پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 23%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78232 / ڈاؤنلوڈ: 7529
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

كيا اس صورتحال ميں حفصہ سے رسول خدا كى شادى ايك بيوہ كى نفسياتى شكست اور عثمان و ابوبكر سے ازردگى ختم كرنے كيلئے نہيں تھى ؟

اسى زمانے ميں دوسرى خواتين جيسے ام سلمہ جو بڑى عمر كى اور صاحب اولاد تھيں اور ان كے شوھر جنگ احد ميں مارے گئے تھے ،شھر غربت ميںكيا كر سكتى تھيں كيا ان كے لئے ايسا ممكن تھا كہ اسى خانوادے ميں واپس جائيں جنكے تشدد سے تنگ اكر انھوں نے حبشہ كى طرف فرار كيا تھا _

يا وہ دوسرى خاتون زينب بنت خزيمہ جنكى رسول خدا سے پہلے دو مرد وں سے شادياں ہوئي تھيں اور دوسرے شوہر جنگ احد ميں شھيد ہوئے تھے ، وہ اپنى زندگى كے دن كيسے كاٹ سكتى تھيں ؟

اسى طرح ابو سفيان كى بيٹى ام حبيبہ جو اپنے خاندان كى سختيوں سے تنگ اكر اپنے شوہر كے ساتھ حبشہ بھاگ گئي تھيں ، وہاں ان كے شوہر كا انتقال ہوگيا انكى بيچارگى كا درمان سوائے اس كے اور كيا تھا كہ رسول كے زير سايہ اجائيں ام حبيبہ اسى ابو سفيان كى بيٹى ہيں جس نے اسلام كا نام و نشان مٹانے اور رسول خدا كو ذليل كرنے كيلئے كوئي پاپ نہيں چھوڑا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف جو بھى سركشى كا پرچم بلند ہوا اسكا بانى مبانى ابو سفيان ، اپ نے اسى ابو سفيان كى ابرو كا اسطرح تحفظ فرمايا كہ جسكا گمان بھى نہيں كيا جاسكتا تھا ، ہاں ، اگر قريش نے ابو سفيان كى سر كشى ميں يہ كوشش كى تھى كہ اپ كى بيٹيوں كو طلاق دلا كر انكے گھر واپس كرديا جائے اج وہى پيغمبر ہيں ، اسى ابو سفيان كى بيٹى كو حبشہ سے نكاح نامے كے ساتھ اپنى زوجہ بنا ليا ، انھيں اعزاز و اكرام كے ساتھ مدينہ بلوايا ، يعنى انھيں عرب كے شريف ترين شخص كى خاتون بنا ليا ، رسول خدا خانوادہ ء عبد المطلب سے جو تھے يہى وہ بات تھى كہ ابو سفيان جھومنے لگا ، اور ايسا جملہ زبان سے نكالا جو ہميشہ كيلئے ضرب المثل بن گياذالك الفحل لا يقدع انفه _

يہ وہ مرد ہے كہ اسكى ناك نہيں رگڑى جا سكتى اسكے دماغ پر ہتھوڑا نہيں لگايا جا سكتا ، ايسى كردار كى عظمت كا رد عمل تمام بنى اميہ كے افراد خاندان ميں كيا تھى جو كچھ گذشتہ صفحات ميں نقل كيا گيا اسكى مثال ميرے علم ميں تو نہيں ہے ليكن اس واقع كى نطير جو مجھے معلوم ہے قبيلہ بنى المصطلق كے سردار كى بيٹى كى شادى كا واقعہ ، تفصيلى انداز ميں نظر اتا ہے

۴۱

قبيلہ بنى المصطلق خزائمہ كى ايك شاخ تھا ، اور مدينے سے پانچ منزل پر رہتا تھا ، اسكا سردار حارث رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كرنے كيلئے قبائل عرب كو ملا كر ايك بڑا لشكر تيار كر چكا تھا كہ ناگہان رسول خدا نے اچانك ان پر حملہ كر ديا ،

اس وقت دوسرے قبائل جو اسكى كمك ميں ائے تھے سبھى بھاگ گئے ، رسول خدا نے ان سے اسلام قبول كرنے كو كہا ، انھوں نے قبول نہيں كيا ، جنگ بھڑك اٹھى ، حارث كے قبيلے نے شكست كھا كر ہتھيار ڈال دئے ، قيديوں ميں خود حارث كى بيٹى بھى تھى ، جس انصارى نے اسے اسير كيا تھا رسول خدا نے اسكو خريد كر ازاد كر ديا ، پھر اس سے خود ہى عقد كر ليا ، اور اپنى ازواج ميں شامل كر ليا ، حالانكہ اگر چاہتے تو بطور كنيز اس سے ہم بستر ہوتے ، مسلمانوں نے اس ازدواج كے احترام ميں اپنے تمام قيديوں كو ازاد كر ديا ، اس اعلى ظرفى كى خبر حارث كو ملى تو مدينے ايا اور اسلام قبول كر ليا اسكے بعد تمام قبيلے والے مسلمان ہو گئے ، صلح حديبيہ كے زمانے ميں اسكا قبيلہ اور خزائمہ كا قبيلہ جس طرح قريش ہم پيمان ہوئے تھے يہ بھى ہم پيمان ہوئے _

يہيں سے جنگ زدہ عرب كے قبائل كى حكمت پر نظر جاتى ہے ، وہ لوگ جب چاہتے تھے كہ صلح و اشتى قائم ہو تو ظالم قبيلہ مظلوم قبيلے كو اپنى بيٹى ديديتا تھا ، اور اس طرح شادى بياہ كے ذريعے سياسى رابطہ بر قرار ہو جاتا تھا ، واضح بات ہے كہ رسول خدا كى تمام شادياں اس قاعدے سے مستثنى نہيں تھيں ، مثلاً صفيہ سے اپكا نكاح جو خيبر كے يہودى سردار كى بيٹى تھيں يا ريحانہ جو بنى نظير كے يہوديوں ميں سے تھيں اور اسكا شوہر بنو قريظہ كا يہودى تھا _

اس طرح كى شاديوں سے رسول خدا كا مقصد واضح ہوتا ہے كہ اپ سركش قبائل سے رشتہ قائم كرنا چاہتے تھے ، اس حكمت كى وضاحت اس سے بھى ہوتى ہے كہ اپ نے كوئي ايك رشتہ بھى انصار سے قائم نہيں كيا ، كيونكہ انصار كى بيوہ عورتيں خود اپنے گھر اور ٹھكانے ميں تھيں ، اپنے خاندان ميں تھيں ، ان كو كسى سرپرستى يا معاشى تعاون كى ضرورت نہيں تھى ، بلكہ انصار ہى نے مكہ كے مہاجروں كى مالى مدد كى ، انھيں گھر ، لباس اور كھانا ديا ، ان تمام شاديوں سے رسول خدا كى حكمت عملى روشن ہے صرف دو مواقع ہيں جنكے تجزيے كى ضرورت ہے ، پہلى تو عائشه سے اپ كى شادى ، كيونكہ رسول خدا نے ان سے نو سال پورے ہوتے ہى ازدواج فرمايا ،اور خود ہى يہ رواج موجودہ عادات كے مخالف ہے ،اور جو لوگ شھرى زندگى بسر كرتے ہيں ان كے خصوصيات سے ميل نہيں كھاتا _

اس اعتراض كے جواب ميں اول تو ہم يہ كہيں گے كہ اس عہد كے زمانى و مكانى حالت كو اج كے زمانى و مكانى حالت پر قياس كرنا غلط ہے ، ہم يہ بھى كہيں گے كہ خود رسول ہى نے ايسى كم عمر ميں شادى نہيں كى ، بلكہ اپ نے بھى اپنى پيارى بيٹى كا عقد نو سال ہى كى عمر ميں كيا ،اور يہ بات اسلامى قانونى لحاظ سے صحيح ہے دوسرے يہ كہ انسان كى فطرت ہے كہ گرم شہروں ميں جلد بالغ ہو جاتا ہے اور جلد ہى ٹوٹ پھوٹ بھى جاتا ہے ، يہ چيز اج ہندوستان ميں ديكھى

۴۲

جا سكتى ہے ، وہاں كى اكثر لڑكياں جلد بالغ اور بچے والى ہو جاتى ہيں اور جلد ہى بوڑھى بھى ہوجاتى ہيں ، اسى كے مقابل تبتى كہساروں معاملہ اس كے الٹا ہے ، جيسا كہ كہا جاتا ہے وہاں مردوں كا سن كبھى كبھى دو سو سال تك پہونچ جاتا ہے اور سو سال ميں وہ جوان نظر اتا ہے _

دوسرا واقعہ زينب بنت جحش كے نكاح كا ہے ، جو رسول كے منھ بولے بيٹے اسامہ كى مطلقہ تھيں ، اس ازدواج كى حكمت ميں نے وہيں بيان كى ہے _

ان تمام تجزيوں سے رسول خدا كى متعدد ازواج كى حكمت واضح ہے پھر ان كے بارے ميں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اخر كيا بات ہوتى كہ رسول خدا كے خلاف بد گمانى اور غلط فہمى تعدد ازواج كے بارے ميں پيدا ہو گئي ، اس سوال كا جواب يہ ہے كہ جس وقت ہم نے حديث و سيرت كے تجزيے كئے تو ہم نے ديكھا كہ تمام غلط فہمياں صرف اور صرف ان حديثوں سے رسول خدا كے عورت باز ہونے كى نشان دہى ہوتى ہے ، اور خود يہى اہم ترين مسئلہ اس كتاب كے لكھنے كا سبب بنا ہے _

ايندہ فصلوں ميں ہم بعض روايات پر بحث كريں گے _

عائشه رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں

رشك، و غيرت

ہم نے بتايا كہ عائشه نفسياتى اعتبار سے بلند پرواز جاہ طلب ، تند خو اور شوھر كے لئے دل ميں رشك برتنے والى تھيں ، وہ شوہر كے دل ميں دوسرے كو جاگزيں نہيں ديكھ سكتى تھيں _

ان كے شديد غيرت و حسد كا نمونہ اس وقت نظر اتا ہے جب رسول خدا نے وقتى مصلحت كے تحت دوسرى شادى كى _

عائشه كا حسد اس وقت سامنے اتا ہے جب ام سلمہ زينب اور دوسرى خواتين رسول كے گھر ميں ائيں ، اس دور ميں ان لوگوں كا نام درميان ميں اتا ہے اور بے جھجھك اپنے اندرونى احساسات كو بغير كسى پردہ پوشى كے ظاہر كيا ہے ، اور اپنى شديد غيرت كو لچر اور بے بنياد خيالات ميں بيان كيا ہے _ خاص كر ان راتوں ميں جب رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا عبادت كے لئے گھر سے نكلتے ہيں ، رسول خدا اندھيرى راتوں ميں جس وقت كے تمام دينا سكون و اطميان سے سو رہى ہوتى

۴۳

اپنے خدا سے راز و نياز ميں مصروف ہو جاتے ، كچھ رات گذرتى تو خداسے خلوت و عبادت كرتے ، اس قسم كى عبادت كا اقدام اسطرح ہوتا كہ رسول خدا كى ہر رات كسى زوجہ كيلئے مخصوص ہوتى ، يہى وجہ تھى كہ كچھ رات گذرنے كے بعد گھر سے باہر نكلتے جيسے مسجد ميں يا بقيع كے قبرستان ميں جاتے ، اور وہيں عبادت كرتے ، اسى طرح ايك رات جبكہ عائشه كى بارى تھى ، رسول خدا كو انھيں كے گھر رہنا تھا ، جس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے كچھ رات گذرنے كے بعد عبادت كے لئے گھر سے قدم نكالا عائشه كى نسوانى رشك و غيرت بھڑك اٹھى ، انھوں نے رسول خدا كا تعاقب كيا ، ان كے پيچھے پيچھے چليں تاكہ يہ ديكھيں كہ رسول خدا كہاں جا رہے ہيں اور كيا كر رہے ہيں ؟

عائشه نے خود ہى مختلف مواقع اور مختلف راتوں ميں اس تعاقب كے نمونے بيان كئے ہيں ، ايئےم انھيں كى زبانى سنيں _

راتوں كا تعاقب

عائشه كہتى ہيں ، ايك رات ميں نے محسوس كيا كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنے بستر پر نہيں ہيں ، ميرے غم و غصے سے بھرے و سوسے اور خيالات نے اس گمان پر مجبوركيا كہ يقينى طور سے كسى دوسرى عورت كے يہاں گئے ہيں ، يہ سوچكر ميں اپنى جگہ سے اٹھى اور انھيں تلاش كرنے لگى كہ ناگاہ انھيں مسجد ميں پايا ، وہ مسجد ميں پڑے فرما رہے تھے _

ربّ اغفرلى (خدا يا مجھے بخش دے )(۲) _

ايك اور جگہ فرماتى ہيں :

ميں نے ايك رات ديكھا كہ پيغمبر اپنے بستر پر نہيں ہيں ميں نے دل ميں سوچا كہ يقينا كسى دوسرى زوجہ كے يہاں گئے ہيں ، كان كھڑے كر كے ادھر ادھر تلاش كرنے لگى ناگہاں ديكھا كہ بارگاہ خدا وندى ميں ركوع كر رہے ہيں(۳)

ان كا يہ بھى بيان ہے كہ ميں نے ايك رات اپ كو اپنے بستر پر نہيں پايا ، انھيں ڈھونڈھنے كيلئے اپنى جگہ سے اٹھى اور

____________________

۲_ مسند احمد ج۶ /ص ۱۴۷

۳_ مسند احمد ج۶ص ۱۵۱

۴۴

تاريك رات ميں ہر طرف بے اختيار ہاتھ چلانے لگى اچانك ميرا ہاتھ ان كے تلوے پر پڑ گيا ، وہ مسجد كے اندر بارگاہ خدا وندى ميں سجدہ كى حالت ميں فرما رہے تھے(۴) _

اسى طرح وہ فرماتى ہيں :

ايك رات ميرى بارى تھى كہ رسول خدا ميرے گھر رات بسر كريں ، اپ نے عباء دوش سے اتار كر ايك طرف ڈالا ، جوتے ڈھونڈ ھكر بستر كے نزديك پيروں كے پاس ڈالا اسوقت اپنے چادر منھ پر ڈالى اور ليٹ گئے ، دير تك ايسے ہى رہے اس حد تك كہ اندازہ كر ليا كہ ميں سو گئي ہوں پھر اپ اپنى جگہ سے اٹھے دھيرے سے اپنى عبا اٹھائي اسطرح جوتے پہنے كہ اواز نہ ہو ، پھر اپ نے كواڑكھولى اور گھر سے اسطرح نكلے كہ پيروں كى چاپ بھى نہ سنائي دے ، ميں بغير كچھ سونچے اپنى جگہ سے اٹھى ، اپنے كپڑے پہنے ، اوڑھنى سر پر ڈالى اس پر عبا كھينچ كر تيزى كے ساتھ گھر سے نكلى اور ان كا پيچھا كرنے لگى ،ميں نے انھيں بقيع كے قبرستان ميں پايا ، رسول خدا وہاں بيٹھے اور كافى دير ٹھرے رہے پھر ميں نے ديكھا كہ تين بار ہاتھوں كو اسمان كى طرف بلند كيا ،پھر واپس ہوئے ميں بھى واپس ہوئي ،وہ تيز بڑھنے لگے ،ميں بھى تيز چلنے لگى ،وہ اور تيزى سے قدم بڑھائے ميں نے بھى ايسا ہى كيا ، وہ دوڑنے لگے تو ميں بھى دوڑى ، اخر كار ان سے پہلے گھر ميں اگئي اور بس اتنى دير كہ اپنے كپڑے اتار لے اور ليٹ گئي ، اتنے ميں رسول خدا اگئے ، اس وقت ميرى سانس پھول رہى تھى رسول خدا نے فرمايا ، اس طرح تيز سانسيں كيوں لے رہى ہو؟

كچھ نہيں ، اے خدا كے رسول

تم خود كہو گى يا ميرا واقفكار خدا اس راز سے اگاہ كرے گا ؟

ميرے ماں باپ فدا ہوں ، بات اصل ميں ايسى اور ايسى تھي

اچھا تو وہ سياہى جو ميرے اگے اگے تھى وہ تم تھيں ؟

جى ہاں _اسوقت رسول خدا نے ہتھيلى سے ميرى پشت پر اسقدر زور سے مارا كہ درد ہونے لگا _

تو نے ايسا گمان كيا تھا كہ خدا و رسول تيرے اوپر ظلم كريں گے ؟(۵)

____________________

۴_ مسند احمد ج۶ ص۵۸ و ج۶ ص۲۰۱

۵_ مسند احمد ج۶ ص۲۱ ۲

۴۵

يہ بھى بيان ہے :

ايك رات رسول خدا ميرے پاس سے نكل كھڑے ہوئے ميرى غيرت اور حسد خويش ميں ايا ، غصے ميں بھر گئي ، جب انحضڑت واپس ائے اور ميرا حال ديكھا تو وجہ پوچھى ، اور فرمايا عائشه تجھے كيا ہوگيا ہے پھر بھى تو حسد اور غصہ كرتى ہے _

اخر ميرے جيسى اپ جيسے كى حسد كيوں نہ كرے _

تو پھر اپنے شيطان كے جال ميں پھنس گئي ہے(۶)

يہ بھى بيان ہے :

جب كچھ رات گذر گئي ، رسول خدا اٹھے اور گھر سے نكل گئے ميں نے گمان كيا كہ كسى زوجہ كے گھر گئے ہوں گے _

پھر ميں اٹھى اور دھيرے دھيرے ان كا پيچھا كرنے لگى ، يہاں تك كہ اپ بقيع كے قبرستان ميں گئے ، وہاں اپ بيٹھ گئے ، اور ان مومنوں سے جو ابدى نيند سوئے ہوئے تھے خطاب فرمايا :

اے گروہ مومنين تم پرصلوات

اچانك اپ مڑے تو مجھے اپنا پيچھا كرتے پايا تو فرمايا :

وائے ہو اس پر ، اگر قابو چلے تو كيا كيا كر گذرے(۷)

عائشه اور ديگر ازواج رسول (ص)

مد بھيڑ _سوتاپا

ام المومنين عائشه سے رنگ و صورت سے رشك و حسد اور نسوانى غيرت ، اور بد خلقى ظاہر ہوئي ہے ، جس كے نمونے دوسرى ازواج رسول كے لئے اپے سے باہر ہونے ، برتن توڑنے اور كھانوں كو پھينكنے ، چال ڈھال كے ڈھنگ اور مد بھيڑوں ميں نظر اتے ہيں ، ميں نے ان دونوں باتوں كى الگ الگ طريقے سے بحث و تحقيق كى ہے ، پہلے عائشه كے رد عمل كو پيش كرونگا كہ دوسرى خواتين نے رسول خدا كے لئے كھانا تيار كر كے خدمت ميں حاضر كيا تو عائشه كا رد عمل كيا ہوا ، اسكے بعد دوسرى ازواج رسول سے انكى مد بھيڑوں كو مورد بحث و تحقيق قرار دوں گا _

____________________

۶_مسند احمد ج۶ ص ۱۱۵

۷_ مسند احمد ,ج۶صفحات ۸۶ و ۱۱۱, بروايت قاسم مسند طيالمى حديث ۱۴۲۹

۴۶

بد حواسياں

فلما رايت الجاريه اخذتنى رعدة حتى استقلنى افكل ، فضربت القصعة فرميت بها

ميں نے جيسے ہى كھانے لئے ہوئي كنيز كو ديكھا تو ميں تھر تھر كانپنے لگى ، پھر تو ميں نے بد حواسى ميں كھانے كا برتن تھاما اور دور پھينك ديا _

اتفاق ايسا ہوا كہ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عائشه كے گھر ميں تھے ، ايك دوسرى زوجہ نے اپ كے لئے كھانا تيار كر كے بھيجا اس وقت ام المومنين قابو سے باہر ہو گئيں اور شديد رد عمل ميں ايسا غصہ دكھايا كہ اسكے نمونے يہاں پيش كئے جاتے ہيں

عائشه اور ام سلمہ كى غذا

ايك دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عائشه كے گھر ميں تھے ام سلمہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے كھانا تيار كر كے ايك برتن ميں ركھ كر بھيجا ، عائشه كو پہلے يہ ام سلمہ كى ہى يہ خوش خدمتى معلوم ہو گئي تھى وہ خود كو عبا ميں لپيٹے ہوئي تھيں ، ہاتھ ميں پتھر تھا ،اسى پتھر سے كھانے كے برتن كو ايسا مارا كہ برتن ٹوٹ گيا ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عائشه كى يہ حركت ديكھى تو اس برتن كے بدلے دوسرا برتن ام سلمہ كے لئے بھيج ديا(۸)

عائشه اور حفصہ كا كھانا

خود ہى عائشه كا بيان ہے:

ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے لئے كھانا تيار كيا تھا ، اتنے ميں مجھے خبر ملى كہ حفصہ نے بھى ايسا ہى كيا ہے ، ميں نے اپنى كنيز كو حكم ديا كہ تيار رہو اگر ديكھنا كہ حفصہ مجھ سے پہلے كھانا لے ائي ہے تو اس سے چھين كر دور پھينك دينا ، كنيز حكم بجا لائي اور ايسا ہى كيا ، نتيجے ميں حفصہ كے كھانے كا برتن ٹوٹ گيا اور جو كچھ برتن ميں تھا چرمى دستر خوان پر بكھر گيا ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بذات خود گرے ہوئے كھانے كو جمع كر كے مجھ سے فرمايا :

اپنا برتن لائو اور حفصہ كے ٹوٹے برتن كے بدلے اسے بھيج دو(۹)

____________________

۸ _ صحيح مسلم باب الغيرة

۹_ مسند احمد ج۶ /۱۱۱،و كنزالعمال ج۴ ,ص۴۴

۴۷

عائشه اور صفيہ كا كھانا

صفيہ كا تعارف گذشتہ صفحات ميں كيا گيا ، اب ذرا ام المومنين عائشه كے بارے ميں بھى سنئے ، خود عائشه كى زبانى كھانے كا برتن دور پھينكنا اور صفيہ كا برتن ٹوٹنا ملاحظہ فرمايئے عائشه كہتى ہيں :

ايك دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ميرے گھر ميں تھے ، صفيہ نے كھانا پكا كر انحضرت كى خدمت ميں بھيجا ، جب ميں نے كھانا لئے ہوئے كنيز كو ديكھا تو ميرے جسم مين لرزہ پڑ گيا يہاں تك كہ ميں نے بد حواسى ميں كھانے كا برتن چھين كر دور پھينك ديا ، ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى انكھيں غصے سے لال ديكھيں ان كے تمام وجود سے غم و غصہ جھلك رہا تھا ، ميں نے فوڑاً كہا :

رسول خدا كے غصے سے حضرت كى پناہ چاہتى ہوں ، مجھے اميد ہے كہ نفرين نہ فرمائيں گے ، تو بہ كرو _

اب ميں اس عمل كى تلافى كيسے كروں ؟

ويسا ہى كھانا بھيجو اور ويسا ہى برتن فراہم كر كے بدلے ميں بھيجو(۱۰) _

مد بھيڑيں

تغار على قلب زوجها ، فلا تريد ان تشاركها فيه انثى غيرها

عائشه اپنے شوہر پر بہت حاسد تھيں يہ حداست تھا كہ اپنے سوا دوسرى عورت كے لئے شوہر كے دل ميں ذرا گنجائشے نہيں ديكھ سكتى تھيں اب موقع ہے كہ ديگر ازواج رسول سے ام المومنين عائشه كى تند مد بھيڑوں اور گرما گرم اقدامات كا مطالبہ كيا جائے_

عائشه و صفيہ

عائشه اور صفيہ ايك گھر يلو مد بھيڑ ميں ايك دوسرے كے ساتھ بد كلامى كرنے لگيں طعنہ زنى كے ساتھ مار پيٹ كرنے لگيں _

جب رسول خدا كو ان دونوں كے جھگڑے اور دعوے كى خبر ہوئي تو صفيہ سے فرمايا جو عائشه كى ملامت اور ڈينگو ں سے سخت رنجيدہ تھيں تم نے يہ كيوں نہ كہا كہ ميرے باپ ہارون تھے اور چچا حضرت موسى تھے ؟(۱۱)

____________________

۱۰_ مسند احمد ج ۶ ص ۲۷۷ ،۱۴۴_ نسائي ج۲ ص ۱۵۹، سيرة حلبيہ ۲۸۳ ،۲۸۴

۱۱_ طبقات ابن سعد ج,۸

۴۸

خود عائشه كا بيان ہے :

ميں نے رسول خدا سے شكايت كرتے ہوئے كہا كہ صفيہ ايسى اور ويسى ہے ، ميں نے اسكى بڑى مذمت كى رسول خدا نے ميرا جواب ديا :

صفيہ كے بارے ميں تم نے ايسى باتيں كہى ہيں كہ اس سے سمندر بھى گندہ ہو جائے(۱۲)

صفيہ كا بيان ہے :

ميں رسول خدا كى خدمت ميں روتى ہوئي پہونچى ،مجھے روتے ہوئے ديكھا تو فرمايا :

جس كى بيٹى كيو ں رورہى ہو؟

ميں نے سنا ہے كہ عائشه و صفيہ بيٹھ كر ميرى برائياں كرتى ہيں(۱۳)

سودہ كے ساتھ

ام المومنين عائشه كا سودہ كے ساتھ دعوى اور تھپڑ بازى كا قصہ يوںپيش ايا كہ ايك دن عائشه نے سودہ كوشعر گنگنا تے ہوئے سن ليا ،عدى و تيم تبتغى من تحالف_

عدى اور تيم (دونوں كے نام ہيں ) اس بات كے در پے ہيں كہ ايك دوسرے كے ساتھ تعاون كے ہم پيمان ہوں _

سودہ سے يہ شعر سن كر ام المومنين لال بھبھوكا سرخ انگارہ ہوگئيں _

عمر كى بيٹى حفصہ سے كہا :

سودہ اپنے شعر سے ميرى اور تمھارى مذمت كر رہى ہے(۱۴) ميں اس بد تميزى كى سزا دونگى جب تم ديكھنا كہ ميں سودہ كا گلا دبا ديا ہے تو ميرى مدد كو اجانا _

پھر وہ اٹھيں اور سودہ كے پاس پہونچى ان كا گريبان پكڑ ليا ، اور ان كے اوپر گھونسے اور لاتيںبرسانے لگيں ، حفصہ بھى ام المومنين كى پشتيبانى ميں كھڑى تھيں ، ام سلمہ نے يہ منظر ديكھا تو سودہ كى مدد كرنے پہونچ گئيں _

____________________

۱۲_ ترمذى بحوالہ زر كشى اجابہ ص۷۳

۱۳_ مستدرك الصحيحين ج۴ ، ص۲۹

۱۴_ جيسا كہ بيان كيا گيا عائشہ قبيلہء تيم سے تھيں اور حفصہ قبيلہء عدى سے يہ دونوں تيم و عدى قبيلے الگ الگ قريش كے قبيلے تھے

۴۹

اب تو چار عورتيں غصے اور كينہ توزى كا مظاہرہ كر رہى تھيں ، نتيجے ميں گھوسے بازى سے اواز تيز ہوتى گئي ، لوگوں نے رسول خدا كو خبر دى كہ اپ كے ازواج جان لينے دينے پر امادہ ہيں ، انحضرت تشريف لائے اور ان سے خطاب فرمايا :

تم سب پر افسوس ہے اخر تم لوگوں كو كيا ہو گيا ہے ؟

عائشه نے جواب ديا :

خدا كے رسول اپ نے سنا نہيں كہ سودہ يہ شعر پڑھ رہى ہے عدى و تيم تبتغى من تحالف _

وائے ہو تم پر ، اس شعر مين تمھارے قبيلہ تيم كى طرف نہيں ہے نہ حفصہ كے قبيلہ عدى كى طرف اشارہ ہے ، بلكہ يہ تو بنى تيم كے دو قبيلوں كى طرف اشارہ ہے _

بے مہر يہ عورتوں كے ساتھ

عائشه كا بيان ہے:

ايسى عورتوں پر جو بغير مہر لئے اپنے كو رسول خدا كيلئے پيش كرتيں اور اپ كى زوجہ بننے كى خواہشمند ہوتيں ، ميرا خون

جوش مارنے لگتا ، مارے غصے كے ميں ان سے كہتى ، كيا ازاد اور اہميت والى عورت بھى خود كو دوسروں كے لئے بخشتى ہے ؟

خاص طور سے ايسے وقت جبكہ يہ آيت نازل ہوئي ،اپنى ازواج ميں سے جسے چاہو الگ كردو اور جسے چاہو اپنے لئے ركھو ، تمھارے اوپر كوئي گناہ نہيں (سورہ احزاب آيت ۵۰_ ۵۱)

ميں نے رسول خدا كى طرف رخ كر كے كہا ، ميں ديكھ رہى ہوں كہ خدا بھى اپ كى خواہش كے مطابق آيت اتار ديتا ہے(۱۵)

ابن سعد نے اپنى طبقات ميں تفصيلى طور سے خواتين كے بارے ميں جنھوں نے بغير مہر لئے اپنے كو رسول كے لئے پيش كيا ، اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زوجہ بننے كى خواہش كى ان كے بارے ميں قلم فرسائي كى ہے ، خاص طور سے اس خاتون كے لئے جن كے بارے ميں ابھى اشارہ كيا گيا ، اسكا نام شريك اورغزيہ بتايا ہے(۱۶) اسى بات كو ابن حجر نے بھى كتاب اصابہ ميں تفصيل سے لكھا ہے(۱۷)

____________________

۱۵_ صحيح بخارى تفسير سورہ احزاب ميں ج۳ ص۱۱۸_ صحيح مسلم ج۴ ص ۲۷۴

۱۶_ طبقات بن سعدج ۸ص ۱۵۴_۱۵۶

۱۷_ اصابہ ابن حجر ج۴ ص ۳۶۱و ۱۷۴

۵۰

ليكن بطور كلى علماء نے ان متذكرہ خاتون كے بارے ميں جسكى طرف قران نے اشارہ كيا ہے ، اختلاف كيا ہے ، اور يہ اختلاف اس صورت سے ہے كہ جس خاتون يا جن خواتين نے اپنے كو بے مہر لئے خدمت رسالت ميں پيش كيا اور ام المومنين عائشه كے غم و غصے كا شكار ہوئيں وہ ايك ہيں يا كئي عورتيں ہيں ، اگر چہ آيت صرف ايك عورت كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ، افسوسناك بات تو يہ ہے كہ اس خاتون كے نام كى اج تك نشاندہى نہيں ہو سكى _

ليكن اس دليل سے كہ عائشه نے جن خواتين كيلئے غم و غصہ ظاہر كيا اسے جمع كے لفظ سے بيان كيا ہے (كنت انحا ء على اللائي و هبن )

( ميں ان عورتوں پر جو بے مہر لئے )اس سے ثابت ہوتا ہے كہ وہ كئي خواتين تھيں امام احمد نے اپنى مسند ميں اس بات كو جمع كى ضمير كے ساتھ ام المومنين كى طرف نسبت دى ہے _

وہ (عائشه )ان عورتوں كو ملامت كرنے لگيں جنہوں نے اپنے كو بغير مہر لئے رسول كى خدمت ميں پيش كيا(۱۸)

مسلم نے اپنى صحيح ميں ھشام كى روايت نقل كى ہے كہ خولہ بنت حكيم ان عورتوں ميں تھيں جنھوں نے بغير مہر لئے رسول

سے ازدواج كى خواہش ظاہر كى ، اور اپنے كو رسول كے لئے بخشا ، عائشه اس بات پر بہت غصہ ہوئيں اور كہاكيا يہ عورت كيلئے شرمناك نہيں ہے كہ خود كو كسى مرد كيلئے بخشے اور بغير مہر كے ازدواج كى خواہش كرے(۱۹)

مليكہ كے ساتھ

رسول خدا نے فتح مكہ كے بعد مليكہ بنت كعب سے عقد فرمايا ، مليكہ كے باپ كعب فتح مكہ كے موقع پر خالد كے ہاتھوں قتل ہوئے تھے _

كہتے ہيں كہ مليكہ انتہائي حسين و خوبصورت عورت تھى ، گويا اس وصال سے عائشه كا نفرت و عناد بر انگيختہ ہونا بنيادى بات ہو سكتى ہے كيونكہ عائشه اپنى خاص موقع شناسى اور نسوانى تندى احساس لئے ہوئے مليكہ سے مليں اور كہا ، تمھيں شرم نہيں اتى كہ اپنے باپ كے قاتل كو شوہر بنا ليا ہے ؟

____________________

۱۸_ مسند احمد ج۴ ص ۱۳۴ _ صحيح بخارى ج۴ ص ۱۶۲ - ابن ھشام ج۴ ص ۳۲۵ _

۱۹_ صحيح مسلم ج۳ ص ۱۶۳

۵۱

مليكہ اسانى سے عائشه كى اس سرزنش كا شكار ہوگئيں اور ايسا دھوكہ كھايا كہ رسول خدا سے الگ ہو گئيں ، رسول خدا نے بھى انھيں طلاق ديدى اس كے رشتہ دار رسول خدا كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ :

اے خدا كے رسول وہ ابھى نوجوان ہے ، وہ دھوكہ كھا گئي ہے ، اس سے جو رد عمل ظاہر ہوا ہے اس كى اپنى رائے سے نہيں ہوا ہے اسے معاف كر ديجئے اور واپس بلا ليجئے ، ليكن رسول خدا نے اسے قبو ل نہ فرمايا(۲۰)

اسماء كے ساتھ

اسماء بنت لقمان قبيلہ كندہ كى خاتون تھيں ، وہ خاص طور سے عائشه كے رشك و حسد كا شكار ہوئيں ، رسول خدا نے اسماء سے عقد فرمايا عائشه تو اس قسم كى باتوں ميں سخت حساس ہو ہى جاتى تھيں اسكى مسافر ت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قبضے ميں كر ليا اور طعنہ ديا كہ ،

( اب دوسرى بار اوارہ وطن ہے اور انھيں بھى ہم سے چھين كر اپنے لئے خاص ، ہم سے لے لى )

قبيلہ كندہ كا ايك وفد جسميں اسماء كا باپ لقمان بھى تھا ، رسول خدا كى خدمت ميں ايا رسول خدا نے ان سے اسماء كى خواستگارى كى جب رسول كى ازواج نے اسماء كو ديكھا تو رشك كرنے لگيں اور رسول كى نظر سے گرانے كے لئے مكارى سے بوليں ،اگر خوش قسمت بننا چاہتى ہو تو جسوقت رسول خدا تمھارے پاس ائيں ان سے كہو ،تم سے خدا كى پناہ چاہتى ہوں اسماء اسانى سے دھوكہ كھا گئي ، جيسے ہى رسول خدا نے كمرے ميں قدم ركھا اور اس كى طرف بڑھے ، اسماء نے كہا :

تم سے خدا كى پناہ چاہتى ہوں

جو بھى خدا كى پناہ طلب كرے ، وہ اسكى امان ميں ہے ، اب تم اپنے گھر واپس جائو ، اپ غصے ميں بھرے كمرے سے باہر نكل ائے اسماء كا واقعہ حمزہ بن ابواسيد ساعدى اپنے باپ سے روايت كرتے ہوئے اسطرح نقل كرتے ہيں ، رسول خدا نے قبيلہ جون و كندہ كى اسماء بنت نعمان سے عقد كيا ، مجھے بھيجا كہ اسے جاكر لے ائوں وہ ائي تو عائشه و حفصہ نے سازش كى كہ اسے ايك خضاب كرے اور دوسرى سر ميں كنگھى كرے اسى درميان دونوں ميں سے كسى نے ايك نے اسماء سے كہا :

____________________

۲۰_ طبقات ابن سعد ج۸ ص ۱۴۸_ تاريخ ذھبى ج۱ ص ۳۳۵ _ تاريخ ابن كثيرہ ج۵ ص ۱۹۹ _ اصابہ ج۴ ص ۳۹۲

۵۲

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس عورت سے خوش ہوتے ہيں جو كہتى ہے كہ ميں خدا كى پناہ طلب كرتى ہوں ، تم بھى اگر انكى پيارى بننا چاہتى ہو تو ايسا ہى كہو ،رسول خدا اسماء كے پاس ائے تو جيسا اسے پڑھايا گيا تھا اس نے رسول خدا سے كہا ، اپ سے خدا كى پناہ طلب كرتى ہوں ،يہ سنتے ہى رسول خدا نے استين سے اپنا منھ چھپا كر تين بار فرمايا:

تو نے سب سے بڑى پناہ پكڑى ، پھر اپ كمرے سے باہر اگئے اور مجھ سے فرمايا :

ابو اسيد اسكو اسكے خاندان ميں واپس پہونچا دو اور دو روٹى بھر كے تھيلے بطور تحفہ ديدينا اسماء اس اچانك واقعے سے سناٹے ميں تھى ، جو فريب ديا گيا تھا ،اسكى وجہ سے بہت رنجيدہ تھى عمر بھر اس واقع كو ياد كرتى رہى ، وہ كہتى تھى اب مجھے اسماء نہ كہا كرو بلكہ بد بخت كہا كرو اور اسطرح پكا را كرو ادعونى الشقية (ميرے لئے بد بخت كو بلا دو )(۲۱)

اس واقع سے معلوم ہوتا ہے كہ جن خواتين نےام المومنين كے سكھانے پڑھانے سے خدا كى پناہ طلب كى وہ ايك سے زيادہ تھيں _

____________________

۲۱_ ذيل المذيل طبرى ج۱۲ ص۷۹ و مستدرك حاكم ج۷ ص۳۴ _ استيعاب ج۲ ص ۷۰۳ _ اصابہ ج۳ ص ۵۳۰ ۹۵ ميں ہے كہ اسماء تمام عمر خون تھوكتى رہى اسے دق ہو گئي تھى اور وہ مر گئي _

۵۳

ماريہ كے ساتھ

اسكندريہ كے حكمراں مقوقس ۷ھ اپنے بوڑھے بھائي مابور كے ساتھ ماريہ اور اسكى بہن شيريں كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے ايلچى حاطب(۱) بن بلتعہ كے ساتھ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں ہديہ بھيجا ، انھيں كے ساتھ ہزار مثقال سونا ، بيس ريشمى كپڑے ، مشھور خچر دلدل اور عفير نام كا گدھا روانہ كيا ، حاطب نے راستے ميں ماريہ اور شيريں كو اسلام قبول كرنے كيلئے كہا ان دونوں نے خوشى سے اسلام قبول كر ليا ، ليكن مابور مدينہ پہونچنے تك اپنے دين پر باقى تھا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماريہ كو اپنے لئے مخصوص فرماليا اور انھيں محلہ عاليہ(۲) كے ايك گھر جو اج مشربہ ام ابراہيم كے نام سے مشھور ہے ركھا ازاد عورتوں كى طرح انھيں حجاب ميں ركھا اور ان سے ازدواج فرمايا ،ماريہ كو حمل ٹھرا اور اسى گھر ميں لڑكا پيدا ہوا جس وقت ابراہيم پيدا ہوئے انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كنيز سلمى(۳) نے دايہ كے فرائض انجام دئے ، سلمى كے شوہر ابو رافع نے جب انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو فرزند ابراہيم كے ولادت كى خوشخبرى سنائي تو اپ نے خوشى ميں انھيں انعام ديا _

ابراہيم كى ولادت ۸ھ ميں ہوئي ، انصار كو اس سے بڑى خوشى ہوئي تھى انھوں نے ماريہ كى ضرورت پورى كرنے ميں ايك دوسرے سے بارى لے جانے كى كوشش كى اور بوجھ بٹانے كى ہر ممكن سعى كى ، كيونكہ وہ ماريہ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا والہانہ تعلق ديكھ رہے تھے _

اس لئے دوسرى ازواج كو جب ولادت ابراہيم كى خبر معلوم ہوئي تو ماريہ سے ان كا رشك و حسد بڑھ گيا ، وہ جل بھن گئيں ، انھوں نے اعتراض و شكايت كى زبانيں بھى كھول ديں ، ليكن اس طعن و ميں كوئي بھى عائشه سے اگے نہ بڑھ سكا _(۴)

____________________

۱_ حاطب كا نام عمر بن عمير اور كنيت ابو عبد اللہ تھى _ قبيلہ لخم كے تھے رسول نے انہيں ۶ھ ميں مقوقس كے پاس بھيجا _ مقوقس نے ماريہ اور شيريں و ديگر ہدايا كے ساتھ روانہ كيا _ حاطب كى ۳۱ھ ميں مدينہ ميں وفات ہوئي _ عثمان نے انكى نماز جنازہ پڑھائي _ اسد الغابہ _ اصابہ اور استيعاب ديكھئے

۲_ مدينے كے بالائي حصہ كو عاليہ كہتے _ وہاں قبيلہ بنى نظير رہتا تھا

۳_ زوجہء رسول صفيہ كى كنيز سلمى تھيں_ وہ جنگ خيبر ميں موجود تھيں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ عليھا كى دايہ كے فرائض بھى انجام دئے تھے _ انہوں نے غسل فاطمہ ميں بھى شركت كى تھى

۴_ طبقات بن سعد ج۱ ص ۱۳۴

۵۴

خود عائشه كا بيان :

مجھے ماريہ سے زيادہ كسى عورت پر رشك و حسد نہيں ہوا ، ماريہ بہت حسين تھى ، اسكے بال گھونگھريالے تھے ، جو ديكھتا ديكھتا ہى رہ جاتا ، اس پر مزيد يہ كہ رسول خدا اس سے بہت محبت كرتے تھے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شروع ميں ماريہ كو حارثہ(۵) بن نعمان كے گھر ميں ركھا اور جب ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى اس سے والہانہ محبت ديكھى تو ماريہ كى مخالفت ميں جٹ گئي ، اس قدر ستايا كہ ماريہ نے مجھ سے تنگ اكر رسول سے شكايت كى ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھى اسے عاليہ كے مكان ميں منتقل كر ديا اور وہيں اسكے پاس جاتے ،يہ تو ميرے اوپر اور بھى گراں گذرا خاص طور سے ميرى اتش رنج اور جلن اتنى بڑھى كہ خدا نے اسے لڑكا بھى ديديا ، حالانكہ خدا نے مجھے اولاد سے محروم ركھا وہ يہ بھى كہتى ہيں _

جب ابراہيم پيدا ہوئے ايك دن رسول خدا بچے كو ميرے پاس لائے اور فرمايا :

_ذرا ديكھوتو مجھ سے كس قدر شباھت ركھتا ہے

_ نہيں ، ہرگز ايسا نہيں ، ميں تو كوئي شباہت نہيں ديكھتي

_ كيا تم اسے ميرى طرح گورا نہيں ديكھ رہى ہو ،بالكل ميرے بدن كى طرح ہے_

_ ارے جسے بھى بكرى كا دودھ پلايا جائے گا سفيد اور موٹا ہوہى جائےگا_

عائشه اور حفصہ كى انہيں حركتوں اور سخت جلن كى وجہ سے خدا نے ماريہ كى برائت ميں سورہ تحريم نازل فرمائي موثق روايات كى بناء پر رسول خدا نے حفصہ كے گھر ميں ماريہ سے ہمبسترى فرمائي _ جب حفصہ كو اس كى خبر ہوئي تو بھڑك اٹھيں _لگيں انحضرت سے چلّا چلا كر گلا شكايتيں كرنے ، اس قدر اسمان سر پر اٹھا يا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حفصہ كى دلجوئي اور خوشنودى كے لئے ماريہ كو اپنے اوپر حرام كر ليا ، ليكن اسى كے ساتھ حفصہ سے كہا كہ يہ بات كسى سے نہ كہنا ، اور اس راز كو كسى دوسرے سے بيان نہ كرنا حفصہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تمام تاكيدوں كو قطعى نظر انداز كر ديا ، اس راز كو عائشه سے بيان كر ڈالا ، وہ بھى ايك تحريك ميں معاون ہو گئيں پھر تو دونوں كى عيارياں اور كج رفتارياں بڑھتى گئيں ، اخر كار ان دونوں كى سرزنش ميں سورہ تحريم نازل ہوئي اور خدا نے اس راز سے پردہ اٹھا يا _(۶)

____________________

۵_ حارثہ قبيلہ بنى نجار سے تھے _ جنگ بدر اور بعد كى دوسرى جنگوں ميں شريك رہے حارثہ كى خلافت معاويہ كى زمانے ميں وفات ہوئي _ اسد الغابہ ج۱ ص ۳۵۸ _ اصابہ ج۱ ص ۱۵۳۲

۶_ طبقات بن سعد ج۸ ص ۱۳۴

۵۵

سورہ تحريم

خدا كے نام سے جو بخشنے والا اور مہربان ہے

اے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم كيوں اس چيز كو حرام كرتے ہو جسے خدا نے تمھارے لئے حلال كى ہے ، تم اپنى بيويوں كى خوشى چاہتے ہو ؟اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے _

اللہ نے تم لوگوں كے لئے اپنى قسموں كى پابندى سے نكلنے كا طريقہ مقرر كر ديا ہے ، اللہ تمھارا مولا ہے اور وہى دانا اور حكيم ہے _

اور جس وقت پيغمبر نے اپنى ايك بيوى (حفصہ ) سے راز كى ايك بات كہى تھى ، پھر جب اس بيوى نے اس راز كو (عائشه )پر راز ظاہر كر ديا ، خدا نے اس افشائے راز كو پيغمبر سے باخبر كر ديا (پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى ) اس پر كسى حد تك جو عائشه اور حفصہ كے درميان گذرى تھى تذكرے كے انداز ميں حفصہ سے بيان كيا اور بعض سے در گزر كيا ، پھر جب پيغمبر نے اس افشائے راز كى بات بتائي تو حفصہ نے پوچھا اپ كو اس كى كس نے خبر دى ؟ پيغمبر نے حفصہ كے جواب ميں فرمايا ، مجھے اس نے خبر دى ہے جو سب كچھ جانتا ہے اور اچھى طرح با خبر ہے

اگر تم دونوں (عائشه و حفصہ )خدا كى طرف واپس اتى ہو اور توبہ كرتى ہو تو تمہارے دل سيدھى راہ سے ہٹ گئے ہيں ، اور اگر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقابلے ميں تم نے باہم جتھہ بندى كى تو جان ركھو كہ اللہ اس كا مولى ہے اور اس كے بعد جبرئيل اور مومنوں ميں مرد صالح ہے ، اور سب ملائكہ اسكے ساتھى اور مددگار ہيں ،بعيد نہيں كہ اگر پيغمبر تم سب بيويوں كو طلاق ديدے تو اللہ اسے ايسى بيوياں تمہارے بدلے ميں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں ، سچى مسلمان ، با ايمان ، اطاعت گذار ، توبہ والى ، عبادت گذار اور روزہ دار ہوں خواہ شوہر ديدہ ہوں يا باكرہ _

۵۶

اے لوگو جو ايمان لائے ہو بچائو اپنے اپ كو اور اپنے اہل و عيال كو اس اگ سے جسكا ايندھن انسان اور پتھر ہوں گے ، جس پر نہايت تند خو اور سخت گير فرشتے مقرر ہوں گے ، جو كبھى اللہ كے حكم كى نافرمانى نہيں كرتے اور جو حكم بھى انھيں ديا جاتا ہے اسے بجالاتے ہيں _

اے كافرو اج معذرتيں پيش نہ كرو تمھيں تو ويسا ہى بدلہ ديا جا رہا ہے جيسے تم عمل كر رہے تھے _

اے لوگو جو ايمان لائے ہو ، اللہ سے توبہ كرو ، خالص توبہ ، اميد ہے كہ اللہ تمہارى برائياں تم سے دور كر دے اور تمھيں ايسى جنتوں ميں داخل فرمادے جن كے نيچے نہر يں بہہ رہى ہوں گى ، يہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے پيغمبر كو اور ان لوگوں كو جو اس كے ساتھ ايمان لائے ہيں رسوا نہ كرے گا ان كا نور ان كے اگے اگے اور ان كے دائيں جانب دوڑ رہا ہو گا ، اور وہ كہہ رہے ہوں گے كہ اے ہمارے پروردگار ، ہمارا نور ہمارے لئے مكمل كر دے اور ہم سے درگزر فرما ، تو ہر چيز پر قدرت ركھتا ہے _

اے رسول ، كفار اور منافقين سے جہاد كرو اور ان كے ساتھ سختى سے پيش ائو ، ان كا ٹھكانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھكانا ہے _

اللہ كافروں كے معاملے ميں نوح اور لوط كى بيويوں كو بطور مثال پيش كرتا ہے وہ ہمارے دو صالح بندوں كى زوجيت ميں تھيں ، مگر انھوں نے اپنے شوھروں سے خيانت كى اور اللہ كے مقابلے ميں ان كے كچھ بھى نہ كام اسكے ، دونوں سے كہہ ديا گيا كہ جائو اگ ميں جانے والوں كے ساتھ تم بھى چلى جائو اور اہل ايمان كے مقابلے ميں اللہ فرعون كے بيوى كى مثال پيش كرتا ہے جبكہ اس نے دعا كى ،اے ميرے رب ، ميرے لئے اپنے يہاں جنت ميں ايك گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس كے عمل سے بچالے اور ظالم قوم سے مجھے نجات دے اور عمران كى بيٹى مريم كى مثال ديتا ہے جس نے اپنى عفت كى حفاظت كى پھر ہم نے اس كے اندر اپنى طرف سے روح پھونك دى اور اس نے اپنے رب كے ارشادات اور اسكى كتابوں كى تصديق كى اور وہ اطاعت گزار لوگوں ميں سے تھى _

سورہ تحريم ام المومنين عائشه بنت ابو بكر اور حفصہ بنت عمر بن خطا ب كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ، اس سلسلے ميں سيكڑوں حديثيں ابن عباس كے طريق سے اور خود عمر بن خطاب كے طريق سے وار د ہوئي ہيں جن سے اس حقيقت كا پتہ چلتا ہے_(۷)

اور ميں انشاء اللہ بعد كے صفحات ميں جہاں ام المومنين عائشه كى احاديث پر بحث كروں گا ، وہيں تفصيلى تبصرہ كروں گا _

____________________

۷_صحيح بخارى مطبوعہ مصر سال ۳۶_۳۷ جلد ۳/ ص۱۳۷ ،تفسير سورہء تحريم ، كتاب فضائل القران جلد ۳ / ص۱۳۸ ، اور باب موعظہ الرجل جلد ۳/ ص ۱۴۷ ،كتاب المظالم جلد ۴/ ص۴۷ ، صحيح مسلم الرضاع جلد ۱/ ۵۰۹ صحيح ترمذى ج۲ / ۴۰۹ ، مطبوعہ ہندوستان ، صحيح نسائي ج۱/ ص ۳۰۲ ، اسكے علاوہ تفسير طبرى اور در منثور بھى ديكھى جا سكتى ہے

۵۷

عائشه اور خديجہ كى ياديں

عائشه كا بيان ہے :

ازواج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ميں خديجہ سے زيادہ مجھے كسى پر بھى رشك و حسد نہيں ہوا ، وجہ يہ تھى كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انھيں بہت يا د كرتے تھے ہر وقت تعريف كرتے رہتے ، خصوصيت يہ تھى كہ خدا وند عالم نے اپنے پيغمبر كو وحى كے ذريعے خبر دى تھى كہ خديجہ كے لئے جنت ميں ايك پر شكوہ اور سجا سجايا محل عطا فرمايا ہے _(۸)

يہ بھى بيان ہے كہ_ حالانكہ ميں نے خديجہ كو نہيں ديكھا تھا ، پھر خديجہ سے زيادہ كسى پر بھى رشك و حسد نہيں ہوا ، كيونكہ اكثر ايسا ہوتا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خديجہ كى اچھائيوں كو ياد كرتے ، انكى تعريف و ستائشے كرتے ، اكثر اپ ايك گوسفند ان كے نام سے قربانى كرتے ،اسكى بوٹياں كركے تقسيم فرما ديتے(۹)

يہ بھى حكايت كرتى ہيں كہ :

ايك دن خديجہ كى بہن ہالہ بنت خويلد نے رسول خدا سے ملاقات كى اجازت مانگى ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جيسے ہى ہالہ كى اواز سنى ، خديجہ كى ياد اگئي اپ كى حالت شدت سے متغير ہوگئي اور بے اختيار فرمايا :

ہائے ميرے خدا ، ہالہ

يہ سنكر ميرى تو خديجہ سے جلن بھڑك اٹھى تھى ، فوراً كہا اپ اس بے دانت كى بڑھيا كو كتنا ياد كرتے رہتے ہيں ؟

زمانہ ہوا كہ وہ مر گئي اور خدا نے اس سے بہتر اپ كو عطا فرما ديا(۱۰)

ايك دوسرى روايت ميں يہى بات يوں بيان كى ہے _

ميرے اس اعتراض پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو ميں نے ديكھا كہ چہرہ بھڑك اٹھا ، چہرے كى حالت متغير ہو كر ويسى ہو گئي

____________________

۸_ بخارى ج۲ ص۲۷۷

۹_ بخارى ج۲ ص۲۱۰

۱۰_ حضرت خديجہ كے حالات زندگى ، فداكارياں ، امتيازى اور اہم ترين اخلاقى خصوصيات پر مستقل كتاب كى ضرورت ہے _ اپ كے حالات طبقات بن سعد ، استيعاب ، اسد الغابہ اور اصابہ كے علاوہ وہ بہت سى كتابيں ديكھنے كى ضرورت ہے _

۵۸

جيسى وحى نازل ہوتے وقت ہوتى ، جب اپ اسمانى حكم كے منتظر ہوتے كہ پيغام رحمت نازل ہوتا ہے يا عذاب(۱۱)

ايك دوسرى روايت ميں ہے _

عائشه كہتى ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ، نہيں ہرگز خدا وند عالم نے مجھے اسكے بدلے اس سے اچھى عورت نہيں دى ، كيونكہ جسوقت تمام لوگ ميرا انكار كررہے تھے ، وہ مجھ پر ايمان لائيں ، لوگ جب مجھے جھوٹا سمجھ رہے تھے ، خديجہ نے ميرى تصديق كى ، جب لوگوں نے مجھے مالى پريشانيوں ميں ڈالا تو انھوں نے اپنى بے حساب دولت ميں مجھے شريك كيا ، خدا نے دوسرى عورتوں سے مجھے اولاد نہيں دى ،خديجہ سے مجھے اولاد عطا فرمائي(۱۲)

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ہميشہ اپنى اس پہلى رفيقہ حيات كى اچھائيوں كو ياد كرتے ، انكى يادوں اور ياد گاروں كى تجديد فرماتے ، ان كے رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك فرماتے ، انھيں دوسروں پر مقدم كرتے انكى ياديں تمام زندگى پر محيط رہيں ، يہى وجہ تھى كہ ام المومنين كا سينہ ان كى نفرت و حسد و جلن سے بھر گيا تھا ، اسى وجہ سے جب بھى خديجہ كا نام اتا ، اپ انھيں ياد كرتے تو يہ اعتراض كى زبان كھول ديتيں سب سے بد تر يہ كہ وہ خديجہ كى تعريف سنكر اندوہ سے پاگل ہو جاتيں اپنے كو سرزنش و مذمت كا سزاوار پاتيں ، انھيں باتو ں كى وجہ سے خديجہ كى بيٹى حضرت فاطمہ اور ان كے بچوں سے روابط خراب تھے ، كيونكہ رسول خدا ان سے والہانہ پيار كرتے _

اسى دشمنى اور اندرونى نفرت كے اثرات كا اندازہ مسند احمد بن حنبل كى روايت سے ہوتا ہے جسے نعمان بن بشير نے بيان كيا ہے _

ايك دن ابو بكر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات كى اجازت چاہى اسى وقت انھوں نے كمرے سے عائشه كى اواز سنى جو چلا رہى تھيں _

خدا كى قسم ، ميں اچھى طرح جانتى ہوں كہ اپ على كو ميرے باپ سے زيادہ چاہتے ہيں

____________________

۱۱_ مسند احمد ج۶ ص ۱۵۰، ۱۵۴

۱۲_ مسند احمد ج۶ ص۱۱۷ ،وسنن ترمذى ص۲۴۷

۵۹

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے بارے ميں نفرت و عناد كا ايك گوشہ ايك تقرير ميں بيان فرمايا ، ليكن وہ ...عائشه ، اس نے عورتوں كے مزاج كے مطابق عقل كو طاق پر ركھ ديا ہے ، كينہ و عناد كے شرارت اپنے دل ميں اسطرح بھڑكا لئے ہيں جيسے لوہاروں كى بھٹى دھونكى جاتى ہے ، اگر اس سے كہا جائے كہ جو سلوك ،ميرے ساتھ كرتى ہے دوسرے كے ساتھ بھى كرے تو ہرگز پسند نہ كر يگى نہ مانے گى اخر امير المومنين نے بات اس پر ختم كى _

اسكے باوجود اسكے سابقہ احترامات محفوظ ہيں ، اسكے كرتوتوں كا بدلہ خدا ديگا ، وہ جسے چاہتا ہے بخش ديتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب ديتا ہے _

ابن ابى الحديد كى عبارت

و كانت تكثر الشكوى من عائشه ، و يغشا ها نساء المدينه فينقلن اليها كلمات عن عائشه _

فاطمہ كا دل عائشه كے طعنوں سے بھر اہوا تھا كيونكہ مدينے كى عورتيں اپ كے پاس اتيں اور طعنوں بھرى باتيں عائشه كى پہونچاتى رہتى تھيں ابن ابى الحديد :

حضرت على بن ابى طالبعليه‌السلام كے بيان كينہ ء عائشه كے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے كہ ابن ابى الحديد معتزلى كے بيان و شرح كو بھى بيان كيا جائے كيونكہ يہ بيان غور طلب ہے ، وہ لكھتے ہيں :

ميں جس وقت علم كلام كى تحصيل ميں مشغول تھا ، ميں نے امام كے اس خطبے كو اپنے استاد شيخ ابو يعقوب يوسف بن اسماعيل لمعانى كے سامنے پڑھا ، اور ان سے خواہش ظاہر كى كہ اس كے راز سے مطلع فرمايئے ، شيخ نے ميرى خواہش قبول كى ، انھوں نے جو اس خطبے كى تشريح فرمائي اسكو بطور خلاصہ يہاں نقل كر رہا ہوں ، كيو نكہ انكى پورى بات اس وقت ميرے حافظے ميں نہيں ، پورى تفصيل كو اختصار كے ساتھ پيش كر رہا ہوں _

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

اور آخر کار ان کو امت اسلامیہ کا مرجع اکبر  کیونکہ آدھا دین تو صرف تنہا عائشہ کے پاس تھا ،

اور شاید دوسرا دین ابو ہریرہ کے پاس تھا ،جس نے بنی امیہ کے حسب منشاء خوب خوب روایات جعل کی تھیں اسی لئے انھوں نے ابو ہریرہ کواپنا مقرب بنالیا ، مدینہ کی گورنری ابوہریرہ کے حوالہ کودی، ابو ہریرہ کے لئے "قصرعقیق" بنوایا گیا ، جب کہ یہ بیچارے ایک مفلس قلاش آدمی تھے ان کو راویہ الاسلام کا لقب دیا گیا ، اسی طرح بنی امیہ کے پاس ایک نیا پورا دین آگیا ۔۔۔آدھا عائشہ کے ذریعہ آدھا ابو ہریرہ کے ذریعہ ۔۔۔جس میں کتاب خدا اور سنت رسول نام کی صرف وہ چیزیں تھیں جن کو یہ لوگ پسند کرتے تھے ، اور جس کے ذریعہ  ان کی سلطنت مضبوط ہوسکتی تھی ظاہر ہے کہ یہ دین تناقضات  وخرافات کا مجموعہ ہوگا ۔ اور اس طرح حقائق کو ختم کرکرے ان کی جگہ تاریکیوں کو دیدی گئی اور بنی امیہ نے لوگوں کو اسی نئے دن پر چلانا شروع کردیا اوراسی پر لوگوں کو ابھارا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین خدا ایک مضحکہ خیز چیزیں کے رہ گیا ۔ جس کی کوئی قدروقیمت ہی نہ رہی اور لوگ معاویہ سے اتنا ڈرنے لگے جتنا خدا سے نہیں ڈرتے تھے ۔

ہم جب اپنے علماء سے پوچھتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب جنکی بیعت مہاجرین وانصار نے کی تھی ان سے معاویہ کا جنگ کرنا کیسا ہے ؟ اور جنگ بھی ایسی کہ جس نے مسلمانوں کو شیعہ ،سنی دوفرقے میں بانٹ دیا ار اسلام میں اس کی وجہ سے ایسا رخنہ پڑگیا جو آج تک نہ بھر سکا ، تو وہ لوگ بڑی سادگی  سےحسب عادت جواب دیتے ہیں : علی ومعاویہ دونوں ہی بڑے جلیل القدر صحابی ہیں دونوں نے اجتہاد کیا علی کا اجتہاد مطابق واقع تھا لہذا ان کو دو اجر ملے گا لیکن معاویہ نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی اس لئے ان کو صرف ایک اجر ملے گا ۔ہمارے لئے جائز نہیں ہے کہ ان کے حق میں یا ان کے بر خلاف کچھ کہیں ، خود خدا وند عالم کا ارشاد ہے ،تلک امة قد خلت لها ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون(پ ۱ س ۲ (البقرة)آیت ۱۳۲)

ترجمہ:- (اے یہودیو) وہ لوگ تھے جو چل بسے جو انھوں نے کمایا ان کے آگے آیا اور جو تم کماؤ گے تمہارے آگے آئیگا اور جو کچھ وہ کرتے تھے اس کی پوچھ گچھ تم سے نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔

۱۶۱

افسو س کی بات یہی ہے کہ ہمارے علماء کے جوابات اسی قسم کے ہوتے ہیں جو سفسطہ ہوتے ہیں ۔جن کو نہ عقل قبول کرتی ہے نہ دین نہ شریعت ۔۔ میرے معبود  میں رائ کی غلطی ،خواہش کی لغزش ،شیاطین کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتاہوں ۔

بھلا وہ کون سی عقل سلیم ہے جو معاویہ کے اس اجتہاد پر اس کے لئے اجر کی قائل ہوگی جس کی بنا پر اس نے امام المسلمین سے جنگ کی بے گناہ مومنین کو قتل کیا ، ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جس کا شمار صرف خدا ہی کرسکتا ہے ،مورخین کے نزدیک مشہور ہے کہ معاویہ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لئے اور ان کو راستہ سے ہٹانے کے لئے  اپنے مشہور طریقہ پر عمل کرتا تھا یعنی زہر آلود شہد کھلا دیتا تھا اورکہا کرتا تھا :خدا کا لشکر تو شہد میں ہے ۔

نہ معلوم یہ لوگ کیسے اس کو مجتہد مانتے ہیں اور اس کو اجر دینے کے لئے تیار ہیں حالانکہ "باغی گروہ" کا سردار تھا چنانچہ  مشہور حدیث  میں جس کو تمام محدثین نے لکھا ہے " آیا ہے : افسوس عمار یاسر پر ہے جس کو ایک باغی گروہ قتل کرےگا ۔ ۔۔اور معاویہ واس کے اصحاب نے جناب عمار کو قتل کیا ہے اس کو کیونکر مجتہد کہتے ہیں جس نے حجر بن عدی اور اس کے اصحاب کر بڑی بے دردی سے قتل کیا اور صحرائے شام  میں" مرج عذرا" میں دفن کردیا کیونکہ ان لوگوں نے حضرت علیج پر لعنت کرنے سے انکار کردیا تھا ۔۔۔۔۔ جس شخص نے سردار جوانان جنت امام حسن کو زہر دے کر قتل کرادیا کیسے اس کو عادل صحابی مانتے ہیں ؟ جس شخص نے امت مسلمہ سےجبرو زبر دستی سےپہلے تو اپنے لئے پھراپنے بد کار بیٹے یزید کے لئے بیعت لی جس نے شوری کے نظام کو بدل کر قیصر کی حکومت قائم کی(۱)

جس نے لوگوں کو حضرت علی اور ان کے اہل بیت پر منبروں سے لعنت کرنے کیلئے مجبور کیا اور جن لوگوں نے انکار کیا ان کو قتل کردیا اور یہ لعنت ایسی سنت بن گئی جس پر جوان بوڑھے ہوگئے بچے جوان ہوگئے ،بھلا ایسے شخص کو کیوں کر مجتھد کہا جاسکتا ہے؟ اور اس کو مستحق اجبر قرار دیا جاسکتا ہے؟

--------------

(۱):- خلافت وملوکیت (مودودی )یوم الاسلام (احمد امین)

۱۶۲

لا حول ولا قوة الا با الله

پھر یہی سوال اٹھتا کہے کہ دونوں میں سے کون حق پر تھا اور کون باطل پر تھا ؟ یا تو علی اور ان کے شیعہ ظالم تھے اور باطل پر تھے اوریا معاویہ اور اس کے ساتھی ظالم تھے اور باطل پر تھے ۔ حالانکہ رسول اللہ نے سب چیز واضح کردیا تھا ۔جو بھی ہو ہر صورت میں تمام صحابہ کی عدالت بہر حال ثابت نہیں ہوتی ۔اور نہ یہ منطق عقل سلیم پر پوری اترتی ہے ،ہر ہر چیز کی متعدد مثالیں ہیں جن کو خدا کے علاوہ کوئی احصاء نہیں کرسکتا ۔

اگر میں تفصیل میں جاؤں  اور ہر واقعہ کے بارے میں ہر پہلو سے بحث کروں تو کئی ضخامت جلدوں کی ضرورت ہوگی ۔ مگر چونکہ میں نے  اختصار  کا ارادہ کرلیا ہے  اور اس بحث میں صرف بعض مثالوں پر اکتفاء کی ہے ۔ اور یہ الحمداللہ ہماری قوم کے مزعومات کو باطل کرنے کے لئے کافی ہے ہماری قوم کا عالم یہ ہے کہ مدتوں سے ہماری فکروں   کو جامد بنادیا ہے اوریہ پابندی لگادی ہے کہ میں حدیث سمجھنے کی کوشش نہ کروں ۔ عقل وشریعت کے معیار پر تاریخی واقعات کی تحلیل نہ کروں ۔ جب کہ قرآن کریم اور سنت رسول ہم کو میزان عقل پر تولنے کا حکم دیتی ہے ۔

اس لئے میں نے طے کر لیا ہے کہ میں سرکشی کروں گا اور تعصب کے جس غلاف میں مجھے لیٹا گیاہے ، اس سے باہر نکلوں گا ۔ ب یس سال سے جن بیڑیوں میں مجھے جکڑا گیا ہے اس سے آزادی حاصل کرکے رہوں گا ۔ میری زبان حال ان سے کہہ رہی ہے ۔ اے کاش میری قوم یہ جان لیتی کہ میرے خدانے مجھے کیوں بخش یدا اور میرا اکرام کیوں کیا ۔کاش میری قوم بھی اس نئی دنیا کا انکشاف کر لیتی جس کی وہ جہالت کے باوجود شدت سے مخالفت کرتی ہے ۔

٭٭٭٭٭

۱۶۳

تبدیلی کاآغاز

تین مہینے تک میں بہت پریشان رہا ۔ عالم یہ تھا کہ خواب میں بھی افکار مجھے پریشان کرے ۔مختلف قسم کے وہم وگمان افکار ووسواس میں گھرا رہتا تھا ۔  خصوصا بعض اصحاب سے تو مجھے اپنی جان کا خوف تھا ۔ کیونکہ تاریخی واقعات جو مجھے بتائے گئے ہو حیرتناک  حد تک ڈراونے تھے ۔ اس لئے کہ پوری زندگی مجھے جو تربیت دی گئی تھی وہ اولیاء اللہ اور اس کے نیک بندوں کا احترام کرنا تھا ورنہ اگر کوئی ان کے حق  میں بے ادبی کردے یا جسارت کردے چاہے ان کی عدم موجود گی  میں یا ان کے مرنے کے بعد بھی تو وہ لوگ بے ادبی کرنے والوں کو ضرور سزا دیتے تھے ۔اس لئے میں بہت ڈرتا تھا ۔ چنانچہ حیاۃ الحیوان (۱) الکبری میں خود میں نے پڑھا تھا کہ ایک شخص عمر بن الخطاب کو گالیاں دیا کرتا تھا ،قافلہ والے اس کو روکتے تھے مگرو وہ نہیں مانتا تھا آخر ایک دن وہ پیشاب کررہا تھا کہ بہت ہی زہریلے سانپ نے اس کو ڈس لیا اور  وہ وہیں کا وہیں مرگیا ۔پھر لوگوں نے اس کے لئے قبر کھول دی تو دیکھا وہاں بھی کا لا زہریلا ناگ موجود  ہے ۔ پھر لوگوں نے دوسری قبر کھودی وہاں بھی وہ ناگ تھا ایسا کئی مرتبہ ہوا تو بعض عارفین نے کہا اس کو جہاں چاہے دفن کرو اگر تم پوری زمین بھی کھود ڈالو گے تو ہر جگہ یہ کالا سانپ ملے گا ۔ کیونکہ خدا اس کو آخرت سے پہلے دنیا میں عذاب دینا چاہتا ہے اس لئے کہ اس نے سیدنا عمر کو گالیاں دی تھیں ۔اس لئے میں خوفزدہ اور متحیر ہوکر اس مشکل بحث میں پڑنے سے کتراتا تھا خصوصا جب کہ میں نے "الزیتونیۃ یونیورسٹی" کی ایک فرع میں پڑھا تھا " افضل الخلفاء علی التحقیق سیدنا ابو بکر ہیں اس کے بعد حضرت عمر فاروق ہیں جو حق اور باطل میں فرق کرتے تھے ۔ اس کے بعد سیدنا عثمان بن عفان

--------------

(۱):- یہ واقعہ الاسود السالخ کے حالات میں دمیری نے حیات الحیوان کے اندر لکھا ہے ۔

۱۶۴

ذوالنورین ہیں جن سے ملائکہ رحمان بھی شرماتے تھے ۔ اس کے بعد سیدنا علی باب مدینۃ علی نبی ہیں ان چاروں کے بعد عشرہ مبشرہ کے باقی چھ ۶ افراد طلحہ ، زبیر ، سعد ، عبدالرحمان ،ابی عبیدہ ہیں ، اس کےبعد تمام صحابہ کانمبر آتا ہے ۔ہمارے علماء زیادہ تر اس آیت سے استدلا ل ہم کو سکھاتے ہیں :" لانفرق بین احد میں رسلہ " کہ تمام صحابہ کو ایک آنکھ سے دیکھنا چاہیے کسی پر کوئی اعتراض نہین کرنا چاہے ۔

اسی لئے میں کئی مرتبہ ڈرا اور کئی مرتبہ استغفار پڑھا ۔ اس بحث کو ختم کرنا چاہا کیونکہ اس سے صحابہ کے بارے میں شک ہونے لگتا ہے اور اس کانتیجہ اپنے دین میں شک کرتا ہوتا ہے ۔لیکن اس تمام مدت میں اپنے علماء سے بات کرنے پر مجھےبہت سے ایسے تناقضات ملے جن کو عقل قبول نہیں کرتی  اور علماء نے مجھے ڈرانا شروع کردیا اگر صحابہ کے بارے میں میں ایسی ہی بحث کرتا رہا تو خدا اپنی نعمت مجھ سے سلب کر لے گا ۔ اور مجھے ہلاک کردےگا لیکن ان تمام دشمنیوں  اور تکذیب کے بعد بھی  تلاش حقیقت کو خواہش نے ہر مرتبہ  مجھے نئی طرح سے بحث کرنے پر ابھارا اور میں نے اپنے اندر ایک ایسی قوت پارہا تھا جو مجھے بحث جاری رکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔

٭٭٭٭٭

۱۶۵

ایک مولانا سے گفتگو

میں نے اپنے ایک عالم سے کہا :- جب معاویہ بے گناہوں کو قتل کرکے ،لوگوں کی عزت آبرو لوٹ کرکے آپ کے نزدیک مجتہد ہے ۔ اور ایک اجر کا مستحق ہے اور یزید فرزند رسول کو قتل کرکے مدینہ کو اپنے لشکر  کے لئے مباح کرکے خطا کار مجتہد ہوسکتا ہے اور ایک اجر کا مستحق ہے یہاں تک کہ آپ میں سے بعض نے یہاں تک کہدیا : حسین تو اپنے نانا کی تلوار سے قتل کئےگئے ۔ اس سے صرف فعل یزید  کو جائز کرنا مقصود ہے تو پھر اگر میں اجتہاد کروں اور بعض صحابہ کے بارف میں مشکوک ہوجاؤں اور بعض  کے بارے میں  مشکوک نہ ہوں  تو اگر میرا اجتہاد صحیح ہے تو مجھے بھی دو اجر اور غلط ہے تو ایک اجر تو ملنا ہی چاہیے جب کہ میرے اجتہاد کا قیاس معاویہ ویزید کے افعال پر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ قاتل اولاد پیغمبر ہیں اور میں تو صرف شک وعدم شک کی بحث میں ہوں اس کے علاوہ بعض صحابہ میں عیب  نکالنے کا مطلب ان پر سب وشتم اور لعن کرنا نہیں ہے بلکہ میرا مقصد تمام گمراہ  فرقوں میں نجات پانے والے فرقہ کی تلاش ہے ۔اور یہ صرف میرا ہی فریضہ نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کا فریضہ ہے تو آخر ایسا کرنے پر میں کیوں گردن زنی کے قابل ہوں ؟ اور خدا دلوں کے بھید سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ میرا ارادہ کیا ہے ؟

مولانا :- اے بیٹا ! باب اجتھاد مدتوں پہلے بند ہوچکا ہے ۔

میں :- کس نے بند کیاہے ؟

مولانا :-ائمہ اربعہ  نے (یعنی امام ابو حنیفہ ، مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل نے )

میں :- (بڑی بے باکی سے ) اگر خدا اور رسول اور خلفائے راشدین (جن کی پیروی کا حکم دیاگیا ہے ) نے نہیں بند کیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ جیسے ان لوگوں نے اجتہاد کیا تھا میں  بھی اجتہاد

۱۶۶

کروں گا ۔

مولانا:- جب تک تم کو سترہ ۱۷ علوم میں مہارت نہ  جائے اجتہاد کرہی نہیں سکتے ان میں اہم علوم مثلا یہ ہیں ۔ تفسیر ،لغت ، نحو،صرف ، بلاغت ، حدیث ،تاریخ وغیرہ وغیرہ ،۔

میں :- نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا :- میں اس لئے اجتہاد کرنا نہیں  چاہتا کہ لوگوں کو قرآن وسنت کے احکام بتاؤں یا اسلام کے اندر میں بھی کوئی صاحب مذہب بن جاؤں ۔ہر گز نہیں ! میں تو صرف حق وباطل کو پہچاننے اور یہ سمجھنے کے لئے کہ حضرت علی حق پر تھے یہ حضرت معاویہ ؟! اجتہاد کرنا چاہتا ہوں ۔ اور اس کے لئے ۱۷ علوم میں مہارت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دونوں کی زندگی کا مطالعہ اور یہ دیکھنا کہ کس نے کیا کیا ہے ؟حقیقت کو پہچاننے کے لئے کافی ہے ۔

مولانا:-  تم کو ان کی کیا ضرورت ہے ؟ تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم والا تسئلون عما کانوا یعملون (پ ۱ سورہ بقرہ آیت ۱۳۴)

ترجمہ:- (اے یہودیو)وہ لوگ تھ جو چل بسے جو انھوں نے کیا ان کے آگے آیا اور جو تم کروگے وہ تمہارے آگے آئے گا ۔اور وہ جوکچھ بھی کرتے تھے اس کی پوچھ گچھ تم سے (تو )نہیں ہوگی ۔

میں :- آپ تسئلون کی (ت) کو پیش پڑھ رہے یا زبر ؟

مولانا :- میں پیش پڑھ رہا ہوں( تسئلون)

میں :- شکر خدا کا ۔ آگر آپ زبر پڑھتے تو بحث کی گنجائش ہی نہیں تھی ۔۔۔۔ زبر سے مطلب ہوگا کہ تم کوسوال کرنے کا حق نہیں ہے ۔۔۔ہاں پیش پڑھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے افعال کا سوال ہم سے نہیں کیا جائے گا ۔ اوریہ ایسا ہی ہے جیسے ایک اور جگہ ارشاد ہے ۔ہر انسان اپنے اعمال کا گروی ہوگا ۔ یا مثلا انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی وہ کوشش کرے گا ۔ قرآن نے ہم کو امم سابقہ کے حالات معلوم کرنے پر ابھارا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس

۱۶۷

 سے عبرت حاصل کریں اسی لئے خدا نے فرعون ،ہامان ،نمرود ،قارون ،کا جہاں قصہ بیان کیا ہے وہیں انبیائے سابقین کا بھی ذکر کیا ہے ۔ یہ تسلی وتشفی کے لئے ذکر نہیں کیا ہے بلکہ حق وباطل کی معرفت کے لئے ان واقعات کو بیان کیاگیا ہے ۔اب رہی آپ کی یہ بات کہ مجھے بحث سے کیا فائدہ ؟  تو عرض ہے کہ مجھے اس سے فائدہ ہے ۔ اولا تو اس لئے کہ ولی خدا کو پہچان کر اس سے محبت کروں اور دشمن خدا کو پہچان کر اس سے دشمنی کروں ۔ اور قرآن یہی بات چاہتا ہے ۔بلکہ اس کو واجب قراردیتا ہے ۔اور دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ میں اس کی عبادت کس طرح کروں؟ اور جو فرائض اس نے واجب کئے ہیں ان کو کس طرح ادا کروں تاکہ اس کے ارادہ ومنشاء کے مطابق ہو۔ نہ یہ کہ میں فرائض کو اسطرح ادا کروں جس طرح ابو حنیفہ یادوسرے مجتہدین چاہتے ہیں ۔ کیونکہ امام مالک نماز میں بسم اللہ  کو مکروہ سمجھتے ہیں ۔ حالانہ ابو حنیفہ واجب جانتے ہیں اور دوسرے لوگ بغیر بسم اللہ کے نماز ہی باطل سمجھتے ہیں ۔اور چونکہ  نماز دین کا ستو ن ہے  اور تمام (فرعی ) اعمال کی مقبولیت کا دارومدار نماز پر ہے اس لئے میں نہیں چاہتا کہ میری نماز باطل ہو ۔اسی طرح مثلا شیعہ کہتے ہیں : وضو میں پیروں کا مسح کرنا واجب ہے اور اہل سنت کہتے ہیں پیروں کا دھونا واجب ہے ۔ اور قرآنی آیت اسطرح ہے : وامسحوا برؤو سکم وارجلکم "یہ صریحی طور سے مسح کو بتا تی ہے ۔ مولانا اب آپ ہی بتائیے ایک عقلمند مسلمان بغیر بحث ودلیل کے کس ایک کو قبول کرے اور دوسرے کو رد کردے؟

مولانا:- تم یہ بھی کرسکتے ہو تمام مذاہب سے اچھی اچھی باتیں لے لو کیونکہ یہ سب ہی اسلامی فرقے ہیں اور سب ہی کا مدرک رسول ہیں ۔

میں :- مجھے ڈر ہے کہیں میں اس آیت کا مصداق نہ بن جاؤں:"أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ"(پ ۲۵ س ۴۵ (الجاثیه ) آیت ۲۳)

۱۶۸

ترجمہ :- بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور (اس کی حالت) سمجھ بو جھ کر خدانے اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے ایور اس کے کان  اور دل پر علامت مقرر کر دی ہے ۔( کہ یہ ایمان نہ لائےگا )اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے پھر خدا کے بعد اس کی ہدایت کون کرسکتا ہے تو کیا تم لوگ (اتنا بھی)غور نہیں کرتے ؟۔

 مولانا! جب تک ایک شی کو ایک مذہب حلال اور دوسرا حرام کرتا رہے گا اس وقت تک میں یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ سارے کے سارے مذہب حق ہیں ۔ کیونکہ یہ محال ہے کہ ایک ہی شئ ایک ہی وقت میں حلال بھی ہو اور حرام بھی ہو ۔جب کہ رسول کے احکام میں کوئی تناقض نہیں تھا۔ کیونکہ وہ سب وحی قرآنی کے مطابق تھے: ولو کان من عند غیرالله لوجدوا فیه اختلافا کثیرا (پ ۵س۴ (نساء)آیت ۸۲)

اگر یہ (قرآن  ) غیر خدا کے پاس سے (آیا ) ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے ۔ اور چونکہ مذاہب اربعہ میں بہت اختلاف سے اس لئے یہ نہ خدا کی طرف سے ہے نہ رسول کی طرف سے ہے ،کیونکہ رسول قرآن کے خلاف نہیں کہہ سکتے ،

مولانا:- نے جب محسوس کیا کہ میرا کلام منطقی ہے اورمیری دلیلیں مضبوط ہیں تو بولے : میاں میں تم کو قربۃ الی اللہ ایک نصیحت کرتاہوں  ۔تم چاہے جس چیز میں شک کرنا لیکن (خبردار)خلفائے راشدین کےبارے میں کبھی شک نہ کرنا ۔کیونکہ یہ چاروں اسلام کے ستون ہیں اور اگر ان میں سے ایک ستون بھی گر گیا تو عمارت گر جائے گی ۔۔

میں :- مولانا ! استغفراللہ اگر یہ چاروں ستون ہیں تو پھر رسول خدا (ص) کہاں گئے ؟

مولانا:- وہ تو خود ہی عمارت ہیں ۔ پورا سلام تو حضور ہی ہیں ۔

میں مولانا کی اس تحلیل سے مسکرایا اور بولا دوبارہ استغفراللہ کہتا ہوں ۔ مولانا آپ بغیر سوچے فرما دیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان چاروں کے بغیر رسول خدا بذات خود کچھ  بھی نہیں ہیں ۔ حالانکہ خدا کہتا ہے :

۱۶۹

"هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيداً "(پ ۲۶ س ۴۸(الفتح) آیت ۲۸)

ترجمہ:-یہ وہی  تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب رکھے اور گواہی کے لئے بس خدا کا فی ہے۔

خدا نے صرف محمد کو رسول بنا کر بھیجا ان کی رسالت میں ان چاروں میں سے کسی ایک کو نہیں شریک قراردیا اور نہ ان کے علاوہ کسی دوسرے کو شریک قراردیا ۔اسی سلسلہ میں خدا فرماتا ہے:" كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ "(پ۲ س۲(بقره)آیت ۱۵۱)

ترجمہ:- (مسلمانو!یہ احسان بھی ویسا ہی ہے) جیسے ہم نے تم میں  تم ہی کا ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتین پڑھ کر سنائے اورتمہارے نفس کو پاکیزہ کرے اور تمہیں کتاب (قرآن ) اور عقل کی باتیں سکھائے جن کی تمہیں (پہلے سے) خبر نہ تھی ۔"

مولانا :-ہم نے اپنے بزرگوں اور ائمہ سے یہی سکھا تھا ۔اور ہم لوگ اپنے زمانہ میں نہ علماء سے مناقشہ کرتے تھے اور نہ ہی مجادلہ کرتے تھے جس طرح آج کی آپ لوگوں کی طرح کی نئی نسل کرتی ہے ،آپ  لوگ ہر چیز میں شک کرنے لگے  حدیہ ہے کہ اب دین میں بھی شک کرنے لگے ۔اب قیامت کے آثار ہیں ۔ کیونک رسول نے فرمایا ہے ۔قیامت برے لوگوں ہی کی وجہ سے آئےگی ۔

میں :-مولانا! آپ مجھے خوفزدہ کررہےہیں ۔میں خود دین میں شک کروں یا دوسرے کو مبتلا کروں اس سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں ، میں اس خدائے واحد پر ایمان لایا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کے ملائکہ اس کی نازل کردہ کتابوں ،بھیجے ہوئے رسولوں پر ایمان رکھتاہوں ۔ میں خدا کے بندے اور اس کے رسول سیدنا محمد پر ایمان رکھتا ہوں ، اور یہ تسلیم کرتاہوں کہ وہ انبیاء ومرسلین میں سب سے افضل تھے اور میں ایک مسلمان ہوں،

۱۷۰

پھر آپ مجھ پر کیوں اتہام لگارہے ہیں ؟

مولانا :- میں تو تم پر اس سے بھی بڑا الزام لگاتا ہوں ۔ تم سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر کے بارے میں شک کرتے ہو حالانکہ رسول خدا نے فرمایا ہے : اگر میری پوری امت کے ایمان کو ابو بکر کے ایمان سے تولا جائے تو ایمان  ابو بکر کا پلہ بھاری ہوگا ۔اور سیدنا عمر کے بارے میں فرمایا  ہے : میری امت میرے اوپر پیش کی گئی تو وہ ایسی قمیص  پہنی تھی  جو سینہ تک بھی نہیں پہنچ پارہی تھی پھر میرے سامنے عمر کو پیش کیا گیا ان کی قمیص زمین کو خط دے رہی تھی لوگوں  نےکہا حضور آپ نے اس کی کیا تاویل فرمائی ؟ فرمایا : دین ! اور تم آج چودھویں صدی ہجری میں آئے ہو ۔عدالت صحابہ میں شک کرتے ہو۔ خصوصا ابو بکر وعمر کی عدالت میں کیا تم نہیں جانتے اہل عراق سب کے سب اہل شقاق ہیں ۔ اہل کفر ونفاق ہیں ؟

میں :- میری سمجھ میں نہیں آرہا  تھا کہ میں اس شخص کے بارے میں کیاکہوں جو ادعائے علم کرتا ہے اور گناہوں پر فخر کرتا ہے ۔ اب وہ احسن طریقہ جدال سے جھوٹ ،افتراء اور ایسے لوگوں کے سامنے جو آنکھ بند کرکے دین کو پسند کرتے ہیں جھوٹے جھوٹے الزامات لگانے لگا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ لوگوں کی آنکھیں سرخ ہوگئیں ۔ اوربعضوں کے گردن کی رگیں پھول گئیں ، اور میں نے ان کے چہروں سے شرکاہ کا اندازہ کرلیا ۔ لہذا فورا دوڑ کر گیا اور امام مالک کی کتاب "موطاء" اور صحیح بخاری اٹھا لا یا ۔اور عرض  کیا مولانا صاحب مجھے جس چیز  نے ابو بکر کے بارے میں شک پر ابھارا وہ خود رسول خدا کی ذات ہے ۔ لیجئے موطا پڑھیئے ۔ مالک نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے احد کے شہیدوں کے لئے فرمایا : میں ان لوگوں کی گواہی دیتاہوں ! اس پر ابو بکر صدیق نے کہا : اے رسو اللہ(ص) کہ ہم ان کے بھائی نہیں ہیں  ہم بھی اسی طرح اسلام لائے جیسے وہ لائے تھے ہم نے بھی اسی طرح جہاد کیا ۔جس طرح انھوں نے جہاد کیا تھا ۔رسول خدا نے فرمایا : ہاں! لیکن مجھے نہیں معلوم  کہ تم لوگ میرے بعد کیا احداث (ایجاد بدعت) کروگے ۔ اس پر ابو بکر روئے پھر اور روئے اور کہا (کیا ) ہم آپ کے بعد

۱۷۱

باقی رہیں گے(۱) ۔

اس کے بعد میں نے صحیح بخاری کھولی اس میں ہے : عمر بن خطاب حفصہ  کے پاس آئے حفصہ کے پاس اسماء بنت عمیس بھی موجود تھی عمر نے اسماء کو دیکھ کر پوچھا یہ کون ہے ؟ حفصہ نےکہا اسماء بنت  عمیس ! عمر نے کہا یہی  حبشہ  ہے یہی بحریہ ہے ۔ اسماء نے کہا :ہاں ! اس پر عمر بولے : ہماری ہجرت تم سے پہلے ہے اس لئے ہم رسول خدا سےبہ نسبت تمہارے زیادہ احق ہیں ! اسماء کو یہ سن کر غصہ آگیا اور بولیں: ہر گز نہیں خدا کی قسم ایسا ہیں ہوسکتا ۔تم رسول اللہ کے ساتھ تھے ،آپ تمہارے بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے ۔جاہلوں کو وعظ کرتے تھے  اور ہم لوگو ایسی (جگہ )یا زمین میں تھے جو اجنبیوں کی اور دشمنوں کی تھی ۔حبشہ میں ہم نے جو کچھ کیا ہو خدا اور اس کے رسول  کے لئے کیا خدا کی قسم ہم لوگ  جب بھی کھانا کھا تے یا پانی پیتے تھے رسول خدا کا ذکر ضرور کرتے تھے  ،ہم کو اذیت پہونچتی تھی ۔ہم  ہر وقت  خوفزدہ رہتے تھے ۔(لہذا تم لوگ ہمارے برابر کیسے ہوسکتے ہو؟ ) میں اس واقعہ کا ذکر رسول سے ضرور کروں گی ۔ خدا کی قسم ان سے پوچھو ں گی  نہ جھوٹ بولوں گی نہ (کمی )و زیادتی کروں گی ۔ پھر جب رسول خدا آئے تو اسماء نے کہا یا رسول اللہ عمر نے یہ کہا تھا آنحضرت نے پوچھا تم نے کیا کیا ؟ اسماء نےکہا میں نے یہ یہ کہا ! آنحضرت نے فرمایا : تم سے زیادہ وہ حق نہیں ہے ۔ ان کے اوران کے ساتھیوں کی صرف ایک ہجرت ہر اور تم اہل سفینہ کی دو دو ہجرت ہے ۔اسماء بیان کرتی ہیں( اس واقعہ کے بعد) ابو موسی  اور دیگر اصحاب سفینہ برابر میرے پاس آتے تھے اور اس حدیث کے بارے میں پوچھتے تھے ۔ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو ان لوگوں کے دلوں کو اس حدیث سے زیادہ فرجت بخشی ہو ہور نہ ہی کوئی چیز ان کے نزدیک اس سے بھی زیادہ اہم تھی(۲)

--------------

(۱):- موطاء امام مالک ج ۱ ص ۳۰۷ المغازی للواقدی ص ۳۱۰

(۲):- صحیح بخاری ج ۳ ص ۲۸۷ باب غزوہ خیبر "

۱۷۲

جب شیخ(مولانا ) نے  اور ان کے ساتھ لوگوں نے اس کو پڑھا تو ان کے چہرے بدل گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ، اور یہ سب اس کا انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں مغلوب مولانا صاحب کیا جواب دیتے ہیں لیکن مولانا نے بڑے تعجب سے پلکوں کو اٹھا کر دیکھا اور فرمایا : رب زدنی علما (خدا یا میرے علم میں اضافہ کر)

میں :- جب سب سے پہلے خود رسول اللہ نے ابو بکر کے بارے میں شک کیا اورابو بکر کیلئے گواہی  نہیں دی ،اس لئے کہ حضور کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ آنحضرت کے بعد کیا کیا کریں گے ؟اور جب  خود رسول خدا(ص) نے اسماء بنت عمیس پر عمر بن خطاب کی فضیلت کو قبول نہیں کیا ،بلکہ اسماء کو عمر پر فضیلت  نہ دوں ،اور ظاہر  ہے کہ یہ دونوں حدیثیں  تمام ان حدیثوں سے متعارض ہیں جو ابو بکر وعمر کی فضیلت  میں وارد ہوئی ہیں بلکہ یہ دونوں حدیثیں واقع سے بہت قریب ہیں اور سمجھ میں آنے والی ہیں بہ نسبت فرضی حدیثوں کے جو فضائل میں آئی ہیں بلکہ یہ دونوں تمام فضائل والی حدیثوں کو باطل کردیتی ہیں ، حاضرین نے کہا یہ کیسے؟

میں :-رسول خدا(ص) نے ابو بکر کی گواہی نہیں دی اور فرمایا :نہ معلوم میرے بعد تم کیا کیا کروگے ؟ اور یہ بات معقول ہے اور قرآن نے اس کا اثبات کیا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ ان لوگوں نے رسول کے بعد بہت سی تبدیلی کردی ۔ اسی لئے ابوبکر روئے تھے کیونکہ انھوں نے تبدیلی بھی کی تھی اور حضرت فاطمہ کو غضبناک بھی کیا تھا (جیسا کہ گزرچکا ) اور اسی تبدیلی کی وجہ سے مرنے کے پہلے بہت پشیمان تھے اور یہ تمنا کرتے تھے کہ کا ش میں بشر نہ ہوتا ۔

اب رہی ایمان  ابو بکر والی حدیث کہ تمام امت سے اس کاوزن زیادہ تھا تو یہ باطل بھی ہے اور عقل میں نہ آنے والی بھی ہے اس لئے کہ جو شخص چالیس سال تک مشرک رہا ہو ، بتوں کی پرستش کرتا رہا ہو وہ پوری امت محمدی کے ایمان سے زیادہ  ایمان رکھتا ہو ناممکن ہے ۔کیونکہ امت محمدی کے اندر اولیاء اللہ شہدا اور وہ ائمہ بھی ہیں جنھوں نے اپنی پوری عمریں جہاد فی

۱۷۳

سبیل اللہ میں گزاردیں پھر ابو بکر اس حدیث کے مصداق کیسے ہوسکتے ہیں ؟ اگر واقعا یہی مصداق ہوتے تو عمر کے آخری حصہ میں یہ تمنا نہ کرتے کہ کاش میں بشر نہ ہوتا ۔ اگر ان کا ایمان پوری امت سے زیادہ ہوتا تو سیدۃ النساء فاطمہ بنت رسول ان پر غضبناک نہ ہوتیں اور ہر نماز کے بعد ابو بکر پر بد دعا نہ کرتیں ۔

 مولانا صاحب تو چپ رہے  کچھ بولے ہی نہیں لیکن بعض موجود لوگوں نے کہا :خدا کی قسم اس حدیث نے ہم کو شک میں ڈال دیا ۔ اس وقت مولانا صاحب بولے

مولانا:- آپ یہی چاہتے تھے نا !؟ آپ نے سب کوشک میں مبتلا کردیا ۔میرے جواب دینے کے بجائے انھیں میں سے ایک بول اٹھا :جی نہیں ! حق انھیں کے ساتھ ہے ہم نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی کتاب مکمل نہیں پڑھی ہو لوگ تو آپ حضرات کی اندھی تقلید کرتے تھے جو کہتے تھے ۔بے چون وچرا مان لیتے تھے ۔اب ہم پر حقیقت ظاہر ہوئی کہ حاجی جو کہہ رہے ہیں وہی صحیح ہے اب ہمارا فریضہ ہے کہ پڑھیں اور بحث کریں بعض اور  حاضرین نے بھی اس شخص کی تائید کی اور درحقیقت یہ حق وصداقت کی فتح تھی یہ جبر وقہر کا غلبہ نہیں تھا البتہ عقل ودلیل وبرہان کی کامیابی تھی اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو!

اس واقعہ نے میری ہمت بڑھا دی او ر میں نے بحث کے دروازوں کو پاٹوں پاٹ کھول اور دیا اور بسم اللہ وبا للہ وعلی ملۃ رسول اللہ کہہ کر اس میں کود پڑا ۔پروردگار عالم سے ہدایت وتوفیق کی امید رکھتے ہوئے کیونکہ اس نے وعدہ کیا ہے جو حق کو تلاش کرے گا ۔ وہ اس کی ہدایت کرے گا اور خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔

بڑی دقت کے ساتھ مسلسل تین سال تک میں بحث وتحقیق کرتارہا  کیونکہ جو پڑھتا تھا اس کو دہراتا تھا ۔اور بعض اوقات تو بار بار ایک کتاب کوپہلے صفحہ سے آخری صفحہ تک پڑھتا تھا ۔

چنانچہ میں نے علامہ شرف الدین الموسوی کی "المراجعات"پڑھی اور کئ کئی بار پڑھا اس کتاب نے میرے سامنے ایسے نئے آفاق کھول دیئے جو میری ہدایت کاسبب بنے اور میرے دل میں

۱۷۴

پیش کش کوئی بھی چیز سات صدی تک ائمہ اہلبیت کی پیروی سے نہیں ہٹا سکی ،حالانکہ ان سات صدیوں میں شیعوں کو دربدر کیا گیا ۔ دفتر عطا سے ان کے نام کاٹ دیئے  ان کوچن چن کر جبال وکوہ میں تلاش کرکے قتل کیاگیا ان کے خلاف ایسے ایسے جھوٹے پروپیگنڈے کئے گئے جس سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے اور اس کے آثار آج بھی شیعوں میں باقی ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ائمہ اہلبیت کوچھوڑ کر کسی اور کی پیروی نہیں کی ۔

لیکن ان تمام مصائب کا بڑے صبر وسکون وثبات قدم سے مقابلہ کرتے ہوئے شیعوں نے حق کا دامن نہیں چھوڑا اور نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کی ،میں آج بھی اپنے بڑے سےبڑے عالم کو چلینج کرتاہوں کہ وہ شیعہ علماء کے پاس بیٹھ کر ان سے بحث کرے تو شیعہ ہوئے بغیر واپس نہیں ہوگا ۔

اس خدا کا شکر ہے جس نے ہماری اس بات کی ہدایت کی اور اگر خدا ہدایت نہ کرتا تو ہدایت ناممکن تھی ۔خدا کی حمد اور ا س کا شکر ہے کہ اس نے فرقہ ناجیہ تک میری رہبری کردی جس کی مدتوں سے تلاش تھی اور اب مجھے یقین ہے کہ حضرت علی واہل بیت سے تمسک عروۃ الوثقی سے تمسک  ہے اور احادیث رسول بھی بکثرت  اس پر موجود ہیں اور مسلمانوں نے ان پر اجماع کیا ہے اور جو بھی گوش شنوا رکھتا ہوگا صرف عقل ہی اس کے لئے بہترین دلیل ہے ، علی الاطلاق حضرت علی تمام صحابہ سے اعلم اورسب سے زیاد ہ شجاع تھے اور امت کا اس پر اجماع ہے ۔ صرف یہی اجماع حضرت علی کے مستحق خلافت ہونے پر مضبوط دلیل ہے ۔خدا وند عالم کا ارشاد ہے:-" وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكاً قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ"(پ ۲ س۲ (بقره) آیت ۲۴۷)

ترجمہ:- اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ بیشک خدا نے تمہاری درخواست کے مطابق

۱۷۵

طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا ہے تب کہنے لگے ۔اس کی حکومت ہو پر کیوں کر ہوسکتی ہے ۔ حالانکہ سلطنت کے حقدار اس سے زیادہ تو ہم ہیں ۔ کیونکہ اسے تو مال کے اعتبار سے بھی فارغ البالی تک نصیب نہیں (نبی نے کہا)خدا نے اسے تم پر فضیلت دی ہے اور (مال میں نہ سہی )علم اور جسم کا پھیلاؤ تو اسی خدا نے زیادہ فرمایا ہے اور خدا اپنا ملک جسے چاہے دے اور خدا بڑا گنجائش والا ہے اور واقف کارہے ۔اور رسول  نے فرمایا : ان علیا منی وانا منہ وھو ولی کل مومن بعدی(۳) ۔یقینا علی مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔ اور علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔ زمخشری نے چند اشعار حضرت علی کے لئے کہے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔

کثر الشک ولاختلاف وکل ----- یدعی انّه الصراط السوی

فتمسک بلا اله الا الله----- وحبی لاحمد وعلی

فاز کلب یحب اصحاب الکهف ----کیف اشقی بحب آل علی

اختلاف اور شک بہت زیادہ ہوگیا ہے اور ہر شخص یہی دعوی کرتا ہے کہ وہ سیدھے راستہ پر ہے لہذا میں نے لا الہ الا اللہ سے تمسک کیا اور احمد وعلی کی محبت سے ، اصحاب کہف کا کتا ان سے محبت کرنے کی وجہ سے کامیاب ہوگیا۔ پھر بھلا میں آل علی سے محبت کرکے کیوں نہ کامیاب ہوجاؤں

ہاں الحمدللہ میں نے بدل پالیا ۔ اور رسول خدا کے بعد امیر المومنین سید الوصین ،قائد الغر المحجلین اسداللہ الغالب  الامام  علی ابن ابی طالب اور سیدی شباب الجنۃ ریحانتی الرسول ، ابی محمد الحسن الزکی اور الامام ابی عبداللہ الحسین اور بضعۃ المصطفی ،سلالۃ النبوۃ وام الائمہ ،معدن الرسالہ ،جن کے غضب پر موقوف ہو غضب رب العزت سیدۃ النساء العالمین فاطمۃ الزہراء کی پیروی کرنے لگا ۔

امام مالک کے بدلے استاذ الائمہ معلم الامہ الامام جعفر الصادق علیہ السلام کواختیار کر لیا امام حسین کی ذریت

--------------

(۱):- صحیح ترمذی ج ۵ ص ۲۹۶ ،خصائص نسائی ص ۸۷ ع،مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۱۰

۱۷۶

سے نو معصومین جو ائمہ المسلمین ہیں اور اولیاء اللہ الصالحین ہیں ان سے تمسک کرنے لگا ۔

الٹےپاؤں کفر کی طرف پلٹ جانے والے صحابہ جیسے معاویہ ،عمر وعاص ،مغیرہ بن شعبہ ،ابی ہریرہ عکرمہ ،کعب الاحبار ، کے بدلے ان صحابہ کو اختیار کرلیا جنھوں نے پیغمبر سے کئے ہوئے معاہدے کو توڑا نہیں ۔ جیسے عمار یاسر ، سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری ،مقدادبن الاسود ،خزیمہ بن ثابت ،ذوالشہادتین  ابی بن کعب وغیرہ اور اس بابصیرت افروز تبدیلی پر خدا کی حمد وثنا کرتا ہوں ۔

اور اپنی قوم کے ان علما کے عوض جنھوں نے ہماری عقلوں کو جامد کردیا اور جن کی اکثریت نے ہرزمانہ میں حکام وسلاطین کی جی حضوری کی ،ان شیعہ علماء کو اختیار کیا جنھوں نے کبھی اجتھاد کادروازہ بند نہیں کیا اور نہ کبھی دینی معاملات میں سستی دکھائی ۔اورنہ کبھی ظالم وجابر امراء وسلاطین کی چوکھٹ پر جب سائی کی ۔

 ہاں متعصب وپتھر جیسے سخت افکار :جو تناقضات پر عقیدہ رکھتے ہوں"  کے بدلے آزاد روشن کھلے ذہن ودماغ والے ،افکار کو اختیار کرلیا جو حجت ودلیل وبرہان پر ایمان رکھتے  ہیں اور جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہے ہم نے اپنے ذہن پر تیس ۳۰ سال کرے پڑے ہوئے گرد  دوغبار کو دورکرکے اپنے دماغ کو دھوڈالا یعنی  بنی امیہ کی گمراہیوں کے بدلے میں معصومین  پر عقیدہ رکھ کر اپنی باقی زندگی کو پاک کر لیا ۔ خداوند  محمد وآل محمد کی ملت پر زندہ  رکھ اور ان کی سنت پر موت دے انھیں کے ساتھ میرا حشر کر کیونکہ تیرے نبی کا قول ہے : انسان جس کو دوست رکھتا ہے اسی کے ساتھ محشور ہوتا ہے ۔۔شیعہ ہوکر میں اپنی اصل کی طرف پلٹ آیا ۔کیونکہ  میرے باپ اورچچا شجرہ نسب کے اعتبار سے بتایا  کرتے تھے کہ ہم ان سادات میں ہیں جوعباسی حکومت کی ناقابل برداشت سختیوں سے مجبور ہوکر عراق سے فرار کرکے شمالی افریقہ میں پنا ہ گزیں ہوگئے تھے ۔ اورآج تک ہمارے آثار وہاں باقی ہیں اور شمال افریقہ مین ہم جیسے بہت ہسے ہیں جو اشراف کہلاتے ہیں کیوں کہ وہ نسل سادات سے ہیں لیکن وہ لوگ بنی امیہ وبنی عباس کی بدعتوں میں سرگرداں ہوگئے ۔ اور اب ان کے پاس سوائے اس احترام کے جو لوگوں کے دلوں میں اب تک موجود ہے ۔کچھ نہیں ۔ خدا کی حمد ہدایت  دینے پر ہے ۔ شیعہ ہونے پر ہے اور بصارت وبصیرت کے حق پر ہونے پر ہے ۔

۱۷۷

اسباب تشیع

جن اسباب کی بنا پر میں شیعہ ہوا ہوں وہ تو بہت ہیں ، اس مختصر سے رسالہ میں ان سب کے تحریر کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔ صرف بعض اسباب کاذکر کرتاہوں ۔

(۱):- خلافت پر نص

چونکہ اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے میں نے قسم کھالی تھی کہ انھیں چیزوں پر اعتماد کروں گا جو فریقین (سنی وشیعہ)کے نزدیک معتمد ہوں اور جس کو کسی ایک فرقہ نے لکھا ہے اس کو چھوڑ دوں گا ۔اسی اصول پر میں نے ابو بکر اور علی میں سے کس کو کس پر فضیلت ہے " کے مسئلہ پر بحث کی اور یہ کہ خلافت علی کے لئے نص موجود ہے جیسا کہ شیعہ حضرات کا دعوی ہے یا خلافت کا مسئلہ انتخاب وشوری پر موقوف ہےجیسا کہ اہل سنت والجماعت کا دعوی ہے ۔

جو یائے حق اگر اپنے کو تمام تعصبات سے الگ کرکے صرف حقیقت کو تلاش کریگا تو اس کو حضرت علی کی خلافت پر نص مل جائے گی ،جیسے نبی کریم کا ارشاد ہے " من کنت مولاہ فعلی مولاہ " جب آنحضرت حجۃ الوداع سے واپس آرہے تھے تو اس حدیث کو ارشاد فرمایا تھا اور اس ارشاد کے بعد یا باقاعدہ مبارکبادی کی رسم ادا کی گئی اورخود ابو بکر وعمر نے حضرت علی کو ان الفاظ سے تہنیت پیش کی :- ابو طالب کے فرزند مبارک ہو مبارک تم تمام مومنین ومومنات کے مولا ہوگئے(۱)

--------------

(۱):- مسند احمد بن حنبل ج ۴ ص ۲۸۱ ، سر العالمین للغزالی ص ۱۲ ،تذکرۃ الخواص (ابن جوزی) ص ۲۹ ،الریاض النضرہ (طبری )ج ۲ ص ۱۶۹، کنز العمال ج ۶ ص ۳۹۷ ، البدایۃ والنھایہ (ابن کثیر) ج ۵ ص ۲۱۲ ،تاریخ ابن عساکر ج ۲ ص ۵۰ ،تفسیر رازی ج ۲ ص ۶۳ ،الحاوی للفتاوی (سیوطی ) ج ۱ ص ۱۱۲

۱۷۸

اس حدیث پر سنی شیعہ سب کاا جماع ہے اس بحث میں میں صرف اہل سنت کی کتابوں کا حوالہ دے رہا ہوں وہ بھی سب نہیں بلکہ جتنا میں نے ذکر کیا ہے اس کا کئی گنا چھوڑدیا ہے اگر کوئی مزید تفصیل چاہتا ہے تو وہ علامہ امینی کی"الغدیر" کا مطالعہ کرے جس کی اب تک ۱۳ جلدیں چھپ چکی ہیں ۔ اس کتاب میں مصنف نے صرف ان راویوں کا ذکر کیا ہے جو اہل سنت والجماعت  کے یہاں ثابت ہیں ۔ اب رہی یہ بات کہ سقیفہ میں ابو بکر کے انتخاب پر اجماع ہوگیا تھا اور اس کے بعد مسجد میں ان کی بیعت کی گئی تو یہ صرف دعوی ہی دعوی ہے اس پر دلیل نہیں ہے ۔ کیونکہ جب حضرت علی ،حضرت عباس ، تمام بنی ہاشم ، اسامہ بن زید ، سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری ، مقداد بن اسود ، عمار یاسر، حذیفہ یمانی ، خزیمہ بن ثابت ، ابو بریدہ الاسلمی ، البراء بن عازب ،ابی ابن کعب ، سہل بن حنیف ،سعد بن عبادہ ، ابو ایوب انصاری ،جابر بن عبداللہ انصاری  ،خالد بن سعید اور ان کے علاوہ بہت سے صحابہ نے بیعت سے انکار کیا(۱) ۔ تو خدا کے بندو! اب اجماع کہاں رہا؟ حالانکہ اگر صرف حضرت علی ہی بیعت نہ کرتے  تو یہی بات اجماع پر طعن کے لئے کافی تھی ۔ کیونکہ بالفرض اگر رسول اکرم کی طرف سے علی کے لئے نص نہیں تھی تو خلافت کے تنہا کنڈیٹ تو بہر حال  وہ تھے ۔

حضرت ابو بکر کی بیعت کسی مشورہ کے ہوئی ہے بلکہ لوگ متوجہ ہی نہیں تھے خصوصا  اہل حل وعقد کو پتہ ہی نہیں چلا کہ بیعت ہوگئی  جیسا کہ علمائے مسلمین کہتے ہیں کیونکہ لوگ تو رسول کی تجہیز وتکفین میں مشغول تھے ، صورت حال یہ ہوئی کہ مدینہ والوں کو دفعۃ اپنے نبی کے مرنے کی اطلاع ہوئی اور وہ

--------------

(۱):-طبری ،ابن اثیر ، تاریخ الخلفاء ، تاریخ الخمیس ، استیعاب ، بلکہ جن لوگوں نے بھی ابو بکر کی بیعت کا ذکر کیا ہے ۔

۱۷۹

لوگ ابھی رونے پیٹنے ہی میں تھے ، کہ لوگوں سے زبردستی بیعت لے لی گئی(۱) ۔ اور اس زبردستی کا ثبوت اس واقعہ سے بھی ملتا ہے کہ لوگوں نے حضرت فاطمہ کے گھر کو جلا دینے کی دھمکی بھی دی  کہ بیعت نہ کرنے والے نہ نکلے تو ہم اس گھر کو آگ لگا دیں گے ۔۔۔ پھرآپ ہی بتائیے ایسی صورت میں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ ابو بکر کی بیعت لوگوں کے مشورہ اور اجماع سے ہوئی ہے ؟

خود حضرت عمر کا فرمان ہے : ابو بکر کی بیعت بغیر سوچے سمجھے عمل میں آگئی ہے خدا نے مسلمانوں کو اس کے شر سے بچالیا  اب اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو قتل کردو ۔ (دوسری روایت میں ہے ) جو اس قسم کی بیعت کے لئے دعوت دے اس کو قتل کردو ! پس معلوم ہوا کہ نہ تو ابو بکر کی بیعت (صحیح )ہوئی ہے اور نہ لوگوں کی جنھوں نے ان کی بیعت کی ہے(۲)

اسی بیعت کے لئے حضرت علی فرماتے ہیں: خدا کی قسم ابو قحافہ کے بیٹے (ابو بکر) نے زبردستی کھینچ تان کر خلافت کی قمیص پہنی ہے حالانکہ ابو بکر جانتے ہیں خلافت کیلئے میں ایسا ہی ہوں جیسے وہ لوہا جس کے چاروں طرف چکی کا پاٹ گھومتا  رہتا ہے ،مجھ سے سیلاب (علم )جاری ہوتا ہے اور میرے بلندی (مرتبہ )تک پرندے پرواز نہیں کرسکتے(۳)

قبلیہ ،انصار ےک سردار سعد بن عبادہ بیان کرتے ہیں : سقیفہ کے دن ابو بکر وعمر نے انصار پر ہجوم کرلیا ۔ میں نے بڑی کوشش کی ان کو خلافت سے روک دوں اور دور رکھوں لیکن مریض ہونے کی وجہ سے میں ان کا مقابلہ نہ کرسکا ! اورج ب انصار نے ابو بکر کی بیعت کرلی تو سعد نے کہا : خدا کی قسم میں کبھی تمہاری بیعت نہ کرو ں گا  ،یہاں تک کہ میرے ترکش میں جتنے تیر ہیں سب  تم پر نہ چلادوں اور اپنے نیزوں کی انیوں کو تمہارے خون سے خضاب نہ کردوں اور جب تک میرے ہاتھوں کی طاقت باقی ہے اس وقت تک تم تلوار سے حملہ نہ کروں اور اپنے خاندان  وقبیلے کے ساتھ تم سے جنگ نہ کروں خدا کی قسم اگر انسانوں کے ساتھ جن بھی تمہارے شریک ہوجائیں تب بھی تمہاری بیعت نہ کروں گا یہاں تک کہ اپنے خدا کے سامنے پیش ہوں

--------------

(۱):- تاریخ الخلفاء (ابن قتیبہ )ج ۱ ص ۸۱

(۲):صحیح بخاری ج ۴ ص ۱۲۷

(۳):- شرح نہج البلاغہ (محمد عبدہ) ج ۱ ص ۳۴ خطبہ شقشقیہ 

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253