پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا 0%

پھر میں ہدایت پاگیا مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 253

پھر میں ہدایت پاگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 253
مشاہدے: 70792
ڈاؤنلوڈ: 5921

تبصرے:

پھر میں ہدایت پاگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 253 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 70792 / ڈاؤنلوڈ: 5921
سائز سائز سائز
پھر میں ہدایت پاگیا

پھر میں ہدایت پاگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 لہذا میں نے دوست منعم اور حاضرین سے کہا میرا راستہ کافی طویل ہے ۔دمشق واردن سے ہوتے ہوئے سعودیہ جانا ہے واپسی میں لمبا سفر ہے میں مصر ولیبیا ہوتا ہوا ٹیونس پہونچوں گا  وزن کی زیاد تی کے علاوہ اکثر حکومتیں اپنے ملک میں کتابیں داخل ہونے دیتیں ۔ اس پر سید خوئی نے کہا : آپ اپنا ایڈریس  ہم کو دیتے جائیے ہم آپ کے پتہ پر بھیجوا دیں گے ۔ یہ رائے مجھے بہت پسندآئی ۔چنانچہ میں انے اپنا شخصی کارڈ جس پر ٹیونس کا پتہ تھا ۔ ان کے حوالہ کردیا ۔اور شکریہ ادا کیا ۔جب رخصت ہوکر چلنے کے لئے کھڑا ہوا تو وہ بھی کھڑے ہوگئے اور فرمایا : میں آپ کے لئے سلامتی کی دعاکرتا ہوں ۔ آپ جب میرے جد کی قبر پر پہونچیں تو میرا سلام کہہ دیں ۔ اس جملہ سے تمام حاضرین متاثر ہوگئے اور میں بھی بہت متاثر ہوا ۔میں نے دیکھا ان کی آنکھیں ڈبڈبا آئی ہیں یہ دیکھ کر میں نے کہا ناممکن ہے کہ یہ لوگ غلطی پر ہوں ۔ناممکن ہے کہ یہ جھوٹے ہوں ۔ ان کی ہیبت ، عظمت ،تواضع بتارہی تھی کہ واقعا یہ شریف خاندان سے ہیں ۔ پھر میں بے اختیار ہوکر معانقہ کرنے کے بجائے ان کے ہاتھوں کو چومنے لگا ۔ میرےکھڑے ہوتے ہی سب لوگ کھڑے ہوگئے اور مجھے سلام کرنے لگے ۔وہ بچے جو مجھ سے مجادلہ کررہے تھے ۔ کچھ ان میں سے میرے ساتھ ہوگئے ۔ اور مجھ سے خط وکتابت کے لئے میرا ایڈریس مانگنے لگے جومیں نے دےدیا ۔

سید خوئی کی مجلس میں جو لوگ بیٹھے تھے ان میں سے ایک کی دعوت پر ہم کو پھر کوفہ جانا پڑا اور یہ  صاحب منعم کے دوست ابو شبر تھے ۔ہم ان کے گھر اترے اور چند مثقف (اپٹوڈیٹ) نوجوانوں کے ساتھ ساری رات ہم لوگوں نے باتوں میں کاٹ دی ۔ ان نوجوانوں میں کچھ  سید محمد باقر الصدر کے شاگرد بھی تھے انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ سید صدر سے بھی ملاقات کریں ۔ اور انھوں نے اطمینان دلایا کہ اگلے دن ہم ملاقات کرادیں گے ۔ میرے دوست منعم کو بھی یہ تجویز بہت پسند آئی ۔لیکن ان کو اس کا بہت افسوس تھا کہ کہ کسی ضروری کا م کی وجہ سے جو بغداد میں درپیش ہے وہ ہمارے ساتھ باقرالصدر کے یہاں نہ جاسکیں گے ۔ آخر کار ہم لوگ اس

۶۱

بات پر متفق ہوگئے کہ جب تک منعم بغداد سے واپس نہ آجائیں ہم سب ان کے انتظار میں تین چار دن ابو شبر ہی کے مکان میں قیام کریں ۔چنانچہ منعم نماز صبح کے بعد روانہ ہوگئے ۔ اور ہم لوگ سونے کے لئے چلے گئے ۔

یہ واقعہ ہے کہ جب طلاب کے ساتھ میں رات بھرجاگا تھا ۔ ان سے کافی استفادہ کیا اور مجھے اس پر کافی تعجب ہوا کہ حوزہ میں آخر کتنے مختلف قسم کے علوم فنون پڑھائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ یہ طلاب علوم اسلامی مثلا فقہ ، شریعت ، توحید ، کے علاوہ اقتصادیات ، علم الاجتماع ،علم سیاست ،تاریخ ،لغات علوم فلک اور نہ جانے کیا کیا پڑھا کرتے تھے ۔

۶۲

سید باقر الصدر سے ملاقات

سید ابو شبر کےساتھ میں سید محمد باقر الصدر ےکے گھر کی طرف روانہ ہوا ۔راستہ میں انھوں نے مجھے مشہور علماء اور تقلید وغیرہ کے بارے میں بتانا شروع کیا ۔جب سید محمد باقر الصدر کے گھر میں داخل ہوئے دیکھا کہ پورا گھر طلاب علوم دین سے بھرا ہوا ہے زیادہ تر ان میں عمامہ پوش نوجوان تھے ۔ سید محمد باقرالصدر ہمارے احترام میں کھڑے ہوگئے اور سلام کیا ۔سبھوں نے مجھے آگے بڑھادیا ۔ سید محمد صدر نے میری بہت خاطر مدارات کی اپنے بغل میں بیٹھنے کی جگہ دی ، ٹیونس الجزائر اور وہاں کے مشہور علماء کےبارےمیں مجھ سے سوالات کرنےلگے جیسے الخضر حسین ، الطاہر بن عاشور وغیرہ وغیرہ ، مجھے ان کی گفتگو بہت پسند آئی ۔ اس ہیبت واحترام کے باوجود ان کے چہرے  سے عیاں تھا اور جس کا اظہار حاضرین سے ہورہا تھا  میں نے اپنے لئے کوئی زحمت نہیں محسوس کی ۔مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں ان کو پہلے سے جانتا ہوں ۔ اس جلسہ سے مجھے کافی فائدہ ہوا ۔کیونکہ طلاب کے سوالات اور سید کے جوابات دونوں کو سن رہاتھا اور اس وقت مجھے زندہ علماء کی تقلید کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ ہوا جو بڑی وضاحت کے ساتھ اور ڈائریکٹ تمام اعتراضات کے جوابات دیتے ہیں ۔ اور مجھے یقین ہوگیا کہ شیعہ بھی مسلمان ہی جو صرف خدا کی عبادت کرتے ہیں ۔ اور محمد(ص) کی رسالت کو مانتے ہیں کیونکہ  کبھی کبھی مجھے شک ہوتا تھا اور شیطان میرے دل میں وسوسہ پیدا کرتا تھا کہ میں نے جو کچھ دیکھا ہے کہیں صرف ایک ڈرامہ نہ ہو۔ جس کو یہ لوگ تقیہ کہتے ہیں ۔۔یعنی جوعقیدہ رکھتے ہیں اس کے برخلاف اظہار کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن یہ شک بہت جلد زائل ہوگیا اور وسوسے ختم ہوگئے کیونکہ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ جتنے بھی لوگوں کو میں نے دیکھا اور سنا ہے (اور ان کی تعداد ہزاروں میں ہے) وہ سب کے سب محض

۶۳

ڈرامہ پیش کرتے ہوں ، اورآخر اس ڈرامہ کی ضرورت کیا ہے ؟ میں ایسا کون سا آدمی ہوں ؟ ان کی نظروں میں میری کیا اہمیت کیوں ہونے لگی کہ یہ میری خاطر تقیہ کرنے لگیں ؟ اور پھر ان کی قدیم کتابیں جو صدیوں پہلے لکھی گئی ہیں ۔ یا نئی کتابیں جو مہینوں پہلے چھپ چکی ہیں سب ہی میں وحدانیت خدا اور ثنائے رسالت ہے جیسا کہ ان کتابوں کے مقدموں میں خود میں نے پڑھا تھا ۔ (پھر ان سب کو کیوں کر تقیہ پر محمول کروں ؟) اور اس وقت میں سید باقر الصدر کے مکان میں ہوں جو عراق وخارج عراق میں مشہور ترین مرجع ہیں  جب بھی ان کی زبان پر نام محمد (ص) آتا ہے تمام حاضرین بیک زبان زور سے کہتے ہیں : اللھم صلی علی محمد وآل محمد ۔

جب نماز کا وقت  آیا تو سب لوگ مسجد میں گئے جو سید کر گھر کے پہلو میں تھی ۔ وہاں سید صدر نے نماز ظہرین باجماعت پڑھائی ۔اور مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں صحابہ کرام کے درمیان زندگی کیونکہ ظہر وعصر کے بیچ میں ایک نمازی نے ایسی دعا پڑھی کہ میں جھوم اٹھا اس کی آواز میں جادو تھا ۔ دعا ختم ہونے کے بعد سب نے کہا " اللھم صلی علی محمد وآل محمد " پوری دعا میں خدا کی حمد وثنا تھی پھر محمد وآل محمد  کی تعریف ودرود کا ذکر تھا ۔

سید صدر نماز کے بعد محراب میں بیٹھ گئے اور لوگوں نے چپکے چپکے اور زور زور سے مسائل پوچھنے شروع کردیئے وہ چپکے سے پوچھے گئے سوال  کا جواب آہستہ سے اور زور سے پوچھنے گئے سوال کا جواب زور سے دیتے تھے ۔ سائل کو جب جو اب مل جاتا تھا تو سید کا ہاتھ چوم کر چلا جاتا تھا ۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے پاس ایسا جید عالم ہے جو ان کی مشکلات کو حل کرتا ہے اور انھیں جیسی زندگی بسر کرتا ہے ۔

آخر ہم سید صدر کی بزم وصحبت سے واپس آئے اور اسکی یادآج بھی ہمارے دل میں کسک پید اکرتی ہے ۔سید صدر نے ہمارے ساتھ جو عنایت ومہربانی اور میزبانی فرمائی تھی اس نے قبیلہ خاندان کیا مجھے اپنے اہل عیال کو بھلا دیا تھا  مجھے ان کے حسن اخلاق ،تواضع ،عمدہ معاملہ کی وجہ سے یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اگر ایک ماہ ان کے ساتھ رہ گیا تو شیعہ ہوجاؤں گا

۶۴

وہ جب بھی مجھے دیکھتے تھے مسکراتے تھے اور خود ابتدا بہ سلام کرتے تھے ۔ مجھ سے کہتے تھے کسی چیز کی کمی تو نہیں ہے؟ ان چاردنوں میں صرف سونے کے علاوہ ہر وقت ان کے ساتھ رہتا تھا ۔ان سے ملنے والوں اور ہر طرف سے آنے والے علماء کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔ میں نے وہاں سعودیوں کو دیکھا جب کہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حجاز میں بھی شیعہ ہوں گے ۔ اسی طرح بحرین ،قطر ،امارات ،لبنان ، سوریہ ،ایران ،افغانستان ، ترکی ،افریقہ ہر جگہ کے علماء آتے تھے اور سید بذات خود ان سے گفتگو فرماتے تھے۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے اورجب وہ جاتے تھے تو خوش وخرم ہوکر جاتے تھے میں یہاں ایک واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ اور اس میں سید کا فیصلہ سنانا چاہتا ہوں اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کاذکر ضروری بھی  تاکہ مسلمانوں کو احساس ہو کہ حکم خدا کو کھو کر انھوں نے کتنا بڑا نقصان اٹھایا ہے ۔

سید صدر کے پاس چار آدمی آئے میرا خیال ہے کہ و ہ سب عراقی تھے کیونکہ ان کا لہجہ چغلی کھارہا تھا ۔ ان میں سے ایک نے اپنے جد(دادا) سے مکان بطور میراث حاصل کیا تھا ۔اور اس مکان کو دوسرے کے ہاتھ بیج ڈالا تھا ۔ خریدار بھی موجود تھا ،بیچنے کے ایک سال بعد دو بھائی آئے اور انھوں نے ثابت کیا کہ میت کے شرعی وارث ہم ہیں لہذا مکان ہمارا ہے ۔چاروں سید کے سامنے بیٹھ گئے اور ہر ایک نے اپنے اپنے کاغذات اور دلائل پیش کئے ۔ سید صدر نے سارے کاغذات پڑھنے کے بعد ان سے گفتگو کی اور پھر چند منٹوں میں فیصلہ دے دیا کہ خریدار کو مکان میں حق تصرف ہے اور مکان اسی کا ہے اور بیچنے والے سے کہا تم نے مکان کی جو قیمت لی ہے وہ ان دونوں بھائیوں کو ان کے حصے کے برابر واپس کردو۔ اور پھر سب سید کا ہاتھ چوم کر روانہ ہوگئے اور آپس میں معانقہ کرنے لگے یہ دیکھ کر میں دہشت زدہ ہوگیا ۔مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔میں نے ابو شبر سے پوچھا کیا جھگڑا ختم ہوگیا ؟ اس نے کہا " ہاں ! سب نے اپنا حق لے لیا ۔میں نے کہا ۔ سبحان اللہ ! اتنی آسانی سے اتنے مختصر وقت میں

۶۵

اتنا بڑا جھگڑا ختم ہوگیا ۔ ہمارے یہاں تو کم سے کم دس سال لگ جائے اور اس میں کوئی نہ کوئی مرجاتا ۔ اور پھر یہ چکر ان کی نسلوں میں چلتا ۔ اور محکمہ اور وکیلوں کو جو رقم دی جاتی وہ مکان کی قیمت سے زیادہ نہ بھی ہوتی تو اس مدت میں مکان کے برابر رقم ضرور خرچ ہوجاتی ۔اور پھر محکمہ ابتدائی (کچہری ) سے لے کر محکمہ استئناف(ہائی کورٹ) تک اور پھر جزا وسزا تک زمانہ گزر جاتا اور کمر توڑ اخراجات ،رشوتوں ،خستگی و پریشانیوں کے بعد انجام میں آپس میں عداوت ودشمنی قبیلوں میں بغض وعناد پیدا ہوتا ۔ ابو شبر نے بتایا ہمارے یہاں بھی یہی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہے ! میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ انھوں نے کہا اگر لوگوں نے اپنے مقدمات گورنمنٹ کی عدالت میں پیش کردئیے تو پھر ان کا بھی یہی حشر ہوتا ہے ۔ لیکن جولوگ دینی مرجع کی تقلید کرتے ہیں اور اسلامی احکام کی پابندی کرتے ہیں وہ اپنے جھگڑے صرف مراجع کرام کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ وہ حضرات منٹوں میں فیصلہ کردیتے ہیں ۔جیسا کہ تم نے ابھی دیکھا ۔اور عقلمند قوم کے لئے بھلا اللہ سے بہتر کون حکم کرسکتا ہے ؟ سید صدر نے تو ان سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ۔لیکن اگر یہ حکومتی عدالتوں میں جاتے تو وہ لوگ ان کے سروں کو بھی ننگا کردیتے (یعنی جسم سے کپڑے اتار لیتے ) اس تعبیر ومحاورہ پر مجھے خوب ہنسی آئی کیونکہ یہ محاورہ ہمارے یہاں بھی آج تک بولا جاتا ہے میں نے کہا سبحان اللہ ! میں اب تک اس جھٹلاتا رہا ۔اور اگر میں نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا ہوتا تو کبھی بھی باور نہ کرتا ۔ابو شبر نے کہا ۔برادر آپ اسکی تکذیب نہ کریں یہ تو بہت معمولی سا واقعہ ہے دوسرے واقعات جو بہت زیادہ الجھے ہوتے ہیں ۔ جن میں خون بہتاہے ایسے واقعات کا یہ مراجع چند گھنٹوں کے اندر فیصلہ کردیا کرتے ہیں ۔ میں نے تعجب سے کہا: اس کا مطلب یہ ہوا کہ عراق میں دومتوازی حکومتیں ہیں ؟ انھوں نے کہا نہیں نہیں حکومت تو صرف ایک ہی ہے لیکن وہ شیعہ حضرات جو مراجع کی تقلید کرتے ہیں ۔ ان کا حکومت سے کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ اس وقت کی حکومت بعثی ہے اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے شیعہ حضرات یہاں سکونت کی وجہ سے شہری حقوق ،شخصی حقوق ، ٹیکس ،وغیرہ میں حکومت وقت ہی کے پابند ہیں ۔ لہذا اگر کسی غیر شیعہ سے

۶۶

کوئی جھگڑا ہوجائے تویہ بھی مجبورا اپنا معاملہ گورنمنٹ ہی کی عدالتوں میں پیش کرتے ہیں ۔ کیونکہ غیر شیعہ مسلمان عالم دین کو قاضی بنانے پر راضی نہیں ہوتا لیکن اگر دونوں شیعہ ہوں تو پھر مراجع فیصلہ کرتے ہیں جیسے اگر دونوں غیرشیعہ ہوں تو حتما حکومت کے فیصلہ کو مانتے ہیں ۔ ہمارے یہاں دینی مرجع جو حکم دے دے وہ تمام شیعوں پر نافذ ہوگا ۔ اس لئے جن جگھڑوں کا فیصلہ مرجع کرتا ہے وہ اسی وقت ختم ہوجاتے ہیں ۔جبکہ حکومت کے فیصلے مہینوں کیا سالوں طول پکڑجاتے ہیں ۔یہ ایسی بات تھی جو میرے دل سے چپک گئی کہ ان لوگوں میں احکام الہی پر رضا مندی کا شعور ہے اور خدا کے اس قول کا مطلب سمجھ میں آگیا :

"ومن لم یحکم بما انزالله فاولیک  هم الکافرون ومن لم یحکم بما انزالله فاولیک هم الظالمون ومن لم یحکم بما انزالله فااوالیک هم الفاسقون (پ 6 س 5(مائده ) آیت 44،45،47)

ترجمہ :- اور (سمجھ لو) بو شخص خدا  کی نازل کی ہوئی (کتاب) کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۔۔۔۔اور جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب ) کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۔ اور جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب) کے موافق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بدکار ہیں ۔۔۔۔اسی طرح میرے دل مین ان ظالموں کے لئے نفرت وکینہ پیدا ہوگیا ۔ جو خدا کے مبنی بر انصاف "احکام کے بدلے بشری "مبنی بر ظلم " احکام کو اجرا کرتے ہیں ۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ بڑی بے شرمی وبے حیائی کے ساتھ احکام الہی کامذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں خدائی احکام وحشی وبربری ہیں ۔کیونکہ ان میں اجرائے حدود ہوتا ہے چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے ، زانی کو رجم کردیا جاتا ہے ۔قاتل کو قتل کردیا جاتا ہے ۔ بھلا سوچئے تو یہ اجنبی نظریات کہاں سے آئے ؟ ظاہر ہے یہ سب مغرب کی دین ہے  اور اس دشمنا  ن اسلام کی طرف سے پھیلائے گئے ہیں ۔جن پر اسلامی قوانین کی روسے قتل کا حکم نافذ ہوچکا تھا ۔کیونکہ یہ سب چور ،خائن ،زانی ،مجرم ،قاتل ہیں کاش ان پر احکام الہی نافذ ہوگئے  ہوئے تو آج ہم سکون وچین سے سوتے ۔

۶۷

سید صدر اور میرے درمیان اس دوران مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی اور میں ان سے ہر اس چھوٹی  بڑی  بات کے بارے میں سوال کرتا تھا ۔ جس کو میرے  دوستوں نے شیعوں کے عقائد کے بارے میں مجھ سے بیان کئے تھے اور یہ کہ شیعہ صحابہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔اور اپنے ائمہ کےبارے میں کیا نظریات رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ دیگر وہ چیزیں جو ان کے عقائد کے خلاف تھیں ۔ ان کو نمک مرچ لگا کر مجھ سے بیان کرتے تھے میں نے ایک ایک کرکے سید صدر سے سب کے بارے میں پوچھا ۔

چنانچہ  میں نے ان سے امام علی کےبارے میں پوچھا ۔کہ آپ لوگ آذان میں ان کی ولایت کی گواہی کیوں دیتے ہیں ؟

سید صدر:- حضرت امیر المومنین علی (ع) خدا کے ان بندوں میں تھے جن کو خدا نے منتخب کیا تھا اور ان کو شرف بخشا تھا کہ انبیاء کے بعد مسلسل کار ہائے رسالت کو انجام دیں اور وہی بندے انبیاء کے اوصیاء رہیں ۔ ہر نبی کا ایک وصی تھا اور حضرت علی رسول خدا کے وصی تھے ۔ خدا ورسول کی بیان کردہ فضیلتوں کی بنا پر ہم حضرت علی کو تمام صحابہ پر فضیلت دیتے ہیں ۔اور اس موضوع پر قرآن وحدیث سے نقلی دلیلوں کے ساتھ ہم عقلی دلیلیں بھی رکھتے ہیں اور ان دلیلوں میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ جہاں ہمارے اعتبار سے صحیح ومتواتر ہیں اہل سنت والجماعت کے طریقوں سے بھی صحیح ومتواتر ہیں ۔ہمارے علماء نے اس موضوع پر بہت کتابیں لکھی ہیں اور چونکہ اموی حکومت نے اس حقیقت کو چھپائے اور علی وآل علی سے جنگ کرکے ،ان کو قتل وغارت کرکے ،انتہا یہ ہے کہ مسلمانوں کے منبروں  سے حضرت علی (ع) پر لعنت ۔سب وشتم کراکے اور لوگوں کو اس پر زور وزبردستی سے آمادہ کرکے حضرت علی کانام ونشان مٹا دینا چاہا تھا ۔ اس لئے ان کے شیعہ ان کے ماننے والے والوں نے اذان میں اعلان کرنا شروع کردیا وہ ولی اللہ ہیں اور کسی  بھی مسلمان کے لئے ولی اللہ کو سب وشتم کرناجائز نہیں ہے یہ کام صرف ظالم حکومت کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے کیاگیا تھا ۔

۶۸

تاکہ عزت خد ا اس کے رسول اور مومنین ہی کے لئے رہے اور تاکہ یہ ایک تاریخی کارنامہ بن جائے جس سے مسلمان نسلا بعد نسل اس بات کا احساس کرتے ہیں کہ علی حق پر تھے اور ان کے دشمن باطل پر تھے ۔

ہمارے فقہا نے شہادت ثالثی (یعنی علی ولی اللہ ) کومستحب کہا ہے نہ کہ واجب کہا ہے ۔ ار نہ اقامت کا جزء کہا ہے ۔ اگر موذن یا اقامت کہنے والا جزء کی نیت سے کہے تو اس کی اذان واقامت باطل ہے اور عبادت و معاملات میں مستحبات توالی مااللہ میں ۔ جن کا شمار بھی ممکن نہیں ہے ۔ اگر کوئی  ان کو بجالاتا ہے تو ثواب ملےگا نہیں بجالاتا ہے تو کوئی عقاب نہیں ہے ۔ مثلا مستحب ہے کہ"اشهد ان لا  اله الا الله وان محمد رسول الله ک ے بعد اشهد ان الجنة حق وان النار حق وان الله یبعث من فی القبور کہے :

میں :- ہمارے علماءنے ہم کو بتایا ہے کہ افضل خلفاء بالتحقیق سیدنا ابو بکر الصدیق ہیں اس کے بعد سیدنا عمر فاروقہ یں ۔اس کے بعد سیدنا عثمان اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنھم اجمعین ہیں ۔؟

سید صدر:- تھوڑی دیر خاموشی رہنے کے بعد بولے :ہر ایک کے منہ میں زبان ہے جس کا جو جی چاہیے کہہ سکتا ہے لیکن ادلہ شرعیہ سے ثابت کرنا مشکل ہے ۔اس کے علاوہ اہل سنت کے معتبر کتابوں میں جو لکھا ہے  یہ قول اس کے صریحی طور سے مخالف ہے کیونکہ ان کی کتابوں میں ہے افضل الناس ابو بکر ہیں اس کے بعد عثمان ان میں حضرت علی کا نام بھی نہیں ہے ان کو تو بازاری لوگوں میں شمار کیا گیا ہے ۔حضرت علی کا نام تو متاخرین علماء نے خلفائے راشدین کے نام کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔

میں:- اس کے بعد میں نے اس سے سجدہ گاہ کےبارے میں پوچھا جس کو یہ حضرات "التربۃ الحسینۃ  کہتے ہیں ۔

سید صدر:- سب سےپہلی بات تو یہ معلوم ہونی چاہئے کہ ہم"مٹی پر سجدہ کرتے ہیں مٹی کو سجد نہیں کرتے

۶۹

جیسا کہ بعض لوگ جو شیعوں کوبدنام کرتے ہیں اس قسم کی شہرت دیتے ہیں ۔سجدہ صرف خداوند عالم ہی کےلئے ہوتا ہے اور شیعہ سنی سب کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ سب سے افضل زمین پر سجدہ کرنا ہے یا جو چیزیں زمین  سے اگتی ہوں ان پر سجدہ کرنا ہے بشرطیکہ کھائی نہ جاتی ہوں ۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز پرسجدہ جائز نہیں ہے ۔ رسول اسلام مٹی کا فرش بنالیتے تھے یہ کبھی مٹی اور گھاس پوس  کی سجدہ گاہ بنا لیتے م تھے ۔اور اس پر سجدہ فراتے تھے ۔یہی تعلیم اصحاب کو بھی دی وہ لوگ بھی زمین پر یا سنگریزوں پر سجدہ کرتے تھے ۔ کپڑے کے گوشہ پرسجدہ کرنے سےمنع فرماتے تھے ۔ہمارے یہاں یہ چیزیں بدیہیات میں سے ہے امام زین العابدین  نے اپنے باپ کی قبر سے تھوڑی سی مٹی اٹھالی تھی ۔ اور اسی پرسجدہ کرتے تھے کیونکہ وہ طیب وطاہر مٹی تھی ۔اس پر سید الشہدا کا خون بہاتھا ۔ یہی سیرت آج تک شیعوں میں جاری ہے ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ خاک شفا کرے علاوہ کسی مٹی پرسجدہ جائز ہی نہیں ہے ۔ بلکہ ہم کہتے ہیں ہرپاک مٹی اور پاک پتھر پر سجدہ جائز ہے ۔جیسے چٹائی اور اس سجاد ے پرجائز ہے جو کھجور کی پتیوں سے بنائے گئے ہوں ۔

میں :- سیدنا الحسین (رض) کا ذکر آجانے کی وجہ سے میں نے کہا :- شیعہ کیوں روتے ہیں ؟ اور کیوں منہ پر طمانچہ مارتے ہیں ؟ اور اتنا اپنے کو مارتے ہیں کہ خون بہتے لگتا ہے ۔یہ تو اسلام میں حرام ہے کیونکہ رسول اکرم کا ارشاد ہے :جو منہ پر طمانچہ مارے اور گریباں چاک کرے جاہلیت کے دعوے کرے کوہ ہم میں سے نہیں ہے !

سید صدر:- حدیث تو صحیح ہے لیکن امام حسین (ع) کے ماتم پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ جوخون حسین کا انتقام لینے کا اعلان کرے حسین کے راستہ پر چلے،وہ جاہلیت کا دعوی نہیں کرسکتا اس کے علاوہ شیعہ انسان ہیں ان میں عالم بھی ہیں اور جاہل بھی ہیں ۔ان کے بھی احساسات ہیں ۔ جب امام حسین اور ان کے اہل وعیال ،اصحاب وانصار کے قتل ، ہتک حرمت ، اسیری کا تذکرہ سنتے ہیں تو ان کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں ۔ اس پر وہ لائق اجر ہیں کیونکہ ان کی نیتیں سب فی سبیل اللہ ہیں ۔

۷۰

اور خدا اپنے بندوں کی ان نیتوں پرجزادیتا ہے ۔ خود میں نے چند ہفتے قبل مصری حکومت کی رسمی تقریروں کو جو جمال عبدالناصر کی موت پر نشر کی گئی تھیں ۔سنا ہے اس میں کہا گیا تھا کہ جب جمال عبدالناصر کی موت کی خبر نشر ہوئی ہے تو آٹھ آدمیوں نے خود کشی کرلی تھی ۔ کچھ نے اپنے کو چھت کے اوپر سے گرادیا تھا ۔ کچھ لوگ ریل کے نیچے آکر کٹ گئے تھے ۔ وغیرہ وغیرہ  زخمی اور دیوار ہوجانے والے اس کے علاوہ تھے ۔ اس قسم کے واقعات بہت ہیں ۔ جو صاحبان عواطف( جذباتی حضرات) کو درپیش آتے ہیں ۔ تو جب مسلمان جمال الدین عبدالناصر کی موت پر اپنے کو ہلاک کرسکتے ہیں ۔حالانکہ جمال عبدالناصر کی موت طبعی وفطری تھی ۔  تو کیا ہم شیعوں کویہ حق نہیں ہے کہ ہم اہل سنت کے بارے میں حکم لگائیں کہ وہ امام حسین پر گریہ کرنے کے سلسلے میں غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ انھوں نے امام حسین کے عاشور کے مصائب ہی سننے میں زندگی کاٹ دی ہے ۔ اورآج تک مصائب ہی کی زندگی بسرکرتے چلے آرہے ہیں ۔ امام حسین پر تو خود رسول خدا روئے ہیں ۔ اور ان کے رونے پرجبرائیل رونے لگے ہیں تو کیا رسول کو غلط کہا جاسکتا ہے ؟

میں :- شیعہ حضرات اپنے اولیاء کے قبور پر سونے چاندی کے نقش ونگار کیوں بناتے ہیں ۔ جب کہ اسلام نے حرام قرار دیا ہے ؟

سید صدر:-یہ بات شیعوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے اور نہ حرام ہے برادران اہلسنت کی مسجدیں خواہ وہ عراق میں ہوں یا مصرمیں یا ترکی میں میں یا کسی اور اسلامی ملک یمں ہر جگہ ان میں سونے چاندی کے نقش ونگار بنائے جاتے ہیں ۔ اسی طرح مدینہ میں مسجد رسول بھی ہے مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ پر ہر سال ایسا غلاف چڑھاتے ہیں ۔ جس پر سونے سے نقش ونگار اورآیات کندہ ہوتی ہیں اور کروڑوں درہم خرچ ہوتا ہے یہ بات شیعوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے ۔

(این گناہی است کہ در شہر شما نیز کنند)

میں :- سعودی علماء کہتے ہیں ۔قبروں کا مس کرنا صالحین سے دعا کرنا ان سے حصول برکت کرنا

۷۱

یہ سب شرک آپ کی کیا رائے ہے ؟

سید صدر:- اگر قبروں کو اس نیت سے مس کرنا (چومنا) اور صالحین سے یہ سمجھ کر دعا کرنا  کہ یہ نفع وضرر پہونچاتے ہیں تب تو یہ شرک ہے اس میں دورائے نہیں ہیں ۔ مسلمان موحد ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ صرف خدا ہی نفع وضرر پہونچاتا ہے ۔ مسلمان اولیاء یا ائمہ (علیھم السلام )سے دعا اس لئے کرتا ہے کہ یہ حضرات خدا کی بارگاہ میں اس کے لئے وسیلہ بن جائیں ۔ اور یہ شرک نہیں ہے ۔اور اس بات پر تمام مسلمان  چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی رسول خدا کے زمانہ سےآج تک متفق ہیں ۔ سوائے وہابیوں کے یعنی سعودی علماء کے جن کا آپ نے ذکر کیا ۔اور جو اپنے جدید مذہب سے جو اسی صدی کی پیداوار ہے ۔مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ان لوگوں نے اپنے اعتقادات کے ذریعے سارے مسلمانوں میں فتنہ کا بیچ بودیا اور تمام مسلمانوں کو کافر قراردیدیا ہے ۔ان کا خون مباح قراردیدیا ۔ یہی وہ لوگ ہیں ۔جو بوڑھے جاجیوں کو صرف اس حکم پر اندھا دھند پیٹتے ہیں کہ وہ بیچارے جوش عقیدت میں کہتے ہیں : السلام علیک یا رسول اللہ" آنحضرت کی ضریح مقدس کو چومنے نہیں دیتے ۔ان لوگوں نے ہمارے علماء سے کئی مناظرے بھی کئے لیکن سب میں اپنی ہٹ دھرمی پر باقی رہے ۔

جناب سید شرف الدین ۔۔جو ایک شیعہ عالم تھے ۔۔۔جب عبدالعزیز آل سعود کے زمانہ میں حج سے مشرف ہوئے تو عید الاضحی کی تہنیت کے سلسلہ میں حسب معمول قصر ملک میں جن علماء کو دعوت دی گئی ان میں یہ بھی تھے ۔ جب ان کی باری آئی اور شاہ عبدالعزیز سے مصافحہ کیا تو شاہ کو ایک تحفہ پیش کیا ۔۔۔ وہ تحفہ قرآن تھا جو کھال کے غلاف کے اندر تھا۔۔۔۔۔ بادشاہ نے لے کر فورا احتراما اپنے سرپر رکھا اور چوما ۔ جناب سید شرف الدین نے اسی وقت کہا : اے بادشاہ !آپ اس جلد کو کیون چوم رہے ہیں ؟ اور اس کا کیوں احترام کررہے ہیں یہ تو بکری کی کھال ہے ؟ بادشاہ نے کہا :- میرا ارادہ اس قرآن کا ہے جو اس

۷۲

جلد(کھال) کے اندر ہے میں اس غلاف کی تعظیم نہیں کررہا ہوں ! سید شرف الدین نے فرمایا:احسنت ایها الملک" ہم لوگ بھی جب حجرہ نبوی کی کھڑکی  یا دروازے کو چومتے ہیں تو ہمارا مقصد کھڑکی یا دروازے کا احترام نہیں ہوتا ۔کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ یہ لوہے کا ہے نہ نفع پہونچا سکتا ہے نہ ضرر ! ہم ان لکڑیوں اور اس لوہے کے پیچھے جوذات ہے اس کی یعنی رسول اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی تعظیم کرتے ہیں ۔ جیسے غلاف کے احترام سے آپ کا مقصد قرآن کا احترام ہوتاہے ۔ اتنا کہنا تھا کہ سارے حاضرین نے خوش ہوکر نعرہ تکبیر بلند کی اور سب نے یک زبان ہو کر کہا :تم نے سچ کہا ! بادشاہ اس وقت مجبور ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ تمام حجاج کرام رسو لخدا (ص) کے آثار کو تبرک کے طور پر بوسہ دے سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جب اس کے بعد دوسرا بادشاہ آیا تو اس نے پہلے والا طریقہ رائج کردیا ۔

قصہ لوگوں کے مشرک ہوجانے کا نہیں ہے ،قصہ سیاسی ہے جس کابنیادی مقصد مسلمانوں کی مخالفت  ان کو قتل کرنا ہے ۔ تاکہ اس راستہ سے ان کا ملک ان کی سلطنت مضبوط ہوجائے  ان لوگوں نے امت محمدیہ کے ساتھ جوکچھ بھی کیا ہے اس کا سب سے بڑا گواہ تاریخ ہے ۔

میں :- پھر میں نے صوفیت کے بارے میں پوچھا ۔

سید صدر:-نے مختصرا جواب دیا : اس میں کچھ پہلو اچھے ہیں اور کچھ اچھے نہیں ہیں ۔ اچھے پہلو! مثلا تربیت نفس ،نفس کو سخت زندگی کا عادی بنانا لذت دنیا سے کنارہ کشی، عالم ارواح کی طرف بلند پروازی وغیرہ ۔برے پہلو! گوشہ نشینی ،حقیقی زندگی سے فرار ،چند لفظی اعداد کے اندر ذکر خدا کو محدود کر دینا وغیرہ وغیرہ ۔اور اسلام (جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں ) اچھے پہلوؤں کو قبول کرتا ہے ۔سلبی چیزوں کو ناپسند کرتا ہے ۔مجھے کہنے دیجئے کہ اسلام کے تمام مبادی اور تعلیمات ایجابی ہیں ۔ سلبی نہیں ہیں !

۷۳

حیرت وشک

اس میں شک نہیں کہ سید محمد باقر الصد ر کے جوابات واضح اور قانع کرنے والے تھے ۔لیکن مجھ جیسا شخص جس نے اپنی عمر کے 25 سال تقدیس واحترام صحابہ کے ماحول میں گزارے ہوں خصوصا جس کے رگ وپے میں ان خلفائے راشدین کی محبت وعظمت سرایت کرچکی ہو جن کی سنت سے تمسک کرنے اور جن کے راستہ پر چلنے کی رسول خدا نے تاکید کردی ہو ۔ اور ان خلفاء میں بھی سرفہرست سیدنا ابو بکر وسیدنا عمرالفاروق ہوں ۔ اس کے دل ودماغ میں سید صدر کی باتیں کیسے اثرانداز ہوتیں ؟ میں نے جب سے عراق کی زمین پر قدم رکھا ہے سیدنا ابو بکر وعمر کانام سننے کے لئے میرے کان ترس گئے ہیں ۔ البتہ  ان کے بدلے ایسے عجیب وغریب نام اور امور سننے میں آتے رہے ہیں ۔ جن سے میں بالکل ہی ناواقف ہوں ۔(مثلا)بارہ اماموں کے نام ۔ اور یہ دعوی کہ امام علی کے لئے رسول اللہ نے مرنے سے پہلے نص کردی تھی ۔(وغیرہ وغیرہ) بھلا میں اس بات کو کیونکر مان سکتا ہوں کہ تمام مسلمان یعنی صحابہ کرام جو رسول اللہ کے بعد خیرالبشر تھے وہ سب  کے سب کیسے امام علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف متفق ہوگئے تھے ۔؟ حالانکہ ہم کو تو گہوارہ ہی سے یہ سیکھا یا جاتا ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنھم امام علی کا احترام کرتے تھے ۔ ان کے حق پہچانتے تے ۔کیونکہ آپ فاطمہ الزہرا (س) کے شوہر حسن وحسین (ع) کے باپ تھے ۔ باب مدینۃ العلم تھے ۔ جیسے کہ خود سیدنا علی علیہ السلام ابو بکر صدیق کے حق کو پہچانتے تھے جو سب سے پہلے مسلمان ،رسول اللہ کے غار کے ساتھی تھے جیسا کہ خود قران نے ذکر کیا ہے ۔رسول خدا نے اپنے مرض الموت میں نماز کی امامت بھی صدیق کے حوالہ کردی تھی ۔ اور فرمایا تھا : میں اگر کسی کو خلیل بناتا  تو وہ ابو بکر ہوتے اور انھیں اسباب کی بنا پر مسلمانوں نے ان کو اپن خلیفہ چن لیا تھا ۔

۷۴

اسی طرح امام علی سیدنا عمر کے حق کو بھی پہچانتے تھے جن کے ذریعہ خدا نے اسلام کو عزت بخشی ۔اور رسول اکرم نے ان کا نام فاروق (حق وباطل میں فرق کرنے والا) رکھا ۔ اسی طرح حضرت امام علی سیدنا عثمان کے حق کو بھی پہچانتے تھے جن سے ملائکہ رحمان حیا کرتے تھے ۔ اور جنھوں نے جیش العسرہ کوسازوسامان سے آراستہ کیا تھا ۔ جن کا نام رسول اللہ نے ذوالنورین رکھا تھا آخر یہ ہمارے شیعہ بھائی ان باتوں سے کیونکر جاہل ہیں ؟ یا پھر یہ لوگ تجاہل عارفانہ  کرتے ہیں اور ان لوگوں کو ایسے عام آدمی خیال کرتے ہیں جن کو خواہشات اور طمع دنیا حق کی پیروی سے باز رکھ سکتی ہے اور یہ لوگ رسول خدا کی وفات کے بعد ان کی نافرمانی کرنے لگتے ہیں ۔حالانکہ یہ وہی لوگ تو ہیں جو رسول کے احکام کی تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لےجانے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔ عزت اسلام ونصرت حق کی خاطر اپنے آباء اولاد ،خاندان تک کو قتل کردیا کرتے  تھے ۔ انھیں میں ایسے بھی تھے جو رسول کی اطاعت کے لئے اپنے باپ اور بیٹے کو قتل کریتے تھے ۔ناممکن ہے کہ طمع دنیا ( حصول تخت خلافت) ان کو دھوکہ دے سکے اور یہ رسول کے بعد ان کی باتوں کو پس پشت ڈالدیں ۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ نہیں نہیں ناممکن ہے ۔ انھیں تصورات  وخیالات  کی بنا پر میں شیعوں کی ہر بات نہیں مانتا تھا ۔اگر چہ بہت سی باتوں پر میں قانع ہوچکا تھا ۔میں شک وحیرت میں پڑگیا ۔شک تو اس وجہ سے جو علمائے شیعہ نے میری عقل میں ڈال دیا تھا کیونکہ ان کا کلام معقول ومنطقی ہوتا ہے ۔ اور جس حیرت میں میں ڈوب گیا وہ یہ تھی کہ میرے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ صحابہ کرام (رض) کیا اس بد اخلاقی کے درجہ تک گر سکتے ہیں کہ ہماری طرح کے عادی انسان بن جائیں گے کہ نہ تو رسالت ان پر صیقل کرسکے اور نہ ہدایت محمدی ان کو مہذب بنا سکی ؟ اہم بات تو یہ ہے کہ یہی شک وحیرت کمزوری کی ابتدا اور اس بات کے اعتراف کا سبب بن گئی کہ دال میں کالا ضرور ہے جس کی تحقیق حقیقت تک پہونچنے کے لئے ضروری ہے ۔

۷۵

ہمار دوست منعم آگیا تھا اور ہم لوگ عازم کربلا ہوگئے ۔وہاں پر ہم نے سیدنا الحسین کی محنتوں کا اندازہ اس طرح لگا یا جس طرح شیعہ لگاتے ہیں ۔ وہا ں جاکر ہم کو پتہ چلا کہ سیدنا الحسین مرے نہیں ہیں ان کی ضریح کے ارد گررد لوگوں کاہجوم اور پروانوں کی طرح  گرنا ،تڑپ تڑپ کر رونا یہ سب ایسی باتیں تھیں کہ ہم نے اس کا مثل دیکھا ہی نہیں تھا ۔معلوم یہ ہوتا تھا ۔ کہ جیسے حسین ابھی شہید ہوے ہیں ۔ میں نے خطبیبوں کو دیکھا منبروں سے حادثہ کربلا کو نوحہ وزاری کے ساتھ ان طرح بیان کر رہے تھے کہ سننے والا اپنے دل پر قابو رکھ ہی نہیں سکتا تھا ۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے پر مجبور تھا ۔ اور پھر میں بھی رونے لگا بے تحاشا رونے لگا ۔ عنان صبر ہاتھوں سے چھوٹ گئی انپے نفس کو آزاد کردیا کہ دل بھر کر رولے ۔ اور جب میں چپ ہو تو مجھے ایسی روحانی راحت ملی ہے کہ جس سے میں اس کے قبل تک نا آشنا تھا ۔گویا پہلے میں حسین کے دشمنوں کی صف میں تھا اور اب دفعۃ ان کے ان اصحاب وانصار میں شامل ہوگیا جو اپنی جان فدا کرنے پر تیار تھے ۔ خطیب حر کا قصہ بیان کررہا تھا۔ یہ بھی پہلے ان فوجی سرداروں میں تھے جو حسین (ع) سے جنگ کے لئے آئے تھے لیکن (عاشورکے دن) میدان جنگ میں شاخ نخل کی طرح کانپ رہے تھے اور جب ان کے کسی ساتھی نے پوچھا ۔کیا تم موت سے ڈر رہے ہو؟ تو حر(رح) نے کہا  نہیں خدا کی قسم نہیں ۔ بلکہ میں اپنے کو جنت ودوزخ کے بیچ میں پارہا ہوں یہ کہہ کر گھوڑے کر ایز لگائی اور حسین(ع) کی خدمت میں پہونچ کر کہنے لگے ۔فرزند رسول کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟۔۔۔۔اتنا سنتے ہی میں زمین پر گر کر بچھاڑ کھانے لگا گویا میں حر ہوں  اور حسین سے کہہ رہا ہوں فرزند رسول(ع) کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ فرزند رسول مجھے معاف کردیجئے ۔خطیب کی آواز بہت اثر انگیز تھی ۔لوگ ڈھاڑھیں مار مار کر رونے لگے ۔ اسی وقت میرا دوست میری چیخ کی آواز سن کر متوجہ ہو ا اور روتاہوا مجھ پر جھک پڑا اور مجھے سینے سے اس طرح چمٹالیا ۔جیسے ماں بچہ کو چمٹا لیتی ہے اور بار بار کہہ رہا تھا یا حسین یا حسین (ع) وہ چند لمحے ایسے تھے جس میں میں حقیقی گریہ کا مطلب میری سمجھ میں آیا ۔ اور میں نے محسوس کیا جیسے میرے آنسوؤں  نے میرے قلب اور اندر سےمیرے پورے جسم کو دھودیا ۔

۷۶

اور رسول کی اس حدیث کا مطلب سمجھا! جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو بہت کم ہنستے زیادہ تر روتے !

تمام دن میں دل گرفتہ رہا ۔میرے دوست نے بہت ہی تسلی وتشفی دی بعض مرطبات کھانے کو لا کردئیے مگر سب بیکار ۔میری اشتہاء ختم ہوچکی تھی ۔ میں انے اپنے دوست سے کہا ۔ مقتل حسین کا قصہ مجھ کو سناؤ کیونکہ واقعات کربلا کے بارے میں نہ زیادہ نہ کم مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا صرف اتنا جانتا تھا کہ جب ہمارے بزرگ اس کا ذکر کرتے تھے تو کہتے تھے ۔جن دشمنان اسلام ومنافقین نے سید نا عمر ،سیدنا عثمان کو قتل کیا اور سیدنا علی کو شہید کیا انھیں نے سیدنا (امام ) حسین کو بھی شہید کرڈالا۔اس سے زیادہ ہم کو کچھ بھی نہیں معلوم تھا ۔ بلکہ ہم تو عاشورا کے دن کو ایک اسلامی عید کے عنوان ے مناتے تھے ۔اس دن زکاۃ نکالی جاتی ہے قسم قسم کےکھانے پکائے جاتے ہیں ۔اشتہاء بڑھانے والی غذائیں تیارکی جاتی ہیں ۔ چھوٹے بڑوں کے پاس عیدی مانگنے جاتے ہیں ۔ تاکہ اس عیدی سے کھانے پینے اور کھیلنے کی چیزیں خریدی جاسکیں ۔

یہ صحیح ہے کہ بعض دیہاتوں میں کچھ تقلیدی اور رسمی امور پائے جاتے تھے مثلا وہ (عاشورکو) آگ روشن کرتے تھے ۔اس دن کوئی کام نہیں کرتے تھے ۔نہ شادی بیاہ کی رسم انجام دیتے تھے ۔ نہ خوشی مناتے تھے ۔ لیکن ہم لوگ اس کو"عادت ورسم" کہہ کر ٹال دیا کرتے تھے ۔ ہمارے علماء عاشورا کے فضائل میں اس دن رحمتوں وبرکتوں کے بارے میں حدیثیں سنایا کرتے تھے ۔یہ بھی ایک عجیب بات ہے ۔

یہاں (حرم امام حسین ع) سے ہم لوگ حسین (ع) بھائی (جناب ) عباس کی ضریح کی زیارت کے لئے گئے مجھے تو خیر نہیں معلوم تھا کہ یہ کون ہیں؟ لیکن میرے دوست نے ان کی شجاعت وبہادری کا قصہ سنایا تھا ۔ متعدد وعلماء وافاضل سے بھی ہم نے ملاقات کی مگر مجھے کسی کا نام یاد نہیں ہے ۔ ہاں بعض کے القاب یاد ہیں ۔ جیسے بحرالعلوم السید الحکیم ،کاشف الغطاء ،آل یسین طباطبائی ، فیروز آبادی ،اسد حیدر وغیرہ ۔

۷۷

اور حق یہ ہے کہ  یہ بڑے تقوی والے علماء ہیں ۔ ان کے چہرے پر رعب وجلال ہے ۔ شیعہ ان کا بہت احترام کرتے ہیں ۔اپنے مال کا خمس ا ن کو لاکر دیتے ہیں ۔ اور یہ علماء انھیں رقوم س حوزات علمیہ کی ادارت  کرتے ہیں ۔ مدارس بنواتے ہیں ۔ چھاپہ خانے لگواتے ہیں ،ہر اسلامی ملک سے آنے والے طالب علموں کا خرچ اسی سے دیتے ہیں ، یہ لوگ خود مستقل ہوتے ہیں حکام وقت سے دور یا نزدیک کا کوئی رابطہ نہیں رکھتے یہ ہمارے علماء کی طرح نہیں ہیں کہ جو فتوی تو فتوی گفتگو بھی اس حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں کرتے جو ان کوتنخواہ  دیتی ہے اور جب چاہتی ہے تقرر کرتی ہے ۔اور جب چاہتی ہے معزول کردیتی ہے ۔

میرے لئے تویہ نئی دنیا تھی جس کا (کولمبس کی طرح) میں نے پتہ لگا یا  خدانے میرے لئے انکشاف کردیا تھا ۔ اس دنیا سے نفرت کے بعد میں مانوس ہوچکا تھا ۔ عداوت کے بعد اس سے محبت کرنے لگاتھا ۔ اس دنیا نے مجھے نئے نئے افکار دیئے تھے ۔میرے دل میں اطلاع ۔ بحث ،تلاش ،جستجو کی محبت پیدا کردی تھی ۔تاکہ اپنی گمشدہ حقیقت کو پالوں جس نے میرے خیالات میں اس وقت ہلچل پیدا کردی تھی جب  میں نے یہ حدیث پڑھتی تھی کہ بنی اسرائیل اکہتر 71 فرقوں میں بٹ گئے تھے اور نصاری 72 بہتر میں میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوجائےگی ۔ایک کے علاوہ سب ہی جہنمی ہوں گے ۔

ادیان متعددہ کے بارے میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے کو بر حق اور دوسرے کا باطل پر سمجھتا ہے ۔لیکن جب میں اس حدیث کو پڑھتا ہوں تو متحیر ہوجاتا ہوں ۔ میرا تبحر  صرف حدیث پر نہیں ہے بلکہ ان مسلمانوں پر بھی ہے جو اس حدیث کو پڑھتے ہیں ، اپنے خطبوں میں تکرار کرتے ہیں ہیں اور بغیر کسی تحلیل کے گزر جاتے ہیں اور مدلول حدیث سے بحث ہی نہیں کرتے جس سے فرقہ "ناجیہ" کا پتہ چل سکے ۔

تعجب خیز بات یہ ہے کہ ہر فرقہ دعوی کرتا ہے کہ صرف وہی "فرقہ ناجیہ " ہے حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے لوگوں نے پوچھا وہ کون ہیں یا رسول اللہ ؟ فرمایا ! وہ لوگ مراد ہیں جو اسی راستہ پر ہوں گے جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں اب آپ ہی بتا ئیے کیا کوئی ایسا فرقہ ہے جو کتاب وسنت سے متمسک ہو؟

۷۸

یا کوئی ایسا اسلامی فرقہ ہے جو اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مدعی ہو؟ اگر امام مالک یا ابو حنیفہ یا امام شافعی یا احمد بن حنبل سے پوچھا جائے تو کیا ان میں سے کوئی قرآن صحیحہ سے تمسک کے علاوہ کچھ اور کہہ سکتا ہے ۔؟

یہ تو سنیو ک فرق ہی اب انہی ک ساتہ اگر شیعہ فرقو کو جن کو می ہمیشہ فاسد العقیدہ اور منحرف سمجہا کرتا تہا   بہی شامل  کرلیا جائ تو یہ حضرات بہی مدعی ہی کہ ہم بہی قرآن اور سنت صحیحہ  س متمسک ہی جو اہل بیت طاہرین س منقول ہ  اور ان کا کہنا ہ گہر وال گہر کی بات زیادہ بہتر جانت ہی تو ایسی صورت می کیا یہ سب ک سب حق پر ہوسکت ہی ؟ ناممکن ہ کیونکہ حدیث شریف صرف ایک کو حق پر بتاتی ہ ہا سب ہی کا حق پر ہونا اس وقت ممکن ہ جب حدیث جعلی وجہوی مان لی جائ اور یہ اس لئ ناممکن ہ کہ حدیث سنی وشیعہ دونو ک یہا متواتر ہ یا یہ مان لیا جائ کہ حدیث کا نہ کوئی مدلول ہ نہ کوئی مطلب ؟ لیکن استغفراللہ جو رسول اپنی طرف س کچہ کہتاہی نہ ہو  جس کی تمام حدیثی حکمت وعبرت ہو وہ کوئی ایسی بات کیونکر کہہ سکتا ہ جس ک مدلول ومعنی ہی نہ ہو  اس لئ ہمار سامن اس بات ک علاوہ کوئی چارہ نہی ہ کہ ہم یہ تسلیم کرلی کہ صرف ایک ہی فرقہ جتنی ہ اور حق پر ہ باقی سب باطل پر ہی یہ حدیث جس طرح حیرت می ال دیتی ہ اسی طرح نجات چاہن وال کو تلاش حق پر مجبور کردیتی ہ یہی وجہ ہ کہ شیعو س ملاقات ک بعد میر اوپر حیرتو کا پہا و پا اور اندرونی طور س می مذبذب ہوگیا ہوسکتا ہ انہی کی بات حق ہو ممکن ہ کہ یہی سچ کہت ہو ؟ لہذا  می خود ہی کیو نہ تحقیق کرالو  تاکہ دودہ کا دودہ پانی پانی جدا ہوجائ اور خود اسلام ن اپن قرآن وسنت ک ذریعہ حکم دیا ہ کہ بحث وفحص ،تفتیش وتحقیق س کام لیا جائ قرآن کا ارشاد ہ ے "والذین جاهدوا فینا لنهدینم سبلنا " (پ 21 س 29 (عنکبوت) آیت آخری)اور جن لوگو ن ہماری راہ می جہاد کیا انہی ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کری گ دوسری جگہ ارشاد ہ : الذین یستمعون القول فیتبعون احسنه اولئک الذین هداهم الله

۷۹

والئک هم اولوالالباب (پ 23 س 39 (الزمر ) آیت 18)

ترجمہ:- جو لوگ بات کو جی لگا کر سنتے ہیں اور پھر ان میں سے اچھی بات پر عمل کرتے ہیں یہی لوگ وہ ہیں ۔جن کی خدا نے ہدایت کی اور یہی عقلمند ہیں ۔۔۔۔ خود رسول اکرم (ص) نے فرماایا :-" اپنے دین کے بارےمیں اس طرح بحث کر کہ لوگ تم کو دیوانہ کہنے لگیں "۔ لہذا بحث و فحص ہر مکلف پر شرعی واجب ہے ۔

اس عہد وپیمان اور سچے ارادے کے ساتھ عراق کےاپنے شیعہ دوستوں سے رخصت ہوا ان سے معانقہ کرکے رخصت ہوتے ہوئے مجھے بہت افسوس ہورہا تھا ۔کیونکہ میں نے بھی ان سے محبت کی تھی ۔اور انھوں نے بھی دل سے مجھے چاہا تھا ۔ میں ایسے عزیز دوستوں کو چھوڑ رہا تھا جنھوں نے میرے ساتھ خلوص کا برتاؤ  کیا میرے لئے اپنے وقت کی قربانی دی کسی اور وجہ سے نہیں "جیسا کہ خود انھوں نے کہا ہم کسی خوف یا لالچ سے ایسا نہیں کررہے ہیں بلکہ صرف رضائے خدا کے لئے! کیونکہ حدیث میں ہے : اگر خدا تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت کردے تو وہ پوری دنیا سے بہتر ہے ۔"

شیعوں کے وطن اور ان کے ائمہ کے عتبات عالیات کے شہر عراق سے بیس دن قیام کرکے وداع ہورہا تھا ۔ اور یہ بیس دن اس طرح گزرگئے جیسے کوئی لذیذ خواب دیکھنے والے کی تمنا ہوکہ خواب پورا کئے بغیر بیدار نہ ہو ۔ عراق کو مختصر سی مدت کے بعد چھوڑا جس پر افسوس رہا ۔ عراق میں ان قلوب کو چھوڑا جو محبت اہل بیت پر دھڑکتے ہیں ۔اور وہاں سے بیت اللہ الحرام وقبر سیدالاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ الطیبن والطاہرین کی زیارت کے ارادہ سے حجاز کے لئے روانہ ہوگیا ۔

۸۰