پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 0%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 253
مشاہدے: 70779
ڈاؤنلوڈ: 5919

تبصرے:

پھر میں ہدایت پاگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 70779 / ڈاؤنلوڈ: 5919
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چنانچہ جناب سعد نہ تو ان کی جماعت میں شریک ہوتے تھے نہ ان کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے ۔نہ ان کے ساتھ حج کرتے تھے (یہ بھی احتمال عبارت ہے کہ نہ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے مترجم) اور سعد کو کچھ مددگار مل گئے ہوتے تو ان سے جنگ سے پیچھے نہ ہٹتے اور اگر کوئی ان سے  ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرنے پر بیعت کرتا تو یہ باقاعدہ جنگ کرتے جناب سعد اپنے اسی حال پر باقی رہے یہاں تک کہ شام میں زمانہ ،خلافت عمر میں وفات پائی(1)

٭ جب خود بقول عمر "جنھوں نے اس بیعت کے ارکان مضبوط کئے تھے "یہ ایک ناگہانی بیعت تھی ۔جس کے شر سے خدا نے مسلمانوں کو بچالیا ۔اور اس بیعت کی وجہ سے مسلمانوں کا کیا حال ہوگیا ۔

٭ جب یہ خلافت بقول حضرت علی جو اس کے شرعی مالک تھے " تقمص تھی یعنی ابوبکر نے اپنے جسم پر اس قمیص کو کھینچ تان کر فٹ کرلیا تھا ۔

٭جب یہ خلافت بقول سعد بن عبادہ جنھوں نے مرتے دم تک ان لوگوں کے ساتھ جمعہ وجماعت چھوڑ دی تھی " ظلم تھی ۔

٭ جب یہ خلا فت کی بیعت غیر شرعی تھی کیونکہ اکابر صحابہ اورخصوصا نبی کے چچا نے اس سے کنارہ کشی کی تھی ، تو پھر ابو بکر کی خلافت کی صحت پر کون سی دلیل ہے ؟ ۔۔۔۔ صحیح جواب تو یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔۔۔۔ لہذا اس سلسلہ میں شیعوں ہی کا قول درست ہے کیونکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک بھی حضرت علی کی خلافت پر نص موجود ہے ۔ البتہ انھوں نے صحابہ کی عزت وآبرو بچانے کے لئے اس نص کی تاویل کی ہے ۔ اس لئے انصاف پسند عادل شخص کے لئے نص کو قبول کرنیکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے خصوصا اگر اس واقعہ کے متعلقات کا علم ہوجائے(2)

2:-فاطمہ کا ابو بکر سے اختلاف

--------------

(1):- تاریخ الخلفاء ،ج 1 ص 171

(2):- ملاحظہ فرمائیے ۔ السقیفہ والخلافۃ (عبدالفتاح ) سقیفہ (محمد رضا مظفر )

۱۸۱

فریقین کےیہاں یہ موضوع بھی متفق علیہ ہے ! اگر چہ کوئی منصف وعاقل ا س کا اعتراف نہ بھی کرے کہ ابو بکر نے جناب سیدہ پر ظلم کیا ہے ۔ تب بھی ابو بکر کی غلطی مانے بغیر چارہ نہیں ہے ۔ کیونکہ جوشخص بھی اس المناک داستان کو پڑھیگا۔ اس کو علم الیقین  ہوگا کہ  ابو بکر نے جان بوجھ کر جناب زہرا کو اذیت دی ہے اور ان کوجھٹلا یا ہے ۔ تاکہ معصومہ حدیث غدیر وغیرہ سے اپنے  شوہر کے استحقاق خلافت پر استدلال نہ کرسکیں ۔(کیونکہ اگر آج ابوبکر فدک میں جناب معصومہ کوسچا مان لیتے  تو کل شوہر کی خلافت کے دعوی پر بھی سچا ماننا پڑتا  اس لئے جان بوجھ کر بنت رسول کو جھوٹا کہا گیا ہے مترجم )

اور اس بات پر بہت سے قرائن بھی موجود ہیں ۔ مثلا مورخین نے لکھا ہے ۔جناب فاطمہ خود انصار کی مجلسوں میں جاکر اپنے ابن عم کی نصرت وبیعت کے لئے لوگوں کو بلاتی تھیں اور لوگ کہدیا کرتے تھے ۔ بنت رسول اب تو ہم نے اس شخص (ابو بکر )کی بیعت کر لی ہے اگر آپ کے شوہر ابو بکر سے پہلے ہمارے پاس آجاتے  تو ہم علی کےعلاوہ کسی کی بیعت نہ کرتے ،اور حضرت علی فرماتے تھے ، کیا میں رسول  (ص) کے جنازہ کو  گھر میں چھوڑ دیتا ۔کفن ودفن نہ کرتا؟ لوگوں سے اپنی سلطنت وحکومت کی خواہش کرتا ؟ اورجناب فاطمہ ان لوگوں کے جواب میں کہتی تھیں: ابو الحسن نے وہی کیا جو ان کو کرنا چاہیے تھا ! ان لوگوں نے جو کچھ کیا ان سے خدا سمجھے گا(1) ۔

اگر ابو بکر نے یہ سب غلطی یا اشتباہ کی وجہ سے کیا ہوتا تو جناب فاطمہ سمجھا کر مطمئن کردیتیں ۔ لیکن وہ اتنا ناراض تھیں کہ مرتے مرتے مرگیئں مگر ان دونوں سے بات بھی نہیں کی کیونکہ ابو بکر نے ہر مرتبہ آپ کے دعوی کو رد کردیا تھا ۔ نہ آپ کی نہ حضرت علی (ع) کی کسی کی بھی گواہی قبول نہیں کی ان تمام باتوں کی وجہ سے جناب معصومہ اتنا ناراض تھیں کہ اپنے شوہر کو وصیت کردیا تھا ۔ مجھے رات کو چپکے سے دفن کردینا  اور ان لوگوں کو میرے جنازے پر نہ آنے دینا(2) ۔

اب جب کہ بات رات کو دفن کرنے کی آگئی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ میں جب بھی مدینہ گیا تو بڑی

--------------

(1):- تاریخ الخلفا(ابن قتیبہ)ج 1 ص 19 ،۔شرح نہج البلاغہ (معتزلی )بیعت ابی بکر

(2):- بخاری ج 2 ص 26 ،مسلم ج 2 ص 72" باب لا نورث ما ترکنا ہ صدقۃ "

۱۸۲

کوشش اس بات کے لئے کی کہ کچھ حقیقتوں کا پتہ چلا سکوں ،چنانچہ میں نے درج ذیل نتائج کا انکشاف کیا ہے ملاحظہ فرمائیے :

(1):- جناب فاطمہ کی قبر مجہول ہے کوئی نہیں جانتا کہاں ہے؟ بعض کا خیال ہے "حجرہ نبویہ میں ہے " بعض کا نظریہ  ہے کہ حجرہ نبی کےمقابلہ میں جو آپ کا گھر تھا ۔ اسی میں دفن ہیں کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جنت البقیع " میں اہل بیت کی قبروں کے بیچ  میں ہے لیکن صحیح جگہ کی تشخیص یہ لوگ بھی نہیں کرسکے ۔۔۔ اس سے میں اس نتیجہ پر پہونچا  کہ جناب فاطمہ کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی ہر نسل یہ سوال کرے آخر کیا بات ہے کہ جناب  فاطمہ نے اپنے شوہر کو وصیت کی کہ ان کو رات کی تاریکی میں چپکے سے دفن کردیا جائے اور ان لوگوں میں سے کوئی آپ کے جنازے پر نہ آئے ! اس طرح ممکن ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے مسلمان کو بعض چونکا دینے والے حقائق کا پتہ چل جائے ۔

(2):- دوسرا نتیجہ میں نے یہ نکالا کہ عثّمان بن عفان کے قبر کی زیارت کرنے والے کو کافی مسافت طے کرنے کے بعد بقیع کےآخر میں ایک دیوار کے نیچے جا کر قبر ملتی ہے اس کے بر خلاف اغلب صحابہ بقیع میں داخل  ہونے کے بعد ہی ان  کی قبریں مل جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ مالک بن انس جو تبع تابعین سے ہیں ۔ اور ایک مشہور مذہب (مالکی) کے سربراہ ہیں ان کی قبر  ازواج رسول کے قریب ہی ہے اور اس سے مورخین کی یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ عثمان کو" حش کوکب" میں دفن کیا گیا ہے ۔ حش کوکب یہودیوں کی زمین ہے جب مسلمانوں نے عثمان کو بقیع  رسول میں دفن نہیں ہونے دیا تو ان کے ورثا نے مجبورا حش کوکب میں دفن کیا ۔( پہونچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا )

پھر معاویہ تخت خلافت پر بیٹھا  تو  اس نے یہودیوں سے اس زمین کوخرید کر بقیع میں شامل کردیا تاکہ عثمان کی قبر بھی بقیع میں کہی جانے لگی ۔جو شخص بھی بقیع کی زیارت کرے گا اسپر یہ حقیقت واضح ہوجائیگی ۔

مجھے تو سب سے زیادہ تعجب اس پر ہے کہ جناب رسولخدا سے ملحق ہونے والی سب سے پہلی شخصیت جناب فاطمہ کی ہے کیونکہ سب سے زیادہ فاصلہ جو بتایا جاتا ہے وہ چھ مہینہ کا ہے لیکن وہ اپنے باپ کے پہلو میں دفن نہیں ہوسکیں پس جب جناب فاطمہ اپنے باپ کے پہلو میں دفن نہ ہوسکیں حالانکہ آپ نے وصیت کردی تھی کہ

۱۸۳

مجھے چپکے سے دفن کردیا جائے تو اگر امام حسن انپے جد کے پہلو میں دفن نہ ہوسکیں  تو تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ جب امام حسین اپنے بھائی امام حسن (ع) کا جنازہ لے کر آئے  کہ پہلوئے رسول میں دفن کر دیا جائے تو ام المومنین عائشہ اس کو روکنے کے لئے خچر پر سوار ہوکر آئیں اورچیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں : میرے گھر میں اس کو دفن نہ کرو جس کو میں دوست نہیں رکھتی  اس منع کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی امیہ اور بنی ہاشم صف باندھ کر کھڑے ہوگئے اور ایک دوسرے پر حملے کیلئے آمادہ ہوگئے ۔ لیکن امام حسین (ع) نے وصیت کردی تھی کہ میرے سلسلہ میں ذرہ برابر بھی خون نہ بہایا جائے اسی موقع پر ابن عباس نے اپنے مشہور اشعار کہے

تجمّلت تبعّلت  ولو عشت تفیلت ----- لک التسع من الثمن وفی الکل تصرفت

تم اونٹ پر  بیٹھ چکی  ہو (جنگی  جمل کی طرف اشارہ ہے ) اور(آج ) خچر پر بیٹھی ہو (امام حسن کا جنازہ روکنے کے لئے عائشہ خچر پر بیٹھ کر آئی تھیں ) اگر تم زندہ  رہ گئیں تو ہاتھی پر بھی بیٹھوگی ۔ تمہارا حصہ تو 1/8 میں سے 1/9  ہے مگر تم نے پورے میں تصرف کرلیا(1) خوفناک  حقائق میں سے ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے  اس گھر میں بیوی کا حصہ ہے پھر پورے گھرپر عائشہ  کو کیا حق تھا کہ وہ منع کرتیں ؟اورجب نبی کا کوئی وارث ہی نہیں ہوتا جیسا کہ ابو بکر نے کہا اور اسی بنیاد پر جناب فاطمہ کا حق نہیں دیا تو پھر ابو بکر کی بیٹی کو نبی کی میراث کیسے مل رہی ہے ؟ کیا قرآن میں ایسی کوئی آیت ہے جو یہ بتاتی ہو کہ بیٹی کو میراث نہیں ملتی  مگر بیوی کو ملتی ہے ؟ یا سیاست  نے ہر چیز کو الٹ پلٹ دیا تھا بیٹی کو کچھ نہ دے کر بیوی کو سب کچھ دیدیا گیا ؟بعض مورخین نے یہاں پر ایک دلچسپ قصہ لکھا ہے اور چونکہ وہ میراث سے متعلق ہے اس لئے اس کا ذکر کر دینا مناسب ہے ۔ابن ابی الحدید معتزلی نہج البلاغہ کی شرح میں فرماتے ہیں :

--------------

(1):- شوہر کے ترکہ میں بیوی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے جب شوہر صاحب اولاد ہو اور رسول خدا کی نو بیویاں تھیں تو ترکہ جو آٹھواں حصہ  ملتا  اس میں تمام بیویاں  شریک ہوتیں یعنی آٹھویں حصہ کا ہر ایک کو 1/9 ملتا تو عائشہ کا حق صرف 1/9 ہے مگر انھوں نے پورے قبضہ جمالیا (مترجم)

۱۸۴

حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں عائشہ وحفصہ عثمان کے پاس آئیں وار ان سے کہا رسول خدا کی میراث ہم دونوں میں تقسیم کردیجئے ۔عثمان ٹیک لگائے بیٹھے تھے یہ سنتے ہی ٹھیک سے بیٹھ گئے اور عائشہ کو مخاطب کرتے ہوئے بولے : اور یہ جو بیٹھی ہیں دونوں ایک اعرابی کو لے کر آئیں جو اپنے پیشاب سے طہارت کرتاہے اور تم دونوں نے گواہی دی کہ رسول خدا نے فرمایا : ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے ! اب اگر واقعا رسول کسی کو وارث  نہیں بناتے (یعنی رسول کا کوئی وارث نہیں ہوتا )تو تم دونوں رسول کے بعد کیا مانگنے آئی ہو؟ اگر رسول کا وارث  ہوتا تو تم لوگوں نے فاطمہ کو ان کے حق سے کیوں روکا ، عائشہ اپنا سامنہ  لے کر رہ گئیں اور وہاں سے غصّہ کی حالت  میں نکلیں ۔اور فرمایا نعثل کو قتل کردو یہ تو کافر ہوگیا ہے ۔ (1)

3:- علی کی پیروی اولی ہے

میرے شیعہ ہونے اور آباء اجدا کے مذہب کوچھوڑ نے کا ایک سبب حضرت علی (ع) اور ابوبکر کے درمیان عقلی ونقلی دلیلوں سے موازنہ کرنا ہے ۔ میں اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میں صرف اسی اجماع کو قابل بھروسہ سمجھتا ہوں جس پر سنی و شیعہ دونوں متفق ہوں ۔ اس اعتبار سے جب میں نے فریقین کی کتابوں کی کھنگا لا تویہ دیکھا کہ صرف علی بن ابیطالب کی خلافت پر اجماع ہے سنی وشیعہ دونوں ان مصادر  کی بنا پر جو دونوں کے یہاں ہیں حضرت علی کی امامت  پر متفق ہیں اور حضرت ابو بکر کی خلافت کو صرف سنی مسلمان ہی تسلیم کرتے ہیں حضرت ابو بکر  کی خلافت کے بارے میں حضرت عمر کا قول ہم پہلے نقل کرآئے ہیں ۔

بہت سے حضرت علی کے فضائل ومناقب جسکو شیعہ ذکر کرتے ہیں ان کی سند ہے ان کا حقیقی وجود ہے ۔

--------------

(1):- شرح اب ابی الحدید ج 6 ص 22 ۔222

۱۸۵

اور اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے اور اتنے زیادہ طریقوں سے ثابت ہے کہ شک کی وہاں تک رسائی ہی نہیں ہے ۔حضرت علی کے فضائل کو صحابہ کی ایک جم غفیر نے نقل کیا ہے ۔ احمد بن حنبل تو کہتے ہیں ۔ جتنے فضائل حضرت علی کے آئے ہیں کسی صحابی کے لئے نہیں آئے ہیں(1) قاضی اسماعیل نسائی ،ابو علی نیشا پوری کہتے ہیں ، جتنی اچھی سندوں کے ساتھ حضرت علی کے مناقب وارد ہوئے ہیں کسی بھی صحابی کے لئے نہیں وارد ہوئے ہیں(2) ۔

آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ بنی امیہ نے مشرق سے لے کر مغرب تک کے لوگوں کو حضرت پر لعنت کرنے ان پر سب وشتم کرنے ، ان کی فضیلت کاذکر نہ کرنے پر مجبور  کر رکھا تھا ۔ حدیہ تھی کہ کسی کو اجازت نہ تھی کہ علی نام رکھے ۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حضرت علی کے اتنے فضائل ومناقب مذکور ہیں ، اسی لئے امام شافعی کہتے ہیں ،مجھے اس شخص پر بہت زیادہ تعجب  ہے جس کے فضائل دشمنوں نے حسد کی وجہ سے دوستوں نے خوف کی وجہ سے چھپائے لیکن پھر بھی اتنے زیادہ فضائل مذکور ہیں جن سے مشرق ومغرب پر ہیں ،

اسی طرح میں نے حضرت ابو بکر کے سلسلہ میں بھی فریقین کی کتابوں کو چھان مارا لیکن خود اہل سنت والجماعت جو حضرت ابو بکر کو حضرت علی پر ترجیح دیتے ہیں ان کے یہاں بھی حضرت علی کے فضائل کے برابر فضیلت والی حدیثیں نہیں ملیں ۔ اس کے علاوہ ابو بکر کے فضائل کی جو روایتیں موجود بھی ہیں اور تاریخی کتابوں میں یا تو ان کی بیٹی عائشہ سے ہیں جس کا موقف حضرت علی کےساتھ کیا تھا ؟ دنیا جانتی ہے اس لئے انھوں نے اپنے باپ کو اونچا ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگی صرف کردی اورفرضی روایتوں سے فضیلت ثابت کرنی چاہی ہے اور یا ابو بکر کی فضیلت کی روایات عبداللہ بن عمر سے منقول  ہیں یہ حضرت بھی حضرت علی کے جانی دشمنوں میں تھے ان کا عالم یہ تھا کہ ساری دنیا نے حضرت علی کی بیعت کر لی تھیں مگر آپ نے حضرت

-------------

 (1):- المستدرک علی الصحیحین (حاکم) ج 3 ص 107 مناقب (خوارزمی)ص 3، 19 تاریخ الخلفاء ص 168 ،الصواعق المحرقہ لابن حجر الہیثمی ص 72 ،تاریخ ابن عساکر ج2 ص 63 ،شواہد التنزیل (حسکانی) ج1 ص 19

(2):- الریاض النضرۃ (طبری)ج 2 ص 282 ، صواعق محرقہ (ابن حجر )ص 118

۱۸۶

علی کی بیعت نہیں کی ۔۔۔۔ اس کے بر خلاف آپ نے یزید ملعون کی بیعت اس کے ہاتھوں پر نہیں پاؤں پکڑ کے کی ہے تفصیل کے لئے تاریخی کتابیں پڑھئے (مترجم) ۔۔۔۔ اور آپ (عبداللہ بن عمر) فرمایا کرتے تھے رسول خدا کے بعد افضل الناس ابوبکر تھے ، ان کے بعد عمر ان کے بعد عثمان تھے اس کے بعد کسی کو فضیلت نہیں ہے سب ہی برابر کے ہیں(1)

آپ نے توجہ فرمائی اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت علی بازاری لوگوں کے برابر تھے حضرت علی کے لئے نہ کوئی فضل تھا ، نہ فضیلت ! آخر یہ عبداللہ کس دنیا میں رہتے تھے ان کو تو ان حقائق کا پتہ ہی نہیں جن کو اعلام امت اور ائمہ امت  ائمہ امت نے تحریر کیا ہے کہ حسن سندوں کے ساتھ جتنی فضیلت کی روایات علی کے لئے ہیں کسی صحابی کے لئے نہیں ہیں ۔ کیا عبداللہ بن عمر نے حضرت علی کی ایک بھی فضیلت نہیں سنی تھی ؟ اجی سنی بھی تھی اور یاد بھی تھی لیکن سیاست کی دنیا عجیب ہوتی ہے ۔(خرد کا نام جنوں رکھ دیا کا خرد+ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے )

عائشہ وعبداللہ بن عمر کے علاوہ جن لوگوں نے ابو بکر کی فضیلت بیان کی ہے ان کے اسمائے گرامی پرھئے ! عمرو بن العاص ،ابو ہریرہ ،عروۃ ،عکرمہ ، وغیرہ ہیں ، اور تاریخ کا بیان ہے کہ یہ سب حضرت علی کے دشمن تھے اور ان سے کبھی تو ہتھیاروں سے جنگ کرتے تھے کبھی دسیسہ کاری سے ،اوریہ بھی نہ ہو تو حضرت علی کے دشمنوں کے لئے فرضی حدیثیں جعل کیا کرتے تھے ،امام احمد بن حنبل کہتے ہیں حضرت علی کے بہت زیادہ دشمن تھے دشمنوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح علی میں کوئی عیب تلاش کرلیں مگر ناکامیاب رہے تو یہ لوگ حضرت علی کے اس دشمن کے پاس آگئے جس نے حضرت علی سے حرب وقتال کیا تھا  اور اپنی مکاریوں کی بنا پر اس کی تعریفیں کرنے لگے ،(2) ۔لیکن خدا کا اعلان ہے : انهم یکیدون کیدا واکید کیدا فمهل الکافرین امهلهم رویدا (3) بیشک یہ کفار اپنی تدبیر کررہے ہیں اور میں اپنی تد بیر کررہا ہوں اس لئے کافروں کو مہلت دو پس ان کو تھوڑی

--------------

(1):- صحیح بخاری ج 2 ص 202

(2):- فتح الباری شرح صحیح بخاری ج 7 ص 83 تاریخ الخلفاء (سیوطی ) ص 199 صواعق المحرقہ (ابن حجر)ص 125

(3):- پ 30 س 87 آیت 15،16،17

۱۸۷

سی مہلت دو ۔

یقینا پروردگار عالم کا معجزہ ہے کہ مسلسل چھ سوسال حضرت علی اورآل علی کی مخالف حکومت کے بعد بھی حضرت علی کے فضائل موجود ہیں ، میں چھ سوسال کہہ رہا ہوں کہ بنی عباس بھی بغض حسد، ظلم قتل اہل بیت کے سلسلہ میں اپنے اسلاف بنی امیہ سے کم نہیں تھے ، بلکہ دو ہاتھ آگے ہی تھے ،ابو فراس ہمدانی ان کےمیں کہتا ہے

ما نال منهم بنو حرب وان عظمت     تلک الجرائر الادون نیلکم

کم غدرة لکم فی الدین واضحة      وکم دم لرسول الله عندکم

انتم له شیعة فیما ترون وفی       اظفار کم من بنیه الطاهرین

(ترجمہ):- بنی امیہ نے آل محمد (ص) کو بہت ستایا ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ ے ، اے بنی عباس ! بنی امیہ کے مظالم آل محمد پر چاہے جتنے زیادہ ہوں تم سے پھر بھی  کم ہیں ،تم نے دین کے بارے میں ان کے ساتھ کتنی ہی مرتبہ  صاف صاف غداری کی ۔تمہارے بہائے ہوئے کتنے خون کا قصاص رسول خدا کے پاس  ہے ۔ بظاہر تم اپنے کو آل محمد کا شیعہ کہتے ہو لیکن محمد کی اولاد طاہرین کا خون تمہارے ناخنوں  میں اب تک ہے ۔۔۔۔ ان تمام تاریکیوں کے باوجود جب ایسی حدیثیں علی کی فضیلت میں ہیں تویہ صرف خدا کا کرم ہے اور اس کی حجت بالغہ ہے ۔

ابو بکر باوجودیکہ خلیفہ اول تھے ، اور اتنا اثر ونفوذ رکھتے تھے اور اموی سلاطین باوجود دیکہ ابو بکر ،عمر، عثمان کے حق ہیں روایت کرنے والوں کا منہ موتیوں سے بھردیتے تھے ان کے لئے مخصوص عطیہ ورشوت معین کی جاچکی تھی اور اس کے باوجود کہ ابوبکر کے لئے فضائل ومناقب کی جعلی حدیثوں کی بھر مار کر دی گئی تھی ۔ اور ان  سے تاریخ کے صفحات سیاہ کردیئے گئے تھے ۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود "حضرت علی کی شان میں واقعی فضیلت کی جو احادیث ہیں ان کا عشر عشیر بھی ابو بکر کے لئے نہیں ہے اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ملاحظہ  فرمائیے کیا ابو بکر کی شان میں نقل کی جانی والی روایات کی اگر تحریر کی جائے تو تاریخ نے جوان کے تنا قضات لکھے ہیں ان کے ساتھ یہ روایات جمع ہی نہیں ہوسکتیں اور نہ عقل وشرع ان کو قبول کرسکتی ہے

۱۸۸

حدیث" لوزن ایمان ابی بکر بایمان امتی لرجح ایمان ابی بکر " کے سلسلہ میں حقیر پہلے بھی بحث کرچکا ہے لیکن مزید سنئے ۔

٭ اگر رسول خدا کو معلوم ہوتا کہ ابوبکر کاایمان اس وجہ کا ہے تو اسامہ بن زید کی سرکردگی میں ابو بکر کو قرار نہ دیتے ،

٭اگر رسولخدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو ابوبکر کے لئے گواہی دینے سے انکار نہ کرتے بلکہ جس طرح شہدائے احد کیلئے گواہی دی تھی ان کے لئے بھی گواہی دیتے اور یہ نہ فرماتے کہ مجھے نہیں معلوم میرے بعد تم کیا کیا کروگے ؟ جس پر ابو بکر بہت روئے تھے(1) ۔

٭اگررسول خدا کو معلوم ہوتاکہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو علی کو بھیج کر ان سے سورہ براءت کی تبلیغ کوروک نہ دیتے(2)

٭ اگر رسول خدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے توخیبر میں علم دینے کے لئے نہ فرماتے : کل میں ایسے شخص کو علم دوں گا جو خدا ورسول کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا اور رسول اس کو دوست رکھتے ہوں  گے کرار ہوگا غیر فرار ہوگا خدا نے اس کے دل کا امتحان لے لیا ہوگا اس کے بعد حضرت علی کو علم دیا ابوبکر کو نہیں دیا(3) بلکہ اگر خدا کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے یا یہ کہ ابو بکر کا ایمان پوری امت  محمد کے ایمان سے زیادہ ہے تو جس وقت انھوں نے نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند کی تھی خدا ان کے اعمال  کے حبط کردیئے جانے کی دھمکی نہ دیتا(4) ۔

٭ اگرعلی  اور ان کے پیرو کار وں  کو معلوم ہوتا کہ ابو بکر کا ایمان اس درجہ کا ہے تو یہ لوگ کبھی بھی ابو بکر کی بیعت سے انکار نہ کرتے

٭ اگر فاطمہ کو ایمان ابو بکر کا وزن معلوم ہوتا تو غضبناک نہ ہوتیں ان سے بات چیت نہ بند کرتیں ان کے سلام کاجواب دیتیں ان کے لئے ہر نماز کے بعد بدعا نہ کرتیں ، ان کو اپنے جنازہ

-------------

(1):- موطاء  امام مالک ج 1 ص 307 مغازی واقدی ص 310

(2):- مسند احمد ج 4 ص 339 ، مسند احمد ج 2 ص 319مستدرک حاکم ج 3 ص 51  

(3):- صحیح مسلم باب فضائل علی ابن ابی طالب

(4):- بخاری ج 4 ص 184

۱۸۹

شریک نہ ہونے  دینے کی وصیت کی(1)

٭ خودابو بکر کو اپنے ایمان کی اس بلندی کا علم ہوتا تو چاہے فاطمہ کے گھر میں لوگ جنگ ہی کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے ہوتے اور دروازہ بند کر لئے ہوتے جب بھی یہ فاطمہ کے گھر کو کھلوانے  کی کوشش نہ کرتے ، فجاوۃ السلمی کو آگ میں جلایا نہ ہوتا ، سقیفہ میں قلادۃ بیعت عمر یا ابو عبیدہ کے گردن میں ڈال دیا ہوتا(2) ۔ اور اگر ابو بکر  کا ایمان اتنا وزنی ہوتا جو پوری امت کے ایمان پر بھاری ہوتا تو اپنی عمر کےآخری لمحات میں فاطمہ کے ساتھ جو اقدامات کئے ہیں ان پر فجاءۃ السلمی کے جلانے پر اور خلافت کا عہدہ سنبھالنے پر نادم وپشیمان نہ ہوتے اسی طرح یہ تمنا نہ کرتے کا ش میں مینگنی ہوتا ، کاش میں بال ہوتا ، کاش میں بشر نہ ہوتا ، شوچئے  کیا ایسے شخص کا ایمان پوری امت اسلامیہ کے برابر ہوسکتا ہے ؟ نہیں ! چہ جائیکہ  پوری ملت اسلامیہ پر بھاری ہو۔ اب آئیے اس حدیث کو لیجئے ۔"لو کنت متخذ خلیلا لاتخذت  ابابکر خلیلا " اگرمیں کسی کو خلیل بنا تا تو ابو بکر ہی کو خلیل بناتا ۔۔۔۔۔ یہ بھی پہلی حدیث کی طرح بوگس ہے ۔ ہجرت سے پہلے مکہ میں جب "مواخاۃ صغری" رسول  نے قراردی ہے اور ہجرت کے بعد مدینہ میں جب آنحضرت نے انصار ومہاجرین  میں مواخات قراردی ہے جس کو "مواخاۃ کبری" کہا جاتا ہے ، اس دونوں میں ابو بکر  کہاں چلے گئے تھے ؟ رسول خدا نے ان کو کیوں اپنا بھائی نہیں بنایا ؟ دونوں موقعوں پر رسول اکرم نے حضرت علی ہی کو کیوں اپنا بھائی قراردیا ؟ اور فرمایا : اے علی تم دنیا وآخرت  میں میرے بھائی ہو (3) ۔ ابو بکر کو کیوں محروم قرار دیا ؟ نہ آخرت کا بھائی نہ آخرت کا خلیل کچھ بھی تو نہ بنایا ۔ میں اس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا ۔ بس انھیں دوحدیثوں  پر اکتفا کرتاہوں جو کتب اہل سنت والجماعت میں موجود ہیں ۔ رہے شیعہ تو وہ ان حدیثوں کو بالکل مانتے ہی نہیں

--------------

(1):- الامامۃ والسیاسۃ ج 1 ص 14 ،رسائل الحاحظ ص 301 ،اعلام النساء ج 3 ص 1215

(2):- تاریخ طبری ج 4 ص 52، الامامۃ والسیاسۃ ج 1 ص 181 ،تاریخ مسعودی ج 1 ص 414

(3):- تذکرۃ الخواص (ابن جوزی) ص 23 تاریخ دمشق (ابن عساکر) ج 1 ص107  ،المناقب (خوارزمی) ص 7 ،فصول المہمہ(ابن صباغ) ص 21

۱۹۰

اور بہت مضبوط دلیلیں  پیش کرتے ہیں کہ یہ حدیثیں ابو بکر کے مرنے کے بعد وضع کی گئی ہیں

یہ تو فضائل  کا قصہ ہے اب اگر ہم فریقین کی کتابوں میں حضرت علی کی برائیوں کی تلاش کریں تو سعی بسیار کے بعد بھی ایک برائی بھی آپ کو نہ ملے گی ۔ البتہ حضرت علی (ع) کے علاوہ دوسروں کی برائیوں کی بھرمار آپ کو اہل سنت کی صحاح ،کتب سیر ، کتب تاریخ میں ملے گی ۔

اس طرح فریقین کا اجماع صرف  حضرت علی (ع) کے لئے مخصوص ہے جیسا کہ تاریخ بھی کہتی ہے کہ صحیح بیعت صرف حضرت علی (ع) کے لئے ہوئی ہے ۔کیونکہ علی بیعت لینے سے انکار کررہے تھے مہاجرین وانصار نے اصرار کرکے بیعت کی ہے چند انگلیوں پر گنے جانے والے افراد نے بیعت نہیں کی تو آپ نے ان کو بیعت پر مجبور بھی نہیں کیا   حالانکہ بقول عمر ابو بکر بیعت ناگہانی تھی ،خدا نے  مسلمانوں کو اس کے شر سے بچالیا ۔۔۔ابو بکر نے اپنی بیعت نہ کرنے والوں کو قتل کرادیا بیعت پر مجبور کیا مترجم ۔۔۔۔۔ اور عمر کی خلافت اس وصیت کے پیش نظر تھی جو ابو بکر نے عمر کیلئے کی تھی ، اور عثمان کی بیعت تو ایک تاریخی مضحکہ خیزی تھی ،کیونکہ عمر نے چھ آدمیوں کو خلافت کا کنڈیڈیٹ اپنی طرف سے معین کرکے ان کے لئے لازم قرار دیدیا تھا ، کہ یہ چھ حضرات اپنے میں کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرلیں ۔ اگر چار  کی رائے  ایک طرف ہو اور دو کی ایک طرف تو دو کو قتل کردو  اور اگر تین تین ہوں تو جس تین کے ساتھ عبدالرحمن بن عوف ہوں اس کی بات مان لو اور اگر ایک معین وقت گزرجائے اور یہ لوگ کسی پر اتفاق نہ کر پائیں تو ان چھ  کےچھ کو قتل کردو ۔ یہ قصہ طویل بھی ہے اور عجیب بھی ۔

مختصر یہ ہے کہ عبدالرحمان بن عوف نے حضرت علی کو منتخب کیا اور ان سے کہا شرط یہ ہے کہ آپ مسلمانوں میں حکم خدا وسنت رسول  وسیرت شیخین (ابو بکر وعمر) کے مطابق حکم کریں گے ۔ حضرت علی نےسیرت شیخین کی شرط کو قبول نہیں کیا ۔ مگر عثمان نے قبول کرلیا اس لئے وہ خلیفہ بنادیئے گئے ۔ حضرت علی شوری سے باہر چلے گئے ۔ اورآپ کو نتیجہ پہلے ہی سے معلوم تھا ۔آپ نے اس کاذکر اپنے مشہور خطبہ شقشقیہ میں بھی کیا ہے ۔

حضرت علی کے بعد معاویہ تخت خلافت پر بیٹھے انھوں نے خلافت کو ملوکیت سےبدل دیا ۔

۱۹۱

جس پر بنی امیہ یکے بعد دیگرے حکومت کرتے رہے ،بنی امیہ کے بعد خلافت کی گیند بنی عباس کے پالے میں چلی گئی ۔اس کے بعد پھرخلیفہ وہ شخص ہوتا تھا جس کو موجودہ خلیفہ نامزد کر جائے ۔ یا جو طاقت وقہر وغلبہ سے سلطنت چھین لے ۔ اور پھر اسلامی تاریخ میں صحیح (1) بیعت کا وجود ہی ختم ہوگیا ۔ یہاں تک کہ کمال اتاترک ،نے خلافت اسلامیہ کےتابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی اور اس پورے دورمیں صحیح بیعت صرف علی (ع) کے لئے ہی ہوئی تھی ۔

--------------

(1):- صحیح بیعت سے مراد وہ بیعت ہے جو ناگہانی نہ ہو اور لوگ خود بخود بیعت کریں کسی کو مجبور نہ کیا جائے

۱۹۲

(4)

احادیث حضرت علی (ع) کی اطاعت کو واجب بتاتی ہیں

جن حدیثوں نے میری گردن پکڑ کر حضرت علی کی اقتدا پر مجبو رکردیا وہ وہی حدیثیں ہیں جن کو علمائے اہل سنت نے اپنی صحاح میں نقل کیا ہے ۔ اور ان کے صحیح ہونے کی تاکید کی ہے اور شیعوں کے یہاں تو الی ماشااللہ احادیث ہیں جو حضرت علی کے لئے نص ہیں ۔ لیکن میں اپنی عادت کے مطابق صرف انھیں احادیث پر اعتماد کروں گا ۔ ۔اور انھیں سے استدلال کروں گا جو فریقین کے یہاں متفق علیھا ہوں ، انھیں سے چند یہ ہیں

(1) :- "حدیث مدینہ " " انا مدینة العلم وعلی بابها " (1)

رسول  خدا(ص) کے بعد تشخیص قیادت کے سلسلے میں یہ حدیث ہی کافی ہے کیونکہ جاہل کے مقابلہ میں عالم کی اتباع کی جاتی ہے خود ارشاد رب العزت ہے"قل هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون(پ 23 س 39 (زمر) آیت 9) ۔اے رسو ل تم پوچھو تو بھلا کہیں جاننے والے اور نہ جاننے والے لوگ برابر  ہوسکتے ہیں ؟ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے" قُلْ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ يَهِدِّيَ إِلاَّ أَن يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (پ 11 س10 (یونس) آیت 35) ۔ تو جو شخص دین کی راہ دکھاتا ہے کیا وہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کے حکم کی پیروی  کی جائے یا وہ شخص جو دوسرے کی ہدایت تو درکنار ( خود جب تک دوسرا اس کو راہ رنہ دکھائے نہیں پاتا ) تو تم کو کیا  ہوگیا ہے تم کیسے حکم لگاتے ہو ؟

ظاہر سی بات ہے عالم ہدایت کرتا ہے اور جاہل ہدایت کی جاتی ہے ، جاہل دوسروں سے کہیں زیادہ ہدایت کا محتاج ہوا کرتا ہے ۔

--------------

(1):- مستدرک حاکم ج 3 ص 127 ،تاریخ ابن کثیر ج 7 ص 258 ، مناقب (احمد بن حنبل )

۱۹۳

اس سلسلے میں تاریخ کا متفقہ بیان  ہے کہ حضرت علی(ع) مطلقا تمام صحابہ سے زیادہ عالم تھے اور اصحاب امہات المسائل میں حضرت علی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ، لیکن حضرت علی نے کسی صحابی کی طرف کبھی بھی رجوع نہیں فرمایا اس کے برخلاف  ابو بکر کہا کر تے تھے"لا ابقانی الله لمعضلة لیس لها ابو الحسن " (خدانے مجھے کسی ایسی مشکل کے لئے زندہ نہ رکھے  جس کے (حل )کیلئے حضرت علی نہ ہوں ) اور عمر بار بار کہتے تھے :لولا علی لهلک عمر" اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔حبر الامۃ ابن عباس کہا کرتے تھے ۔ میرا اور تمام اصحاب محمد کا علم حضرت علی کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلہ میں ایک قطرہ(2) خود حضرت علی فرمایا کرتے تھے ۔ میرے مرنے سے پہلے (جو چاہو) مجھ سے پوچھ لو ۔ خدا کی قسم اگر تم قیامت تک ہونے والی کسی چیز کے بارے میں پوچھو گے تو اس کو بھی بتا دوں گا  ۔ مجھ سے قرآن کے بارے میں پوچھو ۔خدا کی قسم قرآن کی کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ یہ رات میں اتری ہے یا دن میں  پہاڑ پر اتری یا ہموار زمین پر(3) ۔اور ادھر ابوبکر کا یہ عالم تھا کہ جب ان سے "ابّ" کے معنی پوچھے گئے جو اس آیت میں ہے ۔وفاکهة وابّا متاعا لکم ولانعامکم (پ 30 س80 (عبس) آیت 20،21،22) ۔اور میو ے اورچارا (یہ سب کچھ )تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے فائدے کے لئے (بنایا) تو اس کے جواب میں کہنے لگے ۔ کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرےگا اور کون سی زمین مجھے اٹھا ئےگی اگر میں کہوں کہ کتاب خدا  میں ایسی آیت ہے جس کے معنی میں نہیں جانتا ۔۔۔اور عمر کہتے تھے ،: عمر سے زیادہ ہر شخص فقہ جانتا ہے انتہا یہ ہے کہ پردہ میں بیٹھنے والیاں بھی ،" حضرت عمر  سے ایک آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو عمر نے پہلے تو اس کو ڈانٹا پھر درہ لے کر اس پر پل پڑے اور اتنا مارا کہ وہ لہو لہان ہوگیا کہنے لگے ایسی چیزوں کے بارےمیں نہ پوچھا کرو کہ اگر ظاہر ہوجائیں  تو تم کو برا لگے(4) ۔

--------------

(1):- استیعاب ج 3 ص 39 ،مناقب (خوارزمی )ص 48، ریاض النفرۃ ج 2 ص 124

(2):- حوالہ سابق

(3):- الریاض النفرۃ (محب الدین) ج 2 ص 198 ، تاریخ الخلفاء (سیوطی) ص 124 ،اتقان ج 2 ص 219 ،فتح الباری ج 8 ص 485 ،تہذیب ج 7 ص 328

(4):- سنن دارمی ج 1 ص 54 ،تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 232 ،در منثور ج 6 ص111

۱۹۴

بے چارے سائل نے کلالۃ کے معنی پوچھ لئے تھے ۔

طبری نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عمر کہتے تھے ۔ اگر مجھے "کلالۃ " کے معنی معلوم ہوتے تو یہ بات میرے نزدیک شام کے قصروں سے زیادہ محبوب تھی ۔۔۔ ابن ماجہ نے بی سنن میں عمر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ موصوف فرماتے تھے : تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر رسول اللہ (ص) نے ان کو بیان کردیا ہوتا تو مجھے دنیا وما فیھا سے زیادہ سے محبوب ہوتیں " کلالۃ ، ربا ، خلافت ،

سبحان اللہ ! ناممکن ہے کہ رسول خدا نے ان چیزوں کو بیان نہ کیا ہو ۔

(2):- "حدیث منزلت "" یا علی انت منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی "

 اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی بس یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا !

اس حدیث سے حضرت علی کی وزارت (ولایت) وصیات ،خلافت صریحی طور سے ثابت ہوتی ہے جیسا کہ صاحبان عقل کے نزدیک یہ بات مخفی نہیں ہے ۔ جب جناب موسی میقات رب کے لئے گئے تھے تو ان کی عدم موجودگی میں جناب ہارون آپ کے وزیر ،وصی ،خلیفہ تھے یہی چیز حضرت علی کیلئے بھی ثابت ہے ، اس حدیث سے دو باتیں اور بھی ثابت ہوتی ہیں ۔

(1):- حضرت ہارون کی طرح حضرت علی(ع) حضرت رسول (ص) کی تمام خصوصیات کے نبوت کے علاوہ حامل تھے ۔

(2):- حضرت علی(ع) رسولخدا (ص) کے علاوہ آپ کے تمام اصحاب سے افضل وبرتر تھے ۔

(3):- "حدیث غدیر"" من کنت مولاه فهذا علی مولاه اللهم وآل من والاه وعاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله وادر الحق معه حیث مادار :!"

۱۹۵

جس لوگوں کا عقیدہ  ہے کہ ابو بکر ،عمر ،عثمان اس شخص پر فضیلت رکھتے ہیں ،جس کو رسول خدانے اپنے بعد مومنین کا ولی بنا یا ہے ،ان لوگوں کے خیال باطل کو باطل کرنے کے لئے صرف یہ حدیث اکیلی ہی کافی ہے ۔اور جن لوگوں نے صحابہ کا بھرم رکھنے کے لئے سا حدیث میں لفظ "مولی" کی تاویل کی ہے اس سے مراد "محب اور ناصر" ہے ان کی تاویل بے اعتبار ہے کیونکہ جس اصلی معنی کا رسول  نے ارادہ کیا تھا  اس معنی سے اس کو موڑنا ہے ۔کیونکہ شدید گرمی میں جب رسول خدا نے کھڑے ہوکر فرمایا ۔ کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہو کہ میں مومنین کے نفوس پر مومنین سے زیادہ اولویت رکھتا ہوں ،تو سب نے کہا بیشک یا رسول اللہ ! تب آپ نے فرمایا " من کنت مولاہ الخ " یعنی جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں ،خدا یا جو علی کو دوست رکھے تو بھی اس کو دوست رکھ ۔ اور جو علی سے دشمنی رکھےتو بھ اس کو دوشمن رکھ ، جو علی کی مدد کرے تو اس کی مدد کر جو علی کی مدد نہ کرے تو بھی اس کی مدد نہ کر "جدھر علی مڑیں اسی طرف حق کو موڑدیے !

یہ نص صریح ہے کہ حضور  حضرت علی کو اپنی امت پر خلیفہ بنارہے ہیں ، ہر عقلمند اسی مطلب کو قبول کریگا اور دور از کار تاویلوں کوترک کرےگا ۔ رسول کا احترام صحابہ کے احترام سے کہیں زیادہ ہے اس لئے کہ اگر یہ مان لیاجائے کہ صرف یہ بتانے کے لئے کہ علی ناصر ہیں اور محب ہیں آنحضرت نے چلچلاتی دوپہر میں جس کی گرمی ناقابل برداشت تھی صرف اتنا کہنے کیلئے اکٹھا کیا تھا تو یہ رسول کامذاق اڑانا ہے ان کو (معاذاللہ) احمق ثابت کرتا ہے اس کے علاوہ جو محفل مبارکباد منعقد کی گئی تھی اس کی کیا تاویل کی جائیگی ؟ بھلا اتنی سی بات کیلئے ایسی محفل تبریک کی کیا ضرورت تھی ؟ جس میں سب سے پہلے امہات المومنین نے مبارک باد پیش کی پھر ابو بکر وعمر آکر بولے ،۔مبارک ہو مبارک ابوطالب کے فرزند تم تمام مومنین ومومنات کےمولا ہوگئے آگر خلافت وامامت مراد نہ ہوتی تو رسول یہ سب نہ کرتے نہ محفل سجتی نہ مبارک باد پیش کی جاتی ؟

واقعہ اور تاریخ دونوں تاویل کرنے والوں کو جھٹلاتے ہیں ارشاد خدا ہے ۔وان فریقا منهم لیکتمون الحق وهم یعلمون (پ 3 س 2 (بقره ) آیت 146) اور ان میں ایسے بھی ہیں جو دیدہ ودانستہ حق بات کو چھپاتے ہیں ۔

۱۹۶

(4)"حدیث تبلیغ""علی منی وانا منه ولا یودی عنی الا انا او علی (1) ۔

"علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ،میری طرف سے اس کی تبلیغ میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا "

یہ حدیث بھی ایسی ہے جس میں صاحب رسالت نے وضاحت کردی کہ میری طرف سے پہونچانے کی اہلیت صرف علی کے اندر ہے ، رسول نےحج اکبر کے موقعہ پر ابو بکر کو سورہ برائت دیکر بھیج دیا تھا پھر جبرئیل کے آنے کے بعدآنحضرت نے حضرت علی کو بھیج  کر یہ کام ان کے سپرد کردیا اور ابوبکر کو واپس بلالیا اس وقت فرمایا تھا" لا یودی عنی الا اناوعلی " اور ابو بکر روتے ہوئے واپس آئے تھے ۔ اور آکر پوچھا یا رسول اللہ کیا میرے بارےمیں  کچھ نازل ہوا ہے ؟ تو فرمایا خدانے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یا خود پہونچاوں یا پھر علی پہونچا ئیں اسی طرح ایک دوسرے مناسب موقع پر فرمایا : اے علی تم میرے بعد امت جن چیزوں میں اختلاف کرے گی اس کو بیان کرنے والے ہو(2) ۔

جب  رسول خدا کی طرف سے صرف حضرت علی تبلیغ  کرسکترے ہیں اور اختلاف امت کی وہی ر سول کے بعد وضاحت  کرسکتے ہیں تو جن لوگوں کو"اب" یا"کلالة" کے معنی تک نہ معلوم ہوں ان کے ان کو حضرت علی پر کیوں کر مقدم کرسکتے ہیں ؟ خدا کی قسم یہ وہ مصیبت ہے جس میں امہ مسلمہ گرفتار ہے اور اسی لئے یہ امت ان فرائض کو نہیں پورا کر سکتی جس کو خدا نے اس کے سپرد کیا تھا ، اس میں خدا یا رسول یا علی کی کوتاہی ہیں ہے بلکہ اس میں سراسر ان لوگوں کی خطا وکوتاہی ہے جنھوں نے نافرمانی کی اور دین الہی میں تبدیلی کردی ، ارشاد خدا ہے :

--------------

(1):-سنن ابن ماجہ ج 1 ص 44 ،خصائص النسائی ص 20 ،صحیح الترمذی ج 5 ص 300 ،جامع الاصول (ابن کثیر ) ج 9 ص 471 ،الجامع الصغیر (سیوطی) ج 2 ص 56

(2):- تاریخ دمشق (ابن عساکر) ج 2 ص 488، کنوز الحقائق (مناوی) 203 ،کنز العمال ج 5 ،ص 33

۱۹۷

واذا قیل لهم تعالوا الی ما انزل الله والی الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیه آباءنا اولوکان آباءهم لا یعلمون شیئا ولا یهتدون (پ 7 س 5 (مائده ) آیت 104)

ترجمہ :- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو(قرآن) خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ (اور جو کچھ کہیں اس کو سنو اور مانو) تو کہتے ہیں کہ ہم نے جس (رنگ) میں اپنے باپ دادا کو پایا وہی ہمارے لئے کافی ہے (کیا یہ لوگ لکیر کے فقیر ہی رہیں گے ) اگر چہ ان کے باپ دادا (چاہے ) کچھ نہ جانتے ہوں اور نہ ہدایت یافتہ ہوں ۔

(5):- "حدیث الدّار یوم الانذار" " رسولخدا(ص) نے حضرت علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :" ان هذا اخی ووصیی وخلیفتی فاسمعوا له واطیعو" (1)

یہ (علی) میرا بھائی ہے اور میرا وصی ہے اور میرے جانشین ہے لہذا اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو!

یہ حدیث بھی ان صحیح حدیثوں میں سے ہے جس کو موخین نے ابتدا ئے بعثت میں لکھا ہے اور رسول خدا (ص) کے معجزات میں شمار کیا ہے ،لیکن برا ہوسیاست کا جس نے حقائق بدل دیئے اور واقعات کو ملیامٹ کردیا اور یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں  ہے کیونکہ وہ تو تاریک دورتھا ،آج عصر نور میں بھی یہی حرکت کی جارہی ہے ،محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب حیات محمدی میں اس حدیث کو مکمل طور سے لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ،"طبع اول سنہ 1354 ھ  کا صفحہ 104 لیکن اس کتاب کا جب دوسرا ایڈیشن اور اس کے بعد والے ایڈیشنز چھپتے ہیں تو اس میں(وصی ،خلیفتی من بعدی) کا لفظ حذف کردیا جاتا ہے   اسی طرح تفسیر طبری کے ج 19 ص 121 سے "وصیتی وخلیفتی "

--------------

(1):- تاریخ طبری ج 2 ص 219 ،تاریخ ابن اثیر ج 2 ص 62 ،السیرۃ الحلبیہ ج 1 ص 311 ،شواہد التنزیل ج 1 ص 371 کنزل العمال ص 15 ،تاریخ ابن عساکر ج 1 ص 85 ،تفسیر الخازن (علاء الدین ) ج 3 ص 371 حیات محمد (ہیکل )چاپ اول باب وانذر عشیرتک الاقربین

۱۹۸

کو کاٹ کر ا س کی جگہ ان ھذا اخی وکذا کذا لکھا دیا جاتا ہے ،مگر ان تحریف کرنے والوں کو پتہ نہیں ہے کہ طبری نے اپنی تاریخ کے ج 2 ص 219 پر پوری حدیث لکھی ہے دیکھئے یہ لوگ کس طرح تحریف کرتے ہیں اور یہ نور خدا کو بجھانا چاہتے ہیں مگر واللہ متم نورہ ۔۔۔۔۔ اس بحث کے درمیان حقیقت حال کے واضح ہوجانے کے لئے میں نے (حیات محمد) کا پہلا ایڈیشن ڈھونڈ ھنا شروع کیا اور سعی بسیار وزحمت کثیر وخرچ کثیر کے بعد بمصداق جویندہ یا بندہ " وہ نسخہ مجھے مل ہی گیا ۔اور اہم بات یہ ہے کہ واقعا یہ تحریف ہے اور اس سے میرے اس یقین کو مزید تقویت ملی ہے  اہل سوء کی ساری کوشش اس بات کے لئے ہے کہ وہ سچے واقعات اور ثابت حقائق کو مٹادیں تاکہ ان کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کوئی قوی دلیل نہ پہونچ سکے ،

لیکن منصف مزاج حق کامتلاشی جب اس قسم کی تحریفات کو دیکھے گا تو ان سے اور دور ہوجائے گا اور اس کو یقین ہوجائے گا کہ یہ لوگ معجزہ  کرنے دسیسہ کاری کرنے ،حقائق کو بدلنے کیلئے ہر قیمت دینے  کو تیار ہیں ۔ اور انھوں نے ایسے قلم خرید لئے ہیں اور ان کے لئے القاب اور اسناد کی بھر مار اسی طرح کردی  ہے جس طرح مال ودولت سے ان کو چھکا دیا ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اہل قلم ان صحابہ کی آبرو بچانے کے لئے جو رسول کے بعد الٹے پاؤں پھر گئے تھے ۔ اور جنھوں نے حق کو باطل سے بدل دیا تھا ۔ ہر طرح دفاع کریں چاہے شیعوں کو گالی دینا پڑے ان کوکافر کہنا پڑے" كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ" پ 1 س 2 (بقره ) آیت 118

ترجمہ :- اسی طرح انھیں کی سی باتیں وہ لوگ بھی کرچکے ہیں جو ان سے پہلے تھے ۔ ان سب کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کو تو اپنی نشانیاں صاف طورسے دکھاچکے ۔

۱۹۹

"وہ صحیح حدیثیں جو اہل بیت کی اتباع کو واجب بتاتی ہیں "

(1):-" حدیث ثقلین" رسول خدا (ص ) کا ارشاد ہے" یا ایها النا س ! انی ترکت فیکم ماان اخذتم به لن تضلو کتاب الله وعترتی اهلبیتی " لوگو میں تم میں ایسی چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو گمراہ نہ ہوگے اور وہ خدا کی کتاب اور میری عترت (یعنی ) میرے اہل بیت  ہیں  اور اس طرح بھی فرمایا" یوشک ان یاتی رسول ربی  وانی تارک فیکم الثقلین اولهما کتاب الله فیه الهدی والنور واهلبیتی اذکر کم الله اهلبیتی اذکر کم الله اهلبیتی (1) ۔

قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آجائے  اور یمں لبیک کہوں ، میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزوں کوچھوڑ رہاہوں پہلی چیز قرآن ہے جس میں ہدایت ونور ہے اور( دوسری چیز) میرے اہلبیت ہیں الخ۔

 اس حدیث میں پہلے ہم خوب غوروفکر کرتے ہیں جس کو صحاح اہل سنت والجماعت میں ذکر کیا ہے  تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ صرف شیعہ حضرات ہی ثقلین (قرآن وعترت ) کی پیروی کرتے ہیں اور اہل سنت حضرت عمر کی اتباع "حسبنا کتاب اللہ" میں کرتے ہیں کاش کتاب اللہ ہی پر عمل کرتے اور اس کی تاویل اپنی خواہشات کے مطابق نہ کرتے ،جب خود حضرت عمر کتاب اللہ میں کلالۃ اورآیت تمیم کا مطلب نہیں جانتے تھے بلکہ مزید دیگر احکام کو نہیں جانتے تھے تو جو لوگ ان کے بعد دنیا میں پیدا ہوئے  ہیں اوربغیر کسی اجتہاد کےبا لنصوص قرآنیہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کرکے عمر کی تقلید کرتے ہیں وہ بے چارے قرآن کو کیا سمجھیں گے ؟

--------------

(1):- صحیح مسلم باب فضائل علی ج 5 ص 122 صحیح ترمذی ج 5 ص 328  ،مستدرک الحاکم ج 2 ص 148 ،مسند امام احمد بن حنبل ج 3 ص 17

۲۰۰