پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 0%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 253
مشاہدے: 70785
ڈاؤنلوڈ: 5921

تبصرے:

پھر میں ہدایت پاگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 70785 / ڈاؤنلوڈ: 5921
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عمربن الخطاب کے علاوہ کوئی نجات حاصل نہیں کرسکتا ۔ اور یہ لوگ زبان حال سے کہتے ہیں ۔ اگر عمر نہ ہوتے تو نبی ہلاک ہوجاتے (العیاذ باللہ) خدا اس فاسد عقیدہ سےبچائے جس سے بد تر کوئی عقیدہ نہیں ہوسکتا ۔میں قسم کھا کرکہتا ہوں جس کا بھی یہ عقیدہ ہو وہ اسلام سے اتنا دور ہے جتنا مشرق اور مغرب سے ہے ۔اس پر واجب ہے کہ اپنا علاج کرائے یا اپنے دل سے شیطان کو بھگائے قران کا اعلان ہے : افرایت من اتخذ الهه واضله  الله علی علم وختم علی سمعه وقلبه وجعل علی بصرغشاو ة فمن یهدیه من بعد الله افلا تذکرون (پ 25 س 45(الجاثیه ) آیت 22 )

 ترجمہ:- بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنے نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور (اسکی حالت ) سمجھ بو جھ کر خدانے اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر علامت مقرر کردیہے (کہ ایمان نہ لائے گا) اور اسکی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ پھر خدا کے بعد اس کی ہدایت کون کرسکتا ہے تو کیا تم لوگ (اتنا بھی) غور نہیں کرتے ۔ صدق اللہ العلی العظیم ۔

میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ رسول خدا خواہشات کی پیروی کرتے تھے اور میلان نفس کی بنا پر حق سے عدول کرجاتے تھے ۔ اور خدا کے لئے قسم نہیں کھاتے تھے ۔بلکہ اپنی خواہش وجذبات میں بہہ جاتے تھے ۔ اور جو لوگ رسول خدا کی بنائی ہوئی چیزوں سے اس نے پرہیز کرتے تھے ۔ کہ وہ لوگ رسول سے زیادہ متقی اور رسول سے زیادہ عالم  ہیں یہ تمام لوگ مسلمانوں کے نزدیک کسی بھی احترام کے لائق نہیں چہ جائیکہ ایسے لوگوں کو ملائکہ کی جگہ سمجھائے اور ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ رسول خدا کےبعد پوری کا ئنات میں سب سے افضل یہی لوگ ہیں ۔ اور مسلمانوں کو ان کی پیروی اور سیرت پر اس لئے چلنے کی دعوت دی جائے کہ یہ اصحاب رسول ہیں ۔اور اہل سنت و الجماعت کے یہاں یہی سب سے بڑا تضاد ہے کہ وہ محمد وآل محمد  پر جب درود بھیجتے ہیں تو ان کے ساتھ سارے صحابہ کو بھی شامل کردیتے ہیں (کہاں آل محمد اور کہاں صحابہ ؟ (دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے) اور جب خداوند عالم آل محمد کی قدر ومنزلت کو جانتا ہے اور لوگوں کی گردنوں کو جھکانے

۱۲۱

کے لئے اور ان کی قدر منزلت کا اظہار کرنے کےلئے  سب ہی کو حکم دیتا ہے کہ رسول کے ساتھ ان کے اہلبیت طاہرین پر بھی درود بھیجا کریں تو بھلا ہم کو کہاں سے حق پہونچتا ہے کہ اصحاب کو آل محمد سے بڑھادیں یا اصحاب کو ان کے (اہل بیت طاہرین) برابر قراردیدیں ۔اہلبیت تو ہو ہیں ۔جن کو خدا نے عالمین پر فضیلت دی ہے ۔

مجھے اجازت دیجئے کہ میں یہ نتیجہ اخذ کروں کہ اموی اور عباسی لوگ چونکہ اہل بیت کے فضل و منزلت کو جانتے تھے اس لئے انھوں نے اہل بیت نبی کو ملک بدر کیا ۔ دیس نکالا دیا ۔ ان کو ان کے پیروکاروں کو ان کے چاہنے والوں کو قتل کردیا ۔ خود خدا کسی مسلمان کی نماز اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ اہلبیت پر درود نہ بھیج لے تو اہلبیت سے دشمنی رکھنے والے ،ان سے منحرف ہونے والے کیا جواز پیش کریں گے ۔؟

چونکہ اہل بیت کی فضیلت چھپائی نہیں جاسکتی تھی ۔ اس لئے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے ان لوگوں یعنی امویوں اور عباسیوں نے صحابہ کو بھی اہلبیت سے ملحق کردیا اور کہنے لگے صحابہ اور اہلبیت فضیلت میں برابر ہیں ۔کیونکہ انھیں امویوں اور عباسیوں کے بعض بزرگوں ہی نے رسول کی صحبت یافتہ اور تابعین میں سے کچھ ناقص العقول افراد (بیوقوفوں )کو خرید لیا تھا۔ تاکہ وہ لوگ فضائل صحابہ میں جھوٹی ومن گڑھت روایات نقل کیا کریں ۔ خصوصا ان اصحاب کے لئے جو سریر آرائے خالفت  ہوئے ہیں اور یہی لوگ براہ راست امویوں اور عباسیوں کو تخت خلافت تک پہونچانے والے اور مسلمانوں کی گردنوں پر حکومت کرنے کا سبب بنے ہیں ۔میری باتوں کی گواہ خود تاریخ ہے کیونکہ یہی حضرت عمر جو اپنے گورنروں کا محاسبہ کرنے میں بہت مشہور تھے ار معمولی سے شبہہ کی بنا پر معزول کردیا کرتے تھے ۔ معاویہ کے ساتھ اتنی نرمی برتتے تھے کہ جس کا حساب نہیں ۔ معاویہ سے کبھی محاسبہ نہیں کرتے تھے۔ معاویہ کو ابو بکر نے اپنی حکومت میں گورنر معین کیا تھا ۔حضرت عمر نے اپنے پورے دورخلافت میں معاویہ کو اس کی جگہ پر برقرار رکھا اور کبھی معاویہ پر اعتراض تک نہیں کیا ۔انتہا یہ ہے کہ اظہار ناراضگی یا ملامت تک نہیں کی حالانکہ بکثرت  لوگوں کی شکایت کی مگر عمر اس  کا ن سے سنکر اس کان سے اڑادیتے

۱۲۲

تھے ۔لوگو آآکر کہتے تھے ۔معاویہ سونے  اور ریشم کا لباس پہنتا ہے اور رسول خدا نے اس کو مردوں پر حرام قرار دیا تھا ۔ تو عمر صرف یہ کہہ کرٹال  دیتے تھے: چھوڑ دو و ہ عرب کا کسری ہے ۔"

معاویہ بیس سال تک بلکہ اس سے بھی زیادہ حکومت کرتا رہا کسی کی مجال نہیں تھی جو اس پر اعتراض کرتا یا سا کو معزول کرتا ۔ اور جب عثمان خلیفہ ہوئے (تب تو پوچھنا ہی کیا ہے سیال بھئے کوتوال" والی مثال صادق آتی ہے مترجم) تو انھوں نے چند دیگر ولایات کو معاویہ کے زیر حکومت کردیا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاویہ بھر پور اسلامی ثروت کا مالک بن بٹھا لشکر کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کر لیا ۔ عرب کے جتنے اورباش بد معاش تھے سب کو اپنے اردگرد اکٹھا کرلیا ۔ تاکہ وقت ضرورت امام امت کے خلاف انقلاب برپا کیا جاسکے اور کذب وزور ، جبر وتشدد ،طاقت وقوت کے بل بوتے پر حکومت پر قبضہ کیا جا سکے  اور مسلمانوں کی گردنوں پر بلا شرکت غیر حکومت کی جاسکے اور مرنے سے پہلے اپنے فاسق وشراب خوار ،زنا کا ، عیاش بیٹے یزید کے لئے زبردستی لوگوں سے بیعت لے سکے ۔بیعت یزید کا بھی ایک تفصیلی قصہ ہے جس کو اس کتاب میں بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ میرا مقصد یہ ہے کہ آپ ان صحابہ کے نفسیات کو سمجھ لیں جو تخت خلافت پر (ناحق ) قابض ہوئے تھے ۔ اور جنھوں نے بنی امیہ کی حکومت کا راستہ ہموار کیا تھا ۔ ایک مفروضہ کی بنا پر قریش کویہ بات پسند نہیں ہے کہ نبوت وخلافت دونوں بنی ہاشم ہی میں رہے(1) ۔حکومت بنی امیہ کا حق کیا بلکہ اس پر واجب تھا کہ جن لوگوں نے اس کی حکومت کے لئے راستہ ہموار کیا تھا ان کا شکریہ ادا کر ے اور کم سے کم شکریہ یہ تھا کہ کچھ راویوں کو خرید لیا جائے جو ان کے آقا ومولی کے فضائل میں جعلی حدیثیں بیان کریں جن کی شہرت قریہ قریہ ،دیہات دیہات ہوجائے اور اسی کے ساتھ ان کے آقاؤں کو ان کے دشمنوں پر فضیلت بھی حاصل ہوجائے ۔یعنی اہلبیت پر فضیلت حاصل ہوجائے ایسی فضیلت کی روایتیں جعل کی گئی ہیں کہ پناہ بخدا حالانکہ خدا شاہد ہے اگر ان روایات کو عقلی ومنطقی وشرعی دلیلوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو هباءا منثورا " نظر آئیں گی ۔

--------------

(1):- خلافت وملوکیت مودودی ،یوم الاسلام احمد امین ۔

۱۲۳

اور کوئی آدمی ان کے ذکر کری ہمت بھی نہ کرے گا البتہ جس کے دماغ میں بھوسا بھرا ہویا تناقضات پر ایمان رکھتا ہو تو بات ہی اور ہے ۔میں بطور مثال (نہ بخاطر حصر) چند چیزوں کا ذکر کرتا ہوں ۔بچپنے سے عدالت عمر  کی شہرت سنتے آئے ہیں اوریہ بات اتنی مشہور ہے کہ لوگ کہتے ہیں ۔ اے عمر تم عد ل کرتے کرتے سوگئے بعضوں نے یہ کہہ دیا کہ حضرت عمر کو قبر کے اندر سیدھا قیام کی صورت میں دفن کیاگیا تاکہ کہیں ان کے مرنے سے عد ل نہ مرجائے ، زبان زد خاص وعام ہے کہ عدالت عمر کے بارے میں جو چاہے بیان کریں کوئی حرج نہیں ہے ۔۔۔۔ لیکن صحیح تاریخ کا کہنا ہے کہے سنہ 20 ھ میں حضرت عمر نے جب لوگوں میں عطایا کی رسم جاری کی تو نہ سنت رسول کی پیروی کی اور نہ اس ک پرواہ کی ۔کیونکہ رسول اکرم نے تمام مسلمانوں میں عطا کے سلسلے میں مساوات قائم کی تھی ۔ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دی تھی ۔ خود ابو بکر اپنے دورخلافت میں رسول اکرم کی پیروی کرتے رہے ۔ لیکن حضرت عمر نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا انھوں نے سابقین کو دوسروں پر فوقیت دی ۔ اور قریش کے مہاجرین کو دوسرے مہاجرین پر فضیلت دی اور تمام مہاجرین کو (خواہ قریشی یا غیر قریشی )تمام انصار پرمقدم کیا ۔ عرب کو تمام غیر عربوں پر ترجیح دی ۔آقا کو غلام پر (1) ۔ قبیلہ مضر کو قبیلہ ربیعہ پر اسطرح فوقیت دی کہ مضر کو تین سو اور ربیعہ کے دو سو معین کیا (2) ۔قبلیہ اوس کو قبیلہ خزرج پر مقدم کیا (3) ۔اے عقل والو مجھے بتاؤ یہ تفضل کون سی عدالت ہے؟اسی طرح حضرت عمر کے علم کا بڑا شہرہ سنا کر تے تھے یہاں تک کہ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ تمام صحابہ میں سب سے زیادہ عالم عمر ہیں ۔ اوربعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قرآن میں بہت سی آیتیں موجود ہیں ۔ کہ جب رسول اکرم اور عمر بن الخطاب میں اختلاف رائے ہوتا تو قرانی آیات حضرت عمر کی تایید کرتی ہوئی اترتی تھی ۔۔۔۔لیکن صحیح تاریخ کہتی ہے کہ حضرت عمر نزول قرآن پہلے تو در کنار نزول قرآن کےبعد بھی قرآن کی موافقت

--------------

(1):- شرح ابن ابی الحدید ج 8 ص 111

(2):- تاریخ یعقوبی ج 2 ص 106

(3):- فتوح البلدان ص 437

۱۲۴

نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ عمر کے زمانہ خلافت میں کسی صحابی نے عمر سے پوچھا :- اےامیر المومنین مین رات کو مجنب ہوگیا اور مجھے پانی نہ مل سکا تو میں کیا کروں ؟ عمر نے فورا کہا : نماز چھوڑ دو مت پڑھو ! لیکن عمار یاسر جو اس وقت جو اس وقت موجود تھے  انھوں نے کہا ایسے موقع پر تیمم کرلیتے  لیکن حضرت عمر مطمئن نہیں ہوئے اور عمار سے کہا : تم کو ہم اسی کا م کی رائے دیتے ہیں جو تم نے اپنے لئے کیا ہے(1) بھلا مجھے بتاؤ قرآن میں موجود آیت تیمم کا علم حضرت  عمر کو کہا ں تھا ؟ عمر کا سنت نبوی کے بارے میں علم کیا ہوا ؟ آخر رسول نے جس طرح وضو کرنا سکھایا تھا تیمم کرنا بھی تو بتایا تھا اور (مدعی سست گواہ چست کے بمصداق)خود حضرت عمر متعدد واقعات کےبارے میں کہتے ہیں میں عالم نہیں ہوں ۔131

بلکہ یہاں تک فرمایا  :ہر آدمی عمر سے زیادہ علم فقہ جانتا ہے ۔یہاں تک کہ گھر میں بیٹھنے والی عورتیں بھی زیادہ جانتی ہیں ۔ خود عمر نے متعدد مرتبہ کہا :"لو لا علی لهلک عمر " اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔

بے چارے مرتے مرتے  مرگئے ۔لیکن کلالۃ کا حکم نہیں جانتے تھے اسی لئے زندگی میں کلالۃ کے متعدد ومختلف احکام بیا ن کرگئے جیسا کہ تاریخ شاہد  ہے (مگر ہمارے علمائے کرام  اسی پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ حضرت عمر کو (اعلم الصحابہ  ثابت کریں) اے صا حبان  بصیرت حضرت عمر کا علم کیا ہوا ؟۔اسی طرح ہم حضرت عمر کی طاقت وقوت وشجاعت کے بارے میں بہت کچھ سنا کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ یہ بات کہی گئی کہ عمر کے اسلام لانے سے قریش خوفزدہ ہوگئے اور مسلمانوں کی شان وشوکت بڑھ گئی ۔یہ بھی کہا گیا خدا نے اسلام کی عزت عمر بن خطاب سے بڑھائی ہے ۔ بعضوں نے تو مبالغہ آرائی کی حد کردی کہ جب  تک عمر اسلام نہیں لائے  رسول علی الاعلان اسلام کی طرف لوگوں کو دعوت نہیں دے سکتے تھے ۔لیکن تاریخ ان باتوں کی تردید کرتی ہے ۔تاریخ میں عمر کی کوئی شجاعت وبہادری نہیں ملتی ۔تاریخ یہ نہیں جانتی کہ عمر نے کسی مشہور کو کیا  کسی معمولی آدمی کو بھی مقابلہ میں قتل کیا ہو یا بدر ،احد ، خندق ۔جیسی جنگوں میں کسی  بہادر سےنبرد آزمائی  کی ہو ۔ بلکہ تاریخ اس کے بر خلاف بیان کرتی ہے کہ معرکہ احد کے بھگوڑوں میں عمر بھی تھے ۔ اسی طرح حنین میں بھاگنے والوں کی فہرست مین ان

--------------

(1):-صحیح بخاری ج 1 ص 52

۱۲۵

کا بھی نام نامی ہے ۔رسول خدا نے ان کو خیبر فتح کرنے کے لئے بھیجا ۔اور آپ شکست کھا کر واپس آگئے ۔جتنی جنگوں میں آپ شریک ہوئے سب  میں محکوم رہے کبھی سرداری نصیب نہیں ہوئی ۔رسول کی زندگی میں آخری لشکر جو اسامہ بن زید  کی سرکردگی  میں بھیجا گیا اس میں بھی آپ محکوم ہی تھے ۔ حالانکہ اسامہ محض 18 سال کے جوان تھے ۔

صاحبان عقل خدا کے لئے آپ ہی فیصلہ کیجئے ان حقائق کے ہوتے ہوئے کیسی شجاعت کیسی بہادری ؟

اسی طرح عمر بن خطاب کے تقوی وپرہیز گاری ،خوف خدا  میں گریہ وزاری کےبارے میں بہت کچھ سنا کرتے تھے ۔ بات یہاں تک مشہور ہے کہ عمر بن خطاب اپنے نفس کا محاسبہ اتنا کرتے تھے کہ وہ اس بات سے لرزہ براندام ہوجاتے تھے کہ خدا نخواستہ اگر عراق میں کوئی خچر راستہ ک ناہمواری  کی بنا پر ٹھوکر کھا جائے تو اس کی جوابدہی مجھے کرنی ہوگی کہ راستہ کیوں نا ہموار تھا ؟(حالانکہ موصوف مدینہ میں قیام فرماتے تھے ) لیکن تاریخ کا بیان ہے کہ ایسا کچھ بھی نہ تھا بلکہ اس کے بر عکس آپ" فظا غلیظا " واقع ہوئے تھے  ۔نہ رتی برابر خوف خدا تھا اور نہ ذرہ برابر ورع ۔ تند مزاجی کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی نے قرآن مجید کی کسی آیت کے بارے سوال کر لیا تو مارے درّوں کے اس کو خونم خون کردیتے تھے ۔ آ پ کی تند مزاجی  سے لوگ اتنا خائف رہتے تھے کہ محض آپ کو دیکھ کر عورتوں کا حمل ساقط ہوجاتا تھا ۔ جب رسول اکرم کا انتقال ہوا تو آپ ننگی تلوار لے کر مدینہ  کی گلیوں میں گھوم رہے تھے  اور لوگوں کو دھمکی دے رہے تھے کہ : جس نے کہا محمد مرگئے  اس دن اس کی گردن اڑادوں گا(1) ۔ اور قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو یقین دلا رہے تھے  کہ محمد مرے نہیں ہیں وہ تو جنا ب موسی کی طرح اپنے خدا سے مناجات کرنے گئے ہیں ۔ آخر یہاں آپ کو خوف خدا کیوں نہیں آیا؟اسی طرح جب حضرت فاطمہ کا گھر جلانے گئے تو کہا جو لوگ گھر میں ہیں ۔ اگر وہ نکل کر بیعت ابو بکر نہیں کرتے تو اس گھر میں آگ لگادوں گا (2) ۔

--------------

(1):- تاریخ طبری ۔وابن اثیر

(2):- الامامہ والسیاسۃ

۱۲۶

لوگوں نے کہا  ارے اس میں بی بی فاطمہ ہیں کہا :- ہوا کریں ۔ اس موقع پر آپ کو خوف خدا کیوں نہیں آیا ؟ کتاب خدا اور سنت رسول کی پرواہ نہیں کرتے تھے آپ کی جسارت کا عالم یہ تھا کہ اپنے دور خلافت میں متعدد ایسے احکام جاری فرمائے ۔جو قرآن کے نصوص صریحہ اور سنت نبی کے کھلم کھلا مخالف تھے(1) ۔

اے خدا کے نیک بندو! ان تلخ واقعات کے باوجود وہ ورع وتقوی کہاں ہے جس کا اتنا زیادہ ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے ؟

میں نے صرف عمر کی مثا ل اس لئے دی  کہ یہ بہت مشہور صحابی ہیں اور بہت ہی اختصار کے ساتھ لکھا ہے کیونکہ طول دینا مقصود نہیں ہے اگر میں تفصیل سے لکھنے لگوں تو کئی کتابیں میں لکھ سکتاہوں لیکن میرا مقصد حصر کرنا نہیں ہے بلکہ بطور مثال بیان کرنا ہے ۔

اور یہی مختصر سی تحریر صحابہ کی نفسیات سمجھنے کے لئے کافی ہے اور اس سے علمائے اہلسنت کا تنا قض بھی سامنے آجاتا ہے کیونکہ ایک طرف تو لوگوں  کو اصحاب کےبارے میں نقد وتبصرہ کرنے بلکہ شک کرنے سے روکتے ہیں اور دوسری طرف ایسی ایسی روایات تحریر کرتے ہیں جس سے شک کا پیدا ہونا فطری بات ہے کاش علمائے اہلسنت نے اس قسم کی روایات ہی کو ذکر نہ کیا ہوت جس سے عظمت صحابہ مجروح ہوتی ہے ۔ ان کی عدالت مخدوش ہوجاتی ہے اگر ایسی روایات نہ لکھی گئی ہوتیں تو ہم کبھی شک میں مبتلا نہ ہوتے ۔مجھے اب تک نجف اشرف کے عالم جناب اسد حیدر صاحب مولف کتاب" الامام الصادق والمذاھب الاربعۃ" کی ملاقات یاد ہے کہ ہم لوگ بیٹھے ہوئے شیعہ وسنی کے بارے میں باتیں کررہے تھے ۔انھوں نے مجھ سے اپنے والد کا قصہ بیان کیا  " کہ میرے کی ملاقات حج میں ایک ٹیونسی عالم سے ہوئی جو "الزیتونیہ یونیورسٹی" کے علماء میں سے تھے ۔ اور یہ واقعہ تقریبا پچاس سال پہلے کا ہے ۔ اسد حیدر صاحب اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں : میرے والد اور ٹیونسی عالم میں حضرت علی کی امامت کے سلسلہ میں گفتگو ہورہی تھی ۔ اور میرے والد حضرت علی کے استحقاق پر دلیلیں پیش کررہے تھے ۔چنانچہ انھوں نے

--------------

(1):-النص والاجتھاد ملاحظہ فرمائیے جس میں مع حوالہ کے تفصیل موجود ہے اور حوالے بھی ایسے ہیں جو تمام اسلامی فرقوں میں مقبول ہیں ۔

۱۲۷

چار یا پانچ دلیلیں پیش کیں اور ٹیونسی عالم بڑے غور سے سن رہا تھا ۔جب میرے والد کی بات ختم ہوگئی تو ٹیونسی عالم نے پوچھا کچھ  اوربھی دلیلیں ہیں یا بس اتنی ہی ؟ والد نے کہا بس یہی دلیلیں ہیں ۔ ٹیونسی عالم نے کہا اپنی تسبیح نکالو اور شمار کرنا شروع کردو پھر اس نے حضرت علی کی امامت پر سو ایسی دلیلیں پیش کیں جن  کو میرے والد نہیں جانتے تھے ۔ شیخ اسد حید نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا :- اہلسنت والجماعت صرف اپنی کتابوں میں لکھی ہوئی دلیلوں کو پڑھ لیتے تو ہمارے ہم عقیدہ ہوجاتے اور آپسی اختلاف بہت پہلے ختم ہوجاتا ۔انتھی ۔

میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر انسان اندھی تقلید چھوڑ دے اور تعصب کو بالائے طاق رکھ کر صرف دلیل کا تابع ہوجائے تو اسد حیدر والی بات حق ہے اس سے مفر کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔

۱۲۸

(1)

اصحاب کے بارے میں قرآن کا نظریہ

سب سے پہلے تو میں یہ عرض کروں کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں متعدد مواقع پر رسول اکرم کے ان اصحاب کی مدح سرائی فرمائی ہے جنھوں نے رسول سے محبت کی ان کی پیروی کی اور بغیر کسی لالچ یا معاوضہ یا استکبار واستقلال کے ان کی اطاعت کی اور یہ اطاعت محض خدا اور رسول کی خوشنودی کے لئے کی یہی وہ اصحاب ہیں جن سے خدا بھی راضی ہے اور یہ لوگ بھی اپنے خدا سے خوش ہیں ۔ اصحاب کی اس قسم کو مسلمانوں نے ان کے کردار وافعال کے ذریعہ  پہچانا ہے اور پہچان کران سے دل کھول کر محبت کی ہے ان عظمت کے قائل ہیں ۔ جب اس قسم کے اصحاب کاذکر آتا ہے مسلمان فورا رضی اللہ عنھم کہتے ہیں ۔ اور میری بحث بھی ان اصحاب سے نہیں ہے کیونکہ یہ حضرات سنی وشیعہ سب ہی کی نظر میں قابل احترام  ہیں ۔ اسی طرح میری بحث کا تعلق ان اصحاب سے بھی نہیں ہے جن کا نفاق طشت ازبام ہے ۔اور سنی وشیعہ ہر ایک کی نظر میں قابل لعنت ہیں ۔

بلکہ میں صرف ان اصحاب کے بارے میں بحث کروں گا  جن کے بارےمیں مسلمانوں کے اندر اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور خود قرآن نے بھی بعض مواقع پر ان کی باقاعدہ تو بیخ وتہدید کی ہے اور پیغمبر اسلام نے بھی منا سب مواقع پر ان کی توبیخ کی ہے ۔ اور لوگوں کو ان کے بارےمیں  ڈرایا ہے ۔ جی ہاں ! سنی وشیعہ کے درمیان زبردست اختلاف ایسے ہی اصحاب کےبارے میں ہے کیونکہ شیعہ ان حضرات کے اقوال وافعال سب ہی کو قابل نقد وتبصرہ  سمجھتے ہی نہیں بلکہ نقد وتبصرہ کرتے بھی ہیں ۔ اوران کی عدالت کے بارے میں شک رکھتے ہیں جبکہ اہل سنت والجماعت ان کی تمام مخالفتوں اور رو گردانیوں اورجسارتوں کے باوجود ان کا ضرورت سے زیادہ احترام کرتے ہیں ۔ میں انھیں اصحاب کے

۱۲۹

بارے میں اپنی بحث کو اس لئے محدود کرنا چاہتا ہوں تاکہ پوری حقیقت نہ سہی تھوڑی ہی حقیقت کھل کر سامنے آجائے ۔

میں یہ بات صرف اس لئے کہہ رہا ہوں تاکہ کوئی صاحب یہ نہ کہہ دیں کہ میں نے ان آیات سے چشم پوشی کرلی ہے جو مدح صحابہ  پر دلالت کرتی ہیں اور محض ان آیات کو پیش کیا ہے جن سے قدح صحابہ ثابت ہوتی ہے ۔بلکہ میں نے بحث کے درمیان ان آیات کو پیش کیا ہے جو بظاہر مدح پر دلالت کرتی ہیں لیکن ان سے ہی نتیجہ نکالا ہے کہ ان سے قدح ثابت ہوتی ہے یا ایسی آیتوں کو پیش کیا ہے جن سے بظاہر قدح ثابت ہوتی ہے لیکن ان سے مدح ثابت ہوتی ہے ۔

اور اس سلسلہ میں گزشتہ تین سالوں کی طرح بہت زیادہ محنت ومشقت نہیں کروں گا بلکہ بطور مثال بعض آیتوں کو ذکر کروں گا  ایک تو اس لئے کہ یہی طریقہ معمول ہے اور دوسرے اس وجہ سے کہ میں اختصار سے کام لینا چاہتاہوں ۔ ہاں جو لوگ مزید اطلاع حاصل کرنا چاہیں وہ بحث ومباحثہ کریں ۔حوالوں کو دیکھیں جیسا کہ میں نے کیا ہے تاکہ حقیقت تک رسائی ،عرق جبین وفکری تگ ودو کے بعد حاصل ہوجیسا کہ خدا ہر ایک سے یہی چاہتا بھی ہے کہ خود محنت کرکے نتیجہ تک پہونچو! اور وجدا ن کا بھی یہی تقاضا ہے کیونکہ جو شخص زحمت بسیار کے بعد ہدایت  تک پہونچے گا ۔ اس آندھیاں اس کے موقوف سے ہٹا نہیں سکتیں ۔ اور ظاہر سی بات  ہے جو ہدایت زحمت کشی کے بعد حاصل ہوتی ہے وہ جذبات کے رو میں بہہ کر حاصل ہونے والی ہدایت سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے ۔خدا اپنے نبی کی مدح کرتے ہوئے کہت ہے" ووجدک صالا فهدی " (1) یعنی ہم نے تم کو پایا کہ حق کے لئے جستجو کرتے ہو تو اس لئے حق تک تمہاری ہدایت کردی ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ۔ والذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا (2) جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انھیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے ۔

--------------

(1):-پ 30 س 93 (والضحی )آیت 7

(2):- پ 21 س 29 (العنکبوت) آیت 69

۱۳۰

1:- آیت انقلاب

ارشاد خداوند عالم ہے:-" وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیه فلن یضرالله شیئا وسیجزی الله الشاکرین (1)

ترجمہ:- اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صرف رسول ہیں (خدا نہیں ہے) ان سے پہلے اور بھی بہت سے پیغمبر گز رچکے ہیں پھر کیا اگر (محمد) اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں تو تم الٹے پاؤں (اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو الٹے پاؤں پھرے گا ( بھی) تو (سمجھ لو کہ) ہرگز خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ پایگا وار عنقریب خدا کا شکر کرنے والوں کو اچھا بدلہ دے گا ۔

یہ آیہ مبارکہ صریحی طور پر اس بات کو بتاتی کہ اصحاب ،وفات رسول کے بعد فورا الٹے پاؤں پھر جائیں گے صرف کچھ لوگ ہوں گے جو ثابت قدم رہیں گے جن کی تعبیرات خدانے شاکرین" کے لفظ سے کی ہے کہ یہ لوگ ثابت قدم رہیں گے اور شاکرین کی تعداد بہت ہی کم ہے جیسا کہ ارشاد ہے:-" وقلیل من عبادی الشکور (2) " اور میرے بندوں میں سے شکر کرنے والے (بندے ) تھوڑے سے ہیں ۔

اور خود پیغمبر اسلام کی وہ حدیثین جو اس انقلاب کی تفسیر کرنے والی ہیں ان کی بھی دلالت اسی بات پر ہے کہ زیادہ تر لوگ مرتد ہوجائیں گے ۔بعض روایات کو آگے چل کرمیں خود بھی نقل کروں گا اورجب خدا نے اس آیت میں مرتد ہونے والوں کے عقاب کاذکر نہیں کیا ہے صرف ثابت قدم رہنے والوں کی تعریف کی ہے اور ان کی جزا کا وعدہ کیا ہے تو ہمیں بھی اس چکر میں نہیں پڑنا ہے کہ ان کا عذاب

--------------

(1):- پ 4 س 3(آل عمران) آیت 144

(2):-پ 12 س 34(سباء) آیت 13

۱۳۱

کیسا ہوگا ۔ لیکن اتنی بات بہر حال معلوم ہے کہ یہ لوگ ثواب ومغفرت کےبہر حال مستحق نہیں ہیں ۔ جیسا کہ مرسل اعظم نے خود متعدد مقامات پر اس کو بیان کردیا ہے اور انشااللہ بعض سے ہم بھی بحث کرینگے ۔

احترام صحابہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس آیت کی تفسیر میں یہ کہنا کہ اس سے مراد طلیحہ ، سیحاح ،۔ اور اسود العینی ہیں اس لئے غلط ہے کہ یہ لوگ رسول کی زندگی میں ہی مرتد ہوگئے تھے  اور ادعائے نبوت کیا تھا اور پیغمبر نے ان سے جنگ کی تھی ۔ اور آنحضرت غالب ہوئے تھے ۔ اور آیت وفات رسول کے بعد مرتد ہونے والوں کا ذکر رہی ہے اسی طرح اس آیت سے مراد  متعدد اسباب کی بنا پر مالک بن نویرہ اور ان کے پیروکار نہیں ہوسکتے جنھوں نے ابو بکر کو زکواۃ دینے سے انکار کردیا تھا ۔کیونکہ یہ لوگ زکواۃ کے منکر نہیں تھے ۔بلکہ ابو بکر کو دینے میں مردد تھے کہ جب تک حقیقت حال واضح نہ ہوجائے اس وقت تک ہم زکات نہ دیں گے ۔ اور ان کے تردد کی وجہ بھی معقول تھی ۔کیونکہ یہ لوگ رسول اللہ کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک تھے ۔اور غدیر خم  میں جب رسول اکرم نے حضرت علی کی خلافت کے لئے نص کردی تو ان لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کرلی تھی ۔ ۔۔بیعت  تو ابو بکر نے بھی کی تھی ۔۔۔ اب دفعۃ مدینہ سے آدمی رسول خدا کی موت کی خبر  کے ساتھ ابو بکر کےنام پر وصولی زکات کا پیغام لے کر جب پہونچا تو ان کو تردد ہونا ہی چاہے کہ ہم نے بیعت علی کی کی تھی ۔یہ ابو بکر بیچ میں کہاں سے آکو دے؟تاریخ میں عظمت صحابہ مجروح نہ جائے  اس لئے اس واقعہ  کی گہرائی میں جانا مناسب نہیں سمجھا اس کے علاوہ مالک اور ان کے تمام ساتھی مسلمان تھے ۔جس کی گواہی خود عمر و ابو بکر نے بھی دی تھی اور اصحاب کی ایک جماعت نے بھی گواہی دی تھی جنھوں نے خالد کے اس فعل پر ۔۔یعنی مالک کے قتل پر ۔۔۔۔سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ ابو بکر نے مالک بن نویرہ کے بھائی متمم سے معافی مانگنے کے ساتھ  بیت المال سے مالک کی دیت بھی متمم کو ادا کی ۔اگر مالک مرتد ہوگئے ہوتے  تو ان کا قتل واجب تھا اور بیت المال سے دیت بھی نہیں دی جاسکتی تھی ۔ اور نہ ان کے بھائی سے معذرت جائز تھی ۔پس ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد مالک اور ان کے ساتھی نہیں ہیں ۔ کیونکہ یہ لوگ مرتد نہیں تھے ۔ اورآیت مرتدوں کا ذکر کررہی ہے ۔

۱۳۲

لہذا  معلوم ہوا کہ آیت انقلاب کے مصداق صرف وہ صحابہ ہیں ۔جو مدینہ میں آنحضرت ےک ساتھ زندگی بسر کرتے تھے ۔ اورآپ کی وفات کے بعد ہی بلافاصلہ مرتد ہوگئے ۔ پیغمبر کی حدیثیں اس مطلب کو اتنی وضاحت سے بیان کرتی ہیں ۔ کہ کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔عنقریب ہم ان کو بیان کریں گے ۔اور خود تاریخ بھی بہترین شاہد ہے کہ وفات مرسل اعظم کے بعد کون لوگ تھے جو مرتد ہوگئے تھے ۔اور بھلا کون ہے جو صحابہ کی آپسی چپقلش سے واقفیت نہیں رکھتا ؟ صرف چند اصحاب ایسے تھے جو ان باتوں سے مبرا تھے ۔ورنہ سب ہی ایک حمام میں ننگے تھے ۔

2:- آیت جہاد

ارشاد پروردگار عالم ہے:-" یا ایها الذین آمنوا مالکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل الله اثاقلتم الی الارض ارضیتم بالحیواة الدنیا من الآخرة فما متاع الحیواة الدنیا فی الآخرة الا قلیل الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما ویستبدل قوما غیرکم ولا تضروه شیئا والله علی کل شئ قدیر (1)

ترجمہ:-اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے جس تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لئے )نکلو تو تم لدھڑ ہو کے زمین کی طرف پڑتے ہو کیا تم آخرت کے بہ نسبت دنیا کی (چند روزہ ) زندگی کو پسند کرتے ہو تو(سمجھ لو کہ) دنیاوی زندگی کا سازوسامان آخرت کے (عیش وآرام کے )مقابلے میں بہت ہی تھوڑا ہے اگر اب بھی نکلو گے تو خدا تم پر دردناک عذاب نازل فرمائے گا (اور خدا کچھ مجبور تو ہے نہیں) تمہارے بدلے کسی اور قوم کو لےآئے گا ۔اور تم اس کو کچھ بگاڑ نہیں پاؤ گے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔

یہ آیت صریح طور سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صحابہ جہاد میں سستی برتتے تھے اور

--------------

(1):- پ 10 س 9(التوبہ)آیت 28-29

۱۳۳

عیش دنیا کی طرف مائل تھے ۔ حالانکہ ان کو معلوم تھا ۔ دنیا ھی لذتیں مختصر سی پونچی ہیں ۔یہاں تک کہ خدا نے ان کو دردناک عذاب کی دھمکی دی اور کہہ دیا کہ تمہارے بدلے سچے اور ایماندار مومنین کولائےگا ان لوگوں کے بدلے میں دوسرے لوگوں کے لانے کی دھمکی کا ذکر کئی آیتوں میں آیا ہے جس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ صحابہ نے ایک مرتبہ نہیں متعدد مرتبہ جہاد سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کی ہے چنانچہ ایک دوسری آیت میں آیا ہے :-" وان تتولو ا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم (1) ۔"اگر تم (خدا کے حکم سے )منہ پھیرو گے تو خدا( تمہارے سوا) دوسروں کو بدل دےگا ۔اور وہ تمہارے ایسے نہ ہوں گے ۔

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:" یا ایها الذین آمنوا من یرتد عن دینه فسوف یاتی الله بقوم یحبهم ویحبونه اذلة علی المومنین اعزة علی الکافرین یجاهدون فی سبیل الله ولا یخافون لومة لائم ذالک  فضل الله یوتیه من یشاء والله واسع علیم (2)۔

ترجمہ:- اے ایماندارو! تم میں سے کوئی انپے دین سے پھر جائے گا  تو ( کچھ پرواہ  نہیں پھر جائے ) عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کردے گا جنھیں خدا دوست رکھتا ہوگا ۔ اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے ایمانداروں کے ساتھ منکر اور کافروں کے ساتھ کڑے ۔خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں گے کواور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کچھ پراوہ نہ کریں گے ۔ یہ خدا کا فضل وکرم ہے ۔جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا توبڑی گنجائش  والا اور واقف کار ہے ۔

اگر ہم ان تمام آیات کو تلاش کریں جو اس مطلب پر دلالت اور بڑی وضاحت کے ساتھ اس تقسیم  کی تائید کرتی ہیں جس کے شیعہ قائل  ہیں خصوصا صحابہ کے اس قسم کے بارے میں تو اس کے لئے ایک مخصوص کتاب کی ضرورت ہو کی قرآن مجید نے اسی بات کو بڑے بلیغ انداز میں اور بہت مختصر لفظوں میں بیان کیا ہے :

--------------

(1):- پ 26 س 47 (محمد) آیت 38

(2):- پ 6 س 5( مائدہ) آیت 54

۱۳۴

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر ویامرون باالمعروف وینهون عن المنکر واولئک هم  المفلحون ولا تکونوا کا الذین تفرقوا واختلفوا من بعد ما جاءهم البینات واولیئک لهم عذاب عظیم یوم تبیض وجوه وتسود وجوه فامّا الذین اسودت  وجوههم اکفرتم بعد ایمانکم فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون واما الذین ابیعت وجوههم ففی رحمة الله هم فیها خالدون (1) ۔

ترجمہ:-اور تم میں سے ایک گروہ (ایسے لوگوں کا بھی ) تو ہونا چاہئے جو (لوگوں کو) نیکی کی طرف بلائیں اور اچھے کام کا حکم دیں ۔ اور برے کاموں سے روکیں اور ایسے ہی لوگ (آخرت میں) اپنی دلی مراد پائیں گے اور تم کہیں ان لوگوں کے ایسے ہن ہوجانا جو آپس میں پھوٹ ڈال کر بیٹھ رہے اور روشن دلیلیں آنے کے بعد بھی ایک منہ ایک زبان نہ رہے ایسے ہی لوگوں کے واسطے بڑا (بھاری) عذاب ہے (اس دن سے ڈرو)جس دن کچھ لوگوں کے چہرے تو سفید نورانی ہوں گے اورکچھ (لوگوں ) کےچہرے سیاہ ۔پس جن لوگوں کے منہ میں کالک ہوگی ( ان سے کہا جائے گا ) بائیں کیوں؟ تم تو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے تھے ۔ اچھا تو(لواب) اپنے کفر کی سزا میں عذاب (مزے ) چکھو اورجن کے چہرے پر نور برستا ہوگا وہ تو خدا کی رحمت (بہشت ) میں ہوں گے اور اسی میں سدا ہیں (بسیں )گے ۔

ہر حقیقت کا متلا شی اس بات کو سمجھتا ہے کہ یہ آیت اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے ان کو تہدید کررہی ہیں کہ  کہ خبردار روشن دلیلوں کے آجانے کے بعد تفرقہ اندازی اور اختلاف سے بچنا ورنہ عذاب عظیم کے مستحق ہوگے ۔ اور یہ آیتیں اصحاب کو دوقسموں پر بانٹ رہی ہیں ۔ ایک قسم ان اصحاب کی ہوگی جو قیامت میں روشن رواٹھیں گے اور یہ وہی شاکر بندے ہوں گے جو رحمت الہی کے مستحق ہوں گے اورکچھ اصحاب سیا ہ رواٹھیں گے یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگئے تھے انھیں کے لئے خدانے عذاب عظیم کی دھمکی دی ہے ۔

ہر اسلامی تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ رسول اکرم کے بعد صحابہ میں زبردست اختلاف ہوگیا تھا اور

--------------

(1):- پ 4 س 3(آل عمران)آیت 104،105،106

۱۳۵

یہ لوگ آپ میں ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے ۔ فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی تھی ۔ اور نوبت قتال وجدال کی پہنچ گئی تھی ۔جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ذلت ورسوائی ہوئی اور دشمنان اسلام کو خوب موقع ملا اس آیت کینہ تو تاویل ممکن ہے ۔اور نہ ذہن میں فورا آجانے والے معانی سے کسی اورطرف پلٹا نا ممکن ہے ۔

3:- آیت خشوع

ارشاد خداوند عالم ہے:- أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ (1)

ترجمہ:- کیا (ایمانداروں کے لئے )ابھی تک اس کا وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد اور قرآن کے لئے جو خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ ان کے دل نرم ہوں ۔ اور وہ ان لوگوں کے سے نہ ہو جائیں جن کو ان سے پہلے کتاب (توریت وانجیل ) دی گئی تھی تو (جب ) ایک زمانہ دراز ہوگیا تو ان کے دل سخت ہوگئے  اور ان میں سے بہتیرے بدکار ہیں ۔

سیوطی نے در منثور میں لکھا جب اصحاب رسول مدینہ آئے تو سختیون کے بعد ان کو اچھی زندگی نصیب ہوئی ۔ لہذا بعض ان چیزوں سے جن کے یہ عادی تھے ان سے سستی برتنے لگے ۔ تو ان پر خدا کی طرف سے پھٹکار پڑی اور یہ آیت(الم یان للذین امنوا) بطور عتاب نازل ہوئی ۔ ایک دوسری روایت میں آنحضرت سے منقول ہے کہ نزول قرآن کے سترہ 17 سال بعد خدا نے مہاجرین کے دلوں کی سستی پریہ ایہ نازل کی ۔الم یان الخ ۔

ذرا سوچئے جب بقول  اہل سنت والجماعت صحابہ خیر الخلق بعد رسول اللہ ہیں ۔ اور ان کا دل سترہ سا

-------------

(1):- پ 27 س57(حدید)آیت 16

۱۳۶

تک نرم نہیں ہوا ۔ اورذکر خدا وقرآن کے لئے ان کے دلوں میں نرمی نہیں پیدا ہوئی ۔ یہاں تک کہ خدا نے اس قسی القلبی پر جو فسوق تک منجر ہوتی ہے ۔ اصحاب کو باقاعدہ ڈانٹ پلائی اورشدید عتاب کیا ۔ تو وہ سردار ان قریش جو ہجرت کے ساتویں سال فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے ۔ اگر ان کے دل نہیں نرم ہوئے تو جائے ملامت نہیں ہے ۔

بطور نمونہ مشتے از خردارے " یہ چند مثالیں میں نے قرآن مجید سے پیش کی ہیں ۔جو اس بات پر  دلالت کرتی ہیں کہ سارے صحابہ عدول نہیں تھے ۔ یہ تو صرف اہل سنت والجماعت کا پروپیگنڈہ ہے کہ تمام صحابہ عدول ہیں ۔

اور اگر کہیں ہو احادیث رسول میں تلاش کرنے لگیں تو دس گنا مثالیں مل جائیں گی لیکن اختصار کے پیش نظر میں چند حدیثوں کو ذکر کروں گا ۔ اگر کسی کو مزید اطلاع درکار ہو تو وہ خود احادیث کے اخبار سے ایسی بکثرت مثالیں تلاش کرسکتا ہے ۔

۱۳۷

(2)

اصحاب کے بارے میں رسول(ص) کا نظریہ

1:- حدیث حوض

رسو ل خدا (ص) فرماتے ہیں :- میں کھڑا ہوں گا کہ دفعۃ میرے سامنے لوگوں کا ایک گروہ ہوگا ۔اور جب  میں ان لوگوں کو اچھی طرح پہچان  لوں گا ۔ تو میرے اور ان لوگوں کے درمیان سے ایک شخص نکل کر کہے گا آؤ ! میں پو چھوں گا  ان کو کہاں لیجارہے ہو؟ وہ کہے گا جہنم میں ! میں پوچھوں گا  ا ن کی کیا خطا ہے ؟ وہ کہے گا ۔ آپ کے بعدیہ لوگ مرتد ہوگئے تھے ، پچھلے پاؤں (اپنے دین کی طرف پلٹ گئے تھے ) میں دیکھوں گا کہ سائے چند مختصر لوگوں کے جوآزاد جانور کی طرح پھر رہے ہوں گے ۔ سب ہی کو جہنم کی طرف لیجایا جائے گا(1) ۔

رسول اکرم کا ا رشاد ہے :- میں تم میں سے پہلے حوض پر ہوں  کا جو میرے پاس سے گزریگا وہ سیراب ہوکر جائیگا ۔اور جو پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا ۔ وہیں  حوض پر میرے پاس کچھ لوگ آئیں گے جن کو میں پہچانتا ہوں گا ۔ اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے ۔ پھر میرے اور ان کے درمیان ایک حائل پیدا کردیا جائے گا ۔ میں کہوں گا (ارے یہ تو) میرے اصحاب ہیں ! پھر جواب میں کہا جائے گا آپ کو نہیں معلوم انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا کیا ہے تومیں کہوں گا وائے ہو وائے ان لوگوں پر جنھوں نے میرے بعد (دین میں تغیر وتبدل کردیا ہے(2) ۔

--------------

(1)-(2):- صحیح بخاری ج 4 ص94 ص 156 وج 2 ص32 ۔صحیح مسلم ج 7 ص 66 حدیث الحوض

۱۳۸

جو بھی شخص ان حدیثوں کو غور سے پڑھے گا ۔ جس کو علمائے اہل سنت نے اپنی صحاح اورمسانید میں لکھا ہے اس کو اس میں کوئی شک نہیں رہے گا کہ اکثر صحابہ نے یہ تبدیلی کردی ہے بلکہ آنحضرت کے بعد اکثر مرتد ہوگئے ہیں سوائے ان مختصر لوگوں کے جو آزاد جانوروں کی طرح پھر رہے ہوں گے ان احادیث کو کسی بھی طرح صحابہ کی تیسری قسم یعنی منافقین پر حمل کرنا درست ہی نہیں ہے کیونکہ  روایت میں ہے حضور کہیں گے یہ میرے اصحاب ہیں ! بلکہ یہ حدیثیں درحقیقت ان آیتوں کی تفسیر ونکی مصداق ہیں جن کو ہم پہلے بیان کرچکے کہ آیت نے صراحۃ کہا ہے یہ لوگ مرتد وہوجائیں گے اور ان کو عذاب عظیم کی دھمکی  بھی دی گئی ہے ۔

2:- حدیث دنیا طلبی

رسول خدا (ص) نے فرمایا :- میں تم سے پہلے جاؤں گا ۔ اور تم سب پر گواہ ہوں ۔ خدا کی قسم میں اس وقت بھی اپنی حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی (یا زمین کی )کنجایاں  دی گئی ہیں ۔ اور میں خدا کی قسم اس بات سے نہیں ڈرتا کہ میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے ۔ لیکن میں اس سے ضرور ڈرتا ہوں کہ تم میرے بعد دنیا طلبی میں ایک دوسرے پر سبقت کرنے لگوگے (1) رسول خدا نے بہت سچ فرما یا تھا آپ کے بعد صحابہ دنیا کی طرف اتنے راغب ہوگئے تھے کہ نیا م سے تلواریں نکل آئی تھیں ۔ خوب خوب آپس میں لڑے ، ایک نے دوسرے کو کافر کہا ۔بعض مشہور ترین صحابہ سونے وچاندی کا ذخیرہ جمع کرنے پر لگ گئے ۔ مورخین کہتے ہیں ۔مثلا مسعودی نے مروج الذہب میں اور طبری وغیرہ نے لکھا ہے کہ صرف زبیر کے پاس پچاس ہزار دینا ،ایک ہزار گھوڑے ، ایک ہزار غلام ، بصرہ ،کوفہ ،مصر وغیرہ میں بہت زیادہ کاشت کی زمینیں تھیں (2) ۔اسی طرح طلحہ کا عالم یہ تھا کہ صرف عراق کی زمین سے اتنا غلہ پیدا ہوتا تھا کہ روز انہ ایک ہزار دینار کے برابر کا غلہ ہوتاتھا ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ کا ہوتا تھا (3)

--------------

(1):- صحیح بخاری ج 4 ص 100،101

(2)-(3):- مروج الذہب مسعودی ج 2 ص 241

۱۳۹

عبدالرحمان بن عوف کے پاس سوگھوڑے ایک ہزار اونٹ ایک ہزار دینا ر ،دس ہزار بھیڑ بکریاں تھیں ان کے مرنے کے بعد ترکہ کا اٹھواں حصہ بیویوں کا حق ہوتا ہے اس آٹھویں حصہ کو چار بیویوں پر تقسیم کیاگیا تو ہر بیوی کے حصہ میں چوراسی چوراسی ہڑآ ئے تھے ۔(3)

اور سیٹھ عثمان نے اپنے مرنے کے بعد ڈیڑلاکھ دینا چھوڑا ۔جانوروں ،قابل کاشت زمینوں اور غیر قابل کاشت زمینوں کا تو شمار ہی ممکن نہیں ہے ۔زید بن ثابت نے سونے چاندی کی اتنی بڑی بڑی اینٹیں چھوڑی تھیں جن کو کلہاڑی سے کاٹنا پڑتا تھا ۔ کا ٹتے کاٹتے لوگوں کے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے تھے ۔یہ علاوہ ان اموال اور قابل کا شت زمینوں کے ہے جن کی قیمت ایک لاکھ دینار تھی ۔(2)

دنیا پرستی کی یہ چند مثالیں ہیں ۔ تاریخ میں تو اس کے شواہد بہت زیادہ ہیں ۔ لیکن ہم سردست اس کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے ۔ اپنی بات کے ثبوت میں ہم اسی قدر کافی سمجھتے ہیں اور اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر دنیا پرست تھے ۔

٭٭٭٭٭

--------------

(1)-(2):- مروج الذہب مسعودی ج 2 ص 341

۱۴۰