شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات0%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 255
مشاہدے: 195764
ڈاؤنلوڈ: 4884

تبصرے:

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 195764 / ڈاؤنلوڈ: 4884
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

(بہ زبان اردو)

تالیف

غلام مرتضی انصاری  پاروی

۱

بسم الله الرحمن الرحیم

مقدمہ

الحمد لله رب العالمین وصلی الله علی محمد وآله الطاهرین ولعنة الله علی اعدائهم اجمعین الی قیام یوم الدین.

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ کتاب تدوین کرنے کی توفیق ہوئی جس میں کچھ شیعہ عقائد  اور ان پر اہل سنت کی جانب سے اشکالات اور ان کے جوابات  انھیں کی کتابوں سے دینے کی کوشش کی گئی ہے .یہ کتاب دس فصلوں پر مشتمل ہے. پہلی فصل   میں عدم تحریف قرآن  ، دوسری فصل میں حدیث ،پیغمبر اسلام (ص)کے دور میں اور تیسری فصل میں مسلمانوں میں اختلافات کے اسباب چوتھی فصل میں مٹی پر سجدہ  پانچوں فصل میں شفاعت اور توسل چھٹی فصل میں بحث امامت ،ساتویں فصل میں عزاداری سے مربوط اشکالات  آٹھویں فصل میں بحث مھدویت اور نویں فصل میں مشروعیت متعہ اور دسویں فصل میں تقیہ کے بارے میں شکوک اور شبہات سے بحث کی گئی ہے اور آخر میں ایک تتمہ انشاء اللہ  مطالعہ کرنے والوں کیلئے مفید ثابت ہو.اور بندہ حقیر کیلئے باعث مغفرت.

                                            والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

        

                                                  غلام مرتضی انصاری      پاروی

                                               ۱۴۳۲؁

۲

انسان اگر کسی جو جلائے تو شقی لیکن خدا کسی کو جلائے تو

اگر دنیا میں کوئی کسی کو جلائے تو لوگ اسے شقی القلب کہتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن کئی ملیون انسان کو جلائے جب کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ارحم الراحمین ہے؟

ہم سب علم و حکمت الہی کی تجلی کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ قانون مند ،نظم وضبط والی ذات ہے،اسی لئے اپنےحبیب سے کہا:نماز شب پڑھا کریں تاکہ تم مقام محمود تک پہنچ سکو۔یعنی بغیر علت کے معلول تک نہیں پہنچ سکتے۔

الف : اس عالم میں آگ جلانے والی ہے ہمارا گوشت اور کھال جلنے والا ہے۔انسان سے کہہ رہا ہے کہاپنے ہاتھ کو آگ کے نزدیک نہ لے جائیں تاکہ نہ جلےاور تجھے کوئی درد بھی نہ ہو اور مرے نہ۔ایسی صورت میں اگر کوئی کہے کہ میں اپنا ہاتھ جلانا چاہتا ہوں اور ہاتھ میں آگ ڈالے اور آگ اسے نہ جلائے۔

اسی طرح کہا گیا ہے کہ جو بھی کفر اختیار کرے یا مال یتیم کھائے یا حرام مال کھائے تو گویا آگ نگل رہا ہے جو تیری جسم کو جلائےگی۔ ایسی صورت میں اگر کوئی کہے کہ یہ بھی کوئی عدالت ہے ؟ میں کافر ہوجاوں  یا ظلم کروں یا دوسروں کا مال کھاوں اور کوئی تکلیف اور درد بھی نہ ہو:

«إِنَّ الَّذِینَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِیرًا» (النساء، 10)

ترجمہ: بتحقیق وہ لوگ جو یتیموں کے اموال ان پر ظلم کرتے ہوے کھاتے ہیں حقیقت میں اپنے پیٹ میں آگ کھانے کے مترادف ہے اور وہ لوگ جلد جہنم میں پہنچیں گے

۳

«إِنَّ الَّذِینَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّیهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ» (البقره، 174)

ترجمہ: کسانی کہ آنچہ را خداوند از کتاب نازل کردہ پنہان میدارند و بدان بہای ناچیزی بہ دست میآورند آنان جز آتش در شکمہای خویش فرو نبرند ۱و خدا روز قیامت با ایشان سخن نخواہد گفت و پاکشان نخواہد کرد و عذابی دردناک خواہند داشت.

ب اس دنیا میں بھی انسان اپنے عقل، علم، تجربہ و خبرکے ذریعے  اجزای عالم کے خواص اور آثار سے مطلع ہوجاتے ہیں، لھذا جب بھی کوئی خطا کربیٹھتا ہے جیسے کوئی نشہ کرکے عقل ذائل ہوجائے تو اسے کہے گا : کیا تجھ سے نہیں کہا تھا کہ ایسا نہ کرو؟! بلکل اسی طرح ہے کہ خلاف کرنے والے انسان سے کہا جائے گا کہ کیا تجھے شارع نے نہیں بتایا تھا کہ ایسا نہ کرو؟!

«تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِیهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِیرٌ * قَالُوا بَلَی قَدْ جَاءنَا نَذِیرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِی ضَلَالٍ كَبِیرٍ» (الملک، 8 و 9)

ترجمہ: نزدیک است کہ (جہنم) از خشم شکافتہ شود، ہر بار کہ گروہی در آن افکندہ شوند نگاہبانان آن از ایشان پرسند مگر شما را ہشدار دہندہای نیامد؟! * گویند چرا ہشدار دہندہای بہ سوی ما آمد و[لی] تکذیب کردیم و گفتیم خدا چیزی فرو نفرستادہ است، شما جز در گمراہی بزرگ نیستید.

ج  پس اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی کسی کو جہنم میں نہیں ڈالتا بلکہ یہ خود انسان ہے جو اپنے ہاتھوں سے ہی اپنے لئے آگ جلا رہا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر عاقبت اور سزا معین نہ ہو تو انسانوں کے اعتقادات اور کردار کا کوئی نتیجہ نہیں ملے گا۔ ہاں اگر سب کا نتیجہ برابر ہو تو اس وقت اعتراض کرسکتا ہے کہ یہ غیر علیمانہ، غیر حکمیانہ و غیر عادلانہ ہے. ہاں؛خداوند متعال، رحمان، رحیم، کریم، جواد، غفار، ستار و لطیف ہے تو علیم، حکیم، عادل اور قہار بھی ہے ۔

۴

پہلی فصل: عدم تحریف قرآن

قرآن  ہرقسم کی  تحریف سے پاک اورمنزّہ

شیعہ موجودہ قرآن کریم پر مکمل اعتقاد رکھتے  ہیں کہ یہ وہی قرآن ہے جو رسول اکرم  (ص)پر نازل ہوا ہے اور ایک لفظ بھی نہ زیادہ ہوا ہے نہ کم. جیسا کہ قرآن مجید  خود اس بات کی گواہی دے رہا ہے : انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون.اوراس کے علاوہ  بہت سی کتابوں میں بھی اس پر عقلی اور نقلی استدلال کئے ہیں.

 ہمارا عقیدہ ہے کہ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ،مگر یہ کہ دونوں مکاتب (شیعہ اور سنی)کے کچھ راویوں نے گنے چنے ضعیف حدیثوں پر تکیہ کرکے تحریف قرآن کا ادعا کئے ہیں. انہی کو مدرک قرار دیتے ہوئے وہابی پورے مکتب تشیع پر تحریف کے قائل ہونے کی تہمت لگا کر دوسروں کے سامنے مکتب حقہ کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جو بہت ہی ناانصافی ہے.

اہل سنت کا عالم دین ابن الخطیب مصری ہے جس نے ایک کتاب(الفرقان فی تحریف القرآن) جو ؁1948 میلادی بمطابق 1367؁ ہجری میں لکھی تھی ، جس میں  تحریف قرآن کو ثابت کیا تھا لیکن جامعۃ الازہر کے عمادین نے فوراً سارے نسخوں کو جمع کرکے ضبط کر لیا.

اسی طرح ایک شیعہ محدث حاجی نوری نے   ؁1291 ہجری قمری میں «فصل الخطاب فی تحریف کتاب ربّ الارباب» نامی ایک کتاب لکھی جو شائع ہوتے ہی حوزہ علمیّہ نجف اشرف علماء  نے جمع آوری کرکے ضبط کرلیا ، اور اس کتاب کی رد میں خود شیعہ فقہاء نے بہت ساری کتابیں لکھی  ہیں، جیسے: 

۵

1- فقیہ عالی قدر مرحوم شیخ محمود بن ابی القاسم، (متوفّای سال 1313)نے کتاب«کشف الارتیاب فی عدم تحریف الکتاب» لکھی ہے

2- مرحوم علّامہ سیّد محمّد حسین شہرستانی (متوفّای 1315)نے  کتاب«حفظ الکتاب الشریف عن شبهة القول بالتحریف» کتاب فصل الخطاب کی رد میں لکھی ہے.

3- مرحوم علّامہ بلاغی (متوفّای 1352) محقّق حوزہ علمیّہ نجف نے  کتاب«تفسیر آلاء الرّحمان» لکھی ہے.

4- آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی نے  کتاب انوارالاصول میں عدم تحریف قرآن مجید کوثابت کرتے ہوئے فصل الخطاب کیلئے دندان شکن جواب دیا ہے.

علّامہ بلاغی  لکھتے ہیں کہ مرحوم حاجی نوری ضعیف روایات پر تکیہ کرتے تھے  اپنی کتاب لکھنے کے بعد وہ خود بھی پشیمان ہوئے  اور مجبور ہوکراپنی ہی کتاب کی رد میں ایک مقالہ لکای.2

اس کے باوجود متعصب وہابی حضرات شیخ نوری کی باتوں کو شیعہ عقیدہ  سمجھتے ہوئے قرآن کریم کی اہمیت اور سند کو مخدوش کرنا چاہتے ہیں. ہم کہیں گے کہ اگر ایک ضعیف حدیث پر مبنی کتاب شیعہ اعتقادات پر دلیل بن سکتی ہے تو  ابن الخطیب مصری کی کتاب (الفرقان فی تحریف القرآن) کو سنی اعتقادات پر دلیل بنا کرتحریف قرآن کے قائل ہونے  کی نسبت دے سکتے تھے  ، لیکن ہم یہ ناانصافی نہیں  کرتے.

اس کے علاوہ تفسیر قرطبی اوردرّالمنثور کہ یہ  دو اہل سنّت کی معروف تفسیریں ہیں جن میں  حضرت عائشہ سےنقل کرتے ہیں

۶

: انّہا(ای سورة الاحزاب) کانت ماتی آیة فلم یبق منہا الّا ثلاث و سبعین! سورہ احزاب ۲۰۰ آیتوں پر مشتمل تھا لیکن اب صرف  ۷۳ آیتیں باقی ہیں.(1)

اس کے علاوہ صحیح بخاری اور مسلم میں بھی کئی روایتیں نقل ہوئی ہیں جن سے تحریف قرآن ثابت ہوتی ہے.(2)

حاجی نوری نےکتاب فصل الخطاب کی روایتوں کو تین  راویوں جویا فاسد المذہب یا جھوٹے  یا مجہول الحال (احمد بن محمّد السیاری فاسد المذہب، علی بن احمد کوفی کذّاب و ابی الجارود مجہول یا مردود)سے نقل کئے ہیں(3)

حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی کی زیارت بیت اللہ (زیارت عمرہ)  کے دوران وزیر امور مذہبی عربستان کیساتھ  ملاقات  ہوئی استقبال کرنے کے بعد کہا:ہم نے سنا ہے کہ آپ لوگوں کا الگ  کوئی قرآن ہے :سمعت انّ لکم مصحفاً غیر صحفنا!!.

تو آپ نے فرمایا: اس کا امتحان لینا بہت آسان ہے کہ آپ یا آپ کا کوئی نمائندہ ہمارے ساتھ تہران بھیجیں اور مساجد اور گھروں میں دیکھیں کہ ہر ایک گھر وں اور مسجدوں میں سینکڑوں قرآن ملیں گے جو تمھارے پاس ہیں. آپ جیسے دانشور لوگ بھی ان جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں. اسی طرح ہمارے بہت سارے چھوٹے بڑے قارئین محترم بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرتے ہیں اور انعام بھی حاصل کرچکے ہیں ، کیا کوئی اور قرآن ان کے پاس تھا؟(4)

--------------

(1):-تفسیر قرطبی، جلد 14، صفحہ 113 ،تفسیر الدرّ المنثور، جلد 5، صفحہ 180.

(2):- صحیح بخاری، جلد 8، صفحہ 208 تا 211 ،صحیح مسلم، جلد 4، صفحہ 167 و جلد 5، صفحہ 116.

(3):- رجال نجاشی ،اور فہرست شیخ.

(4):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: 25

۷

عدم تحریف پرعقلی و نقلی دلیلیں

قرآن :

 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ؛ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور اس کی حفاظت کوبھی اپنے ذمہ لیاہے . (1)

دوسری جگہ فرمایا:وَ إِنَّهُ لَكِتابٌ عَزِیزٌ* لا يَأْتِیهِ الْباطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِیلٌ مِنْ حَكِیمٍ حَمِیدٍ. (2)

سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کتاب میں کوئی تبدیلی  لاسکتا ہے  جس کی حفاظت کا ذمہ  اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہو. اور یہ قرآن، متروک اور فراموش شدہ کتاب تو نہیں تھی بلکہ ہر کسی کے زبان پر قرآن کی آیات کی تلاوت جاری تھی .

کاتبان قرآن (ُتّاب وحی) کہ جن کی  تعداد 14 افراد سے لیکر تقریباً 400 افراد بتائی  گئی ہے جو آیت کے نازل ہوتے ہی لکھ لیتے تھے  اور سینکڑوں حافظ عصر پیغمبر  میں حفظ کرلیتے تھے اور  قرآن کی تلاوت   مہمترین عبادت میں شمار ہوتے تھے اور دن رات تلاوت کرتے رہتے تھے.

عقل:

 عقل کہتی ہے کہ ایسی کتاب کبھی تحریف کا شکار نہیں ہوسکتی جس کی ضمانت خود اللہ تعالیٰٰ نے دی ہو.اور اگر تحریف کے قائل ہوجائیں تو قرآن معیار حق نہیں بن سکتا.

--------------

(1):- سورہ حجر، آیہ 9.

(2):- سورہ فصّلت، آیہ 41 و 42.

۸

روایات:

وہ اسلامی روایات جو  آئمہ معصومین سے ہم تک پہنچی ہیں سب میں عدم تحریف کو بیان کیا گیا ہے :

 امیرالمؤمنین علی (ع)نہجالبلاغہ میں صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں:انْزَلَ عَلَيْكُمُ الْكِتَابَ تِبْيَاناً لِكُلِّ شَىْ‏ء وَ عَمَّرَ فِیكُمْ نَبِيَّهُ ازْمَاناً حَتَّی اكْمَلَ لَهُ وَ لَكُمْ فِیمَا انْزَلَ مِنْ كِتَاب، دِینَهُ الَّذِی رَضِىَ لِنَفْسِهِ‏.

اللہ تعالیٰ نےایسا قرآن نازل کیا ہے جس میں ہر چیز بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسول گرامی اسلام (ص)کو اتنی عمر عطا کی کہ اپنے دین کو قرآن کے ذریعے کامل کرسکے(1)

نویں امام حضرت محمّد بن علی التقی (ع)نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا:وَ كَانَ مِنْ نَبْذِهِمُ الْكِتَابَ أَنْ اقَامُوا حُرُوفَهُ وَ حَرَّفُوا حُدُودَهُ‏ (2)

یعنی بعض لوگوں نے قرآن مجید کواس طرح  چھوڑدیا ہےکہ   اس کے مفہوم میں تحریف کئے ہیں اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ الفاظ قرآن میں کوئی  تبدیلی نہیں ہوئی ہے لیکن معنی  اپنے اپنے خیال اور مرضی کے مطابق  کئے ہیں.

ایک اور دلیل حدیث ثقلین ہے :إِنّی تَارِكٌ فِیكُمُ الثِّقْلَيْنِ كِتَابَ اللهِ وَ عِتْرَتی أَهْلَ بَيْتی مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا. (3) اگر قران میں تحریف  ہو چکا ہو تو کیسے یہ باعث ہدایت  بن جائے گا؟

--------------

(1):- نہج البلاغہ، خطبہ 86.

(2):- کافی، جلد 8، صفحہ 53.

(3):- بحارالانوار، جلد 36، صفحہ 331.

۹

تحریف معنوی کا  امکان

تحریف والی بات جو مشہور ہوئی ہے وہ تحریف  معنوی ہے نہ لفظی.

اسی طرح ہمارے آئمہ طاہرین کی طرف سے یہ بھی حکم ہے کہ اگر کوئی روایت تمہیں ملے اسے قرآن کے ساتھ موازنہ کرو اگر خلاف قرآن نکلے تو اسے دیوار پر  دے مارو. یعنی دور پھینک دو:اعرِضُوهُمَا عَلَی كِتَابِ اللهِ فَمَا وَافَقَ كِتَابَ اللهِ فَخُذُوهُ وَ مَا خَالَفَ كِتَابَ اللهِ فَرُدُّوهُ. (1)

یہ ساری دلیلیں بتاتی ہیں کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل نہیں ہے بلکہ ان پر وہابیوں کی طرف سے صرف بہتان اور تہمت ہے.

لیکن اس کے مقابلے میں خود اہل سنت کی کتاب صحیح بخاری میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں صراحت کےساتھ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عایشہ تحریف کے قائل ہیں:

سؤال 147:  کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عمر تحریف قرآن کے قائل ہیں  اور کہتے ہیں کہ کچھ آیات جیسے  آیۃ رجم  مفقود ہوئی  ہیں؟!

جواب: صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کی روشنی میں ثابت ہے کہ حضرت عمر تحریف قرآن کے قائل تھے۔ ان کے قول کا اصل متن یہ ہے:

--------------

(1):- وسائل الشیعہ، جلد 18، صفحہ 80.

۱۰

 ان اللّه بعث محمداً بالحق، و انزل علیه الکتاب، فکان مما انزل اللّه آیة الرجم فقراناها و عقلناها و وعیناها، فلذا رجم رسول اللّه ،و رجمنا بعده فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل: و اللّه ما نجد آیة الرجم فی کتاب اللّه فیضلوا بترک فریضة انزلها الله، و الرجم فی کتاب اللّه حقّ علی من زنی اذا احصن من الرجال. ثم انّا کنا نقرا فیما نقرا، من کتاب الله: ان لا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم ان ترغبوا عن آبائکم.. (1)

سیوطی از حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) چنین نقل کردہ:«اذا زنی الشیخ و الشیخة فارجموهما البته نکالاً من اللّه واللّه عزیز حکیم» .(2)

و حضرت عائشہ ـ رضی اللہ عنہا ـ قائل بہ ناپدید شدن دو سوم احزاب است و حضرت ابوموسی اشعری(رضی اللہ عنہ) قائل بہ ناپدید شدن دو سورہ از قرآن بہ نام حفد و خلع است.

آیا این ادعاہا بہ معنای تحریف قرآن نیست؟ و آیا ما می توانیم بہ این قرآن استدلال کنیم و در برابر یہود و نصاری مدعی سلامت قرآن و عدم سلامت تورات و انجیل موجود شویم؟!

آیا اگر حضرت عمر و عائشہ و اشعری قائل بہ تحریف قرآن ہستند ما چرا شیعہ را بہ تحریف قرآن متہم می کنیم؟

2 ـ حضرت عائشہ فرمودہ:«کانت سورة نقرا فی زمن النبی ماتی آیة، فلما کتب عثمان المصاحف لم نقدر منها الاّ ما هو الان» .(3) حضرت عائشہ ـ رضی اللہ عنہا ـ می گوید:«کان فیما انزل من القرآن: عشر رضعات معلومات یحرّمن ثم نسخن بخمس معلومات، فتوفی رسول الله ـ صلی الله علیه و سلّم ـ و هنّ فیما یقراً من القرآن» .(4)

--------------

(1):- ۔صحیح بخاری 8: 26 ـ صحیح مسلم 5: 116 ـ مسند احمد 1: 47 .

(2):- الاتقان 1: 121.

(3):- الاتقان 2: 40۔

(4):- صحیح مسلم 4: 167

۱۱

حضرت عبد اللّہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) کہتا ہے کہ بہت سی آیات گم ہوچکی ہیں:

لیقولنَّ احدکم قد اخذت القرآن کلّه و ما یدریه ما کلّه؟ قد ذهب منه قرآن کثیر، و لیقل قد اخذت منه ما ظه .(1)

 مصحف حضرت عائشہ ـ رضی اللہ عنہا ـ میں یوں بیان ہوا ہے:

«انّ اللّهَ و ملائکته یصلون علی النبی یا ایّها الذین آمنوا صلّوا علیه و سلموا تسلیماً و علی الذین یصلّون الصفوف الاول» .(2)

عبدالحسین یا عبداللہ؟!!

کیو ں شیعہ اپنے بچوں کا نام عبد العلی اور عبدالحسین  رکھتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ کیا شیعہ اللہ کے بندے نہیں ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کے دو معنی ہیں : پرستش اور عبادت کرنا  کہ جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کیلئے جائز نہیں ہے .

 دوسرا معنی اطاعت ہے.تو عبدالحسین اور عبد العلی اور عبدالنبی سے مراد ان کا مطیع ہونا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے :وَ أَنْكِحُوا الْأَیامی‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحینَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ الل ه مِنْ فَضْلِهِ وَ الل ه واسِعٌ عَلیمٌ . (3) اور تم میں سے جولوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموںاور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکا ح کر دو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت اور علم والا ہے.اس آیہ شریفہ میں کلمہ عبد غلاموں کے بارے میں استعمال کیا ہے  اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ غلام ضرور اپنے آقا کی اطاعت کرے.

--------------

(1):- الاتقان 2: 42 ـ41 ـ40.

(2):- الاتقان 2: 42 ـ41 ـ40.

(3):- النور : 32.

۱۲

علمائے اہل سنت نے بھی اس کے جواز پر فتاویٰ دیے ہیں جن میں سےکچھ یہ ہیں:-وکذا عبد الکعبة او الدار او علی او الحسن لایهام التشریک ومثله عبد النبی علی ما قاله الاکثرون والاوجه جوازه لا سیما عند ارادة النسبة له (1)

قوله وکذا عبد النبی ای وکذا یحرم التسمیة بعبد النبی ای لایهام التشریک ای ان النبی شریک الله فی کونه له عبید وما ذکر من التحریم هو معتمد ابن حجر .(2)

اس کے علاوہ  اہل سنت کے بڑے بڑے علماء جن کے نام عبد النبی  جیسے ہیں بہت سارے ہیں:

الشیخ عبد النبی المغربی المالکی الشیخ الامام العلامة الحجة القدوة الفهامة مفتی السادة المالکیة بدمشق (3)

عبد المطلب بن ربیعة ابن الحارث بن عبد المطلب بن هاشم الهاشمی له صحبة (4)

القاضی عبد النبی الاحمد نجری من رجال المائة الثانیة عشرة صاحب جامع العلوم الملقب بدستور العلماء .(5)

عبد قیس بن لای بن عصیم من الصحابة الذین شهدوا احدا (6)

عبد النبی بن محمد بن عبد النبی المغربی ثم الدمشقی المالکی (7)

--------------

(1):-  اعانة الطالبین للدمیاطی ج 2 ص 337 ط دار الفکر بیروت.

(2):- شذرات الذہب ج 8/ ص 83 ط دار ابن کثیر بدمشق 1406 و ج 8/ ص 126، الاسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة ج 1/ ص 112 و تاریخ البصروی ج 1/ ص 108.

(3):- سیر اعلام النبلاء ج 3 ص 112.

(4):- قواعد الفقہ لمحمد عمیم البرکتی ج 1 ص 148 دار النشر الصدف کراشی 1407

(5):- الاصابة ج 4 ص 380

(6):- الضوء اللامع ج 5 ص 90.

(7):- فی الذیل علی کشف الظنون ج 3 ص 5

۱۳

فخر الزمان عبد النبی ابن خلف القزوینی (1)

ومحمد عبد الرسول الهندی. (2)

عبد المطلب بن عبد القاهر بن محمد الماکسینی زین العابدین الشافعی (3)

عبد قیس النکری البصری من الرواة من ابن سیرین (4)

محمد ابن عبد الرسول المدنی عالم مکة .(5)

--------------

(1):-

(2):- فہرس الفہارس والاثبات ومعجم المعاجم والمسلسلات ج 2 ص 84.

(3):- الدرر الکامنة فی اعیان المئة الثامنة ج 3 ص 218.

(4):- لتاریخ الکبیر ج 2 ص 255.

(5):- البدر الطالع ج 1 ص 289

۱۴

دوسری فصل:منع  حدیث

  حدیث ،پیغمبر اسلام (ص)کے دور میں

مکہ میں چوں کہ مشرکین سے برسر پیکار رہے اور زندگی کا دائرہ  حد سے زیادہ تنگ کردیا تھا حکومت بنی تو وہ پہلے والی محدودیت کم ہوگئی احادیث کی نشر اشاعت میں اضافہ ہونے لگا.

رحلت پیغمبر (ص)کے بعد مسلمان احادیث پر بہت کم لطفی کرنے لگے اور حد سے زیادہ اختلافات برپا کرنے لگے .احادیث پر جبران ناپذیر نقصانات وارد ہوئے .

بعض علمائے اہل سنت نے اس ممنوعیت  حدیث کو مشروعیت  بخشی اور کہہ دئے کہ یہ سیرت پیغمبر(ص) تھی لیکن اکثر علمائے اہل سنت اور تمام شیعہ فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ یہ ممنوعیت غیر قانونی اور غیر شرعی تھی. 

ممنوعیت، غیر شرعی ہونے پر دلیل:

۱. اسلامی ثقافت میں تعلیم و تعلّم  کی اہمیت .

•   اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذی خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَ رَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسانَ ما لَمْ يَعْلَمْ (1) اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے  پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے  جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے اور انسان کو وہ سب کچھ بتادیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا.

--------------

(1):-  علق۱.۵

۱۵

•   لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْ لا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِی الدِّینِ وَ لِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ .(1)

     اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے حد بلوغ کو پہنچنا شرط ہے ، لیکن تعلیم و تعلّم کیلئے فرمایا : اطلبوا العلم من المہد الی اللحد.

     والدین پر اولاد کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی  تعلیم وتربیت  کا بندوبست کریں.

۲.پیغمبر(ص)کاحدیث کی نشرو اشاعت کا اہتمام کرنا

•   هُوَ الَّذی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدی‏ وَ دینِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَی الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (2)

•   وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمین .(3)

    روایت:

 من حفظ من امتی اربعین حدیثا  مما یحتاج الیه فی امر دینهم بعثه الله عزوجل یوم القیامة فقیهاً (4) میری امّت میں سے جوبھی کوئی ایسی چالیس حدیث یاد کرلے جس کی روز مرہ زندگی میں ضرورت  پیش آتی ہو ، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰٰ اسے فقہاء کے زمرے میں محشور فرمائے گا. اسی لئے علماء نے چہل حدیث  کی کتابیں لکھیں اس حدیث کا اہم ترین پیغام  ، حدیث کی نشر واشاعت ہے ، کیونکہ جب یہ قرار پائے کہ مسلمان قیامت تک کیلئے ان روایات کے ذریعے ہدایت حاصل کریں گے ، اسی لئے کم از کم چالیس احادیث کو حفظ کرنا شرعی فریضہ سمجھتے ہیں.

--------------

(1):- توبہ ۱۲۲.

(2):- صف۹.

(3):- انبیاء ۱۰۷.

۱۶

     حجة الوداع کے خطبے میں فرمایا:فیبلغ الشاهد الغائب...

     مسجد خیف میں ایک دفعہ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس بندے کو خوش رکھے ، جوہماری باتوں کو سنے اور اسے کسی ایسے شخص کو سنائے ؛ خواہ وہ شخص اس سے زیادہ علم والا ہو یا کم علم والا ہو.(1)

۳. پیغمبر(ص) کا حدیث لکھنے کا اہتمام کرنا

     فرمایا:اکتبوا هذا العلم (2) اس علم کو لکھیں.

    قیّدوا العلم بالکتاب .(3) علم کو لکھنے کے ذریعے محفوظ کرو.

     روایت ہے کہ فتح مکہ کے بعد پیغمبر (ص)خطبہ دے رہے تھے ، ایک مرد شامی جس کا نام ابی شات تھا اٹھا اور کہنے لگا : اے رسول خدا (ص)! اس خطبے کو میرے لئے لکھ دیں تاکہ میں یمن والوں تک یہ پیغام پہنچاؤں ، اس وقت  آپ نےاپنے اصحاب سے فرمایا:  اکتبوا لابی شاة (4) احمد بن حنبل کہتا ہے کہ اس  حدیث سے زیادہ صحیح تر اور محکم تر اور کوئی حدیث نقل نہیں ہوئی ہے(5)

     علی کو حکم دیا کہ  آپ  احادیث کو تدوین کریں اور اپنی اولادوں کو بھی یہی حکم دیا کریں .

     اپنے آخری وقت میں قرطاس و قلم کا مانگنا ؛ تاکہ حدیث لکھیں .

     حدیث کا  املا دینے کا نتیجہ  ، کتاب علی، صحیفہ النبی، صحیفہ الصادقہ،...جیسی عظیم کتابیں وجود میں آئیں.

--------------

(1):- علی بن بابویہ قمی، شیخ صدوق،؛ الخصال،ص۵۴۱.۵۴۳.

(2):- مسند احمد بن حنبل،ج۵،ص۱۸۳.

(3):- خطیب بغدادی، تقیید العلم، ص۷۲.

(4):- المستدرک علی الصحیحین ،ج۱،ص۱۰۶.

(5):- محمد بن اسماعیل ، بخاری،؛ صحیح بخاری، ج۳،ص۹۵.

۱۷

حدیث  ،صحابہ اور تابعین کے دور  میں   

پہلا خلیفہ اور منع حدیث

پیغمبر اسلام (ص)کی رحلت کے بعد ابوبکراور عمر  نے حدیث لکھنے سے منع کیا .ابوبکر   رات بھر سو نہ سکے اور جاگتے  رہے.جب عائشہ نے وجہ پوچھی تو  کہا :میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے احادیث نقل کی ہے ، اور مجھے خوف ہے اس کی وجہ سے امّت میں ا ختلاف پیدا نہ ہوجائے ! صبح کا وقت تھا کہ میرے بابا نے کہا: اگر تیرے پاس بھی کوئی  حدیث موجود ہو تو وہ بھی میرے پاس لائیں ، (۵۰۰)پانچ سو  احادیث  میرے پاس موجود تھیں ، میں نے ان کے سامنے رکھ دیں ،  اور انہوں نے سب کو آگ لگا دی ؛ تاکہ کوئی اختلاف مسلمانوں کے درمیان میں پیدا نہ ہو(1)

ایک دفعہ لوگوں سے خطاب کرتےہوئے حضرت ابوبکر نے کہا: اے لوگو! تم نے رسول خدا(ص) سے احادیث نقل کیں اور آپس میں اختلاف کرنے لگا، اور تمہارے بعد آنے والوں میں مزید اختلافات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ،  اس لئے رسول خدا(ص) سے کوئی چیز نقل نہ کریں اور اگر کوئی تم سے سوال کرے تو کہہ دو کہ ہمارے  اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے ؛ جو اس کتاب میں حلال قرار دیا ہے اسے حلال جانو ،اور جو چیز اس میں حرام قرار پائی ہے اس سے اجتناب کرو.(2)

--------------

(1):-  تدوین السنہ الشریفہ،ص۸۸.

(2):- تذکرة الحفاظ،ج۱،ص۵.  الصائب عبدالحمید ، تاریخ الاسلام الثقافی، والسیاسی، ص۳۶۲.

۱۸

دوسرا خلیفہ اور منع حدیث

حضرت عمر نے بھی اسی حکم کو جاری رکھا پہلے تواپنے اصحاب کو احادیث لکھنے کی   تشویق کرتا تھا  ،پھر ایک مہینہ  بعد کہنے لگا: خدا کی قسم میں کسی چیز کو بھی قرآن کے ساتھ مخلوط ہونے نہیں دوں گا یہ کہہ کر احادیث کے نقل اور تدوین کرنے پر پابندی لگا دی .انہوں نے بھی پہلے خلیفہ کی طرح اس بہانے سے کہ روایات میں تعارض پایا جاتا ہے جو امّت میں اختلافات کا باعث ہے ، جسے میں دور کروں گا ؛ جمع آوری کی، پھر سب کو جلا دیا(1)

خلیفہ دوم  نےبعض احادیث نقل کرنے والوں جیسے ابن مسعود کو جیل میں ڈال دیا ، بعض کو مرتے دم تک مدینہ میں نظر بند رکھا گیا.اور لوگوں کو تاکید کی  کہ احادیث کم نقل کریں. مختلف  اسلامی ممالک سے احادیث کو جمع کر کے  ان سب کو  جلا دئے گئے.عروہ نقل کرتا ہے کہ عمر بن خطاب نے احادیث رسول کو جمع کرنا چاہا ، اس بارے میں بعض اصحاب پیغمبر سے مشورہ بھی کیا گیا، وہ لوگ بھی ان کو تشویق کرنے لگے، عمر ایک مہینے تک سوچتا رہا ، اور خدا سے اس بارے میں ہدایت طلب کرتا رہا ؛ یہاں تک کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے ان کا عزم اور ارادے  کو مضبوط کیا اور کہا: میں چاہتا تھا سنت رسول کو لکھ دوں لیکن تم سے پہلے والی قوموں کی یاد نے مجھے احایث رسول  کو لکھنے سے روک دیا ، کیونکہ وہ لوگ اپنے زمانے کے نبیوں کی احادیث نقل کرتے ہوئے  اللہ  کی کتاب سے دور ہوگئے تھے خدا کی قسم میں کبھی اللہ کی کتاب کو کسی اور چیز سے مخلوط  ہونےنہیں دوں گا(2)

اور جب ان کو پتہ چلا کہ بعض اصحاب رسول ، احادیث  لکھنے اور جمع کرنے میں مصروف ہیں؛ تو ان سے لکھی ہوئی ساری حدیثیں لے لیں اور حکم دیا کہ ان کو جلایا جائے(3)

--------------

(1):- محمد بن احمد الذہبی؛ تذکرة لاحفاظ ، ج۱،ص۳.  علامہ عسکری ، معالم المدرستین ، ج۲،ص۴۴.

(2):- الطبقات الکبری، ج۵، ص۱۴۰. تقیید العلم. ص۵۲.

(3):- تقیید العلم، ص۵۰.

۱۹

خطیب بغدادی لکھتا ہے کہ جب عمر بن خطاب کو یہ اطلاع دی گئی کہ لوگوں کے درمیان میں حدیثوں کی کتابیں آئی ہیں یہ سن کر عمر بہت ناراض ہوگیا اور کہا: اے لوگو! مجھے خبر ملی ہے کہ تمھارے درمیان کتابیں آئی ہیں جو اختلافات کا باعث بن رہی ہیں، ان کو چھوڑ دیں ، بہترین کتاب ، اللہ کی کتاب ہے جو ان کے پاس سب سے زیادہ عزیز ہے تم سب اپنی اپنی کتابوں کو میرے پاس لے آئیں ، میں ان پر نظر ثانی کروں گا. لوگوں نے سوچا ، شاید وہ ان میں موجود اختلافات اور تعارض کو ایک معیار کے مطابق  دور کرکے صرف ایک نسخہ میں تبدیل کرے گا ؛ لیکن جب اس کے پاس لائے گئے  تو سب کو آگ لگادی(1)

حضرت عمر کی تقریر

قرضہ بن کعب روایت کرتا ہے : عمر نے کہا :میں احادیث نبی اکرم(ص) کیلئے سب سے زیادہ دلسوز تھا لوگوں کو مختلف جگہوں پر بھیجتاتھا اور انکو نصیحت کرتا تھا کہ زیادہ  احادیث  لوگوں کو مت کہا کریں .بلکہ زیادہ تر قرآن سے بتایا کریں .اور جن گھروں سے تلاوت کی آواز آرہی ہو ، ان کو منع نہ کریں اور ان کو حدیث میں مشغول نہ کریں،اورکہا :  اقلوا  الروایة عن رسول الله الا فیما یعمل به. (2) کم سے کم روایت نقل کریں  ، سوائے ان روایات  کے ، جواعمال سے مربوط ہو(3)

--------------

(1):-  الطبقات الکبری، ج۵،ص۱۴۰.

(2):- تقیید العلم،ص۵۲.

(3):- تاریخ مدینہ دمشق، ج۶۷،ص۳۴۴. البدایہ و النہایہ ، ج۸،ص۱۱۵.

۲۰