امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت0%

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت مؤلف:
زمرہ جات: امام رضا(علیہ السلام)
صفحے: 131

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حسین صبوری
زمرہ جات: صفحے: 131
مشاہدے: 50897
ڈاؤنلوڈ: 3308

تبصرے:

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 131 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50897 / ڈاؤنلوڈ: 3308
سائز سائز سائز
امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حدیث سلسلة الذہب

یقینا آپ نے حدیث سلسلة الذہب کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوگا۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ذہب عربی زبان کا لفظ ہے اور اسکے معنی سونا ، طلا کے ہیں ۔ اس حدیث کا نام سلسة الذہب اس لئے رکھا ہے کیونکہ اس حدیث کے تمام راوی معصومینعلیہم السلام ہیں یہاں تک کہ یہ سلسلہ خدا تک پہونچتا ہے یعنی یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور اسکا کہنے والا خود خداوند عالم ہے۔

جب یہ حدیث حضرت امام علی رضاعلیہ السلامنے اپنی زبان سے بیان کی اس وقت میں آپ کے ساتھ موجود تھا۔

یقینا آپ کو معلوم ہوگا کہ اس زمانے میں نیشاپور اسلام کا ایک بہترین ، بزرگترین اور مہمترین مرکز علم و فرہنگ تھا جب امام رضاعلیہ السلام نیشاپور میں وارد ہوئے اس وقت آپ محمل میں بیٹھے ہوئے تھے ، نیشاپور کے تمام علماء و دانشمندان تمام قبیلوں کے افراد کے ساتھ آپ کے استقبال کے لئے آئے۔

بھیڑ اتنی تھی کہ ایک سوئی رکھنے کی بھی جگہ نہ تھی، جب ہم چوراہے پر پہونچے تو نیشاپور کے علماءآپ کی سواری کی لگام سے پلٹ گئے اور التماس کی کہ:

اے فرزند رسولﷺ ہم آپ کو آپ کے پاک بزرگوں کی قسم دیتے ہیں کہ آپ اپنے بزرگوں کی کوئی حدیث سنائیے۔

میں نے سوچا کہ اہل نیشاپور کتنے ہوشیار ہیں کہ قسم دے کر امام(ع) کو آمادہ کرلیا کہ آپ ان کو حدیث سنائیں ، امام(ع) نے اپنے سر مبارک کو محمل سے باہر نکالا آپ کے دوش پر کھال کی ایک ردا تھی آپ نے فرمایا:

مجھ سے میرے والد موسی بن جعفرعلیہ السلامنے ان سے ان کے والد جعفر صادقعلیہ السلامنے ان سے انکے والد محمد باقرعلیہ السلامنے ، ان سے ان کے والد زین العابدینعلیہ السلام نے ان سے ان کے والد امام حسین علیہ السلامنے ان سے ان کے بھائی امام حسنعلیہ السلام اور ان کے با با امام علی علیہ السلام نے ، ان سے رسول خدا ﷺنے فرمایاکہ:

۸۱

جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ خدا فرماتا ہے:

اِنِّی اَنَا اللهُ لا اِلَهَ اِلَّا اَنَا وَحدِی، عِبادِی فَاعبُدُونی وَ ليَعلَم مَن لَقِيَنی مِنکُم بِشَهادَةِ اَن لا اِلَهَ اِلَّا اللهُ، مُخلِصاً بِها، اَنَّهُ قَد دَخَلَ حِصنی، و مَن دَخَلَ حِصنی اَمِنَ عَذابی.

میں وہ خدا ہوں کہ جس کے سوائے کوئی معبود نہیں ہے اے میرے بندوں میری عبادت کرو، سب لوگ جان لیں کہ جو بھی مجھ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ خلوص کے ساتھ کلمہ لا الہ اللہ کی گواہی دیتا ہو توسمجھو کہ وہ میرے مضبوط قلعے میں داخل ہو گیا ہے اور جو بھی میرے قلعے میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوگیا۔

خداوند عالم نے اپنے کلام میں اخلاص کی شرط جو لگائی تھی وہ لوگوں کے لئے واضح نہ ہوئی لہذا لوگوں نے امام (ع)سے پوچھا:

خدا کی وحدانیت کی گواہی میں اخلاص کا کیا مطلب ہے؟

آپ نے جواب میں فرمایا:طاعةُ اللهِ و رسولِهِ و وِلایةُ اهلِ بیته

اخلاص سے مراد خدا و رسول کی اطاعت اور اہل بیت رسول کی ولایت کو قبول کرناہے۔(1)

--------------

(1):- بحارالانوار ، ج 3 ، ص 14-15، ج 49 ، ص 120-121 و ج 27، ص 134  بہ نقل از امالی شیخ صدوق ، ص 24.

۸۲

حضرت علی علیہ السلام جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے

مامون اپنے قصر میں بیٹھا تھااور امام رضاعلیہ السلام اس کے قریب میں تشریف فرماتھے ، مامون نے امام(ع) سے مخاطب ہو کر کہا:

اے اباالحسن کافی مدت سے ایک مسئلہ میراذہن میں ہے ، میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں اور آپ سے اس کا جواب طلب کروں۔

امام(ع) نے سوال کیا وہ مسئلہ کیا ہے؟

مامون نے کہا:

مسئلہ یہ ہے کہ یہ روایت جو وارد ہوئی ہے کہ آپ کے جد حضرت علی مرتضیعلیہ السلام جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں“ کس طرح آپ کے جد جنت و جہنم کو تقسیم کریں گے؟!

امام(ع)نے جو جواب مامون کو دیا وہ دلچسپ بھی تھا اور قابل قبول بھی ، آپ نے فرمایا:

اے مامون کیا تونے اپنے بزرگوں سے ، عبداللہ ابن عباس سے نہیں سنا ہے کہ وہ فرماتا تھے کہ پیغمبرﷺ فرماتے ہیں:

”حب علی ایمان وبغضہ کفر“علی علیہ السلام کی محبت ایمان ہے اور علی علیہ السلام کی دشمنی کفرہے۔

مامون نے کہا: بے شک میں نے سنا ہے۔

امام (ع) نے فرمایا:

بس اب جو بھی علی علیہ السلام کو دوست رکھے گا جنت میں جائے گا اور جو دشمن رکھے گا وہ دوزخ میں جائیگا، اس طریقے سے حضرت علی علیہ السلامجنت اور جہنم کو بانٹنے والے ہونگے۔

۸۳

یہ جوا ب سن کر مامون نے کہا:

اے اباالحسنعلیہ السلام، خدا مجھے آپ کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی زندہ نہ رکھے ! میں گواہی دیتا ہوں کو واقعاً آپ پیغمبر اسلامﷺ کے حقیقی وارث ہیں۔

امام رضاعلیہ السلامیہ جواب دےکر گھر واپس ہوئے میں بھی آپ کے ساتھ آپکے گھر گیااورشوق و ذوق کےساتھ آپکے پاس بیٹھ گیااورعرض کیا:

آپ نے حضرت علی علیہ السلام امیرالمؤ¶منین کے بارے میں مامون کو بڑا عجیب جواب دیا!

میرا گمان یہ تھا کہ مامون کے سوال کا اصلی جواب یہی ہے لیکن امام نےفرمایا:

اے اباصلت ، میں نے اس وقت حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہ بات کی ہے ور نہ اس سوال کا جواب اس سے بھی بڑھ کر اس طرح ہے کہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے اور انھوں نے بھی اپنے بزرگوں سے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے اور آپ نے حضرت رسول خدا ﷺسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

اے علی علیہ السلام قیامت کے دن تم جنت و جہنم کو تقسیم کروگے اس طریقے سے کہ کہوگے:

اے دوزخ یہ میرا آدمی ہے اور وہ تیرا آدمی ہے!(1)

-------------

(1):- بحارالانوار، ج 49 ، صص 172-173، بہ نقل از کشف الغمة ، ج 3 ، ص 147 و بحارالانوار ، ج 39 ، ص 193-194، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ص 239.

۸۴

افتخارات(1) حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیھا

زبان کا زخم بہت برا ہوتا ہے خداوند عالم سب کو زبان کے زخم سے محفوظ رکھے، لیکن افسوس کہ پیغمبرﷺکی اکلوتی بیٹی، جنت کی عورتوں کی سردار بھی زبان کے زخم سے محفوظ نہ رہ سکیں، بد اخلاق اور پلید لوگوں نے آپ کو اپنی نجس زبانوں سے بہت سارے زخم پہونچائے ہیں۔حضرت علی علیہ السلام امیر المؤ¶منین کے ساتھ ابھی آپ کی شادی کو زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ مدینے کی تنگ نظر عورتوں نے آپ کو حلقے میں لیا اور آپ کے کانوں میں یہ بات ڈالی کہ افسوس ہے تم پر کہ اتنے امیر و مالدار رشتے ہونے کے با وجود تمہارے بابا نے تمہاری شادی ایسے شخص سے کی ہے کہ جس کے ہاتھ مال دنیا سے بالکل خالی ہیں؟!

ایسا نہیں ہے کہ مال دنیا کی جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکی نظر میں کوئی اہمیت تھی یا آپ اپنے شوہر کی قدر و منزلت کو نہیں جانتی تھیں ، لیکن آخر کار لوگوں کے طعنے بھی بے اثر نہیں ہوتے، لہذا جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا نے لوگوں کے ان طونبں کا جواب اپنے بابا رسول خدا ﷺکی زبان سے 

سننے کے لئے اپنے دل کو ذرا محکم کیا اوراس مسئلے کو اپنے پدر بزگوار کے سامنے پیش کیا ، پیغمبر ﷺ نے آپ کے جواب میں فرمایا:اے میری پیاری بیٹی، اللہ نے تمام مخلوقات کی طرف نگاہ کی اور ان میں سے دو مردوں کو بہت زیادہ پسند کیا اور ان کو چن لیا اور خداوند تم کو اتنا دوست رکھتا تھا کہ ان دو میں سے ایک کو تمہارا باپ اور دوسرے کو تمہارا شوہر بنایا!...کیا تم اب بھی ناراض ہو؟!(1) جیسے ہی پیغمبر اسلامﷺ نے یہ جواب دیا تو آپ نے دیکھا کہ فاطمہ زہراءسلام اللہ علیھا کے چہرے پر رضایت مسکراہٹ بن کر بکھر رہی تھی۔

-------------

(1):- چونکہ اس روایت کے راوی اباصلت ہیں اور سیاق کلام بھی متفق علیہ ہے لہذا ہم نے (طرداً للباب) اس کو یہاں ذکر کردیا ہے۔

 (2):- بررسی زندگی عبدالسلام بن صالح اباصلت ہروی، ص 80-81 ، بہ نقل از ترجمة الامام علی (ع) {تاریخ دمشق} ، ج 1 ، ص 269.

۸۵

اصحاب رس کا واقعہ

آپ کو معلوم ہوگا کہ سورہ فرقان سورہ نمبر(25)کی آیت نمبر 38 میں اور سورہ ق  سورہ نمبر(50)کی آیت نمبر12میں ”اصحاب رس“ کا نام لیا گیا ہے لیکن انکے بارے میں کوئی توضیح و تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے ۔

ایک دن میں (اباصلت)عالم آل محمد امام رضاعلیہ السلامکی خدمت میں حاضرتھا کہ اصحاب رس کے بارے میں تذکرہ شروع ہو گیا ۔

امام رضا علیہ السلامنے اپنے بزرگوں سےروایت کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلامسے نقل کیاکہ امام حسین علیہ السلامنے فرمایا:

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے تین روز قبل بنی تمیم کے بزرگوں میں سے عمرونامی ایک شخص امام علی علیہ السلامکے پاس آیا اور اصحاب رس کے بارے میں چند سوال آپ کے سامنے بیان کئے ، وہ سوالات یہ ہیں۔

1 ۔اصحاب رسّ نے کس زمانے میں زندگی گزاری ہے؟

۲۔ انکے مکانات کہاں تھے؟

۳۔ان کا حاکم کون تھا؟

4۔کیا خدا نے ان لوگوں کے لئے کوئی پمبر   بھیجا تھا؟

۵۔ وہ کس گناہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے؟

حضرت امیر المؤ منین علیہ السلام نے اس طرح ان کا جواب دیا کہ جیسے آپ اپنی پوری عمر سے اس انتظار میں تھے کہ کوئی علم و دانش کا پیاسا آپ سے یہ سوال کرے ۔

امام علی ؑ نے فرمایا:

تم نے مجھ سے وہ سوال کیا ہے جو تم سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا اور میرے بعد جو بھی اصحاب رس کے بارے میں بتائے گاصرف مجھ سے نقل کرتے ہوئے بتا سکتا ہے اس کے الگ کچھ نہیں بتائے گا۔

۸۶

یہ بھی جان لو کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جسے میں نہ جانتا ہوں ، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کون سی آیت کس مقام پر نازل ہوئی ہے، یہاں تک کے مجھے معلوم ہے کہ پہاڑ پر نازل ہوئی یا جنگل میں ،اور مجھے آیت کے نازل ہونے کا وقت بھی معلوم ہے یعنی میں جانتا ہوں کہ کون سی آیت دن میں نازل ہوئی اور کو ن سی رات میں۔

پھر آپ نے غم و اندوہ سے بھرے ہوئے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی گفتگو کو آگے بڑھایا:

میرے سینے میں بہت سارے علوم بھرے ہوئے ہں: لیکن اس علم کو حاصل کرنے والے بہت کم ہیں ،بہت جلد ہی یہ لوگ مجھے کھو بیٹھیں گے اور پھر پشیمان ہونگے۔

پھر امام(ع) نے تمیمی کو مخاطب کر کے فرمایا:

اے تمیمی بھائی! اصحاب رس کا ماجرا کچھ اس طرح ہے کہ:اصحاب رس وہ گروہ ہے جس نے صنوبر کے درخت کا نام ”شاہ درخت“ رکھا تھا اور وہ اسکی پوجا کرتے تھے ، اس درخت کو یافث بن نوح علیہ السلامنے روشاب(1) نامی ایک چشمے کے کنارے لگایا تھا توفان حضرت نوح علیہ السلامکے بعد وہ درخت حضرت نوح علیہ السلامکے استفادہ کے لئے پروان چڑھ گا  تھا ۔

رسّ کے معنی زیرخاک کرنے (مٹی میں دبانے)کے ہیں(2) چونکہ اس قوم نے اپنے نبی کو زندہ زمین میں دفن کر دیا تھا اس لئے یہ اصحاب رس کے نام سے مشہور ہوگئے یہ ماجرا حضرت سلیمان نبیعلیہ السلام کے بعد کا ہے۔

ان لوگوں کے رس نامی دریا کے کنارے پر بارہ شہر تھے اور تمام شہر ”رس سرزمین شرق“کے نام سے مشہور ہو گئے تھے(3) اس زمانے میں تما م زمین پر نہ اس دریا سے بہتر ، زیادہ پانی والا تھا اور اس سے زیادہ میٹھا کوئی دریا تھااور نہ ان بارہ شہروں سے بہتر اورزیادہ آبادی والی کوئی دوسری آبادی تھی۔

--------------

(1):- بعض کتابوں میں اس چشمے کا نام روشتاب ہے اور (کتاب العرائس) میں (دوشان) ذکر ہوا ہے۔

(2):-  ترجمہ منجد الطلاب.

(3):-  ترجمہ منجد الطلاب.

۸۷

ان شہروں (آبادیوں )کے نام یہ ہیں ۔

۱۔آبان ۲۔آذر ۳۔دی ۴۔ بمنل ۵۔اسفند ۶۔فروردین ۷۔اردیبہشت ۸۔خرداد ۹۔تیر 10۔مرداد ۱۱۔شہریور12۔مرھ

ان شہروں میں سب سے بزرگ اور اہم شہر اسفند تھا جو ان کے بادشاہ ”ترکوذ بن غابور بن یارش بن سازن بن نمرود بن کنعان“(1) کا پایتخت تھا وہ روشاب نامی چشمہ اور صنوبر کا درخت بھی اسی آبادی میں تھے ان میں سے ہر ایک آبادی میں اسی صنوبر کے  درخت کا بیج بویا ہوا تھا کہ جو کافی بڑا بھی ہو گیا تھا اور اس چشمہ سے ان تمام درختوں تک پانی پہونچانے کا ایک راستہ بنا یا ہوا تھا ۔ان لوگوں نے اس چشمے اور اس سے نکلنے والی تمام نہروں کا پانی اپنے اور اپنے جانوروں کے اوپر حرام کررکھا تھا اگر کوئی اس میں سے پانی پیتا تو اسے قتل کر دیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ یہ پانی ہمارے خداؤں کے زندہ رہنے کا وسیلہ ہے لهٰذا صحیح نہیں ہے کہ کوئی ہمارے خداؤں کی زندگی کو کم کرے یہ لوگ اور انکے جانور رس نامی نہر سے (کہ جس کے کنارے پر انکی آبادیاں تھی )پانی پیتے تھے لیکن ”روشاب“ نامی چشمے سے کبھی پانی نہیں پیتے تھے ۔

یہ لوگ ہر مہینہ بارہ میں سے ایک آبادی میں جشن عید بناتے تھے اور ریشم کی ایک بڑی مچھر دانی اس درخت کے اوپر شامیانے کی طرح باندھتے تھے اور طرح طرح کے مجسمے اور بت اسکے نیچے رکھتے تھے گائے، بھیڑوں کو اس درخت سے تقرب حاصل کرنے کے قصد سے قربان کرتے تھے اور بہت ساری لکڑیوں کو اس مچھر دانی کے اندر جلاتے تھے یہاں تک کہ ان لکڑیوں کا دھواں قربانیوں اور فضا ؤں پر چھا جاتا تھا اور آسمان نظر نہ آتا تھا ، پھر یہ لوگ سجد ے میں جا کر گریہ و زاری کرتے تھے تا کہ وہ درخت ان سے راضی ہو جائے!اسی وقت شیطان آکر درخت کی ڈالیوں کو ہلادیتا تھا اور درخت کے تنے کے در میان سے بچے کی آوازمیں کہتا تھا:اے میرے بندوں !اب میں تم سے راضی ہو گیا ہوں، تم خوش رہو اور تمھاری آنکھیں سدا روشن رہیں۔

--------------

(1):- اس بادشاہ کانام علل الشرائع میں (برکوذ بن غابور بن فارش بن شارب) اور کتاب العرائس میں (ترکون بین غابور بن نوش بن سارب) ذکر شدہ است ۔

۸۸

شیطان کی اس آواز کو سنکر وہ لوگ سجدے سے سر کواٹھاتے تھے، شراب پیتے تھے اور ایک دن ، رات کے لئے ناچ گانے میں مصروف ہو جاتے تھے اس کے بعد اپنے گھروں کو پلٹتے تھے!

ایرانیوں نے اپنے سال کے مہینوں کے ناموں کو ان بارہ آبادیوں کے نام سے لیا ہے۔

جب ان لوگوں کی بڑی عید یعنی اس آبادی میں عید کی نوبت آتی تھی جو انکے بادشاہ کا پایتخت تھا ،  تو تمام آبادیوں کے چھوٹے ، بڑے سب لوگ درخت صنوبر اور چشمے کے پاس جمع ہوجاتے تھے، ریشم کے بڑے بڑے پردوں پر طرح طرح کی تصویریں بنائی جاتی تھیں اور ان پردوں کو درخت صنوبر کے اطراف میں خیموں کی شکل میں لگاتے تھے اور ہر آبادی والوں کے لئے اس درخت کی طرف ایک دروازہ بنایا جاتا تھا پھر وہ لوگ ان خیموں کے پیچھے اس درخت صنوبر کی عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے اور ہر مہینے سے گئی گنا زیادہ اس مہینے میں قربانی کرتے تھے!

اس بار خود ابلیس آتا تھا اور درخت صنوبر کو سختی سے ہلاتا تھا اور پھر درخت کے در میان سے بولنا شروع کرتا تھا اور جتنے وعدے ان لوگوں سے ہر مہینے آنے والے شیاطین نے کئے ہوتے تھے اس سے کئی گنازیادہ وعدے کرتا تھا۔ ابلیس کی آواز سننے اور وعدو و عید تمام ہونے کے بعدلوگ سجدے سے سر کو اٹھاتے تھے اور مست ہو کر بارہ دن، رات کے لئے خوشی دیوانگی و بیہودگی میں مصروف ہو جاتے تھے پھر اس کے بعد اپنے گھروں کو پلٹتے تھے!

جب ان لوگوں نے کفر اور غیر خدا کی عبادت کی انتہا کردی تو خداوند عزوجل نے یہودا بن یعقوب علیہ السلام کی نسل سے ایک پیامبر ان لوگوں کے در میان مبعوث کیا، پیغمبرﷺ  خدا نے ایک طولانی مدت تک ان لوگوں کے در میان خدا پرستی کی تبلیغ کی لیکن کسی نے آپ کی باتوں پر توجہ نہ کی یہاں تک کہ انکی بڑی عید کا وقت قریب آگیا، پیغمبرﷺ خدا نے ہاتھوں کو اٹھایا اور شکستہ دل سے دعا کی:

۸۹

معبود! یہ تیرے بندے نہ میری پیغمبری پر ایمان لائے ہیں اور نہ ہی انھوں نے تیرے علاوہ دوسری چیزوں کی عبادت کو ترک کیا ہے! معبود جن درختوں کی یہ عبادت کرتے ہیں ان سب کو سکھا کر ان کو اپنی قدرت کا کرشمہ دکھادے۔

صبح جب لوگ نیند سے بیدار ہوئے تو انھوں نے دیکھا کہ صنوبر کے تمام درخت سوکھ گئے ہیں۔

اس منظر کو دیکھ کر یہ لوگ ہوش میں آکر ان کی عبادت کرتا تو کیا چھوڑ تے ، بلکہ دوحصوں میں تقسیم ہوگئے اور دونوں کا نظریہ الگ الگ ہو گیا۔

پہلے گروہ کا نظریہ یہ تھا کہ یہ مرد جو اپنے آپ کوزمین اور آسمان کے پروردگار کا رسول کہتا ہے اس نے ہمارے خداؤ¶ں پر جادو کردیا ہے تا کہ تم لوگ ان سے منھ موڑلو۔

دوسرےگروہ کا نظریہ یہ تھا کہ:ایسا نہیں ہے کہ اس نے ہمارے خداؤ¶ں پر جادو کیا ہے ، اس کی طاقت ہماری خداؤ¶ں تک نہیں پہونچ سکتی ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب ہمارے خداؤ¶ں نے دیکھا کہ یہ مرد ان اکی اہانت کر رہا ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کی عبادت کی دعوت دے رہا ہے تو ہمارے خداؤں کو غصہ آگیا اور انھوں نے اپنی خوبصورتی ، بلندی اور عظمت کو چھپالیا!

آؤہم سب مل کر اپنے خداؤ¶ں کی مدد کریں تا کہ ان کا غصہ ختم ہو جائے!

پہلے گروہ نے پوچھا: کیسے ہم ان کی مدد کریں؟

دوسرے گروہ نے جواب دیا:یہ مرد جو اپنی پیغمبری کا دعوی کرتا ہے ہم اس کو قتل کرکے اپنے خداؤ¶ں کی مدد کر سکتے ہیں در حقیقت یہ ہمارے خداؤ¶ں کا دشمن ہے۔یہ ارادہ بنانے کے بعد انھوں نے کچھ بڑے بڑے پائپ نما چیزوں کے ذریعہ چشمے کا تمام پانی نکال کر دوسری جگہ پہونچا دیا اور اس چشمے کے نیچے ایک گہرا کواں کھودا اور اسکے منھ کو تنگ رکھا پھر پیغمبر خدا کو اس کنویں میں ڈال کر ایک بڑے پتھر سے اس کے منھ کو بند کردیا تا کہ پانی نیچے نہ جا سکے، پھر دوبارہ چشمے کے پانی کو اس کی پرانی جگہ پر پلٹادیا اور پیغمبر خدا کو زندہ چشمے کے نیچے دفن کردیا!رات بھر اللہ کے نبی آہ و بکا اور فریاد و زاری کرتے رہے کہ:

۹۰

” اے خدا، اے میرے آقا، تو جگہ کی تنگی اور میرے ضعف و سستی و بیچارگی کو دیکھ رہا ہے، میری درخواست ہے کہ جس قدر جلدی ممکن ہو مجھے اس دنیا سے اٹھالے تا کہ مجھے سکون مل جائے!“

یہ لوگ تمام رات آپ کے نالہ وفریاد کی آواز سن رہے تھے اور بے رحمی و خوشی کے ساتھ کہہ رہے تھے: ہم نے اپنے خداؤں کے دشمن کو (کہ جوان کی برائی کرتا تھا اور ان کی عبادت کرنے میں رکاوٹ بنتا تھا)قتل کردیا اب ہم کو امید ہے کہ ہمارے خدا ہم سے راضی ہوگئے ہونگے اور دوبارہ ان کا نور اور سر سبز و شادابی واپس آگئے ہونگے۔

خداوند عالم نے جناب جبرئیل کو مخاطب کرکے کہا: ”کیا میرے یہ بندے (کہ جو میرے حلم و بردباری  کی وجہ سے مغرور ہو گئے ہیں اور خودکو میری تدبیر سے محفوظ سمجھتے ہیں میرے علاوہ دوسرے خداؤ¶ں کی عبادت کرتے ہیں میرے رسول کو قتل کر چکے ہیں) میرے عذاب یا میری سلطنت سے بھاگ کر کہیں جا سکتے ہیں؟!کیسے فرار کرسکتے ہیں ہرگز نہیں! کیونکہ میں ہر اس شخص سے انتقام لونگا جو میری نافرمانی کرے گا اور میرے عذاب سے نہیں ڈرے گا؟میں اپنے عزت کی قسم کھا چکا ہوں کہ ان لوگوں کو دنیا والوں کے لئے درس عبرت قرار دونگا۔“پھر کیا تھا اسی دن جب وہ لوگ جشن عید منانے میں مشغول تھے، اچانک توفان آیا ، سرخ آندھی چلنے لگی ، اس طرح سے کہ وہ سب لوگ حیران ہوگئے، اور آندھی سے مقابلے کرنے کی طاقت کھوبیٹھے ، یہاں تک کہ اتنا پریشان ہوئے کہ نہ کچھ سوچ پا رہے تھے اور نہ کوئی ارادہ کر پا رہے تھے، بس وہ لوگ ایک دوسرے کی پناہ لے رہے تھے!ان کے نیچے کی زمین سنگ کبریتی یعنی ایسے پتھروں میں تبدیل ہوگئی تھی جن سے آگ نکل رہی تھی اور کالے بادل ان کے سروں پرچھا گئے تھے ، ان بادلوں سے شعلہ صفت پتھروں کی باش ہو رہی تھی اور ان کے جسم اس دھات کی مانند ہوگئے تھے کہ جس کو آگ میں ڈال کر پگھلادیا گیا ہو!یہ تمام واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت امیرالمؤمنین نے فرمایا:

 ہم خداوند عالم کے عذاب و غصے سے اس کی پناہ چاہتے ہیں، لا حَولَ و لا قُوَةَّ اِلَّا باللہ العلیِّ العظیمِ۔(1)

--------------

(1):- بحارالانوار، ج 14 ، ص 148-152، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ص 114-116 و علل الشرائع ، ص 25-26.

۹۱

شراب سے پرہیز کریں

ہمیشہ یاد رکھئے کہ شراب کو کبھی منھ بھی نہ لگائےع گا، اس لئے کہ یہ انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے، اور بے عقلی کے عالم میں انسان خطرناک سے خطرناک کام حتی گناہ بھی کربیٹھتا ہے ، اس سے بڑھ کر یہ کہ شراب پینا دشمنان اہلبیت علیہا السلام کا شوق ہے ، امام رضا علیہ السلامنے مجھ سے فرمایا کہ:

حاکمان اسلام میں سب سے پہلے  یزید بن معاویہ نے جو کی شراب پی تھی کہ جو شام کا حاکم تھا خدا اس پر لعنت کرےاس نے حکم دیا تھا کہ رنگین دستر خوان”کہ جو جشن کے لئے پچھایا جاتا ہے“لگائیں، دستر خواں لگایاگیا، امام حسین علیہ السلام کا سر ،   یزید ملعون کے سامنے رکھا ہوا تھا،    یزید نجس شراب کو پی رہا تھا،اور اپنے اطراف والوں کو بھی پلا رہا تھا اورمستی میں آکر کہہ رہاتھا:

یہ شراب پیو، یہ مبارک شراب ہے سب سے پہلے اس شراب کو میں نے پیا ہے اسی شراب کی برکت ہے کہ ہمارے دشمن کا سر ہمارے دسترخوان پر رکھا ہواہے۔

اب ہم یہ شراب پی رہے ہیں اور ہمارے ذہنوں کو سکون ہے اور ہمارا دل کاملاً مطمئن ہںہ!

امام نے اپنی بات کوآگے بڑھایا اور کہا:

      جو بھی اپنے آپ کو ہمارا شیعہ سمجھتا ہے اس کو چاہئے کہ شراب پینے سے پرہیز کرے کیونکہ اس کو ہمارے دشمن پیتے تھے۔(1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 45 ، ص 176-177.

۹۲

امام رضاعلیہ السلام کا شہادت نامہ

میں مختلف مواقع و مقامات پر امام رضا علیہ السلام سے سن چکا تھا کہ ایک دن مجھ کو مامون زہر دے گا اور میں شہید ہو جاؤ¶ں گا، لیکن میں دعا کرتا تھا کہ وہ دن نہ آئے یا اگر آئے بھی تو بہت دن بعد آئے کہ جب میں اس دنیا سے جا چکا ہوں تا کہ میں اس برے منظر کو نہ دیکھوں کہ میرے مولا و آقا جانکنی کے عالم میں تڑپ رہے ہوں ، یہاں تک کہ ایک دن آپ نے مجھے بلایا اور حکم دیا کہ:     

اس گنبد میں جاؤ جس کے نیچے ہارون دفن ہے اور اس کی قبر کے چاروں طرف سے ایک ایک مٹھی خاک اٹھا کر لاؤ¶، لیکن یاد رکھو کہ ہر طرف کی مٹی الگ رہے(یعنی سب آپس میں ملنے نہ پائیں)۔

میں رومال میں مٹی لے کر آیا اور امام رضاعلیہ السلامکی خدمت میں پیش کیا ، سب سے پہلے آپ نے اس مٹی پر ہاتھ رکھا جو میں نے داخل ہونے والے دروازے کے قریب سے اٹھائی تھی، اور فرمایا:

یہ مٹی تم نے دروازے کی طرف سے اٹھائی ہے۔

چونکہ میں امام(ع)سے بہت سے کرامات اور عجائب دیکھ چکا تھا اس لئے مجھے تعجب نہ ہوا میں نے عرض کیا: جی ہاں!

لیکن اس کے بعد امام(ع) نے ایسا جملہ ارشاد فرمایا کہ جو میرے لئے بہت عجیب اور ہلادینے والا اور خلاف امید تھا۔

کل لوگ اس مٹی پر میری قبر کھودیں گے لیکن ایک بہت بڑے پتھر سے ٹکرائیں گے کہ اس کو کسی بھی صورت سے نہ ہٹا سکیں گے۔

یہ کہہ کر آپ نے اس مٹی کو دور پھینک دیا  اسکے بعد آپ نے اس مٹی پر ہاتھ رکھا جو میں نے ہارون کی قبر کے داہنی جانب سے اٹھائی تھی اور فرمایا:

یہ مٹی داہنی جانب کی ہے۔

۹۳

میں نے عرض کیا :

جی ہاں، آپ نے درست فرمایا:

آپ نے اس کو بھی دور پھینک دیا اور فرمایا:

پھر لوگ اس جگہ کو کھودیں گے اوریہاں پر ایک تیز نوک دار ٹیلے سے ٹکرائیں گے اور کسی بھی صورت میں اس کو نہ کھود سکیں گے!

پھر آپ نے بائیں جانب کی مٹی پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:

اس میں بھی پہلے ہی کی طرح ایک ٹیلا نکلے گا۔ اس کو بھی آپ نے دور پھینکا، اس کے بعد آپ نے اس مٹی پر ہاتھ رکھا جو میں نے ہارون کی قبر کے سر ہانے سے اٹھائی تھی اور فرمایا:

آخر میں اس مقام پر میری قبر کھودی جائیگی اور وہاں کوئی مشکل پیش نہ آئیگی جب میری قبر کھودی جائے تو تم بھی وہاں پر موجود رہنا اور میری قبر کھودنے میں حصہ لینا ، جب تم میری قبر کی تہہ تک پہونچ جاؤ تو اپنے ہاتھوں کو قبر کی سطح  پر رکھنا اور یہ دعا پڑھنا یہ کہہ کر امام (ع)نے مجھے کچھ کلمات سکھائے وہ سب فوراً مجھے یاد ہوگئے لیکن آپ کی اور مراسم تدفین تمام ہوتے ہی میں ان سب کو بھول گیا:

ان کلمات کو بتانے کے بعد امام(ع)نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:

جیسے ہی تم ان کلمات کو پڑھو گے قبر کے اندر پانی ابل پڑےگا یہاں تک کہ قبر پانی سے بھر جائیگی ۔ پھر اس پانی میں بہت سی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ظاہر ہوں گی۔

اس کے بعد امام (ع)نے مجھے روٹی کا ایک ٹکڑادیتے ہوئے کہا کہ:

۹۴

اس روٹی کو ان مچھلیوں کے لئے چورلو اور جب وہ مچھلیاں ظاہر ہوں تو اس کو پانی میں ڈال دینا جب یہ چھوٹی مچھلیاں روٹی کو کھا چکیں گی تو ایک بہت بڑی مچھلی ظاہر ہو گی اور ان تمام چھوٹی مچھلیوں کو کھاکر غائب ہوجائیگی۔

پھر تم دوبارہ انھیں کلمات کو پڑھوگے تو پانی زمین میں چلا جائیگا اور قبر خشک ہوجائے گی۔

تم میری طرف سے مامون سے کہنا کہ وہ میرے مراسم دفن میں ضرور شرکت کرے تا کہ اس منظر کو دیکھ لے۔

میں نے امام(ع)کی خدمت میں عرض کیا!

اگر مامون نے قبول نہ کیا؟!

امام(ع)نے جواب دیا:

وہ حتماً قبول کریگا!

 ابھی مامون کا قاصد مجھ کو بلانے آئے گا تم بھی میرے پیچھے پیچھے دربار میں آنا اور دیکھنا اگر واپس آتے وقت میں  اپنے سر کو کسی کپڑے سے نہ چھپاؤ¶ں تو تم جس موضوع کے متعلق چاہو مجھ سے گفتگو کرنا لیکن اگر میں اپنے سر کو چھپالوں تو ہرگز، حتی ایک حرف بھی مجھ سے کلام نہ کرنا!

کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ یہ باتیں سن کر میرے دل کو کتنا درد پہونچا ہوگا، اس وقت میں یہ تمنا کر رہا تھا کہ:

اے کاش میں زندہ نہ ہوتا، تاکہ مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑنا۔

ابھی یہ گفتگو ہوہی رہی تھی کہ مامون کا قاصد آیا اور امام(ع)سے کہا کہ:

آپ کو مامون نے بلایا ہے۔

امام (ع)نے لباس تبدیل کیا اور مامون کے قاصد کے پیچھے روانہ ہوگئے ، میں بھی ان کے پیچھے روانہ ہوا۔

چونکہ سب لوگ جانتے تھے کہ میں امام رضا(ع) کا خادم ہوں ا س لئے میں ہر جگہ پر امام(ع)کے ساتھ جاسکتا تھا۔

۹۵

مامون نے جیسے ہی امام(ع)کو دیکھا کھڑا ہو گیا اور تخت سے نیچے اتر آیا، امام(ع)کی پیشانی کا بوسہ لیا اور آپ کو اپنے تخت پر سرہانے کی طرف اپنے برا برمیں بھای یا ۔

مامون کے سامنے ایک میز لگی ہوئی تھی جس پر ایک بہت بہترین ، خوبصورت طبق میں عمدہ قسم کے انگوررکھے ہوئے تھے۔ مامون نے ہاتھ بڑھا کر انگور کا ایک خوشہ (گچھا) اٹھایا،اس میں سے آدھے کو خود کھایااور دوسرا آدھا حصہ (کہ جس میں پہلے سے ہی زہر ڈال رکھا تھا)امام(ع)کی خدمت میں پیش کیا اور کہا:

یہ انگور مجھے تحفے میں دیئے گئے ہیں ، مجھے یہ بات گوارا نہیں ہے کہ میں خود تو کھاؤں¶لیکن آپ کو نہ کھلاؤ¶ں، میری درخواست ہے کہ آپ ان کو تناول فرمائیے۔

امام رضاعلیہ السلام(علم امامت کے ذریعہ اس کی حقیقت کو جانتے تھے) آپ نے فرمایا:

مجھے اس کام سے معاف رکھو!

لیکن مامون نے اصرار کیا کہ:

خدا کی قسم !اگر آپ اس کو کھائیں گے تو خوشحال ہونگے!

امام(ع)نے تین مرتبہ عذر خواہی کی،لیکن ہر مرتبہ مامون نے آپ کو حضرت محمدمصطفی ﷺ اور علی مرتضےٰ علیہ السلامکی قسم دیکر کہا کہ ،کم ہی سہی ، مگرآپ اس میں سے کچھ ضرور رکھا ئںع۔

مجبوراً امام(ع)نے تین دانے انگور کے کھالئے ،اپنی عبا کو دوش کے بجائے سر پر ڈالا اور مامون کے دربار سے نکل گئے۔

جب میں نے دیکھاکہ امام رضا علیہ السلام اپنے سر پر ردا اوڑھے ہوئے ہیں تو سمجھ گیا کہ میں بدبخت ہو گیا ہوں اور اس ملعون نے اپنا کام کردیا ہے۔

جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو چونکہ اما م رضا علیہ السلام میں بولنے کی طاقت نہ تھی اس لئے آپ نے اشارہ کیا کہ میں دوازہ

۹۶

بند کردوں میں نے مضبوطی سے دروازے کو بند کردیا تاکہ کوئی بھی اندر آکر حضرت کو زحمت نہ دے سکے ۔ اس کے با وجود بھی جب حضرت اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئے، ناگاہ میں نے دیکھا صحن میں ایک جوان ہے جو امام رضاعلیہ السلام سے بہت شباہت رکھتا ہے جب کہ میں نے اس سے پہلے اس جوان کو کبھی نہ دیکھا پھر بھی میں نے خیال کیا کہ یہ امام رضاعلیہ السلامکے فرزند ہیں،میں نے عرض کیا:

اے میرے آقا دروازہ تو بند تھا پھر آپ کہاں سے داخل ہوئے؟!

سچ تو یہ ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ امام رضاعلیہ السلام کے بعد کے امام یعنی اما م جواد علیہ السلام ہیں تو میں ہرگز ان سے یہ سوال نہ کرتا چونکہ میں امام رضا علیہ السلام سے اس قدر معجزات دیکھ چکا تھا کہ میں سمجھ گیا تھا کہ ”طی الارض“اور اسی طرح کے کام ہر امام کے لئے چھوٹی سی کرامت اور مختصرسا معجزہ ہے۔

بہر حال اس ماہ ناز جوان نے جواب دیا:زیادہ سوال نہ کرو!(1) یہ جواب دے کر جوان امام رضاعلیہ السلامکی طرف دوڑ پڑے جیسے ہی امام رضاعلیہ السلامنے امام جوادعلیہ السلام  کو دیکھا کمزوری اور بد حالی کے با وجود فوراً   کھڑے ہوگئے اور آپ کو سینہ سے چمٹا لیا پھر دونوں بستر پربیٹھ گئے ۔ امام رضاعلیہ السلام نے اپنی ردا کو سر پر ڈالا اور اسی عبا کے نیچے اپنے بیٹے جوادعلیہ السلام کو بھی لے لیا ، پھر (نجوا) یعنی آہستہ آہستہ راز و نیاز کی باتیں کرنے میں مشغول ہو گئے ،میں ان کی راز کی باتوں میں سے کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔(2)

---------------

(1):-  بعض رویات میں آیا ہے کہ امام جوادعلیہ السلامنے جواب میں فرمایا کہ:”جو خدا مجھے پلک جھپکنے میں مدینہ سے طوس لایا ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ بند دروازے سے مجھکو داخل کردے !”

(2):- بحار الانوار ج49، ص301، پر اس عبارت کا اضافہ ہوا ہے:”میں نے دیکھا کہ امام رضاعلیہ السلامکے منھ سے کف (تھوک جو غصے یا زبان خشک ہونے کی صورت میں خارج ہوتا ہے) خارج ہوا کہ جو برف سے زیادہ سفید تھا، امام جواد علیہ السلام نے اس کو چاٹ لیا اس کے بعد اپنے ہاتھوں کو امام رضا علیہ السلام کے سینے کی جانب سے آپ کے لباس میں داخل کیا اور چڑیا کی مانند کوئی چیز باہر نکالی اور اس کو آپ نے تناول کر لیا اسکے بعد امام رضاعلیہ السلامکا انتقال ہو گیا.

۹۷

اس کے بعد امام رضا علیہ السلام  اپنی جگہ پر لیٹ گئے اور آپکے فرزند محمد جوادعلیہ السلام نے آپ کی عبا سے اپنے چہرے کو چھپایا اور مکان کے در میانی حصے تک آکر مجھے نام کے ساتھ پکارا: اباصلت

میں نے جواب دیا:

فرزند رسول میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔

جب میں آپ کے قریب گیا تو آپ نے مجھے تسلی دی، میں سمجھ گیا کہ میرے آقا امام رضاعلیہ السلامکی روح پرواز کرگئی ہے میں رونے لگا، آپ نے فرمایا:

عظم اللہ اجرک فی الرضا،امام رضاعلیہ السلامدنیا سے چلے گئے ہیں!

جب آپ نے مجھے روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:

اب گریہ نہ کرو،جاؤ مغتسل(1) (یعنی وہ تختہ جس پر میت کو غسل دیا جاتا ہے)اور پانی لے کر آؤ¶تا کہ امام رضاعلیہ السلامکی تجہیز و تکفین کا کام شروع کیاجائے۔

میں مدتوں امام رضاعلیہ السلام کے ساتھ اس گھر میں رہ چکا تھا اور اس گھر کی ہر ہر چیز کی خبر رکھتا تھا، میں نے عرض کیا:

اے میرے آقا ، پانی گھر میں موجود ہے، لیکن گھر میں کوئی بھی غسل کا تختہ نہیں ہے ، صرف یہی ایک صورت ہے کہ باہر سے لایا جائے۔

لیکن امام جواد علیہ السلام نے فرمایا:

انبار میں ایک مغتسل موجود ہے۔

---------------

(1):-  مغتسل یعنی وہ تختہ جس پر جنازے کو غسل دیتے ہیں.

۹۸

میں نے بارہا تمام انبار کو اوپر نیچے کیا تھا ، لیکن میں نے کبھی بھی وہاں کوئی مغتسل نہ دیکھا تھا، اس کے باوجود بھی میں جیسے ہی داخل انبار ہوا میں دیکھا کہ وہاں ایک صاف ستھرا مغتسل موجود ہے۔

میں نے امام رضا علیہ السلام کے بدن کو مغتسل پر رکھنے میں امام جوادعلیہ السلام کی مدد کی سوچا نے چاہا کہ دوسرے کاموں میں بھی آپ کی مدد کروں لیکن آپ فرمایا: تم ایک طرف بیٹھ جاؤ¶، فرشتے میری مدد کریں گے ، ابھی تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

جب غسل تمام ہوا تو امام جوادعلیہ السلامنے فرمایا:

بابا کا کفن اور حنوط لے کر آؤ¶۔

میں نے جواب دیا کہ: 

ابھی ہم نے امام رضاعلیہ السلامکے لئے کوئی کفن آمادہ نہیں کیا تھا۔

پھر بھی امام جواد علیہ السلامنے فرمایا: کفن انبار میں موجود ہے۔

جب میں انبار میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کفن و حنوط موجود ہے !جب کہ میں نے اس سے پہلے کبھی بھی اس کو اس جگہ پر نہ دیکھا تھا، اس کے بعد پھر آپ نے فرمایا:

تابوت لے کر آؤ¶۔

مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آئی کہ ہمارے پاس تابوت نہیں ہے ، اب میں خود سمجھ چکا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے ، میں سیدھا انبار میں گیا اور وہاں سے ایک تابوت لا یا جس کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور لا کر امام جوادعلیہ السلامکی خدمت میں رکھ دیا:

ہم نے امام رضا علیہ السلامکے جنازے پر نماز میت پڑھی ۔ سورج بھی آپ کی جگہ کو خالی دیکھ کرتاب نہ لاسکا اور شہر طوس کے بڑے پایڑوں کے پیچھے جا کر چھپ گیا۔

۹۹

میں نے نماز مغرب بھی امام جوادعلیہ السلامکی اقتدا میں پڑھی۔ نماز کے بعد ہم لوگ گفتگو میں مشغول ہوگئے کہ اچانک مکان کی چھت پھٹی اور امام رضاعلیہ السلامکا تابوت آسمان کی طرف پرواز کر گیا:

یہ منظر امام جوادعلیہ السلامکے لئے بالکل معمولی تھا لیکن میں نے وحشت زدہ ہو کر آپ کی خدمت میں عرض کیا:

اے میرے آقا! یقینا ًمامون امام رضاعلیہ السلامکے جنازے کو مجھ سے طلب کریگا اس وقت کونسی مٹی سے میں اپنے سر کو چھپاؤ نگا؟!(اس کو کیا جواب دونگا)

امام جوادعلیہ السلام نے اطمنان کے ساتھ جواب دیا:

آپ پریشان  نہ ہوں آپ کے لئے کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی ۔ بہت جلد امام علیہ السلامکا جسم (تابوت)اپنی جگہ پرواپس پلٹ آئیگا۔

جان لو کہ اگر کوئی پیغمبرﷺ زمین کے مغربی حصے میں انتقال کرے اور اس کا کوئی وصی زمین کے مشرق میں انتقال کرے تو بھی خدا وند عالم دفن سے پہلے ان دونوں کو واپس میں جمع کرتا ہے۔(یعنی دونوں کی ملاقات کراتاہے)

آدھی یا آدھی سے کچھ زیادہ رات گذر چکی تھی کہ دوبارہ چھت پھٹی اور تابوت اپنی پرانی جگہ پر پلٹ آیا!

نماز صبح پڑھنے کے بعد امام جوادعلیہ السلامنے فرمایا:

جاؤ¶گھر کے دروازے کو کھول دو اب مامون (گمراہ انسان)تمہاری تلاش میں آئیگا تم اس کو یہ بات سمجھا دینا کہ امام رضاعلیہ السلام کی تجہیز و تکفین ہو چکی ہے۔میں نے دروازے کی طرف حرکت کی اور پلٹ کر پھر سے ایک مرتبہ امام جوادعلیہ السلامکی طرف دیکھا لیکن آپ کی کوئی خبر نہ تھی(یعنی آپ موجود نہ تھے)جب کہ آپ نہ کسی دروازے سے داخل ہوئے اور نہ خارج !

میں نے دروازہ کھولاتودیکھا کہ مامون گھوڑے کی پشت پر سوار ہے کچھ محافظ اور درباری بھی اس کے پیچھے ہیں جیسے ہی مامون نے مجھے دیکھا بلافاصلہ سوال کیا:

۱۰۰