امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت0%

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت مؤلف:
زمرہ جات: امام رضا(علیہ السلام)
صفحے: 131

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حسین صبوری
زمرہ جات: صفحے: 131
مشاہدے: 54923
ڈاؤنلوڈ: 4127

تبصرے:

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 131 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54923 / ڈاؤنلوڈ: 4127
سائز سائز سائز
امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ سن کر راہب کے چہرے کا خوف و وحشت کا پیلاپن ختم ہو گیا اور اس کا چہرا کچھ کھلا ہوا نظر آنے لگا ، اس نے ایک گہری سانس لی اور ہم سے بالکل قریب ہو کرگذارش کرتے ہوئے کہا:میری التماس ہے کہ آپ مجھے اپنے مولیٰ کے پاس لے چلیں ، آپکو خدا کا واسطہ میری درخواست کو قبول کرلیجےل۔

ہم نے راہب کی التماس کو قبول کیا اورحضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پاس لے آئے۔

حضرت (ع)نے جیسے ہی راہب کو دیکھا خندہ پیشانی کے ساتھ فرمایا:

شمعون تم!....

راہب نے حیرت زدہ ہو کر جواب دیا:

ہاں میں شمعون ہوں یہ وہی نام ہے جو میری ماں نے رکھا تھا اور خدا وند عالم کے علاوہ کوئی میرا نام نہیں جانتا ،میں نہیں جانتا کہ آپ کو میرا نام کہاں سے معلوم ہوا لیکن اگر آپ واقعاً و صی پیغمبرﷺ ہیں تو پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔

اب آپ سے میری گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے معجزہ کو مکمل کر دیجےآ تا کہ آپ کی وصایت و ولایت پر میرا ایمان کا مل ہو جائے ۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

اے شمعون ! تم کیا چاہتے ہو؟

شمعون نے کہا:

میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ کونسا چشمہ ہے اور اس کا نام کیا ہے؟

امام علی علیہ السلام نے جواب دیا:

۶۱

اس چشمے کا نام ”راحوما“ہے اور یہ بہشت کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے اب تک ۳۱۳ پیغمبروں (ع)کے جانشین اس چشمہ کا پانی پی چکے ہیں اور میں آخری وصی ہوں کہ جس نے اس چشمہ کا پانی پیا ہے چونکہ پیغمبر آخر محمد مصطفٰےﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور میں انکا وصی ہوں۔ راہب کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ تمام عمر انتظار،تلاش و کوشش کے بعد اب اس کو اسکی کھوئی ہوئی چیز واپس مل گئی ہے ، اس نے بڑے شوق سے کہا :

میں نے انجیل میں یہی پڑھا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور تم محمدﷺکے وصی وجانشین ہو۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلامکے لشکر کا عابدین نامی جگہ پر معاویہ کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو سب سے پہلے مولائے کائنا ت کی طرف سے شمعون نے جام شہادت نوش کیا۔

جب آپ کو شمعون راہب کی شہادت کی خبر ملی تو آپ اس کے احترام میں گھوڑے سے اتر گئے اور روتے ہوئے فرمایا:

جو شخص جس کو دوست رکھتا ہے قیامت کے دن اس کا حساب اسی کے ساتھ ہوگااور یہ راہب قیامت کے دن جنت میں ہمارا دوست اور پڑوسی ہوگا۔(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 33 ، ص 39-40، بہ نقل از امالی شیخ صدوق ص 155 ، حدیث 14 از مجلس 44.

۶۲

جنت کے پھول اور سنبل

اس واقعہ کو امام رضاعلیہ السلام نے مجھ (اباصلت)سے اپنے اجداد کو واسطہ قرار دیتے ہوئے بیا ن کیا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:(1)

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے ساتھ میری شادی کو ابھی زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ ایک روزمیں حضرت رسولخداﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، یہ دن دوسرے دنوں سے کچھ الگ تھا چونکہ اس دن پیغمبرﷺ زیادہ خوشحال نظر آرہے تھے !

جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو آپ نے فرمایا:

آج میرے پاس تمہارے اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کے لئے ایک خوشخبری ہے۔

میں نے شوق سے پوچھا :

خوشخبری؟کون سی خوش خبری؟

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

تمہاری اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شادی کے بعد سے مجھے تم دونوں کی ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ فکر رہتی تھی آج خدا نے میری وہ فکر دور کر دی ہے۔

امام علی علیہ السلامنے سوال کیا:

یا رسول اللہ ﷺ! وہ کس طرح؟

--------------

(1):-  جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت اگر چہ مستقیما حضرت امیر المؤمنین سے مربوط ہے ، لیکن چونکہ اس کو اباصلت نے امام رضا(ع) سے سنا ہے اور نقل کیا ہے لہذا یہ (خاطرات اباصلت از امام رضا (ع)میں شامل ہے) اور اسی وجہ سے ہم نے یہاں پر اس کو ذکر کیا ہے۔

۶۳

رسول خداﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور آہستہ آہستہ مہربانی کے ساتھ اپنی طرف کھینچااور اپنے پاس بیٹھا تے ہوئے فرمایا:

 آج جب جبرئیل میرے پاس آئے تو جنت کے پھول کی دو شاخ ساتھ لے کر آئے تھےایک سنبل کی اور دوسرے گل نار کی!میں نے پھولوں کو لیا اور سونگھا،پھول بہت زیادہ خوشبودار اور خوبصورت تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا:

اے جبرئیل !ان پھولو ں کے لانے کا کیا مقصد ہے؟

جبرئیل نے جواب دیا:خدا وند عالم نے تمام فرشتوں اور اہل بہشت کوحکم دیا ہے کہ جنت کے درختوں،نہروں،قصروں، گھروں،مکانوں ،کمروں کو جتنا ممکن ہو سکے سجائںں اور خوبصورت آنکھو ں والی حوروں کو حکم دیا ہے  کہ سب مل کرحمعسق (1) ،یٰس (2) اورطٰه ٰ (3) کو بہترین لحن کے ساتھ پڑھںہ ،پھر ایک ندا کرنے والے نے ندا کی:

خدا وند عالم فرماتا ہے: میں نے فاطمہ سلام اللہ علیھا بنت محمد کی شادی علی ابن ابی طالب علیہ السلامکے ساتھ کر دی ہے ۔

پھر خدا وند عالم نے ایک بادل کو حکم دیا کہ اس جشن میں شامل ہونے والوں پر ہیرے،یاقوت،مروارید ،سنبل اورگل نار کی بارش کرو!

جبرئیل نے رسول اکرم سے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ!یہ سنبل اور گل نار ان چیزوں میں سے ہیں جو فرشتوں کے سروں پر نثار ہوئے ہے۔(4)

--------------

(1):- سورہ شوری(42)، آیات 1 و 2.

(2):- قرآن کا 36 واں سورہ.

(3):- قرآن کا 20 واں سورہ، البتہ اس روایت میں اس سورہ کا نام موجود نہیں ہے، لہذا چونکہ دوسری روایت میں اس سورہ کا نام بھی آیا ہے لہذا ہم نے اس سورہ کا نام ذکر کردیا ہے.

(4):- بررسی زندگی عبدالسلام بن صالح اباصلت ہروی، ص 100-101 ، بہ نقل از دلائل الامامة ، ص 19 و مسند فاطمة (س) ، ص 186.

۶۴

معراج

یہ ماجرامجھ(اباصلت)سےامام رضاعلیہ السلامنےحضرت امیرالمؤمنینعلیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے رسول خداکی زبانی بیان کیا ہے۔

 رسول اکرمﷺ نے واقعہ معراج کو اس طرح بیان کیا ہے:

جب مجھ کو معراج پر لیجایا گیا تو جبرئیل نے اذان و اقامت کہی اور ہر جز ءکی دو ،دو مرتبہ تکرار کی اسکے بعد مجھ سے کہا:

اے محمدﷺ! نماز کے لئےآگے بڑھئے۔

میں نے تعجب سے پوچھا:

یعنی میں تم سے آگے بڑھوں ؟

جبرئیل نے جواب دیا:

جی ،ہاں آپ مجھ سے آگے بڑھ جائیے چونکہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبروںﷺ کو فرشتوں پر فضیلت عطا کی ہے اور خصوصاً آپ کو توتمام انبیاءﷺپر فضیلت عطا کی ہے ۔

 میں آگے بڑھا اور تمام فرشتوں نے میری اقتدا کی لیکن میں نے اسکے بعد بھی غرور و تکبر نہیں کیا، نماز تمام ہونے کے بعد ہم آگے بڑھے ۔

جب ہم نور کے پردوں میں پہونچے تو جبرئیل نے کہا:

آپ چلتے رہیں، آگے بڑھیں یہ کہکر جبرئیل خود پیچھے ہٹ گئے۔

میں نے جبرئیل سے کہا :ایسے موقع پر مجھے تنہا چھوڑ دوگے؟

جیسے ہی میں نے یہ بات کہی ،جبرئیل نے جواب میں کہا :

خدا وند عالم نے اس جگہ کو میری آخری حد قرار دیا ہے اگر میں اس سے آگے بڑھنا چاہوں تو خدا وند عالم میرے بالوں و پر جلا دے گا۔

۶۵

بہر حال اس گفتگو کے بعد میں آگے بڑھا اور اس اعلی مقام تک پہونچ گیا جہا ں خدا وندعالم چاہتا تھا،پروردگار عالم کی آواز آئی :اے محمد !(ص)

میں نے جواب دیا: لبیک اے پروردگار،تو بلند مرتبہ اوربزرگ مقام والاہے۔

جب میں نے یہ کہا تو آواز آئی:

اے محمدﷺ! تو میرا بند ہ ہے اور میں تیرا پروردگار ہوں پس تو میری عبادت کر اور مجھ پر بھروسہ کر ،تو میرے بندوں میں میرانور،میری مخلوق کے درمیان میرارسول، اور میری مخلوقات پر میری حجت ہے میں نے تیرے اور تیری پیروی کرنے والوں کے لئے جنت اور تیرے مخالفین کے لئے جہنم کو پیدا کیا ہے اورتیرے جانشینوں کے لئے اپنے احترام اور ان کے شیعوں کے لئے اپنے ثواب کو واجب قرار دیا ہے۔

میرے دل میں شوق پیدا ہوا اور میں نے یہ جاننے کے لئے کہ میرے اوصیا اور جانشین کون لوگ ہیں ، سوال کیا:

پروردگار میرے اوصیاءو جانشین کون لوگ ہیں؟

خداوند عالم کی آواز آئی کہ:

اے محمدﷺ! تیرے اوصیا کے نام میرے عرش کے پائے پر لکھے ہوئے ہیں۔

جب میں نے عرش کی طرف نگاہ کی تو چودہ نور نظر آئے کہ ہر نور میں ایک سبز رنگ کی سطر موجود تھی اور اس سطر پر میرے اوصیا میں سے ایک وصی کا نام (کہ ان میں سے پہلے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلاماور آخری مہدی(عج) ہیں)لکھا ہوا تھا۔ میں نے  درگاہ خداوند میں عرض کیا:

۶۶

معبود ! کیا یہ میرے بعد میرے اوصیاءہونگے؟

آواز پروردگار آئی:

اے محمدﷺ! یہ بارہ (کے بارہ امام(ع) معصوم)تیرے بعد میری مخلوقات کے در میان تیرے جانشین و دوست اور میرے برگزیدہ و حجت قرار پائیں گے۔

مجھے اپنے عزت و جلال کی قسم میں اپنے دین کو ان کے وسیلے سے کامیاب کرونگا اوران کے ذریعہ اپنے کلمہ کو بلند کرونگا اور ان اوصیا میں سے آخری وصی کے ذریعہ زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کرونگا اور دنیا کا مشرق و مر ب اسکے اختیار اور حکومت میں دیدونگا، ہواؤں کو اس کا فرمانبردار بنادونگا اور وزنی بادلوں کو اسکے سامنے ذلیل و خوار کردونگا،اس کو آسمانوں کی سیر کراؤ¶نگا۔ اپنے لشکر اور فرشتوں کے ذریعہ اسکی مدد کرونگا،تا کہ وہ میری دعوت کو تمام دنیا کے سامنے ظاہر کردے اور مخلوق کو توحید پرستی پر جمع کردے ، اسکے بعد اسکی حکومت کو آگے بڑھاؤ¶نگا اور قیامت تک اپنے اولیاءمیں سے ایک کے بعد دوسرے کے اختیار میں دیتا رہونگا۔(1)

--------------

(1):- عیون اخبار الرضا، ج 1 ، ص 541.

۶۷

قید خانہ یا عبادتگاہ؟!

امام رضا علیہ السلام نے اپنی زندگی کی ایک مدت سرخس کے ایک بہت تنگ اور ایسے قید خانہ میں گذاری ہے کہ جس میں فقط ایک انسان کے رہنے کی گنجائش تھی اور وہ بہت تاریک تھا، اس وقت میں نے سوچا کہ میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں آپ سے ملاقات کروں۔

میں قید خانہ آیا اور قید خانہ کے دربان سے امام سے ملاقات کرانے کی درخواست کی لیکن اس نے اجازت نہ دی اور کہا:

کسی بھی صورت میں تم ان سے ملاقات نہیں کرسکتے!

جب میں نے اسکے چہرے پر رعب کے ساتھ(1) نگاہ ڈالی تو اس نے اپنے لہجے کو بدلتے ہوئے کہا:

ایسا نہیں ہے کہ میں تم کو ملاقات کی اجازت نہیں دینا چاہتا بلکہ خود انکے پاس وقت نہیں ہے کہ کسی سے ملاقات کریں!

یہ بات میرے لئے بہت عجیب تھی میں نے کہا:

یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ملاقات کا وقت نہ رکھتے ہوں ؟!

ایک قیدی قید خانہ میں کیا کرتاہے کہ اس کے پاس ایک مختصرسی ملاقات کا بھی وقت نہیں ہے؟!

قید خانہ کے دربان نے جواب دیا:

میرا خیال ہے کہ وہ ہر شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے ہیں۔ یہ ایک ہزار نماز ان نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے جو آپ ہر روز طلوع آفتاب،زوال آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت پڑھتے ہیں وہ ان اوقات میں ہمیشہ اپنے مصلی پر ہوتے ہیں اور اپنے خدا سے راز و نیاز کرتے ہیں!

--------------

(1):- (رعب کے ساتھ ) یہ عبارت اباصلت کی روایت میں موجود نہیں ہے ہم نے اس کو اقتضاء حالکی بنا پر بڑھایا ہے۔

۶۸

میں نے قید خانہ کے دربان سے کہا کہ تم مجھ پر یہ احسان کردو کہ آقا سے میرے لئے انھیں اوقات میں سے کسی وقت ملاقات کے لئے وقت لے لو۔

دربان اندر گیا امام (ع)سے اجازت طلب کی اور میں قید خانہ میں داخل ہو گیا۔

آپکی آنکھیں کوئی برا دن نہ دیکیں)،ان نامردوں نے امام کو زنجیر وطوق سے جکڑاہوا تھا!امام (ع)محراب عبادت میں بیٹھے ہوئے کچھ سوچ رہے تھے۔ جب میں نے امام (ع)کو اس حال میں دیکھا تو میری آنکھوں میں آنسوں آگئے ، لیکن میں نے کوشش کی کہ خود کنٹرول کروں اس وقت حکومت نے لوگوں کے در میان ایک افواہ پھیلائی ہوئی تھی ، میرا اہم کام یہ تھا کہ اس افواہ کا جواب خود امام (ع)کی زبان سے سنوں اور لوگوں کو بتاؤ¶ں اس لئے میں نے امام(ع) سے پوچھا!

اے فرزند رسولﷺ میں نے ایک بات سنی ہے جس کو لوگ آپ سے نقل کرتے ہیں؟!

امام(ع) نے پوچھا کہ: لوگ کیا کہتے ہیں؟

میں نے عرض کیا:

لوگ کہتے ہیں کہ آپکا دعوی ہے کہ تمام لوگ آپ کے غلام ہیں!

امام رضاعلیہ السلامنے تعجب اور ناراضگی کے ساتھ آسمان کی طرف سر بلند کیا اور کہا:

اے میرے پروردگار! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے ، اے ظاہر و باطن کو جاننے والے!تو گواہ ہے میں نے  ہرگز اور کیسے بھی شرائط کے تحت ایسی بات نہیں کہی ہے اور نہ ہی اپنے بزرگوں سے ایسا کچھ سنا ہے ،معبود جو ستم اس امت کی جانب سے ہم پر ہوئے ہیں تو ان کو جانتا ہے اور یہ بھی ایک ہی ستم ہے! پھر آپ نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:

اے عبدالسلام جو بات لوگ ہم سے نقل کرتے اگر یہ حقیقت ہے پس جو لوگ کسی کے غلام نہیں ہیں بلکہ آزاد ہیں ہم نے ان کو کس سے خریداہے؟!

۶۹

امام(ع) کا یہ فرمان سن کر میں نے سوچا کہ یہ جواب خود میرے ذہن میں کیوں نہ آیا، میں نے مسکراتے ہوئے عرض کیا:

فرزند رسول بے شک آپ درست فرماتے ہیں!

لیکن امام(ع) کو مجھ سے امید نہ تھی کہ میں آپ سے اس طرح کا سوال کروں گا، آپ نے تعجب یا شاید میری تنبیہ کے لئے مجھ سے پوچھا:

اے عبدالسلام ، کیا تم بھی تمام لوگوں کی طرح اس ولایت کے منکر ہوگئے ہو جو خدا نے ہمارے لئے واجب قرار دی ہے؟!(1)

میں نے اپنے ہاتھ پیروں کو سمیٹتے ہوئے جواب دیا:

نہیں ، نہیں خدا کی پناہ !خدا ایسا دن نہ لائے کہ میں ایک لمحے کے لئے بھی ایسا سوچوں، میں اپنے تمام وجود کے ساتھ آپکی ولایت کا اقرار کرتا ہوں۔(2)

-------------

(1):- یہ عبارت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ائمہ تمام بندگان خدا پر ولی ہیں ، تمام لوگوں پر واجب ہے کہ ان کی اطاعت کریں جیسے کہ غلام اپنے آقاؤں کی اطاعت کرتے ہیں ، اس اعتبار سے تمام لوگ چودہ معصومین کے غلام ہیں۔.

(2):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 170-171 و 49 ، ج 25 ص 268 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا ، ص 311. یہ روایت اباصلت کے شیعہ ہونے پر بہترین دلیل ہے۔

۷۰

مامون پر امام رضاعلیہ السلام کی نفرین

ایک دن مامون کو بہت زیادہ ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کو سمجھ میں آگیا کہ اب آئندہ امام رضاعلیہ السلامسے کس طرح گفتگو کرنی چاہئے!ماجرا اس طرح سے ہے کہ امامت اور پیغمبرﷺکی جانشینی کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے امام (ع)نے علمی اور اعتقادی مجلسیں(کلاسیں) تیار کی تھیں اور لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے تھے، یہ کام اس بات کا سبب بنا کہ لوگ آپکے دیوانے ہوگئے اور روز بروز معاشرے کے مختلف طبقوں کے افراد کے دلوں میں آپ کی محبت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور لوگ خود بہ خود آہستہ آہستہ اس بات کو سمجھ رہے تھے کہ امام رضاعلیہ السلاممسند پیامبرﷺ پر بیٹھنے کے لائق و اہل ہیں نہ کہ مامون!

اس دن کسی نے مامون کو خبر دی کہ امام نے ایک مجلس بر پا کی ہے اور لوگ آپ سے علمی و اعتقادی سوال کر رہے ہیں اور آپ ان کے جواب دے رہے ہیں،مامون کو یہ سن کر غصہ آگیا اس نے اپنے قصر کے مسؤل انتظامات (محمد بن عمرو طوسی)کو حکم دیا کہ لوگوں کو امام(ع) کے پاس سے جدا کردو اور امام(ع)کو میرے پاس بلاکر لاؤ¶۔ محمد بن عمروطوسی امام(ع) کو بلاکر لے آیا!

جب مامون کی نظر امام رضاعلیہ السلام پر پڑی تو اس نے حسد سے جل کر غصہ کے عالم میں امام رضاعلیہ السلامسے بلند آواز میں گفتگو کی یہاں تک کہ اس نے آپ کو ذلیل و رسوا کیا۔جب امام رضاعلیہ السلاممامون کے دربار سے باہر آرہے تھے تو آپ غصہ کے عالم میں آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے کہ:محمدمصطفیﷺ ، علی مرتضیعلیہ السلام ، فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے حق کی قسم میں اس پر ایسی لعنت کرونگا کہ اس علاقے کےکتّے(1) اسوآ ڈورائیں گے اور وہ عام و خاص کی نظر میں ذلیل و خوار ہوجائیگا۔آپ گھر پہونچے ، وضو کیا، دو رکعت نماز پڑھی اور قنوت میں ایک دعا پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے:(2)

--------------

(1):- یہ واقعہ شہر مرو میں واقع ہواہے۔

(2):-  ہم یہاں پر اس دعا کے ترجمے پر اکتفا کر رہے ہیں اس کا عربی متن (اصل دعا) بحارا الانوار ج49 ص 82-83 پر موجود ہے۔

۷۱

اے وہ خدا کہ جو مکمل قدرت ، بے کران رحمت، بے پایان نعمتوں ، لگاتار نیکیوں اور بے شمار کرامتوں کا مالک ہے!

اے وہ خدا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ، جس کو کسی مانند و نظیر سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی، اور تمام طاقتیں مل کر بھی تیرے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں!

اے وہ کہ جس نے ہم کو پیدا کیا اور روزی دی، الہام کیا اور بولنا سکھایا ، وجود بخشا اور ہدایت کی بلندی عنایت کی اور ایک نظام عطا کیا، نیک بنایا اور ایک راستہ دکھایا، ہم کو محکم اور مضبوط بنایا اور دلیل پیش کی ، ہم کو مکمل و سالم بنایا اور نعمت عطا کی اور ہم کو ہمارے مقصد تک پہونچایا اور بہت زیادہ نعمتوں سے نوازا ۔

اے وہ کہ جو اپنی عز و کبریائی میں اتنا بلند ہے کہ دیکھنے والے اس کو دیکھ نہیں سکتے اور اپنی لطافت میں اتنا قریب ہوگیا کہ اتنی قربت کا ذہن تصور بھی نہیں کرسکتا۔

اے وہ کہ جو اپنی سلطنت میں ایسا اکیلا ہے کہ تمام کائنات میں کوئی  اسکا مانند و مثل نہیں ہے اور اپنی کبریائی میں ایسا تنہا ہے کہ کوئی بھی اس کی قدرت اور جبروت کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا۔

اے وہ کہ جس کی ہیبت اتنی زیادہ ہے کہ فکر کرنے والوں کی فکریں اسکے آگے حیران و سرگردان ہیں ، اور اسکی عظمت کو درک کرنے سے دیکھنے والے اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں۔

اے کہ لوگوں کے دلوں کی باتوں کو جاننے والے۔

اے دیکھنے والوں کی آنکھوں کے نور، اے وہ کہ جس کی ہیبت سے چہرے خاک پر گڑ پڑے ہیں اور سر اسکے جلال کی بلندی کے سامنے جھک گئے ہیں اور دل اسکی قدرت کے خوف سے ڈرے ہوئے ہیں اور انسان کے جسم کی رگیں اسکی وحشت سے لرز رہی ہیں۔

۷۲

اے پیدا کرنے والے، اے نور عطا کرنے والے، اے طاقتور اے بزرگ مقام والے ، اے بلند مرتبے والے، دورد بھیج اس پر کہ جس پر درود بھیجنے کے ذریعہ تونے نماز کو شرف بخشا ہے ، اور انتقام لے اس شخص سے کہ جس نے مجھ پر ستم کیا، مجھ کو ذلیل سمجھا، اور میرے شیعوں کو جلا وطن کیا، خدایا اس کو ذلت اور سوائی کا مزہ چکھادے بالکل اسی طرح جیسے اس نے مجھے ذلیل کیا ہے اوراس پر ایسی بلا نازل فرما کہ دنیا کے پست وگناہکار افراد بھی اس کو قبول نہ کریں بلکہ اس سے نفرت اور دوری اختیار کریں۔

ابھی میرے مولا و آقا کی دعا تمام نہ ہوئی تھی کہ شہر میں سخت زلزلہ آیا کہ پورا شہر لرز گیا،تمام لوگ فریادیں بلند کرنے لگے، کالی آندھی آنے لگی، تمام فضا میں گردو غبار اڑنے لگی اور پورے شہر میں شور و غوغا ہونے لگا۔

میں اپنی جگہ سے نہ ہلا یہاں تک کہ امام(ع) نے نماز تمام کی اور فرمایا:

اے اباصلت ، چھت کے اوپر جاؤ وہاں تم کو ایک بدکار، لاغر اندام، بد ہیکل، تباہ کارو احمق عورت نظر آئیگی کہ جو اپنی شہوت کے اعضا کو حرکت دے رہی ہوگی اور کتھئی رنگ کا لباس پہنے ہوگی اس علاقے کے لوگ اس کی بے حیائی اور بے حرمتی کی وجہ سے اس کو ”سمّانہ“ کے نام سے پکارتے ہیں وہ نیزے کے بدلے ایک نوک دار لکڑی ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اور اپنی لال رنگ کی چادر کو اس لکڑی پر باندھے ہوئے پرچم کی جگہ پر اس کو استعمال کررہی ہے اور اشرار کے لشکر کو مامون کے قصر اور اس کے فرمانرواؤ¶ں کے کی طرف بھیج کر رہی ہے!جب میں چھت پر پہونچا تو میں نے  بہت سارے لوگوں کو دیکھا کہ لکڑی سے حملہ کر رہے ہیں اور پتھروں سے سروں کو پھوڑ رہیں ، اچانک میں نے دیکھا کہ مامون زرہ پہن کر قصر (شاہ جان)سے باہر آیا اور فرار ہو گیا۔

بہت زیادہ نفسا نفسی کا عالم ہوگیا تھا اور میں زیادہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ؟!فقط ایک دفعہ میں نے دیکھاکہ حجّام کے شاگرد نے ایک چھت سے ایک بہت بڑی اینٹ اٹھائی اور مامون کی طرف پھینکی، اسکا نشانہ بالکل فٹ رہا اور وہ اینٹ مامون کی گدی پر جا لگی، تاج اسکےسر سےگر پڑا اور اس کا چہرہ خون سے رنگین ہو گیا۔

۷۳

ایک شخص جس نے مامون کو پہچان لیا تھا اس نے حجّام کے شاگرد کی طرف رخ کیا اور فریاد کی: تجھ پر لعنت ہو!یہ امیر المؤ¶منین مامون ہے کہ جس کے سر پر تو نے اینٹ ماری ہے اور یہ اسکا حال کردیا ہے!

سمّانہ بدکار نے جب یہ بات سنی اور مامون کو پہچان لیا تو اس مرد سے چلا کر کہا کہ: دفعہ ہوجا اے بے ماں کی اولاد!آج  امتیاز ظاہر کرنے اور کسی کی طرفداری کرنے کا دن نہیں ۔ آج احترام کرنے یا مقام عطا کرنے کا دن نہیں ہے، کہ ہر انسان کے ساتھ اس کے مقام و منزلت کے اعتبار سے سلوک کیا جائے، اگر وہ واقعاً امیرالمؤ¶منین ہو تا تو اپنے خیر خواہ اور غیر ذمہ دار لوگوں کو ہرگز جوان اور باکرہ لڑکیوں پر مسلط نہ کرتا!

اس دن مامو ن اور اس کے لشکر کو ذلت و خواری اور رسوائی کے ساتھ شہر سے بھگادیا گیا اور ان کے اموال کو غارت کردیا گیا!(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 82-84 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا (ع) ، ص 173-174.

۷۴

شفا بخش سند کا سلسلہ

میں ”عبد الرحمن بن ابی حاتم الرازی“ہوں میں نے اپنے باپ کے ساتھ شام کا ایک سفر کیا تھا جس میں مجھے ایک بہترین تجربہ حاصل ہوا بہتر سمجھتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں:میں ایک دن شام میں ایک سڑک سے بابا کے ساتھ گزر رہا تھا میں نے دیکھا کہ لوگ ایک شخص کے گرد جمع ہیں آور ایک ہنگامہ برپا ہے سب لوگ باری باری کپڑے  کا ایک ٹکڑا ہوا میں اڑاتے تھے اور دوسرے لوگ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگتے تھے!

میں کچھ آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک دیوانہ زمین پر پڑا ہے ، اور ایک پھٹا ہوا، گرد و غبار سے بھرا ہوا لباس پہنے ہوئے ہے، اسکی ناک سے بلغم، اورمنھ سے رال بہہ رہی ہے!مجھے اس کی حالت پر بہت رحم آیا اور میں نے خود سے کہا:

کاش کہ میں اس کی کوئی مدد کرسکتا:اچانک مجھے یاد آیا کہ بارہا اباصلت نے امام رضاعلیہ السلام سے اور انھوں نےاپنے معصوم اجداد سے (یہاں تک کہ سلسلہ سند پیغمبر اسلامﷺ تک پھونچتا ہے)(1)

ایک روایت نقل کی ہے، اور اباصلت نے کہا ہے کہ اگر اس سلسلہ سند کو کسی دیوانے پر پڑھ دیا جائے تو اس کی دیوانگی جاتی رہے گی اور وہ بہتر ہو جائیگا۔سچ تو یہ ہے میں مطمئن نہ تھا کہ بغیر کسی دوا کو استعمال کئے صرف ” چند ایسے افراد کے نام لینے سے جو بارگاہ خدا میں مقرب ہیں“ کسی دیوانے کو شفا حاصل ہو جائیگی۔لیکن میں نے سوچا کہ اس عمل کو آزمانے میں کوئی نقصان نہیں ہے میں آگے بڑھا اور ان ناموں کو اس دیوانے پر پڑھا، جیسے ہی میں نے ان ناموں کو اس دیوانے پر پڑھا ، وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا ، سب لوگوں پر ایک عاقلانہ نگاہ ڈالی اور ان کی حرکتوں پر تعجب کیا ، اور اپنے لباس سے مٹی کو جھاڑ کر آہستہ سے لوگوں کے درمیان سے نکلا اور چلا گیا!(2)

--------------

(1):- یہ روایت اسی کتاب کی تیسری فصل میں ترجمہ کے ساتھ آئیگی اور وہ یہ ہے: الایمان اقرار باللسان و معرفة بالقلب و عمل بالارکان.

(2):- بحارالانوار ، ج10 ، ص 367 ، بہ نقل از صحیفة الرضا (ع)، و عیون اخبار الرضا (ع)، ص 195  212.

۷۵

تقیہ کی حالت میں امام محمد تقی علیہ السلام

کا احکام بیان کرنے کا طریقہ!

ایک رو ز ، میں امام محمد تقی علیہ السلامکی مجلس میں حاضر تھا اس دن شیعوں کے علاوہ کچھ جاسوس بھی آپ کی مجلس میں بیٹھے تھے جو یہ جاننا چاہتے تھے کہ کون کون افراد امام کے شیعہ اور پیروکار ہیں ، لیکن شیعہ حضرات کو اس بات کا علم نہ تھا!

ایک شیعہ کھڑا ہوا تا کہ آپ سے سوال کرے، اس نے اپنی بات کو اس طرح شروع کیا: فرزند رسول میری جان آپ پر قربان.......

ابھی اس نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ امام نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا: تم اپنی نماز کو قصر نہیں بلکہ پوری پڑھو، اور اب بیٹھ جاؤ۔

جب اس کو ، اس کا جواب مل گیا تو وہ بیٹھ گیا پھر ایک دوسرا شیعہ کھڑا ہوا اور کہا: میرے آقا میں آپ پر قربان ہو جاؤ¶ں.......

اما م نے اسکی بات کو بھی کاٹ دیا اور فرمایا:

اگر تم کو وہاں کوئی نہ ملے تو اس کو پانی میں پھینک دو وہ اپنے مالک کے پاس پہونچ جائیگا!

گویا کہ اس کو بھی اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا اس لئے وہ بھی بیٹھ گیا

اور پھر کچھ نہ پوچھا ۔

جب سب لوگ چلے گئے تو میں نے امام(ع)سے عرض کیا:میری جان آپ پر قربان آج میں نے آپکی خدمت عجیب منظر کو ملاحظہ کیاہے!

۷۶

امام :ہاں ٹھیک کہتے ہو، کیا تم ان دو مردوں کے بارے میں بات کررہےہو؟

ابا صلت: جی ہاں ، میرے آقا(ع)۔

امام: پہلا اس لئے کھڑا ہوا تا کہ یہ سوال کرے کہ کیا کشتی چلانے والا اپنی نماز قصر پڑھے گا؟

میں نے اس کو جواب دیا کہ قصر نہیں تمام پڑھے گا چونکہ کشتی اس کے لئے گھر کی طرح ہے اور وہ اس سے خارج نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمیشہ اسی میں زندگی بسر کرتا ہے۔

دوسرا یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر کوئی شیعہ زکات نکالے اور اس کو کوئی مستحق شیعہ نہ ملے تو زکات کس کو دیگا؟

میں نے کہا: اگر تم کو کوئی نہ ملے، تو زکات کو پانی میں ڈال دو ، وہ خود اپنے اہل کے پاس پہونچ جائیگی۔(1)

-------------

(1):-  بررسی زندگی عبد السلام بن صالح اباصلت ہروی ، ص 118 ، بہ نقل از الثاقب فی المناقب، ص 523 ، و مدینة المعاجز ص 534، و مسند الامام الجواد ، ص 129.

ممکن ہے کہ ایسی صورت میں (یعنی مستحق شیعہ نہ ملنے کی صورت میں) زکات کا حکم واقعی پانی میں ڈالنا ہو، لیکن امام جواد نے راز کو محفوظ رکھنے کے لئے اس خاص مورد میں اس شخص کو یہی حکم دیا ہو۔

۷۷

قیمتی نصیحتیں

امام رضاعلیہ السلامنے مجھ سے ایک عجیب و غریب اور درس آموز و اقعہ بیان کیا ہے اگر میں اس کو آپ سے بیان نہ کروں تو مجھ کو بہت افسوس ہوگا ،وہ واقعہ یہ ہے کہ:

خداوند عالم نے اپنے ایک نبی (ع)پر وحی کی کہ:

کل صبح تم گھر سے باہر نکلو کسی ایک سمت سفر اختیار کرو، تم کو راستے میں پانچ چیزیں ملیں گی۔

پہلی کو کھالینا، دوسری کو چھپا لینا، تیسری کو قبول کرنا، چوتھی کو نا امید نہ کرنااور پانچویں سے پرہیز کرنا(دور رہنا)۔

انھوں نے سر پر ٹوپی اوڑھی، کاندھے پر شال ڈالی اور صبح سویرے طلوع آفتاب کے وقت گھر سے نکل پڑے سب سے پہلے آپکو ایک بہت بڑا کالا پہاڑ نظرآیا! اس کو دیکھ کر آپ حیرت زدہ ہوگئے اور خود سے کہنے لگے:

آخر میں اس سخت، کالے اور اتنے بڑے پہاڑ کو کیسے کھا سکتا ہوں؟!

آپ نے کچھ سوچا اور پھر خود سے کہا:

خداوند عالم مجھے اس کام کا حکم ہرگز نہیں دے سکتا جس کے بجالانے کی مجھ میں طاقت نہ ہو پس حتماً میں یہ کام کر سکتا ہوں(یعنی اس پھاڑ کو کھا سکتا ہوں) آگے بڑھ کر دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے۔

یہ سوچ کر نبی خداﷺ آگے بڑے ، جتنا بھی وہ آگے بڑھتے تھے اور بہاڑ کے قریب جاتے تھے، پہاڑ چھوٹا ہوتا چلا جاتا تھا یہاں تک جب آپ پہاڑ کے پاس پہونچے تو وہ ایک لقمہ کے برابر ہو چکا تھا! آپ نے اس کو اٹھا کر کھالیا۔

جب آپ نے اس کو کھا یا تو معلوم ہوا کہ آج تک جتنا بھی کھانا کھایا ہے یہ لقمہ ان سب سے لذیذ ہے!

۷۸

اس کے بعد اللہ کے نبی آگے بڑھے یہاں تک کہ ایک سونے کے طشت کو دیکھا ، سونا بہت بہترین چیز ہے کسی کا دل نہیں چاہتا کہ اتنی بہترین اور قیمتی چیز کو زمین میں چھپادے اور اس کو چھوڑ کر چلائے، لیکن آپ کو خداوند عالم کے حکم کے مطابق یہ کام انجام دینا تھا لہذا آپ نے اس کو چھپادیا!

جب آپ کچھ اور آگے بڑھے توپلٹ کر دیکھا کو وہ طشت زمین سے نکل کر اوپر آگیا ہے!

یہ دیکھ کر آپ نے خود سے کہا:

میں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کردیا اب اس کے بعد کیا ہو رہا ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔

پھر آپ آگے بڑہے اچانک ایک ہراسان پرندے کی چیخ پکار کی آواز نے آپکو اپنی طرف متوجہ کرلیا ، ایک شکاری باز ایک کمزور و مجبور پرندے کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ پرندہ پیغمبرﷺکے پاس آیا اور انکے گرد چکر لگاتےہوئے اور اپنی زبان حال سے آپ سے پناہ کی درخواست کی۔ آپ نے فرمان خدا پر عمل کرتےہوئے اپنی آستین کوکھولا اور پرندےنے آپ کی آستین میں پناہ لی۔

شکاری باز بھی زمین پر آپ کے سامنے بیٹھ گیا اور گویا ہوکر اعتراض کیا :

کئی دن سے میں اس شکار کے پیچھے دوڑ رہا ہوں یہاں تک کہ آج میں اس کو پکڑنے ہی والا تھا لیکن آپ نے اس کو مجھ سے بچالیا ، اب میں اپنے اس بھوکے پیٹ کا کیا کروں؟!

 پیغمبر خدا کو یاد آیا کہ یہ باز چوتھی چیز ہے جو آج مجھ کو ملی ہے، مجھے اس کو ناامید نہیں کرنا چاہئے آپ نے اپنا سامان، جیبںے اور ادھر ادھر بہت تلاش کیا لیکن کوئی چیز ایسی نہ ملی جس سے اس شکاری باز کا بیٹ بھر جائے مجبور ہو کر آپ نے اپنی ران سے گوشت کاایک ٹکڑا کاٹا اور باز کو دیدیا!(خدا کی قدرت سے آپکی ران کو کوئی نقصان نہ ہوا اور آپ ٹھیک ہوگئے)۔

پھر آپ کچھ آگے بڑھے یہاں تک کہ آپکو ایک بدبو دار مردار نظر آیا جسکے جسم پر ہاتھ پیر نہ تھے خدا کے حکم کے مطابق آپ بہت جلدی سے اس سے دور ہوگئے اور اپنے گھر پلٹ آئے۔

۷۹

جیسے ہی آپ گھر پہونچے بہت زیادہ تھکن کی وجہ سے آپ گہری نیند سوگئے، خواب میں کسی نے آپ سے کہا:

تم نے خدا کے حکم انجام دیا ہے لیکن کیا تم اسکا مطلب بھی سمجھے ہو؟

پیغمبر خدا ﷺ نے جواب دیا:

نہیں، میں تو فقط اپنے وظیفے کو انجام دینےکی فکر میں لگا تھا، اپنے کام کے مطلب و معنا کی طرف متوجہ نہ تھا! اگر ممکن ہو تو آپ مجھ کو ان کاموں کے معنی بتادیجئے۔

ادھر سے جواب ملا:

وہ کالا اور بڑا پہاڑ غصہ ہے ، جب انسان کو غصہ آتا ہے تو وہ خود کو بھی نہیں دیکھتا اور اپنی قدر کو نہیں پہچانتا (اور کچھ بھی کر بیٹھتا ہے)لیکن اگر یہ انسان اس وقت خود پر کنٹرول کرے ، اپنے وجود کے گوہر کی قدر کو پہچان لے اور اپنے غصے کو ختم کردے تو اسکا آخر بھی اس لذیذ لقمے کی طرح بن جائیگا کہ جس کو تم نے کھا یا ہے۔

وہ سونے کا طشت ایک عمل صالح اور پسندیدہ خدا ہے کہ اگر بندہ اس کو خالص نیت اورتقرب خدا کے ارادے سے انجام دے اور چھپالے (یعنی اپنے عمل کو سب کے سامنے ظاہر نہ کرے)تو پھرخداوند عالم خود ہی اس عمل کو لوگوں پر آشکار کردیگا تا کہ یہ عمل اس بندے کی زینت بن جائے اور یہ جزاء اس انعام سے الگ ہے جو خداوند عالم نے آخرت میں اس کے لئے معین کیا ہے۔

اور وہ پرندہ جس کو تم نے پناہ دی ہے ، وہ شخص ہے جو نصیحت اور خیر خواہی کے لئے تمہارے پاس آتا ہے تم کو چاہئے کہ اس کا استقبال کرو اور اس کی نصیحت قبول کرو!وہ باز جس کو تم نے گوشت دیا، وہ ایسا شخص ہے کہ جو تمہارے پا س اپنی حاجت لیکر آتا ہے تم کو چاہئے کہ اس کو نا امید نہ کرو(اور حد امکان میں اسکے کام کو حل کرنے کی کوشش کرو)۔لیکن وہ مرد ارکا سڑا ہوا گوشت (بدن)غیبت ہے کہ اس سے جتنا جلدی ممکن ہو دوری اختیار کرو۔(1)

--------------

(1):-  بحارالانوار ، ج 14، ص 456-457، بہ نقل از عیون اخبار الرضا (ع) ، ص 152-153.

۸۰