پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 30%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78229 / ڈاؤنلوڈ: 7529
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

چنانچہ جناب سعد نہ تو ان کی جماعت میں شریک ہوتے تھے نہ ان کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے ۔نہ ان کے ساتھ حج کرتے تھے (یہ بھی احتمال عبارت ہے کہ نہ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے مترجم) اور سعد کو کچھ مددگار مل گئے ہوتے تو ان سے جنگ سے پیچھے نہ ہٹتے اور اگر کوئی ان سے  ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرنے پر بیعت کرتا تو یہ باقاعدہ جنگ کرتے جناب سعد اپنے اسی حال پر باقی رہے یہاں تک کہ شام میں زمانہ ،خلافت عمر میں وفات پائی(۱)

٭ جب خود بقول عمر "جنھوں نے اس بیعت کے ارکان مضبوط کئے تھے "یہ ایک ناگہانی بیعت تھی ۔جس کے شر سے خدا نے مسلمانوں کو بچالیا ۔اور اس بیعت کی وجہ سے مسلمانوں کا کیا حال ہوگیا ۔

٭ جب یہ خلافت بقول حضرت علی جو اس کے شرعی مالک تھے " تقمص تھی یعنی ابوبکر نے اپنے جسم پر اس قمیص کو کھینچ تان کر فٹ کرلیا تھا ۔

٭جب یہ خلافت بقول سعد بن عبادہ جنھوں نے مرتے دم تک ان لوگوں کے ساتھ جمعہ وجماعت چھوڑ دی تھی " ظلم تھی ۔

٭ جب یہ خلا فت کی بیعت غیر شرعی تھی کیونکہ اکابر صحابہ اورخصوصا نبی کے چچا نے اس سے کنارہ کشی کی تھی ، تو پھر ابو بکر کی خلافت کی صحت پر کون سی دلیل ہے ؟ ۔۔۔۔ صحیح جواب تو یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔۔۔۔ لہذا اس سلسلہ میں شیعوں ہی کا قول درست ہے کیونکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک بھی حضرت علی کی خلافت پر نص موجود ہے ۔ البتہ انھوں نے صحابہ کی عزت وآبرو بچانے کے لئے اس نص کی تاویل کی ہے ۔ اس لئے انصاف پسند عادل شخص کے لئے نص کو قبول کرنیکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے خصوصا اگر اس واقعہ کے متعلقات کا علم ہوجائے(۲)

۲:-فاطمہ کا ابو بکر سے اختلاف

--------------

(۱):- تاریخ الخلفاء ،ج ۱ ص ۱۷۱

(۲):- ملاحظہ فرمائیے ۔ السقیفہ والخلافۃ (عبدالفتاح ) سقیفہ (محمد رضا مظفر )

۱۸۱

فریقین کےیہاں یہ موضوع بھی متفق علیہ ہے ! اگر چہ کوئی منصف وعاقل ا س کا اعتراف نہ بھی کرے کہ ابو بکر نے جناب سیدہ پر ظلم کیا ہے ۔ تب بھی ابو بکر کی غلطی مانے بغیر چارہ نہیں ہے ۔ کیونکہ جوشخص بھی اس المناک داستان کو پڑھیگا۔ اس کو علم الیقین  ہوگا کہ  ابو بکر نے جان بوجھ کر جناب زہرا کو اذیت دی ہے اور ان کوجھٹلا یا ہے ۔ تاکہ معصومہ حدیث غدیر وغیرہ سے اپنے  شوہر کے استحقاق خلافت پر استدلال نہ کرسکیں ۔(کیونکہ اگر آج ابوبکر فدک میں جناب معصومہ کوسچا مان لیتے  تو کل شوہر کی خلافت کے دعوی پر بھی سچا ماننا پڑتا  اس لئے جان بوجھ کر بنت رسول کو جھوٹا کہا گیا ہے مترجم )

اور اس بات پر بہت سے قرائن بھی موجود ہیں ۔ مثلا مورخین نے لکھا ہے ۔جناب فاطمہ خود انصار کی مجلسوں میں جاکر اپنے ابن عم کی نصرت وبیعت کے لئے لوگوں کو بلاتی تھیں اور لوگ کہدیا کرتے تھے ۔ بنت رسول اب تو ہم نے اس شخص (ابو بکر )کی بیعت کر لی ہے اگر آپ کے شوہر ابو بکر سے پہلے ہمارے پاس آجاتے  تو ہم علی کےعلاوہ کسی کی بیعت نہ کرتے ،اور حضرت علی فرماتے تھے ، کیا میں رسول  (ص) کے جنازہ کو  گھر میں چھوڑ دیتا ۔کفن ودفن نہ کرتا؟ لوگوں سے اپنی سلطنت وحکومت کی خواہش کرتا ؟ اورجناب فاطمہ ان لوگوں کے جواب میں کہتی تھیں: ابو الحسن نے وہی کیا جو ان کو کرنا چاہیے تھا ! ان لوگوں نے جو کچھ کیا ان سے خدا سمجھے گا(۱) ۔

اگر ابو بکر نے یہ سب غلطی یا اشتباہ کی وجہ سے کیا ہوتا تو جناب فاطمہ سمجھا کر مطمئن کردیتیں ۔ لیکن وہ اتنا ناراض تھیں کہ مرتے مرتے مرگیئں مگر ان دونوں سے بات بھی نہیں کی کیونکہ ابو بکر نے ہر مرتبہ آپ کے دعوی کو رد کردیا تھا ۔ نہ آپ کی نہ حضرت علی (ع) کی کسی کی بھی گواہی قبول نہیں کی ان تمام باتوں کی وجہ سے جناب معصومہ اتنا ناراض تھیں کہ اپنے شوہر کو وصیت کردیا تھا ۔ مجھے رات کو چپکے سے دفن کردینا  اور ان لوگوں کو میرے جنازے پر نہ آنے دینا(۲) ۔

اب جب کہ بات رات کو دفن کرنے کی آگئی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ میں جب بھی مدینہ گیا تو بڑی

--------------

(۱):- تاریخ الخلفا(ابن قتیبہ)ج ۱ ص ۱۹ ،۔شرح نہج البلاغہ (معتزلی )بیعت ابی بکر

(۲):- بخاری ج ۲ ص ۲۶ ،مسلم ج ۲ ص ۷۲" باب لا نورث ما ترکنا ہ صدقۃ "

۱۸۲

کوشش اس بات کے لئے کی کہ کچھ حقیقتوں کا پتہ چلا سکوں ،چنانچہ میں نے درج ذیل نتائج کا انکشاف کیا ہے ملاحظہ فرمائیے :

(۱):- جناب فاطمہ کی قبر مجہول ہے کوئی نہیں جانتا کہاں ہے؟ بعض کا خیال ہے "حجرہ نبویہ میں ہے " بعض کا نظریہ  ہے کہ حجرہ نبی کےمقابلہ میں جو آپ کا گھر تھا ۔ اسی میں دفن ہیں کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جنت البقیع " میں اہل بیت کی قبروں کے بیچ  میں ہے لیکن صحیح جگہ کی تشخیص یہ لوگ بھی نہیں کرسکے ۔۔۔ اس سے میں اس نتیجہ پر پہونچا  کہ جناب فاطمہ کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی ہر نسل یہ سوال کرے آخر کیا بات ہے کہ جناب  فاطمہ نے اپنے شوہر کو وصیت کی کہ ان کو رات کی تاریکی میں چپکے سے دفن کردیا جائے اور ان لوگوں میں سے کوئی آپ کے جنازے پر نہ آئے ! اس طرح ممکن ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے مسلمان کو بعض چونکا دینے والے حقائق کا پتہ چل جائے ۔

(۲):- دوسرا نتیجہ میں نے یہ نکالا کہ عثّمان بن عفان کے قبر کی زیارت کرنے والے کو کافی مسافت طے کرنے کے بعد بقیع کےآخر میں ایک دیوار کے نیچے جا کر قبر ملتی ہے اس کے بر خلاف اغلب صحابہ بقیع میں داخل  ہونے کے بعد ہی ان  کی قبریں مل جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ مالک بن انس جو تبع تابعین سے ہیں ۔ اور ایک مشہور مذہب (مالکی) کے سربراہ ہیں ان کی قبر  ازواج رسول کے قریب ہی ہے اور اس سے مورخین کی یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ عثمان کو" حش کوکب" میں دفن کیا گیا ہے ۔ حش کوکب یہودیوں کی زمین ہے جب مسلمانوں نے عثمان کو بقیع  رسول میں دفن نہیں ہونے دیا تو ان کے ورثا نے مجبورا حش کوکب میں دفن کیا ۔( پہونچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا )

پھر معاویہ تخت خلافت پر بیٹھا  تو  اس نے یہودیوں سے اس زمین کوخرید کر بقیع میں شامل کردیا تاکہ عثمان کی قبر بھی بقیع میں کہی جانے لگی ۔جو شخص بھی بقیع کی زیارت کرے گا اسپر یہ حقیقت واضح ہوجائیگی ۔

مجھے تو سب سے زیادہ تعجب اس پر ہے کہ جناب رسولخدا سے ملحق ہونے والی سب سے پہلی شخصیت جناب فاطمہ کی ہے کیونکہ سب سے زیادہ فاصلہ جو بتایا جاتا ہے وہ چھ مہینہ کا ہے لیکن وہ اپنے باپ کے پہلو میں دفن نہیں ہوسکیں پس جب جناب فاطمہ اپنے باپ کے پہلو میں دفن نہ ہوسکیں حالانکہ آپ نے وصیت کردی تھی کہ

۱۸۳

مجھے چپکے سے دفن کردیا جائے تو اگر امام حسن انپے جد کے پہلو میں دفن نہ ہوسکیں  تو تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ جب امام حسین اپنے بھائی امام حسن (ع) کا جنازہ لے کر آئے  کہ پہلوئے رسول میں دفن کر دیا جائے تو ام المومنین عائشہ اس کو روکنے کے لئے خچر پر سوار ہوکر آئیں اورچیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں : میرے گھر میں اس کو دفن نہ کرو جس کو میں دوست نہیں رکھتی  اس منع کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی امیہ اور بنی ہاشم صف باندھ کر کھڑے ہوگئے اور ایک دوسرے پر حملے کیلئے آمادہ ہوگئے ۔ لیکن امام حسین (ع) نے وصیت کردی تھی کہ میرے سلسلہ میں ذرہ برابر بھی خون نہ بہایا جائے اسی موقع پر ابن عباس نے اپنے مشہور اشعار کہے

تجمّلت تبعّلت  ولو عشت تفیلت ----- لک التسع من الثمن وفی الکل تصرفت

تم اونٹ پر  بیٹھ چکی  ہو (جنگی  جمل کی طرف اشارہ ہے ) اور(آج ) خچر پر بیٹھی ہو (امام حسن کا جنازہ روکنے کے لئے عائشہ خچر پر بیٹھ کر آئی تھیں ) اگر تم زندہ  رہ گئیں تو ہاتھی پر بھی بیٹھوگی ۔ تمہارا حصہ تو ۱/۸ میں سے ۱/۹  ہے مگر تم نے پورے میں تصرف کرلیا(۱) خوفناک  حقائق میں سے ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے  اس گھر میں بیوی کا حصہ ہے پھر پورے گھرپر عائشہ  کو کیا حق تھا کہ وہ منع کرتیں ؟اورجب نبی کا کوئی وارث ہی نہیں ہوتا جیسا کہ ابو بکر نے کہا اور اسی بنیاد پر جناب فاطمہ کا حق نہیں دیا تو پھر ابو بکر کی بیٹی کو نبی کی میراث کیسے مل رہی ہے ؟ کیا قرآن میں ایسی کوئی آیت ہے جو یہ بتاتی ہو کہ بیٹی کو میراث نہیں ملتی  مگر بیوی کو ملتی ہے ؟ یا سیاست  نے ہر چیز کو الٹ پلٹ دیا تھا بیٹی کو کچھ نہ دے کر بیوی کو سب کچھ دیدیا گیا ؟بعض مورخین نے یہاں پر ایک دلچسپ قصہ لکھا ہے اور چونکہ وہ میراث سے متعلق ہے اس لئے اس کا ذکر کر دینا مناسب ہے ۔ابن ابی الحدید معتزلی نہج البلاغہ کی شرح میں فرماتے ہیں :

--------------

(۱):- شوہر کے ترکہ میں بیوی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے جب شوہر صاحب اولاد ہو اور رسول خدا کی نو بیویاں تھیں تو ترکہ جو آٹھواں حصہ  ملتا  اس میں تمام بیویاں  شریک ہوتیں یعنی آٹھویں حصہ کا ہر ایک کو ۱/۹ ملتا تو عائشہ کا حق صرف ۱/۹ ہے مگر انھوں نے پورے قبضہ جمالیا (مترجم)

۱۸۴

حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں عائشہ وحفصہ عثمان کے پاس آئیں وار ان سے کہا رسول خدا کی میراث ہم دونوں میں تقسیم کردیجئے ۔عثمان ٹیک لگائے بیٹھے تھے یہ سنتے ہی ٹھیک سے بیٹھ گئے اور عائشہ کو مخاطب کرتے ہوئے بولے : اور یہ جو بیٹھی ہیں دونوں ایک اعرابی کو لے کر آئیں جو اپنے پیشاب سے طہارت کرتاہے اور تم دونوں نے گواہی دی کہ رسول خدا نے فرمایا : ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے ! اب اگر واقعا رسول کسی کو وارث  نہیں بناتے (یعنی رسول کا کوئی وارث نہیں ہوتا )تو تم دونوں رسول کے بعد کیا مانگنے آئی ہو؟ اگر رسول کا وارث  ہوتا تو تم لوگوں نے فاطمہ کو ان کے حق سے کیوں روکا ، عائشہ اپنا سامنہ  لے کر رہ گئیں اور وہاں سے غصّہ کی حالت  میں نکلیں ۔اور فرمایا نعثل کو قتل کردو یہ تو کافر ہوگیا ہے ۔ (۱)

۳:- علی کی پیروی اولی ہے

میرے شیعہ ہونے اور آباء اجدا کے مذہب کوچھوڑ نے کا ایک سبب حضرت علی (ع) اور ابوبکر کے درمیان عقلی ونقلی دلیلوں سے موازنہ کرنا ہے ۔ میں اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میں صرف اسی اجماع کو قابل بھروسہ سمجھتا ہوں جس پر سنی و شیعہ دونوں متفق ہوں ۔ اس اعتبار سے جب میں نے فریقین کی کتابوں کی کھنگا لا تویہ دیکھا کہ صرف علی بن ابیطالب کی خلافت پر اجماع ہے سنی وشیعہ دونوں ان مصادر  کی بنا پر جو دونوں کے یہاں ہیں حضرت علی کی امامت  پر متفق ہیں اور حضرت ابو بکر کی خلافت کو صرف سنی مسلمان ہی تسلیم کرتے ہیں حضرت ابو بکر  کی خلافت کے بارے میں حضرت عمر کا قول ہم پہلے نقل کرآئے ہیں ۔

بہت سے حضرت علی کے فضائل ومناقب جسکو شیعہ ذکر کرتے ہیں ان کی سند ہے ان کا حقیقی وجود ہے ۔

--------------

(۱):- شرح اب ابی الحدید ج ۶ ص ۲۲ ۔۲۲۲

۱۸۵

اور اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے اور اتنے زیادہ طریقوں سے ثابت ہے کہ شک کی وہاں تک رسائی ہی نہیں ہے ۔حضرت علی کے فضائل کو صحابہ کی ایک جم غفیر نے نقل کیا ہے ۔ احمد بن حنبل تو کہتے ہیں ۔ جتنے فضائل حضرت علی کے آئے ہیں کسی صحابی کے لئے نہیں آئے ہیں(۱) قاضی اسماعیل نسائی ،ابو علی نیشا پوری کہتے ہیں ، جتنی اچھی سندوں کے ساتھ حضرت علی کے مناقب وارد ہوئے ہیں کسی بھی صحابی کے لئے نہیں وارد ہوئے ہیں(۲) ۔

آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ بنی امیہ نے مشرق سے لے کر مغرب تک کے لوگوں کو حضرت پر لعنت کرنے ان پر سب وشتم کرنے ، ان کی فضیلت کاذکر نہ کرنے پر مجبور  کر رکھا تھا ۔ حدیہ تھی کہ کسی کو اجازت نہ تھی کہ علی نام رکھے ۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حضرت علی کے اتنے فضائل ومناقب مذکور ہیں ، اسی لئے امام شافعی کہتے ہیں ،مجھے اس شخص پر بہت زیادہ تعجب  ہے جس کے فضائل دشمنوں نے حسد کی وجہ سے دوستوں نے خوف کی وجہ سے چھپائے لیکن پھر بھی اتنے زیادہ فضائل مذکور ہیں جن سے مشرق ومغرب پر ہیں ،

اسی طرح میں نے حضرت ابو بکر کے سلسلہ میں بھی فریقین کی کتابوں کو چھان مارا لیکن خود اہل سنت والجماعت جو حضرت ابو بکر کو حضرت علی پر ترجیح دیتے ہیں ان کے یہاں بھی حضرت علی کے فضائل کے برابر فضیلت والی حدیثیں نہیں ملیں ۔ اس کے علاوہ ابو بکر کے فضائل کی جو روایتیں موجود بھی ہیں اور تاریخی کتابوں میں یا تو ان کی بیٹی عائشہ سے ہیں جس کا موقف حضرت علی کےساتھ کیا تھا ؟ دنیا جانتی ہے اس لئے انھوں نے اپنے باپ کو اونچا ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگی صرف کردی اورفرضی روایتوں سے فضیلت ثابت کرنی چاہی ہے اور یا ابو بکر کی فضیلت کی روایات عبداللہ بن عمر سے منقول  ہیں یہ حضرت بھی حضرت علی کے جانی دشمنوں میں تھے ان کا عالم یہ تھا کہ ساری دنیا نے حضرت علی کی بیعت کر لی تھیں مگر آپ نے حضرت

-------------

 (۱):- المستدرک علی الصحیحین (حاکم) ج ۳ ص ۱۰۷ مناقب (خوارزمی)ص ۳، ۱۹ تاریخ الخلفاء ص ۱۶۸ ،الصواعق المحرقہ لابن حجر الہیثمی ص ۷۲ ،تاریخ ابن عساکر ج۲ ص ۶۳ ،شواہد التنزیل (حسکانی) ج۱ ص ۱۹

(۲):- الریاض النضرۃ (طبری)ج ۲ ص ۲۸۲ ، صواعق محرقہ (ابن حجر )ص ۱۱۸

۱۸۶

علی کی بیعت نہیں کی ۔۔۔۔ اس کے بر خلاف آپ نے یزید ملعون کی بیعت اس کے ہاتھوں پر نہیں پاؤں پکڑ کے کی ہے تفصیل کے لئے تاریخی کتابیں پڑھئے (مترجم) ۔۔۔۔ اور آپ (عبداللہ بن عمر) فرمایا کرتے تھے رسول خدا کے بعد افضل الناس ابوبکر تھے ، ان کے بعد عمر ان کے بعد عثمان تھے اس کے بعد کسی کو فضیلت نہیں ہے سب ہی برابر کے ہیں(۱)

آپ نے توجہ فرمائی اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت علی بازاری لوگوں کے برابر تھے حضرت علی کے لئے نہ کوئی فضل تھا ، نہ فضیلت ! آخر یہ عبداللہ کس دنیا میں رہتے تھے ان کو تو ان حقائق کا پتہ ہی نہیں جن کو اعلام امت اور ائمہ امت  ائمہ امت نے تحریر کیا ہے کہ حسن سندوں کے ساتھ جتنی فضیلت کی روایات علی کے لئے ہیں کسی صحابی کے لئے نہیں ہیں ۔ کیا عبداللہ بن عمر نے حضرت علی کی ایک بھی فضیلت نہیں سنی تھی ؟ اجی سنی بھی تھی اور یاد بھی تھی لیکن سیاست کی دنیا عجیب ہوتی ہے ۔(خرد کا نام جنوں رکھ دیا کا خرد+ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے )

عائشہ وعبداللہ بن عمر کے علاوہ جن لوگوں نے ابو بکر کی فضیلت بیان کی ہے ان کے اسمائے گرامی پرھئے ! عمرو بن العاص ،ابو ہریرہ ،عروۃ ،عکرمہ ، وغیرہ ہیں ، اور تاریخ کا بیان ہے کہ یہ سب حضرت علی کے دشمن تھے اور ان سے کبھی تو ہتھیاروں سے جنگ کرتے تھے کبھی دسیسہ کاری سے ،اوریہ بھی نہ ہو تو حضرت علی کے دشمنوں کے لئے فرضی حدیثیں جعل کیا کرتے تھے ،امام احمد بن حنبل کہتے ہیں حضرت علی کے بہت زیادہ دشمن تھے دشمنوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح علی میں کوئی عیب تلاش کرلیں مگر ناکامیاب رہے تو یہ لوگ حضرت علی کے اس دشمن کے پاس آگئے جس نے حضرت علی سے حرب وقتال کیا تھا  اور اپنی مکاریوں کی بنا پر اس کی تعریفیں کرنے لگے ،(۲) ۔لیکن خدا کا اعلان ہے : انهم یکیدون کیدا واکید کیدا فمهل الکافرین امهلهم رویدا (۳) بیشک یہ کفار اپنی تدبیر کررہے ہیں اور میں اپنی تد بیر کررہا ہوں اس لئے کافروں کو مہلت دو پس ان کو تھوڑی

--------------

(۱):- صحیح بخاری ج ۲ ص ۲۰۲

(۲):- فتح الباری شرح صحیح بخاری ج ۷ ص ۸۳ تاریخ الخلفاء (سیوطی ) ص ۱۹۹ صواعق المحرقہ (ابن حجر)ص ۱۲۵

(۳):- پ ۳۰ س ۸۷ آیت ۱۵،۱۶،۱۷

۱۸۷

سی مہلت دو ۔

یقینا پروردگار عالم کا معجزہ ہے کہ مسلسل چھ سوسال حضرت علی اورآل علی کی مخالف حکومت کے بعد بھی حضرت علی کے فضائل موجود ہیں ، میں چھ سوسال کہہ رہا ہوں کہ بنی عباس بھی بغض حسد، ظلم قتل اہل بیت کے سلسلہ میں اپنے اسلاف بنی امیہ سے کم نہیں تھے ، بلکہ دو ہاتھ آگے ہی تھے ،ابو فراس ہمدانی ان کےمیں کہتا ہے

ما نال منهم بنو حرب وان عظمت     تلک الجرائر الادون نیلکم

کم غدرة لکم فی الدین واضحة      وکم دم لرسول الله عندکم

انتم له شیعة فیما ترون وفی       اظفار کم من بنیه الطاهرین

(ترجمہ):- بنی امیہ نے آل محمد (ص) کو بہت ستایا ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ ے ، اے بنی عباس ! بنی امیہ کے مظالم آل محمد پر چاہے جتنے زیادہ ہوں تم سے پھر بھی  کم ہیں ،تم نے دین کے بارے میں ان کے ساتھ کتنی ہی مرتبہ  صاف صاف غداری کی ۔تمہارے بہائے ہوئے کتنے خون کا قصاص رسول خدا کے پاس  ہے ۔ بظاہر تم اپنے کو آل محمد کا شیعہ کہتے ہو لیکن محمد کی اولاد طاہرین کا خون تمہارے ناخنوں  میں اب تک ہے ۔۔۔۔ ان تمام تاریکیوں کے باوجود جب ایسی حدیثیں علی کی فضیلت میں ہیں تویہ صرف خدا کا کرم ہے اور اس کی حجت بالغہ ہے ۔

ابو بکر باوجودیکہ خلیفہ اول تھے ، اور اتنا اثر ونفوذ رکھتے تھے اور اموی سلاطین باوجود دیکہ ابو بکر ،عمر، عثمان کے حق ہیں روایت کرنے والوں کا منہ موتیوں سے بھردیتے تھے ان کے لئے مخصوص عطیہ ورشوت معین کی جاچکی تھی اور اس کے باوجود کہ ابوبکر کے لئے فضائل ومناقب کی جعلی حدیثوں کی بھر مار کر دی گئی تھی ۔ اور ان  سے تاریخ کے صفحات سیاہ کردیئے گئے تھے ۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود "حضرت علی کی شان میں واقعی فضیلت کی جو احادیث ہیں ان کا عشر عشیر بھی ابو بکر کے لئے نہیں ہے اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ملاحظہ  فرمائیے کیا ابو بکر کی شان میں نقل کی جانی والی روایات کی اگر تحریر کی جائے تو تاریخ نے جوان کے تنا قضات لکھے ہیں ان کے ساتھ یہ روایات جمع ہی نہیں ہوسکتیں اور نہ عقل وشرع ان کو قبول کرسکتی ہے

۱۸۸

حدیث" لوزن ایمان ابی بکر بایمان امتی لرجح ایمان ابی بکر " کے سلسلہ میں حقیر پہلے بھی بحث کرچکا ہے لیکن مزید سنئے ۔

٭ اگر رسول خدا کو معلوم ہوتا کہ ابوبکر کاایمان اس وجہ کا ہے تو اسامہ بن زید کی سرکردگی میں ابو بکر کو قرار نہ دیتے ،

٭اگر رسولخدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو ابوبکر کے لئے گواہی دینے سے انکار نہ کرتے بلکہ جس طرح شہدائے احد کیلئے گواہی دی تھی ان کے لئے بھی گواہی دیتے اور یہ نہ فرماتے کہ مجھے نہیں معلوم میرے بعد تم کیا کیا کروگے ؟ جس پر ابو بکر بہت روئے تھے(۱) ۔

٭اگررسول خدا کو معلوم ہوتاکہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو علی کو بھیج کر ان سے سورہ براءت کی تبلیغ کوروک نہ دیتے(۲)

٭ اگر رسول خدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے توخیبر میں علم دینے کے لئے نہ فرماتے : کل میں ایسے شخص کو علم دوں گا جو خدا ورسول کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا اور رسول اس کو دوست رکھتے ہوں  گے کرار ہوگا غیر فرار ہوگا خدا نے اس کے دل کا امتحان لے لیا ہوگا اس کے بعد حضرت علی کو علم دیا ابوبکر کو نہیں دیا(۳) بلکہ اگر خدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے یا یہ کہ ابو بکر کا ایمان پوری امت  محمد کے ایمان سے زیادہ ہے تو جس وقت انھوں نے نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند کی تھی خدا ان کے اعمال  کے حبط کردیئے جانے کی دھمکی نہ دیتا(۴) ۔

٭ اگرعلی  اور ان کے پیرو کار وں  کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو یہ لوگ کبھی بھی ابو بکر کی بیعت سے انکار نہ کرتے

٭ اگر فاطمہ کو ایمان ابو بکر کا وزن معلوم ہوتا تو غضبناک نہ ہوتیں ان سے بات چیت نہ بند کرتیں ان کے سلام کاجواب دیتیں ان کے لئے ہر نماز کے بعد بدعا نہ کرتیں ، ان کو اپنے جنازہ

-------------

(۱):- موطاء  امام مالک ج ۱ ص ۳۰۷ مغازی واقدی ص ۳۱۰

(۲):- مسند احمد ج ۴ ص ۳۳۹ ، مسند احمد ج ۲ ص ۳۱۹مستدرک حاکم ج ۳ ص ۵۱  

(۳):- صحیح مسلم باب فضائل علی ابن ابی طالب

(۴):- بخاری ج ۴ ص ۱۸۴

۱۸۹

شریک نہ ہونے  دینے کی وصیت کی(۱)

٭ خودابو بکر کو اپنے ایمان کی اس بلندی کا علم ہوتا تو چاہے فاطمہ کے گھر میں لوگ جنگ ہی کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے ہوتے اور دروازہ بند کر لئے ہوتے جب بھی یہ فاطمہ کے گھر کو کھلوانے  کی کوشش نہ کرتے ، فجاوۃ السلمی کو آگ میں جلایا نہ ہوتا ، سقیفہ میں قلادۃ بیعت عمر یا ابو عبیدہ کے گردن میں ڈال دیا ہوتا(۲) ۔ اور اگر ابو بکر  کا ایمان اتنا وزنی ہوتا جو پوری امت کے ایمان پر بھاری ہوتا تو اپنی عمر کےآخری لمحات میں فاطمہ کے ساتھ جو اقدامات کئے ہیں ان پر فجاءۃ السلمی کے جلانے پر اور خلافت کا عہدہ سنبھالنے پر نادم وپشیمان نہ ہوتے اسی طرح یہ تمنا نہ کرتے کا ش میں مینگنی ہوتا ، کاش میں بال ہوتا ، کاش میں بشر نہ ہوتا ، شوچئے  کیا ایسے شخص کا ایمان پوری امت اسلامیہ کے برابر ہوسکتا ہے ؟ نہیں ! چہ جائیکہ  پوری ملت اسلامیہ پر بھاری ہو۔ اب آئیے اس حدیث کو لیجئے ۔"لو کنت متخذ خلیلا لاتخذت  ابابکر خلیلا " اگرمیں کسی کو خلیل بنا تا تو ابو بکر ہی کو خلیل بناتا ۔۔۔۔۔ یہ بھی پہلی حدیث کی طرح بوگس ہے ۔ ہجرت سے پہلے مکہ میں جب "مواخاۃ صغری" رسول  نے قراردی ہے اور ہجرت کے بعد مدینہ میں جب آنحضرت نے انصار ومہاجرین  میں مواخات قراردی ہے جس کو "مواخاۃ کبری" کہا جاتا ہے ، اس دونوں میں ابو بکر  کہاں چلے گئے تھے ؟ رسول خدا نے ان کو کیوں اپنا بھائی نہیں بنایا ؟ دونوں موقعوں پر رسول اکرم نے حضرت علی ہی کو کیوں اپنا بھائی قراردیا ؟ اور فرمایا : اے علی تم دنیا وآخرت  میں میرے بھائی ہو (۳) ۔ ابو بکر کو کیوں محروم قرار دیا ؟ نہ آخرت کا بھائی نہ آخرت کا خلیل کچھ بھی تو نہ بنایا ۔ میں اس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا ۔ بس انھیں دوحدیثوں  پر اکتفا کرتاہوں جو کتب اہل سنت والجماعت میں موجود ہیں ۔ رہے شیعہ تو وہ ان حدیثوں کو بالکل مانتے ہی نہیں

--------------

(۱):- الامامۃ والسیاسۃ ج ۱ ص ۱۴ ،رسائل الحاحظ ص ۳۰۱ ،اعلام النساء ج ۳ ص ۱۲۱۵

(۲):- تاریخ طبری ج ۴ ص ۵۲، الامامۃ والسیاسۃ ج ۱ ص ۱۸۱ ،تاریخ مسعودی ج ۱ ص ۴۱۴

(۳):- تذکرۃ الخواص (ابن جوزی) ص ۲۳ تاریخ دمشق (ابن عساکر) ج ۱ ص۱۰۷  ،المناقب (خوارزمی) ص ۷ ،فصول المہمہ(ابن صباغ) ص ۲۱

۱۹۰

اور بہت مضبوط دلیلیں  پیش کرتے ہیں کہ یہ حدیثیں ابو بکر کے مرنے کے بعد وضع کی گئی ہیں

یہ تو فضائل  کا قصہ ہے اب اگر ہم فریقین کی کتابوں میں حضرت علی کی برائیوں کی تلاش کریں تو سعی بسیار کے بعد بھی ایک برائی بھی آپ کو نہ ملے گی ۔ البتہ حضرت علی (ع) کے علاوہ دوسروں کی برائیوں کی بھرمار آپ کو اہل سنت کی صحاح ،کتب سیر ، کتب تاریخ میں ملے گی ۔

اس طرح فریقین کا اجماع صرف  حضرت علی (ع) کے لئے مخصوص ہے جیسا کہ تاریخ بھی کہتی ہے کہ صحیح بیعت صرف حضرت علی (ع) کے لئے ہوئی ہے ۔کیونکہ علی بیعت لینے سے انکار کررہے تھے مہاجرین وانصار نے اصرار کرکے بیعت کی ہے چند انگلیوں پر گنے جانے والے افراد نے بیعت نہیں کی تو آپ نے ان کو بیعت پر مجبور بھی نہیں کیا   حالانکہ بقول عمر ابو بکر بیعت ناگہانی تھی ،خدا نے  مسلمانوں کو اس کے شر سے بچالیا ۔۔۔ابو بکر نے اپنی بیعت نہ کرنے والوں کو قتل کرادیا بیعت پر مجبور کیا مترجم ۔۔۔۔۔ اور عمر کی خلافت اس وصیت کے پیش نظر تھی جو ابو بکر نے عمر کیلئے کی تھی ، اور عثمان کی بیعت تو ایک تاریخی مضحکہ خیزی تھی ،کیونکہ عمر نے چھ آدمیوں کو خلافت کا کنڈیڈیٹ اپنی طرف سے معین کرکے ان کے لئے لازم قرار دیدیا تھا ، کہ یہ چھ حضرات اپنے میں کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرلیں ۔ اگر چار  کی رائے  ایک طرف ہو اور دو کی ایک طرف تو دو کو قتل کردو  اور اگر تین تین ہوں تو جس تین کے ساتھ عبدالرحمن بن عوف ہوں اس کی بات مان لو اور اگر ایک معین وقت گزرجائے اور یہ لوگ کسی پر اتفاق نہ کر پائیں تو ان چھ  کےچھ کو قتل کردو ۔ یہ قصہ طویل بھی ہے اور عجیب بھی ۔

مختصر یہ ہے کہ عبدالرحمان بن عوف نے حضرت علی کو منتخب کیا اور ان سے کہا شرط یہ ہے کہ آپ مسلمانوں میں حکم خدا وسنت رسول  وسیرت شیخین (ابو بکر وعمر) کے مطابق حکم کریں گے ۔ حضرت علی نےسیرت شیخین کی شرط کو قبول نہیں کیا ۔ مگر عثمان نے قبول کرلیا اس لئے وہ خلیفہ بنادیئے گئے ۔ حضرت علی شوری سے باہر چلے گئے ۔ اورآپ کو نتیجہ پہلے ہی سے معلوم تھا ۔آپ نے اس کاذکر اپنے مشہور خطبہ شقشقیہ میں بھی کیا ہے ۔

حضرت علی کے بعد معاویہ تخت خلافت پر بیٹھے انھوں نے خلافت کو ملوکیت سےبدل دیا ۔

۱۹۱

جس پر بنی امیہ یکے بعد دیگرے حکومت کرتے رہے ،بنی امیہ کے بعد خلافت کی گیند بنی عباس کے پالے میں چلی گئی ۔اس کے بعد پھرخلیفہ وہ شخص ہوتا تھا جس کو موجودہ خلیفہ نامزد کر جائے ۔ یا جو طاقت وقہر وغلبہ سے سلطنت چھین لے ۔ اور پھر اسلامی تاریخ میں صحیح (۱) بیعت کا وجود ہی ختم ہوگیا ۔ یہاں تک کہ کمال اتاترک ،نے خلافت اسلامیہ کےتابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی اور اس پورے دورمیں صحیح بیعت صرف علی (ع) کے لئے ہی ہوئی تھی ۔

--------------

(۱):- صحیح بیعت سے مراد وہ بیعت ہے جو ناگہانی نہ ہو اور لوگ خود بخود بیعت کریں کسی کو مجبور نہ کیا جائے

۱۹۲

(۴)

احادیث حضرت علی (ع) کی اطاعت کو واجب بتاتی ہیں

جن حدیثوں نے میری گردن پکڑ کر حضرت علی کی اقتدا پر مجبو رکردیا وہ وہی حدیثیں ہیں جن کو علمائے اہل سنت نے اپنی صحاح میں نقل کیا ہے ۔ اور ان کے صحیح ہونے کی تاکید کی ہے اور شیعوں کے یہاں تو الی ماشااللہ احادیث ہیں جو حضرت علی کے لئے نص ہیں ۔ لیکن میں اپنی عادت کے مطابق صرف انھیں احادیث پر اعتماد کروں گا ۔ ۔اور انھیں سے استدلال کروں گا جو فریقین کے یہاں متفق علیھا ہوں ، انھیں سے چند یہ ہیں

(۱) :- "حدیث مدینہ " " انا مدینة العلم وعلی بابها " (۱)

رسول  خدا(ص) کے بعد تشخیص قیادت کے سلسلے میں یہ حدیث ہی کافی ہے کیونکہ جاہل کے مقابلہ میں عالم کی اتباع کی جاتی ہے خود ارشاد رب العزت ہے"قل هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون(پ ۲۳ س ۳۹ (زمر) آیت ۹) ۔اے رسو ل تم پوچھو تو بھلا کہیں جاننے والے اور نہ جاننے والے لوگ برابر  ہوسکتے ہیں ؟ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے" قُلْ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ يَهِدِّيَ إِلاَّ أَن يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (پ ۱۱ س۱۰ (یونس) آیت ۳۵) ۔ تو جو شخص دین کی راہ دکھاتا ہے کیا وہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کے حکم کی پیروی  کی جائے یا وہ شخص جو دوسرے کی ہدایت تو درکنار ( خود جب تک دوسرا اس کو راہ رنہ دکھائے نہیں پاتا ) تو تم کو کیا  ہوگیا ہے تم کیسے حکم لگاتے ہو ؟

ظاہر سی بات ہے عالم ہدایت کرتا ہے اور جاہل ہدایت کی جاتی ہے ، جاہل دوسروں سے کہیں زیادہ ہدایت کا محتاج ہوا کرتا ہے ۔

--------------

(۱):- مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۲۷ ،تاریخ ابن کثیر ج ۷ ص ۲۵۸ ، مناقب (احمد بن حنبل )

۱۹۳

اس سلسلے میں تاریخ کا متفقہ بیان  ہے کہ حضرت علی(ع) مطلقا تمام صحابہ سے زیادہ عالم تھے اور اصحاب امہات المسائل میں حضرت علی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ، لیکن حضرت علی نے کسی صحابی کی طرف کبھی بھی رجوع نہیں فرمایا اس کے برخلاف  ابو بکر کہا کر تے تھے"لا ابقانی الله لمعضلة لیس لها ابو الحسن " (خدانے مجھے کسی ایسی مشکل کے لئے زندہ نہ رکھے  جس کے (حل )کیلئے حضرت علی نہ ہوں ) اور عمر بار بار کہتے تھے :لولا علی لهلک عمر" اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔حبر الامۃ ابن عباس کہا کرتے تھے ۔ میرا اور تمام اصحاب محمد کا علم حضرت علی کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلہ میں ایک قطرہ(۲) خود حضرت علی فرمایا کرتے تھے ۔ میرے مرنے سے پہلے (جو چاہو) مجھ سے پوچھ لو ۔ خدا کی قسم اگر تم قیامت تک ہونے والی کسی چیز کے بارے میں پوچھو گے تو اس کو بھی بتا دوں گا  ۔ مجھ سے قرآن کے بارے میں پوچھو ۔خدا کی قسم قرآن کی کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ یہ رات میں اتری ہے یا دن میں  پہاڑ پر اتری یا ہموار زمین پر(۳) ۔اور ادھر ابوبکر کا یہ عالم تھا کہ جب ان سے "ابّ" کے معنی پوچھے گئے جو اس آیت میں ہے ۔وفاکهة وابّا متاعا لکم ولانعامکم (پ ۳۰ س۸۰ (عبس) آیت ۲۰،۲۱،۲۲) ۔اور میو ے اورچارا (یہ سب کچھ )تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے فائدے کے لئے (بنایا) تو اس کے جواب میں کہنے لگے ۔ کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرےگا اور کون سی زمین مجھے اٹھا ئےگی اگر میں کہوں کہ کتاب خدا  میں ایسی آیت ہے جس کے معنی میں نہیں جانتا ۔۔۔اور عمر کہتے تھے ،: عمر سے زیادہ ہر شخص فقہ جانتا ہے انتہا یہ ہے کہ پردہ میں بیٹھنے والیاں بھی ،" حضرت عمر  سے ایک آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو عمر نے پہلے تو اس کو ڈانٹا پھر درہ لے کر اس پر پل پڑے اور اتنا مارا کہ وہ لہو لہان ہوگیا کہنے لگے ایسی چیزوں کے بارےمیں نہ پوچھا کرو کہ اگر ظاہر ہوجائیں  تو تم کو برا لگے(۴) ۔

--------------

(۱):- استیعاب ج ۳ ص ۳۹ ،مناقب (خوارزمی )ص ۴۸، ریاض النفرۃ ج ۲ ص ۱۲۴

(۲):- حوالہ سابق

(۳):- الریاض النفرۃ (محب الدین) ج ۲ ص ۱۹۸ ، تاریخ الخلفاء (سیوطی) ص ۱۲۴ ،اتقان ج ۲ ص ۲۱۹ ،فتح الباری ج ۸ ص ۴۸۵ ،تہذیب ج ۷ ص ۳۲۸

(۴):- سنن دارمی ج ۱ ص ۵۴ ،تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۲۳۲ ،در منثور ج ۶ ص۱۱۱

۱۹۴

بے چارے سائل نے کلالۃ کے معنی پوچھ لئے تھے ۔

طبری نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عمر کہتے تھے ۔ اگر مجھے "کلالۃ " کے معنی معلوم ہوتے تو یہ بات میرے نزدیک شام کے قصروں سے زیادہ محبوب تھی ۔۔۔ ابن ماجہ نے بی سنن میں عمر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ موصوف فرماتے تھے : تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر رسول اللہ (ص) نے ان کو بیان کردیا ہوتا تو مجھے دنیا وما فیھا سے زیادہ سے محبوب ہوتیں " کلالۃ ، ربا ، خلافت ،

سبحان اللہ ! ناممکن ہے کہ رسول خدا نے ان چیزوں کو بیان نہ کیا ہو ۔

(۲):- "حدیث منزلت "" یا علی انت منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی "

 اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی بس یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا !

اس حدیث سے حضرت علی کی وزارت (ولایت) وصیات ،خلافت صریحی طور سے ثابت ہوتی ہے جیسا کہ صاحبان عقل کے نزدیک یہ بات مخفی نہیں ہے ۔ جب جناب موسی میقات رب کے لئے گئے تھے تو ان کی عدم موجودگی میں جناب ہارون آپ کے وزیر ،وصی ،خلیفہ تھے یہی چیز حضرت علی کیلئے بھی ثابت ہے ، اس حدیث سے دو باتیں اور بھی ثابت ہوتی ہیں ۔

(۱):- حضرت ہارون کی طرح حضرت علی(ع) حضرت رسول (ص) کی تمام خصوصیات کے نبوت کے علاوہ حامل تھے ۔

(۲):- حضرت علی(ع) رسولخدا (ص) کے علاوہ آپ کے تمام اصحاب سے افضل وبرتر تھے ۔

(۳):- "حدیث غدیر"" من کنت مولاه فهذا علی مولاه اللهم وآل من والاه وعاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله وادر الحق معه حیث مادار :!"

۱۹۵

جس لوگوں کا عقیدہ  ہے کہ ابو بکر ،عمر ،عثمان اس شخص پر فضیلت رکھتے ہیں ،جس کو رسول خدانے اپنے بعد مومنین کا ولی بنا یا ہے ،ان لوگوں کے خیال باطل کو باطل کرنے کے لئے صرف یہ حدیث اکیلی ہی کافی ہے ۔اور جن لوگوں نے صحابہ کا بھرم رکھنے کے لئے سا حدیث میں لفظ "مولی" کی تاویل کی ہے اس سے مراد "محب اور ناصر" ہے ان کی تاویل بے اعتبار ہے کیونکہ جس اصلی معنی کا رسول  نے ارادہ کیا تھا  اس معنی سے اس کو موڑنا ہے ۔کیونکہ شدید گرمی میں جب رسول خدا نے کھڑے ہوکر فرمایا ۔ کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہو کہ میں مومنین کے نفوس پر مومنین سے زیادہ اولویت رکھتا ہوں ،تو سب نے کہا بیشک یا رسول اللہ ! تب آپ نے فرمایا " من کنت مولاہ الخ " یعنی جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں ،خدا یا جو علی کو دوست رکھے تو بھی اس کو دوست رکھ ۔ اور جو علی سے دشمنی رکھےتو بھ اس کو دوشمن رکھ ، جو علی کی مدد کرے تو اس کی مدد کر جو علی کی مدد نہ کرے تو بھی اس کی مدد نہ کر "جدھر علی مڑیں اسی طرف حق کو موڑدیے !

یہ نص صریح ہے کہ حضور  حضرت علی کو اپنی امت پر خلیفہ بنارہے ہیں ، ہر عقلمند اسی مطلب کو قبول کریگا اور دور از کار تاویلوں کوترک کرےگا ۔ رسول کا احترام صحابہ کے احترام سے کہیں زیادہ ہے اس لئے کہ اگر یہ مان لیاجائے کہ صرف یہ بتانے کے لئے کہ علی ناصر ہیں اور محب ہیں آنحضرت نے چلچلاتی دوپہر میں جس کی گرمی ناقابل برداشت تھی صرف اتنا کہنے کیلئے اکٹھا کیا تھا تو یہ رسول کامذاق اڑانا ہے ان کو (معاذاللہ) احمق ثابت کرتا ہے اس کے علاوہ جو محفل مبارکباد منعقد کی گئی تھی اس کی کیا تاویل کی جائیگی ؟ بھلا اتنی سی بات کیلئے ایسی محفل تبریک کی کیا ضرورت تھی ؟ جس میں سب سے پہلے امہات المومنین نے مبارک باد پیش کی پھر ابو بکر وعمر آکر بولے ،۔مبارک ہو مبارک ابوطالب کے فرزند تم تمام مومنین ومومنات کےمولا ہوگئے آگر خلافت وامامت مراد نہ ہوتی تو رسول یہ سب نہ کرتے نہ محفل سجتی نہ مبارک باد پیش کی جاتی ؟

واقعہ اور تاریخ دونوں تاویل کرنے والوں کو جھٹلاتے ہیں ارشاد خدا ہے ۔وان فریقا منهم لیکتمون الحق وهم یعلمون (پ ۳ س ۲ (بقره ) آیت ۱۴۶) اور ان میں ایسے بھی ہیں جو دیدہ ودانستہ حق بات کو چھپاتے ہیں ۔

۱۹۶

(۴)"حدیث تبلیغ""علی منی وانا منه ولا یودی عنی الا انا او علی (۱) ۔

"علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ،میری طرف سے اس کی تبلیغ میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا "

یہ حدیث بھی ایسی ہے جس میں صاحب رسالت نے وضاحت کردی کہ میری طرف سے پہونچانے کی اہلیت صرف علی کے اندر ہے ، رسول نےحج اکبر کے موقعہ پر ابو بکر کو سورہ برائت دیکر بھیج دیا تھا پھر جبرئیل کے آنے کے بعدآنحضرت نے حضرت علی کو بھیج  کر یہ کام ان کے سپرد کردیا اور ابوبکر کو واپس بلالیا اس وقت فرمایا تھا" لا یودی عنی الا اناوعلی " اور ابو بکر روتے ہوئے واپس آئے تھے ۔ اور آکر پوچھا یا رسول اللہ کیا میرے بارےمیں  کچھ نازل ہوا ہے ؟ تو فرمایا خدانے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یا خود پہونچاوں یا پھر علی پہونچا ئیں اسی طرح ایک دوسرے مناسب موقع پر فرمایا : اے علی تم میرے بعد امت جن چیزوں میں اختلاف کرے گی اس کو بیان کرنے والے ہو(۲) ۔

جب  رسول خدا کی طرف سے صرف حضرت علی تبلیغ  کرسکترے ہیں اور اختلاف امت کی وہی ر سول کے بعد وضاحت  کرسکتے ہیں تو جن لوگوں کو"اب" یا"کلالة" کے معنی تک نہ معلوم ہوں ان کے ان کو حضرت علی پر کیوں کر مقدم کرسکتے ہیں ؟ خدا کی قسم یہ وہ مصیبت ہے جس میں امہ مسلمہ گرفتار ہے اور اسی لئے یہ امت ان فرائض کو نہیں پورا کر سکتی جس کو خدا نے اس کے سپرد کیا تھا ، اس میں خدا یا رسول یا علی کی کوتاہی ہیں ہے بلکہ اس میں سراسر ان لوگوں کی خطا وکوتاہی ہے جنھوں نے نافرمانی کی اور دین الہی میں تبدیلی کردی ، ارشاد خدا ہے :

--------------

(۱):-سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۴ ،خصائص النسائی ص ۲۰ ،صحیح الترمذی ج ۵ ص ۳۰۰ ،جامع الاصول (ابن کثیر ) ج ۹ ص ۴۷۱ ،الجامع الصغیر (سیوطی) ج ۲ ص ۵۶

(۲):- تاریخ دمشق (ابن عساکر) ج ۲ ص ۴۸۸، کنوز الحقائق (مناوی) ۲۰۳ ،کنز العمال ج ۵ ،ص ۳۳

۱۹۷

واذا قیل لهم تعالوا الی ما انزل الله والی الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیه آباءنا اولوکان آباءهم لا یعلمون شیئا ولا یهتدون (پ ۷ س ۵ (مائده ) آیت ۱۰۴)

ترجمہ :- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو(قرآن) خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ (اور جو کچھ کہیں اس کو سنو اور مانو) تو کہتے ہیں کہ ہم نے جس (رنگ) میں اپنے باپ دادا کو پایا وہی ہمارے لئے کافی ہے (کیا یہ لوگ لکیر کے فقیر ہی رہیں گے ) اگر چہ ان کے باپ دادا (چاہے ) کچھ نہ جانتے ہوں اور نہ ہدایت یافتہ ہوں ۔

(۵):- "حدیث الدّار یوم الانذار" " رسولخدا(ص) نے حضرت علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :" ان هذا اخی ووصیی وخلیفتی فاسمعوا له واطیعو" (۱)

یہ (علی) میرا بھائی ہے اور میرا وصی ہے اور میرے جانشین ہے لہذا اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو!

یہ حدیث بھی ان صحیح حدیثوں میں سے ہے جس کو موخین نے ابتدا ئے بعثت میں لکھا ہے اور رسول خدا (ص) کے معجزات میں شمار کیا ہے ،لیکن برا ہوسیاست کا جس نے حقائق بدل دیئے اور واقعات کو ملیامٹ کردیا اور یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں  ہے کیونکہ وہ تو تاریک دورتھا ،آج عصر نور میں بھی یہی حرکت کی جارہی ہے ،محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب حیات محمدی میں اس حدیث کو مکمل طور سے لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ،"طبع اول سنہ ۱۳۵۴ ھ  کا صفحہ ۱۰۴ لیکن اس کتاب کا جب دوسرا ایڈیشن اور اس کے بعد والے ایڈیشنز چھپتے ہیں تو اس میں(وصی ،خلیفتی من بعدی) کا لفظ حذف کردیا جاتا ہے   اسی طرح تفسیر طبری کے ج ۱۹ ص ۱۲۱ سے "وصیتی وخلیفتی "

--------------

(۱):- تاریخ طبری ج ۲ ص ۲۱۹ ،تاریخ ابن اثیر ج ۲ ص ۶۲ ،السیرۃ الحلبیہ ج ۱ ص ۳۱۱ ،شواہد التنزیل ج ۱ ص ۳۷۱ کنزل العمال ص ۱۵ ،تاریخ ابن عساکر ج ۱ ص ۸۵ ،تفسیر الخازن (علاء الدین ) ج ۳ ص ۳۷۱ حیات محمد (ہیکل )چاپ اول باب وانذر عشیرتک الاقربین

۱۹۸

کو کاٹ کر ا س کی جگہ ان ھذا اخی وکذا کذا لکھا دیا جاتا ہے ،مگر ان تحریف کرنے والوں کو پتہ نہیں ہے کہ طبری نے اپنی تاریخ کے ج ۲ ص ۲۱۹ پر پوری حدیث لکھی ہے دیکھئے یہ لوگ کس طرح تحریف کرتے ہیں اور یہ نور خدا کو بجھانا چاہتے ہیں مگر واللہ متم نورہ ۔۔۔۔۔ اس بحث کے درمیان حقیقت حال کے واضح ہوجانے کے لئے میں نے (حیات محمد) کا پہلا ایڈیشن ڈھونڈ ھنا شروع کیا اور سعی بسیار وزحمت کثیر وخرچ کثیر کے بعد بمصداق جویندہ یا بندہ " وہ نسخہ مجھے مل ہی گیا ۔اور اہم بات یہ ہے کہ واقعا یہ تحریف ہے اور اس سے میرے اس یقین کو مزید تقویت ملی ہے  اہل سوء کی ساری کوشش اس بات کے لئے ہے کہ وہ سچے واقعات اور ثابت حقائق کو مٹادیں تاکہ ان کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کوئی قوی دلیل نہ پہونچ سکے ،

لیکن منصف مزاج حق کامتلاشی جب اس قسم کی تحریفات کو دیکھے گا تو ان سے اور دور ہوجائے گا اور اس کو یقین ہوجائے گا کہ یہ لوگ معجزہ  کرنے دسیسہ کاری کرنے ،حقائق کو بدلنے کیلئے ہر قیمت دینے  کو تیار ہیں ۔ اور انھوں نے ایسے قلم خرید لئے ہیں اور ان کے لئے القاب اور اسناد کی بھر مار اسی طرح کردی  ہے جس طرح مال ودولت سے ان کو چھکا دیا ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اہل قلم ان صحابہ کی آبرو بچانے کے لئے جو رسول کے بعد الٹے پاؤں پھر گئے تھے ۔ اور جنھوں نے حق کو باطل سے بدل دیا تھا ۔ ہر طرح دفاع کریں چاہے شیعوں کو گالی دینا پڑے ان کوکافر کہنا پڑے" كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ" پ ۱ س ۲ (بقره ) آیت ۱۱۸

ترجمہ :- اسی طرح انھیں کی سی باتیں وہ لوگ بھی کرچکے ہیں جو ان سے پہلے تھے ۔ ان سب کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کو تو اپنی نشانیاں صاف طورسے دکھاچکے ۔

۱۹۹

"وہ صحیح حدیثیں جو اہل بیت کی اتباع کو واجب بتاتی ہیں "

(۱):-" حدیث ثقلین" رسول خدا (ص ) کا ارشاد ہے" یا ایها النا س ! انی ترکت فیکم ماان اخذتم به لن تضلو کتاب الله وعترتی اهلبیتی " لوگو میں تم میں ایسی چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو گمراہ نہ ہوگے اور وہ خدا کی کتاب اور میری عترت (یعنی ) میرے اہل بیت  ہیں  اور اس طرح بھی فرمایا" یوشک ان یاتی رسول ربی  وانی تارک فیکم الثقلین اولهما کتاب الله فیه الهدی والنور واهلبیتی اذکر کم الله اهلبیتی اذکر کم الله اهلبیتی (۱) ۔

قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آجائے  اور یمں لبیک کہوں ، میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزوں کوچھوڑ رہاہوں پہلی چیز قرآن ہے جس میں ہدایت ونور ہے اور( دوسری چیز) میرے اہلبیت ہیں الخ۔

 اس حدیث میں پہلے ہم خوب غوروفکر کرتے ہیں جس کو صحاح اہل سنت والجماعت میں ذکر کیا ہے  تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ صرف شیعہ حضرات ہی ثقلین (قرآن وعترت ) کی پیروی کرتے ہیں اور اہل سنت حضرت عمر کی اتباع "حسبنا کتاب اللہ" میں کرتے ہیں کاش کتاب اللہ ہی پر عمل کرتے اور اس کی تاویل اپنی خواہشات کے مطابق نہ کرتے ،جب خود حضرت عمر کتاب اللہ میں کلالۃ اورآیت تمیم کا مطلب نہیں جانتے تھے بلکہ مزید دیگر احکام کو نہیں جانتے تھے تو جو لوگ ان کے بعد دنیا میں پیدا ہوئے  ہیں اوربغیر کسی اجتہاد کےبا لنصوص قرآنیہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کرکے عمر کی تقلید کرتے ہیں وہ بے چارے قرآن کو کیا سمجھیں گے ؟

--------------

(۱):- صحیح مسلم باب فضائل علی ج ۵ ص ۱۲۲ صحیح ترمذی ج ۵ ص ۳۲۸  ،مستدرک الحاکم ج ۲ ص ۱۴۸ ،مسند امام احمد بن حنبل ج ۳ ص ۱۷

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

شیخ ابوالقاسم بلخی کے شاگردوں میں سے تھے اور سید رضیکی ولادت سے قبل وفات پاچکے تھے۔ نیز شیخ ابوعبداللہ بن احمد معروف بابن خشاب سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیںمیں نے اس خطبے کو ان کتابوں میں دیکھا ہے جو سید رضی کی پیدائش سے دو سو برس پہلے تصنیف ہوچکی تھیں بلکہ یہ خطبہ میں نے علماۓ اہل ادب کی ان تحریروں میں بھی پایا ہے جو سید رضی کے والد احمد نقیب الطالبین کی ولادت سے قبل لکھی گئی تھیں۔

فیلسوف متبحر اور حکیم محقق کمال الدین میثم بن علی بن میثم بحرانی نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ میں نے اس خطبے کو دو جگہ پایا، ایک وزیر بن فرات کی تحریر میں جو سید شریف رضی الدین علیہ الرحمہ کی ولادت سے ساٹھ سال سے زیادہ پہلے لکھی گئی ہے۔ دوسرے شیوخ معتزلہ میں سے ابوالقاسم کے شاگرد ابوجعفر بن قبہ کی کتاب الانصاف میں جو ولادت سید رضی سے قبل ہی وفات پاچکے تھے۔ پس ان دلائل و شواہد سے آپ کے ان متعصب علماۓ متاخرین کی ہٹ دھرمی اور عناد ثابت ہوگیا جنہوں نے بجا طور پر ہاتھ پاؤں مارے ہیں، ان تمام دلائل و شواہد سے قطع نظر اس خطبے کے بارے میں آپ حضرات کا فرضی دعوے اس وقت صحیح ہوسکتا تھا جب کہ حضرت علی علیہ السلام کے دوسرے خطبات و واقعات اور دردِ دل کے نمونے جو خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں( اور جن میں سے بعض کی جانب میں گذشتہ شبوں میں اشارہبھی کرچکا ہوں) عام طور پر پیش نظر نہ ہوتے۔ کیا ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص561 میں حضرت کا یہ خطبہ تفصیل سے نقل نہیں کیا ہے کہ فرماتے ہیں، میں روز اول سے وقت وفات تک رسول اللہ(ص) کے ساتھ رہا۔ یہاں تک کہ آں حضرت(ص) نے میرے ہی سینے پر دم توڑا، میں نے ہی ملائکہ کی مدد سے آپ کوغسل دیا، آپ پر نماز پڑھی اور آپ کو قبر میں اتارا،پس آں حضرت(ص) کی نسبت مجھ سے زیادہ قریب اور حق دار کوئی بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ خطبے کے آخر میں اپنے اور مخالفین کے حالات بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:

" فوالّذي‏ لا إله‏ إلّا هو إنّي لعلى جادّة الحقّ، و إنّهم لعلى مزلّة الباطل"

یعنی قسم اس کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں یقینا میں حق کی شاہراہ پر ہوں اور میرے مخالفین قطعا مزلہ باطل یعنی اس منزل پر ہیں جہاں سے قعر ضلالت میں گرجاتے ہیں۔؟

پھر بھی آپ فرماتے کہ علی علیہ السلام اپنے مخالفین کو حق پر سمجھتے تھے اور ان سے رنجیدہ نہیں تھے بلکہ ان کے طرز عمل پر راضی تھے۔ جناب شیخ صاحب حق اور حقیقت اس طرح کی باتوں سے پوشیدہ اورفنا نہ ہوگی۔ اگر آپ سورہ نمبر9( توبہ) کی آیت نمبر(32) پر گہری نظر ڈالئے جس میں ارشاد ہے:

"‏ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ بِأَفْواهِهِمْ وَ يَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكافِرُونَ‏"

یعنی وہ لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو پھونکیں مار کے بجھا دیں اور خدا نے اس کے برخلاف یہ طے کردیا ہے کہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا چاہے کافروں کو ناگوار ہی ہو۔

تو تصدیق کیجئے گا کہ ؎چراغے را کہ ایزد برفروزدگرابلہ پف زند ریشش بسوزد

شیخ: چونکہ رات کافی گذر چکی ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ بھی بہت خشکی کے ساتھ گفتگو فرمارہے ہیں۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ اب جلسہ برخاست کیا جائے۔ بقیہ مطالب اور جناب عالی کا جواب کل شب پر رہا۔ انشائ اللہ۔

۲۴۱

دسویں نشست

شب یک شنبہ سوم شعبان المعظم سنہ1345 ہجری

(رات ہوتے ہی مولوی صاحبان کافی بڑے مجمع کے ہمراہ تشریف لاۓ، عید ولادت حضرت امام حسین(ع) کی شب تھی لہذا شربت اور شیرینی وغیرہ کی تقسیم ہوئی، اس کے بعد ہم نے چاہا کہ مباحثے کا آغاز ہو کہ اتنے میں نواب عبدالقیوم خان صاحب بھی تشریف لے آۓ اور معمولی صاحب سلامت اور شربت و شیرینی کے بعد بیان کیا)

نواب: قبلہ صاحب میں اپنی جسارت کے لئے معافی چاہتا ہوں لیکن ایک ایسا مسئلہ پیش آگیا ہے کہ اس پر سوال اور گفتگو بہت ضروری ہے اگر اجازت ہو تو جلسے کی کاروائی اور مذاکرہ شروع ہونے سے پہلے اپنا مطلب عرض کروں۔

خیر طلب: ضرور فرمائیے، میں سننے کے لئے بسرو چشم حاضر ہوں۔

عمر کے علمی درجے پر سوال اور اس کا جواب

نواب: آج صبح کو کچھ لوگ غریب خانے پر اکٹھا تھے، سب جناب عالی کا ذکر خیر کر رہے تھے گذشتہ راتوں میں آپ مباحثہ کی تفصیل کے متعلق، اخبارات اور رسائل پڑھے جارہے تھے اور ہم لوگ طرفین کے بیانات پر بحث کر رہے تھے اتنے میں میرے ایک بندہ زادے( عبدالعزیز) نے جو اسلامیہ کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے مجھ سے کہا کہ چند روز ہوۓ درجے میں درس دیتے ہوۓ ہمارے استاد معظم نے اپنی تقریر میں ایک موقع پر کہا کہ مدینہ منورہ میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ صدر اسلام کے سب سے بڑے فقیہوں میں سے تھے۔ آپ کو قرآن کے آیات و مطالب اسلام کے علمی و فقیہی مسائل پر پورا عبور حاصل تھا اور علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ عبداللہ ابن مسعود، عبداللہ ابن عباس، عکرمہ اور زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ عنہم جیسے فقہائ کے درمیان خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ فقیہ اور ممتاز تھے، یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب

۲۴۲

کرم اللہ وجہہ جو علمی مسائل اور فقہی مباحث میں سارے صحابہ سے آگے تھے وہ بھی جب فقہی مشکلات اور حقوق مسلمین میں مجبور پڑتے تھے تو خلیفہ ثانی عمر کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان کی ذہانت اور علم و دانش کا سہارا لیتے تھے اور خلیفہ بھی علی کے علمی مشکلات اور فقہی مسائل کو حل کردیا کرتے تھے اس پر اور سب نے نے بھی تصدیق کی کہ بات بالکل صحیح ہے کیونکہ ہمارے علمائ نے بیان کیا ہے کہ خلیفہ عمر مراتب علم وفضل میں یکتاۓ زمانہ تھے، مجھ کو چونکہ دینی معاملات اور تاریخی حالات سے پوری واقفیت نہیں تھی لہذا سکوت اختیار کیا، بالاخر اپنے احباب اور بالخصوص بندہ زادے سے وعدہ کیا کہ آج را ت کو مناظرہ شروع ہونے سے پہلے میں یہ مسئلہ پیش کروں گا، چونکہ فریقین کے علمائ موجود ہیں لہذا اس اہم مطلب کا کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا جس سے ہم کو صحابہ کے علمی مدارج کا پتہ چل جاۓ گا۔ چنانچہ جسارت کرتے ہوۓ گذارش ہے کہ آپ اس بات کی اچھائی یا برائی کو زیر بحث لائیں تاکہ عام لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں اور ہم ہر ایک صحابی کے علمی معیار کی جانچ کر کے فیصلہ کر سکیں کہ صحابہ میں سے کس کو علمی فوقیت حاصل تھی۔ بندہ زادہ اور احباب بھی نتیجہ معلوم کرنے کے لئے حاضر ہیں۔ ہم کو مستفیض فرمائیے تاکہ بالخصوص بندہ زادہ اگر متزلزل ہو تو ثابت قدم ہوجاۓ۔

خیر طلب: ( میں نے جناب یوسف علی شاہ کی طرف جو ایک محترم شیعہ فاضل اور اسی کالج میں تاریخ و جغرافیہ اور انگریزی زبان کے مدرس تھے، رخ کر کے پوچھا کہ کیا یہی بات ہے؟ انہوں نے فرمایا، مجھ کو معلوم نہیں کون معلم تھا اور اس نے کیا تقریر کی۔

خیر طلب: ایسا کہنے والا چاہے جو بھی ہو اس کے اوپر سخت تعجب ہے کہ اس نے یہ باتیں کہاں سے پیدا کر لیں۔ عوام کی بات چیت میں تو خیر افراط و تفریط کثرت سے ہوتی ہے لیکن ایک مسلم کی گفتگو کو حلم و منطق کے مطابق ہونا چاہیئے۔ یہ بے علم اور لفاظ معلم جو شخص بھی رہا ہو اس نے ایسا دعوی کیا ہے جو آپ کے علمائ نے اس کو جھٹلا دیا ہے اس کے علاوہ یہ تعریف تو بما لایرضی صاحبہ (یعنی جس پر خود ممدوح بھی راضی نہیں) ہے، کیونکہ خود خلیفہ عمر نے بھی ہرگز کبھی اس کا دعوی نہیں کیا ہے نیز آپ کے علمائ نے کسی کتاب میں اس عقیدے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ جس محدث اور مورخنے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کے حالات میں کچھ لکھا ہے اس نے صرف ان کی چالاکی، ہوشیاری، سخت گیری اور سیاسی مہارت سے بحث کی ہے اور ان کے علم کے موضوع پر اپنی کتابوں میں قطعا کوئی بحث یا نبوت پیش نہیں کیا ہے۔ ورنہ خلیفہ کے حالات کی تشریح میں انہوں نے جو ابواب قائم کئے ہیں انہیں میں ایک باب ان کے علم کے لئےبھی ہونا چاہیئے تھا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس قول کے برخلاف فریقین کی کتابوںمیں پوری صراحت سے درج ہے کہ خلیفہ عمر علمی مسائل کی مہارت اورفقہی مدارج سے کورے تھے اور اس قسم کے اتفاقات اور احتیاج کے مواقع پر علی(ع)، عبداللہ ابن مسعود اور دوسرے فقہاۓ مدینہ کا دامن تھامتے تھے خصوصیت کے ساتھ ابن ابنی الحدید نےنقل کیاہے کہ عبداللہ ابن مسعود مدینے کے فقیہوں میں سے تھے اور خلیفہ عمر کا اصرار تھا کہ عبداللہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں تاکہ جب ضروری موقع اور اہم مراحل در پیش ہوں اور ان سے فقہی سوالات کئے جائیں تو عبداللہ ان کا

۲۴۳
۲۴۴
۲۴۵

ارتکاب نہیں کیا جاسکتا۔ اور ظاہر ہے کہ عورت کے اس مخصوص مال کو جس کی وہ بحکم قرآن اپنے مہر کے عنوان سے مالک ہوچکی ہے چھین کر بیت المال میں داخل کرنا شرعا ہرگز جائز نہیں ہے۔

ان تمام چیزوں سے قطع نظر کسی شخص پر ایسے عمل کے لئے جس میں اس نے کوئی جرم وگناہ نہ کیا ہو حد جاری کرنا فقہ اسلامی کے روسے قطعا جائز نہیں ہے۔ حدود تعزیرات کے باب میں میری نظر سے تو کوئی ایسا مسئلہ گذرا نہیں ہے، اگر آپ جانتے ہوں تو بتادیجئے۔ اور اگر باب حدود میں کوئی ایسی حد موجود نہیں ہے تو آپ کو تصدیق کرنا چاہیئے کہ معلم کا یہ دعوی غلط اور بے جا تھا۔

وفاتِ پیغمبر(ص) سے عمر کا انکار

اتفاق سے خلیفہ کی عادت ہی کچھ ایسی تھی کہ ان کو ہر موقع پر تاؤ آجاتا تھا اور دوسرے شخص کو مرعوب کرنے کے لیے غصہ دکھا کر کہتے تھے کہ میں حد جاری کروں گا۔ چنانچہ امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، طبری نے اپنی تاریخ میں اور آپ کے دوسرے علمائ نے نقل کیا ہے کہ جب رسول خداصلعم نے دنیا سے ( رحلت فرمائی تو عمر ابوبکر کے پاس گئے اور کہا مجھ کو خوف ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو محمد(ص) مرے نہ ہوں بلکہ حیلہ کیا ہو( یعنی اپنے کو مردہ بنا لیا ہو) تاکہ اپنے دوست و دشمن کو پہچان لیں، یا حضرت موسی(ع) کی طرح غائب ہوگئے ہوں اور پھر واپس آکر جس نے ان کی مخالفت کی ہو اور نافرمان بن گیا ہو اس کو سزا دیں۔ پس جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ(ص) مرگئے ہیں میں اس پر حد جاری کروں گا۔ ابوبکر نے جب یہ باتیں سنیں تو ان کے دل میں بھی شک پیدا ہوا اس طرح گفتگو سے لوگوں میں ایک اضطراب پھیل گیا اور آپس میں اختلاف ہونے لگا۔ جب اس کی خبر علی علیہ السلام کو پہنچی گو آپ فرما فورا مجمع کے سامنے تشریف لاۓ اور فرمایا، اے قوم! تم لوگوں نے یہ کیا جاہلانہ شور و غل برپا کر رکھا ہے۔ کیا تم اس آیہ شریفہ کو بھول گئے ہو کہ خداوند عالم نے رسول کی زندگی ہی میں آپ سے دیا تھا۔ انک میت و انہم میتون۔ یعنی یقینا تم کو بھی موت آۓ گی اور تمہاری امت والے بھی مریں گے؟ پس بحکم آیت رسول خدا(ص) نے دنیا سے رحلت فرمائی۔ علی علیہ السلام کا یہ استدلال امت کی سمجھ میں آگیا اور لوگوں نے آں حضرت(ص) کی موت پر یقین کر لیا۔ عمر نے کہا گویا میں نے یہ آیت کبھی سنی ہی نہیں تھی۔

ابن اثیر نے کامل اور نہایہ میں زمخشری نے اساس البلاغہ میں، شہرستانی نے ملل والنحل مقدمہ چہارم میں اور آپ کے دوسرے متعدد علمائ نے لکھا ہے کہ جس وقت عمر چیخ رہے تھے کہ پیغمبر(ص) ہرگز نہیں مرے ہیں، تو ابوبکر ان کے پاس پہنچے اور کہا، کیا خداوند عالم یہ نہیں فرماتا ہے کہانک میت و انهممیتون نیز یہ بھی فرمایا ہے کہافان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ( یعنی اگر وہ ( پیغمبر(ص)) اپنی موت سے مرجائیں یا قتل کردیئے جائیں تو کیا تم پھر اپنے پچھلے کفر وجاہلیت

۲۴۶

پر پلٹ جاؤگے؟) اس وقت عمر خاموش ہوۓ اور کہا، گویا میں نے یہ آیت قطعا سنی ہی نہیں تھی، اب مجھ کو یقین آیا کہ پیغمبر(ص) نے وفات پائی۔

اب آپ خدا کے لئے سچ بتائیے، کیا اس متعصب معلم نے بغیر علم کے بے جا اور غلط دعوی نہیں کیا ہے۔۔

پانچ اشخاص کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی تنبیہ

من جملہ اور دلائل کے ایک یہ ہے جس کو حمیدی جمع بین الصحیحین میں نقل کرتے ہیں کہ خلافتِ عمر کے زمانے میں پانچ اشخاص زنا کے جرم میں گرفتار کر کے خلیفہ کے سامنے لاۓ گئے اور اس کا ثبوت بھی گزر گیا کہ ان پانچوں نے فلان عورتوں کے ساتھ زنا کی ہے۔ عمر نے فورا ان کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا، اسی وقت حضرت علی علیہ السلام مسجد میں داخل ہوۓ اور اس حکم سے مطلع ہوکر عمر سے فرمایا کہ اس مقام پر خدا کا حکمتمہارے حکم کے خلاف ہے۔ عمر نے کہا، یا علی زنا ثابت ہے اور ثبوت زنا کے بعد سنگساری کا حکم ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ زنا کے متعلق مختلف صورتوں میں الگ الگ احکام ہیں، چنانچہ اس موقع پر بھی حکم میں اختلاف ہے۔ عمر نے کہا جو خدا و رسول(ص) کا حکم ہو بیان کیجئے کیونکہ میں رسول خدا(ص) سے بارہا سن چکا ہوں کہ آں حضرت نے فرمایا" علی اعلمکم و اقضاکم" یعنی علی تم سب سے زیادہ عالم اور تم سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔ حضرت نے حکم دیا کہ وہ پانچوں اشخاص لاۓ جائیں۔ پہلے ایک شخصحاضر کیا گیا تو :

"امر بضرب عنقه وامر برجم الثانی و قدم الثالث فضربه فقدم الرابع فضربه نصف الحد خمسین جلدة فقدم الخامس فعزره"

یعنی حکم دیا کہ اس کی گردن مار دی جاۓ، دوسرے کو سنگسار کرنے کا حکم دیا، تیسرا آیا تو اس کو سو(100) تازیانے لگواۓ، چوتھے کو نصف حد یعنی پچاس تازیانے اور پانچواں کو حد تعزیر یعنی پچیس تازیانے مارنے کا حکم صادر فرمایا۔

عمر متعجب و متحیر ہوۓ اورکہا" کیف ذالک یا ابالحسن " یہ فیصلہ آپ نے کیونکر کیا؟ حضرت نے فرمایا:

"أَمَّا الْأَوَّلُ فَكَانَ ذِمِّيّاً زَنَى‏ بِمُسْلِمَةٍ فَخَرَجَ عَنْ ذِمَّتِهِ وَ أَمَّا الثَّانِي فَرَجُلٌ مُحْصَنٌ زَنَى فَرَجَمْنَاهُ وَ أَمَّا الثَّالِثُ فَغَيْرُ مُحْصَنٍ فَضَرَبْنَاهُ الْحَدَّ وَ أَمَّا الرَّابِعُ فَعَبْدٌ زَنَى فَضَرَبْنَاهُ نِصْفَ الْحَدِّ وَ أَمَّا الْخَامِسُ فَمَغْلُوبٌ عَلَى عَقْلِهِ مَجْنُونٌ فَعَزَّرْنَاهُ فَقَالَ عُمَرُ لَا عِشْتُ فِي أُمَّةً لَسْتَ فِيهَا يَا أَبَا الْحَسَنِ."

یعنی پہلا شخص کافر ذمی تھا جس نے مسلمان عورت سے زیا کی تھی لہذا وہ ذمہ اسلام سے خارج ہوگیا تھا ( اور اس کے لئے گردن مارنے کا حکم تھا) دوسرا شخص شادی شدہ تھا اس وجہ سے سنگسار کیا گیا۔ تیسرا شخص مجرد تھا پس اس کے اوپر سو(100)تازیانوں کی حد جاری کی گئے چوتھا شخص غلام تھا جس کی حد آزاد کی نصف یعنی پچاس تازیانے ہے، اور پانچواں شخص ابلہ اور کم عقل تھا اس سبب سے اس کو صرف تعزیر دی گئی یعنی پچیس تازیانے مارے گئے۔ پس عمر نے کہا، اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا

۲۴۷

ہوتا۔ میں زندہ نہ رہوں اس امت کے اندر جس میں آپ نہ ہوں۔ ( اے ابوالحسن(ع))

حاملہ عورت کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی ممانعت

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب فی مناقب امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) میں، امام احمد بن حنبل مسند میں، بخاری اپنی صحیح میں، حمیدی جمع الصحیحین میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب14 ص75 میں مناقب خوارزمی سے امام فخرالدین رازی اربعین ص466 میں، محب الدین طبری ریاض النضرہ جلد دوم ص196 میں، خطیب خوارزمی مناقب ص48 میں، محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص13 میں اور امام الحرم ذخائر العقبی ص80 میں نقل کرتے ہیں کہ:

" اتي عند عمر بن الخطاب رضیالله عنه امرأة حاملة، فسألها فاعترفت‏ بالفجور فأمر بها بالرجم فقال عليّ لعمر سلطانك عليها فما سلطانك على الذی في بطنها؟ فخلى عمر سبيلها و قال: عجزن النساء أن يلدن عليّا و لو لا علي لهلك عمروقال الله مل اتبقی لمعضلةلیس له اعلی حیا."

یعنی عمر ابن خطاب رضی اللہ نہ کے سامنے ایک حاملہ عورت لائی گئی، پوچھنے پر اس نے زنا کاری کا اقرار کیا، تو انہوں نے سنگسار کرنے کا حکم دیے دیا، پس علی علیہ السلام نے عمر سے فرمایا کہ تمہارا حکم اس عور ت کے اوپر تو نافذ ہے لیکن جو بچہ اس کے شکم کے اندر ہے اس کے اوپر تم کو کوئی اختیار نہیں ہے( کیونکہ وہ بے گناہ ہے اس کا قتل جائز نہیں) اس پر انہوں نے اس عورت کو چھوڑ دیا۔ اور کہا عورتیں علی جیسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا۔ پھر کہا خداوندا مجھ کو کسی ایسے پیچیدہ اور مشکل امر کے لئے باقی نہ رکھ جس کو حل کرنے کے لئے علی موجود نہ ہوں۔

مجنون عورت کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی روک تھام

نیز امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی نے ذخائر العقبی ص81 میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب14 ص75 میں حسن بصری سے، ابن حجر نے فتح الباری جلد دوازدہم ص101 میں، ابوداؤد نے سنن جلد دوم ص227 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص87 میں، ابن ماجہ نے سنن جلد دوم ص227 میں، منادی نے فیض القدیر جلد چہارم ص257 میں، حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد دوم ص59 میں، قسطلانی نے ارشاد الساری جلد دہم ص9 میں، بیہقی نے سنن جلد ہشتم ص164 میں، محب الدین طبری نے ریاض النضرہ ص196 میں اور بخاری نے اپنی صحیح بابلا یرجم المجنون والمجنونة میں، غرضیکہ آپ کے اکثر اکابر علمائ نے نقل کیا ہے کہ ایک روز ایک مجنون عورت کو خلیفہ عمر ابن خطاب کے

۲۴۸

سامنے لاۓ جس نے زنا کیا تھا اور اقرار زنا کے بعد خلیفہ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا۔ حضرت امیرالمومنین موجود تھے آپ نے فرمایاتم یہ کیا کر رہے ہو۔

"رفع‏ القلم‏ عن‏ ثلاثة: عن النائم حتّى يستيقظ، و عن المجنون حتّى يفيق، و عن الطفل حتّى يحتلم قال فخلا سبيلها"

یعنی میں نے رسول اللہ(ص) کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ تین قسم کے لوگ مرفوع القلم قرار دیئے گئے ہیں، سوتا ہوا شخص جب تک وہ بیدار نہ ہو، دیوانہ جب تک وہ صحت یاب اور صاحب عقل نہ ہوجاۓ اور بچہ جب تک وہ بالغ نہ ہوجاۓ۔ یہ سن کر خلیفہ نے اس عورت کو رہا کردیا۔

ابن السمان نے کتاب الموافقہ میں اس قسم کی بہت سی روایتیں نقل کی ہیں اور بعض کتابوں میں تو خلیفہ کی غلطی اور اشتباہ کے تقریبا سو مقامات درج ہیں، لیکنجلسے کا وقت اس سے زیادہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میرا خیال ہے کہ نمونے اور اثبات مقصد کے لئے جتنا عرض کیا گیا اسی قدر کافی ہوگا۔ امید ہے کہ اپنے اکابر علمائ کی نقل کی ہوئی یہ روایتیں سننے کے بعد آپ حضرات تسلیم کریں گے کہ جس بے خبرمعلم نے ایسی بات کہی ہے وہ علم سے بالکل بے بہرہ انسان ہے اور اس نے محض تعصب و عناد کے ماتحت یہ بیان دیا ہے قطعا اس سے دلیلکا مطالبہ کرنا چاہیئے( کیونکہ وہ ہرگز اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کرسکتا) جو کچھ فریقین کے نزدیک مسلم ہے وہ یہ ہے کہ سارے اصحابِ رسول کے درمیان کوئی شخص امیرالمومنین علیہ السلام سے زیادہعالم و فقیہ اور کامل نہیں تھا، جیسا کہ نورالدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ فصل سوم ص17 میں، بسلسلہ حالات حضرت علی علیہ السلام لکھا ہے۔

علی علیہ السلام کا علم وفضل اور منصب قضاوت

فصل فی ذکر شئی من علومه فمنهاعلم الفقه الذی هِومرجع الانام و منبع الحلال و الحرام فقد کان علی مطلعهاعلی فوامض احکامهِ منقادالهجامعهِ بزمامه مشهودالهفیه بعلومحله ومقامه ولهذااخصه رسولالله ِصلی الله علیه وسلم لعلم القضائکم اتقلهل امام ابومحمدالحسین بن مسعود البغوی رحمةالله علیه فی کتابه المصابیحم رویاعن انس بن مالک أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص لَمَّا خَصَّصَ جَمَاعَةً مِنَ الصَّحَابَةِ كُلَّ وَاحِدٍ بِفَضِيلَةٍ خَصَّصَ‏ عَلِيّاً بِعِلْمِ‏ الْقَضَاءِ فَقَالَ صلی الله ِعلیه ِوآلهِ وسلم وَ أَقْضَاکُمْ عَلِيٌّ."

یعنی ابن صباغ مالکی کہتے ہیں کہ اس فصل میں علی علیہ السلام کے علوم کا تذکرہہے۔ منجملہ ان کے علم فقہ ہے جو

۲۴۹

لوگوں کا مرجع حلال و حرام کا سرچشمہ ہے۔ پس یقینا علی علیہ السلام اس کے غوامض احکام اور حقائق سے آگاہ تھے، اس کے دشوار مسائل آپ کے لئے آسان اور اس کے بلند مطالب آپ کے پیش نظر تھے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سب کے مقابلے میں علم و فضل سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ(ص) نے صحابہ کی ایک جماعت میں سے ہر ایک کی کسی نہ کسی فضیلت کے ساتھ تخصیص کی تو علی کو علم قضاوت کے ساتھ خصوصیت دی اور فرمایا، علی تم سب لوگوں سے بہتر فیصلہ الاحکم دینے والے ہیں۔

نیز اسی حدیث علی اقضا کم کو محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول فی مناقب آل رسول ص22 میں مخصوص فرمایا جیسا کہ امام ابومحمد حسین بن مسعود بغوی نے کتاب مصابیح میں انس بن مالک سے قاضی بغوی سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

"و قد صدع هذا الحديث بمنطوقه و صرح‏ بمفهومه‏ أن أنواع العلم و أقسامه قد جمعهارسول الله لعلي دون غيره "

یعنی یہ حدیث اپنے مضمون اور مفہوم سے اس بات کی پوری صراحت کررہی ہے کہ رسول خدا صلعم نے علم کے سارے انواع و اقسام کو دوسروں کے علاوہ صرف علی علیہ السلام کے اندر جمع فرمایا ہے اس لئے کہ قضاوت کا حق اسی شخص کو حاصل ہے جو علاوہ کمال عقل، زیادتی تمیز اور ذہانت و زکاوت کے سہو و غفلت سے دور ہو اور جملہ علوم کے کے اندر پوری مہارت رکھتا ہو۔ اور حدیث کے اندر افعل التفضیل کا صیغہ مکمل طور سے اس مقصد کا ثابت کرتا ہے، اس کے بعد بہت سے دلائل تشریح کے ساتھ بیان کئے ہیں کہ علی علیہ السلام تمام امت سے زیادہ عالم اور افضل تھے۔

پس آپ حضرات احادیث منقولہ پر غور کرنے اور اپنے بڑے بڑے محققین علمائ کے بیانات سے اس بے علم معلم کے الفاظ کو مطابق کرنے کے بعد تصدیق کریں گے اس کا دعوی سرتا سر غلط ہے کیونکہ علی علیہ السلام کا مقدس مرتبہ اس سے کہیں بلند ہے کہ صحابہ میں سے کسی کے ساتھ آپ کا موازنہ کیا جاۓ اس معلم صاحب کا تو یہ معاملہ ہے کہ" پیراں نمی پرند مریداں می پرانند" اس لئے کہ خود خلیفہ عمر نے علی علیہ السلام کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کیا ہے اور( جیسا کہ خود آپ کے اکابر علمائ نے اوقات اور مواقع کا حوالہ دیتے ہوۓ نقل کیا ہے) اپنے زمانہ میں خلافت میں ستر مرتبہ کہا ہے"لو لا علي لهلك عمر " ( یعنی اگرعلی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا"وہ ہرگز اس پر تیار نہیں تھے کہ ان کی طرف ایسی فضیلت منسوب کی جاۓ اور اس قسم کیتعریف و توصیف یقینا ان کی مرضی کے خلاف ہے۔

اس متعصب اور بے علم معلم کے مبالغہ آمیز قول کے برخلاف امام احمد بن حنبل مسند میں، اور امام الحرم احمد مکی شافعی ذخائر العقبی میں، جیسا کہ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب56 میں اور محب الدین طبری نے ریاض النضرہ جلد دوم ص195 میں معاویہ کا قول نقل کیا ہے، کہتے ہیں کہ:

"ان عمر بن الخطاب اذا اشکل علیه شئی اخذ من علی "

یعنی جس وقت عمر ابن خطاب کو کوئی مشکل معاملہ پیش آتا تھا تو علی علیہ السلام سے مدد حاصل کرتے تھے۔

یہاں تک کہ ابوالحجاج بلوی اپنی کتاب ( الف با) کی جلد اول ص224 میں نقل کرتے ہیں کہ جس و قت معاویہ کو شہادت علی اسلام کی

۲۵۰

خبر ملی تو کہا"لقد ذهب الفقه والعلم بموت ابن ابیطالب " یعنی علی علیہ السلام کی موت سے فقہ اور حکم جاتا رہا۔

نیز سعید ابن مسیب سے معاویہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ :

"‏ كان عمر رضی الله عنه يتعوذ من‏ معضلة ليس لها أبو حسن."( یعنی عمر رضی اللہ عنہ ایسی دشواری سے پناہ کرتے تھے جس کو د فع کرنے کے لئے ابوالحسن ( علی علیہ السلام) موجود نہ ہوں۔

ابوعبداللہ محمد بن علی الحکیم الترمذی شرح رسالہ فتح المبین میں کہتے ہیں:

"کانت الصحابه رضی الله عنهم یرجعون الیه فی احکام الکتاب و یاخذون عنه الفتاوی کما قال عمر بن الخطاب رضی الله عنه فی عدةمواطنلو لا علي لهلك عمر و قال صلی اللهعلیهوسلمأعلم‏ أمّتي‏ من بعدي عليّ بن أبي طالب."

یعنی پیغمبر(ص) کے اصحاب احاکم قرآن میں علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ سے فتوی حاصل کرتے تھے، جیسا کہ عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے متعدد مقامات پر کہا ہے کہ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا اور رسول خدا صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کے سب سے بڑے عالم علی ابن ابی طالب ہیں۔جو کچھ اخبار و تواریخ کی کتابوں میں ملتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ عمر علمی مراتب اور فقہی مسائل میں اس قدر کورے تھے کہ اکثر عام اور ضروری احکام و مسائل میں ایسا کھلا ہوا دھوکا کھاتے تھے کہ جو صحابی موجود ہوتا تھا وہ ان کو متنبہ اور متوجہ کردیتا تھا۔

شیخ: آپ بہت بے لطفی کی بات کر رہے ہیں کہ خلیفہ کو ایسی نسبت دیتے ہیں آیا یہ ممکن ہے کہ خلیفہ رضی اللہ عنہ دینکے احکام و مسائل میں دھوکا کھا گئے ہوں۔؟

خیر طلب: یہ بے لطفی میری طرف سے نہیں ہے بلکہ خود آپ کے بڑے بڑے علمائ نے حقیقت کا انکشاف کیا ہے اور اپنی معتبر کتابوں میں درج اور شائع کیا ہے۔

شیخ: اگر ممکن ہو تو ذرارہ اشتباہ کے واقعے مع اسناد کے بیان فرمائیے تاکہ سچ اور جھوٹ کا پول کھل جاۓ اورتہمت لگانے والا ذلیل ہو۔

خیر طلب: ان کے اشتباہ کے واقعات بہت ہیں اور ایسے تقریبا سو مواقع کتابوں میں درج ہیں لیکن اس وقت جو میرے پیش نظر ہیں ان میں سے بلحاظ وقت صرف ایک نمونہ عرض کرتا ہوں۔

تیممّ کےبارے میں اشتباہ اور غلط حکم

مسلمابن حجاج نے اپنی صحیح ب اب تیمم میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند جلد چہارم ص90225

۲۵۱

میں، بیہقی نے سنن جلد اول ص209 میں، ابو داؤد نے سنن جلد اول ص54 میں، ابن ماجہ نے سنن جلد اول ص20 میں، امام نسائی نے سنن جلد اول ص59 تا ص61 میں اور آپ کے دوسرے اکابر علمائ نے مختلف طریقوں سے الفاظ کے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے کہ خلافت عمر کے زمانے میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا، میں جنب ہوگیا ہوں اور غسل کے لئے پانی نہیں مل سکا ہے، ایسی صورت میں میں نہیں جانتا کہ مجھ کو کیا کرنا چاہیئے۔ خلیفہ نے کہا جب تک پانی نہ ملے اور غسل نہ کر لو اس وقت تک نماز نہ پڑھو۔ صحابہ میں سے عمار یاسر موجود تھے انہوں نے کہا، اے عمر تم کیا بھول گئے ہو کہ ایک سفر میں اتفاق سے مجھ کو اور تم کو غسل کی ضرورت لاحق ہوئی، چونکہ پانی نہیں تھا لہذا تم نے نماز نہیں پڑھی، لیکن میں نے سوچا کہ تیمم بدل غسل کا طریقہ یہ ہے کہ سارے جسم پر مٹی ملی جاۓ لہذا اپنے کل بدن پر خاک مل کے نماز پڑھ لی۔ جب رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوۓ تو آں حضرت(ص) نے مسکراتے ہوۓ فرمایا کہ تیمم کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ ہاتھ کی دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ زمین پر مار کر دونوں ہتھیلیاں ملا کر پیشانی پر ملی جائیں اس کے بعد بائیں ہتھیلی سے داہنے ہاتھ کی پشت دست پر اور پھر داہنی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت دست پر مسح کیا جاۓ۔ پس اب تم یہ کیوں کہہ رہے ہو کہ نماز نہ پڑھو؟

عمر کو کوئی جواب نہ بن پڑا تو کہا، اے عمار خدا سے ڈرو۔ عمار نے کہا، کیاتم اجازت دیتے ہو کہ یہ حدیث نقل کروں تولیک ماتولیت۔ یعنی جاؤ میں نےتم کو تمہاری مرضی پر چھوڑا؟ اب اگر آپ حضرات اس معتبر روایت پر جس کو آپ کے علمائ نے اپنے معتبر صحاح میں نقل کیا ہے ہر پہلو سے غور کریں تو یقینا بے ساختہ تصدیق کریں گے کہ معلم صاحب کا یہ کہنا بالکل ہی بیجا ہے کہ خلیفہ صحابہ کے درمیان بہت بڑے فقیہ تھے۔

یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایکفقیہ جو شب و روز اور سفر و حضر میں پیغمبر(ص) کے ہمراہ رہا ہو اور آں حضرت(ص) سے سنا بھی ہو کہ پانی نہ ملنے پر کس طرح تیمم کرنا چاہیئے، اس کے علاوہ سورہ نمبر5 ( مائدہ) آیت نمبر9 میں خداوند عالم کا یہ صریحی حکم بھی پڑھ چکے ہو۔"فَلَمْ‏ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً" ( یعنی اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کرو) وہ حکم الہی میں ترمیم کر کے ایک مسلمان آدمی سے کہے کہاگر پانی نہیں ملا ہےتو نماز ہی نہ پڑھو۔ در آنحالیکہ قرآن مجید ایسی صورت میں تیمم کی تاکید کر رہا ہو؟ اتفاق سے تیمم کا مسئلہ مسلمانوں میں اس طرح رائج اور عام طور پر داخل عمل ہے کہ وضو اور غسل کے مانند اس سے ایک جاہل مسلمان بھی واقف ہے نہ کہ پیغمبر(ص) کا صحابی اور خلیفہ جس کے اوپر علاوہ اس کے کہ لوگوں کو تعلیم دینے کی ذمہ داری ہےخود اپنے عمل کے لئے بھی اس کو جاننا فرض ہے۔ یہ تو میں نہیں کہوں گا کہ خلیفہ عمر نے جان بوجھ کر قصدا حکم خدا کو بدلایا وہ دین میں خلل ڈالنا چاہتے تھے لیکن اتنا ضرور ممکن ہے کہ مسائل کی یاد داشت میں ان کا حافظہ کمزور تھا اور احکام کو محفوظرکھنا ان کے لئے مشکل تھا، اور یہی سبب تھا کہ جیسا آپ کے علمائ نے لکھا ہے۔ یہ عبداللہ ابن مسعود جیسے فقیہ صحابی سے کہا کرتے تھے کہ تم میرے ساتھ ہی رہا کرو تاکہ جب مجھ سے کوئی بات پوچھی جاۓ تو تم اس

۲۵۲

کا جواب دے دو۔ اب آپ حضرات پوری توجہ کے ساتھ فیصلہ کیجئے کہ کس قدر فرق ہے ایسے آدمی سے جو اس قدر سادہ دماغ اور سطحی معلومات رکھتا ہوکہ مسائل کو سمجھنے اور احکام کو بیان کرنے سے قاصر ہو، اور اس انسان سے جو جملہ امور کے جزئیات و کلیات پر مکمل عبور رکھتا ہو اور تمام علمی و عملی مسائل ہتھیلی کے مانند اس کی نگاہوں کے سامنے ہوں،

شیخ: سوا رسول خدا(ص) کے اور کون ایسا ہوسکتا ہے جو کہ جملہ امور کے جزئیات وکلیات پر پورا عبور رکھتا ہو؟

خیر طلب: بدیی چیز ہے کہ رسول اکرم حضرت خاتم الانبیائ صلعم کے بعد صحابہ میں سے کسی فرد کو بھی ایسا عبور حاصل نہیں تھا سوا آں حضرت(ص) کے باب علم حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے، جن کے لئے خود پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ علی تم سب سے زیادہ عالم ہیں۔

تمام علوم ہتھیلی کی طرح علی(ع) کے سامنے تھے

چنانچہ اخطب الخطبائ ابوالموئد موفق بن احمد خوارزمی اپنے مناقب میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ عمر نے تعجب کے ساتھ علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ سے چاہے جو حکم یا مسئلہ دریافت کیا جاۓ آپ بلاتامل جواب دے دیتے ہیں؟ حضرت نے عمر کے جواب میں ان کے سامنے اپنا دست مبارک کھول دیا اور فرمایا، میرے ہاتھ میں کتنی انگلیاں ہیں؟ انہوں نے فورا کہا، پانچ۔ حضرت نے فرمایا تم نے غور و تامل کیوں نہیں کیا؟ عمر نے جواب دیا کہ غور وتامل کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ پانچوں انگلیاں میری نظر کے سامنے تھیں۔ حضرت نے فرمایا بس اسی طرح تمام مسائل اور احکام اور علوم میری نظر کے سامنے ہیں لہذا بغیر کسی غور و تامل کے فورا سوالات کے جوابات دے دیا کرتا ہوں۔

صاحبان اںصاف ! کیا یہ بے شعوری نہیں ہے کہ محض جانبداری اور بغض وعناد کی بنا پر یہ بے لگام اوربے اںصاف معلم ایک اتنی بڑی درس گاہ میں بغیر کسی دلیل و برہان کے ایسی مہمل باتیں کرے اور نا واقف نوجوانوں کو یہ کہہ کر مغالطہ دے کہ ایسا عالم جو سارے علوم کا جامع اور رسول اللہ صلعم کا باب علم تھا وہ اپنے مشکلات میں خلیفہ عمر کی طرف رجوع کرتا تھا؟

حضرت علی(ع) کی طرف سے معاویہ کا دفاع

اس وقت مجھ کو ایک روایت یاد آگئی ہے جو مزید ثبوت کے لئے پیش کرتا ہوں۔

۲۵۳