پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 0%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 253
مشاہدے: 70790
ڈاؤنلوڈ: 5921

تبصرے:

پھر میں ہدایت پاگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 70790 / ڈاؤنلوڈ: 5921
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کامیاب سفر

۲۱

مصر میں

لیبیا کے دار لسلطنت "طرابلس"میں صرف اتنی دیر قیام کیا کہ مصری سفارت خانہ جاکر کنانہ کے داخلہ کے لئے ویزا حاصل کرسکوں ۔اتفاق کی بات ہے وہاں پر کچھ دوستوں سے ملاقات ہوگئی جنھوں نے میرا کافی ہاتھ بٹایا خدا ان کا بھلا کرے ۔

قاہرہ کاراستہ کافی تھکادینے والا ہے ۔تین دن رات کا مسلسل سفرہے ۔ہم نے ایک ٹیکسی کرایہ پر لی جس میں ایک میں تھا اور چار مصری تھے ۔ جو لیبیا میں کام کرتے تھے ۔ لیکن اس وقت وہ لوگ اپنے وطن واپس جارہے تھے راستہ کاٹنے کے لئے میں نے ان لوگوں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کردیا ۔اور کبھی کبھی تلاوت قرآن بھی کرتا تھا ۔اس لئے وہ چاروں مجھ سے کافی مانوس ہوگئے بلکہ صحیح لفظ یہ ہے کہ مجھ سے محبت کرنے لگے اور سب ہی نے مجھے اپنے یہاں اترنے کی دعوت دی لیکن میں نے ان میں سے احمد کو پسند کیا اور اس کی دعوت قبول کرلی کیونکہ ایک تو فطری طور سے میرا دل اسکی طرف مائل تھا ۔ دوسرے اس کے تقوی وپرہیز گاری سے بھی متاثر ہوگیا تھا ۔

چنانچہ احمد نے اپنی حسب حیثیت میر بڑی خاطر مدارات کی اور میزبانی کا حق ادا کیا خدا اس کو جزائے خیر دے ۔میں نے بیس 20 دن قاہرہ میں گزارے ۔اس دوران میں نے شہنشاہ موسیقی فریدا الاطرش سے ان کے اس گھر میں ملاقات کی جو نیل کے کنارے پر بنایا گیا تھا ۔ میں جب ٹیونس میں تھا تو مصری اخباروں میں "جو ہمارے یہاں باقاعدہ بکتے تھے " فریدالاطرش کے اخلاق وتواضع کےبارے میں کچھ پڑھ چکا تھا۔ اور اسی زمانہ میں اسکو

۲۲

پسند کرتا تھا لہذا فطری بات ہے کہ قاہرہ پہنچ کر میں اس سے ضرور ملاقات کرتا ۔ لیکن یہ میری بد قسمتی تھی کہ صرف بیس منٹ کی ملاقات ہوسکی کیونکہ جب  میں پہونچا تو وہ گھر سے ہوائی اڈہ کے لئے نکل رہے تھے ان کو لبنا ن جانا تھا ۔

دوسری عظیم شخصیت جس سے قاہر ہ کے دوران ملاقات کی وہ دنیا کے مشہور ترین قاری قرآن جناب شیخ عبدالباسط محمد عبدالصمد تھے ۔ان کو میں دل وجان سے پسندکرتا تھا ۔خوش قسمتی سے تین دن ان کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا ۔ اور اس دوران ان کے رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی کافی ملاقاتیں رہیں ۔ اور متعہ وموضوعات زیر بحث آئے ان لوگوں کو میری جراءت وصراحت لہجہ اور کثرت اطلاع پر بہت تعجب تھا ۔ کیونکہ جب کبھی غنا کا موضوع چھڑگیا تو میں نے ان کو بتایا کہ میں طریقہ تیجانیہ اور مدنیہ دونوں سے متعلق ہوں ۔اور اگر انہوں نے اپنے کو ترقی پسند ثابت کرنے کے لئے "مغرب کا تذکرہ نکالا تومیں نے گرمیوں کی تعطیلات میں مغربی ممالک میں گزارے ہوئے دنوں  کو دہرانا شروع کردیا اور پیرس ،لندن ، بلجیک ،ہالینڈ، اٹلی ، اسپین کے قصّے سنانے شروع کردئیے وار اگر کبھی حج کا ذکر نکل آیا تو میں نے بتا یا کہ میں بھی حج کرچکا ہوں ۔اور اس وقت عمرہ کے لئے جارہا ہوں اور اسی کے ساتھ ان کو ایسے ایسے مقامات بتائے مثلا ، غار حرا، غار ثور ع ،مذبح اسماعیل وغیرہ جس کو یہ لوگ تو کیاوہ لوگ بھی نہیں جانتے جو سات سات مرتبہ حج کرچکے ہیں اور اگر بھولے سے ان لوگوں نے علوم واکتشافات واختراعات کاذکر کردیا توپھر کیاتھا نئی نئی اصطلاحیں ،ارقام ،اعداد وشمار ان کو بتانا شروع کردیئے تو وہ مبہوت ہوکے رہ گئے ۔اور اگر سیاست کا موضوع زیر بحث آگیا تومیں نے اپنے نظریات پیش کرکے ان کو دم بخود بنادیا اور جب میں نے ان سے کہا :خدا ناصر پر ((جو اپنے دور کا صلاح الدین ایوبی تھا)) اپنی رحمت نازل کرے جس نے ہنسنا تو درکنار اپنے اوپر مسکرہٹ کو بھی حرام قراردے لیا تھا اورجب ان قریبی لوگوں نے ملامت کی کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جب کہ رسول اکرم (ص) کی

۲۳

سیرت یہ رہی ہے کہ ہر ایک سے مسکرکر ملتے تھے ؟ توجواب دیا :تم لوگ مجھ سے مسکراہٹ کا مطالبہ کیوں کرتے ہو؟حالانکہ میں دیکھ رہا ہوں  کہ مسجد الاقصی دشمنوں کے قبضہ میں ہے ۔نہیں نہیں خدا کی قسم میں اس وقت تک مسکراؤں گا بھی نہیں جب تک مسجد اقصی کو آزاد نہ کرالوں یا اس کے لئے جان نہ دیدوں ۔

قیام قاہرہ کے دوران جلسے بھی منعقد ہوتے تھے ۔ اور میں بھی تقریریں کرتا تھا ، میری تقریروں میں جامعہ ازہر کے شیوخ بھی شرکت کرتے تھے ۔ اور اپنی تقریروں میں  میں آیات اور احادیث کی تلاوت کرتا تھا اور میرے پاس جو براہین قاطعہ اور دلائل ساطعہ تھے جب ان کو پیش کرتا تھا ۔تو عوام توخیر عوام ہوتے ہیں ازہر کے شیوخ بہت متاثر ہوتے تھے اور مجھ سے پوچھتے تھے آپ کس یونیورسٹی کے سند یافتہ ہیں؟ تو میں بہت فخر سے کہا کرتا تھا "جامعۃ الزیتونیۃ " کا فارغ تحصیل ہوں ۔ یہ جامعہ (یونیورسٹی ) ازھر یونیورسٹی سے پہلے کا ہے اور اسی کے ساتھ یہ بھی اضافہ کردیتا تھا کہ جن فاطمیین نے جامعہ ازہر بنایا تھا وہ شہر مھدیہ سے ٹیونس چلے گئے تھے ۔

اس طرح جامعہ ازہر کے بہت سے علماء وافاضل سے میں متعارف ہوگیا اور ان حضرات نے بعض کتابیں بھی مجھے بطورتحفہ مرحمت فرمائی تھیں ۔ایک دن امور ازھر کے ذمہ داروں میں سے ایک ذمہ دار کے کتب خانہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں حکومت مصر کے انقلابی کمیٹی کا ایک ممبر وہاں آیا اور اس نے کہا : (کتب خانہ کے مالک کو مخاطب کرتے ہوئے) قاہرہ کی ریلوے لائن کے سلسلے میں مصری کمپنیوں میں سے سب سے بڑی کمپنی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا اجتماع ہورہا ہے اس میں آپ کی شرکت ضروری ہے ۔(درحقیقت جنگ حزیزاں (جون) کے موقع جو توڑ پھوڑ اور تخریبی کاروائی ہوئی تھی اس مسئلہ پر غور کرنے کے لئے یہ اجتماع تھا ) مالک کتب خانہ نے مجھ سے کہا : تمہارے بغیر میں ہرگز نہ جاؤں گا ۔ لہذا تم بھی میرے ساتھ چلو ۔چنانچہ میں بھی گیا اور وہاں ڈائس پر ازہری عالم اور الاب شنودہ کے درمیان مجھے بٹھایا گیا ۔ پھر مجھ سے خواہش کی گئی کہ میں بھی اس جلسہ میں ایک تقریر کروں ! چونکہ میں مسجدوں اور ثقافتی کمیٹیوں میں تقریر وں کا عادی تھا

۲۴

اس لئے میرے لئے کوئی مشکل بات نہیں تھی میں نے لوگوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ایک تقریر کی ۔

اس پوری فصل میں جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ مجھے احساس ہونے لگا تھا اور اس قسم کا غرور ہوگیا تھا اور مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میں بھی ایک بڑا عالم ہوں اور یہ احساس کیوں نہ ہوتا جب کہ ازہر شریف کے علماء نے اس کی گواہی بھی دی تھی اور بعض نے تویہاں تک کہہ دیا تھا :تمہاری اصلی جگہ ازہر ہے اور ان سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ حضرت رسول خدا (ص) نے مجھے اپنے تبرکات کے زیارت کی اجازت مرحمت فرمادی تھی ۔قصہ اس طرح ہے کہ قاہرہ میں حضرت سیدنا الحسین (ع) کی مسجد ہے اس کے مدیر نےمجھ سے کہا : رسول اللہ نے مجھے خواب میں بتایا ہے کہ تمام تبرکات کی تم زیارت کرادوں !چنانچہ  وہ مجھے اکیلا لے کر گیا اور جس حجرہ کو اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں کھول سکتا تھا اس نے اس کو کھولا اور مجھے اندر داخل کرنے کے بعد پھر اندر سے دروازہ کو مقفل کردیا پھر تبرکات کا صندوق کھول کر رسول خدا (ص) کی قمیص دکھائی ۔ میں نے اس کو چوما اس کے بعد دیگر تبرکات دکھائے ۔میں وہاں سے آنحضرت کی عنایت کو سوچتا ہوا رو تا باہر آیا کہ حضور نے میری ذات پر کتنا کرم فرمایا ہے ۔ اور اس بات پر مجھے زیادہ تعجب تھا کہ اس مدیر نے نقدی صورت میں مجھ سے کوئی نذرانہ نہیں طلب کیا ۔بلکہ نہ لینے پر مصر رہا ۔ جب میں نے بہت کچھ اصرار کیا اور تضرع وزاری کی توبہت ہی معمولی سی رقم لی اور اس نے مجھےتہنیت پیش کی کہ تم حضرت رسول اکرم (ص) کے نزدیک مقبول لوگوں میں ہو ۔

اس واقعہ سے میں بہت زیادہ متاثر ہوگیا تھا اور کئی راتیں میں نےیہ سوچتے سوچتے آنکھوں میں کاٹ دیں کہ وہابیوں کا یہ عقیدہ :رسول خدا بھی دوسرے مردوں کی طرح مرگئے ! غلط معلوم ہونے لگا اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ عقیدہ محض بکواس ہے ۔جب خدا کی راہ میں قتل ہونے والا شہید زندہ ہے اور خدا اس کو رزق دیتا ہے تو جو سیدالاولین والآخرین ہو وہ کیسے زندہ نہ ہوگا ۔؟

۲۵

میرے اس شعور و عقیدہ کو بچپنے کی تعلیم نے مزید تقویت پہونچائی مجھے زمانہ ماضی میں صوفیوں کی تعلیم جو دی گئی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ صوفیوں  کے اولیاء وشیوخ کو خداوند نے یہ صلاحیت اس لئے دی ہے کہ انھوں نے خدا کی بے انتہا عبادت کی تھی ۔نیز کیا حدیث قدسی میں یہ نہیں ہے ؟" میرے بندے تو میری عبادت کر میں تجھے اپنا جیسا بنادوں گا کہ تو جو کہو گے وہ چیز فورا ہوجائے گی "۔

یہ میری اندرونی کشمکش مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی ۔مختصر یہ کہ قیام قاہرہ کے آخری دنوں میں حقیر نے تمام مساجد کی زیارت کی اورسب میں نماز یں پڑھیں ۔امام مالک کی مسجد سے لیکر امام ابو حنیفہ کی مسجد تک امام شافعی مسجد سے لے کر احمد بن حنبل کی مسجد تک پھر سیدہ زینب (س) اور سیدنا حسین (ع) کی مسجدوں میں بھی نمازیں پڑھیں اور" زاویة التیجانیة" کی زیارت سے مشرف ہوا ۔ اس سلسلہ میں بھی بڑی لمبی چوڑی حکایتیں ہیں جن کا بیان کرنا سبب طول ہوگا ۔اور میں مختصر کا ارادہ کرچکا ہوں ۔

۲۶

شپ کی ملاقات

ایک مصری شپ (پانی کا جہاز) کے اندر جو بیروت جارہاتھا ۔اور جس میں پہلے ہی سے میں نے اپنی جگہ کا ریزرویشن کرالیا تھا ۔ اسی حساب سے اسی دن میں اسکندر یہ سے روانہ ہوگیا میں نے اپنے بستر پر لیٹے لیٹے محسوس کیا کہ جسمانی اور فکری دونوں اعتبار سے بہت ہی خستہ ہوں لہذا تھوڑی دیر سوگیا ۔کشتی کو سمندر میں چلتے ہوئے دو تین گھنٹے ہوئے تھے ۔سوتے میں اپنے بغل والے شخص کو کسی سے گفتگو کرتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا : معلوم ہوتا ہے یہ بھائی صاحب بہت تھکے ہیں ! میں نے ذرا آنکھ کھول کر کہا :جی قاہرہ سے اسکندریہ تک کا سفر نے انچر پنچر ڈھیلے کردیئے ہیں ۔چونکہ مجھے حسب وعدہ بہت ہی سویرے پہونچنا تھا اس لئے رات کو سوبھی نہیں سکا ۔اس شخص کےلب ولہجہ سے میں انے اندازہ لگا لیا کہ یہ شخص مصری نہیں ہے۔ میری بکواس کرنے کی عادت نے مجھے اس بات پر آمادہ کردیا کہ اس کو اپنا تعارف کرادوں اور اس کے بارے میں بھی معلومات حاصل کروں اس نے بتایا کہ وہ عراقی ہے اس کا نام منعم ہے ۔ بغداد یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے ۔قاہرہ گیا تھا تکہ ۔پی ایچ ڈی کے تھیسس "جامعۃ ازہر میں پیش کرے ۔

پھر ہم میں گفتگو چھڑگئی ہم نے مصر کے بارے میں "عالم اسلام "کے موضوع پر "عالم عرب " کے سلسلے میں "عربوں کی شکست یہودیوں کی فتح کےبارے میں گفتگو کی اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ "بات میں بات نکلتی چلی آتی ہے" میں انے اپنی گفتگو کے دوران یہ بھی کہا کہ شکست کا اصلی سبب مسلمانوں اور عربوں کا چھوٹی چھوٹی حکومتوں اور مختلف مذہبوں میں بٹ جانا ہے

۲۷

مسلمانوں کی دنیا  میں اتنی بڑی اکثریت ہونے کےباوجود ان کے دشمنوں کی نظریں میں ان کی کوئی قدر قمیت نہیں ہے ۔

زیادہ تر گفتگو مصر اور اہل مصر کے بارے میں ہوئی ۔شکست کے اسباب پرہم دونوں متفق تھے ۔میں نے اتنی بات کا اور اضافہ کیا کہ استعمار نے ہم کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہےتاکہ ہم پر حکومت کرسکے ۔اور ہماری نکیل اس کے ہاتھ میں رہے ۔ میں اس  کا بہت شدید مخالف ہوں ۔ ہم آج بھی مالکی اور حنفی میں بٹے ہوۓ ہیں ۔ چنانچہ میں نے اس کو اپنا ایک واقعہ بتایا کہ قیام قاہرہ کے دوران میں نے ایک مرتبہ مسجد ابی حنیفہ میں جاکر عصر کی نماز جماعت  سے ادا کی لیکن نماز ختم ہوتے ہی جو شخص میرے پہلو میں کھڑا تھا مجھ پر برس پڑا ۔ اور تہدید آمیز لہجہ میں کہنے لگا" تم نے نماز میں ہاتھ کیوں نہیں باندھے ؟ میں نے بہت ادب واحترام سے عرض کیا " مالکی حضرات ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں اور میں مالکی ہوں ۔اس نے اسی غصہ کی حالت میں کہا تو مالک کی مسجد میں جاؤ اور وہاں نماز پڑھو ۔چنانچہ میں وہاں سے بہت رنجیدہ وارغصہ میں چلا آیا او رمجھے شدید حیرت ہوئی ۔

اتنے میں عراقی استاد زیرلب مسکراتے ہوئے بولے : (دوسری مثال میری ہے کہ )میں شیعہ ہوں ۔ اتنا سنتے ہی میں آگ بگولا ہوگیا ۔اور بغیر کسی پاس ولحاظ کے میں نے کہا " اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ شیعہ ہیں تو آپ سے میں بات ہی نہ کرتا ۔انھوں نے کہا آخر کیوں ؟ میں نے کہا آپ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔آپ لوگ علی ابن ابی طالب کی عبادت کرتےہیں ۔البتہ جو اعتدال پسند ہیں وہ عبادت تو خدا کی کرتے ہیں مگر محمد مصطفی کی رسالت پر ایمان نہیں رکھتے اور جبریئل کوسب وشتم کرتے ہیں رسالت علی کے حوالہ کرنے کے بجائے محمد کے حوالہ کردیا ۔اور اسی قسم کی بہت سی باتیں میں نے ذکر کیں ۔ اور اس پوری گفتگو کے دوران میرا ہمسفر تو تبسم زیر لب کرتا تھا اور کبھی"لاحول ولا قوة الا بالله " کہتا تھا اور جب میں انے اپنی گفتگو ختم کرلی ۔ تو اس نے مجھ سے کہا: کیا تم مدرس ہو؟ تم بچوں کو پڑھاتے

۲۸

ہو؟ میں نے کہا ہاں ! اس نے کہا "جب استادوں کا یہ حال ہے تو عوام کو ملامت کرنا فضول ہے ۔

کیونکہ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں ان کو کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا!

میں نے کہا " آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ کیا مقصد ہے آپ کا؟

انھوں نے فورا کہا" معاف کیجئے گا ذرایہ تو بتائیے یہ جھوٹے ادعات آپ کہاں سے حاصل کئے ؟

میں نے کہا" تاریخ سے اور جو تمام لوگوں کے نزدیک مشہور ہے ان باتوں سے !

انھوں نے کہا" لوگوں کو خیر جانے دیجئے جناب عالی نے تاریخ کی کون سی کتاب پڑھی ہے ؟

میں نے کہا" میں نے بعض کتابوں کے نام گنوانے شروع کردیئے مثلا"فجر الاسلام""ضحی الاسلام" ظهر الاسلام" احد امین وغیرہ کی کتابون کے نام لئے ۔

وہ    " بھلا احمد امین کی باتین شیعوں پر کیسے حجت ہوجائیں گی ؟ یہ کہہ کر انھوں نے اضافہ کیا دیکھئے عد ل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ شیعوں کے اصلی مشہور مصادر سے اثبات کیجئیے !

میں" جو بات خاص وعام ہی کے نزدیک مشہور ومعروف ہو اس کی تحقیق کی کیا ضرورت ہے؟

وہ " سنئے جب احمد امین نے پہلی مرتبہ عراق کی زیارت کی تھی تو نجف اشرف میں جن اساتذہ نے ان سے ملاقات کی تھی ان میں  ایک میں بھی تھا اور جب ہم لوگوں نے ان کو سرزنش کی کہ آپ نے شیعوں کے بارے میں کیسے کیسے خرافات تحریر کردیئے ہیں؟ تو انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کیل کہ : میں آپ حضرات کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا اور اس سے پہلے کبھی کسی شیعہ سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی اس لئے معذرت چاہتا ہوں

۲۹

اس پر ہم لوگوں نے کہا " عذرگناہ بدترازگناہ  والی مثال آپ پر صادق آتی ہے ۔جب آپ کو ہمارے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا تو ایسی باتیں آپ نے کیوں تحریر کیں ؟ اس کے بعد ہمارے ہم سفر نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا" برادر ! جب ہم قرآن کریم سے یہود ونصاری کی غلطی ثابت کرتے ہیں تو قرآن اگر چہ ہمارے لئے حجت  بالغہ ہے لیکن جب وہ لوگ اس کو نہیں مانتے تو اس سے ان کے خلاف دلیل نہیں لائی جاسکتی ۔لیکن اگر ان کی کتابوں جس پر وہ عقیدہ رکھتے ہیں  ان کے مذہب کا بطلان کیا جائے تو یہ دلیل محکم ومضبوط ہوگی ۔ اور قرآن نے یہی کیاہے اسی لئے قرآن سے استدلال کرتےہیں ۔یعنی انھیں کتابوں سے ان کی غلطی ثابت کرو "بقول شخصی میاں کی جوتی میاں کا سرتب توبات صحیح ہے ورنہ نہیں !

ایک پیاسے کو شیریں پانی پی کر جیسے سکون ملتا ہے اسی طرح اپنے ہم سفر کی تقریر کا اثر میرے اوپر ہوا اور اب میں نے اپنے اندر یہ محسوس کیا کہ میں"ناقد حاقد"( کینہ پرور نقاد )نہیں رہا بلکہ"باحث فاقد" (گمشدہ شی کا متلاشی) کی حیثیت اختیار کرلی ہے ۔کیونکہ اس شخص کی منطق سلیم اور حجت قوی کو میری عقل نے تسلیم کرلیا تھا ۔اور اگر میں تھوڑی انکساری برتوں اورکان دھر کے اس کی بات سنوں تویہ کوئی بری بات نہیں ہے ۔

چنانچہ میں نے رفیق سفر سے کہا " اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ محمد (ص) کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں "! اس نے کہا " نہ صرف میں بلکہ پوری دنیائے شیعیت کا یہی عقیدہے ، میرے بھائی ! شیعہ بھائیوں کےبارے میں ایسی بدگمانی نہ کرو"ان بعض الظن اثم " بعض بدگمانی گناہوتی ہے  "اتنا کہہ کر مزید یہ بھی کہا " اگر آپ سردست حقیقت کے متلاشی اور حق کے جویاں ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ کر دل سے یقین کرناچاہتے ہیں تو میں آپ کو عراق کی زیارت اور وہاں کے علمائے شیعہ اور عوام سے ملاقات کی دعوت دیتا ہوں ۔ اس کے بعد مخالفین اور مطلب پرستوں کے جھوٹ کا پلندہ

۳۰

کھل جائے گا ۔"

میں نے کہا" میری تویہ دلی تمنا تھی کہ کبھی عراق کی زیارت کروں اور وہاں کے مشہور آثار قدیمہ کو دیکھوں جن کو عباسی خلفاء چھوڑگئے ہیں مخصوصا ہارون رشید کے اسلامی آثار ۔۔۔لیکن اس سلسلے میں چند مجبوریاں میرے پیروں کی بیڑیاں بنی ہین پہلی بات تویہ ہے کہ میرے اقتصادی حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔بڑی زحمتوں سے میں نے جوڑ جمع کرے اپنے عمرہ کا انتظام کیا ہے ۔دوسری مجبوری یہ ہ کہ میرا پاسپورٹ اس قسم کا ہے جس پر عراق کی حکومت ویزا نہیں دے گی ۔ورنہ ضرور آتا ۔"

رفیق سفر" جب میں نے آپ کو عراق کی دعوت دی ہے تو بیروت سے بغداد آنے جانے کا پورا خرچہ میں برداشت کروں گا ۔ اور بغداد میں آپ ہمارے مہمان ہونگے ۔اب رہا پاسپورٹ  والا مسئلہ تو اس کو خدا پر چھوڑتے ہیں جب خدا چاہے گا تو آپ بغیر پاسپورٹ کے بھی عراق کی زیارت کرسکتے ہیں ۔ویسے ہم بیروت پہونچتے ہی عرق کے ویزا کی کوشش کریں گے ۔"

میں " اپنے رفیق سفر کی اس پیش کش کو سن کر بہت خوش ہوگیا اور اس سے وعدہ کرلیا کہ انشااللہ کل میں آپ کو اس کا جواب دوں گا ۔۔۔۔۔۔

سونے کے کمرے  سے نکل کر جہاز کے عرشہ پر جاکر میں تازہ ہوا کھانے لگا اور اس وقت تک میں ایک نئی فکر سے دوچار ہوچکا تھا ۔سمندر میں جہاں حد نظر تک پانی ہی پانی دکھائی دے رہا تھا ۔ میری عقل چکر لگارہی تھی ۔ میں اپنے اس خدا کی حمد وتسبیح میں مشغول تھا جس نے اس وسیع کائنات کو خلق فرمایا ہے اور اس جگہ تک پہنچنے پر اس کا شکر کررہا تھا اوریہ دعا بھی کررہا تھا ! خدایا ! مجھے شر اور اہل شر سے محفوظ رکھ ۔ خطا ولغزش سے میری حفاظت فرما۔ میری قوت فکر کے سامنے جیسے فلم دکھائی جارہی ہو اور ایک ایک کرکے تمام واقعات پردہ فلم کی طرح میرے حافظہ کے پردہ فلم پر آنے لگے ۔بچپنے میں جس نازونعم س پلا تھا ،زندگی میں جو واقعات پیش آئے تھے سب ایک ایک کرکے گزرنےلگے اور میں ایک شاندار مستقبل کاخواب دیکھنے لگا ۔اور مجھے یہ احساس ہونے لگا جیسے خدا اور رسول (ص) کی مخصوص عنایتیں مجھے اپنے گھیرے میں لئے ہیں پھر میں

۳۱

مصر کی طرف متوجہ ہو ا جس کے ساحل کا کبھی کبھی کوئی حصہ یہاں سے نظرآجاتا تھا اور دل ہی دل مین مصر کو وداع کہنے لگا ۔اس مصر کو جس کی یادوں میں سے ابھی تک عزیزترین یاد " رسول کی قمیص تھی جس کا بوسہ لیا تھا " مجھے اب بھی ستارہی ہے ۔ اس کے بعد میرے ذہن میں اس نئے شیعہ دوست کا کلام  آنے لگا ۔جس نے میرے بچپنے کے خواب  کی تعبیر کو پورا کرنے کا وعدہ کرکے میرے دامن کو خوشیوں سے بھر دیا تھا ۔۔۔عراق کی زیارت ۔۔اور ان شہروں کی زیارت کرنا چاہتا تھا ۔جن کو میرے ذہن نے تخلیق کیا تھا ۔کہ ہارون کی حکومت نے اس طرح بنایا ہوگا ۔ اور مامون کی حکومت نے اس طرح بنایا ہوگا وہی مامون جو "دارالحکمۃ " کا موسس تھا جس میں مغرب سے مختلف علوم حاصل کرنے والے طلاب آیا کرتے تھے اور اس وقت اسلامی تہذیب اپنے پورے شباب پر تھی ۔اس کے ساتھ عراق ،قطب ربانی شیخ صمدانی سیدی عبدالقادر جیلانی " کا شہر ہے جن کا شہرہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہے ۔ ان جن کا طریقہ گاؤں گاؤں  میں پہونچا ہواہے  جس کی ہمت تمام ہمتوں سے بلند وبرتر ہے ۔میرے خواب کی تعبیر کے لئے یہ پروردگار کی طرف سے جدید عنایت تھی میں ابھی ابھی خیالات میں ڈوباہوا تھا اور امیدوں وتصورات کے سمندر میں پیر رہا تھا کہ کھانے کی گھنٹی نے مجھے ہوشیار کردیا ۔اور میں بھی ہوٹل کی طرف روانہ ہوگیا ۔ اور جیسا کہ ہر مجمع ہویں ہوتا ہے لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑ رہے تھے ۔اور ہر شخص دوسرے پر پہلے داخل ہوناچاہتاتھا ۔شوروغل کا یہ عالم تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی اتنے میں میں نے دیکھا کہ میرا شیعہ رفیق سفر میرے کپڑے پکڑ کر اپنی طرف نرمی کے ساتھ پیچھے کی طرف کھینچ رہاتھا ۔ اور کہہ رہا ہے : برادر !بلاوجہ اپنے کو مت تھکاؤ ۔ہم لوگ بعد میں بڑے آرام سے کھالیں گے ۔یہ شور شرابہ بھی ختم  ہوچکا ہوگا ۔میں تو ہر جگہ تم کو تلاش کرتا پھرا اچھا یہ بتاؤ تم نے نماز پڑھ لی ؟ میں نے کہا نہیں ! اس نے کہا" تو آؤ پہلے نماز پڑھ لیں پھر آکر کھانا کھائیں گے ۔ اس وقت تک یہ بھیڑ اور شورغل سب ہی ختم ہوچکا ہوگا ۔ہو لوگ آرام سے کھاسکیں گے !

میں سے اس کی رائے پسند کی اور ہم دونوں ایک خالی جگہ پہونچے وضو کے بعد میں نے اسی

۳۲

کو آگے بڑھا دیا کہ یہی امامت جماعت کرے اور میں دیکھتا ہوں کیسی نماز پڑھتا ہے ۔اپنی نماز میں دوبارہ پڑھ لوں گا اور جوں ہی اس نے اقامت کے بعد قراءت ودعا پڑھی مجھے اپنی رائے بدلنی پڑی ۔کیونکہ کہ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھاجیسے میں صحابہ کرام میں سے کسی کے پیچھے پڑھ رہاہوں جن کے بارے میں کتابوں میں پڑھتا رہا ہوں اور ان کے ورع ،تقوی کےف بارے میں پڑھتا رہا ہوں نماز ختم کرکے اس نے ایسی ایسی لمبی دعائیں پڑھیں جن کو اس سے پہلے نہ میں نے اپنے ملک میں سناتھا اور نہ دیگران ممالک میں جہاں کا میں سفر کرچکا تھا ۔ اور جب میں سنتا تھا کہ یہ شخص محمد وآل محمد پر درود پڑھ رہا ہے اور جس کے وہ حضرات اہل ہیں اس سے ثنا کررہا ہے تومیرے دل کو بڑا سکون ملتا تھا اور مطمئن ہوجاتا تھا ۔

نماز کے بعد میں نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے اور یہ دعا کرتے سنا کہ خدا میری بصیرت کھول دے اور مجھے عطا کرے ۔

نماز کے بعد جب ہم ہوٹل پہونچے تو وہ خالی ہوچکا تھا جب تک میں نہیں بیٹھ گیا میرا رفیق نہیں بیٹھا ۔ہمارے لئے کھانے کی دو پلیٹیں لائی گئیں ۔ہم نے دیکھا کہ اس نے اپنی پلیٹ میرے سامنے رکھدی اور میری اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لی کیونکہ میری پلیٹ میں گوشت کم تھا ۔ اور مجھ سے اس طرح کھانے کے لئے اصرار کرنے لگا جیسے میں اس کا مہمان ہوں اور کھانے پینے دستر خوان کے ایسے ایسے لطیف قصے سنائے کہ جن کو میرے کانوں نے کبھی سناہی نہیں تھا ۔

مجھے اس کا اخلاق بہت پسند آیا ۔پھر ہم نے نماز عشا پڑھی اور اس نے ایسی دعائیں پڑھیں کہ میں اپنے گریہ کو ضبط نہ کرسکا ۔میں نے خدا سے دعا کی کہ میرا گمان اس کے بارے میں بدل جائے کیونکہ بعض ظنون گناہ ہیں لیکن کون جانتا ہے ؟

اس کے بعد میں سوگیا لیکن خواب میں بھی عراق اور الف لیلۃ کو دیکھتا رہا صبح میری آنکھ اس وقت کھلی جب وہ مجھے صبح کے لئے اٹھا رہا تھا ۔ نماز صبح پڑھ کر ہم دونوں خدا کی ان رحمتوں کا ذکر کرنے لگے جو اس نے مسلمانوں کو دی ہیں ۔۔۔۔دوبارہ میں پھر سوگیا اور جب میری آنکھ کھلی تو

۳۳

میں نے دیکھا وہ اپنے بستر پر بیٹھا ہوا تسبیح پڑھ رہا ہے ۔یہ دیکھ کر میرا نفس بہت مرتاح ہوا میرا دل مطمئن ہوگیا اورم یں نے خدا کی بارگاہ میں استغفار کیا ۔

ہم ہوٹل میں کھانا کھاہی رہے تھے کہ سائرن کی آواز کے بعد یہ اطلاع دی گئی کہ لبنانی ساحل کے قریب ہمار ا شپ ( پانی کا جہاز) پہنچ چکا ہے ۔ اور کچھ دیر کے بعد ہم بیروت کی بندرگاہ پر ہونگے دوگھنٹہ کے بعد اس نے مجھ سے سوال کیا ۔کیا تم نے غور کرلیا اور کسی فیصلہ پر پہونچے ؟ میں نے کہا" اگر ویزا مل جائے تو پھرکوئی مانع نہیں ہے "۔ اور میں نے اسکی دعوت کا شکریہ ادا کیا ۔

بیروت اتر کر ہم نے وہ رات وہیں گزاردی ۔اس کے بعد بیروت سے دمشق کے لئے روانہ ہوگئے ۔وہاں پہونچتے ہی ہم نے سفارت خانہ عراق کارخ کیا اور ناقابل تصور حد تک جلدی میں مجھے ویزا مل گیا ۔جب ہم وہاں سے نکلے تو وہ ہم کو مبارک باد دے رہا تھا اور خدا کی اس اعانت پر اس کی حمد کررہا تھا ۔

۳۴

عراق کی پہلی زیارت

پھر ہم دمشق سے بغداد کے لئے نجف (اشرف ) کے بسوں کی ایک عالمی کمپنی کیایرکنڈیشن لمبی بس میں سوار ہو کر روانہ ہوئے ۔جب بغداد پہونچے  ہیں تو درجہ حرارت 40ڈگری تھا ۔بس سے اتر تے ہی فورا ہم منطقہ "جمال: کے ایک خوبصورت محلہ میں واقع اپنے دوست کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے  پورا مکان ہی ایرکنڈیشن تھا اسی لئے وہاں پہونچتے ہی سکون کا احساس ہوا ۔ میرا دوست ایک جھا بڑجھلا قسم کی وسیع قمیص لے کر میرے پاس آیا ۔جس کو وہاں کی زبان میں (دشداشہ) کہتے ہیں ۔

پھر دستر خوان پر قسم قسم کے میوہ جات اورکھانے لگادئیے گئے ۔میرے دوست کے گھر والے مجھے آکر بڑے ادب واحترام سے سلام کرنے لگے ۔ان کے والد کا یہ عالم تھا کہ مجھ سے اس طرح معانقہ کررہے تھے جیسے مجھے پہلے سے جانتے ہوں ۔ البتہ ان کی والدہ سیاہ عبا اوڑھے دروازے پر آکر کھڑی ہوگئیں اور سلام کیا ۔مرحبا کہا میرے دوست نے اپنی والدہ کی طرف سے معذرت کرلی چونکہ ہمارے یہاں مردوں سے مصافحہ ہے اس لئے میری والدہ ہاتھ نہیں ملاسکتیں  مجھے اس پر بہت تعجب ہوا اور میں نے اپنے دل میں کہا جن لوگوں کو ہم متہم کرتے ہیں  کہ یہ دین سے خارج ہیں ۔یہ لوگ ہم سے زیادہ دین کے پابند ہیں ۔اور پہلے بھی سفر میں جو دن اپنے دوست کے ساتھ گزارے تھے میں نے بلندی اخلاق ،عزت نفس ، کرامت ،شہامت کو محسوس کرلیا تھا ایسی تواضع وپرہیز گاری جس کا میں نے کبھی مشاہدہ ہی نہیں کیا تھا اور مجھے یہ احساس ہوگیا کہ ان لوگوں میں میری حیثیت مہمان کی نہیں بلکہ گھر کے ایک فرد جیسی ہے اور گویا اپنے ہی گھر میں ہوں

۳۵

رات کو ہم سب چھت پرسونے کے لئے گئے جہاں سب کے سونے کے بستر الگ الگ بچھائے تھے ۔میں کافی دیر تک جاگتا رہا اور ہیجانی عالم میں یہ جملے ادا کررہا تھا : میں جاگ رہا ہوں یا خواب دیکھ رہا ہوں ؟ کیا واقعی میں بغداد میں سیدی عبدالقادر جیلانی کے پڑوس میں ہوں ؟

میری بڑابڑاہٹ کو سنکر میرے دوست نے ہنستے ہوئے مجھ سے پوچھا ٹیونس والے عبدالقادر جیلانی کےبارے میں کیا کہتے ہیں ؟ پس پھر کیا تھا میں نے تمام وہ کرامات جوہمارے یہاں مشہور ہیں ایک ایک کرکے بیان کرنا شروع کردیا ۔ اور بتایا کہ قطب الدائرۃ ہیں جس طرح محمد مصطفی سیدالانبیاء ہیں اسی طرح وہ سید الاولیاء ہیں جنکے قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہیں ۔آپ فرمایا کرتے تھے ۔ لوگ خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرتے ہیں اور خانہ کعبہ میرے خیمہ کا طواف کرتا ہے ۔

میں نے اپنے دوست کو یہ کہہ کر قانع کرناچا ہا کہ شیخ عبدالقادر اپنے بعض مریدوں اور چاہنے والوں کے پاس جسم ظاہری میں آتے ہیں ان کی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں ۔ ان کی مصیبتوں اور پریشانیوں کو دور کرتے ہیں ۔ اور اس وقت میں "وہابی عقیدہ (جس سے بہت متاثر تھا)کو بھول گیا تھا یا بھلا دیا تھا کہ یہ ساری باتیں شرک باللہ ہیں اورجب میں نے محسوس کیا کہ میرے دوست کو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تو میں نے اپنے نفس کو مطمئن کرنے کے لئے اس سے پو چھا "آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا یہ باتیں صحیح نہیں ہیں ؟

میرے دوست نے ہنستے ہوئے کہا " سفر کرکے تھک گئے ہو سوجاؤ ذرا آرام کرلو! کل انشا اللہ شیخ عبدالقادر کی زیارت کو چلیں گے ۔۔۔اس خبر کو سن کر میرا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا ۔ اور میرا دل چاہ رہا تھا کاش اسی وقت صبح ہوجائے ۔ لیکن نیند کاغلبہ ہوچکا تھا اور پھر میں سویا تو سورج نکلنے کے بعد ہی اٹھا ۔میری نماز صبح بھی قضا ہوگئی تھی ۔ میرے دوست نے بتایا کہ اس نے کئی بار مجھے بیدار کرنے کی کوشش کی مگر بیکار۔ اس لئے اس نے چھوڑ دیا تاکہ میں آرام کرلوں

۳۶

(جناب )عبدالقادر جیلانی (حضرت امام) موسی الکاظم (علیہ السلام)

ناشتہ کے بعد ہی ہم لوگ :باب الشیخ" کے لئے روانہ ہوگئے ۔ اور میری آنکھوں نے اس متبرک مقام کی زیارات کی جس کی تمنا نہ جانے کب سے میرے دل میں کروٹیں لے رہی تھی ۔میں دوڑ نے لگا ۔جیسے کسی کے دید کا مشتاق ہو اور اس بیتابی سے داخل ہوا ۔ جیسے کسی کی گود میں اپنے کو گرادوں گا ۔ جدھر میں جاتا تھا میرا دوست سایہ کی طرح ساتھ ساتھ رہتا تھا ۔ آخر زائرین کے اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں کود پڑا ۔جو قبر شیخ کی زیارت کے لئے اس طرح ٹوٹے پڑرہے تھے  جیسے حاجی لوگ بیت اللہ الحرام پر گرتے ہیں ،کچھ لوگ ہاتھوں میں حلوا لے کر پھینک رہے تھے اور زائرین اس کو اٹھانے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرتے تھے میں بھی دوڑکر دوٹکڑے اٹھالئے ۔ایک تو برکت کے لئے وہیں فورا کھا گیا ۔اور دوسرا یادگار کے عنوان پر اپنی جیب میں محفوظ کرلیا ۔ وہاں نماز پڑھی جسب مقدور دعاپڑھی ،پانی اسطرح پیا جیسے آب زم زم پی رہا ہوں ۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ آپ اتنی دیر میرا انتظار کیجئے کہ میں اپنے ٹیونی دوستوں کو اسی جگہ سے خرید ے ہوئے ان لفالفوں  پر خط لکھ دوں جن پر مقام شیخ عبدالقادر کے سبز گنبد کی تصویر ہے تاکہ اپنے دوستوں پر یہ بات ثابت کرسکوں اور رشتہ داروں پر بھی کہ میری بلند ہمتی دیکھئے جس نے مجھے وہاں پہونچا دیا ۔جہاں یہ لوگ نہیں پہونچ پائے ۔

یہاں فرصت پاکر ہم لوگوں نے ایک قومی ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا ۔یہ ہوٹل بغداد کے عین وسط میں واقع تھا ۔اس کے بعد میرے دوست نے کرایہ کی ٹیکسی لی اور ہم لوگ کاظمین پہونچے اس لفظ کی معرفت اسی وقت ہوگئی تھی جب میرا دوست  ٹیکسی ڈرائیور سے گفتگو کرتے ہوئے اس لفظ کو تکرار کرتاتھا ۔ابھی ہم ٹیکسی سے اتر کر تھوڑی دور چلے ہونگے کہ لوگوں کی بہت بڑی جمعیت جس میں مرد عورتیں بچے سب شامل تھے اسی طرف جارہے تھے جدھر ہم لوگ رواں دواں تھے یہ لوگ کچھ

۳۷

سامان بھی اٹھا ئے ہوئے تھے اس منظر کو دیکھتے ہی مجھے حج کا منظر یاد آگیا ۔ ابھی تک مجھے منزل مقصود کا پتہ نہیں تھا ۔ اتنے میں کچھ سونے کے قبے اور منارے دکھائی دیئے جو آنکھوں کو چکا چوند کررہے تھے ۔مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ شیعوں کی مسجد ہے کیونکہ میں پہلے سے جانتا تھا ۔کہ یہ لوگ اپنی مسجدوں کو سونے چاندی س ملمع کرتے ہیں جو اسلام میں حرام ہے اس خیال کر آتے ہی میرا جی چاہا کہ میں جانے سے انکار کردوں ۔لیکن اپنے دوست کی دل شکنی کا خیال کرتے ہوئے غیر اختیار ی طور پر ساتھ ساتھ چلاہی گیا ۔

پہلے دروازے سے داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا بوڑھے بوڑھے سن سفید ڈاڑھی والے دروازوں کو مس کررہے ہیں اور بوسہ دے رہے ہیں لیکن ایک کافی بڑے سائن بورڈ کو دیکھ کر مجھے ذرا تسلی ہوئی جس پر لکھا تھا( بے حجاب عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے ) ار اسی کےساتھ امام علی کی ایک حدیث  بھی لکھی تھی  ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جب عورتیں نیم عریاں لباس پہنیں گی ۔۔۔۔۔ ہم ایک جگہ پہونچے میرا دوست تو اذن دخول پڑھنے لگا اور میں دروازے کو دیکھ دیکھ کر متعجب ہوتا رہا جس پر سونے کے بہترین نقوش تھے اور پورے دروازے پر قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔ اذن دخول پڑھ کر جب میرا دوست اندر داخل ہونے لگا تومیں اس کے پیچھے لگ لیا اور میرے ذہن میں بار بار بعض کتابوں کی چند سطریں آرہی تھیں جن میں شیعوں کے کفر کا فتوی دیا گیا ہے ۔میں نے داخل مقام  میں ایسے نقش ونگار دیکھے جن کا کبھی تصور بھی نہیں کرسکا تھا اور جب میں نے اپنے کو ایک غیرمانوس وغیر معروف ماحول میں پایا تو دہشت زدہ رہ گیا ۔ اور وقتا فوقتا میں بڑی نفرت سے ان لوگوں کو دیکھ لیتا تھا جو ضریح کا طواف کررہے ہیں ۔ رودھو رہے ہیں ضریح کو چوم رہے ہیں اس کی لکڑیوں کو بوسے دے رہے ہیں ۔ اور بعض تو ضریح کے پاس نماز پڑھ رہے ہیں ۔ فورا ہی میرے ذہن میں رسولخدا کی حدیث آگئی ۔خدا یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرے انھوں نے اولیاء خدا کی فبروں کو مسجد بنا لیا ۔اور میں اپنے اس دوست سے بھی دور ہوگیا جو داخل ہوتے ہی بے تحاشا رونے لگا ۔ پھر میں اس کو نماز پرھتا چھوڑ کر اس لکھے ہوئے زیارت نامہ کے قریب پہونچا جو ضریح پر لٹکا ہوا

۳۸

تھا ۔ میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا ۔ لیکن اس میں ایسے عجیب وغریب اسماء تھے جن کو میں جانتا ہیں نہیں تھا اس لئے زیادہ حصہ میری سمجھ میں نہیں آیا ۔میں نے گوشہ میں کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھی اور کہا خدا وندا ! اگر یہ مسلمان میں سے ہے تو اس پر رحم فرما اور تو سب کی حقیقت حال کو جاننے والا ہے ۔اتنے میں میرا دوست میرے قریب آکر میرے کان میں بولا اگر تمہاری کوئی حاجت ہے تو یہاں پرخدا سے سوال کرو پوری ہوجائے گی کیونکہ ہم لوگ ان کو باب الحوائج کہتے ہیں ۔ میں نے اپنے دوست کے قول کوسنی ان سنی کردی ۔ خدا مجھے معاف کردے ۔ میں تو ان بوڑھوں کو دیکھ رہا تھا جن کے نہ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت ،سن سفید سی لمبی لمبی داڑھیاں سروں پرسیاہ وسفید عمامے پیشانیوں پرسجدوں کے نشانات ،ان کے جسموں سے خوشبو کی لپٹیں آرہی تھیں ۔تیز تیز نظر رکھنے والے کہ ان میں سے جب بھی کوئی داخل ہوتا تو داڑھیں مار مار کر رونے لگتا تھا ۔اس چیز نے مجھے اپنے دل ودماغ  سے یہ سوال کرنے پر آمادہ کردیا ۔ کیایہ سارے آنسو جھوٹے ہیں ؟ کیا یہ عمر رسیدہ لوگ سب ہی غلطی پر ہیں ۔؟ان چیزوں کا مشاہدہ کرکے میں حیران وپریشان وہاں سے نکالا ۔جبکہ میرا دوست پشت کی طرف سے چلتا ہوا نکلا کہ کہیں اس کی پشت صاحب قبر کی طرف نہ ہو جائے یہ ادب واحترام کا بنا پر تھا ۔میں نے پوچھا : یہ کس کا مقبرہ ہے ؟"

دوست:-" الامام موسی کاظم (ع)۔

میں :-" یہ امام موسی کاظم کون ہے؟"

دوست:-" سبحان اللہ تم برادران اہل سنت نے مغز کو چھوڑ کر چھلکے سے وابستگی اختیار کرلی ہے ۔ "

میں:-" (غصہ اور ناراضگی کے ساتھ) یہ کیسے آپ نے کہہ دیا کہ ہم نے چھلکے سے تمسک کیا ہے اور مغز کو چھوڑ دیا ہے ؟"

دوست:-" (مجھے دلاسہ دلاتے ہوئ) برادر آپ جب عراق آئے ہیں برابر عبدالقادر جیلانی کا ذکر کررہے ہیں آخر یہ عبدالقادر جیلانی کون ہے؟ جس کا آپ اتنا احترام کرتے ہیں ؟"

میں :-"( فورا فخر سے ) یہ ذریت رسول سے ہیں اگر رسول خدا کے بعد کوئی نبی ہوتا تو یہی ہوتے !"

۳۹

دوست:-" برادر ! کیا اسلامی تاریخ سے آپ کو واقفیت ہے؟

میں :-" بغیر کسی تامل وتردد کے ۔جی ہاں ہے !  حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کے بارے میں میری معلومات صفر کے برابر ہیں کیونکہ میرے استاتذہ  اور مدرسین اس کو پڑھنے سے روکتے تھے اور کہتے تھے " اسلامی تاریخ ایک سیاہ وتاریک تاریخ ہے ۔ اس کے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ بطور مثال عرض کروں ۔میرے بلاغت کے استاد امام علی (ع) کی کتاب نہج البلاغہ کا خطبہ شقشقیہ پڑھا رہے تھے ۔اس خطبہ کوپڑھنے  میری طرح اور لڑکے بھی متحیر ہوگئے آخر میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا ۔کیا یہ واقعی الامام علی کا کلام ہے ؟

استاد نے کہا:-" قطعا بھلا علی کے علاوہ ایسی بلاغت کسی کو نصیب ہوسکتی ہے؟ اگر یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا کلام نہ ہوتا تو علمائے مسلمین جیسے الشیخ محمد عبدہ مفتی الدیار المصریہ قسم کے لوگ اس کی شرح میں اتنا اہتمام نہ کرتے" ۔

میں :-" اس وقت میں نے کہا الامام علی (علیہ السلام) ابو بکر وعمر کو غاصب خلافت کہہ کر متھم کررہے ہیں" ۔ یہ سن کر استاد کو غصہ آگیا اور مجھے زور سے ڈانٹا اور دھمکی دی کہ اگر دوبارہ تم نے ایسے سوالات کئے تونکال دوں گا ۔پھر استاد نے اتنا اور اضافہ فرمایا :- میں بلاغت پڑھانے آیا ہوں تاریخ کا درس نہیں دے رہا ہوں ۔ ہم کو آج اس تاریخ سے کیا سروکار جس کے صفحات مسلمانوں کی خونی جنگوں اور فتنوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ خدا نے جس طرح ہماری تلواروں کو مسلمانوں کے خون سے پاک وپاکیزہ رکھا ہے اسی طرح ہمارا فریضہ ہے کہ اپنی زبان کو سب وشتم سےپاک رکھیں ۔استاد کی اس دلیل سے میں قانع نہیں ہوا بلکہ اس پر غصہ آیا کہ ہم کو بے معنی بلاغت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ میں نے اسلامی تاریخ پڑھنے کا کئی مرتبہ ارادہ کیا ۔لیکن مصادر وامکانات کی کمی راستہ کا روڑ ابنی رہی ۔ اور ہم نے اپنے علماء واستاتذہ میں بھی کسی کو نہ دیکھا جو تاریخ کا اہتمام کرتا ہو یا اس سے دلچسپی رکھتا ہو یا گویا سبھوں نے اس کو طاق نسیان پر رکھنے اور مطالعہ نہ کرنے پر اجتماع کر رکھا ہے ۔ اسی لئے آپ کو کوئی بھی ایسا نہیں ملے گا جس کے پاس تاریخ کی کوئی کامل کتاب ہو۔

۴۰