شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات0%

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 255

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ مرتضی انصاری پاروی
زمرہ جات: صفحے: 255
مشاہدے: 195653
ڈاؤنلوڈ: 4883

تبصرے:

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 255 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 195653 / ڈاؤنلوڈ: 4883
سائز سائز سائز
شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جن میں سے آٹھہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ اونٹ کو سوئی کے سوراخ سے گذارا نہیں جائیگا.مقصد یہ کہ ناممکنات میں سے ہے:«فی اصحابی اثناعشر منافقاً، فیهم ثمانیة لا یدخلون الجنة حتی یلج الجمل فی سمِّ الخیاط .(1)

عثمان کے قاتل بھی صحابہ تھے

سؤال:کیا یہ درست ہے کہ عثمان کے قاتل اصحاب رسول اکرم (ص)میں سے تھے؟

۱.فروة بن عمرو انصاری اصحاب بیعت عقبہ میں سے تھا(2)

۲.محمد بن عمرو بن حزم انصاری پیغمبر اکرم(ص) نے نام رکھا تھا.ولد قبل وفاة رسول اللّه بسنتین. فکتب الیه ـ ای الی والده ـ رسول الله سمّه محمد ا. و کان اشدَّ الناس علی عثمان: المحمدون: محمدبن ابی بکر، محمدبن حذیفة، و محمد بن عمرو بن حزم. (3)

۳.جبلہ بن عمرو ساعدی انصاری بدری کہ جس نے عثمان کے جنازے کو بقیع میں دفن کرنے سےروکا :هو اوّل من اجترا علی عثمان. لمّا رادوا دفن عثمان، فانتهوا الی البقیع، فمنعهم من دفنه جبلة بن عمرو فانطلقوا الی حش کوکب فدفنوه فیه. (4)

 ۴.عبداللہ بن بدیل بن ورقاء خزاعی کہ جس نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا تھا، امام بخاری کے کہنے کے مطابق اس نے عثمان کو ذبح کیااسلم مع ابیه قبل الفتح، و شهد الفتح و ما بعدها انه ممن دخل علی عثمان فطعن عثمان فی ودجه. (5)

---------------

(1):- صحیح مسلم 8: 122 ـ کتاب صفات المنافقین ـ مسند احمد 4: 320 البدایة والنہایة 5: 20.

(2):- الاستیعاب 3: 325 ـ اسد الغابة 4: 357.

(3):- الاستیعاب3:432.

(4):- الانساب 6: 160 ـ تاریخ المدینة ۱۱۲.

(5):- تاریخ الاسلام (الخلفاء) 567

۴۱

۵. محمد بن ابی بکر جو حجة الوداع کے سال میں پیدا ہوا، ولدتہ اسماء بنت عمیس فی حجة الوداع و کان احد الرؤوس الذین ساروا الی حصار. امام ذہبی کے کہنے کے مطابق عثمان کےگھر کا محاصرہ کرنے والوں میں سے تھا.(1) .عثمان کی داڑھی کھینچتے ہوئے کہا: اے یہودی!اللہ تمہیں رسوا کرے.

۶.عمرو بن الحمق جو اصحاب رسول میں سے تھا  راوی کے کہنے کے مطابق حجة الوداع کے موقع پر رسول خدا کی بیعت کی ہے.قال الذهبی:وثب علیه عمرو بن الحمق و به ـ عثمان ـ رَمَق و طعنه تسع طعنات، و قال: ثلاث للّه و ستّ لما فی نفسی علیه.  راوی کہتا ہے:بایع النبی فی حجة الوداع و صحبه. کان احد من الَّب علی عثمان بن عفان .(2) و قال الذهبی: انّ المصریین اقبلوا یریدون عثمان. و کان رؤساؤهم اربعة. و عمرو بن الحمق الخزاعی .(3)

امام ذہبی کے کہنے کے مطابق نو دفعہ خنجر کا ضربہ وارد کیا اور کہا تین ضربہ اللہ کی خاطر اور چھ اپنی خاطر تجھ پر لگاؤں گا.

قرطبی: عبدالرحمن بن عُدیس، مصری شهد الحدیبیة و کان ممن بایع تحت الشجرة رسول الله و کان الامیر علی الجیش القادمین من مصر الی المدینة الذین حصروا عثمان و قتلوه (4) عبدالرحمن بن عدیس جو اصحاب بیت الشجرہ میں سے تھا ،قرطبی کے کہنے کے مطابق مصری شورش برپاکرنے والے افراد کا لیڈر اور رہبرتھا کہ آخر کار انہی لوگوں نے عثمان کو قتل کیا.

اب یہ بتائیں کہ یہ اصحاب کیسے ہمارے لئے نمونہ عمل بن سکتے ہیں؟

--------------

(1):- تاریخ الاسلام(الخلفاء) 601

(2):- صحیح بخاری 8: 26 ـ کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی.

(3):- تہذیب الکمال14: 204 ـ تہذیب التہذیب 8: تاریخ الاسلام (الخلفاء) 601

(4):- فتح الباری 2: 189 ـ الثقات لابن حبان 2: 265 ـ الطبقات الکبری3: 71.

۴۲

بعض اصحاب پرا ہل سنت بھی لعن کرتے ہیں

سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ ہم اہل سنت بھی بعض صحابہ کرام  پر لعن کرتے ہیں. عثمان کے قاتلوں پر لعن کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ اصحاب رسول میں سے ہیں.اس کے علاوہ وہ لوگ اصحاب شجرہ  اور بیعت عقبہ میں سے ہیں ، اس کے علاوہ رسول خدا (ص)کے رکاب میں جنگ بدر ، احد اور حنین اور فتح مکہ میں بھی شریک تھے !

جواب: امام ذہبی ان پر نفرین کرتے ہوئے کہتاہے:«کل هولاء نبرا منهم و نبغضهم فی الله.نرجوله النار» یعنی ہم ان سے اظہار برائت کرتےہں  اور اللہ کی رضایت کی خاطر ان سے دشمنی کرتے ہںخ اور ان کےلئے عذاب جہنم کا طلب گار ہںں .

امام بن حزم کہتا ہے«لعن اللّه من قتله و الراضین بقتله .(1) بل هم فساق حاربون سافکون دماً حراماً عمداً بلا تاویل علی سبیل الظلم و العدوان فهم فسّاق ملعونون». اور سارےامام جمعہ بھی عثمان کے قاتلوں پر لعن کرتے ہوئے کہتے ہیں:مصر اور کوفہ کے باغی لوگوں نے حضرت عثمان پر ہجوم لائے اور شورش برپا کئے اور یہ باغی، فاجر،ظالم، بے دین ، بے مروت اور جہنمی لوگوں نے تلوار کے ذریعے عثمان کی انگلیاں کاٹ دیں.

بعض صحابہ پر حد جاری کرنا

بعض صحابہ پر رسول خدا کے زمانے میں حد جاری کی گئی. جن میں سے ایک دو مورد کو بطور مثال بیان کریں گے:

ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ برادران اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں نقل کئے گئے ہیں کہ بعض اصحاب گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے اور ان پر رسول خدا نے حد جاری کی تو کیا ہم ان اصحاب کو بھی عادل اورمعیار حق مانیں ؟! جیسا کہ اہل سنت کہتے ہیں کہ  سارے اصحاب رسول ستاروں کی مانند ہیں جو بھی ان میں سے کسی ایک کی بھی پیروی کرے نجات پائے گا. جبکہ یہ لوگ خود گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں.

--------------

(1):-  ہمان

۴۳

عقبہ بن الحرث کہتا ہے کہ«جی‏ء بالنعیمان او بابن النعیمان شارباً فامر النبی من کان بالبیت ان یضربوه. قال: فضربوه فکنت انا فیمن ضربه بالنعال» (1) ابن نعیمان کو شراب کے نشے کی حالت میں رسول اللہ کے سامنے لایا گیا تو آپ نے گھر میں موجود افراد کو حکم دیا کہ اس کی پٹائی کریں ، تو سب نے جوتوں سے اس کی مرمت کی ،جن میں سے ایک میں بھی تھا.

عن جابر انّ رجلًا من اسلم جاء النبیفاعترف بالزنا، فاعرض عنه النبی حتی شهد علی نفسه اربع مرات، فقال له النبی«ابک جنون؟ قال: لا، قال: احصنت؟ قال: نعم، فامر به فرجم بالمسجد». جابر سے روایت ہےکہ ایک مسلمان پیغمبر اکرمکی خدمت میں آیا اور زنا کے مرتکب ہونے کا اعتراف کیا ، آپ  نے اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی ، یہاں تک کہ اس نے چار مرتبہ اقرار کیا تو اس وقت آپ نے اس سے کہا : کیا تو پاگل ہوگیا ہے؟اس نے کہا نہیں. فرمایاکیا تو شادی شدہ ہے ؟ اس نے کہا : ہاں اس وقت آپ نے سنگسار کرنے کا حکم دیا اور لوگوں نے بھی سنگسار کیا

قصة الولید بن عقبة المعروفة «الذی صلّی صلاة الصبح وهو سکران اربع رکعات، حیث تم احضاره الی المدینة واقیم علیه حدّ شارب الخمر» (2) ولید بن عقبہ کا قصہ توبہت مشہور ہے کہ جس نے نشے کی حالت میں نماز صبح، چار رکعت پڑھائی درحالیکہ وہ مست تھا ، تو اسے مدینہ میں بلایا گیا تاکہ  شراب خوری کی حد جاری کرے ان کے علاوہ اور بھی موارد ہیں لیکن ہم انہیں بیان نہیں کرتے تاکہ بحث طولانی نہ ہو.اور ان موارد کا ذکر کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ہم کیسے آنکھ اور کان بند کرکے ان اصحاب کو عادل،معیار حق اور اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں گے؟(3)

--------------

(1):- صحیح البخاری، ج 8، ص 13، ح 6775 کتاب الحدّ.

 (2):- صحیح بخاری،ج۸، ص 22، ح 6820.

(3):- الشیعة شبہات و ردود        ۶۳. 

۴۴

 رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَ لِإِخْوانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونا بِالْإِیمانِ وَ لا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِیمٌ (1)

اور (یہ فئے ان لوگوں کے لیے بھی ہے) جو ان کے بعد آئے ہیں، کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ، ہمارے رب! تو یقینا بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔

عدالت صحابہ‏

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اسلام (ص)کے صحابی عظیم المرتبہ  تھے ، وحی الٰہی کو رسول خدا (ص)کی زبانی سنتے تھے ، آپ کے معجزوں کو دیکھتے  تھے، گوہر بار باتوں سے عملی نمونہ تلاش کرتے تھے اور اسوہ حسنہ سے خوب استفادہ کرتے تھے.یہی وجہ تھی  کہ ان کے درمیان بہت ساری ممتاز شخصیات  کی پرورش ہوئی، کہ جن پر عالم اسلام افتخار کرتے ہیں. لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ سارے صحابی بغیر کسی استثناء کے قابل تقلید ، قابل احترام ،مؤمن ،فداکار اور عادل تھے یا ان کے درمیان فاسق اور فاجر  بھی موجود تھے ؟!اس سلسلے میں دو متضاد عقیدے مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں:

پہلا نظریہ: سارے صحابی باتقویٰ اور عادل تھے

اہل سنت کے اکثر لوگ اس نظریے کے قائل ہیں اس لئے جو بھی صحابہ کہیں اسے قبول کرتے ہیں.اور اگر کوئی برا کام ان سے سرزد ہوجائے تو ان کی توجیہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں. تند رو وہابی اور اکثر اہل سنت  کا یہ نظریہ ہے اسی لئے صحابہ کے بارے  میں تنقید کاایک لفظ بھی نہیں سن سکتے اگر کوئی تنقید کرے تو اسے وہ زندیق ،ملحد اور ان کا خون مباح قرار دیتے ہیں.(2)

--------------

(1):-  سورہ حشر ،۱۰.

(2):- ابوزرعہ رازی؛ کتاب الاصابة.

۴۵

عبداللہ موصلی اپنی  کتاب«حتّی لا ننخدع» میں صحابہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ فضیلت عطا کی ہے کہ رسول اللہ(ص) کی ہم نشینی ان کو نصیب ہوئی ان کا ہر کلام ہمارے لئے قابل عمل ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے رسول کا وزیر بنایا ، ان کی محبت کو دین اور ایمان قرار دیا اور ان کے ساتھ دشمنی اور عداوت کو کفر و نفاق قرار دیا، لیکن جب ان کے درمیان اختلاف اور جنگ کا ذکر آتا ہے تو یہ لوگ بالکل خاموش ہوجاتے ہیں(1) اور یہ کتاب اور سنت کے منافی ہں .

دوسرا نظریہ:اصحاب میں منافق اور ناصالح افراد بھی تھے

یعنی جس طرح ان میں پاک و تقویٰ  اور عادل افراد موجود تھے ، اسی طرح ناصالح اور منافق افراد بھی موجود تھے .جیسا کہ پہلے بیان کر چکا، شیعہ اور بعض اہل سنت دانشور اس عقیدے کےقائل ہیں.

دلیل

قرآن اور رسول نے ان سے بیزاری کا اظہا ر کیا ہے:

 یا نِساءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَ کانَ ذلِكَ عَلَی الل ه يَسِیراً. (2)

خداوندنے قرآن مجید میں ہمسران پیغمبر (ص) کے بارے میں فرمایا:اے ہمسران پیغمبر (ص)!تم میں سے جو بھی آشکار طور پر گناہ کا مرتکب ہواتو اس کی سزا دوگنی ہوگی. اوریہ اللہ تعالیٰ کے لئے بہت آسان ہے

جبکہ ہمسران پیغمبر (ص) آشکارترین مصداق صحابی ہیں، قرآن تو ان کو دوگنی سزا  سنا رہا ہے لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ صحابہ کی باتوں کو بغیر کسی قید و شرط کے قبول کرنا چاہئے!

--------------

(1):-  حتّی لا ننخدع، صفحہ 2.

(2):- سورہ احزاب، آیہ 30.

۴۶

قرآن فرزند نوح شیخ الانبیاء ؑکے بارے میں ان کی خطا ءکی وجہ سے خطاب کر رہا ہے :

إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صالِحٍ؛ وہ ناصالح عمل ہے  اور حضرت نوحؑ کو انتباہ کیا کہ اس کے بارے میں شفاعت نہ کرے

سوال یہ ہے کہ کیافرزند پیغمبر زیادہ قریب ہے  یا اصحاب؟

اسی طرح  ہمسر نوح و لوط (دو پیغمبر بزرگ الہی)  کے بارے میں فرمایا :

فَخانَتاهُما فَلَمْ يُغْنِیا عَنْهُما مِنَ الل ه شَيْئاً وَ قِیلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِینَ ضَرَبَ الل ه مَثَلًا لِّلَّذِینَ كَفَرُواْ امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوطٍ  كَانَتَا تَحتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَلِحَینْ‏ِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنهْمَا مِنَ الل ه شَیئًا وَ قِیلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِین (1)

اللہ نے کفار کے لےَ نوح کی بوای اور لوط کی بولی کی مثال پش  کی ہے، یہ دونوں ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت مںا تھں مگر ان دونوں نے اپنے شوہروں سے خاَنت کی تو وہ اللہ کے مقابلے مںے ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور انہں  حکم دیا گا : تم دونوں داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم مںچ داخل ہو جاؤ قرآن مجید کہہ رہا ہے :

وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرابِ مُنافِقُونَ وَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ (2)

اور تمہارے گرد و پش  کے بدوؤں مں  اور خود اہل مدینہ مںن بھی ایسے منافقنے ہںث جو منافقت پر اڑے ہوئے ہںَ، آپ انہں  نہں  جانتے (لکنے) ہم انہںّ جانتے ہںق، عنقریب ہم انہںم دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائںا گے۔ اس آیة شریفہ میں تو وضاحت کےساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اہل مدینہ میں بھی آپ کے ارد گرد منافقین  بیٹھے ہوئے ہیں جن کے بارے آپ کو اطلاع دی جارہی ہے.

--------------

(1):-  سورہ تحریم، آیہ 10.

(2):- سورہ توبہ، آیہ 101.

۴۷

طلحہ اورزبیر شروع میں لشکر اسلام کے افسر تھے اور ان کو سیف الاسلام کا لقب بھی ملا تھا لیکن بعد حکومت کے ہوا و ہوس نے علی (ع)کے ساتھ بیعت اور عہد وپیمان توڑنے پر مجبور کردیا اور ہمسر پیغمبر (عایشہ) کو اپنے ساتھ ملا کر جنگ جمل کی آگ بھڑکا دی اورتقریبا 17  ہزار مسلمان اس آگ میں جل گئے. یہ لوگ قیامت کے دن جواب دہ  ہونگے .

 یا خود معاویہ کو دیکھ لیں جس نے صفین کی جنگ شروع کرکے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا خون بہایا. ان کے بارے میں کیا اس  سے سوال نہیں ہوگا؟!!

ان تمام حقائق کے باوجود کیسے آنکھ بند کرکے سارے صحابی کو معیار حق تسلیم کریں گے ؟

سارےصحابیوں کو عادل ماننے کی دلیل

اور یہ بھی یاد رہے کہ پہلےتو یہ عقیدہ نہ تھا بعد میں  قائم ہوا، اس کی کئی وجوہات  ہیں ، جن کو معلوم کرنا ضروری ہے ،وہ یہ ہیں :

الف:کیونکہ یہ لوگ  پیغمبر (ص) اورہمارے درمیان  حلقہ اتّصال ہیں  اور قرآن و سنت  پیغمبر (ص)انہی کے  وساطت سے ہم تک پہنچے ہیں اگر یہ لوگ ان صفات کے مالک نہ ہوں تو ہم کیسے ان پر اعتقاد کر سکتےہیں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سارے اصحاب ایک جیسے نہیں تھے ،بلکہ ان میں ثقہ اور مورد اعتماد افراد بھی موجود تھے جو ہمارے اور رسول کے درمیان حلقہ اتصال بن سکتے ہیں جیسا کہ اہلبیتؑ کے بارے میں ہمارا یہی عقیدہ ہے .

مزے کی بات تو یہ ہے کہ کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس دور کے سارے صحابی ثقہ تھے اگر ایسا ہو تو ہمارا دین مکمل مٹ جاتا، بلکہ سب نے کہا کہ راویوں کے بارے میں تیق ا کرنی چاہئے کہ عادل ،موثق  اورمورد اطمنان ہیں یا نہیں اور اسی بنا پر علم الرجال، علم الحدیث اور علم الدرایہ  وجود میں آیا.

۴۸

ب:بعض اصحاب پر اشکال کرنے سے مقام پیغمبر اسلام(ص) میں نقص پیدا ہوتا ہے لہذا جائز نہیں ہے .

ان کیلئے جواب یہ ہے کہ کیا قرآن کریم نے منافقین کے اوپر سخت تنقید نہیں کی ؟تو کیا اس سے رسول اسلام (ص) کی شان اور عظمت میں کمی آئی ؟!(1)

ج:اگر صحابہ کے اعمال کو مورد نقد قرار دیں گے تو پہلا دوسرا اور تیسرا خلیفہ کا منصب اور مقام مورد نقداور اشکال قرار پاتا ہے.

د:بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر صحابہ کو مورد اشکال اور نقد قرار دیں گے تو  گویا قرآن کے خلاف عمل کیا ہے کیونکہ قرآن کریم  اور احادیث نبی میں اصحاب کی شان و منزلت بیان ہوئی ہے

جواب : یہ توجیہ ٹھیک ہے لیکن قرآن نے بطور مطلق ان کے بارے میں تمجید نہیں کی ہے

بلکہ خاص صحابی تھے  جن کی مدح سرائی ہوئی ہے:وَ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُ ه اجِرِینَ وَ الْأَنْصارِ وَ الَّذِینَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسانٍ رَضِيَ الل ه عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ وَ أَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَهَا الْأَنْ ه ارُ خالِدِینَ فِی ه ا أَبَداً ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ .(2)

اس آیہ کی ذیل میں  بہت سے اہل اسنت  کےمفسّرین نے ایک حدیث صحابیوں کے ذریعے یوں نقل کی ہیں:جمیع اصحاب رسول الله فی الجنّة محسنهم و مسیئهم .(3) سارے صحابی بہشتی ہیں خواہ وہ نیک کردار کے مالک ہوں یا بد کردار کے.مزے کی بات یہ ہے کہ درج بالا آیت بتاتی ہے تابعین اگر اصحاب کے اچھے کاموں میں اتباع یا پیروی کریں تو قیامت کے دن نجات پائیں گے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اصحاب  گناہوں سے پاک  نہیں ہیں بلکہ ممکن ہے وہ بھی گناہ کا مرتکب ہوں. اس کے علاوہ روایت میں تو صراحت کے ساتھ اس مطلب کو  بیان کیا گیا ہے.

--------------

(1):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: 58.

(2):- سورہ احزاب، آیہ 30.

(3):- تفسیر کبیر فخر رازی و تفسیر المنار، ذیل آیہ فوق.

۴۹

ان سے سوال یہ ہے کہ کیا وہ  نبی جو امّت کی اصلاح کیلئے مبعوث کیا گیا ہو ، اپنے اصحاب کے گناہوں  کو  استثناء کر سکتے ہیں، جبکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ  آپ(ص) کے نزدیک ترین افراد  یعنی امّہات المؤمنین کو بھی اگر گناہ کا مرتکب ہوجائیں  تو دو برابر سزا دی جائےگی؟(1)

اس کے برعکس دوسری جگہ حقیقی مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

محَُّمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ  وَ الَّذِینَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلىَ الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنهَُمْ  تَرَئهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَ رِضْوَانًا سِیمَاهُمْ فىِ وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ  ذَالِكَ مَثَلُهُمْ فىِ التَّوْرَئةِ وَ مَثَلُهُمْ فىِ الْانجِیلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطَْهُ فََازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی‏ عَلىَ‏ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِیظَ بهِِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ مِنهُْم مَّغْفِرَةً وَ أَجْرًا عَظِیمَا. (2)

" محمد (ص) اللہ کے رسول ہںِ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہں  وہ کفار پر سخت گر  اور آپس مں  مہربان ہںل، آپ انہںف رکوع، سجود مںل دیکھتے ہںگ، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہںں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہںہ، ان کے یی  اوصاف توریت مں  بیپ ہں  اور انجلا مںھ بھی ان کے ییق اوصاف ہںم، جسےر ایک کھیبی جس نے (زمنر سے) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کای اور وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سد ھی کھڑی ہو گئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے، ان میںسے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظم  کا وعدہ کا  ہے"۔

--------------

(1):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: 63

(2):- سورہ فتح،29

۵۰

کیا جنہوں نے جنگ صفین اور جنگ جمل کی آگ کو بھڑکاکرلاکھوں مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلادیا ، ایک دوسرے کے ساتھ مہربان تھے؟!! اور ان کی جنگ کافروں کے ساتھ تھی یا مسلمانوں کے ساتھ؟!!

بنابراین مغفرت و اجر عظیم کا وعدہ  صرف ان افراد کیلئے ہے جو ایمان اور عمل صالح کے حامل ہوں.لیکن کیا جنگ جمل کے ذمہ دار افراد عمل صالح والے تھے؟!

اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو تو ایک ترک اولی کی وجہ سے بہشت سے نکال دیتا ہے ، حضرت یونس (ع)تو ایک ترک اولی کی وجہ سے ایک مدت تک مچھلی کے پیٹ میں رہا تھا ، حضرت نوح(ع) کو اپنے گناہگار بچے کی شفاعت کرنے پر مواخذہ کرتا ہے تو کیا یہ ماننے والی بات ہے کہ ہمارے نبی کے صحابی اس قانون سے مستثنی کئے گئے ہیں؟.(1)

براداران اہل سنت اس کے قائل ہیں کہ سارے صحابی عادل ہیں لیکن یہ کون سی عدالت ہے جس کی قرآن نفی کرتا ہے:

إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطانُ بِبَعْضِ ما كَسَبُوا وَ لَقَدْ عَفَا الل ه عَنْهُمْ إِنَّ الل ه غَفُورٌ حَلِیمٌ (2)

دونوں فریقوں کے مقابلے کے روز تم مںم سے جو لوگ پیٹھ پھرک گئے تھے بلاشبہ ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے شطاکن نے انہںّ پھسلا دیا تھا، تاہم اللہ نے انہںا معاف کردیا، یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا، بردبار ہے۔

آیۃ شریفہ ان لوگوں کی طرف اشارہ کررہی ہےجو لوگ جنگ احد میں فرار ہوگئے تھے اور پیغمبر اکرم کو دشمنوں کے نرغے میں اکیلا چھوڑگئے.

 قرآن کہہ رہا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر فرار ہونے والوں کو اپنے بعض گناہوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں دھوکہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں رسول اکرم کے وجود مبارک کے طفیل میں بخش دیا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا حلیم رب ہے

--------------

(1):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: 62

(2):- سورہ آل عمران،155

۵۱

اس آیة سے نتیجہ لے سکتے ہیں کہ بعض صحابہ نے جنگ سے فرار ہوتے ہوئے رسول اکرم کو دشمن کے درمیان چھوڑ کے بہت بڑا گناہ کیا ،شیطان ان پر غالب آگیا،اس کی وجہ بھی ان کے گناہ بتاتے ہیں. یہ کون سی عدالت ہے کہ جس کے بارے میں بعض اصحاب کو قرآن نے فاسق کہا ہے :

یا أَيُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جاءَكُمْ فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْماً بِجَ ه الَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلی‏ ما فَعَلْتُمْ نادِمِینَ. (1)

اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحققی کر لا  کرو، کہںا(ایسا نہ ہو کہ) نادانی مںئ تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھر تمہںہ اپنے کےی پر نادم ہونا پڑے ۔

اور یہ مفسّرین کے درمیان مشہور ہے کہ یہ آیۃ ولید بن عُقبة کی مذمت میں نازل ہوئی.کہ پیغمبر اکرم نے انہیں بنی المصطلق میں زکات جمع کرنے بھیجا تھا واپس آیا اور کہا یہ لوگ اسلام کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں ، بعض مسلمانوں نے اس کی باتوں پر یقین کیااور اس طائفہ کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے نکلے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ اس کی باتوں پر یقین نہ کریں ورنہ پچھتاؤگے. اتفاقاً جب اس کی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ طایفہ بنی المصطلق ایک با ایمان طایفہ ہے ولید کو ان سے ذاتی دشمنی تھی اس لئے ان پر یہ تہمت لگائی تھی سوال یہ ہے کہ کیا ولید صحابی نہیں تھا؟!

یہ کیسی عدالت ہے کہ اگر انہیں کچھ دیں تو رسول پر راضی ہوجاتے ہیں اور اگر نہ دیں تو رسول اکرم(ص)  پر اعتراض کرنے لگتے ہیں:

وَ مِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِی الصَّدَقاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْ ه ا رَضُوا وَ إِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْ ه ا إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ. (2)

--------------

(1):-  ۔    حجرات،۶.

(2):- توبہ ۵۸.12 و 13 سورہ احزاب

۵۲

اور ان مں  کچھ لوگ ایسے بھی ہںن جو صدقات(کی تقسمو)مںخ آپ کو طعنہ دیتے ہں  پھر اگر اس مں  سے انہں  کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہں  اور اگر اس مںا سے کچھ نہ دیا جائے تو بگڑ جاتے ہں ۔

یہ کیسی عدالت ہے کہ جنگ احزاب میں شریک تھے اور رسول خدا پر فریبکاری کی تہمت لگاتے ہیں:

وَ إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَ الَّذِینَ فىِ قُلُوبهِِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا (1)

اور جب منافقنَ اور دلوں مںہ بماَری رکھنے والے کہ رہے تھے: اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کام تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔

خدا اور اس کے  پیغمبر نے ہمارے لئے جھوٹے وعدوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا. ان میں سے کچھ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اس جنگ میں شہید ہوجائیں گے اور اسلام پر فاتحہ پڑھا جائے گا.

 اسی طرح شیعہ سنی دونوں طرف سے روایت نقل ہوئی ہے کہ جب جنگ خندق میں خندق کھودا جا رہا تھا  اور پتھر توڑا جارہا تھا اور جنگ میں کامیابی اور جیت کی بشارت دی جا رہی تھی تو ایک گروہ ان باتوں کا مزاق اڑا رہا تا ؛ سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ صحابہ میں سے نہیں تھے ؟!!(2)

 اس سے بڑھ کر پیغمبر اکرم (ص)پر خیانت کی تہمت لگانے والے بھی صحابی رسول تھے :وَ ما کانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ وَ مَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِما غَلَّ يَوْمَ الْقِیامَةِ ثُمَّ تُوَفَّی كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ وَ هُمْ لا يُظْلَمُونَ. (3)

--------------

(1):-  ۔  احزاب ۱۲

(2):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: ۶۵.

(3):- سورہ آل عمران،161.

۵۳

اور کسی نبی سے یہ نہںا ہو سکتا کہ وہ خاھنت کرے اور جو کوئی خاونت کرتا ہے وہ قاتمت کے دن اپنی خاینت (اللہ کے سامنے)حاضر کرے گا، پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہںّ کاں جائے گا۔

 یعنی اگر ان کو کوئی  سزا دے تو یہ انہی کے اعمال کا نتیجہ ہے. کیا  رسول اللہ (ص) پران تمام نا روا تہمتوں کے لگانے والے عادل اور پاکیزہ  ہو سکتے ہیں؟!!     معروف دانشور بلاذری اپنی کتاب انساب الاشراف میں نقل کرتا ہے کہ مدینہ کےبیت المال میں جواہرات اور دیگر زیورات تھے، عثمان نے ان میں سے کچھ اپنے خاندان والوں کو دیا یہ دیکھ کر لوگ ان پر سخت تپ گئے اور شدید احتجاج کرنےلگے جس سےعثمان سخت خشمگین ہوا اور منبر پر جاکر ایک خطبہ میں کہا: ہم مال غنیمت میں سے اپنی ضروریات کے مطابق لے سکتے ہیں اگرچہ بعض لوگوں کو ناگوار گذرے.

علی(ع) نے ان سے فرمایا: مسلمان تمھارا راستہ روکیں گے

عمّار یاسر نے کہا: میں  وہ پہلا شخص ہوں گا کہ عثمان کو ناک رگڑاؤں گا اور ہمیشہ اس پر اعتراض کرتا رہوں گا.

عثمان غضبناک ہوا اور کہا: تم میرے سامنے جسارت کرتے ہو؟!اسے پکڑ کر اپنے گھر لے گیا اور اس قدر اس پر ظلم کیا کہ وہ بیہوش ہوگئے. اور اسی بیہوشی کی حالت میں ام سلمہ (ہمسر پیغمبر) کے گھر لائے گئے نماز ظہر و عصر و مغرب بھی نہ پڑھ سکے جب آخر وقت ہوش آیا تو وضو کرکے نمازیں پڑھ لی اور فرمایا : یہ اللہ کی خاطر ہم پر پہلی بار ظلم نہیں ہورہا.(1)

یعنی آپ کی مراد دوران جاہلیت کے مظالم تھے .سوال یہ ہے کہ ان تمام تاریخی شواہد کےباوجود کیا ہم آنکھیں بند کرکے سارے صحابہ کا دفاع کریں اور سپاہ صحابہ تشکیل دیں تاکہ صحابہ کی ہر بات ، ہر فعل اور ہرکردار  کو بغیر کسی قید و شرط کے قبول کریں اور ان کا دفاع کریں ؟!!! کہ یہ عاقلانہ کام نہیں ہے.(2)

--------------

(1):-  انساب الاشراف، جلد 6، صفحہ 161

(2):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: 76

۵۴

علی (ع) کی مظلومیت

جو بھی تاریخ اسلام کا مطالعہ کرے نہایت افسوس کے ساتھ اس مطلب تک پہنچ جائے گا کہ امیر المؤمنین(ع) جو علم و تقویٰ کا پیکر اور پیغمبر اکرم کا سب سے قریبی دوست ، جانشین، وصی اور اسلام کا سب سے بڑا مدافع ہوتے ہوئے بھی  ان کی شان میں گستاخی اور لعنت  کرنے لگے اور آپ کے دوستوں  اور چاہنے والوں کو نام نہاد صحابویں نے ستانا شروع کیا .ان ظلم ستانی کی داستان کا کچھ  نمونہ درج ذیل ہیں:

الف: علی بن جہم خراسانی اپنے والد پر لعن طعن کرتا تھا جب ان سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا: کیونکہ اس نے میرا نام علی رکھا ہے(1)

ب:معاویہ نے سارے ملازمین کو حکم دیا کہ جو بھی فضائل ابوتراب علی (ع)اور ان کے اہلبیت کے فضائل بیان کرے اس کی جان  مال تم پر مباح ہو.اس کے بعد سارے منبروں سے علی پر لعن اور ان سے اظہار برائت کرنے لگے(2)

 ج: سلمة بن شبیب ابوعبدالرحمان عقری سے نقل کرتا ہے :بنی امیّہ والوں کو جب بھی پتہ چلتا کہ کسی بچہ کا نام علی رکھا ہے تو اسے فوراً قتل کرتے تھے.(3)

د: زمخشری و سیوطی نقل کرتے ہیں کہ بنیامیّہ  کے دور میں ۷۰ ہزار منبر سے علی پر سب و شتم ہوتا تھا اور یہ سنت، معاویہ نے جاری کی تھی(4)

--------------

(1):-  لسان المیزان، جلد 4، صفحہ 210

(2):- النصایح الکافیہ، صفحہ 72.

(3):- تہذیب الکمال، ج 20، ص 429 و سیر اعلام النبلاء، ج 5، ص 102.

(4):- ربیع الابرار، ج 2، ص 186 و النصایح الکافیہ، ص 79 عن السیوطی.

۵۵

جب عمربن عبدالعزیز نے دستور دیا کہ علی پر لعن کرنے والی اس بدعت کو ترک کردے تو مسجد میں موجود سب لوگ چیخ اٹھے:ترکتَ السنّة ترکتَ السنّة؛ تو نے سنت کو ترک کیا تو نے سنت کو ترک کیا ،یعنی تو نےکیوں اس سنت کو ترک کیا ؟(1) جب کہ صحیح روایت ہےکہ پیغمبر اکرم  (ص)نے فرمایا تھا :مَن سبّ علیّاً فقد سبّنی و من سبّنی فقد سبَّ اللهَ ؛ جو بھی علی پر لعن کرے  گویا اس نے مجھ پر لعن کیا اور دشنام دیا  اور جو مجھ پر لعن کرے گا اس نے خدا پر لعن کیا ہے !!(2)

صحابہ تین قسم کے ہیں

نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ عقیدے کے مطابق صحابہ تین قسم کے ہیں:

الف: جو شروع سے ہی پاک ، صالح اور صادق تھے  اور  کبھی بھی پیغمبر کے فرامین کی مخالفت نہیں کی .ان کیلئے کہاگیا: عاشوا سعداء و ماتوا السعداء.یعنی انہوں نے سعادتمند زندگی کی اور سعادتمندی کے ساتھ اس دنیا سے تشریف لے گئے.

ب: جو شروع میں تو اچھے اور صالح تھے لیکن بعد میں کسی بھی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) کے فرامین کی مخالفت کرنے لگے  اور عاقبت بخیر نہ ہوئے جیسے وہ لوگ جنہوں نے جنگ نہروان ، جنگ جمل اور جنگ صفین شروع کیں.اس گروہ میں طلحہ اور زبیر وغیرہ آتا ہے جن کو رسول کے زمانے میں سیف الاسلام کا لقب ملا تھا لیکن بعد میں امام وقت  یعنی علی ابن ابیطالب کے مقابلے میں جنگ کرنے آئے اور مارے گئے.

ج: جو شروع سے ہی پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ مخلص نہیں تھے ، بلکہ کسی بھی مجبوری کی وجہ سے مسلمانوں کے صف میں موجود تھے یعنی منافقین.جیسے ابوسفیان و غیرہ.

--------------

(1):- النصایح الکافیہ، ص 116 و تہنئة الصدیق المحبوب، نوشتہ سقاف، ص 59.

(2):-  اخرجہ الحاکم و صحّحہ و اقرّہ الذہبی( مستدرک الصحیحین، ج 3، ص 121

۵۶

شیعہ پہلاگروہ کے بارے میں یوں دعا کرتے ہیں اور اظہار مودّت  اور محبت کرتے ہیں: رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَ لِإِخْوانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونا بِالْإِیمانِ وَ لا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِیمٌ. (1)

یعنی اے ہمارے پروردگار! ہمیں معاف فرما اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جنہوں نے ہم سے پہلے تجھ پر ایمان لائے ہیں ، اور ہمارے دلوں میں ان مؤمنوں کیلئے نفرت اور بغض پیدا نہ کرنا. اے ہمارے پروردگار ! تو بڑا رؤوف و مہربان اور رحم والا ہے.

باقی دو گروہ پر ہم لعن کرتے ہیں اب ان میں کوئی بھی آئے وہ مورد لعن  ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان دو گروہوں پر لعن کیا ہے

زہرا کی مظلومیت

فاطمہ زہرا(س) کے گھر پر صحابہ کا حملہ منابع اہل سنت میں

کیا ایسا واقعہ ممکن ہے کہ رسول کا صحابی ہو اور اس کی اکلوتی بیٹی پر گھر کا دروازہ گرایا ہو اور اسے شہید کردیا ہو؟!!

اس کا جواب آپ کو مثبت میں ملے گا. چنانچہ اہل سنت کی حدیث، تاریخ اور رجال کی کتابوںمیں اس واقعہ کو کسی نے شرمندگی کے ساتھ تو کسی نے احتیاط کے ساتھ تقطیع کرتے ہوئے  تو کسی نے خلیفہ ثانی کے توسط سے آگ لے کر آنے کو  تو کسی نے مسلمانوں کا   مسلحانہ محاصرہ اور حملہ آور ہونے کو بیان کیاہے:"و معه قبس من نار" (2)

«ثم قام عمر، فمشی و معه جماعة حتی اتوا باب فاطمة و بقی عمر و معه قوم فاخرجوا علیاً » (3)

--------------

(1):-  سورہ حشر، آیہ ۱۰.

(2):- معارف ابن قتیبہ میں  یہ عبارت حذف کیا گیا ہے:ان محسناً فسد من زخم قنفذ العدوی.

(3):-  تحریف در مروج الذہب، در چاپ میمنیة ج 3، ص 86

۵۷

بعض نے لکھا ہے«ان عمر رفَسَ ‏فاطمة حتی اسقطت محسناً» (1)

 کہ حضرت فاطمہ  پر عمر نے ٹھوکر مارا جس کی وجہ سےآپ نے محسن کو سقط کیا

«و قد دخل الذل بیتها و انتهکت حرمتها و غصب حقها و منعت ارثها، و کسر جنبها، و اسقطت جنینها» (2)

بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے :یہ لوگ فاطمؑ کے گھر میں داخل ہوگئے  انہو ں نے حضرت فاطمہ کی حرمت کا لحاظ نہ کیا ،ان کا  حق   غصب کیا اور ان  کو ارث سے محروم کر دیا اور ان کی  پسلیاں توڑی اور پہلو  شہیدکیا اور جنین کو گرادیا.

بعض نے لکھا ہے  کہ  عمر نے ابوبکر سے کہا: ہم نے فاطمہ کو ناراض کیا ہے  ، آؤ چلیں فاطمؑ کے پاس ، ان سے عذر خواہی کریں .عمر اور ابوبکر دونوں علی کے گھرپر  آئے اور  فاطمہ ؑسے عذر خواہی کرنے لگے لیکن فاطمؑ نے ان  کی طرف سے چہرہ موڑ لیا  ان دونوں نے آپ کو سلام کیا  لیکن آپ نے اس کا جواب نہیں دیا.

«فقال عمر لابی بکر انطلق بنا الی فاطمة، فانا قد اغضبناها، فانطلقا جمیعاً، فاستاذنا علی فاطمة، فلم تاذن لهما، فاتیا علیاً فکلمّاه، فادخلهما علیها فلما قعدا عندها، حولت وجهها الی الحائط فسلَّما علیها فلم اجابت .

ذہبی کہتا ہے :«اتی ابوبکر فاستاذن، فقال علی: یا فاطمة، هذا ابوبکر، یستاذن علیک، فقالت: اتحب ان اذن له؟ قال: نعم، فاذنت له، فدخل علیها یترّضاها.»

 ابوبکر جب علی کی خدمت میں آئے اور حضرت فاطمہ کی زیارت اور ان  سے عذر خواہی کیلئے اجازت مانگی تو علی نے فاطمہ زہرا سے کہا : کیا آپ راضی ہیں کہ میں ان کو اجازت دوں؟ آپ نے اجازت دے دی اور وہ عذر خواہی کرنے لگا ذہبی نے یہاں تک تو ذکر کیا لیکن اجازت ملی اور معاف کیا یا نہیں کیا ، یہ حصہ چھپا کر وغیرہ وغیرہ لکھ دیا.

--------------

(1):- تحریف در مروج الذہب، در چاپ میمنیة ج 3، ص 86

(2):- جوینی شافعی، متوفی سال 722، جو شمس الدین ذہبی کا استاد ہے.

۵۸

«وددت انی لم اکشف بیت فاطمة و ترکته و ان اغلق علی الحرب.» (1) بعض نے لکھا ہے کہ خلیفہ ثانی نے اپنی وفات کے وقت بیت وحی پر حملہ آور ہونے پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اے کاش! میں فاطمہ کے گھر پر حملہ نہ کرتااور دروازے کو نہ کھولتا اگرچہ  اس کے بند رکھنے کو اپنے ساتھ اعلان جنگ تصور کرتا.

سوال: کیا یہ واقعہ بغیر کسی تحریف کے  بھی تاریخ میں بیان ہوا ہے ؟

جواب: اکثر مؤرخین نے  تحریف کیا ہے لیکن بعض نے  صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، جن میں سے ایک ابن عبد الرب اندلسی ہے ، وہ لکھتاہے:

«بعث الیهم ابوبکر عمر بن الخطاب لیخرجهم من بیت فاطمة و قال له: ان ابوا، فقاتلهم فاقبل بقبس من نار علی ان یضرم علیهم الدار، فلقیته فاطمة، فقالت: یابن الخطاب، اجئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم او تدخلوا فیما دخلت فیه الامة.» (2)

ابوبکر نے عمر کو فاطمہ زہرا کے گھر کی طرف بھیجا تاکہ علی کو اپنی بیعت کیلئے مسجد میں بلایا جاسکے اور وہ بھی اپنے ہاتھوں میں آگ لے کر وہاں پہنچے لیکن فاطمہ نے دروازہ نہیں کھولا اور فرمایا: اے خطاب کے بیٹے !کیا میرے گھرکو آگ لگانے کیلئے آگئے ہو؟! اس نے کہا: ہاں ، لیکن اگر آپ بھی دوسرےلوگوں کی طرح ابوبکر کی بیعت کریں تو  چھوڑ دیے جائیں گے. اس سلسلے میں مزید منابع درج ذیل ہیں:

اثبات الوصیة ص 143- الوافی بالوفیات، ج 6، ص 17، الملل و النحل، ج 1، ص 57؛ الشافی، ج 4، ص 120؛ شرح ابن ابی الحدید، ج 14، ص 193 و ج 2، ص 60؛؛ تقریب المعارف، ص 23؛ الطرائف، ص 274- و ماساة الزہراء وغیرہ .

--------------

(1):- المعجم الکبیر، ج 1، ص 62؛ شمارہ حدیث 43، کتاب الاموال بن سلام ص 174 متوفی 224 ہ۔

(2):- العقد الفرید، ج ۴، ص ۲۶۰

۵۹

چوتھی فصل: مٹی پر سجدہ

شیعوں کے ہاں مہر یا سجدہ گاہ کا استعمال کرنے کی فقہی دلیل کیا ہے؟

جواب: فقہی لحاظ سے شیعہ اور دوسرے مکاتب کے درمیان اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ کیا سجدہ ہر چیز پر ممکن ہے یا کچھ خاص چیزوں پر ؟

 سنی کہتےہیں ہر چیز پر ممکن ہے لیکن شیعہ کہتے ہیں صرف زمین اور  اس سےنکلنے  والی چیزوں پر جائز ہے سوائے کھانے پینے ،بہنے اور پہننے والی چیزوں پر. پیغمبر اکرم کے زمانے میں مسلمانوں کی یہی سیرت رہی ہے  کہ گرمیوں میں اپنی مٹھی میں کچھ ریت اٹھاتے تھے تاکہ سجدہ کرتے ہوئے پیشانی نہ جلے.

 جابر بن عبد اللہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول خدا (ص)کے ساتھ نماز ظہر پڑھنے میں مصروف تھا کہ ریت کو اپنی مٹھی میں اٹھایا اور اس پر سجدہ کیا .(1)

ایک صحابی  کوسجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی  زمین پر رکھنے سے  اجتناب کرتے ہوئے دیکھا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اپنی پیشانی کو مٹی پر رکھا کرو.دوسرے صحابی کو دیکھا کہ اس کا عمامہ پیشانی او ر سجدہ گاہ کے درمیاں حائل ہور ہا تھا تو آپ نے اسے ہٹادئے. آپ حصیر اور ٹھیکری پر سجدہ کیا کرتے تھے.(2)

مکالمہ

سنی: تم لوگ خاک  کربلا سے کیوںشفا طلب کرتے ہو؟ اور کیوں بیماروں کو کھلاتے ہو؟

شیعہ: کیا قدرت خدا پر شک کرتے ہو؟

--------------

(1):-  مسند احمد، ج 3، ص 327 حدیث جابر و سنن بیہقی، ج 1، ص 439

(2):- کنزالعمال، ج 7، ص 465 ح 19810 سنن بیہقی، ج 2، ص 105 مسند احمد، ج 6، ص 179، 377، و ج 2 ص 192، 198.

۶۰