شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات0%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 255
مشاہدے: 195862
ڈاؤنلوڈ: 4886

تبصرے:

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 195862 / ڈاؤنلوڈ: 4886
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شروع میں انہوں نے علی کے ہاتھوں پرغدیر کے دن بیعت کی لیکن رحلت پیغمبر (ص)کے بعد ہوای نفس و حبّ ریاست و جاہ طلبی کا شکار ہوا اور بیعت شکنی کی (1) هذا تسلیم و رضی ثم بعد هذا غلب الهوی حبّاً للریاسة.

ابوبکر کو صدیق ، عمر کو فاروق کا لقب کس نے دیا؟

کوئی ایک حدیث صحیح پیغمبر اکرم (ص)کی طرف سے نقل نہیں ہوئی ہے جس میں ابوبکر کو صدیق اور عمر کو فاروق کا لقب دیا ہو.اگر یہ القاب ملا ہے تو وہ علی ابن ابیطالب کیلئے ملا ہے  چنانچہ طبری نے عباد بن عبدللہ سے نقل کیا ہے :«سمعت علیاً یقول: انا عبدالله واخو رسوله وانا الصدّیق الاکبر. لا یقولها بعدی الا کاذب مفتر، صلیت مع رسول الله (ص)قبل الناس بسبع سنین» (2)

راوی کہتا ہے کہ میں نے علی(ع) کو سنا ہے کہ آپ فرمارہے تھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں ،اس کے نبی کا بھائی ہوں اور میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد کسی اور کو یہ لقب نہیں ملا اگر کوئی یہ لقب رکھنا چاہے تو وہ جھوٹا ہے میں نے رسول خدا (ص)کے پیچھے سات سال کی عمر میں سب سے پہلے نماز پڑھی ہے.

خلفاء اور علیؑ کے درمیان اچھے روابط

سؤال: کیا یہ صحیح ہمارے خلیفون کے درمیان اچھے روابط موجود تھے جس کی دلیل یہ ہے کہ علی نے اپنے بیٹوں کے نام بھی ابوبکر، عمر اور عثمان رکھا؟

جواب: لیکن کیا ابوبرو ، عمر اور عثمان سے کسی نے اپنے بچوں کا نام حسن ، حسین یا علی رکھا ؟! نہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے اور اہل بیت کے درمیان اچھے روابط نہیں تھے .

--------------

(1):-  سیر اعلام النبلاء 19: 328.

(2):-  تاریخ طبری 1: 537. مسند زید ح 973. ـ سنن ابن ماجہ 1: 4 - مستدرک حاکم 3: 44.

۱۲۱

عمر اور ام کلثوم کی شادی کی داستان

سؤال : عمربن خطاب اور ام کلثوم دختر حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کی شادی ایک جھوٹی داستان ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں دلیل:

اولا: سب سی پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کسی بھی  صحاح ستة میں تفصیل کے ساتھ نہیں آئی ہے.

ثانیاً: بعض اسلامی محققین کے مطابق حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کی کوئی بیٹی ام کلثوم کے نام سے نہیں تھی(1) بلکہ حضرت زینب  کی کنیت تھی.جس نے  عبداللہ بن جعفر کے ساتھ ازدواج کیا ہے. 

ثالثاً: تشابہ اسمی ہوا کہ عمر نے ابوبکر کی بیٹی ام کلثوم کیلئے خواستگاری   بھیجالیکن عائشہ کی مخالفت کی وجہ سے وہ شادی نہ ہوسکی(2)

رابعاً: عمر کی شادی ایک عورت بنام ام کلثوم ـ ہوئی لیکن وہ جرول کی بیٹی اور عبیداللہ بن عمر کی ماں تھی(3) اورحضرت علی(رضی اللہ عنہ)کی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں.

خامساً: تاریخی حقایق اس قول کو جھٹلاتی ہے کہ اور کہتی ہے کہ  حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)کی رحلت کے بعد  محمد بن جعفر  اور اس کی موت کے بعد اس کا بھائی عون بن جعفر نے اس کے ساتھ شادی کی جبکہ تاریخ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہ دونوں بھائی جنگ تستر(4) کہ جو  زمان عمر(رضی اللہ عنہ) میں واقع ہوئی تھی شہید ہوگئے تھے.

--------------

(1):-  حیاة فاطمة الزہراء: 219 (باقر شریف قرشی ـ و در بعضی از کتابہای رافضہ مانند علل الشرائع.

(2):- الاغانی 16: 103.

(3):- سیر اعلام النبلاء (تاریخ خلفاء) 87.

(4):- استیعاب 3: 423 و 315، تاریخ طبری 4: 213 ـ الکامل فی التاریخ 2: 546.

۱۲۲

سادساً:یہ لوگ مدعی ہیں کہ ان دو بھائیوں کی شہادت کے بعد تیسرے بھائی نے ان کے ساتھ شادی کی ہےجب کہ زینب بنت علی کیساتھ پہلے شادی کرچکا تھا .اور جمع بین الاختین جائز نہیں ہے .(1)

فضائل علیؑ ممنوع لیکن ان کی شان میں گستاخی آزاد

سؤال: کیا حکومت کی طرف سے  فضائل علی(رضی اللہ عنہ)کا بیان کرنا  ممنوع اور علی پر سب و شتم کرنے میں لوگ آزاد تھے؟

جواب : ہاں نہ صرف آزاد تھے بلکہ حکومت کی طرف سے تشویق بھی کیا جاتا تھا اور علی کے فضائل بیان کرنے والوں کو سولی پر چڑائے جاتے تھے جس کی مثال تاریخ میں ملتی ہے جیسا کہ معاویہ خود کہتا کہ میں نہیں جانتا کہ میں نے بن عدی کو کس جرم میں قتل کیا!

صحابی رسول عبداللّہ بن شداد کہتا ہے کہ میری یہ آرزو تھی کہ مجھے اجازت مل جاتی کہ صبح سے لیکر ظہر تک علی کے فضائل بیان کرتا اور اس کے بعد مجھے سولی پر چڑھایا جاتا.

امام ذہبی کہتا ہے:

«... عبداللّه بن شداد: وددت أَنی قمتُ علی المنبر من غدوة الی الظهر، فاذکر فضائل علی بن ابیطالب رضی اللّه عنه ثم انزل، فیضرب عنقی» (2)

کیوں کہ رسول گرامی کا چچا زاد بھائی اور فاطمہ زہرا کا شوہر نامدار پر معاویہ کے دور حکومت میں لعن طعن کرنا شروع کیا اور ان کے فضائل بیان کرنے پر پابندی لگائی گئی؟ اس بارے میں  حموی بغدادی دربارہ سجستانی می گوید:

--------------

(1):-  الطبقات الکبری 8: 462

(2):- سیر اعلام النبلاء 3: 489.

۱۲۳

«و اجلَّ من هذا کله انه لعن علی بن ابیطالب ـ رضی اللّه عنه ـ علی منابر الشرق والغرب ولم یلعن علی منبرها الاّ مرة وامتنعوا علی بنی امیة حتی زادوا فی عهدهم ان لا یلعن علی منبرهم احد... وای شرف اعظم من امتناعهم من لعن اخی رسول اللّه. علی منبرهم وهو يُلعن علی منابر الحرمین مکة والمدینة؟». (1)

یعنی حضرت علی(رضی اللہ عنہ) پر بنی امیہ کے دور حکومت میں تمام اسلامی ممالک میں منبروں سے لعن و طعن کرنے کا رواج دیا گیا اور صرف ایک منطقہ میں اس بدعت کی مخالفت کی گئی وہ سیستان تھا  ـ ابوالفرح اصفہانی کہتا ہے کہ المغیرة نے علی اور ان کے شیعوں پر لعن وطعن کیا جبکہ امام احمد بن حنبل لکھتا ہے (2) کہ پیغمبر (ص) کو  حضرت علی(رضی اللہ عنہ)سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :«من سبّک فقد سبنی». (3) یعنی جو بھی تجھے سب کرے اس نے مجھے سب کیا ہے .

 سؤال: امام ذہی  اور امام مالک نے کیوں فضائل علی کو چھپانے کی کوشش کی ؟

جواب کیونکہ وہ دونوں حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کے دشمنوں  اور بنی امیہ کے طرفداروں میں سے تھے اس لئے علی کے فضائل کو چھپاتے تھے یہاں تک کہ فضیلت والی ایک روایت بھی ان لوگوں نے نقل نہیں کی ہیں. 1«ولستُ احفظ لمالک ولا للزهری فیما رویا من الحدیث شیئاً من مناقب علی(رضی الله عنه)». (4)

--------------

(1):- معجم البلدان 3. 191.

(2):- سیر اعلام النبلاء 3: 31. الاغانی 17: 138.

(3):- مسند احمد 10: 228 ح 26810.

(4):- المجروحین 1: 258 ـ

۱۲۴

 ذہبی اور فضائل علی(ع)

ذہبی سے فضائل حضرت علی(رضی اللہ عنہ) برداشت نہیں ہوتا تھااگر کوئی حدیث ایسی ہوتی کہ جس میں علی کے فضائل بیان ہو ئے ہوں تو اسے کسی نہ کسی طرح رد کرتا تھا چنانچہ غماری سنی کہتا ہے :«الذهبی اذا رای حدیثا فی فضل علی(رضی الله عنه)بادر الی انکاره بحق و بباطل، کان لایدری ما یخرج من راسه» .(1)

کیا یہ صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم سے جتنےعلی کے فضائل صحیح السند کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں کسی اور صحابہ کے بارے میں بیا ن نہیں ہوئے ہیں.

جواب : ہاں اس میں کوئی شک نہیں ہے.جسکے بارے میں احمد بن حنبل،نسائی،نیشابوری اور دوسروں نے تصریح کے ساتھ بیان کئے ہیں :لم یرد فی حق احد من الصحابة بالاسانید الجیاد اکثر مما جاء فی علی(رضی الله عنه). (2)

حسکانی حنفی کہتا ہے: علی ایک سو بیس فضیلت کے مالک ہیں جن میں ایک بھی صحابی رسول شریک نہیں ہے لیکن جو فضائل دوسرے اصحاب میں موجود ہیں ان میں علی بھی شریک ہیں:

کان لعلی بن ابی طالب عشرون و مائة منقبة لم یشترک معه فیها احد من اصحاب محمد(ص) و قد اشترک فی مناقب الناس» (3)

پس ہماری تکلیف ایسے افراد کے بارے میں ہے جو علی کے فضائل چھپانا چاہتے ہیں یا دوسرے اصحاب کو ان کے برابر جانتے ہیں یادوسرے خلفاء کو ان سے مقدم جانتے ہیں جیسے بخاری؟ اس کا جواب آپ خود بیان فرمائیں .

 سؤال کیا یہ صحیح ہے کہ بہت ساری روایات اور احادیث ابوبکر اور عمر کے فضائل میں جعل کئے گئے ہیں اور یہ سب جھوٹی روایتیں ہیں جنہیں اہل سنت نے جعل کیا ہے؟

--------------

(1):- فتح الملک العلی: 20.

(2):- فتح الباری 7: 89. الاصابة 2: 508

(3):- شواہد التنزیل: 24، ح 5.

۱۲۵

میں نے اس اعتراف کو امام عسقلانی کے کلام میں دیکھا جس سے بہت تعجب ہوا کہ ہم اپنے مذہب کی جھوٹ اور بہتان کے ساتھ تبلیغ کر رہے تھے:ینبغی ان یضاف الیها الفضائل، فهذه اودیة الاحادیث الضعیفة و الموضوعة. اما الفضائل، فلا تحصی کم وضع الرافضة فی فضل اهل البیت و عارضهم جهلة اهل السنة بفضائل معاویه، بدوا بفضائل الشیخین (1)

یعنی یہ سزاوار ہے کہ ان فضائل والی کتابوں کو جن کی کوئی سند نہیں ہےاور جعلی اور جھوٹی احادیث سے پُر ہیں ۔فضائل والی کتابوں کو تو اہل سنت نے رافضیوں (شیعوں) کے مقابلے میں لکھی  ہیں انہوں نے اہل بیت کے فضائل میں لکھی تو ہم نے ابوبکر ، عمراور معاویہ  کے فضائل میں لکھی ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا امام عسکلانی کا یہ اعتراف کرنا شیخین کے جھوٹی فضائل پر دلیل نہیں ہے؟!

سؤال: کیا یہ صحیح ہے کہ ابوہریرہ نے کئی روایات کو  مقام انبیاء کو کم کرنے کیلئے بیان کی ہے جسے بخاری نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے ؟ جن میں سے کئی نمونہ یہ ہیں:

1. حضرت ابراہیم نے تین بار جھوٹ بولاہے (نعوذ باللہ(لم یکذب ابراهیم الاّ ثلاث کذبات». (2)

فخر رازی کہتا ہے :«لا یحکم بنسبة الکذب الیهم الاّ الزندیق». (3) جس نے بھی انبیاء الٰہی پر جھوٹ باندھا وہ زندیق ہے. دوسری جگہ لکھتا ہے کہ خلیل الرحمن کی طرف جھوٹی نسبت دینے سے راوی حدیث (ابوہریرہ) کی طرف جھوٹی نسبت دینا ہے. ابوہریرہ کہتا ہے: حضرت موسی ٰغسل کرنے کے بعد بالکل عریان بنی اسرائیل کے درمیان حاضر ہوئے اور آپ کا سارا بدن حتی کہ شرمگاہ بھی دکھائی دے رہی تھی نعوذ باللہ:فراوه عریانا احسن ما خلق الله، وابراهُ مما یقولون (4)

--------------

(1):- لسان المیزان 1: 106، دارالکتب العلمیة، بیروت.

(2):- صحیح بخاری 4: 112.

(3):- التفسیر الکبیر 22: 186 ـ و 26: 148.

(4):- صحیح بخاری 4: 129 / بدء الخلق 2: 247 دار المعرفة.

۱۲۶

کیوں  اماموں کے نام قرآن میں نہیں آئے ؟

یہ اشکال کرنے والا یہ سوچ رہا ہے کہ اگر اماموں کا نام قرآن میں آتا تو مسلمانوں کے درمیان اختلافات بھی ختم ہوجاتے درحالیکہ یہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا، بلکہ کام اس کے برعکس ہوتا کہ دشمن اور حاکم وقت ان کی نسل کشی میں لگ جاتی تاکہ کوئی نسل نہ بچے، جیسا کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ یہی ہوا .

قرآن کریم کی روش یہ ہے کہ کلیات اور عمومی اصول کو بیان کرے اور اس کی تشریح اور مصادیق اور جزئیات کو پیغمبر اکرم(ص) بیان کرے.چنانچہ آیة شریفہ میں تبیّن آیا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ آشکار اور وضاحت کرنا پیغمبر اکرم (ص) کا کام ہے

و انزلنا الیک الذکر لتبیّن للنّاس ما نزّل الی ه م و لعلّ ه م یتفكّرون (1)

ہاں ، کبھی نام لیکر معرفی کرنا بھی پڑتا ہے جیسے حضرت عیسی نے فرمایا: میں تمھیں  بشارت دیتا ہوں ایسے نبی کی جس کا نام احمد ہے  جو میرے بعد آنے والا ہے:و مبشّراً برسولٍ یاتی من بعدی اسم ه احمد (2)

اور کبھی تعداد بیان کرکے معرفی کی گئی ہے جیسے:اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائلب کی اولادوں میں سے بارہ  سربراہ چن لئے:

و لقد اخذ الل ه میثاق بنی‏اسرائیل و بعثنا من ه م اثنی عشر نقیباً . (3)

اور کبھی صفات بیان کرکے معرفی کی گئی ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) کی معرفی تورات اور انجیل میں  کی گئی :

الذین یتّبعون الرسول النّبىّ الامّىّ الذی یجدون ه مکتوباً عند ه م فی التوراة و الانجیل یامر ه م بالمعروف و ین ه ا ه م عن المنکر و یحلّ ل ه م الطیّبات و یحرّم علی ه م الخبائث و یضع عن ه م اصر ه م و الاغلال التی کانت علی ه م .(4)

--------------

(1):- سورة نحل (16)، آیة 44.

(2):- سورة صف (61)، آیة 6.

(3):- سورة مائدہ (5)، آیة 11.

(4):- سورة اعراف (7)، آیة 157.

۱۲۷

ان مطالب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بارہ اماموں کا نام  یا ان کے والدین کا نام قرآن میں ڈھونڈنا بے جا ہے کیونکہ کبھی مصلحت نام کے بیان کرنے میں ہے تو کبھی نام کے چھپانے اور صفات بیان کرنے  میں ہے پس نام ذکر کرنا اختلافات کو ختم کرنے کا  سبب نہیں بنتابلکہ معاشر میں  افراد میں قبول کرنے کی صلاحیت اور ظرفیت ہونی چاہئے. بلکہ کبھی تو پیشواؤں کا نام لینا حکومت اور ریاست میں نسل کشی کا بھی سبب  بنتا ہے .جیسا کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا. چنانچہ معروف ہے کہ لاکھوں بچوں کا سر قلم کیا  گیا تاکہ ایک کلیم اللہ موسیٰ زندہ رہے.

اسی طرح امام  مھدی  ؑکے بارے میں بھی لوگ زیادہ حساس  ہو گئے تھے اور امام عسکری ؑکو قید میں رکھا گیا تاکہ مھدی ؑدنیا میں ہی نہ آئے ، اور اگر آئے تو اسے  فوری طور پر ختم کیا جائے .

اسی طرح یہ بھی  جان لیں کہ قرآن مجید قانون اساسی ہونے کے باوجود ساری  ضروریات دین کو وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کیا : جیسے روزہ ، نماز اور زکات وغیرہ کو کلی طور پر بیان کیا ہے لیکن ان کی جزئیات کو رسول خدا (ص) نے بیان فرمایا ہے(1)

حدیث عشرہ مبشرہ کی حقیقت

سؤال:کیا یہ صحیح ہے کہ  حدیث عشرہ مبشرہ اموی و عباسی حکومتوں کی طرف سے جھوٹی اور جعلی حدیثیں ہیں ؟ اگر یہ صحیح تھا تو بخاری اور مسلم اسے نقل کرتے اور اگر یہ صحیح تھا تو کیوں  ابوبکر اور عمر ـ رضی اللہ عنہما  سقیفہ کے دن اس سے اپنی حقانیت پر  استدلال نہیں کیا جبکہ ہر ضعیف اور غیر ضعیف حدیثوں پر  استناد کئےہیں. اگر ایسی کوئی حدیث معتبر ہوتی تو اپنی موقعیت کو مضبوط اور محکم کرنے کیلئے بہت مہم اور ضروری تھا.لیکن اس حدیث کی سند یہ ہے کہ ایک سند میں   : حمید بن عبد الرحمن بن عوف ہے جس نے اپنے باپ.عبدالرحمن سے نقل کیا ہے جبکہ حمید اپنے باپ کی وفات کے وقت ایک سالہ تھا(2)

--------------

(1):- ماہنامہ موعود شمارہ 80، افق حوزہ، 3/ 5/ 1386.

(2):- تہذیب التہذیب 3 40.

۱۲۸

صحابہ کا ایک دوسرے پر لعن کرنا

سؤال : کیایہ صحیح ہے کہ  صحابہ پیغمبر (ص) ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے تھے  چنانچہ خالدبن ولید اور عبدالرحمن بن عوف کے درمیان واقع ہوا کہ خالد اسے نفرین کرتا تھا اسی طرح  عمار اور عثمان کے درمیان واقع ہوا ان کے علاوہ عثمان ، عائشہ اور حفصہ نے بھی ایک دوسرے کو لعن کیا .(1) ایسی صورت میں کیا اگر کسی صحابہ کو سب کرنے سے کافر اور مرتد ہوگا؟

سؤال: کیا یہ صحیح ہے  کہ حضرت معاویہ(رضی اللہ عنہ)نے  محمد بن ابی بکر کو خط لکھا جس میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ خلافت کا اصل حقدار حضرت علی رضی اللہ عنہ تھا لیکن  ابوبکر و عمر ـ رضی اللہ عنہما نے ان سے  غصب کرکے خود اس مسند پر بیٹھ گئے ہیں  جس کی کوئی مشروعیت نہیں ہے(2)

سؤال : کیا یہ کہنا صحیح کہ   حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے چار باپ تھے اور اس کی ماں بدکارہ اور پرچم دار عورتوں میں سےتھی ؟

جواب :زمخشری و ابوالفرج اصفہانی و ابن عبدر بہ و ابن الکلبی اس تلخ  حقیقت کو  نقل کرتے ہیں:ابن ُلبی کہتا ہے :«کان معاویة لعمارة بن ولید بن المغیرة المخزومی و لمسافر بن ابی عمرو، و لابی سفیان و لرجل آخر سمّاه و کانت هند امّه من المغیلمات، و کان احبّ الرجال الیها السودان...» (3)

یعنی معاویہ کو چار باپ کی طرف نسبت دی گئی ہے جن کے نام یہ ہیں :عمارة بن ولید, مسافربن ابی عمرو، ابوسفیان اور صباح ، اور اس کی ماں ہند بدکار ،پرچم دار اور فاحشہ عورتوں میں سے تھی اور کالے مردوں کو زیادہ پسند کرتی تھی .امام زمخشری نے بھی اس مطلب کو بیان کیا ہے(4)

--------------

(1):-  اعلام النبلاء 1: 425.ـ در مصنف عبد الرزاق 11: 355، ح 20732

(2):- شرح نہج البلاغہ 3: 188.

(3):- مثالب العرب: 72

(4):- ربیع الابرار 3: 549 ـ الاغانی 9: 49 ـ العقد الفرید 6: 86 - 88

۱۲۹

  پرچم دار سے مراد یہ ہے کہ عرب جاہلیت کے دوران جو بھی عورت  جسم فروشی کرتی تھی  وہ اپنے گھر  کے دروازے پر جھنڈا کھڑی کرتی تھی یہ اس بات کی دلیل تھی کوئی بھی شخص آنا چاہے تو یہ عورت حاضر ہے.

سؤال: کیایہ صحیح ہے کہ حضرت معاویہ(رضی اللہ عنہ) اپنے دور خلافت اور امّت اسلامی کی رہبری میں شراب پیتے اور پلاتے تھے ؟

جواب : امام احمد بن حنبل ابن بریدہ سے نقل کرتا ہے:

عبداللّه بن بریده قال: دخلت انا و ابی علی معاویه، فاجلسنا علی الفرش، ثم أُتینا بالطعام فاکلنا ثم اتینا بالشراب، فشرب معاویة، ثم ناول ابی، ثم قال: ما شربته منذ حرّمه رسول الله (ص)ـ صلی الله علیه و سلّم ـ » (1)

عبداللہ بن بریدہ کہتا ہے کہ ایک دن اپنے باپ  بریدہ کے ساتھ معاویہ کے دربار میں وارد ہوا اس نے ہماری خاطرر خواہ عزت کی  اور  کھانا لایا اس کے بعد مشروب لایا گیا اس نے پیا پھر میرے باپ  کو پیش کی  تو میرے باپ نے کہا : جب سے میں نے  پیغمبر اکرم (ص)سے سنا ہے کہ یہ حرام ہے اس وقت سے اب تک منہ نہیں لگایا ہے

اشکال : وعدہ قرآن کے برخلاف دشمنان اہل بیت یعنی بنی امیہ ہزاروں موجود ہیں!!

جواب: اہداف کی بقا انسان کی بقا ہے اور اہداف  اصل ہے نہ وجود انسان اور یہ دیکھنا کس گروہ کا ہدف باقی ہےاور کس گروہ کا پرچم آج سربلند ہے؟

--------------

(1):-  مسند احمد 5: 347.

۱۳۰

سؤال 74: آیا صحیح است کہ می گویند بسیاری از روایات و احادیث در فضائل حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ) و حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)، دروغ کذب و ساختہ و پرداختہ جاہلان ما از اہل سنّت است؟

من این اعتراف را در سخنان امام عسقلانی دیدم بسیار تعجب کردم، کہ ما با دروغ و اکاذیب از مذہب خودمان تبلیغ و دفاع می کنیم:

ینبغی ان یضاف الیها الفضائل، فهذه اودیة الاحادیث الضعیفة و الموضوعة... اما الفضائل، فلا تحصی کم وضع الرافضة فی فضل اهل البیت و عارضهم جهلة اهل السنة بفضائل معاویه، بدوا بفضائل الشیخین...». [175]یعنی سزاوار است بر کتابہائی کہ ریشہ ندارد کتابہای فضائل را افزود چون اینہا پر از احادیث ضعیف و ساختہ شدہ است اما فضائل ـ ساختگی از حد شمارش خارج است چون رافضة در فضل اہل بیت حدیث وضع کردند و جّال و افراد نادان از اہل سنت برای مقابلہ با آنان احادیث دروغ و جعلی در فضائل عمر و ابوبکر و معاویہ ساختند.

راستی این یک اقرار و اعتراف بہ دروغ بودن بسیاری از فضائل شیخین نیست؟ و آیا نسبت بہ انکار فضائل اہل بیت پیغمبرـ صلی اللہ علیہ و سلّم ـ یک ادعای بیجا و گزافی نکردہ است؟!

سؤال 75: آیا درست است آنچہ می گویند کہ ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ)، دزد بودہ و از اموال بیت المال مبالغ کلانی را اختلاس کردہ بود و عمربن الخطاب بہ او می گفت: «یا عدوالله وعدو کتابه سرقت مال الله» .[176] یعنی ای دشمن خدا و قرآن. اموال خدا را بہ سرقت بردی. آیا کسی کہ دشمن خدا و قران بودہ و بر اموال خدا امین نباشد می توان او را بر سنت و احادیث پیغمبر ـ صلی اللہ علیہ و سلّم ـ امین قرار داد.

سؤال 76: آیا درست است کہ می گویند: ابوہریرہ کہ راوی پنج ہزار حدیث است، و فقط امام بخاری از او بیش از چہارصد حدیث آوردہ، این شخص، مورد وثوق حضرت علی، و عمر و عائشہ(رضی اللہ عنہ) نبودہ.[177]

ابوحنیفہ می گوید: تمامی صحابہ عادل ہستند مگر: ابوہریرہ و انس بن مالک و...[178]

و عمربن الخطاب پس از تادیب او بہ او گفت:«یا عدوّالله و عدوّ کتابه» .[179]

۱۳۱

و عائشہ در مقام اعتراض بہ او گفت: اکثرت عن رسول اللہ (ص)[180] و در جای دیگر گفتہ:«ما هذه الاحادیث التی تبلغنا انّک تحدّث بها عن النبی هل سمعت اِلاّ ما سمعنا؟ وهل رایت الاّ ما راینا؟» .[181]

و مروان حکم، در مقام اعتراض می گوید: مردم ترا متہم می کنند کہ این حجم زیاد از احادیث با مدت زمانی ـ کوتاہ ـ کہ با پیغمبر بودی تناسب ندارد.«انّ الناس قد قالوا: اکثر الحدیث عن رسول الله وانما قدم قبل وفاته بیسیر» .[182]

و گاہی کہ می گفت:«حدثنی خلیلی ابوالقاسم، حضرت علی(رضی الله عنه)او را منع کرده و گفت: متی کان خلیلا لک؟» [183] می گفت دوستم پیغمبر، برایم حدیث کرد. حضرت علی در مقام رد او می گفت: چہ زمان پیغمبر دوست تو بود!!

و فخر رازی می گوید: بسیاری از صحابہ، ابوہریرہ را مورد طعن و رد قراردادہ اند:

«انّ کثیراً من الصحابة طعنوا فی ابی هریرة وبیّناه من وجوه: احدها: انّ ابا هریرة روی انَّ النبی ـ صلی الله علیه و سلّم ـ قال: من اصبح جنباً فلاصوم له، فرجعوا الی عائشة وام سلمة فقالتا: کان النبیّ یصبح ثم یصوم. فقال: هما اعلم بذلک. انبانی بهذا الخبر الفضل بن عبّاس، واتفق انّه کان میتاً فی ذلک الوقت» .[184]

و ابراہیم نخعی دربارہ احادیث او می گوید:«کان اصحابنا يَدَعون من حدیث ابی هریرة» .[185]

و می گوید:«ما کانوا یاخذون من حدیث ابی هریرة الاّ ما کان من حدیث جنّة او نار».

سؤال 77: آیا صحیح است کہ ابوہریرہ روایاتی را در قدح و تنقیص و کوچک کردن مقام انبیاء نقل کردہ و بخاری آنرا در صحیح خود نقل می کند؟ برای نمونہ:

1 ـ حضرت ابراہیم سہ بار دروغ گفتہ (نعوذ باللہ).

«لم یکذب ابراهیم الاّ ثلاث کذبات».[ 186]

۱۳۲

فخر رازی می گوید: کسی بہ انبیاء خدا دروغ را نسبت نمی دہد مگر زندیق باشد.«لا یحکم بنسبة الکذب الیهم الاّ الزندیق».[ 187]

و در جای دیگر می گوید: نسبت دروغ بہ راوی حدیث ـ ابوہریرہ ـ آسانتر از نسبت آن بہ خلیل الرحمن است.

2 ـ ابوہریرہ می گوید: حضرت موسی پس از غسل کردن در آب لخت و عریان در جمع بنی اسرائیل حاضر شد، و تمامی بدن او مکشوف بود، بہ گونہ ای کہ عورت او ہم ـ نعوذ باللہ ـ دیدہ شد و اتہام بہ بیماری ادرہ ـ قُر بودن ـ او نیز دفع شد.

«فراوه عریانا احسن ما خلق الله، وابراهُ مما یقولون».[ 188]

سؤال 78: آیا درست است آنچہ می گویند: حدیث عشرہ مبشرہ از موضوعات و دروغ پردازیہای حکومتہای اموی و عباسی بودہ و اگر صحیح بودہ بخاری و یا مسلم آنرا نقل می کردند.

و اگر صحیح بود: چرا ابوبکر و عمر ـ رضی اللہ عنہما ـ ، در روز سقیفہ بہ آن استدلال نکردہ، و حال آنکہ بہ ہر ضعیف و غیر ضعیفی استناد کردند. و استناد آنان بہ چنین حدیثی برای محکم کردن موقعیت خود بسیار مہم و لازم بود.

و می گویند: دو سند دارد، در سند اول: حمید بن عبد الرحمن بن عوف است. کہ حمید از پدرش عبدالرحمن نقل می کند، در حالیکہ حمید ہنگام رحلت پدر یک سالہ بودہ [189] و در سند دیگر آن عبداللہ بن ظالم است کہ بخاری، و ابن عدی، و عقیلی و دیگران او را تضعیف کردہ اند. [190]

سؤال 79: چگونہ حدیث عشرہ مبشرہ صحیح است و حال آنکہ متضمن اضداد می باشد، و این بہ معنای تضاد در دین و بطلان دین است چون جمع بین الاضداد از محالات عقلی است.[191] چون خط مشی حضرت ابوبکر با حضرت عمر فرق می کرد. و گاہی یکدیگر را نفی می کردند خط مشی حضرت عثمان با ہر دو فرق می کرد. و خط مشی حضرت علی(رضی اللہ عنہ)با ہر سہ فرق داشت. و اصلا ارزشی برای سیرہ شیخین قائل نبود. و بہ ہمین جہت در روز شوری شرط پیروی از سیرہ شیخین را نپذیرفت.[192]

۱۳۳

خط مشی و روش عبدالرحمن بن عوف با عثمان کاملا متناقض و متضاد بود، و تا آخر عمر با او قہر کردہ [193] و در این حال فوت شد. خط مشی و روش حضرت علی(رضی اللہ عنہ)با طلحہ و زبیر فرق می کرد و لذا ریختن خونشان را مباح می دانست و آنہا نیز جنگ با حضرت علی(رضی اللہ عنہ) را جایز و قتل او را مباح می دانستند حال آیا ہمہ اینان جزو عشرہ مبشّرہ ہستند. یعنی ہمہ این روشہای متناقض امضا شدہ و، اسلام و آیین پیغمبر آنہا را می پذیرد؟

(([175] لسان المیزان 1: 106، دارالکتب العلمیة، بیروت.

[176] الطبقات الکبری 4: 335 ـ سیر اعلام النبلاء 2: 612.

[177] شرح ابن ابی الحدید 20: 31. «ذکر الجاحظ فی کتابه المعروف بکتاب التوحید: ان ابا هریرة لیس بثقة فی

الروایة عن رسول اللّه ـ صلی الله علیه و سلّم ـ قال: ولم یکن علی(رضی الله عنه)یوثقه فی الروایة بل

یتهمه ویقدح فیه وکذلک عمر وعائشة».

[178] شرح ابن ابی الحدید 4: 69:الصحابة کلهم عدول ما عدا رجالا منهم ابوهریرة وانس بن مالک .

[179] سیر اعلام النبلاء 2: 612،الطبقات الکبری 4: 335.

[180] سیر اعلام النبلاء 2: 604.

[181] سیر اعلام النبلاء 2: 605 ـ 604.

[182] ہمان.

[183] المطالب العالیہ 9: 205.

[184] ہمان.

[185] سیر اعلام النبلاء 2: 609 ـ تاریخ ابن عساکر 19: 122.

۱۳۴

[186] صحیح بخاری 4: 112.

[187] التفسیر الکبیر 22: 186 ـ و 26: 148.

[188] صحیح بخاری 4: 129 / بدء الخلق 2: 247 دار المعرفة.

[189] تہذیب التہذیب 3: 40.

[190] تہذیب التہذیب 5: 236 ـ الضعفاء الکبیر، 2: 267 ـ الکامل فی الضعفاء 4:223.

[191] القاموس 5: 24.

[192] اسدالغابة 4: 32 ـ تاریخ الیعقوبی 2: 162 ـ تاریخ الطبری 3: 297 ـ تاریخ المدینة 3: 930 ـ تاریخ ابن خلدون

2: 126 ـ الفصول للجصاص 4: 55.

[193] ابن عبد ربہ می گوید: قال عبدالرحمن: للہ علیّ ان لا اکلمک ابدا، فلم یکلّمہ ابداً حتی مات و دخل علیہ

عثمان عائداً لہ فی مرضہ فتحوّل عنہ الی الحائط و لم یکلمہ. العقد الفرید 4: 280.)

۱۳۵

ساتویں فصل

عزاداری سید الشہداء سے مربوط اشکالات

بسم الله الرحمن الرحیم. السلام علیک یا ابا عبدالله وعلی الارواح التی حلت بفنائک .

ایام محرم اور صفر بہترین موقع ہے کہ ہم مکتب عاشورا کی نسبت زیادہ معرفت حاصل کرکے اس فرہنگ اور مکتب سے زیادہ قریب ہوجائیں. کچھ سوالات قیام ابی عبداللہ  کے متعلق تمام لوگوں خصوصاً  نوجوانوں اور جوانوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتےہیں انہی سوالات کو مورد بحث قرار دیں گے ، تاکہ ہماری معرفت اور شناخت اباعبداللہ کی نسبت زیادہ ہوسکے.

جب ایام عزا شروع ہوتا ہے تو لوگ سیاہ کپڑے اور کالے پرچم نصب کرتے ہیں اور ماتمی دستے نوحہ خوانی اور زنجیر زنی کرتے ہیں اور لوگ آنسو بہاتے ہیں تو خودبخود یہ سوالات پیدا ہوتے  ہیں کہ:

یہ مراسم عزاداری کیوں؟

لوگ کالے کپڑے کیوں پہنتے ہیں؟

لوگ کیوں آدھی رات تک سینہ زنی اور ماتم کرتے ہیں ؟

کیوں اس قدر آنسو بہاتے ہیں؟

ان سوالات کا جواب دوطرح سے دیا جا سکتا ہے :

سادہ جواب : کیونکہ سید الشہدا کو بے دردی سے شہید کیا گیا اسلئے رونا ثواب ہے اور قیامت کے دن ہماری شفاعت کریں گے لیکن یہ جواب قانع کنندہ نہیں ہے. اس سلسلے میں چار سوال پیدا ہوتے ہیں اور یہ چاروں سوال ایک سوال میں بھی سمیٹ سکتے ہیں: کیوں یہ مراسم عزاداری اتنے اہتمام کے ساتھ منائی جائے؟!!!

۱۳۶

پہلا سوال: ہم نے 1361 سالہ حادثہ کربلا کو کیوں زندہ رکھا؟

ہم نے 1361 سالہ حادثہ کربلا کو کیوں زندہ رکھا اور مراسم عزاداری قائم کئے؟ عاشورا ایک تاریخی واقعہ تھا جس کا زمانہ گذرگیا خواہ وہ تلخ تھا یا شیریں ، اس کے آثار ختم ہوگئے؟!!

جواب: یہ سوال بہت مشکل نہیں ہے .اسے ہر جوان اور نوجوان سمجھ سکتے ہیں کہ گذشتہ تاریخی حادثات ایک جامعہ یا انسان کیلئے آئندہ ساز ہوتا ہے اگر حادثہ مفید تھا تو یہ نشانی برکات ہوتی ہے تمام انسانی معاشرے میں یہ رسم ہے کہ کسی نہ کسی طرح گذشتہ حوادث کو زندہ رکھا جائے اور ان کا احترام کیا جائے جیسے قوم کے دانشوروں ، پہلوانوں ، علماء کی یاد منائی جاتی ہے.اسی طرح قومی دنوں کو منایا جاتا ہے اور یہ حس حق شناسی ہے جسے حق گذاری ،شکر گذاری ، قدر دانی وغیرہ سے یاد کیا جاتاہے.چونکہ ہمارا عقیدہ ہے حادثہ عاشورا بھی تاریخ اسلام کا بڑا حادثہ ہے اور یہ مسلمانوں کی سعادت مندی کا تعین کنندہ ہے اور راہ ہدایت کا چراغ ہے جس کی یاد تازہ کرنا عاقلانہ کام ہے .

دوسرا سوال :حادثہ عاشورا صرف سینہ زنی، کالے کپڑےاور...

حادثہ عاشورا کا زندہ رکھنا صرف سینہ زنی کرنا ، رونا اور شہر کو سیاہ پوش بنانا اور لوگوں کا آدھی رات تک  کاروبار کو معطل کرکے جاگے رہنا نہیں ، کیونکہ یہ سارے اقتصادی نقصان کا باعث بنتے ہیں .وہ نوجوان جس کا ذہن ابھی تک دینی تربیت حاصل نہ کرچکا ہو کہے گا کہ مباحثہ جلسے ، سیمینار ، کانفرنس اور کنونشن ،... برپا کرناچاہئے ہوسکے تو ٹی وی پر دس  مجالس جو بہترین ہو رکھی جائیں جو معاشرے کیلئے زیادہ مفید ہوگا.

جواب: ٹھیک ہے شحصیت امام حسین  کے بارے میں بحث کرنا کانفرنس ، تقاریر ، مقالات کے ذریعے بہت ہی مفید ہے اور ضروری بھی ہے اور جامعہ میں یہ چیزیں بھی پائی جاتی ہیں لیکن حادثہ عاشورا سے بہرہ برداری کیلئے یہ کافی نیںا ہے ، بلکہ احساسات و عواطف و... عوامل درونی میں سے ہے جئو خود بہ خود انسان کو تحریک میں لاتے ہیں. پس انسانی رفتار اور حرکات کیلئے دو عوامل ضروری ہیں: الف شناخت ب عواطف واحساسات .

۱۳۷

جب ہم نے پہچان لیا کہ سید الشہدا  (ع)کے اس کارنامے  کی کس قدر اہمیت ہے اور سعادت ساز ہے لیکن فقط یہ شناخت ہمیں حرکت میں نہیں لاتی ، بلکہ ضروری ہے کہ انسان کے عواطف و احساسات بیدار ہوجائے کیونکہ ہم بھی اپنی زندگی میں محسوس کر چکے ہیں کہ اگر کسی یتیم کو یا مریض کو رقت آور حالت میں دیکھتے ہیں تو کسی شہید کے بیٹے کو دیکھتے ہیں تو جو اثر ہمارے اندر پیدا ہوجاتے ہے وہ صرف سننے سے یا جاننے سے کہ کوئی یتیم یا مریض ہے پیدا نہیں ہوتا.

پس جس قدر عواطف اور احساسات پائیدار ہوں گے اسی قدر حادثہ عاشورا ہماری زندگی میں مؤثر تر ہوگا. دیکھنے اور سننے میں فرق ہے چنانچہ حضرت موسیٰ  کوہ طور پر گئے تیس دن کے وعدے پر لیکن خدا نے دس دن اضافہ کیا اس طرح چالیس دن ہوگئے :

 وَ واعَدْنا مُوسی‏ ثَلاثینَ لَيْلَةً وَ أَتْمَمْنا ه ا بِعَشْرٍ فَتَمَّ میقاتُ رَبِّهِ أَرْبَعینَ لَيْلَةً وَ قالَ مُوسی‏ لِأَخیهِ ه ارُونَ اخْلُفْنی‏ فی‏ قَوْمی‏ وَ أَصْلِحْ وَ لا تَتَّبِعْ سَبیلَ الْمُفْسِدینَ .(1)

"جب تیس دن ہوگئے تو قوم ہارون  کے پاس آئی اور کہنے لگی : شاید موسیٰ  ہمیں چھوڑ  گئے ہیں ، سامری کو موقع ملا ، گوسالہ بنایا اور کہا:

 هذه آلهتکم و اله موسیٰ

بہت سے بنی اسرائیل والے گوسالہ کی پرستش کرنا شروع کردی. موسیٰ کو وحی آئی کہ قوم نے گوسالہ کی پرستش شروع کردی ہے اتنا زیادہ اثر نہیں ہوا

وَلَمَّا رَجَعَ مُوسی‏ إِلی‏ قَوْمِهِ غَضْبانَ أَسِفاً قالَ بِئْسَما خَلَفْتُمُونی‏ مِنْ بَعْدی أَ عَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَ أَلْقَی الْأَلْواحَ وَ أَخَذَ بِرَأْسِ أَخیهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونی‏ وَ کادُوا يَقْتُلُونَنی‏ فَلا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْداءَ وَ لا تَجْعَلْنی‏ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمینَ (2)

--------------

(1):- اعراف،۱۴۲

(2):- اعراف۱۵۰.

۱۳۸

لیکن جب واپس آیا اور دیکھا تو اس قدر احساسات اور عاطفہ ابھر آیا کہ اپنے بھائی ہارون کے سر اور داڑھی پکڑکر ڈانٹنے لگے ..

ہمارا مقصد پوری داستان سنانا نہیں بلکہ صرف ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ دیکھنے اور سننے میں فرق ہے حضرت موسیٰ کو یقین تھا خدا کے فرمان پر لیکن آثار غضب ظاہر نہیں ہوا لیکن جب دیکھا تو بھائی کی تلاش میں نکلے خدا نے انسان کو کچھ اس طرح خلق کیا ہے کہ سننے کی بجائے دیکھنے سے زیادہ متاثر ہوتا ہے

دوسرا جواب ہم امام صادق  (ع)سے زیادہ اور بہتر تو نہیں جانتے امام خود بھی عزاداری کیا کرتے تھے اور دیکھتے تھے کہ کس طرح لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دین کی طرف جلب کر سکتا ہے ؟ مباحث علمی کے ذریعے یا عزاداری کے ذریعے؟

اور فرمایا:ما نودی لشیء مثل مانودی للولایة . کیونکہ ولایت انسان کو نمازی بنا سکتی ہے لیکن نماز انسان کو مولائی نہیں بنا سکتی.

تیسرا سوال: لوگ کیوں آدھی رات تک سینہ زنی اور ماتم کرتے ہیں ؟

ان احساسات اور عواطف کو اجاگر کرنے کا ذریعہ  عزاداری ، گریہ ،سینہ زنی ، زنجیر زنی تو نہیں بلکہ ممکن ہے مراسم جشن منائیں.

جواب: احساسات اور عواطف مختلف قسم کے ہیں تحریک بھی ان عواطف و احساسات سے متناسب اور سنخیت ہونا چاہئے صرف جشن اور خوشی منانا اور ہنسنا کبھی انسان کو شہادت طلب نہیں بنا سکتا ، بلکہ شہادت کیلئے تیار کرنے کیلئے آنسوؤں کی ضرورت ہے.

۱۳۹

چوتھا سوال:امام کے مخالفین پر لعن کیوں؟

منافقین کہتے ہیں : ٹھیک ہے یہاں تک ہم نے مان لیا لیکن تم لوگ دشمنان امام پر لعن طعن کیوں کرتے ہو ؟ یہ تو ایک قسم کی خشونت اور بدبختی ہے اور ایک منفی احساس ہے کیوں کہتے ہو: اتقرب الی اللہ بالبرائة من اعدائک ؟ کیوں زیارت عاشورا میں سو مرتبہ لعن کرکے دوسروں کو بد ظن کرتے ہو ؟ آ ئیں سو مرتبہ سلام بیںں س. یہ زمانہ ایسا آیا ہے کہ سارے لوگوں کے ساتھ خوشی  اور صلح و صفائی کے ساتھ زندگی کرے کیا اسلام دین محبت نہیں ہے ؟ اسلام دین رحمت و رافت نہیں ہے ؟

فرض کریں ایک نوجوان ہم سے سوال کرے کہ کیوں قاتلان حسین  پر لعن کرتے ہیں ؟ زیارت عاشورا میں سو مرتبہ لعن کی بجائے سو مرتبہ پھر سلا م بھیجے کیا فرق پڑے گا اور یہ لعن و طعن اور اظہار برائت کی کیا ضرورت ہے؟!!

جواب: سرشت انسان جس طرح فقط شناخت سے تشکیل نہیں پایا ہے اسی طرح فقط مثبت احساسات سے بھی نہیں بلکہ شناخت اور  مثبت احساسات  کے ساتھ منفی احساسات بھی رکھتا ہے جس طرح خوشی کے ساتھ ساتھ غم بھی پایا جایا ہے پس جہاں رونا ہو وہاں رونا ضروری ہے ، جہاں ہنسنا ہو وہاں ہنسنا ضروری ہے. پس ہو مقام اور مناسبات کی تلاش کرنا چاہیئے کہ جہاں رونا ہوگا یا برعکس والا رونے اور ہنسنے کی استعداد وجود انسان میں لغو ہوجائے گا. کیونکہ رونا وجود انسان میں بہترین احساس ہے اگر گریہ خدا کے خوف  میں  یا  خدا  سے ملاقات کے شوق میں ہو تو یہ کمال انسانی کا موجب بنتا ہے خدا وند تعالیٰ ہم میں محبت کو خلق کیا ہے کہ جب اپنے دوستوں ،بہن بھائیوں سے بچھڑ جائے یا ان  پر کوئی مصیبت پڑے تو رونا کمال عقلائی و عاطفی ہے. کیونکہ  خود دنیا مؤمن کی نگاہ میں اہمیت نہیں رکھتی. اگر کسی مؤمن پر دنیوی نقصان آئے تو زیادہ مغموم نہیں ہوتا  کیونکہ خود دنیا مؤمن کی نگاہ میں اہمیت نہیں رکھتی لیکن اگر اخروی نقصان ہو اور دشمن اس کا دین چھین لے اور سعادت ابدی کو انسان سے چھین لے تو اسے برداشت نہیں کرسکتا. چنانچہ قرآن کریم بتا رہا ہے :

۱۴۰