تیرے فرمان کی بنا پر ہم سے متوسل ہوئے ہیں اور تیرے بے پایان فضل و رحمت اور احسان و نعمت کی امید رکھتے ہیں پس ہم پر رحمت کی بارش نازل کردے ، ایسی بارش کہ جسمیں فائدہ ہی فائدہ ہو اور کوئی نقصان نہ ہو ، لیکن معبود لوگوں کے گھروں کو پلٹنے کے بعد بارش نازل کر۔“

ابھی آپ کی تقریر کو چند منٹ بھی نہ گذرے تھے کہ سخت بجلی اور بادل آسمان میں ظاہر ہوگئے ، بہت تیز ہوا چلنے لگی اور بادل سروں پر آگئے ،لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہوگیا کہ جتنا جلد ممکن ہو اپنے گھروں کو پہنچ جائیں تا کہ بارش میں نہ بھیگنے پائیں، لیکن امام(ع) نے فرمایا:

۲۸

جلدی نہ کرو یہ بادل تمہاری سرزمین کے لئے نہیں ہیں یہ بادل فلاں منطقہ میں برسنے پر مإمور ہیں!

ایسا ہی ہوا ، وہ بادل آئے اور بغیر برسے چلے گئے پھر دوسرے بادل پہونچے پھر لوگ تیاریاں کرنے لگے کہ اٹھیں اور بھاگیں ، لیکن پھر امام(ع) نے ان کو جانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

یہ بادل بھی تمہاری سرزمین کے لئے نہیں ہیں ، یہ مامور ہیں کہ فلاں سرزمین پر برسیں!

اسی طرح بادلوں کے دس گروہ آئے اور بغیر برسے چلے گئے یہاں تک کہ بادلوں کے گیارہویں گروہ کے سرے نظر آنے لگے ۔ اس مرتبہ امام(ع) نے لوگوں سے خطاب کیا:

ان بادلوں کو خدائے مہربان نے تمہارے لئے بھیجا ہے ، اسکے فضل و کرم کا شکریہ ادا کرو اور اب اپنے گھروں کی طرف پلٹ جاؤ ، چونکہ جب تک تم لوگ اپنے گھروں کو نہ پہونچ جاؤ¶گے تب تک بارش نہیں ہوگی۔

بالکل ایسا ہی ہوا!جیسا ہی لوگ اپنے گھروں کو پہونچے ، ایسی بارش ہوئی کہ تمام حوض اورگڑھے اور نہر یں میں پانی سے بھر گئیں۔

اگر چہ میں غصے اور حسد سے جل رہا تھا پھر بھی میں نے امام رضا(ع)کے سامنے مسرت و خوشی کا اظہار کیا لیکن باطن میں دوسری فرصت تلاش کرنے لگا تا کہ ان سے اپنے دل کی بھڑ اس نکال لوں۔

--------------

(1):- عیون اخبار الرضا ، ج2 ، ص 167.

۲۹

شیروں کا زندہ ہونا

ایک دن ”حمید بن مہران“ نے مجھ سے کہاکہ:   

اے مامون ہر روز علی ابن موسی الرضا(ع) کی محبت لوگوں کے دلوں میں بڑھتی جارہی ہے تم اس کو کس طرح برداشت کررہے ہو؟!اس بارش کو تو اس دن برسنا ہی تھا چاہے وہ نماز باران پڑھتے یا نہ پڑھتے تم لوگوں کو کیوں اجازت دے رہے ہو کہ وہ اس بارش کو علی ابن موسی الرضا(ع) کا معجزہ اور کرامت شمار کریں؟

مامون نے دلچسپی سے پوچھا: تمہارا پروگرام کیا ہے؟

حمید:تم ایک مجلس کا پروگرام رکھو تا کہ میں تمام حاضرین کے سامنے ان کی توہین کروں اور سب کو یہ سمجھادوں کہ یہ معجزہ نہیں دکھا سکتے اور اس بارش کا ان کی دعا اور نماز سے کوئی ربط نہیں ہے۔

مامون:میں احمق بھی بالکل گدھا بن گیا اور وہی کام کر بیٹھا جو حمید بن مہران چاہتا تھا، حمید بن مہران ایک بہت بڑا جادوگر تھا لہذا اس نے سب سے پہلے فن جادوگری کے ذریعہ دستر خوان پر امام سے کچھ چھیڑ چھاڑ کی (کھانا کھاتے وقت لقمہ کو امام رضا (ع)کے ہاتھ سے غائب کردیا )یہ دیکھ کر حاضرین ہنسنے لگے امام رضا(ع) حمید بن مہران کی ان حرکتوں سے ناراض 

ہوگئے لیکن آپ کے ما تھے پر بل نہ پڑے یہاں تک کہ حمیدنے حد سے زیادہ بے ادبی کی اور تمام حاضرین کے سامنے بلند آواز سے کہا:

اے علی بن موسی(ع) تم اپنی حد سے تجاوز کرچکے ہو اور وہ بارش جو خداوند عالم نے وقت معین میں نازل کی ہے اس کو اپنی دعا کا اثر سمجھتے ہو اور لوگوں سے کہتے ہو کہ میں خدا کے نزدیک صاحب عزت وبا عظمت ہوں اور جب گفتگو کرتے ہو تو اس

۳۰

طرح کہ جیسے تم نے ابھی ابھی ابراہیم خلیل اللہ کے معجزہ کی تکرار کی ہے کہ انھوں نے پرندوں کو اذن خدا سے زندہ کیا تھا اگر تم سچے ہو تو ان دو شیروں کو کہ جو مامون کی قالین پر نقش ہیں حکم دو کہ زندہ ہو کر مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ، اگر تم نے یہ کام کردیا تو یہ معجزہ مانا جائے گانہ یہ کہ ہم اس  بارش کو معجزہ مانیں جو کہ معمول کے مطابق ہوئی ہے۔

اس وقت امام رضا(ع) کو غصہ آگیا اگرآپ اس حساس موقع پر معجزہ نہ دکھاتے تو در حقیقت آپکی امامت پر حرف آجاتا اس لئے آپ نے شیروں کی تصویر کی طرف دیکھا اور کہا:

اس مرد فاسق و فاجر کو پکڑلو۔

 اچانک ان شیروں کی تصویر میں جان آگئی وہ قالین سے مجسم ہو کر دوڑے اور وحشتناک طریقے سے بدبخت حمید بن مہران کی جان پر ٹوٹ پڑے اور اس کے حرکت کرنے سے پہلے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے سب کے سامنے کھا گئے یہاں تک کہ زمین پر جو اس کا خون گرا تھا اس کو پی گئے اور اس کا کوئی نشان بھی باقی نہ چھوڑا!

حاضرین بری طرح ڈرگئے تھے اورکوئی بھی بولنے کی طاقت نہ رکھتا تھا یہاں تک کہ میں بھی!

لیکن اصلی حادثہ تو اس وقت پیش آیا کہ جب دونوں شیر امام رضا(ع)کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اپنے سر کے ذریعہ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے امام سے پوچھا :

اے ولی خدا! اگر آپ حکم دیں تو اس شخص (مامون)کو بھی اس کے دوست سے ملحق کردیں۔

بس اب کیا تھا میں نے اپنی فاتحہ پڑھ لی ، عزرائیل کو غصہ سے بھرے ہوئے دو درندہ شیروں کی شکل میں دیکھ لیا اور خوف کی شدت سے بے ہوش ہوگیا!

لیکن امام رضا(ع)نے ان شیروں سے کہا کہ :

خداوند عالم خود اسکے بارے میں فیصلہ کریگا اب تم اپنی پرانی جگہ اور حالت پر پلٹ جاؤ¶۔

۳۱

جب میں ہوش میں آیا تو حکومت کو امام رضا(ع) کو بخش دیا اورآپ کی طرف رخ کرکے ہانپتے اور لرزتے ہوئے کہا:

 شکر پروردگار کے ہم کو حمید بن مہران کے شر سے محفوظ رکھا۔ اے فرزند رسول آج میں بہت اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ یہ حکومت اور خلافت آپ اور آپ کے خاندان سے متعلق ہے ، اب جو آپ پسند کریں۔(اب جو چاہیں کریں)

امام نے میری بات کو کاٹتے ہوئے کہا:

اے مامون ! اگر مجھے اس خلافت سے کوئی لگاؤ ہوتا تو میں تم سے بحث و مباحثہ کرنے نہ بیٹھتا، چونکہ خدا کی تمام مخلوقات اسکے اذن سے میرے اختیار میں ہیں لیکن میں خداکی طرف سے مامور ہوں کہ تمہارے کام میں دخل اندازی نہ کروں(تمہارے کام سے مطلب نہ رکھوں)۔

--------------

(1):- عیون اخبار الرضا ، ج2، ص 170.

۳۲

بادشاہ ہند کے تحفے

ایک بہت دلچسپ اور درس آموز واقعہ امام رضا(ع)نے مجھ سے بیان کیا میں بھی چاہتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں۔

امام رضا(ع): میرے بابا موسی بن جعفر(ع) فرماتے ہیں کہ:

ایک دن میں اپنے بابا امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ ایک دوست اندر آیا اور کہا:

بہت سے سوار دروازے پر کھڑے ہیں اور امام صادق (ع)سے ملاقات کی اجازت چاہتے ہیں۔

بابا نے میری طرف رخ کیا اور کہا:

بیٹا دیکھو دروازے پرکون لوگ ہیں:

جب میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ سامنے ایک بڑا کاروان ہے کہ جس میں کچھ اونٹ ہیں کہ جنکی پشت پر مال سے بھرے ہوئے صندوق لادے گئے ہیں اور بہت سارے سوار بھی انکے ہمراہ ہیں،ان کا فرمانروا آگے آگے ایک خوبصورت اور سجے ہوئے اونٹ پر سوار تھا۔

امام کاظم(ع): تم کون ہو اور کیا کام ہے؟

جب میں نے یہ پوچھا تو اس نے جواب دیا:

میں ہندوستان سے ہوں اور امام صادق (ع)سے ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں۔

امام کاظم(ع):جب میرے بابا نے یہ سنا تو غصے سے بھڑک اٹھے اور فرمایا:

اس نجس نامرد، خیانتکار کو داخل ہونے کی اجازت نہ دو!

۳۳

مرد ہندی ایک طولانی مدت تک دروازے پر کھڑا رہا لیکن داخل ہونے کی اجازت نہ ملی یہاں تک کہ اس نے سلمان کے بیٹے یزید اور محمد کو وسیلہ بنایا کہ یہ دونوں میرے بابا کی خدمت میں آتے رہتے تھے۔

جب مرد ہندی امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو زانوئے ادب تہہ کرکے بہت ہی مودبانہ انداز میں شکوہ کیا:

خدا امام کے کاموں کی اصلاح فرمائے ، میں ہندوستان کا رہنے والا ہوں اور وہاں کے بادشاہ کا قاصد ہوں اور اس کی طرف سے آپکے لئے کچھ قیمتی ہدیے اور ایک خط لے کر آیا ہوں ، اب آپ یہ بتائیں کہ میری کیا خطا ہے کہ آپ نے مجھ کو دروازے پر کھڑے رکھا اور اندر آنے کی اجازت نہ دی ، کیا پیغمبر اکرمﷺ کے فرزند مہمانوں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے ہیں؟

امام نے لوگوں کی طرف دیکھا اور کہا:

وَلََتَعلَمَنَّ نَبَّاهُ بَعدَ حِینٍ (1)

بہت جلدہی تم اسکے بارے میں جان لو گے۔

امام نے پھر سے فرمایا:

اے میرے بیٹے موسی(ع) ، اس سے خط لے لو اور اس کو کھولو۔

خط کا مضمون یہ تھا:

--------------

(1):- سورہ ص (38) ، آیت 88.

۳۴

بسم الله الرحمن الرحیم

بہ خدمت جعفر بن محمد طاہر و مطہر

از طرف بادشاہ ہند

اما بعد، خداوند عالم نے مجھے آپ کے ذریعہ ہدایت عطا فرمائی ، مجھے ایک ایسی کنیز ملی ہے کہ میں نے اپنی تمام عمر میں کسی عورت کو اس سے خوبصورت نہیں دیکھا ہے ، میں نے سوچا کہ آپ کے علاوہ کسی میں صلاحیت نہیں ہے کہ اس کا مالک بنے ،

میں کچھ زیورات ، جواہرات اور خوشبو دار عطر کے ساتھ اس کنیز کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں، میں جانتا ہوں کہ اتنی قیمتی اور عمدہ چیزہر کسی کے حوالہ نہیں کی جاسکتی لہذا میں نے اپنے وزیروں کو جمع کیا اور ان کی مدد سے ایک ہزار امین لوگوں کو چنا اس کے بعد ان ایک ہزار میں سے سو کو انتخاب کیااور پھر اس کے بعد ان سو میں سے دس لوگوں کو منتخب کیا اور پھر آخری مرحلہ میں ان دس میں سے میزاب بن حباب نامی ایک شخص کو چنا کہ میرے نزدیک اس سے زیادہ کوئی امین نہ تھا، تب کہیں اس خوبصورت اور چاندسی عورت کو میں نے اس کے حوالہ کیا تا کہ اس کو آپ تک پہنچادے۔

خط کا مضمون سنانے کے بعد امام نے مرد ہندی کی طرف رخ کرکے غصہ اور نفرت کی انداز میں فرمایا :

اے خیانتکار پلٹ جا اور بادشاہ ہند کے تمام تحفوں کو واپس لے جا، میں حتماً اس میں سے کچھ بھی قبول نہ کروں گا چونکہ تو نے اس میں خیانت کی ہے!

مرد ہندی نے یہ حالات دیکھے تو قسم کھاکر خیانت کا انکار کرتے ہوئے کہا:

خدا کی قسم ، بزرگوں کی قسم، پیغمبرﷺکی قسم میں نے کوئی خیانت نہیں کی ، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ مجھ بے گناہ کے بارے میں ایسا برا خیال کیوں کر رہے ہیں ؟

۳۵

لیکن میرے پدر بزرگوار علم امامت سے ہر چیز جانتے تھے ، آپ نے بڑے سرد لہجہ میں فرمایا :

اگر تیر ا کوئی لباس گواہی دے کہ تو نے خیانت کی ہے تو کیا تو اسلام کو قبول کرلے گااور گواہی دیگا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں؟

لیکن اس مرد بدبخت نے دنیا اور آخرت کی تمام نیکیوں کو ٹھکڑاتے ہوئے کہا: مجھے اس کام سے معاف کیجئے۔

امام صادق(ع): اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو میں تمہاری خیانتکاری کو بادشاہ ہند کو لکھوں گا تا کہ وہ خود تمہارے بارے میں فصلہ  کرے۔

میزاب(مرد ہندی): میں نے کوئی خیانت نہیں کی ہے لیکن اگر آپ(ع) کو کوئی خبر ہے تو بادشاہ کو لکھ دیجئے۔

میزاب کے بدن پر ایک کوٹی تھی ، امام نے میزاب سے کہا :

اس کوٹی کو اتارو !

میزاب نے غفلت اور بے خیالی کے ساتھ اپنی کوٹی کو اتار ا اور زمین پر پھینک دیا،میرے بابا(امام صادق(ع)) نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور نمازکے آخری سجدہ میں دعا کی:

پروردگار تجھے تیری عزت اور کمال رحمت کا واسطہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد اور آل محمد پر دورد بھیج اور میزاب کی کوٹی کو حکم دے کہ وہ بولے اور جو کام اس نے انجام دیا ہے عربی زبان میں اس کو سب کے سامنے بیان کرے تا کہ ہمارے تمام دوست جو اس مجلس میں جمع ہیں وہ سب سنے اور یہ اہلبیت پیغمبرﷺ کے معجزات میں شمار ہو اور دوستوں کے ایمان میں اضافہ کا سبب بنے ۔

میرے پدر بزگوار (امام صادق (ع)) نے سجدہ سے سر اٹھایا ، کوٹی کی طرف رخ کرکے فرمایا:

اے کوٹی تو میزاب کے بارے میں جو کچھ جانتی ہے بیان کر۔

۳۶

سب نے کمال تعجب سے دیکھا کہ کوٹی ہل کر ایک پرندہ کے صورت میں تبدیل ہوگئی اور بولنا شروع کیا :

اے فرزند رسولﷺ ، بادشاہ ہند نے اس شخص پر اعتماد کیا ، کنیزکو دوسرے اموال کے ساتھ اس کے سپرد کردیا تا کہ آپ تک پہونچادے اور ان کی حفاظت کے بارے میں اس کو بہت تاکید کی ، جب ہم ایک جنگل میں پہونچے ، تو موسلا دھار بارش ہونے لگی جو کچھ بھی ہمارے ساتھ تھا سب بھیگ گیا بارش بند ہوئی تو اس مرد نے اس کنیز کے ”بُشر “نامی خادم کوبلاکر کچھ درہم اس کو دئے اور کہا :”نزدیک کے شہر میں جاؤ اور ہمارے لئے کھانے کا کچھ انتظام کرو “۔

پھر میزاب نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ دھوپ میں اس کنیز کے لئے خیمہ لگاؤ، جب خیمہ تیار ہوا تم میزاب نے کنیز کو حکم دیا کے اس خیمہ میں داخل ہو جاؤ اور اپنا لباس تبدیل کرکے خشک کر لو ، تمام زمین پانی سے گیلی تھی ، اس کنیز نے اپنے کپڑے کو کچھ اوپر اٹھایا اور خیمہ میں وارد ہوئی ، عین اسی وقت میں میزاب کی نگاہیں اس کنیز کے برہنہ پیروں پر جا پڑیں ، میزاب پر شہوت طاری ہوئی اور وہ خیمہ میں داخل ہو گیااور کنیز کے ساتھ زنا کیا ، کنیز کو یہ بات بری نہ لگی اور اس نے میزاب کی خواہش کو پورا کردیا، اس طریقہ سے اس مرد ہندی میزاب نے آپ کے ساتھ خیانت کی ہے۔

میزاب نے جب یہ منظر دیکھا تو خود کو زمین پر گرا دیا ، رونے لگا اور کہا :

میں نے غلطی کی ، خطا کی میں اپنی خطا کا اقرار کرتا ہوں اورآپ سے رحم کا طلب گار ہوں ۔

امام کے اشارہ سے کوٹی اپنی پرانی حالت پر پلٹ گئی۔ امام نے میزاب سے کہا:

اپنی کوٹی اٹھااور پہن لے۔

جیسے ہی میزاب نے کوٹی کو اٹھا کر پہننے کے ارادہ سے کاندھے پر رکھا، کوٹی کی آستینںن میزاب کی گردن میں لپٹ گئیں اور اس کے گلے کو دبانا شروع کیا ، یہاں تک کے اس کا چہرہ کالا ہو گیا اور مرنے میں کچھ باقی نہ تھا کہ امام (ع)نے کوٹی کو مخاطب کر کے کہا:

اے کوٹی اس کو چھوڑ دے تا کہ یہ اپنے بادشاہ کے پاس واپس چلا جائے اور وہ خود اس کے بارے میں فیصلہ کرے ۔

۳۷

میزاب لرز رہا تھا اور خوف و وحشت کے آثار اس کے چہرہ پر نمایان تھے اس نے امام(ع) سے عرض کیا :

خدا مجھ پر رحم کرے ، اگر آپ نے بادشاہ ہند کے تحفے واپس کردئے تو مجھے ڈر ہے کہ بادشاہ مجھ پر غصہ ہو اور مجھے سزا دے ، وہ بہت سخت سزا دیتا ہے !

امام چاہتے تھے کے اس کو نجات مل جائے ، لہذا آپ نے فرمایا: اسلام قبول کرلو تا کہ میں کنیز تم کو بخش دوں اور تم اس شادی کرلو۔

لیکن اس بدبخت نے غرور اور تعصب کی بنا پر کہا :

میں آپ سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں مجھے اس کام سے معاف رکھئے !

امام نے تحفوں کو قبول کیا لیکن کنیز کو واپس کردیا کچھ مہینے بعد بادشاہ ہند کا خط امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہونچا جس کا مضمون یہ تھا:

بسم الله الرحمن الرحیم

بخدمت امام جعفر صادق بن محمد علیہما السلام

از طرف بادشاہ ہند

امابعد میں نے ایک کنیز ہدیہ کے طور پر آپکی خدمت میں بھیجی تھی لیکن جن تحفوں کی کوئی قیمت نہ تھی ، ان کو آپ نے قبول کرلیا اور جو کنیز میری نظر میں تمام تحفوں سے قیمتی تھی اس کو آپ نے واپس کردیا! آپ کے اس کام سے میرا دل ٹوٹ گیا تھا لیکن میں جانتا تھا کے اللہ کے پیغمبرﷺ اور ان کی اولاد بہت زیادہ ذہین ہوتے ہیں اس لئے میں نے اپنے قاصد کو خیانت کار سمجھا ، میں نے اپنی طرف سے ایک خط لکھا اور اپنے قاصد میزاب سے کہا کہ یہ خط امام(ع)کے طرف سے مجھے ملا ہے

۳۸

اور امام نے مجھے تیرے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے اور میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تم سچ سچ نہ بتادو تب تک تم کو نجات نہیں مل سکتی ۔

 میری اس چالاکی کے ذریعہ میزاب اور کنیز دونوں نے اپنی خیانت کا اقرار کرلیااور کوٹی کا واقعہ بھی مجھ سے بیان کیا کہ جو میرے تعجب اور ایمان میں اضافہ کا سبب بنااور میں نے ان دونوں خیانت کاروں کو قتل کردیا ۔

جان لیجئے کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ پروردگار کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے کہ جو اکیلا اور بے مثل ہے اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، ان شاءاللہ اس خط کے بعد میں بھی آپ کے خدمت میں حاضر ی دوں گا ۔

کچھ دنوں بعد بادشاہ ہند نے بادشاہی کو چھوڑ دیا اور اپنے تمام وجود کے ساتھ اسلام کا عاشق وگرویدہ ہو گیا!

--------------

(1):-  بحار الانوار ، ج 47 ، ص 113  115، بہ نقل از الخرائج و الجوارح ، ص 199.

۳۹

عصمت انبیاءکے بارے میں امام رضا علیہ السلام    کا مناظرہ

اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ مامون نے امام رضاعلیہ السلام کے مقام علمی و معنوی پر ضرب لگانے کے لئے ہرممکن فریب و مکاری کو  استعمال کیا ۔ اسکا ایک حیلہ اور مکر یہ تھا کہ تمام مذاہب و ادیان کے علماء اور دانشمندوں کو دعوت دیتا تھاوعلمی اور دینی مناظرات کی محافل منعقد ہوتی تھی جن میں تمام مذاہب کے علماءکے مقابل میں امام رضا (ع) ہوتے تھے ان تمام مناظروں میں جو لوگ بھی امام(ع) سے بحث کرتے تھے سب کو شکست فاش ہوتی تھی اور سب شرمندہ ہوتے تھے، ایک روز مناظرے میں علی بن محمد بن الجہم اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے بہت ادب کے ساتھ اسلام کے مختلف فرقوں کے علماءاور علماءیہود ، علماءمسیحی ، علماءزرتشتی گویا تمام مذاہب کے علماءکے سامنے اپنا سوال بیان کیا۔

علی ابن محمد بن الجہم : عصمت انبیاءکے بارے میں آپکا کیا نظریہ ہے ؟

کیا آپ ان سب کو معصوم سمجھتے ہیں؟

علماء: ہاں ہم ان سب کو معصوم مانتے ہیں۔

علی بن محمد بن الجہم: پس آپ ان آیات کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ جن سے انبیاءکی عصمت پر اعتراض ہوتا ہے جیسا کہ خداوند قرآن کریم میں فرماتاہے:

﴿وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى﴾

آدم نے اپنے رب کی معصیت کی اور وہ گمراہ ہوگئے۔(۱)

--------------

(1):- سورہ طہ (20)، آیت 121.

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131