پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 30%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78230 / ڈاؤنلوڈ: 7529
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عزت خدا کے لیے ہے پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا (کہ جب تمام عزت اللہ کے لیے ہے) پھر عزت کی خاطر ادھر ادھر کیوں جاتے ہو۔ یا پھر فرمایا:انّ القَوة للّٰه جمیعًا (1) تمام قدرت خدا کے لیے ہے۔ پھر نتیجہ کے طور پر فرمایا: کہ تو پھر ہر وقت کسی اور کے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو؟ اس آیت میں بھی یہی فرمایا: سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں پھر فرمایا: تو اب جب کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو تو پھر یہ لڑائی جھگڑا کس لیے؟ پس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت سے رہو۔ اس لیے کہ فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے پہلے فکری اور اعتقادی اصلاح ضروری ہے اُس کے بعد انسان کے کردار اور اس کی رفتار کی بات آتی ہے۔

٭ اخوت و برادری جیسے کلمات کا استعمال اسلام نے ہی کیا ہے۔ صدر اسلام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سات سو چالیس افراد کے ہمراہ ''نخلیہ'' نامی علاقے میں موجود تھے کہ جبرائیل امین ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے درمیان اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کیا ہے۔ لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنی اصحاب کے درمیان اخوت کے رشتہ کو قائم کیا اور ہر ایک کو اس کے ہم فکر کا بھائی بنادیا۔ مثلاً: ابوبکر کو عمر کا، عثمان کو عبدالرحمن کا، حمزہ کو زید بن حارث کا، ابو درداء کو بلال کا، جعفرطیار کو معاذ بن جبل کا، مقداد کو عمار کا، عائشہ کو حفصہ ، ام سلمہ کو صفیہ، اور خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا بھائی بنایا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارک بقرہ، آیت 165

(2)۔ بحارا لانوار، ج38، ص 335

۱۰۱

جنگ اُحد میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو شہداء (عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموع) جنکے درمیان اخوت و برادری کا عقد برقرار تھا کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔(1)

٭ نسبی برادری بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔فَلَا أَنسَابَ بَیْنَهُمْ (2) لیکن دینی برادری قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی۔اِخوانًا علی سُرُررٍ مُّتَقَابِلِیْنَ (3)

٭اخوت و برادری با ایمان عورتوں کے درمیان بھی قائم ہے چنانچہ ایک مقام پر عورتوں کے درمیان بھی اخوت و برادری کی تعبیر موجود ہے۔وَاِن کَانُوا اِخوَةً رِجَالاً و نِسآئً (4)

٭اخوت و برادری صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ دنیا کی خاطر اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کرے تو جو اس کی نظر میں ہے وہ اس سے محروم رہے گا۔ اس طرح کے برادر قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے۔(5)

الَْخِلاَّئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ ِلاَّ الْمُتَّقِینَ - (6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ شرح ابن الحدید، ج15، ص 215؛ بحار الانوار، ج20، ص 121 (2)۔ سورئہ مبارکہ مومنون، آیت 101

(3)۔ سورئہ مبارکہ حجر، آیت 57 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 176

(5)۔ بحار، ج75، ص 167 (6)۔ سورئہ مبارکہ زخرف، آیت 67

۱۰۲

٭برادری اور اخوت کی برقراری سے زیادہ اہم چیز برادر کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ روایات میں ایسے شخص کی سرزنش کی گئی ہے جو اپنے برادر دینی کا خیال نہ رکھے اور اُسے بھلا دے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ اگر تمہارے برادران دینی نے تم سے قطع تعلق کرلیا ہے تو تم ان سے تعلق برقرار رکھوصِلْ مَنْ قَطَعَک (1)

روایات میں ہے کہ جن افراد سے قدیمی اور پرانا رشتہ اخوت و برادری قائم ہو ان پر زیادہ توجہ دو اگر کوئی لغزش نظر آئے تو اُسے برداشت کرو۔ اگر تم بے عیب دوستوں (برادران) کی تلاش میں رہو گے تو دوستوں کے بغیر رہ جاؤ گے۔(2)

٭روایات میں ہے کہ جو اپنے برادر کی مشکل حل کرے گا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ جو اپنے دینی برادر کی ایک مشکل دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ایک لاکھ حاجات پوری کرے گا۔(3)

٭حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: مومن ، مومن کا بھائی ہے ۔ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں۔کہ اگر ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا حصہ بھی اُسے محسوس کرتا ہے۔

(4) سعدی نے اس حدیث کو شعر کی صورت میں یوں بیان کیا ہے۔

بنی آدم اعضای یکدیگرند کہ در آفرینش زیک گوھرند

چو معنوی بہ درد آورد روزگار دگر عضوھا را نماند قرار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار ، ج78، ص 71 (2)۔ میزان الحکمہ

(3)۔ میزان الحکمہ (اخوة) (5)۔ اصول کافی، ج2، ص 133

۱۰۳

تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی

ترجمہ: اولاد آدم ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں کیونکہ سب خاک سے پیدا ہوئے ہیں اگر کسی پر مشکل وقت آجائے تو دوسروںکو بھی بے قرار رہنا چاہیے۔

اگر تم دوسروں کی پریشانی اور محنت سے بے اعتنائی کرو تو شاید تمہیں کوئی انسان بھی نہ کہے۔

برادری کے حقوق:

٭ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کی گردن پر تیس حق ہیں اور اسے ان تمام حقوق کو ادا کرنا ہوگا۔(جن میں سے پچیس حقوق درج ذیل ہیں)

1۔ عفو و درگزر 2۔ راز داری

3۔ خطاؤں کو نظر انداز کردینا 5۔ عذر قبول کرنا

5۔ بد اندیشوں سے اس کا دفاع کرنا 5۔ خیر خواہی کرنا

7۔ وعدہ کے مطابق عمل کرنا 8۔ عیادت کرنا

9۔ تشییع جنازہ میں شرکت کرنا 10۔ دعوت اور تحفہ قبول کرنا

11۔ اسکے تحفے کی جزا دینا 12۔ اسکی عطا کردہ چیزوں پر شکریہ ادا کرنا

13۔ اسکی مدد کے لیے کوشش کرنا 15۔ اسکی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا

15۔ اسکی حاجت روائی کرنا 16۔ اسکی مشکلات کو دور کرنے کے لیے سعی کرنا

17۔ اسکی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا 18۔ اسے چھینک آئے تو اسکے لیے طلب رحمت

۱۰۴

کرنا

19۔ اسکے سلام کا جواب دینا 20۔ اسکی بات کا احترام کرنا

21۔ اسکے لیے بہترین تحفہ کو پسند کرنا 22۔ اس کی قسم کو قبول کرنا

23۔ اسکے دوست کو دوست رکھنا اور اس سے دشمنی نہ رکھنا

25۔ مشکلات میں اُسے تنہا نہ چھوڑنا

25۔ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اس کے لیے پسند کرے(1)

ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت(اِنّما المومنون اخوة) کی تلاوت کے بعد فرمایا مسلمانوں کا خون ایک ہے اگر عام لوگ بھی کوئی عہد و پیمان کریں تو سب کو اس کا پابند ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر ایک عام مسلمان کسی کو پناہ یا امان

دے تو دوسرے کو بھی اس کا پابند ہونا چاہیے۔ سب مشترکہ دشمن کے مقابل اکھٹے ہوجائیں۔وَهُمْ یَد علی مَن سَواهم- (2)

٭ حضرت علی ـ سے منقول ہے کہ آپ نے کمیل سے فرمایا: اے کمیل اگر تم اپنے بھائی کو دوست نہیں رکھتے تو پھر وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔(3)

انسان اپنے ایمان کامل کے ساتھ اولیاء خدا کے مدار تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

سلْمٰان مِنا اهل البیت (4) سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ جس طرح کفر کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار، ج75، ص 236 (1)۔ تفسیر قمی، ج1، ص 73

(3)۔ تحف العقول ص 171 (5)۔ بحارالانور، ج10، ص 23ا

۱۰۵

ہمراہ ہوکر اس مدار سے خارج ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرزند نوح ـکے بارے میں حضرت نوح ـ سے فرمایا:اِنّه لَیسَ مِنْ أهلَکَ- وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔(1)

بہترین بھائی:

٭روایات میں بہترین بھائی کی یہ نشانیاں بیان کی ہیں۔

1۔ تمہارا بہترین بھائی وہ ہے جو تمہارا غمخوار اور ہمدرد ہو یہاں تک کہ سختی سے تمہیں خدا کی اطاعت کی طرف دعوت دے۔ تمہاری مشکلوں کو حل کرے۔ خدا کی خاطر تیرا دوست بنا ہو۔ اسکا عمل تیرے لیے سرمشق ہو۔ اسکی گفتگو تیرے عمل میں اضافہ کا باعث ہو۔ تیری کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔ اور تجھے خواہشات نفس میں گرفتار ہونے سے بچائے۔ اور اگر تجھ میں کوئی

عیب دیکھے تو تجھے خبردار کرے۔ نماز کو اہمیت دے ۔ حیادار، امانت دار اور سچا ہو۔خوشحالی اور تنگ دستی میں تجھے نہ بھلائے۔(2)

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں:

ہم نے اس آیت میں پڑھا ہے کہ مومنین آپس میں بھائی ہیں لہٰذا اُن میں صلح و

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ ہود، آیہ 56

(2)۔ میزان الحکمہ

۱۰۶

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں اسی سلسلہ میں مختلف تعابیر آئی ہیں:

صلح ''والصُّلح خَیر'' (1) ''وأصلِحوا ذات بینکم'' (2)

2۔تالیف قلوب''فَألف بین قلوبکم'' (3)

3۔توفیق''اِن یُریدا اصلاحًا یُوَفِّق اللّٰه بینهُمٰا'' (4)

5۔ سِلم''أدخُلوا فِی السِّلم کافَّة'' (5)

مندرجہ بالا تعبیر اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام صلح و آشتی ، پیار ومحبت اور خوشگوار زندگی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

صلح آشتی کی اہمیت:

٭مسلمانوں کی درمیان الفت اور محبت کو خداوند عالم کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔''کنتم أعدا فَاَلَّفَ بین قلوبکم'' (6) یاد کرو اس وقت کوکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر خدا نے تمہارے درمیان پیار و محبت کو قائم کردیا۔ جیسا کہ قبیلہ اوس و خزرج کے درمیان ایک سو بیس سال سے جنگ و خونریزی چل رہی تھی اسلام نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (2)۔سورئہ مبارکہ انفال، آیت 1

(3)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 35

(5)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (6)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103

۱۰۷

کے درمیان صلح کرادی۔

صلح وآشتی کرانا عزت و آبرو کی زکات اور خدا کی طرف سے رحمت اور بخش کا سبب ہے۔''ان تُصلحوا و تتّقوا فانَّ اللّٰه کان غفوراً رحیمًا'' (1) جو بھی مسلمانوں کے درمیان صلح و دوستی کا سبب بنے تو اُسے جزائے خیر ملے گی۔

''وَمَن یَشفَع شَفَاعةً حَسنةً یکن لَه نصیب منها'' (2)

٭ لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے لیے اسلام کے خاص احکامات ہیں من جملہ۔

1۔جھوٹ جو گناہان کبیرہ میں سے ہے اگر صلح و آشتی کرانے کے لیے بولا جائے تو اسکا کوئی گناہ نہیں ہے۔'' لَا کِذْبَ علی المُصْلح'' (3)

2۔ سرگوشی ایک شیطانی عمل ہے جو دیکھنے والوں میں شک و شبہ پیدا کرتا ہے جسکی نہی کی گئی ہے لیکن اگر یہ سرگوشی صلح و آشتی کرانے کے لیے ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔''لَا خَیرَ فی کثیر من نجواهم اِلّا مَنْ أمَرَ بِصدقةٍ أو معروفٍ او اصلاح بین الناس'' (4)

3۔ اگرچہ قسم کو پورا کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھائے گا تو اس قسم کو توڑا جاسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 129 (2)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 85

(3)۔بحارا الانوار،ج69، ص 252 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 115

۱۰۸

ہے۔''وَلا تجعلو اللّٰه عرضَة لایمانکم ان --- تصلحوا بین الناس'' (1)

ہم تفاسیر کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی بیٹی اور ان کے داماد میں اختلاف ہوگیا۔ لڑکی کے والد نے یہ قسم کھائی کہ وہ ان کے معاملے میں دخالت نہ کریگا۔ یہ آیت نازل ہوئی کہ قسم کو نیکی و پرہیز گاری اور اصلاح کے ترک کا وسیلہ قرار مت دو۔

5۔ اگرچہ وصیت پر عمل کرنا واجب اور اس کا ترک کرنا حرام ہے لیکن اگر وصیت پر عمل کرنا لوگوں کے درمیان کینہ اور کدورت کی زیادتی کا سبب ہو تو اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وصیت پر عمل نہ کیا جائے تاکہ لوگوں کے درمیان پیار ومحبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم رہے۔''فَمن خَافَ مِن مُوصٍ و جُنفًا أو اِثمًا فاصلح بینهم فلا اثم علیه'' (2)

5۔ اگرچہ مسلمان کا خون محترم ہے لیکن اگر بعض افراد فتنہ، فساد کا باعث بنیں تو اسلام نے صلح و آشتی کے لیے انکے قتل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔'' فقاتلو الّتی تبغی'' (3)

صلح و آشتی کے موانع:

قرآن و احادیث میں صلح و آشتی کے بہت سے موانع ذکر کیے گئے ہیں من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 225

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 182 (3)۔سورئہ مبارکہ حجرات، آیت 9

۱۰۹

1۔ شیطان: قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ادخلوا فی السّلم کافّة ولا تتّبعوا خطوات الشیطان'' (1) سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔انّما یُرید الشیطان أنْ یوقع بینکم العداوة والبغضائ'' (2) شیطان تمہارے درمیان کینہ و کدورت پیدا کرنا چاہتا ہے۔

2۔ مال کی چاہت اور بخل۔'' والصلح خیر و اُحضِرتِ الاَنفس الشُح'' (3) اور صلح و دوستی بہتر ہے اگرچہ لوگ حرص و لالچ اور بخل کرتے ہیں۔

3۔ غرور و تکبر بھی کبھی کبھی صلح و آشتی کے لیے مانع ہے۔

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل:

٭ اگر قرآن مجید کے''لعلکم ترحمون'' کے جملوں پر نظر کریں تو نزول رحمت کے چند عوامل تک رسائی ممکن ہے۔

1۔ خدا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسمانی کتب کی پیروی''واطیعو اللّٰه والرسول--- '' (4) ''وهذا کتاب --- فاتبعوه--- لعلکم ترحمون'' (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (2)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت 91

(3)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (5)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 132

(5)۔سورئہ مبارکہ انعام، آیت 155

۱۱۰

2۔ نماز کا قائم کرنا اور زکات کا ادا کرنا۔''اقیموا الصلوٰة واتو الزکاة--- لعلکم ترحمون'' (1)

3۔ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانا۔''فاصلحوا--- لعلکم ترحمون''

5۔ استغفار اور توبہ۔''لولا تستغفرون اللّٰه لعلکم ترحمون'' (2)

5۔ غور سے قرآن کی تلاوت سننا''واذ اقرأ القرآن فاستمعوا له --- لعلکم ترحمون'' (3)

روایات میں نزول رحمت کے عوامل:

٭ معصومین کی روایات میں بھی نزول رحمت کے عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔ بیمار مومن کی عیادت کرنا:''مَن عَادَ مومِنًا خاض- الرَّحمة خوضًا'' (4)

جو شخص بیمار مومن کی عیادت کے لیے جائے تو وہ شخص خدا کی مکمل رحمت کے زیر سایہ ہے۔

2۔ کمزور اور ناتوان افراد کی مدد کرنا۔''اِرحموا ضُعفائکم واطلبوا الرحمة- ---،، (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نور، آیت 56 (2)۔ سورئہ مبارکہ نمل، آیت 56

(3)۔ سورئہ مبارکہ اعراف، آیت 205 (5)۔ وسائل الشیعہ، ج2، ص 515 (5)۔ مستدرک، ج9، ص 55

۱۱۱

معاشی حوالے سے کمزور افراد پر رحم کرکے خدا کی رحمت کو طلب کرو۔

3۔ روایات میں کثیر العیال افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہا گیا ہے خاص طور پر جن کی بیٹیاں زیادہ ہوں۔

5۔ دعاو نماز، نرمی سے پیش آنا اور اپنے برادر دینی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی نزول رحمت کے اسباب ہیں۔(1)

5۔ لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنا۔ وہ افراد جو اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے تمہارے پاس آئیں خدا کی رحمت میں انکی حاجت روائی کیے بغیر واپس نہ پلٹانا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وسائل الشیعہ، ج7، ص 31

(2)۔کافی، ج2، ص 206

۱۱۲

آیت نمبر 11

یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یّکُوْنوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآئ مِّنْ نِسَآئٍ عَسٰی أنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزوا بِالْأَلْقٰابِط بِئسَ الاِسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الاِیْمٰانِج وَمَنْ لَّم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظّٰلِمُونَ-

ترجمہ:

اے ایمان والو! خبر دار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے کہ شاید کہ وہ اس سے بہتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے کہ شاید وہی عورتیں ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور برے برے الفاظ سے بھی یاد نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاری کا نام ہی بہت برا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں۔

نکات:

O کلمہ''لَمْز'' یعنی لوگوںکے سامنے ان کی عیب جوئی کرنا ، کلمہ''همز'' کے معنی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنا ہے(1) اور کلمہ''تَنَابز'' کے معنی دوسروں کو برے القاب سے پکارنا ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کتاب العین (2)۔ لسان العرب

۱۱۳

O گزشتہ آیت میں اخوت و بردری کے بارے میں بحث ہوئی اور اس آیت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو اخوت و برادری کے راستہ میں رکاوٹ ہیں اور اسی طرح ماقبل کی آیات میں لڑائی جھگڑے اور صلح و صفا کی بات تھی تو اس آیت میں بعض ایسے عوامل کا ذکر ہے جو لڑائی جھگڑے کاسبب بنتے ہیں جیسے مذاق اڑانا ، تحقیر کرنا اور برے القاب سے پکارناہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی برکات میں سے ایک معاشرہ کے ماحول کو پاک و پاکیزہ بنانا اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے نیز ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے سے روکنا ہے۔

پیغامات:

1۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بندگان خدا کا مذاق اڑائے ۔''یٰاایُّهٰا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ''

2۔ جو شخص کسی کو لوگوں کی توہین کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اس کے روکنے میں توہین آمیز پہلو نہ ہو۔''یٰا ایُّهٰا الذّین امَنُولَا یَسْخَرُ قَوْم مِنْ قَوْمٍ '' یہی نہیں فرمایا:لَا تَسْخَروا کہ جس کے معنی یہ ہیں کہ تم مذاق اڑانے والے ہو۔

3۔ مذاق اڑانا، فتنہ و فساد، کینہ پروری اور دشمنی کی کنجی ہے''لا یَسْخَر قَوْم---'' برادری اور صلح و آشتی بیان کرنے کے بعد مذاق اڑانے سے منع کیا ہے۔

5۔ تبلیغ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جہاں اہم مسئلہ بیان کرنا ہو یا مخاطبین میں ہر نوع کے افراد موجود ہوں تو وہاں مطالب کو ہر گروہ کے لیے تکرار کے ساتھ بیان کرنا

۱۱۴

چاہیے۔قومٍ من قومٍ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَآئٍ-

5۔ تربیت اور وعظ و نصیحت کے دوران لوگوں میں سے فتنہ و فساد کی جڑ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے- (عسیٰ اَنْ یکونوا خیرا ) مذاق اڑانے کی اصل وجہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھناہے۔ قرآن مجید اس معاملے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے فرماتا ہے: تمہیں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھنا چاہیئے شاید کہ وہ تم سے برتر ہوں۔

6۔ ہم لوگوں کے باطن سے بے خبر ہیں اس لیے ہمیں ظاہر بین، سطحی نظر اور فقط موجودہ حالات پر نگا نہیں کرنی چاہیے۔(عسیٰ أَنْ یَکُونوا خَیْرًا---)

7۔ سب لوگ ایک جوہر سے ہیں اس لیے لوگوں کی برائی کرنا دراصل اپنی برائی کرنا ہے ۔''وَلَا تَلْمِزُو أَنْفُسکُم''

8۔ دوسروں کی عیب جوئی کرکے انہیں انتقام جوئی پر ابھارنا ہے تاکہ وہ بھی تمہارے عیب بیان کریںپس دوسروں کے عیب نقل کرنا در حقیقت اپنے عیوب کا انکشاف کرنا ہے( لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُم)

9۔ مذاق اڑانا یک طرفہ نہیں ہوتا ہے ممکن ہے کہ طرف مقابل بھی دیر یا جلد آپ کا مذاق اڑانا شروع کردے۔(و لَا تَنَابَزُوا کسی کام کے دو طرفہ انجام پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے)

10۔ اگر کسی کا مذاق اڑایا ہو یا اُسے برے نام سے پکارا ہو تو اس کے لیے توجہ کرنا ضروری ہے(من لم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ ) البتہ یہ توبہ فقط زبانی نہ ہو

۱۱۵

بلکہ کسی کو تحقیر کرنے کی توبہ یہ ہے کہ جس کی تحقیر کے ہے اس کی تکریم کرنا ہوگی کسی حق کے چھپانے کی توبہ یہ ہوگی کے اُس حق کو ظاہر کیا جائے(تابو و اصلحوا و بیّنوا) (1) فساد کرنے والے کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے امور میں اصلاح کرے(تَابُوا واصلحوا )

11۔ کسی کا مذاق اڑانا در حقیقت اس کے احترام پر تجاوز کرنا ہے اگر مذاق اڑانے والا توبہ نہ کرے تو وہ ظالم ہے(فَأُولٰئِکَ هُم الظَّالِمُونَ)

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا:

O ظاہری طور پر استہزاء ایک گناہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت وہ چند گناہوں کا مجموعہ ہے مثال کے طور پر مذاق اڑانے میں، تحقیر کرنا، ذلیل و خوار کرنا، کسی کے عیوب ظاہر کرنا، اختلاف ایجاد کرنا، غیبت کرنا، کینہ توزی، فتنہ و فساد پھیلانا، انتقام جوئی کی طرف مائل کرنا، اور طعنہ زنی جیسے گناہ پوشیدہ ہیں۔

مذاق اڑانے کی وجوہات:

1۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ مال و دولت ہے قرآن مجید میں ہے''ویل لِکُلِّ هُمَزَة لُّمَزَةٍ ن الَّذِیْ جَمَعَ مٰالاً وَّعَدَّده '' (2) وائے ہو اس پر جو اُس مال و دولت کی خا طر جو اس نے جمع کر رکھی ہے پیٹھ پیچھے انسان کی برائی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 160

(2)۔ سورئہ مبارکہ ھمزہ 1۔2

۱۱۶

2۔ کبھی استہزاء اور تمسخر کی وجہ علم اور مختلف ڈگریاں ہوتی ہیں قرآن مجید نے اس گروہ کے بارے میں فرمایا:'' فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ هُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُونَ '' (1) اپنے علم کی بناء پر ناز کرنے لگے ہیں اور جس چیز کی وجہ سے وہ مذاق اڑا رہے تھے اُسی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔

3۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جسمانی قوت و توانائی ہوتی ہے ۔ کفار کا کہنا تھا( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةَ) (2) کون ہے جو ہم سے زیادہ قوی ہے۔

5۔ کبھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی وجہ وہ القاب اور عناوین ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ میں اچھا نہیں سمجھتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کفار ان غریب لوگوں کو جو انبیاء کا ساتھ دیتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے:''مَا نَراکَ اتَّبَعکَ اِلّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرذِلْنَا'' (3)

ہم آپ کے پیرو کاروں میں صرف پست اور ذلیل افراد ہی دیکھ رہے ہیں۔

5۔ کبھی مذاق اڑانے کی علت تفریح ہوتی ہے۔

6۔ کبھی مال و مقام کی حرص و لالچ کی وجہ سے تنقید تمسخر کی صورت اختیار کرلیتی ہے مثال کے طور پر ایک گروہ زکوٰة کی تقسیم بندی پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عیب جوئی کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ غافر 83

(2)۔ سورئہ مبارکہ فصلت 15

(3)۔ سورئہ مبارکہ ھود 27

۱۱۷

قرآن مجید میں ارشاد ہوا:''وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَلْمِزْکَ فِی الصَّدَقاتِ فَاِنْ أُعْطُوا مِنْهٰا رَضُوا وَ اِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْهٰا اِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ'' (1) اس تنقید کی وجہ طمع اور لالچ ہے کہ اگر اسی زکوٰة میں سے تم خود ان کو دیدو تو یہ تم سے راضی ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں نہیں دو گے تو وہ آپ سے ناراض ہوکر عیب جوئی کریں گے۔

7۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جہل و نادانی ہے۔ جیسے جناب موسی ـ نے جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بنی اسرائیل کہنے لگے کیا تم مذاق اڑا رہے ہو؟ جناب موسی ـنے فرمایا:''أَعُوذُ بِاللّٰهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الجٰاهِلِیْنَ'' (2) خدا کی پناہ جو میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔یعنی مذاق اڑانے کی وجہ جہالت ہوتی ہے اور میں جاہل نہیں ہوں۔

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے ایک صحابی سے پوچھا اپنے مال کی زکوٰة کیسے دیتے ہو؟ اس نے کہا: فقراء میرے پاس آتے ہیں اور میں انہیں دے دیتا ہوں۔

امام ـ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤتم نے انہیں ذلیل کیا ہے آئندہ ایسانہ کرنا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو بھی میرے دوست کو ذلیل کرے گا گویا وہ مجھ سے جنگ کے لیے آمادہ ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 58

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 67

(3)۔مستدرک الوسائل ج/9، ص 105

۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب:

O جس کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ جس قدر مقدس ہوگا اس سے مذاق بھی اتنا ہی خطرناک ترہوگا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے''أ باللّٰه و آیاتِه وَ رَسُولِهِ کنتم تَسْتَهْزِؤُنَ'' (1)

کیا تم اللہ، قرآن اور رسول کا مذاق اڑا رہے ہو۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر سب مشرکین کو معاف کردیا سوائے ان لوگوں کے جن کا کام عیب جوئی اور مذاق اڑانا تھا۔

O حدیث میں ہے کہ مومن کو ذلیل کرنا خدا کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔(2)

مذاق اڑانے کا انجام:

O آیات و روایات کی روشنی میں بری عاقبت مذاق اڑانے والوں کا انتظار کررہی ہے من جملہ:

الف: سورئہ مطففین میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں مومنین پر ہنستے تھے، انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے روز قیامت اہل جنت انہیں

حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان پر ہنسیں گے۔''فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 65 (2)۔ وسائل الشیعہ ج/ 12،ص270

۱۱۹

الکُفَّارِ یَضْحَکُونَ'' (1)

ب: کبھی کبھی اڑانے والوں کو اسی دنیا میں سزا مل جاتی ہے۔'' اِنْ تسخَرُوا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرو مِنکُمْ کما تَسْخَرُونَ'' (2)

ج: قیامت کا دن مذاق اڑانے والوں کے لیے حیرت کا دن ہوگا''یَا حَسْرَةً عَلٰی العِبٰادَ مَا یَا تِیْهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ اِلَّا کَانُوا بِه یَسْتَهْزَئُ ونَ'' (3)

د: حدیث میں ہے کہ مذاق اڑانے والے کی جان کنی نہایت سخت ہوگی۔''مَاتَ بِشَرّ مَیْتَه'' (4)

ھ: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مومنین پر طعنہ زنی کرتا ہے یا انکی بات کو رد کرتا ہے تو گویا اس نے خدا کو رد کیا ہے۔(5)

یاد داشت:

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاں اور بہت سے کام انجام دیئے وہاں ایک کام یہ کیا کہ لوگوں اور علاقوں کے وہ نام تبدیل کردیئے جو برے مفاہیم رکھتے تھے(6) کیوں کہ برے نام لوگوں کی تحقیر اور تمسخر کا باعث بنتے تھے۔

Oایک روز جناب عقیل ـمعاویہ کے پاس گئے تو معاویہ نے آپ کی تحقیر کی غرض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ مطففین 35 (2)۔ سورئہ مبارکہ ہود 38

(3)۔ سورئہ مبارکہ یس 30 (5)۔ بحار الانوار ج72 ص 155

(5)۔ وسائل الشیعہ ج13، ص 270 (6)۔ اسد الغابہ ج3، ص 76، ج5 ص362

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

(۳)

صحابہ کے بارے میں صحابہ کے نظریات

۱:- سنت رسول کے بدلنے پر خود صحابہ کی گواہی

جناب اوب سعید خدری کا بیان ہے :جناب رسو ل خدا نماز عید الفطر یا عیدالاضحی کے لئےجب بھی نکلتے تھے تو پہلے نماز پڑھاتے تھے پھر ان لوگوں کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے تھے اورلوگ بیٹھے ہی رہتے تھے ۔ اور وعظ ونصیحت فرماتے تھے ۔امرونہی کرتے تھے ۔ اگر کسی بحث کو قطع کرنا چاہتے تھے یا کسی چیز کے لئے حکم دینا چاہتے تھے تو حکم دیتے تھے پھر واپس تشریف لاتے تھے ۔ابو سعید کہتے ہیں یہی صورت آنحضرت کے بعد بھی رہی لیکن ایک مرتبہ جب مروان مدینہ کا گورنرتھا میں بھی اس کے ساتھ عیدالاضحی یا عیدالفطر کی نماز کے لئے چلا جب ہم لوگ مصلی (نماز پڑھنے کی جگہ) پر پہونچے تو دیکھا کہ کثیرین صلت نے ایک منبر بنا رکھا ہے اور مروان نماز سے پہلے ممبر پر جانا چاہتا تھا کہ میں نے اس کا کپڑا پکڑ کر کھینچا لیکن اس نے کھینچ کراپنے کو چھڑا لیا اور منبر پر جاکر نماز سے پہلے خطبہ دیا ۔میں نے مروان سے کہا ۔ خدا کی قسم  تم    (طریقہ   رسول کو) بدل دیا مروان  نے کہا :- ابو سعید  جو تم جانتے ہو وہ دور چلا گیا ۔ میں نے کہا ۔  خدا کی قسم جو میں جانتا ہوں  وہ اس سے بہتر ہے جو نہیں جانتا ۔اس پر مروان نے کہا ۔نماز کے بعد لوگ  ہمارے لئے بٹیھے رہیں گے اس لئے میں نے خطبہ کو مقدم کردیا(۱) ۔

میں نے ان اسباب کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی جس کی بنا پر انصار سنت رسول کو بدل دیا کرتے

--------------

(۱):- صحیح بخاری ج ۱ ص ۱۲۲ کتاب العیدین باب الخروج الی المصلی بغیر منبر

۱۴۱

تھے آخر میں اس نتجہ پر پہونچا کہ تمام اموی حضرات جن میں اکثریت صحابہ رسول کی تھی اور ان سب (اموی حضرات) کے راس ورئیس معاویہ بن ابی سفیان تھے جن کو اہل سنت والجماعت کا تب وحی کہتے ہیں ۔لوگوں کو آمادہ ہی نہیں بلکہ مجبور کیا کرتے تھے کہ لوگ تمام مسجدوں  کے منبروں سے حضرت علی ابن ابی طالب پر لعن اور سب وشتم کیا کریں جیسا کہ مورخین نے لکھا بھی ہے ار صحیح مسلم میں باب فضائل علی ابن ابی طالب میں ایسا ہی لکھا ہے اور معاویہ نے اپنے تمام گورنروں کو یہ احکام جاری کر دئیے تھے علی پر لعنت کرنے کو ہر خطیب اپنے منبر سے اپنا فریضہ قرار دے لئے اور جب صحابہ نے اس کو ناپسند کیا تو معاویہ نے ان کو قتل کرنے اور ان کے گھر بار کو جلانے کا حکم دیدیا ۔مشہور ترین صحابی جنا ب حجر بن عدی اون ان اصحاب کو معاویہ نے صرف اس جرم میں قتل کرادیا ۔ اور بعضوں کوزندہ دفن کرادیا کہ انھوں نے حضرت علی پر لعنت کرنے سے انکار کردیا تھا ۔

مولانا مودودی اپنی کتاب "خلافت وملوکیت " میں حسن بصری کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں ۔ چار باتیں معاویہ میں ایسی تھیں  کہ اگر ان میں سے ایک بھی ہوتی تو معاویہ کی ہلاکت کے لئے کافی ہوتی ۔اور وہ یہ ہیں ۔

۱:- صحابہ کے ہوتے ہوئے کسی سے مشورہ کئے بغیر حکومت پر قبضہ کرنا ۔

۲:- اپنے بعد شرابی کبابی بیٹے یزید کو خلیفہ نامزد کرنا جو ریشمی لباس پہنتا اور طنبور بجایا کرتا تھا ۔

۳:- زیاد کو اپنا بھائی قراردے دینا ۔حالانکہ رسول کی حدیث ہے "الولد للفراش وللعاھر الجھر "( لڑکا شوہر کا ہے زانی کے لئے پتھر ہے )۔

۴:- حجر واصحاب حجر کو قتل کرنا ۔ وائے ہو معاویہ پر حجر کے قتل پر وائے ہو وائے معاویہ پر حجر واصحاب حجر کے قتل کرنے پر(۱) ۔

بعض ایماندار صحابہ نماز کے بعد مسجد سے فورا چلے جاتے تھے تاکہ ان کو وہ خطبہ نہ سننا پڑے جو علی واہلبیت کی لعنت پر ختم ہوتا تھا جب بنی امیہ کو اس کا احساس ہوا کہ لوگ نماز کے بعداسی لئے

--------------

(۱):- خلافت وملوکیت ص ۱۰۶

۱۴۲

چلے جاتے ہیں تو انھون نے سنت رسول کو بدل دیا اور خطبہ کو نماز کے مقدم کردیا تاکہ لوگ مجبورا سنیں ۔ اسی طرح پورا ایک دوران صحابہ کو گزر گیا جو اپنے ذلیل وپست مقاصد کے لئے ۔اپنے چھپے ہوئے کینہ کا بدلہ لینے کے لئے سنت رسول تو درکنار احکام الہی کو بدل دیا کرتے تھے اور ایسے شخص پر لعنت بھیجتے تھے جس کو خدا نے پاک وپاکیزہ قرار دیا ہے جس پر درود وسلام اسی طرح واجب قرار دیا ہے جس طرح اپنے رسول پر جس کی محبت ومودت اس نے اور اس کے رسول نے واجب قراردیا ہے ۔ نبی اکرم فرماتے ہیں ۔ علی کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے(۱) ۔

لیکن یہ صحابہ سنت رسول بدلتے رہے ۔اس میں تغیر وتبدل کرتے رہے اور زبان حال سے کہتے رہے ۔ہم نے آپ کی بات سنی وار نافرمانی کی ۔علی سے محبت کرنے ان پر درود بھیجنے اور ان کی اطاعت کرنے کے بجائے ساٹھ(۶۰) سال تک ان پر سب و شتم کرتے رہے ۔منبروں سے لعنت کرتے رہے ۔ اگر موسی کرے اصحاب نے مشورہ کرکے ہاروں کو قتل کردینا چاہا تھا تو اصحاب محمد نے محمد کے ہارون کو قتل کردیا ۔اس کی اولاد کو اس کے شیعوں کو پتھروں کے نیچے  سے نکال نکال کر قتل کیا ،ان کو دیس نکالادیا دفتروں سے ان کے نام کاٹ دیئے گئے ۔ لوگوں پر بندی لگادی گئی کہ ان کے نام پر نام نہ رکھیں ۔ اتنے ہی اکتفا نہیں کیا ۔ ان سے خلوص رکھنے والے صحابہ کو مجبور کرکرے ان پر لعنت کرائی ۔اور ظلم وجور سے قتل بھی کیا ۔

خدا کی قسم جب میں اپنی صحاح کو پڑھتاہوں اور اس میں یہ پڑھتا ہوں کہ رسول اکرم اپنے بھائی اور ابن عم علی سے بہت محبت کرتے تھے، علی کو تمام صحابہ پر مقدم کرتے تھے ۔ علی کے بارے میں فرمایا اے علی تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کو موسی سے تھی فرق اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا(۲) -

--------------

(۱):-صحیح مسلم ج ۱ ص ۶۱

(۲):- صحیح بخاری ج ۲ ص ۳۰۵ صحیح مسلم ج ۲ ص ۳۶۰ :مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۰۹

۱۴۳

اور علی سے فرمایا :- اے علی تم مجھ سے ہو میں تم سے ہوں(۱) ۔ ایک جگہ فرمایا "- علی کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے(۲) ۔ ایک اور جگہ فرمایا :- میں شہر علم ہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں(۳) ۔ ایک جگہ اور فرمایا :- میرے بعد علی ہر مومن کے ولی (آقا ومولی) ہیں(۴) ۔ ایک اور جگہ فرمایا  : جس کا میں مولی ہوں اس کے علی مولی ہیں ۔خدا وند جو علی کو دوست رکھے تو بھی اس کو دوست رکھ اورجو علی کو دشمن رکھے تو بھی اس کو دشمن رکھ" ۔۔۔۔ تو مبہوت ومتحیر رہ جاتا ہوں اور اگر میں صرف ان فضائل کو ذکر کروں جن کو نبی نے علی کے لئے فرمایا  ہے اور ہمارے علماء ن ےان کو صحیح سمجھ کر ارو صحیح ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا  ہے تو اس کے لئے مستقل ایک کتاب کی ضرورت ہے پھر آپ تھوڑی دیر کے لئے سوچئے کہ کیا صحابہ ان تمام نصوص سے جاہل تھے ؟ اور اگر جانتے تھے تو منبروں سے کیونکر لعنت کرتے تھے ؟ اورکیوں علی وآل علی کے دشمن تھے ؟ اور کیسے ان سے جنگ کرتے تھے اور قتل کر تے تھے ۔؟

میں بلا وجہ ان لوگو کے لئے مجوز  تلاش کرتا ہوں ۔سوائے حب دنیا ،طلب دنیا ،نفاق ،ارتداد ،الٹے پاؤں جاہلیت کی طرف پلٹ جانے کے اور کوئی معقول توجیہ ہو ہی نہیں سکتی کہ یہ لوگ کیوں سنت نبی کو بل دیئے   تھے ۔ اسی طرح میری یہ کوشش بھی رائگان ہوگئی کہ میں اس الزام کو معمولی اصحاب کے سرتھوپ کر اور منافقین کے سرمنڈھ کر اکابر وافاضل صحابہ کو بچالےجاؤ ں لیکن بڑے افسوس کے ساتھ مجھے اس کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہ سب کا رستانیاں انھیں حضرات کی تھیں کیونکہ سب سے پہلے بیت فاطمہ کو تمام ان لوگوں سمیت جو اس  میں ہیں جلادینے کی دھمکی عمربن الخطاب ہی نے دی تھی اور سب سے پہلے جنھوں نے علی سے جنگ کی ہے وہ

--------------

(۱):-صحیح بخاری ج ۲ ص ۷۶ ،صحیح ترمذی ج ۵ ص ۳۰۰  سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۴

(۲):- صحیح مسلم جن ۱ص ۶۱ ،سنن النسائی ج ۶ ص ۱۱۷ صحیح ترمذی ج ۸ص۳۰۶

(۳):- صحیح ترمذی ج۵ص ۲۰۱ مستدرک الحاکم ج۳ ص۱۲۶

(۴):- مسند امام احمد ج۵ ص۲۵ ،مستدرک الحاکم ج۲ ص۱۲۴، صحیح ترمذی ج۵ص۲۹۶

(۵):-صحیح مسلم ج ۲ ۳۶۲ ، مستدرک الحاکم ج۳ ص۱۰۹ ،مسندامام احمد ج۴ ص۲۸۱

۱۴۴

طلحہ وزبیر ، ام المومنین عائشہ بنت ابو بکر ،معاویہ بن ابو سفیان ، عمرو عاص وغیرہ کے ہی لوگ تھے ۔

مجھے سب سے زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ آخر علمائے اہل سنت والجماعت نے کس طرح تمام صحابہ کے عادل ہونے پر اجماع کرلیا ہے اور سب ہی کے آگے رضی اللہ عنہ کا دم چھلّہ لگاتے ہیں بلکہ سب ہی پر بغیر استثناء کے درود وسلام بھیجتے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا " العن یزید ولا تزید " (صرف یزید پر لعنت کرو باقی سب کو چھوڑو) بھلا ان بدعتوں سے یزید کو کیا واسطہ ہے جن کو نہ عقل تسلیم کرتی ہے نہ دین قبول کرتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں میرا تعجب ختم ہونے والا نہیں ہے اور ہر آزاد فکر ومفکر وعاقل شخص میرا ساتھ دے گا ۔

میں اہلسنت والجماعت سے خواہش کرتاہوں کہ اگر وہ واقعا سنت رسول کے پیرو ہیں ۔ تو قرآن وسنت نےجس کے فسق وارتداد وکفر کا حکم دیا ہے وہ بھی انصاف کے ساتھ اس کے فسق وارتداد کا حکم دیں ۔ کیونکہ رسول اعظم نے فرمایا ہے ۔ جس نے علی پر سب وشتم کیا اس نے مجھ پر سب وشتم کیا اور جس نے مجھ پر سب وشتم کیا ، اس نے خدا پر سب وشتم کیا اور جس نے خدا پر سب وشتم کیا خدا اس کو منہ کے بھل جہنم میں ڈال دے گا(۱) ۔

یہ تو اس شخص کی سزا ہے جو حضرت علی پر سب وشتم کرے اب آپ خود فیصلہ کیجئے جو حضرت علی پر لعنت کرے ان سے قتال ومحاربہ کرے اس کا کیا حشر ہوگا ؟ آخر علمائے اہل سنت ان حقائق سے کیوں غافل ہیں ؟ کیا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں؟رب اعوذ بک من همزات الشیاطین واعوذ بک رب ان یحضرون"

--------------

(۱):- مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۲۱ ۔خصائص نسائی ص ۲۴ ، مسند امام احمد ج ۶ ص ۳۳ ،مناقب خوارزمی ص ۸۱ ، الریاض النفرۃ ، طبری ج ۲ ص ۲۱۹ ،تاریخ سیوطی ص ۷۳

۱۴۵

۲:- صحابہ نے نماز تک بدل دی

انس بن مالک کا بیان ہے : مرسل اعظم (ص) کے زمانہ میں جو چیزیں رائج تھیں ان میں سب سے پہلی چیز  نماز ہے جن میں نے نہیں پہچان سکا  ۔ انس کہتے ہیں ۔ جن چیزوں کو تم لوگوں نے ضائع کردیا کیا اس میں سے نماز نہیں کہ کہ جس  تم نے ضائع کردیا ہے ، زہری کہتے ہیں :- دمشق میں انس بن مالک کے پاس گیا تو دیکھا وہ رو رہے ہیں ! میں نے پوچھا آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ کہنے لگے : اپنی زندگی میں میں نے اسی نماز کی معرفت حاصل کی تھی اور وہ بھی برباد کردی گئی(۱) ۔

کسی صاحب کو یہ شبہ نہ ہوجائے کہ مسلمانوں کی آپسی جنگوں اور فتنوں کے بعد تابعین نے تبدیلی کی ہے ۔ اس لئے میں یہ بتادیناچاہتا ہوں کہ سنت رسول میں جس نے سب سے پہلے تبدیلی کی ہے وہ مسلمانوں کے خلیفہ عثمان بن عفان اور ام المومنین عائشہ ہیں ۔ چنانچہ بخاری ومسلم  دونوں میں ہے : منی میں مرسل اعظم(ص) نے دورکعت نماز پڑھی تھی ۔ آپ کے بعد ابو بکر اور ان کے بعد عمر بھی دو ہی رکعت پڑھتے رہے اور خو عثمان بھی اپنی خلافت کے ابتدائی ادوار میں دو ہی رکعت پڑھتے رہے پھر اس کے بعد چار رکعت پڑھنے لگے(۲) ۔ صحیح مسلم میں یہ بھی ہے : زہری کہتے ہیں : میں نے عروہ سے پوچھا کیا بات ہے عائشہ سفر میں بھی چاررکعت پرھتی ہیں ؟ انھوں نے عثمان کی طرح تاویل کر لی ہے(۳) ۔

حضرت عمر بھی سنن نبویہ کی نصوص صریحہ کے مقابلہ میں اجتھاد کرتے تھے اور تاویل کرتے تھے بلکہ وہ تو قرآن مجید کے نصوص صریحہ کے مقابلہ میں بھی اپنی رائے کے مطابق حکم دیتے تھے ۔ مثلا عمر کا مشہور مقولہ ہے : دومتعہ(متعۃ النساء اور متعۃ الحج) رسول خدا کے زمانہ میں رائج تھے ۔ لیکن میں ان سے روکتاہوں

--------------

(۱):- صحیح بخاری ج ۱ ص ۷۴

(۲):- بخاری ج ۲ ص ۱۵۴ ،مسلم ج ۱ ص ۲۶۰

(۳):- مسلم ج ۲ ص ۱۴۳ کتاب صلواۃ المسافرین

۱۴۶

اور (اگر کوئی میری مخالفت کرے گا ) تو اس کو سزا دوگا ۔ اسی طرح حضرت عمر نے اس صحابی کو نماز پڑھنے سے روگ دیا جو رات کو مجنب ہوگیا تھا ۔ اور غسل کے لئے پانی اس کو نہیں ملا تھا ۔ حالانکہ قرآن کا حکم ہے :" فان لم تجدوا ماءا فتیمموا صعیدا طیبا " اگر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی پر تیمم کر لیا کرو ۔۔۔۔۔ مگر نماز کو نہ چھوڑو ،

بخاری نے (اگر مجنب  کو اپنی ذات کے لئے خطرہ  ہو) کے باب میں روایت کی ہے کہ راوی کہتا ہے: میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے : ایک مرتبہ میں عبداللہ اور ابو موسی کے پاس تھا کہ ابو موسی نے کہا : اے ابا عبدالرحمان اگر کوئی مجنب ہوجائے اور غسل کے لئے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے ؟ عبداللہ (ابا عبدالرحمان ) نے کہا جب تک پانی نہ ملے نماز تر ک کردے ۔ اس پر ابو موسی نے کہا پھر عمار کے قول کو کیا کروگے کہ آنحضرت نے فرمایا تھا: عمار بس یہ کافی ہے ۔عبداللہ نے کہا: مگر عمر اس بات سے مطمئن نہیں ہوپائے تھے اس پر ابو موسی نے کہا: خیر عمار کے قول کو جانے دو اس آیۃ(ان لم تجدوا الخ) کے بارے میں کیا کہوگے ؟ یہ با ت سن کر  عبداللہ کوئی جواب  تو نہیں دے سکے  مگر اتنا کہا : اگر پانی نہ ملنے کی صورت میں ہم تیمم کی اجازت دیدیں تو خطرہ یہ ہے کہ اگر کسی کو سردی محسوس ہورہی ہے تو وہ بھی پانی چھوڑ کر تیمم کرلیا کرے گا اس پر میں نے شقیق سے کہا : تو پھر اسی وجہ سے عبداللہ نے کراہت کی تھی ؟ کہا :- ہاں !(۱) ۔

۳:- صحابہ کی اپنے خلاف گواہی

انس بن مالک کہتے ہیں : رسول اکرم نے انصار سے فرمایا :- میرے بعد تم لوگ زبردست مالداری دیکھو گے ۔مگر اس پر اس وقت تک صبر کرنا جب تک حوض (کوثر) پر خدا اور اس کے رسول سے ملاقات نہ کرلو ۔انس کہتے ہیں لیکن ہم لوگ صبر نہ کرپائے (۲) ۔

--------------

(۱):- بخاری ج ۱ ص ۵۴

(۲):- بخاری ج ۲ ص ۱۲۵

۱۴۷

۱۴۸

     أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (٦٢) الَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ (٦٣) لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ لاَ تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (٦٤)(پ ۱۱ س ۱۰(یونس (آیت ۶۲،۶۳،۶۴)

ترجمہ:- آگاہ رہو  اس میں کئی شک نہیں کہ دوستان خدا پر (قیامت میں )نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (خدا سے )ڈرتے تھے ان ہی لوگوں کیلئے دنیوی زندگی میں (بھی) اور آخرت میں (بھی ) خوشخبری ہے خدا کی باتوں میں ادل بدل نہیں ہوا کرتا یہی تو بڑی کامیابی ہے ۔"

دوسری جگہ ارشاد فرما تا ہے    إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (٣٠) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (٣١) نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (٣٢) (پ ۲۴ س ۴۱ (فصلت) آیت ۳۰، ۳۲،۳۱)

صدق اللہ ع العلی العظیم

ترجمہ:-جن لوگوں نے (سچے دل سے )کہا کہ ہمارا پروردگار تو (بس )خدا ہے پھر وہ اسی پر قائم رہے ان پر موت کے وقت (رحمت کے)فرشتے نازل ہوں گے (اور کہیں گے ) کہ کچھ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور جس بہشت کا تم سے وعدہ کیاگیا تھا ۔ اس کی خوشیاں مناؤ ، ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اورآخرت میں بھی (رفیق ) ہیں ۔ اور جس چیز کو بھی تمہارا جی چاہے بہشت میں تمہارے واسطے موجود ہے اور جو چیز کروگے وہاں تمہارے لئے حاضر ہوگی (یہ)بخشنے والے مہربان (خدا ) کی طرف سے (تمہاری )مہمانی ہے ۔

اب آپ فیصلہ کیجئے خدا کے اس وعدے کے بعد ابوبکر وعمر کی تمنا یہ کیوں ہے کہ کاش بشر نہ ہوتے ؟ حالانکہ خدا نے بشر کو اپنی مخلوقات پر فضیلت دی ہے اور جب عام مومن جو اپنی زندگی سیدھی طرح سے گزارنا ہے تو مرتے وقت اس پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور اس کو جنت میں اس کی خوشخبری دیتے

۱۴۹

ہیں ۔اور وہ پھر نہ عذاب سے ڈرتا ہے اور نہ جوکچھ دنیا  میں اپنے پیچھے چھوڑ آیا ہے اس پر رنجیدہ ہوتا ہے آخرت کی زندگی سے پہلے ہی اس کو زندگا نی دنیا ہی میں بشارت دیدی  جاتی ہے تو پھر ان بزرگ صحابہ کو کیا ہوگیا ہے جو رسول کے بعد خیر خلق ہیں ( جیسا کہ ہم کو بچپنے سے یہی تعلیم دی جاتی ہے) کہ یہ تمنا کرتے ہیں : کا ش ہم پاخانہ ہوتے ، ہم مینگنی ہوتے ، بال ہوتے ، بھوسا ہوتے (سب کچھ ہوتے مگر انسان نہ ہوتے )اگر ملائکہ نے ان کو بشارت  جنت دے دی ہوتی تو یہ عذاب خدا سے بچنے کے لئے زمین پر واقع ہونے والے پہاڑ وں کے برابر سونا راہ خدا میں صدقہ دے کر عذاب خدا سے بچنے کی تمنا نہ کرتے ۔

ایک اور جگہ ارشاد خدا ہے"    وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الأَرْضِ لاَفْتَدَتْ بِهِ وَأَسَرُّواْ النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُاْ الْعَذَابَ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ " (۱) ۔

ترجمہ:- اور (دنیا) جس جس نے (ہماری نافرمانی کرکے) ظلم کیا ہے(قیامت کے دن) اگر تمام خزانے جو زمین میں ہیں اسے مل جائیں تو اپنےگناہ کے بدلہ ضرور فدیہ دے نکلے  اور جب وہ لوگ عذاب کو دیکھیں گے تو اظہار ندامت کریں گے اور ان میں باہم انصاف کے ساتھ حکم کیا جائےگا اور ان پر (ذرہ برابر )ظلم نہ کیا جائےگا ۔

ایک دوسری جہ ارشاد ہوتا ہے:" وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِن سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ   وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُون " (۲) ۔

ترجمہ:- اور اگر نافرمانوں کے پاس روئے زمین کی پوری کا ئنات مل جائے بلکہ اس کے ساتھ اتنی ہی اور بھی ہوتو قیامت کے دن یہ لوگ یقینا سخت عذاب کا فدیہ دے نکلیں (اور اپنا چھٹکارا کرانا چاہیں ) اور(اس وقت) ان کے سامنے خدا کی طرف سے وہ بات پیش آئےگی جس کا انھیں وہم وگمان بھی نہ تھا اور جو بد کردار یاں ان لوگوں نے کی تھیں (وہ سب ) ان کے سامنے کھل جائیں گی اور جس (عذاب )پر یہ لوگ قہقہے لگاتے تھے وہ انھیں گھیرلے گا ۔

--------------

(۱):- (پ ۱۱ س۱۰ (یونس )آیت ۵۴

(۲):- پ ۲۴س ۲۹(زمر) آیت ، ۴۷،۴۸

۱۵۰

میں نے اپنے پورے دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں کہ یہ آیتیں صحابہ کبار جیسے ابو بکر وعمر کو شامل نہ ہوں لیکن جب ان نصوص کو پڑھتاہوں  تو ان اصحاب کے رسو ل اللہ سے زبردست قسم کے تعلقات اور پھر ان روابط کے باوجود آنحضرت  (ص) کے احکام سے انحراف اور انتہا یہ ہے کہ آنحضرت کے آخری عمر میں ان کی ایسی نافرمانی جس سے حضور کو غصہ آجائے اور ان لوگوں کو اپنے گھر سے باہر نکال دیں ۔ ان (دونوں ) کو سوچتا ہوں تو بہت دیر تک مجھ پر سکوت طاری ہوجاتا ہے اور میری نظروں کے سامنے فلم کی طرح وہ تمام واقعات یکے بعد دیگرے آنے لگتے ہیں جو رسول خدا کے بعد پیش آئے جیسے ان کی لخت جگر فاطمہ زہرا کو ان لوگوں نے اذیت دی ان کی توہین کی حالانکہ خود حضور فرماگئے تھے ۔ فاطمہ میرے دل کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا(۱) ۔

جناب فاطمہ نے ابو بکر وعمر سے فرمایا :-

میں  تم دونوں کو خدا کی قسم دیتی ہوں کیا تم نے رسولخدا(ص) کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ؟ فاطمہ کی خوشنودی میری خوشنودی ہے اور فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے جس نے میری بیٹی فاطمہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے فاطمہ کو راضی رکھا ،اور جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا دونوں نے کہا: ہاں ! ہم نے رسول اللہ سے سنا ہے تب جناب فاطمہ نے فرمایا : میں خدا اور اس کے ملائکہ کو گواہ بناتی  ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا اور مجھے راضی نہیں کیا اور جب میں رسول خدا سے ملاقات کروں گی تو تم  دونوں کی ضرور شکایت کروں گی(۲) ۔

خیر اس روایت کو چھوڑئیے جس سے دل زخمی ہوجاتے ہیں ۔ ابن قتیبہ جو علمائے اہل سنت میں سے تھے اور بہت سے فنون میں بے مثال تھے ۔ تفسیر  ،حدیث ،لغت نحو ، تاریخ وغیرہ  میں ان کی بہت ہی اہم تالیفات ہوسکتا ہے یہ بھی شیعہ رہے ہوں کیونکہ ایک مرتبہ  ایک شخص  کو میں نے تاریخ الخلفاء

--------------

(۱):- بخاری ج ۲ ص ۲۰۶ باب مناقب قرابۃ رسول اللہ

(۲):- فدک فی التاریخ ص ۹۲

۱۵۱

دکھائی تو اس نے بر جستہ کہا: یہ تو شیعہ تھے ، اورہمارے علماء جب کسی سوال  کا جواب نہیں دے پاتے تو ان کے پاس آخری حیلہ یہی رہتا ہے کہ اس کتاب کا مصنف شیعہ ہے چنانچہ ان کے نزدیک طبری شیعہ ہے ، امام نسائی ۔۔۔جنھوں نے حضرت علی کے خصائص میں کتاب لکھی ۔۔۔شیعہ تھے ، ابن قتیبہ بھی شیعہ تھے ، موجودہ ڈاکٹر طہ حسین مصری نے جب اپنی شہرہ افاق کتاب "الفتنۃ الکبری " لکھی  اور اس میں حدیث غدیر کا ذکر کیا اور دیگر حقائق کا اعتراف کیا تو یہ بھی شیعہ ہوگئے ۔

واقعہ یہ کہ ان میں کوئی بھی شیعہ نہیں تھا ۔لیکن ہمارے علماء کی عادت ہے جب کبھی شیعوں کاذکر کرتے ہیں ۔ تو ان کو شیعوں میں کوئی اچھائی نہیں نظر آتی صرف برائی کا تذکرہ کرتے ہیں ۔اور اپنا سارا زور علمی صحابہ کی عدالت پر صرف کرتے ہیں ،اور کسی نہ کسی طرح ان کو عادل ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں ۔

لیکن اگر کسی نے حضرت علی کے فضائل کا ذکر کردیا وار یہ اعتراف کر لیا کہ بڑے بڑے صحابہ سے بھی غلطی ہوئی ہے تو فورا اس پر تشیع کا الزام لگادیتے ہیں ۔ صرف اتنی سی بات کافی ہے کہ اگر آپ کسی کے سامنے نبی کریم کاذکر کرکے صلی اللہ علیہ وآلہ کہہ دیجئے یا حضرت علی کا نام لے کر علیہ السلام کہہ دیجئے تو وہ فورا کہہ دے گا تم شیعہ ہو ۔اسی بنیاد پر ایک دن میں اپنے ایک (سنی ) عالم سے بات کرتے ہوئے بولا : آپ کی رائے بخاری کے بارے میں کیا ہے ؟ فرمایا: ارے وہ تو ائمہ حدیث میں سے ہیں ان کی کتاب قرآن کےبعد سب سے زیادہ صحیح ہے اور اس پر ہمارے تمام علماء کا اجماع ہے ، میں نے کہا ، وہ تو شیعہ تھے ۔ تو اس پر وہ عالم میرا مذاق اڑانے کے انداز میں  بہت زور سے ٹھٹھا مار کے ہنسے  اور بولے : حاشا کلا، بھلا امام بخاری شیعہ ہوں گے ؟ میں نے عرض کیا  ابھی آپ نے فرمایا کہ حضرت علی کا نام لے کر علیہ السلام کہے وہ شیعہ ہے ۔ بولے ہاں ! ہاں یہ تو واقعہ ہے ! تب میں نے ان کو اور ان کے ساتھ جو لوگ تھے سب کو بخاری میں متعدد مقامات دکھائے جہاں حضرت علی کے بعد علیہ السلام اور حضرت فاطمہ کے بعد علیھا السلام اور حسن وحسین ابن علی کے بعد علیھما السلام لکھا تھا(۱)

--------------

(۱):- بخاری ج ۱ ص ۱۲۷ ،۱۳۰ اور ج ۲ ص ۱۲۶،۲۰۵

۱۵۲

تو یہ دیکھ کر مبہوت ہوگئے ،اور چپ ہوگئے کوئی جواب نہ دے سکے ۔

اب میں پھر اسی روایت کی طرف آتا ہوں جس میں ابن قتیبہ لے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ ابو بکر و عمر پر بہت غضبناک تھیں ۔ ہوسکتا ہے آپ کو شک ہو ۔لیکن میں کم از کم بخاری کے بارے میں شک نہیں کرسکتا جو ہمارے یہاں قرآن کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے اور ہم نے اپنے لئے لازم قرار دے لیا ہے یہ واقعا صحیح  ہے اور شیعوں کو حق ہے کہ اس کتاب سے ہم کو ملزم قرار دیں جس طرح خود ہم نے اپنے کو ملزم قراردے لیا ہے اور عقلمند لوگوں کے لئے انصاف کا طریقہ بھی یہی ہے لیجئے بخاری کا باب مناقب قرابۃ رسول اللہ مطالعہ فرمائیے  اس میں ہے : فاطمہ میرے دل کا ایک ٹکڑا  ہے جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ۔ اور باب غزوہ  ، خیبر میں ہے عائشہ بیان کرتی ہیں فاطمہ بنت النبی (علیھا السلام) نے ابو بکر کے پاس آدمی بھیجا کہ رسول خدا کی میراث مجھے دو ۔لیکن ابو بکر نے اس میں سے ایک حبہ بھی دینے سے انکار کردیا ۔تو فاطمہ اس وجہ سے غضبناک  ہوگئیں ۔ اور ان کا بائیکاٹ کردیا ۔ مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی ۔۔۔۔۔۔

دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے  بخاری نے اس واقعہ کو اختصار کے ساتھ اور ابن قتیبہ نے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور دونوں کا نتیجہ یہ ہے : رسول اللہ فاطمہ کی ناراضگی سے ناراض ہوتے تھے اور فاطمہ کی خوشی سے خوش ہوتے تھے اور فاطمہ مرگییں  مگر ابو بکر  سے راضی نہیں ہوئیں ۔۔۔۔۔

اب اگر بخاری یہ کہتےہیں : فاطمہ ابو بکر پر ناراضگی کے عالم میں مری ہیں اور مرنے دم تک بات نہیں کی تو اس کا بھی مطلب وہی ہے جو ابن قتیبہ نے لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور بقول جناب بخاری ۔۔۔"؛ کتاب الاستئذان باب  من ناجی بین الناس۔۔۔۔۔ جب فاطمہ تمام دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں اور پوری امت مسلمہ میں اکیلی وہ عورت ہیں جو آیت تطہیر کی رو سے معصومہ ہیں تو ان کا غضبناک ہونا کسی ناحق بات پر تو ہو ہی نہیں سکتا ۔اسی لئے خدا اور رسول فاطمہ کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہوجاتے ہیں اور اسی لئے ابو بکر نے بھی کہا تھا : اے فاطمہ میں خدا اورآپ کی ناراضگی سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔ یہ کہہ کر ابو بکر باآواز بلند رونے لگے  اور قریب تھا کہ ان کی روح جسم سے مفارقت کرجائے مگر فاطمہ یہی کہتی رہیں ۔ خدا کی قسم میں ہر نماز کے

۱۵۳

بعد تم دونوں کے لئے بد دعا کرتی رہوں گی ۔ اس واقعہ کے بعد ابو بکر روتے ہوئے نکلے اور کہتے جاتے تھے " مجھے تمہاری بیعت کی ضرورت نہیں ہے ۔ مجھ سے اپنی (اپنی )بیعت توڑ دو(۱) ۔

 ویسے تم ہمارے بہت سے مورخین وعلماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عطیہ ،میراث ،سہم القرباء کے سلسلے میں جناب فاطمہ (س)  نے ابو بکر سے نزاع کی لیکن  ابو بکر  نے آپ کا دعوی رد کردیا اور آپ مرتے دم تک ابو بکر سے ناراض رہیں ۔ ۔۔۔ لیکن یہ حضرات اس قسم کے واقعات کو پڑھ کر اس طرح گزر جاتے ہیں ۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور اس قسم کے واقعات پر جن سے قریب سے یا دور سے صحابہ کی بزرگی پر دھبہ آتا ہو" اپنی حسب عادت زبان ہی نہیں کھولتے ۔۔۔۔ اس سلسلہ میں سب سے عجیب بات میں نے ایک بزرگوار کی پڑھی جو واقعہ کو ذرا تفصیل  سے تحریر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : میں نہیں تسلیم کرسکتا کہ جناب فاطمہ نے ناحق چیز کا مطالبہ کیا ہو جیسے کہ میں یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ ابو بکر نے فاطمہ کے جائز  حق کو روک دیا ہو۔۔۔۔۔۔ اس سفسطہ سے اس عالم کو شاید یہ خیال پیدا ہوا ہو کہ اس نے مسئلہ کو حل کردیا اور بحث کرنے والوں کو قانع کردیا ۔ حالانکہ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے : میں تسلیم نہیں کرسکتا کہ قرآن ناحق بات کہے  جیسے کہ میں یہ بات تسلیم نہیں کرسکتا  کہ بنی اسرائیل  نے گوسالہ پرستی کی ہو ۔۔۔۔ ہمارے لئے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہمارے علماء ایسی بات کہتے ہیں ہیں جس کو وہ خود نہیں سمجھتے وار یہ نقیضین پر عقیدہ رکھتے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ جناب فاطمہ نے دعوی کیا اور ابو بکر نے اس کو رد کردیا ۔اب یا تو (معاذاللہ) جناب فاطمہ جھوٹی تھیں یا پھر ابو بکر ظالم تھے یہاں کوئی تیسری صورت حال نہیں ہے جیسا کہ ہمارے بعض علماء کہنا چاہتے ہیں ۔اور چونکہ عقلی ونقلی دلیلوں سے ثابت ہے کہ سیدہ عالمیان جھوٹی نہیں ہوسکتیں کیونکہ ان کے باپ کی صحیح حدیث ہے فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت پہونچائی  اس نے مجھ کو اذیت پہونچائی اور واضح سی بات ہے کہ رسول کی طرف سے یہ سند کسی جھوٹے کو نہیں دی جاسکتی ہے ۔پس یہ حدیث تو بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ نہ جناب فاطمہ جھوٹ بول سکتی ہیں اور نہ کسی دیگر بری چیز کا ارتکاب

-------------

(۱):- الامامۃ والسیاسۃ (لابن قتیبہ )ج ۱ ص ۲۰

۱۵۴

کرسکتی ہیں ،جس طرح آیت تطہیر ان کی عصمت پر دلیل ہے(۱) ۔جو حضرت عائشہ کی گواہی کی بنا پر وفاطمہ ا ن کے شوہر  ان کے بچوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ لہذا اس کے علاوہ کوئی چار ہ نہیں  ہے کہ صاحبان عقل  اس بات کو تسلیم کرلیں کہ وہ معصومہ مظلومہ تھیں ،فاطمہ کا جھوٹا ہونا انھیں لوگوں  کے لئے ممکن ہے جو یہ دھمکی دے سکتے ہوں کہ اگر بیعت سے انکار کرنے والے فاطمہ کے گھر سے نہ نکلے تو ہم فاطمہ کے گھر کوآگ لگادیں گے(۲) ۔

انھیں تمام اسباب کی بنا پر جناب فاطمہ نے ابو بکر وعمر کو اپنے گھرمیں اجازت مانگنے پر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی اور جب حضرت علی ان دونوں کو گھر میں لائے تو جناب فاطمہ نے اپنا منہ دیوار کی طرف کرلیا ۔ اور ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا(۳) ۔

جناب فاطمہ کی وصیت کے مطابق ان کو راتوں رات دفن کیا گیا تاکہ ان میں سے کوئی جنازہ میں شریک نہ ہوجائے(۴) ۔

اور بنت رسول کی قبر آج تک لوگوں کے لئے مجہول ہے ۔میں اپنے علماء سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ  ان حقائق پر کیوں خاموش ہیں ؟ کیوں اس کے بارے میں بحث نہیں کرتے ؟ بلکہ اس کا ذکر تک نہیں کرتے ؟ اور ہمارے سامنے صحابہ کو ملائکہ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ وہ لوگ نہ گناہ کرتے تھے اور نہ ان سے غلطی ہوتی تھی آخر ایسا کیوں ہے ؟

جب میں کسی  عالم سے پوچھتا ہوں :خلیفۃ المسلمین سیدنا عثمان بن عفان ذی النورین کو کیسے قتل کردیاگیا ؟ تو صرف یہ جواب ملتا ہے کہ مصریوں ۔۔۔ جو سب کافر تھے ۔۔۔۔نے آکر قتل کردیا صرف دو جملوں میں بات تمام کردی جاتی تھی ۔ لیکن جب مجھے فرصت ملی اورمیں نے تاریخ کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ عثمان کے قاتل نمبر ایک کے اصحاب تھے اور ان میں بھی سب سے آگے ام المومنین عائشہ تھیں جو چلا چلا کر لوگوں کو عثمان کے قتل پر ورغلاتی تھیں ۔اور ان کے خون کو مباح بتاتی تھیں اور کہتی تھی ۔:-

--------------

(۱):- صحیح مسلم ج ۷ ص ۱۱۲ ،۱۲۰

(۲)-(۳):- تاریخ الخلفاء ج ۱ ص ۲۰

(۴):- صحیح بخاری ج ۳ ص ۳۹

۱۵۵

" اقتلوا نعثلا فقد کفر" نعثل کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے(۱) ۔۔۔نعثل ایک یہودی تھا عثمان  کی ڈاڑھی اس کی ڈاڑھی سے بہت مشابہ تھی اس لئے عائشہ عثمان کو نعثل کہا کرتی تھیں ، مترجم۔۔۔ اسی طرح طلحہ ،زبیر ،محمد ابن ابی بکر ،وغیرہ جیسے مشہور صحابی نے عثمان کا محاصرہ کرلیا تھا اور ان کے اوپر پانی بند کردیا تھا تاکہ مجبور ہوکر خلافت سے مستعفی ہوجائیں ۔مورخین کا بیان ہے کہ یہی صحابہ کرام تھے جنھوں نے عثمان کے لاشہ کو مسلمانوں کے مقبرہ میں دفن نہیں ہونے دیا ۔ اور ان کو غسل وکفن کے بغیر حش کوکب میں دفن کیاگیا ۔ سجان اللہ ہم کو تو یہ بتایا جاتا کہ عثمان کے قاتل مسلمان ہی نہ تھے اور ان کو مظلوم قتل کیاگیا ہے ۔جناب فاطمہ اور ابوبکر کی طرح یہ دوسرا قصہ ہے کہ باتو عثمان مظلوم تھے تو پھر جتنے صحابہ نے ان کو قتل کیا یا ان کے قتل میں شریک رہے وہ سب کے سب مجرم ہیں کہ کیونکہ انھیں نے خلیفہ کو ظلما وعدوانا قتل کیا اور ان کے جنازے کے پیچھے پیچھے جنازے پر پتھر مارتے ہوئے لے گئے ۔ زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی ان کی توہین کی ۔۔۔اور یا پھر یہ تمام صحابہ حق پر تھے  جنھوں نے عثمان کو قتل کیا ۔کیونکہ عثمان نے اسلام  مخالف بہت سے اعمال  کا ارتکاب کیا تھا ۔ جیسا کہ تاریخوں میں ہے دونوں میں سے ایک کو باطل ماننا ہوگا ۔یہاں کوئی تیسری  صورت نہیں ہے ہاں یہ اور بات ہے ہ ہم تاریخ ہی کو جھٹلا دیں اور اور لوگوں کو دھوکہ دیں کہ جن مصریوں نے عثمان کو قتل کیا تھا  وہ کافر تھے بہر حال دونوں صورتوں " خواہ  عثمان کو مظلوم مانیں یا مجرم " میں الصحابۃ کلھم عدول" سارے صحابہ عادل ہیں کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے یا تو یہ مانئے کہ عثمان عادل نہیں تھے یا یہ مانئے کہ ان کے قاتل عادل نہیں تھے ۔ دونوں ہی صحابہ اس طرح ہم اہل سنت کا دعوی تو باطل ہوجاتا ہے البتہ شیعوں کا دعوی ثابت ہوجاتا ہے کہ بعض صحابہ عادل تھے بعض عادل نہیں تھے ۔

اسی طرح میں جنگ جمل کے بارے میں سوال کرتاہوں جس کے شعلے ام المومنین عائشہ نے بھڑکائۓ تھے اور خودہی لشکر کی قیادت کررہی تھیں ۔آخر جب ان کو خدانے حکم دیا تھا کہ :

--------------

(۱):- تاریخ طبری ج ۴ ص ۴۰۷ ،تاریخ ابن اثیر ج۳ ص ۲۰۶ ،لسان العرب ج۱۴ ص ۱۹۳ ، تاج العروس ج ۸ ص ۱۴۱ ،العقد الفرید ج ۴ ص ۲۹۰

۱۵۶

وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الاولی (پ ۲۲ س ۳۳ (الاحزاب ) آیة ۳۲)

ترجمہ :-اور اپنے گھروں میں نچلی بیٹھی رہو اور اگلے زمانہ جاہلیت کی طرح انپے بناؤ سنگار نہ دکھاتی پھرو ! انپے گھروں میں بیٹھی رہو تو ام المومنین عائشہ کیوں نکلی ؟ اسی طرح دوسرا سوال کرتا ہوں کہ ام المومنین نے حضرت علی کے خلاف کس دلیل کی بنا پر جنگ کی ؟ جبکہ حضرت علی تمام مومنین ومومنات کے ولی تھے ۔ لیکن حسب معمول ہمارے علماء بڑی سادگی سے جواب دیدیتے ہیں کہ ام المومنین حضرت علی سے دشمنی رکھتی تھیں کیونکہ  "واقعہ افک "  میں حضرت  علی نے ( بشرطیکہ یہ صحیح ہو) رسول خدا کو مشورہ دیا تھا کہ انکو طلاق دے دیجئے ہمارے علماء ہم کو اس طرح مطمئن کرنا چاہتے ہیں چونکہ :واقعہ افک " میں حضرت  علی نے (بشرطیکہ یہ صحیح ہو ) طلاق کا مشورہ دیا تھا اس لئے ام المومنین نے مخالفت کی تھی مگر آپ سوچئے تو کیا صرف اتنی سی بات پر حضرت  عائشہ کے لئے جائز تھا کہ حکم قرآن کی مخالفت  کریں ؟ اور وہ پردہ جو رسول نے ان پر ڈال رکھا تھا اس کو چاک کردیں ؟ اور اونٹ کی سواری  کریں جب کہ رسول نے پہلے ہی روک دیا اور ان کو ڈرادیا  تھا کہ حواب کے کتے بھونکیں گے (۲) ۔ اور بی بی عائشہ اتنی لمبی مسافت طے کریں یعنی  مدینہ   سے مکہ اور پھر مکہ سےبصرہ جائیں ،بے گناہ لوگوں کو قتل کریں ؟ حضرت علی اورجن  صحابہ نے علی  کی بیعت کی تھی ان سے جنگ کریں ؟ اور ہزاروں  مسلمان  قتل کئے جائیں  جیسا کہ مورخین نے لکھا ہے (۳) - ان سب جرائم  کا ارتکاب  صرف اس لئے جائز  ہے کہ ام المومنین حضرت علی  کو نہیں چاہتی تھی ۔اس لئے  کہ حضرت علی نے طلاق کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن نبی نے طلاق تو نہیں دیا ۔ پھر اتنی نفرت کیوں؟  مورخین نے دشمنی  کے وہ وہ واقعات تحریر کئے جن کی تفسیر ممکن ہی نہیں ہے (مثلا)  جب آپ مکہ سے واپس آرہی تھیں تو لوگوں نے بتایا عثمان قتل کردیئے گئے اس خبر کو سن کر آپ پھولے نہیں سمارہی تھیں ۔لیکن جب لوگوں نے یہ خبر دی کہ مدینہ  والوں نے علی کی  بیعت کرلی تھی اس کو سنتے ہی آپ آگ بگولہ ہوگئیں اور فرمانے لگیں : مجھے یہ بات پسندتھی کہ علی

--------------

(۱):- الامامۃ والسیاسۃ

(۲):- طبری ،ابن اثیر مدائنی وغیرہ جنھوں نے سنہ ۳۶ ھ کے حالات تحریر کئے ہیں ۔

۱۵۷

 کو خلافت ملنے سے پہلے آسمان پھٹ پڑتا اور فورا حکم دیا  کہ مجھے واپس لےچلو ۔اور آتے ہیں حضرت علی کے خلاف آتش فتنہ بھڑکا دی ،وہ علی بقول مورخین جن کا نام لینا بھی پسند نیں کرتی تھیں ۔ کیا ام المومنین نے رسول خدا کایہ قول نہیں سنا تھا : علی کی محبت ایمان اور علی سے بغض رکھنا نفاق ہے (۱) ۔اور اسی لئے بعض اصحاب کا یہ قول مشہور ہے کہ ہم منافقین کو حضرت علی سے بعض  رکھنے سے پہچان لیا کرتے تھے ۔۔۔ اور کیا ام المومنین نے رسول اسلام کا یہ قول نہیں سنا تھا : جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں ۔۔۔۔ حتما سب کچھ سنا تھا لیکن نہ وہ علی کو چاہتی تھیں نہ ان کا نام لینا پسند کرتی تھیں بلکہ جب علی کے مرنے کی خبر سنی ہے تو فورا سجد ہ شکر کیا ہے (۲) ان باتوں کوجانے دیجیئے میں ام المومنین عائشہ کی تاریخ سے بحث نہیں کررہا ہوں میں تو صرف یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ بہت سے صحابہ نے مبادی اسلام کی مخالفت کی ہے اور رسول خدا کے احکام کی نافرمانی کرتے رہے ہیں ۔ رہا ام المومنین کا فتنہ تو اس سلسلہ میں صرف ایک ایسی دلیل کافی ہے جس پر تمام مورخین نے اجماع کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ام المومنین عائشہ کا گزر چشمہ حواب سے ہوا تو وہاں کے کتوں نے بھونکنا شروع کیا اس پر بی بی کو رسول خدا کی تحذیر یادآئی اور یہ یاد آیا کہ پیغمبر نے کہا تھا اسے عائشہ کہیں وہ اونٹ والی تمہیں نہ ہو ۔یہ یاد آتے ہی عائشہ رونے لگیں اور کہنے لگیں مجھے واپس کرو ،مجھے واپس کرو ،لیکن طلحہ وزبیر نے پچاس آدمی کو دے دلا کر تیارکر لیا اور ان سبھوں نے آکر عائشہ کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھائی کہ یہ چشمہ حواب نہیں ہے بس پھر کیا تھا عائشہ نے اپنا سفر جاری رکھا اور بصرہ آگئیں ،مورخین کا بیان ہے کہ اسلام میں یہ سب سے پہلی جھوٹی گواہی ہے (۳) اے مسلمانو! اے روشن عقل رکھنے والو ، اس مشکل کا حل بتاؤ ۱ کیا یہ وہی بزرگ صحابہ ہیں جن کو ہم رسول  کے بعد سب سے بہتر مانتے ہیں اورجن کی عدالت کے ہم قائل  ہیں جو جھوٹی گواہی دیتے ہیں حالانکہ جھوٹی گواہی کو رسول خدا نے ان گنا ہان کبیرہ میں شمار کیا ہے جو انسان کو جہنم میں پہونچا دیتے ہیں

--------------

(۱):- صحیح مسلم ج ۱ ص ۴۸

(۲):- طبری ، ابن اثیر ، الفتنۃ الکبری ، تمام وہ مورخین جنھوں نے سنہ ۴۰ ھجری کے حالات لکھے ہیں

(۳):- طبری ، ابن اثیر ، مدائنی  اور دیگر وہ مورخین جنھوں سنہ ۳۶ ھ کے حالات لکھے ہیں ،

۱۵۸

وہی سوال پھر دہرانا پڑتا ہے اور ہمیشہ دہراتا ہوگا کہ کون حق پر ہے ؟ اور کون باطل پر ؟ یا تو عائشہ اور ان کے ہمنوا وطلحہ وزبیر اور ان کے ساتھی سب ظالم  اور باطل پر ہیں اور یا پھر علی اور ان کے ساتھی ظالم اور باطل پر ہیں ۔ یہاں کوئی تیسرا احتمال نہیں ہے ۔ منصف مزاج اور حق کا متلاشی علی کی حقانیت  کو تسلیم کرے گا ۔کیونکہ بقول مرسل  کوچھوڑ دےگا کیونکہ انھیں لوگوں نےآتش فتنہ بھڑکائی تھی اور اس کو بجھانے کی کوشش بھی نہیں کی یہاں تک کہ اس نے ہر رطب ویابس کو جلا کر راکھ کردیا اور اس کے آثار آج تک باقی ہیں ۔

مزید بحث اور اپنے اطمینان قلب کے لئے عرض کرتا ہوں کہ بخاری کے کتاب الفتن اور باب الفتنۃ التی تموج کموج البحر" میں تحیریر ہے : جب طلحہ وزبیر وعایشہبصرہ پہونچے تو حضرت عل ی نے عمار یاسر اور اپنے بیٹے حس کو بھیجا یہ دونوں کوفہ آئے اور منبر پر گئے حسن بن علی منبر کے سب سے اونچے زینہ پر تھے اور عمار حسن سے ایک زینہ نیچے  تھے ۔ ہم لوگ دونوں کی باتیں سننے کے لئۓ جمع ہوئے تو میں نے عمار کو یہ کہتے ہوئے سنا : عائشہ بصرہ گئی ہیں ۔ خدا کی قسم وہ دنیا وآخرت میں تمہارے نبی کی بیوی ہیں لیکن خدانے تمہارا امتحان لینا چاہا ہے کہ تم خدا کی اطاعت کرتے ہوں یا عائشہ کی(۱) ۔

اسی طرح بخاری کےف" کتاب الشروط باب ما جا ء فی بیوت ازواج النبی " میں ہے : رسول خدا خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور عائشہ کے مسکن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : یہیں فتنہ ہے یہیں فتنہ ہے یہیں فتنہ ہے ، فتنہ یہاں سے شیطان کی سینگ کی طرح نکلے گا (۲) ۔اسی طرح امام بخاری نے اپنی صحیح میں عائشہ  کا رسول کے ساتھ بد تمیز ی سے پیش آنا جس پر ابو بکر کا اتنا عائشہ کو مارنا  کہ عائشہ کے جسم سےخون بہنے لگا ۔ اور عائشہ کا رسول کے خلاف  مظاہرہ کرنا جس پر خدا  کی طرف سے طلا ق کی   دھمکی کا ملنا اوریہ دھمکی دینا کہ خدا تم سے بہتری بیوی نبی کودے گا اور اسی قسم کی عجیب وغریب عائشہ کے لئے نقل کیا ان قصوں کو دہرا نا کتاب کو طول دینا ہے ۔

-------------

(۱):- بخاری ج ۴ ص۱۶۱

(۲):- بخاری ج ۲ ص ۱۲۸

۱۵۹

ان تمام باتوں کے باوجود میں یہ پوچھتا  ہوں کہ اہل سنت  والجماعت کے نزدیک صرف عائشہ ہی کا کیوں  اتنا احترام واکرام ہے ؟ کیا اس لئے کہ یہ نبی کی بیوی تھیں ؟ تو نبی کی بیویاں تو اور بھی تھیں ،بلکہ عائشہ سے افضل بھی تھیں جیسا کہ خود نبی نے فرمایا ہے ۔(۱) تو عائشہ میں کیا خصوصیت ہے ؟ یاان کا احترام اس لئے زیادہ ہے یہ ابو بکر کی بیٹی تھیں ؟ یا اس لئے ان کا احترام زیادہ ہے  کہ رسول خدا نے حضرت علی کے لئے جو وصیت کی تھی اس کو کالعدم بنانے میں سب سے اہم رول ان کا ہے ؟ جیسا کہ روایت میں ہے جب عائشہ کے سامنے ذکر آیا کہ نبی نے علی کے لئے وصیت کی تھی تو آپ جھٹ سے بولیں یہ کسی نے کہا ؟ رسول میرے سینہ پر تکیہ لگائے لیٹے تھے مجھ سے طشت مانگا میں طشت کے جھکی اور نبی کا انتقال  ہوگیا ۔ مجھے پتہ بھی نہیں چلا  پس علی کے لئے کیسے وصیت کردی(۲) ۔

یا پھر ان کا احترام  اس لئے زیادہ ہے کہ انھوں نے حضرت علی سے ایسی جنگ کی جس میں نرمی کی گنجائش نہ تھی ۔ اور ان کے بعد ان کی اولاد سے لڑیں انتہا یہ کردی کہ جب امام حسن کا جنازہ چلا تو آپ  نے روکا اور یہ کہاجس کو میں میں دوست رکھے خدا اس کو دوست رکھے گا ۔ اور جو ان سے بغض رکھےگا  خدا اس سے بغض رکھے گا ۔ یا ایک جگہ اور فرمایا تھا:- جوان سے جنگ کرے  میں اس سے جنگ کروں گا جو ان سے صلح کرےگا ۔ میں اس سے صلح کروں گا ۔ الخ  ان تمام حدیثوں کو ام المومنین بھول گئی تھیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی تھیں ؟ اور اس میں کوئی تعجب نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ حضرت علی کے بارے میں  تو اس سے کئی گنا زیادہ سنا تھا لیکن نبی کی ممانعت کے باوجود حضرت علی سے جنگ کرکے رہیں اور لوگوں کو ان کے خلاف اکسا ہی کے مانا ، ان کے فضائل کا انکار کرکے رہیں ۔۔۔ دراصل یہ جوہ تھی جس کی بنا پر بنی امیہ نے ان سے محبت کا اظہار کیا ، اور ان کو اس درجہ تک پہونچا دیا جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہے اور ان کے فضائل میں ایسی ایسی (جعلی )روایات نقل کیں جس سے کتابیں بھرگئیں ،شہروں شہروں ،دیہاتوں دیہاتوں ان کا چرچا ہوگیا

--------------

(۱):- ترمذی ، استیعاب در حالات صفیہ ، اصابۃ حالات صفیہ ام المومنین

(۲):- بخاری ج ۳ ص ۶۸ باب مرض النبی ووفاتہ

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253