شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات0%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 255
مشاہدے: 195773
ڈاؤنلوڈ: 4884

تبصرے:

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 195773 / ڈاؤنلوڈ: 4884
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 یعنی انبیا کیلئے نہ عمل قبیح جائز ہے اور نہ اپنی احادیث بیان کرنے میں تقیہ جائز ہے.کیونکہ تقیہ آپ کے فرامین میں شکوک و شبہات پیدا ہونے کا باعث بنتا ہے. اور جب کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم پیغمبر (ص) کی ہربات کی تصدیق کریں .اور اگر پیغمبر (ص) کے اعمال ، شرعی وظیفے کو ہمارے لئے بیان نہ کرے اور ہمیں حالت شک میں ڈال دے ؛ تو یہ ارسال رسل کی حکمت کے خلاف ہے پس پیغمبر (ص) کے لئے جائز نہیں کہ تقیہ کی وجہ سے ہماری تکالیف کو بیان نہ کرے .

شیخ طوسیپر اشکال : اگر ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کہ پیغمبر(ص) کیلئے تقیہ جائز نہیں ہے تو حضرت ابراہیم  (ع)کا نمرود کے سامنے بتائی گئی ساری باتوں کیلئے کیا تاویل کریں گے  کہ بتوں کو آنحضرت ہی نے توڑ کر بڑے بت کی طرف نسبت دی ؟!اگر اس نسبت دینے کو تقیہ نہ مانے تو کیا توجیہ  ہوسکتی ہے ؟!

شیخ طوسی کاجواب:

آپ نے دو توجیہ کئے ہیں :

۱. بل فعلہ کو«ان کانوا ینطقون» کے ساتھ مقید کئے ہیں یعنی اگریہ بت بات کرتاہے تو  ان بتوں کوتوڑنے والا سب سے بڑا بت ہے .جب کہ معلوم ہے کہ بت بات نہیں کرسکتا.

۲. حضرت ابراہیم(ع) چاہتے تھے کہ نمرود کے چیلوں کو یہ بتا دے کہ اگر تم لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہو تو یہ حالت ہوگی پس آپ کا یہ فرمانا:« بل فعله کبیرهم» الزام کے سوا کچھ نہیں اور« انی سقیم» سے مراد یہ کہ تمھارے گمراہ ہونے کی وجہ سے روحی طور  سخت پریشانی میں مبتلا ہوں.

اسی طرح حضرت یوسف(ع) کا:« انّکم لسارقون» کہنا بھی تقیہ ہی تھا ، ورنہ جھوٹ قاموس نبوت سے دور ہے(1)

تمام انبیاءالہی کے فرامین میں توریہ شامل ہے اور توریہ ہونا کوئی مشکل کا سبب نہیں بنتا .اور توریہ بھی ایک قسم کا تقیہ ہے .ثانیا ً  انبیاء الہی کے فرامین احکام شرعی بیان کرنے کے مقام میں نہیں ہے .

--------------

(1):- .   ہمان ، ص ۲۶۰.

۲۰۱

کیوں کسی نے تقیہ کیا  اور کسی نے نہیں کیا ؟!

یہ سوال ہمیشہ سے لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتا رہتا ہے کہ کیوں بعض آئمہ اور ان کے چاہنے والوں نے تقیہ کیا اور خاموش رہے ؟! لیکن بعض آئمہ نے تقیہ کو سرے سے مٹادئے اور اپنی جان تک کی بازی لگائی ؟!

اور وہ لوگ جو مجاہدین اسلام کی تاریخ ، خصوصا ً معاویہ کی ذلت بار حکومت کے دور کا مطالعہ کرتے تو ان کو معلوم ہوتا ،کہ تاریخ بشریت کا سب سے بڑا شجاع انسان یعنی امیر المؤمنین(ع) کا چہرہ مبارک نقاب پوش  ہوکر رہ گیا جب یہ ساری باتیں سامنے آتی ہیں تو یہ سوال ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ کیوں پیغمبر (ص) اور علی(ع)  کے باوفا دوستوں کے دو چہرے کاملاً ایک دوسرے سے مختلف نظر آتا ہے :

 ایک گروہ : جو اپنے زمانے کے ظالم و جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابلہ کرنے پر اتر آتے ہیں ؛ جیسے میثم تمار ، حجر بن عدی، عبداللہ و... اسی طرح باقی آئمہ کے بعض  چاہنے والوں نے دشمن اور حاکم وقت کے قید خانوں میں اپنی زندگیاں رنج و آالام میں گذارتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کئے .اور وحشتناک جلادوں  کا خوف نہیں کھائے ، اور عوام کو فریب دینے والے مکار اور جبار حاکموں کا نقاب اتار کر ان کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے واضح کردئے .

اور دوسرا گروہ : باقی آئمہ طاہرین کے ماننے والوں اور دوستوں میں بہت سارے ، جیسے علی ابن یقطین بڑی  احتیاط کے ساتھ ہارون الرشید کے وزیراور مشیر بن کر رہے !

جواب : اس اشکال کا جواب امامیہ مجتھدین اور فقہا  دے چکے ہیں : کہ کبھی تقیہ کو ترک کرتے ہوئے واضح طور پر ما فی الضمیر کو بیان کرنا اور  اپنی جان کا نذرانہ دینا واجب عینی ہوجاتا ہے ؛ اور کبھی تقیہ کو ترک کرنا مستحب ہوجاتا ہے اور اس دوسری صورت میں  تقیہ کرنے والے نے نہ کوئی خلاف کام کیا ہے ، نہ ان کے مد مقابل والے نے تقیہ کو پس پشت ڈال کر فداکاری اور جان نثاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، جام شہادت نوش کرکے کوئی خلاف کام کیاہے

۲۰۲

اسی دلیل کی بنا پر  میثم تمار ،  حجر بن عدی اوررشید ہجری  جیسے عظیم اور شجاع لوگوں  کو ہمارے اماموں نے بہت سراہا ہے ، اور اسلام میں ان کا بہت بڑا مقام ہے . 

ان  کی مثال ان لوگوں کی سی ہے ، جنہوں نے اپنے حقوق سے ہاتھ اٹھائے ہیں اور معاشرے میں موجود غریب اور نادار اور محروم لوگوں کی حمایت کرتے ہوئے ان پر خرچ کیا ہو ، اور خود کو محروم کیا ہو.اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی یہ فداکاری اور محروفیت کو قبول کرنا ؛ سوائے بعض موارد میں ،واجب تو نہیں تھا کیونکہ جو چیز واجب ہے وہ عدالت  ہے نہ ایثار .لیکن ان کا یہ کام اسلام اور اہل اسلام کی نگاہ میں بہت قیمتی اور محترم کام  شمار ہوتا ہے .اور یہ احسان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ احسان کرنے والا عواطف انسانی کی آخرین منزل  کو طے کرچکا ہے .جو دوسروں کو آرام و راحت میں دیکھنے کیلئے اپنے کو محروم کرنے کو اختیار کرے

پس تقیہ کو ترک کرتے ہوئے اپنی جانوں کو دوسرے مسلمانوں اور مؤمنوں کا آرام اور راحت کی خاطر فدا کرنا بھی ایسا ہی ہے .اور یہ اس وقت تک ممکن ہے ، جب تک تقیہ کرنا وجوب کی حد تک نہ پہنچا ہو اور یہ پہلاراستہ ہے .

دوسرا راستہ یہ ہے کہ لوگ موقعیت اور محیط کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں اگر پست محیط میں زندگی کر رہے ہوں ، جیسے معاویہ کی حکومت کا دور ہے ؛اس کی سوء تبلیغ اور اس کے ریزہ خواروں اور مزدوروں اور بعض دین فروشوں کی جھوٹی تبلیغات کی وجہ سے اسلام کے حقائق اور معارف  معاشرے میں سے بالکل محو ہوچکا تھا .اور لوگ اسلامی اصولوں سے بالکل بے خبر تھے .اور امیر المؤمنین (ع)کا انسان ساز مکتب بھی اپنی تمام تر خصوصیات کے باوجود ، سنسر کر دئے گئے ، اور پردہ سکوت کے پیچھے چلا گیا .اور اس ظلمانی پردے کو چاک کرکے اسلامی معاشرے کو تشکیل دینے  کیلئے عظیم قربانی کی ضرورت تھی .ایسے مواقع پر افشاگری ضروری تھا ، اگرچہ جان بھی دینا کیوں نہ پڑے .

حجر بن عدی  اور ان کے دوستوں کے بارے میں کہ جنہوں نے معاویہ کےدور میں مہر سکوت کو توڑ کر علی (ع)کی محبت کا اظہار کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمائی ؛اور ان کی  طوفانی شہادت اور شہامت اس قدر مؤثر تھا کہ  پورے مکہ اور مدینہ کے علاوہ عراق میں بھی لوگوں میں انقلاب برپا کیا ؛ جسے معاویہ نے کبھی سوچا بھی نہ تھا

۲۰۳

امام حسین(ع) نے ایک پروگرام میں ، معاویہ کے غیراسلامی کردار کو لوگوں پر واضح کرتے ہوئے  یوں بیان فرمایا :الست قاتل حجر بن عدی اخا کنده ؛ والمصلین العابدین الذین کانوا ینکرون الظلم و یستعظمون البدع و لا یخافون فی الله لومة لائم !

اے معاویہ ! کیا تو وہی شخص نہیں ، جس نے قبیلہ کندہ کےعظیم انسان (حجر بن عدی) کو نماز گزاروں کے ایک گروہ کے ساتھ بے دردی سے شہید کیا ؟ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ظلم اور ستم کے خلاف مبارزہ کرتے اور بدعتوں اور خلاف شرع کاموں سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے، اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی کوئی پروا نہیں  کرتے تھے   ؟!.(1)

شیعوں کے تقیہ سے مربوط شبہات ، تہمتیں:

تقیہ شیعوں کی  بدعت

شبہہ پیدا کرنے والے کا کہنا ہے کہ :تقیہ شیعوں کی بدعت ہے جو اپنے فاسد عقیدے کو چھپانے کی خاطر  کرتے ہیں(2)

اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ اس نے بدعت کے معنی میں اشتباہ کیا ہے جب کہ مفردات راغب نے بدعت کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے :البدعة هی ادخال ما لیس من الدین فی الدین (3) بدعت سے مراد یہ ہے کہ جوچیز دین میں نہیں، اسے دین میں داخل  کرے .اور گذشتہ مباحث سے معلوم ہوا کہ تقیہ دین کی ضروریات میں سے ہے کیونکہ قرآن  اور احادیث آئمہمیں واضح طور پر بیان ہوا ہے  کہ تقیہ کو اہل تشیع اور اہل سنت دونوں مانتے ہیں اور اس کے شرعی ہونے کو بھی مانتے ہیں لذا ، تقیہ نہ بدعت ہے اور نہ شیعوں کا اختراع  ،کہ جس کے ذریعے اپنا عقیدہ چھپائے ،

--------------

(1):-  مکارم شیرازی؛ تقیہ مبارزہ عمیقتر، ص ۱۰۷.

(2):- فہرست ایرادات و شبہات علیہ شیعیان در ہند و پاکستان، ص ۳۶.

(3):- راغب اصفہانی ؛ مفردات، بدع.

۲۰۴

بلکہ یہ اللہ اور رسول کا  حکم ہے گذشتہ مباحث سے معلوم ہوا کہ تقیہ  دین کاحصہ ہے کیونکہ وہ آیات  جن کو شیعہ حضرات  اسلام کا بپاکنندہ  جانتے ہیں،ان کی مشروعیت  کو ثابت کرچکے ہیں اور  اہل سنت نے بھی ان کی مشروع ہونے کا فی الجملہ اعتراف کیا ہے. اس بنا پر ، نہ تقیہ بدعت  ہے اور نہ شیعوں کا اپنا عقیدہ چھپانے کیلئے اختراع  ہے

 تقیہ، مکتب تشیع کا  اصول دین ؟!

بعض لوگوں کا اپنے مخالفین کے خلاف  مہم چلانے اور ان کو ہرانے کیلئے جو خطرناک اور وحشنتاک راستہ اختیار کرتے ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کو متہم کرنا ہے اور ایسی تہمتیں  لگاتے ہیں ، جن سے وہ لوگ مبریٰ ہیں اگرچہ عیوب کا ذکر کرنا معیوب  نہیں  ہے .ان لوگوں میں سے ایک ابن تیمیہ ہے ؛ جو کہتا ہے کہ شیعہ تقیہ کو اصول دین میں سے شمار کرتے ہیں جبکہ کسی ایک شیعہ بچے سے بھی پوچھ لے تو وہ بتائے گا : اصول دین پانچ ہیں :

اول : توحید. دوم :عدل سوم: نبوت چہارم:امامت پنجم : معاد.لیکن وہ اپنی  کتاب منہاج السنہ  میں لکھتا ہے : رافضی لوگ اسے اپنا اصول دین میں  شمار کرتے ہیں .ایسی باتیں یا تہمتیں لگانے کی  دو ہی وجہ ہوسکتی ہیں: 

۱. یا وہ شیعہ عقائد سے بالکل بے خبر ہے ؛ کہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ مذہب تشیع کا اتنا آسان مسئلہ ؛ جسے سات سالہ بچہ بھی جانتا  ہو ، ابن تیمیہ اس سے بے خبر ہو .کیونکہ ہمارے ہاں کوئی چھٹا اصل بنام تقیہ موجود نہیں ہے .

۲. یا ابن تیمیہ اپنی ہوا وہوس کا اسیر ہوکر شیعوں کو متہم کرنے پر تلا ہوا ہے وہ چاہتا ہے کہ اس طریقے سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرےاوراسلام اور مسلمین کی قوت اور شان و شکوکت کو متزلزل کرے .اس قسم کی بیہودہ باتیں ایسے لوگوں کی دل خوشی کا سبب بن سکتے ہیں ، جو کسی بھی راستے سے شیعیان علی ابن ابی طالب  کی شان شوکت کو دنیا والوں کے سامنے گھٹائے اور لوگون کو مکتب حقہ سے دور رکھے(1)

--------------

(1):- .  عباس موسوی؛ پاسخ و شبہاتی پیرامون مکتب تشیع، ص۱۰۲. 

۲۰۵

جب کہ خود اہل سنت بھی تقیہ کے قائل ہیں اور ان کے علماء کا اتفاق اور اجماع بھی ہے ، کہ تقیہ ضرورت کے وقت جائز ہے .چنانچہ ابن منذر لکھتا ہے:اجمعوا علی من اکره علی الکفر حتی خشی علی نفسه القتل فکفر و قلبه مطمئن بالایمان انه لا یحکم علیه بالکفر (2)

اس بات پر اجماع  ہے کہ اگر کوئی کفر کے اظہار کرنے پر مجبور ہو جائے  ، اور جان کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں ضرور اظہار کفرکرے .جبکہ اس کا دل ایمان سے پر ہو ، تو اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگ سکتا .یا وہ کفر کے زمرے میں داخل نہیں ہوسکتا .

ابن بطال کہتا ہے : واجمعوا علی من اکره علی الکفر واختار القتل انه اعظم اجرا عنداﷲ !یعنی علماء کا  اجماع  ہے کہ اگر کوئی مسلمان کفر پر مجبور ہوجائے ، لیکن  جان دینے کو ترجیح دے دے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰٰ کے نزدیک بہت بڑا اجر اور ثواب ہے

خوداہل سنت تقیہ کے جائز ہونے کو قبول کرتے ہیں لیکن جس معنی ٰ میں شیعہ قائل ہیں ، اسے نہیں مانتے .یعنی ان کے نزدیک تقیہ ، رخصت یا اجازت ہے ، لیکن شیعوں کے نزدیک ، ارکان دین میں سے ایک رکن ہے جیسے نماز. اور بعد میں امام صادق(ع)کی روایت کو نقل کرتے ہیں، جو پیغمبر اسلام سے منسوب ہے قال الصادق(ع): لو قلت لہ تارک التقیہ کتارک الصلوة اس کے بعد کہتےہیں کہ شیعہ صرف اس بات پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں :لا دین لمن لا تقیة له (1)

--------------

(1):- دکترناصر بن عبداللہ؛ اصول مذہب شیعہ،ج ۲، ص ۸۰۷.

(2):-    ہمان

۲۰۶

تقیہ، زوال دین کا موجب ؟!

کہا جاتا ہے کہ تقیہ زوال دین اور احکام کی نابودی کا موجب بنتا ہے لہذا تقیہ پر عمل نہیں کرنا چاہئے .اور اس  کو جائز نہیں سمجھنا چاہئے

جواب: تقیہ ، احکام پنجگانہ میں  تقسیم کیا گیا ہے :یعنی:واجب ،     حرام ،      مستحب ،      مکروہ ،        مباح.

حرام تقیہ، دین میں فساد اور ارکان اسلام کے متزلزل ہونے کا سبب بنتا ہے .

  بہ الفاظ دیگر جوبھی اسلام کی نگاہ میں جان، مال  ، عزت، ناموس وغیرہ کی حفاظت سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرنا جائز نہیں ہے ، بلکہ حرام ہے .اور  شارع اقدس نے بھی یہی حکم دیا ہے .کیونکہ عقل حکم لگاتی ہے کہ جب بھی کوئی اہم اور مہم کے درمیان تعارض ہوجائے تو اہم کو مقدم رکھاجائے ، اور اگر تقیہ بھی موجب فساد یا ارکان اسلام میں متزلزل ہونے کا سبب بنتا ہے تو وہاں تقیہ کرنا جائز نہیں ہے

 آئمہ طاہرین  سے کئی روایات ہم تک پہنچی ہے کہ جو اس بات کی تائید کرتی ہیں ؛ اور بتاتی ہیں کہ بعض اوقات تقیہ کرنا حرام ہے

 امام صادق (ع)فرمود:فکل شیئ  یعمل المؤمن بینهم لمکان التقیة مما لا یؤدی الی الفساد فی الدین فانّه جائز. (1) امام نے فرمایا: ہر وہ کام جو مؤمن تقیہ کے طور پر انجام دیتے ہیں ؛اور دین کیلئے کوئی ضرر یا نقصان بھی نہ ہو ،اور کوئی فساد کا باعث  بھی نہ ہو ؛ تو جائز ہے .

--------------

(1):- وسائل الشیعہ ، ج۶، باب۲۵، ص۴۶۹.

۲۰۷

امام صادق (ع)کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ بطور مطلق حرام نہیں ہے بلکہ وہ تقیہ حرام ہے جو زوال دین کا سبب بنتا ہو

لیکن وہ تقیہ واجب  یا مباح یا مستحب ہے جو زوال دین کا سبب نہیں بنتا .  اس کا مکتب تشیع قائل ہے

امام کی پیروی  اور تقیہ کے درمیان تناقض

اس شبہہ کو یوں بیان کیا ہے کہ شیعہ  آئمہ کی پیروی کرنے کا ادعا کرتے ہیں جبکہ آئمہ طاہرین نے تقیہ کرنا چھوڑ دئے ہیں ؛ جس کا نمونہ علی (ع)نے  ابوبکر کی بیعت کی ، اور امام حسین (ع)نے یزید کے خلاف جہاد  کیا(2)

اس شبہہ کا جواب :

اولاً :شیعہ نظریے کے مطابق تقیہ ایسے احکام میں سے نہیں کہ ہر حالت میں جائز ہو ، بلکہ اسے انجام دینے  کیلئے تقیہ اور حق کا اظہار کرنے  کے درمیان مصلحت سنجی کرناضروری ہے کہ تقیہ کرنے میں زیادہ مصلحت ہے یا تقیہ کو ترک کرنے میں زیادہ مصلحت ہے ؟ آئمہ طاہرین  بھی مصلحت سنجی کرتے اور عمل کرتے تھے. جیسا کہ اوپر کی دونوں مثالوں میں تقیہ کو ترک کرنے میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے لہذا دونوں اماموں نے تقیہ کو ترک کیا اگر امام حسین (ع)تقیہ کرتے تو اپنے جد امجد (ص) کا دین نہیں بچتا

ثانیا: شیعہ سارے اماموں کی پیروی کرنےکو واجب سمجھتے ہیں اور ہمارے سارے آئمہ نے بعض جگہوں پر تقیہ کئے  ہیں اور بعض جگہوں پر تقیہ کو ترک کئے ہیں بلکہ اس سے بھی بالا تر کہ بعض مقامات پر تقیہ کرنے کا حکم دئے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی زندگی میں کتنی سخت دشواریاں پیش آتی تھیں.

-------------

(2):- موسی موسوی؛ الشیعہ والتصحیح، ص۶۹.

۲۰۸

ثالثاً: تقیہ کے  بہت سے موارد ، جہاں خود آئمہ نے تقیہ کرنے کو مشروع قرار دئے ہیں ، جن کا  تذکرہ گذرچکا .

رابعاً: شبہہ پیدا کرنے والا خود اعتراف کررہا ہے کہ حضرت علی(ع)نے فقط چھ ماہ  بیعت کرنے سے انکار کیا پھر بعد میں بیعت  کرلی .یہ خود دلیل ہے سیرہ حضرت علی(ع) میں بھی تقیہ ہے

تقیہ اورفتوائے امام(ع)کی تشخیص

اس کے بعد کہ قائل ہوگئے کہ آئمہ بھی تقیہ کرتے تھے ؛ درج ذیل سوالات ، اس مطلب کی ضمن میں کہ اگر امام حالت تقیہ میں کوئی فتویٰ دیدے، تو کیسے پہچانیں گے کہ تقیہ کی حالت میں فتویٰ دے رہے ہیں یا عام حالت میں ؟!

جواب:

اس کی پہچان تین طریقوں سے ممکن ہے :

1.  امام کا فتوی ایسے دلیل کے ساتھ بیان ہوجو حالت تقیہ پر دلالت کرتی ہو

2.  فتوی دینے سے پہلے کوئی قرینہ موجود ہو ، جو اس بات پر دلالت کرے کہ حالت تقیہ میں امام نےفتوی دیا ہے .

3.  امام(ع) قرینہ اور دلیل کو فتوی صادر کرنے کے بعد ،بیان کرے کہ حالت تقیہ میں مجھ سے یہ فتوی صادر ہوا ہے

 تقیہ اورشیعوں کا اضطراب!

تقیہ  یعنی جبن و اضطراب کادوسرا  نام ہے ،اور شجاعت اور بہادری کے خلاف ہے جس کی وجہ سے اپنےقول و فعل میں، اورظاہر و باطن میں اختلاف کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے .اور یہ صفت ، رزائل اخلاقی کے آثار میں سے ہے اور اس  کی سخت مذمت ہوئی  ہے؛ لہذا خود امام حسین(ع)نے  کلمہ حق کی راہ میں تقیہ کے حدود کو توڑ کر شہادت کیلئے اپنے آپ کو تیار کیا(1)

--------------

(1):- .   دکتر علی سالوس؛ جامعہ قطربین الشیعہ و السنہ،ص۹۲.

۲۰۹

جواب: اگرشیعوں میں  نفسیاتی طور پر جبن، اضطراب اور خوف پایا جاتا توظالم بادشاہوں کے ساتھ ساز باز کرتے ، اور کوئی جنگ یا جہاد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی یہ لوگ بھی درباری ملاؤں کی طرح اپنے اپنے دور کے خلیفوں کے ہاں عزیز ہوتے .اور تقیہ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی.

اس سے بڑھ کر کیا کوئی شجاعت اور بہادری ہے کہ جس دن اسلام کی رہبری اور امامت کا انتخاب ہونے والاتھا ؛ اس دن لوگوں نے انحرافی راستہ اپناتے ہوئے نااہل افراد کو مسندخلافت پر بٹھادئے اس دن سے لیکر اب تک شیعوں کا اور شیعوں کے رہنماؤں کا یہی نعرہ اور شعار رہا ہے کہ ہر طاغوتی طاقتوں کے ساتھ ٹکرانا ہے اور مظلوموں کی حمایت کرنا ہے اور اسلام سے بےگانہ افراد کی سازشوں کو فاش کرنا ہے .

اگرچہ شیعہ مبنای تقیہ پر حرکت کرتے ہیں ؛ لیکن جہاں بھی اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ ظالم اور جابر کے خلاف آواز اٹھانا ہے ؛ وہاں شیعوں نے ثابت کردیا ہے کہ اسلام اور مسلمین اور مظلوموں کی حمایت میں اپنا خون اور اپنے عزیزوں کی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا.

شیعوں کا آئیڈیل یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ عظمت اور جلالت کے مسند پرقائم رہے اور امّت اسلامی کے دل اور جان میں اسلام ی عظمت اور عزت باقی رہے .

اور یہ بھی مسلمان یاد رکھے ! کہ تاریخ بشریت کا بہترین انقلاب ؛ شیعہ انقلاب  رہا ہے اور دنیا کے پاک اور شفاف ترین انقلابات ، جو منافقت ،  دھوکہ بازی ، مکر و فریب  اور طمع و لالچ سے پاک رہے ؛ وہ شیعہ انقلابات ہیں

ہاں ان انقلابات میں مسلمان عوام اور حکومتوں کی عظمت اور عزت مجسم ہوچکی تھی .اور طاغوتی قوتوں کےمقابلے میں اس مکتب کے ماننے والوں کو عزت  ملی اور شیعہ، طاغوتی طاقوتوں اور حکومتوں  کو برکات اور خیرات  کا مظہر  ماننا تو درکنار ، بلکہ ان کے ساتھ ساز باز کرنے  سے پر ہیز کرتے تھے .ہم کچھ انقلابات کا ذکر کریں گے ، جن کو آئمہ طاہرین  نے سراہتے ہوئے ان کی کامیابی کے لئے دعا کی ہیں .کیونکہ کسی بھی قوم کی زندگی اور رمز بقا  انہی انقلابات میں ہے جن میں سے بعض  یہ ہیں:

۲۱۰

o   زید ابن علی کا انقلاب

o   محمد بن عبداللہ  کا  حجازمیں انقلاب

o   ابراہیم بن عبداللہ کا  بصرہ میں انقلاب

o   محمد بن ابراہیم و ابو السرایاکا انقلاب

o   محمد دیباج فرزند امام جعفر صادق(ع)کا انقلاب

o   علی ابن محمد فرزند امام جعفر صادق(ع)کا انقلاب

اسی طرح دسیوں اور انقلابات ہیں ، کہ جن کی وجہ سے عوام میں انقلاب اورشعور پید اہوگئی ہے اور پوری قوم کی ضمیر اور وجدان کو جگایا ہے(1)

امامان معصوم ان انقلابات کو مبارک اور خیر وبرکت کا باعث سمجھتے تھے .اور ان سپہ سالاروں کی تشویق کرتے تھے  .راوی کہتا ہے :فَدَخَلْنَا عَلَی الصَّادِقِ ع وَ دَفَعْنَا إِلَيْهِ الْكِتَابَ فَقَرَأَ وَ بَكَی ثُمَّ قَالَ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ عِنْدَ الله أَحْتَسِبُ عَمِّی إِنَّهُ كَانَ نِعْمَ الْعَمُّ إِنَّ عَمِّی كَانَ رَجُلًا لِدُنْيَانَا وَ آخِرَتِنَا مَضَی وَ الله عَمِّی شَهِیداً كَشُهَدَاءَ اسْتُشْهِدُوا مَعَ رَسُولِ الله وَ عَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِمْ (2) جب امام صادق(ع)  کو زیدابن علی کی  شہادت  کی خبر ملی تو کلمہ استرجاع کے بعد فرمایا :میرے چچا واقعاً بہترین اور عزیز ترین چچا ہیں اور ہمارے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں چاہنے  والے ہیں خدا کی قسم ! میرے چچا ایسے شہید ہوئے ہیں ، جیسے رسول خدا (ص) ، علی اور حسین   کےرکاب میں شہید ہوچکے ہوں .خدا کی قسم ! وہ شہید کی موت مرے ہیں .

--------------

(1):- علی عباس موسوی؛ پاسخ شبہاتی پیرامون مکتب تشیع ، ص۹۷.

(2):- بحارالانوار   ، ج 46،ص 175   باب 11- احوال اولادہ و ازواجہ

۲۱۱

ایسے کلمات آئمہ معصومین (ع)سے صادر ہوئے ہیں ، اور یہ بہت دقیق تعبیر یں ہیں کہ جو شیعہ تفکر کی عکاسی کرتی ہیں  کہ ہر ظالم و جابر حکمران  کو غاصب مانتے تھے .اور ہر حاکم ، شیعہ کو اپنے لئے سب سے بڑا  خطر ہ جانتا تھا  .

ہم زیادہ دور نہیں جاتے ، بلکہ اسی بیسویں صدی کا انقلاب اسلامی ایران  پر نظر کریں ؛ کیسا عظیم انقلاب تھا ؟! کہ ساری دنیا کے ظالم وجابر ؛ کافر ہو یا مسلمان ؛طاغوتی قوتیں  سب مل کر اسلامی جمہوری ایران پر حملہ آور ہوئے ؛ اگرچہ  ظاہراً ایران اور عراق کے درمیان جنگ تھی ، لیکن حقیقت میں اسلام اور کفر کے درمیان جنگ تھی کیونکہ عالم کفر نے دیکھا کہ  اگر کوئی  آئین  یا مکتب  ، ان کیلئے خطرناک ہے  ، تو وہ اسلام ناب محمدی (ص) اور اس کے پیروی کرنے والے ہیں

 اسی لئے باطل طاقتیں اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ ، اسلام ناب محمدی(ص) کے علمبردار یعنی خمینی بت شکن اور ان کے انقلاب کو سرکوب کرنے پر اتر آئے ، لیکن اللہ تعالیٰٰ نے ان  کو ذلیل و خوار کیا اور جمہوری اسلامی ایران کی  ایک فٹ زمین بھی  چھین نہ سکے، جبکہ صدام نے مغرورانہ انداز میں کہا تھا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر تہران  میں وارد ہونگے اور ظہرانہ تہران میں جشن مناتے ہوئے کھائیں گے .

 آج پوری دنیا میں اگر اسلام کا کوئی وقار اور عزت نظر آتا  ہے تو انقلاب اسلامی کی وجہ سے  ہے

آئیں اس انقلاب سے بھی نزدیکتر دیکھتے ہیں کہ مکتب اہل بیت  کے پیروکاروں نے کس طرح حقیقی اسلام کے دشمنوں کے ساتھ بہادرانہ طور پر مقابلہ کیا اور دشمن کے سارے غرور کو خاک میں ملاتے ہوئے ، شکست فاش دیا ؟! میرا مقصد ؛ شیعیان لبنان (حزب اللہ اور ان کے عظیم لیڈر ، سید حسن نصراللہ ) ہیں جو کردار خمینی بت شکن  نے امریکا اور اسرائیل کے مقابلے میں دنیا کے مستضعفوں کی حاکمیت قائم کرنے میں ادا کیا ، وہی کردار سید حسن نصراللہ نے جنایت کار اور خون خوار اسرائیل کے ساتھ  ادا کیا .

۲۱۲

مناسب ہے کہ اس بارے میں کچھ تفصیل بیان کروں ،تاکہ دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو یہ معلوم ہو سکے کہ تقیہ کے دائرے کو توڑ کر دشمن کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرنے والا کون تھا ؟!

رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے ایک تحقیر آمیز انداز میں  اسرائیل کی حیثیت کو دنیا کے سامنے واضح کرتے ہوئے فرمایا تھا : کہ اگر دنیا کے سارے مسلمان متحد ہوکر ایک  ایک گلاس پانی پھینک دیں تو اسرائیل اس صفحی ہستی سے محو ہوجائے گا دنیا کے بہت سارے دانشوروں اور روشن فکروں نے اس بات کا مزاق اڑایا تھا ،  لیکن حزب اللہ لبنان کی تجربات اور مہارت نے یہ بات دنیا کے اوپر واضح کردیا کہ اسرائیل کی حکومت ہزارون ایٹمی میزائیلوں اور بموں اور جدید ترین ہتھیاروں کے رکھنے کے باوجود بھی ایک باایمان اور مختصر گروہ کے سامنے بے بس ہوکر  اپنے گٹھنے ٹیک دینے پر مجبور ہوگئے .اور شیشے کے درودیوار والے محل اور بنگلوں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچوں کے غلیل کی زد میں آکر پریشان اور بیچین نظر آتےہیں.

آج پوری دنیا میں خمینی بت شکن  کے افکار اور نظریات پھیل چکے ہیں ؛ جس کا مصداق اور نمونہ اتم ، سید حسن نصر اللہ اور حزب اللہ لبنان کی شکل میں نظرآتا ہے .اور آپ کے اس فرمان کی ترجمانی کرتے ہوئے سید حسن نصراللہ نے کہا:والله انّ هی( اسرائیل) اوهن من بیت العنکبوت؛ خدا کی قسم یہ اسرائیل مکڑی کی جال سے بھی زیادہ نازک اور کمزور ہے یہ کہہ کر امام خمینی  کے اس جملے( اسرائیل کو اس صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہئے )  کی صحیح ترجمانی کی .

ہاں ! سید حسن نصر اللہ کیلئے یہی باعث فخر تھی کہ رہبر  معظم  و مرجع عالی قدر حضرت آیة اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بازؤں کا بوسہ لیتے ہوئے ، دنیا پر واضح کررہے تھے کہ میں امام زمان (عج) کے نائب برحق کےشاگردوں میں سے ایک ادنی شاگرد  ہوں. اس مرد مجاہد نے لبنان کے سارے بسنے والوں کو ؛ خواہ وہ مسلمان  ہویا غیر مسلمان ، شہادت طلبی کا ایسا درس دیا کہ سارے مرد ،عورت ، چھوٹے بڑے نے ان  کی باتوں پر لبیک کہہ کرکلمہ لاالٰہ الا اللہ کی سربلندی کے لئے شہادت  کی موت کو خوشی سے گلے لگائے یہی حزب اللہ کی جیت کی اصل وجہ تھی .اور  یہ  ثابت کردیا کہ مکتب اہل بیت(ع) کے ماننے والا ہی رہبری کے لائق ہے

۲۱۳

آج پورے دنیا والوں  نے یہ محسوس کرلیا ہے ، خصوصاً جوانوں  نے ، کہ حزب اللہ ، شیعہ ہے ، اور ان کی مکتب حقہ کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے لگے  ہیں ، جس کا نتیجہ یہ  نکلا ہے کہ حقیقی اسلام  کی شناخت کیلئے دروازہ کھل گیا ہے  .

نیو یورک ٹائمز نے لکھا ہے کہ : سید حسن نصر اللہ نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کرکے اپنی اور اپنی ٹیم کی شخصیت اور وقار کو حد سے زیادہ بلند و بالا کیا ہے اور جو چیز صفحہ تاریخ سے مٹادینے کے قابل ہیں،  وہ  مصر کا صدر جمال عبد الناصر کا یہودیوں کو سمندر میں پھینک دینے کا خالی اور کھوکھلا دعوا  اور صدام کا آدھا اسرائیل کو جلانے کا  جھوٹا ادعی تھا ؛ ان دنوں صدام کے بڑے بڑے پوسٹرز پاکستان کے مختلف شہرو ں  میں روڈوں پر بکنے لگے اور صدام کو صلاح الدین ایوبی کا لقب دینے لگے .لیکن اس نے اسرائیل کے اوپر حملہ کرنے کی بجائے کویت پر حملہ کر کے مسلمانوں کا مال اور خزانہ لوٹ کر سب سے بڑا  ڈاکو بن گیا .

لیکن ان کے مقابلے میں دیکھ لو  کہ  سید حسن نصر اللہ،۴۶ سالہ ایک روحانیت کے لباس میں محاذ جنگ پر ایک فوجی جرنیل کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ٹیم کا کمانڈ کرتے ہوئے نظر آتا ہے .

یہ اخبار مزید لکھتا ہے کہ : وہ مشرق وسطی کا قدرتمند ترین  انسان ہے .یہ بات عرب ممالک کے کسی ایک وزیر اعظم کے مشیر  نے اس وقت کہی  کہ جب سید حسن نصراللہ ٹی وی پر خطاب کررہے تھے .پھر وہ ایک سرد آہ بھر کر کہتا ہے : حسن نصراللہ ہی تمام عرب ممالک کے رہبر ہیں .کیونکہ وہ جو جو وعدہ کرتا ہے اسے ضرور پورا کرتے ہیں .

خود اسرائیل کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کردیا تھا کہ ۳۳ روزہ جنگ میں ۱۲۰ اسرائیلی فوج  کو قتل اور ۴۰۰ کوشدید  زخمی  کردئے ، جن میں سے بھی اکثر مرنے کے قریب تھے .اسی طرح ۵۰ یہودی دیھاتی  بھی حزب اللہ کے میزائلوں کی زد میں آکر مرے ، اور ۲۵۰۰ افراد زخمی تھے .حز ب اللہ نے یہ کر دکھایا کہ اس مختصر مدت میں ۱۲۰ میر کاوا ٹینک ، ۳۰ زرہی ، ۲  آپاچی ہیلی کوپٹر  کو منہدم کردیا .

غربی سیاستمداروں ، وایٹ ہاوس کے حکمران لوگ ، شروع میں حزب اللہ کی اس مقاومت اور مقابلے کو بہت ہی ناچیز اور کم سمجھ رہے تھے ،اور ان کا یہ تصور تھا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر حزب اللہ پسپا ہوجائے گا ، اور اسرائیل کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر

۲۱۴

مجبور ہوجائے گا .یہی وجہ تھی کہ پہلے دو ہفتے تک تو نہ اقوام متحدہ کی جانب سے اور نہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے ،اور نہ   کوئی سازمان کنفرانس اسلامی  عرب لیگ کی جانب سے اعتراض ہوا ، نہ اس جنگ کو روکنے کی بات ہوئی ؛ صرف یہ لوگ تماشا دیکھتے رہے ، اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یہ تھی کہ ایک دفعہ بھی اسرائیل کی ان جنایات اور غانا میں بچوں اور عورتوں کے قتل عام کرنے پر ، ایک احتجاجی جلسہ بھی عرب لیگ میں منعقد نہیں ہوا  !!.

جب امریکہ کی وزیر خارجہ مس کونڈولارائس  سے جنگ بندی کیلئے تلاش کرنے کی اپیل کی؛ تاکہ لبنان  خون خرابہ میں تبدیل نہ ہو ؛ تو اس نے بڑی نزاکت کے ساتھ کہا تھا :کوئی بات نہیں ، بچہ جننے کیلئے اس کی ماں کو درد زہ برداشت کرنا پڑتا ہے ، اسی

طرح ہم اس کرہ زمین پر  ایک جدید مشرق وسطی کے وجود میں لانے کیلئے کوشان ہے ، جس کا وجود میں آنے کیلئے کوئی ایک ملک(لبنان) خون خرابہ میں تبدیل ہوجائے ، اور یہ ایک طبیعی چیز ہے !!

اس بیان کے جواب میں سید حسن نصراللہ نے مناسب اور منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا : ہم بھی اس ناجائز طریقے سے وجود میں آنے والے بچے کو دنیا میں قدم رکھتے ہی گلا  دبا کر ماردیں گے .

تیسرے ہفتے میں دہیمی دہیمی الفاظ میں بعض ممالک کے رہنماؤں اور سیاسی لیڈروں کے منہ کھلنے لگیں .اقوام متحدہ کے اٹارنی جنریل  ، جیسے طولانی خواب سے بیدار ہوا ہو، سمجھنے لگے کہ لبنان میں کوئی  معمولی حادثہ رونما ہوا ہے ،

تیسرے ہفتے کے آخر میں جب حزب اللہ ، اسرائیل کے چار بحری کشتیوں کو منہدم کرنے میں کامیاب ہوئے ، اور اسرائیل اپنے کسی بھی ایک ہدف کو پہنچ نہیں پایا ؛ تو امریکہ ؛ جو کسی بھی صورت میں شورای امنیت کا جلسہ تشکیل دینے کیلئے حاضر نہ تھا ، ایک دم وہ جنگ بندی کرنے کی خاطر اتفاق رای کے ساتھ شق نمبر ۱۷۰۱ کے مطابق ، میدان میں اتر آیا ؛ کیونکہ اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے ممالک کی طرف سے دئے ہوئے تمام تر جدید میزائل ، بمب اور دوسرے سنگین اسلحے سے لیس  ہونے کے باوجود ؛ حزب اللہ کے سامنے اپنے گٹھنے ٹیک دیا تھا، اور مزید سیاسی امداد کیلئے ہاتھ پھیلا رہا تھا اس ضرورت کو امریکہ ، قطعنامہ کے ذریعے جبران کرنا چاہتا تھا . 

۲۱۵

مکتب اہل بیت (ع)کے ماننے والوں کے یہ سارے انقلابات ، شیعوں کی شجاعت ، دلیری اور بہادری کو ثابت کرتی ہیں .اور یہ سارے انقلابات ، اپنی ذاتی مفاد کی خاطر نہیں تھیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کو حاکم بنانا اور ظلم و ستم کو ختم کرنا مقصود تھا

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ بعض مسلم ممالک کے مفتی حضرات ؛ جیسے سعودی عرب کے مفتی بن  جبرین ، اور مصر کے درباری ملا ، طنطاوی ، نے فتویٰ دئے تھے  کہ حزب اللہ کا مدد کرنا، حتی ان کے لئےدعا کرنا بھی جائز نہیں ہے ، بلکہ حرام ہے ؛ کیونکہ وہ لوگ شیعہ ہیں اسی طرح سعودی حکومت ن بھی اسرائیل کے جنگی طیاروں کولبنان پر حملہ کرنے کیلئے  پیٹرول (فیول)  دیتی رہی.

اور جب مسلمانوں کی طرف سے یہ لوگ  پریشر میں آئے تو اپنی  غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی ملت اور قوم کے سامنے معافی مانگنے پر مجبور ہو گئے اور مفتی بن جبرین نے اپنے ویب سایٹ پر غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگا ، اور کہا: جو کچھ مجھ سے پہلے نقل ہوئی ہے وہ میرا قدیم اور پرانا نظریہ تھا ؛ ابھی میرا جدید نظریہ یہ ہے کہ یہ حزب اللہ ، وہی حزب اللہ ہیں  جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے .اور ہم انہیں دوست رکھتے ہیں اور ان کیلئے دعا بھی کرتے ہیں .اور  طنطاوی نے بھی جب  جامعة الازہر کے اساتذہ نے ان کے اوپر اعتراض کئے تو ان  کے سامنےکہا: جو کچھ میں نے پہلے بتایا تھا وہ میرا اپنا ذاتی نظریہ نہیں تھا بلکہ حکومت کی طرف سے کہلوایا گیا تھا اور میرا  ذاتی نظریہ ان کے بارے میں یہ ہے کہ  حزب اللہ کے مجاہدین، اس وقت اسلام ، مسلمین اور عرب امّت  کی عزت اور کرامت کے لئے اسرائیل کے ساتھ لڑ رہے ہیں  ،لہذا ان کی حمایت کرنا ضروری ہے آج کے دور میں سارے عرب ممالک میں محبوب ترین اسلامی شخصیت ، سید حسن نصراللہ  کو ٹہھرایا جاتا ہے اور ہر بچہ ، جو پیداہوتا ہے ؛ اس کا نام حسن نصراللہ رکھ رہے ہیں یہ بہت دلچسپ بات تھی کہ اس سال جب ماہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا اور لوگ روزہ رکھنے لگے ؛ مصر میں بہترین اور اعلی درجے کے خرما یا کھجور کا نام حسن نصراللہ رکھا گیا ؛تا کہ روزہ دار ، افطاری کے وقت حسن نصراللہ کو دعائیں دیں  اور خراب کھجور کا نام بش اور بلر رکھا گیا.

۲۱۶

یہ وہ تاریخی حقائق ہیں ، جن سے کوئی بھی اہل انصاف انکار نہیں کرسکتا اور ان حقیقتوں سے لوگ جب آشنا ہوجاتے ہیں تو خود بخود مذہب حقہ کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ، بشرطیکہ درباری ملاؤں کی طرف سے مسلمانوں کوکوئی رکاوٹ   درپیش   نہ ہو.

اب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کوئی ایک نمونہ پیش کریں جو آپ کے کسی سیاسی یا مذہبی رہنما نے ایسا کوئی انقلاب برپا کیا ہو ، اور اپنی شجاعت کا ثبوت دیا ہو، تاکہ ہم بھی ان کی پیروی کریں ؟!اور ہمیں یقین ہے کہ وہ لوگ نہ اسلام سے پہلے اور نہ اسلام  کے بعد ، کوئی ایسی جوانمردی نہیں دکھا سکتے کیونکہ انہیں اپنی جوان مردی دکھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ؛ جو ہمیشہ  ظالم و جابر حکمرانوں کے کوڑوں اور تلواروں سے ہمیشہ محفوظ رہے ہیں .کیونکہ وہ لوگ ہمیشہ حاکموں کے ہم پیالہ بنتے رہے ہیں اوران کی ہرقسم کے ظلم وستم کی تائید کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے تقیہ کا موضوع  ہی منتفی ہوجاتا ہے

اگر شیعہ علما بھی ان کی طرح حکومت وقت کی حمایت کرتے اور ان کے ہاں میں ہاں ملاتے رہتے تو ان کو بھی کبھی  تقیہ کی ضرورت پیش نہ آتی .بلکہ ان کیلئے تقیہ جائز بھی نہ ہوتا ، کیونکہ تقیہ جان اور مکتب کی حفاظت کی خاطر کیا جاتا ہے ، اور جب ان کی طرف سے جان اور مال کی حفاظت کی گارنٹی مل جاتی تو ، تقیہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی

تقیہ کافروں سے کیا جاتا ہے نہ مسلمانوں سے

اشکال کرتے ہیں کہ تقیہ کافروں سے کیا جاتا ہے نہ مسلمانوں سے کیونکہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم کافروں سے کرنے کا ہے نہ مسلمانوں سے چنانچہ فرمایا:لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِینَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّهِ فِی شَيْءٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللّهُ نَفْسَهُ وَإِلَی اللّهِ الْمَصِیرُ. (1)

خبردار صاحبانِ ایمان !مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے. اور یہ تقیہ ابتدای اسلام میں تھا ، لیکن شیعہ حضرات ، اہل حدیث سے تقیہ کرتے ہیں .

--------------

(1):- سورہ مبارکہ آلعمران/۲۸.

۲۱۷

پہلاجواب:یہ شیعیان حیدر کرار(ع) کی  مظلومیت تھی کہ جو مسلمانوں سے بھی تقیہ کرنے اور اپنا عقیدہ چھپانے  پر مجبور ہوگئے اور یہ نام نہاد مسلمانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے اعمال اور کردار اور عقیدے پر نظر ثانی کرے  ؛ کہ جو کافروں والا کام اوربرتاؤ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتا ہو ، کیونکہ اگر تقیہ کرنے کی وجہ اور علت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ نتیجہ ایک نکلتا ہے ، اور وہ دشمن کی شر سے دین، جان اور مال کی حفاظت کرنا ہے

دوسرا  جواب: ظاہر آیہ اس بات پر لالت  کرتی ہے کہ تقیہ ان کافروں سے کرنا جائز ہے جو تعداد یا طاقت کے لحاظ سے مسلمان سے زیادہ قوی ہو

لیکن شافعی مذہب کے مطابق اسلامی مختلف مکاتب فکر سے تقیہ کرنا جائز ہے کیونکہ شافعی کے نزدیک مجوز تقیہ ، خطر ہے ، خواہ یہ خطر کافروں سے ہو یا مسلمانوں سے ہو ؛ کہ شیعہ ،مسلمانوں کے ہاتھوں بہت سی سختیوں اور مشکلات  کو تحمل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور یہ مظلومیت ،شہادت علی ابن ابی طالب(ع)کے بعد سے شروع ہوئی .ان دوران میں بنی امیہ کے کارندوں نے شیعہ مرد عورت ، چھوٹے بڑے ، حتی شیعوں کے کھیتوں اور حیوانات پر بھی رحم نہیں کیا .آخر کار انہیں بھی آگ لگادی   گئی.

جب معاویہ  اریکہ قدرت پر بیٹھا تو شیعیان علی(ع)کو سخت  سے سخت قسم کی اذیتیں پہنچانا شروع کیا اور ان کے اوپر زندگی  تنگ کردی .اور اس نے اپنےایک کارندے کو خط لکھا : میں علی اور اولاد  علی کے فضائل بیان کرنے والوں سے اپنی ذمہ بری کرتا ہوں ، یعنی انہیں  نابود کروں گا .

یہی خط تھا کہ جس کی وجہ سے ان کے نماز جماعت اور جمعے کے خطیبوں نے علی پر ممبروں سے  لعن  طعن کرتے ہوئے ان سے اظہار برائت کرنے لگے ، یہ  دور،کوفہ والوں پر بہت سخت گذری ، کیونکہ  اکثر کوفہ والے  علی کے ماننے والے تھے معاویہ نے زیاد بن سمیہ کو کوفہ اور بصرہ کی حکومت سپرد کی ، یہ ملعون شیعوں کو خوب جانتا تھا ، ایک ایک کرکے انہیں شہیدکرنا ، ہاتھ پیر ، کان اور زبان کاٹنا  ،  آنکھیں نکالنا اور شہر بدر کرنا شروع کیا .

۲۱۸

اس کے بعد ایک اور خط مختلف علاقوں میں باٹنا شروع کیا ؛ جس میں اپنے کارندوں اور حکومت والوں کو حکم دیا گیاکہ شیعوں کی کوئی گواہی قبول نہ کریں .سب سے زیادہ دشواری اور سختی عراق ، خصوصاً کوفہ والوں پر کی جاتی تھی ؛ کیونکہ وہ لوگ اکثر شیعیان علی ابن ابی طالب  تھے .اگر یہ لوگ کسی معتبر شخص کے گھر چلا جائے تو  ان کے غلاموں اور کنیزوں سے بھی احتیاط سے کام لینا پڑتا تھا ؛ کیونکہ ان کے اوپر اعتماد نہیں کرسکتے تھے  .اور انہیں قسم دلاتے تھے کہ ان  اسرار کو فاش نہیں  کریں گے اور  یہ حالت امام حسن مجتبی (ع) کے دور تک باقی رہی ، امام مجتبی (ع)کی شہادت کے بعد امام حسین (ع)پر زندگی اور تنگ کردی.

عبدالملک مروان کی حکومت شروع ہوتے اور حجاج بن یوسف کے بر سر اقتدار آتے ہی ، دشمنان امیر المؤمنین(ع) ہر جگہ پھیل گئے اور علی(ع) کے دشمنوں کی شان میں احادیث جعل کرنے  ، اور علی (ع)کی شان میں گستاخی کرنے لگے.اور یہ جسارت اس قدر عروج پر تھا کہ  عبدالملک بن قریب  جو  اصمعی کا دادا تھا  ؛ عبدالملک سے مخاطب ہوکر کہنے لگا : اے امیر ! میرے والدین نے مجھے عاق کردیا ہے اور سزا کے طور پر میرا نام علی رکھا ہے میرا کوئی مددگار  نہیں  ، سواے امیر کے اس وقت حجاج بن یوسف ہنسنے لگا اور کہا: جس سے تو متوسل ہوا ہے ؛ اس کی وجہ سے تمھیں فلان جگہ کی حکومت دونگا(1)

امام باقر(ع)شیعوں کی مظلومیت اور بنی امیہ کے مظالم کے بارے میں فرماتے ہیں : یہ  سختی اور شدت معاویہ کے زمانے اور  امام مجتبی(ع)  کی شہادت کے بعد اس قدر تھی کہ  ہمارے شیعوں کو کسی بھی بہانے شہید کئے جاتے ، ہاتھ پیر کاٹتے اور جو بھی ہماری محبت کا اظہار کرتے تھے ، سب کو قید کرلیتے تھے اور ان کے اموال کو غارت کرتے تھے .  اور گھروں کو آگ لگائے جاتے تھے ،یہ دشواری اور سختی اس وقت تک باقی رہی کہ عبید اللہ جو امام حسین(ع) کا قاتل ہے  کے زمانے میں حجاج بن یوسف اقتدار پر آیا تو سب کو  گرفتار کرکے مختلف تہمتیں لگا کر شہید کئے گئے .اور اگر کسی پر یہ گمان پیدا ہوجائے ، کہ شیعہ ہے ، تو اسے قتل کیا جاتا تھا(2)

--------------

(1):- عباس موسوی؛ پاسخ و شبہاتی پیرامون مکتب تشیع،ص۸۶.  

(2):- ابن ابی الحدید؛ شرح او، ج ۱۱ ص۴۴.

۲۱۹

یہ تو بنی امیہ کا دور تھا اور بنی عباس کا دور تو اس سے بھی زیادہ سخت  دور، اہل بیت کے ماننے والوں پر آیا چنانچہ شاعر نے علی(ع)کے ماننے والوں کی زبانی یہ آرزو کی ہے  ، کہ اے کاش ، بنی امیہ کا دور واپس پلٹ آتا !: 

فیالیت جور بنی مروان دام لنا    و کان عدل بنی العباس فی النار

اےکاش ! بنی امیہ کا ظلم و ستم ابھی تک باقی رہتا اور بنی عباس کا عدل و انصاف جہنم کی آگ میں .

جب منصور سن  ۱۵۸ھ  میں عازم حج ہوا کہ وہ  اس کی زندگی کا آخری سال  تھا ؛ ریطہ جو اپنے بھائی سفاح کی بیٹی اور اپنے بیٹے کی بیوی (بہو) تھی ، اسے  اپنے  پاس  بلا کر سارے خزانے کی چابی اس کا حوالہ کیا ، اور اسے قسم دلائی کہ اس کے خزانے کو کسی کیلئے بھی نہیں کھولے گی.اور کوئی ایک بھی اس کے راز سے باخبر نہ ہو،حتی اس کا بیٹا محمد بھی ، لیکن جب اس کی موت کی خبر ملی تو محمد اور اس کی بیوی جا کر خزانے کا دروازہ کھولا ، بہت ہی وسیع اور عریض کمروں میں پہنچے ، جن میں علی(ع) کے ماننے والوں کے کھوپڑیاں  اور جسم کے ٹکڑے اور لاشیں ملیں .اور ہر ایک کے کانوں میں کوئی چیز لٹکی ہوئی تھی کہ جس پر اس کا نام اور نسب مرقوم تھا ان میں جوان ، نوجوان اوربوڑھے سب شامل تھےالا لعنة الله علی القوم الظالمین!. محمد نے جب یہ منظر دیکھا تو  وہ مضطرب ہو ا اور اس نے حکم دیا کہ ان تمام لاشوں کو گودال کھود کر اس  میں دفن کئے جائیں(1)

بنی عباس کے بادشاہوں نے علی (ع)کے فضائل بیان کرنےوالے شاعروں کی زبان کاٹی ، اور ان کو زندہ درگور کئے اور جو پہلے مر چکے تھے ان کو قبروں سے نکال کرجسموں کو جلادئے گئے ان سب کا صرف ایک ہی  جرم  تھا ؛ اوروہ محبت علی(ع) کے سوا کچھ اورنہ تھا شیعیان آفریقا ،معاذ ابن بادیس کے دور میں سنہ ۴۰۷ ھ میں سب کو شہید کئےگئے ، اور حلب کے شیعوں کو بھی اسی طرح بے دردی سے شہید کئے گئے .ای اہل انصاف!خود بتائیں کہ ان تمام سختیوں ، قید وبند کی صعوبتوں اور قتل و غارت ، کے مقابلے میں اس  مظلوم گروہ نے اگر تقیہ کر کے اپنی جان بچانے کی کوشش کی ،  تو کیا انہوں نے کوئی جرم کیا؟!!

اور یہ بتائیں کہ کون سا گروہ یا فرقہ ہے ؛ جس نے شیعوں کی طرح اتنی سختیوں کو برداشت کیا ہو ؟!!

--------------

(1):- عباس موسوی؛ پاسخ و شبہاتی پیرامون مکتب تشیع،ص۸۷.

۲۲۰